اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 164691
ڈاؤنلوڈ: 4640

تبصرے:

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164691 / ڈاؤنلوڈ: 4640
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسلام ماں باپ سے نیکی کو فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیتا ہے

امام صادق(ع)فرماتے ہیں: ایک دن رسول اکرم(ص) ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کی اپ کی رضاعی بہن وارد ہوئیںانحضرت (ص) نے ان کی شایان شان عزت کی اور انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور ان کے لئے کپڑا بچھا دیا تاکہ اس پر بیٹھیں اور بعد میں ان سے گفتگو میں مشغول ہوگئےکچھ دیر بعد وہ چلی گئیں اور تھوڑی ہی دیر بعد ان کا بھائی جو انحضرت کا رضاعی بھائی تھا حاضر خدمت ہوا لیکن انحضرت (ص)نے اس کے لئے ویسی تعظیم انجام نہ دیحاضرین میں سے ایک نے پوچھا کہ یا رسول اللہ(ص) ! اس فرق کی کیا وجہ تھی حالانکہ یہ شخص مرد ہےاپ (ص)نے فرمایا: اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکی اپنے باپ اور ماں کا زیادہ احترام کرتی ہے(1)

قَالَ ص اذَا كُنْتَ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَانْ دَعَاكَ وَالِدُكَ فَلَا تَقْطَعْهَا وَ انْ دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ فَاقْطَعْهَا (2)

 اگر ماں اواز دے  اورتم مستحب نماز پڑھ رہے ہو تونماز توڑ کر ان کا جواب دو لیکن اگر والد اواز دے تو نماز کی حالت میں جواب نہیں دے سکتے

ایک اور روایت میں فرمایا:

عَنِ الْمُعَلَّ ی بْنِ خُنَيْسٍ عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَ سَالَ النَّبِيَّ ص عَنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ ابْرَرْ امَّكَ ابْرَرْ امَّكَ ابْرَرْ امَّكَ ابْرَرْ ابَاكَ ابْرَرْ ابَاكَ ابْرَرْ ابَاكَ وَ بَدَا بِالْامِّ قَبْلَ الْابِ (3)

--------------

(1):-   جامع السعادات، ج2،ص260

(2):-مستدرك‏ الوس ائل     15،ص 181،ب اب استحب اب الزي ادة في بر ال ام

(3):-وس ائل‏ الشيعة   ،  ج21 ، ص491

۶۱

معلی بن خنیسؓ امام صادق (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول خدا ﷺ کی خدمت میں ایا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں سوال کیا تو  رسول اللہ ﷺ  نے تین بار فرمایا: ماں کے ساتھ نیکی کرو ؛ چوتھی مرتبہ کہا باپ کے ساتھ نیکی کرو:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ جَاءَ رَجُلٌ الَ ی النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ ابَرُّ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ امَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ابَاكَ (1)

چنانچہ ایک جوان پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں ایا اور عرض کیا:یا رسول اللہ (ص)میری ضعیفہ ماں ہے جو حرکت نہیں کرسکتیمیں اسے اپنے دوش پر اٹھا کر ادھر ادھر لے جاتا ہوں، اسے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا ہوں اور جو بھی میری ماں مجھ سے تقاضا کرے اسے پورا کرتا ہوں اسے خوش رکھتا ہوں کیا میں نے میرے لئے ان کی اٹھائی ہوئی زحمتوں کا ازالہ اور حق اداکیا یا نہیں؟ رسول خدا(ص) اس جوان کےحسن سلوک پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا: افرین ہو تجھ پر، لیکن پھر بھی ماں کی زحمتوں کا ازالہ نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ تجھے نو ماہ بڑی مشقتوں کیساتھ پیٹ میں اٹھائی رہی اور جب تم دنیا میں ائے تو ان کے پستانوں سے خوراک حاصل کرتے رہےاور وہ تجھے اپنی اغوش میں لے کر ادھر ادھر پھراتی رہی اور ہمیشہ تیری مدد کرتی رہی اور ہر قسم کی اذیت و ازار سے تیںے  بچاتی رہی، اس کا دامن تیری ارام گاہ تھی اور وہ تیری رکھوالیماں دن رات اس شوق اور ارزو کیساتھ تیری پرورش کرتی رہی کہ تو پلے بڑے اور قدرت مند ہو تاکہ تو اچھی زندگی گزارسکے، لیکن تو! اگرچہ ماں کی اس قدر خوش اسلوبی کیساتھ خدمت کرتے رہے ہو لیکن اس امید اور ارزو کے بغیر! اسلئے  تم ماں کی زحمتوں کا ازالہ اور حق ادا نہیں کرسکتے(2)

اس طرح  کائنات میں  اللہ تعالیٰٰ نےانسانوں کے لئے  ایک مہربان اور دلسوز ہستی کو خلق کیا ہے وہ ماں کی ذات ہے، جن کی توصیف کرنے سے ہماری زبان قاصرہےلہذا میں صرف شاعر اہلبیبؑ جناب رضا سرسوی کےان  اشعار کو [پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے] کے عنوان سےنقل کروں گا، جنہیں امام زین العابدین ؑ کے  کلام  مبارک سے لئے گئے ہیں:

--------------

(1):-الك افي ج۲، ص 159 ب اب البر ب الو الدين ،ص157

(2):- الگوہای تربیت کودکان،ص67

۶۲

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟

موت کی اغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں

تب کہیں جا کر سکون تھوڑا  سا پا جاتی ہے ماں

فکر میں بچوّں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ماں

نوجوان ہوتے ہوئے بوڑھی نظر اتی ہے ماں

اوڑھتی ہے غربتوں کا خود تو بوسیدہ کفن چاہتوں کا پیرہن بچوّں کو پہناتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے  چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہےماں

 جانے کتنی برف سی  راتوں میں ایسا بھی ہوا

بچہ تو چھاتی پہ  ہے، گیلے پہ سوجاتی ہے ماں

اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح 14,5,12,1, ہم کو رٹواتی ہے ماں

گھر سے جب بھی دور جاتاہے کوئی نور نظر

ہاتھ میں قران لے کر درپہ اجاتی ہے ماں

دے کے بچوّں کوضمانت میں رضائے پاک کی

پیچھے پیچھے سرجھکائے دور تک جاتی ہے ماں

کامپتی اواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع  سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں

لوٹ کے جب بھی سفر سے گھرمیں اجاتےہیں ہم

ڈال کے بانہیں گلے میں  سر کو سہلاتی ہے ماں

 وقت اخر ہے اگر پردیس میں نور نظر  اپنی دونوں پُتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں

۶۳

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟

کوئی ان بچوّں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا

مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو    زندگی بھر کا صلہ ایک فاتحہ پاتی ہے ما ں

بعد مرنے کے بھی بیٹے کی خدمت کے لئے    روپ بیٹی کا بدل کر گھر میں اجاتی ہے ماں

گرجوان بیٹی ہو گھر میں اور کوئی رشتہ نہ ہو

ایک نئے احساس کی سولی پہ چڑھ جاتی ہے ماں

شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھ لو

ماں ادھر منہ سے نکلتا ہے ادھر اتی ہے ماں

ماں کی دعا اور اس کی منزلت

مادر! ہستی ام بہ امید دعای توست             فردا کلید باغ بہشتم رضای توست

فارسی ادب کے بڑے نامورشاعر شہریار لکھتے ہیں : اے میری ماں !میرا وجوداج تیری دعاؤں کا امید وار ہے اور کل جنت کی چابی میرے لئے تیری رضاہے

ماں اولاد کی خوشبختی کی ضامن

اولاد اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیںجیسے والدین کا کردار ہوگا وہی اولاد میں بھی منتقل ہوگا اس  مطلب کو شاعر نے اپنے اشعار میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے

ای پدر، ای مادر، من بہ رفتارِ شما می نگرم       عمل و کارِ شما، الگوی رفتارِ من است

۶۴

من چنان می شوم اخر، کہ شما می خواہید             وضعِ من، بستہ بہ رفتارِ شماست

ای پدر، ای مادر، من در ائینہ ی سیمای شما             انچہ اندَر دلتان می گذرد می خوانم

بہتر انست کہ با ہم، ہمہ صادق باشیم             تا نگیرد دلِ من رنگ و ریا

من ہم انسانم و لغزش دارم             با زبان خوشِ خود ذہنِ من اگاہ کنید

تا کہ دیگر نکنم کارِ خطا             ای پدر، ای مادر، با کسی ہیچ قیاسَم نکنید

وضع من، وضعیتِ انان نیست             ای پدر، ای مادر، احتیاجم ہمہ پوشاک و غذا تنہا نیست

من بہ امنیت خاطر، زِغذا محتاجم             دلِ پاکِ من، از این عاطفہ لبریز کنید

شاعر کہتا ہے کہ اے میرے بابا ایے میری ماں! تمھاری رفتار پر میری نظر ہےتمھارا کام اور عمل میرے لئے نموہ عمل ہے میں ویسا بنوں گا جیسے تم چاہتے ہو،لیکن میرا پورا وجود تم سے وابستہ ہےاے میرے بابا اے میری ماں!میں ہمیشہ تمھارے ائینے میں دیکھتا ہوں، جو باتیں تمھارے دلوں میں  اتی ہیں،میں اسے پڑھتا ہوں،اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ صادقانہ زندگی گزاریں تاکہ میرے دل میں ریا کاری رنگ نہ پکڑے؛کیونکہ میں بھی انسان ہوں اور خطا کا پتلہ ہوں،اپنی میٹحی  زبان سے مجھے کچھ نصیحت کیجئےتاکہ میں پھر سے خطا نہ کروںمیری ضرورت صرف کھانا پینا نہیں بلکہ میرے روح اور دل کو عطوفت اور مہربانی  کی غذاسے لبریز کریں

ماں کا مقام  اور ان کا احرام

ماں کے قدموں تلے جنت ہے       

این حدیث از مصطفی اندر مقام مادر است             ای پسر جنّت نہان در زیر گامِ مادر است

تا توانی از پی تکریم او کن جدّ و جہد             احترام ہر کسی از احترام مادر است

مادر دانا کند فرزند دانا تربیت             ہر کہ بر ہر جا رسد از اہتمام مادر است

۶۵

افکند کی در خطر بہر کسی جانرا کسی             این گذشت و این فداکاری، مرامِ مادر است

او نہال ارزو را باغبانی می کند             ہستی ما حاصل رنج مُدامِ مادر است

شاعر کہتاہے کہ حدیث رسول میں ماں کا مقام یہ ہے کہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے بس جتنا ہوسکے ان کا احترام  اور ان کی عزت کرنے کی کوشش کرو اگر تم نے ماں کا احترام کیا تو سمجھ لو پوری انسانیت  کا احترام کیا ہےماہر ماں ہی ماہر اولاد کی تربیت کرسکتی ہے یہی وجہ ہے جو بھی کسی خاص مقام تک اگر پہنچا ہے تو یہ اس کی ماں کی تربیت کی مرہون منت ہے

کون کسی کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے ؟یہ فداکاری اور جان نثاری صرف اور صرف ماں ہی دکھا سکتی ہےماں ہے جو اپنی نہال ارزوکی نشونما کے لئے باغبانی کرتی ہے اسی لئے  ہماری ہستی  اور ہمارا وجود ماں کے رنج و غم کا نتیجہ ہے

۶۶

دوسری فصل

میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریاں

نیک سیرت عورت

راحت مرد از وجود زن است       خاصہ ان زن کہ مہربان باشد

ہمسر خوب و مہربان و عفیف             بہترین نعمت جہان باشد

انسان کا سکون اورراحت عورت کے وجود سے  ہے خصوصا  اگر عورت مہربان اور با وفا ہو،کونکہ نیک،مہربان اور پاکدامن بیوی دنیا کی تمام نعمتوں میں سے بہترین نعمت ہے

اسلام حجاب اور پردہ کو کلی سے تشبیہ دیتا ہے کہ جب تک کلی کلی ہے اس وقت تک کوئی اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا، لیکن جب کلی کھل  کر پھول بن جاتی ہے تو اسے فوری طور پر توڑدیتا ہےممکن ہے کچھ دن اسے احترام کے ساتھ سنبھال کر رکھےلیکن کچھ دیر کے بعد جب مرجھا جائے تو اسےکچرے میں ڈال دیتا ہے یہی مثال ہے کہ جب تک عورت پردے میں ہے اس کی طرف کوئی  بری نگاہ بھی نہیں کرتا اور ہاتھ نہیں بڑھاتا لیکن جب وہ اپناپردہ یا حجاب اتاردیتی ہے اور پردے سے باہر اتی ہے تو مختلف ہاتھ اس کی طرف بڑھنے لگتےہیں،اور اپنا ہوس پورا ہونے تک اسے جھوٹی عشق و محبت کا اظہار کرتے رہتےہیں اس کے بعد اسے ردی کاغذ کی طرح کچرے میں ڈال دیتے ہیں

یہی وجہ ہے اسلام حجاب اور پردہ کو عورت کی زیبایی ،عفت و پاکدامنی کا محافظ جانتا ہے  اس پھل کی طرح جب تک وہ اپنے چھلکے کے اندر ہےبہت دیر تک  تر و تازہ رہتا ہے لیکن جب چھلکا اتاردے تو اس کی طراوت اور تازگی ختم ہوجاتی ہے ،بلکہ چھلکا اتار کر پھل میہمان کے سامنے رکھنا میہمان کی توہین سمجھی جاتی ہے ،جیسے سیب کا چھلکا اتار کر میہمان کے سامنے رکھنا اس سے معلوم ہوا جس طرح  چھلکا پھل کی سلامتی کا ضامن ہے اسی طرح حجاب اور پردہ بھی عورت کی سلامتی کا ضامن ہے

۶۷

شوہر کے حقوق اوربیوی کی ذمہ داریاں

میاں بیوی کے درمیان حسن ارتباط کی برقراری کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کریں

اس سلسلے میں پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا:

فَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ حَقٌّ وَ لَهُنَّ عَلَيْكُمْ حَقٌّ وَ مِنْ حَقِّكُمْ عَلَيْهِنَّ انْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ وَ لَا يَعْصِينَكُمْ فِي مَعْرُوفٍ فَاذَا فَعَلْنَ ذَلِكَ فَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَا تَضْرِبُوهُن (1)

 لوگو! عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور تمہارے اوپر ان کے کچھ حقوق ہیںتمہارے حقوق یہ ہیں: وہ بیگانہ اور نامحرموں کیساتھ ناجائز تعلقات پیدا نہ کریںاور جہاں تمہاری اطاعت ان پر واجب ہے اس سے گریز نہ کریں تو اس کے بدلے میں انہیں ان کی شاان کے مطابق لباس،نان ونفقہ اور دیگر اخراجات فراہم کرنا تمہارے ذمہ ہیں

مذکورہ حدیث میں بعض حقوق کی طرف اشارہ ہوا ہے ایسا نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ خود کو یک طرفہ حقوق کا طلبگار اور بیوی کو مقروض سمجھ بیٹھیں،بلکہ دونوں کے حقوق متبادل اور متقابل ہیںاور متقابل حقوق کے قائل ہونا ہی مہر و محبت بھری زندگی کے لئے مناسب مواقع فراہم کرتاہے

شوہر کی اطاعت باعث مغفرت

خداوند مہربان نے اطاعت گزار عورت کو نہ صرف دنیا میں پر سکون زندگی کی شکل میں اجر اور ثواب کا مستحق قرار دیابلکہ قیامت کے دن اس کے بدلے میں عورت کی مغفرت اور بخشش کا بھی بندوبست کیا ہے

--------------

(1):-   شیخ صدوق؛ الخصال ، ج۲،ص۴۸۷

۶۸

قَالَ الصادق: انَّ رَجُلًا مِنَ الْانْصَارِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ص خَرَجَ فِي بَعْضِ حَوَائِجِهِ فَعَهِدَ الَ ی امْرَاتِهِ عَهْدا انْ لَا تَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهَا حَتَّ ی يَقْدَمَ وَ انَّ ابَاهَا مَرِضَ فَبَعَثَتِ الْمَرْاةُ الَ ی رَسُولِ اللهِ ص فَقَالَتْ انَّ زَوْجِي خَرَجَ وَ عَهِدَ الَيَّ انْ لَا اخْرُجَ مِنْ بَيْتِي حَتَّ ی يَقْدَمَ وَ انَّ ابِي مَرِضَ ا فَتَامُرُنِي انْ اعُودَهُ فَقَالَ لَا اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ وَ اطِيعِي زَوْجَكِ قَالَ فَمَاتَ فَبَعَثَتْ الَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ انَّ ابِي قَدْ مَاتَ ا فَتَامُرُنِي انْ اصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَا اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ وَ اطِيعِي زَوْجَكِ قَالَ فَدُفِنَ الرَّجُلُ فَبَعَثَ الَيْهَا رَسُولُ اللهِ ص انَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَ ی قَدْ غَفَرَ لَكِ وَ لِابِيكِ بِطَاعَتِكِ لِزَوْجِكِ (1)

 چنانچہ امام صادق(ع) سے روایت ہے: ایک صحابی کسی کام سے سفر میں نکلتے وقت اپنی بیوی سے کہہ کر گیا کہ جب تک میں واپس نہ لوٹوں تو گھر سے باہر قدم نہ رکھنا اس فرمانبردار بیوی نے بھی اس کی اطاعت میں کوتاہی نہیں کی اتفاقا انہی ایام میں اس عورت کا باپ بیمار ہوگیا، تو اس خاتون نے گھر میں سے کسی کو پیغمبر(ص) کی خدمت میں بھیجا اگر اجازت ہو تو اپنے بیمار باپ کی عیادت کے لئے چلی جاؤں، پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:اپنے گھر سے نہ نکلو اور اپنے شوہر کی اطاعت کروکچھ دن بعد اس کا باپ اس دار فانی سے چل بسااس خاتون نے پھر اپ سے باپ کی تشییع جنازے میں شرکت کی اجازت مانگی،تو پھر فرمایا:نہیں گھر سے نہ نکلو اپنے شوہر کی اطاعت کرواور جب اس کا باپ دفن ہوا تو خود پیغمبر(ص)نے اس مؤمنہ کی طرف پیغام بیجا : خدا نے تمہاری اس اطاعت کے بدلے میں تمہیں اور تمہارے باپ دونوں کو بخش دیا ہے

ارام و سکون فراہم کرنا

رسول اسلام(ص) نے بیوی کے لئے چاردیواری کے اندر والا کام انتخاب کرتے ہوئے فرمایا:

حَقُّ الرَّجُلِ عَلَ ی الْمَرْاةِ انَارَةُ السِّرَاجِ وَ اصْلَاحُ الطَّعَامِ وَ انْ تَسْتَقْبِلَهُ عِنْدَ بَابِ بَيْتِهَا فَتُرَحِّبَ وَ انْ تُقَدِّمَ الَيْهِ الطَّسْتَ وَ الْمِنْدِيلَ وَ انْ تُوَضِّئَهُ وَ انْ لَا تَمْنَعَهُ نَفْسَهَا الَّا مِنْ عِلَّةٍ (2)

--------------

(1):- مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۵۸

(2):-مك ارم‏ ال اخل اق، ص 214 ، في حق الزوج علی المر اة

۶۹

 شوہر کے لئے ارام و سکون پہنچانے کے ساتھ ساتھ گھریلو کاموں مثلا صفائی، کھانا پکانا، کپڑے اور برتن دھونا، اچھی غذا تیار کرنا،اور جب شوہر گھر میں داخل ہو تو سب سے پہلے تمہارا اس کے استقبال کے لئے دروازے پر جانا اور خوش امدید کہنابیوی کی ذمہ داریوں میں سے ہے جنہیں  ادا کرنے سے دونوں کی زندگی پر لطف اور پائیدار ہوسکے گیاور اپس میں پیار و محبت بڑھ جائے گااور اپس کی محبت کو قران نے خدا تعالیٰٰ کا عظیم معجزہ کہا ہے: 

وَمِنْ ايَاتِهِ انْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ انفُسِكُمْ ازْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا الَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً انَّ فِي ذَلِكَ لَايَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ(1)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں اپ کی اس محبت امیز رفتار سے شوہر پر بڑا اثر پڑیگا اور وہ کبھی بھی اپ کی یہ محبت امیز باتیں اور ادائیں نہیں بھولے گا

شوہر کی رضایت کا خیال رکھنا

رسول اللہ (ص)نے فرمایا:

ايُّمَا امْرَاةٍ اذَتْ زَوْجَهَا بِلِسَانِهَا لَمْ يَقْبَلِ اللهُ مِنْهَا صَرْفا وَ لَا عَدْلًا وَ لَا حَسَنَةً مِنْ عَمَلِهَا حَتَّ ی تُرْضِيَه (2)

--------------

(1):- روم ۲۱

(2):- وسائل الشیعہ ،ج ۲۰، ص ۲۱۱،  من لایحضرہ ج۴، ص ۱۳

۷۰

ہر وہ عورت جو زبان کے ذریعے اپنے شوہر کو اذیت و ازار  پہنچاتی ہے تو خدا اس سے نہ  کوئی صدقہ نہ کوئی حسنہ اور نہ کوئی کفارہ قبول کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کا شوہر راضی ہوجائےاس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شوہر راضی نہ ہوتو اس عورت کا صدقہ خیرات بھی قبول نہیں ہےامام محمد باقر(ع) نے اپنے جد گرامی امیرالمؤمنین (ع)سے نقل کیا ہے:اپ نے فرمایا: میں اور جناب فاطمہ(س) ایک دن اپ کے حضور(ص) پہنچے تو دیکھا اپ سخت گریہ کررہے تھے،میں نے وجہ پوچھی، تو فرمایا: یا علی(ع) جس رات معراج پر گیا تو اپنی امت کی عورتوں پر مختلف قسم کے سخت عذاب کا مشاہدہ کیا جسے دیکھ کر سخت پریشان ہوں اور رو رہا ہوںپھر فرمایا:

وَ امَّا الْمُعَلَّقَةُ بِلِسَانِهَا فَانَّهَا كَانَتْ تُؤْذِي زَوْجَهَا وَ امَّا الْمُعَلَّقَةُ بِرِجْلَيْهَا فَانَّهَا كَانَتْ تَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهَا بِغَيْرِ اذْنِ زَوْجِهَا (1)

دیکھا کہ عورتوں کے ایک گروہ کو زبانوں کیساتھ لٹکایا ہوا ہے جو اپنے شوہر کو زبان درازی کے ذریعے تنگ کیا کرتی تھیںدوسرے گروہ کو دیکھا کہ جنہیں  پیروں کیساتھ لٹکایا ہوا تھا، وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلتی تھیں

ایک اور روایت میں فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللهِ  ايُّمَا امْرَاةٍ خَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا بِغَيْرِ اذْنِ زَوْجِهَا فَلَا نَفَقَةَ لَهَا حَتَّ ی تَرْجِعَ (2)

 اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے تو  واپس پلٹنے  تک اس کا نان ونفقہ شوہر پر واجب نہیں ہےان روایات سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ خواتین اپنے شوہر کی اجازت  اور رضایت کو ہر کام سے پہلے معلوم کریںاور شوہر کا حق ہے کہ اگر مصلحت جانتا ہو اجازت دیدے ورنہ اجازت نہ دےیہی وجہ ہے حضور ﷺنے فرمایا: تمام حقوق سے زیادہ شوہر کے حقوق اہم ہیںاور جس نے اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کیے اس نے خدا کی صحیح بندگی اور اطاعت نہیں کی(3)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ  ، ج۲۰، ص ۲۱۳

(2):- کافی ،ج۵، ص۵۱۴

(3):- کافی ،ج5،ص508 ،   مکارم اخلاق،ص215

۷۱

پھر فرمایا:

وَ لَوْ امَرْتُ احَدا انْ يَسْجُدَ لِاحَدٍ لَامَرْتُ الْمَرْاةَ انْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا (1)

غیر خدا کو اگر سجدہ کرناجائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرے

بدترین عورت

 شارع اقدس نے اس عورت کو بدترین عورت قرار دیا ہے جو اپنے شوہر پر مسلط ہو، بغض و کینہ رکھتی ہو،برے اعمال کی پرواہ نہ کرتی ہو،شوہر کی غیر موجودگی میں بناؤ سنگھار کرکے دوسروں کے سامنے اتی ہو، اور جب شوہر اتا ہے تو پردہ دار بن جا تی ہو اور شوہر کی بات نہ مانتی ہو(2)

جنسی خواہشات پوری کرنا

چونکہ مرد طبیعتا تنوّع جنسی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے تو عورت کو بھی چاہئے کہ جتنا ہوسکے مرد کی اس خواہش کو پوری کرےاور یہ اس کا اہم ترین وظیفہ ہےمتعدد روایات اس بات کی طرف ہماری توجّہ دلاتی ہیں رسول اللہ (ص)نے فرمایا:

الْحَسَنُ بْنُ الْفَضْلِ الطَّبْرِسِيُّ عن النَّبِيِّ ص قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرَاةٍ انْ تَنَامَ حَتَّ ی تَعْرِضَ نَفْسَهَا عَلَ ی زَوْجِهَا تَخْلَعَ ثِيَابَهَا وَ تَدْخُلَ مَعَهُ فِي لِحَافِهِ فَتُلْزِقَ جِلْدَهَا بِجِلْدِهِ فَاذَا فَعَلَتْ ذَلِكَ فَقَدْ عَرَضَتْ (3)

یعنی عورت کو چاہئے کہ جب وہ سونے لگے تو اپنے شوہر کے ساتھ لباس اتار کر سوئے،اور اپنے جسم کو شوہر کے جسم سے مس کرکے سوئے

امام باقر (ع)نے فرمایا:

--------------

(1):- مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۴۶

(2):- نقش دین در خانوادہ، ج۱، ص۳۵۵

(3):- وسائل الشیعہ ،ج ۲۰، ص۱۷۶

۷۲

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ جَاءَتِ امْرَاةٌ الَی رَسُولِ اللهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَی الْمَرْاةِ فَقَالَ لَهَا تُطِيعُهُ وَ لَا تَعْصِيهِ وَ لَا تَصَدَّقُ مِنْ بَيْتِهَا شَيْئا الَّا بِاذْنِهِ وَ لَا تَصُومُ تَطَوُّعا الَّا بِاذْنِهِ وَ لَا تَمْنَعُهُ نَفْسَهَا وَ انْ كَانَتْ عَلَی ظَهْرِ قَتَبٍ وَ لَا تَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهَا الَّا بِاذْنِهِ فَانْ خَرَجَتْ بِغَيْرِ اذْنِهِ لَعَنَتْهَا مَلَائِكَةُ السَّمَاءِ وَ مَلَائِكَةُ الْارْضِ وَ مَلَائِكَةُ الْغَضَبِ وَ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ حَتَّی تَرْجِعَ الَی بَيْتِه‏(1)

ایک عورت رسول خدا (ص) کی خدمت میں ائی اور عرض کی شوہر کے متعلق ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ تو رسول خدا(ص)نے جواب دیا کہ خود کو ان کے لئے ہمیشہ تارر رکھو خواہ سواری پر بھی کیوں نہ ہویہ وہ دستورات ہیں جن پرعمل پیرا ہونا مرد اور عورت دونوں پر لازم ہے

بہترین عورت

اسلامی نقطۂ نگاہ سے بہترین عورت وہ ہے جو سب سے زیادہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس سے عشق و محبت اور امادگی کا اظہار کرےلیکن اس کے مقابلے میں وہ عورت جو اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے انکار کرے تو اسے بدترین عورت سمجھا گیا ہےاسی لئے رسول خدا(ص)نے فرمایا:خیر نسائکم العفیفة و الغلیمة بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی نسبت زیادہ شہوت پرست ہو لیکن نامحرموں کی نسبت عفیف اور پاکدامن(2)

عن ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ ابُو جَعْفَرٍ ع خَيْرُ النِّسَاءِ مَنِ الَّتِي اذَا دَخَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَخَلَعَتِ الدِّرْعَ خَلَعَتْ مَعَهُ الْحَيَاءَ وَ اذَا لَبِسَتِ الدِّرْعَ لَبِسْتَ مَعَهُ الْحَيَاءَ(3)

امام باقر(ع) نے فرمایا: بہترین اور شائستہ ترین عورت وہ ہے جو خلوت میں شوہر کیساتھ ملے تو لباس کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کو بھی دور پھینکے اور پوری محبت اور پیار کیساتھ اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پورا کرے اور جب لباس پہن لے تو شرم و حیا کا لباس بھی زیب تن کرےاور اپنے شوہر کے سامنے جرأت اور جسارت سے باز ائے

--------------

(1):-من ل ا يحضره الفقيه    ج‏3 ، ب اب حق الزوج علی المر اة،  ص : 438 (2):- وس ائل ،ج14،ص 15

(3):- تہذیب الاحکام،ج۷،ص۳۹۹

۷۳

امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص)نے فرمایا:

الْمَرْاةُ يَدْعُوهَا زَوْجُهَا لِبَعْضِ الْحَاجَةِ فَلَا تَزَالُ تُسَوِّفُهُ حَتَّی يَنْعُسَ زَوْجُهَا فَيَنَامَ فَتِلْكَ لَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهَا حَتَّی يَسْتَيْقِظَ زَوْجُهَا(1)

یعنی وہ عورت جسے اس کا شوہر جنسی خواہشات کو پورا  کرنے کے لئے کہے اور وہ بہانے  بناتی رہے یہاں تک کہ اس کا شوہر  سو جائے  تو صبح اس کے جاگنے تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہیں گے

خوشیاں لانے والی

رسول خدا(ص)نے اس عورت کو بہترین اور شائستہ ترین عورت قرار دیا ہے جسے دیکھ کر اس کا شوہر خوش ہوجائےپس مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کا استقبال کیا کرو، جو زندگی میں محبت کے پھول اگانے کا سبب بنتا ہےاور پھول کو دیکھ کر ہر کوئی خوش ہوتا ہےٍ: 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ فِي رِسَالَةِ امِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع الَی الْحَسَنِ فَانَّ الْمَرْاةَ رَيْحَانَةٌ  

امام صادق رماتے ہیں کہ  حضرت علی(ع) نے فرمایا: عورت پھول کی مانند ہے(2) ، اسے چاہئے کہ ہمیشہ پھول کی طرح کھلتی رہےاور خاندانی گلستان میں خوشیوں کا باعث بنےدینی اور دنیاوی کاموں میں شوہر کی معاون بنےامام صادق (ع)نے فرمایا:

ثَلَاثَةٌ لِلْمُؤْمِنِ فِيهِنَّ رَاحَةٌ دَارٌ وَاسِعَةٌ تُوَارِي عَوْرَتَهُ وَ سُوءَ حَالِهِ مِنَ النَّاسِ وَ امْرَاةٌ صَالِحَةٌ تُعِينُهُ عَلَی امْرِ الدُّنْيَا وَ الْاخِرَةِ وَ ابْنَةٌ اوْ اخْتٌ يُخْرِجُهَا مِنْ مَنْزِلِهِ بِمَوْتٍ اوْ بِتَزْوِيج‏(3)

یعنی تین چیزوں میں مؤمن کے لئے سکون اور راحت  ہے ان میں سے ایک وہ شائستہ عورت ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی امور میں مددگار ثابت ہو کیونکہ عورت اگر چاہے تو مرد کے لئے دینی اور دنیاوی امور میں بہترین شوق دلانے والی بن سکتی ہےیہاں تک کہ مستحبات کی انجام دہی اور مکروہات کے ترک کرنے میں بھیچنانچہ روایت ہے:

--------------

(1):-روضة المتقین،ج8،ص376 من ل ا یحضره،ج۳،ص۴۴۲(2):- من ل ا یحضره الفقیه،ج3،ص556ک افی  ج۵، ص۵۱۰

(3):-ک افی ،ج5،ص328 الخص ال،ج‏1،ثل اثة للمؤمن فيهن ر احة،ص : 159

۷۴

سَالَ عَلِيّا كَيْفَ وَجَدْتَ اهْلَكَ قَالَ نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَی طَاعَةِ اللهِ وَ سَالَ فَاطِمَةَ فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْلٍ فَقَالَ اللهُمَّ اجْمَعْ شَمْلَهُمَا وَ الِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمَا وَ اجْعَلْهُمَا وَ ذُرِّيَّتَهُمَا مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ وَ ارْزُقْهُمَا ذُرِّيَّةً طَاهِرَةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً وَ اجْعَلْ فِي ذُرِّيَّتِهِمَا الْبَرَكَةَ وَ اجْعَلْهُمْ ائِمَّةً يَهْدُونَ بِامْرِكَ الَی طَاعَتِكَ وَ يَامُرُونَ بِمَا يُرْضِيكَوَ قَالَ جَزَاكِ اللهُ خَيْرا(1)

حضرت زہرا(س)کی شادی کے بعد پیغمبر (ص)نے علی(ع)سے پوچھا: یا علی؛ فاطمہ(س) کو کیسا پایا؟ تو جواب دیا: فاطمہ(س) کو خدا کی فرمان برداری میں بہترین مددگار پایا، اسی طرح فاطمہ(س) نے بھی یہی جواب دیا کہ علی کو بہترین شوہر پایااس کے بعد رسول گرامی نے دعا کی، اے اللہ !ان دونوں کے امور کو ایک دوسرے کے موافق قرار دے، ان دونوں کے دلوں میں الفت پیدا کر، ان  کو اور ان کی اولادوں کو جنت النعیم کا وارث قرار دے،اور ان  دونوں کو پاک اور طیب اولاد عطا کر، اور ان کی ذریت پاک  میں برکت نازل کرے، اور  ان کو ایسا امام  قرار دے  جو تیرے حکم کے مطابق تیری  بندگی کی طرف ہدایت پالیں اور یہ لوگ تیری رضایت کے مطابق حکم کریں پھر فرمایا: اے فاطمہ(س) اللہ تعالی تجھے جزا ئے خیر دےاور جب بیوی ایسی ہو تو اولاد بھی حسنینؑ اور زینب و کلثوم (ع)جیسی ہوتی ہےہم اور اپ علی(ع) اور فاطمہ(س) جیسے تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرکے معاشرے کو اچھی اور صالح اولاد تو دے سکتے ہیںاس عظیم مقصدکے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اصول وفروع دین کی تعلیم دیںاور مذہبی عبادات ورسوم جیسے نماز، روزہ، انفاق، تلاوت، نماز جماعت اور مذہبی مراسم، جلسے جلوس میں شرکت کرنے پر تأکید کریں

امانت داری

یہ بھی عورتوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کے مال و دولت اور اسرار کی امین ہوںپیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: خدا تعالیٰٰ فرماتا ہے کہ میں جب بھی کسی مسلمان کو دنیا اور اخرت کی خوبیاں عطا کرنا چاہتا ہوں تو اسے چار چیزیں عطا کرتا ہوں:

--------------

(1):- بحار، ج43،ص117

۷۵

1.  ایسی زبان جو ذکر الٰہی میں مصروف رہتی ہو

2.  قلب خاشع جو ہمیشہ متوجہ ہو

3.  صبور بدن جو مصیبت کے موقع پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے

4.  با ایمان بیوی  اس بارے میں فرمایا:

مَا اعْطِيَ احَدٌ شَيْئا خَيْرٌ لَهُ مِنِ امْرَاةٍ صَالِحَةٍ اذَا رَاهَا سَرَّتْهُ وَ اذَا اقْسَمَ عَلَيْهَا ابَرَّتْهُ وَ اذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَ مَالِه‏

اورایسی با ایمان اور با عفت بیوی جسے دیکھ کر شوہر خوش ہو اور جب وہ کہیں چلاجائے تو اس کی مال و دولت کی حفاظت کرے(1)

اسی طرح خاندانی خامیوں پر بھی امانت کے طور پر پردہ ڈالےایسی  خاتون کبھی بیجا اور بے مورد اور فضول خرچ نہیں کرتیبلکہ وہ زندگی کے وسائل کو بڑی دقّت سے خرچ کرتی ہےکھانا پکانے اور کھلانے میں بھی فضول خرچی سے پرہیزکرتی ہےایک امانت دار خاتون کی کہانی ہے جس نے امانت داری کی مثال قائم کی:

اصمعی نامی شخص کہتا ہے کہ میں نے بیابان میں ایک خیمہ دیکھا جس سے ایک بہت ہی خوبصورت خاتون نکلی گویا وہ چاند کا ایک ٹکڑا تھا، مہمانی کی رسم ادا کرتے ہوئے مجھے خوش امدید کہا، میں گھوڑے سے اترا اور ایک گلاس پانی  مانگا تو اس نے مجھ سے کہا: میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر پانی نہیں پلا سکتیان کی اجازت کے بغیر ان کی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتی، اور ان سے اجازت بھی نہیں مانگی ہے کہ مہمان کے لئے مہمان نوازی کروںہاں اپنے لئے بقدر ضرورت پانی پینے کی اجازت مانگی تھی کہ میں خود پیاسی تھی تو اپنا حصہ پی چکی ہوںاور ابھی میں پیاسی نہیں ہوں ورنہ اپنا حصّہ تمہیں ضرور پلاتیہاں دودھ کا شربت ہے جو میری غذا ہے وہ تمہیں دوں گییہ کہہ کر دودھ والا برتن میرے سامنے رکھ دیا

--------------

(1):-ک افی ،ج ۵ ،ص 327   ارش اد القلوب الی الصو اب ،ج‏1،ص183

۷۶

 اصمعی کہتا ہے کہ میں اس خاتون کی عقل مند، پیاری اور مدلل باتوں کو سن کر حیران رہ گیااسی دوران ایک عربی سیاہ چہرے والا وہاں پہنچا اور مجھے خوش امدید کہا یہ عورت اس کی طرف دوڑی اور اس کی پیشانی سے پسینہ پوناے ، اور اس طرح اپنے شوہر کی خدمت کرنے لگی کہ کوئی لونڈی بھی اپنے اقا کی یوں خدمت نہیں کرتی دوسرے دن جب میں وہاں سے نکلنے لگاتو میں نے اس عورت سے کہا: بڑی تعجب کی بات ہے کہ تیری جیسی حسین و جمیل عورت اپنے بد شکل شوہر جیسے کی خدمت گزاری کرےتو اس خاتون نے کہا: میں نے پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث سنی ہے جس میں پیغمبر(ص)نے فرمایا: ایمان کے دو حصّہ ہیں جن میں سے ایک حصہ صبر ہے دوسرا حصہ شکر ہے، اور خدا نے مجھے خوبصورتی دی ہے اس پر میں شکر کرتی ہوں اور میرا شوہر جو بدشکل ہے اس پر میں صبر کرتی ہوںیہاں تک کہ میرا ایمان سالم اور محفوظ رہےاصمعی کہتا ہے اس خاتون کی مدلل باتوں سے بہت متأثر ہوا اور عفّت اور پارسائی میں اس سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں دیکھا(1)

قناعت پسندی

عَنِ الصَّادِقِ عَنْ ابَائِهِ ع قَالَ حُسْنُ الْبِشْرِ لِلنَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ- وَ التَّقْدِيرُ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ- وَ المَرْاةُ الصَّالِحَةُ احَدُ الْكَاسِبَيْن(2)

امام صادق (ع)اپنے  اباء و اجداد سے روایت  فرماتے ہیں کہ خوش خلقی اور چہرے پر مسکراہٹ نصف عقل ہے امدنی اور خرچ میں مطابقت ادھی معیشت ہے اور نیک اور شائستہ بیوی بھی کمانے والوں میں سے ایک ہےیعنی عورتوں کے وظائف اور ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی خواہشات اور فرمائشات میں تعدیل پیدا کرنا ہےیعنی جتنی شوہر کی امدنی ہوگی اس سے زیادہ خرچ کرنے سے گریز کرے

قَالَ النَّبِيُّ ايُّمَا امْرَاةٍ لَمْ تَرْفُقْ بِزَوْجِهَا وَ حَمَلَتْهُ عَلَی مَا لَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ وَ مَا لَا يُطِيقُ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهَا حَسَنَةٌ وَ تَلْقَی اللهَ وَ هُوَ عَلَيْهَا غَضْبَان(3)

--------------

(1):-  ریاحین الشریعہ،ج4(2):- بحار الانوار ،ج73  ،ص : 58

(3):- مکارم اخلاق،ص214

۷۷

اس بارے میں پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: اگر کوئی عورت اپنے شوہر کیساتھ محبت نہ کرے اور زندگی گزارنے میں شوہر پر ستم کرے اور اس سے بہت سخت کاموں  کا مطالبہ کرے اور اسے سختی میں ڈال دے اور اس کی زندگی اجیرن بنا دے تو ایسی عورتیں اگرچہ نیک کام بھی  انجام دیں تو خداوند ان کی نیکیاں قبول نہیں کریگااور قیامت کے دن خدا تعالیٰٰ ان سے ناراضگی کی حالت میں ملاقات کریگاایک عقل مند اور با سلیقہ عورت خاندان کی خوش بختی کا باعث بنتی ہےحفاظت کرنے والے کی اہمیت کمانے والے سے کم نہیں ہےکیونکہ درامد کی حفاظت، درامد کی تلاش کی طرح ہےحضرت زہرا(س)نے امیرالمؤمنین (ع)سے کہا: میرے بابا نے مجھ سے کہا: کبھی علی (ع)سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرناہاں اگر خود لے ائیں تو کوئی بات نہیں(1)

بابرکت بیوی

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مِنْ بَرَكَةِ الْمَرْاةِ خِفَّةُ مَئُونَتِهَا (وَ تَيْسِيرُ وَلَدِهَا ) وَ مِنْ شُؤْمِهَا شِدَّةُ مَئُونَتِهَا وَ تَعْسِيرُ وَلَدِهَا(2)

امام صادق (ع)نے فرمایا: (بابرکت بیوی وہ ہے جو کم خرچ ہو اور بچہ اسانی سے جنم دیتی ہواس کے مقابلے میں اگر پُر خرچ ہو اور بچہ سختی سے جنم دیتی ہو تو یہ اس کی بدقسمتی ہوگیپس خواتین کو چاہئے کہ جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ با برکت بننے کی کوشش کریںالبتہ بیجا تنگ نظری اور احمقانہ کم خرچی ابرو ریزی، بے عزتی اور بیماری کا موجب  بنتی ہےگویا تنگ نظری اور قناعت میں فرق ہےبات امدنی اور خرچ کا تناسب ہے نہ کنجوسی کیکنجوس شخص بخل کی وجہ سے خاندان والوں اور اپنے لئے بھی خرچ نہیں کرتا اور خود کو سختی میں ڈالتا ہے

--------------

(1):- بحار،ج43،ص31

(2):-وس ائل‏ الشيعة ، ج20، ص112    

۷۸

بیوی کے حقوق اورشوہر کی ذمہ داریاں

امَّا حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِمِلْكِ النِّكَاحِ فَانْ تَعْلَمَ انَّ اللهَ جَعَلَهَا سَكَنا وَ مُسْتَرَاحا وَ انْسا وَ وَاقِيَةً وَ كَذَلِكَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا يَجِبُ انْ يَحْمَدَ اللهَ عَلَی صَاحِبِهِ وَ يَعْلَمَ انَّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنْهُ عَلَيْهِ وَ وَجَبَ انْ يُحْسِنَ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللهِ وَ يُكْرِمَهَا وَ يَرْفَقَ بِهَا وَ انْ كَانَ حَقُّكَ عَلَيْهَا اغْلَظَ وَ طَاعَتُكَ بِهَا الْزَمَ فِيمَا احَبَّتْ وَ كَرِهَتْ (مَا لَمْ تَكُنْ) مَعْصِيَةً فَانَّ لَهَا حَقَّ الرَّحْمَةِ وَ الْمُؤَانَسَةِ وَ مَوْضِعَ السُّكُونِ الَيْهَا قَضَاءَ اللَّذَّةِ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْ قَضَائِهَا وَ ذَلِكَ عَظِيمٌ وَ لَا قُوَّةَ الَّا بِاللَّه‏(1)

امام سجاد (ع)نے فرمایا:  وہ رعیت جو نکاح کے ذریعے تیرے اختیار میں ائی ہے جو تیری بیوی ہے، جان لو اس کا حق تجھ پر یہ ہے کہ خداتعالیٰٰ نےاسےتمہارے لئے ارام و سکون کا سبب بنایا اور غمخوار اور محافظ بنایا  اور اسی وجہ سے دونوں پر ضروری قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے کے شکر گزار بنیں اور یہ بھی جان لے کہ یہ خدا کی طرف سے تمہارے لئےایک بہت بڑی نعمت ہےاور انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمت کی حفاظت کرے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرےاور اس کا احترام کرے، اگرچہ مرد کا حق بیوی  پر زیادہ اور مرد کی فرمانبرداری بھی واجب تر ہے،  کہ بیوی شوہر کی رضایت کا ہر حالت میں خیال رکھےمگر یہ کہ جہاںشوہر اسے گناہ کی طرف مجبور کرے، وہاں اس کی اطاعت واجب نہیں ہےبلکہ وہاں اس کی مخالفت کرنی چاہئے اس لئے کہ بیوی رحم، پیار، محبت اور حق سکونت کی  زیادہ  حقدار ہےکہ تم ان کے وسیلے سے لذّت اٹھانے پرمجبور ہواور یہ خدا  کا بہت  بڑاحکم ہے

امانت الٰہی کی حفاظت

اسلامی روایات کے مطابق عورت خدا کی امانت ہے جسے مردوں کے سپرد کیا گیا ہے اس کیساتھ  معمولی بے توجہی اور خطا امانت الٰہی میں خیانت شمار ہوگیلذکا خدا کی امانت اورنعمت عظمی کی حفاظت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰٰ کی بارگاہ میں مورد عذاب قرار نہ پائیں:

--------------

(1):-حقوق اسل امی، ص۱۲۹ مستدرك‏ الوس ائل، ج11 ، ص160

۷۹

وَ امَّا حَقُّ الزَّوْجَةِ فَانْ تَعْلَمَ انَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَهَا لَكَ سَكَنا وَ انْسا فَتَعْلَمَ انَّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنَ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْكَ فَتُكْرِمَهَا وَ تَرْفُقَ بِهَا وَ انْ كَانَ حَقُّكَ عَلَيْهَا اوْجَبَ فَانَّ لَهَا عَلَيْكَ انْ تَرْحَمَهَا لِانَّهَا اسِيرُكَ وَ تُطْعِمَهَا وَ تَكْسُوَهَا وَ اذَا جَهِلَتْ عَفَوْتَ عَنْهَا(1)

رسول گرامی(ص)نے جب اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ(س) کو علی(ع) کے گھر بھیجا تو اپنے داماد علی ابن ابیطالب (ع)کو نصیحت کی: یا علی! میری بیٹی تیرے پاس امانت ہےیہ بات تاریخ میں بھی ثابت ہےاس کے علاوہ خود علی(ع) کے بیانات سے بھی ثابت ہےجیسا کہ جب اپ فاطمہ(س)کو دفن کررہے تھے تو رسول خدا(ص)کے ہاتھوں میں اس ستم دیدہ امانت کو تحویل دیتے ہوئے فریاد کررہے تھے: 

انَّا لِلهِ وَ انَّا الَيْهِ راجِعُونَ- لَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ وَ اخِذَتِ الرَّهِينَةُ وَ اخْتُلِسَتِ الزَّهْرَاءُ فَمَا اقْبَحَ الْخَضْرَاءَ وَ الْغَبْرَاءَ يَا رَسُولَ اللهِ امَّا حُزْنِي فَسَرْمَد(2)

اے پیغمبر اعظم(ص)! فاطمہ ؛ خدا کی امانت تھی، جسے اپ نے میرے حوالے کردیا تھا واپس لوٹا رہاہوں، فاطمہ زہراء کو لے جایا گیا، یا رسول اللَّہ! یہ نیلا  اسمان اور زمین میری  نظر میں غبار الود  اور تاریک ہوگئے!! میرا غم اور اندوہ  ابدی ہوگیا! میں اج کے بعد ہمیشہ غمگین رہوں گااور یہ انکھیں کبھی نہیں سوئیں گیرسول خدا(ص)نے فرمایا: ہر عورت اپنے شوہر کے نفع اور نقصان کی برابر مالکہ تو نہیں لیکن یہ بات جان لو کہ یہ اپنے شوہروں کے پاس خدا کی امانت ہیں اس لئے مرد حق نہیں رکھتا کہ انہیں کوئی ضرر یا نقصان پہنچائے اور ان کے حقوق کو پامال کرے(3)

عورت کےحقوق اورخدا کی سفارش

جب رسول خدا(ص) سے عورت کے حقوق کے بارے میں  سوال کیا گیا تو اپ (ص)نے فرمایا: 

--------------

(1):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه    ،ج 2،ص621

(2):-نهج البل اغة،خ193 ام الي المفيد،ص282، المجلس الث الث و الثل اثون‏

(3):-مستدرک الوس ائل،ج2،ص551

۸۰