معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168085 / ڈاؤنلوڈ: 7629
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

 اموی حکومت نے سرکاری طور پر اپنے متقدمین کی سنت اور ان کے نقش قدم پر چلی۔ اہل کتاب نے بھی ان سے ایک قدم آگے بڑھایا جو ان کے باہمی تخریبی مقاصد میں سے تھا۔وہ جبری گری کے خلاف واقعات کی طرف تیزی سے بڑے اور انہوں نے امت کو جدید فکری خوراک فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مکمل طور پر دو متضاد موضوعات سے مربوط رکھا جائے جس سے وہ حیرت و سرگردانی میں دچار رہیں اور انہیں حقیقت (جو ان کے لئے ایک فطری نظام ہے) کی طرف قطعاً نہ آنے دیاجائے۔ قدری افکار کا اصل تفکر یہ تھا کہ انسان کے تمام اعمال و افعال اس کے ارادہ کا نتیجہ ہیں جو مکمل  طور پر خداکے ارادے سے مستقل ہے۔(۱) یہ عقائد مکمل طور پر جبری گری سے متعارض تھے حالانکہ جبریوں کا یہ خیال تھا کہ انسان پتھر یا کنکر کی طرح حوادث کی تند و تیز آندھیوں کا اسیر ہے اور اسے خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کو حاکموں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ان کا یہ دعویٰ تھا کہ تقدیر الٰہی ابتداء ہی سے ان کے لئے مقدر کر دی گئی ہے تا کہ وہ طاغوت کے محکوم ہی رہیں۔ بقول شاعر:''قلم قضا جس پر چلنا تھا چل گیا ۔پس تمہاری طرف سے حرکت و سکون یکساں ہیں اور رزق و روزی کے حصول کے لئے تمہاری کوششیں ایک جنون ہے حالانکہ جنین کو رحم میں بھی روزی فراہم کی جاتی ہے۔(۲) ٹھیک اسی زمانے میں کہ جب جبریوں نے ایسے افکار کی ترویج کی تو قدریوں نے بھی ان کے خط مقابل میں حرکت کی اور ان ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو ان مسائل میں الجھا دیں۔ جھگڑوں کی آگ شعلہ ور کردیں اور ہر حال میں اس کا فائدہ اہل کتاب کو ہی پہنچ رہا تھا۔ جس نے سب سے پہلے قدرکا تذکرہ کیا اور اس تفکر کابیج بویا ،اس کے بارے میں شیخ ابوزہرہ کہتے ہیں:جس نے سب سے پہلے قدر کے بارے میں بات کی ،وہ عراق کا ایک شخص تھا جو پہلے عیسائی تھااور پھر مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ عیسائی ہو گیا

--------------

[۱]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۱،  تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۷۹

[۲]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۸۱

۱۴۱

معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے بھی یہ افکار اسی سے ہی سیکھے تھے۔(۱)

 ان افکار سے جو کچھ امویوں کے سیاسی منصوبوں ،ان کی خلافت اور خدا کے اسماء و صفات کے بارے میں سازگار تھا،وہ انہوں نے اخذکیا اور پھر ان افکار کے پیروکاروں کو کچلنے میں لگ گئے ۔ ان واقعات میں کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ لوگ بھاگ گئے ؛لیکن پھر بھی یہ مکتب ختم نہیں ہوا ۔ اس کے بعد بصرہ میں بہت سے فرقے باقی بچے اور پھیلے لیکن کچھ کے مطابق یہ فرقے ثنوی تفکرات اور دو قدرت(نور و ظلمت) کے عقائد میں تبدیل ہو گئے۔(۲)(۳)

 گذشتہ واقعات سے واضح ہو جاتاہے کہ صرف عقیدتی و فکری اختلافات لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے ،انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے اور اموی حکومت کی بقاء کا باعث ہی نہیں بنے بلکہ انہیں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے لوگ قتل بھی ہوئے۔

 ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہونا اور ان کے درمیان جنگ وجدال کی آگ بھڑکانا یہودیوں کا درینہ ہدف اور عیسائیوں کی بھیہمیشہ سے یہی خواہش تھی۔

 اگر رسول خدا(ص) کے زمانے میں دین کے دشمن مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے تو پہلے ان کی اپنی فوج کے سپاہی بھی مرتے تھے اور بعد میں وہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے لیکن بنی امیہ کے زمانے میں لشکر کشی اور ان کے سپاہیوں کے قتل ہوئے بغیر ہی انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا اور خود ایک طرف بیٹھ کر مسلمانوں کے قتل و غارت کا تماشا دیکھتے رہے۔

 یہود و نصاریٰ کچھ ایسے منصوبے بناتے تھے جن کی وجہ سے مسلمان تفرقہ کے شکار ہو کر ایک دوسرے ہی کو قتل کریں اور یہودو نصاریٰ کے اس گھنونے منصوبے کو اموی عملی جامہ پہنا رہے تھے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۲ ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۴۰

[۲]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۷

[۳]۔ از ژرفای فتنہ ھا: ج۲ص۴۷۲

۱۴۲

 اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.....

جیسا کہ ہم نے کہا کہ جہمیہ وغیرہ کے افکار کی ترویج،بنی امیہ کی حکومت کو جاری رکھنے،اسلام کے عقیدے سے لوٹنے اور کفر میں دلچسپی پیدا کرنے میں یہودیت و عیسائیت کا بہت اہم کردار تھا۔

 بنی امیہ نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں اور افکار کو نافذ کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ گمراہ کن افکار کو ترویج دینے کے علاوہ لوگوں کو ان مسائل کی طرف کھینچنے کے لئے عقلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا۔

 سب سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام انجام دیا جس نے''مریانوس'' نام کے ایک عیسائی کی مدد سے عقلی علوم کو عربی ممالک میں داخل کیا ۔ اگرچہ بنی امیہ کے زمانے میں یہ کام کچھ زیادہ  رواج نہیں پایا تھا لیکن بنی العباس اور بالخصوص مأمون نے اس کی بہت ترویج کی ۔

 ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:عقلی علوم اموی دورمیں رائج تھے ۔ فقط کچھ لوگ کیمیا میں مصروف تھے اور بعید نہیں کہ انہوں نے یہ یونانیوں سے سیکھا ہو جنہیں دوہزار سال پہلے اس کا علم تھا۔

 یہ نہیں کہہ سکتے کہ عربوں نے مشرق پر اسکندر کے حملے کے بعد یونانیوں سے طب سیکھی کیونکہ اموی زمانے تک عربوں کو طبی علوم کی کوئی خبر نہیں تھی اور خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے طب، نجوم اور کیمیا عرب ممالک میں منتقل کیا۔

کیمیا کی صنعت مدرسۂ اسکندریہ میں رائج تھی اس لئے خالد نے ''مریانوس ''مسیحی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے تقاضا کیا کہ وہ اسے طب اور کیمیا کی تعلیم دے۔جب اس نے یہ تعلیم حاصل کر لی تو اس نے حکم دیا کہ اس سے مربوط یونانی اور قبطی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔یہ دوسروں کے علوم کوعربی میں منتقل کرنے کے لئے عربوں کا پہلا اقدام تھا۔

خالد کو علم نجوم میں بھی دلچسپی تھی اور وہ یہ علم حاصل کرنے اور اس کے وسائل کی فراہمی کے لئے حد سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا ۔ شاید نجوم کی کتابوں میں اس کے لئے کوئی ترجمہ کیا گیا ہو لیکن ہم تک اس  کی کوئی خبر نہیں پہنچی۔

۱۴۳

 جاحظ نے کتاب ''البیان والتبیین'' میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ فصیح و بلیغ خطیب، شاعر اور ادیبوں کی آراء کو پسند کرتا تھا ۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے نجوم، طب اور کیمیا کو عربی میں ترجمہ کیالیکن عرب عباسی زمانے کے آغاز اور خاص طور پر مأمون کے زمانے میں تجربی علوم جیسے طب، کیمیا، ہیئت اور تاریخ وغیرہ میں مشغول ہوئے۔

 اس زمانے میں فارسی، یونانی اور ہندی سے بہت سی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور وہ عربوں درمیان رائج ہوئیں۔(۱)

خارجی کتابوں کا ترجمہ

     بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ  مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔

 لیکن ظاہراً خارجی  کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔ کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں: جاحط نے ''البیان و التبیین''(۲) میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔ ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''(۳) میں  لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد      ۸۵ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ سیاسی اسلام (ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۹۰

[۲]۔ البیان والتبیین: ج۱ص۱۲۶

[۳]۔ شرح نہج البلاغہ: ج۳ص۴۷۶

۱۴۴

صلاح الدین صفدی سے نقل ہوا ہے کہ ترجمہ کا آغاز کرنے والا مأمون نہیں تھا بلکہ اس سے بہت پہلے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ''کلیلہ و دمنہ''کو فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے لئےیونانی کتابوں''مجسطی''کا ترجمہ کیا گیا۔

 نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ  وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔

کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔

 ''کشف الظنون''(۱) میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔

 سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں  ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔

 ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھرخالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا۔(۲)

 قفطی کی کتاب''اخبار الحکماء''میں ذکر ہواہے کہ ابن السندی نے قاہرہ کے کتابخانہ میں  تانبے کا ایک  سکّہ دیکھا جس پر امیر خالد بن یزید کا نام لکھا ہوا تھا۔

--------------

[۱]۔ کشف الظنون: ج۱ص۴۷۷

[۲]۔ الفہرست:۲۴۲ اور ۲۴۴

۱۴۵

 اس طرح ابن خلدون کا وہ نظریہ ردّ ہو جاتا ہے کہ جس میں اس نے خالد کو بدویّت سے نزدیک اور علوم و صناعات اور بالخصوص کیمیا(جس کے لئے طبایع سے آشنائی ضروری ہے)سے دور قرار دیا تھا۔

 ابن الندیم (جو ابن خلدون کی بنسبت خالد کے زمانے سے نزدیک ہے)کاکہنا ہے کہ خالد کے زمانے میں کیمیا رائج تھا۔

 کتاب''تاریخ آداب اللغة العربیة''(۱) میں ذکر ہواہے کہ مروان کے زمانے میں 'ماسرجویہ'' کے نام سے ایک طبیب (جس کا تعلق سریانی یہودی مذہب سے تھااور جو بصرہ میں رہتا تھا)نے ایک پادری امرون بن اعین کی لکھی ہوئی کتاب''کُناش''کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنا تو اسے وہ کتاب خزانے میں ملی۔کچھ لوگوں نے اس کی تشویق کی کہ اسے باہر نکالا جائے تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کریں ۔عمر بن عبدالعزیز نے وہ کتاب باہر لانے اور اسے لوگوں کے اختیار میں دینے کے لئے چالیس دن تک استخارہ کیا۔

کتاب''شفاء الغلیل''میں  ذکرہوا ہے کہ ''کُناش''(غُراب کے وزن پر)ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی تذکرہ کا مجموعہ ہے۔حکماء کی کتابوں میں یہ کلمہ بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔(۲)

 یہ ظاہر سی بات ہے کہ کہ مریانس رومی اور اسطفار رومی (جن کے خالد بن یزید سے تعلقات تھے)جیسے عیسائیوں کے افکار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے افکار پر اثرانداز ہوتے ہوں گے ۔ بالخصوص خالد بن یزید پر کہ جو یزید کا بیٹا اور میسون مسیحی کا نواسہ تھا۔ اگرچہ خالد بن یزیدغاصبانہ خلافت پر تخت نشین نہیں ہوا تھا  لیکن اس کے بعد مروان اور کچھ دوسرے اور ان کے بعد بنی العباس جیسے منصور و مأمون (جو خلافت کے دعویدار تھے) نے اسی راہ کو جاری رکھا ۔اس کام سے حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے ذہنوں میں اہم سوال جنم لیتا ہے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ آداب اللغة العربیة: ج۱ص۲۳۳

[۲]۔ نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام:۳۳۳

۱۴۶

 وہ سوال یہ ہے:اگر خلافت کے دعویدار اور خود کو رسول خدا(ص) کا جانشین اور خدا کا خلیفہ سمجھنے والے ان جیسے افراد کا دعویٰ جھوٹا تھا تو مسلمان ان کا احترام کیوں کریں ؟انہیں خدا کا خلیفہ کیوں سمجھیں ؟ اور اگر یہ خدا کے خلیفہ تھے تو انہیں دوسروں پر کوئی امتیاز اور فوقیت کیوں نہیں تھی؟یہاں تک کہ حصول علم کے لئے بھی انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟

  مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

زمانۂ قدیم سے سیاستدان اپنی حکومت کی بقاء کے لئے لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرتے چلے آئے ہیں اور اپنے منصوبوں کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بناتے آئے ہیں تا کہ وہ سیاسی مسائل سے دور رہیں اور ان کی غفلت کی وجہ سے سیاستدان لوگوں پر حکومت کر سکیں۔

جیسا کہ ہم نے دوسرے مورد بھی کہا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی بناء پریہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر فرعون نے اپنی حکومت کوبچانے کے لئے عمل کیا اور اس کے بعد ہر دور کا فرعون بھی اسی پر عمل پیرا رہااور وہ پس پردہ اپنے ہی ایجاد کئے ہوئے اختلافات کے ذریعہ لوگوں پرحکومت کرتے رہے۔

 پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس خائنانہ منصوبے کے برخلاف لوگوں کو اختلافات اور تفرقہ بازی سے باز رکھا اور قرآن و عترت کو محور قرارد ے کر لوگوں کو ایک صحیح عقیدے کی طرف دعوت دی۔

 لیکن بنی امیہ نے قرآن و عترت کی محوریت کو ختم کرنے کے لئے تفرقہ پیدا کیا تا کہ آسانی سے  لوگوں پر حکومت کر سکیں ۔

 اسی وجہ سے ان کی حکومت کے دوران مختلف مذہبی فرقے وجود میں آئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑائی جھگڑے میں مشغول ہو گیااور لوگ حکومتی مسائل سے غافل ہو گئے۔

۱۴۷

  ۲- پیشنگوئیوں کوچھپانا

دنیا کے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے رونے کے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک اور بنیادی حربہ پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

 اس راہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اپنا اپنا حصہ تھا اور مختلف منصوبوں کے ذریعے یہ بنیادی اور مؤثر پروگرام انجام دے رہے تھے۔انہوں نے جو پروگرام انجام دیئے ان کے ذریعہ انہوں نے بہت سے خاندانوں کو تاریکی و ظلمت کے اندھیرے میں رکھا اور انہیں نور و روشنی سے دور رکھا۔اس صورت میں اگر تورات و انجیل کی پیشنگوئیاں عام لوگوں کے اختیار میں ہوتیں تو دنیا والوں کے عقائد کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔

اس بحث میں ہم صرف رسول اکرم(ص) کے بارے میں تورات کی ان پیشنگوئیوں کے کچھ نمونے بیان کریں گے جنہیں یہودیوں نے مخفی رکھا اور پھر حقائق کو چھپانے کے سلسلے میں بہت ہی اہم واقعہ ذکر کریں گے جس میں کلیسا اور عیسائیتنے عیسائیوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے کے لئے اقدامات کئے۔

  الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

 یہودیوں کے شیطانی حربوں میں سے ایک (جسے وہ رسول اکرم(ص) کی رسالت کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ ظہور اسلام اورآنحضرت کی ولادت سے پہلے سے انجام دے رہے تھے)لوگوں کو ظہور اسلام اور نبی مکرّم اسلام(ص) کی نبوت کے بارے میں سوچنے سے بھی دور رکھنا تھا۔ یہودی علماء نے ظہور اسلام کی نشانیوں اور آنحضرت کی الٰہی حکومت کے ظہور کو لوگوں سے چھپایا اور انہیں آنحضرت کی طرف آنے سے روکا تا کہ اس طرح وہ لوگوں پر حکمرانی کر سکیں اور ان کے جہل و نادانی سے سوء استفادہ کر سکیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت اور آنحضرت کی بعثت کے بعد یہودی بزرگوں نے اسی طرح سے ہی اپنی دھوکا دہی کو جاری رکھا اور بے شمار افراد کو آئین اسلام سے دور رکھا۔

۱۴۸

 ان کی مکاریاں،دھوکے اور گھنونے منصوبے بہت ہی وسیع پیمانے پر تھے ۔جس کے جاہل اور بے خبر لوگوں پربہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

 ان کا ایک مکارانہ منصوبہ ایسی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ یہودی علماء نے  تورات میں تحریف کرکے اسلام اور رسول اکرم(ص) کی نبوت ورسالت کے بارے میں بہت ہی واضح و آشکار پیشنگوئیوں کو چھپایا اور انہیں لوگوں کی دسترس سے دور رکھاتا کہ وہ اسی طرح اپنے باطل راستے پر گامزن رہیں اور آئیں اسلام کی طرف مائل ہونے سے دور رہیں۔ اب ہم جو واقعہ نقل کر رہے ہیں وہ یہودی علماء کی انہی مکاریوں کا بہترین نمونہ ہے۔

 مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

 میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

 وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

 اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

 میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

 تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں ۔ اس نے کہا:

۱۴۹

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا اور اسے تالا لگا رہتا تھا۔بزرگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اوربالخصوص نو جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

 اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ''الانسان حریص علی ما منع'' یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

 ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

 اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی

۱۵۰

کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔ میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

 ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم  نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

 جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوںنے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی چھین لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

 لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

۱۵۱

 بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

 اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:سرآنکھوں پر؛چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

 انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں  نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر  انہوں ے پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

 انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

 میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

 بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

 ہم نے کہا:ایسا نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔ جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔ اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۵۲

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروان سرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

 اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میںآئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

 ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں ۔ ہماری اس کے علاوہ اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

 اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے  کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

 قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

 میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

 قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

 میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

۱۵۳

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میںنے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

 اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر  پر سفیدرنگ کا عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوںنے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

 انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

 میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میںنے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں  نے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

 انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

 انہوں  نے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

 انہوں  ے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

۱۵۴

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔ میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

 انہوں نے اپنے مغرب کیجانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین  روانہ ہو جاؤ  اور پھر فرمایا: تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔

 میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟ کیونکہ گفتگو کے دوران  میںنے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔ مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟

 میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیں  ہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی ہے؟....(۱)

--------------

[۱] ۔ معجزات و کرامات ائمہ اطہار علیہم السلام:۱۷۵ ، مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی سے منقول، کامیابی کے اسرار:ج۲ ص۱۱۶

۱۵۵

اگر یہودی علماء (جو مکتب وحی کے سب سے بڑے دشمن تھے اور ہیں) ایسے حقائق کو نہ چھپاتے اور ان کے دولتمند حضرات نور الٰہی کو بجھانے کی کوششیں نہ کرتے تو یہ حقائق کے واضح و آشکار ہوجاتے جنہیں دیکھ کر بہت سے لوگ آئین اسلام کی طرف آجاتے اور اپنے تحریف شدہ دین سے دستبردار  ہوجاتے ۔لیکن افسوس!کہ وہ لوگ نہ صرگ لوگوں کو حق پرستی کی طرف آنے کی راہ میں حائل تھے بلکہ( جیسا کہ ذکر کریں گے) انہوں نے انہیں آخرت کی دنیااور قیامت کا منکر بنا ڈالا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنے پوشیدہ ہاتھوں کو ہر قسم کی خباثت سے آلودہ کیا اوراب آلودہ کر رہے ہیں۔

ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

     یہودیوںکی طرح عیسائیوں نے بھی اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے پیشنگوئیوں کو چھپانے کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔انہوں نے اس راہ میں کوششیں کیں اور اسی راہ کوجاری رکھا۔

     عیسائیوں نے بھی یہودیوں کی طرح نہ صرف پیشنگوئیوں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا بلکہ انہوں نے اسلام کی نشر و اشاعت کا باعث بننے والے اہم ترین حقائق کو چھپایا اور اب بھی چھپا رہے ہیں۔

     ایک بہت ہی اہم واقعہ(جس کا کلیسا اور عیسائیت کی شکست میں بڑا کلیدی کردار ہے)جو عیسائیوں کو اسلام کی طرف راغب کر سکتا ہے ،وہ انگلینڈ کے صاحب اقتدار بادشاہ کا اسلام قبول  کرنا ہے۔

     یہ واضح سی بات ہے کہ اپنی قوم میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بادشاہ کا مسلمان ہونا ان کے مذہبی عقائد پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتاہے۔

     عیسائیوں نے برطانیہ  کے عیسائیوں کو اسی طرح کلیسا کا پیروکار رکھنے کے لئے وہاں کے بادشاہ کے مسلمان ہونے کی خبر کو چھپایا کیونکہ بادشاہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ مستقبل میں عیسائیوں کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔اس لئے انہوں نے یہ اہم واقعہ اپنی کتابوں میں ذکر ہی نہیں کیا۔

     اس واقعے سے آگاہ ہونے کے لئے اب ہم اسے بیان کرتے ہیں:

۱۵۶

  برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

 برطانوی بادشاہ''اوفا''(OFFA)

 تاریخ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ گذشتہ صدی میں برطانوی بادشاہ ''اوفا''کا نام سامنے آیا کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا ۔لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آئی۔

''اوفا''کون تھا؟

 اس نے کب حکومت کی؟

 اس نے کیوں اسلام قبول کیا؟

 اس کے مسلمان ہونے کی خبر کو کیوں چھپایا گیا؟

 مذکورہ سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے  برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائیکلوپیڈیا (لاروس) کی طرف رجوع کریں۔ان دونوں انسائیکلوپیڈیا میں ''اوفا''(OFFA)کے بارے میں یوں ذکر ہواہے:

 اوفا''انگلوساکسونی ''(Anglo-Saxon) بادشاہ تھاجس نے انتالیس سال  (۷۵۷ ء سے ۷۹۶ء )تک برطانیہ پر حکومت کی۔اس زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔

 پہلے وہ مارسیا(Mercia)یا وسطی برطانیہ(Middle England) کا بادشاہ تھا ۔یہ مملکت سات ملکوں کا حصہ تھی۔اس بادشاہ نے چھوٹے ملکوں جیسے Saxons,W اور Welshکو فتح کرکے اپنے ملک کو وسعت دی۔

 اس نے اپنی بیٹیوں کی شادیWessexاورNorthrmbiaکے حکمرانوں سے کی اور یوں اس نے اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو مزید پھیلایاکہ جس میں  برطانیہ کے تمام حصے شامل تھے۔ اس نے فرانس کے بادشاہ''شارلمان''اور پاپ ''اندریان اوّل''سے معاہدہ بھی کیا۔ اس کے زمانے کے باقی بچنے والے آثار میں سے دیوار اور ڈیمہے جو مارسیا (Mercia) اور ولش(Welsh)کے درمیان بنایا گیاور جو اب تک ''دیوار اوفا''OFFA DYKE''کے نام سے مشہور ہے۔

۱۵۷

یہاں تک تو ایک عام مسئلہ تھا لیکن ۱۸۴۱ئ(۱۲۲۷) میں مؤرخین کے لئے ایک سوال پیدا ہوا ۔ اس سال سونے کا ایک سکہ ملاجو اس طاقتور بادشاہ کے زمانے کا تھا۔اس سکے پر کون سی ایسی چیز تھی کہ جس نے سب کو حیران کر دیا۔یہ سکہ اب بھی برطانیہ کے عجائب گھر میں قدیم سکّوں کے حصہ میں موجود ہے۔حیران کن چیز یہ تھی کہ اس سکے کے دونوں طرف کلمہ شہادت''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، و اشهد أن محمّداً رسول اللّٰه''اور عربی زبان میں قرآن کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔

 یہ تو تھا اس سکہ کا واقعہ:

 سکہ کے ایک طرف عربی زبان میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے:''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، وحده لا شریک له ''اور سکہ کے حاشیہ میں'' محمّد رسول اللّٰه''اور پھر'' أَرْسَلَهُ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ'' (۱) لکھا ہوا تھا اور درمیان میں انگلش میں یہ جملہ ''OFFA-REK''( یعنی بادشاہ اوفا )نقش تھا۔حاشیہ میں عربی میں یوںلکھا ہوا تھا:''بسم اللہ،یہ دینار ۱۵۷ میں بنایا گیا۔

 ''اوفا''بادشاہ کے دستخط سے یہ تشخیص دی جاسکتی ہے کہ یہ سکہ  ۷۵۷ء سے ۷۹۶ ء کے درمیان بنایا گیا کہ جب ''انگلوساکسونی''پر ''اوفا''حکومت کر رہا تھا۔   ۱۵۷ھ وہی ۷۷۴ء بنتا ہے۔ اس بارے میں بہت سے تقریریں کی گئیں اور دسیوں مقالے لکھے گئے ،ہم اس موضوع کے بارے میںمؤرخین کے فرضیات اور تھیوریوں کو یوں خلاصہ کر سکتے ہیں:

 پہلا فرضیہ:''اوفا''بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔

 دوسرا فرضیہ:اس نے مفہوم و معنی کو سمجھے بغیرخوبصورتی کے لئے عربی کے ان کلمات اور آیت سے استفادہ کیا۔

 تیسرا فرضیہ:اس نے یہ سکہ اپنے ملک کے حجاج (جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں)کی مدد کے لئے بنوایاتا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور ان کے لئے سفر کی سختی آسان ہو جائے ۔گویااس کا یہ کام ایک سیاسی پہلو رکھتا تھا۔

--------------

[۱] ۔ سورۂ توبہ ، آیت:۳۳( ه ُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُوْلَ ه ُ  بِالْ ه ُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْ ه ِرَ ه ُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّ ه ِ)

۱۵۸

 چوتھا فرضیہ:اس نے ۷۸۷ء میں پاپ ''اندریان''سے معاہدہ کیا کہ بادشاہ سالانہ مالیات ادا کرے اور ممکن ہے کہ یہ سکہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔

 محققین میں سے ایک کا کہنا ہے:یہ واضح ہے کہ آخری تین فرضیہ منطق اور انسانی عقل سے سازگار نہیں ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی بادشاہ خوبصورتی کے لئے سکہ پر کوئی جملے لکھے کہ اسے جس کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔جب کہ یہ جملات ''شہادت ''ہیں کہ جن میں اسلام کے عقائد کا خلاصہ کیا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ کے کچھ بادشاہوں پر اسلامی تمدن اثرانداز ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں اپنا نام سکوں پر چھپوایاتھا۔

 ان میں سے ایک''الفانسو ہشتم ،فاسیلی دیمتریش'' اور کچھ ''نورمان''حکمرانوں میں سے تھے کہ جن میں ''ویلیم راجر''شامل ہے ۔حتی کہ سلطنت جرمنی کے حاکم''ہنری چہارم''نے عثمانی خلیفہ'' المقتدرباللہ''کا نام اپنے ملک کے سکہ پر نقش کروایا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ''اوفا''کی طرح کلمۂ توحید سکہ پر نقش نہیں کیا تھا۔

 تیسرے فرضیہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرضیہ بہت مبہم ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاپ بادشاہ ''اوفا''سے یہ تقاضا کرے کہ سکہ پر کلمۂ شہادتین نقش کروائے اور اسے مالیات کے طور پر ادا کرے؟

 کیا اس میں کوئی منطق نظر آتا ہے؟کیا یہ ناممکن نہیں ہے ؛جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاپ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے۔لہذا یہ فطری امر ہے کہ وہ سکہ پر دشمن کا شعار و عقیدہ دیکھ کر اس کی مخالفت کرے گا۔چاہے سکہ پر یہ خوبصورتی کے لئے ہی نقش کئے گئے ہوں۔

 چوتھے فرضیہ  کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمزور فرضیہ ہے ۔یہ ماننا مشکل ہے کہ بادشاہ ''اوفا''نے یہ سکہ اس لئے بنوایا تھا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کے لئے جانے والے اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر ے ۔ کیونکہ اس زمانے میںجو عیسائی مقدس شہروں کو دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور اسلامی ملکوں میں ان کی رفت و آمد تھی۔

۱۵۹

 شاید یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت سکہ نہ بنا سکتی ہو لہذا اس نے اپنا سکہ کسی عربی ملک سے بنوایا ہو۔ لیکن یہ احتمال ضعیف ہے اور یہ وار نہیں ہوتا۔

کیونکہ برٹش انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے نوادرات میں سے نئی طرز کے کچھ سکے ہیں کہ جن پر بادشاہ اور سکہ بنانے والے کا نام نقش ہوا ہے۔کئی صدیوں تک انہیں سکوں سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ جن پر بادشاہ ''اوفا''اور اس کی بیوی ملکہ کانثریز(Cynethyth)کی تصویر بنی ہوئی تھی۔انگلینڈ میں سکہ بنانے کا نظام متعدد زمانوں میں رائج تھا۔

 ممکن ہے کہ اس بادشاہ کے زمانے میں رائج سکوں کے کچھ اور نمونے برٹش انسائیکلوپیڈیا میں سکّوں (Coins) یا بادشاہ کے حالات زندگی کی بحث میں مل سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ احتمال انتہائی ضعیف ہے کہ بادشاہ اپنے ملک میں سکّہ نہیں بنا سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ''اوفا''بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی اور ان سکّوں کے علاوہ کوئی اور مدرک بھی موجود نہیں ہے۔ہمارے پاس اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کے بارے میں معلومات کیوں نہیں ہیں؟مؤرخین اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہبرطانیہ کے کلیسانے اس بادشاہ  کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں تمام مدارک مٹا  دیئے تھے!کیا صرف یہ بادشاہ ہی مسلمان ہوا تھا یا اس کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار بھی مسلمان ہوئے تھے؟ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔ ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس کی زیارت  کے وقت کچھ مسلمانوں اور ان کے علماء سے ملاقات کی ہو اور اس دوران اسلام قبول کرکے  اسلام کا معتقد ہوا ہو۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائی کلوپیڈیا (لاروس)نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ نہیں کیابلکہ اسے کلی طور پر ان دیکھا کر دیا ہے۔اس سے کچھ لوگوں کے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ ان انسائیکلوپیڈیا میں علمی غیرجانبداری کا  لحاظ نہیں کیاگیا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اسلام و غرب:۲۲

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

فجات سلمی کو جلا کر جس سے نبی(ص) نے منع کیا تھا، سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی مؤلفہ القلوب کا حصہ نہ دے کر اور عمر کے قول کی تائید کر کے سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی۔

عمر کو مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر مسلمانوں کا خلیفہ بناکر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تمام مخالفتوںسے اہل سنت کی صحاح اور تواریخ بھری پڑی ہیں۔

پس  جب سنتِ نبی(ص) کا یہ حال ہے، جیسا کہ علمانے بیان کیا ہے، کہ ابوبکر نے سنت یعنی قولِ رسول(ص) فعلِ رسول(ص) اور تقریر رسول(ص) کی مخالفت کی ہے۔

قول رسول(ص) کی مخالفت : نبی(ص) نے ارشاد فرمایا:" فاطمہ (ع) میرا ٹکڑا ہے جس نےاسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔"اور فاطمہ(س) نے دنیا سے اس حالت میں رحلت کی کہ ابوبکر پر غضبناک تھیں جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے۔

رسول(ص) کا قول ہے کہ:جیش اسامہ میں شرکت نہ کرنے والے پر خدا کی لعنت ہے اور یہ آپ(ص) نے اس وقت فرمایا تھا: جب  صحابہ نے اسامہ کو امیر بنانے کے سلسلہ میں اعتراض کیا تھا اور ان کے لشکر میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا ان تمام خلاف ورزیوں کے باوجود ابوبکر خلیفہ بن گئے تھے۔

فعلِ رسول(ص) کی مخالفت:

رسول(ص) نے مؤلفۃ القلوب کو حکم خد اسے حصہ دیا لیکن ابوبکر نے انھیں اس حق سے محروم کردیا جس پر قرآن کی نص موجود ہیں اور رسول(ص) نے اس پر عمل کیا ہے چونکہ عمر نے یہ کہدیا تھا کہ اب ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ابوبکر نے بھی دست کش ہوگئے۔

تقریرِ رسول(ص) کی مخالفت :

نبی(ص) نے اپنی خاموشی سے اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ لوگ آپ(ص) کی احادیث لکھیں

۲۲۱

اور لوگوں کے درمیان نشر کریں لیکن ابوبکر نے ان حدیثوں کو جلا ڈالا اور ان کی نشر و اشاعت پر پابندی لگادی۔

ابوبکر قرآن کے بہت سے احکام سے ناواقف تھے ان سے کلالہ کے متعلق سوال کیا گیا کہ جس کا حکم قرآن میں موجود ہے، تو کہا میں اپنی رائے سے فیصلہ کرسکتا ہوں اگر وہ فیصلہ صحیح ہوگا تو خد اکی طرف سے اور غٖلط ہوگا تو شیطان کی طرف سے ہے۔ ( تفسیر طبری، تفسیر ابنِ کثیر،تفسیر خازن، تفسیر جلال الدین سیوطی، تمام مفسرین نے سورہ نساء کی اس آیت کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔(ليستفتونک قل الله يفتيکم فی الکلالة)

مسلمانوں کے اس خلیفہ کے بارے میں کیونکر حیرت نہ ہو کہ جس سے کلالہ کا حکم پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں جبکہ خد انے قرآن میں او ر رسول(ص) نے اپنی احادیث میں کلالہ کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔ لیکن خلیفہ کو ان دونوں سے سروکار ہی نہیں تھا۔

پھر خود ہی اس بات کا بھی اعتراض کرتے ہیں کہ شیطان ان کی رائے پر مسلط رہتا ہے۔ اور یہ خلیفہ مسلمین ابوبکر کے لئے کو اتفاقی امر نہیں تھا بلکہ انھوں نے ایسی  باتیں بارہا کہی ہیں۔ میرا ایک شیطان ہے جوکہ بہکاتا رہتا ہے۔

واضح رہے علمائے اسلام کا صریح فیصلہ ہے کہ جو شخص کتابِ خدا کےبارے میں اپنی رائے سے کام لے وہ کافر ہے ، جیسا کہ نبی(ص) نے کبھی اپنی رائے اور قیاس سے کچھ نہیں فرمایا:

ابوبکر کہا کرتے تھے: مجھے اپنے نبی(ص) کی سنت پر زبردستی نہ چلاؤ کیونکہ مجھ میں اس کی طاقت نہیں ہے۔

پس جب ابوبکر میں سنتِ نبی(ص) پر گامزن ہونے کی طاقت نہیں ہے تو پھر ان کے انصار و مددگار یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم اہلِ سنت ہیں۔

شاید ابوبکر سنتِ رسول(ص) کا اس لئے اتباع نہیں کرسکتے تھے کہ سنت انھیں یہ بتاتی کہ ان کا عمل رسالتِ مآب(ص) کے عمل سے بالکل مختلف ہے جبکہ خدا نے فرمایا ہے کہ:

۲۲۲

" دین میں تمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے۔" ( حج۷۸)

" خدا تمھارے لئے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے تنگی کا نہیں۔" ( بقرہ ۱۸۵)

" خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (بقرہ۲۸۶)

" جو رسول(ص) تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے بازرہو۔" ( حشر ۷)

ابوبکر کا یہ قول کہ مجھ میں سنتِ نبی(ص) کے اتباع کی طاقت نہیں ہے ان آیتوں کی تردید کررہا ہے اور جب نبی(ص) کے فورا بعد خلیفہ اوّل ابوبکر اس زمانہ میں سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو دورِ حاضر کے مسلمانوں سے کیونکر قرآن و سنتِ نبی(ص) پر گامزن  رہنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟

اور ہم تو ابوبکر کو ایسے آسان امور میں بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جن پر ناتواں اور جاہل بھی عمل کرتا ہے۔

چنانچہ ابوبکر نے قربانی کو ترک کردیا جبکہ رسول (ص) خود بھی قربانی کرتے تھے اور اس کی تاکید فرماتے تھے۔ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ قربانی مستحب مؤکد ہے پھر خلیفہ مسلمین نےاسے کیونکر ترک کردیا؟

محدثین اور امام شافعی نے کتاب الام میں بیان کیا ہے کہ ( بیہقی نے سنن الکبریٰ کی ج۹ ص۳۶۵ اور سیوطی نے جمع الجوامع کی جلد۳ ص۴۵ پر نقل کیا ہے)

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں قربانی نہیں کرتے تھے اور وہ اس خیال کے تحت کہ کہیں دیگر افراد ہماری اقتدا میں اسے واجب نہ سمجھنے لگیں!یہ تعلیل باطل ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہےکیونکہ تمام صحابہ جانتے تھے کہ قربانی سنت ہے  واجب نہیں ہے۔اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ لوگ قربانی کو واجب سمجھنے لگتے تو بھی کیا حرج تھا جبکہ عمر نماز تراویح کی بدعت ایجاد  کردیتے ہیں جو کہ نہ سنت ہے  اور نہ واجب۔

بلکہ اس کے برخلاف نبی(ص) نے اس سے منع فرمایا تھا اور آج اکثرِ اہلِ سنت نمازِ تراویح کو واجب سمجھتے ہیں۔

۲۲۳

شاید ابوبکر و عمر قربانی نہ کرکے اور سنت نبی(ص) کا اتباع نہ کرکے لوگوں کو اس شک میں مبتلا کرنا چاہتے تھے کہ جو فعل بھی رسول(ص) نے انجام دیا ہے وہ واجب نہیں ہے۔ لہٰذا اسے ترک کیا جاسکتا ہے۔

اور اس سےان کےاس قول کی تقویت ہوتی ہے کہ "ہمارے لئے کتاب خدا ہی کافی ہے اور ابوبکر کےاس قول کو بھی سہارا ملتا ہے کہ نبی(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کیا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتابِ خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو!

اس بنیا د پر اگر کوئی شخص ابوبکر پر قربانی والی سنتِ نبی(ص) کے ذریعہ احتجاج کرتا ہے تو ابوبکر صاف کہدیتے تھے مجھ سے تم رسول(ص) کی حدیث بیان نہ کرو، مجھے تو کتاب  میں اس کا حکم دیکھاؤ کہاں ہے۔

اس کےبعد ایک محقق بخوبی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اہلِ سنت کے یہاں سنتِ نبی(ص) کیونکر متروک و مجہول رہی اور انھوں نے اپنی رائے قیاس اور استحسان کے ذریعہ کیسے خدا و رسول(ص) کے احکام کو بدل ڈالا۔

یہ وہ مثالیں ہیں جن کو میں نے ابوبکر کے ان کارناموں سے نکالا ہے جو انھوں نے سنتِ نبی(ص) کے سلسلہ میں انجام دیئے ہیں۔ جیسے سنت کی اہانت ، احادیث کا جلانا اوران سے چشم پوشی کرنا ، اگر ہم چاہتے تو اس موضوع پر مستقل کتاب لکھدیتے۔

اتنے کم علم والے انسان سے ایک مسلمان کیسے مطمئن ہوسکتا ہے جس کا یہ مبلغِ علم ہے اور سنتِ نبوی(ص) سے جس کا یہ برتاؤ  ہے تو اس کی پیروی کرنے والے کیونکر اہلِ سنت کہلواتے ہیں؟

اہلِ سنت نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اسے نذر آتش کرسکتے ہیں۔

ہرگز ، بلکہ اہلِ سنت وہ ہیں جو اس کا اتباع کرتے ہیں اور اسے مقدس سمجھتے ہیں۔

("اے رسول (ص)) کہدیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو

۲۲۴

 میرا اتباع کرو( پھر) خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

( اے رسول(ص)) کہدیجئے کہ اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو اگر روگردانی کرو گے تو خدا  کافروں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ ( آل عمران ۳۱۔۳۲)

۲: عمر بن خطاب ۔ فاروق

ہم اپنی دیگر کتابوں میں تحریر  کرچکے ہیں کہ سنت نبوی(ص) سے ٹکرانے میں عمر بڑے جسور تھے۔یہ وہ جری ہے جس نے رسول(ص) سے بےڈھڑک کہدیا تھا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے اور اس رسول(ص) کے قول کوجو کہ اپنی خواہش نفس سے کچھ کہتا  ہی نہیں اسے اہمیت نہیں دی، اس لحاظ سے عمر اس امت کی گمراہی کا سبب بنے۔( اس کی دلیل قولِ رسول(ص) ہے ۔، اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ ابدا: میں تمھارے لئے نوشتہ لکھدوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ابنِ عباس کہتے ہیں اگر وہ نوشتہ لکھا گیا ہوتا تو امت کے دو افراد کے درمیان کبھی اختلاف نہ ہوتا لیکن عمر نے رسول(ص) کو وہ نوشتہ نہ لکھنے دیا اور آپ(ص) پ رہذیان کی تہمت لگائی تاکہ رسول(ص) لکھنے پر اصرار نہ کریں۔ اس سے یہ  بات واضح ہوگئی کہ امت کی گمراہی کا سبب عمر ہیں جس نے امت کو ہدایت سے محروم کیا۔)

ہم یہ بھی جانتے ہیںکہ عمر نے فاطمہ زہرا(س) کی اہانت کی اور آپ(س)  کو اذیّتین دیں۔ آپ(س) کو اور آپ کے چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اس وقت خوف زدہ کیا جب رسول(ص) کی لختِ جگر کے گھر پر یورش کی اور گھر کوآگ لگادینے کی دھمکی دی۔

ہم اس سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ عمر ہی نے حدیث کی کتابیں جمع کرکے نذر آتش کردی تھیں۔ اور لوگوں کو احادیثِ رسول(ص) بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔

عمر نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اور خود رسول(ص) کے سامنے آپ(ص) کی سنت کی مخالفت کی جیسا کہ جیش اسامہ میں شرکت نہ کر کے سنتِ بنی(ص) کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو مستحکم بنانے کی

۲۲۵

غرض سے جیشِ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے تھے۔

مؤلفۃ القلوب کو ان کا حق نہ دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح متعہ حج و متعہ نساء  کو حرام قرار دیکر قرآ نو سنت کی مخالفت کی۔

تین طلاقوں کو ختم کر کے ایک طلاق کو کافی بتا کر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اور  پانی نہ ہونے کی صورت جمیں فریضہ تیمم کو ختم کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

مسلمانوں کو جاسوسی کا حکم دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح اذان سے ایک جزو ختم کر کے اور اپنی طرف سے ایک جزو کا اضافہ کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

خالد بن ولید پر حد جاری نہ کر کے قرآن وسنت نبی(ص) کی مخالفت کی جبکہ خود اسے خد کی اجراء سے خوف زدہ کرچکے تھے۔جیسا کہ تراویح کو جماعت سے پڑھنے کا حکم دیکر سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی۔

بیت المال کی تقسیم کے سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کر کے طبقاتی نظام کی بدعت جاری کی اور اسلام میں طبقہ بندی کو جنم دیا۔مجلس شوریٰ بناکر اور ابنِ عوف کو اس کا رئیس مقرر کرکے سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کی۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود اہل سنت والجماعت انھیں معصوم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں عدل تو عمر کے مرتے ہی ختم ہوگیا تھا، اور جب انھیں قبر میں رکھا گیا اور منکرو  نکیر سوال کرنے آئے تو عمر ان پر برس پڑے اور پوچھا تمھارے پروردگار کون ہے؟ اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں کہ عمر فاروق ہیں کہ جس کے ذریعہ خدا نے حق و باطل میں فرق کر دیا۔

کیا یہ بنی امیہ نے اسلام اور ،مسلمانوں کا مذاق نہیں اڑایا ہے؟انھوں نے ایک سخت مزاج شخص کے لئے ایسے مناقب گھڑ دیئے جو کہ مستقل طور پر رسول(ص) سے لڑتا رہا۔ ( مسلم نے اپنی صحیح میں متعہ کے سلسلے میں ابن عباس اور ابن زبیر کا اختلاف درج کیا جہے ۔ جابر بن عبداللہ نے  کہا ہم رسول(ص) کے

۲۲۶

ز مانہ میں متعہ حج اور متعہ نساء دونوں پر عمل کرتے تھے حج جمیں عمر نے دونوں کو حرام قرار دیدیا۔) گویا انکی زبانِ حال مسلمانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ محمد(ص)  کا زمانہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ ختم ہوگیا اب ہمارا زمانہ ہے۔ اب ہم جس طرح چاہیں گے دین میں ردّ و بدل کریں گے اور شریعت بنائیں گے ۔ اب تم ہمارے  غلام ہو تمھاری اور تمھارے نبی(ص) کی ناک رگڑی جا ئے گی۔ اور ردّ عمل کے طور پر انتقام لیا جائے گا تاکہ حکومت قریش ہی کی طرف لوٹا دی جائے جس کی زمام بنی امیہ کے ہاتھوں میں رہے گی جو کہ اسلام اور رسولِ اسلام سے مستقل طور پر لڑتے چلے آرہے ہیں۔

عمر بن خطاب سدا سنت نبوی(ص) کو مٹانے کی کوشش میں لگے رہے اور اس کا مذاق اڑاتے رہے اور ہیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے یہاں  کہ نبی(ص) کے سامنے بھی مخالفت کی تو اب نہ تعجب خیز بات نہٰیں ہے کہ قریش حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں می دیدیں اور انھیں اپنا قائد اعظم  تسلیم کرلیں کیونکہ وہ ظہور اسلام کے بعد قریش کی بولتی ہوئی زبان تھے۔ اور ان کی طرف سے جھگڑنے والے تھے۔ اسی طرح وفاتِ نبی(ص)  کے بعد وہ قریش کی برہنہ  شمشیر اور ان کے خوابوں کی تعبیروں کو  وجود میں لانے کا مرکز اور حکومت تک ان کی رسائی کا ذریعہ اور ان کی جاہلیت والی عادتوں کی طرف پلٹانے کا سبب تھے۔

یہ کوئی اتفاقی امر نہیں جہے کہ ہم عمر کو ان کے زمانہ خلافت میں سنت نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور  انھیں  خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم (ع) سے الگ ایسے عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا۔

ابنِ سعد نے اپنی طبقات میں اور دیگر مورخین نے نقل کیاہے کہ:

جب نبی(ص) نے مکہ فتح کیا تو مقام ابراہیم(ع) کو اس طرح خانہ کعبہ سے ملادیا جس طرح عہد ابراہیم(ع) و اسماعیل(ع) میں تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے مقام ابراہیم(ع) کو اس جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے۔ لیکن بعد میں عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسی  جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے جبکہ عہد ِ رسول(ص) اور زمانہ ابوبکر میں خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا۔( طبقات ابن سعد جلد ۳ ص۲۰۴، تاریخ الخلفا حالاتِ خلافت

۲۲۷

عمر بن خطاب)

کیا آپ عمر بن خطاب کے لئے کوئی عذر پیش کرسکتے ہیںجب کہ وہجان بوجھ کر اس سنتِ رسول(ص) کو محو کرتے تھے جو کہ آپ(ص) نے ابراہیم و اسماعیل(ع) کے عمل کے مطابق کردی تھی اور عمر نے جاہلیت والی سنت کو زندہ کیا اور مقامِ ابراہیم(ع) وہیں کردیا جہاں زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پس قریش عمر کو کیسے فوقیت نہ دیتے اور ان کے لئے ایسے فضائل کیونکر گھڑتے جو خیالات کی سرحدوں میں مقید ہیں یہاں تک کہ ان کے دوست ابوبکر کہ جن کو عمر نے خود خلافت میں مقدم کیا تھا وہ بھی اس مقام تک نہیں پہونچے اور پھر بخاری کی روایت کے مطابق ان کے (علم کے کنویں سے ڈول) کھینچنے میں ضعف تھا لیکن عمر نے ان سے لے لیا اور اسے آسانی سے کھینچ لیا۔اور یہ ان بدعتوں کا عشر عشیر  بھی نہیں ہے جو کہ عمر نے اسلام میں ایجاد کی ہیں۔ اور یہ بدعتیں سب کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالف ہیں۔اگر ہم ان کی بدعتوں کو جمع کریں اور ان احکام کو یکجا کردیا جائے جو کہ انھوں نے اپنی رائے سے صادر کئے ہیں اور ان پر لوگوں کو زبردستی عمل کرنے کے لئے کہا تو  دفتر کے دفتر  وجود میں آجائیں گے لیکن ہمارے پیشِ نظر اختصار ہے۔

اور کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے : عمر بن خطاب نے کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی کیسے مخالفت کی جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو خدا و رسول(ص) کے فیصلہ کے بعد کسی امر  کا اختیار نہیں ہے اور جو خدا اور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کرے گا وہ تو کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہے۔( احزاب/۳۶)

اس بات پر آج اکثر لوگ بحث کرتے ہیں اور ان باتو ں کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر نے ان چیزوں کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔

ایسے لوگوں سے ہماری گذارش ہے کہ: یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ اہلِ سنت میں سے عمر کے یارو انصار نے ثابت کی ہیں ۔ اور  اب   لاشعوری طور پر عمر کو نبی(ص) پر فضیلت دیتے ہیں۔

۲۲۸

اگر یہ باتیں جو عمر کے بارے میں کہی گئی ہیں سب جھوٹی ہیں تو اہلِ سنت کی صحاح ( ستہ) کا کوئی اعتبار نہیں رہے گا ۔اور پھر ان کے کسی عقیدہ پر کوئی دلیل باقی نہ بچے گی۔ کیونکہ تواریخ کے اکثر واقعات اہلِ سنت کی حکومت کے زمانہ میں لکھے گئے ہیں اور ان لوگوں کے نزدیک عمر بن خطاب کا جو احترام و محبت ہےوہ سب پر عیاں ہے۔

اور جب یہ بات صحیح ہے اور ناقابل ترید حقیقت ہے تو آج مسلمانوں کو اپنے موقف کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے عقائد کے بارے میں سوچنا چاہئے اگر وہ اہلِ سنت والجماعت ہیں۔

اسی لئے آج کے اکثر محققین کو آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسی روایات اوران تاریخی واقعات کو جھٹلاتے ہیں جن پر علما و محدثین کا اجماع ہے۔ اگر چہ انھیں جھٹلانے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہے۔اسی لئے وہ تاویل کیا کرتے ہیں اور ایسے واہیات قسم کے عذر و بہانے کرتے ہیں۔

جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار نہیں ہوتی ہے بعض نے تو ان (عمر) کی بدعتیں جمع کر کے ان کے مناقب میں شامل کردی ہیں۔

شاید خدا و رسول(ص) دونوں ہی مسلمانوں کی مصلحت سے ناواقف تھے۔ اسی لئے تو وہ ان بدعتوں سے غافل رہے ( استغفر اللہ) چنانچہ عمر ابن خطاب نے ان مصلحتوں کا انکشاف کیا اور رسول(ص) کی وفات کے بعد انھیں مسلمانوں کے لئے سنت قرار دیدیا۔

ہم بہتان عظیم ، کھلے کفر ، رائے خطا اور فکری لغزشوں سے خد اکی پناہ چاہتے ہیں اور جب عمر جیسا اہلِ سنت والجماعت کا امام و قائد ہے ۔ تو میں ایسی سنت اور ایسی جماعت سے خدا کی بارگاہ میں برائت کا اظہار کرتا ہوں۔

خدا سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے سنتِ خاتم النبیین سید المرسلین ، سیدنا محمد (ص) و علی(ع) اور اہلِ بیت طاہرین(ع)  کے راستہ پر موت دے۔

۲۲۹

۳: عثمان بن عفان" ذوالنورین"

یہ تیسرے خلیفہ ہیں جو کہ عمر بن خطاب کی تدبیر سے اور عبدالرحمن بن عوف کی زیرکی سے خلافت پر متمکن ہوئے ، ابن عوف نے عثمان سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ ان کے درمیان کتابِ خدا ، سنتِ رسول(ص) اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق حکومت کے فیصلے کریں گے۔

مجھے خود دوسری شرط میں شک ہے کہ جس میں سنتِ نبی(ص) کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے۔

کیونکہ عبدالرحمن ابن عوف دوسروں سے زیادہ اس بات کو جانتے تھے کہ ابوبکر و عمر نے سنت نبوی(ص) کے مطابق نہ حکومت کی ہے  اور نہ کوئی فیصلہ کیا ہے بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔ شیخین کے  زمانہ میں سنتِ رسول(ص) معدوم ہوگئی ہوتی اگر علی(ع) اس کو زندہ رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی نہ دیتے۔

ظن غالب یہ ہے کہ عبدالرحمن  بن عوف نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ کتابِ خدا اور سیرت شیخین کے مطابق حکومت چلائیں گے۔ تو ہم آپ(ع) کو خلیفہ بناتے ہیں۔ علی(ع) نے اس پیش کش کو یہ کہکر ٹھکرادیا تھا کہ میں صرف کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق حکومت کروںگا۔ لہذا آپ(ع) کو خلافت نہ دی گئی کیونکہ وہ سنتِ نبی(ص) کو زندہ کرنا چاہتے تھے عثمان نے اس شرط کو قبول کر کے خلافت لے لی۔ پھر ابوبکر و عمر نے صریح طور پر متعدد بار یہ کہدیا تھا کہ ہمیں سنتِ نبی(ص) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ اس کی حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو!

ہمارے مسلک کے صحیح ہونے کا اس بات سے اور زیادہ یقین ہوجاتا ہے کہ عثمان بن عفان اس شرط ( کہ سیرت شیخین کے مطابق عمل کرنا ہوگا)  سے یہ سمجھ گئے تھے کہ احکام کےسلسلہ میں اپنے دونوں دوستوں کی طرعح اپنی رائے سے اجتہاد کرلیا جائے گا اور یہ وہ سنت تھی جس کو

۲۳۰

 شیخین نے نبی(ص) کے بعد ایجاد کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم عثمان کو رائے اور اجتہاد کے سلسلہ میں اپنےدوستوں سے بھی زیادہ مطلق العنان پاتے ہیں۔ اسی بناء پر اکثر صحابہ نے ان پر تنقید کی اور ملامت کرتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور کہا یہ تمھارا کارنامہ ہے۔

اور جب تنقید و شور وغل عثمان کے خلاف بہت زیادہ ہوگیا تو ایک روز انھوں نےصحابہ کے درمیان خطبہ دیتےہوؕے کہا: تم لوگوں نے عمر بن خطاب کے اجتہاد پر کیوں تنقید نہیں کی تھی؟ اس لئے کہ وہ تمھیں اپنے درے سے صحیح رکھتے تھے!

ابنِ قتیبہ کی روایت ہے کہ: جب لوگوں نے عثمان پر تنقید کی تو وہ  خطبہ دینے کے لئے منبر پ رکھڑے ہوئے اور کہا ! اے گروہ مہاجرین و انصار قسم خدا کی تم  نے مجھ پر بہت چیزیں تھوپی ہیں اور بہت سے امور کو دشوار بنادیا ہے۔ جبکہ عمر بن خطاب  کے لئے تم خاموش رہے۔کیونکہ انھوں نے تمھاری زبانیں بند کر رکھی تھیں اور تمھیں ذلیل و خوار بنا رکھا تھا، تم میں سے کسی میں یہجراؔت نہ تھی کہ انھیں آنکھ  پھر کر دیکھ لینا اور نہ ہی آنکھ سے اشارہ کرسکتا تھا۔ قسم خدا کی میرے پا س ابنِ خطاب سے زیادہ افراد  اور مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ( تاریخ الخلفا، ابنِ قتیبہ ص۳۱)

میر اذاتی عقیدہ یہ ہےکہ مہاجرین و انصار میں سے صحابہ نے  عثمان کے اجتہاد پر تنقید نہیں کی تھی ، کیونکہ وہ اجتہاد کے پہلے ہی روز سے عادی تھے اور اسے بابرکت سمجھتے تھے ۔ لیکن صحابہ نے اس لئے عثمان پر تنقید و اعتراض کی بوچھار کی تھی کہ عثمان نے انھیں معزول کرکے کرسیاں اور مناصب اپنے ان فاسق قرابت داروں کو دیئے تھےجو  کہ کل تک اسلام اور مسلمانوں سے جنگ کر رہے تھے۔

یقینا مہاجرین وانصار نے ابوبکر کے خلاف زبان نہیں کھولی تھی۔ کیونکہ ابوبکر و عمر نے انھیں حکومت میں شریک کا ربنا لیا تھا اور ایسے مناصب دیدئیے  تھے جن سے مال و عزت دونوں حاصل

۲۳۱

ہوتے تھے۔

لیکن عثمان نے اکثر مہاجرین و انصار کو معزول کردیا تھا اور بنی امیہ کے لئے بیت المال کا دروازہ کھول دیا تھا چنانچہ صحابہ سے یہ نہ دیکھا گیا اور انھوںنے اعتراضات و شبہات کا سلسلہ شروع کردیا یہاں تک کہ عثمان قتل کردئیے گئے۔

رسول(ص) نے اس حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا:

" مجھے تمہاری طرف سے اپنے بعد یہ خوف  نہیں ہے کہ تم مشرک ہوجاؤ گے۔ لیکن یہ خوف ہے کہ تم مقابلہ بازی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔"

حضرت علی(ع)  فرماتے ہیں :

" گویا انھوں نے خدا کا یہ قول  سنا ہی نہیں : ہم نے آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مہیا کیا ہے جو  نہ زمین پر سربلندی کے خواہاں  اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔" (قصص/۸۳)

" قسم خداکی انھوں نے اس کو سنا اور محفوظ کیا لیکن دنیا ان کی آنکھ میں بن سنور گئی اور اس کی خوبصورتی نے انھیں لبھا لیا۔"

حقیقت تو یہی ہے، لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ صحابہ نے عثمان پر سنتِ نبی(ص) کو بدلنے کی وجہ سے تنقید و اعتراضات کئے تھا تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ اس لئے کہ انھوں ابوبکر و عمر پر اعتراضات نہیں کئے تھے ۔ تو پھر عثمان پر اعتراض کرنے کا حق کہاں سے پیدا ہوا۔ جبکہ ابوبکر و عمر سے کہیں زیادہ عثمان کے ناصر و مددگار تھے۔ جیسا کہ خود عثمان نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ پھر عثمان بنی امیہ کے سردار تھے جو کہ قبیلہ تمیم و عدی، ابوبکر و عمر کے قبیلہ ، کی

۲۳۲

بہ نسبت نبی(ص) سے قریب تھا اور طاقت و نفوذ میں زیادہ  اور حسب و نسب میں بلند تھا۔

لیکن صحابہ نہ صرف یہ کہ ابوبکر وعمر  پر اعتراضات نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سنت کی اقتدا بھی کرتے تھے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہی صحابہ ایسی بہت سی مجلسوں میں شریک رہتے تھے جن میں عثمان سنتِ نبی(ص) کو بدل دیتے تھے جیسے سفر میں پوری نماز پڑھنا ، تلبیہ سے منع کرنا ، نماز میں تکبیر نہ کہنا اور حجِ تمتع سے منع کرنا۔ ان موقعوں پر حضرت علی(ع) کے علاوہ کسی نے بھی عثمان پر اعتراض نہ کیا ۔ انشاء اللہ عنقریب ہم اسے بیان کریں گے۔

صحابہ سنتِ نبی(ص) سے واقف تھے اور خلیفہ عثمان کو راضی رکھنے کے لئے سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کو برداشت کرتے تھے۔

بیہقی نے اپنی سنن میں عبد الرحمن بن یزید سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: ہم عبداللہ بن مسعود کے ساتھ تھے۔ پس جب ہم مسجد منیٰ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : امیرالمؤمنین ( یعنی عثمان) نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے۔ لوگوں نے بتایا چار رکعت تو  انھوں نے بھی چار ، رکعت نماز ادا کی ، راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : کیا آپ نے ہم سے نبی(ص) کی یہ حدیث بیان نہیں کی تھی کہ نبی(ص) دو رکعت  پڑھتے تھے اور ابوبکر بھی دو رکعت پڑھتے تھے؟!

ابن مسعود نے کہا: جی ہاں اور اب بھی تم سے میں وہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ لیکن وہ امام  ہیں اس لئے میں ان کی مخالفت نہیں کرسکتا اور پھر اختلاف میں ہے۔( السنن الکبری جلد۳ ص۱۴۴)

پڑھئے اور عبداللہ بن مسعود ایسے عظیم صحابی پر تعجب کیجئے کہ جنھوں نے عثمان کی مخالفت کرنے کو شر سمجھا اور رسول(ص) کی مخالفت کو خیر تصوّر کیا۔

کیا  اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ نےسنتِ نبی(ص) ترک کردینے کی بناء پر

۲۳۳

 عثمان پر اعتراضات کئے تھے؟!

اور سفیان بن عینیہ نے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : عثمان منیٰ میں مریض ہوگئے تھے، علی(ع) تشریف لائے تو لوگوں نےعرض کی آپ(ع) جماعت سے نماز پڑھا دیجئے ۔

علی(ع) نے فرمایا : اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں تیار ہوں لیکن وہی نماز پڑھاؤں گا جو رسول(ص) پڑھتے تھے۔ یعنی دو رکعت:

لوگوں نے کہا : نہیں صرف امیرالمؤمنین عثمان والی نماز چار رکعت ہونی چاہئے ۔ اس پر علی(ع) نے نماز پڑھانے سے انکار کر دیا۔( محلی، ابن حزم ، جلد۴،ص۲۷۰)

پڑھئے اور ان صحابہ پر افسوس کیجئے جن کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی ۔ کیونکہ وہ حج کے زمانہ میں منیٰ  میں تھے ۔ وہ کیسے صریح طور پر سنتِ رسول(ص) کا انکار کررہے تھے اور صرف عثمان کی بدعت ہی پر راضی تھے۔ اور عبداللہ بن مسعود نے عثمان کی مخالفت کو شر تصور کیا تھا، اور چار ،رکعت نمازادا کی تھی باوجود یکہ انھوں نے دو رکعت والی حدیث بیان کی تھی، ممکن ہے عبد اللہ بن مسعود  ان ہزاروں افراد کے خوف سے، جو عثمان کے فعل ہی سے راضی تھے اور سنتِ رسول(ص) کو دیوار پر دے مارا تھا، تقیہ کیا ہو اور چار ، رکعت نماز ادا کی ہو۔

ان تمام باتوں کے بعد نبی(ص)  اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) پر درود و سلام بھیجنا نہ بھولئے کہ جنھوں نے عثمان کے چاہنے والوں کو رسول(ص) کی نماز کے علاوہ کسی بھی دوسری نماز پڑھانے  سے انکار کر دیا تھا۔ علی(ع) اپنے عمل سے سنتِ رسول(ص) کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور صحابہ آپ(ع) کی مخالفت کررہے تھے لیکن سنتِ رسول(ص) کے احیاء کے سلسلہ میں علی(ع) نے کسی مالمت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کی اور نہہی ان کی کثیر تعداد سے خائف ہوئے۔

عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ : سفر میں تو نماز دو رکعت ہے اور جس نے سنت کی مخالفت کی وہ کافر ہے۔( سنن بیہقی جلد۳ ص۱۴۰ اور ایسے ہی طبرانی نے معجم کبیر میں اور حصاص نے احکام القرآن کی جلد۲ ص۳۱۰ میں تحریر کیا ہے۔)

۲۳۴

اس طرح عبداللہ بن عمر نے خلیفہ عثمان کو اور ان تمام صحابہ کو کافر قرار دیدیا جو عثمان کا اتباع کرکے سفر میں پوری نماز پڑھتے تھے ۔ اب ہم پھر فقیہ ، عبداللہ بنعمر کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ اسے بھی اس دائرہ میں داخل کردیں جس میں اس نے دوسروں کو داخل کیا  ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے: ابنِ عمر  نے کہا : میں نے مکہ اور مدینہ کے درمیان عثمان و علی(ع) کی گفتگو سنی ، عثمان ، متعہ حج اور  متعہ نساء سے منع کررہے تھے جب کہ علی(ع) دونوں پر عمل کرنے کا حکم دے رہے تھے اور فرمارہے تھے۔لبيک عمرة ، حجة معا : عثمان نے کہا  : آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں لوگوں کو ایک چیز سے منع کررہا ہوں اور  آپ اس کا حکم دے رہے ہیں؟ علی(ع) نے  فرمایا : میں کسی کے کہنے سے سنتِ رسول(ص) کو ترک نہیں کرسکتا ہوں ۔ ( صحیح بخاری، جلد۲ ص۱۵۱ باب التمتع والاقران من کتاب الحج۔)

کیا آپ کو مسلمانوں کے اس خلیفہ پر تعجب نہیں ہوتا جو کہ صریح سنت کی مخالفت کرتے  ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں  لیکن کوئی شخص ان پر اعتراض نہیں کرتا ہاں علی بن ابی طالب(ع) سنتِ رسول(ص) پر عمل کرتے ہیں اور جان کی بازی لگا کر اسے زندہ رکھتے ہیں۔

سچ بتائیے کیا ابوالحسن علی(ع) کے علاوہ صحابہ میں کوئی تھا بھی حاکم کے ہم خیال تھے۔علی(ع) نے کبھی سنت رسول(ص) کو ترک نہ کیا ۔ہمارے اس مسلک پر اہل سنت  کی صحاح وغیرہ شاہد ہیں کہ علی(ع) نے ہمیشہ  سنت نبی (ص) کے احیاء کے لئے اور لوگوں کو س کی طرف پلٹانے کی پوری  کوشش کی۔ لیکن اس رائے کی حقیقت ہی کیا ہے جس پر عمل نہ کیا جاتا ہو۔ جیسا کہ خود حضرت علی(ع) نے فرمایا ہے۔اس زمانہ میں شیعوں کے علاوہ، جو کہ ان سے محبت رکھتے تھے ، ان کا اتباع کرتے تھے اور تمام احکام ان ہی سے لیتے  تھے، کوئی بھی آپ(ع) کی اطاعت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی آپ کے اقوال پر عمل کرتا تھا۔

اس سے ہمارے اوپر یہ بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ نے عثمان پر سنت

۲۳۵

میں تبدیلی کی بنا پر تنقید نہیں کی تھی جیسا کہ ہم ان کی صحاح میں یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کس طرح سنتِ نبی(ص)ٌ کی مخالفت کی۔ لیکن عثمان کی بدعت کی مخالفت نہیں کی لیکن دنیائے دنی کی وجہ سے اور مال و دولت حاصل کرنے کی بنا پر وہ آپے سے باہر ہوگئے۔

یہی لوگ صؒح کے بجائے حضرت علی(ع) سے جنگ کرتے رہے کیوںکہ آپ انھیں عہدوں پر فائز نہیں کرتے تھے اس کے برعکس ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جو ناحق مال جمع کرلیا ہے اسے مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کردو تاس کہ ناداروں کی کفالت ہوسکے۔

لائق  تبریک و تحسین ہیں آپ(ع)  اے ابوالحسن (ع) کہ جس نے اپنے پروردگار کی کتاب اور رسول(ص) کی سنت کی محافظت کی۔ آپ(ع) ہی امام المتقین اور مستضعفین کے ناصر ہیں، آپ کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔

کیونکہ وہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) سے متمسک رہے اور آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب رہے۔ اور آپ(ع) سے احکام لیتے رہے۔

قارئین محترم کیا ان تمام باتوں کے بعد بھی عثمان بن عفان کا اتباع کرنے والے اہلِ سنت ہیں اور علی(ع) کا اتباع کرنے والے رافضی و بدعت گذار؟

اگر آپ منصف مزاج ہیں تو فیصلہ کیجئے۔" بے شک خدا تمھیں امانت والوں کی امانت لوٹانے کا حکم دیتا ہے، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا تو عدل و  انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔( نساء/۵۸)

۴ : طلحہ بن عبید اللہ :

آپ مشہور اور بڑے صحابہ میں سے ایک ہیں اور عمر بن خطاب نے جو خلیفہ کے انتخاب کے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے ایک رکن بھی تھے۔ اور عمر نے ان ہی کے متعلق فرمایا تھا:  اگر یہ خوش ہوں تو مؤمن،غضبناک ہوں تو کافر، ایک روز انسان دوسرے روز شیطان

۲۳۶

ہیں۔ بزعم اہل سنت والجماعت عشرہ مبشرہ میں آپ بھی شامل ہیں۔

جب ہم اس شخص کے متعلق تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے بندے تھے، ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے دنیا کے حصول کے لئے دین بیچ دیا اور گھاٹے سے دو چار ہوئے ۔ ان کی اس تجارت نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ قیامت کے دن پشیمان ہوں گے۔

یہ وہی طلحہ ہے جس نے رسول(ص) کو یہ کہہ کر تکلیف پہنچائی تھی، اگر رسول(ص) مرجائیں گے تو میں عائشہ سے  نکاح کرلوں گا، وہ میری چچازاد ہیں۔ شدہ شدہ رسول(ص) تک بھی یہ بات پہونچ گئی۔ چنانچہ آپ (ص) کو بہت قلق ہوا۔

اور جب آیہ حجاب ( پردے والی آیت) نازل ہوئی اور نبی(ص) کی ازواج پردہ کرنا شروع کردیا تو طلحہ نے کہا : کیا محمد(ص) ہماری چچازاد بیٹیوں کو ہم سے پردہ کرائیں گے ؟ ہماری عورتوں سے نکاح کریں ؟ اگر کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو ہم ان (نبی(ص))  کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کریں گے۔ ( تفسیر ابنِ کثیر ، تفسیر قرطبی، تفسیر آلوسی وغیرہ سب میں خداوندِ عالم کے اس قول کی تفسیر میں یہ واقعہ درج ہے۔ماکان ان توذوا رسول الل ه ولا ان تنکحوا ازواجه بعده)

جب رسولِ خدا(ص) کو اس بات سے تکلیف ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی ۔

اور تمھیں رسول(ص) کو تکلیف پہنچانے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بعد کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرنے کا حق ہے بے شک خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔( احزاب/۵۳)

یہ وہی طلحہ ہیں جو ابوبکر کے انتقال سے قبل اس وقت ان کے پاس گئے تھے۔ جب انھوں نے عمر کو خلافت کا پروانہ لکھ دیا تھا اور کہا آپ اپنے خدا کو کیا جواب دیںگے جبکہ آپ نے ہمارے اوپر ایک سخت مزاج  کو مسلط کردیا ہے؟ ابوبکر نے سخت کلام میں ان پر سب و شتم کیا۔ ( الامامت  والسیاست ابنِ قتیبہ فی باب وفات ابی بکر و استخلافہ عمر)

۲۳۷

لیکن بعد میں ہم ان کو خاموش اور نئے خلیفہ سے راضی دیکھتے ہیں اور ان کے انصار میں نظر آتے ہیں اور اموال جمع کرنا اپنے ذمہ لے لیا ہے۔  خصوصا اس وقت تو اور  خیر خواہ بن گئے جب عمر نے انھیں خلیفہ ساز چھ رکنی کمیٹی کا رکن بنادیا اور جناب کو بھی اس کی طمع ہونے لگی۔یہ وہی طلحہ ہے جس نے علی(ع) کو حقیر تصوّر کیا اور عثمان کے طرف داروں میں ہوگئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خلافت عثمان ہی کو ملے گی اور پھر اگر علی(ع) کو خلافت مل بھی جاتی تو ان کی طمع پوری نہیں ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت علی(ص) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: ان میں سے ایک تو بغض اور کینہ کی وجہ سے ادھر جھک گیا اور دوسرا دامادی اور دیگر ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر چلاگیا۔۔۔۔۔

شیخ محمد بن عبدہ اپنی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔ طلحہ عثمان کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے درمیان قرابت تھی  جیسا کہ بعض راویوں نے نقل کیا ہے اور عثمان کی طرف ان کے میلان اور علی(ع) سے منحرف ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تیمی ہیں اور جب سے ابوبکر خلیفہ بنے تھے اس وقت سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے درمیان رسہ کشی چلی آرہی تھی۔ ( شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ جلد۱، ص۸۸، خطبہ شقشقیہ۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے غدیر میں بیعت کرنے والے صحابہ میں یہ بھی شامل تھے۔ اور انھوں نے بھی رسول(ص) کی زبان سے ، من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ سنا تھا۔بے شک انھوں نے رسول(ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ علی(ع) کے ساتھ  ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ خیبر میں بھی آپ اس وقت موجود تھے جب رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو علم دیا تھا اور فرمایا تھا: علی(ع) خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں اور خدا و رسول(ص) انھیں دوست رکھتے ہیں۔ طلحہ یہ بھی جانتے تھے کہ علی(ع)  نبی(ص) کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے اور اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں جانتے تھے۔

لیکن طلحہ کے سینے میں بغض کی آگ دبی ہوئی تھی، حسد سے دل لبریز تھا وہ جو بھی دیکھتے خاندانی تعصب کی نظر سے دیکھتے تھے پھر اپنی چچازاد بہن عائشہ کی طرف مائل تھے جس سے نبی(ص)

۲۳۸

کے بعد شادی رچانا چاہتے تھے لیکن قرآن نے ان کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا۔

جی ہاں طلحہ عثمان سے مل گئے ، ان کی بیعت کر لی کیونکہ وہ انھیں انعام واکرام سے نوازتے تھے۔ اور جب عثمانتختِ خلافت پر متمکن ہوگئے تو طلحہ کو بے حساب مسلمانوں کا مال دے دیا۔ ( طبری ، ابنِ ابی الحدید اور طہ حسین نے فتنۃ الکبری میں اس کا ذکر کیا ہے طلحہ عثمان کاپچاس ہزار کا مقروض تھا ایک روز طلحہ نے عثمان سے کہا کہ مٰیں نے تمہارا قرض چکانے کے لئے پیسہ جمع کر لیا ہے ایک روز ویہ پیسہ جو عثمان سے ملتا تھا۔ بھیج دیا تو عثمان نے کہا کہ یہ تمھاری مروت کا انعام ہے۔ کہا گیا کہ عثمان نے مزید دو لاکھ طلحہ کو دیئے۔

پس ان کے پاس اموال غلاموں اور چوپایوں کی کثرت ہوگئی یہاں تک ہر روز عراق سے ایک ہزار دینار آتے تھے۔

ابنِ سعد طبقات میں تحریر فرماتے ہیں۔ جب طلحہ کا انتقال ہوا اس وقت ان کا ترکہ تین ملین درہم تھا اور دو ملین دو  لاکھ دینار نقد موجود تھے۔

اسی لئے طلحہ سرکش ہوگئے اور جرت بڑھ گئی اور اپنے جگری دوست عثمان کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے تاکہ خود خلیفہ بن جائیں ۔

شادی ام المؤمنین عائشہ نے بھی انھیں خلافت کی طمع دلائی تھی۔ کیوں کہ عائشہ نے بھی پوری طاقت سے عثمان کو خلافت سے ہٹانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ عائشہ کو یقین تھا کہ  خلافت ان کے چچازاد طلحہ کو ملے گی۔ اور جب انھیں عثمان کے قتل کی اطلاع ملی اور یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے طلحہ کی بیعت کر لی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا: نعثل کی ہلاکت کے بعد خدا سے غارت کرے اور خوش ہو کر کہا کہ مجھے جلد میرے ابنِ عم کے پاس پہنچا دو لوگوں کو  خلافت کے سلسلہ میں کو ئی طلحہ جیسا کہ نہ ملا۔

جی ہاں طلحہ نے یہ عثمان کو  احسان کا بدلہ دیا ہے۔ جب عثمان نے انھیں مالدار بنا دیا تو طلحہ نے خلافت حاصل کرنے کی غرض سے انھیں چھوڑ دیا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے لگے اور ان

۲۳۹

 کے سخت مخالف بن گئے۔ یہاں تک محاصرہ کے زمانہ میں خلیفہ کے پاس  پانی بھیجنے کو منع  کردیا تھا۔

ابنِ ابی الحدید کہتے ہیں کہ عثمان نے محاصرہ  کے زمانہ میں کہا تھا:

خدا طلحہ کو غارت کرے میں نے اسے اتنا سونا چاندی دی اور وہ میرے خون کا پیاسا ہے  اور لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے، پروردگارا وہ اس (  مال) سے فائدہ نہ اٹھانے پائے اور اسے اس کی بغاوت کا مزہ چکھادے۔

جی ہاں یہ وہی طلحہ ہے جو عثمان کی طرف جھک گیا تھا اور اس لئے انھیں خلیفہ بنا دیا تھا تاکہ علی(ع)  خلیفہ نہ بن سکیں۔ چنانچہ عثمان نے بھی انھیں سونے چاندی سے مالا مال کیا آج وہی لوگوں کو عثمان سے بدظن کررہے ہیں  اور ان کے قتل پر اکسا رہے ہیں۔ اور ان کے پاس جانے سے منع کررہے ہیں  اور جب دفن کے لئے ان کا جنازہ لایا گیا تو انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے منع کیا۔ پس  حشِ کو کب " یہودیوں کے قبرستان " میں دفن کیا گیا۔( تاریخ طبری، مدائنی ، واقدی نے مقتلِ عثمان میں لکھا ہے۔)

قتلِ عثمان کے بعد ہم طلحہ  کو سب سے پہلے علی(ع) کی بیعت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر وہ بیعت توڑ دیتے ہیںاور مکہ میں مقیم اپنی چچازاد  بہن عائشہ سے جاملتے ہیں اور اچانک عثمان کے خون کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، سبحان اللہ، کیا اس  سے بڑھ کر بھی کوئی بہتان ہے؟!

بعض مؤرخین نے اسکی یہ علت  بیان کی ہے کہ علی(ع) نے انھیں کوفہ کا گورنر بنانے سے انکار کردیا  تھا اس لئے انھوں نے بیعت توڑی تھی اور اس امام سے جنگ کیلئے  نکل  پڑے تھے جس کی کل بیعت کرچکے تھے۔

یہ اس شخص کی حالت ہے جو کہ سر سے پیروں تک دنیوی خواہشات میں غرق ہوچکا ہے اور آخرت کو بیچ چکا ہے اور اس کی تمام کوششیں جاہ و منصب کے لئے ہوتی تھیں ۔ طہ حسین کہتے ہیں۔ طلحہ کی جنگ خاص نوعیت کی حامل ہے۔ جب تک ان کو ان کی مرضی کے مطابق دولت و عہدہ ملتا رہا خوش رہے جب اور طمع بڑھ گئی تو جنگ کے لئے تیار ہوگئے ۔ یہاں تک کہ خود بھی

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346