اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 164674
ڈاؤنلوڈ: 4639

تبصرے:

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164674 / ڈاؤنلوڈ: 4639
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شوہر کی اجازت کے بغیر وہ گھر سے نہیں نکل سکتیچناچہ فقہاء نے بھی فتوے دیے ہیں:یحرم علی الزوج منع الزوجة من الخروج للتعلم (1)   حرام ہے مرد پر کہ وہ بیوی کو علم سیکھنے کے لئے گھرسے باہر جانے نہ دے

خواتین کے سیاسی حقوق

اسلام نے مرد وعورت دونوں کو ان کے جو مشترکہ سیاسی حقوق دلائےہیں،ان میں سے کچھ حقوق یہ ہیں:حق بیعت، حق انتخاب، حق شراکت، حق رائے دہی، حق دفاع وغیرہ

حق بیعت

اسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کی سیاسی مسئولیت اور استقلال کا اعلان کیا ہے اور اجازت دی ہے کہ اپنی تقدیر بدلنے،ملکی سالمیت کو معین کرنے،رہبریت کا انتخاب کرنے کے لئے پیغمبر اسلام(ص)کی بیعت کرےاور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ابتداے اسلام میں خواتین نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہاتھوں بیعت کی ہیں چنانچہ قران فرمارہاہے:

يَا ايُّهَا النَّبِيُّ اذَا جَاءكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَی ان لَّا يُشْرِكْنَ بِاللهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ اوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ ايْدِيهِنَّ وَارْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ انَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(2) "پیغمبر اگرایمان لانے والی عورتیں اپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے ائیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گیاور چوری نہیں کریں گیزنا نہیں کریں گیاولاد کو قتل نہیں کریں گیاور اپنے ہاتھ پاؤں  کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں ائیں گیاور کسی نیکی میں اپ کی مخالفت نہیں کریں گیتو اپ ان سے بیعت کا معاملہ کر لیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خد ابڑا بخشنے والا اور مہربان ہے"یعنی پیغمبر اسلام(ص) خدا کی طرف سے مأمور تھے کہ مردوں کیساتھ ساتھ عورتوں سے بھی بیعت لیں

--------------

(1):- جواہر الکلام،کتاب النکاح 

(2):- الممتحنہ ۱۲

۱۶۱

فاطمہ(س) محافظ ولایت

پیغمبر گرامی(ص) کی وفات کے بعد خلافت علی(ع) کی بیعت لینے میں فاطمہؑ کی دن رات کوشش اور مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسنین (ع) کے ہاتھوں کو تھام کر جانا اپ کی سیاسی فعالیت کی عکاسی کرتا ہے

واقعہ فدک میں اپ کی حق طلبی اور مقام ولایت کی حمایت میں مصیبتیں برداشت کرنا، یہاں تک کہ اپ کا محسن شہید ہونا اور اپ کا مجروح ہونا اور شاادت پانایہ سب اپ کی سیاسی فعالیت کی علامات ہیں

اپنی سیاسی بصیرت اور علم وحکمت کے ذریعے ایک مفصّل خطبہ مسجد نبوی میں ابوبکر ، عمر اور دیگر مہاجرین و انصار کی موجودگی میں دینا کہ جس سے مسجد کی در ودیوار بھی ہلنے لگیاپ کی معاشرے میں سیاسی فعالیت کی نشاندہی کرتی ہے

اگر مختصر جملے میں کہنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں: اسلامی حکومت و خلافت کے مسئلے کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے والی اپؑ ہی کی ذات مبارکہ تھیں

اسی طرح جنگ صفین ، نہروان اور جمل میں بھی امام حسن اور امام علی(ع) کی شکل میں اپ کا کردار نمایاں ہوتا ہے

کربلا میں سید شہداءؑ کی شکل میں اپ ہی کا فاتحانہ کردار نظر اتا ہےکوفہ و شام میں دیکھ لو حضرت زینبؑ کی صورت میں اپ کا حکیمانہ نقش نظراتا ہے خود پیغمبر اسلام (ص)کی سیرت میں بھی اپ کا کردار متجلّی ہورہا ہے، پیغمبر اسلام(ص) فرماتے ہیں:فاطمة امّ ابیہاماں سے مراد جنم دینے والی نہیں بلکہ خاندان رسالت کی جڑ،اساس اور محور اصلی فاطمہ(س) کی ذات ہے

جب کفار قریش پیغمبر اسلام (ص) کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیتے تھے تو اپ کی غمگین اور اداس دل کی تسلی کی خاطر خداوند متعال نے اپ کو فاطمہ(س) کی شکل میں کوثر عطا کیا جن کے ذریعے پیغمبر اسلام (ص) کی اولاد  تا قیامت باقی رہیں

حدیث کساء نے تو اپ کی محوریت پر چار چاند لگا دی ہے جب سوال ہوا: یہ پنجتن کون لوگ ہیں؟ تو جواب ایا:

هم فاطمة و ابوها وبعلها وبنوها

اسی طرح فاطمہ زہرا(س) کی چاہنے والی خواتین نے بھی اپ کی پیروی کرتے ہوئے ولایت فقیہ کی حکومت کے قیام اور اہلبیت

۱۶۲

اطہار(ع) کے فرامین کو معاشرے میں عام کرنے کے لئے بڑا اہم کردار ادا کیا ہےجنہوں نے اپنے عزیزوں اور جگر پاروں کو میدان جنگ میں بیجنے  سے کبھی گریز نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے درسگاہ حضرت زہرا (س)سے سبق حاصل کیا تھا اور جس نے بھی اپ کی پیروی کی کامیاب ہوا

انقلاب اسلامی ایران میں دیکھ لیں، خمینی بت شکن(رح) کی شکل میں اپ کا کردار نظر اتا ہے کیونکہ جس نے سب سے پہلے ولایت اور رہبری کی حمایت کی وہ فاطمہ (س)کی ذات تھیںاور امام خمینی کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ولایت فقیہ اور اہل بیت کی حکومت قائم ہونی چاہئے اور بفضل الٰہی قائم ہوئیخدا تعالیٰ اس انقلاب کو  انقلاب امام زمان(عج) سے ملا دے  اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما یےاور انہی کی رکاب میں شہادت نصیب فرمایےامین

امام خمینی اورخواتین کےسیاسی مسائل

امام خمینی فرماتے ہیں: خواتین کو بھی چاہئے کہ ملک کی اور اپنی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کریںاسلامی قوانین مرد وعورت دونوں کے مفاد میں ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ خواتین بھی انسانیت کے عظیم مرتبہ پر فائزہوںاپ فرماتے ہیں:خواتین ہمارے انقلاب اور تحریک کی رہنما ہیں اور ہم ان کے ساتھ ساتھ ہیںاور میں خواتین کی رہبری کو قبول کرتا ہوں(1)

رہبر معظم حضرت ایةاللہ خامنہ ای(مدظلہ) فرماتے ہیں: ایرانی قوم اور انقلاب اسلامی کی  ازادی اور کامیابی میں خواتین کا نمایاں کردار ہےاگر خواتین شریک نہ ہوتیں تو انقلاب اسلامی اس قدر کامیاب نہ ہوتا، یا اصلا کامیاب نہ ہوتا یا بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا(2)

--------------

(1):- صحیفہ نور،ج6،ص85

(2):- روزنامہ قدس، 27 شھریور 1371ش

۱۶۳

خواتین کے اقتصادی حقوق

اسلام نے جس قدر مردوں کو اپنی دولت اور ثروت میں حق تصرف اور مالک ہونے کی مکمل اجازت دی ہے اسی طرح خواتین کو بھی  اجازت دی ہےچنانچہ قران مجید میں صراحتا فرمایا ہے:

لِلرِّجالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَ لِلنِّساءِ نَصِيبٌ‏ مِمَّا اكْتَسَبْن‏(1)

شوہر یا کسی اورکوحق تصرف نہیں اور نہ یہ لوگ عورت کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک سکتے ہیں:

لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ(2)

 کیونکہ ملکیت ایک مستقل حق ہے اور ہرمرد وعورت اپنے اموال پر خودحق تصرف رکھتا ہےعورت بھی مشروع اور جائزتجارت اور کسب وکار میں مردوں کی طرح ازاد ہےحتی بعض شعبوں میں جو ان کی استعداد کے لئے مناسب ہیںاور بہتر شرائط بھی موجود ہیں وہاں ان کا ہونا زیادہ بہتر ہے

ملک سازی میں عورتوں کا کردار

امام خمینی فرماتے ہیں کہ ملک سازی میں ہماری خواتین کا بڑا کردار رہا ہےجب شاہ ایران کو نکال دیا گیا تو اپنی تقریر میں فرمایا: اے  ایران کے خواتین و حضرات!اؤ ہم سب مل کر اس کھنڈر میں تبدیل شدہ ملک کو دوبارہ تعمیر کرتے ہیںجس طرح اپ خواتین،انقلاب اسلامی میں حصہ دار تیںر اسی طرح اس خرابہ کی تعمیر میں  بھی حصہ دار بنیں اور مردوں کا ہاتھ بٹائیں(3)

--------------

(1):- نساء ۳۱

(2):- بقرہ ۲۸۶

(3):- صحیفہ نور،ج 11،254 

۱۶۴

حق ارث

خواتین کی اقتصادی اور مالی حقوق میں سے ایک، حق ارث ہے کہ ظہور اسلام سےقبل دنار کے اکثر ممالک میں عورت اس حق سے محروم تھی حتی عرب جاہلیت میں تو انہیں ارث کے طور پر  اپس  میں تقسیم کیاکرتے تھے، اسلام نے اکر دور جاہلیت کی ان غلط رسومات کو توڑ کر انہیں باقاعدہ وارث کے طور پرمتعارف کرایاچنانچہ قران مجید کا ارشاد ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالاقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالاقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا(1)

"اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت، عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے"

لیکن بعض اسلام دشمن عناصر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو مرد کی نسبت کم ارث دیتا ہےاور یہ اسلام ہے جس نے مرد اور عورت کے حقوق میں مساوات اور برابری کو نظراندازکیا ہے

تو ہم جواب دینگے کہ انہوں نے صرف ایک زاویہ سے نگاہ کی ہےاگردوسرے زاویے سے بھی دیکھتے تو وہ خود سمجھ جاتے کہ خواتین کا جو حصہ نسبتا مردوں سے کم ہے پھر بھی زیادہ ہے! کیونکہ مرد کو جو ارث ملتا ہے وہ خود بیوی بچوّں پر خرچ کرنے کے لئے ہوتا ہےلیکن جو ارث عورت کو ملتا ہے وہ خرچ کرنے کے لئے نہیں بلکہ جمع کرنے کے لئے ہےکیونکہ اسلام نے ان کا نان و نفقہ مردوں کے ذمہ لگا دیا ہےدوسرے الفاظ میں عورتوں کو جو ارث ملتا ہے وہ ان کا جیب خرچ ہےاب  اعتراض کرنے والے خود بتائیں کہ کس کا حق  اور حصہ زیادہ ہے؟!

--------------

(1):- نساء ۷

۱۶۵

چوتھی فصل

اسلام کی نگاہ میں  خواتین کی ازادی

جب عورت قبیلہ کے سردار،باپ،بھائی یا دوسرے لوگوں کے ظالمانہ ارادے کے ما تحت ہوتی تھی اور ہر قسم کے حقوق سے بھی محروم تھی، اسلام نے اسے ازادی جیسی نعمت عطا کیاس طرح ہمسر کا انتخاب  کرنے، اپنے مال و دولت خرچ کرنے اور اظہار خیال کرنے میں استقلال اور ازادی عطا کی،تاکہ ان کی قدروقیمت پہچان سکےپھر بھی اسلام دشمن عناصر کہتے ہیں: کبھی اسلام نے انہیں مکمل ازادی نہیں دی ہےجیسے شادی کرنے میں باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرا کر لڑکیوں کی خودمختاری  سلب کی ہےٹھیک ہے اسلام نے باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرایا لیکن اس کی حکمت عملی اور فلسفہ پر نگاہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں بھی  خود لڑکی کے فائدے کا لحاظ رکھا  گیاہےکیونکہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے دور میں احساسات اور شاعرانہ تخیّلات اور میٹھی خوابوں میں مست ہوتے ہیں،انہیں اس دوران،زندگی کی نشیب وفراز، تلخ یا مٹھاس کا خاص احساس نہیں ہوتا احساسات اور جذبات میں اکر انہیں نفع و نقصان ایک ہی نظر انے لگتا ہےاب اس حالت میں ایک دلسوز، مہربان اور تجربہ کار نگاہ کی ضرورت ہے جو اپنی تجربات کی روشنی میں لڑکی یا لڑکے کی منفعت اور مصلحت کے تحت قدم اٹھائےاگرچہ روایات مختلف ہیں: بعض روایات میں باپ یا دادا کی اجازت  کو ضروری سمجھا گیا ہے جیسے: امام صادق (ع)فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ ابِي يَعْفُورٍ عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ: لَا تَزَوَّجُ‏ ذَوَاتُ‏ الْابَاءِ مِنَ الْابْكَارِ الَّا بِاذْنِ ابَائِهِنَّ.(1)

 امام(ع) نے فرمایا کہ ان باکرہ لڑکیوں سے شادی ان کے اباء و اجداد کی اجازت کے بغیرنہ کرولیکن بعض روایات اس کے برعکس ہیں: امام صادق(ع) سے ہی مروی ہے:

قَالَ ابُو عَبْدِ اللهِ ع‏ لَا بَاسَ بِتَزْوِيجِ الْبِكْرِ اذَا رَضِيَتْ‏ مِنْ‏ غَيْرِ اذْنِ‏ ابِيهَا(2)  

--------------

(1):- من لایحضرالفقیہ ،ج3، ص395

(2):- التھذیب،ج5   

۱۶۶

فرمایا:باکرہ لڑکیوں سے ان کے اباءواجداد کی اجازت بغیر شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ان دونوں روایات کو اگر جمع کریں تو باپ کی رضایت اور موافقت کو لڑکے یا لڑکی کی رضایت کےساتھ شامل کرکے عقد پڑھ سکتا ہے

تیسری روایت میں ایک شخص نے امام (ع)سے اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع)نے جواب دیا:

عَنْ صَفْوَانَ قَالَ: اسْتَشَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ ع فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ لِابْنِ اخِيهِ فَقَالَ افْعَلْ وَ يَكُونَ ذَلِكَ بِرِضَاهَا فَانَ‏ لَهَا فِي نَفْسِهَا نَصِيبا(1)

 فرمایا:تم اسی لڑکے کو اپنی بیٹی کے لئے انتخاب کر جسے تیری لڑکی پسند کرے،اور لڑکی کی مرضی  کے خلاف دوسرے کی زوجیت میں نہ دو

ان فرامین کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں عورتوں پر کوئی جبر اور قید و بند نہیں بلکہ دین مقدس اسلام نے ان کی مرضی کو ہرچیز پر مقدّم رکھتے ہوئے انہیں مکمل ازادی عطا کی ہے

مسلمان خواتین کی ازادی سے کیا مراد ؟

اسلام میں عورت کی ازادی اور حریت کے پیش نظر اسلامی ممالک میں خواتین کا، ازادی کا نعرہ بلند کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم ان خواتین سے سوال کرتے ہیں کہ: کس حق کے حصول کے لئے نعرہ بلند کرتی ہیں جو تم سے چھین چکا ہے؟ کونسا مشکل ہے جسے اسلام نے حل نہیں کیا ہے؟اگر مسلمان عورتوں کا مقصد یہ ہے کہ انہیں شریک حیات کا انتخاب کا حق نہیں ملا ہے تو اسلام نے ابتداء ہی سے یہ حق عطا کیاہےچنانچہ حضرت خدیجہ(س)  کی سوانح حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے شریک حیات انتخاب کرنے کا حق بھی دیا گیا اور اپنے اموال میں پورا پورا تصرف کرنے کا حق بھیاپؑ اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے رشتے کے لئے پیغام بھیجااگر مسلمان عورتوں کا مقصد حق طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم ومسلمة تعلیم و تعلّم کا مطالبہ ہے تو اسلام نے نہ صرف یہ حق انہیں عطا کیا ہے بلکہ، ان پر بھی واجب قرار دیا ہے

--------------

(1):-عو الي اللئ الي ،ج‏3،ب اب النك اح ،ص : 280

۱۶۷

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد قانون اسلامی میں مرد و عورت میں برابری ہے تو اسلام نے یہ حق تمام انسانی گروہوں،خواہ وہ حبشی ہوں یا قرشی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت،سب کو برابر اور مساوی دیا ہےاسلام کے اس پیغام کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا  اور  نہ   کوئی   بندہ  نواز

اور اگر مسلمان خواتین کا غوغا اور شور وشرابہ کرنے کا مقصد ایک ابرو مندانہ زندگی گزارنا ہے جہاں کوئی اجنبی اس کی طمع نہ کرے، اور ایک شرافت مندانہ خاندان کی تشلب  دینا ہے جو بے بندوبار افراد کے شر سے محفوظ رہے تو اسلام نے بہترین طریقے سے اس ماحول کو عورتوں کے لئے فراہم کیا ہے،جو کسی اور مکتب نے فراہم نہیں کیا ہے

لیکن اگر ان کا مقصد بے عفّتی،شہوت رانی،اخلاقی حدود کو پامال کرنا،بے پردہ ہو کر گھر سے نکلنا،محرم نا محرم کی تمیز کئے بغیر لوگوں میں مغربی طرز پر رہن سہن رکھنا ہو اور خاندانی اشیانے کو ویران کرکے نسلوں کو خراب  اور بے سرپرست قراردینا ہے تو ہم قبول کرتے ہیں کہ اسلام نے ایسی ازادی عورت کو نہیں دی ہےیہ ازادی تو اسلام میں مردوں کے لئے بھی نہیں دی گئی

اس قسم کی ننگین ازادی کے حصول کے لئے پارلیمنٹ، اسمبلی اور دوسرے سرکاری ادارے بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ کافی  ہے کہ شرم وحیا کے پردے کو اتار پھینک دے تاکہ مکمل طور پر بدن برہنہ اور عریان ہو جائےبجائے اس کے کہ ابھی سینہ اور ٹانگین عریان ہیں، اور اس طرح بجاے اس کے کہ رات کی تاریکی میں نامحرموں کے ساتھ رقص اور جنسی خواہشات پوری کرے، اعلانیہ طور پر دن کو ایسا کرے!!!(1)

امام خمینی اور یوم خواتین

اس دن  کی مناسبت سے 262 1358ش کو خواتین کو اپنے پیغام میں یوں مخاطب ہوا:افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کی خواتین تاریخ بشریت میں دو مرحلے میں مظلوم واقع ہوئی ہیں:

--------------

(1):- حقوق زن در اسلام وجہاں ،ص160

۱۶۸

1دور جاہلیت میں کہ جس کی تفصیل گزر گئیاور اسلام نے ان پر بڑا احسان کرکے انہیں اس مظلومیت سے نکالا، کہ جہاں عورت حیوان بلکہ اس سے بھی پست تر سمجھی جاتی تھی

2شاہ سابق رضا شاہ اور ان کے بیٹے کے دور میں ایران میں عورت مظلوم واقع ہوئیاس نعرے کیساتھ کہ عورت کو ازادی دلائیں گے، عورت کو اپنی شرافت اور عزت والی حیثیت سے گرائی گئی  اور ان کی ازادی کو ازادی ہی کے نام سے ان سے چھینی گئی

شاہ ایران نے جوان لڑکے اور لڑکیوں کو فاسد کیااور عورت کو ایک کھلونا بنایا حالانکہ عورت نیک اور صالح افراد کی مربّی ہوا کرتی ہےکسی بھی ملک کی سعادت یا شقاوت عورت ہی کے وجود سے وابستہ ہےان باپ بیٹے (شاہ سابق ولاحق) نے خصوصا بیٹے نے جس قدر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس قدر  مردوں پر نہیں توڑےجوانوں کے لئے  فحشاء اور منکرات کے مراکز بنائے گئےازادی اور تمدن کے نام سے مرد و عورت کی ازادی ان سے چھین لی گئی(1)

ہمیں چاہئے کہ  اسلام کے حقیقی احکام کو بیان کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق اور منزلت عوام پر واضح کریں اور مختلف شخصیات کی غیر اسلامی نظریے اور افکار کو بیان کرنے کی ضرورت نہیںالبتہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے خواتین پر دو طریقوں سے ظلم ہوا ہے:

1قدرت مند افراد کی طرف سے، کیونکہ ہر لحاظ سے معاشرہ میں کچھ لوگ طاقتور ہوا کرتے ہیں یہ لوگ اپنی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کی خاطر معاشرے میں موجود خواتین کی طرف دستدرازی کرتےہیں، اس لحاظ سے معاشرہ مغربی ہونے یا مشرقی ہونے میں کوئی فرق نہیںاسلامی معاشروں میں بھی ایسی ہی وضعیت پائی جاتی ہے

2عورت کو مال و دولت کے طور پر استعمال کرتے تھےچنانچہ  تفصیلی گفتگو گزر گئی اج  بھی عورت کے حقوق کے دفاع

-------------

(1):- فاطمہ گل واژہ افرینش،ص67

۱۶۹

کے نام پر پہلے سے زیادہ ان پر ظلم ہورہا ہےیورپی ممالک میں جو عورت کے حقوق  کا نعرہ لگاتے ہیں اور ان کے لئے قانون وضع کرتے ہیںتو یہ سب کچھ اسلئے ہے کہ عورت کو کارخانوں،ملوں اور دفتروں میں ملازمت دے کر بداخلاقی کی جڑوں کو پھیلایا جائےاور ازادی کا مطلب اس طرح ذہن نشین کرایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ عورت اپنی جسمانی نمائش کرےاس کا منہ بولتا ثبوت اپ کو ہر سال مغربی بلکہ مشر قی دنیا میں بھی خوبصورتی کےمقابلے کی شکل میں ملے گا کہ کونسی عورت زیادہ خوبصورت ہے؟ تاکہ دنیا میں سب سے خوبصورت خاتون کہلا سکے

اس طرح ازادی کے نام سے نامشروع اور ناجائز طریقے سے عورتوں اور مردوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعلقات پیدا کرنے کے لئے زمینہ فراہم کرتےہیںجوان لڑکیاں کالجوں اوریونیورسٹز  میں اپنے لئے بوائے فرینڈ انتخاب کرتی ہیں،لڑکی کے والدین بھی اس چیز کو معیوب نہیں سمجھتے یہاں تک کہ لڑکی اپنے گھر پر اس بوائے فرینڈ کو ساتھ لاتی ہےاور ماں باپ سے ملاتی ہے اور ماں باپ بھی فاخرانہ انداز میں کہتے ہیں یہ لڑکا ہماری بیٹی کا دوست ہے

اور جان لو یہ سب مغربی فرہنگ ہماری طرف منتقل ہورہی ہےایسے میں ہمیں چاہئے کہ اسلامی افکارلوگوں تک پہنچائے اور بتادے کہ یہ ازادی نہیں بلکہ نفسانی خواہشات کی غلامی ہےاصل ازادی جو دین مقدس اسلام نے عورتوں کو عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو ایسے مطلوب مواقع فراہم کئے جائیں جہاں پر وہ اپنی پوشیدہ استعداد اور صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں تاکہ وہ لوگ بھی مردوں کی طرح کمال انسانیت کے مرتبہ پر فائز ہوں

اسلام نے جس دن عورتوں کے بارے میں خطاب کیا اور اپنی تعالیم اور مطالب کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو عورت کو ان دونوں قسم کے مظالم سے نجات مل گئی

اسلام نے عورت پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی ہے،بلکہ حکم دیا کہ اس سے گھریلوکام بھی نہ لے اور انہیں برا بلا بھی نہ کہےواقعا جاہل معاشرے کے لئے یہ بات قابل تعجب ہے کہ کیوں مردوں کو یہ حق حاصل نہیں؟

۱۷۰

اسلام نے قطعی طور پر ان ناجائز نظریہ کو کہ( عورت کو صرف مردوں کے ارام وسکون کے لئے پیدا کیا ہے) باطل قرار دیا اور کہا میاں بیوی کے درمیان حقوق دوطرفہ ہیںجسے باہمی تفاہم اور محبت کیساتھ ادا کریں اسلام نے میاں بیوی کے وظائف کے حدود کو بھی معین کیا ہے جو کاملا مرد و عورت کی طبیعت کے عین مطابق ہے

لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب والوں کی غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے ان اسلامی حدود کاخیال کرنا مسلمان خواتین بھی اپنے لئے ننگ وعارسمجھتی ہیںیہاں تک کہ اخباروں، میگزین اور سنیما گروں اور مجالس ومحافل میں چادر کوکالا کفن کے طور پر تشہیر کرنے لگیڈ ہیںاور بے حجاب اور بے پردہ عورتوں کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھنے لگیو ہیںاسی طرح نیم عریانی کو ازادی کا نام دینے لگیم ہیں ان کے غلط پروپیگنڈے اس قدر مؤثر ہیں کہ عورتیں واقعا حجاب اور چادر کو اپنے لئے اہانت اور عار سمجھنے لگین ہیں جبکہ یہ چادر ان کےلئے موتی کے لئے صدف کی مانند ہے

رہبر معظم سید علی خامنہ ای  (مد ظلہ) اور یوم  خواتین

رہبر معظم انقلاب حضرت ایة اللہ العظمی خامنہ ای(مدظلہ العالی)نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے: کہ جب اپ بعنوان صدر بیرون ملک کے دورے پر افریقہ میں پہنچے تو مختلف ممالک کے اخباری نمائندے  اپ سے انٹرویو لینے لگے جن میں ایک بے پردہ نوجوان لڑکی بھی تھی اسے کہا گیا کہ دوپٹہ کو صحیح طور پر سر پر رکھےیہ بات ان کے لئے بہت گراں گزریجب مجھ سے خواتین کے بارے میں سوال ہورہاتھا تو یہ خاتون اپنی جگہ سے اٹھی اور مجھ سے دو سوال کی اور رونا شروع کیا اس کی احساسات کو اس قدر ٹھیس لگی تھی کہ کہنے لگی: کیوں اپ نے حکم دیا کہ دوپٹہ سر پر رکھوں؟یہ عورت اسے حقیقتا اپنے لئے بے عزتی اور اہانت سمجھ بٹھی  تھیواقعا اگر یہ ان کیساتھ اہانت تھی تو یہ اس پر ظلم ہوالیکن یہ دنیا میں رائج غلط فرہنگ ہے جو عورتوں اور مردوں کے ذہنوں پر سوار ہوچکا ہے(1)

--------------

(1):- حجاب و ازادی،ص24

۱۷۱

جبکہ اسلام کا حجاب کو ضروری قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مسلمان خواتین کی حرمت اور شخصیت کا پاسبان اور محافظ بنے جو اجنبی لوگوں کی مزاحمتوں سے اسے دور رکھے

جب اسلام نے عورت کی شخصیت اور حرمت کو قیمتی گوہر سے تعبیر کیا تو اس کی حفاظت کا انتظام بھی ضروری سمجھااس لئے عورت کو حجاب میں مستور کیا کیونکہ تکوینی اور پیدائشی طور پر عورت میں کشش اور جاذبہ پایا جاتاہےاگر حجاب اور پردہ نہ ہوتو طمع کاروں کا شکار بن سکتی ہےجس طرح بادام اور اخروٹ کے مغز کی حفاظت کے لئے مناسب چھلکے خدا نے خلق کئے  اور جواہرات کو سمندر کی تہہ میں رکھا، اسی طرح عورت کو پردے میں رکھ کر تجاوزگروں سے دور رکھنا مقصود تھا

مغربی ازادی کا تلخ تجربہ

اج اس جدید اور متمدن دور میں خواتین پرظلم و ستم بھی جدید طریقے سے ہورہا ہےجھوٹے نعرے اور دھوکہ کے ذریعے ڈیموکریسی اور خواتین کی ازادی اورحقوق کے نام پر عورتوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیںمختلف ممالک خصوصا یورپی ممالک میں عورت کو اپنا سرمایہ اور مال و دولت کی خرید وفروخت کے لئے پبلسٹی کا وسیلہ قرار دیتے ہیںسوپر مارکٹوں دفتروں، بینکوں، دکانوں، میں عورتوں کو اسی لئے رکھی جاتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور خریداروں کو اپنی طرف مائل کرسکیں اور اس طرح شہوت رانی، فحشا اور فلموں میں لا کر زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کا وسیلہ بنا سکیں اس طرح خاندان کو جو ہر انسان کی تشخص  برقرار رکھنے کا ایک شرافت مندانہ وسیلہ تھا، درہم برہم کردیا گیایہاں نمونے کے طور پر کچھ نام نہادترقی یافتہ اور متمدن ممالک کا تذکرہ کریں گے:

روس

اعداد وشمار کے مطابق روس میں پچاس فی صدناجائز بچےّ پیدا ہوتے ہیںعورتیں اپنے بچوّں سے نفرت کرنے لگتی ہیں1980 کے اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ ہزارعورتیں شراب کا نشہ کرتی ہیں1990ع کے اعداد وشمار کے مطابق سالانہ تین لاکھ سے پانچ لاکھ خواتین جنسی تجاوزات کا شکار ہوتی ہیں

۱۷۲

امریکہ

کچھ سال پہلے کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں تین لاکھ لڑکیاں جو اٹھارہ سال سے کم عمر والی ہیں اور ہر تیسری عورت، تجاوز کا شکار ہوتی ہےاور ناجائزجنسی ملاپ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہزاروں عورتیں اور مرد ہر سال لقمۂ اجل بنتے ہیںاس طرح چند سالوں کے دوران اٹھارہ ملین بچے سقط کرکے قتل کردیے گئے(1)

انگلستان

انگلستان نے اعلان کیا کہ ہر ہفتہ پچاس حاملہ لڑکیاں جو چودہ سال سے کمتر عمر والی ہیں،حمل گرادیتی ہیں ایک اعلامیہ کے مطابق ہر تیسری شوہر دار خاتون نے اجنبی مرد کیساتھ دوستی قائم کی ہوئی ہے

جاپان

جاپان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو پانچ لاکھ فاحشہ عورتوں کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےاقوام متحدہ نے گزارش دی ہے کہ سالانہ دنیا کی اسّی ملین خواتین  نہ چاہتے ہوئے حاملہ ہوتی ہیں(2)

تھائلینڈ

ہفتہ وار مجلہ اشپیگل یکم جولائی 1985ع کی ایک گزارش کےمطابق دلالوں کے ذریعے تھائلینڈ کے فقیر دیہاتوں سے دوشیزہ جوان لڑکیوں کو ظاہرا خدمت گزاری لیکن درحقیقت فاحشہ گری کے لئے ایک ہزار مارک میں فروخت کی جاتی ہیں جو بنکاک اور ہانگ کانگ،جاپان اور جرمن کے نائٹ کلبز میں لائی جاتی ہیں بنکاک پولیس کے ایک اعداد وشمار کے مطابق تھائلینڈ سے سولہ ہزار عورتیں اور لڑکیاں دوسرے ممالک میں صادر ہوتی ہیںان میں سے مغربی جرمنی میں تین ہزار درامد ہوتی ہیںجہاں پر قانونی طور پر

--------------

(1):- اخبار جمہوری اسلامی831364 

(2):- فقہ و حقوق، ج3، ص18

۱۷۳

ایجنسیاں پائی جاتی ہیں جن کا کام فاحشہ عورتوں اور لڑکیوں کو ملک میں وارد کرنا ہےبہت سے لوگ ان ایجنسیوں کے ہاں رجوع کرتے ہیں اور لڑکیوں یا عورتوں کو خریدنے کے بعد انہیں بازاروں میں بیجتے  ہیں، تاکہ بدن فروشی کرکے مالک کا اقتصاد بحال کیاجائے

مغربی جرمنی

صرف مغربی جرمنی میں دوہزار کمپنیاں موجود ہیں جو عورتوں اور لڑکیوں کو خریداروں کے لئے فراہم کرتی ہیںاور پانچ ہزار سے بارہ ہزار تک عورتیں اور لڑکیاں تیار رکھتی ہیںہر مہینہ میں تین ہزار کے قریب عوتوں اور لڑکیوں کا معاملہ ہوتا ہے(1)

افسوس کا مقام  ہے کہ اج بھی ازادی کے نام سے عورتوں کی یہ درد ناک حالت باقی ہے اور خود عورتیں بھی اسے ازادی سمجھ کر بہت خوش ہیں

خداتعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ جناب زینب (س) کی لٹی ہوئی چادر کا واسطہ ہماری ماں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی چادر اور پردے کی حفاظت کرنے کی توفیق  اور باپ بیٹوں اور بھائیوں کو غیرت ناموس عطا فرما

                                     امین یا ربّ العالمین

--------------

(1):- حجاب و ازادی، ص137 

۱۷۴

فہرست منابع

 قران کریم

1.  ابن ابی الحدید؛شرح نہج البلاغہ،مؤسسہ اسماعیلیاں،قم

2.  ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة ،دار سید الشہداء للنشر،

3.  ابن شعبہ، حسن بن علی- جنتی، احمد، قرن 4 تحف العقول / ترجمہ جنتی ناشر: مؤسسہ امیر کبیرتہران

4.  ابن ہشام؛  سیرة النبی،صیدا مکتبہ عصریہ، بیروت 1419ھ

5.  ابی محمد الحسین؛  التہذیب فی فقہ الامام الشافعی،دارالکتب العلمیہ، بیروت

6.  احمدی ؛حبیب اللہ ؛ فاطمہ الگوی زندگی، چ1،قم، 1374ش

7.  انجمن اولیاء مربیان؛  مجموعہ مقالات، انجمن ہای کشور، تہران، 1373ش

8.  اثار الصادقین،

9.  استانہ حضرت معصومہ ؛  فرہنگ کوثر، ش54،سال6،1382ش

10. بہاء الدین خرمشاہی- مسعود انصاری ؛پیام پیامبر,ناشرمنفرد,تہران سال1376

11. بھشتی؛ڈاکٹر احمد ؛ خانوادہ در قران، چ2، دفتر تبلیغات، قم، 1377ش

12. پایندہ، ابو القاسم نہج الفصاحة( مجموعہ کلمات قصار حضرت رسولﷺ)، ناشر دنیای دانش 1363

13. توسیر کانی ؛محمد بن احمد ؛  لئالی الاخبار، مکتبہ محمدیہ، قم، 1300

14. جمعی ازنویسندگان؛شخصیت و حقوق زن در اسلام،جشنوارہ شیخ طوسی،قم،1383

۱۷۵

15. حر عاملی؛  وسائل الشیعہ ، مؤسسہ ال البیت، قم،1414ھ

16. ڈاکٹر پیام اعظمی، والفجر، تنظیم المکاتب، لکھنؤ،ہندوستان،۱۹۹۸

17. رضی الدین حسن بن فضل ؛ طبرسی، مکارم الاخلاق، انتشارات شریف رضی قم، 1412

18. سپہری ؛محمد؛ ترجمہ و شرح رسالۃ الحقوق، انتشارات دارالعلم،قم ۱۳۸۰ھ

19. سجادی ؛محمد تقی ؛  سیری کوتاہ درزندگی فاطمہ، انتشارات نبوی، 1374ش

20. سید ابن طاؤس م۶۶۴، ؛اقبال الاقبال، دارالکتب الاسلامیہ،تہران،۱۳۶۷ھ

21. سیدظفر حسن امروھوی؛ تحفۃ الابرار ترجمہ جامع الاخبار،ظفرشمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ،ناظم اباد۲ ،کراچی

22. شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار(للشعیری)، مطبعة حیدریة - نجف، چاپ: اول، بی تا

23. شیخ صدوق محمد بن علی ؛ الخصال، جامعہ مدرسین، قم ۱۴۰۳ھ

24. شیخ صدوق محمد بن علی ؛ من لایحضرہ الفقیہ،بیروت، 1413ھ

25. شیخ طوسی م۴۶۰ھ؛تہذیب الاحکام،دارالکتب الاسلامیہ،تہران،۱۳۶۵

26. شیخ کلینی ؛ یعقوب؛  کافی  و فروع کافی ، دارالمکتبہ اسلامیہ،چ3، 1388ھ

27. شیرازی ؛ناصر مکارم ؛ تفسیر نمونہ، قم

28. صادق احسان بخش؛  نقش دین در خانوادہ، چ2، رشت، 1374ش

29. طباطبائی؛ محمد حسین ؛  تفسیر المیزان، جامعہ مدرسین، قم

30. طبرسی؛ رضی الدین ؛  مکارم الاخلاق، منشورات شریف رضی، 1392ھ

31. عبداللہ شبّر ؛ جلاء العیون، مطبعة الحیدریہ، نجف، 1374ھ

32. علی اکبر رشاد؛  دانشنامہ امام علی، فرہنگ اندیشہ اسلامی، تہران، 1380ش

۱۷۶

33. علی ثقفی ؛  فاطمہ نور الٰہی،انتشارات ہادی، چ1،1377ش

34. علی شریعتی؛  فاطمہ فاطمہ است، حسینیہ ارشاد، تہران،1350ش

35. فیض کاشانی،محمد محسن؛محجة البیضاء،ترجمہ اسداللہ ناصح،تہران،۱۳۴۶ 

36. فیض کاشانی؛ وافی، مکتبہ امیرالمؤمنین، اصفہان،115ھ

37. قربانی؛ زین العابدین؛  اسلام و حقوق بشر، نشر فرہنگ اسلامی، 1367ش

38. قزوینی ؛سید کاظم ؛  فاطمہ ولادت تا شہادت، نشر مرتضی 2375ھ

39. کمرہ ای ؛میرزا خلیل ؛ ملکہ اسلام فاطمہ الزہراء ، مؤلف، 1348ش

40. گروہی؛  فقہ و حقوق، جشنوارہ شیخ طوسی، قم،1379ش

41. مجلسی ؛محمد تقی ؛ روضة المتقین؛ بنیاد فرہنگ اسلامی، نیشاپور

42. مجلسی؛  محمد باقر  ؛ بحار الانوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت لبنان، 1403ھ

43. مجموعہ سخنرانی ؛  حجاب وازادی، سازمان تبلیغات اسلامی

44. مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل

45. محلاتی ؛ذبیح اللہ؛  ریاحین الشریعہ، دار الکتب اسلامیہ،تہران، 1349

46. محمد حسین نجفی؛  جواہر الکلام، مکتبہ اسلامیہ، تہران،1395ھ

47. مصباح یزدی؛محمدتقی ؛نظریہ حقوق اسلام، مؤسسہ اموزش امام خمینی،قم،1380

48. مصطفوی؛ سید جواد؛ بہشت خانوادہ، دارالفکر، قم، ۱۳۷۷ش

49. مؤسسہ؛  محمد خاتم پیغمبران؛مؤسسہ حسینیہ ارشاد، تہران، 1347ش

50. ناصری؛علی اکبر؛ حقوق اسلامی، شرکت سہامی طبع کتاب، تہران، ۱۳۸۴ھ

۱۷۷

51. نجفی یزدی ؛ سید محمد ؛ اخلاق و معاشرت، سازمان تبلیغات اسلامی،قم 1373

52. نراقی،محمد مھدی؛جامع السعادات، ترجمہ کریم فیض ،قائم ال محمد،قم،۱۳۸۸

53. نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ،ج 28، مؤسسة ال البیت ؑ ،قم،چ۱، 1408ق

54. نوری ؛یحی ؛ حقوق زن در اسلام و جہاں،مؤسسہ فراہانی، گیلان، 1343ش

55. نوری طبرسی ؛ میرزا حسین ؛مستدرک الوسائل، مؤسسہ ال البیت،1408ھ

56. واحد خواہران؛  فاطمہ گل واژۂ افرینش، دفتر تبلیغات اسلامیقم، 1368ش

۱۷۸

فہرست

کلیات. 3

حقوق کیا ہیں؟ 3

پیدائش حقوق کی وجوہات: 4

حقوق کے ماخذ 5

1:-قران مجید 5

2:-سنت. 6

3:-اجماع. 6

4:-عقل. 6

خاندان کی تعریف.. 8

خاندان کی ضرورت. 9

تشکیل خاندان کے اداب. 10

۱۷۹

خاندان تشکیل دینے کے تین اصول. 12

شوہر اور بیوی کا باہمی عشق و محبت. 12

خاندان میں مرد کا احساس ذمہ داری. 13

دوام زندگی اور اس کی حفاظت. 14

ایہ شریفہ میں مودت سے کیا مراد ہے ؟ 15

پہلی فصل. 16

والدین پر بچوّں کی ذمہ داریاں. 16

اولاد کی تعریف.. 16

اولاد صالح باقیات الصالحات ہیں. 19

تربیت اولاد کے لئے زمینہ سازی. 19

پیدائش سے پہلے 20

اولاد کے لئےباایمان ماں کاانتخاب. 20

۱۸۰