معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 149687
ڈاؤنلوڈ: 5598

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149687 / ڈاؤنلوڈ: 5598
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

 اموی حکومت نے سرکاری طور پر اپنے متقدمین کی سنت اور ان کے نقش قدم پر چلی۔ اہل کتاب نے بھی ان سے ایک قدم آگے بڑھایا جو ان کے باہمی تخریبی مقاصد میں سے تھا۔وہ جبری گری کے خلاف واقعات کی طرف تیزی سے بڑے اور انہوں نے امت کو جدید فکری خوراک فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مکمل طور پر دو متضاد موضوعات سے مربوط رکھا جائے جس سے وہ حیرت و سرگردانی میں دچار رہیں اور انہیں حقیقت (جو ان کے لئے ایک فطری نظام ہے) کی طرف قطعاً نہ آنے دیاجائے۔ قدری افکار کا اصل تفکر یہ تھا کہ انسان کے تمام اعمال و افعال اس کے ارادہ کا نتیجہ ہیں جو مکمل  طور پر خداکے ارادے سے مستقل ہے۔(1) یہ عقائد مکمل طور پر جبری گری سے متعارض تھے حالانکہ جبریوں کا یہ خیال تھا کہ انسان پتھر یا کنکر کی طرح حوادث کی تند و تیز آندھیوں کا اسیر ہے اور اسے خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کو حاکموں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ان کا یہ دعویٰ تھا کہ تقدیر الٰہی ابتداء ہی سے ان کے لئے مقدر کر دی گئی ہے تا کہ وہ طاغوت کے محکوم ہی رہیں۔ بقول شاعر:''قلم قضا جس پر چلنا تھا چل گیا ۔پس تمہاری طرف سے حرکت و سکون یکساں ہیں اور رزق و روزی کے حصول کے لئے تمہاری کوششیں ایک جنون ہے حالانکہ جنین کو رحم میں بھی روزی فراہم کی جاتی ہے۔(2) ٹھیک اسی زمانے میں کہ جب جبریوں نے ایسے افکار کی ترویج کی تو قدریوں نے بھی ان کے خط مقابل میں حرکت کی اور ان ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو ان مسائل میں الجھا دیں۔ جھگڑوں کی آگ شعلہ ور کردیں اور ہر حال میں اس کا فائدہ اہل کتاب کو ہی پہنچ رہا تھا۔ جس نے سب سے پہلے قدرکا تذکرہ کیا اور اس تفکر کابیج بویا ،اس کے بارے میں شیخ ابوزہرہ کہتے ہیں:جس نے سب سے پہلے قدر کے بارے میں بات کی ،وہ عراق کا ایک شخص تھا جو پہلے عیسائی تھااور پھر مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ عیسائی ہو گیا

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:111،  تاریخ الفرق الاسلامیّہ:79

[2]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:81

۱۴۱

معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے بھی یہ افکار اسی سے ہی سیکھے تھے۔(1)

 ان افکار سے جو کچھ امویوں کے سیاسی منصوبوں ،ان کی خلافت اور خدا کے اسماء و صفات کے بارے میں سازگار تھا،وہ انہوں نے اخذکیا اور پھر ان افکار کے پیروکاروں کو کچلنے میں لگ گئے ۔ ان واقعات میں کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ لوگ بھاگ گئے ؛لیکن پھر بھی یہ مکتب ختم نہیں ہوا ۔ اس کے بعد بصرہ میں بہت سے فرقے باقی بچے اور پھیلے لیکن کچھ کے مطابق یہ فرقے ثنوی تفکرات اور دو قدرت(نور و ظلمت) کے عقائد میں تبدیل ہو گئے۔(2)(3)

 گذشتہ واقعات سے واضح ہو جاتاہے کہ صرف عقیدتی و فکری اختلافات لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے ،انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے اور اموی حکومت کی بقاء کا باعث ہی نہیں بنے بلکہ انہیں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے لوگ قتل بھی ہوئے۔

 ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہونا اور ان کے درمیان جنگ وجدال کی آگ بھڑکانا یہودیوں کا درینہ ہدف اور عیسائیوں کی بھیہمیشہ سے یہی خواہش تھی۔

 اگر رسول خدا(ص) کے زمانے میں دین کے دشمن مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے تو پہلے ان کی اپنی فوج کے سپاہی بھی مرتے تھے اور بعد میں وہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے لیکن بنی امیہ کے زمانے میں لشکر کشی اور ان کے سپاہیوں کے قتل ہوئے بغیر ہی انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا اور خود ایک طرف بیٹھ کر مسلمانوں کے قتل و غارت کا تماشا دیکھتے رہے۔

 یہود و نصاریٰ کچھ ایسے منصوبے بناتے تھے جن کی وجہ سے مسلمان تفرقہ کے شکار ہو کر ایک دوسرے ہی کو قتل کریں اور یہودو نصاریٰ کے اس گھنونے منصوبے کو اموی عملی جامہ پہنا رہے تھے۔

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:112 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:40

[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:117

[3]۔ از ژرفای فتنہ ھا: ج۲ص۴۷۲

۱۴۲

 اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.....

جیسا کہ ہم نے کہا کہ جہمیہ وغیرہ کے افکار کی ترویج،بنی امیہ کی حکومت کو جاری رکھنے،اسلام کے عقیدے سے لوٹنے اور کفر میں دلچسپی پیدا کرنے میں یہودیت و عیسائیت کا بہت اہم کردار تھا۔

 بنی امیہ نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں اور افکار کو نافذ کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ گمراہ کن افکار کو ترویج دینے کے علاوہ لوگوں کو ان مسائل کی طرف کھینچنے کے لئے عقلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا۔

 سب سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام انجام دیا جس نے''مریانوس'' نام کے ایک عیسائی کی مدد سے عقلی علوم کو عربی ممالک میں داخل کیا ۔ اگرچہ بنی امیہ کے زمانے میں یہ کام کچھ زیادہ  رواج نہیں پایا تھا لیکن بنی العباس اور بالخصوص مأمون نے اس کی بہت ترویج کی ۔

 ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:عقلی علوم اموی دورمیں رائج تھے ۔ فقط کچھ لوگ کیمیا میں مصروف تھے اور بعید نہیں کہ انہوں نے یہ یونانیوں سے سیکھا ہو جنہیں دوہزار سال پہلے اس کا علم تھا۔

 یہ نہیں کہہ سکتے کہ عربوں نے مشرق پر اسکندر کے حملے کے بعد یونانیوں سے طب سیکھی کیونکہ اموی زمانے تک عربوں کو طبی علوم کی کوئی خبر نہیں تھی اور خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے طب، نجوم اور کیمیا عرب ممالک میں منتقل کیا۔

کیمیا کی صنعت مدرسۂ اسکندریہ میں رائج تھی اس لئے خالد نے ''مریانوس ''مسیحی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے تقاضا کیا کہ وہ اسے طب اور کیمیا کی تعلیم دے۔جب اس نے یہ تعلیم حاصل کر لی تو اس نے حکم دیا کہ اس سے مربوط یونانی اور قبطی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔یہ دوسروں کے علوم کوعربی میں منتقل کرنے کے لئے عربوں کا پہلا اقدام تھا۔

خالد کو علم نجوم میں بھی دلچسپی تھی اور وہ یہ علم حاصل کرنے اور اس کے وسائل کی فراہمی کے لئے حد سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا ۔ شاید نجوم کی کتابوں میں اس کے لئے کوئی ترجمہ کیا گیا ہو لیکن ہم تک اس  کی کوئی خبر نہیں پہنچی۔

۱۴۳

 جاحظ نے کتاب ''البیان والتبیین'' میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ فصیح و بلیغ خطیب، شاعر اور ادیبوں کی آراء کو پسند کرتا تھا ۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے نجوم، طب اور کیمیا کو عربی میں ترجمہ کیالیکن عرب عباسی زمانے کے آغاز اور خاص طور پر مأمون کے زمانے میں تجربی علوم جیسے طب، کیمیا، ہیئت اور تاریخ وغیرہ میں مشغول ہوئے۔

 اس زمانے میں فارسی، یونانی اور ہندی سے بہت سی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور وہ عربوں درمیان رائج ہوئیں۔(1)

خارجی کتابوں کا ترجمہ

     بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ  مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔

 لیکن ظاہراً خارجی  کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔ کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں: جاحط نے ''البیان و التبیین''(2) میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔ ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''(3) میں  لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد      85ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام (ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن): ج1ص490

[2]۔ البیان والتبیین: ج1ص126

[3]۔ شرح نہج البلاغہ: ج3ص476

۱۴۴

صلاح الدین صفدی سے نقل ہوا ہے کہ ترجمہ کا آغاز کرنے والا مأمون نہیں تھا بلکہ اس سے بہت پہلے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ''کلیلہ و دمنہ''کو فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے لئےیونانی کتابوں''مجسطی''کا ترجمہ کیا گیا۔

 نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ  وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔

کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔

 ''کشف الظنون''(1) میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔

 سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں  ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔

 ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھرخالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا۔(2)

 قفطی کی کتاب''اخبار الحکماء''میں ذکر ہواہے کہ ابن السندی نے قاہرہ کے کتابخانہ میں  تانبے کا ایک  سکّہ دیکھا جس پر امیر خالد بن یزید کا نام لکھا ہوا تھا۔

--------------

[1]۔ کشف الظنون: ج1ص477

[2]۔ الفہرست:242 اور 244

۱۴۵

 اس طرح ابن خلدون کا وہ نظریہ ردّ ہو جاتا ہے کہ جس میں اس نے خالد کو بدویّت سے نزدیک اور علوم و صناعات اور بالخصوص کیمیا(جس کے لئے طبایع سے آشنائی ضروری ہے)سے دور قرار دیا تھا۔

 ابن الندیم (جو ابن خلدون کی بنسبت خالد کے زمانے سے نزدیک ہے)کاکہنا ہے کہ خالد کے زمانے میں کیمیا رائج تھا۔

 کتاب''تاریخ آداب اللغة العربیة''(1) میں ذکر ہواہے کہ مروان کے زمانے میں 'ماسرجویہ'' کے نام سے ایک طبیب (جس کا تعلق سریانی یہودی مذہب سے تھااور جو بصرہ میں رہتا تھا)نے ایک پادری امرون بن اعین کی لکھی ہوئی کتاب''کُناش''کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنا تو اسے وہ کتاب خزانے میں ملی۔کچھ لوگوں نے اس کی تشویق کی کہ اسے باہر نکالا جائے تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کریں ۔عمر بن عبدالعزیز نے وہ کتاب باہر لانے اور اسے لوگوں کے اختیار میں دینے کے لئے چالیس دن تک استخارہ کیا۔

کتاب''شفاء الغلیل''میں  ذکرہوا ہے کہ ''کُناش''(غُراب کے وزن پر)ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی تذکرہ کا مجموعہ ہے۔حکماء کی کتابوں میں یہ کلمہ بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔(2)

 یہ ظاہر سی بات ہے کہ کہ مریانس رومی اور اسطفار رومی (جن کے خالد بن یزید سے تعلقات تھے)جیسے عیسائیوں کے افکار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے افکار پر اثرانداز ہوتے ہوں گے ۔ بالخصوص خالد بن یزید پر کہ جو یزید کا بیٹا اور میسون مسیحی کا نواسہ تھا۔ اگرچہ خالد بن یزیدغاصبانہ خلافت پر تخت نشین نہیں ہوا تھا  لیکن اس کے بعد مروان اور کچھ دوسرے اور ان کے بعد بنی العباس جیسے منصور و مأمون (جو خلافت کے دعویدار تھے) نے اسی راہ کو جاری رکھا ۔اس کام سے حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے ذہنوں میں اہم سوال جنم لیتا ہے۔

--------------

[1]۔ تاریخ آداب اللغة العربیة: ج1ص233

[2]۔ نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام:333

۱۴۶

 وہ سوال یہ ہے:اگر خلافت کے دعویدار اور خود کو رسول خدا(ص) کا جانشین اور خدا کا خلیفہ سمجھنے والے ان جیسے افراد کا دعویٰ جھوٹا تھا تو مسلمان ان کا احترام کیوں کریں ؟انہیں خدا کا خلیفہ کیوں سمجھیں ؟ اور اگر یہ خدا کے خلیفہ تھے تو انہیں دوسروں پر کوئی امتیاز اور فوقیت کیوں نہیں تھی؟یہاں تک کہ حصول علم کے لئے بھی انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟

  مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

زمانۂ قدیم سے سیاستدان اپنی حکومت کی بقاء کے لئے لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرتے چلے آئے ہیں اور اپنے منصوبوں کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بناتے آئے ہیں تا کہ وہ سیاسی مسائل سے دور رہیں اور ان کی غفلت کی وجہ سے سیاستدان لوگوں پر حکومت کر سکیں۔

جیسا کہ ہم نے دوسرے مورد بھی کہا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی بناء پریہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر فرعون نے اپنی حکومت کوبچانے کے لئے عمل کیا اور اس کے بعد ہر دور کا فرعون بھی اسی پر عمل پیرا رہااور وہ پس پردہ اپنے ہی ایجاد کئے ہوئے اختلافات کے ذریعہ لوگوں پرحکومت کرتے رہے۔

 پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس خائنانہ منصوبے کے برخلاف لوگوں کو اختلافات اور تفرقہ بازی سے باز رکھا اور قرآن و عترت کو محور قرارد ے کر لوگوں کو ایک صحیح عقیدے کی طرف دعوت دی۔

 لیکن بنی امیہ نے قرآن و عترت کی محوریت کو ختم کرنے کے لئے تفرقہ پیدا کیا تا کہ آسانی سے  لوگوں پر حکومت کر سکیں ۔

 اسی وجہ سے ان کی حکومت کے دوران مختلف مذہبی فرقے وجود میں آئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑائی جھگڑے میں مشغول ہو گیااور لوگ حکومتی مسائل سے غافل ہو گئے۔

۱۴۷

  2- پیشنگوئیوں کوچھپانا

دنیا کے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے رونے کے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک اور بنیادی حربہ پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

 اس راہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اپنا اپنا حصہ تھا اور مختلف منصوبوں کے ذریعے یہ بنیادی اور مؤثر پروگرام انجام دے رہے تھے۔انہوں نے جو پروگرام انجام دیئے ان کے ذریعہ انہوں نے بہت سے خاندانوں کو تاریکی و ظلمت کے اندھیرے میں رکھا اور انہیں نور و روشنی سے دور رکھا۔اس صورت میں اگر تورات و انجیل کی پیشنگوئیاں عام لوگوں کے اختیار میں ہوتیں تو دنیا والوں کے عقائد کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔

اس بحث میں ہم صرف رسول اکرم(ص) کے بارے میں تورات کی ان پیشنگوئیوں کے کچھ نمونے بیان کریں گے جنہیں یہودیوں نے مخفی رکھا اور پھر حقائق کو چھپانے کے سلسلے میں بہت ہی اہم واقعہ ذکر کریں گے جس میں کلیسا اور عیسائیتنے عیسائیوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے کے لئے اقدامات کئے۔

  الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

 یہودیوں کے شیطانی حربوں میں سے ایک (جسے وہ رسول اکرم(ص) کی رسالت کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ ظہور اسلام اورآنحضرت کی ولادت سے پہلے سے انجام دے رہے تھے)لوگوں کو ظہور اسلام اور نبی مکرّم اسلام(ص) کی نبوت کے بارے میں سوچنے سے بھی دور رکھنا تھا۔ یہودی علماء نے ظہور اسلام کی نشانیوں اور آنحضرت کی الٰہی حکومت کے ظہور کو لوگوں سے چھپایا اور انہیں آنحضرت کی طرف آنے سے روکا تا کہ اس طرح وہ لوگوں پر حکمرانی کر سکیں اور ان کے جہل و نادانی سے سوء استفادہ کر سکیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت اور آنحضرت کی بعثت کے بعد یہودی بزرگوں نے اسی طرح سے ہی اپنی دھوکا دہی کو جاری رکھا اور بے شمار افراد کو آئین اسلام سے دور رکھا۔

۱۴۸

 ان کی مکاریاں،دھوکے اور گھنونے منصوبے بہت ہی وسیع پیمانے پر تھے ۔جس کے جاہل اور بے خبر لوگوں پربہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

 ان کا ایک مکارانہ منصوبہ ایسی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ یہودی علماء نے  تورات میں تحریف کرکے اسلام اور رسول اکرم(ص) کی نبوت ورسالت کے بارے میں بہت ہی واضح و آشکار پیشنگوئیوں کو چھپایا اور انہیں لوگوں کی دسترس سے دور رکھاتا کہ وہ اسی طرح اپنے باطل راستے پر گامزن رہیں اور آئیں اسلام کی طرف مائل ہونے سے دور رہیں۔ اب ہم جو واقعہ نقل کر رہے ہیں وہ یہودی علماء کی انہی مکاریوں کا بہترین نمونہ ہے۔

 مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

 میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

 وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

 اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

 میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

 تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں ۔ اس نے کہا:

۱۴۹

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا اور اسے تالا لگا رہتا تھا۔بزرگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اوربالخصوص نو جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

 اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ''الانسان حریص علی ما منع'' یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

 ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

 اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی

۱۵۰

کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔ میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

 ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم  نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

 جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوںنے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی چھین لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

 لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

۱۵۱

 بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

 اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:سرآنکھوں پر؛چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

 انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں  نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر  انہوں ے پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

 انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

 میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

 بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

 ہم نے کہا:ایسا نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔ جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔ اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۵۲

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروان سرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

 اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میںآئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

 ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں ۔ ہماری اس کے علاوہ اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

 اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے  کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

 قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

 میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

 قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

 میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

۱۵۳

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میںنے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

 اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر  پر سفیدرنگ کا عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوںنے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

 انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

 میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میںنے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں  نے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

 انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

 انہوں  نے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

 انہوں  ے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

۱۵۴

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔ میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

 انہوں نے اپنے مغرب کیجانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین  روانہ ہو جاؤ  اور پھر فرمایا: تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔

 میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟ کیونکہ گفتگو کے دوران  میںنے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔ مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟

 میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیں  ہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی ہے؟....(1)

--------------

[1] ۔ معجزات و کرامات ائمہ اطہار علیہم السلام:175 ، مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی سے منقول، کامیابی کے اسرار:ج۲ ص۱۱6

۱۵۵

اگر یہودی علماء (جو مکتب وحی کے سب سے بڑے دشمن تھے اور ہیں) ایسے حقائق کو نہ چھپاتے اور ان کے دولتمند حضرات نور الٰہی کو بجھانے کی کوششیں نہ کرتے تو یہ حقائق کے واضح و آشکار ہوجاتے جنہیں دیکھ کر بہت سے لوگ آئین اسلام کی طرف آجاتے اور اپنے تحریف شدہ دین سے دستبردار  ہوجاتے ۔لیکن افسوس!کہ وہ لوگ نہ صرگ لوگوں کو حق پرستی کی طرف آنے کی راہ میں حائل تھے بلکہ( جیسا کہ ذکر کریں گے) انہوں نے انہیں آخرت کی دنیااور قیامت کا منکر بنا ڈالا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنے پوشیدہ ہاتھوں کو ہر قسم کی خباثت سے آلودہ کیا اوراب آلودہ کر رہے ہیں۔

ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

     یہودیوںکی طرح عیسائیوں نے بھی اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے پیشنگوئیوں کو چھپانے کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔انہوں نے اس راہ میں کوششیں کیں اور اسی راہ کوجاری رکھا۔

     عیسائیوں نے بھی یہودیوں کی طرح نہ صرف پیشنگوئیوں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا بلکہ انہوں نے اسلام کی نشر و اشاعت کا باعث بننے والے اہم ترین حقائق کو چھپایا اور اب بھی چھپا رہے ہیں۔

     ایک بہت ہی اہم واقعہ(جس کا کلیسا اور عیسائیت کی شکست میں بڑا کلیدی کردار ہے)جو عیسائیوں کو اسلام کی طرف راغب کر سکتا ہے ،وہ انگلینڈ کے صاحب اقتدار بادشاہ کا اسلام قبول  کرنا ہے۔

     یہ واضح سی بات ہے کہ اپنی قوم میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بادشاہ کا مسلمان ہونا ان کے مذہبی عقائد پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتاہے۔

     عیسائیوں نے برطانیہ  کے عیسائیوں کو اسی طرح کلیسا کا پیروکار رکھنے کے لئے وہاں کے بادشاہ کے مسلمان ہونے کی خبر کو چھپایا کیونکہ بادشاہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ مستقبل میں عیسائیوں کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔اس لئے انہوں نے یہ اہم واقعہ اپنی کتابوں میں ذکر ہی نہیں کیا۔

     اس واقعے سے آگاہ ہونے کے لئے اب ہم اسے بیان کرتے ہیں:

۱۵۶

  برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

 برطانوی بادشاہ''اوفا''(OFFA)

 تاریخ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ گذشتہ صدی میں برطانوی بادشاہ ''اوفا''کا نام سامنے آیا کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا ۔لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آئی۔

''اوفا''کون تھا؟

 اس نے کب حکومت کی؟

 اس نے کیوں اسلام قبول کیا؟

 اس کے مسلمان ہونے کی خبر کو کیوں چھپایا گیا؟

 مذکورہ سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے  برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائیکلوپیڈیا (لاروس) کی طرف رجوع کریں۔ان دونوں انسائیکلوپیڈیا میں ''اوفا''(OFFA)کے بارے میں یوں ذکر ہواہے:

 اوفا''انگلوساکسونی ''(Anglo-Saxon) بادشاہ تھاجس نے انتالیس سال  (757 ء سے 796ء )تک برطانیہ پر حکومت کی۔اس زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔

 پہلے وہ مارسیا(Mercia)یا وسطی برطانیہ(Middle England) کا بادشاہ تھا ۔یہ مملکت سات ملکوں کا حصہ تھی۔اس بادشاہ نے چھوٹے ملکوں جیسے Saxons,W اور Welshکو فتح کرکے اپنے ملک کو وسعت دی۔

 اس نے اپنی بیٹیوں کی شادیWessexاورNorthrmbiaکے حکمرانوں سے کی اور یوں اس نے اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو مزید پھیلایاکہ جس میں  برطانیہ کے تمام حصے شامل تھے۔ اس نے فرانس کے بادشاہ''شارلمان''اور پاپ ''اندریان اوّل''سے معاہدہ بھی کیا۔ اس کے زمانے کے باقی بچنے والے آثار میں سے دیوار اور ڈیمہے جو مارسیا (Mercia) اور ولش(Welsh)کے درمیان بنایا گیاور جو اب تک ''دیوار اوفا''OFFA DYKE''کے نام سے مشہور ہے۔

۱۵۷

یہاں تک تو ایک عام مسئلہ تھا لیکن 1841ئ(1227) میں مؤرخین کے لئے ایک سوال پیدا ہوا ۔ اس سال سونے کا ایک سکہ ملاجو اس طاقتور بادشاہ کے زمانے کا تھا۔اس سکے پر کون سی ایسی چیز تھی کہ جس نے سب کو حیران کر دیا۔یہ سکہ اب بھی برطانیہ کے عجائب گھر میں قدیم سکّوں کے حصہ میں موجود ہے۔حیران کن چیز یہ تھی کہ اس سکے کے دونوں طرف کلمہ شہادت''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، و اشهد أن محمّداً رسول اللّٰه''اور عربی زبان میں قرآن کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔

 یہ تو تھا اس سکہ کا واقعہ:

 سکہ کے ایک طرف عربی زبان میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے:''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، وحده لا شریک له ''اور سکہ کے حاشیہ میں'' محمّد رسول اللّٰه''اور پھر'' أَرْسَلَهُ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ'' (1) لکھا ہوا تھا اور درمیان میں انگلش میں یہ جملہ ''OFFA-REK''( یعنی بادشاہ اوفا )نقش تھا۔حاشیہ میں عربی میں یوںلکھا ہوا تھا:''بسم اللہ،یہ دینار 157 میں بنایا گیا۔

 ''اوفا''بادشاہ کے دستخط سے یہ تشخیص دی جاسکتی ہے کہ یہ سکہ  757ء سے 796 ء کے درمیان بنایا گیا کہ جب ''انگلوساکسونی''پر ''اوفا''حکومت کر رہا تھا۔   157ھ وہی 774ء بنتا ہے۔ اس بارے میں بہت سے تقریریں کی گئیں اور دسیوں مقالے لکھے گئے ،ہم اس موضوع کے بارے میںمؤرخین کے فرضیات اور تھیوریوں کو یوں خلاصہ کر سکتے ہیں:

 پہلا فرضیہ:''اوفا''بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔

 دوسرا فرضیہ:اس نے مفہوم و معنی کو سمجھے بغیرخوبصورتی کے لئے عربی کے ان کلمات اور آیت سے استفادہ کیا۔

 تیسرا فرضیہ:اس نے یہ سکہ اپنے ملک کے حجاج (جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں)کی مدد کے لئے بنوایاتا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور ان کے لئے سفر کی سختی آسان ہو جائے ۔گویااس کا یہ کام ایک سیاسی پہلو رکھتا تھا۔

--------------

[1] ۔ سورۂ توبہ ، آیت:33( ه ُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُوْلَ ه ُ  بِالْ ه ُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْ ه ِرَ ه ُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّ ه ِ)

۱۵۸

 چوتھا فرضیہ:اس نے 787ء میں پاپ ''اندریان''سے معاہدہ کیا کہ بادشاہ سالانہ مالیات ادا کرے اور ممکن ہے کہ یہ سکہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔

 محققین میں سے ایک کا کہنا ہے:یہ واضح ہے کہ آخری تین فرضیہ منطق اور انسانی عقل سے سازگار نہیں ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی بادشاہ خوبصورتی کے لئے سکہ پر کوئی جملے لکھے کہ اسے جس کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔جب کہ یہ جملات ''شہادت ''ہیں کہ جن میں اسلام کے عقائد کا خلاصہ کیا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ کے کچھ بادشاہوں پر اسلامی تمدن اثرانداز ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں اپنا نام سکوں پر چھپوایاتھا۔

 ان میں سے ایک''الفانسو ہشتم ،فاسیلی دیمتریش'' اور کچھ ''نورمان''حکمرانوں میں سے تھے کہ جن میں ''ویلیم راجر''شامل ہے ۔حتی کہ سلطنت جرمنی کے حاکم''ہنری چہارم''نے عثمانی خلیفہ'' المقتدرباللہ''کا نام اپنے ملک کے سکہ پر نقش کروایا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ''اوفا''کی طرح کلمۂ توحید سکہ پر نقش نہیں کیا تھا۔

 تیسرے فرضیہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرضیہ بہت مبہم ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاپ بادشاہ ''اوفا''سے یہ تقاضا کرے کہ سکہ پر کلمۂ شہادتین نقش کروائے اور اسے مالیات کے طور پر ادا کرے؟

 کیا اس میں کوئی منطق نظر آتا ہے؟کیا یہ ناممکن نہیں ہے ؛جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاپ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے۔لہذا یہ فطری امر ہے کہ وہ سکہ پر دشمن کا شعار و عقیدہ دیکھ کر اس کی مخالفت کرے گا۔چاہے سکہ پر یہ خوبصورتی کے لئے ہی نقش کئے گئے ہوں۔

 چوتھے فرضیہ  کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمزور فرضیہ ہے ۔یہ ماننا مشکل ہے کہ بادشاہ ''اوفا''نے یہ سکہ اس لئے بنوایا تھا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کے لئے جانے والے اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر ے ۔ کیونکہ اس زمانے میںجو عیسائی مقدس شہروں کو دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور اسلامی ملکوں میں ان کی رفت و آمد تھی۔

۱۵۹

 شاید یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت سکہ نہ بنا سکتی ہو لہذا اس نے اپنا سکہ کسی عربی ملک سے بنوایا ہو۔ لیکن یہ احتمال ضعیف ہے اور یہ وار نہیں ہوتا۔

کیونکہ برٹش انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے نوادرات میں سے نئی طرز کے کچھ سکے ہیں کہ جن پر بادشاہ اور سکہ بنانے والے کا نام نقش ہوا ہے۔کئی صدیوں تک انہیں سکوں سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ جن پر بادشاہ ''اوفا''اور اس کی بیوی ملکہ کانثریز(Cynethyth)کی تصویر بنی ہوئی تھی۔انگلینڈ میں سکہ بنانے کا نظام متعدد زمانوں میں رائج تھا۔

 ممکن ہے کہ اس بادشاہ کے زمانے میں رائج سکوں کے کچھ اور نمونے برٹش انسائیکلوپیڈیا میں سکّوں (Coins) یا بادشاہ کے حالات زندگی کی بحث میں مل سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ احتمال انتہائی ضعیف ہے کہ بادشاہ اپنے ملک میں سکّہ نہیں بنا سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ''اوفا''بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی اور ان سکّوں کے علاوہ کوئی اور مدرک بھی موجود نہیں ہے۔ہمارے پاس اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کے بارے میں معلومات کیوں نہیں ہیں؟مؤرخین اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہبرطانیہ کے کلیسانے اس بادشاہ  کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں تمام مدارک مٹا  دیئے تھے!کیا صرف یہ بادشاہ ہی مسلمان ہوا تھا یا اس کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار بھی مسلمان ہوئے تھے؟ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔ ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس کی زیارت  کے وقت کچھ مسلمانوں اور ان کے علماء سے ملاقات کی ہو اور اس دوران اسلام قبول کرکے  اسلام کا معتقد ہوا ہو۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائی کلوپیڈیا (لاروس)نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ نہیں کیابلکہ اسے کلی طور پر ان دیکھا کر دیا ہے۔اس سے کچھ لوگوں کے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ ان انسائیکلوپیڈیا میں علمی غیرجانبداری کا  لحاظ نہیں کیاگیا۔(1)

--------------

[1]۔ اسلام و غرب:22

۱۶۰