معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168002 / ڈاؤنلوڈ: 7623
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معاویہ

جلد-۱

تألیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

ترجمہ

عرفان حیدر

۱

کتاب :.........................معاویہ جلد-۱

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر

نظر ثانی:........................سید ساجد رضوی ، زین العابدین علوی

کمپوزنگ : ..................  شاذان حیدر

ڈیزاین : ..........................  شایان حیدر

طبع: .  اوّل

تاریخ طبع :........................۲۳ نومبر ۲۰۱۳ ئ

تعداد:. ............................۲۰۰۰    

قیمت: .............................۲۵۰

ناشر.................................. الماس قم

مؤلف کی ویب سائیٹ :www.almonji.com

ہم سے رابطہ:info@almonji.com

ایمیل:irfanhaider۰۱۴@gmail.com

۲

انتساب

میں اپنی یہ ناچیز کاوش وارث علم کردگار، حامل علم رسول مختار، ناظر گردش لیل و نہار،

شیعیت کی محور و مدار، نور چشم صاحب ذوالفقار ، قائم آل محمد،

یوسف زہرا علیہا السلام، حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کی پاک بارگاہ

میں پیش کر کے قبولیت کا متمنی ہوں۔

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

حرف مترجم

تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیںکہ جن کی زندگی کا ہدف  و مقصد انسان کو سعادت تک پہنچانا ہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو شیطان کی نیابت میں  لوگوں کو ہلاک و گمراہ کرنے کا کام بطور احسن انجام دیتے ہیں۔

خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے، پیغمبر اوراہلبیت اطہار علیہم السلام  وہی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی بے مثال سیرت اور بے نظیر کردار کے ذریعہ انسانی معاشرہ کی دنیاوی و اخروی سعادت کی طرف ہدایت و راہنمائی کی۔

بیشک پیغمبراکرم(ص)  ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکیاور معاشرے کو تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے بہترین ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ اگر صرف مسلمان ہی رسول خاتم(ص) کی تعلیمات پر عمل کرتے اور اختلاف ، تفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقینا  چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین ثمر تناول کرتے،لیکن افسوس صد افسوس کہ پیغمبر (ص) کی جانسوز اور دردناک رحلت کے بعد ظاہراً اسلام قبول کرنے والے کچھ مسلمانوں پر خود غرضی اور مقام طلبیحاکم ہو گئی اور وہ رسول (ص) کے بتائے ہوئے خدا ساختہ راستہ کو چھوڑ کر خود سا ختہ راستہ پر نکل پڑے    اور آجتک انسان اور بالخصوص مسلمان ان کے اس گناہ عظیم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

لیکن خدائے عظیم نے ان کریم  ہستیوں کے ذریعہ ہر دور کے انسان کے لئے ہدایت کا سامان فراہم کیا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان تعصب و تنگ نظری اور اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کو چھوڑ کرحقیقی معنوں میں منطقی طریقے سے تحقیق و جستجو کرے۔

۴

 ان معصوم ہستیوں کیسیرت و کردارصرف اسی دور کے مسلمانوں کے لئے ہی اسوہ نہیںتھی بلکہ ان کی احادیث اور پیشنگوئیاں ہر دور کے مسلمان کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہیں ۔ رسول اکرم(ص) اور امیر کائنات علی علیہ السلام نے اپنی پیشنگوئیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آئندہ کے واقعات و حادثات اور  اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نیست و نابود کرنے والے  شیطان کے نائبین خاص سے  آگاہ فرماتا کہ لوگ ان ظاہری مسلمانوں کے شرّ سے محفوظ رہیں۔

یہ کتاب بھی راہ حق  سے بھٹکے ہوئے سادہ لوح  افرادکے لئے نایاب تحفہ ہے جن کے لئے یہ چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں اسلام  کے سب سے بڑے دشمن بنی امیہ اور بالخصوص معاویہ کے خبیث چہرے سے پیغمبر(ص) کی احادیث اور پیشنگوئیوں کے ذریعہ  نقاب کشائی کی گئی ہیں تاکہ  ہمارے اہلسنت بھائی یہ جان لیں کہ وہ جسے اپنا خلیفہ مانتے ہیں وہ اسلام کے نام پر اسلام کو ہی مٹانے کے لئے کس حد تک کوشاں رہا۔

اور یقینا اس کار خیر کو انجام دینا مجھ  اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی لہذا میں اپنے والدین، اساتید، بھائیوں اور دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس کام میں میرے راہنمائی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔خداان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور وقت کے ہادی، راہنما، یوسف زہرا،امام زمانہ(عجل الله تعالى فرجه ) کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔

عرفان حیدر

قم المقدس ( ایران )

۵

بسم الله الرحمن الرحیم

پیش گفتار

    ایک اہم نکتہ

    یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رو یّہ

    بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز

    یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ

    اس کتاب کے بارے میں

    معاویہ بروز غدیر

۶

ایک اہم نکتہ

محققین جس بارے میں بھی تحقیق کریں اور جس موضوع کے بارے میں تحقیق کا آغاز کریں انہیں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اس موضوع سے مربوط بہت سے تاریخی ،تفسیری اور فقہی حقائق مطالب پر دقّت اور غور وفکرکرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔

مثال کے طور پر تاریخ اور تاریخ نگاری میں ہو سکتا ہے کہ بعض مؤرخین نے تاریخی حقائق کو واضح و آشکار طور پر بیان نہ کیا ہواور ممکن ہے کہ یہ ان حقائق سے لاعلمی کی دلیل ہو یا اس میںمؤرخین کے اغراض و مقاصدشامل ہوں ۔لیکن جو محققین اور اہل تحقیق تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق سب کے آشکار کرنا چاہتے ہیں ،انہیں  چاہئے کہ ان مطالب کو عام سطحی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ جو کچھ پڑھیں اس پر دقّت اور مکمل فہم و فراست سے غور وفکر اور تأمل کریں  تاکہ اس غور و فکر ور تدبّر کی وجہ سے تاریخ کے تاریک اور بیان نہ کئے گئے نکات کوواضح و روشن کرکے معاشرے کے لئے بیان کریں۔

اب ہم تاریخ کا ایک چھوٹا سا نکتہ بیان کرتے ہیں اور پھر ہم اس کی علت کے بارے میں جستجو کریں گے:

تاریخ میں  ذکر ہواہے :اسلام کی طرف مائل ہونے والے یہودی اور عیسائی عثمان کے زمانے تک اسے خلیفہ مانتے تھے حتی کہ جب عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو ان میں سے کچھ نے تو جانفشانی کی حد تک عثمان کا دفاع کیا لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان میں سے بہت سے معروف افراد نے نہ صرف امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کی بلکہ مدینہ کو چھوڑ کر شام میں معاویہ کے گرد جمع ہو گئے!

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ نے بیان کیا ہے اور ایسے ہی کچھ نمونے ہم نے اس کتاب میں ذکر کئے ہیں۔اب اس بارے میں غور و فکر کریں کہ ظاہری طور پر مسلمان ہونے والے یہ یہودی و عیسائی کیوں عثمان کی حمایت کرنے کے لئے تیار تھے؟اورانہوں نے کیوں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حمایت نہ کی ؟اور کیوں انہوں نے شام جا کر معاویہ کی حمایت کی؟

۷

کیا ان کے اس عمل کو اس چیز کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا کہ کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر ظاہری طور پر مسلمان ہوئے اور عثمان کے گرد جمع ہو گئے؟عثمان نے ان کے لئے ایسا کیا کیا کہ مسلمانوں نے اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا؟کیوں انہوں نے خاندان وحی علیہم السلام کا دامن نہ تھاما اور معاویہ کے پیچھے چل پڑے؟

ان امورپر غور کرنا اس حقیقت کو واضح کر دیتاہے کہ ظاہری طورپر مسلمان ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروہ نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے معاویہ کو طاقت دی؟حتی انہوں نے عثمان کے قتل ہونے سے پہلے ہی معاویہ کو  خلیفہ کے عنوان سے واضح کر دیا تھا۔ان کے شام جانے کے بعد معاویہ نے انہیں قبول کر لیا اور ان میں سے بعض کو تو مسلمانوں کی سرپرستی کے لئے بھی منتخب کر لیا!!

ان کے مسلمان ہونے کے آثار میں سے ایک اسرائیلیات،خرافات اور جھوٹی حدیثیں گھڑنا تھا۔وہ ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان امور کی ترویج کرتے تھے اور اسلام کے لئے درد دل نہ رکھنے والے خلفاء نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی۔یہ ایسے افراد کے مسلمان ہونے کے عامل میں سے  ایک ہے۔

جی ہاں!انہوں نے اصحاب پیغمبر (ص) کے نام پر دین پیغمبرکو نقصان پہنچایا اوریہ نکتہ بہت ہی قابل غور ہے کہ عمر کے بہت سے رشتہ دار ایسے ہی افراد کے دوست اور ہم نشین تھے۔

کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں:

جو چیز اسرائیلیات اور اہل کتاب کے خرافاتی و جعلی قصوں کو پھیلانے میں مدد کرتی تھی وہ بعض یہودو نصارا علماء کا ظاہری اسلام لانا تھا کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور حتی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کا لبادہ اوڑھ کر  وہ بڑی آسانی سے  اپنے بہت سے خرافاتی عقائد اور فکری رسومات کو روایات اور احادیث کے قالب میں مسلمان کے سپرد کرسکتے تھے اور اسلام کی شفاف فرہنگ کو اپنے مجعولات و توہمات سے آلودہ کر سکتے تھے۔

۸

اہل کتاب میں سے اس مسلمان نما گروہ کی اسرائیلیات کو قبول کرنے کے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اکثر مسلمان انہیں رسول خدا(ص)کے اصحاب کے برابر شان و مرتبہ د یتے تھے اور ان کے لئے عزت اور تقرب کے قائل تھے حلانکہ کے وہ ان کی پست نیتوں سے بے خبر تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس مسلمان نما گروہ سے جعل حدیث کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''پیغمبر خدا(ص)سے حد یث نقل کرنے والا ایک گروہ ایسے منافقوں کا ہے کہ جو ظاہری طور پر تو اسلام لائے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر پیغمبر اکرم (ص)ک ی طرف ججھوٹی نسبت دی ۔اگر لوگ جان لیتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں تو ان کی حدیث کو قبول نہ کرتے، لیکن لوگ کہتے ہیں :یہ رسول خدا(ص)کے اصحاب ہ یں ؛انہوں نے آنحضرت کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث سنی ہے ،اس وجہ سے ان کی حدیث کو قبول کرتے ہیں ؛ حلانکہ خدا نے قرآن میں منافق صحابیوں کی صفات بیان کرکے ان کے جھوٹ کو بیان کیا ہے.....۔یہ جھوٹے منافقین پیغمبر اکرم(ص)کے بعد بھ ی زندہ رہے اور اپنے جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ گمراہ رہبروں کے مقرب بن گئے اور ان رہبروں نے انہیں حکومتی منصب عطا کئے اور انہیں لوگوں پر مسلّط کر دیا اور ان کے ذریعہ اپنی دنیا کو آباد کیا ۔ لوگ اپنے حاکموں کے فرمانروا اور دنیا کے ساتھ ہیں،مگر ان حضرات کے علاوہ کہ جنہیں خدا محفوظ رکھے''(۱) حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کے لئے تاریخ اسلام میں متعدد اور واضح مثالیں موجود ہیں کہ جو مسلمان کے اصحاب کی صف میں بیٹھنے والے ایسے ہی اہل کتاب سے خوش بینی پر مبنی ہیں ؛حتی کہ بعض تاریخی منابع میں یہاں تک ذکر ہوا ہے:معاذ بن جبل نے حالت احتضار میں اپنے اطرافیوں کو تاکید کی کہ چار افراد سے علم حاصل کریں: سلمان،ابن مسعود ،ابو درداء اور عبداللہ بن سلاّم (جویہودی تھا اورپھر اس نے اسلام قبول کیاتھا)؛ کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ (یعنی عبداللہ بن سلاّم) ان دس افراد میں سے ہے جو بہشت الٰہی میں جائیں گے!(۲) اس سے واضح اور صریح روایت  ہے: ایک شخص نے کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ عمر سے پوچھا۔ جب کہ عبداللہ کے پاس یوسف نام کا ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا،عبداللہ نے اس سے کہا:

--------------

(۱):- نہج البلاغہ، خطبہ:۲۰۱،اصول کافی:ج ۱ص۱۰۶-(۲):- التفسیر المفسرون:ج۱ص۱۸۶،الصحیح من سیرة النبی الأعظم: ج۱ص۱۰۶

۹

یوسف سے سوال پوچھوکہ خدا نے ان کے بارے میں فرمایاہے:(فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ) (۱)(۲) اس واقعہ میں کچھ ایسے نکات ہیں جو قابل غور ہیں:

۱۔ معاذ بن جبل(عمر کا دوست) نے کیوں عبداللہ بن سلاّم (جو یہودی سے مسلمان ہوا تھا) کا نام لیا لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نام نہ لیا جب کہ آپ ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ ہوتے تھے؟! کیا یہودی سے مسلمان ہونے والا عبد اللہ بن سلاّم دینی عقائد و مسائل  امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نعوذ بالله) زیادہ جانتا تھا؟!یا اس کی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ بن سلاّم دین کے نام پر دوسرے مطالب بھی نادان اور لا علم مسلمانوں کے حوالہ کرتا تھا؟!

۲۔ جب کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے سوال کیا تو اس نے کیوں یوسف نام کے ایک یہودی کی طرف رجوع کرنے کو کہا؟

۳۔ کیوں عبداللہ بن عمر نے آیۂ شریفہ(فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ) کو یوسف اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر تطبیق دی؟! حلانکہ شیعہ اور سنّی تفاسیر میں ہے کہ یہ آیت اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شان میں ہے۔

۴۔ کیوں عبداللہ بن عمر ایک یہودی شخص کا ہم نشین تھا اور اس نے کیوں اسے اتنا سراہا؟!

۵۔عبد اللہ بن عمر نے یہودی سے ہم نشینی اور اسے سراہنا کس سے سیکھا؟کیا خود ہی اس کی ایسی عادت تھی؟کیا عمرکو اس کے اس عمل اور رویہ کا علم  تھا؟اگر وہ اس سے آگاہ تھا تو کیوں اسے اس کام سے منع نہ کیا؟ اگر عمر اس کے اس کام سے آگاہ  نہیں تھا تو جو مدینہ میں اپنے بیٹے کے کاموں سے آگاہ نہ ہو تو وہ کس طرح پورے ملک میں مسلمانوں کے امور سے باخبر ہو سکتاہے؟!! یہ واضح ہے کہ ان امور میںغور و فکر اور دقّت کرنے سے جستجو کرنے والوں کے لئے اہم مطالب آشکار ہوں گے۔

قابل توجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے تمام مسلمانوں کو اہل کتاب کی ہم نشینی سے منع فرمایا تھا۔

--------------

(۱):- سورۂ انبیاء، آیت:۷'' اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو''،الصحیح من سیرة النبی الأعظم   سے منقول: ج۱ص۱۰۶

(۲):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۴۷

۱۰

 یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ

پیغمبر اکرم(ص) نے مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے ،ان سے سوال پوچھنے اور ان کی مسخ شدہ فرہنگ و ثقافت کے سامنےجھکنے سے منع فرمایاہے ۔اور جو لوگ اہل کتاب اور ان کی تحریف شدہ کتابوں کو احترام وتقدّس کی نظر سے دیکھتے تھے   آپ انہیں خبردار کرتے تھےکہ ظہور اسلام کے زمانے میں اسلام کی حیات بخش اور شفّاف تعلیمات کے ہوتے ہوئے ایسے عقائد کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔درج ذیل چند مثالیں آنحضرت(ص) کے موقف کو بیان کرتی ہیں:

تفسیر ''در المنثور'' میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم (ص) کے کچھ صحابی تورات  میں  سے کچھ چیزیں لکھتے تھے ،یہ خبر رسول اکرم(ص) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:

بیوقوفوں  میں سب سے بڑے  بیوقوف اور گمراہوں میں سب سے بڑیگمراہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبروں پر نازل کی گئی خدا کی کتاب سے روگردانی کریں اور ایسی کتابوں کی طرف مائل ہوں کہ جو خدا نے ان کے پیغمبر کے علاوہ کسی  دوسرے پیغمبر پر نازل کی ہواور اس امت کے علاوہ کسی اور امت کے لئے بھیجی گئی ہو۔

اسی واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

(أَوَلَمْ یَکْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْْهِمْ ِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَرَحْمَةً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ) (۱)(۲)

 کیا ان کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میںرحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاددہانی کا سامان موجود ہے ۔

--------------

(۱):- سورۂ عنکبوت، آیت:۵۱

(۲):- تفسیر الدر المنثور:ج ۵ص۱۴۸اور۱۴۹۔ نیز ملاحظہ فرمائیں: تفسیر المیزان:ج۱۶ص۲۲۵

۱۱

اکثر مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے گذشتہ کتابوں سے خرافات کے ساتھ ملے جلے مطالب لکھے اور ان پر اعتماد کیا لہذا خدا نے انہیں بتا دیاکہ ان کے لئے قرآن کافی ہے۔(۱)

صاحب تفسیر ''کشف الأسرار''اس آیت کا شان نزول عمر بن خطاب کو قرار دیتے ہیں کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے سامنے تورات کے ایک حصہ کو پڑھنے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے رسول خدا(ص) ناراض ہوئے اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔(۳)(۲)

--------------

(۱):- دیکھئے: تفسیر التبیان:۲۱۸۸ اور تفسیر طبری:۷۲۱

(۲):- تفسیر کشف الأسرار: ج۷ص۴۰۷ اور ۴۰۸

(۳):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۴۷

۱۲

 بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں مسلمانوں کو یہودیوں سے تعلق و واسطہ رکھنے سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان سے دوری  اختیارکی جائے؟

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں:انسان کابرے اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے کے اہم عوامل میں سے ایک خداوند کریم پر ایمان اور قیامت پر اعتقاد رکھنا ہے۔

اگر انسان خدا اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ انسان کے تمام اعمال ،کردار بلکہ کے تمام سوچ و افکار کے اثرات ہیں جو آئندہ اس کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے لہذا وہ کوشش کرے گا کہ اس کے اعمال،افکار اور کردار ایسے ہوں کہ جواس کی ذاتی زندگی اور دوسروں کے لئے نقصان دہ اور منفی اثرات نہ رکھتے ہوں۔

گذشتہ لوگوں کی تاریخ کو ملاحظہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں سب سے بڑے مجرم وہ لوگ ہیں کہ جو خدا اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ۔اسی لئے انہوں نے تاریخ میں ایسے ایسیبرے اور وحشیانہ کام انجام دیئے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کو تباہ کیا ہے بلکہ دنیا کے بے شمار لوگوں بھی تباہ و برباد کر دیا۔

 یہودی اپنی مخفی چالوں کے ذریعہ تاریخ کے واقعات پر اثرانداز ہوتے آئے ہیں اور اپنی مکاریوں سے لوگوں کی خواہشات کو پامال کرتے آئے ہیں ،یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس سے مأیوس ہیں ۔

یہودی چونکہ صرف مادی دنیا پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں مادی دنیا کے حصول پر ہی خرچ کرتے ہیں اور اپنی اصلی ذمہ داری سے غافل رہتے ہیں۔اسی لئے تاریخ میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی دنیاوی خواہشات کے حصول کے لئے وحشیانہ ترین اعمال انجام دیئے ہیں اور یہ بات مسلّم ہے کہ اگر وہ موت کے بعد کی دنیا پر ایمان رکھتے تو کبھی بھی ایسے ناپسندیدہ اور برے اعمال انجام نہ دیتے۔

قرآن کریم بھی ان کے آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی تائید کرتا ہوئے فرماتا ہے:

۱۳

(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْْهِمْ قَدْ یَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ) (۱)

اے ایمان والو! خبردار! اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے کہ وہ آخرت سے اسی طرح مایوس ہوں گے جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

یعنی قوم یہود (جو عذاب کی مستحق ہے)کو دوست نہ رکھیں اور اس کی مدد نہ کریں کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت میں کسی ثواب کی خواہش نہیں رکھتے ،اوروہ کافروں اور بت پرستوں کی طرح عالم   آخرت کے منکر ہیںاور یہ مطلب اعجاز قرآن کو بیان کر رہا ہے۔کیونکہ ان کی مذہبی تعلیمات میں بھی یہ بات مشہور ہے اور یہودیوں کے ہاتھوں میں موجود آج کی تورات میں بھی موت کے بعد کی زندگی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(۲)

یہودیوں کا آخرت پر ایمان نہ رکھنا اس قدر مشہور ہے کہ اس بارے میںتحریر کرنے والے اکثر مصنّفین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ان میں سے ''ویل دورانت''لکھتے ہیں:

یہودی موت کے بعد کی دنیا پر ایمان نہیں رکھتے اور سزا و جزاء کو صرف اسی دنیا میں منحصر سمجھتے ہیں۔(۳)

یہ واضح ہے کہ ایسے عقیدہ کا نتیجہ فساد ،بے راہ روی ، ظلم و ستم ، تباہی، گستاخی او ر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے :

بہت سی برائیاں اور خرابیاں قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ہی وجود میں آتی ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ ممتحنہ، آیت:۱۳

[۲]۔ عفیف عبد الفتاح، الیہود فی القرآن:۷-۳۶

[۳]۔ ول وایریل دیورانت (منبع عربی):ج۲ص ۳۴۵

۱۴

قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کااصلی ہدف ومقصد دنیا اور مال و دولت کو جمع کرنا  ہے اور یہ اپنے مقصد تک رسائی  کے لئے کوئی بھی کام انجام دے سکتے ہیںحتی کہ یہ مختلف  چالوں کے ذریعہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کوخطرے میں ڈال کر انہیں اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی طرف دھکیلتے ہیں  اور اس طرح وہ نفسیات پر حاوی ہو کر انسان کی پاکیزہ فطرت،غیرت،مردانگی اور جوانمردی کو کمزور کرتے ہیں  اور ان کے اپنے سامنے قیام کرنے کے احتمال کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔

مذکورہ بیان کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہودی سربراہ اپنی تمام تر حیوانی اور بری صفات کی وجہ سے روئے زمین پر سب سے زیادہ خطرناک مخلوق بن چکے ہیں!(۱)

یہودیوں کا خطرہ اس قدر سنگین ہے کہجس سے اکثر صاحب نظر اور فن کے ماہرین کو خدشہہ لاحق ہے یہاں تک کہ انگلینڈ کے ایک اخبار میں لکھا تھا:

دنیا کی تمام سیاسی اور مالی مشکلات اور جنگوں کے اخراجات یہودیوں نے فراہم کئے ہیں۔(۲)(۳)

--------------

[۱]۔ پرتکل ھای دانشروان صھیون ،دنیا بازیچۂ یہود، السیرة النبویہ و....۔

[۲]۔ ژرژ لامبلن، اسرار سازمان یھود:۷، روزنامہ''Morning Post'' سے اقتباس

[۳]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: ۱۲۶

۱۵

 یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ

''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:

 اپنی تحقیق کے دوران مجھے یہودیوں کے ایسے بہت سے ناموں کا پتہ چلا جو گندے اور آلودہ مواد بنانے کے کارخانوں میں عمل دخل رکھتے ہیں ۔اکثر نشہ آور گولیاں ،نقلی ادویات حتی کہ زہریلے کھانے بھی انہی کے ہاتھوں وجودمیں آتے ہیں۔

اس تحقیق  کا نتیجہ توقع سے بڑھ کر پریشان کن تھا ۔ اس کے بعد جب میں مزید متوجہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہودیوں سے کارخانوں سے بننے والی اکثر اجناس گندی،غلیظ یا کم سے کم نقلی اور نقصان دہ ہیں ۔ یقینی طور پر %۹۵ ادبی گندگی (جو نوجوانوں میں اخلاقی برائیوں ، ہنری پستی اور غیر اخلاقی نمائش کا باعث ہے)کا نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے چلایا  جا رہا ہے کہ جو ملک کی ۱فیصد آبادی پر مشتمل ہیں اور کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔

ہر دن میرے لئے ایک نیا مسئلہ کشف ہوتا تھا جسے لکھنے کا نہ تو میں عادی تھا اور نہ ہی میں انہیں برداشت کر سکتا تھا اس لئے میں اپنے سامنے کے ان  ظاہری طور پر سادہ مسائل کو سمجھنے  کیلئے انہیں کئی بار پڑھنے پر مجبور تھاتا کہ اصلی مقصد کو کشف کر سکوں حلانکہ بیان ہونے والے یہ اکثر مسائل جھوٹے تھے.....۔

''دکھاوے کی تنقید اور وسیع پیمانے پر تعریف غالباً یہودیوں اور اس  مشینری کو چلانے والوں کے   اد میں ہوتی تھی''(۱)

یہودیوں کے کام واضح طور پر یہ بیان کر رہے تھے کہ تخریب کاری کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے ۔یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے وہ ایک مخصوص گروہ اورلوگوں کی طرف سے  مخفی طور پر مأمور ہوئے ہوں کہ تمام سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں میں تخریب کاری کریں۔(۲)(۳)

--------------

[۱]۔ آدولف ہٹلر، نبرد من: ۴۱ -۴۲

[۲]۔ آدولف ہٹلر،نبرد من:۴۳

[۳]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: ۱۱۳

۱۶

ہٹلر( جو کہ خود بھی دنیا کے خونخوار افراد میں سے تھا)یہودیوں کے ظلم و ستم اور فسا د سے اتنا تنگ آچکا تھا کہ اس نے کہا:تخریب کاری کے سوا یہودیوں کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے!

یہودیوں نے کرۂ زمین پر جو تمام فساد،تباہی و بربادی،ظلم و ستم اور انحرافات انجام دیئے ہیں ،وہ صرف یہودیوں کی خود غرضی اور خودبینی اور آخرت پر ایمان و یقین نہ رکھنے کی وجہ سے ہے!

یہ واضح ہے کہ جب یہودیوں کا سب سے بڑے جرائم اور برے سے برے اعمال کو انجام دینے کا معیار ان کی خود بینی اور خود غرضی کی حس ہو تو اس سے ان کا اخروی دنیا پرسے ایمان ختم ہو جائے گا۔صرف ہمارے زمانے میں ہی نہیں بلکہ گزشتہ صدیوں میں  بھی وہ جو جرم بھی کر سکتے تھے انہوں نے وہ جرم کیا۔

 انہوں نے ابتدائے اسلام سے ہی نہیں بلکہ رسول خدا(ص) کے مبعوث ہونے سے پہلے ہی اسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے تھے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا جس کے لئے بنی امیہ نے ان کی مدد اور خدمت کی۔نیز یہ بھی واضح ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی ان کی سازشوں میں وسعت آگئی  اور اب جب کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اسلام کی عالمی حکومت سے ان کی بے شرم حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا ،اس لئے وہ کسی بھی نئے خائن اور سازشی حربہ کو انجام دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔

اس کتاب کے بارے میں

معاویہ اور بنی امیہ (جو ہزار مہینہ اقتدار کی کرسی پر قابض رہے) کے کارناموں کے تجزیہ و تحلیل اور ان کی تاریخ سے مکمل آشنائی کے لئے دسیوں جلد کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کی حکومت میں ملک کی وسعت اور ان کے طولانی اقتدار نے ان کے رفتار و کردار کی فائل کو بہت وزنی بنا دیا ہے ۔ اس لئے حقیقت کے متلاشی اور واقعیت تک پہنچنے کی جستجو کرنے والا ہر شخص بنی امیہ کے کارناموںسے بہت ہی اہم نکات اخذ کر سکتا ہے جس سے ان کے رفتار و کردار کی ماہیت و کیفیت بخوبی واضح ہو جائے گی۔

۱۷

اب جب کہ معاویہ کی حکومت اور اموی خاندان کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں اور کروڑوں اہلسنت مسلمان اموی حاکموں کو رسول اکرم(ص) کے جانشین اور اسلام کے ولی کے طور پر پہچانتے ہیں !لیکن کیا حقیقت میں یہ لوگ امویوں کی سیاہ  کاروایوں سے آگاہ ہیں؟!

کیاوہ  جانتے ہیں کہ معاویہ اور اس کے جانشینوں کا تاریخ اسلام کو بدلنے میں کتنا اہم کردار ہے اور انہوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے کس قسم کی سازشیں کیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ امویوں کی ہزار مہینہ پر مشتمل حکومت میں اسلامی معارف و عقائد کے ساتھ کیس سلوک کیا گیا؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ ابوسفیان،معاویہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی ہیں؟

کیا وہ جانتے ہیں کہ اہلسنت کے مشہور علماء و دانشوروں نے اپنی کتابوں میں ان کے بارے میں  بہت سی اہم اور حقیقت کو واضح کرنے والی احادیث نقل کی ہیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں بنی امیہ  کے کیسے کیسے شرمناک کام درج کئے گئے ہیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں بلکہ انسانیت کی تاریخ کے راستے کو  کیسے بدل دیا اور اسے انحراف کی طرف لے گئے؟!

یہ واضح  ہے کہ جواپنے لئے گذشتہ لوگوں کی تاریخ کے دریچہ کھول کر کسی تعصب کے بغیر ہشیار اور خبردار کرنے والے نکات سے آگاہ ہیں،وہ جانتے ہیں کہ امویوں نے اسلام کے نام پر خدا اور خاندان وحی علیہم السلام کے آئین کے خلاف کیسے جدوجہد کی۔

ہم نے یہ کتاب ایسے افراد کی مزید آگاہی اور جوحضرات ان واقعات سے مطلع نہیں ہیں ، انہیں ان سے آشنا کرنے کے لئے تألیف کی ہے اور اسے عام لوگوں کے لئے پیش کیا ہے تا کہ سب لوگ بنی امیہ کے شرمناک اہداف و مقاصد سے آشنا ہوں اور وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ کس طرح خلافت کی کرسی پر قابض ہوئے اور انہوں نے کس طرح امت کی رہبری حاصل کی !اور اسلام کی جڑوں پر کیسی کیسی کاری ضربیں لگائیں!

۱۸

اب شیعہ عقائد کے حقائق کی نورانیت سے دنیا کے بے شمار لوگوں نے اسلام کا رخ کیا ہے اور اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے فرقوں میں کون سا فرقہ حقیقت پر مبنی ہے اور کون سا راستہ انحراف و گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔

یہ کتاب''معاویہ''مذہب حقہ کے انتخاب کے سلسلہ میں بخوبی ان کی راہنمائی کر سکتی ہے اور نہ صرف معاویہ بلکہ اہلسنت کا بھی تعارف کروائے گی کہ جو معاویہ کی پیروی کرتے ہیں اور اسے اپنا رہبر و پیشوا سمجھتے ہیں۔

اسی طرح یہ کتاب بہت سے اہلسنت حضرات کی رہنمائی کے لئے بھی اہم ہے جو شیعہ عقائد سے آشنا ہوئے ہیں لیکن ابھی تک شکو ک و شبہات کا شکار ہیں۔یہ کتاب باطل راستے کا تعارف کراتی ہے جس کے نتیجہ میں راہ حق کو آشکار کرتی ہے۔

دین کے انحراف میں معاویہ کے کردار اور رسول خدا(ص) کے ساتھ اس کی مخالفت کی کوششوں کو جاننے کے لئے ہم یہ اہم رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن اسے پوری توجہ سے مطالعہ کریں:

  معاویہ بروز غدیر

غدیر کے دن ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی اور خداوند متعال کے حکم کی اطاعت کی حتی کہ امام علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے سب سے بڑے دشمن ابوبکر اور عمر نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اگرچہ انہوں نے ظاہری طورپر آنحضرت کی ولایت کو قبول کر لیا اور جیسا کہ اہلسنت علماء لکھتے ہیں:عمر نے کہا:''بخّ بخّ لک یا علی''۔عورتوں نے بھی بیعت کی اس تقریب میں شرکت کی اور پانی کے ایک  ایسے برتن میں اپنا ہاتھ رکھکر آنحضرت  کی بیعت کی جس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا دست مبارک تھا اور یوں انہوں نے آپ کی ولایت کو قبول کیا۔

اپنے وطن لوٹنے کے بعد مسلمانوں نے اپنی اقوام اور دوستوں سے غدیر کے دن کی بیعت کا واقعہ بیان کیا اور سب نے آنحضرت کی ولایت کو قبول کیا۔ حتی کہ جو لوگ باطنی طور پرمخالفت تھے انہوں نے ظاہری طور پر رضا مندی کا اظہار کیا اور پوری امت نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے (اگرچہ ظاہری طور پر ہی سہی) کے لئے شرکت کی۔

۱۹

اس بناء پر غدیر کی جاودانہ عید کے دن تمام مسلمانوں اور حتی کے تمام منافقوں نے بھی رسول خدا(ص) کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو امت کی سرپرستی کے لئے ضروری سمجھا اور اسے تسلیم کیا۔

اس دوران صرف ایک شخص  مخالفت کے لئے اٹھا اور اس نے اسی دن اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص)  کو جھٹلانا شروع کر دیا اور پوری امت کے سامنے اپنے کفر و نفاق کو واضح و ثابت کر دیا اور وہ شخص معاویہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔

اہلسنت علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم میں معاویہ تنہا ہی خدا ،رسول خدا(ص) ، ولی خدا   ،حکم خدا  اور پوری امت کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور اس نے  رسول خدا(ص)کے فرمان کو -نعوذ باللہ-جھٹلایا اور اسے رد ّکیا۔

اس حقیقت کو اہلسنت کے چند علماء نے لکھا ہے اور یوں اس کے کفر کو ثابت کیا ہے۔

اگرسقیفہ  میں بیٹھنے والوں نے رسول خدا(ص) کی شہادت کے ستر دن بعد واضح طور پر حکمخدااور رسول (ص) کی وصیت کی مخالفت کی لیکن  معاویہ نے پہلے دن ہی سے غدیر خم میں خدا،رسول خدا(ص)،ولی خدا اور حکم خدا کا انکار کیا۔

معاویہ نے اس پر اتنا زور دیا کہ اہلسنت مفسّرین کے مطابق اس کے برے عمل اور ناقابل  معافی گناہ کے بارے میں کئی آیات نازل ہوئیں۔

اے کاش! دنیا کے مسلمان ابتدائے اسلام سے اب تک ان حقائق سے آشنا ہوتے جن کے نتیجہ میں انہیں معاویہ کی صحیح اور مکمل شناخت ہوتی۔لیکن افسوس کہ علم کی کمی اور اسلامی حقائق سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسلمان گمراہی میں مبتلا رہے ، جیسے انہیں ضروری اور واضح حقائق کی بھی خبر نہ ہوجس کی وجہ سے وہ آب اور سراب میں تشخیص نہ دے سکے۔

شیعہ اور اہلسنت  مفسرین نے کہا ہے کہ سورۂالقیامة کی کچھ آیات معاویہ کے برے اعمال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اس کے کفر کی واضح دلیل ہے۔خداوند کریم نے سورۂالقیامة میں ارشاد فرمایا ہے:

۲۰

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا کہ ”:اے میرے رب! کیا منصب امامت پر میری اولاد میں سے بھی کوئی پہنچے گا؟“ تو ارشاد خداوندی ہوا کہ امامت کے درجہ پر کوئی ظالم نہیں پہنچ سکتا۔ ظلم سے مراد صرف لوگوں پر ظاہری ظلم و ستم ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق عدم عدل سے ہے یعنی جہاں عدل نہیں ہوگا، وہاں ظلم ہوگا۔ اگر اس کو مزید دیکھیں تو ظلم تین طرح سے ہوسکتا ہے:

خدا کے ساتھ ۔

اپنے نفس کے ساتھ ۔

لوگوں پر ۔

ظاہر ہے کہ اگر کوئی ظلم کی ان تین اقسام میں سے کسی ایک ظلم کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو وہ ظالم شمار ہوگا اور وہ منصب امامت کے لائق نہیں رہے گا۔

یہ دلیل بجائے خود عظیم اہمیت کی حامل ہے اور آئمہ معصومین کیلئے خلافت برحق ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یہی آیت قرآنی اور اس کی تفسیر حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد پاک کیلئے خلافت کوثابت کرتی ہے کیونکہ اس سے اس نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دوسرے صحابہ دور جاہلیت میں اپنی اپنی عمر کے کچھ حصے بت پرستی میں گزار چکے تھے اور قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

( یَبُنَیَّ لَا تُشْرِکُ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ )

”لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں“

” اے میرے بیٹے! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے“۔(سورئہ لقمان:آیت۱۳)۔

اس سے پتہ چلا کہ شرک سب سے بڑا (خدا کے ساتھ) ظلم ہے ۔ اب رسول خدا کے صحابہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ جس کسی نے ایک لحظہ کیلئے بھی بتوں کے سامنے سجدہ نہ کیا، وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔

۲۱

گزشتہ بحث میں اشارہ کیا گیا کہ امام کے لئے پہلی اور سب سے ضروری شرط یہی ہے کہ امام کی پوری مادّی اور معنوی زندگی کے ہر پہلو میں پاکیزگی، طہارت اور عصمت ہو۔ گہری سوچ رکھنے والے دانشمند حضرات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عصمت(ہرگناہ سے پاکیزگی) انسان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کو مکمل جانچنے اور پرکھنے کیلئے کوئی طریقہ کار یا پیمانہ موجود نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امام معصوم کی معرفت اور شناخت کی جانی چاہئے۔ خدا عالم مطلق ہے، حاضر و غائب کو جاننے والا ہے، دلوں کی کیفیات کو زبانوں سے بہتر جانتا ہے، اس لئے امام حق کا تعارف کروانے کیلئے ہم اُسی کی ذات کے محتاج ہیں اور وہی ہمیں اُن افراد ذی قدر کا تعارف کروائے۔

حقیقت شناسی کا ثبوت انسان کو مطالعہ اور تحقیق کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس طرح وہ فرمودات خدا اور رسول تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ تمام پوشیدہ حقائق ایک ایک کرکے مانند آفتاب انسان کے سامنے آجاتے ہیں او رہر قسم کے ظلمت و تاریکی ، جہل و تعصب کے پردے چاک ہو جاتے ہیں۔ آئیے ہم محکم دلائل، آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کو تلاش کریں تاکہ امام کو پہچاننے میں جتنی رکاوٹیں یا شکوک و شبہات ہیں، دور ہوجائیں اور حق تلاش کرنے والوں کو سچا رہبر اور صراط مستقیم مل جائے۔

فرمودات خدا اور دیگر دلائل کچھ اس طرح سے ہیں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور رسول اکرم کی معتبراحادیث متواترہ نہایت خوبصورت انداز میں لوگوں کو اعلیٰ ترین انسانوں سے متعارف کرواتی ہیں۔ یہ عظیم ہستیاں انسانوں کی ہدایت و رہبری کی ذمہ دار ہیں۔انہی سالاران حق کے پہلے رہبر مولائے متقیان ، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں اور ان کا آخری رہبر حضرت قائم آل محمدبقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں۔

خدا کی مدد و نصرت سے آئندہ ان دلائل کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا اور اس کے علاوہ دوسرے ابواب میں ہم اور نئی چیزیں بیان کریں گے جو انشاء اللہ مقصد کتاب کی تصدیق کرنے والی ہوں گی،لیکن آخری فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں۔

اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ،اَلّٰلهُمَّ عَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِیْ،اَلّٰلهُمَّ لاٰ تُمِتْنِیْ مَیْتََةً جٰاهِلِیَّةً وَلاٰ تُزِغْ قَلْبِیْ بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنِیْ ۔(آمین)۔

۲۲

دوسرا باب

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔ ۲

(ا)۔عَنْ اُمِّ سلمه قَالَتْ: نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعَة، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمة والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰهِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَهْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ ۔

”اُم سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُم سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا:

’اَلّٰلهُمَّ هٰولٰاءِ اَهلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا‘

”خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

اس وقت یہ آیت( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) نازل ہوئی۔

میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔

۲۳

(ج)۔ علمائے اہل سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ اُمِّ سَلْمَه قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمةُ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیهِ وآله وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْهِ، ثُمَّ قٰالَ: هٰولٰاءِ اَهْلُ بَیْتِی فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِیْرا

”اُم سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہا:(اے میرے اللہ)! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۵۶اورصفحہ۳۱۔

۲۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، باب مناقب اہل بیت ، ج۹،ص۱۶۹ وطبع دوم ،ج۹،ص۱۱۹۔

۳۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۴۵،صفحہ۳۰۱، طبع اوّل۔

۴۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد ج۹،ص۱۲۶، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲، صفحہ۲۴۲اور باب ۱۰۰،صفحہ۳۷۱۔

۶۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۳۳،۱۴۶،۱۷۲ اور جلد۲،صفحہ۴۱۶۔

۷۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج۳،ص۴۸۳،البدایہ والنہایہ ج۷،ص۳۳۹، باب فضائل علی

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۳۳،صفحہ۱۲۴اور صفحہ۲۷۱۔

۲۴

۹۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد۲۵،صفحہ۲۰۹۔

۱۰۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶۹۔

۱۱۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد۵،صفحہ۲۱۵۔

۱۲۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج۳،ص۱۱۰۰، روایت شمارہ۱۸۵۵، باب علی

۱۳۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات۶۱ہجری تا ۸۰ہجری، تفصیل حالات امام حسین ،ص۹۶

۱۴۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث۹۸، جلد۱۳،صفحہ۶۷۔

۱۵۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد۲۲،صفحہ۶،۷۔

دسویں آیت

مودت اہل بیت کا ایک انداز

( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہل بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت۲۳ )

تشریح

”اس آیت کی شان نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سےمودّت کرو“۔

پس رسول خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔(مجمع البیان، جلد۹،ص۲۹)

۲۵

قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟

قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجر رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادران اہل سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ’ ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰیط‘ )

قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰه مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ هٰولَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُهُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰه عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّم علیٌ فاطمةُ وَ اَبْنَاهُمَا وَقٰالَهٰا ثَلَا ثاً

جب یہ آیہ شریفہ( قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ) نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔

(ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:

اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَهْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْهُمْ بِیْ

”میرے اہل بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔

۲۶

(ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت آل محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰه علیه وآله وسلم

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( i )۔مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِیْداً

جو کوئی محبت آل محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔

( ii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں) مرا۔

( iii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی ہو)مرا۔

( iv )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُومِناً مُسْتَکْمِلَ الاِ یْمَانِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔

( v )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَه مَلَکُ الْمَوْتِبِالجَنَّةِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیرنے جنت کی بشارت دی۔

( vi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّةِ کَمَا تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِهَا ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔

۲۷

( vii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَه فِیْ قَبْرِه بَابَانِ اِلٰی الجَنَّةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔

( viii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰهُ قَبْرَه مَزَارَ مَلا ئِکَةِ الرَّحْمَةِ

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارتگاہ بنادیا۔

( ix )۔اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّة وَالْجَمَاعَةِ ۔

آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت آل محمد میں مراوہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ پرمرا۔

( x )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَةِ مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْهِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئےگا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔

( xi )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔

( xii )۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ

آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنی آل محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔

آل محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات

بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہل سنت کے بڑے بزرگ عالم دین ہیں، نے حدیث بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آل محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایات متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آل محمد قرار دیاجائے۔

۲۸

فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا،حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔

اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت آل محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہل سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد۴،صفحہ۲۱۹۔

۲۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد۲،صفحہ۳۶۲۔

۳۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد ۴،صفحہ۱۱۲۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۲،صفحہ۱۲۳اور ۴۴۴، اس کےعلاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث۳۵۲،صفحہ۳۰۷۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۳۰، طبع اوّل، حدیث۸۲۲۔

۷۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث۲۶۳،صفحہ۱۸۷،طبع اوّل،باب فضائل امیرالمومنین علی ۔

۸۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد۹،صفحہ۱۶۸، باب فضائل اہل بیت ۔

۹۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۷،۸۔

۱۰۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد۲۷،صفحہ۱۶۶۔

۲۹

۱۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۸۶۔

۱۲۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب۲۶،جلد۲،صفحہ۱۲۰۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد۵،صفحہ۳۶۷۔

۱۴۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۷۲ اور بہت سے علمائے اہل سنت۔

گیارہویں آیت

علی نفس رسول ہیں(علی اور اہل بیت آیت مباہلہ میں)

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔)

”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آل عمران:آیت۶۱)۔

تشریح

تمام مفسرین اور محدثین اہل سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہل بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنَاءَ نَا“سي امام حسن اور امام حس ین مراد ہیں،”نِسَاءَ نَا “سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“ سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔

روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

۳۰

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوت اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔

عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتون جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمة الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمال اطمینان اور ایمان راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذاب خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔

اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔

۳۱

اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

(ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِ هِ الاٰ یَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ) دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ عَلِیاً وَفَاطِمةَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلهُمَّ هٰولاءِ اَهْلِیْ

جس وقت یہ آیت( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں“۔

(ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں:

قَالَ جَابِرُ: فِیْهِمْ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآ یَةُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰه وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنَاءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسَاءَ نَا“ فَاطِمَةُ

جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔

جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَا سے رسول خدااور عل ی علیہ السلام اوراَبْنَآءَ نَا سي حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَنِسَآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔

۳۲

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۱۲،صفحہ۸۰ اور اشاعت دوم، جلد۸،صفحہ۸۵۔

۲۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۳۷۱ ، البدایہ والنہایہ ،جلد۷،ص۳۴۰،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۳۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۲،صفحہ۴۳اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۹۔

۴۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب۳۲،صفحہ۱۴۲۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام، حدیث۳۱۰،صفحہ۲۶۳اور۳۱۸۔

۶۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد۱،صفحہ۱۲۵، اشاعت اوّل۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، باب مناقب، ص۲۷۵،حدیث۱۰،ص۲۹۱

۸۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۱،صفحہ۳۶، اشاعت دوم، صفحہ۱۹۳۔

۹۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۵۰(اشاعت حیدرآباد)۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۱،صفحہ۱۶۳۔

۱۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد۲،صفحہ۲۳، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص ۲۹۷

۱۳۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد۱،صفحہ۱۸۵،اشاعت مصر۔

۱۴۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد۳،صفحہ۱۹۲۔

۱۵۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ۷۴(اشاعت انڈیا)۔

۱۶۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد۳،صفحہ۱۶۷،اشاعت مصر۔

۱۷۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد۳،صفحہ۱۰۴، اشاعت مصر۱۹۳۶۔

۱۸۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج۲،ص۵۰۲، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔

۳۳

بارہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمان کامل اورعمل صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا )

”بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے، عنقریب خدائے رحمٰن اُن کیلئے ایک محبت قرار دے گا“۔(سورئہ مریم:آیت۹۶)

تشریح

اس آیت میں دو نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:

(ا)۔ یہ آیہ شر یفہ ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا اثر پوری کائنات پر

چمکتا ہے اور نتیجتاً اُس کی محبوبیت کی شعاعیں تمام مخلوق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہیں اور وہ ذات اقدس ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو دوست رکھتی ہے اور اُن کو تمام مخلوقات کا بھی محبوب بنادیتی ہے۔

(ب)۔ اگرچہ ہر فرد ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجالانے پر اس منزل کو پاسکتا ہے لیکن

اہل سنت اور شیعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سب سے پہلے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ حقیقت میں تمام اصحاب رسول میں سب سے پہلے جو ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں عنایات خداوندی کا مستحق ٹھہرا اور جس کی محبت تمام توحید پرستوں کے دلوں میں ڈال دی گئی، وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔

اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَولهِ تعالٰی ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: اَلْمُحَبَّةُ فِی صُدُوْرِ المُومِنِینَ نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابن عباس ے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) کے بارے میں فرمایا کہ خدا محبت کو مومنوں کے دلوں میں جگا دیتا ہے اور یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے(اور یہ اس بات کو بیان کرتی ہے کہ خدا نے محبت علی علیہ السلام مومنوں کے دلوں میں ڈال دی ہے)۔

۳۴

(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں براء بن عاذب سے اس طرح نقل کرتے ہیں:

قَالَ رسول اللّٰه لعلی ابن ابی طالب:یَا عَلِیُّ وَ قُل، اَلّٰلهُمَّ اجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَهْداً وَاجْعَلْ لِی فِی صُدُوْرِ الْمُومِنِیْنَ مَوَدَّة، فَانْزَلَ اللّٰهُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِی

”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرمایا:’کہو ، اے میرے اللہ! میرے لئے اپنی دوستی(محبت) قرار دے اور میرے لئے مومنوں کے دلوں میں محبت ڈال دے‘۔ اُس وقت یہ آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) نازل هوئ ی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کیلئے نازل ہوئی ہے“۔

(ج)۔ حافظ حسکانی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں اس آیت کے ضمن میں ابن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:”میں نے امیر المومنین سے پوچھا کہ اس آیت( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟“

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کسی مردوزن مومن کو نہیں پاؤ گے جس کے دل میں علی اور اُن کی آل کی محبت نہ ہو(یعنی ایمان کی اہم ترین شرط علی اور اُن کی پاک آل سے محبت ہے)“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۴،صفحہ۲۸۷اور اشاعت دوم،صفحہ۳۱۵۔

۲۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب اوّل من یحبُ علیاً او یبغضہ، جلد۹،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث ۵۰۲،جلد۱،صفحہ۳۶۵۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چودہواں باب، جلد۱،صفحہ۷۹۔

۵۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد۳،صفحہ۴۷۔

۳۵

۶۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۴،صفحہ۳۲۷،اشاعت اوّل۔

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۹۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۵۰اور۳۶۳۔

۹۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد۳،صفحہ۱۷۲(ترجمہ عبداللہ بن عباس)۔

۱۰۔ ثعلبی اپنی تفسیر کشف البیان ، جلد۲،صفحہ۴۔

تیرہویں آیت

علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں

( یٰاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَ قَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) ”اے ایمان لانے والو! جب تم رسول سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنے اس تخلیہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ، تمہارے لئے بہتر(بھی) ہے اور زیادہ پاک کرنے والا(بھی)پھر تم کو اگر یہ میسر نہ ہو تو ضرور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔(سورئہ مجادلہ:آیت۱۳)۔

تشریح

اس سے پہلے کہ اس آیہ شریفہ سے متعلق روایات نقل کی جائیں، مناسب ہوگا کہ مرحوم علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اپنی معروف کتب میں اس آیت کے شان نزول میں جو ذکر کیا ہے، اُس پر توجہ فرمائیں۔

عرب کے تقریباً سبھی اُمراء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ سے رازونیاز کی باتیں آپ کے کان میں کرتے تھے( اس عمل سے نہ صرف پیغمبر اسلام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ غرباء کیلئے باعث تشویش بنتا جارہا تھا یعنی اُمراء اس کو اپنا حق تصور کرنے لگے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اور اس کے بعد والی آیت کو نازل فرمایا اور حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے کان میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دیا جائے اور اسے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔ جب اُمراء، اغنیاء اور سرداروں نے یہ حکم سنا تو سرگوشی کرنے سے پرہیز کرنے لگے تو اس آیت کے بعد والی آیت نازل ہوئی(جس میں بخل کرنے پر اُن کی مذمت کی گئی اور کچھ رعایت دی گئی) اور سرگوشی کرنے کی اجازت سب کو دے دی گئی۔

۳۶

اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے جو روایات نقل کی ہیں، اُن کی بناء پر تو صرف اور صرف علی نے اس آیت پر بڑی شائستگی کے ساتھ عمل کیا اور وہی اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْهِ السَّلَام: آ یَةٌ مِّن کِتَابِ اللّٰهِ لَمْ یَعْمَلْ بِهٰا اَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَعْمَلْ بِهَا اَحَدٌ بَعْدِیْ، کَانَ لِیْ دِیْنَارٌ فَصَرَفْتُهُ بِعَشْرَةِ دَرٰاهِمَ فَکُنْتُ اِذَاجِعْتُ اِلَی النَّبِیْ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ تَصَدَّقْتُ بِدِرْهَمٍ

”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن میں یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہی کسی نے بعد میں عمل کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جس کو میں نے دس درہموں میں تبدیل کیا اور جب بھی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی راز کی بات کرتا تو میں اس سے قبل ایک درہم صدقہ دے دیتا“۔

(ب)۔عَنْ اِبْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ فی قَولِهِ تَعٰالٰی ( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم ) قَالَ: اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ کَلٰامَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلّٰی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ و(اصحابُ رسولِ اللّٰه)بَخِلُوْا اَنْ یَّتَصَدِّ قُوْا قَبْلَ کَلامِه قَال:وَتَصَدَّقَ عَلَیٌّ وَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ اَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَیْرُه ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت یعنی

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْهَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم )

میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ساتھ سرگوشی کو حرام قراردیاہے مگر یہ کہ جو چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اصحاب نے اس ضمن میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دینے میں بخل سے کام لیا اور صرف علی علیہ السلام نے صدقہ دیا اور اس کام کو سوائے علی علیہ السلام کے کسی دوسرے مسلمان نے انجام نہ دیا۔

۳۷

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں،جلد۲۹،صفحہ۲۷۱۔

۲۔ سیوطی الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۸۵اور اشاعت دوم صفحہ۲۰۵اور حدیث۲۵،کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۲۸، اشاعت اوّل۔

۳۔ حافظ حسکانی، حدیث۹۴۹، شواہد التنزیل جلد۲،صفحہ۲۳۱،۳۴۳، اشاعت اوّل۔

۴۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد۴،صفحہ۳۲۶۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں باب”کتاب التفسیر“جلد۲،صفحہ۴۸۲۔

۶۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین ، حدیث۳۷۲،۳۷۲،صفحہ۳۲۵،اشاعت اوّل۔

۷۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۶،جلد۱،صفحہ۳۵۸،اشاعت بیروت۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۸،باب۲۹،صفحہ۱۳۵۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، باب۲۷،صفحہ۱۲۷۔

۱۰۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۴۷۶۔

۱۱۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ۳۰۸، اشاعت اوّل۔

۱۲۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔

چودہویں آیت

علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ساری مخلوق سے بہتروہی لوگ ہیں“۔(سورئہ بیّنہ:آیت۷)

۳۸

تشریح

یہ آیت نہایت پُرمعنی اور عظمت والی ہے اورعلی علیہ السلام اور اُن کے حقیقی ماننے والوں کے مدارج و مراتب کو بیان کرتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہم مختلف روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس ضمن میں بیان کی ہیں، کی طرف رجوع کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔ حافظ حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں:

عَنْ ابنِ عباس رضی اللّٰه عنه قال: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِه الآیةُ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لِعَلِیٍّ علیه السَّلام هُمْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ تَاتِی اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَومَ القِیٰامَةِ رٰاضِیِّیْنَ مَرْضِیِّیْنَ وَیَاتِی عَدُ وُّ کَ غِضْبَاناً مُقْمِحِیْنَ

”ابن عباس سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمنے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ ”یا علی !اس آیت سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز میدان محشر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ خدا تم سے اور تم خدا سے راضی ہوگے اور تمہارے دشمن پریشان حالت میں میدان محشر میں داخل ہوں گے“۔

(ب)۔ خوارزمی اس آیت کی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

عَنْ جابر قال:کُنَّاعِنْدَالنَّبِیْ صلی اللّٰه علیه وآله وسلَّم فَأَ قْبَلَ علی ابن ابی طالب علیه السلام فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه وآله وَسلَّم قَدْأَ تٰاکُمْ اَخِی ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَی الْکَعْبَةِ فَضَرَبَهٰابِیَدِه ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ قٰالَ اِنَّه اَوَّلُکُمْ اِیْمَاناً بِاللّٰهِ وَأَوْفٰاکُمْ بِعَهْدِاللّٰهِ تَعَالٰی وَاَقْوَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰهِ وَاَعْدَلُکُمْ فِی الرّعِیَةِ وَاَقْسَمُکُمْ بِالسَّوِیَّةِ وَاَعْضَمُکُمْ عِنْدَاللّٰهِ مَزِیَّةً

قَالَ جابر: وَفِی ذٰلِکَ الْوَقْتِ نَزَلَتْ فِیْهِ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) قَالَ وَکَانَ اصحٰابُ النَّبِی اِذَاَقْبَلَ عَلَیْهِمْ علیٌ قَالُوْ قَدْ جَاءَ خَیْرُ البَرِیَّةِ

۳۹

”جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ علی علیہ السلام ہماری طرف آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا بھائی تمہاری طرف آرہا ہے‘۔ پھر کعبہ کی طرف رخ مبارک کیا اور کعبہ کی دیوار پر ہاتھ لگا کر کہا:”مجھے اُس ہستی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے روز کامیاب ہیں‘۔ بعد میں فرمایا:’خدا کی قسم! وہ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والا ہے۔ خدا کے ساتھ عہد میں اُس کی وفا سب سے زیادہ ہے۔ خدا کے احکام کیلئے اُس کا قیام سب سے زیادہ ہے۔اُس کا عدل اپنی رعیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور تقسیم بیت المال میں اُس کی مساوات سب سے بڑھی ہوئی ہے اور اُس کا مقام نزد خدا سب سے بلند تر ہے“۔

جابر نے کہا:اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

رسول اکرم پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی علی علیہ السلام اصحاب پیغمبر کی طرف جاتے تو وہ کہتے کہ بہترین مخلوق خدا آرہے ہیں“۔

(ج)۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں درج ذیل روایت کو نقل کیا ہے:

عَنْ ابنِ مَرْدَوِیة، عَنْ علی علیه السلام قٰالَ:قٰالَ لِی رَسُوْل اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ أَ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللّٰهِ: ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (هم) أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَمَوْعِدی وَمَوْعِدُکُمُ الحَوْضُ اِذٰاجِعْتَ الْاُمَمَ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ ۔

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :پیغمبر اسلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا تم نے خدا کا یہ کلام

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ )

سنا ہے؟ ‘ پھر فرمایاکہ’وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تمہارا اور میرا مقام حوض کوثر ہے۔ جب اُمتوں کو حساب کیلئے بلایاجائے گا تو تم اس حالت میں آؤ گے کہ تمہاری پیشانی سفید ہوگی اور جانی پہچانی ہوگی“۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346