معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168000 / ڈاؤنلوڈ: 7623
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

1۔ فوجی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کا ایک عام ہتھکنڈا علنی اور ظاہری جنگ و مبارزہ ہے یعنی وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک او ران کے افراد پر فوجی حملہ اور ان کو قتل و غارت کر کے اپنے مقاصد تک پہنچیں۔

اس صورت میں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں کو شہید کردیں اور اسلامی ملک کے لئے نقصانات کا سبب بنیں، لیکن وہ اس طرح اپنے مقاصد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اور نہ صرف مسلمان راہ دین میں قتل ہونے سے نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے دین و اعتقاد میں اور زیادہ محکم و راسخ ہو جاتے ہیں۔ دینی مکتب فکر میں اس دنیا کی زندگی کا مقصد، برحق دینی اعتقادات او رعبادت و بندگی کے سائے میں انسان کا تکامل اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنا ہے کہ جس کی معراج کا جلوہ، راہ خدا میں شہادت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

دشمنوں کی اس اسٹراٹجی ( strategy ) اور لشکر کشی کے مقابلہ میں قرآن کا موقف بھی یہ ہے کہ:(وَ قَاتِلُوهُم حَتَّیٰ لاتَکُونَ فِتنَة وَ یَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ) 1 تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ بھی یہ ہے کہ:(هَل تَرَبَّصُونَ بِنَا ِلاَّ ِحْدَیٰ الحُسنَیَینِ وَ نَحنُ نَتَرَبَّصُ بِکُم أَن یُّصِیبَکُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِن عِندِهِ أَو بِأَیدِینَا فَتَرَبَّصُوا إنّا مَعَکُم مُتَرِبِّصُونَ) 2 (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ہمارے لئے دو نیکیوں (کامیابی اور شہادت) میں سے ایک کے علاوہ انتظار کر رہے ہو اور ہم تمھارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے تمھیں عذاب میں مبتلا کردے لہذا اب عذاب کا انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

(1) سورۂ انفال، آیت 39 ۔

(2)سورۂ توبہ، آیت 52 ۔

۱۴۱

2۔ ثقافتی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے دشمنوں کا دوسرا اہم ہتھکنڈا، ثقافتی اور فکری کام ہیں کہ ان میں سے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انھیں شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔

واضح ہے کہ جو ہتھکنڈے اور آلات و وسائل اس قسم کے حملہ میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ نیز اس کے طریقے اور نتائج فوجی حملہ سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن ترقی یافتہ اسلحوں کے ساتھ مسلمانوں کے جسم کوپاش پاش کرنے اور قتل و غارت کے لئے میدان میں آتا ہے تو دوسری قسم میں قلم اور بیان کے اسلحوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ ان کے افکار و عقائد کو گمراہ اور فاسد کردے۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن پوری سنگدلی کے ساتھ مسلمان سپاہیوں سے روبرو ہوتا ہے تو ثقافتی حملہ میں خوشروئی، دلسوزی اور خیر خواہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ اگر فوجی حملہ میں مسلمان واضح طور پر دشمن کو پہچانتے ہیں تو ثقافتی حملہ میں دشمن شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن زمین کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر او رنت نئے ترقی یافتہ جنگی اسلحوں کو استعمال کر کے کوشش کرتا ہے کہ خاکی جسموں کو نابود کردے تو ثقافتی حملہ میں اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شیطانی جال بچھا کر اور بے بنیاد شبہے پیش کرکے روحوں اور فکروں کو چھین لے اور انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں اپنے منافع کی طرف کھینچ لائے۔

۱۴۲

اگر فوجی حملہ میں دشمن طاقت رکھتا ہے کہ صرف چند مسلمان مجاہدین کو پست مادی دنیا سے خارج کردے تو ثقافتی حملہ میں شیاطین گھات میں بیٹھے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے عظیم سرمائے ان معصوم جوانوں کو، جو کہ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے، گمراہی اور بے دینی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں۔ اگرچہ دشمن اس دین ستیز ہتھکنڈے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور مسلمان قوم خصوصاً مسلمان تعلیم یافتہ جوانوں کا طبقہ، کہ جس نے فوجی حملوں میں بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی ہے، اس بات سے زیادہ ہوشیار ہے کہ دشمن کے فوجی میدان کو ثقافتی حملہ کے میدان میں بدلنے سے غافل رہے، لیکن قرآن کریم نے ثقافتی حملہ کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کے عظیم خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے آثار و نتائج کے ناقابل تلافی ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کر کے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام قوتوں کے ساتھ دین اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں۔

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ

چونکہ فوجی حملہ کے برخلاف ثقافتی حملہ کے برے نتائج و خطرات لوگوں کے دینی افکار و اعتقادات کو متأثر کرتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نیز انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے، لہذا قرآن بھی حد سے زیادہ حساسیت کے ساتھ اسے قابل توجہ قرار دیکر اس سے ہوشیار کرتا ہے۔

مسلمان اہل فہم و بصیرت پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری جنگ اور فوجی فتنہ کے محاذ پر شکست کے آثار و نتائج، بہ نسبت ثقافتی حملہ سے غفلت کے آثار و نتائج کے بہت کم ہیں، اس لئے کہ فوجی حملہ میں مسلمانوں کی چند دنوں کی زندگی معرض خطر میں پڑتی ہے لیکن ثقافتی فتنہ اور حملہ میں دین و عقائد او رمسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نہایت خطرے سے دو چار ہوجاتی ہے۔

۱۴۳

اسی وجہ سے قرآن نے بھی ''دین میں فتنہ اور ثقافتی حملہ'' کو فوجی چڑھائی سے زیادہ بڑا سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے غفلت کرنے سے ڈرایا ہے اور فوجی جنگ اور فتنہ کی اہمیت اور اس کے خطرے کو ثقافتی حملہ کے مقابلہ میں کم سمجھا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ اقْتُلُوهُم حَیثُ ثَقِفتُمُوهُم وَ أَخرِجُوهُم مِن حَیثُ أَخرَجُوکُم وَ الفِتنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ) 1 اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باہر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مخالفین، صدر اسلام اور آیات قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ تر جنگ کے میدانوں میں ظاہری مقابلوں اور فوجی حملوں کے ساتھ اس بات کے درپے تھے کہ اسلام اور مسلمین کو نابود کردیں، لیکن ان سب کے باوجود قرآن کی حساسیت اور تشویش دینی اور ثقافتی فتنہ کے خطرے کے متعلق فوجی حملے کے خطرے سے زیادہ ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(وَالفِتنَةُ أکبَرُ مِنَ القَتلِ) 2 فتنہ (فکر شرک) اور اس کا

گناہ فوجی حملہ اور قتل و غارت سے زیادہ خطرناک ہے کہ ثقافتی فتنہ کے زیادہ خطرناک ہونے کی دلیل اس سے پہلے واضح طور سے بیان کی گئی۔

(1)سورۂ بقرہ، آیت 191 ۔

(2)سورۂ بقرہ، آیت 217 ۔

۱۴۴

شرک نئے بھیس میں

عقیدۂ شرک نے عقیدۂ توحید کے مقابلہ میں ہمیشہ پوری تاریخ میں بعض بشر کے افکار کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی بندگی قبول کرنے اور خالق کائنات کے سامنے تسلیم سے روگردانی کی ہے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے دین حق قبول کرنے سے ناخوش ہوکر مختلف طریقوں سے اس سے روکتے رہے ہیں۔

واضح بات ہے کہ عقیدۂ شرک کے طرفدار ہر زمانے میں اس زمانے کے افکار کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر تے ہیں اور مناسب ہتھکنڈے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا صدر اسلام میں اس لحاظ سے کہ عقیدۂ شرک بت پرستی کی شکل میں ظاہر تھا، شرک کے سرغنے اور جو لوگ بندگی ِخدا اوردین حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے وہ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی تبلیغ کرتے تھے اور انسانوں کو وحدانیت قبول کرنے سے روکتے تھے۔ ان کارستانیوں کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ دین اور توحیدی ثقافت و مکتب فکر کی حاکمیت کی صورت میں ان کے نفسانی خواہشات پورا کرنے کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔

آج بھی عقیدۂ شرک کی تبلیغ ماڈرن طریقے سے اور علمی نظریہ کی صورت میں مختلف مجامع میں کی جا رہی ہے۔ اگر صدر اسلام میں صرف بتوں اور معبودوں کی پوجا کی جاتی تھی اور دنیا پرست انسان لوگوں کے افکار کو بے حس کرنے کے لئے ان کی تبلیغ کرتے تھے، تو آج عقیدۂ شرک کے طرفدار اس کوشش میں ہیں کہ انسانوں کی تعداد کے برابر خیالی بت تراش کر انسانوں کی فکر و عقل کو خداوند متعال سے پھیر کر شیطانی اوہام، خیالات او روسوسوں کی طرف موڑ دیں۔

۱۴۵

ہم دیکھتے ہیں کہ ''سیدھے راستوں اور دین کی مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کا بھی یہی حال ہے، جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے، اس نظریہ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص جوبات بھی خدا اور دین کے متعلق دینی کتابوں سے سمجھے اسی کو اسے چاہئے کہ اپنے اعتقاد و عمل کی بنیاد قرار دے، کیونکہ وہی حق اور عین واقعیت ہے۔

اس بنا پر انسانوں کی تعداد اور خدا و دین کے متعلق ان کی مختلف فکروں کے اعتبار سے بہت سے فردی اور خصوصی خدا اور ادیان بن جاتے ہیں۔

واضح ہے کہ یہ بات روح توحید سے جو کہ ''لا الہ الا اللہ'' کے نعرہ میں جلوہ گر ہے، تضاد رکھتی ہے اور بالکل اس کے مقابلہ میں قرار پاتی ہے۔

بہرحال چونکہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ حساس موضوع یعنی توحید و شرک کا مسئلہ، کہ اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اسی سے تعلق رکھتی ہے، درمیان میں ہے، ضروری ہے کہ انسان اپنے عقائد و افکار پر نظر ثانی اور غور و فکر کرے، اپنے عقائد و افکار کو قرآن اور اہلبیت کے علوم کی کسوٹی پر پرکھے اور ہوا و ہوس سے دور رہ کر منطق و عقل سلیم کے ساتھ اپنے عقائد و افکار کی اصلاح کرے او رخود کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے نجات دے۔

البتہ خود شکنی اور ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم نے اسے جہاد اکبر سمجھا ہے، خصوصاً اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ شیاطین اور دشمنان توحید و اسلام اس کی تشویق کریں اور اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد تک پہنچنے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے ایک عالمی شخصیت بنانے کا لالچ دیں۔

اگر چہ ایسی حالت میں انسان کا سنبھل جانا او رجہاد اکبر کے میدان میں قدم رکھنا نیز شیاطین اور د شمنان اسلام کے وعدوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا ایک انوکھا اور معجزنما کام ہے لیکن ناممکن نہیںہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم نہیں ہیں جو کہ ایک لحظہ میں سنبھل گئے اور اپنے کو نفسانی خواہشات اور جنی اور انسی شیطانوں کے جال سے چھڑا کر ہلاکت سے نجات حاصل کرلی اور توحید کی آغوش میں واپس آگئے۔

۱۴۶

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر کے دشمن تھے، وہ پیغمبر کے زمانۂ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم کی مخالفت اور لوگوں کو ائمۂ معصومین (ع) کی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے:(أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ هُم لایُفتَنُونَ) 1 کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی ـ قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر کا ارشاد بیان فرمائیے۔

(1) سورۂ عنکبوت، آیت 2 ۔

۱۴۷

حضرت نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیۂ کریمہ(أَحَسِبَ النَّاسُ...) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی ـ اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

۱۴۸

پھر پیغمبر امیر المومنین سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام حضرت علی ـ کو حضرت کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

''یَاعَلِیُّ! إنّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِهِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِم عَلٰی رَبِّهِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَهُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَهُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبهَاتِ الْکَاذِبَةِ وَ الأَهوَائِ السَّاهِیَةِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالهَدِیَّةِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ''1

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

(1) بحار الانوار، ج32، ص 241 ۔

۱۴۹

1۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

۱۵۰

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے:(فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ) 1 اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

2۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

(1) سورۂ بقرہ، آیت 279 ۔

۱۵۱

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم کو خطاب کر کے فرماتا ہے:(یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن هَدَاکُم لِلاِیمَانِ) 1 یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

(1) سورۂ حجرات، آیت 17 ۔

۱۵۲

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم ایسا جذبہ رکھنے کو ''دین میں فتنہ'' سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

۱۵۳

3۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر نے اسے حضرت علی ـ سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی ـ کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

۱۵۴

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانۂ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ''دین میں فتنہ'' کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

۱۵۵

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ''اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ'' جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

۱۵۶

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی ـ کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی ـ کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

۱۵۷

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی ـ ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِهِ'' 1 قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی ـ جواب دیتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ'' 2 یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی ـ کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

۱۵۸

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

(1) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

۱۵۹

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ وَ أََضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ'' 1 وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

''وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ'' 2 اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

''قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِهِ'' 3 یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

(3)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

۱۶۰

 نتیجۂ بحث

 ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کے دشمنوں نے دوسرے حربوں کے علاوہ دو بنیادی حربوں سے اسلام کی مخالفت کی  اور انہوں نے یہ سوچا کہ فرقہ سازی اور حقائق کو چھپانے سے اسلام کو شکست دے دیں گے لیکن ان کے یہ بے بنیاد خیالات  نقش بر آب ہوئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو نابود نہ کر سکے بلکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی کوششوں سے اسلام کا پرچم ہمیشہ سربلند رہا اور آخر کار تمام مذاہب اور انسانی مکاتب نابود ہو جائیں گے اور دنیا پر صرف مکتب پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت ہو گی۔

 جی ہاں!لوگوں کے لئے قرآن، پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے توسط سے پیشنگوئیوں کو چھپانے کا جبران کر دیا ہے۔

 اگرچہ دشمن بہت سے مسلمانوں کو امویوں کی آغوش میں جگہ دینے اور انہیں اسلام کی حقیقت سے دور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بنی امیہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کریم ، پیغمبر خدا(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئیبے شمار مسلمانوں کو نجات دی ہے اور انہیں بنی امیہ کی غاصبانہ حکومت  اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفوں سے آگاہ کیا ہے۔

 ان  پیشنگوئیوں سے آگاہی کے لئے اب ہم انہیں بیان کرتے ہیں کہ جنہیں اہلسنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے  تاکہ محترم قارئین یہ جان سکیں کہ اسلام کے دشمنوں نے حقائق کو چھپانے میں شکست کھائی ہے اوران کے لئے اموی حکومت کا غاصبانہ ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔

 کیونکہ یہ پیشنگوئیاں بہت زیادہ تھیں لہذا ہم نے ان میں سے کچھ کو کتاب کے ایک مستقل باب میں ذکر کیا ہے۔

۱۶۱

 پانچواں باب

پیشنگوئیاں

    ۰۱) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    ۰۲) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

    ۰۳) حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    ۰۴) پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

    ۰۵) بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

    ۰۶) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۰۷) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

    ۰۸) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    ۰۹) بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۱۰) بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

    ۱۱) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    ۱۲) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    ۱۳) حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا

    ۱۴) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

    ۱۵) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۱۶) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

۱۶۲

    ۱۷) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    ۱۸) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    ۱۹) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    ۲۰) عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۲۱) معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۲۲) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

    ۲۳) ''الغارات''کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۲۴) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    ۲۵) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    ۲۶) ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۲۷) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۲۸) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

    ۲۹) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

    ۳۰) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

    ۳۱) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

    ۳۲) رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے وقت صحابہ و تابعین کے حالات

    ۳۳) جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات

    ۳۴) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

۱۶۳

    ۳۵) جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت

    ۳۶) جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت

    ۳۷) اس روایت میں اہم نکات

    ۳۸) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۳۹) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    ۴۰) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    ۴۱) ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    ۴۲) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

    ۴۳) رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

    ۴۴) مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    ۴۵) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

    ۴۶) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۴۷) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    ۴۸) مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

    ۴۹) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

    ۵۰) عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    ۵۱) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

۱۶۴

    ۵۲) محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    ۵۳) سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    ۵۴) کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۵۵) کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۵۶) پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

    ۵۷) ۱- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    ۵۸) ۲- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

۱۶۵

 بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

 قرآن مجید میں پروردگار عالم کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں پیشنگوئی لوگوں کوبنی امیہ  کے طرز حکومت اوران کے غیر اسلامی کردار و رفتار سے آشنا کروانے کے لئے ہے کہ جس میں  تمام اہلسنت اور بالخصوص نوجوانوں  کے لئے بہت بڑا درس ہے  تاکہ وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفین  کا نہ صرف حکومت الٰہی پر کوئی حق نہیں ہیبلکہ وہ اس حکومت کے غاصب ہیں، اور ان میں نہ صرف یہ کہ الٰہی حکام کی صفات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے الٰہی حکومت کو اس کے حقیقی حاکموں سے غصب کرکے خدا کے خلیفہ کے عنوان سے مسلمان کی گردن پر سوار ہو گئے۔جہاں تک ہو سکا انہوں نے نور الٰہی کو بجھانے اور دین کے احکامات کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان سب کے باوجود قرآن کریم اور پیغمبر عظیم(ص) کی پیشنگوئیوں نے اس زمانے میں بھی بے شمار لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور اس زمانے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف ہدایت کی۔

 جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشادات نے اس زمانے کے بہت سے لوگوں  کو آگاہ  کیا تا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے عقائد سے دستبردار ہو جائیں ،اسی طرح اس زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں غور فکر کرکے راہ حق کو پہچان کر اسی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

 اس طرح کی آیات و روایات سے آشنا ہونے کے لئے ان موارد پر توجہ کریں:

۱۔ ترمذی نے یہ روایت سورۂ قدر کے باب (باب۸۵) میں یوسف بن سعید سے نقل کی ہے:

 جب لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی تو اس کے بعد ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:تم نے مؤمنینروسیاہ کر دیا!یا کہا:اے مؤمنوں کو روسیاہ  کرنے والے!

 آنحضرت نے اس سے فرمایا:

 میری مذمت نہ کرو،خداوند تم پر رحمت کرے ؛کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بیٹھے ہیں۔

۱۶۶

 آنحضرت اس واقعہ سے پریشان ہوئے ،پس یہ آیت نازل ہوئی:

 (اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) (۱) یعنی جنت میں ایک نہر۔

(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) (۲)

 بیشک ہم نے قراان کو شب قدر میں نازل کیا.اور آپ کیا جانیں کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے.  شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اس میں فرشتے اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں.اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

 اے محمد !بنی امیہ اس کے مالک بن جائیں گے!

 قاسم کہتے ہیں:میں نے بنی امیہ کی حکومت کو شمار کیا جس کے ہزار مہینہ تھے نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔(۳)

۲۔ سیوطی نے کہا ہے:خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

رسول خدا(ص) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا  تو اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  پس خداوند کریم نے ان پر وحی کی کہ یہ ایک حکومت ہے جو انہیں ملے گی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) خطیب نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: رسول خدا(ص) نے فرمایا:

--------------

[۱]۔ سورۂ کوثر، آیت:۱

[۲]۔ سورۂ قدر،آیت: ۵ -۱

[۳]۔ الدر المنثور: ج۶ص۳۷۱

۱۶۷

میں نے دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،یہ واقعہ میرے لئے بہت ناگوار تھا۔خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

۳۔ ابن اثیر کہتا ہے: جب (امام)حسن (علیہ السلام) واپس کوفہ گئے تو ایک شخص نے ان سے کہا:اے مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے!(امام) حسن (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: میری سرزنش نہ کرو؛کیونکہ رسول اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ایک

ایک کر کے ان کے منبر پر چڑھ رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  خداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) ''ہم نے تمہیں کوثر عطا کی''جوجنت میں ایک نہرہے۔

 اور یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )

 بنی امیہ تمہارے بعد اس کے مالک بن جائیں گے۔

طبری نے بھی ''تاریخ طبری: ۵۸۱۰'' میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور سیوطی نے بھی ''تاریخ  خلفائ:۲۵''میں اسے ترمذی سے نقل کیا ہے ۔ حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میںاور ابن جریر نے  اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(۱)

  بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

قرآن کریم میں بنی امیہ کو شجر ملعونہ سے تعبیر کیاگیا ہے اور ابن ابی الحدید کے مطابق مؤرخین و محدثین عبداللہ بن عباس (پیغمبر اکرم(ص) کے چچا زاد بھائی) سے نقل کرتے ہیں: ایک رات پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بندروں کا ایک گروہ آپ کے منبر کے اوپر چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے ۔ اس خواب کے بعد آنحضرت بہت پریشان ہوئے ۔گویا اس خواب سے آپ مطمئن نہیں تھے یہاں تک آنحضرت پر سورہ قدر نازل ہوا جوپیغمبر (ص) کے لئے سکون کا باعث بنا۔

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۲۵

۱۶۸

 مفسرین قرآن کی تفسیر کی بناپر درج ذیل آیۂ مبارکہ رسول اکرم(ص) کے اس خواب کی طرف  اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا:

(وَاِذْ قُلْنٰالَکَ اِنَّ رَبَّکَ أَحٰاطَ بِالنّٰاسِ وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمٰا یَزِیْدُهُمْ اِلاّٰ طُغْیٰاناً کَبِیْراً) (۱)

     اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔(۲)

 پیغمبر اکرم(ص) اس خواب کے بعد بہت زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ بعض کہتے ہیں:اس کے بعد تا وقتِ آخر تک رسول خدا(ص) کے لبوں  پر مسکراہٹ نہیں آئی۔

 اس آیت میں شجر ملعونہ (وہی بنی امیہ کے حکمران)کی طرف واضح اشارہ ہوا ہے۔

۴۱   ھ میں معاویہ کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سفیان بن ابی لیلیٰ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:اے مؤمنو کو رسوا کرنے والے تم پر سلام ہو!

حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:بیٹھو، خدا تم پر رحمت کرے؛ پیغمبر اکرم(ص) پر بنی امیہ کی بادشاہی واضح ہو گئی تھی اور آپ نے خواب میں یوں دیکھا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک آپ کے منبر پر جا رہے ہیں۔اس کام سے رسول خدا(ص) بہت پریشان ہوئے اور خدا نے اس بارے میں قران کریم کی کچھ آیات نازل فرمائیں اور پیغمبر(ص) سے یوں خطاب ہوا:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے....''۔

--------------

[۱]۔ سورۂ اسراء، آیت:۶۰

[۲] ۔ اس آیۂ شریفہ میں ایک بہت خوبصورت تلمیح استعمال ہوئی ہے اور وہ ''یزید ''کا نام ہے اور یہ موضوع کہ بہت بڑا ظالم و سرکش ہے

۱۶۹

میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام (ان پر خدا کی رحمت ہو) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

 جلد ہی امت کی خلافت موٹی گردن اور موٹے پیٹ والا شخص سنبھالے گا۔

 میں نے پوچھا :وہ کون ہے؟

 فرمایا:وہ معاویہ ہے۔

 میرے بابا نے مجھ سے فرمایا:قرآن نے بنی امیہ کی حکمرانی اور اس کی مدت کی خبر دی ہے اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے'' اور پھر فرمایا:یہ ہزار مہینے بنی امیہ کی مدت حکومت ہے۔(۱)

 اس روایت میں ایک اور پیشنگوئی بھی ہوئی ہے کہ جو اس کی صحت پر دوسری دلیل ہے اور وہ یہ کہ:بنی امیہ کی مدت ہزار ماہ تک ہو گی اور اس مدت کے دوران خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام اور تمام لوگوں پر کیسے کیسے مظالم کئے جائیں گے۔

 اہلسنت کے معروف علماء نے متعدد روایات میں بنی امیہ کے فتنہ کے بارے میں قرآن کی کچھ آیات نقل کی ہیں کہ جو ان سب لوگوں کے لئے عبرت کا وسیلہ ہونی چاہئیں کہ جو معاویہ اور تمام بنی امیہ کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔

 ان روایات مں بنی امیہ کو کفر کے امام اور دین کے دشمنوں کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس بناء پر اہل تسنن میں ایسا گروہ کہ جومعاویہ کو مسلمان اور رسول خدا(ص) کا خلیفہ سمجھتا ہے !وہ اپنے عقیدے میں تجدید نظر کریں اور اپنے دل سے ان کی محبت کو نکال دیں ۔

 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود کو ملت اسلام کا جزء اور رسول خدا(ص) کی شریعت کا تابع شمار کرنے والے آنحضرت(ص) کے دشمنوں اور آنحضرت کے خاندان اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کا احترام کریں اور انہیں رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ سمجھیں؟!

 کیا جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں دیکھا ہے،تو کیا ان میں آنحضرت(ص) کے آئین کی قیادت و رہبری کرنے کی صلاحیت ہے؟!

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آیندہ:۳۰۲

۱۷۰

 ''تاریخ بغداد''میں خطیب بغدادی کہتے ہیں: رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

أریت بن اُمیّة فی صورة القردة و الخنازیر، یصعدون منبر، فشق ذلک فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں میرے منبر پر چڑھیں گے، یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''

 نیز کہا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 أریت بن اُمیّة یصعدونمنبر، فشق علّ فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ) (۱)

 مجھے بنی امیہ دکھلائیگئے کہ وہ میرے منبر پر چڑھیں گے اور یہ مجھ  پر سخت ناگوار گذرا پس یہ   آیت نازل ہوئی:''بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے''۔

سیوطی نے ''الدّر المنثور''میں نقل کیاہے:

 رأء رسول اللّٰه (ص) بن فلان ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک ، فما استجع ضاحکاًحتّی مات وأنزل اللّٰه: (وَمٰاجَعَلْنَا الرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) ۔

 رسول اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں۔پس آپ اس سے بہت پریشان ہوئے  اور اس واقعہ کے بعد کسی کے ساتھ نہیں مسکرائے یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے ۔خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔نیز سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:أریت بن امیّة علی منابر الأرض وسیتملّکونکم فتجدونهم أرباب سوء

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ زمین کے منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بہت جلد تمہارے مالک بن جائیں گے!اور پھرتم انہیں برے ارباب پاؤ گے۔

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۸، تاریخ بغداد:۴۴۹

۱۷۱

واهتمّ رسول اللّٰه (ص) لذلک: فأنزل اللّٰه (وَمٰاجَعَلْنَاالرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (۱)

 پیغمبر اکرم (ص) اس واقعہ سے بہت پریشان و غضبناک ہوئے پس خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔

  حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

بنی امیہ  کی حکومت کے بارے میں نقل ہونے والی  پیشنگوئیوں میں سے کچھ پیشنگوئیاں ان سب کے بارے میں ہیں اور کچھ پیشنگوئیاں ان میں سے مخصوص افراد کے بارے میں ہیں۔جیسے ابوسفیان،حکم یا اس کے کسی بیٹے کے بارے میں وارد ہونے والی پیشنگوئیاں۔

 ہم اس بارے میں جو روایت ذکر کریں گے ،وہ روایت اہلسنت کے مشہور علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں۔

 سیوطی نے اپنی تفسیر میں  ابن ابی حاتم سے اور اس نے عمر کے بیٹے سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو اپنے منبر پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے، خداوند نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

 (وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ ) (۲)

 اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ''شجر ملعونہ''سے حکم اور اس کے بیٹے مراد ہیں۔

 نیز سیوطی نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ اس نے مروان بن حکم سے کہا:

 میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ وہ تمہارے باپ اور دادا سے فرما رہے تھے:

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۲۸، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[۲]۔ سورۂ اسراء،آیت:۶۰

۱۷۲

 انکم الشجرة الملعونة فی القرآن

 تم ہی وہ شجر ہو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔(۱)

 آلوسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

 رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابرکأٔنهم القردة، و أنزل اللّٰه تعالی فی ذلک: (وَمٰا جَعَلْنٰا....)، والشجرة الملعونة الحکم وولده

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندر وں کی طرح تھے۔خداوند نے اس بارے میں یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا..) نازل فرمائی ۔اور شجر ملعونہ حکم اور اس کے بیٹے ہیں۔(۲) قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:

 انه رأء فی المنام بن مروان علی منبره نزو القردة، فساء ذلک فقیل:انّما ه الدّنیا أعطوها، فسرّی عنه و ما کان له بمکّة منبر و لکنّه یجوز أن یری بمکّة رؤیا المنبر بالمدینة

 رسول اکرم(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی مروان آپ کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے تو آنحضرت سے کہا گیا کہ یہ دنیا ہے کہ جو انہیں دی جائے گی۔اس سے آپ کا غم ہلکا ہوا اور اس زمانے میں آنحضرت کا مکہ میں کوئی منبر نہیں تھا لیکن آپ نے مکہ میں عالم خواب میں وہی منبر دیکھا تھا کہ جو مدینہ میں تھا۔(۳)

شوکانی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابر کأنهم القردة ، فأنزل اللّٰه هذه الآیة میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے،پس  خدا نے  یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا...) نازل فرمائی ۔(۴)

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۲۸، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[۲]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۲۹،روح المعانی:ج۴ص۱۹۱

[۳]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۱،الجامع لأحکام القرآن:ج۱۰ص۲۸۳

[۴]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۱،فتح القدیر:ج۳ص۲۹۸

۱۷۳

 فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کی ہے:

 .... رأی رسول اللّٰه(ص)ف المنام انّ ولد مروان یتداولون منبره، فقصّ رؤیاه علی أبی بکر و عمر و قد خلا ف بیته معهما، فلمّا تفرّقوا سمع رسول اللّٰه (ص) الحکم یخبر رسول الله (ص)، فاشتدّ ذلک علیه و ممّا یؤکده هذا التأویل قول عایشه لمروان: لعن اللّٰه أباک و أنت ف صلبه، فأنت بعض من لعنه اللّٰه( ۱)

.... رسول خدا(ص) نے خواب میں دیکھا کہ مروان کے بیٹے آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں۔آپ نے اپنا خواب ابوبکر و عمر سے بیان کیا کہ جو پیغمبر(ص) کے گھر میں آپ کے ساتھ تنہا تھے ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول خدا(ص) نے سنا کہ حکم نے یہ واقعہ پیغمبر(ص) سے نقل کیا ہے ۔ یہ واقعہ آپ پر سخت ناگوار گذرا (کہ ان دو افراد نے آپ کا فرمان حکم تک پہنچا دیا) اس آیت کی تأویل پر جو چیز تاکید کرتی ہے وہ عائشہ کا مروان سے کہا گیا قول ہے کہ خداوند نے تمہارے باپ پر  لعنت کی ہے جب کہ تم اس کے صلب میں تھے پس تم پر بھی خدا کی لعنت ہے۔سیوطی نے بھی اس آیت کی تأویل میں یہ روایت دوسری عبارت میں نقل کی ہے:

....رأی  رسول اللّٰه (ص) بن الحکم بن أب یالعاص ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک، فما استجمع ضاحکاً حتّی مات و أنزل اللّٰه فی ذلک ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (۲)

 پیغمبراکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبروں پر حکم بن ابی العاص کے بیٹے بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آپ بہت پریشان ہوئے اور دنیاسے جاتے وقت تک کسی نے آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۱،جامع البیان:ج۹ص۱۱۲

[۲]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۳،اتاریخ الخلفاء:۲۶

۱۷۴

 زمخشری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تأویل کو دوسری طرح نقل کیا ہے:اس نے اس آیت مبارکہ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) کے بارے روایت کی ہے:

رأی فی المنام أنّ ولد الحکم یتداولون منبره کما یتداول الصبیان الکرّة ۔(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ حکم کے بیٹے آپ کے منبر پر اس طرح  کھیل رہے ہیں کہ جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

 پیشنگوئیاں مستقبل کے لوگوں کا رسول اکرم(ص) کے ساتھ ارتباط اور ان بزرگ ہستیوں کے صحیح عقائد سے آشنا ہونے کا ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کو درک نہیں کیا اور جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ کے ارشادات سے استفادہ کرنے سے محروم تھے اور ہیں،لیکن وہ مستقبل کے بارے میں آنحضرت کے بیان کئے گئے فرمودات کی طرف رجوع کرکے رسول خدا(ص) کی نظر میںآنے والے واقعات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ جان سکتے ہیں کہ جو واقعات آنحضرت کے زمانے کے بعد وقوع ہوئے یا وقع پذیر ہوں گے ،ان کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کیا فرمایا ہے۔

پیشنگوئیوں اور آئندہ کے حوادث کو بیان کرنے سے خاندان وحی علیہم السلام کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے لوگ اپنے زمانے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کریں اور ان کے مقابلے میں ہوشیار رہیں۔

 اگرچہ خاندان وحی علیہم السلام نے گذشتہ زمانے میں اپنے پاس موجود لوگوں سے اپنے فرامین بیان کئے لیکن ان کے فرامین ہر اس شخص کے  لئے ہیں کہ جنہوں نے ان حوادث کا سامنا کیا یاسامنا   کریں گے۔اسی طرح اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والے لوگوں کو گذشتہ تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان واقعات کے بارے میں رسول خدا(ص) اور دین خدا کے پیشواؤں کا کیا اعتقاد تھا۔

--------------

[۱]۔ معاویہ بن ابی سفیان:۳۴،الکشّاف:ج۲ص۶۷۶

۱۷۵

 اس بناء پر جس زمانے کے بارے میں بھی خاندان وحی علیہم السلام  نے کسی واقعہ کی پیشنگوئی کی ہو تو اس زمانے کے لوگوں (اور اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والوں)کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے تا کہ آنکھیں بند کرکے گمراہی کی طرف نہ چلے جائیں اور گمراہ کرنے والی سازشوںسے دھوکا نہ کھائیں۔

 پس خاندان وحی علیہم السلام کی زبان سے پیشنگوئیوں کو بیان کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ آئندہ آنے والے لوگ اپنے زمانے کے حوادث و واقعات سے آگاہ ہوں اور گمراہ کرنے والوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور گمراہی کی وادی میں قدم نہ رکھیں۔

 ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے سے منع کرنے کے اسباب وعلل میں سے ایک رسول اکرم(ص) کی احادیث میں پیشنگوئیوں کے انتشار کو روکنا تھا۔کیونکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کی وجہ سے لوگ آئندہ کے حالات اور جنم لینے والے فتنوں سے آگاہ ہورہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت سے افراد کی ہوشیاری اور بیداری کے لئے مؤثر تھیں۔

 رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں سے آگاہ افراد کے لئے یہ حقیقت واضح و روشن ہے اور سب لوگوں کو ان سے آگاہ ہونے کے لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سپہ سالار جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

 ہم آئندہ اس بارے میں بحث کریں گے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت کی پیشنگوئیوں نے کس طرح شام کے لشکر میں اختلافات پیدا کر دیئے اور ان میں سے کچھ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کیوں مل گئے حتی کہ پیشنگوئیوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان  اختلافات پیدا ہو گئے اور نزدیک تھا کہ اس کی وجہ سے شام کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔

۱۷۶

 بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

معاویہ، اس کی حکومت اور بنی امیہ کے پورے خاندان کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں یہ بنیادی نکتہ بیان کرتی ہیں کہ امویوں نے رسول خدا(ص) کے فرامین پر توجہ نہیں کی اور حکومت کی کرسی پر ٹیک لگا کر آنحضرت کے حقیقی جانشینوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔

مختلف پروپگنڈوں، جعلی اور من گھڑت افواہوں کے ذریعہ اکثر لوگوں (جو اسلام کے اصولوں سے آشنا نہیں تھے) کو دھوکا دیا اور خود کو رسول خدا(ص) کا حقیقی جانشین اور سچے خلفاء کےعنوان سےپیش کیا! رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں صرف ان لوگوں کی گمراہی کی واضح دلیل نہیں تھیں کہ جنہوں نے امویوں سے دل لگایا اور ان کے ساتھ مل کر دین کی کمر توڑی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ گمراہ کرنے والے اموی خاندان کی گمراہی کی بھی دلیل تھیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ تدوین حدیث کے بارے میں عمر کی ان تما م سختیوں اور ممانعت ( اس نے رسول خدا(ص) کے فرمودات کو پھیلانے سے منع کر دیا) کے باوجود لوگوں میں آئندہ کے منحوس حوادث کے بارے آنحضرت (ص) کی پیشنگوئیاں عام ہوئیں کہ جن سے صرف اس زمانے کے سیاستدان ہی نہیںبلکہ عام لوگ بھی آگاہ ہوئے۔ اس نکتہ کی یاد دہانی ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا تذکرہ صرف شیعہ بزرگ علماء نے ہی اپنی کتابوں میں نہیں کیا بلکہ اہلسنت  کے مؤرخین اور بزرگ علماء نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یوںلوگوں کا امویوں کے کردار و رفتار کو پہچاننے اور ان سے آشنا ہونے کے لئے حجت تمام ہوئی ہے۔

بنی امیہ کی حکومت کے بارےمیں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

پیغمبر اکرم(ص) نے بنی امیہ اور ان کے بعض افراد کے بارے میں کچھ پیشنگوئیاں کیں اور لوگوں کو اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور نفاق سے آگاہ کیا۔جناب ابوذر نے آنحضرت سے معاویہ کے بارے میں جو پیشنگوئی نقل کی،ہم ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق

۱۷۷

کچھ مطالب ذکر کریں گے ۔جب بھی ععاص کی اولاد کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو اس کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں۔اب ہم ان تیس افراد کے بارے میں یعقوبی(اہلسنت کے ایک مؤرخ) کی واضح عبارت سے آنحضرت کی پیشنگوئی بیان کرتے ہیں۔

     وہ کہتے ہیں: معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ تم نے ابوذر کے ذریعے اپنے لئے شام کو تباہ کر لیا۔

     پس اس کے لئے لکھا کہ اسے بے کجاوہ سواری پر سوار کرو۔

     اس طرح انہیں مدینہ لایا گیا جب کہ ان کے دونوں زانوں کا گوشت الگ ہو چکا تھا۔پس جب وہ آئے تو اس کے پاس ایک گروہ موجود تھا،اس نے کہا:مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم یہ کہتے ہو:میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے:

     اذا کملت بنو امیّة ثلاثین رجلاً اتّخذوا بلاد اللّٰه دولاًوعباد اللّٰه خولاً،و دین اللّٰه دغلاً

     جب بھی بنی امیہ کی تعداد تیس افراد تک پہنچ گئی تووہ خدا کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ خدا کے بندوں کو اپنا نوکر  اور خدا کے دین کومکاری و فساد سمجھیں گے۔

کہا: ہاں؛ میں نے پیغمبرخدا(ص) سے سنا تھا کہ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔

 پھر ان سے کہا:کیا تم لوگوں نے رسول خدا (ص) سے کچھ سنا ہے تو بیان کرو؟پھر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے پاس بھیجا اور آنحضرت اس کے پاس آئے۔

 ان سے کہا:اے ابوالحسن! کیا آپ نے پیغمبر خدا(ص) سے یہ حدیث سنی ہے کہ جسے ابوذر بیان کر  رہے ہیں؟اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیاگیا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

     اس نے کہا:آپ کس طرح گواہی دے رہے ہیں؟فرمایا:

     رسول خدا(ص) کے اس فرمان کی روشنی میں:

۱۷۸

     ''ما اظلّت الخضراء ولاأقلّت الغبراء ذا لهجة أصدق من ابی ذر'' (۱)

     آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو خود پر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

     پس ابوذر مدینہ میں کچھ دن تک ہی تھے کہ عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا کہ خدا کی قسم تم مدینہ سے باہر چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا تم مجھے حرم رسول خدا(ص) سے نکال رہے ہو؟

     کہا:ہاں؛جب کہ تم ذلیل وخوارہو!

     ابوذرنے کہا:میں مکہ چلا جاؤں ؟

     کہا :نہیں

     پھر کہا:کیا بصرہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں

 ابوذر نے کہا:پس پھر کوفہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں؛ لیکن ربذہ چلے جاؤ کہ جہاں سے آئے تھے تا کہ وہیں مر جاؤ۔اے مروان اسے باہر نکال دو اور کسی کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ دو یہاں تک کہ یہ یہاں سے باہر نکل جائے۔ پس ابوذر کو ان کی زوجہ اور بیٹی کے ساتھ اونٹ پر سوار کر کے باہر نکال دیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام،امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن جعفر اور عمار بن یاسر جناب ابوذر سے ملنے کے   لئے شہر سے باہرآئے اور جب ابوذر نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو آگے بڑے اور آپ کی دست بوسی کی اور پھر رونا شروع کر دیا اور کہا:میں جب بھی آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان یاد آ جاتا ہے اور رونے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

--------------

[۱]۔ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:۲۸۳

۱۷۹

 حضرت علی علیہ السلام ان سے بات کرنے  کے لئے گئے لیکن مروان نے کہا:امیر المؤمنین !نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ بات نہ کرے۔

 حضرت علی علیہ السلام نے تازیانہ اٹھایا اور مروان کے اونٹ پر مارا اور کہا:دور ہو جاؤ؛ خدا تمہیں آگ میں جلائے۔ اور پھر آپ نے جناب ابوذر کو الوداع کیا اور ان کے ساتھ گفتگو کی کہ جن کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔(۳)(۲)

 اس روایت میں پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی بناء پر جب بنی امیہ کے افراد کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ نہ صرف ممالک کو اپنا مال ،خدا کے بندوں کو اپنا نوکر و فرمانبردارسمجھیں گے بلکہ اصل دین کو مکاری و فساد قراد دیں گے۔اور یہ خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کے اسلام کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک ظاہری پہلو تھا۔سب لوگ جانتے ہیں کہ معاویہ نے خدا کے پاک بندے  اور رسول خدا(ص)کے محبوب صحابی جناب ابوزر کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

 زر بن حبیش کہتے ہیں:حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد یوں فرمایا:

اے لوگ!میں نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا اور ان کی آنکھیں کھول دیںاور سب پر حقیقت کو آشکار کر دیا۔میرے علاوہ کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ خود کو اس فتنہ میں داخل کرے اور یہ فتنہ جنم دینے والوں کے خلاف جنگ و جہاد کے لئے اٹھے۔

 (ابن ابی لیلیٰ کی حدیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:)میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا کہ جو فتنہ کی آنکھیں کھولے اور لوگوں کے لئے حقائق و واقعات آشکار کرے،اگر میں تم لوگوں میں نہ ہوتا تو کوئی بھی اہل جمل و نہروان کے ساتھ جنگ نہ کرتا۔

--------------

[۲]۔ نہج البلاغہ

[۳]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۶۷

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346