معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 148372
ڈاؤنلوڈ: 5441

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148372 / ڈاؤنلوڈ: 5441
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسرا بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ عقیدۂ مرجئہ کے رواج پانے سے بنی امیہ نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے علاوہ ابوسفیان اور معاویہ سے وراثت میں ملنے والے اسلام کے خلاف بغض و کینہ سے بھی استفادہ کیا اور اسلام کے نام پر مرجئہ گری کے لباس میں لوگوں کو اسلام سے دور کیا اور یہودیت و عیسائیت اور کفر کی کھینچا۔

 ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے یہ حقائق اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔وہ ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:

 اسلام کی پہلی صدی کے دوسرے حصہ میں فرقۂ مرجئہ  بنی امیہ کے دالحکومت دمشق میںکچھ مسیحی عوامل کے نفوذ سے وجود میں آیا۔

 مرجئہ کی وجہ تسمیہ:کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے لیا گیا ہے جس کے معنی  ہیں تأخیر ۔اس گروہ کا نام مرجئہ اس وجہ سے پڑھ گیا کہ مسلمان گناہگاروں کے بارے میں ان کا کوئی حکم نہیں تھا اور وہ ان کے حکم کو روز حساب پر موقوف کرتے تھے اور کسی بھی مسلمان کو اس کے کئے گئے گناہ کی وجہ سے محکوم نہیں کرتے تھے۔لیکن''فاب فلوتن''کے بقول مرجئہ کا نام اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے:

     (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَییْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

اس بناء پر کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی امید پیدا ہونا ہیں۔(2) کیونکہ مرجئہ کہتے تھے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتاجس طرح کفر کے ہوتے ہوئے اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ توبہ، آیت:106

[2] ۔ مرجئہ  کا معنی امیدپیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ ''گناہگاروں کے بارے میں حکم کرنے میں تأخیر''کی وجہ سے ہے۔

۱۲۱

مرجئہ کا اصلی و بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے خدا کی وحدنیت اور پیغمبر(ص) کی نبوت کی گواہی د یتا ہے،وہ جس گناہ کا بھی مرتکب ہو اسے کافر قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کا انجام خدا پر چھوڑ دیں۔ ''جہم بن صوفان''مرجئہ کے ان پیشواؤں میں سے ایک ہے جو اس بارے میں افراط کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ایمان ،قلبی عقیدہ ہے اور جو بھی اس کا معتقد ہو وہ مؤمن ہے؛اگرچہ وہ بغیر کسی   تقیہ کے اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے بت پرستی کرے ،اسلامی شہروں میںیہودی و عیسائی دین کا پرچار کرے،صلیب کی عبادت کرے  اورتثلیث کی باتیں کرے اور اسی حالت میںمر جائے توایسا شخص خدا کے نزدیک مؤمن  اور خدا کا  دوست ہے اور اہل جنت میں سے ہے! ''  جہم''معتقد تھا کہ صحیح اسلام و ایمان ایک ہی ہے۔یہ طبیعی ہے کہ اس عقیدہ کے پیروکار اسلام کے عملی واجبات کی تحقیر کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں کو قرآن کے مقرر کردہ واجبات سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں یہ گروہ بنی امیہ کی حکومت سے راضی  اور شیعوں اور خوارج کے مخالف تھے۔اس کے باوجود اپنے عقائد میں اہلسنت کے ساتھ ایک حد تک موافق تھے ۔لیکن جیسا کہ ''فون کریمر''کا کہنا ہے کہ ان کے عقائدمیں اس حد تک نرمی تھی کیونکہ وہ کہتے تھے مؤمن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔کلی طور پر مرجئہ عمل سے زیادہ عقیدے کو اہمیت دیتے تھے۔ مرجئہ  کے عقائد اموی درباریوں اور ان کے طرفداروں کے عقائد سے موافق تھے ،اس طرح کہ کوئی شیعہ اور خوارج ان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔عیسائی اور دوسرے غیرمسلم لوگوں کی ان کے نزدیک اہمیت تھی اوراسے اہم منصب سونپنے لگے۔یہ عیسائی اپنے مقاصد و منافع کے پابند ، زمانے کے تقاضوں سے ہماہنگ اور ہوا کے رخ پر چلنے والے تھے۔(1)

 بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

 کتاب 'تاریخ تحلیلی اسلام''میں لکھتے ہیں: اموی حکومت کے دور میںصدی کے دوسرے نصف حصے میںدین کے اعتقادی مسائل سے متعلق فکری تحریکیں وجود میںآئیں جن کا مرکز غالباً عراق تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق کے کچھ شہر وں (جن میں سے ایک کوفہ ہے) میں مختلف فلسفی اور دینی عقائد و افکار تھے۔ان میں جو پہلی بحث ہوئی وہ یہ تھی کہ کیا لوگ اپنے اعمال میں مختار ہیں یا مجبور؟ان دو طرح کے افکار کے طرفداروں کو قدریہ و جبریہ کا نام دیا گیا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج ۱ص۴۰۹

۱۲۲

  جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں اس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں کہ کسی نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا:کیا ہم اپنے ارادہ و اختیار سے اس جنگ میں گئے یا ہم مجبور تھے؟

  اس کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد کی تائید اور دوسرے کے عقائد کی مخالفت میں احادیث سے استناد کیا۔

  امویوں کے دور حکومت میں ایک دوسرے مکتب کی تأسیس ہوئی جسے ''مرجئہ'' کا نام دیا گیا۔ امویوں نے اس گروہ سے اپنے مظالم کی توجیہات کے لئے استفادہ کیا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خوارج کا ایک گروہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لئے جہنمی سمجھتا تھا اور ان کے مقابلے میں ''مرجئہ'' کہتے تھے:ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اگر اس بارے میں سختی کی جائے تو مسلمان تفرقہ کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے طرز تفکر سے  انہوں  نے معاویہ اور دوسرے اموی خلفاء کی تائید کی کہ جو کوفہ و بصرہ اور دوسرے شہروں میں مختلف نیک و پارسا افراد کو قتل کر رہے تھے۔ مرجئہ نے اپنی فکر کی بنیاد اس آیت کو قرار دیا:(وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

جبریہ، قدریہ اور مرجئہ کے تفکرات کی جنگ سے''معتزلہ'' کے نام سے ایک معتدل فکری مکتب وجود میں آیا۔کہتے ہیں: اس طرز تفکر کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ حسن بصری گناہان کبیرہ انجام دینے والے شخص کو کافر سمجھتا تھا ۔ لیکن اس کے شاگردوں میں سے ''واصل بن عطا''کا اس سے مختلف نظریہ تھا اور وہ کہتا تھا: ایسا شخص کفر و ایمان کی درمیانی منزل پر ہو گا۔

     کہتے ہیں:جب واصل بن عطا اپنے استاد سے الگ ہو گیا تو حسن نے کہا:''اعتزلَ منّا''اس نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔     اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ دوسرے نظریات بھی ہیں۔(2)

--------------

[1] ۔ سورۂ توبہ، آیت :106''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ''۔

[2] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:228

۱۲۳

  مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     پیغمبر اکرم(ص)  جومستقبل اور مستقبل کے لوگوں سے باخبر تھے انہوں  نے خیانت کاروں (جو آنحضرت کے بعد لوگوں میں تفرقہ پیدا کرتے)کی مکارانہ سازشوںکو روکنے کے لئے لوگوں کوان پر نازل ہونے والی بلاؤں سے آگاہ کر دیااور اپنے ہدایت کرنے والے ارشادات سے لوگوں آئندہ کے شوم ،خطرناک، مختلف مکاتب فکر اور گمراہ کرنے والے فرقوں سے باخبر کیا تا کہ لوگ ان فرقوں سے دھوکا کھا کر نہ صرف قرآن و عترت سے جدا نہ ہوں بلکہ ظالم حکومت کے طغیان کو لگام ڈال سکیں اور ان پر قابو پا سکیں۔لیکن افسوس کہ لوگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی رہنمائی کو ان دیکھا کر دیا اور ہر ایک گروہ الگ سمت میں بھاگنے لگا اور بنی امیہ کے حاکم اپنے من پسند طریقے سے حکومت کرنے لگے۔

اب ہم یہاں رسول خدا(ص) کی راہنمائی کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     جس طرح رسول خدا(ص) نے لوگوں کو امویوں سے خبردار کیا تھا اور ولید کو ظالموں کے پلڑے میں قرار دیا اور اسے انہی کا ساتھی شمار کیاتھا، اس سے پہلے کہ لوگ قدریہ اور مرجئہ کے بارے میں کوئی چیز  جانتے آپ نے ان کی مذمت کی اور آئندہ صدیوں اور بالخصوص پہلی صدی کے لئے حجت تمام کر دی اور فرمایا:میری امت میں سے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے:مرجئہ اور قدریہ۔(1) نیزفرمایا:'قدر(یعنی قدری گری)سے ڈرو کہ جو عیسائیت کی ایک شاخ ہے۔(2)

 اسی طرح فرمایا:خدا نے ستر پیغمبروں کی زبان سے میری امت کے دو گروہوں پر لعنت کی ہے: قدریہ اور مرجئہ کہ جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف اقرار ہے اور اس میں عمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔(3)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال:ج1ص188، بخاری کی اپنی تاریخ میں، نسائی، ابن ماجہ، خطیب اور طبرانی کی روایت ۔

[2]۔ کنزالعمّال: ج1ص119، ابن عاصم،طبرانی اور ابن عدی کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:ج4ص135، دیلمی کی حزیفہ اور حاکم کی ابوامامہ کی روایت۔

۱۲۴

 اسی طرح ایمان و اسلام کے  بارے میں فرمایا:ایمان دل اور زبان سے جب کہ ہجرت جان اور مال سے ہے۔(1)

  نیز فرمایا:ایمان خواہش اور وہ خود خواہی نہیں ہے بلکہ یہ ایسی چیز ہے جودل میں قرار پاتی ہے اور عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔(2)

 6۔اسی طرح فرمایا:ایمان اور عمل دو ایسے شریک بھائی ہیں کہ جو ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور خدا ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔(3)

  نیز فرمایا:تم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا مگر یہ کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والدین اورتمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہوں۔(4)

 نیز آپ نے فرمایا:ایمان کے بغیر کوئی عمل اور عمل کے بغیر کوئی ایمان قبول نہیں ہو گا۔(5)

 اسی طرح فرمایا:ایمان سے بندہ استوار نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس کا دل استوار ہو اور اس کا دل استوار نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کی زبان استوارہو اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کا پڑوسی اس کے نقصان سے محفوظ رہے۔(7)،(6)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال: ج1ص24، عبدالخالق بن زاہر کی اپنی اربعین میں روایت۔

[2]۔ کنزالعمّال:25، ابن نجّار کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:36، ابن شاہین کی روایت۔

[4]۔ کنزالعمّال:37، احمد، بیہقی، نسائی اور ابن ماجہ کی روایت۔

[5]۔ کنزالعمّال:68 ، طبرانی کی روایت۔

[6]۔ مجمع الزوائد:ج 1ص53، احمد کی روایت۔

[7]۔ ازژرفای فتنہ ھا: ج 2ص484

۱۲۵

  معاشرے میں مرجئہ کا کردار

 گمراہ کرنے والے اشعار،شراب نوشی اورجنسی برائیاںکچھ ایسے امور تھے جوفکر کو گمراہ کرنے والے مرجئہ جیسے فرقے کے رواج پانے کے نتیجے میں لوگوں میں پھیلے۔

نوجوان بلند اہداف و مقاصد کی جستجو کرنے کی بجائے عشق و عاشقی کی طرف مائل ہو گئے اور دین و دینداری سے دور ہو گئے۔زندقہ اور بے دینی رواج پا گئی اور لوگ خدا اور رسول(ص)  کو بھول گئے۔

مرجئہ کے پیشواؤں کا اس میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف دعوت دی اور ان سے حیا و غیرت سلب کر لی اور اس کی جگہ بے شرمی تھما دی۔

مرجئہ کے عقیدے کی وجہ سے لوگ شرم کا احسان نہیں کرتے تھے اور ولید بھی عقیدۂ جبر کی برکت سے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔بہت سے جوان موسیقی، بیہودہ اشعاراور عیاشی میں لگ گئے اور انہوں نے اپنا سارا مال اسی عیش و عشرت کی زندگی میں تباہ کر دیاتھا۔

 ڈاکٹر خلیف لکھتے ہیں:اوباش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں کہ جس میں بہت سی اداکارائیںشرکت کرتی تھیں،جس میں متعدد عیاش اور بے شرم گروہ برہنہ رقص کرتے تھے ور جس میں اموی و عباسی بھی  شرکت کرتے تھے تا کہ دوسروں کو ذلت محسوس ہو۔

ایسی ذلت جس نے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے اور نئے آنے والوں اور اس کی طلب کرنے والوںکو آغوش میں لے لیا اور انہیں تاریک کھائی میں پھینک دیااور پروانوں کی طرح آگ کی طرف بڑھنے والے جوانوں کو نگل لیا ۔ جس قدر اس کھائی کا اندھیرا زیادہ ہوتاگیا اتنا ہی اس میں گرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا۔ اس طرح ان کی مستی اور لہو و لعب کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے اور ان کی عیاشی کو ان سے جوڑنے والے شاعروں نے گمراہی کا انتظام کیا؛جو سب کے سب فاسق،عیاش اور شراب سے مست تھے۔اس لہو لعب اور عیاش مکتب نے عورتوں اور مردوں کی صفوں میں عاشقانہ اشعار پڑھنے کی راہ بھی ہموار کی۔

۱۲۶

اس مکتب میں رومانوی افسانے پڑھنا ،عشق و عاشقی کے نغمہ گانا عام تھا۔ اس مکتب کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں کنیزوں اور گانے والی عورتوں میں اضافہ ہوا اور اس مکتب کے کندھوں پر ہی زندقیت پھیلی جس نے اپنی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور دیر کے اشعار رائج ہو گئے۔(1) ولید بن عقبہ (اپنے عیسائی دوست ابوزبید نصرانی کے ساتھ)وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے عثمان بن عفان کے زمانے میں اس کام کے لئے زمین ہموار کی اور ان کے لئے وسائل فراہم کئے۔دیر کے اشعار اور گانے والی کنیزوں کے ساتھ اموی حکومت نے اپنے آخری دن گزارے اور پھر یہ سماجی آفت عباسی حکومت کے سپرد کر دی۔اس حکومت میں بھی غلاموں کی تعداد بڑھی۔ مختلف اقوام، ثقافت، تمدن اور مختلف مذاہب سے کنیزیں اور غلام بچے فراہم ہوئے اور یہ نکتہ حاکموں اور ان کے بیٹوں پر اثرانداز ہوایہاں تک کے ان کے محلوں کی اکثر کنیزیں ایسی تھیں جنہوں نے گلے میں صلیب  آویزاں کی ہوتی تھی۔(3)(2)

 بہشتی کافر!

 کچھ مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کی شرط ہے۔اگرچہ انسان ظاہری طور پر کفرگوئی کرییا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے۔ کچھ نے (جیسے ''ابن حزم'')مرجئہ کے عقیدے کے بارے میں مزید یہ کہا ہے:اگر کوئی اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کا معتقد ہو اگرچہ ظاہراً یہودی یا عیسائی ہو تو وہ نہ صرف حقیقت میں مسلمان ہے بلکہ خدا کے اولیاء اور اہل بہشت میں سے ہے! اس عقیدے کی بنا پر تمام اموی حاکم بھی خدا کے اولیاء اور جنتی ہیں!کیونکہ وہ کچھ لوگوں کو اجرت دیتے تھے کہ فرقۂ مرجئہ کی تبلیغ کریں تا کہ لوگ ان کا شمار اولیاء خدا میں سے کریں،چاہے وہ سب سے شرمناک  کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة: 633 اور 634

[2]۔ العصر العباسی الأوّل:21

[3]۔ ازژرفای فتنہ ھا:ج 2 ص 494

۱۲۷

کتاب''شیعہ در مقابل معتزلہ و اشاعرہ ''میں لکھتے ہیں: اس میں شک نہیں ہے کہ مرجئہ اموی دور حکومت کے وسطی زمانے میں وجود میں آئے اور انہوں نے اسلامی محافل میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اموی حکمرانوں نے بھی ان افکار کو پھیلانے میں ان کی مددکی۔چونکہ مرجئہ انہیں مومن لکھتے تھے اور انہیں ہر چیز سے زیادہ اسی صفت کی ضرورت تھی خصوصاً ان حالات میں کہ جب خوارج امویوں اور تمام صحابیوں کے کافر ہونے پرزور دیتے تھے اور معتزلہ یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ اسلام عقیدے،تمام واجبات اور احکام پر عمل کرنے پر مبنی ہے اور جو بھی ان پر عمل نہ کرے تو وہ جہنم کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ اسلام کے تمام اصول و ارکان کا معتقد ہی کیوں نہ ہو۔ اس بنا پر خوارج کے مطابق اموی کافر تھے یا معتزلہ جس چیز کا دعویٰ کر رہے تھے اس کی رو سے ان کا ٹھکانا جہنم تھالیکن مرجئہ کی نظر میں یہ مؤمن تھے اورکثرت سے گناہ و منکرات انجام دینے کے باوجود وہ  دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے بلکہ بعض مرجئہ اس چیز کے قائل تھے کہ ایمان کے متحقق  ہونے کے لئے صرف خدا اور پیغمبر (ص) پر ایمان لانے کی شرط ہے۔اگرچہ انسان زبان سے کفر کا اظہار کرے اور بتوں کی پوجا کر ے اور اسلامی شہروں میں یہودیت اور عیسائیت کا پرچار کرے اور اس سے بڑھ کر ان کایہ کہنا تھا کہ اگر وہ اس حال میں مر جائے تو وہ اولیاء خدا اور اہل بہشت میں سے ہے!(1)   یہ طبیعی امر ہے کہ ہم  ایسے حکمرانوں کامشاہدہ کریں جنہوں نے اس تفکر کو ہوا دی اور اس کی حمایت کیونکہ وہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کو قبول نہیں کرتے تھے کہ جو انہیں ایسی صفات عطا کرے کہ یہ قدّیسیوں کی صف میں آجائیں۔جو ان کی حکومت اورمسلمانوں پر ان کے تسلّط کو جائز اور ان کے گناہوں کی انجام دہی میں زیادہ روی اور اسلامی تعلیمات و مقدسات کی بے احترامی کو صحیح قرار دے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں کہ جب عقائد کے سلسلے میں فکری کشمکش کی آگ بھڑک رہی تھی ، گناہگاروں اور گناہان کبیرہ کو انجام دینے کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے آراء عام ہو چکے تھے تو یہی حکمران اس تفّکر کے فاتح تھے۔اور جب اس زمانے میں ان کے کفر اور ان کے جہنم کی آگ میں دائمی طور پر رہنے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا تو ان کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اعمال کی مشروعیت کے لئے دانشور اور اصحاب و مبلغین حاصل کریں اور خریدیں۔(2)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:633 اورابن حزم سے منقول: ج4 ص204

[2]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:149

۱۲۸

  مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی

 مرجئہ کے افکار کو پروان چڑھانے اور انہیں پھیلانے والوں میں سے یوحنا دمشقی کا نام لے سکتے ہیں جسے امویوں کے دارالحکومت میں بڑی شہرت حاصل تھی۔جس زمانے میں لوگ ارجاء کی باتیں کرتے تھے وہ اس سے مربوط دینی ابحاث میں مصروف رہتا تھا۔(1) بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کے اصول اور مشرقی کلیسا کی تعلیمات(یوحنا ان کی طرف منسوب ہے)میں ہماہنگی موجود تھی۔(2) یہ تو تھا  مرجئہ کے پس پردہ ہاتھوں کا واقعہ۔اس واقعہ کی شرائط اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے کے بارے میں ڈاکٹر خلیف کہتے ہیں:

امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے عمر بن عبدالعزیزکی خلافت تک کے دور میں مرجئہ گری کے رجحان میں شدت آ گئی۔اس میں  یزید،مروان،عبدالملک ،ولید اور سلیمان بن عبدالملک کا دور شامل ہے۔اسی دور میں اس رجحان میں شدت آنا طبیعی تھا کیونکہ یہ اضطراب اور روحانی بے سکونی کا زمانہ تھا جس میں چھوٹے سے شبہ اور تہمت کی وجہ سے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی اور انہیں سزا دی  جاتی تھی۔(3)

مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ میں حالات کافی سنگین ہو گئے تھے ،  طاقتور قیام سامنے آئے اور اموی حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ بغاوت کرنے والوں کا سخت خشونت اور سنگدلی سے مقابلہ نہ کرے تو یہ شہر اس کے ہاتھوں سے نکل جاے گا۔لہذا انہوں نے عبداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف ثقفی جیسے اپنے ظالم ترین اور سرکش ترین افراد کو اسن پر مسلّط کر دیا جس کی وجہ سے کوفہ ہولناک ڈکٹیٹرشپ کے زیر سایہ آ گیا۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[2]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[3]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:313

[4]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:314

[5]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج2ص479

۱۲۹

     یہ واضح ہے کہ اموی حکمرانوں میں سے یزید سب سے زیادہ خیانت کار تھا اور جو ظلم و ستم اس نے  کئے وہ بنی امیہ میں سے کسی اور نے نہیں کئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ،کعبہ کو آگ لگانا اور واقعہ حرّہ کے بعد بہت سے مسلمانوں پر یہ واضح ہو گیا کہ بنی امیہ نہ صرف رسول اکرم(ص) کے جانشین نہیں ہیں بلکہ دین اور آل رسول علیہم السلام کے دشمن ہیں۔

لوگوں میں ہونے والی باتوں اور سراٹھانے والی تحریکوں نے بنی امیہ کی حکومت کو خبردار کردیا اور انہیں خوف میں مبتلا کر دیا تھا اس لئے انہوں نے کچھ ایسے منصوبے بنائے تھے تا کہ لوگوں کوقابو میں کیا جا سکے۔کوفہ اس طرح کی تبدیلیوں اور تحریکوں کا مرکز تھا۔کوفہ میں ان تبدیلیوں کو کچلنے کے لئے ابن زیاد اور حجاج جیسے ظالموں کو کوفہ کا گورنر بنا دیاگیا۔اسی طرح لوگوں کے اعتراضات کو خاموش کرنے کے لئے مرجئہ گری کو ترویج دی گئی تا کہ مختلف مناطق میں اس کی تبلیغ کرکے لوگوں کو مرجئہ عقائد کا معتقد بنایا جائے۔

مرجئہ کے فرقے

     جس طرح امویوں کی مدد سے فرقۂ مرجئہ کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اسی طرح خود ساختہ اختلافات کی وجہ سے یہ چند فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ان فرقوں میں سے ہر فرقہ عقیدے کے لحاظ سے دوسرے فرقہ سے مختلف تھا اور ان میں سے امویوں  اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے لئے سب سے مناسب اور سازگار فرقہ ''کرّامیہ ''تھا۔

 فرقۂ کرامیّہ مسلمان ہونے کے لئے نہ دین کے احکام پر عمل کرناضروری سمجھتا تھا اور نہ ہی قلبی اعتقاد کو ضروری سمجھتا تھا!اس بناء پرمسلمان شخص بھی یہود و نصاریٰ کے اعمال انجام دے سکتا تھا چاہے باطنی طور پر مسلمان ہو یا نہ ہو۔مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ زبان سے اسلام کے احکامات اور دستورات کا اقرار کرے پھر چاہے دل میں ان کی مخالفت کرے اور چاہے عمل کے اعتبار سے اپنی زبان کے اقرار کے بر خلاف ہی عمل کرے۔یہ ظاہر سی بات  ہے کہ اس طرح کے مسلمان اموی حکمرانوں کے لئے بہت سازگار تھے۔

۱۳۰

مرجئہ کے دوسرے فرقے بھی تھے ۔ممکن ہے کہ ان میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کسی ایک فرقے میں طاقت کے تمرکز کی روک تھام کے لئے ہو اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر طاقت و قدرت کسی ایک گروہ ہی میں جمع ہو جائے اور وہ دوسرے کئی گروہوںمیں تقسیم نہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم قدرت کے لئے سرددرد کا باعث بنے۔پس ہر گروہ میں تفرقہ حکّام کے فائدے میں ہے۔

     ابولحسن اشعری نے مرجعہ کے بارہ فرقے ذکر کئے ہیں اور وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایمان ، عقیدے و یقین کا نام ہے اور عمل حقیقتِ ایمان سے خارج ہے۔اس بارے میں صرف فرقۂ کرامیّہ (محمد بن کرام کے پیروکار)نے ان کی مخالفت کی ہے اگرچہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے اور باطنی و قلبی تصدیق ضروری نہیں ہے۔

اسبنیادپر کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے منافقین حقیقت میں مؤمن تھے اگرچہوہ  دلسے ایمان نہیں لائے تھے !اسی طرح وہ زبان سے انکار کرنے کو کفر قرار دیتے ہیں(!)(1)

 لیکن اسفراینی کی کتاب''التبصیر''میں ارجاء کے پیروکاراس تفصیل سے پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں:

 1۔ یونسیہ فرقہ:یہ یونس بن عون کے پیروکار ہیں۔یہ معتقد ہیں کہ ایمان کا تعلق دل اور زبان سے ہوتا ہے اور ان کی حقیقت خدا کی معرفت و محبت  اور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی تصدیق کرنا ہے۔

2۔ غسّانیہ:جو غسّان مرجئی کے پیروکار ہیں اور جن کا اعتقاد ہے کہ ایمان صرف خدا کے وجود اور اس کی محبت کا اقرار کرنا ہے لیکن اس میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔

3۔ ثنویّہ: ابو معاذ کے پیروکارا ور ان کا عقیدہ تھاکہ ایمان ایسی چیز ہے جو تمہیں کفر سے محفوظ رکھے۔

4۔ ثوبانیّہ:یہ ابو ثوبان مرجئی کے پیروکار تھے۔انہوں نے عقلی واجبات کو وجود خدا اور اس کے پیغمبروں سے بڑھا دیا اور جس چیز کو بھی عقل صحیح قرار دے اسے ایمان کے ارکان  شمار کرتے ہیں۔

-------------

[1] ۔ التعلیقة علی التبصیر فی الدین،اسفراینی:91،التعلیقة علی مقالات الاسلامیّین:203

۱۳۱

 5۔ مریسیّہ:یہ بشیر مریسی کے پیروکار ہیں ۔ہم نے جوکچھ ذکر کیا اس کے علاوہ یہ تخلیق قرآن کا معتقد تھا۔

 جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرجئہ اس پر متفق تھے کہ عمل،ایمان کے ارکان میں سے نہیں ہے۔اس طرح سے ان کی یہ کوشش تھی کہ خوارج کے سامنے ایمان کے معنی کو محدود و مشخص کریں کیونکہ خوارج گناہان کبیرہ انجام دینے والوں کو تو دور کی بات بلکہ یہ اپنے تمام مخالفین کوبھی کافر شمار کرتے تھے اور ان سب کو ایک طرف قرار دیتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کو دوسری جانب۔

 اسی طرح یہ معتزلہ سے مقابلے کے لئے بھی تھا کیونکہ وہ عمل کو ایمان کے ارکان میں سے شمار کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے گناہگار ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے۔خوارج (جنہوں نے ایمان کو اپنی جاگیر بنایا ہوا تھا اور معتزلہ کے مقابلے میں زبانی تصدیق کے علاوہ ارکان پر عمل کرنے کے بھی قائل تھے) کے مقابلے میں مرجئہ کے نظریات پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں پھیلنے والے ان نظریات کی طرح ان میں بھی ارتقاء پیدا ہوا۔جیسے دوسرے نظریات کہ جو پہلے ایک تفکر کی صورت میں ظاہر ہوئے اورپھران میں جتنی بحث ہوتی اور جتنا وقت گذرتا ان میں اتنی ہی زیادہ وسعت آجاتی۔ خاص طور پر جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مرجئہ کے آراء و نظریات بنیادی طور پرحکمرانوں کی مصلحت کے لئے کام کر کرے تھے اور اپنے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس کی تبلیغ و ترویج کے لے مدد کرتے تھے۔اس رو سے ان میں سے کچھ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان جب تک دل اور زبان سے خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہو اسے جہنم کی آگ میں عذاب نہیں دیا جائے گا چاہے وہ گناہ اور منکرات کو ہی انجام کیوں نہ دے!!۔(2)

ابو حنیفہ اور مرجئہ

جس طرح مؤرخین اورمصنّفین فرق و مذاہب کی کتابوں میں ابوحنیفہ کو مرجئہ میں سے شمار کرتے ہیں کیونکہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ایمان زبان سے اقرار اور قلبی تصدیق کا نام ہے اور ایمان انہی دو سےتشکیل پاتا ہے اور اسلام و ایمان ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔

--------------

[2] ۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:151

۱۳۲

 جہم بن صفوان اور اس میں ہونے والے مناظرے (جسے حلی نے کتاب''مناقب ابی حنیفہ!'' میں ذکر کیا ہے) میں ابو حنیفہ نے کہا ہے:اگر کوئی مرجائے جب کہ وہ خدا اور اس کی صفات کو پہچانتاہو اور خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہولیکن زبان سے ان کا اقرار نہ کرے تو وہ کافر مرا اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔مؤمن اس وقت مؤمن ہے کہ جس کی اسے معرفت ہے اس کا زبان سے اقرار کرے اور اس پر ایمان بھی رکھے۔

 اس سے نقل ہوا ہے کہ اس نے ایمان کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:

 1۔ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرے،اس لحاظ سے وہ  خدااور لوگوں کے سامنے مؤمن شمار ہوگا۔

 2۔ دل سے تصدیق کرے لیکن تقیہ یا خوف کی وجہ سے زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ خدا کے نزدیک تو مؤمن ہے لیکن لوگوں کی نظر میں مؤمن شمار نہیں ہو گا۔

 3۔ زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے اس کی تصدیق نہ کرے ۔اس صورت میں وہ لوگوں کی نظر میں تو مؤمن ہے لیکن خدا کے نزدیک کافر ہے۔

 یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے کامل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے لیکن احکامات پر عمل کرنا صدق ایمان کی شرط نہیں ہے!اسی بنیاد پر ابو حنیفہ معتقد تھا کہ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا اور ان دونو ں مورد میں ایمان کی توصیف بے مورد ہے۔لیکن اس میں جو فرق ہے وہ احکامات کو انجام دینے اور محرمات کو ترک کرنے میں  ہے اور یہ اس وجہ سے ہے تاکہ لوگوں میں فرق  پیدا کیا جا سکے اور برتری قرار دی جا سکے ۔ لیکن ایمان کے لحاظ سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے!۔(1)

--------------

[1]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ: 307

۱۳۳

  مرجئہ اور شیعہ

 ''مقالات تاریخی'' کے دسویں شمارے میں لکھتے ہیں: ابوحنیفہ اور مؤمن الطاق میں ہونے والی بحثوں میں سے ایک'' شیعہ و مرجئہ کی اصطلاح ایک دوسرے کے مدمقابل''ہے۔ابوحنیفہ نے مؤمن الطاق سے کہا:میں نے سنا ہے کہ تم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرجائے تو تم اس کا بایاں ہاتھ توڑ دیتے ہو تا کہ قیامت کے دن اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں تھمائی جائے۔ مؤمن الطاق نے کہا:یہ جھوٹ ہے۔لیکن میں نے بھی سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو تم پانی کا ایک برتن اس کے مقعد میں رکھ دیتے ہوتا کہ اسے قیامت کے دن پیاس کا احساس نہ ہو!

 ابو حنیفہ نے کہا:وہ بات تمہارے لئے جھوٹ کہی گئی تھی اور یہ جھوٹی بات ہمارے لئے بیان کی گئی ہے۔(1)

 ''محاسبة مع ابی حنیفة و المرجئة''کے نام سے مؤمن الطاق کی ایک کتاب ذکر ہوئی ہے۔(2) جیسا کہ''مناظرة الشیعی والمرجی فی المسح علی الخفین و.....''کے نام سے ابویحییٰ جرجانی کی بھی ایک کتاب تھی۔(3) ان دونوں کتابوں میں شیعی اصطلاح کو مرجئہ کے مدمقابل سنّی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

 قابل ذکر ہے کہ ابوحنیفہ کی زید بن علی کی حمایت اور پھرحضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں  ابوحنیفہ کا رویہ کسی حد تک دوستانہ ہے۔ اس کے علاوہ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام کے مقام کی تائید کی تھی اور انہیں باطل قرار دیا تھا۔اس نے تاکید کی تھی کہ اگر علی علیہ السلام نے جنگ نہ کی ہوتی تو ہمیں یہ پتہ نہ چلتا کہ باغیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔(4) اس آخری بات کی نسبت شافعی سے بھی دیتے ہیں۔

--------------

[1]۔رجال کشی:190

[2]۔ رجال النجاشی:326

[3]۔ رجال النجاشی:254

[4]۔ عقود الجمان:307

۱۳۴

 اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے مخالفوں کے بارے میں مرجئہ سے کام لینے کے بارے میںاسکافی کے کلمات میں بھی کچھ شاہد موجود ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ''و منزلة المرجئة فی النصب و التقصیر فی علیّ،منزلة الیہود فی التقصیر و شتم عیسی بن مریم ''(1) یہ بالکل ویسا ہی استمال تھا جو شیعہ روایات میں موجود تھا۔وہ کہتے ہیں:ناصبی گری اور حضرت علی علیہ السلام کے حق میں کوتاہی کے سلسلے میں مرجئہ کا وہی مقام تھا جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو دشنام دینے اور ان کے حق میں کوتاہی کے سلسلہ میں یہودیوں کا مقام تھا۔اسی طرح اسکافی ناصبہ،نابتہ اور مرجئہ کی اصطلاحات کو بھی ایک ردیف میں  قرار دیتے  ہیں۔(2)

احتمال ہے کہ ناصبہ کے لئے مرجئہ کی اصطلاح سے استفادہ کرنے کے لئے اہم ترین شاہد ایک شعر ہے جسے جاحظ اور مسعودی نے نقل کیا ہے۔مسعودی کی روایت ہے کہ مأمون نے ابراہیم بن مہدی کی مذمت کرنا چاہی کہ جو بغداد میں اس کے خلاف کھڑا تھااور تسنن کا علم بلند کئے ہوا تھا۔ علی بن محمد مختار بیہقی نے اس کے لئے یہ شعر کہا:

اذ المرجّ سرّک أن تراه          یموت لحینه من قبل موته

فجدّد نده ذکریٰ علی             وصلّ علی النبیّ و آل بیته

 اگر مرجئی کی موت سے پہلے اس کی موت دیکھنا چاہتے ہو ،تو ان کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر کرو اور پیغمبر (ص) اور ان کی اہلبیت علیہم السلام پر درو بھیجو۔(3)

 جاحط نے ''العثمانیّة''میں بھی ایک طرح سے شیعہ و مرجئہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل قرار دیا ہے۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ المعیار والموازنة:

[2]۔ ا لمعیار والموازنة:71

[3] ۔ مروج الذہب:4173، البیان والتبیین: ج2ص149، تلخیص مجمع الآداب ابن فوطی، حرف کاف، حالات زندگی ش 38 الفرق الاسلامیة ف شر الأموی:269 ، الکنی والألقاب:3201، حیاة السیاسیة للامام الرضا علیہ السلام:232

[4]۔ العثمانیّة:72

[5]۔ مقالات تاریخی(دسواں شمارہ):85

۱۳۵

 اگر اسکافی کی یہ بات ( مرجئہ حضرت علی علیہ السلام کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے) صحیح ہو تو پھریا یہ کہیں کہ ابو حنیفہ مرجئہ میں سے نہیں تھا اور یا پھر یہ کہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی حمایت اور آپ کے مخالفین کی ردّ میں  اس سے نقل ہونے والی باتیں صحیح نہیں ہیں۔کیونکہ مرجئہ اگر ناصبیوں کی حد تک ہی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے دشمن ہوں تو اس کا بالکل احتمال نہیں ہے کہ اگر ابوحنیفہ مرجئی تھا تو وہ آنحضرت کی حمایت و طرفداری کرے۔ بہ ہر حال مرجئہ کی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ  کے شیعوں سے دشمنی ثابت ہے۔ اسی وجہ سے بنی امیہ مرجئہ کی طرفداری کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مخالفت کا بیج بویا جاسکے جس کے نتیجہ میں وہ خاندان وحی علیہم السلام سے دور ہوجائیں۔بعض روایات میں مرجئہ کی اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی کی تصریح ہوئی ہے۔

مرجئہ اور شیعہ روایات

 شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایات میں مرجئہ کی اصطلاح کو اہلسنت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اکثریہ حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مخالف معنی میں استمال ہوئے ہیں۔

 حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

 أللّٰهمّ العن المرجئة؛فانّهم أعداؤنا فی الدنیا و الآخرة ۔(1)

 خداوندا مرجئہ پر لعنت فرما کہ یہ دنیا و آخرت میں ہمارے دشمن ہیں۔

 دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے قدریّہ و خوارج پر ایک بار اور مرجئہ پر دو بار لعنت کی ہے۔راوی نے اس کا سبب پوچھا تو آنحضرت نے فرمایا: ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہمارے قاتل مؤمن ہیں ۔اس بناء پر قیامت تک ان کا لباس ہمارے خون سے رنگین رہے گا۔(2)

--------------

[1]۔ الکافی: ج8 ص276، بحارالأنوار: ج46 ص291

[2]۔ الکافی:ج2ص409

۱۳۶

 ایک اور روایت میں اسحاق بن حامد کاتب کہتا ہے:قم میں کپڑے بیچنے والا ایک شخص تھا جس کا مذہب شیعہ تھاا اور اس کا ایک شریک مرجئہ تھا۔ان کے پاس بہت ہی قیمت کپرا آیا۔شیعہ شخص نے کہا:میں یہ کپڑا اپنے مولا کے لئے لے کر جاؤں گا۔ مرجئی نے کہا:میں تمہارے مولا کو نہیں جانتا لیکن تم کپڑے کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔جب اس نے وہ لباس امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچایا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھا کپڑا واپس کر دیا اور فرمایا:مجھے مرجئی کے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(1)

 پیغمبر اکرم(ص) نے جو یہ روایت ارشاد فرمائی :''میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق  نہیں ہے، ایک مرجئہ اور دوسرا قدریّہ''یہ روایت حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے بھی منسوب ہے اور ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت نے یہ حدیث حضرت ختمی المرتبت(ص) سے روایت کی ہے۔(2) اسی طرح حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت  کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہودیوں کی مرجئہ سے شباہت اور قدریّہ کی نصاری سے شباہت ایسی ہی ہے جیسے رات کو رات اور دن کو دن سے شباہت ہے۔(3) ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابوبصیر نے کہا:امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے بصرہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا: میں نے عرض کیا:وہ مرجئی،قدری اور حروری ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا:

 لعن اللّٰه تلک الملل الکافرة المشرکة التی لا تعبد اللّٰه علی شئ ۔(4)

 اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں پانچ گروہوں سے بیزاری اختیار کرتا ہوں:مرجئہ،خوارج،قدریّہ،شامی(بنی امیہ)اور ناصبی۔(5)

--------------

[1]۔ بحارالأنوار:ج51ص340، ازکمال الدین

[2]۔ جامع الأخبار:188

[3]۔ جامع الأخبار:189،بحارالأنوار:ج5ص120

[4]۔ الکافی:ج2ص409-410

[5]۔ مستدرک الوسائل:ج12ص317،بحارالأنوار:ج18ص393

۱۳۷

 یہ اس چیز کی حکایت کر رہی ہیں کہ اکثر موارد میں جب ائمہ اطہار علیہم السلام سے مرجئہ کے بارے میں کوئی حدیث نقل ہوئی تو ان کے ناصبی ہونے کی خصلت پر اصرارکیا گیا ہے۔اگرچہ ممکن ہے   کہ کبھی مرجئہ کی نظر میں ایمان کی تعریف کی طرف بھی اشارہ ہوا ہو۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک  اور روایت میں ذکر ہواہے کہ آپ نے فرمایا:

 اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے حدیث کی تعلیم دو اس سے پہلے کہ اس بارے میں مرجئہ تم پر سبقت لے جائیں ۔(1)

 ضیاء الدین سہروردی نے ایک دوسرا واقعہ یوں نقل کیاہے : حکایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جعفر منصور کے سامنے کسی مرجئی شخص کے ساتھ مناظرہ کیا ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بحث میں کہاکہ ایک مرجئی کو پیغمبر اکرم(ص) کے پاس لایا گیا تا کہ آنحضرت(ص) کے حکم پر اس کو قتل کر دیں!اس شخص نے جواب دیا:پیغمبر(ص) کے زمانے میں یہ مذہب نہیں تھا!امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جو چیز پیغمبر(ص) کے زمانے میں نہیں تھی ،تم وہ کہاں سے لے آئے؟!(2)

 سعد بن عبداللہ اشعری نے تیسری صدی کے آخر میں مرجئہ کو تاریخی لحاظ سے بالکل شیعوں کے برابر قرار دیا ہے اور یہ مرجئہ کے بارے میں شیعوں میں رائج اصطلاح کی پیروی  کانتیجہ تھا۔ وہ لکھتا ہے:جب حضرت علی علیہ السلام قتل ہو گئے تو آپ کے بہت تھوڑے سے شیعوں اور پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کی امامت پر یقین رکھنے والے افرادکے علاوہ آپ کے اصحاب اورجو فرقے طلحہ،زبیر اور عائشہ کے کے ساتھ تھے۔وہ سب ایک ہو گئے اور انہوں نے معاویہ کا ساتھ دیا۔  معاویہ کے ہمراہ جانے والے افراد، حشویہ ،ملوک کے پیروکار اور ان کے یار و مدد گار شامل تھے کہ زبردستی مسلّط ہوتے تھے۔انہوں نے معاویہ کو قبول کیا اور ان سب کو مرجئہ کا نام دیا گیا۔(4)(3)

--------------

[1] ۔ ج6ص47:بادروأولادکم بالحدیث قبل أن یسبقکم الیهم المرجئه'' ، التہذیب شیخ طوسی: ج8 ص111، وسائل الشیعة:ج 21ص478 اور4427۔

[2]۔ آداب المریدین:191-192

[3]۔ المقالات و الفرق:5

[4]۔ مقالات تاریخی (دسواں شمارہ):87

۱۳۸

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

 اموی دور حکومت میں لوگوں کے دماغ میں فتنہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ایسی حکومت جس نے صاحبان علم سے جنگ کی اور جس نے بعثت پیغمبر(ص) کے زمانے کے مشرکوں کے عقائد کو نئے اور دلکش لباس میں پیش کیا۔علماء کا اتفاق ہے کہ اموی حکومت میں قدری گری زیادہ پھیلی اور امویوں  نے اسے اپنی آغوش میں پروان چڑھایااور اس کی حمایت کی تا کہ یہ پلے بڑے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔(1) انہوں نے خدا کی راہوں کو مسدود رکرنے اور قضا و قدر جیسے افکار پیش کئے اور انہیں ترویج دی۔ ان کا مقصدیہ تھا کہ دنیا کو حیرت و سرگردانی اور فکری بے راہ روی میں مبتلا کریں۔اس کام کا نتیجہ شریعتوں کو مقدس نہ سمجھنا،اس کے قوانین کی پابندی نہ کرنا اورحرام اعمال کو انجام دینا تھا کہ جن سے آسمانی ادیان نے منع کیا ہے۔یہ تمام کج روی قضاء الٰہی کے بہانے سے انجام دی جا رہی تھی ۔ امویوں نے اس فکر کی پرورش کی اور پھیلایا تا کہ رسول اکرم(ص) کی زبان سے ان کے بارے میں جو کچھ صادر ہوا ہے ، اسے چھپا سکیں اور یہ بیان کر سکیں کہ حاکمیت اور ان کا اقتدار خدا کی مشیت و ارادے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں اور کسی بھی طرح کی سرکشی اور ان کے خلاف کوئی تحریک ،قضاء الٰہی کے خلاف سرکشی شمار کی جائے گی۔  جس نے سب سے پہلے  جبرکو نئے انداز میں  پیش کیا ،اس کے بارے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:''ہمیں مکمل اطمینان ہے کہجبری گری اموی دور کے آغاز میں پھیلی اور اس دور کے اختتام تک یہ ایک مکتب میں تبدیل ہو گئی۔کہتے ہیں کہ اس تفکّر کو سب سے پہلے رواج دینے والے کچھ یہودی تھے، جنہوں نے یہ افکار مسلمانوں کو سکھائے اورپھر ان کی نشر و اشاعت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے   جس مسلمان نے اس فکری تحریک کی طرف دعوت دی ،وہ جعد بن درہم تھا جس نے یہ افکار شام کے ایک یہودی سے سیکھے اورپھر اس نے بصرہ میں لوگوں میں اس کی ترویج شروع کر دی۔ پھر جہم بن صفوان نے یہ افکار جعد سے سیکھے''۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

۱۳۹

جہم صرف جبر کے عقیدے کی ہی ترویج نہیں کر رہا تھا بلکہ جنت و دوزخ اور خدا سے ملاقات وغیرہ  جیسے اپنے نظریات کی طرف بھی لوگوں کو دعوت دیتا تھا ۔(1) اس طرح اہل کتاب سے جبر کے افکار سیکھنے کے بعد(جوامویوں کی سیاست سے ساز گار تھے)  اموی درخت کی شاخیں،اہل کتاب کے درخت کی شاخوں سے مل گئیں۔ ظاہر ہے کہ شام اموی خلافت کا دارالحکوت  اور مختلف مذہب و نظریات کا پیروکار تھا۔امویوں نے مذاہب کے سربراہوں سے مسالحانہ روایہ رکھا ہوا تھا  اور انہوں نے قیصر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تا کہ اپنی طاقت کی حفاظت کے  لئے وقت پڑھنے پر مسلمانوں کو قتل اور ان کی سرکوبی کریں۔اس معاہدہ کے دوران احبار اپنی عمارت کو اونچاکرنے کے لئے اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال رہے تھے اور اموی بھی انہیں اپنے قریب کر رہے تھے۔تاریخی لحاظ سے یہ مطلب بھی قطعی ہے کہ سرجون مسیحی( جو معاویہ اور اس کے بعد یزید اور پھر مروان بن حکم(2) کا مشیر اور اموی حکومت کا راز دار تھا )جبریوں میں سب سے آگے تھا۔(3) اس بناء  پر سب فرقوں کے علماء کے مطابق اموی حکومت نے جبری گری کو ترویج دینے اور اسے تقویت دینے کی سیاست اپنائی اور اسے اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیا کیونکہ اس کی چادر میں امویوں کے کالے کرتوت پوشیدہ تھے  اور ان کے منبر سے ان کے فقیہ ہر بندگلی سے بھی اپنے لئے راستہ نکال   لیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیوں  کی؟ کیوں انہیں دشنام دیتے ہو؟کیوں حجر بن عدی کو قتل کیا؟ یااکثر کو معاویہ سے ملحق کیوں کیا اور استلحاق کی جاہلی سنت کو پھر سے کیوں زندہ کیا؟ یا امام حسین علیہ السلام کو کیوں قتل کیا؟ یاحرہ  کے واقعہ میں کیوں مدینہ پر حملہ کیا اور اسے مال غنیمت کی طرح لوٹا اور مکہ پر کیوںسنگ باری کی گئی؟کیوں خدا کے مال کو اپنا بازیچہ اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنایا؟ کیوں خدا کے دین کو باطل کیا اور نماز کو ضائع کیا؟ ان سب سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جواب میں ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ سب خدا کی  قضاو قدر کے مطابق تھا اور اس پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر وہ جانے اور تلوار جانے!

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:106

[2]۔ التنبیہ والاشراف:ج1ص285

[3]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:69

۱۴۰