اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )0%

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض ) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 200

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 200
مشاہدے: 164747
ڈاؤنلوڈ: 4641

تبصرے:

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 200 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164747 / ڈاؤنلوڈ: 4641
سائز سائز سائز
اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

اسلام اور خاندانی روابط (حقوق و فرائ‏ض )

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فَمَا لِلنِّسَاءِ عَلَی الرِّجَالِ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص اخْبَرَنِي اخِي جَبْرَئِيلُ وَ لَمْ يَزَلْ يُوصِينِي بِالنِّسَاءِ حَتَّی ظَنَنْتُ انْ لَا يَحِلَّ لِزَوْجِهَا انْ يَقُولَ لَهَا افٍّ يَا مُحَمَّدُ اتَّقُوا اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِي النِّسَاءِ فَانَّهُنَّ عَوَانٍ بَيْنَ ايْدِيكُمْ اخَذْتُمُوهُنَّ عَلَی امَانَاتِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ(1)

میرے بھائی جبرئیل(ع) نے خدا کی طرف سے اس قدر عورتوں کے حقوق کے بارے میں سفارش کی کہ میں گمان کرنے لگا کہ ان کے لئے اف کہنا بھی جائز نہ ہواور مجھ سے کہا اے محمدﷺ! خدا سے ڈرو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش او،کیونکہ عورتیں ہمارے حکم کی تابع ہیں اور ہم نے امانت الٰہی کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہےاور ان کی جان اور  ناموس پر مسلط ہو ئے ہیںان کے حق میں نیکی کے علاوہ کوئی کام نہ کروپیغمبر اسلام (ص)کا یہ فرمان خواتین عالم کے حقوق کی حمایت کا اعلان ہےاور انہیں وائے کہنے سے بھی منع کرناایسا ہے جس کی مثال  اور کسی انسانی معاشرے میں نہیں پائی جاتی 

 عفو در گزر بیوی کا حق

اسحاق بن عمار کہتا ہے کہ میں نےامام صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا کہ عورتوں کاحق مردوں کے ذمہ کیا ہے؟ تو فرمایا: انہیں کھانا دو،  لباس پہناؤ اور اگر کوئی  جرم کی مرتکب ہوجائے تو انہیں معاف کردو(2)

کیونکہ اگر بیوی نہ ہو تو  انسان کی زندگی بھی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے، بیوی کی محبت ہے جو شوہر کو اپنی ضروریات زندگی کے حصول  کے لئے تلاش کرنے  پر امادہ  کرتی ہے انہی مطالب کو شاعر نے بہترین انداز میں بیان کیا ہے:

پھول کو رنگ تو سبزے کو مہک دی اس نے گوش احساس کو پائل کی کھنک دی اس نے

روشنی شمع کو تاروں کو چمک دی اس نے دامن فکر کو صندل کی مہک دی اس نے

بڑھ گئی اور بھی انسان کے چمن کی خوشبو جب سے تہذیب میں ائی ہے دولہن کی خوشبو(3)

--------------

(1):- مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۵۲

(2):- وسائل الشیعہ  ج15،ص223

(3):- ڈاکٹر پیام اعظمی؛ والفجر،ص۱۲۴

۸۱

بداخلاق بیوی اور صبور شوہر

حضرت ہود پیغمبر (ع) کی بیوی بہت بداخلاق تھی اور اپ کو بہت تنگ کرتی تھی پھر بھی اپؑ اس کے لئے دعائیں کرتے تھےوجہ پوچھی تو فرمایا: خدا تعالیٰٰ کسی بھی مؤمن کو خلق نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کا کوئی نہ کوئی دشمن ضرور ہوتا ہے جو اسے ہمیشہ اذیت اور ازار پہنچاتا رہتا ہے، اور میری دشمن میری اپنی بیوی ہےاور اپنا دشمن اپنے کنٹرول میں رکھنا بہتر ہے اس سے کہ میں اس کے کنٹرول اور اختیار میں گرفتارہوجاؤں(1) رسول اللہ (ص)نے فرمایا:

الَا وَ مَنْ صَبَرَ عَلَی خُلُقِ امْرَاةٍ سَيِّئَةِ الْخُلُقِ وَ احْتَسَبَ فِي ذَلِكَ الْاجْرَ اعْطَاهُ اللهُ ثَوَابَ الشَّاكِرِين(2)

یعنی جو بھی مرد اپنی بداخلاق بیوی کی بداخلاقی رضایت خدا کی خاطر برداشت کرے تو اسے خداوند شاکرین کا ثواب عنایت کرتا ہے

قال الامام الباقر: مَنِ احْتَمَلَ مِنِ امْرَاتِهِ وَ لَوْ كَلِمَةً وَاحِدَةً اعْتَقَ اللهُ رَقَبَتَهُ مِنَ النَّارِ وَ اوْجَبَ لَهُ الْجَنَّةَ وَ كَتَبَ لَهُ مِائَتَيْ الْفِ حَسَنَةٍ وَ مَحَا عَنْهُ مِائَتَيْ الْفِ سَيِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ مِائَتَيْ الْفِ دَرَجَةٍ وَ كَتَبَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ عَلَی بَدَنِهِ عِبَادَةَ سَنَة(3)

امام باقر(ع)فرماتے ہیں کہ جو بھی اپنی  بد اخلاق بیوی کی اذیت اور ازار کو برداشت کرے اور صبر کا مظاہرہ کرے تو قیامت کے دن اسے خداوند عالم جہنم کی اگ سے نجات دلائے گا اور بہشت اس پر واجب کردے گااور اس کے نامہ اعمال میں دولاکھ نیکیاں لکھ دیگا اور دولاکھ برائیوں کو مٹادے گااور دولاکھ درجے اس کےبلند کرے گا اور اس کے بدن پر موجود ہربال کے  برابر  ایک سا ل کی عبادت کا ثواب لکھ دے گا

--------------

(1):- سفینہ البحار، باب زوج

(2):- من لا یحضرہ الفقیہ،ج۴، ص۱۵

(3):-مك ارم ال اخل اق،في حق المر اة علی الزوج،  ص 216

۸۲

یہ مرد جہنمی ہے

امام صادق(ع) نے فرمایا:حرّمت الجّنة علی الدیّوث (1)

دیّوث پر بہشت حرام ہےدیّوث اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بیوی یا ناموس کی دوسروں کیساتھ امیزش پر راضی ہو تاکہ اس ناجائز طریقے سےدولت کمائے امام باقر (ع)نے فرمایا: کچھ اسیروں کو پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو اپ نے سوائے ایک کے باقی سب کو قتل کرنے کا حکم دیااس مرد نے کہا: صرف مجھے کیوں ازاد کیا؟

 اپ نے فرمایا:جبرئیل امین نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی ہے کہ تمہارے اندر پانچ  خصوصیات موجود ہیں جو خدا اور رسول کو پسند ہے: تم غیرتمند،سخاوت مند,خوش خلق،سچے اور شجاع انسان ہوجب اس شخص نے یہ فرمان سنا تو مسلمان  ہوا اور اسلام کو پسندیدہ دین چن لیا اور حضور(ص) کے ساتھ ساتھ لڑتے ہوئے بدرجۂ شہادت فائز ہوا

خاندانی صمیمیت میں محبت کا کردار

         والدین  کو چاہئے کہ بچوں  کے درمیان عدالت اور مساوات کے ساتھ اپنا رویہ اختیار کرے ہر ایک سے برابر محبت کا اظہار کرے ورنہ ان کے درمیان  سوء ظن  اور بدگمانی پیدا ہونگے،جو دوسرے کے ساتھ بغض ،کینہ ،حسد اور دشمنی  کا سبب بنے گاجس طرح حضرت یوسف  کے ساتھ  ان کے بھائیوں نے  کیاور  اپنے والد گرامی پر سوء ظن کرنے اور کہنےلگے:

قالوا لَيُوسُفُ وَ اخُوهُ احَبُّ ال ی ابينا مِنّا انَّ ابانَا لَف ی ضَلالٍ مُبين (2)

" یوسف اور ان کا بھائی باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ محبوب ہیں جبکہ ہم زیادہ محنت اور زحمت اٹھاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد"یعقوب نبی" گمراہ ہوگئے ہیں"کہ اپ حضرت یوسف  سے ان کاکردار اور ایمان  اور اطاعت کی وجہ سے زیادہ محبت کرتے تھے جس کے نتیجے میں حضرت یوسف کنویں میں ڈالے گئے

--------------

(1):-مك ارم ال اخل اق،في حق المر اة علی الزوج،  ص 216

(2):-يوسف، ايه 8

۸۳

دنیااوراخرت کی بھلائی  چار چیزوں میں

امام حسین(ع)نےاپنےباباعلی(ع)سےانہوں نے رسول خدا(ص)سےروایت کی ہے کہ اپ نے فرمایا: جس شخص کو بھی اس دنیا میں چار چیزیں عطا ہوئیں سمجھ لینا کہ دنیا اور اخرت کی ساری نیکیاں اسے عطا ہو ئی ہیں:

1.  تقو یٰ اور پرہیز گاری جو اسے حرا م چیز وں سے بچائے

2.  اچھا اخلاق کہ اس کے ساتھ لوگوں میں پرسکون اور باعزت زندگی گزارے

3.  صبر اور بردباری جسکے ذریعے لوگوں کی نادانی کو دور کرلے

4.  نیک اور شائستہ بیوی جواس کے لئے دین اور دنیا دونوں میں مددگار ثابت ہو

شوہر پر بیوی کےحقوق بہت زیادہ ہیںان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

اچھے اخلاق اور کردار سے پیش انا

اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کے ذمے کچھ حقوق واجب کردیے ہیں جنہیں اسلام کے علا وہ کسی دین یا مذہب نے نہیں بتایاگذشتہ مذاہب میں عورتوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا رہاگذشتہ مذاہب میں جہاں عورت کو انسان نہیں سمجھتے تھے وہاں اسلا م نے انکی عزت اور احترام کو واجب قرار دیتے ہوئے فر مایا:

يَا ايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ ان تَرِثُوا النِّسَاء كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا اتَيْتُمُوهُنَّ الا ان يَاتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَان كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَی ان تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا(1)

اے ایمان والو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبرا عورتوں کے وارث بن جاؤ اور خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے اس کا کچھ حصہّ لے لو مگر یہ کہ وہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے

--------------

(1):- سورہ نساء ۱۹

۸۴

عَنْ شِهَابِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع مَا حَقُّ الْمَرْاةِ عَلَ ی زَوْجِهَا قَالَ يَسُدُّ جَوْعَتَهَا وَ يَسْتُرُ عَوْرَتَهَا وَ لَا يُقَبِّحُ لَهَا وَجْها فَاذَا فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَ اللهِ ادَّ ی الَيْهَا حَقَّهَا (1)

شاسب بن عبدریہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے جب پوچھا کہ مردوں پر عورتوں کے کیا حقوق ہیں؟ تو اپؑ نے فرمایا: ان کی بھوک کو دور کرو لباس پہناؤ اور بکھرے ہوئے چہرے کیساتھ پیش نہ ائے، جب ایسا کیا تو خدا کی قسم ان کا حق ادا ہوگیایعنی روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ خوش روئی اور اخلاق سے پیش انا بھی عورتوں کے حقوق میں سے ہےاس سے پتہ چلتا ہے کہ محبت و مہربانی سے پیش انا بھی ان کا حق ہےورنہ اذیت وازار اور گالی گلوچ  تو سب پرحرام ہےرسول اللہ(ص)نے فرمایا: المسلم من سلم الناس من لسانه و یده

یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے لوگ محفوظ رہیںاور فرمایا:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص اوْصَانِي جَبْرَئِيلُ ع بِالْمَرْاةِ حَتَّی ظَنَنْتُ انَّهُ لَا يَنْبَغِي طَلَاقُهَا الَّا مِنْ فَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ(2)

عورتوں کےحقوق کےبارے میں مجھے جبرائیل نے اس قدر تاکید کی کہ میں گمان کرنے لگا  کہ طلاق دینا حرام ہے مگر یہ کہ وہ فاحشہ ہو

حق سکونت یا مکان

قران نے ان کی رہائش کامسئلہ بھی حل کر تے ہو ئے فرمایا:

اسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَان كُنَّ اولَاتِ حَمْلٍ فَانفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّی يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَانْ ارْضَعْنَ لَكُمْ فَاتُوهُنَّ اجُورَهُنَّ وَاتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَان تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ اخْرَی(3)

--------------

(1):-ک افی ،ج5،ص511، وس ائل‏ الشيعة، ج21، ص513، 2- ب اب مقد ار نفقة الزوجة

(2):-الك افي،ج 5،ص 512، ب اب حق المر اة علی الزوج    

(3):- سورہ طلاق ۶

۸۵

اور ان مطلقات کو سکونت دو جیسی طاقت تم رکھتے ہو اور انہیں اذیت مت دو کہ اس طرح ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک انفاق کرو جب تک وضع حمل نہ ہوجائےپھر اگر وہ تمہارے بچوّں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو اور اسے اپس میں نیکی کے ساتھ طے کرو اور اگر اپس میں کشمکش ہوجائے تو دوسری عورت کو دودھ پلانے کا موقع دو

 حق نفقہ

قران مجید اعراب جاہلیت کے بر خلاف کہ جو نہ صرف خواتین کو نان و نفقہ نہیں دیتے تھے بلکہ بھوک اور پیاس کے خوف سے انہیں زندہ درگور کیا کرتے تھے، حکم دیتا ہے کہ عورت کو نان و نفقہ دیا کرو:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا انفَقُوا مِنْ امْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ وَاللاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَانْ اطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلا انَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا(1)

مرد عورتوں کے حاکم اور نگران ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں نصیحت کرو، انہیں خواب گاہ میں الگ کرو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلندتر اور بزرگ ہے

نفقہ دینے کا ثواب

وَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ عَبْدٍ يَكْسِبُ ثُمَّ يُنْفِقُ عَلَی عِيَالِهِ الَّا اعْطَاهُ اللهُ بِكُلِّ دِرْهَمٍ يُنْفِقُهُ عَلَی عِيَالِهِ سَبْعُمِائَةِ ضِعْف‏(2)

--------------

(1):- نساء ۳۴

(2):-مك ارم ال اخل اق، في حق المر اة علی الزوج،ص 216

۸۶

رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہیں ہے کوئی مشقت برداشت کرکے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے والا مگر یہ کہ خدا وندمتعال ایک ایک درہم یا روپے کے بدلے میں اسے سات سوگنا زیادہ عطا کرتا ہے

حق مہر    

قران مجید حکم دیتا ہے:وَ اتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً فَانْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْ‏ءٍ مِنْهُ نَفْسا فَكُلُوهُ هَنيئا مَريئا (1) عورتوں کو ان کا مہر عطا کردو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں دینا چاہیں تو شوق سے کھالو

مہر دینا واجب

ابَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع فِي رَجُلٍ يَتَزَوَّجُ امْرَاةً وَ لَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقا قَالَ لَا شَيْ‏ءَ لَهَا مِنَ الصَّدَاقِ فَانْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا مَهْرُ نِسَائِهَا(2)

راوی نے امام صادق (ع)سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایک عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی مہر معین نہیں کرتا،تو فرمایا: اس کے لئے کوئی مہر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر دخول کیا ہے تو مہرمثل دینا واجب ہے

مرد کو دو عورت کےبرابر میراث کیوں ؟

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع لِايِّ عِلَّةٍ صَارَ الْمِيرَاثُ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْانْثَيَيْنِ قَالَ لِمَا يُجْعَلُ لَهَا مِنَ الصَّدَاقِ(3)

امام ششم سے سوال کیا گیا:کیوں مرد کو ارث عورتوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے ؟ تو امام نے فرمایا: کیونکہ مردوں پر عورت کے لئے مہر واجب قرار دیا ہے

--------------

(1):- نساء ۴

(2):-وس ائل‏ الشيعة ، ج 21، ص 269

(3):-تهذيب‏ ال احك ام،ج9، ص 398

۸۷

مہر کب اور کتنا دینا واجب ہے ؟

سَالْتُ ابَا عَبْدِ اللهِ ع عَنِ الصَّدَاقِ هَلْ لَهُ وَقْتٌ قَالَ لَا ثُمَّ قَالَ كَانَ صَدَاقُ النَّبِيِّ ص اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اوقِيَّةً وَ نَشّا وَ النَّشُّ نِصْفُ الْاوقِيَّةِ وَ الْاوقِيَّةُ ارْبَعُونَ دِرْهَما فَذَلِكَ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ (1) ا م ا م ص ا دق(ع) سے م ہ ر کے ب ا رے میں سو ا ل کی ا ا س کے ا د ا کرنے ک ا وقت معین ہے؟فرم ا ی ا : نہیں پھر فرم ا ی ا : رسول پ ا ک (ص) کی زوجہ ک ا م ہ ر ب ا رہ ا وقیہ(تیل وزن کرنے ک ا ا یک پیم ا نہ) ا ور ا یک نش ہے ا ور ا یک نش( ہ ر چیز ک ا ا دھ ا حصہ) ا یک ا وقیہ ک ا نصف ہے ا ور ا یک ا وقیہ چ ا لیس درہم ہے، کل پ ا نچ سو درہم بنت ا ہے

مہر مرد پر کیوں؟

انَّ الصَّادِقَ ع قَالَ انَّمَا صَارَ الصَّدَاقُ عَلَی الرَّجُلِ دُونَ الْمَرْاةِ وَ انْ كَانَ فِعْلُهُمَا وَاحِدا فَانَّ الرَّجُلَ اذَا قَضَی حَاجَتَهُ مِنْهَا قَامَ عَنْهَا وَلَمْ يَنْتَظِرْ فَرَاغَهَا فَصَارَالصَّدَاقُ عَلَيْهِ دُونَهَا لِذَلِكَ (2) ا م ا م ص ا دق(ع)نے فرم ا ی ا : م ہ ر مرد کے ا وپر و ا جب کی ا گی ا جبکہ می ا ں ا ور بیوی دونوں ک ا ک ا م بھی ا یک ا ور لذت بھی دونوں ا ٹھ ا تے ہیں؛ ا س کی وجہ یہ ہے کہ شوہر ا پنی خو ا ہش پوری کرنے کے بعد ب ا لکل ف ا رغ ہوج ا ت ا ہے لیکن عورت بچےّ کی ذمہ د ا ری میں مصروف ہوج ا تی ہے ا س لئے مرد پرمہر و ا جب کی ا ہے

خطبہ نکاح

فَقَالَ ابُو جَعْفَرٍ الجواد : الْحَمْدُ لِلّهِ اقْرَارا بِنِعْمَتِهِ وَ لَا الَهَ الَّا اللهُ اخْلَاصا لِوَحْدَانِيَّتِهِ وَ صَلَّی اللهُ عَلَی مُحَمَّدٍ سَيِّدِ بَرِيَّتِهِ وَ الْاصْفِيَاءِ مِنْ عِتْرَتِهِ امَّا بَعْدُ فَقَدْ كَانَ مِنْ فَضْلِ اللهِ عَلَی الْانَامِ انْ اغْنَاهُمْ بِالْحَلَالِ عَنِ الْحَرَامِ وَ قَالَ سُبْحَانَهُ وَ انْكِحُوا الْايامی‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحِينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ امائِكُمْ انْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللهُ واسِعٌ عَلِيمٌ ثُمَّ انَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی يَخْطُبُ امَّ الْفَضْلِ بِنْتَ عَبْدِ اللهِ الْمَامُونِ وَ قَدْ بَذَلَ لَهَا مِنَ الصَّدَاقِ مَهْرَ جَدَّتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ع وَ هُوَ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ جِيَادا(3)

--------------

(1):- بحارالانوار،ج 22 ، ص 205

(2):- بحارالانوار ، ج 100 ص 350

(3):- بحارالانوار، ج 50، ص 76

۸۸

پورا خطبے کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ تمام مطالب دوسری روایات میں بیان ہوچکے ہیںامام جواد (ع)نےعبد اللہ مامون کی بیٹی ام الفضل کے ساتھ نکاح کیا اور اس کے لئے وہی مہر معین کیا جو رسول خدا ﷺ کی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کیلئے معین کیاگیا تھا ؛ یعنی پانچ سو درہم

اگرمہر ادا نہ کرےتو

قَالَ عَلِيٌّ ع فِي قَوْلِهِ تَعَالَی وَ اتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً اعْطُوهُنَّ الصَّدَاقَ الَّذِي اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ فُرُوجَهُنَّ فَمَنْ ظَلَمَ الْمَرْاةَ صَدَاقَهَا الَّذِي اسْتَحَلَّ بِهِ فَرْجَهَا فَقَدِ اسْتَبَاحَ فَرْجَهَا زِنًا(1)

امیر المؤمنین(ع) نے اس ایہء شریفہ کے ذیل میں فرمایا: عورتوں کو ان کا مہر دیا کرو، کیونکہ اس مہر کے ذریعے تمہارے لئے لذت حاصل کرنے کی اجازت ملی ہے اور جس نے بھی عورتوں پر ظلم کرکے ان کا مہر ادا نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے ان کی شرم گاہیں اس کے لئے حلال ہوگئی تھیں ؛ اگر ان کے ساتھ ہمبستری کرے تو وہ زنا شمار ہوگا

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 100 ، ص352

۸۹

تیسری فصل

خاندان میں اخلاق کا کردار

یہ دین مقدّس اسلام کی خصوصیات میں سے ہے کہ خاندانی نظام پر زیادہ  توجّہ دی جاتی ہےاج باپ بیٹے کے درمیان اور میاں بیوی کے درمیان اچھے تعلقات پیدا کرنے کے لئے شادی اور خاندان کا  تشکیل دیناکس قدر اہم ہے،اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہےاور جس خاندان میں بھی اچھے روابط اور تعلقات ہوں وہ خاندان ہی پائیدار اور مستحکم نظر اتا ہے، اور خاندان ہر شخص کی کامیابی اور سعادت کے لئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے یہاں سے ہی انسان کی کامیابی اور اندرونی استعدادوں کا پھلنا پھولنا شروع ہوجاتا ہےاگر میاں بیوی کے درمیان محبت اور دوستی پائی جائے تو وہ معاشرے کے لئے مفید اور لائق فرزند  دے سکتے ہیں بلکہ سب سے زیادہ ماں باپ اس فرزند صالح اور با استعداد سے بہرہ مند ہوتے ہیں

گھریلو کاموں میں مدد کرنے کا ثواب

الف:بدن کے ہربال کے بدلے ایک سال کی عبادت

اگر میاں بیوی گھریلو معاملات میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں تو اپس میں مہربانی اور احسان کا  جذبہ پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰٰ نے بھی  ایسا کرنے والوں پر احسان کرتے ہوئے اتنا ثواب لکھ دیا ہے کہ جسے سن کر انسان کو اپنی عاقبت بخیری کی امید پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:عَنْ عَلِيٍّ ع قَالَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ص وَ فَاطِمَةُ جَالِسَةٌ عِنْدَ الْقِدْرِ وَ انَا انَقِّي الْعَدَسَ قَالَ يَا ابَا الْحَسَنِ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ اسْمَعْ مِنِّي وَ مَا اقُولُ الَّا مِنْ امْرِ رَبِّي مَا مِنْ رَجُلٍ يُعِينُ امْرَاتَهُ فِي بَيْتِهَا الَّا كَانَ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ عَلَ ی بَدَنِهِ عِبَادَةُ سَنَةٍ صِيَامٍ نَهَارُهَا وَ قِيَامٍ لَيْلُهَا وَ اعْطَاهُ اللهُ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا اعْطَاهُ الصَّابِرِينَ دَاوُدَ النَّبِيِّ وَ يَعْقُوبَ وَ عِيسَ ی

چنانچہ جامع الاخبار سے ایک روایت نقل ہوئی ہے  جو   امیرالمؤمنین (ع)سے مروی ہے کہ ایک دن میں گھر میں فاطمہ زہرا(س) کے ساتھ بیٹھ کر عدس (دال)صاف کررہا تھا، اتنے میں رسول خدا ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: اے ابالحسن، میں نے جواب دیا:

۹۰

لبیک یا رسول اللہﷺ! تو اپ نے فرمایا: اے علی مجھ سے وہ باتیں سن لو، میں خدا کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرتا: جو شخص اپنی بیوی کا اس کے گھر میں ہاتھ بٹائے اور مدد کرے تو خدا تعالیٰٰ اسے بدن پر موجود ہر بال کے بدلے میں ایک سال کی عبادت جو دن کو روزہ اور رات کو نماز میں مشغول رہنے    اور اسے صابرین جیسے حضرت  داود، یعقوب، اور عیسیٰ(ع) کا ثواب عطا کرے گا

ب:ہزار شہید کا ثواب

 يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ فِي خِدْمَةِ الْعِيَالِ فِي الْبَيْتِ وَ لَمْ يَانَفْ كَتَبَ اللهُ اسْمَهُ فِي دِيوَانِ الشُّهَدَاءِ وَ كَتَبَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ ثَوَابَ الْفِ شَهِيدٍ وَ كَتَبَ لَهُ بِكُلِّ قَدَمٍ ثَوَابَ حِجَّةٍ وَ عُمْرَةٍ وَ اعْطَاهُ اللهُ بِكُلِّ عِرْقٍ فِي جَسَدِهِ مَدِينَةً فِي الْجَنَّةِ  

یا علی !جو گھر میں اپنے عیال کی خدمت کرتے ہوئے کراہت محسوس نہیں کرتا خدااس کا نام شہدا ئے اسلام کے دفتر میں لکھ دیگا اور اسے ہر دن اور ہر رات ہزار شہید کا ثواب دیا جائے گا،اور ہر قدم پر ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب بھی لکھ دیا جائے گا، اور جسم پر موجود ہر ہر جوڑ کے بدلے میں ایک ایک شہر جنت میں عطا کرے گا

ج:ایک گھنٹہ کی مدد ہزاروں حج،عمرہ،جہادسےبہتر

 يَا عَلِيُّ سَاعَةٌ فِي خِدْمَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ الْفِ سَنَةٍ وَ الْفِ حِجَّةٍ وَ الْفِ عُمْرَةٍ وَ خَيْرٌ مِنْ عِتْقِ الْفِ رَقَبَةٍ وَ الْفِ غَزْوَةٍ وَ الْفِ مَرِيضٍ عَادَهُ وَ الْفِ جُمُعَةٍ وَ الْفِ جَنَازَةٍ وَ الْفِ جَائِعٍ يُشْبِعُهُمْ وَ الْفِ عَارٍ يَكْسُوهُمْ وَ الْفِ فَرَسٍ يُوَجِّهُهُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الْفِ دِينَارٍ يَتَصَدَّقُ بِهَا عَلَی الْمَسَاكِينِ وَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ انْ يَقْرَا التَّوْرَاةَ وَ الْانْجِيلَ وَ الزَّبُورَ وَ الْفُرْقَانَ وَ مِنْ الْفِ اسِيرٍ اسَرَ فَاعْتَقَهُمْ وَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الْفِ بَدَنَةٍ يُعْطِي لِلْمَسَاكِينِ وَ لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّی يَرَی مَكَانَهُ مِنَ الْجَنَّةِ

اے علی! ایک گھنٹہ  گھر میں خدمت کرنا ہزار سال عبادت، ہزار حج،ہزار عمرہ اور ہزار غلام کو ازاد اور ہزار بیماروں کی عیادت،ہزار جنازے میں شرکت، ہزار بھوکے افراد کو سیر،ہزار ننگے لوگوں کو لباس پہنانے  ، ہزار گھوڑے راہ خدا میں جہاد کرنے کے لئے دینے، ہزار درہم سونا راہ خدا میں غریبوں کو  صدقہ دینے، قران و انجیل اور تورات کی تلاوت کرنے ، ہزار اسیروں کو

۹۱

ازاد کرنے، ہزار بھیڑ بکریان مساکین پر خرچ کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں ائے گی جب تک وہ اس دنیامیں ہی جنت میں اپنا مقام نہ دیکھ لے

گھر میں مدد،گناہ کبیرہ کا کفارہ

 يَا عَلِيُّ مَنْ لَمْ يَانَفْ مِنْ خِدْمَةِ الْعِيَالِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لِلْكَبَائِرِ وَ يُطْفِي غَضَبَ الرَّبِّ وَ مُهُورُ الْحُورِ الْعِينِ وَ تَزِيدُ فِي الْحَسَنَاتِ وَ الدَّرَجَاتِ يَا عَلِيُّ لَا يَخْدُمُ الْعِيَالَ الَّا صِدِّيقٌ اوْ شَهِيدٌ اوْ رَجُلٌ يُرِيدُ اللهُ بِهِ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْاخِرَةِ(1)

یا علی! جو بھی اپنے عیال کی خدمت کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرے تو یہ اس کی گناہوں کے لئے کفارہ ہے ، اور خدا کے غیظ وغضب  کو ٹال دیتا ہے، اور یہ جنت کی حوروں کا مہر ہےدرجات اور حسنات میں اضافہ کرتا ہے، یا علی ! اہل وعیال کی خدمت کوئی نہیں کرتا، سوائے سچے، شہید یا وہ شخص جس کے لئے خدا نے دنیا اور اخرت دونوں  میں خیر کا ارادہ کیا ہو

شوہر کی خدمت کرنے کاثواب

جس طرح شوہر کو اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانے کا اتنا ثواب ہے اسی طرح بیوی کو بھی اپنے شوہر کی خدمت کے متعلق بڑا ثواب ذکر ہو ا ہے اس بارے میں  امام کا فرمان ہے:

قَالَ ع الِامْرَاةُ الصَّالِحَةُ خَيْرٌ مِنْ الْفِ رَجُلٍ غَيْرِ صَالِحٍ وَ ايُّمَا امْرَاةٍ خَدَمَتْ زَوْجَهَا سَبْعَةَ ايَّامٍ اغْلَقَ اللهُ عَنْهَا سَبْعَةَ ابْوَابِ النَّارِ وَ فَتَحَ لَهَا ثَمَانِيَةَ ابْوَابِ الْجَنَّةِ تَدْخُلُ مِنْ ايِّهَا شَاءَتْ(2)

امام (ع)نے فرمایا ایک اچھی عورت ہزار برے لوگوں سے بہتر ہےجب کوئی عورت اپنے شوہر کی سات دن خدمت کرے تو خدا تعالیٰٰ جہنّم کے سات دروازے اس پر بند کردیتا ہے اور بہشت کے سارے دروازے کھول دیتا ہے کہ جس دروازے سے چاہے داخل ہوسکتی ہےمزید فرمایا:

--------------

(1):-بح ار ال انو ار ،ج101 ، ص132، ب اب  فضل خدمة العي ال

(2):- وسائل الشیعہ ،ج۲۰،  ص۱۷۲

۹۲

یہ خدمت بہترین عبادت ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح و صفائی،گھریلو مشکلات پر صبر و تحمّل اور خاندان کی بھلائی،میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت اور اولاد کی صحیح تربیت جیسی ذمہ داری کا نبھانا بہت مشکل کام ہےخواتین جو اپنے سر لیتی ہیں تو خدا تعالیٰٰ نے بھی انہیں کتنا عظیم اجر دیا کہ بہشت میں جوار فاطمہ زہرا(س) کو ان کے نصیب میں لکھ دیااور جہنم کو ان پر حرام قرار دیا

ایک برتن کا جابجا کرنے کا ثواب

امام صادق(ع)سے روایت ہے کہ رسول خدا(ص)نے فرمایا:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّ رَسُولَ اللهِ ص قَالَ ايُّمَا امْرَاةٍ رَفَعَتْ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا شَيْئا مِنْ مَوْضِعٍ الَی مَوْضِعٍ تُرِيدُ بِهِ صَلَاحا نَظَرَ اللهُ الَيْهَا وَ مَنْ نَظَرَ اللهُ الَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ فَقَالَت(1)

جب بھی عورت اپنے شوہر کے گھر میں ایک چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے تاکہ گھرمیں نظم و ضبط اور سلیقہ پیدا ہو, تو خداتعالیٰ اسے نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور جس پر نظر رحمت پڑے اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا(2)

ایک گلاس پانی اور سال کی عبادت!

وَ قَالَ ع:  مَا مِنِ امْرَاةٍ تَسْقِي زَوْجَهَا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ الَّا كَانَ خَيْرا لَهَا مِنْ عِبَادَةِ سَنَةٍ صِيَامِ نَهَارِهَا وَ قِيَامِ لَيْلِهَا وَ يَبْنِي اللهُ لَهَا بِكُلِّ شَرْبَةٍ تَسْقِي زَوْجَهَا مَدِينَةً فِي الْجَنَّةِ وَ غَفَرَ لَهَا سِتِّينَ خَطِيئَةً(3)

امام صادق(ع) نے فرمایا: جو بھی عورت اپنے شوہر کو ایک گلاس پانی پلائے تو اس کا ثواب ایک سال کی عبادت (دن کو روزہ اور رات بھرنماز میں گزاری ہو)سے زیادہ ہےاس کے علاوہ خدا تعالیٰ اسے بہشت میں ایک شہر عطا کریگا اور ساٹھ گناہوں کو معاف کریگا

--------------

(1):- وس ائل‏ الشيعة، ج 21 ، ص 451  ب اب خدمة المر اة زوجه ا

(2):- الگوہای تربیت کودکان،ص67

(3):- وسائل الشیعہ  ،ج ۲۰، ص1۷۲

۹۳

رسول  خدا(ص) نے فرمایا:طوبی لامراةٍ رضی عنها زوجها (1) یعنی اس عورت کے لئے مبارک ہو جس پر اس کا شوہر راضی ہوکیونکہ شوہر کی رضایت اس کی عظمت اور مرتبہ میں مزید اضافہ کرتی ہے

بہشت کے کس دروازے سے؟

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ اذَا صَلَّتِ الْمَرْاةُ خَمْسَهَا وَ صَامَتْ شَهْرَهَا وَ حَجَّتْ بَيْتَ رَبِّهَا وَ اطَاعَتْ زَوْجَهَا وَ عَرَفَتْ حَقَّ عَلِيٍّ فَلْتَدْخُلْ مِنْ ايِّ ابْوَابِ الْجِنَانِ شَاءَتْ(2)

 امام صادق(ع) کا فرمان ہے: ہر وہ عورت جو ہمیشہ یومیہ نمازیں پڑھتی ہو اور رمضان کا روزہ رکھتی ہو اورعلیؑ کی ولایت پر ایمان رکھتی ہواور انہیں خلیفہء رسول (ص)جانتی ہواور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرتی ہو، بہشت کے جس دروازے سے داخل ہونا  چاہے داخل ہو سکتی ہے"

یہ حدیث بڑی تاکید کیساتھ عورت کو خاندانی مسائل، بچوّں کی تربیت اور شوہر کے حقوق کا پاس رکھنے کی ترغیب دلاتی ہےاور اطاعت گزار بیوی کے لئے بہترین ثواب کا وعدہ کرتی ہے اور جو عورت اپنے شوہر کی ناراضگی کا سبب بنے اور خاندانی ذمہ داریاں ادا کرنے میں سستی کرے اس کے لئے عذاب جہنم ہےلہذا بہترین بیوی وہی ہے جو شوہر کی مطیع ہو،بچوّں کی صحیح تربیت کرتی ہو اور خاندان میں خوشی کا باعث بنتی ہو

تین گروہ فاطمہ(س) کیساتھ محشور

  قَالَ ع:  ثَلَاثٌ مِنَ النِّسَاءِ يَرْفَعُ اللهُ عَنْهُنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ وَ يَكُونُ مَحْشَرُهُنَّ مَعَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ص امْرَاةٌ صَبَرَتْ عَلَی غَيْرَ زَوْجِهَا وَ امْرَاةٌ صَبَرَتْ عَلَی سُوءِ خُلُقِ زَوْجِهَا وَ امْرَاةٌ وَهَبَتْ صَدَاقَهَا لِزَوْجِهَا يُعْطِي اللهُ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ ثَوَابَ الْفِ شَهِيدٍ وَ يَكْتُبُ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ عِبَادَةَ  سَنَةٍ(3)

--------------

(1):- بحار ،ج 103،ص246

(2):- وسائل ،ج۲۰، ص۱۵۹

(3):- وسائل الشیعہ ،ج۲۱، ص۲۸۵

۹۴

امام صادق(ع) نے فرمایا: عورتوں کے تین گروہ کو عالم برزخ میں فشار اور عذاب قبر نہیں ہوگااور قیامت کے دن حضرت فاطمہ(س) کیساتھ محشور ہونگی اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ہزار شہید اور ایک سال کی عبادت کا ثواب عنایت کریگا:

<   وہ عورت جس کا ایمان اس قدر قوی ہو کہ شوہر کی دوسری شادی سے اسے کوئی دکھ یا تکلیف نہ پہنچے اور شوہر کیساتھ پیار و محبت میں کمی نہ ائے

<   وہ عورت جو اپنے بداخلاق شوہر کی بداخلاقی پر صبر کرے اور اپنے وظیفہ پر عمل کرنے میں کوتاہی نہ کرے

<   وہ عورت جو اپنا مہریہ اپنے شوہر کو بخش دے

اس حدیث میں عورتوں کے صبر و تحملّ اور بردباری کو بہت سراہا گیا ہےفاطمہ زہرا(س) کی ہم نشینی کے علاوہ عذاب قبر سے بھی رہائی ملی اور مجاہدین فی سبیل اللہ کا ثواب بھی انہیں عطا ہواان خدمت گزار خواتین کا اجر و ثواب کو مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا ہے

شوہر کی رضایت بہترین شفاعت

امام باقر (ع)نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

 لَا شَفِيعَ لِلْمَرْاةِ انْجَحُ عِنْدَ رَبِّهَا مِنْ رِضَا زَوْجِهَا الْحَدِيثَ(1)

عورت کے لئے شوہر کی رضایت سے بڑھ کر کوئی شفاعت نہیںپس وہ خواتین خوش قسمت ہیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے شوہرسے عشق و محبت کرتی ہیں اور ان کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں

عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ ابَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ الْبَاقِرَ ع يَقُولُ لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ ع قَامَ عَلَيْهَا امِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ قَالَ اللهُمَّ انِّي رَاضٍ عَنِ ابْنَةِ نَبِيِّكَ اللهُمَّ انَّهَا قَدْ اوحِشَتْ فَانِسْهَا اللهُمَّ انَّهَا قَدْ هُجِرَتْ فَصِلْهَا اللهُمَّ انَّهَا قَدْ ظُلِمَتْ فَاحْكُمْ لَهَا وَ انْتَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ(2)

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ، ج۲۰، ص۲۲۲ 

(2):-بح ار ال انو ار،ج103، ص256  مستدرك‏ الوس ائل    ،ج 2 ،ص 341

۹۵

جابر بن جعفی سے روایت ہے کہ میں نے امام باقرؑ سے سناہے کہ اپ نے فرمایا:امیرالمؤمنین(ع) نے فاطمہ زہراء(س) کی شہادت کے بعد جنازے کیساتھ کھڑے ہوکر فرمایا:

     یا اللہ: یہ تیرے نبی کی بیٹی فاطمہ(س) ہیں میں ان پر اپنی رضایت کا اعلان کرتا ہوں اے میرے اللہ تو اسے وحشت قبرکے عذاب سے محفوظ فرمااے اللہ! ان پر لوگوں نے ظلم کئے ہیں تو خود فاطمہ(س) اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کر

ان تمام مطالب سے جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کی خواتین کے لئے شوہر کی رضایت اور شفاعت بلندی درجات کا باعث ہےجہاں فاطمہ(س) خود شفیعہ محشر ہونے کے باوجود اپنے شوہر کی  رضایت طلب کررہی ہںج تو وہاں ہماری ماں بہنوں  کو بھی چاہئیے کہ اپنے اپنے شوہر کی رضایت کو ملحوظ نظر رکھیں تاکہ عاقبت بخیر ہو

ثواب میں مردوں کے برابر

اسلامی معاشرے میں خواتین کو بڑا مقام حاصل ہے،جن کی روایتوں میں بہت ہی توصیف کی گئی ہے اور ثواب میں بھی مردوں کے برابر کے شریک ہیں:

فَقَالَتْ امُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللهِ ص ذَهَبَ الرِّجَالُ بِكُلِّ خَيْرٍ فَايُّ شَيْ‏ءٍ لِلنِّسَاءِ الْمَسَاكِينِ فَقَالَ ع بَلَی اذَا حَمَلَتِ الْمَرْاةُ كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ بِنَفْسِهِ وَ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ فَاذَا وَضَعَتْ كَانَ لَهَا مِنَ الْاجْرِ مَا لَا يَدْرِي احَدٌ مَا هُوَ لِعِظَمِهِ فَاذَا ارْضَعَتْ كَانَ لَهَا بِكُلِّ مَصَّةٍ كَعِدْلِ عِتْقِ مُحَرَّرٍ مِنْ وُلْدِ اسْمَاعِيلَ فَاذَا فَرَغَتْ مِنْ رَضَاعِهِ ضَرَبَ مَلَكٌ كَرِيمٌ عَلَی جَنْبِهَا وَ قَالَ اسْتَانِفِي الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكِ(1)

ام المؤمنین حضرت امّ سلمہ(س) نے ایک دن رسول خدا(ص)سے عرض کیا: یا رسول اللہ(ص)! مرد حضرات تمام نیکیاں بجا لاتے ہیں اور سارا ثواب کماتے ہیں لیکن ہم بیچاری عورتوں کے لئے بھی کوئی ثواب ہے؟ تو فرمایا:ہاں جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کے لئے دن کو روزہ رکھنے اور رات کو عبادتوں میں گزارنے کا ثواب اور اپنی جان و مال کیساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاھد کا

--------------

(1):- وسائل الشیعہ  ،ج۲۱، ص۴۵۱

۹۶

ثواب دیا جائے گااور جب بچّہ جنم دیگی تو اسے اتنا ثواب عطا کریگا کہ کوئی بھی شمار کرنے والا شمار نہیں کرسکتااور جب اپنے بچےّ کو دودھ پلانے لگے گی تو بچےّ کے ایک ایک گھونٹ لینے  کے بدلے  اولاد بنی اسرائیل میں سے ایک غلام،خدا کی راہ میں ازاد کرنے کا ثواب عطا کرے گااور جب  دو سال پورے ہوجائیں اور دودھ پلاناچھوڑدے تو ایک فرشتہ اتا ہے اور اس عورت کے شانوںپر افرین کہتے ہوئے تھپیس مارتا ہے اور خوش خبری دیتا ہے کہ اے کنیز خدا:تیرے سارے گناہ معاف ہوچکے اب اچھے اور شائستہ عمل اور کردار کے ساتھ تو نئی زندگی شروع کر

فاطمہ(س) خواتین عالم کے لئے نمونہ

دیندار خواتین چاہتی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اسلامی قوانین کے مطابق ادا کریں اور چونکہ حضرت زہرا(س)  ان کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہیں، اس لئے اپ کی سیرت اور کردار کو ان کے لئے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ لَوْ لَا انَّ اللهَ خَلَقَ امِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع لَمْ يَكُنْ لِفَاطِمَةَ ع كُفْوٌ عَلَی ظَهْرِ الْارْضِ ادَمُ فَمَنْ دُونَهُ(1) ا م ا م جعفر ص ا دق نے فرم ا ی ا : میری نظر میں ف ا طمہ (س) ک ا مرتبہ ا س قدر بلند و ب ا ل ا ہے کہ ا گر علی (ع) نہ ہوتے تو ا س روئے زمین پرحضرت ا دم (ع) کے زم ا نے سے قی ا مت تک  ف ا طمہ (س) کے ق ا بل کوئی ہمسر نہ ملت ا

لولا علیّ لم یکن لفاطمة کفو(2)

فاطمہ(س) کاگھر میں کام کرنا

ان تمام عظمتوں کے باوجود فاطمہ (س)گھر کا سارا کام خود کرتی تھیںجیسا کہ امام صادق (ع)فرماتے ہیں:میرے جدّ گرامی علی(ع) نے رسول خدا(ص)کے فرمان کے مطابق گھریلو کام کو فاطمہ کیساتھ تقسیم کیا کہ اپ باہر کا کام کریں گے اور فاطمہ(س)  چاردیواری کے اندر کام کریں گی:

--------------

(1):- تہذیب الاحکام،ج۷، ص۴۷۰

(2): اثارالصادقین،ج16،ص419   

۹۷

 كَانَ عَلِيٌّ ع يَسْتَقِي وَ يَحْتَطِبُ وَ كَانَتْ فَاطِمَةُ ع تَطْحَنُ وَ تَعْجِنُ وَ تَخْبِزُ وَ تَرْقَع‏

یعنی امیر المؤمنین (ع)پانی اور لکڑی کا بندوبست کرتے تھے اور میری جدّہ گرامی اٹا پیستی،خمیر بناتی، روٹی پکاتی اور کپڑے دھوتی  تھیں(1)

پیغمبر(ص) کا اپنی بیٹی کا دیدار کرنا

ایک دن جب رسول گرامی اسلام(ص) فاطمہ(س)کے گھر اپ کے دیدار کے لئے تشریف لائے،فاطمہ(س) کو دیکھ کر اپ کی انکھیں پرنم ہوگئیں کہ فاطمہ(س)اونی لباس میں ملبوس علی (ع)کے گھر میں چکّی بھی پیس رہی ہیں اور ساتھ ہی امام حسین (ع)کو دودھ بھی پلارہی ہیںجب اتنی مشقت کی حالت میں دیکھا تو اشکبار انکھوں کے ساتھ فرمایا: میری جان فاطمہ(س)! دنیا میں ایسی سختیاں جھیل لیں تاکہ قیامت کے دن اجر وثواب کے زیادہ مستحق ہوجاؤاور اس راہ میں صبر و تحمّل کو ہاتھ سے جانے نہ دوفاطمہ(س) نے عرض کیا بابا جان! میں خدا کا ہر حال میں شکر ادا کرتی ہوں اور کسی وقت بھی خدا کی ذات کو فراموش نہیں کرونگیاس وقت وحی نازل ہوئی: ولسوف یعطیک ربّک فترضی (2) یعنی اے رسول! کیااپنی بیٹی کو اتنی سختیوں میں دیکھ کر زیادہ غمگین ہوگئے اوراپ کی انکھوں میں انسو اگئے؟ ہم انہیں اس کا بدلہ ضرور دینگےاور شفاعت کا پرچم اپ اور اپ کی بیٹی فاطمہ (س)کو عطا کریں گے اور ان کی عظمت اور مرتبہ کو اتنا بلند کرینگے کہ اپ راضی ہوجائیں گےشیبہ نے اس واقعے کو کچھ اضافات کیساتھ حضرت سلمانؓ سے یوں نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جب میں علی (ع) کے دولت سرا میں داخل ہواتو فاطمہ(س) کو دیکھا کہ چکّی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیںمیں نے کہا:اے بنت رسول! کیوں فضّہ سے مدد نہیں لیتیں؟ تو فرمایا: ایک دن فضّہ کام کرتی ہے اور ایک دن میںاور اج میری باری ہے اور ان کی استراحت کا دن ہےیہ واقعہ میں نے علی (ع)کو سنایاتو بہت روئے اور فاطمہ (س)کی خدمت میں تشریف لے گئےپھر کچھ لمحہ کے بعد مسکراتے ہوئے باہر ائےپیغمبر اسلام(ص) نے خوشی کی

--------------

(1):- سفینة،ج2،ص195، الکافی  ج۸،ص ۱۶۵

(2):- سورہ ضحی ۵

۹۸

وجہ پوچھی تو علی (ع)نے فرمایا: جب میں گھر میں گیا تو دیکھا  کہ فاطمہ سورہی ہیں اور حسین(ع) ان کے سینہ پر سورہے ہیں اور چکّی خود بخود چل رہی ہےپیغمبر (ص)نے مسکرا کے کہا: اے علی!فرشتے محمد وال محمد (ص)سے محبت رکھتے ہیں جو چکّی چلارہے ہیں(1)

فاطمہ علی(ع) کے گھر میں بہت کام کرتی تھیں بچوّں کی پرورش کرتی مشکلات کو برداشت کرتی بیشتر اوقات بھوکی رہتی لیکن کبھی بھی علی (ع)سے شکایت نہیں کیایک دن امام حسن و حسین(ع) اپنے نانا سے کہنے لگے نانا جان ہم بھوکے ہیں ائیں اور ماں زہرا (س)سے کہیں کہ ہمیں کھانا دیں :

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا لِي ارَ ی وَجْهَكِ اصْفَرَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ الْجُوعُ فَقَالَ ص اللهُمَّ مُشْبِعَ الْجَوْعَةِ وَ دَافِعَ الضَّيْعَةِ اشْبِعْ فَاطِمَةَ بِنْتَ! (2)

پیغمبر اسلام(ص)نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا توفرمایا: کیوں چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا ہے؟ عرض کیا: اے رسول خدا(ص) بھوک کی وجہ سےاس وقت اپ(ص)نے فاطمہ(س) کے حق میں دعا کی،خدایا ان کی بھوک اور پیاس کو رفع فرما

عزیزو!یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ علی(ع) کی امدنی اتنی کم نہ تھی کہ گھر میں اتنی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی، بلکہ یہ لوگ ہمیشہ مال دولت کو راہ خدا میں ایثارکرتے تھےچنانچہ مولا نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

میں چاہتا ہوں کہ میں غریب ترین شخص کی طرح زندگی گزاروں

فاطمہ(س) اور خاندانی حقوق کا دفاع

جہاں فاطمہ(س) اپنا سارا مال راہ خدا میں دیتی ہیں وہاں اپنا حق دوسروں سے لینے میں بھی کوتاہی نہیں کرتیںجب بعض اصحاب رسول نے فدک غصب کیا تو اپؑ نے خطبہ دیا، جس میں دنیا کی تمام خواتیں کے لئے اپنے حقوق کا دفاع اور حفاظت کرنے کا

--------------

(1):- جلاء العیون،ج1 ،ص137

(2):- الکافی ،ج۵، ص۵۲۸

۹۹

درس موجود ہےاپؑ نے فرمایا: کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ مجھے اپنے بابا کی وراثت نہیں ملے گی؟کیا دور جاہلیّت کا حکم دوبارہ جاری کرنے لگے ہو کہ اس دور میں خواتین کو کچھ نہیں ملتا تھا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میں رسول خدا(ص)کی بیٹی ہوں ؟ اے مسلمانو! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجھے اپنے بابا کی وراثت سے محروم کیا جائے؟! اے ابی قحافہ کے بیٹے! کیا اللہ کی کتاب میں یہی لکھا ہے کہ تو اپنے باپ کا ارث لےلے اور میں اپنے باپ کا ارث نہ لوں؟! تو نے خدا پر بہت بڑی تہمت  لگائی ہے اور ایک نئی چیز لے ائے ہوکیوں قران کے خلاف عمل کرتے ہو اور اسے پس پشت ڈالتے ہو؟!قران تو کہہ رہا ہے:

 وورث سلیمان داودا(1)

سلیمان  داود(ع)کے وارث بنےاور زکریا (ع)نے فرمایا:

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ الِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا(2)

پروردگارا! مجھے اپنی طرف سے بیٹا عطا کر جو میرا اور ال یعقوب کا وارث بنے

 وَالَّذِينَ امَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَاوْلَئِكَ مِنكُمْ وَاوْلُوا الارْحَامِ بَعْضُهُمْ اوْلَی بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّهِ انَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(3)

 اور جو لوگ بعد میں ایمان لے ائے اور ہجرت کی اور اپ کے ساتھ جہاد کیا  وہ بھی تم میں سے ہیں اور قرابت دار کتاب خدا میں سب اپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہےاورجو لوگ بعد میں ایمان لے ائے  اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دارایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں

--------------

(1):- نمل 16

(2):- مریم 6

(3):- انفال75

۱۰۰