اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 164764
ڈاؤنلوڈ: 4642

تبصرے:

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164764 / ڈاؤنلوڈ: 4642
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے علی ابن ابی طالب (ع) کونصیحت کی اور فرمایا: یا علی ! جب دلہن اپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں جب اپ ایسا کروگے تو خدا تعالیٰٰ ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو اپ کے گھر سے دور کرے گا، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي اسْبُوعِهَا مِنَ الْالْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْارْبَعَةِ الْاشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللهِ وَ لِايِّ شَيْ‏ءٍ امْنَعُهَا هَذِهِ الْاشْيَاءَ الْارْبَعَةَ قَالَ لِانَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْارْبَعَةِ الْاشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَاةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ اذَا حَاضَتْ عَلَ ی الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ ابَدا بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (1)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ،دھنیا اور ترش سیب  کھانے سے منع کریں امیر المؤمنین(ع) نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور بانجھ ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بانجھ عورت سے بہتر ہےپھر امیرالمؤمنین(ع)نے سوال کیا: یا رسول اللہﷺ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض اجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگیاور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتا ہےاور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتا ہے

--------------

(1):- من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱

۲۱

اداب مباشرت

اپ(ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ  اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا  گیا ہے چنانچہ ان اداب کا خیال  کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو مجھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے اپنے بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ فِي اوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ اخِرِهِ فَانَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ الَيْهَا وَ الَ ی وَلَدِهَا (1)

 اے علی(ع)! مہینے کی پہلی،درمیانی اور اخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا

بعد از ظہر مباشرت ممنوع:

 يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَانَّهُ انْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ احْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْانْسَانِ (2)

 اے علی(ع)! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد  ہوگا اور شیطان انسانوں میں  نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے

---------------

(1):- مکارم الاخلاق،ص129

(2):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

۲۲

مباشرت کے وقت باتیں کرنا ممنوع

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَانَّهُ انْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ انْ يَكُونَ اخْرَسَ

اے علی(ع) ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو اگر اس  دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ  گونگا ہوگا

شرم گاہ کو دیکھنا ممنوع:

 وَ لَا يَنْظُرَنَّ احَدٌ الَ ی فَرْجِ امْرَاتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَانَّ النَّظَرَ الَ ی الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَ ی فِي الْوَلَدِ (1)

 اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا

اجنبی عورت کا خیال ممنوع

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَاةِ غَيْرِكَ فَانِّي اخْشَی انْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ انْ يَكُونَ مُخَنَّثا اوْ مُؤَنَّثا مُخَبَّلًا

اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ انے پائےمجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنیٰس پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بانجھ ہوگی

جنابت کی حالت میں قران پڑھنا ممنوع

يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُبا فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَاتِهِ فَلَا يَقْرَا الْقُرْانَ فَانِّي اخْشَ ی انْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَن (2)

--------------

(1):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

(2):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

۲۳

 اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کے بعد حالت جنب میں قران کی تلاوت  نہ کرے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ان دونوں پر اسمان سے اگ برسے، اس  کتاب کے مصنف فرماتے ہیں  اس سے مراد صرف واجب سجدے والے سورے ہیں(1)

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ الَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ اهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَ ی الشَّهْوَةِ فَانَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا الَ ی الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ (2)

 اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھیںایک ہی تولیہ سے صاف نہ کریں کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالاخر جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے

کھڑے ہوکر مباشرت ممنوع

یا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ مِن قِيَامٍ فَانَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَانْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ (3)

 اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا

--------------

(1):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

(2):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

(3):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۵۵۱

۲۴

 شب ضحی کو مباشرت نہ کرو

 يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَاتَكَ فِي لَيْلَةِ الْاضْحَ ی فَانَّهُ انْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ اصَابِعَ اوْ ارْبَعُ (1)

 اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کریں تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی

مضطرب حالت میں نہ ہو

امام حسن مجتبی(ع) فرماتے ہیں:اگر ارام، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا، لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو  ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت  میں پیدا ہوگا(2)

جب ایک عورت نے پیغمبر(ص)کی خدمت میں اکر عدالت الٰہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا،میرے بیٹے اور میرےشوہر کا کیا قصور تھا؟اپ(ص)نے کچھ فکر کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس اتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا: ہاں  ایسا ہی تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں تھاتو اس وقت فرمایا: بس تم اپنے اپ  پر ملامت کروکیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہےیہ تو جسمانی تأثیر ہے

روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ انَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَاتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا افْلَحَ ابَدا انْ كَانَ غُلَاما كَانَ زَانِيا اوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة (3)

--------------

(1):- بحارالانوار

(2):- وسائل  الشیعہ  ج۲۰، ص۱۳۳،الکافی ،ج۵، ص۵۰۰

(3):- طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴

۲۵

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی

ہم فکراور ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہواور ایمان و عمل کے لحاظ  سے  برابر اور مساوی ہو ایک شخص نے امام حسن(ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں رائے  مانگی تو اپ نے فرمایا:

جَاءَ رَجُلٌ الَ ی الْحَسَنِ ع يَسْتَشِيرُهُ فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ فَقَالَ زَوِّجْهَا مِنْ رَجُلٍ تَقِيٍّ فَانَّهُ انْ احَبَّهَا اكْرَمَهَا وَ انْ ابْغَضَهَا لَمْ يَظْلِمْهَا (1)

 اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا

بچےّ کے لئے باایمان ماں کاانتخاب

اپ نے فرمایا: اپنے نطفوں  کے لئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو کیونکہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری خصوصا ماں کی خصوصیات کیونکہ بچےّ کا پورا وجود ماں کے بدن کا حصہ ہے،حاملہ ماں جو چیز بھی کھاتی ہے اسی کا شیرہ بچےّ کے لئے دودھ کی شکل میں میسر ہوتا ہے  اگر ماں اچھی اور پاک غذا کھائے تو بچےّ پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور اگر ماں ناپاک اور حرام غذا کھائے تو بچےّ پر بھی اس کا برا اثر ضرور پڑے گا جس طرح جسمانی اثرماں سے بچےّ میں منتقل ہوتی ہے اسی طرح روحانی اثرات جیسے ایمان، عمل، پرہیزگاری، اہل بیت کی محبت اور مودت، نماز اور روزہ کے پابند ہونا  وغیرہ  اگر یہ خوبیاں بچےّ میں موجود ہوں تو اس ماں کے لئے دعا ئیں دینا چاہئے چنانچہ روایت میں ہے:

--------------

(1):- من‏لايحضره‏الفقيه، ج3 ،ص493،باب تاديب الولد و امتحانه

۲۶

وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْانْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْانْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ ابَ ی فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْانْصَارِ ادِّبُوا اوْلَادَكُمْ عَلَ ی حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ ابَ ی فَانْظُرُوا فِي شَانِ امِّهِ (1)

جابر بن عبداللہ انصاری مدینہ میں سارے انصارے کے ٹھکانوں کا چکر لگاتے اور فرماتے تھے علی خیر البشر ہیں اور جس نے بھی ان سے روگردانی کی وہ کافر ہوا،اے انصارو! اپنی اولاد میں محبت علی(ع)  پیدا کریں اور جس نے بھی محبت سے انکار کیا تو اس کی ماں کا جائزہ لو 

اسی لئے حضرت زہرا (س)کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کروتاکہ ابوالفضل(ع) جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن(ع) جب متولد ہوئے تو پیغمبر اسلام(ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھیاور علی (ع)سے فرمایا:

يَا عَلِيُّ اذَا وُلِدَ لَكَ غُلَامٌ اوْ جَارِيَةٌ فَاذِّنْ فِي اذُنِهِ الْيُمْنَ ی وَ اقِمْ فِي الْيُسْرَ ی فَانَّهُ لَا يَضُرُّهُ الشَّيْطَانُ ابَدا (2)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہو تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکےاور فرمایا:

من ساء خلقه فَاذِّنْوه فِي اذُنِهِ (3)

اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو

--------------

(1):- تحف العقول،ص16

(2):- محاسن برقی ج2،ص424

(3):- مجمع البحرین، ص 590    

۲۷

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکا ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہےماں کے دل کی دھڑکن جو بچےّ کے لئے دنا  میں انے کے بعد ارام کا سبب بنتی ہےجب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصا بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہےاسی لئے اگر ماں حاملگی کے دوران قران سنا یا پڑھا کرے تو بچےّ میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی اس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں:

قم مقدس میں ایک قرانی جلسہ میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ اپ کے خیال میں کیا سبب بنا کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قران بنا؟

توکہا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قران کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہےخود سید مرتضی (رح)فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح) کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھے ہوئے ہیںجب اپنی مادر گرامی کے پاس اکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگیں: درست ہے جب اپ گہوارے میں تھے اس وقت اپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے یہی ماں تھی کہ جب  ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا: اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح) کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ اپ حسن و حسین (ع) کے ہاتھوں کو پکڑ کے اپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں: اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دوجب خواب سے بیدار ہوئے تو بڑی پریشان حالت میں، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضیؓ اور مرتضیؓ کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں: جناب شیخ ! اپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں

۲۸

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک یہودی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤںمیں نے وجہ دریافت کی  تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوںاور جب بھی اذان کی اواز اتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوںمیں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا: درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں ایا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑھی تھی(1)

دودھ کی تأثیر

بچےّ کی شخصیت بنانے میں ماں کے دودھ کی بڑی تاثیر ہےاسی لئے امام المتقین ؑنے فرمایا:

فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ عليه (2)

دیکھ لو کون تمہاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچےّ کی پرورش اسی پر منحصر ہے

قَالَ يَا امَّ اسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ ارْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ احَدُهُمَا طَعَاما وَ الْاخَرُ شَرَابا (3)

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: اے ام اسحاق بچےّ کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے  

بچےّ اور کھیل کی ضرورت

نفسیاتی ماہرین معتقد ہیں کہ بچوّں کی زندگی میں کھیل کود کا بڑا کردار ہے وہ کھیلوں کے دوران زندگی کی نشیب و فراز،احساسات اور عواطف کو سیکھتے اور تجربہ حاصل کرتے ہیں ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے بچےّ اہستہ اہستہ کھیل کی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف اتے ہیں:

--------------

(1):- وسائل،ج21،ص453

(2):-وس ائل،ج21،ص453(3):- الك افي،ج6، ب اب ت اديب الولد، ص : 46

۲۹

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ الْغُلَامُ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ يَتَعَلَّمُ الْكِتَابَ سَبْعَ سِنِينَ وَ يَتَعَلَّمُ الْحَلَالَ وَ الْحَرَامَ سَبْعَ سِنِينَ (1)

 امام صادق (ع)نے فرمایا: بچہ سات سال تک کھیل کود میں مشغول رہے،اس کے بعد سات سال اسےلکھنا پڑھنا سکھاؤ اور اس کے بعد سات سال زندگی کے قواعد و مقررات جیسے حلال و حرام سکھاؤ

اسی طرح دوسری حدیث میں فرمایا:

دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ الْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَانْ افْلَحَ وَ الَّا فَانَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ (2)

امام صادق (ع)  فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک ازاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے، دوسرے سات سال اسے ادب سکھاؤ پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادو اگر وہ اچھا انسان بن جائے تو ٹھیک ورنہ وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جن میں کوئی اچھائی موجود نہیں

قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيما فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي انْ يَكُونَ الَّا هَكَذَا (3)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام موسی کاظم  (ع)کوفرماتے ہوئے سنا:اپنے بچوّں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں، اس کے بعد فرمایا: اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں درج ذیل روایات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہراء(س) کس قدر بچوّں کی نفسیاتی مہارت کے ساتھ تربیت کرتی تھی کہ حسن مجتبیٰ (ع)کو اچھالتی ہوئی ایسا شعر  کہہ رہی تھی کہ جو بچےّ کی انے والی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  بہت مؤثر  ہوسکتا ہے:

--------------

(1):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه،ج3،ص492، ب اب ت اديب الولد و امتح انه

(2):-الك افي،ج 6،ص 51،ب اب التفرس في الغل ام و م ا يستدل به

(3):- بحار،ج100، ص197

۳۰

اشبه اباك يا حسن   و اخلع عن الحَّقَ الرَّسَنَ

وَ اعْبُدْ الها ذالمِنَنِ           و لا تُوال ذالاحَنٍ

 اے میرے بیٹے حسن ! اپنے بابا علی(ع) جیسا بن کرظلم کی رسی کو حق کی گردن سے اتار دو مہربان خدا  کی عبادت کرو  اور بغض و کینہ دل میں رکھنے والے افراد سے دوستی نہ کرو اس کے بعد امام حسین (ع) کو ہاتھوں میں اٹھاتی اور فرماتی:

انتَ شَبيهّ بَابي     لَستَ شبيها بِعَليٍّ

میرے بیٹے حسین ! تو میرے بابا  رسول اللہﷺ سے شباہت رکھتے ہو نہ تیرے بابا علی(ع) سے یہ باتیں علی (ع)سن کر مسکرا رہے تھے

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوّں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگاکیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، چنانچہ امام حسین(ع)نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی تو امام نے فرمایا:

قد ملئت بطونکم من الحرام

تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتیپس جو ماں باپ اپنے  بچوّں کو لقمہ حرام کھلائیں وہ بچوّں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں

۳۱

بچےّ کی کفالت

قَالَ الصادق: انَّ رَسُولَ اللهِ ص بَلَغَهُ انَّ رَجُلًا مِنَ الْانْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ انَّهُ اعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ امَا انِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ اهْلِ الْاسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَارا يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ (1)

امام صادق(ع) سے مروی ہے کہ اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایااور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوّں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا، جو لوگوں سے بیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے جب یہ خبر رسول خدا (ص) تک پہنچی تو اپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا: اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیاپیغمبر(ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتاکیونکہ اس نے اپنے بچوّں کو دوسروں کا دست نگر بنا دیا

بچوّں کا احترام

بچوّں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤقران بچوّں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ائمہ(ع)  کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہےایک دن امام حسین(ع) نماز کے دوران پیغمبر اسلام(ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسول خدا(ص)نے انہیں نیچے اتاراجب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئےیہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا اپ اپنے بچوّں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتےتو اپ(ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے اتے تو تم بھی اپنے بچوّں سے اسی طرح محبت کرتے، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(2)

--------------

(1):- بحار،ج10، ص 83

(2):- شرح ابن ابی الحدید،ج11،ص19

۳۲

امام حسن مجتبیٰ(ع)اور بچوّں کا احترام

ایک مرتبہ اپ کا گزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچےّ کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے امام  کو بھی دعوت دی، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا پھر سارے بچوّں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا:

ان بچوّں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(1)

امام زین العابدین (ع)اور بچوّں کا احترام

امام زین العابدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی  لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا: کیونکہ صفوں میں بچےّ بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کا خیال کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی

علی (ع)اور یتیم  بچےّ

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچےّ کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کے لئے اس کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے، لیکن یتیمی کی یتیم پر اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المومنین اپنے گٹھنہ ٹیک کر بھیڑ کی اوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچہ مسکرانے لگا، جب کسی نے دیکھا توکہنے لگا مولا ! یہ اپ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ حکومت اسلامی کاایک سربراہ  چوپائیوں کی اوازیں نکالے! تو میرے مولا نے فرمایا:  کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج2،ص474، ب اب استحب اب مسح ر اس اليتيم ترحم

۳۳

ایک یتیم کی کفالت کاثواب

پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہومزید فرمایا:

انَّهُ قَالَ انَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ اشَارَ بِاصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَ ی (1) وَ مَنْ مَسَحَ يَدَهُ بِرَاسِ يَتِيمٍ رِفْقا بِهِ جَعَلَ اللهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ بِكُلِّ شَعْرَةٍ مَرَّتْ تَحْتَ يَدِهِ قَصْرا اوْسَعَ مِنَ الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا وَ فِيهَا مَا تَشْتَهِي الْانْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاعْيُنُ وَ هُمْ فِيهَا خَالِدُون‏ (2)

 اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگااور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالیٰٰ اس کے لئے ہربال کے بدلے جو اس کے ہاتھوں سے چھوئے، بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی انکھ نے دیکھا ہوگا اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع)ایک دن دوش نبی پر سوار تھے کوئی اکر کہنے لگا: اے حسن مجتبی (ع)!کتنی خوبصورت اپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا: اسے نہ کہو  کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو  کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے

بچوّں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوّں کو پیار و محبت دیا کریںرسول خدا(ص) ایک دن اپنے بچوّں کو زانو پر اٹھایا پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا ادمی وہاں پہنچا اور کہامیرے دس بیٹے ہیں

--------------

(1):-بح ار ال انو ار،ج 8،ص179، الجنة و نعيمه ا رزقن ا الله

(2):- بحار،ج10، ص84

۳۴

لیکن اج تک میں نے کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیاہےیہ سن کر اپ(ص) سخت ناراض ہوگئےاور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیااور فرمایا:من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا اور تیرے دل سے رحم  نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!ایک دفعہ جب اپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی(ع) کندھوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو اپ نے فرمایا:حسن میرے کندھے پر سوار ہوئے تھے اور میں انہیں اتارنا نہیں  چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اتر اتے(1)

بچوّں کو ا حترام کی یقین دہانی

 اگر ماں باپ بچوّں کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے  اورنہ ان کی باتیں سنیں گےاگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچےّ ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوّں کے لئے احترام کے قائل ہوں اور ان سے مشورت مانگیں،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں  ہمارے لئے قران مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع)جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچےّ سے مشورہ کرتے ہوئے  فرماتے ہیں: بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوّں سے مہرومحبت کا اظہار

تمام ماہر نفسیات معتقد ہیں کہ بچےّ ماں باپ کی مہر ومحبت کا شدیدمشتاق ہیں  والدین کو چاہئے کہ ان کے ساتھ ارتباط پیدا کریں اور ان کی ضروریات پوری کریں روحانی سکون پہنچائیں اور گود میں اٹھا کر،کبھی زانو پر بٹھا کر، کبھی ہدیہ دے کر، کچھ اوقات ان کے ساتھ گزار کر، سینہ پر سوار کرکے، اور کبھی مہر و محبت سے پر باتیں کرکے ان کے ساتھ محبت کا اظہار کریں، جس سے ان کی سوچ اور فکر کی تربیت ہوتی ہے

--------------

(1):-میز ان الحکمة،ج10،ص70

۳۵

جناب فاطمہ (س)بھی اپنی اولاد کے ساتھ زیادہ اظہار محبت کیا کرتی تھی یہاں تک کہ اپ کی رحلت نزدیک تھی تو حضرت علی ؑکے لئے وصیت فرماتی ہیں کہ میرے بچوّں کے لئے  کوئی ایسی ماں تلاش کرو جو ان سے محبت کرتی ہوںتاکہ میری اولاد ماں کی محبت سے محروم نہ ہوں (1)

فاطمہ(س) نے اپنی اولاد کی محبت کو اللہ تعالیٰٰ کے ساتھ معاملہ کیا  جب پیغمبر اکرم ﷺ نے اپ کو امام حسین (ع)کی شہادت کی خبر دی اور واقعہ کربلا کی تشریح کی تو جناب فاطمہ (س) نے کلمہ استرجاع کا ورد کیا اور روتے ہوئے فرمایا:« يا ابه ! سلّمت و رضيت و توكلت علي الله » بابا جان مجھے قبول ہے اور میں اس پر راضی ہوں اور اللہ تعالیٰٰ پر توکل کرتی ہوں اور یہ مسلمات میں سے ہے کہ جو اپنی ساری محبت کو اللہ تعالیٰٰ کی رضایت کی خاطر نذر کرے  تو اللہ تعالیٰٰ بھی ان کی محبت کو اپنی محبت اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دے گاچنانچہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

 ان الله يغضب لغضبها

فاطمہ(س) کا بچوّں سے اظہار محبت

تَقُولُ لِوَلَدَيْهَا ايْنَ ابُوكُمَا الَّذِي كَانَ يُكْرِمُكُمَا وَ يَحْمِلُكُمَا مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ ايْنَ ابُوكُمَا الَّذِي كَانَ اشَدَّ النَّاسِ شَفَقَةً عَلَيْكُمَا فَلَا يَدَعُكُمَا تَمْشِيَانِ عَلَ ی الْارْضِ وَ لَا ارَاهُ يَفْتَحُ هَذَا الْبَابَ ابَدا وَ لَا يَحْمِلُكُمَا عَلَ ی عَاتِقِهِ كَمَا لَمْ يَزَلْ يَفْعَلُ بِكُمَا (2)

رسول گرامی کی رحلت کے بعد ، حضرت زہرا (س) اپنے بچوّں کو نانا کا پیار و محبت  سے محروم ہونے پر کبھی کبھی حزن اور اندوہ کیساتھ یوں مخاطب کرتی تھیں: کہاں گئے اپ کے نانا جو تم لوگوں سے بہت پیار کرتے،اپنے دوش پر سوار کراتے،اور ہمیشہ اپنے گود میں اٹھاتے تھے؟ہائے افسوس میں انہیں تم لوگوں کواپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے  کبھی نہیں دیکھ پاؤں گی

--------------

(1):-من اقب ابن شهر اشوب ، ص362

(2):- بحارالانوار ، ج 43 ، ص181

۳۶

بچوّں سے اظہار محبت کا ثواب

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص اذَا نَظَرَ الْوَالِدُ الَ ی وَلَدِهِ فَسَرَّهُ كَانَ لِلْوَالِدِ عِتْقُ نَسَمَةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ سِتِّينَ وَ ثَلَاثَمِائَةِ نَظْرَةٍ قَالَ اللهُ اكْبَرُ (1)

 رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ وہ باپ جو اپنی اولاد کو مہر و محبت کی نگاہ سے دیکھے اور اسے محبت کیساتھ نصیحت کرے اور اسے خوش کرے تو اللہ تعالیٰٰ اسے ایک غلام ازاد کرنے کا ثواب عطا کرتا ہے

اغلب کسان کہ پردہ حرمت دریدہ اند             در کوکی محبت مادر ندیدہ اند

زیادہ تر وہی بچے  گھریلو حالات کا خیال نہیں رکھتے  جنہیں بچپنے میں ماں کی محبت نصیب نہیں ہوئی ہو

بچوّں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھےاگر میں کوئی بات کرتا تو ٹوک دیتے تھے مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھےاگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے تھے اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے تھے اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوتا اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگاںاور اپنے اپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگاراب جبکہ میں بڑا ہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیںاگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں  بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ الْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعا فَانْ افْلَحَ وَ الَّا فَانَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ (2)

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج15 ،ص169 ، ب اب جملة من حقوق ال اول اد

(2):- وسائل الشیعہ  ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی ،ج۶، ص۴۶

۳۷

اسی لئے امام باقر ؑنے فرمایا:بچےّ کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو  اور ان سے بھی مشورہ لیا کرواگر بچےّ احساس حقارت کرنے لگیں تو نہ وہ تعلیمی میدان میں اگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں

ایک بچی کہتی ہے کہ:میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھیایک دفعہ  امتحانات میں کم نمبر انے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کیا تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !اس کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گیماں نے کہا یہ ایسی ہی ہےمیری خالہ نے ماں سے اجازت لے کر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئیمیری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھیاس کے ساتھ امتحان کی تیاری شروع کی تو مہری حسب سابق first اور میں third  ائیجس پر مجھے خود یقین نہیں ارہا تھا

بچوّں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچےّ کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دیںاگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو اپ اسے  مجبور نہ کریں، بلکہ دیکھ لیں کہ کس شعبے میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے

بہزاد نامی ایک شخص تھاجو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا تھالیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر اتا تھاایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنا چاہابہزاد نے خاموشی کے ساتھ اس کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی  جو درخت پر بیٹھا ہے جب اس  ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہےاس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہےاس شعبے سے ان کو لگاؤ اوردلچسپی ہےاسے نقاشی  کی کلاس میں بھیج دوانہوں نے ایسا ہی کیا جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دنار میں مشہور ہوا(1)

--------------

(1):- جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص11

۳۸

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر اپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو اپ اس کی تحقیر نہ کریں کیونکہ خدا تعالیٰٰ نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہےممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہنایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسیںو  

ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھامیں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ وغیرہ)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق شروع کی تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سا کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلاتا ہے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہےاسی تشویق کا نتیجہ  تھا کہ جنگلی اور وحشی جانوریں بھی اپنے مالک کی ہر بات ماننے کے لئے تیاردکھائی دیتے ہیں

 بچوّں کے درمیان عادلانہ قضاوت

 انَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ كَانَا يَكْتُبَانِ فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْحُسَيْنِ خَطِّي احْسَنُ مِنْ خَطِّكَ وَ قَالَ الْحُسَيْنُ لَا بَلْ خَطِّي احْسَنُ مِنْ خَطِّكَ فَقَالَا لِفَاطِمَةَ احْكُمِي بَيْنَنَا فَكَرِهَتْ فَاطِمَةُ انْ تُؤْذِيَ احَدَهُمَا فَقَالَتْ لَهُمَا سَلَا ابَاكُمَا فَسَالَاهُ فَكَرِهَ انْ يُؤْذِيَ احَدَهُمَا فَقَالَ سَلَا جَدَّكُمَا رَسُولَ اللهِ ص فَقَالَ ص لَا احْكُمُ بَيْنَكُمَا حَتَّی اسْالَ جَبْرَئِيلَ فَلَمَّا جَاءَ جَبْرَئِيلُ قَالَ لَا احْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ اسْرَافِيلَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ اسْرَافِيلُ لَا احْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ اسْالُ اللهَ انْ يَحْكُمَ بَيْنَهُمَا فَسَالَ اللهَ تَعَالَی ذَلِكَ فَقَالَ تَعَالَی لَا احْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ امَّهُمَا فَاطِمَةَ تَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ احْكُمُ [احْكُمْ‏] بَيْنَهُمَا يَا رَبِّ وَ كَانَتْ لَهَا قِلَادَةٌ فَقَالَتْ لَهُمَا انَا انْثُرُ بَيْنَكُمَا جَوَاهِرَ هَذِهِ الْقِلَادَةِ فَمَنْ

۳۹

اخَذَ منهما [مِنْهَا] اكْثَرَ فَخَطُّهُ احْسَنُ فَنَثَرَتْهَا وَ كَانَ جَبْرَئِيلُ وَقْتَئِذٍ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ فَامَرَهُ اللهُ تَعَالَی انْ يَهْبِطَ الَی الْارْضِ وَ يُنَصِّفَ الْجَوَاهِرَ بَيْنَهُمَا كَيْلَا يَتَاذَّی احَدُهُمَا فَفَعَلَ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ اكْرَاما لَهُمَا وَ تَعْظِيما(1)

امام حسن اور امام حسین(ع) بچپنے میں اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مقابلہ کرتے تھےایک دن دونوں نے خوشخطی کا مقابلہ کیا اورمادر گرامی سے عرض کیا اپؑ بتائیں کہ ہم دونوں میں  سے کس کی لکھائی اچھی ہے؟

جناب فاطمہ ؑنہیں چاہتی تھیں کہ کسی ایک کا دل دکھائے، فرمایا:اپ دونوں اپنے بابا کو دکھائیںجب دونوں نے عرض کیا :بابا اپ فیصلہ کریں تو امیرالمؤمنینؑ بھی نہیں چاہتے تھے کہ کسی ایک کا دل دکھائے فرمایا:اپنے نانا جان کو دکھائیں  پیغمبر(ص)کے پاس تشریف لائے اور کہا:نانا جان! یہ بتائیں ہم دونوں میں سے کس کی لکھائی اچھی ہے؟

فرمایا: میرے پیارو ! میں جبرئیل سے کہوں گا کہ وہ فیصلہ کرےجبرئیل نے کہا:میں فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ میں اسرافیل سے کہوں گا کہ وہ فیصلہ کرے انہوں نے فرمایا:میں فیصلہ نہیں کروں گا میں اللہ تعالیٰ سے فیصلہ چاہوں گا

اسرافیل نے عرض کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ایا کہ میں فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ ان  کی مادر گرامی فاطمہؑ اس کا فیصلہ کریں گی

جناب فاطمہؑ نے عرض کیا : اے پروردگار تو ہی فیصلہ کر یہ کہہ کر اپناگردن بند جس میں سات موتیاں پروئی ہوئی تھیں کھولا اور فرمایا: بیٹے!میں ان موتیوں کو فرش پر بکھیر دیتی ہوں اور اپ دونوں میں سے جو بھی زیادہ دانے اٹھائیں گے ،انہی کی لکھائی  اچھی ہوگیاس وقت  جبرئیل امین ؑ عرش الٰہی کے زیر سایہ کھڑے تھے ،اللہ تعالیٰ نے حکم دیا :فورا  روئے زمین پر جائیں اور ایک موتی  کو دو حصہ  کریں تاکہ ان دونوں  شہزادوں میں  سے کوئی بھی ناراض نہ ہوں اور جبرئیل امینؑ نے بھی ان کی تعظیم اور تکریم کی خاطر ایسا ہی کیا اور جب فاطمہؑ نے دانے فرش پر گرادیں تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھالئے

--------------

(1):- بحار الانوار،ج۴۳،ص۳۰۹

۴۰