معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168100 / ڈاؤنلوڈ: 7630
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

 اموی حکومت نے سرکاری طور پر اپنے متقدمین کی سنت اور ان کے نقش قدم پر چلی۔ اہل کتاب نے بھی ان سے ایک قدم آگے بڑھایا جو ان کے باہمی تخریبی مقاصد میں سے تھا۔وہ جبری گری کے خلاف واقعات کی طرف تیزی سے بڑے اور انہوں نے امت کو جدید فکری خوراک فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مکمل طور پر دو متضاد موضوعات سے مربوط رکھا جائے جس سے وہ حیرت و سرگردانی میں دچار رہیں اور انہیں حقیقت (جو ان کے لئے ایک فطری نظام ہے) کی طرف قطعاً نہ آنے دیاجائے۔ قدری افکار کا اصل تفکر یہ تھا کہ انسان کے تمام اعمال و افعال اس کے ارادہ کا نتیجہ ہیں جو مکمل  طور پر خداکے ارادے سے مستقل ہے۔(۱) یہ عقائد مکمل طور پر جبری گری سے متعارض تھے حالانکہ جبریوں کا یہ خیال تھا کہ انسان پتھر یا کنکر کی طرح حوادث کی تند و تیز آندھیوں کا اسیر ہے اور اسے خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کو حاکموں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ان کا یہ دعویٰ تھا کہ تقدیر الٰہی ابتداء ہی سے ان کے لئے مقدر کر دی گئی ہے تا کہ وہ طاغوت کے محکوم ہی رہیں۔ بقول شاعر:''قلم قضا جس پر چلنا تھا چل گیا ۔پس تمہاری طرف سے حرکت و سکون یکساں ہیں اور رزق و روزی کے حصول کے لئے تمہاری کوششیں ایک جنون ہے حالانکہ جنین کو رحم میں بھی روزی فراہم کی جاتی ہے۔(۲) ٹھیک اسی زمانے میں کہ جب جبریوں نے ایسے افکار کی ترویج کی تو قدریوں نے بھی ان کے خط مقابل میں حرکت کی اور ان ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو ان مسائل میں الجھا دیں۔ جھگڑوں کی آگ شعلہ ور کردیں اور ہر حال میں اس کا فائدہ اہل کتاب کو ہی پہنچ رہا تھا۔ جس نے سب سے پہلے قدرکا تذکرہ کیا اور اس تفکر کابیج بویا ،اس کے بارے میں شیخ ابوزہرہ کہتے ہیں:جس نے سب سے پہلے قدر کے بارے میں بات کی ،وہ عراق کا ایک شخص تھا جو پہلے عیسائی تھااور پھر مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ عیسائی ہو گیا

--------------

[۱]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۱،  تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۷۹

[۲]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۸۱

۱۴۱

معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے بھی یہ افکار اسی سے ہی سیکھے تھے۔(۱)

 ان افکار سے جو کچھ امویوں کے سیاسی منصوبوں ،ان کی خلافت اور خدا کے اسماء و صفات کے بارے میں سازگار تھا،وہ انہوں نے اخذکیا اور پھر ان افکار کے پیروکاروں کو کچلنے میں لگ گئے ۔ ان واقعات میں کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ لوگ بھاگ گئے ؛لیکن پھر بھی یہ مکتب ختم نہیں ہوا ۔ اس کے بعد بصرہ میں بہت سے فرقے باقی بچے اور پھیلے لیکن کچھ کے مطابق یہ فرقے ثنوی تفکرات اور دو قدرت(نور و ظلمت) کے عقائد میں تبدیل ہو گئے۔(۲)(۳)

 گذشتہ واقعات سے واضح ہو جاتاہے کہ صرف عقیدتی و فکری اختلافات لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے ،انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے اور اموی حکومت کی بقاء کا باعث ہی نہیں بنے بلکہ انہیں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے لوگ قتل بھی ہوئے۔

 ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہونا اور ان کے درمیان جنگ وجدال کی آگ بھڑکانا یہودیوں کا درینہ ہدف اور عیسائیوں کی بھیہمیشہ سے یہی خواہش تھی۔

 اگر رسول خدا(ص) کے زمانے میں دین کے دشمن مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے تو پہلے ان کی اپنی فوج کے سپاہی بھی مرتے تھے اور بعد میں وہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے لیکن بنی امیہ کے زمانے میں لشکر کشی اور ان کے سپاہیوں کے قتل ہوئے بغیر ہی انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا اور خود ایک طرف بیٹھ کر مسلمانوں کے قتل و غارت کا تماشا دیکھتے رہے۔

 یہود و نصاریٰ کچھ ایسے منصوبے بناتے تھے جن کی وجہ سے مسلمان تفرقہ کے شکار ہو کر ایک دوسرے ہی کو قتل کریں اور یہودو نصاریٰ کے اس گھنونے منصوبے کو اموی عملی جامہ پہنا رہے تھے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۲ ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:۴۰

[۲]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:۱۱۷

[۳]۔ از ژرفای فتنہ ھا: ج۲ص۴۷۲

۱۴۲

 اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.....

جیسا کہ ہم نے کہا کہ جہمیہ وغیرہ کے افکار کی ترویج،بنی امیہ کی حکومت کو جاری رکھنے،اسلام کے عقیدے سے لوٹنے اور کفر میں دلچسپی پیدا کرنے میں یہودیت و عیسائیت کا بہت اہم کردار تھا۔

 بنی امیہ نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں اور افکار کو نافذ کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ گمراہ کن افکار کو ترویج دینے کے علاوہ لوگوں کو ان مسائل کی طرف کھینچنے کے لئے عقلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا۔

 سب سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام انجام دیا جس نے''مریانوس'' نام کے ایک عیسائی کی مدد سے عقلی علوم کو عربی ممالک میں داخل کیا ۔ اگرچہ بنی امیہ کے زمانے میں یہ کام کچھ زیادہ  رواج نہیں پایا تھا لیکن بنی العباس اور بالخصوص مأمون نے اس کی بہت ترویج کی ۔

 ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:عقلی علوم اموی دورمیں رائج تھے ۔ فقط کچھ لوگ کیمیا میں مصروف تھے اور بعید نہیں کہ انہوں نے یہ یونانیوں سے سیکھا ہو جنہیں دوہزار سال پہلے اس کا علم تھا۔

 یہ نہیں کہہ سکتے کہ عربوں نے مشرق پر اسکندر کے حملے کے بعد یونانیوں سے طب سیکھی کیونکہ اموی زمانے تک عربوں کو طبی علوم کی کوئی خبر نہیں تھی اور خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے طب، نجوم اور کیمیا عرب ممالک میں منتقل کیا۔

کیمیا کی صنعت مدرسۂ اسکندریہ میں رائج تھی اس لئے خالد نے ''مریانوس ''مسیحی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے تقاضا کیا کہ وہ اسے طب اور کیمیا کی تعلیم دے۔جب اس نے یہ تعلیم حاصل کر لی تو اس نے حکم دیا کہ اس سے مربوط یونانی اور قبطی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔یہ دوسروں کے علوم کوعربی میں منتقل کرنے کے لئے عربوں کا پہلا اقدام تھا۔

خالد کو علم نجوم میں بھی دلچسپی تھی اور وہ یہ علم حاصل کرنے اور اس کے وسائل کی فراہمی کے لئے حد سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا ۔ شاید نجوم کی کتابوں میں اس کے لئے کوئی ترجمہ کیا گیا ہو لیکن ہم تک اس  کی کوئی خبر نہیں پہنچی۔

۱۴۳

 جاحظ نے کتاب ''البیان والتبیین'' میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ فصیح و بلیغ خطیب، شاعر اور ادیبوں کی آراء کو پسند کرتا تھا ۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے نجوم، طب اور کیمیا کو عربی میں ترجمہ کیالیکن عرب عباسی زمانے کے آغاز اور خاص طور پر مأمون کے زمانے میں تجربی علوم جیسے طب، کیمیا، ہیئت اور تاریخ وغیرہ میں مشغول ہوئے۔

 اس زمانے میں فارسی، یونانی اور ہندی سے بہت سی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور وہ عربوں درمیان رائج ہوئیں۔(۱)

خارجی کتابوں کا ترجمہ

     بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ  مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔

 لیکن ظاہراً خارجی  کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔ کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں: جاحط نے ''البیان و التبیین''(۲) میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔ ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''(۳) میں  لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد      ۸۵ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ سیاسی اسلام (ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۹۰

[۲]۔ البیان والتبیین: ج۱ص۱۲۶

[۳]۔ شرح نہج البلاغہ: ج۳ص۴۷۶

۱۴۴

صلاح الدین صفدی سے نقل ہوا ہے کہ ترجمہ کا آغاز کرنے والا مأمون نہیں تھا بلکہ اس سے بہت پہلے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ''کلیلہ و دمنہ''کو فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے لئےیونانی کتابوں''مجسطی''کا ترجمہ کیا گیا۔

 نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ  وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔

کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔

 ''کشف الظنون''(۱) میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔

 سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں  ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔

 ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھرخالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا۔(۲)

 قفطی کی کتاب''اخبار الحکماء''میں ذکر ہواہے کہ ابن السندی نے قاہرہ کے کتابخانہ میں  تانبے کا ایک  سکّہ دیکھا جس پر امیر خالد بن یزید کا نام لکھا ہوا تھا۔

--------------

[۱]۔ کشف الظنون: ج۱ص۴۷۷

[۲]۔ الفہرست:۲۴۲ اور ۲۴۴

۱۴۵

 اس طرح ابن خلدون کا وہ نظریہ ردّ ہو جاتا ہے کہ جس میں اس نے خالد کو بدویّت سے نزدیک اور علوم و صناعات اور بالخصوص کیمیا(جس کے لئے طبایع سے آشنائی ضروری ہے)سے دور قرار دیا تھا۔

 ابن الندیم (جو ابن خلدون کی بنسبت خالد کے زمانے سے نزدیک ہے)کاکہنا ہے کہ خالد کے زمانے میں کیمیا رائج تھا۔

 کتاب''تاریخ آداب اللغة العربیة''(۱) میں ذکر ہواہے کہ مروان کے زمانے میں 'ماسرجویہ'' کے نام سے ایک طبیب (جس کا تعلق سریانی یہودی مذہب سے تھااور جو بصرہ میں رہتا تھا)نے ایک پادری امرون بن اعین کی لکھی ہوئی کتاب''کُناش''کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنا تو اسے وہ کتاب خزانے میں ملی۔کچھ لوگوں نے اس کی تشویق کی کہ اسے باہر نکالا جائے تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کریں ۔عمر بن عبدالعزیز نے وہ کتاب باہر لانے اور اسے لوگوں کے اختیار میں دینے کے لئے چالیس دن تک استخارہ کیا۔

کتاب''شفاء الغلیل''میں  ذکرہوا ہے کہ ''کُناش''(غُراب کے وزن پر)ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی تذکرہ کا مجموعہ ہے۔حکماء کی کتابوں میں یہ کلمہ بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔(۲)

 یہ ظاہر سی بات ہے کہ کہ مریانس رومی اور اسطفار رومی (جن کے خالد بن یزید سے تعلقات تھے)جیسے عیسائیوں کے افکار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے افکار پر اثرانداز ہوتے ہوں گے ۔ بالخصوص خالد بن یزید پر کہ جو یزید کا بیٹا اور میسون مسیحی کا نواسہ تھا۔ اگرچہ خالد بن یزیدغاصبانہ خلافت پر تخت نشین نہیں ہوا تھا  لیکن اس کے بعد مروان اور کچھ دوسرے اور ان کے بعد بنی العباس جیسے منصور و مأمون (جو خلافت کے دعویدار تھے) نے اسی راہ کو جاری رکھا ۔اس کام سے حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے ذہنوں میں اہم سوال جنم لیتا ہے۔

--------------

[۱]۔ تاریخ آداب اللغة العربیة: ج۱ص۲۳۳

[۲]۔ نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام:۳۳۳

۱۴۶

 وہ سوال یہ ہے:اگر خلافت کے دعویدار اور خود کو رسول خدا(ص) کا جانشین اور خدا کا خلیفہ سمجھنے والے ان جیسے افراد کا دعویٰ جھوٹا تھا تو مسلمان ان کا احترام کیوں کریں ؟انہیں خدا کا خلیفہ کیوں سمجھیں ؟ اور اگر یہ خدا کے خلیفہ تھے تو انہیں دوسروں پر کوئی امتیاز اور فوقیت کیوں نہیں تھی؟یہاں تک کہ حصول علم کے لئے بھی انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟

  مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

زمانۂ قدیم سے سیاستدان اپنی حکومت کی بقاء کے لئے لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرتے چلے آئے ہیں اور اپنے منصوبوں کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بناتے آئے ہیں تا کہ وہ سیاسی مسائل سے دور رہیں اور ان کی غفلت کی وجہ سے سیاستدان لوگوں پر حکومت کر سکیں۔

جیسا کہ ہم نے دوسرے مورد بھی کہا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی بناء پریہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر فرعون نے اپنی حکومت کوبچانے کے لئے عمل کیا اور اس کے بعد ہر دور کا فرعون بھی اسی پر عمل پیرا رہااور وہ پس پردہ اپنے ہی ایجاد کئے ہوئے اختلافات کے ذریعہ لوگوں پرحکومت کرتے رہے۔

 پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس خائنانہ منصوبے کے برخلاف لوگوں کو اختلافات اور تفرقہ بازی سے باز رکھا اور قرآن و عترت کو محور قرارد ے کر لوگوں کو ایک صحیح عقیدے کی طرف دعوت دی۔

 لیکن بنی امیہ نے قرآن و عترت کی محوریت کو ختم کرنے کے لئے تفرقہ پیدا کیا تا کہ آسانی سے  لوگوں پر حکومت کر سکیں ۔

 اسی وجہ سے ان کی حکومت کے دوران مختلف مذہبی فرقے وجود میں آئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑائی جھگڑے میں مشغول ہو گیااور لوگ حکومتی مسائل سے غافل ہو گئے۔

۱۴۷

  ۲- پیشنگوئیوں کوچھپانا

دنیا کے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے رونے کے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک اور بنیادی حربہ پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

 اس راہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اپنا اپنا حصہ تھا اور مختلف منصوبوں کے ذریعے یہ بنیادی اور مؤثر پروگرام انجام دے رہے تھے۔انہوں نے جو پروگرام انجام دیئے ان کے ذریعہ انہوں نے بہت سے خاندانوں کو تاریکی و ظلمت کے اندھیرے میں رکھا اور انہیں نور و روشنی سے دور رکھا۔اس صورت میں اگر تورات و انجیل کی پیشنگوئیاں عام لوگوں کے اختیار میں ہوتیں تو دنیا والوں کے عقائد کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔

اس بحث میں ہم صرف رسول اکرم(ص) کے بارے میں تورات کی ان پیشنگوئیوں کے کچھ نمونے بیان کریں گے جنہیں یہودیوں نے مخفی رکھا اور پھر حقائق کو چھپانے کے سلسلے میں بہت ہی اہم واقعہ ذکر کریں گے جس میں کلیسا اور عیسائیتنے عیسائیوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے کے لئے اقدامات کئے۔

  الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

 یہودیوں کے شیطانی حربوں میں سے ایک (جسے وہ رسول اکرم(ص) کی رسالت کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ ظہور اسلام اورآنحضرت کی ولادت سے پہلے سے انجام دے رہے تھے)لوگوں کو ظہور اسلام اور نبی مکرّم اسلام(ص) کی نبوت کے بارے میں سوچنے سے بھی دور رکھنا تھا۔ یہودی علماء نے ظہور اسلام کی نشانیوں اور آنحضرت کی الٰہی حکومت کے ظہور کو لوگوں سے چھپایا اور انہیں آنحضرت کی طرف آنے سے روکا تا کہ اس طرح وہ لوگوں پر حکمرانی کر سکیں اور ان کے جہل و نادانی سے سوء استفادہ کر سکیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت اور آنحضرت کی بعثت کے بعد یہودی بزرگوں نے اسی طرح سے ہی اپنی دھوکا دہی کو جاری رکھا اور بے شمار افراد کو آئین اسلام سے دور رکھا۔

۱۴۸

 ان کی مکاریاں،دھوکے اور گھنونے منصوبے بہت ہی وسیع پیمانے پر تھے ۔جس کے جاہل اور بے خبر لوگوں پربہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

 ان کا ایک مکارانہ منصوبہ ایسی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ یہودی علماء نے  تورات میں تحریف کرکے اسلام اور رسول اکرم(ص) کی نبوت ورسالت کے بارے میں بہت ہی واضح و آشکار پیشنگوئیوں کو چھپایا اور انہیں لوگوں کی دسترس سے دور رکھاتا کہ وہ اسی طرح اپنے باطل راستے پر گامزن رہیں اور آئیں اسلام کی طرف مائل ہونے سے دور رہیں۔ اب ہم جو واقعہ نقل کر رہے ہیں وہ یہودی علماء کی انہی مکاریوں کا بہترین نمونہ ہے۔

 مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

 میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

 وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

 اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

 میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

 تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں ۔ اس نے کہا:

۱۴۹

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا اور اسے تالا لگا رہتا تھا۔بزرگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اوربالخصوص نو جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

 اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ''الانسان حریص علی ما منع'' یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

 ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

 اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی

۱۵۰

کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔ میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

 ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم  نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

 جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوںنے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی چھین لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

 لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

۱۵۱

 بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

 اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:سرآنکھوں پر؛چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

 انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں  نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر  انہوں ے پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

 انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

 میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

 بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

 ہم نے کہا:ایسا نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔ جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔ اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۵۲

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروان سرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

 اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میںآئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

 ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں ۔ ہماری اس کے علاوہ اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

 اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے  کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

 قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

 میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

 قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

 میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

۱۵۳

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میںنے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

 اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر  پر سفیدرنگ کا عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوںنے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

 انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

 میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میںنے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں  نے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

 انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

 انہوں  نے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

 میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

 انہوں  ے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

 میں نے کہا:نہیں

۱۵۴

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔ میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

 انہوں نے اپنے مغرب کیجانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین  روانہ ہو جاؤ  اور پھر فرمایا: تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔

 میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟ کیونکہ گفتگو کے دوران  میںنے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔ مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟

 میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیں  ہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی ہے؟....(۱)

--------------

[۱] ۔ معجزات و کرامات ائمہ اطہار علیہم السلام:۱۷۵ ، مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی سے منقول، کامیابی کے اسرار:ج۲ ص۱۱۶

۱۵۵

اگر یہودی علماء (جو مکتب وحی کے سب سے بڑے دشمن تھے اور ہیں) ایسے حقائق کو نہ چھپاتے اور ان کے دولتمند حضرات نور الٰہی کو بجھانے کی کوششیں نہ کرتے تو یہ حقائق کے واضح و آشکار ہوجاتے جنہیں دیکھ کر بہت سے لوگ آئین اسلام کی طرف آجاتے اور اپنے تحریف شدہ دین سے دستبردار  ہوجاتے ۔لیکن افسوس!کہ وہ لوگ نہ صرگ لوگوں کو حق پرستی کی طرف آنے کی راہ میں حائل تھے بلکہ( جیسا کہ ذکر کریں گے) انہوں نے انہیں آخرت کی دنیااور قیامت کا منکر بنا ڈالا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنے پوشیدہ ہاتھوں کو ہر قسم کی خباثت سے آلودہ کیا اوراب آلودہ کر رہے ہیں۔

ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

     یہودیوںکی طرح عیسائیوں نے بھی اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے پیشنگوئیوں کو چھپانے کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔انہوں نے اس راہ میں کوششیں کیں اور اسی راہ کوجاری رکھا۔

     عیسائیوں نے بھی یہودیوں کی طرح نہ صرف پیشنگوئیوں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا بلکہ انہوں نے اسلام کی نشر و اشاعت کا باعث بننے والے اہم ترین حقائق کو چھپایا اور اب بھی چھپا رہے ہیں۔

     ایک بہت ہی اہم واقعہ(جس کا کلیسا اور عیسائیت کی شکست میں بڑا کلیدی کردار ہے)جو عیسائیوں کو اسلام کی طرف راغب کر سکتا ہے ،وہ انگلینڈ کے صاحب اقتدار بادشاہ کا اسلام قبول  کرنا ہے۔

     یہ واضح سی بات ہے کہ اپنی قوم میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بادشاہ کا مسلمان ہونا ان کے مذہبی عقائد پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتاہے۔

     عیسائیوں نے برطانیہ  کے عیسائیوں کو اسی طرح کلیسا کا پیروکار رکھنے کے لئے وہاں کے بادشاہ کے مسلمان ہونے کی خبر کو چھپایا کیونکہ بادشاہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ مستقبل میں عیسائیوں کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔اس لئے انہوں نے یہ اہم واقعہ اپنی کتابوں میں ذکر ہی نہیں کیا۔

     اس واقعے سے آگاہ ہونے کے لئے اب ہم اسے بیان کرتے ہیں:

۱۵۶

  برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

 برطانوی بادشاہ''اوفا''(OFFA)

 تاریخ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ گذشتہ صدی میں برطانوی بادشاہ ''اوفا''کا نام سامنے آیا کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا ۔لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آئی۔

''اوفا''کون تھا؟

 اس نے کب حکومت کی؟

 اس نے کیوں اسلام قبول کیا؟

 اس کے مسلمان ہونے کی خبر کو کیوں چھپایا گیا؟

 مذکورہ سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے  برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائیکلوپیڈیا (لاروس) کی طرف رجوع کریں۔ان دونوں انسائیکلوپیڈیا میں ''اوفا''(OFFA)کے بارے میں یوں ذکر ہواہے:

 اوفا''انگلوساکسونی ''(Anglo-Saxon) بادشاہ تھاجس نے انتالیس سال  (۷۵۷ ء سے ۷۹۶ء )تک برطانیہ پر حکومت کی۔اس زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔

 پہلے وہ مارسیا(Mercia)یا وسطی برطانیہ(Middle England) کا بادشاہ تھا ۔یہ مملکت سات ملکوں کا حصہ تھی۔اس بادشاہ نے چھوٹے ملکوں جیسے Saxons,W اور Welshکو فتح کرکے اپنے ملک کو وسعت دی۔

 اس نے اپنی بیٹیوں کی شادیWessexاورNorthrmbiaکے حکمرانوں سے کی اور یوں اس نے اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو مزید پھیلایاکہ جس میں  برطانیہ کے تمام حصے شامل تھے۔ اس نے فرانس کے بادشاہ''شارلمان''اور پاپ ''اندریان اوّل''سے معاہدہ بھی کیا۔ اس کے زمانے کے باقی بچنے والے آثار میں سے دیوار اور ڈیمہے جو مارسیا (Mercia) اور ولش(Welsh)کے درمیان بنایا گیاور جو اب تک ''دیوار اوفا''OFFA DYKE''کے نام سے مشہور ہے۔

۱۵۷

یہاں تک تو ایک عام مسئلہ تھا لیکن ۱۸۴۱ئ(۱۲۲۷) میں مؤرخین کے لئے ایک سوال پیدا ہوا ۔ اس سال سونے کا ایک سکہ ملاجو اس طاقتور بادشاہ کے زمانے کا تھا۔اس سکے پر کون سی ایسی چیز تھی کہ جس نے سب کو حیران کر دیا۔یہ سکہ اب بھی برطانیہ کے عجائب گھر میں قدیم سکّوں کے حصہ میں موجود ہے۔حیران کن چیز یہ تھی کہ اس سکے کے دونوں طرف کلمہ شہادت''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، و اشهد أن محمّداً رسول اللّٰه''اور عربی زبان میں قرآن کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔

 یہ تو تھا اس سکہ کا واقعہ:

 سکہ کے ایک طرف عربی زبان میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے:''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، وحده لا شریک له ''اور سکہ کے حاشیہ میں'' محمّد رسول اللّٰه''اور پھر'' أَرْسَلَهُ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ'' (۱) لکھا ہوا تھا اور درمیان میں انگلش میں یہ جملہ ''OFFA-REK''( یعنی بادشاہ اوفا )نقش تھا۔حاشیہ میں عربی میں یوںلکھا ہوا تھا:''بسم اللہ،یہ دینار ۱۵۷ میں بنایا گیا۔

 ''اوفا''بادشاہ کے دستخط سے یہ تشخیص دی جاسکتی ہے کہ یہ سکہ  ۷۵۷ء سے ۷۹۶ ء کے درمیان بنایا گیا کہ جب ''انگلوساکسونی''پر ''اوفا''حکومت کر رہا تھا۔   ۱۵۷ھ وہی ۷۷۴ء بنتا ہے۔ اس بارے میں بہت سے تقریریں کی گئیں اور دسیوں مقالے لکھے گئے ،ہم اس موضوع کے بارے میںمؤرخین کے فرضیات اور تھیوریوں کو یوں خلاصہ کر سکتے ہیں:

 پہلا فرضیہ:''اوفا''بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔

 دوسرا فرضیہ:اس نے مفہوم و معنی کو سمجھے بغیرخوبصورتی کے لئے عربی کے ان کلمات اور آیت سے استفادہ کیا۔

 تیسرا فرضیہ:اس نے یہ سکہ اپنے ملک کے حجاج (جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں)کی مدد کے لئے بنوایاتا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور ان کے لئے سفر کی سختی آسان ہو جائے ۔گویااس کا یہ کام ایک سیاسی پہلو رکھتا تھا۔

--------------

[۱] ۔ سورۂ توبہ ، آیت:۳۳( ه ُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُوْلَ ه ُ  بِالْ ه ُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْ ه ِرَ ه ُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّ ه ِ)

۱۵۸

 چوتھا فرضیہ:اس نے ۷۸۷ء میں پاپ ''اندریان''سے معاہدہ کیا کہ بادشاہ سالانہ مالیات ادا کرے اور ممکن ہے کہ یہ سکہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔

 محققین میں سے ایک کا کہنا ہے:یہ واضح ہے کہ آخری تین فرضیہ منطق اور انسانی عقل سے سازگار نہیں ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی بادشاہ خوبصورتی کے لئے سکہ پر کوئی جملے لکھے کہ اسے جس کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔جب کہ یہ جملات ''شہادت ''ہیں کہ جن میں اسلام کے عقائد کا خلاصہ کیا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ کے کچھ بادشاہوں پر اسلامی تمدن اثرانداز ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں اپنا نام سکوں پر چھپوایاتھا۔

 ان میں سے ایک''الفانسو ہشتم ،فاسیلی دیمتریش'' اور کچھ ''نورمان''حکمرانوں میں سے تھے کہ جن میں ''ویلیم راجر''شامل ہے ۔حتی کہ سلطنت جرمنی کے حاکم''ہنری چہارم''نے عثمانی خلیفہ'' المقتدرباللہ''کا نام اپنے ملک کے سکہ پر نقش کروایا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ''اوفا''کی طرح کلمۂ توحید سکہ پر نقش نہیں کیا تھا۔

 تیسرے فرضیہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرضیہ بہت مبہم ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاپ بادشاہ ''اوفا''سے یہ تقاضا کرے کہ سکہ پر کلمۂ شہادتین نقش کروائے اور اسے مالیات کے طور پر ادا کرے؟

 کیا اس میں کوئی منطق نظر آتا ہے؟کیا یہ ناممکن نہیں ہے ؛جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاپ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے۔لہذا یہ فطری امر ہے کہ وہ سکہ پر دشمن کا شعار و عقیدہ دیکھ کر اس کی مخالفت کرے گا۔چاہے سکہ پر یہ خوبصورتی کے لئے ہی نقش کئے گئے ہوں۔

 چوتھے فرضیہ  کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمزور فرضیہ ہے ۔یہ ماننا مشکل ہے کہ بادشاہ ''اوفا''نے یہ سکہ اس لئے بنوایا تھا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کے لئے جانے والے اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر ے ۔ کیونکہ اس زمانے میںجو عیسائی مقدس شہروں کو دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور اسلامی ملکوں میں ان کی رفت و آمد تھی۔

۱۵۹

 شاید یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت سکہ نہ بنا سکتی ہو لہذا اس نے اپنا سکہ کسی عربی ملک سے بنوایا ہو۔ لیکن یہ احتمال ضعیف ہے اور یہ وار نہیں ہوتا۔

کیونکہ برٹش انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے نوادرات میں سے نئی طرز کے کچھ سکے ہیں کہ جن پر بادشاہ اور سکہ بنانے والے کا نام نقش ہوا ہے۔کئی صدیوں تک انہیں سکوں سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ جن پر بادشاہ ''اوفا''اور اس کی بیوی ملکہ کانثریز(Cynethyth)کی تصویر بنی ہوئی تھی۔انگلینڈ میں سکہ بنانے کا نظام متعدد زمانوں میں رائج تھا۔

 ممکن ہے کہ اس بادشاہ کے زمانے میں رائج سکوں کے کچھ اور نمونے برٹش انسائیکلوپیڈیا میں سکّوں (Coins) یا بادشاہ کے حالات زندگی کی بحث میں مل سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ احتمال انتہائی ضعیف ہے کہ بادشاہ اپنے ملک میں سکّہ نہیں بنا سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ''اوفا''بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی اور ان سکّوں کے علاوہ کوئی اور مدرک بھی موجود نہیں ہے۔ہمارے پاس اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کے بارے میں معلومات کیوں نہیں ہیں؟مؤرخین اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہبرطانیہ کے کلیسانے اس بادشاہ  کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں تمام مدارک مٹا  دیئے تھے!کیا صرف یہ بادشاہ ہی مسلمان ہوا تھا یا اس کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار بھی مسلمان ہوئے تھے؟ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔ ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس کی زیارت  کے وقت کچھ مسلمانوں اور ان کے علماء سے ملاقات کی ہو اور اس دوران اسلام قبول کرکے  اسلام کا معتقد ہوا ہو۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائی کلوپیڈیا (لاروس)نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ نہیں کیابلکہ اسے کلی طور پر ان دیکھا کر دیا ہے۔اس سے کچھ لوگوں کے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ ان انسائیکلوپیڈیا میں علمی غیرجانبداری کا  لحاظ نہیں کیاگیا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اسلام و غرب:۲۲

۱۶۰

 نتیجۂ بحث

 ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کے دشمنوں نے دوسرے حربوں کے علاوہ دو بنیادی حربوں سے اسلام کی مخالفت کی  اور انہوں نے یہ سوچا کہ فرقہ سازی اور حقائق کو چھپانے سے اسلام کو شکست دے دیں گے لیکن ان کے یہ بے بنیاد خیالات  نقش بر آب ہوئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو نابود نہ کر سکے بلکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی کوششوں سے اسلام کا پرچم ہمیشہ سربلند رہا اور آخر کار تمام مذاہب اور انسانی مکاتب نابود ہو جائیں گے اور دنیا پر صرف مکتب پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت ہو گی۔

 جی ہاں!لوگوں کے لئے قرآن، پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے توسط سے پیشنگوئیوں کو چھپانے کا جبران کر دیا ہے۔

 اگرچہ دشمن بہت سے مسلمانوں کو امویوں کی آغوش میں جگہ دینے اور انہیں اسلام کی حقیقت سے دور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بنی امیہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کریم ، پیغمبر خدا(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئیبے شمار مسلمانوں کو نجات دی ہے اور انہیں بنی امیہ کی غاصبانہ حکومت  اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفوں سے آگاہ کیا ہے۔

 ان  پیشنگوئیوں سے آگاہی کے لئے اب ہم انہیں بیان کرتے ہیں کہ جنہیں اہلسنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے  تاکہ محترم قارئین یہ جان سکیں کہ اسلام کے دشمنوں نے حقائق کو چھپانے میں شکست کھائی ہے اوران کے لئے اموی حکومت کا غاصبانہ ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔

 کیونکہ یہ پیشنگوئیاں بہت زیادہ تھیں لہذا ہم نے ان میں سے کچھ کو کتاب کے ایک مستقل باب میں ذکر کیا ہے۔

۱۶۱

 پانچواں باب

پیشنگوئیاں

    01) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    02) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

    03) حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    04) پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

    05) بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

    06) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    07) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

    08) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    09) بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    10) بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

    11) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    12) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    13) حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا

    14) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

    15) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    16) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

۱۶۲

    17) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    18) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    19) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    20) عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    21) معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    22) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

    23) ''الغارات''کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    24) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    25) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    26) ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    27) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    28) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

    29) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

    30) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

    31) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

    32) رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے وقت صحابہ و تابعین کے حالات

    33) جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات

    34) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

۱۶۳

    35) جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت

    36) جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت

    37) اس روایت میں اہم نکات

    38) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    39) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    40) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    41) ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    42) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

    43) رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

    44) مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    45) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

    46) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    47) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    48) مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

    49) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

    50) عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    51) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

۱۶۴

    52) محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    53) سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    54) کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    55) کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    56) پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

    57) 1- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    58) 2- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

۱۶۵

 بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

 قرآن مجید میں پروردگار عالم کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں پیشنگوئی لوگوں کوبنی امیہ  کے طرز حکومت اوران کے غیر اسلامی کردار و رفتار سے آشنا کروانے کے لئے ہے کہ جس میں  تمام اہلسنت اور بالخصوص نوجوانوں  کے لئے بہت بڑا درس ہے  تاکہ وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفین  کا نہ صرف حکومت الٰہی پر کوئی حق نہیں ہیبلکہ وہ اس حکومت کے غاصب ہیں، اور ان میں نہ صرف یہ کہ الٰہی حکام کی صفات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے الٰہی حکومت کو اس کے حقیقی حاکموں سے غصب کرکے خدا کے خلیفہ کے عنوان سے مسلمان کی گردن پر سوار ہو گئے۔جہاں تک ہو سکا انہوں نے نور الٰہی کو بجھانے اور دین کے احکامات کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان سب کے باوجود قرآن کریم اور پیغمبر عظیم(ص) کی پیشنگوئیوں نے اس زمانے میں بھی بے شمار لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور اس زمانے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف ہدایت کی۔

 جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشادات نے اس زمانے کے بہت سے لوگوں  کو آگاہ  کیا تا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے عقائد سے دستبردار ہو جائیں ،اسی طرح اس زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں غور فکر کرکے راہ حق کو پہچان کر اسی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

 اس طرح کی آیات و روایات سے آشنا ہونے کے لئے ان موارد پر توجہ کریں:

1۔ ترمذی نے یہ روایت سورۂ قدر کے باب (باب85) میں یوسف بن سعید سے نقل کی ہے:

 جب لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی تو اس کے بعد ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:تم نے مؤمنینروسیاہ کر دیا!یا کہا:اے مؤمنوں کو روسیاہ  کرنے والے!

 آنحضرت نے اس سے فرمایا:

 میری مذمت نہ کرو،خداوند تم پر رحمت کرے ؛کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بیٹھے ہیں۔

۱۶۶

 آنحضرت اس واقعہ سے پریشان ہوئے ،پس یہ آیت نازل ہوئی:

 (اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) (1) یعنی جنت میں ایک نہر۔

(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) (2)

 بیشک ہم نے قراان کو شب قدر میں نازل کیا.اور آپ کیا جانیں کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے.  شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اس میں فرشتے اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں.اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

 اے محمد !بنی امیہ اس کے مالک بن جائیں گے!

 قاسم کہتے ہیں:میں نے بنی امیہ کی حکومت کو شمار کیا جس کے ہزار مہینہ تھے نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔(3)

2۔ سیوطی نے کہا ہے:خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

رسول خدا(ص) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا  تو اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  پس خداوند کریم نے ان پر وحی کی کہ یہ ایک حکومت ہے جو انہیں ملے گی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) خطیب نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: رسول خدا(ص) نے فرمایا:

--------------

[1]۔ سورۂ کوثر، آیت:1

[2]۔ سورۂ قدر،آیت: 5 -1

[3]۔ الدر المنثور: ج6ص371

۱۶۷

میں نے دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،یہ واقعہ میرے لئے بہت ناگوار تھا۔خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

3۔ ابن اثیر کہتا ہے: جب (امام)حسن (علیہ السلام) واپس کوفہ گئے تو ایک شخص نے ان سے کہا:اے مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے!(امام) حسن (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: میری سرزنش نہ کرو؛کیونکہ رسول اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ایک

ایک کر کے ان کے منبر پر چڑھ رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  خداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) ''ہم نے تمہیں کوثر عطا کی''جوجنت میں ایک نہرہے۔

 اور یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )

 بنی امیہ تمہارے بعد اس کے مالک بن جائیں گے۔

طبری نے بھی ''تاریخ طبری: 5810'' میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور سیوطی نے بھی ''تاریخ  خلفائ:25''میں اسے ترمذی سے نقل کیا ہے ۔ حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میںاور ابن جریر نے  اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(1)

  بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

قرآن کریم میں بنی امیہ کو شجر ملعونہ سے تعبیر کیاگیا ہے اور ابن ابی الحدید کے مطابق مؤرخین و محدثین عبداللہ بن عباس (پیغمبر اکرم(ص) کے چچا زاد بھائی) سے نقل کرتے ہیں: ایک رات پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بندروں کا ایک گروہ آپ کے منبر کے اوپر چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے ۔ اس خواب کے بعد آنحضرت بہت پریشان ہوئے ۔گویا اس خواب سے آپ مطمئن نہیں تھے یہاں تک آنحضرت پر سورہ قدر نازل ہوا جوپیغمبر (ص) کے لئے سکون کا باعث بنا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:25

۱۶۸

 مفسرین قرآن کی تفسیر کی بناپر درج ذیل آیۂ مبارکہ رسول اکرم(ص) کے اس خواب کی طرف  اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا:

(وَاِذْ قُلْنٰالَکَ اِنَّ رَبَّکَ أَحٰاطَ بِالنّٰاسِ وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمٰا یَزِیْدُهُمْ اِلاّٰ طُغْیٰاناً کَبِیْراً) (1)

     اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔(2)

 پیغمبر اکرم(ص) اس خواب کے بعد بہت زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ بعض کہتے ہیں:اس کے بعد تا وقتِ آخر تک رسول خدا(ص) کے لبوں  پر مسکراہٹ نہیں آئی۔

 اس آیت میں شجر ملعونہ (وہی بنی امیہ کے حکمران)کی طرف واضح اشارہ ہوا ہے۔

41   ھ میں معاویہ کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سفیان بن ابی لیلیٰ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:اے مؤمنو کو رسوا کرنے والے تم پر سلام ہو!

حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:بیٹھو، خدا تم پر رحمت کرے؛ پیغمبر اکرم(ص) پر بنی امیہ کی بادشاہی واضح ہو گئی تھی اور آپ نے خواب میں یوں دیکھا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک آپ کے منبر پر جا رہے ہیں۔اس کام سے رسول خدا(ص) بہت پریشان ہوئے اور خدا نے اس بارے میں قران کریم کی کچھ آیات نازل فرمائیں اور پیغمبر(ص) سے یوں خطاب ہوا:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے....''۔

--------------

[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:60

[2] ۔ اس آیۂ شریفہ میں ایک بہت خوبصورت تلمیح استعمال ہوئی ہے اور وہ ''یزید ''کا نام ہے اور یہ موضوع کہ بہت بڑا ظالم و سرکش ہے

۱۶۹

میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام (ان پر خدا کی رحمت ہو) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

 جلد ہی امت کی خلافت موٹی گردن اور موٹے پیٹ والا شخص سنبھالے گا۔

 میں نے پوچھا :وہ کون ہے؟

 فرمایا:وہ معاویہ ہے۔

 میرے بابا نے مجھ سے فرمایا:قرآن نے بنی امیہ کی حکمرانی اور اس کی مدت کی خبر دی ہے اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے'' اور پھر فرمایا:یہ ہزار مہینے بنی امیہ کی مدت حکومت ہے۔(1)

 اس روایت میں ایک اور پیشنگوئی بھی ہوئی ہے کہ جو اس کی صحت پر دوسری دلیل ہے اور وہ یہ کہ:بنی امیہ کی مدت ہزار ماہ تک ہو گی اور اس مدت کے دوران خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام اور تمام لوگوں پر کیسے کیسے مظالم کئے جائیں گے۔

 اہلسنت کے معروف علماء نے متعدد روایات میں بنی امیہ کے فتنہ کے بارے میں قرآن کی کچھ آیات نقل کی ہیں کہ جو ان سب لوگوں کے لئے عبرت کا وسیلہ ہونی چاہئیں کہ جو معاویہ اور تمام بنی امیہ کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔

 ان روایات مں بنی امیہ کو کفر کے امام اور دین کے دشمنوں کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس بناء پر اہل تسنن میں ایسا گروہ کہ جومعاویہ کو مسلمان اور رسول خدا(ص) کا خلیفہ سمجھتا ہے !وہ اپنے عقیدے میں تجدید نظر کریں اور اپنے دل سے ان کی محبت کو نکال دیں ۔

 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود کو ملت اسلام کا جزء اور رسول خدا(ص) کی شریعت کا تابع شمار کرنے والے آنحضرت(ص) کے دشمنوں اور آنحضرت کے خاندان اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کا احترام کریں اور انہیں رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ سمجھیں؟!

 کیا جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں دیکھا ہے،تو کیا ان میں آنحضرت(ص) کے آئین کی قیادت و رہبری کرنے کی صلاحیت ہے؟!

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آیندہ:302

۱۷۰

 ''تاریخ بغداد''میں خطیب بغدادی کہتے ہیں: رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

أریت بن اُمیّة فی صورة القردة و الخنازیر، یصعدون منبر، فشق ذلک فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں میرے منبر پر چڑھیں گے، یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''

 نیز کہا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 أریت بن اُمیّة یصعدونمنبر، فشق علّ فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ) (1)

 مجھے بنی امیہ دکھلائیگئے کہ وہ میرے منبر پر چڑھیں گے اور یہ مجھ  پر سخت ناگوار گذرا پس یہ   آیت نازل ہوئی:''بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے''۔

سیوطی نے ''الدّر المنثور''میں نقل کیاہے:

 رأء رسول اللّٰه (ص) بن فلان ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک ، فما استجع ضاحکاًحتّی مات وأنزل اللّٰه: (وَمٰاجَعَلْنَا الرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) ۔

 رسول اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں۔پس آپ اس سے بہت پریشان ہوئے  اور اس واقعہ کے بعد کسی کے ساتھ نہیں مسکرائے یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے ۔خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔نیز سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:أریت بن امیّة علی منابر الأرض وسیتملّکونکم فتجدونهم أرباب سوء

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ زمین کے منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بہت جلد تمہارے مالک بن جائیں گے!اور پھرتم انہیں برے ارباب پاؤ گے۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:38، تاریخ بغداد:449

۱۷۱

واهتمّ رسول اللّٰه (ص) لذلک: فأنزل اللّٰه (وَمٰاجَعَلْنَاالرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (1)

 پیغمبر اکرم (ص) اس واقعہ سے بہت پریشان و غضبناک ہوئے پس خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔

  حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

بنی امیہ  کی حکومت کے بارے میں نقل ہونے والی  پیشنگوئیوں میں سے کچھ پیشنگوئیاں ان سب کے بارے میں ہیں اور کچھ پیشنگوئیاں ان میں سے مخصوص افراد کے بارے میں ہیں۔جیسے ابوسفیان،حکم یا اس کے کسی بیٹے کے بارے میں وارد ہونے والی پیشنگوئیاں۔

 ہم اس بارے میں جو روایت ذکر کریں گے ،وہ روایت اہلسنت کے مشہور علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں۔

 سیوطی نے اپنی تفسیر میں  ابن ابی حاتم سے اور اس نے عمر کے بیٹے سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو اپنے منبر پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے، خداوند نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

 (وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ ) (2)

 اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ''شجر ملعونہ''سے حکم اور اس کے بیٹے مراد ہیں۔

 نیز سیوطی نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ اس نے مروان بن حکم سے کہا:

 میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ وہ تمہارے باپ اور دادا سے فرما رہے تھے:

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ سورۂ اسراء،آیت:60

۱۷۲

 انکم الشجرة الملعونة فی القرآن

 تم ہی وہ شجر ہو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔(1)

 آلوسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

 رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابرکأٔنهم القردة، و أنزل اللّٰه تعالی فی ذلک: (وَمٰا جَعَلْنٰا....)، والشجرة الملعونة الحکم وولده

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندر وں کی طرح تھے۔خداوند نے اس بارے میں یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا..) نازل فرمائی ۔اور شجر ملعونہ حکم اور اس کے بیٹے ہیں۔(2) قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:

 انه رأء فی المنام بن مروان علی منبره نزو القردة، فساء ذلک فقیل:انّما ه الدّنیا أعطوها، فسرّی عنه و ما کان له بمکّة منبر و لکنّه یجوز أن یری بمکّة رؤیا المنبر بالمدینة

 رسول اکرم(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی مروان آپ کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے تو آنحضرت سے کہا گیا کہ یہ دنیا ہے کہ جو انہیں دی جائے گی۔اس سے آپ کا غم ہلکا ہوا اور اس زمانے میں آنحضرت کا مکہ میں کوئی منبر نہیں تھا لیکن آپ نے مکہ میں عالم خواب میں وہی منبر دیکھا تھا کہ جو مدینہ میں تھا۔(3)

شوکانی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابر کأنهم القردة ، فأنزل اللّٰه هذه الآیة میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے،پس  خدا نے  یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا...) نازل فرمائی ۔(4)

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:29،روح المعانی:ج4ص191

[3]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،الجامع لأحکام القرآن:ج10ص283

[4]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،فتح القدیر:ج3ص298

۱۷۳

 فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کی ہے:

 .... رأی رسول اللّٰه(ص)ف المنام انّ ولد مروان یتداولون منبره، فقصّ رؤیاه علی أبی بکر و عمر و قد خلا ف بیته معهما، فلمّا تفرّقوا سمع رسول اللّٰه (ص) الحکم یخبر رسول الله (ص)، فاشتدّ ذلک علیه و ممّا یؤکده هذا التأویل قول عایشه لمروان: لعن اللّٰه أباک و أنت ف صلبه، فأنت بعض من لعنه اللّٰه( 1)

.... رسول خدا(ص) نے خواب میں دیکھا کہ مروان کے بیٹے آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں۔آپ نے اپنا خواب ابوبکر و عمر سے بیان کیا کہ جو پیغمبر(ص) کے گھر میں آپ کے ساتھ تنہا تھے ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول خدا(ص) نے سنا کہ حکم نے یہ واقعہ پیغمبر(ص) سے نقل کیا ہے ۔ یہ واقعہ آپ پر سخت ناگوار گذرا (کہ ان دو افراد نے آپ کا فرمان حکم تک پہنچا دیا) اس آیت کی تأویل پر جو چیز تاکید کرتی ہے وہ عائشہ کا مروان سے کہا گیا قول ہے کہ خداوند نے تمہارے باپ پر  لعنت کی ہے جب کہ تم اس کے صلب میں تھے پس تم پر بھی خدا کی لعنت ہے۔سیوطی نے بھی اس آیت کی تأویل میں یہ روایت دوسری عبارت میں نقل کی ہے:

....رأی  رسول اللّٰه (ص) بن الحکم بن أب یالعاص ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک، فما استجمع ضاحکاً حتّی مات و أنزل اللّٰه فی ذلک ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (2)

 پیغمبراکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبروں پر حکم بن ابی العاص کے بیٹے بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آپ بہت پریشان ہوئے اور دنیاسے جاتے وقت تک کسی نے آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،جامع البیان:ج9ص112

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:33،اتاریخ الخلفاء:26

۱۷۴

 زمخشری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تأویل کو دوسری طرح نقل کیا ہے:اس نے اس آیت مبارکہ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) کے بارے روایت کی ہے:

رأی فی المنام أنّ ولد الحکم یتداولون منبره کما یتداول الصبیان الکرّة ۔(1)

پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ حکم کے بیٹے آپ کے منبر پر اس طرح  کھیل رہے ہیں کہ جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

 پیشنگوئیاں مستقبل کے لوگوں کا رسول اکرم(ص) کے ساتھ ارتباط اور ان بزرگ ہستیوں کے صحیح عقائد سے آشنا ہونے کا ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کو درک نہیں کیا اور جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ کے ارشادات سے استفادہ کرنے سے محروم تھے اور ہیں،لیکن وہ مستقبل کے بارے میں آنحضرت کے بیان کئے گئے فرمودات کی طرف رجوع کرکے رسول خدا(ص) کی نظر میںآنے والے واقعات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ جان سکتے ہیں کہ جو واقعات آنحضرت کے زمانے کے بعد وقوع ہوئے یا وقع پذیر ہوں گے ،ان کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کیا فرمایا ہے۔

پیشنگوئیوں اور آئندہ کے حوادث کو بیان کرنے سے خاندان وحی علیہم السلام کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے لوگ اپنے زمانے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کریں اور ان کے مقابلے میں ہوشیار رہیں۔

 اگرچہ خاندان وحی علیہم السلام نے گذشتہ زمانے میں اپنے پاس موجود لوگوں سے اپنے فرامین بیان کئے لیکن ان کے فرامین ہر اس شخص کے  لئے ہیں کہ جنہوں نے ان حوادث کا سامنا کیا یاسامنا   کریں گے۔اسی طرح اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والے لوگوں کو گذشتہ تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان واقعات کے بارے میں رسول خدا(ص) اور دین خدا کے پیشواؤں کا کیا اعتقاد تھا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:34،الکشّاف:ج2ص676

۱۷۵

 اس بناء پر جس زمانے کے بارے میں بھی خاندان وحی علیہم السلام  نے کسی واقعہ کی پیشنگوئی کی ہو تو اس زمانے کے لوگوں (اور اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والوں)کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے تا کہ آنکھیں بند کرکے گمراہی کی طرف نہ چلے جائیں اور گمراہ کرنے والی سازشوںسے دھوکا نہ کھائیں۔

 پس خاندان وحی علیہم السلام کی زبان سے پیشنگوئیوں کو بیان کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ آئندہ آنے والے لوگ اپنے زمانے کے حوادث و واقعات سے آگاہ ہوں اور گمراہ کرنے والوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور گمراہی کی وادی میں قدم نہ رکھیں۔

 ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے سے منع کرنے کے اسباب وعلل میں سے ایک رسول اکرم(ص) کی احادیث میں پیشنگوئیوں کے انتشار کو روکنا تھا۔کیونکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کی وجہ سے لوگ آئندہ کے حالات اور جنم لینے والے فتنوں سے آگاہ ہورہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت سے افراد کی ہوشیاری اور بیداری کے لئے مؤثر تھیں۔

 رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں سے آگاہ افراد کے لئے یہ حقیقت واضح و روشن ہے اور سب لوگوں کو ان سے آگاہ ہونے کے لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سپہ سالار جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

 ہم آئندہ اس بارے میں بحث کریں گے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت کی پیشنگوئیوں نے کس طرح شام کے لشکر میں اختلافات پیدا کر دیئے اور ان میں سے کچھ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کیوں مل گئے حتی کہ پیشنگوئیوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان  اختلافات پیدا ہو گئے اور نزدیک تھا کہ اس کی وجہ سے شام کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔

۱۷۶

 بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

معاویہ، اس کی حکومت اور بنی امیہ کے پورے خاندان کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں یہ بنیادی نکتہ بیان کرتی ہیں کہ امویوں نے رسول خدا(ص) کے فرامین پر توجہ نہیں کی اور حکومت کی کرسی پر ٹیک لگا کر آنحضرت کے حقیقی جانشینوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔

مختلف پروپگنڈوں، جعلی اور من گھڑت افواہوں کے ذریعہ اکثر لوگوں (جو اسلام کے اصولوں سے آشنا نہیں تھے) کو دھوکا دیا اور خود کو رسول خدا(ص) کا حقیقی جانشین اور سچے خلفاء کےعنوان سےپیش کیا! رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں صرف ان لوگوں کی گمراہی کی واضح دلیل نہیں تھیں کہ جنہوں نے امویوں سے دل لگایا اور ان کے ساتھ مل کر دین کی کمر توڑی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ گمراہ کرنے والے اموی خاندان کی گمراہی کی بھی دلیل تھیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ تدوین حدیث کے بارے میں عمر کی ان تما م سختیوں اور ممانعت ( اس نے رسول خدا(ص) کے فرمودات کو پھیلانے سے منع کر دیا) کے باوجود لوگوں میں آئندہ کے منحوس حوادث کے بارے آنحضرت (ص) کی پیشنگوئیاں عام ہوئیں کہ جن سے صرف اس زمانے کے سیاستدان ہی نہیںبلکہ عام لوگ بھی آگاہ ہوئے۔ اس نکتہ کی یاد دہانی ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا تذکرہ صرف شیعہ بزرگ علماء نے ہی اپنی کتابوں میں نہیں کیا بلکہ اہلسنت  کے مؤرخین اور بزرگ علماء نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یوںلوگوں کا امویوں کے کردار و رفتار کو پہچاننے اور ان سے آشنا ہونے کے لئے حجت تمام ہوئی ہے۔

بنی امیہ کی حکومت کے بارےمیں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

پیغمبر اکرم(ص) نے بنی امیہ اور ان کے بعض افراد کے بارے میں کچھ پیشنگوئیاں کیں اور لوگوں کو اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور نفاق سے آگاہ کیا۔جناب ابوذر نے آنحضرت سے معاویہ کے بارے میں جو پیشنگوئی نقل کی،ہم ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق

۱۷۷

کچھ مطالب ذکر کریں گے ۔جب بھی ععاص کی اولاد کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو اس کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں۔اب ہم ان تیس افراد کے بارے میں یعقوبی(اہلسنت کے ایک مؤرخ) کی واضح عبارت سے آنحضرت کی پیشنگوئی بیان کرتے ہیں۔

     وہ کہتے ہیں: معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ تم نے ابوذر کے ذریعے اپنے لئے شام کو تباہ کر لیا۔

     پس اس کے لئے لکھا کہ اسے بے کجاوہ سواری پر سوار کرو۔

     اس طرح انہیں مدینہ لایا گیا جب کہ ان کے دونوں زانوں کا گوشت الگ ہو چکا تھا۔پس جب وہ آئے تو اس کے پاس ایک گروہ موجود تھا،اس نے کہا:مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم یہ کہتے ہو:میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے:

     اذا کملت بنو امیّة ثلاثین رجلاً اتّخذوا بلاد اللّٰه دولاًوعباد اللّٰه خولاً،و دین اللّٰه دغلاً

     جب بھی بنی امیہ کی تعداد تیس افراد تک پہنچ گئی تووہ خدا کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ خدا کے بندوں کو اپنا نوکر  اور خدا کے دین کومکاری و فساد سمجھیں گے۔

کہا: ہاں؛ میں نے پیغمبرخدا(ص) سے سنا تھا کہ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔

 پھر ان سے کہا:کیا تم لوگوں نے رسول خدا (ص) سے کچھ سنا ہے تو بیان کرو؟پھر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے پاس بھیجا اور آنحضرت اس کے پاس آئے۔

 ان سے کہا:اے ابوالحسن! کیا آپ نے پیغمبر خدا(ص) سے یہ حدیث سنی ہے کہ جسے ابوذر بیان کر  رہے ہیں؟اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیاگیا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

     اس نے کہا:آپ کس طرح گواہی دے رہے ہیں؟فرمایا:

     رسول خدا(ص) کے اس فرمان کی روشنی میں:

۱۷۸

     ''ما اظلّت الخضراء ولاأقلّت الغبراء ذا لهجة أصدق من ابی ذر'' (1)

     آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو خود پر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

     پس ابوذر مدینہ میں کچھ دن تک ہی تھے کہ عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا کہ خدا کی قسم تم مدینہ سے باہر چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا تم مجھے حرم رسول خدا(ص) سے نکال رہے ہو؟

     کہا:ہاں؛جب کہ تم ذلیل وخوارہو!

     ابوذرنے کہا:میں مکہ چلا جاؤں ؟

     کہا :نہیں

     پھر کہا:کیا بصرہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں

 ابوذر نے کہا:پس پھر کوفہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں؛ لیکن ربذہ چلے جاؤ کہ جہاں سے آئے تھے تا کہ وہیں مر جاؤ۔اے مروان اسے باہر نکال دو اور کسی کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ دو یہاں تک کہ یہ یہاں سے باہر نکل جائے۔ پس ابوذر کو ان کی زوجہ اور بیٹی کے ساتھ اونٹ پر سوار کر کے باہر نکال دیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام،امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن جعفر اور عمار بن یاسر جناب ابوذر سے ملنے کے   لئے شہر سے باہرآئے اور جب ابوذر نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو آگے بڑے اور آپ کی دست بوسی کی اور پھر رونا شروع کر دیا اور کہا:میں جب بھی آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان یاد آ جاتا ہے اور رونے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:283

۱۷۹

 حضرت علی علیہ السلام ان سے بات کرنے  کے لئے گئے لیکن مروان نے کہا:امیر المؤمنین !نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ بات نہ کرے۔

 حضرت علی علیہ السلام نے تازیانہ اٹھایا اور مروان کے اونٹ پر مارا اور کہا:دور ہو جاؤ؛ خدا تمہیں آگ میں جلائے۔ اور پھر آپ نے جناب ابوذر کو الوداع کیا اور ان کے ساتھ گفتگو کی کہ جن کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔(3)(2)

 اس روایت میں پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی بناء پر جب بنی امیہ کے افراد کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ نہ صرف ممالک کو اپنا مال ،خدا کے بندوں کو اپنا نوکر و فرمانبردارسمجھیں گے بلکہ اصل دین کو مکاری و فساد قراد دیں گے۔اور یہ خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کے اسلام کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک ظاہری پہلو تھا۔سب لوگ جانتے ہیں کہ معاویہ نے خدا کے پاک بندے  اور رسول خدا(ص)کے محبوب صحابی جناب ابوزر کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

 زر بن حبیش کہتے ہیں:حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد یوں فرمایا:

اے لوگ!میں نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا اور ان کی آنکھیں کھول دیںاور سب پر حقیقت کو آشکار کر دیا۔میرے علاوہ کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ خود کو اس فتنہ میں داخل کرے اور یہ فتنہ جنم دینے والوں کے خلاف جنگ و جہاد کے لئے اٹھے۔

 (ابن ابی لیلیٰ کی حدیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:)میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا کہ جو فتنہ کی آنکھیں کھولے اور لوگوں کے لئے حقائق و واقعات آشکار کرے،اگر میں تم لوگوں میں نہ ہوتا تو کوئی بھی اہل جمل و نہروان کے ساتھ جنگ نہ کرتا۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ

[3]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص6۷

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346