اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 164735
ڈاؤنلوڈ: 4641

تبصرے:

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164735 / ڈاؤنلوڈ: 4641
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي اوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الانثَيَيْنِ فَان كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَان كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلابَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ ان كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَان لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ ابَوَاهُ فَلامِّهِ الثُّلُثُ فَان كَانَ لَهُ اخْوَةٌ فَلامِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا اوْ دَيْنٍ ابَاؤُكُمْ وَابناؤُكُمْ لا تَدْرُونَ ايُّهُمْ اقْرَبُ لَكُمْ نَفْعا فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ انَّ اللهَ كَانَ عَلِيما حَكِيمًا(1)

اللہ تمہاری اولادکے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہےاب اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہیں تو انہیں تمام ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ایک ہی ہے تو اسے ادھا اور مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے ان وصیتوں کے بعد جو کہ مرنے والے نے کی ہیں یا ان قرضوں کے بعد جو اس کے ذمہ ہیں، یہ تمہارے ہی ماں باپ اور اولاد ہیں مگرتیںکُ نہیں معلوم کہ تمہارے حق میں زیادہ منفعت رساں کون ہےیہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی:

كُتِبَ عَلَيْكُمْ اذَا حَضَرَ احَدَكُمُ الْمَوْتُ ان تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالاقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِينَ (2)

اگر موت کے وقت کچھ مال چھوڑے جارہے ہوتو اسے چاہئے کہ والدین اور رشتہ داروں کے لئے مناسب طور پر وصیت کرےمتقی لوگوں پر یہ ایک حق ہےاور تم یہ گمان کرتے ہو کہ مجھے میرے بابا کا کوئی ارث نہیں ملے گا اور میرے بابا کیساتھ میرا کوئی تعلّق نہیں ؟ کیاخدا نے تجھ پر کوئی خاص ایة نازل کی ہے جسے میرے بابا اور میرے شوہر نہیں جانتے؟!کیا تم ان سے زیادہ قران کے خاص وعام سے واقف تر ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو تم غارت گر ہو، یہ اونٹ لے جاؤ اپنے ساتھ، میں خداوند حکیم کی بارگاہ میں قیامت کے دن ملاقات کروں گیوہ دن کتنا اچھا وعدہ گاہ ہوگا اور محمد(ص)کتنے عظیم عدالت خواہ ہونگےاس دن باطل راستے پر چلنے والے نقصان، پریشانیاں اور ندامت اٹھائیں گے،ہر وعدہ کے لئے ایک وعدہ گاہ ہے اور ہر اچھائی کے لئے اپنی جگہ معیّن ہے اور بہت جلد تم جان لوگے کہ ذلّت امیز عذاب کس کے اوپر نازل ہوگا،جو ہمیشہ کے لئے عذاب سرا ہوگا(3)

--------------

(1):- نساء 11

(2):- بقرہ180

(3):- ملکہ اسلام فاطمہ،چ2،ص36

۱۰۱

کلام فاطمہ(س) میں خاندانی رفتار

اپ فرماتی ہیں:خیارکم الینکم مناکبه واکرمهم لنسائهم (1) یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کیساتھ سب سے زیادہ نرم مزاجی  اور خوش خلقی کے ساتھ پیش اتا ہو، اور سب سے زیادہ  ارزشمند وہ ہے جو اپنی شریک حیات پر زیادہ مہربان اور بخشنے والا ہو

بیوی کیساتھ اچھا برتاؤ

قَالَ النَّبِيُّ ص: مَنْ سَرَّهُ انْ يَلْقَی اللهَ طَاهِرا مُطَهَّرا فَلْيَلْقَهُ بِزَوْجَةٍ وَ مَنْ تَرَكَ التَّزْوِيجَ مَخَافَةَ الْعَيْلَةِ فَقَدْ اسَاءَ الظَّنَّ بِاللهِ عَزَّ وَ جَلَّ(2)

 رسول اسلام(ص)نے فرمایا:جو بھی اللہ تعالیٰ سے پاک و پاکیزہ  حالت  میں ملاقات کرنا چاہتا ہےتو اسے چاہئے کہ اپنے لئے بیوی تلاش کرے اور  جو بھی تنگ دستی کے خوف سے شادی کرنا چھوڑدے تو حقیقت میں وہ خدا تعالیٰ پر بدظن اور بد گمان ہواواضح ہے کہ انسانی زندگی میں بیوی جیسی نعمت کا ہونا انحرافات سے دوری اور معنوی پاکیزگی کا باعث ہے وہ شخص جو مرنے کے بعد ابدی سعادت اور حیات جاودانی کا خواہان ہے تو جان لے کہ ایک اچھی اور پاک دامن بیوی ہی اسے یہ مقام دلاسکتی ہے

--------------

(1):- فاطمہ نور الٰہی،چ1،ص153، دلائل الامامہ،ص۱  

(2):- من لایحضرہ الفقیہ،ج3،ص ۳۸۵

۱۰۲

خاندانی خوش بختی کے کچھ اصو ل

نظم و ضبط

امیرالمؤمنین(ع)نے اپنی اخری وصیت میں اپنے بیٹے حسن اور حسین (ع)کو نزدیک بلا کر فرمایا:

اوصیکم بتقوی الله ونظم امرکم(نهج البلاغه)

تقوائے الٰہی اختیار کرو اور اپنے معاملات میں نظم و ضبط پیدا کروروایواں میں جسے تقدیر المعیشہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس کی زندگی میں نظم وضبط موجود ہے وہ بہت ساری مشکلات سے دور رہے گا اور جس کی زندگی میں نظم وضبط  نہ ہو تو گویا اس نےاپنی ساری توانائی ضائع کردی بعض اوقات تو لوگوں کے گھروں میں کئی کئی نوکر اور خدمت گزار اور زندگی کے دیگر بہت سارے وسائل ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے گھر کا نظام نہیں چلاسکتے اور اوضاع خراب ہونے کی شکایت کرنے لگتے ہیں

خواتین کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت معاشی فکر کا حامل ہونا ہے، کہ وہ جان لے کہ زندگی کی ضروریات کیا ہیں اور خاندانی امور اور اپنے اوقات کو کیسے منظم کرنا ہےاگر گھر والی ایسی نہ ہو تو اپ جتنا بھی کمائیں کوئی فائدہ نہیں ہےبہت سے گھر والوں کی مشکل امدنی نہیں بلکہ استعمال میں بےنظمی ہےجس طرح بڑی تعداد میں فوج موجود ہوں لیکن بدنظم ہوں تو ایک مختصر مگر منظم  گروہ کے مقابلے میں اس کی شکست یقینی ہےامام صادق(ع) فرماتے ہیں: مسلمانوں کو تین چیزوں کے سوا کوئی اور اصلاح نہیں کرسکتی:

۱ دین سے اگاہی

۲ مصیبت اور سختیوں کے وقت صبر واستقامت

۳ زندگی میں نظم و ضبط

ان کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کے ہر شعبےمیں خواہ معاشی زندگی ہویامعاشرتی، سیاسی ہو یا سماجی،نظم وضبط بہت ضروری ہے

۱۰۳

اعتماد کرو تہمت سے بچو

اجتماعی زندگی، اعتماد اور خوش گمانی کا محتاج ہے اگرچہ مسلمانوں کے بارے میں خوش گمان ہونا ضروری ہے کہ قران کا فرمان ہے:

يَا ايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ انَّ بَعْضَ الظَّنِّ اثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ايُحِبُّ احَدُكُمْ ان يَاكُلَ لَحْمَ اخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ انَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ(1)

 "اے ایمان والو!بہت سی بدگمانیوں سے بچوبعض بدگمانیاں یقینا  گناہ ہیں اور ایک دوسرے کےعیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بیشک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان ہے"

ایک مشترک اور خاندانی زندگی میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا اور حسن ظن رکھنا چاہئے

وَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ عَبْدٍ يَكْسِبُ ثُمَّ يُنْفِقُ عَلَی عِيَالِهِ الَّا اعْطَاهُ اللهُ بِكُلِّ دِرْهَمٍ يُنْفِقُهُ عَلَی عِيَالِهِ سَبْعُ مِائَةِ ضِعْف‏(2)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کے سارے نیک اعمال اس سے جدا ہونگے جس طرح سانپ اپنے خول سے الگ ہوتا ہے اور اس کے بدن پر موجود ہر بال کے بدلے میں ایک ہزار گناہ لکھا جاتا ہے

  وَ قَالَ ع: مَنْ قَذَفَ امْرَاتَهُ بِالزِّنَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ اللَّعْنَةُ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَ لَا عَدْلٌ(3)

فرماتے ہیں: جوشخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، اس پر خدا کی لعنت ہے اور اس سے نہ ایک درہم قبول ہوتی ہے اور نہ ایک حسنہ

--------------

(1):- حجرات ۱۲

(2):-مك ارم ال اخل اق    ، ب اب   في حق المر اة علی الزوج ،ص : 216

(3):- بحارالانوار، ج100، ص249

۱۰۴

پاکیزگی اور خوبصورتی

اسلام پاکیزگی اور زیبائی کا دین ہے اس لئے نظافت اور پاکیزگی کی بہت زیادہ تاکید ہوتی ہےامام صادق(ع)نے فرمایا:

 قَالَ مِنْ اخْلَاقِ الْانْبِيَاءِ التَّنَظُّفُ وَ التَّطَيُّب(1)

اس حدیث میں انبیائےالٰہی کی چارخصوصیات بیان ہوئی ہیں ان میں سے دو پاکیزگی کا خیال رکھنااور خوشبو کا استعمال کرنانظافت اور پاکیزگی پیغمبروں کے اخلاق میں سے ہےاپنے بدن اور لباس سے بدبو کو پانی کے ذریعے دورکرلو، کیونکہ خداوند گندے لوگوں سے بیزار ہے(2)

پیغمبر(ص)نے فرمایا: جیسا بھی لباس پہن لے،اسے پاک اور صاف رکھو(3)

پاکیزگی کو اہمیت دینا اسلام کے معجزوں میں شمار ہوتا ہےاسلام نے اپنے اہم ترین احکام جیسے نماز وغیرہ کے لئے پاکیزگی اور طانرت شرط رکھی ہےاسی لئے واجب غسل اور واجب وضو کے علاوہ مستحب وضو اور مستحب غسل کا بھی مختلف اوقات میں بڑی تاکید اور تشویق کیساتھ حکم دیا ہےان کے علاوہ ہفتے میں ایک بار ناخن کا تراشنا داڑھی کا اصلاح کرنا روزانہ کئی بار کلّی کرنا،ناک میں پانی ڈالنا اور مسواک کرنا بھی بہت اہم سمجھاےجاتےہیںامام موسی کاظم(ع) فرماتے ہیں: کھانے کے بعد خلال کرو تاکہ کھانے کے زرّات دانتوں کے درمیان باقی نہ رہ جائےخلال ایک قسم کی صفائی ہے اور صفائی ایمان کا جز ہے اور جو صاحب ایمان ہو اسے بہشت میں داخل کردیتا ہے(4)

اسی طرح عورتیں بھی اپنے شوہر کو اسی طرح صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہیں جس طرح شوہر اسے صاف ستھری دیکھنا چاہتا ہے

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ج۲۰، ص۲۴۶  

(2):- لئالی الاخبار،ج4، ص18

(3):- مکارم الاخلاق، ص41

(4):- لئا لی الاخبار،ج2،ص322

۱۰۵

ایک دوسرے کا خیال رکھنا

اگر کوئی گھر میں اکیلا زندگی گزارتا ہوتووہ ازاد ہے گھر میں جہاں بھی جس طرح بھی سوئے، کھائے، پڑھے، لباس پہنے یا نہ پہنے خاموش رہے یا شور مچائے کوئی مشکل نہیں لیکن اس گھر میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی رہنے لگے تو اس کی ازادی بھی محدود ہوتیاس کے بعد وہ پہلے کی طرح شور نہیں مچاسکتا، بلکہ اس پر لازم ہے دوسرے کا خیال رکھےخواہ وہ دوسرا شخص اس کی بیوی ہو یا بچہ ہو یا کوئی اورشوہر اپنے اپ کو بیوی بچوّں کا مالک نہ سمجھے بلکہ ہر ایک کے جزبات کا خیال رکھے

اچھی گفتگو کرنا

ہمیں ہر کسی کیساتھ خصوصا اہل خانہ کیساتھ اچھی اور پیاری گفتگو کرنی چاہئےپیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: بدترین شخص وہ ہے جس کی بد کلامی اور گالی گلوچ کی وجہ سے اس کے قریب کوئی نہ ائے(1) امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: اچھی اور بھلی گفتگو رزق و روزی اور عزّت بڑھاتی ہے، انسان کو دوسروں کے نزدیک محبوب اور بہشتی بناتی ہے(2)

انسان لالچی نہ ہو

میاں بیوی کے درمیان کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا ایک خطرناک ذریعہ اپنے اپ کو دوسروں کیساتھ موازنہ کرنا ہےجب دوسروں کی زندگی کی ظاہری کیفیت اپنے سے بالاتر دیکھتی ہے تو اپنے شوہر کو پست اور دوسروں کو اپنے شوہر سے بہتر تصوّر کرنے لگتی ہےاور شوہر بھی اسے اپنی بات نہیں منوا سکتاایسے موقع پر بیوی کو چاہئے کہ جلدی فیصلہ نہ کرےہر کسی میں بہت ساری خوبیوں کیساتھ ساتھ خامیاں بھی ضرور پائی جاتی ہیںاور کوئی بھی ہرعیب و نقص سے خالی نہیں ہوتااور یہ بھی سمجھ لے کہ شیطان ہمیں اس طرح ورغلارہا ہے

--------------

(1):- بحار،ج 16،ص281

(2):- دارالسلامِ،ج3،ص426

۱۰۶

پس ہمیں اپنی قسمت اور تقدیر پر راضی رہنا ہوگا

چنانچہ پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں اگر کوئی انہیں اپنے اندر جمع کرلے تو اسے دنیا اور اخرت کی بھلائی مل جاتی ہے:

<   اپنی قسمت پر راضی اور خوش رہنا

<   مصیبت اوربلا کے موقع پر صبر کرنا

<   ارام اور سختی کے دوران دعا کرنا(1)

ان خصوصیات کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے سے کمتر لوگوں پر نظر رکھنا چاہئے تاکہ زیادہ امیدوار اور مطمئن رہیںاور خدا کی نعمتوں پر شکرگزار رہیںاگر خدا نے سلامتی دی ہے،دین دیا ہے،اچھا اخلاق دیا ہے اور اچھی بیوی دی ہے تو پھر ان پر شکر کرنا اور افتخار کرنا چاہئےچنانچہ حضرت سلمان فارسی(رض) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے مجھے نصیحت کی:

<   اپنے سے کمتر پر نظر رکھو

<   فقیروں اور مسکینوں سے محبت کرو

<   حق بات کہو اگرچہ تلخ ہی کیوں نہ ہو

<   اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھو

<   کبھی بھی دوسروں سے کوئی چیز نہ مانگو

<   لاحول ولا قوّة الّا باللہ زیادہ پڑھا کرو، جو بہشتی خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(2)

--------------

(1):- اصل کافی ج4،ص352

(2):- وسائل الشیعہ ج6،ص309       

۱۰۷

عزت کا احساس دلانا

عقل اور احساس انسان کے اندر مسائل کے سمجھنے اور درک کرنے کےدو اہم ذریعےہیںلیکن اکثر لوگوں میں عقل کی نسبت احساسات کی تأثیر زیادہ پائی جاتی ہےاس احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے جس سے خاندان میں صلاح مشورے،باہمی تفاہم اور محبت زیادبڑھ جاتی ہےبعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیوی سے ایسی باتیں کر بیٹھتا ہے کہ وہ احساس کمتری یا حقارت کا شکار ہوجاتی ہےشوہر کو ایسی باتوں سے احتیاط کرنا چاہئے

غمخواری کا احساس  دلانا

میاں بیوی دونوں ازدواج کی حقیقت اور سعادت و خوش بختی سے اگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد ایک دوسرے کے ساتھ عشق و محبت سے رہنے پر استوار ہےاور عشق و محبت پیدا کرنے کا اہم ترین عامل ایک دوسرے کو غمخواری اور ہمدردی کا احساس دلانا ہے زندگی کی تلخیوں اور سختیوں میں بھی اسی طرح ایک دوسرے کو شریک سمجھیں جس طرح خوشیوں میں شریک سمجھتے ہیںاس وقت احساس ہوگا کہ زندگی کس قدر شیرین اور ہم اہنگ ہےایک دوسرے کی مدد کریں اور شوہر یہ نہ کہیں کہ یہ تیرا کام ہے میرا کام نہیں اور میرے ذمے صرف گھر سے باہر کا کام ہے لیکن دوسری طرف سے ایسا بھی نہ ہو کہ اگر شوہر گھریلو کاموں میں بیوی کی مدد کرنا شروع کرے تو وہ اس کی محبت کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے دوسرے دن اس سے جارڑو لگوانا شروع کرے

ہرگز ناامید نہ ہونا

اگر خدانخواستہ خاندان میں کوئی مشکل پیش ائے خواہ بیوی کی طرف سے ہو یا شوہر کی طرف سے،دونوں کو حوصلے سے اس مشکل کا مقابلہ کرکے حل کرنا چاہئےاور کسی بھی وقت مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہئےاور نہ یہ سوچنے لگیں کہ ہماری خوشبختی اور سعادتیں ختم ہوگئیں نہیں ایسا نہیںمشکلات اور سختیاں ابتدائی دنوں میں بھاری محسوس کرنے لگیں گے لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سختیاں بھی ختم ہوجائیں گی

۱۰۸

اگر بیوی بداخلاق ہو یا اس میں اور کوئی عیب موجود ہو تو شور وشرابہ کرنے کے بجائے وسعت فکر و نظر سے اس کا حل تلاش کرےاور صبر سے کام لے جو انسان کی راہ سعادت میں بہت ہی مؤثر ہےلہذا خداتعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الامَوَالِ وَالانفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ اذَا اصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا انَّا لِلّهِ وَانَّا الَيْهِ رَاجِعونَ(1)

"اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور مال و جان اور ثمرات (کے نقصانات)سے ضرور ازمائیں گےاوران صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئےجو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے"

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ الصَّبْرُ مِنَ الْايمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّاسِ مِنَ الْجَسَدِ فَاذَا ذَهَبَ الرَّاسُ ذَهَبَ الْجَسَدُ كَذَلِكَ اذَا ذَهَبَ الصَّبْرُ ذَهَبَ الْايمَانُ(1)

 امام صادق (ع)نے فرمایا: صبر کا ایمان کے ساتھ وہی رابطہ ہے جس طرح سر کا بدن سے ہےجس طرح سرکے بغیر بدن باقی اور سلامت نہیں رہ سکتااسی طرح صبر کے بغیر ایمان بھی باقی نہیں رہ سکتا  جی ہاں صبر کا پھل میٹھاہوتاہےاور اپنے اپ کو صبر کی تلقین کرے تاکہ اس کا ثواب پالےسورۂ العصر میں تو تاکید کیساتھ فرمایا: کہ صبر کی تلقین کرنے والے کے سوا سب خسارے میں ہیں

خوش اخلاق ہی خوش قسمت

پیغمبراسلام(ص)نےفرمایا:قَالَ رَسُولُ اللهِ ص احْسَنُ النَّاسِ ايمَانا احْسَنُهُمْ خُلُقا وَ الْطَفُهُمْ بِاهْلِهِ وَ انَا الْطَفُكُمْ بِاهْلِي (1)

--------------

(1):- بقرہ  ۱۵۵-۱۵۶

(2):- الکافی ،ج۲، ص۸۹

(3):- وسائل الشیعہ ،ج۱۲، ص۱۵۳

۱۰۹

"بہترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق بہترین ہو اور اپنے گھر والوں کیساتھ زیادہ مہربان تر ہو اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے اہل وعیال کیساتھ زیادہ مہربان تر ہوں

پھر فرمایا: قیامت کے دن اعمال کے محاسبہ کے وقت ترازو کے پلڑے میں اخلاق سے بہتر کوئی شیئ نہیں ڈالی جا سکتی

سعد بن معاذ اور بداخلاقی کا نتیجہ

 انَّ رَسُولَ اللهِ ص خَرَجَ فِي جِنَازَةِ سَعْدٍ وَ قَدْ شَيَّعَهُ سَبْعُونَ الْفَ مَلَكٍ  انَّمَا كَانَ مِنْ زَعَارَّةٍ فِي خُلُقِهِ عَلَی اهْلِهِ فَقَالَتْ امُّ سَعْدٍ هَنِيئا لَكَ يَا سَعْدُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ ص يَا امَّ سَعْدٍ لَا تَحْتِمِي عَلَی اللهِ(1)

سعد بن معاذ ؓ جو رسول(ص)کا خاص صحابی تھاجب ان کا انتقال ہوا تو رسول خدا(ص)کے حکم سے اسے غسل و کفن دیااور خود بھی ان کی تشییع جنازے میں ننگے سرننگے پیر اور بغیر عبا کے شریک ہوئے کبھی دائیں طرف کندھا دیتے تو کبھی بائیں طرفاور اپنے ہی دست مبارک سے اسے قبر میں اتارا اور قبر کو محکم طور پر تیار کیا اور برابر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کچھ دنوں کے بعد سعد کا بدن سڑ جائے گا لیکن بندہ جو کام بھی کرے محکم اور مضبوط ہواس وقت سعد کی ماں نے اواز دی:اے سعد! تیںَ  جنّت مبارک ہوپیغمبر اسلام (ص)نے سختی سے فرمایا:اے سعد کی ماں! خاموش رہو اور خدا پر اتنی جرأت نہ کرابھی سعد فشار قبر میں مبتلا ہےقبرستان سے واپس اتے وقت اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ(ص): اج سعد کے جنازے میں بالکل انوکھا کام کیا جیسا کبھی کسی کے جنازے کیساتھ نہیں کیا تھاتو فرمایا: میں ننگے سر اور ننگے پیر اس لئے تھا کہ ملائکہ بھی سر اور پا برہنہ ان کے جنازے میں شریک تھےجبرئیل امین(ع) ستّر ہزار فرشتوں کیساتھ شریک تھےتو میں نے بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے نعلین(جوتے) اور ردا اتاری

اصحاب نے کہا: اپ کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف سے کندھا دیتے تھے،تو اپ نے فرمایا: میرا ہاتھ جبرئیل (ع)کے ہاتھ میں تھا، جس طرف وہ جاتے تھے اسی طرف میں بھی جاتا تھا

--------------

(1):- الکافی ،ج۲، ص۲۳۶

۱۱۰

اصحاب نے کہا: اپ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور میت کو قبر میں اتارا اس کے باوجود اپ نے فرمایا: سعد فشار قبر میں مبتلا ہے!

تو پیغمبر  اکرم(ص)نے فرمایا: ہاں، یہ اپنے خاندان کیساتھ بداخلاقی سے پیش اتا تھا

اس سے معلوم ہوا کہ بداخلاقی فشار قبر کا باعث ہے

سعد بن معاذ کو یہ شرف کیسے ملا؟

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ انَّ النَّبِيَّ صَلَّی عَلَی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لَقَدْ وَافَی مِنَ الْمَلَائِكَةِ سَبْعُونَ الْفا وَ فِيهِمْ جَبْرَئِيلُ ع يُصَلُّونَ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَبْرَئِيلُ بِمَا يَسْتَحِقُّ صَلَاتَكُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بِقِرَاءَتِهِ قُلْ هُوَ اللهُ احَدٌ قَائِما وَ قَاعِدا وَ رَاكِبا وَ مَاشِيا وَ ذَاهِبا وَ جَائِيا(1)

امام صادق  ؑ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺنے سعد کا نماز جنازہ پڑھائی جس میں ۷۰ہزار فرشتوں نےبھی شرکت کی رسول خداﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ  اس میں کونسی خوبی  تھی جس  کی وجہ سے ملائکہ نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی ؟ جبرئیل نے فرمایا :وہ ہمیشہ اور ہر حال میں خواہ وہ  اٹھاہو یا  بیٹھاہو ،پیدل ہو یا سوار، ارہا ہو یا جا رہا ہو ؛ سورہ اخلاص کی تلاوت کیاکرتےتھے

اچھے اخلاق کا مالک بنو

جو شخص اپنے بیوی بچوّں کے بارے میں سخت غصّہ دکھانے کو اپنی جوان مردی سمجھتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلاہے

پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:بدترین شخص وہ ہے جس کی بد اخلاقی کی وجہ سے لوگ ڈر کے مارے اس کا احترام کرنے لگیں

گھر کوئی جیل خانہ تو نہیں کہ جہاں غصّہ دکھائے اور گھر کے افراد کو ڈرائے اوردھمکائے بلکہ گھر صلح و صفا عشق و وفا اور فداکاری کا گہوارہ ہے جہاں انسان کے جسم و روح کی پرورش ہوتی ہے

--------------

(1):- الکافی  ج۲، ص۶۲۲

۱۱۱

اخلاق کی اہمیت اشعار کے ائینے میں

اقوام روزگار بہ اخلاق زندہ اند             قومی کہ گشت فاقد اخلاق مردنی است

حسن خلق کے اثار و فواید

مکررّ، امتحان کردم، کہ بہر زندگی کردن            بِہ است از تندی و اشفتگی، نرمی و ارامی

 بدخلق کا انجام

بہ دوزخ بُرد مرد را خوی زشت             کہ اخلاق نیک امدہ است از بہشت

دوستی کے فوائد

درخت دوستی بنشان کہ کام دل ببار ارد             نہال دشمنی برکن کہ رنج بیشمار ارد

۱۱۲

چوتھی فصل

خاندان کے متعلق معصومین  کی سفارش

خاندان پر خرچ کرو

امام سجاد(ع) نے فرمایا: خدا تعالیٰ سب سے زیادہ اس شخص پر راضی ہوگا جو اپنے اہل وعیال پر سب سے زیادہ خرچ کرتاہے

عَنْ ابِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ اعْظَمُ اجْرا مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ(1) ا م ا م رض ا (ع) سے منقول ہے کہ جو شخص ا پنے ا ہل وعی ا ل کی خ ا طر خد ا کی دی ہوئی نعمتوں سے کسب کرت ا ہے تو ا س کے لئے ا س مج ا ہد سے زی ا دہ ثو ا ب دی ا ج ا ئے گ ا ،جو ر ا ہ خد ا میں جہ ا د کرتے ہیں ا پ سے ہی منقول ہے:

 عن ابِي الْحَسَنِ ع قَالَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ انْ يُوَسِّعَ عَلَی عِيَالِهِ كَيْلَا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه(2)

یعنی جسےبھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں پر دست رسی حاصل ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، تاکہ وہ لوگ اس کی موت کی تمنا نہ کریںامام صادق(ع) نے فرمایا: مؤمن خدا تعالیٰ کے اداب پرعمل کرتا ہے جب بھی خدا تعالیٰ اسے نعمت اور رزق میں وسعت عطا کرتاہے تو وہ بھی اپنے اقرباء پر زیادہ خرچ کرتاہےاور جب خداوند متعال نعمت کو روکتا ہے تو وہ بھی رک جاتا ہے(3) اورفرمایا: جو میانہ روی اختیار کرے گا میں اس کی ضمانت دونگا کہ وہ کبھی مفلس نہیں ہوگا

پہلے گھر والے پھر دوسرے

ایک شخص نے امام باقر(ع) سے عرض کیا، مولا !میرا ایک باغ ہے جس کی سالانہ امدنی تین ہزار دینار ہےجس میں سے دو ہزار دینار اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں ایک ہزار فقرسوں میں صدقہ دیتا ہوں

--------------

(1):- الکافی  ،ج۵، ص۸۸

(2):- الکافی  ، ج۴ ، ص۱۱

(3):- الکافی  ، ج۴ ، ص 259

۱۱۳

امام ؑنے فرمایا:اگر دوہزاردینار سے اہل و عیال کا خرچہ پورا ہوتا ہے تو بہت اچھا ہےکیونکہ تم اپنی اخرت کے لئے وہی کام کر رہے ہو جو تمہارے مرنے اور وصیت کرنے کے بعد وارثوں نے کرنا تھاتم اپنی زندگی میں اس سے نفع حاصل کر رہے ہو(1)

اسراف نہ کرو

امام زین العابدین (ع)نے فرمایا: مرد کو چاہئے کہ اندازے سے خرچ کرے اور زیادہ تر اپنی اخرت کے لئے بھیجا کرے جو ان نعمتوں کا دوام اور کثرت کے لئے زیادہ مناسب اور روز قیامت کے لئے زیادہ مفید ہے

امام صادق(ع)نے فرمایا: میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خداتعالیٰ بہت دوست رکھتا ہےاور اسراف ایسی چیز ہے جس سے خداتعالیٰ نفرت کرتا ہے، اسراف کھجور کا ایک دانہ یا بچا ہوا پانی ہی کیوں نہ ہو(2)

روز جمعہ کا پھل

قَالَ امِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع اطْرِفُوا اهَالِيَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْفَاكِهَةِ كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمُعَةِ(3)     

امیر المؤمنین(ع)نے فرمایا: اپنے اہل و عیال کے لئے ہر جمعہ کوئی نہ کوئی  تازہ پھل کھلایا کرو تاکہ جمعہ کے دن  خوش رہو

خاندان کیساتھ نیکی اورلمبی عمر

امام صادق (ع)نے فرمایا:من حسن برّه باهله زاد الله في عمره جوبھی اپنے خاندان کیساتھ نیکی کرے گا خداتعالیٰ اس کی زندگی میں برکت عطا کریگااس کے مقابلے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:وَ قَالَ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ يَعُولُ ع (4) لعنتی ہے لعنتی ہے وہ شخص جو اپنے اقرباء کے حقوق دینے میں کوتاہی کرتا ہے

--------------

(1):- الکافی  ، ج۴،ص257

(2):- الکافی  ،ج25، ص249  ۲۵۰

(3):- بحار، ج101،ص 73

(4):- من لایحضرہ ،ج۳، ص ۵۵۵

۱۱۴

خاندان اور اخرت کی بربادی

قال علی: لِبَعْضِ اصْحَابِهِ لَا تَجْعَلَنَّ اكْثَرَ شُغُلِكَ بِاهْلِكَ وَ وُلْدِكَ فَانْ يَكُنْ اهْلُكَ وَ وُلْدُكَ اوْلِيَاءَ اللهِ فَانَّ اللهَ لَا يُضِيعُ اوْلِيَاءَهُ وَ انْ يَكُونُوا اعْدَاءَ اللهِ فَمَا هَمُّكَ وَ شُغُلُكَ بِاعْدَاءِ اللهِ(1)

اپ نے اپنے بعض اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: اپنے بیوی بچوّں کی خاطر اپنے اپ کو زیادہ زحمت میں نہ ڈالو، اگر وہ لوگ خدا کے صالح بندوں  میں سے ہوں تو خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اگر وہ خدا کے دشمنوں میں سے ہوں تو کیوں خدا کے دشمنوں کی خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہو؟ پس ایسا نہ ہو کہ ان کی خاطر ہم خدا اور دین خدا کو فراموش کر بیٹھںو اور حلال حرام کا خیال کئے بغیر ان کو کھلائیں اور پلائیں

محبت خاندان کی کامیابی کا راز

خاندان کی بنیاد،عشق و محبت پر رکھنی چاہئے کیونکہ محبت کا اظہار میاں بیوی کے درمیان ارام و سکون کا باعث بنتاہےجس کا نتیجہ دونوں کی سعادت اور خوش بختی کی صورت میں نکلتاہےاورمحبت کی پہلی شرط ایک دوسرے کی روش اور سوچ کی شناخت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان لیں کہ کن چیزوں سے خوش ہوتے ہیں اور کن چیزوں سے ناراضبیوی کومعلوم ہو کہ اس کا شوہرکس وقت تھکا ہوتا ہے اور کس وقت اس کے ساتھ گفتگو کرنا ہےاور یہ ایسے امور ہیں جو ہرشخص میں مختلف ہوتےہیں معیار محبت یہ نہیں ہے کہ کسی بھی وقت غصہ میں نہ ائے بلکہ اگر گھر کا کوئی فرد غیر اخلاقی کام کربیٹھتا ہے تو سربراہ کو چاہئے کہ اپنی ناراضگی کا احساس دلائے اور نصیحت کرےہاں جب  محبت زیادہ ہوجاتی ہے جسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے غصّہ کرنے میں مانع بنتی ہےلیکن کبھی بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی گہری اور عمیق محبت کا انتظارنہ رکھے

میاں بیوی کے درمیان حد اعتدال میں محبت ہو تو کافی  ہےبہر حال جس قدر یہ محبت قیمتی ہے اسی قدر اس کی حفاظت کرنا بھی قیمتی ہے

--------------

(1):- بحار ج ۱۰۱، ص ۷۳  

۱۱۵

پس ہمیشہ میاں بیوی کو اس محبت کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے، ایسا نہ ہو کہ گھر کی اندرونی اور بیرونی مشکلات ہمیں اس قدر مشغول کردے کہ صفا اور وفا سے دور ہوجائیں لذا دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے درمیان پیار و محبت، صلح و صفا اور مہرو وفا کاسماں پیداکریں

کلام معصوم(ع) میں محبت کے عوامل

ایمان محبت کا محور

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مَنْ احَبَّ لِلهِ وَ ابْغَضَ لِلهِ وَ اعْطَی لِلهِ فَهُوَ مِمَّنْ كَمَلَ ايمَانُهُ(1)

امام صادق(ع) فرماتے ہیں جو بھی خدا کی خاطر کسی سے محبت کرے یا دشمنی کرے اور خدا ہی کی خاطرکسی کو کچھ دیدے تو وہ ان افراد میں سے ہوگا جن کا ایمان کامل ہوگیا ہو

امام باقر(ع)نے فرمایا: اگر توجاننا چاہتاہے کہ تیرے اندر کوئی خوبی موجود ہے یا نہیں تو اپنے دل کی طرف نگاہ کرو، اگر اہل اطاعت  اور خدا کے فرمان برداروں سے محبت اور اہل معصیت سے نفرت موجودہے تو سمجھ لینا کہ تو اہل خیر ہو اور تجھ میں خوبی موجود ہے

خوش امدید کہنا اور استقبال کرنا

ایک دوسرے کو ہاتھ ملانا، مصافحہ کرنا اور خوش امدید کہنا محبت  میں اضافے کا سبب ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ:تَصَافَحُوا فَانَّ الْمُصَافَحَةَ تَزِيدُ فِي الْمَوَدَّةِ(2)

چنانچہ رسول خدا(ص)نے فرمایا:لوگو!ایک دوسرے کیساتھ مصافحہ کروکیونکہ مصافحہ محبت میں اضافہ کرتا ہے

--------------

(1):- الکافی ،ج۲، ص۱۲۴

(2):- مستدرک الوسائل،ج۹، ص۵۷

۱۱۶

حسن ظن رکھنا

امیرالمؤمنین (ع)نےفرمایا :من حسن ظنّه بالناس حاز منهم المحبة (1)

  جو بھی لوگوں پر حسن ظن رکھتا ہے ان کی محبت کو اپنے لئے مخصوص کرتا ہےیعنی دوسروں کا دل جیت لیتا ہے

بے نیازی کا اظہار کرنا

امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: لوگوں کے ہاتھوں میں موجود مال و متاع سے بے رغبت ہو کر خود  کو ہر دل عزیز بناؤ(2)

جب ایک شخص پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں ایا اور عرض کیا:یا رسول اللہ (ص)! کیا کروں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں؟ اپ نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے مال و متاع پر نظر نہ جماؤاور طمع ولالچ نہ کر،تو تم ہر دل عزیز ہو جاؤ گے(3) جیسا کہ شاعر نے کہا:

ہر کہ را با طمع سرو کار است             گر عزیز جہان بود خوار است

لالچی انسان کی نگاہ پوری دنیا کی نعمتوں سے بھی پر نہیں ہوتی جیسا کہ کنواں شبنم کے قطرے سے پر نہیں ہوتا

دیدہ ی اہل طمع بہ نعمت دنیا                    پر نشود ہمچنانکہ چاہ بہ شبنم

سخاوت کرنا

حضرت علی(ع) نے فرمایا:

السخاء يكسب المحبة و يزين الاخلاق يمحص الذنوب و يجلب محبة القلوب (4)

--------------

(1):- غرر الحکم،ص۲۵۳

(2):- دار السلام ،ص413

(3):- سفینة البحار،باب سجد

(4):- غرر الحکم،ص۳۷۸

۱۱۷

یعنی سخاوت باعث محبت اوراخلاق کی  زینت ہے، جو گناہوں کو پاک کرتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتی  ہے

رُوِيَ انَّ اللهَ اوْحَی الَی مُوسَی ع انْ لَا تَقْتُلِ السَّامِرِيَّ فَانَّهُ سَخِيٌّ(1)

خدا تعالیٰ نے حضرت موسی(ع) پر وحی نازل کی کہ سامری کو قتل نہ کرو،کیونکہ وہ سخاوت مند ہےاور اگر یہی سخاوت مندی ایک مسلمان یا مؤمن میں ہوتو کتنی بڑی فضیلت ہے

امام صادق(ع) نے فرمایا:اے معلّی اپنے بھائیوں کی خدمت کرکے ان کی محبت اور دوستی حاصل کرو،کیونکہ خدا تعالیٰ نے محبت کو بخشش میں اور دشمنی کو عدم بخشش میں چھپا  رکھا ہے(2)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ج۹، ص۱۸

(2):- وسائل الشیعہ  ، ص 421

۱۱۸

پانچویں فصل

خاندانی اختلافات اور ان کا علاج

خاندانی اختلافات

جس طرح  مختلف معاشرے اورممالک ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب خاندان  کے افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتےبعض اوقات اختلافات اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیںاور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پرغم و غصہ نکالنا شروع کرتے ہیںاس طرح گلے شکوے سے اپنے سینوں کو خالی کرکے اپنے کو ہلکا کرتے ہیںکبھی کبھی یہ گلے شکوے بھی مفید ثابت ہوتے ہیںاگر اظہار کا موقع نہ ملے تو شعلے کی مانند انسان کو اندر سے جلاتے ہیںحقیقت بھی یہی ہے کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو درک کرلیتے ہیں تو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیںلہذا  گلے شکوے کو چھپانا مسئلہ کا حل نہیں ہے،بلکہ ان پر پردہ ڈالنا مشکلات میں مزید اضافے کاباعث بنتا ہےلیکن دونوں کو احتیاط کرنا چاہئے کہ ان اعتراضات اور گلے شکوے کو انتقام جوئی اور جھگڑا فساد کی بنیاد قرار نہ دیںبلکہ ان  کو باہمی تفاہم اور عشق و محبت کی ایجاد کے لئے زمینہ قرار دیںکیونکہ زندگی کی لطافت اور خوشی ،صلح و صفا میں ہے نہ جنگ و جدل  اور فسادمیںیہاں دونوں کو جان لینا چاہئے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد پیار و محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہے

خواتین کو جاننا چاہئے کہ اگر مردوں کا جہاد محاذوں پر لڑنا اور دشمن پر حملہ اور ہونا اوردشمن کے تیروں کو اپنے سینوں پر لینا ہے تو خواتین کا جہاد جتنا ممکن ہو سکے اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچوّں کی تربیت کرنا ہے امام موسی کاظم (ع)نے فرمایا:

جِهَادُ الْمَرْاةِ حُسْنُ التَّبَعُّل‏(1)

عورت کا جہاد اچھی شوہر داری ہے

--------------

(1):-  تفسیر المیزان،ج4،ص373،الکافی ،ج۶، ص۹

۱۱۹

جب اسماء بنت یزید کو مدینہ کی عورتوں نے اپنا نمائندہ بنا کرپیغمبر اسلام(ص)کے پاس بھیجا اور اس نے عرض کی: یا نبی اللہ ! خدا نے اپ کو مقام نبوت پر فائز کیا ہم اپ پر ایمان لے ائیں، اور ہم  گھروں میں بیٹھ کر اپنے شوہروں کی خدمت اور بچوّں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد لوگ نماز جماعت میں شریک ہوتے ہیں، بیماروں کی عیادت کے لئے جاتے ہیں،تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں،جھاد میں حصہ لیتے ہیں، مراسم حج کی ادائیگی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ثواب کماتے ہیں اور ہم بیچاری عورتیں مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال کی حفاظت،بچوّں کی تربیت، گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے میں مصروف رہتی ہیں،کیا ہم بھی ان کے ثواب میں برابر کی شریک ہیں ؟ پیغمبر اسلام (ص)نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:کیاتم لوگوں نے کبھی دینی مسائل اور مشکلات میں کسی خاتون کی زبان سے اس سے بہتر کوئی گفتگوسنی ہے؟

اصحاب نے عرص کیا یا نبی اللہ(ص)! اس قدر فصیح و بلیغ گفتگو اج تک کسی خاتون سے نہیں سنی تھیاس کے بعد پیغمبر(ص)نے فرمایا: جاؤ خواتین سے کہہ دو، کہ اگر تم اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک کروگی اور اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دوگی اور اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گی تو ان کے تمام اجر اور ثواب میں تم بھی برابر کی شریک ہونگی

یہ سن کر اسماء بنت یزید اللہ اکبر اور لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت سے اٹھی اور مدینہ کی عورتوں کو یہ خوش خبری سنادی(1)

اس حقیقت کی طرف مرد اور عورت دونوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ عورتوں کے وجود میں جنگی، سیاسی، اور ورزشی میدانوں میں بہادری نہیں پائی جاتی بلکہ انہیں اسلام نے ریحانۂ زندگی یعنی زندگی کی خوشبو کا لقب دیا ہےجس میں خوبصورت پھولوں کی طرح لطافت اور طراوت پائی جاتی ہےاور اس لطافت اور طراوت کو ظالم ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتاکیونکہ پھول کی جگہ گلدستہ،گلدان اور انس و محبت والی محفلیں ہواکرتی ہیں

--------------

(1):- تفسیر المیزان،ج4،ص373،الکافی ،ج۶، ص۹

۱۲۰