معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168092 / ڈاؤنلوڈ: 7629
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہطور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے شعروں کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کا خواہاں تھے۔

ان میں سے کچھ موارد ہم نے اپنی دوسری کتاب''الانحرافات الکبری''میں ذکر کئے ہیں  لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔

 دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ  اور اس کا درباری ابوزبید اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔

'الاستیعاب''کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔(۱) بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہکی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟(۲)

عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ  ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے شعر عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے   والے فحاش شعر نمودار ہوئے    جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔بنی امیہ اشعار کی ترویج میں مبالغہ کرتے تھے اور کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے  تھے۔لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے  اور انہوں نے بہت سا مال حاصل کیا۔

--------------

[۱]۔  الاستیعاب:ج۳ص۶۳۳

[۲]۔  الاستیعاب:ج۳ص۶۳۳

۱۰۱

شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ  ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل  کو بطور نمونہ پیش  کرتے تھے۔اسی دوران منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والوں نے فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ دیتا تھا۔(۱) ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کے اشعار کو بہت  سراہا جاتا تھا۔(۲)

فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل ہوتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔(۳)

شعر،شراب اور فحاشی کی مدد سے وجود میں آنے والے فتنہ کے اس لبادہ میں سے زندیقی اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے(۴) ،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے

--------------

[۱]۔ تاریخ الأدب العربی:ج۱ص۲۰۵

[۲]۔ تاریخ الأدب العربی:ج۱ص۲۳۸

[۳]۔ تاریخ الأدب العربی:ج۱ص۲۵۶

[۴]۔ الحضارة الاسلامیة:ج۲ص۶۵

۱۰۲

جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء مرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس پھیلے۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے  سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مگن ہو گئے۔

اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے کہ جس کی اس سے  پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(۳۶۳-۴۴۹)عقلی نظریات کی آڑ میںہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ کہ تمہاری ایمانداری گذرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے کہ جو اس  کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوںکی سنت دم توڑ گئی۔(!)

وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔(۱) پھر ابن راوندی(متوفی ۲۹۳ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔(۲) اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لے کھڑا ہوا   اور اس نے''الفصول والغایات فی محاذاة السور ولآیات''کے نام سے ایک کتاب  لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس  نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے تو تا کہ یہ چمک جائے ،پھر اسے ددیکھو کہ یہ کیسی ہے۔(۳)

--------------

[۱]۔ الحضارة الاسلامیة:۱۳۷

[۲]۔ الحضارة الاسلامیة:۱۳۹

[۳]۔  الحضارة الاسلامیة:۱۴۰

۱۰۳

اس طرح  اشعار کو قوت ملنے کے بارے میںرسول خدا(ص)کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود میں لے لیں۔پھر دیراس کے بعد شراب اور پھر فحاش شعار رائج ہوئے اور عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر وہ خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے پاؤںجما لئے  اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ ،مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا۔(۱) کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔(۲)

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

 یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میںقصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔اہل کتاب کے علماء حکومتی وسرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کی کہانیاںسنانے میں اور جو کچھ  لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار  ہو،اسی میں  مشغول رکھیں۔(۳) تمیم داری(تازہ  مسلمان ہونے والا عیسائی)دوسرے خلیفہ کی نظر میں مدینہ کے بہترین لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا(۴) !اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ  گوئی کرتا تھا۔(۵) عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا!(۶)

--------------

[۱]۔ الحضارة الاسلامیة:ج۱ص۱۲۷-[۲]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج۱ص۴۱۸-[۳]۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج۱ص۱۲۲-۱۲۴(تلخیص)

[۴]۔  الاصابة فی تمییز الصحابة:ج۱ص۲۱۵-[۵] ۔  الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج۱ص۱۸۳،۱۸۴ اور ۱۸۶۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔[۶]۔ القصاص و المذکرین:۲۹

۱۰۴

 حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (مسلمان ،جو پہلے عیسائی تھے)نے سب سے پہلے قصہگوئی کی اور کعب الأحبار(تازہ مسلمان ہونے والا یہودی)کابھی شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصہگوئی کرتا تھا!

محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔

 قصہ  گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیااور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح  نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔(۱)

 ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں: اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد - جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میںبہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے  ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ''جسّاسہ''کی کہانی کہ ججسے اس کے راویوں نے  رسول اکرم(ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔(۲)

 ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:

--------------

[۱]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۶۳

[۲]۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:۷۹ اور ۸۰

۱۰۵

 شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا کہ جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔(۱)

 اس لحاظ سے شام کو ''اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین''کا نام دیا جا سکتاہے۔ معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ''سرجون''وزیراور دربار کا خاص مصنف،''ابن آثال''دربار کامخصوص طبیب اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ''اخطل'' کے نام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔  یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے کہ جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔(۲) مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 ۱۔ سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت میں تھا۔

 کتاب''الأغانی''میںوارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب خوری کرتا تھا اورجب  مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔(۳) اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔(۴)

--------------

[۱]۔ فجر الاسلام:۱۸۹

[۲]۔ معالم المدرستین:ج۱ص۵۰ اور ۵۱

[۳] ۔  الاغانی:ج۱۶ص۶۸ ،''معالم المدرستین ''سے اقتباس:ج۲ص۵۰،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج۳ص۲۲۸ اور ۲۳۹،الکامل فی التاریخ :ج ۴ ص ۱۷''

[۴]۔ التنبیہ الاشراف:۲۶۱،معالم :سے اقتباس:ج۲ص۵۰

۱۰۶

۲۔ ابن آثال: مؤرخین کے مطابق یہ  عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی ڈاکٹر تھا۔

 احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی و عقیدت تھی اور  ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔(۱)

 یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین''حمص'' سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔(۲)

 ۳۔ اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ  کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے اخطل کے بارے میں بتایا۔(۳)

 ''الأغانی''میں بھی اسذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تو ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی بنی  ہوئی صلیب پہنے ہوتے تھا اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتا اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتا۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے

انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔(۴)

--------------

[۱]۔ فجر الاسلام:۱۶۲

[۲]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳

[۳]۔ البیان والتبیین:ج۱ص۸۶،معالم المدرستینسے اقتباس:ج۲ص۵۰

[۴]۔ الأغانی:ج۸ص۲۲۹ ،۳۲۱اور ج۱۶ص۶۸معالم المدرستین سے اقتباس:ج۲ص۵۰ اور ۵۱

۱۰۷

 اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے اموی دور میں بھی عربوں کی بت پرستی کی  کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔(۱)   یہ شواہد واضح و روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف و مقصد ایک تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی  اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی  میں ہو رہا تھا۔(۲)

  عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

ابوریہ لکھتے ہیں: عمر بن خطاب بھی تمیم کا بہت احترام کرتا تھااور اسے''خیر أهل المدینة'' (۳) (یعنی مدینے کا بہترین فرد ) کے الفاظ سے یاد کرتا تھا۔اور یہ سب بالکل اسی وقت ہو رہا تھا جب حضرت علی علیہ السلام اور بزرگ صحابی بھی موجود تھے ۔ جب بعد میں دوسرے خلیفہ کے حکم پرلوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تو تمیم اہل بدر کے ساتھ تھا جن کا شمار پیغمبراکرم(ص) کے سب سے محترم اصحاب میں سے ہوتا تھا اور وہ سب سے زیادہ حقوق لیتا تھا۔

--------------

[۱]۔ انتقال علوم یونانی  بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):۲۱۶-[۲]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۷۴

[۳] ۔  الاصابة: ج۳ص۴۷۳، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس، چھٹا شمارہ:  ۸۷ ۔ ذہبی کی روایت میں تمیم کو ''خیر المؤمنین''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔''سیر أعلام النبلاء''کی طرف رجوع کریں: ج۲ص۴۴۶

۱۰۸

اسی طرح جب اس نے حکم دیا کہ ماہ رمضان کی مستحب نمازوں اور نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے (سن ۱۴ ہجری)تو اس نے دو افراد کو امام جماعت نامزد کیا تھا جن میں سے ایک تمیم داری تھا جو کہ راہب اور نصرانی عالم تھا اور جو تازہ مسلمان ہوا تھا۔

وہ ہزار درہم کی مالیت کا  لباس پہن کر بڑے جلال اور مزیّن ہو کر نماز جماعت میں آتا اور مسلمانوں کی امامت کرتا تھا۔(۱) عثمان کی خلافت کے اختتام تک تمیم مدینہ میں تھا لیکن اس کے قتل ہو جانے کے بعد وہ شام چلا گیا اورر  ۴۰ھ کو وہیں اس دنیا سے چلا گیا۔(۲)

ابوریہ لکھتے ہیں:قابل توجہ نکات میں سے یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے  اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تازہ مسلمان ہونے والے تمام یہودی  کاہن ،عیسائی اورسب ہوس پرست مسلمان شام چلے گئے۔

 یہ واضح ہے کہ یہ کام خدا کے لئے نہیں بلکہ فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں میں نفرت و بغض کی آگ بھڑکانے کے لئے تھا تا کہ اس کے ذریعے اموی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوں اور ان کے کشکول بھی اموی حکمرانوں کے دین سے بھر جائیں۔!(۴)(۳)

--------------

[۱] ۔  تاریخ ابن عساکر:ج۱۰ص۴۷۹، تہذیب ابن عساکر:ج۳ص۳۶۰، سیر اعلام النبلاء:ج۲س۴۴۷، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس :ج۶ص۸۷

[۲]۔  الاعلام(زرکلی):ج۲ص۷۱،اسد الغابہ: ج۱ص۲۵

[۳]۔ اضواء علی السنّة المحمدیة:۱۸۲(حوالہ)

[۴]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۰۳

۱۰۹

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

یہ اموی حکمرانوں کا غیر اسلامی کردار و رفتاراور ان کے عیسایوں سے تعلقات صرف ولید تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس سے قبل وبعد بھی اسی کی طرح ہی تھے جنہوں نے ان کی مدد سے غصب کی گئی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال لیا۔

 ولید سے پہلے ہشام نے بھی عیسائیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کو اتنا بلند مقام دیاکہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کا حاکم بنا دیا ۔ جو کہ عیسائی زادہ تھا اور وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کی بھی حمایت اور طرفداری کرتا تھا۔

کتاب ''امویاں....''میں لکھتے ہیں: ہشام کی خلافت کے کچھ عرصہ بعد  خالد بن عبداللہ قسری  ۷۲۴ سے ۷۳۸ م تک عراق کا حاکم رہا ۔ بعض موقعوں پر وہ مشرقی ریاستوںکی بھی مکمل نگرانی کرتا تھا لیکن کہتے ہیںکہ بعض دوسرے مواقع میں خراسان اس کی حکومت سے خارج ہوگیا تھااور خلیفہ بذات خود وہاں کا حاکم مقرر کرتا تھا۔تقریباً اموی دور کے آغاز سے ہیشام میں خالد کا خاندان اثر و رسوخ رکھتا تھا اور ولید کی خلافت کے زمانے میں خالد کچھ عرصے تک مکہ کا حاکم تھا۔ہشام کی طرح عراق میں مال پر قبضہ جمانے اور مال و دولت کے حصول کی خاطر چونچیں مارنے میںاس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنت روائی میں اس کے بارے میں بھی دشمنانہ نظر کا احساس ہوتا ہے کہ کبھی اسے اسلام کا دشمن تو کبھی عیسائیوں،یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کا طرفدار بیان کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک بار اس نے عیسائیت کو اسلام پر برتری دی اور اپنی عیسائی ماں کے لئے کوفہ میں مسجد کے پیچھے ایک کلیسا بنوایا۔بعض کتابوں میں اسے زندیق شمار کیا گیا۔یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ جس میں اکثر تردید و تنازع رہاہے نیز اسے مانوی حتی کہ ملحدانی افکار میں بھی دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں:اسے اپنے خاندان سے اتنی محبت تھی کہ حتی اگر خلیفہ اسے کعبہ کو تباہ کرنے کا حکم دیتا تو یہ اس کے بھی تیار تھا۔لکھتے ہیں کہ جب یہ مکہ کا حاکم تھا  تو اس نے زائرین کے لئے الگ سے پانی فراہم کیا تا کہ اس اقدام سے زمزم کے مقدس کنویں کی اہمیت کو کم کر سکے اور یہ بتائے کہ اس کا پانی کڑوا ہے،اور اس نے یہ اعلان کیا جو پانی اس نے فراہم کیا ہے وہ خدا کے نمائندے(خلیفہ) کے حکم سے ہے!(۱)

--------------

[۱]۔ امویان؛ نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۹۹

۱۱۰

 ''نہایت الأدب''میں لکھتے ہیں:خالد کی ماں عیسائی کنیزتھی(جس کا تعلق روم سے تھا اور خالد کے باپ نے اسے اسیر بنا لیا اوپھر خالد بھی اسی سے پیدا ہوا)خالد کا بھائی اسد بھی اسی عورت سے پیدا ہوا لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور جب وہ مرا تو خالد نے اس کے لئے اس کی قبر پر کلیسا بنوایا جس پر لوگوں نے اس کی مذمت کی اور فرزدق نے یہ اشعار کہے:''اے خدائے رحمن!اس سواری کی پشت شکستہ کردے جو خالد کو سوار کروا کرہمارے لئے دمشق سے لائی،کس طرح وہ لوگوں کی امامت کرنا چاہتا ہے جس کی ماں کا ایسا دین ہے کہ جوخدا کو یکتا نہیں مانتی؟ وہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنواتا ہے جس میں عیسائی ہیں اور جو کفر سے مساجد کے مینار تباہ کر رہا ہے''

 خالد نے حکم دیا تھا کہ مسجدوں کے مینار تباہ کر دیئے جائیں اور اس  کی وجہ یہ تھی کہ کسی شاعر نے اس بارے میں شعر کہے تھے:

 ''اے کاش!میری زندگی مؤذنوں کے ساتھ ہوتی کہ وہ کسی بھی شخص کوگھر کی چھت پر دیکھ سکتے ہیں ،یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا دلکش نازنین ان کی طرف اشارہ کرتیںہیں''جب خالد کو اس شعر کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بہانہ بنا کر مساجد کے مینار تباہ کرنے کا حکم دیا اور جب خالد تک یہ خبر پہنچی کہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنوانے کی وجہ سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں تو اس نے کہا:خداوند ان کے دین و آئین (اگر تمہارے دین و آئین سے بدتر ہے)پرلعنت کرے اوروہ معذرت کے طور پر یہ بات کہتا تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی بھی شخص کا خلیفہ و جانشین اس کے خاندان میں اس کے رسول  سے محترم ہے۔اور اس کی مراد یہ تھی کہ ہشام رسول خدا(ص) سے محترم ہے!ہم ان خرافات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔(۱) حجاج بن یوسف سے بھی یہی بات عبدالملک اور رسول خدا(ص)کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔خالد بن عبداللہ قسری (جو عراق اور مشرقی علاوے میں حکومت کرتا تھا) حجاج کی سیاست پر عمل کرتا تھا۔

--------------

[۱]۔ نہایت الأدب: ج۶ ص۳۷۰

۱۱۱

 خالد ایک عام انسان تھااور جس طرح لکھا ہے کہ حتی وہ قرآن کو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا! ایک دن خطبہ پڑھتے وقت اس نے ایک آیت غلط پڑھی  اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے دوستوں میں سے قبیلہ تغلب کا ایک شخص اٹھا اور اس سے کہا:امیر؛اپنے لئے کام آسان کرو ،میں نے کوئی عاقل انسان نہیں دیکھا جو قرآن کوحفظ کرکے پڑھے۔حفظ کرکے قرآن  پڑھنااحمقوں کا کام ہے۔! خالد نے کہا:تم نے ٹھیک کہا ہے۔(۲)(۱) عراق میں خالد کے مظالم اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ہشام نے مجبوراً اسے برطرف کردیا۔(۳)

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

 ''الکامل''میں مبرد نے نقل کیا ہے:خالد بن عبداللہ قسری جب عراق کا حاکم بنا تو وہ منبر سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتا تھا اور کہتاتھا:''أللّٰهم علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن هاشم، صهر رسول الله علی ابنته و أبا الحسن و الحسین'' اس کے بعد   وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر کہتا تھا: کیا یہ محترمانہ انداز نہیں ہے!(۴)

 یہ کلام رسول اور آل رسول علیہم السلام سے اس کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔

--------------

[۱]۔ ابولفرج اصفہانی: ج۱۹ص۶۰، تاریخ تمدن اسلامی سے اقتباس: ج۴ ص۸۰

[۲] ۔ نہ  صرف خالد بلکہ بنی امیہ کے کچھ خلفاء صحیح سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی۔

اس بارے میں نقل ہونے والے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک مروان اپنی گفتگو اور محاوروں کے دوران بہت غلطیاں کرتا تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دوران ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی توہین کی اور کہا:''انه لصّ ابن لصّ'' اور کلمہ'' لص''ّ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ۔ لوگ اس پر بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا:ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ان دو باتوں میں سے کس پر ہنسیں؛اس نسبت پر جو تم  نے علی بن ابی طالب علیہما السلام سے دی ہے یا کلمہ لصّ پر جسے تم نے مجرور پڑھا ہے۔ (معاویہ و تاریخ: ۱۴۷)

[۳] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:۲۱۸

[۴]۔ معاویہ و تاریخ: ۱۴۷

۱۱۲

ولید اور اس کے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کے مسلمانوں سے خاص دشمنی تھی۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:ولید نے ایک خط میں حجاز پر اپنے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو حکم دیا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی حجاز میں ہیں انہیں وہاں سے نکال کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دو۔پس خالد نے عثمان بن حیّان مرّی کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی مدینہ میں موجود ہیں انہیں نکال دے اور اس نے بھی ان تمام لوگوںکو ان کے اہل و عیال ہمراہ حجاج کے پاس  بھیج دیا ،تاجروں اور غیرتاجروں میںسے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اعلان کیا کہ جو بھی کسی عراقی کوپناہ دے گا وہ امان میں نہیں ہے۔ اسے جیسے ہی خبر ملتی کہ مدینہ والوں میں سے کسی کے گھر میں  کوئی عراقی ہے تو وہ اسے فوراً نکال دیتا تھا۔(۱)

 بنی امیہ کے کارندے کلیسا بناتے تھے،قرآن کو حفظ کرکے پڑھنا احمقوں کا کام سمجھتے تھے اور فرزدق شاعر کے قول کے مطابق مساجد کے میناراپنے کفر کی وجہ سے تباہ کر دیتے تھے، خانۂ خدا کو آگ لگاتے تھے، پیغمبراکرم(ص) کے آثار نیست و نابود کرتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا وہ دین کے احکامات کو تبدیل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو خدا کا خلیفہ سمجھتے تھے اوروہ جو کچھ کہتے تھے قوم  بھی بغیر سوچے سمجھے اسے مان لیتی تھی!!

کیا ایسے لوگ مذہبی شعور رکھتے ہیں؟!

--------------

[۱]۔ تاریخ یعقوبی: ج۲ص۲۴۶

۱۱۳

چوتھاباب

دشمنوں کے دو بنیادی حربے

    ۱- مسلمانوں میں تفرقہ سازی-    اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک-    جہمیّہ-

    اموی دور میں معتزلہ-    مرجئہ ، اموی دور میں-    بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

    مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی-    معاشرے میں مرجئہ کا کردار-    بہشتی کافر!-

    مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی-    مرجئہ کے فرقے-    ابو حنیفہ اور مرجئہ-

    مرجئہ اور شیعہ-    مرجئہ اور شیعہ روایات-    امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

    عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

    اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.     خارجی کتابوں کا ترجمہ

    مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

    ۲- پیشنگوئیوں کوچھپانا

    الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

    نتیجۂ بحث

۱۱۴

 ۱- مسلمانوں میں تفرقہ سازی

جوافراد یہودیوں کی تاریخ سے آشنا ہیں اور انہیں اسلام کے آئین سے ان کی دشمنی کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے خلاف مبارزہ آرائی کی ۔ ان کے پاس جو وسیلہ بھی تھاانہوں نے اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کیا تاکہ نہ صرف یہودی اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان ان کی ترقی کا راستہ روک سکیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی ہاری ہوئی سیاسی وفوجی طاقت کا کچھ سامان کر سکیں تا کہ غیر یہودی اقوام پر بھی اپنا حکم چلا سکیں!

اس قدرت طلبی کی بنیاد پر وہ مختلف مکر و فریب اور چال بازیوں کے مرتکب ہوئے تا کہ شاید ان کی دیرینہ خواہشات پوری ہوجائیں اور ان کے  سینے میں موجود دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔

ان کی ایک  سازش (جسے وہ مناسب منصوبوں کے ساتھ انجام دیتے تھے) مسلمانوں کے درمیان عقیدتی تفرقہ پیدا کرنا تھا ۔

 مسلمانوں میں مختلف فرقے بنانے میں عیسائیوں کا بھی ہاتھ تھا جو ان میں تفرقہ بازی اور عقیدتی اختلاف پیدا کرتے تھے۔

 ان منصوبوںسے یہودیوں کے دو اہم مقاصد تھے:

۱۔ اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور مختلف گروہ بنانے سے نہ صرف ان کے ہاتھوں سے طاقت چلی جائے گی بلکہ اس عملسے مسلمان اصل دین اور اسلام کی بنیادمیں شک کرنے لگیں۔

لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ایک ایسا حربہ تھا کہ جسے یہودی صرف ابتدائے اسلام ہی سے نہیں بلکہ ظہوراسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے تا کہ ظہور اسلام کے بعد لوگ اس میں شک و شبہ کریں بلکہ اسے منکرانہ نگاہوں سے دیکھیں۔

۲۔ اعتقادات میں اتحاد و یگانگت کو ختم کرکے انہوں نے نہصرف مسلمانوں کے اتحاد کو برہم کر دیا بلکہ ان پر اپناغلبہ پانے کا راستہ بھی ہموار کر لیا۔

۱۱۵

  اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک

 کتاب''دولت عباسیان''میں لکھتے ہیں:زندیق اموی دور میں وجود میں آئے اور عباسیوں کے پہلے دور میں ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئیں۔

 .....حقیقت میں زندقہ منظم مذہبی افکار کے قالب میں ایک سیاسی تحریک تھی جو اپنے پیروکاروں کو مانوی مذہب ،دینی اعتقاد کے محتویٰ اور ان کی فکری میراث کی طرف دعوت دیتی تھی۔اس اعتبار سے کہ اسلامی میراث کی جاگزین عربی ہے۔اور کبھی فلسفی دعوت کے پیچھے سیاست چھپی ہوتی تھی کیونکہ زندقہ نے فلسفہ کا لبادہ اوڑھ کرخود کو چھوپایا ہوا تھا اوردر حقیقت بعض انقلابی پہلوؤں سے مجوس تھے کہ جن کا مقصد اسلامی حکومت کو نابود کرنا اور اس کی جگہ ایرانی حکومت کو لانا تھا۔

 یہ واضح ہے کہ زندقہ ایک مانوی تحریک تھی جس نے اسلامی فتوحات کے بعد دوبارہ سے عراق اور ایران کے کچھ علاقوں میں جگہ بنا لی۔اس رجحان کے انتشار کی وجہ مذہبی آزادی تھی کہ فتوحات کے بعد مختلف مذاہب کے پیروکار وں کو اس کا سامنا تھا

اورجو معاشرے میں ایک طرح کے فکری و نظری  اختلافات اختتام پذیر ہوا۔(۱)

اس بناء پر کہ زندیقی ایک فرقہ کے عنوان سے اموی دور میں وجود میں آئے،اب چاہے اسے مانوی تحریک سمجھیں یا مانوی و غیر مانوی تحریک سے اعم سمجھیں۔

جہمیّہ

 اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار  اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!

--------------

[۱] ۔ دولت عباسیان:۷۵

۱۱۶

 ''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل  اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!

 اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!

اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔

     وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں   کوئی کمی  واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!

     اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔

     شہرستانی کہتے ہیں:(۱) اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔     اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ  جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے  تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں  کرتا!

--------------

[۱] ۔  الملل و النحل:۸۰۱، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج۱ص۱۹۸

۱۱۷

     وہ کہتا تھا:(۱) ایمان ایک  قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں  مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے  اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!

     اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور   نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔

     وہ کہتا تھا:(۲) ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی  ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔

     وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔

     اشعری کہتا ہے:(۳) یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں  بلکہ  حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔

--------------

[۱]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج۴ ص۲۰۴

[۲]۔ الملل و النحل:ج۱ص۸۰، مقالات الاسلامیّین: ج۱ص۱۹۸

[۳]۔ مقالات الاسلامیّین: ج۱ ص۳۱۲، الفرق بین الفرق:۱۲۸ ، الملل و النحل: ج۱ص۸۰

۱۱۸

خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔

 وہ کہتا تھا:(۱) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔(۲)

اموی دور میں معتزلہ

 بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔

 حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔

 ''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ  گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟

--------------

[۱]۔ الملل والنحل: ج۱ص۸۰

[۲]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:۷۹

۱۱۹

واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔

     واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔

     ''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔

 ''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبر(ص) سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔(۱)

مرجئہ ، اموی دور میں

مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔

لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ  کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

--------------

[۱]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳

۱۲۰

دوسرا بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ عقیدۂ مرجئہ کے رواج پانے سے بنی امیہ نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے علاوہ ابوسفیان اور معاویہ سے وراثت میں ملنے والے اسلام کے خلاف بغض و کینہ سے بھی استفادہ کیا اور اسلام کے نام پر مرجئہ گری کے لباس میں لوگوں کو اسلام سے دور کیا اور یہودیت و عیسائیت اور کفر کی کھینچا۔

 ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے یہ حقائق اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔وہ ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:

 اسلام کی پہلی صدی کے دوسرے حصہ میں فرقۂ مرجئہ  بنی امیہ کے دالحکومت دمشق میںکچھ مسیحی عوامل کے نفوذ سے وجود میں آیا۔

 مرجئہ کی وجہ تسمیہ:کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے لیا گیا ہے جس کے معنی  ہیں تأخیر ۔اس گروہ کا نام مرجئہ اس وجہ سے پڑھ گیا کہ مسلمان گناہگاروں کے بارے میں ان کا کوئی حکم نہیں تھا اور وہ ان کے حکم کو روز حساب پر موقوف کرتے تھے اور کسی بھی مسلمان کو اس کے کئے گئے گناہ کی وجہ سے محکوم نہیں کرتے تھے۔لیکن''فاب فلوتن''کے بقول مرجئہ کا نام اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے:

     (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَییْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

اس بناء پر کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی امید پیدا ہونا ہیں۔(2) کیونکہ مرجئہ کہتے تھے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتاجس طرح کفر کے ہوتے ہوئے اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ توبہ، آیت:106

[2] ۔ مرجئہ  کا معنی امیدپیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ ''گناہگاروں کے بارے میں حکم کرنے میں تأخیر''کی وجہ سے ہے۔

۱۲۱

مرجئہ کا اصلی و بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے خدا کی وحدنیت اور پیغمبر(ص) کی نبوت کی گواہی د یتا ہے،وہ جس گناہ کا بھی مرتکب ہو اسے کافر قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کا انجام خدا پر چھوڑ دیں۔ ''جہم بن صوفان''مرجئہ کے ان پیشواؤں میں سے ایک ہے جو اس بارے میں افراط کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ایمان ،قلبی عقیدہ ہے اور جو بھی اس کا معتقد ہو وہ مؤمن ہے؛اگرچہ وہ بغیر کسی   تقیہ کے اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے بت پرستی کرے ،اسلامی شہروں میںیہودی و عیسائی دین کا پرچار کرے،صلیب کی عبادت کرے  اورتثلیث کی باتیں کرے اور اسی حالت میںمر جائے توایسا شخص خدا کے نزدیک مؤمن  اور خدا کا  دوست ہے اور اہل جنت میں سے ہے! ''  جہم''معتقد تھا کہ صحیح اسلام و ایمان ایک ہی ہے۔یہ طبیعی ہے کہ اس عقیدہ کے پیروکار اسلام کے عملی واجبات کی تحقیر کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں کو قرآن کے مقرر کردہ واجبات سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں یہ گروہ بنی امیہ کی حکومت سے راضی  اور شیعوں اور خوارج کے مخالف تھے۔اس کے باوجود اپنے عقائد میں اہلسنت کے ساتھ ایک حد تک موافق تھے ۔لیکن جیسا کہ ''فون کریمر''کا کہنا ہے کہ ان کے عقائدمیں اس حد تک نرمی تھی کیونکہ وہ کہتے تھے مؤمن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔کلی طور پر مرجئہ عمل سے زیادہ عقیدے کو اہمیت دیتے تھے۔ مرجئہ  کے عقائد اموی درباریوں اور ان کے طرفداروں کے عقائد سے موافق تھے ،اس طرح کہ کوئی شیعہ اور خوارج ان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔عیسائی اور دوسرے غیرمسلم لوگوں کی ان کے نزدیک اہمیت تھی اوراسے اہم منصب سونپنے لگے۔یہ عیسائی اپنے مقاصد و منافع کے پابند ، زمانے کے تقاضوں سے ہماہنگ اور ہوا کے رخ پر چلنے والے تھے۔(1)

 بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

 کتاب 'تاریخ تحلیلی اسلام''میں لکھتے ہیں: اموی حکومت کے دور میںصدی کے دوسرے نصف حصے میںدین کے اعتقادی مسائل سے متعلق فکری تحریکیں وجود میںآئیں جن کا مرکز غالباً عراق تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق کے کچھ شہر وں (جن میں سے ایک کوفہ ہے) میں مختلف فلسفی اور دینی عقائد و افکار تھے۔ان میں جو پہلی بحث ہوئی وہ یہ تھی کہ کیا لوگ اپنے اعمال میں مختار ہیں یا مجبور؟ان دو طرح کے افکار کے طرفداروں کو قدریہ و جبریہ کا نام دیا گیا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج ۱ص۴۰۹

۱۲۲

  جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں اس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں کہ کسی نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا:کیا ہم اپنے ارادہ و اختیار سے اس جنگ میں گئے یا ہم مجبور تھے؟

  اس کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد کی تائید اور دوسرے کے عقائد کی مخالفت میں احادیث سے استناد کیا۔

  امویوں کے دور حکومت میں ایک دوسرے مکتب کی تأسیس ہوئی جسے ''مرجئہ'' کا نام دیا گیا۔ امویوں نے اس گروہ سے اپنے مظالم کی توجیہات کے لئے استفادہ کیا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خوارج کا ایک گروہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لئے جہنمی سمجھتا تھا اور ان کے مقابلے میں ''مرجئہ'' کہتے تھے:ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اگر اس بارے میں سختی کی جائے تو مسلمان تفرقہ کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے طرز تفکر سے  انہوں  نے معاویہ اور دوسرے اموی خلفاء کی تائید کی کہ جو کوفہ و بصرہ اور دوسرے شہروں میں مختلف نیک و پارسا افراد کو قتل کر رہے تھے۔ مرجئہ نے اپنی فکر کی بنیاد اس آیت کو قرار دیا:(وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

جبریہ، قدریہ اور مرجئہ کے تفکرات کی جنگ سے''معتزلہ'' کے نام سے ایک معتدل فکری مکتب وجود میں آیا۔کہتے ہیں: اس طرز تفکر کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ حسن بصری گناہان کبیرہ انجام دینے والے شخص کو کافر سمجھتا تھا ۔ لیکن اس کے شاگردوں میں سے ''واصل بن عطا''کا اس سے مختلف نظریہ تھا اور وہ کہتا تھا: ایسا شخص کفر و ایمان کی درمیانی منزل پر ہو گا۔

     کہتے ہیں:جب واصل بن عطا اپنے استاد سے الگ ہو گیا تو حسن نے کہا:''اعتزلَ منّا''اس نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔     اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ دوسرے نظریات بھی ہیں۔(2)

--------------

[1] ۔ سورۂ توبہ، آیت :106''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ''۔

[2] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:228

۱۲۳

  مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     پیغمبر اکرم(ص)  جومستقبل اور مستقبل کے لوگوں سے باخبر تھے انہوں  نے خیانت کاروں (جو آنحضرت کے بعد لوگوں میں تفرقہ پیدا کرتے)کی مکارانہ سازشوںکو روکنے کے لئے لوگوں کوان پر نازل ہونے والی بلاؤں سے آگاہ کر دیااور اپنے ہدایت کرنے والے ارشادات سے لوگوں آئندہ کے شوم ،خطرناک، مختلف مکاتب فکر اور گمراہ کرنے والے فرقوں سے باخبر کیا تا کہ لوگ ان فرقوں سے دھوکا کھا کر نہ صرف قرآن و عترت سے جدا نہ ہوں بلکہ ظالم حکومت کے طغیان کو لگام ڈال سکیں اور ان پر قابو پا سکیں۔لیکن افسوس کہ لوگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی رہنمائی کو ان دیکھا کر دیا اور ہر ایک گروہ الگ سمت میں بھاگنے لگا اور بنی امیہ کے حاکم اپنے من پسند طریقے سے حکومت کرنے لگے۔

اب ہم یہاں رسول خدا(ص) کی راہنمائی کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     جس طرح رسول خدا(ص) نے لوگوں کو امویوں سے خبردار کیا تھا اور ولید کو ظالموں کے پلڑے میں قرار دیا اور اسے انہی کا ساتھی شمار کیاتھا، اس سے پہلے کہ لوگ قدریہ اور مرجئہ کے بارے میں کوئی چیز  جانتے آپ نے ان کی مذمت کی اور آئندہ صدیوں اور بالخصوص پہلی صدی کے لئے حجت تمام کر دی اور فرمایا:میری امت میں سے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے:مرجئہ اور قدریہ۔(1) نیزفرمایا:'قدر(یعنی قدری گری)سے ڈرو کہ جو عیسائیت کی ایک شاخ ہے۔(2)

 اسی طرح فرمایا:خدا نے ستر پیغمبروں کی زبان سے میری امت کے دو گروہوں پر لعنت کی ہے: قدریہ اور مرجئہ کہ جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف اقرار ہے اور اس میں عمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔(3)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال:ج1ص188، بخاری کی اپنی تاریخ میں، نسائی، ابن ماجہ، خطیب اور طبرانی کی روایت ۔

[2]۔ کنزالعمّال: ج1ص119، ابن عاصم،طبرانی اور ابن عدی کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:ج4ص135، دیلمی کی حزیفہ اور حاکم کی ابوامامہ کی روایت۔

۱۲۴

 اسی طرح ایمان و اسلام کے  بارے میں فرمایا:ایمان دل اور زبان سے جب کہ ہجرت جان اور مال سے ہے۔(1)

  نیز فرمایا:ایمان خواہش اور وہ خود خواہی نہیں ہے بلکہ یہ ایسی چیز ہے جودل میں قرار پاتی ہے اور عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔(2)

 6۔اسی طرح فرمایا:ایمان اور عمل دو ایسے شریک بھائی ہیں کہ جو ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور خدا ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔(3)

  نیز فرمایا:تم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا مگر یہ کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والدین اورتمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہوں۔(4)

 نیز آپ نے فرمایا:ایمان کے بغیر کوئی عمل اور عمل کے بغیر کوئی ایمان قبول نہیں ہو گا۔(5)

 اسی طرح فرمایا:ایمان سے بندہ استوار نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس کا دل استوار ہو اور اس کا دل استوار نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کی زبان استوارہو اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کا پڑوسی اس کے نقصان سے محفوظ رہے۔(7)،(6)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال: ج1ص24، عبدالخالق بن زاہر کی اپنی اربعین میں روایت۔

[2]۔ کنزالعمّال:25، ابن نجّار کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:36، ابن شاہین کی روایت۔

[4]۔ کنزالعمّال:37، احمد، بیہقی، نسائی اور ابن ماجہ کی روایت۔

[5]۔ کنزالعمّال:68 ، طبرانی کی روایت۔

[6]۔ مجمع الزوائد:ج 1ص53، احمد کی روایت۔

[7]۔ ازژرفای فتنہ ھا: ج 2ص484

۱۲۵

  معاشرے میں مرجئہ کا کردار

 گمراہ کرنے والے اشعار،شراب نوشی اورجنسی برائیاںکچھ ایسے امور تھے جوفکر کو گمراہ کرنے والے مرجئہ جیسے فرقے کے رواج پانے کے نتیجے میں لوگوں میں پھیلے۔

نوجوان بلند اہداف و مقاصد کی جستجو کرنے کی بجائے عشق و عاشقی کی طرف مائل ہو گئے اور دین و دینداری سے دور ہو گئے۔زندقہ اور بے دینی رواج پا گئی اور لوگ خدا اور رسول(ص)  کو بھول گئے۔

مرجئہ کے پیشواؤں کا اس میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف دعوت دی اور ان سے حیا و غیرت سلب کر لی اور اس کی جگہ بے شرمی تھما دی۔

مرجئہ کے عقیدے کی وجہ سے لوگ شرم کا احسان نہیں کرتے تھے اور ولید بھی عقیدۂ جبر کی برکت سے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔بہت سے جوان موسیقی، بیہودہ اشعاراور عیاشی میں لگ گئے اور انہوں نے اپنا سارا مال اسی عیش و عشرت کی زندگی میں تباہ کر دیاتھا۔

 ڈاکٹر خلیف لکھتے ہیں:اوباش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں کہ جس میں بہت سی اداکارائیںشرکت کرتی تھیں،جس میں متعدد عیاش اور بے شرم گروہ برہنہ رقص کرتے تھے ور جس میں اموی و عباسی بھی  شرکت کرتے تھے تا کہ دوسروں کو ذلت محسوس ہو۔

ایسی ذلت جس نے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے اور نئے آنے والوں اور اس کی طلب کرنے والوںکو آغوش میں لے لیا اور انہیں تاریک کھائی میں پھینک دیااور پروانوں کی طرح آگ کی طرف بڑھنے والے جوانوں کو نگل لیا ۔ جس قدر اس کھائی کا اندھیرا زیادہ ہوتاگیا اتنا ہی اس میں گرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا۔ اس طرح ان کی مستی اور لہو و لعب کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے اور ان کی عیاشی کو ان سے جوڑنے والے شاعروں نے گمراہی کا انتظام کیا؛جو سب کے سب فاسق،عیاش اور شراب سے مست تھے۔اس لہو لعب اور عیاش مکتب نے عورتوں اور مردوں کی صفوں میں عاشقانہ اشعار پڑھنے کی راہ بھی ہموار کی۔

۱۲۶

اس مکتب میں رومانوی افسانے پڑھنا ،عشق و عاشقی کے نغمہ گانا عام تھا۔ اس مکتب کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں کنیزوں اور گانے والی عورتوں میں اضافہ ہوا اور اس مکتب کے کندھوں پر ہی زندقیت پھیلی جس نے اپنی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور دیر کے اشعار رائج ہو گئے۔(1) ولید بن عقبہ (اپنے عیسائی دوست ابوزبید نصرانی کے ساتھ)وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے عثمان بن عفان کے زمانے میں اس کام کے لئے زمین ہموار کی اور ان کے لئے وسائل فراہم کئے۔دیر کے اشعار اور گانے والی کنیزوں کے ساتھ اموی حکومت نے اپنے آخری دن گزارے اور پھر یہ سماجی آفت عباسی حکومت کے سپرد کر دی۔اس حکومت میں بھی غلاموں کی تعداد بڑھی۔ مختلف اقوام، ثقافت، تمدن اور مختلف مذاہب سے کنیزیں اور غلام بچے فراہم ہوئے اور یہ نکتہ حاکموں اور ان کے بیٹوں پر اثرانداز ہوایہاں تک کے ان کے محلوں کی اکثر کنیزیں ایسی تھیں جنہوں نے گلے میں صلیب  آویزاں کی ہوتی تھی۔(3)(2)

 بہشتی کافر!

 کچھ مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کی شرط ہے۔اگرچہ انسان ظاہری طور پر کفرگوئی کرییا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے۔ کچھ نے (جیسے ''ابن حزم'')مرجئہ کے عقیدے کے بارے میں مزید یہ کہا ہے:اگر کوئی اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کا معتقد ہو اگرچہ ظاہراً یہودی یا عیسائی ہو تو وہ نہ صرف حقیقت میں مسلمان ہے بلکہ خدا کے اولیاء اور اہل بہشت میں سے ہے! اس عقیدے کی بنا پر تمام اموی حاکم بھی خدا کے اولیاء اور جنتی ہیں!کیونکہ وہ کچھ لوگوں کو اجرت دیتے تھے کہ فرقۂ مرجئہ کی تبلیغ کریں تا کہ لوگ ان کا شمار اولیاء خدا میں سے کریں،چاہے وہ سب سے شرمناک  کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة: 633 اور 634

[2]۔ العصر العباسی الأوّل:21

[3]۔ ازژرفای فتنہ ھا:ج 2 ص 494

۱۲۷

کتاب''شیعہ در مقابل معتزلہ و اشاعرہ ''میں لکھتے ہیں: اس میں شک نہیں ہے کہ مرجئہ اموی دور حکومت کے وسطی زمانے میں وجود میں آئے اور انہوں نے اسلامی محافل میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اموی حکمرانوں نے بھی ان افکار کو پھیلانے میں ان کی مددکی۔چونکہ مرجئہ انہیں مومن لکھتے تھے اور انہیں ہر چیز سے زیادہ اسی صفت کی ضرورت تھی خصوصاً ان حالات میں کہ جب خوارج امویوں اور تمام صحابیوں کے کافر ہونے پرزور دیتے تھے اور معتزلہ یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ اسلام عقیدے،تمام واجبات اور احکام پر عمل کرنے پر مبنی ہے اور جو بھی ان پر عمل نہ کرے تو وہ جہنم کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ اسلام کے تمام اصول و ارکان کا معتقد ہی کیوں نہ ہو۔ اس بنا پر خوارج کے مطابق اموی کافر تھے یا معتزلہ جس چیز کا دعویٰ کر رہے تھے اس کی رو سے ان کا ٹھکانا جہنم تھالیکن مرجئہ کی نظر میں یہ مؤمن تھے اورکثرت سے گناہ و منکرات انجام دینے کے باوجود وہ  دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے بلکہ بعض مرجئہ اس چیز کے قائل تھے کہ ایمان کے متحقق  ہونے کے لئے صرف خدا اور پیغمبر (ص) پر ایمان لانے کی شرط ہے۔اگرچہ انسان زبان سے کفر کا اظہار کرے اور بتوں کی پوجا کر ے اور اسلامی شہروں میں یہودیت اور عیسائیت کا پرچار کرے اور اس سے بڑھ کر ان کایہ کہنا تھا کہ اگر وہ اس حال میں مر جائے تو وہ اولیاء خدا اور اہل بہشت میں سے ہے!(1)   یہ طبیعی امر ہے کہ ہم  ایسے حکمرانوں کامشاہدہ کریں جنہوں نے اس تفکر کو ہوا دی اور اس کی حمایت کیونکہ وہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کو قبول نہیں کرتے تھے کہ جو انہیں ایسی صفات عطا کرے کہ یہ قدّیسیوں کی صف میں آجائیں۔جو ان کی حکومت اورمسلمانوں پر ان کے تسلّط کو جائز اور ان کے گناہوں کی انجام دہی میں زیادہ روی اور اسلامی تعلیمات و مقدسات کی بے احترامی کو صحیح قرار دے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں کہ جب عقائد کے سلسلے میں فکری کشمکش کی آگ بھڑک رہی تھی ، گناہگاروں اور گناہان کبیرہ کو انجام دینے کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے آراء عام ہو چکے تھے تو یہی حکمران اس تفّکر کے فاتح تھے۔اور جب اس زمانے میں ان کے کفر اور ان کے جہنم کی آگ میں دائمی طور پر رہنے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا تو ان کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اعمال کی مشروعیت کے لئے دانشور اور اصحاب و مبلغین حاصل کریں اور خریدیں۔(2)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:633 اورابن حزم سے منقول: ج4 ص204

[2]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:149

۱۲۸

  مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی

 مرجئہ کے افکار کو پروان چڑھانے اور انہیں پھیلانے والوں میں سے یوحنا دمشقی کا نام لے سکتے ہیں جسے امویوں کے دارالحکومت میں بڑی شہرت حاصل تھی۔جس زمانے میں لوگ ارجاء کی باتیں کرتے تھے وہ اس سے مربوط دینی ابحاث میں مصروف رہتا تھا۔(1) بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کے اصول اور مشرقی کلیسا کی تعلیمات(یوحنا ان کی طرف منسوب ہے)میں ہماہنگی موجود تھی۔(2) یہ تو تھا  مرجئہ کے پس پردہ ہاتھوں کا واقعہ۔اس واقعہ کی شرائط اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے کے بارے میں ڈاکٹر خلیف کہتے ہیں:

امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے عمر بن عبدالعزیزکی خلافت تک کے دور میں مرجئہ گری کے رجحان میں شدت آ گئی۔اس میں  یزید،مروان،عبدالملک ،ولید اور سلیمان بن عبدالملک کا دور شامل ہے۔اسی دور میں اس رجحان میں شدت آنا طبیعی تھا کیونکہ یہ اضطراب اور روحانی بے سکونی کا زمانہ تھا جس میں چھوٹے سے شبہ اور تہمت کی وجہ سے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی اور انہیں سزا دی  جاتی تھی۔(3)

مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ میں حالات کافی سنگین ہو گئے تھے ،  طاقتور قیام سامنے آئے اور اموی حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ بغاوت کرنے والوں کا سخت خشونت اور سنگدلی سے مقابلہ نہ کرے تو یہ شہر اس کے ہاتھوں سے نکل جاے گا۔لہذا انہوں نے عبداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف ثقفی جیسے اپنے ظالم ترین اور سرکش ترین افراد کو اسن پر مسلّط کر دیا جس کی وجہ سے کوفہ ہولناک ڈکٹیٹرشپ کے زیر سایہ آ گیا۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[2]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[3]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:313

[4]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:314

[5]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج2ص479

۱۲۹

     یہ واضح ہے کہ اموی حکمرانوں میں سے یزید سب سے زیادہ خیانت کار تھا اور جو ظلم و ستم اس نے  کئے وہ بنی امیہ میں سے کسی اور نے نہیں کئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ،کعبہ کو آگ لگانا اور واقعہ حرّہ کے بعد بہت سے مسلمانوں پر یہ واضح ہو گیا کہ بنی امیہ نہ صرف رسول اکرم(ص) کے جانشین نہیں ہیں بلکہ دین اور آل رسول علیہم السلام کے دشمن ہیں۔

لوگوں میں ہونے والی باتوں اور سراٹھانے والی تحریکوں نے بنی امیہ کی حکومت کو خبردار کردیا اور انہیں خوف میں مبتلا کر دیا تھا اس لئے انہوں نے کچھ ایسے منصوبے بنائے تھے تا کہ لوگوں کوقابو میں کیا جا سکے۔کوفہ اس طرح کی تبدیلیوں اور تحریکوں کا مرکز تھا۔کوفہ میں ان تبدیلیوں کو کچلنے کے لئے ابن زیاد اور حجاج جیسے ظالموں کو کوفہ کا گورنر بنا دیاگیا۔اسی طرح لوگوں کے اعتراضات کو خاموش کرنے کے لئے مرجئہ گری کو ترویج دی گئی تا کہ مختلف مناطق میں اس کی تبلیغ کرکے لوگوں کو مرجئہ عقائد کا معتقد بنایا جائے۔

مرجئہ کے فرقے

     جس طرح امویوں کی مدد سے فرقۂ مرجئہ کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اسی طرح خود ساختہ اختلافات کی وجہ سے یہ چند فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ان فرقوں میں سے ہر فرقہ عقیدے کے لحاظ سے دوسرے فرقہ سے مختلف تھا اور ان میں سے امویوں  اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے لئے سب سے مناسب اور سازگار فرقہ ''کرّامیہ ''تھا۔

 فرقۂ کرامیّہ مسلمان ہونے کے لئے نہ دین کے احکام پر عمل کرناضروری سمجھتا تھا اور نہ ہی قلبی اعتقاد کو ضروری سمجھتا تھا!اس بناء پرمسلمان شخص بھی یہود و نصاریٰ کے اعمال انجام دے سکتا تھا چاہے باطنی طور پر مسلمان ہو یا نہ ہو۔مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ زبان سے اسلام کے احکامات اور دستورات کا اقرار کرے پھر چاہے دل میں ان کی مخالفت کرے اور چاہے عمل کے اعتبار سے اپنی زبان کے اقرار کے بر خلاف ہی عمل کرے۔یہ ظاہر سی بات  ہے کہ اس طرح کے مسلمان اموی حکمرانوں کے لئے بہت سازگار تھے۔

۱۳۰

مرجئہ کے دوسرے فرقے بھی تھے ۔ممکن ہے کہ ان میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کسی ایک فرقے میں طاقت کے تمرکز کی روک تھام کے لئے ہو اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر طاقت و قدرت کسی ایک گروہ ہی میں جمع ہو جائے اور وہ دوسرے کئی گروہوںمیں تقسیم نہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم قدرت کے لئے سرددرد کا باعث بنے۔پس ہر گروہ میں تفرقہ حکّام کے فائدے میں ہے۔

     ابولحسن اشعری نے مرجعہ کے بارہ فرقے ذکر کئے ہیں اور وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایمان ، عقیدے و یقین کا نام ہے اور عمل حقیقتِ ایمان سے خارج ہے۔اس بارے میں صرف فرقۂ کرامیّہ (محمد بن کرام کے پیروکار)نے ان کی مخالفت کی ہے اگرچہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے اور باطنی و قلبی تصدیق ضروری نہیں ہے۔

اسبنیادپر کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے منافقین حقیقت میں مؤمن تھے اگرچہوہ  دلسے ایمان نہیں لائے تھے !اسی طرح وہ زبان سے انکار کرنے کو کفر قرار دیتے ہیں(!)(1)

 لیکن اسفراینی کی کتاب''التبصیر''میں ارجاء کے پیروکاراس تفصیل سے پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں:

 1۔ یونسیہ فرقہ:یہ یونس بن عون کے پیروکار ہیں۔یہ معتقد ہیں کہ ایمان کا تعلق دل اور زبان سے ہوتا ہے اور ان کی حقیقت خدا کی معرفت و محبت  اور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی تصدیق کرنا ہے۔

2۔ غسّانیہ:جو غسّان مرجئی کے پیروکار ہیں اور جن کا اعتقاد ہے کہ ایمان صرف خدا کے وجود اور اس کی محبت کا اقرار کرنا ہے لیکن اس میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔

3۔ ثنویّہ: ابو معاذ کے پیروکارا ور ان کا عقیدہ تھاکہ ایمان ایسی چیز ہے جو تمہیں کفر سے محفوظ رکھے۔

4۔ ثوبانیّہ:یہ ابو ثوبان مرجئی کے پیروکار تھے۔انہوں نے عقلی واجبات کو وجود خدا اور اس کے پیغمبروں سے بڑھا دیا اور جس چیز کو بھی عقل صحیح قرار دے اسے ایمان کے ارکان  شمار کرتے ہیں۔

-------------

[1] ۔ التعلیقة علی التبصیر فی الدین،اسفراینی:91،التعلیقة علی مقالات الاسلامیّین:203

۱۳۱

 5۔ مریسیّہ:یہ بشیر مریسی کے پیروکار ہیں ۔ہم نے جوکچھ ذکر کیا اس کے علاوہ یہ تخلیق قرآن کا معتقد تھا۔

 جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرجئہ اس پر متفق تھے کہ عمل،ایمان کے ارکان میں سے نہیں ہے۔اس طرح سے ان کی یہ کوشش تھی کہ خوارج کے سامنے ایمان کے معنی کو محدود و مشخص کریں کیونکہ خوارج گناہان کبیرہ انجام دینے والوں کو تو دور کی بات بلکہ یہ اپنے تمام مخالفین کوبھی کافر شمار کرتے تھے اور ان سب کو ایک طرف قرار دیتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کو دوسری جانب۔

 اسی طرح یہ معتزلہ سے مقابلے کے لئے بھی تھا کیونکہ وہ عمل کو ایمان کے ارکان میں سے شمار کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے گناہگار ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے۔خوارج (جنہوں نے ایمان کو اپنی جاگیر بنایا ہوا تھا اور معتزلہ کے مقابلے میں زبانی تصدیق کے علاوہ ارکان پر عمل کرنے کے بھی قائل تھے) کے مقابلے میں مرجئہ کے نظریات پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں پھیلنے والے ان نظریات کی طرح ان میں بھی ارتقاء پیدا ہوا۔جیسے دوسرے نظریات کہ جو پہلے ایک تفکر کی صورت میں ظاہر ہوئے اورپھران میں جتنی بحث ہوتی اور جتنا وقت گذرتا ان میں اتنی ہی زیادہ وسعت آجاتی۔ خاص طور پر جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مرجئہ کے آراء و نظریات بنیادی طور پرحکمرانوں کی مصلحت کے لئے کام کر کرے تھے اور اپنے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس کی تبلیغ و ترویج کے لے مدد کرتے تھے۔اس رو سے ان میں سے کچھ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان جب تک دل اور زبان سے خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہو اسے جہنم کی آگ میں عذاب نہیں دیا جائے گا چاہے وہ گناہ اور منکرات کو ہی انجام کیوں نہ دے!!۔(2)

ابو حنیفہ اور مرجئہ

جس طرح مؤرخین اورمصنّفین فرق و مذاہب کی کتابوں میں ابوحنیفہ کو مرجئہ میں سے شمار کرتے ہیں کیونکہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ایمان زبان سے اقرار اور قلبی تصدیق کا نام ہے اور ایمان انہی دو سےتشکیل پاتا ہے اور اسلام و ایمان ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔

--------------

[2] ۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:151

۱۳۲

 جہم بن صفوان اور اس میں ہونے والے مناظرے (جسے حلی نے کتاب''مناقب ابی حنیفہ!'' میں ذکر کیا ہے) میں ابو حنیفہ نے کہا ہے:اگر کوئی مرجائے جب کہ وہ خدا اور اس کی صفات کو پہچانتاہو اور خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہولیکن زبان سے ان کا اقرار نہ کرے تو وہ کافر مرا اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔مؤمن اس وقت مؤمن ہے کہ جس کی اسے معرفت ہے اس کا زبان سے اقرار کرے اور اس پر ایمان بھی رکھے۔

 اس سے نقل ہوا ہے کہ اس نے ایمان کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:

 1۔ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرے،اس لحاظ سے وہ  خدااور لوگوں کے سامنے مؤمن شمار ہوگا۔

 2۔ دل سے تصدیق کرے لیکن تقیہ یا خوف کی وجہ سے زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ خدا کے نزدیک تو مؤمن ہے لیکن لوگوں کی نظر میں مؤمن شمار نہیں ہو گا۔

 3۔ زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے اس کی تصدیق نہ کرے ۔اس صورت میں وہ لوگوں کی نظر میں تو مؤمن ہے لیکن خدا کے نزدیک کافر ہے۔

 یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے کامل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے لیکن احکامات پر عمل کرنا صدق ایمان کی شرط نہیں ہے!اسی بنیاد پر ابو حنیفہ معتقد تھا کہ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا اور ان دونو ں مورد میں ایمان کی توصیف بے مورد ہے۔لیکن اس میں جو فرق ہے وہ احکامات کو انجام دینے اور محرمات کو ترک کرنے میں  ہے اور یہ اس وجہ سے ہے تاکہ لوگوں میں فرق  پیدا کیا جا سکے اور برتری قرار دی جا سکے ۔ لیکن ایمان کے لحاظ سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے!۔(1)

--------------

[1]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ: 307

۱۳۳

  مرجئہ اور شیعہ

 ''مقالات تاریخی'' کے دسویں شمارے میں لکھتے ہیں: ابوحنیفہ اور مؤمن الطاق میں ہونے والی بحثوں میں سے ایک'' شیعہ و مرجئہ کی اصطلاح ایک دوسرے کے مدمقابل''ہے۔ابوحنیفہ نے مؤمن الطاق سے کہا:میں نے سنا ہے کہ تم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرجائے تو تم اس کا بایاں ہاتھ توڑ دیتے ہو تا کہ قیامت کے دن اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں تھمائی جائے۔ مؤمن الطاق نے کہا:یہ جھوٹ ہے۔لیکن میں نے بھی سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو تم پانی کا ایک برتن اس کے مقعد میں رکھ دیتے ہوتا کہ اسے قیامت کے دن پیاس کا احساس نہ ہو!

 ابو حنیفہ نے کہا:وہ بات تمہارے لئے جھوٹ کہی گئی تھی اور یہ جھوٹی بات ہمارے لئے بیان کی گئی ہے۔(1)

 ''محاسبة مع ابی حنیفة و المرجئة''کے نام سے مؤمن الطاق کی ایک کتاب ذکر ہوئی ہے۔(2) جیسا کہ''مناظرة الشیعی والمرجی فی المسح علی الخفین و.....''کے نام سے ابویحییٰ جرجانی کی بھی ایک کتاب تھی۔(3) ان دونوں کتابوں میں شیعی اصطلاح کو مرجئہ کے مدمقابل سنّی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

 قابل ذکر ہے کہ ابوحنیفہ کی زید بن علی کی حمایت اور پھرحضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں  ابوحنیفہ کا رویہ کسی حد تک دوستانہ ہے۔ اس کے علاوہ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام کے مقام کی تائید کی تھی اور انہیں باطل قرار دیا تھا۔اس نے تاکید کی تھی کہ اگر علی علیہ السلام نے جنگ نہ کی ہوتی تو ہمیں یہ پتہ نہ چلتا کہ باغیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔(4) اس آخری بات کی نسبت شافعی سے بھی دیتے ہیں۔

--------------

[1]۔رجال کشی:190

[2]۔ رجال النجاشی:326

[3]۔ رجال النجاشی:254

[4]۔ عقود الجمان:307

۱۳۴

 اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے مخالفوں کے بارے میں مرجئہ سے کام لینے کے بارے میںاسکافی کے کلمات میں بھی کچھ شاہد موجود ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ''و منزلة المرجئة فی النصب و التقصیر فی علیّ،منزلة الیہود فی التقصیر و شتم عیسی بن مریم ''(1) یہ بالکل ویسا ہی استمال تھا جو شیعہ روایات میں موجود تھا۔وہ کہتے ہیں:ناصبی گری اور حضرت علی علیہ السلام کے حق میں کوتاہی کے سلسلے میں مرجئہ کا وہی مقام تھا جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو دشنام دینے اور ان کے حق میں کوتاہی کے سلسلہ میں یہودیوں کا مقام تھا۔اسی طرح اسکافی ناصبہ،نابتہ اور مرجئہ کی اصطلاحات کو بھی ایک ردیف میں  قرار دیتے  ہیں۔(2)

احتمال ہے کہ ناصبہ کے لئے مرجئہ کی اصطلاح سے استفادہ کرنے کے لئے اہم ترین شاہد ایک شعر ہے جسے جاحظ اور مسعودی نے نقل کیا ہے۔مسعودی کی روایت ہے کہ مأمون نے ابراہیم بن مہدی کی مذمت کرنا چاہی کہ جو بغداد میں اس کے خلاف کھڑا تھااور تسنن کا علم بلند کئے ہوا تھا۔ علی بن محمد مختار بیہقی نے اس کے لئے یہ شعر کہا:

اذ المرجّ سرّک أن تراه          یموت لحینه من قبل موته

فجدّد نده ذکریٰ علی             وصلّ علی النبیّ و آل بیته

 اگر مرجئی کی موت سے پہلے اس کی موت دیکھنا چاہتے ہو ،تو ان کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر کرو اور پیغمبر (ص) اور ان کی اہلبیت علیہم السلام پر درو بھیجو۔(3)

 جاحط نے ''العثمانیّة''میں بھی ایک طرح سے شیعہ و مرجئہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل قرار دیا ہے۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ المعیار والموازنة:

[2]۔ ا لمعیار والموازنة:71

[3] ۔ مروج الذہب:4173، البیان والتبیین: ج2ص149، تلخیص مجمع الآداب ابن فوطی، حرف کاف، حالات زندگی ش 38 الفرق الاسلامیة ف شر الأموی:269 ، الکنی والألقاب:3201، حیاة السیاسیة للامام الرضا علیہ السلام:232

[4]۔ العثمانیّة:72

[5]۔ مقالات تاریخی(دسواں شمارہ):85

۱۳۵

 اگر اسکافی کی یہ بات ( مرجئہ حضرت علی علیہ السلام کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے) صحیح ہو تو پھریا یہ کہیں کہ ابو حنیفہ مرجئہ میں سے نہیں تھا اور یا پھر یہ کہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی حمایت اور آپ کے مخالفین کی ردّ میں  اس سے نقل ہونے والی باتیں صحیح نہیں ہیں۔کیونکہ مرجئہ اگر ناصبیوں کی حد تک ہی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے دشمن ہوں تو اس کا بالکل احتمال نہیں ہے کہ اگر ابوحنیفہ مرجئی تھا تو وہ آنحضرت کی حمایت و طرفداری کرے۔ بہ ہر حال مرجئہ کی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ  کے شیعوں سے دشمنی ثابت ہے۔ اسی وجہ سے بنی امیہ مرجئہ کی طرفداری کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مخالفت کا بیج بویا جاسکے جس کے نتیجہ میں وہ خاندان وحی علیہم السلام سے دور ہوجائیں۔بعض روایات میں مرجئہ کی اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی کی تصریح ہوئی ہے۔

مرجئہ اور شیعہ روایات

 شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایات میں مرجئہ کی اصطلاح کو اہلسنت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اکثریہ حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مخالف معنی میں استمال ہوئے ہیں۔

 حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

 أللّٰهمّ العن المرجئة؛فانّهم أعداؤنا فی الدنیا و الآخرة ۔(1)

 خداوندا مرجئہ پر لعنت فرما کہ یہ دنیا و آخرت میں ہمارے دشمن ہیں۔

 دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے قدریّہ و خوارج پر ایک بار اور مرجئہ پر دو بار لعنت کی ہے۔راوی نے اس کا سبب پوچھا تو آنحضرت نے فرمایا: ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہمارے قاتل مؤمن ہیں ۔اس بناء پر قیامت تک ان کا لباس ہمارے خون سے رنگین رہے گا۔(2)

--------------

[1]۔ الکافی: ج8 ص276، بحارالأنوار: ج46 ص291

[2]۔ الکافی:ج2ص409

۱۳۶

 ایک اور روایت میں اسحاق بن حامد کاتب کہتا ہے:قم میں کپڑے بیچنے والا ایک شخص تھا جس کا مذہب شیعہ تھاا اور اس کا ایک شریک مرجئہ تھا۔ان کے پاس بہت ہی قیمت کپرا آیا۔شیعہ شخص نے کہا:میں یہ کپڑا اپنے مولا کے لئے لے کر جاؤں گا۔ مرجئی نے کہا:میں تمہارے مولا کو نہیں جانتا لیکن تم کپڑے کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔جب اس نے وہ لباس امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچایا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھا کپڑا واپس کر دیا اور فرمایا:مجھے مرجئی کے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(1)

 پیغمبر اکرم(ص) نے جو یہ روایت ارشاد فرمائی :''میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق  نہیں ہے، ایک مرجئہ اور دوسرا قدریّہ''یہ روایت حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے بھی منسوب ہے اور ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت نے یہ حدیث حضرت ختمی المرتبت(ص) سے روایت کی ہے۔(2) اسی طرح حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت  کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہودیوں کی مرجئہ سے شباہت اور قدریّہ کی نصاری سے شباہت ایسی ہی ہے جیسے رات کو رات اور دن کو دن سے شباہت ہے۔(3) ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابوبصیر نے کہا:امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے بصرہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا: میں نے عرض کیا:وہ مرجئی،قدری اور حروری ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا:

 لعن اللّٰه تلک الملل الکافرة المشرکة التی لا تعبد اللّٰه علی شئ ۔(4)

 اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں پانچ گروہوں سے بیزاری اختیار کرتا ہوں:مرجئہ،خوارج،قدریّہ،شامی(بنی امیہ)اور ناصبی۔(5)

--------------

[1]۔ بحارالأنوار:ج51ص340، ازکمال الدین

[2]۔ جامع الأخبار:188

[3]۔ جامع الأخبار:189،بحارالأنوار:ج5ص120

[4]۔ الکافی:ج2ص409-410

[5]۔ مستدرک الوسائل:ج12ص317،بحارالأنوار:ج18ص393

۱۳۷

 یہ اس چیز کی حکایت کر رہی ہیں کہ اکثر موارد میں جب ائمہ اطہار علیہم السلام سے مرجئہ کے بارے میں کوئی حدیث نقل ہوئی تو ان کے ناصبی ہونے کی خصلت پر اصرارکیا گیا ہے۔اگرچہ ممکن ہے   کہ کبھی مرجئہ کی نظر میں ایمان کی تعریف کی طرف بھی اشارہ ہوا ہو۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک  اور روایت میں ذکر ہواہے کہ آپ نے فرمایا:

 اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے حدیث کی تعلیم دو اس سے پہلے کہ اس بارے میں مرجئہ تم پر سبقت لے جائیں ۔(1)

 ضیاء الدین سہروردی نے ایک دوسرا واقعہ یوں نقل کیاہے : حکایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جعفر منصور کے سامنے کسی مرجئی شخص کے ساتھ مناظرہ کیا ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بحث میں کہاکہ ایک مرجئی کو پیغمبر اکرم(ص) کے پاس لایا گیا تا کہ آنحضرت(ص) کے حکم پر اس کو قتل کر دیں!اس شخص نے جواب دیا:پیغمبر(ص) کے زمانے میں یہ مذہب نہیں تھا!امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جو چیز پیغمبر(ص) کے زمانے میں نہیں تھی ،تم وہ کہاں سے لے آئے؟!(2)

 سعد بن عبداللہ اشعری نے تیسری صدی کے آخر میں مرجئہ کو تاریخی لحاظ سے بالکل شیعوں کے برابر قرار دیا ہے اور یہ مرجئہ کے بارے میں شیعوں میں رائج اصطلاح کی پیروی  کانتیجہ تھا۔ وہ لکھتا ہے:جب حضرت علی علیہ السلام قتل ہو گئے تو آپ کے بہت تھوڑے سے شیعوں اور پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کی امامت پر یقین رکھنے والے افرادکے علاوہ آپ کے اصحاب اورجو فرقے طلحہ،زبیر اور عائشہ کے کے ساتھ تھے۔وہ سب ایک ہو گئے اور انہوں نے معاویہ کا ساتھ دیا۔  معاویہ کے ہمراہ جانے والے افراد، حشویہ ،ملوک کے پیروکار اور ان کے یار و مدد گار شامل تھے کہ زبردستی مسلّط ہوتے تھے۔انہوں نے معاویہ کو قبول کیا اور ان سب کو مرجئہ کا نام دیا گیا۔(4)(3)

--------------

[1] ۔ ج6ص47:بادروأولادکم بالحدیث قبل أن یسبقکم الیهم المرجئه'' ، التہذیب شیخ طوسی: ج8 ص111، وسائل الشیعة:ج 21ص478 اور4427۔

[2]۔ آداب المریدین:191-192

[3]۔ المقالات و الفرق:5

[4]۔ مقالات تاریخی (دسواں شمارہ):87

۱۳۸

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

 اموی دور حکومت میں لوگوں کے دماغ میں فتنہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ایسی حکومت جس نے صاحبان علم سے جنگ کی اور جس نے بعثت پیغمبر(ص) کے زمانے کے مشرکوں کے عقائد کو نئے اور دلکش لباس میں پیش کیا۔علماء کا اتفاق ہے کہ اموی حکومت میں قدری گری زیادہ پھیلی اور امویوں  نے اسے اپنی آغوش میں پروان چڑھایااور اس کی حمایت کی تا کہ یہ پلے بڑے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔(1) انہوں نے خدا کی راہوں کو مسدود رکرنے اور قضا و قدر جیسے افکار پیش کئے اور انہیں ترویج دی۔ ان کا مقصدیہ تھا کہ دنیا کو حیرت و سرگردانی اور فکری بے راہ روی میں مبتلا کریں۔اس کام کا نتیجہ شریعتوں کو مقدس نہ سمجھنا،اس کے قوانین کی پابندی نہ کرنا اورحرام اعمال کو انجام دینا تھا کہ جن سے آسمانی ادیان نے منع کیا ہے۔یہ تمام کج روی قضاء الٰہی کے بہانے سے انجام دی جا رہی تھی ۔ امویوں نے اس فکر کی پرورش کی اور پھیلایا تا کہ رسول اکرم(ص) کی زبان سے ان کے بارے میں جو کچھ صادر ہوا ہے ، اسے چھپا سکیں اور یہ بیان کر سکیں کہ حاکمیت اور ان کا اقتدار خدا کی مشیت و ارادے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں اور کسی بھی طرح کی سرکشی اور ان کے خلاف کوئی تحریک ،قضاء الٰہی کے خلاف سرکشی شمار کی جائے گی۔  جس نے سب سے پہلے  جبرکو نئے انداز میں  پیش کیا ،اس کے بارے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:''ہمیں مکمل اطمینان ہے کہجبری گری اموی دور کے آغاز میں پھیلی اور اس دور کے اختتام تک یہ ایک مکتب میں تبدیل ہو گئی۔کہتے ہیں کہ اس تفکّر کو سب سے پہلے رواج دینے والے کچھ یہودی تھے، جنہوں نے یہ افکار مسلمانوں کو سکھائے اورپھر ان کی نشر و اشاعت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے   جس مسلمان نے اس فکری تحریک کی طرف دعوت دی ،وہ جعد بن درہم تھا جس نے یہ افکار شام کے ایک یہودی سے سیکھے اورپھر اس نے بصرہ میں لوگوں میں اس کی ترویج شروع کر دی۔ پھر جہم بن صفوان نے یہ افکار جعد سے سیکھے''۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

۱۳۹

جہم صرف جبر کے عقیدے کی ہی ترویج نہیں کر رہا تھا بلکہ جنت و دوزخ اور خدا سے ملاقات وغیرہ  جیسے اپنے نظریات کی طرف بھی لوگوں کو دعوت دیتا تھا ۔(1) اس طرح اہل کتاب سے جبر کے افکار سیکھنے کے بعد(جوامویوں کی سیاست سے ساز گار تھے)  اموی درخت کی شاخیں،اہل کتاب کے درخت کی شاخوں سے مل گئیں۔ ظاہر ہے کہ شام اموی خلافت کا دارالحکوت  اور مختلف مذہب و نظریات کا پیروکار تھا۔امویوں نے مذاہب کے سربراہوں سے مسالحانہ روایہ رکھا ہوا تھا  اور انہوں نے قیصر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تا کہ اپنی طاقت کی حفاظت کے  لئے وقت پڑھنے پر مسلمانوں کو قتل اور ان کی سرکوبی کریں۔اس معاہدہ کے دوران احبار اپنی عمارت کو اونچاکرنے کے لئے اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال رہے تھے اور اموی بھی انہیں اپنے قریب کر رہے تھے۔تاریخی لحاظ سے یہ مطلب بھی قطعی ہے کہ سرجون مسیحی( جو معاویہ اور اس کے بعد یزید اور پھر مروان بن حکم(2) کا مشیر اور اموی حکومت کا راز دار تھا )جبریوں میں سب سے آگے تھا۔(3) اس بناء  پر سب فرقوں کے علماء کے مطابق اموی حکومت نے جبری گری کو ترویج دینے اور اسے تقویت دینے کی سیاست اپنائی اور اسے اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیا کیونکہ اس کی چادر میں امویوں کے کالے کرتوت پوشیدہ تھے  اور ان کے منبر سے ان کے فقیہ ہر بندگلی سے بھی اپنے لئے راستہ نکال   لیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیوں  کی؟ کیوں انہیں دشنام دیتے ہو؟کیوں حجر بن عدی کو قتل کیا؟ یااکثر کو معاویہ سے ملحق کیوں کیا اور استلحاق کی جاہلی سنت کو پھر سے کیوں زندہ کیا؟ یا امام حسین علیہ السلام کو کیوں قتل کیا؟ یاحرہ  کے واقعہ میں کیوں مدینہ پر حملہ کیا اور اسے مال غنیمت کی طرح لوٹا اور مکہ پر کیوںسنگ باری کی گئی؟کیوں خدا کے مال کو اپنا بازیچہ اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنایا؟ کیوں خدا کے دین کو باطل کیا اور نماز کو ضائع کیا؟ ان سب سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جواب میں ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ سب خدا کی  قضاو قدر کے مطابق تھا اور اس پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر وہ جانے اور تلوار جانے!

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:106

[2]۔ التنبیہ والاشراف:ج1ص285

[3]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:69

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346