معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168130 / ڈاؤنلوڈ: 7632
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

معاویہ چاہتا تھا کہ توحید اور وحدانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ توحید کے بزرگ جانثار، کہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ہوگئے ،ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا او رناسزا کہے،.

سعدوقاص باطنی طور پر امام کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔ جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ہوئے سب لوگوںنے تہہ دل سے امیر المومنین کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا. سوائے چند افراد کے جنھوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھاکہ سعد وقاص بھی انھیں میں سے ایک تھا.جب عمار نے اسے حضرت علی کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا.عمار نے اس واقعے کو ا مام کی خدمت میں عرض کیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: حسد نے اس کو میری بیعت اور میرا ساتھ دینے سے روک دیا ہے۔

سعد ،امام علیہ السلام کا اتنا سخت مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل دینے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص او ر عبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اور عثمان کا بہنوئی، کو شوری کے عہدہ داروں میں قرار دیا. شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمر، شوری تشکیل دیکر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ہیں ، چاہتا ہے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یہی ہواکہ جس کی پیشنگوئی ہوئی تھی۔

سعد نے ،امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود جب دیکھا کہ معاویہ، علی ـ کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کر رہا ہے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

مجھے اپنے تخت پر بٹھاکر میرے سامنے علی کو برا کہتا ہے ؟ خدا کی قسم اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی تواس سے بہتر ہوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں میری ملکیت میں ہوتیں ۔

۱۔ جس دن پیغمبر نے مدینے میں اسے اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک پرچلے گئے اور علی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

۱۰۱

۲۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ تھا تو پیغمبر نے علی ، فاطمہ، حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا: پروردگارا یہی میرے اہلبیت ہیں۔

۳۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ''قموص'' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی صلاحیت نہ تھی، اور رسول اسلام کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے تاکہ فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ عَلَم کو لیتے اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے .ایک دن عَلَم کو ابوبکر کے ہاتھ میںدیا پھر دوسرے دن عمر کو دیا لیکن دونوں کسی شجاعت کا مظاہرہ کئے بغیر رسول خدا کی خدمت میں واپس آگئے. اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ،اس طرح کی ناکامی پیغمبر خدا کے لئے بہت سخت تھی، لہٰذا آپ نے فرمایا:

''کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ہوںگے اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا''

۱۰۲

جب پیغمبر کی بات کو حضرت علی سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا''اَلَلَّهُمَّ لٰامُعْطِیْ لِمٰا مَنَعْتَ وَ لٰامٰانِعَ لِمٰا اَعْطَیْتَ'' یعنی پروردگارا، جو کچھ عطاکرے گا اسے کوئی لینے والا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔

(سعد کا بیان ہے) جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتا ہے جب پیغمبر خیمے سے باہر آئے سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے میں (سعد)پیغمبر کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید ا س افتخار کا مصداق میں بن جاؤں، اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ہوجائے .اسی اثناء میںپیغمبر نے پوچھا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں. پیغمبر کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبر کی خدمت میں لائے. پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی اس وقت پیغمبر نے اپنی زرہ حضرت علی کو پہنایا،ذو الفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوںمیں دیااور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا، اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جز یہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں. اور اپنے مذہب پر باقی رہیں. اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ،اور جان لو کہ جب بھی خداوند عالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ہوں او رانھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔(۱)

سعد بن وقاص نے ان واقعات کو جن کو میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے مختصر طور پر بیان کیا اور احتجاج کے طور پر معاویہ کی مجلس ترک کری۔

______________________

(۱) صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۔ ۲۲، صحیح مسلم ج۷ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵، قاموس الرجال ج۴ ص ۳۱۴منقول از مروج الذہب

۱۰۳

خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی

اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے حضرت امیر المومنین کی جانثاریوں کے طفیل عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا. یہی وجہ ہے کہ امام کو ''فاتح خیبر'' کہتے ہیں. جب امام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا قلعہ کے پاس پہونچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا، اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاہی باہر چلے گئے. مرحب کا بھائی حارث نعرہ لگاتا ہوا حضرت علی کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاہی حضرت علی کے ہمراہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے او رحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی پر حملہ کیا لیکن کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔

بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی کے سامنے میدان میں آیا، وہ اسلحوں سے لیس تھا. لوہے کی بہترین زرہ اور پتھر کاخود اپنے سر پر رکھے تھا اورایک اور خود اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا، دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا. اسلام و یہودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ہوئی اور اس کو دو ٹکڑے کرتے

ہوئے زمین پر گرادیا. یہودی بہادرکا جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھا وہ بھاگ گیا اور وہ گروہ جو حضرت علی سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوںنے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ہوگئے۔

اب وہ وقت آپہونچا کہ امام قلعہ میں داخل ہوں مگر بند در وازہ امام اور سپاہیوں کے لئے مانع ہوا غیبی طاقت سے آپ نے باب خیبر کو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاہیوں کے داخل ہونے کے لئے راستہ ہموار کردیااور اس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شر یر اور خطرناک عناصر جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں رکھتے یا رکھے ہیں آسودہ کردیا۔(۱)

______________________

(۱) محدثین اور سیرت لکھنے والوں نے فتح خیبر کی خصوصیات اور امام کے قلعہ میں داخل ہونے اور اس واقعہ کے دوسرے حادثات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے دلچسپی اور تفصیلات کے خواہشمند افرادان کتابوں کی طرح مراجعہ کریں جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین ـ کی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت

ابھی ہم نے حضرت علی کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔

تمام افتخارات میں سے ایک افتخار امام کے لئے یہ بھی ہے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبر کے ساتھ ساتھ اور ہمیشہ لشکر کے علمبردار رہے سوائے جنگ تبوک کے ، کیونکہ آپ پیغمبر کے حکم سے مدینہ میں موجودتھے اور پیغمبر اسلام منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے .اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی سے فرمایا: تم میرے اہلبیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ہو. او رمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نہیں رکھتا۔

حضرت علی کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا، لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ افواہ اڑا دی کہ پیغمبراور حضرت علی کے درمیان کشیدگی ہے اور حضرت علی نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ہے۔

ابھی پیغمبر مدینے سے زیادہ دور نہیں ہوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی ـ

ان کی تہمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں پہونچے اور حضرت سے پورا ماجرا بیا ن کیا. پیغمبر نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے حضرت کو تسلی دی اور فرمایا:

۱۰۵

''اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی''

کیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱)

اس حدیث ، جسے دانشمندوں کی اصطلاح میں، حدیث ''منزلت'' کہتے ہیں،نے تمام وہ منصب جو ہارون کے پاس تھے حضرت علی کے لئے ثابت کردیا سوائے نبوت کے کیونکہ نبوت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ہے جسے محدثین اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے:۔

حضرت علی کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن وقاص نے بیان کیا ہے وہ پیغمبر کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ تھا، ان لوگوں نے پیغمبر سے مسیحیت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نہیں کیا لیکن مباہلہ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔

مباہلہ کا وقت آیا پیغمبر نے اپنے اعزاء میں سے صرف چار آدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی واقعے میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن و حسین کے کوئی اور نہ تھا. کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اورایمان میں محکم نہیں تھا۔

پیغمبر اسلام میدان مباہلہ میں عجب شان سے آئے اپنی آغوش میں امام حسین کو لئے ہوئے تھے، ایک ہاتھ سے امام حسن کی انگلیاں پکڑے تھے اور فاطمہ اور حضرت علی آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے وہاںپہونچنے سے پہلے اپنے ہمراہیوں سے کہا میں جب بھی دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۲ ص ۵۲۰، بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۰۷، مرحوم شرف الدین نے اپنی کتاب ''المراجعات'' میں اس حدیث کے تمام ماخذ کو ذکر کیا ہے۔

۱۰۶

پیغمبر کا نوارانی چہرہ اور چار افراد کا چہرہ جن میںتین آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں، نے ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبہوت ہوگئے عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگریہ بددعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ہوئے جہنم میں تبدیل ہو جائے اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے لہٰذا انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیااور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔

عائشہ کہتی ہیں:

مباہلہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چار ہمراہیوں کواپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّمٰا یُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

زمخشری کہتے ہیں:

مباہلہ کا واقعہ اور اس آیت کا مفہوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بڑے گواہ ہیں اور مذہب اسلام کی حقانیت پر ایک اہم سند اور زندہ مثال شمار ہوتے ہیں۔(۱)

______________________

(۱) کشاف ج۱ ص ۲۸۲۔ ۲۸۳، تفسیر امام رازی ج۲ ص ۴۷۱۔ ۴۷۲

۱۰۷

آٹھویں فصل

دشمنوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :'' علی ـ احکام خداوندی کے جاری کرنے میں بہت زیادہ غور و فکر اور سختی سے عمل کرتے تھے اور ہرگز ان کی زندگی میں چاپلوسی اور خوشامدی کا دخل نہیں تھا''

جو لوگ اپنی زندگی میں پاکیزہ مقصد کی تلاش میں رہتے ہیںوہ دن رات اس کی تلاش و جستجو کرتے رہتے ہیں، اور ان چیزوں کے مقابلے میں جو ان کے ہدف کی مخالف ہوں ان سے بے توجہ بھی نہیں رہتے ہیں. یہ لوگ ہدف تک پہونچنے میں جو راستہ طے کرتے ہیں اس میں بعض محبت و الفت کرنے والے ملتے ہیں تو بعض عداوت و دشمنی کرتے ہیں. پاک دل ا ور روشن ضمیر ان کی عدالت پختہ گیری پر فریفتہ ہوئے ہیں لیکن غافل اورغیر متدین افراد ان کی سختی اور عدالت سے ناراض ہوتے ہیں۔

وہ لوگ جو اچھے اور برے کام انجام دیتے ہیں اور مسلمان اور غیر مسلمان کوایک ہی صف میں رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی مخالفت مول لیں ایسے لوگ کبھی مذہبی اور بامقصد نہیں ہوسکتے کیونکہ تمام طبقوں کے ساتھ اتحاد و دوستی، منافقت اور دو رخی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے علاقہ کے حاکم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام طبقے کے لوگ اس سے راضی ہیں. امام نے فرمایا: لگتا ہے کہ وہ شخص عادل نہیں ہے کیونکہ تمام لوگوں کا راضی ہونا اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ وہ منافق اور صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں ہے ورنہ تمام لوگ اس سے راضی نہ ہوتے۔

امیر المومنین علیہ السلام ان لوگوں میں سے ان ہیں جو صلح و آشتی کرنے والوں سے مہر و محبت اور پاکیزہ و صاف دلوں کو بلندی عطا کرتے تھے اوراسی کے مقابلے میں غیظ و غضب کی آگ میں جلنے والوں اور قانون توڑنے والوںکو انھیں کے سینے میں ڈال دیاکرتے تھے۔

۱۰۸

امام عدالت کی رعایت اور کا اصول و قوانین پر سختی سے عمل کرنا صرف آپ کی حکومت کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اگرچہ بہت سے مؤرخین اور مقررین جب امام کی پاکیزگی اور عدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیںتو اکثر آپ کی حکومت کے دوران رونماہونے والے واقعات پر بھروسہ کرتے ہیں .کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی، مگر امام کا عدالت و انصاف اور قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونا رسول اسلام کے زمانے سے ہی ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، اس بنا پر وہ لوگ جو امام کی عدالت و انصاف کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے گاہے بہ گاہے پیغمبر سے حضرت علی کی شکایت کرتے تھے اور ہمیشہ پیغمبر اس کے برعکس کہتے تھے اورکہتے تھے علی قانون الہی کے اجراء میں کسی کی رعایت نہیں کرتا.

زمانہ پیغمبر میں آپ سے متعلق چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم یہاں بطور مثال دوواقعات کو نقل کر رہے ہیں:

۱۔ ۱۰ ھ میں جب پیغمبر اسلام نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ ''یمن'' بھیج دیا پیغمبر نے حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباہلہ کے دن دینے کا دعدہ کیاتھااسے اپنے ہمراہ لائیں اور اسے آپ کے پاس پہونچا دیں، آپ کو ماموریت انجام دینے کے بعد معلوم ہوا کہ پیغمبر خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں اس لئے آپ نے راستے کو کو بدل دیا اور مکہ کی جانب روانہ ہوگئے. آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ،تاکہ جلدسے جلد پیغمبر کے پاس پہونچ جائیں .اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کواپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا اور اپنے سپاہیوں سے الگ ہوگئے اور مکہ سے نزدیک پیغمبر کے پاس پہونچ گئے. پیغمبر اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے اور جب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ سے احرام کی نیت کے متعلق حضرت علی نے جواب دیا: میں نے احرام پہنتے وقت کہا تھا خدایا میں اسی نیت پر احرام باندھ رہا ہوں جس نیت پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام باندھا ہے۔

حضرت علی نے اپنے یمن اور نجران کے سفر اور وہ کپڑے جو لے کر آئے تھے ،سے پیغمبر کو مطلع کیا اور پھر پیغمبر کے حکم سے اپنے سپاہیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ واپس جائیں۔جب امام اپنے سپاہیوں کے پاس پہونچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسم کردیا ہے اور تمام سپاہیوں نے ان کپڑوں کو احرام بنا کر پہن لیا ہے حضرت علی اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس سے کہا: ان کپڑوں کو رسول خدا کے سپرد کرنے سے پہلے تم نے کیوں سپاہیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیاکہ آپ کے سپاہیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطور امانت تقسیم کردوں او رحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔

۱۰۹

حضرت علی نے اس کی بات کو قبول نہیں کیااور کہا کہ تمہیں یہ اختیا رنہیں تھا. پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ہوئے کپڑوں کو جمع کرو، تاکہ مکہ میں پیغمبر کے سپردکریں۔(۱)

وہ گروہ جنھیں عدالت و انصاف اورمنظم و مرتب رہنے سے تکلیف ہوتی ہے وہ ہمیشہ تمام امور کو اپنے اعتبار سے جاری کروانا چاہتے ہیں وہ لوگ پیغمبر کی خدمت میں آئے اور حضرت علی کے نظم و ضبط اور سخت گیری کی شکایت کی، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جاخلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

حضرت علی کی نظر میں ایک گناہگار شخص (خصوصاً وہ گناہگار جو اپنی لغزشوں کو بہت چھوٹاتصور کرے) اس سوار کی طرح ہے جو ایک سرکش او ربے لگام گھوڑے پر سوار ہو. تو یقینا وہ گھوڑا اپنے سوار کو گڑھوں اور پتھروں پر گرا دے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کا مقصد اس تشبیہ سے یہ ہے کہ کوئی بھی گناہ چاہے جتنا ہی چھوٹا کیوںنہ ہواگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو دوسرے گناہوں کواپنے ساتھ لاتا ہے اور جب تک انسان کو گناہ کا مرتکب نہیں کردیتا اور آگ میں نہیں ڈال دیتا اس سے دوری اختیار نہیں کرپاتا. اسی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہے کہ شروع سے ہی اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکھے. اور اسلامی اصول و قوانین کی معمولی مخالفت سے پرہیز کرے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو حضرت علی کے تمام کام اور ان کی عدالت سے مکمل طور پر باخبرتھے، اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اور اس سے کہا کہ شکایت کرنے والوں کے پاس جاؤ اور میرے اس پیغام کو ان تک پہونچادو۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۸۵

(۲)أَلَا وَ اِنَّ الْخَطٰایَا خَیْل شَمْس حَمَل عَلَیْهَا اَهْلُهَا وَخَلَعَتْ لِجَمْهٰا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِیْ النّٰار نہج البلاغہ خطبہ ۱۴.

'' علی کی برائی کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ وہ خدا کے احکام کو جاری کرنے میں بہت سخت ہے اور اس کی زندگی میں ہرگز چاپلوسی اور خوشامد نہیں پائی جاتی۔

۱۱۰

۲۔ خالدبن ولید قریش کا ایک بہادر سردار تھا. اس نے ۷ھ میں مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا .مگر اس کے پہلے کہ وہ قوانین الہی پر عمل پیرا ہوتا، اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیںہوئیں اس میں شریک رہا. یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پر رات میں چھپ کر حملہ کیا اور ان کی فوج کی پشت سے میدان جنگ میں وارد ہوا. او راسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا .اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی سے عداوت و دشمنی کو فراموش نہیں کیا او رامام کی قدرت و طاقت و بہادری سے ہمیشہ حسد کرتا رہا پیغمبر اسلام کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کسی علت کی بنا پر کا میاب نہ ہوسکا۔(۱)

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ہیں:

پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسی گروہ کے ساتھ کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا، اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلۂ بنی زید سے جنگ ہوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا. امام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مال غنیمت تقسیم کردیا اور یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی. اس نے پیغمبر اسلام او رحضرت علی کے درمیان سوء تفاہم پیدا کرنے کے لئے خط لکھا اور اسے بریدہ کے حوالے کیاتاکہ جتنی جلدی ممکن ہو پیغمبر تک پہونچا دے۔

بریدہ کہتا ہے:

میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہونچا اور اس نامہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کیا، حضرت نے اس نامہ کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تاکہ وہ پڑھے اور جب وہ نامہ پڑھ چکا تو میں نے اچانک پیغمبر کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثاردیکھا۔

بریدہ کہتا ہے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ہوا او رعذر خواہی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم

______________________

(۱) اس واقعہ کی تشریح زندگانی امیر ا لمومنین کے چوتھے حصے میں آئی ہے جو حصہ مخصوص ہے امام کی زندگی کے حالات پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے۔

۱۱۱

سے میں نے یہ کام کیا ہے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جب میں خاموش ہوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا. اچانک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خاموشی کو توڑا اور فرمایا:

علی ـ کے بارے میں بری باتیں نہ کہو'' فَاِنَّه مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْهُ وَ هُوَ وَلِیَّکُمْ بَعْدِیْ'' (وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ہیں)

بریدہ کہتا ہے کہ میں اپنے کئے پر بہت نادم تھا چنانچہ رسول خدا سے استغفار کی درخواست کی. ،پیغمبر نے کہا جب تک علی نہ آئیںاور اس کے لئے رضایت نہ دیں میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا. اچانک حضرت علی پہونچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبر سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔(۱)

اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی سے محبت کرنے لگا اور پیغمبر کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اور ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ابوبکر کے اس عمل پر اعتراض کیااورانھیں خلیفہ تسلیم نہیں کیا.(۲)

______________________

(۱) اسد الغابہ ج۱ ص ۱۷۶، والدرجات الرفیعہ ص ۴۰۱

(۲) رجال مامقانی ج۱ ص ۱۹۹منقول از احتجاج

۱۱۲

نویں فصل

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخصوص نمائندہ و سفیر

''حضرت علی نے خدا کے حکم سے سورۂ برائت اور وہ مخصوص حکم جو بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے تھا حج کے موقع پر تمام عرب قبیلے کے سامنے پڑھا ،اور اس کا م کے لئے پیغمبر کی جگہ اور جانشینی کا منصب حاصل کیا''۔تاریخ اسلام اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ جس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اسی دن اپنی رسالت کے اعلان کے بعد فوراً علی کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیا۔پیغمبر اسلام نے اپنی رسالت کے تیس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طور پر توکبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح طور پر امت کی رہبری اور حکومت کے لئے حضرت علی کی لیاقت و شائستگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبر کے بعد حضرت علی کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے رہے اور انھیں عذاب الہی سے ڈراتے رہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب قبیلۂ بنی عامر کے رئیس نے پیغمبر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا بشرطیکہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: ''الامر الی اللہ یضعہ حیث شائ''(۱)

یعنی یہ خدا کے اختیار میں ہے وہ جس شخص کو بھی اس کا م کے لئے منتخب کرے وہی میرا جانشین ہوگا. جس وقت حاکم یمامہ نے بھی قبیلۂ بنی عامر کے رئیس کی طرح سے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی، اس وقت بھی پیغمبر کو بہت برالگااور آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ سے مارا۔(۲) اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام نے متعدد مقامات پر مختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی ـکو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس طرح امت کو متنبہ و متوجہ کیا ہے کہ خدا نے حضرت علی ـکو ہمارا وصی اور خلیفہ منتخب کیا ہے اور اس کام میں پیغمبر کو کوئی اختیار نہیں ہے. نمونہ کے طور پر چند موارد یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۸ ص ۸۴، تاریخ ابن اثیر ج۲ ص ۶۵

(۲) طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۲

۱۱۳

۱۔ آغاز بعثت میں ، جب خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے اعزا و احباب اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔

۲۔ جب پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو اپنے سے حضرت علی کی نسبت کو بیان کیا یعنی وہ نسبت جو ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت میرے اور علی ـکے درمیان ہے اور جتنے منصب ہارون کے پاس تھے سوائے نبوت کے ، وہ سب منصب علی ـ کے پاس بھی ہیں۔

۳۔ بریدہ اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے کہا کہ علی ـمیرے بعد سب سے بہترین حاکم ہے۔

۴۔ غدیر خم کے میدان میں اور ۸۰ ہزار ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کر کے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبر نے سیاسی کاموں کو حضرت علی کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرہ کے ذہنوں کو حضرت علی کی حکومت کی طرف مائل کیا. مثال کے طور پر درج ذیل واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر ا ہوگا کہ شرک اور دوگانہ پرستی کے بارے میں اسلام کا نظریہ حجاز کی سرزمین اور عرب کے مشرک قبیلوں تک پہونچ گیا تھا او ر بتوں اور بت پرستوں کے بارے میں ان میں سے اکثر اسلامی نظریئے سے واقف ہو گئے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،اور ان کے باطل خدا اتنے ذلیل و خوار ہیں کہ صرف دوسروں کے امور انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور نہ خود کو ہی نفع پہونچا سکتے ہیں ،اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نہیں ہیں۔

دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبر کے کلام کو سنا تھا انھوںنے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں، اور بت پرستی چھوڑ کر خدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا او رتوحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پر گونج اٹھی۔

۱۱۴

لیکن متعصب اور بیوقوف لوگ جنھیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اور اپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رہے۔اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام ہر طرح کی بت پرستی اور غیر انسانی کاموںکو اپنے سپاہیوں کے ذریعے ختم کردیں. اور طاقت کے ذریعے بت پرستی کو جو معاشرے کو برباد اور اجتماعی و اخلاقی اعتبار سے فاسد کر رہے ہیں اور حریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ہیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خدا اور اس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میںعید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں اعلان کریں. اور خود پیغمبر یا کوئی اور سورۂ برائت کے پہلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبر کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ہے اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مہینے کے اندر اپنی وضعیت کو معین کریں کہ اگر مذہب توحیدکو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور دوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اور معنوی چیزوں سے بہرہ مند ہو ئیں گے لیکن اگر اپنی دشمنی او رہٹ دھرمی پر باقی رہے تو چار مہینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ہوئے قتل کردیئے جائیں گے۔سورۂ برائت اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیوں کہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا او رارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ''حجة الوداع'' کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں. اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پہونچانے کے لئے منتخب کریں .سب سے پہلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اور سورۂ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی ا ور انھیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تاکہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ اچانک وحی الہی کا نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم ہوا کہ اس پیغام کو خود یا جو آپ سے ہو وہ لوگوں تک پہونچائے ، کیونکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور اس پیغام کے پہونچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر کے اہلبیت میں سے ہے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ہے وہ کون ہے؟

_____________________________

(۱)''لٰایُوَدَّیْهٰا عَنْکَ اِلّٰا اَنْتَ اَوْ رَجُل مِنْکِ'' اور بعض روایتوں میں اس طرح ہے ''او رجل من اہل بیتک'' سیرۂ ابن ہشام ج۴ ص ۵۴۵ وغیرہ

۱۱۵

تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور ابوبکر سے راستے میں ملاقات کرو اوران سے آیات برائت کو لے لو اور ان سے کہہ دو کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے وحی الہی نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان آیتوں کو یا خود یا ان کے اہلبیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کر سنائے، اس وجہ سے یہ ذمہ دار یمجھے سونپی گئی ہے .حضرت علی، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ پر سوار ہوکر جابر اور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ہمراہ مکہ کے لئے روانہ ہوگئے اور حضرت کے پیغام کوابوبکر تک پہونچایا ،انھوں نے بھی (سورۂ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی کے سپرد کردیا۔امیر المومنین علیہ السلام مکہ میں داخل ہوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز سے سورۂ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی، اور چار مہینے کی مہلت جو پیغمبر نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزار کیا. تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چار مہینے کی مہلت ہے جس میں ہمیں اسلامی حکومت کے ساتھ اپنے رابطے کو واضح کرناہے .قرآن کی آیتیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اورابھی چار مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مشرکین نے جوق در جوق مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ہوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ہوگیا۔

بے جا تعصب

جب ابوبکر اپنی معزولی سے باخبر ہوئے تو ناراضگی کے عالم میں مدینہ واپس آگئے اور گلہ و شکوہ کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر کہا: مجھے آپ نے اس کام (آیات الہی کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے) کے لئے لائق و شائستہ جانا، مگر زیادہ دیرنہ گزری کہ آپ نے مجھے اس مقام و منزلت سے دور کردیا، کیا اس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہے؟ پیغمبر نے شفقت بھرے انداز سے فرمایا کہ وحی الہی کا نمائندہ آیا اور اس نے کہا : میرے یا وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی اوراس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) بعض متعصب مؤرخین جو حضرت علی کے فضائل کے تجزیہ و تحلیل میں بہت زیادہ منحرف ہوئے ہیں ، ابوبکر کے اس مقام سے معزول ہونے اور اسی مقام پر حضرت علی کے منصوب ہونے کی اس طرح سے توجیہ کی ہے کہ ابوبکر شفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی بہادری و شجاعت کے مظہر تھے

______________________

(۱) روح المعانی ج۱۰ تفسیر سورۂ توبہ ص ۴۵

۱۱۶

اورالہی پیغام کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اور یہ صفات حضرت علی کے اندر بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔یہ توجیہ: ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اس کے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ پیغمبر نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کام کے لئے میرے اور وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس واقعہ کا دوسرے طریقے سے تجزیہ کیاہے ،وہ کہتا ہے کہ عرب کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی چاہتا تھا کہ کسی عہد و پیمان کو توڑ دے تو اس نقض (عہد و پیمان کے توڑنے) کو خود وہ شخص یا اسی کے رشتہ داروں میں سے کوئی ایک شخص انجام دیتا ہے ورنہ عہد و پیمان خود اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے اسی وجہ سے حضرت علی اس کام کے لئے منتخب ہوئے۔اس توجیہ کا باطل ہونا واضح ہے کیونکہ پیغمبر اسلام کا حضرت علی کے بھیجنے کا اصلی مقصد آیتوں کی تلاوت اور قطعنامہ کا پہونچانا اور عہد و پیمان کا توڑنا نہیں تھا بلکہ سورۂ توبہ کی چوتھی آیت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنے عہد و پیمان پر مکمل عمل کیا ہے ان کا احترام کرو اور عہد و پیمان کی مدت تک اس کو پورا کرو۔(۲)

اس بنا پر اگر عہد کا توڑنا بھی عہد توڑنے والوں کے بہ نسبت اس کام میں شامل تھا تو مکمل طور پر جزئی حیثیت رکھتاہے جب کہ اصلی ہدف یہ تھا کہ بت پرستی ایک غیر قانونی امر اور ایک ایسا گناہ جو قابل معاف نہیں ہے، اعلان ہو۔اگر ہم چاہیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاحکم الہی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ہی حضرت علی کو سیاسی مسائل اور حکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں. تاکہ تمام مسلمان آگاہ ہو جائیں اور خورشید رسالت کے غروب ہونے کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور جان جائیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی سے زیادہ شائستہ کوئی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کی طرف سے تنہاوہ شخص جومشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے منصوب ہوا وہ حضرت علی تھے ،کیونکہ یہ چیز حکومتی امور سے متعلق ہے۔مگر (ہاں) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے بھی کچھ تم سے (وفائے عہد میں) کمی نہیں کی. اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدت کے واسطے مقرر کیا ہے پورا کردو خدا پرہیزگاروں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

______________________

(۲)''الا الذین عاهدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم شیئاً و لم یظاهروا علیکم احداً فأتمُّوا الیهم عهدهم الی مدتهم ان الله یحب المتقین''

۱۱۷

دسویں فصل

مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل

دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ہوئی .وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رہے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ہی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں. اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے ان کو بھی ہمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔(۱)

قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاہے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ہے ارشاد قدرت ہے:

( ام تأمُرُهُمْ أَحلَامُهِمْ بِهٰذَا أَمْ هُمْ قوْمُ طٰاغُونَ ) (۲)

کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہیں (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ہیں یا یہ لوگ سرکش ہی ہیں؟

اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ہوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رہی کہ پھیلتے ہوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ہمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ہے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ہو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ہو جائے. یہاں پر دو صورتیںہیںاور ہم دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:

______________________

(۱) ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔

(۲) سورۂ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

۱۱۸

۱۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ہے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔

پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس اکثر افراداس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے. اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا ہے لیکن اتنی بات ضرور کہناہے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نہیں ہے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔

انقلاب کا ہمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رہے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اہم افراد یا شخص کی ضرورت ہے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورہمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔

تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ہے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اہم افراد کی ضرورت تھی. کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔جناب موسی و عیسی کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نہیں رکھتے تھے، جب کہ جاہلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔ممکن ہے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔

۱۱۹

جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔

جی ہاں. اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ہو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ہوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ہو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ہمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔

یہ وہی بات ہے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ہے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ''حجة الوداع'' کی واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو اس اہم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے

شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ہے .امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ صاحب کتاب ہوتا ہے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتاہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاہے .اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ہوتا ہے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

 خدا  کی  قسم! اگر اپنے برے اعمال سے دستبردار نہ ہوئے  اور فساد سے پرہیز نہ کیا تو  میں وہ بتادو گا کہ جواس واقعہ کے بارے میں  رسول خدا(ص) کی زبان سے سنا تھا،میں کہنے والی باتیں کہوں گا تا کہ مسائل واضح ہو جائیں اور سب پہچانیں جائیں۔

 آج جو اہل فتنہ کے ساتھ جنگ کر نے والوں کے لئے حقائق واضح و روشن ہیں اور وہ بصیرت سے جنگ کر رہے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ فتنہ انگیز لوگ گمرا ہ ہیں اور وہ فتنہ برپا کرنے والوں کے ساتھ جہاد میں ثابت قدم اور راہ راست پر ہیں۔

 اس کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو،میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں گا؛بلکہ قتل ہی ہوں گا،اب انتظار میں ہوں تا کہ بدترین شخص میرے داڑھی کو خضاب کرے اور میرے سر سے خون بہائے۔

 اسی وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اپنی داڑھی پر پھیرا اور فرمایا:

اس خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے؛مجھ سے آج سے لے کر قیامت تک کے آئندہ کے واقعات کے بارے میں پوچھو،میں ہر ایک کا جواب دوں گا اور تم میں سے گمشدہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو مطلع کروںگا۔

 اسی وقت ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا:یا امیر المؤمنین؛مجھے مشکلات کے بارے میں بتائیں۔

 حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 تم لوگ اس زمانے میں ہو کہ جب بھی کوئی سائل سوال کرے تو اس کے سوال پر غور کرو اور سوال کو عقل و درایت سے بیان کرو اور جب بھی کسی سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ بھی غور و فکر کے ساتھ اور سوچ سمجھ کرجواب دے۔

 اب یہ جان لو کے تمہارے پیچھے بہت بڑے حادثات ہیں اور ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونماہو گا یہ مشکلات اور فتنہ انسان کو اندھا  اور سرگردان کر دیں گے اور حق کو باطل کے نیچے پوشیدہ کردیں گے۔  اس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیااورمخلوقات کو خلق کیا؛اگر تم لوگوں نے مجھے کھو دیا اور ناگوار حادثات پیش آئیں  ،تمہیں مصیبتیں گھیر لیں  اور تم پر بلائیں ٹوٹ پڑیں تو پھر نہ تو سوال کرنے والے سوال کر سکیں گے اور نہ ہی جواب دینے والے جواب دے سکیں گے۔

۱۸۱

یہ مصیبتیں اس وقت پیش آئیں گی کہ جب جنگ شدت اختیار کر لے گی اور پھیل جائے گی اورسب لوگ اس کی آگ میں گرفتار ہو جائیں گے،اس وقت تم لوگوں پر دنیا تنگ ہو جائے گی اور ہر طرف سے تم پر اور تمہارے خاندان پر بلائیں نازل ہوں گی یہاں تک کہ خدا کاموں اور حالات میں آسانی پیدا کرے اور باقی بچنے والے نیک افراد ان مصیبتوں سے نجات حاصل کریں۔

 اور اب بدر و حنین کے دن پرچم اٹھانے والوں کی مدد کرو تا کہ تمہاری بھی مدد کی جائے اور تمہیں اس کا اجر دیا جائے،ان پر سبقت نہ لو ورنہ مشکلات میں ہلاک ہو جاؤگے اور  منہ کے بل زمین پر گر جاؤگے۔

 یہاں وہ شخص اٹھا اور اس نے کہا:یا امیرالمؤمنین !مجھے فتنوں سے آگاہ فرمائیں اور آئندہ کے حادثات کے بارے بیان فرمائیں۔حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 جب فتنوں نے سر اٹھایا تو وہ لوگوں کو شبہ میں ڈال دیں گے اور جب بھیپشت کریں گے تو لوگوں کو آگاہ کردیں گے  اور حقائق کو آشکار کردیں گے۔جب بھی سامنا کریں گے تو شبہ پیدا کردیں گے اور جب پیٹھ کریں گے تو پہچانیں جائیں گے،فتنوں کی مثال ہواؤں کی طرح ہے کہ جو بعض شہروں میں تو چلتی ہے اور بعض میں نہیں چلتی۔

  اے لوگو!آگاہ ہو جاؤ کہ سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہوگا۔وہ اندھا اور تاریک فتنہ ہے کہ جس میں کوئی نور و روشنی نہیں ہے،وہ فتنہ ہر جگہ پھیل جائے گا اور ایک گروہ کومبتلا کر دے گا،جو اہل بصیرت ہوں گے وہ اس فتنہ میں حق کو پا لیں گے اور جس کا دل اندھا ہو گا اور جس میں بصیرت نہیں ہو گی  اور وہ اس میں گرفتار ہو جائیں گے۔

  اس اندھے اور گھیرنے والے فتنہ میں کہ جس میں حق کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہو گا،اہل باطل  حق کے طرفداروں پر غلبہ پالیں گے یہاں تک کہ زمین دشمنی اور ظلم وستم سے بھر جائے گی اور ہر طرف بدعت پھیل جائے گی اورسب سے پہلے خداوند اس ظلم و ستم کو ختم کرے گا اور اس کے ستونوں اور بنیادوں کو درہم برہم کر دے گا۔

 خدا کی قسم!بنی امیہ برے حکمران ہیں،میرے بعد وہ تمہیںاپنے دانتوں سے چباڈالیں گے،وہ اپنے منہ سے تمہیںکاٹیں گے،اپنے ہاتھوں ہاتھوں اور پاؤں سے تمہیں کچلیں گے اور تمہیں تکلیفیں پہنچائیں گے اور تمہیں خیرات سے منع کریں گے، وہ تمہارے ساتھ ایسا سلوک کریں گے کہ سب لوگ یا تو ان کی اطاعت کریں یا پھر خاموش رہیں۔

۱۸۲

     بنی امیہ تم  پر ایسی بلائیں نازل کریں گے تا کہ تم سب ان کی طرفداری کرو اور ان کی اطاعت  کرو؛جس طرح ایک غلام اپنے آقا کی اطاعت کرتاہے اور اس کی مدد کرتا ہے،غلاموں کی عادت یہ ہے کہ جب بھی اپنے مولا و آقا کو دیکھتے ہیں تو اس کی اطاعت کرتے ہیں اور جب بھی اس سے دور ہو جائیں تو اسے دشنام دیتے ہیں۔

     خدا کی قسم!اگر بنی امیہ تمہیں بیابانوں میں منتشرکر دیں اور تم میں سے ہر کوئی کسی پتھر کے نیچے چھپ جائیتو خداوند تم لوگوں کو ایک دن اکٹھا کرے گا اور وہ دن ان کے لئے بہت برا دن ہو گا۔تم لوگ میرے بعد منتشر گروہ بن جاؤگے جب کہ تم لوگوں کا قبلہ،حج اور عمرہ ایک ہے لیکن دلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہے اور اس کے بعد اپنی انگلیاں آپس میں ملا دیں۔

     ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا:یا امیرالمؤمنین!آپ نے اپنی انگلیاں آپس میں کیوں ملائیں؟

     حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     ان میں سے ایک اسے قتل کرے گا اور وہ اس کے پاؤں کاٹ دے گا۔وہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا ہوکر گروہ گروہ ہو جائیں گے،انہیں سعادت کا راستہ نہیں ملے گا اور ہدایت کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔

     اس جماعت کا کوئی راہنما نہیں ہے کہ جو ان کی راہنمائی کرے اور انہیں حق کا راستہ دکھائے۔ ہم اہلبیت ان حادثات اور فتنوں سے نجات پائیں گے اور لوگوں کو فتنوں اور گمراہی کی طرف نہیں ڈھکیلیں گے اور انہیں فساد و تباہی کی طرف نہیں لے کر جائیں گے۔

 یہاں ایک شخص پھر کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا:یا امیر المؤمنین؛ہم اس زمانے میں کون سا کام انجام دیں؟

 حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 جس وقت ہر جگہ فتنہ اور فسادپھیل جائے  اور معاشرے میں بدعتیں پیدا ہو جائیں تو تم لوگ اپنے پیغمبر(ص) کی اہلبیت علیہم السلام کی پیروی کرنا،اگر وہ گھر میں بیٹھیں تو تم بھی اپنے گھروں میں رہنا اور اگر انہوں نے قیام کیااورتم لوگوں کو بھی جنگ کی دعوت دی تو تم ان کی آواز پر لبیک کہنا اور ان کی مدد کرنا۔

۱۸۳

     تم لوگ ہوشیاررہنا کہ ان پر سبقت نہ لینا ورنہ اس صورت میں تم زمین پر گر جاؤ گے۔

     ایک شخص پھر کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین؛اس کے بعد کیا ہو گا؟

     حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اس کے بعد خداوند ہم اہلبیت علیہم السلام کے ذریعے فنتوں کوتھام دے  گاکہ جس طرح گوشت سے کھال کو جدا کرتا ہے۔

میرے بابا اس بہترین کنیز کے فرزند پر قربان ہوں؛وہ اہل فتنہ، تخریب کاروں اور فساد پھیلانے والوں کو ہلاک کرے گا اور انہیں خوار وذلیل کرے گا۔ان کے حلق میں تلخ جام انڈیل دے گا اور سب کو تلوار سے نابود کرے گا اور سب کا خون بہائے گا۔وہ آٹھ ماہ تک تلوار اپنے کندھے پر رکھ کے جنگ کرے گا۔

  اس وقت قریشی یہ خواہش کریں گے کہ کاش ایک لمحے کے لئے میں وہاں ہوتا اور ان کی مدد کرتا، اس دن قریشی کہیں گے: اگر یہ اولاد فاطمہ علیہا السلام میں سے ہوتا تو ہم پر اپنا رحم و کرم کرتا اور ہمارا خون نہ بہاتا۔

خداوند اسے بنی امیہ پر مسلط کرے گا اور وہ اسے جہاں بھی ملیں گے ، وہ انہیں قتل کرے گا اور ان پر نفرین و لعنت کرے گا۔(۱)

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بہت ہی اہم پیشنگوئی دلالت کرتی ہے کہ فتنوں اور فتنوں کے ذریعے گمراہ کرنے والوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ قائم آل محمد علیہم السلام کے قیام سے  پوری دنیا پرفتنہ گروں کی حکومت کا خاتمہ ہو گا اور کائنات کو پھر سے راہ ہدایت  نصیب ہو گی۔

--------------

[۱]۔ الغارات و شرح اعلام آن:۳۱

۱۸۴

 بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی  ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ۱۴۴ کے آغاز میں پیغمبر اور رسول مبعوث کرنے کی حکمت بیان فرمائی اور پھرخطبہ کے ایک حصہ میں گمراہوں کی پہچان اور عبدالملک کے مظالم کاتذکرہ کیا:

 امام علی علیہ السلام نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا:

بعث اللّٰه رسله بِما خصّهم بِهِ مِن وحیِهِ، وجعلهم حجّة له علی خلقِهِ، لِئلاّ تجِب الحجّة لهم بِتَرکِ الاِعذارِ اِلیهِم، فدعاهم بِلِسانِ الصِّدقِ اِلٰی سبِیلِ الحقِّ

....أین الّذِین زعموا أَنَّهم الرّٰاسِخون فِی العِلمِ دونناکذباً وبغیاً علینا؟ أَن رفعنا اللّٰه ووضعهم، وأعطانا وحرمهم، وأَدخلَنا وَأَخرجهم، بِنا یُستعطَی الهُدی،  وَیُسْتجلَی العمی، اِنَّ الْأَئِمَّةَ مِن قریش غُرِسوا فِی هذا البطنِ مِن هاشِم، لا تصلح علی سِواهم، ولا تصلُح الوُلاة مِن غیرِهم

 پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نواز کر بھیجا اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تا کہ بندوں کی یہ حجت تما م نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔پروردگار نے ان لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف دعوت دی ہے۔ ....کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے وہی راسخون فی العلم ہیں؟اور یہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا ہوا ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنا دیا ہے اور انہیں پست رکھا ہے،ہمیں کمالات عنایت فرما دیئے ہیں اور انہیں محروم رکھا ہے،ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا ہے اور انہیں باہر رکھا ہے، ہمارے ہی ذریعہ سے ہدایت طلب کی جاتی ہے اور اندھیروں میں  روشنی حاصل کی جاتی ہے۔یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشف زار میں قرار دیئے گئے ہیں۔(۱) اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی ان کا اہل ہو سکتا ہے۔ (ولایت و امامت اور رہبری و قیادت صرف خاندان ہاشم سے مخصوص ہے)

--------------

[۱] ۔  امام علیہ السلام کا یہ سخن گویا واقعہ سقیفہ کی طرف اشارہ ہے۔ جب انصار نے خلافت کا دعوی کیا تو ابوبکر نے کہا: ''الأئمة من قریش'' اور اپنے اس کلام سے اس نے انصار کے دعوی کوردّ کیا۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: جی ہاں؛ امام قریش سے ہیں لیکن قریش کے کسی بھی طائفہ سے نہیں بلکہ صرف خاندان ہاشم  میںسے ہیں ۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام باپ کی طرف سے بھی اور ماں کی طرف سے بھی ہاشمی ہیں۔

۱۸۵

 آثروا عاجِلاً، وأَخَّروا آجِلاً، وترکوا صافِیاً، وشرِبوا آجِناً کأَنِّ أنظر اِلی فاسِقِهِم وقد صحِب المنکر فألِفَه، وَبَسَِ بِهِ ووافقه، حتی شابت علیهِ مفارِقه، وصُبِغت بِهِ خلائِقه،ثمّ أَقبل مُزبِداً کالتّیّارِ لا یبالِی ما غرّق، أو کَوَقْع النّٰارِ فی الهَشیمِ لا یحفِل ما حرَّق

 (بنی امیہ) ان لوگوں نے حاضر دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور دیر میں آنے والی آخرت کو پیچھے ہٹا دیا ہے، صاف پانی کو نظر انداز کر دیا ہے اور گندہ پانی کو پی لیاہے،گویا کہ میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں جو منکرات سے مانوس ہے اور برائیوں سے ہم رنگ و ہم آہنگ ہوگیا ہے،یہاں تک کہ اسی ماحول میں اس کے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں اور اسی رنگ میں اس کے اخلاقیات رنگ گئے ہیں۔اس کے بعد ایک سیلاب کی طرح اٹھا ہے جسے اس کی فکر نہیں ہے کہ کس کو ڈبو دیا ہے اور بھوسہ کی ایک آگ ہے جسے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کیا کیا جلا دیا ہے۔

 امام علی علیہ السلام نے اس خطبہ میں ایک شخص کو مدنظر رکھا ہے کہ برائی،  پلیدی اور ناپاکی اس کی طبیعت کا حصہ بن گئی ہیں ۔ امام علیہ السلام کا مورد نظر شخص ذات و صفات کے لحاظ سے ناپاک اور بد طینت ہے اور اسی بد طینتی کے ساتھ وہ بوڑھاہو جائے گا۔

 ان دونوں طرح کے اشخاص میں فرق ہے کہ جو کبھی جہالت و نادانی یا دنیا طلبی یا غرور کی وجہ سے کوئی ناپسندیدہ کام انجام دے  اور اپنے گناہ و معصیت کی طرف متوجہ ہوکر توبہ کرے اور اس نے جو کچھ انجام دیا ہو اس پر پشیمان ہو، اورجو ناپسندیدہ کام اور برائیاں اس طرح سے انجام دے کہ یہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جائیں تو اس صورت میں وہ اپنے اعمال کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے کام کی برائی اور اچھائی کو سمجھنے سے عاجز ہوتا ہے۔

 ہندو شاہ ''تجارب السلف'' میں کہتا ہے:ایک دن عبدالملک مروان نے سعید بن مسیب سے کہا: میں ایسا بن گیا ہوںکہ اگر کوئی اچھا کام کروں تو خوش نہیں ہوتا اور اگر کوئی شر بپا کروں تو میں غمگین نہیں ہوتا۔

 سعید نے کہا:''الآن تکامل فیک موت القلب''

 اب تمہارے دل کی موت مکمل ہو گئی ہے۔

۱۸۶

 عبدالملک مروان ان میں سے ہے کہ جس نے اپنی حکومت  کے اکیس سال کے دوران بے  شمار  شرمناک کام انجام دیئے ہیں: جن میں سے ایک حجاج بن یوسف ثقفی کو منتخب کرناتھاجو عراق کی حکومت کے لئے عرب کامشہور خونخوار تھا۔

 حجاج کے قید خانہ میں کئی ہزار قیدی تھے جن میں سے اکثر سادات بنی ہاشم ،قرآن کے قاری،اسلام کے فقہاء اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے شیعہ تھے۔اس نے حکم دیا تھا کہ زندان میں قیدیوں کو نمک یا چونا ملا پانی دیا جائے اور کھانے کی بجائے گدھے کا فضلہ۔(۱)

 اس کا دوسرا گناہ خانۂ کعبہ کو آگ لگانا اور اسے ویران کرنا تھا۔

 فاسق سے امام علی علیہ السلام کی مراد کون ہے؟اس کے بارے میں نہج البلاغہ کے شارحین نے مختلف اقوال بیان کئے ہیں۔ابن میثم کہتے ہیں:ممکن ہے فاسق سے ان کی مراد عبدالملک مروان ہو   اس صورت میں اس ضمیر سے مرادبنی امیہ ہیں۔

لیکن ابن ابی الحدید کہتے ہیں: میرے نزدیک بعید نہیں ہے کہ فاسق سے مراد وہ لوگ ہوں کہ جنہیں صحابی تو کہا جاتا ہے لیکن ان کی روش بہت بری تھی جیسے مغیرة بن شعبہ،عمروعاص، مروان بن حکم،معاویہ اور کچھ دوسرے لوگ....۔

 ممکن ہے کہ امام علیہ السلام کی مراد وہی معاویہ بن ابی سفیان ہو کیونکہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے بیس سال تک حکومت کی اور اس مدت کے دوران اس نے بے شمار گناہ و منکرات انجام دیئے اور وہ کبھی بھی اپنے اعمال پر پشیمان نہیں ہوا کیونکہ پلیدی و ناپاکی اس کی فطرت ثانیہ اور اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔

 حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں معاویہ نے جنگ صفین شروع کی کہ جس میں بے شمار مسلمان قتل ہوئے اور آنحضرت کی شہادت کے بعد اس نے حکم دیا کہ تمام مساجد اور منبروں سے خلیفۂ مسلمین پر سبّ و شتم کیا جائے اور یہ گناہ عظیم ساٹھ (۶۰)  سال تک رائج رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے اس گناہ کو ختم کیا۔ معاویہ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یزید کو اپنا جانشین بنایا کہ جو  برملا گناہ انجام دیتا تھا اور وہ یہ گناہ انجام دینے میں  بے باک تھا۔

--------------

[۱]۔ تجارب السلف ہندو شاہ  نخجوانی:۷۵

۱۸۷

 کہتے ہیں: کہ جب معاویہ ثانی ( یعنی اسی معاویہ کا پوتا ) کو حکومت ملی تو چالیس یا اس سے کچھ زیادہ دنوں کے بعد شام کی مسجد میں منبر پر گیا اور اس نے کہا: اے لوگو!جو کام میرے آباء و اجداد کرتے تھے چاہے وہ حق تھا یا باطل، میں اب اس سے زیادہ انجام نہیں دے سکتا،تم لوگ جسے چاہو معین کر لو ۔ یہ کہہ کر وہ منبر سے نیچے اتر آیا اور اپنے گھر جا کر اس نے اپنا دروازہ بند کر لیا یہاں تک کہ مر گیا یا قتل ہو گیا۔اس کی یہی بات باعث بنی کہ بنی سفیان سے حکومت بنی مروان کی طرف منتقل ہوئی۔

 لیکن معاویہ بن ابی سفیان میں اتنی بھی شرافت  اور اتنا انصاف نہیں تھا  اور اس نے اپنے ناپاک  و پلید بیٹے یزید  کے لئے مکر وفریب اور درہم و دینار کے ذریعہ قبائل کے سربراہوں سے بیعت لے لی اور انہیں مسلمانوں کی گردن پر سوار کر دیا ۔ معاویہ ستّر سال تک زندہ رہا اور حقیقت میں وہ اپنی عمر کے آخری حصہ کو پہنچ چکا تھا کہ جب امام علیہ السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا۔(۱)

  بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ۱۶۶ میںاپنے بعد اپنے انصار اور شیعوں کے حالات کے بارے میں بیان فرمایا ہے اور پھر بنی امیہ کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے اور چونکہ کہ بنی امیہ کے بارے میں تاریخی ابحاث کسی حد تک گذشتہ ابحاث میں ذکر ہوئیں۔یہاں ہم خطبہ کے ایک حصہ کے ترجمہ اور بنی امیہ کے انجام کے بارے میں کچھ حوادث بیان کرنے پرہی اکتفاء کریں گے۔مولائے سخن امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 اِفترقوا بعد اُلفتِهِم، وتشتّتوا عن أصلِهِم، فمِنهم آخِذ بِغُصن أَینما مال،مال معهعلی أنّ اللّٰه تعالی سیجمعهم لِشرِّ یوم لِبنِ أُمیَّة، کما تجتمِع قَزَع الخرِیفِ  یُؤلِّف اللّٰه بینهم، ثم یجعلهم رُکاماً کرکامِ السّحابِ، ثم یفتح لهم ابواباً، یسِیلون مِن مستثارِهِم کسیلِ الجنّتینِ، حیث لم تسلم علیهِ قارة ولم تثبت علیهِ أَکمة، ولم یردّ سننه رَصّ طَود، ولا حِداب أرض یُذعذِعهم اللّٰه فِی بطونِ أودِیتِهِ ثمّ یسلکهم ینابِیع فِ الأرضِ، یَأخذ بِهِم مِن قوم حقوق قوم، ویمکّن لِقوم فِی دِیارِ قوموایم اللّٰه؛ لیذوبنّ ما فِی أیدِیهم بعد العلوِّ والتمکِینِ،کَما تذوب الألیة علی النّٰارِ....

--------------

[۱]۔ پیشنگوئی ھای امیرالمؤمنین علیہ السلام :۳۲۲

۱۸۸

 یہ لوگ (یعنی آنحضرت کے پیروکار اور شیعہ) باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہو گئے اور اپنی اصل سے جدا ہو گئے۔ (شاید یہ شیعوں کے مختلف فرقوں کیسانیہ،علوی اور زیدی کی طرف اشارہ ہو) بعض لوگوں نے ایک شاخ کو پکڑ لیا اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے(شیعہ امامیہ)۔

 یہاں تک کہ خداوند متعال انہیں بنی امیہ کے بدترین دن کے لے جمع کر دے گا جس طرح خریف  میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔پھر ان کے درمیان محبت پیداکرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابر کے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنا دے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گاکہ یہ اپنے ابھرنے کی  جگہ سے شہر صبا کے دوباغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے۔(۱) جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی ہے اور نہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا ہے ۔نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اور نہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گااور پھر انہیں چشموں کے بہاؤ کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق د وسری قوم سے حاصل کرے گااور ایک جماعت کو دودسرے جماعت کے دیار میں اقتدار عطا کرے گا۔خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

 .... بنی امیہ کی حکومت کی تأسیس سے پہلے امام علیہ السلام نے حکومت بنی امیہ کے زوال اور انحطاط کے بارے میں پیشنگوئی فرمائی اور ویسے ہی ہوا جیسے امام علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ حجاز میں ابراہیم امام بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نام کا ایک شخص اپنے سجادہ پر بیٹھا عبادت   میں مشغول ہے اور خراسان میں کچھ لوگ اس کے نام پر کام کر یں گے اور اپنی جان خطرے میں ڈالیں گے۔

--------------

[۱] ۔ امام علی علیہ السلام اس خطبہ میں فرماتے ہیں: '' یسِ یلون مِن مستثارِہِم کسیلِ الجنّتینِ''شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ بنی امیہ پر دو طرف سے حملہ کیا جائے گا۔ایک ایرانیوں کی طرف سے یعنی ابومسلم خراسانی  اور دوسرا حجاز کوفہ وغیرہ کے لوگوں کی طرف سے۔

مؤلف:ممکن ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد بنی امیہ کی آخری حکومت ہے کہ جو سفیانی کے توسط سے تشکیل پائے گی اور اس پر جناب یمانی اور سید حسنی کی طرف سے حملہ ہو گا۔

۱۸۹

ابراہیم بن محمد(جو ابراہیم امام کے نام سے مشہور ہیں)کا نام ایک ہی دفعہ زبانوں پر آئے گا اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔مروان حمار اسے گرفتار کرے گا اور اسے ''حرّان''لے جائے گااور اسے زندان میں مار دے گا ۔اس کے بھائی منصور اور سفّاح مدینہ سے ''حیرہ''کی طرف کوچ کریں گے۔

 ابو سلمہ انہیں کے گھر میں خلال  چھپائے گا۔ابو مسلم خراسانیوں کے بہت بڑے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو گا اور خود کو کوفہ پہنچائے گا۔جب وہ ان دو بھائیوں یعنی منصور اور سفّاح کودیکھے گا تو ان سے پوچھے گا :تم میں سے کون ابن حارثیّہ ہے ؟سفّاح کے بارے میں بتایا جائے گا اور ابو مسلم خلافت کے عنوان سے اسے سلام کرے گا۔پھر سفّاح ،منصور ،کوفہ کے کچھ رہائشی اور خاندان بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ کوفہ کی طرف روانہ ہوں گے اور مسجدمیں جائیں گے جب کہ ابو مسلم خراسانی ان کے پیش پیش ہو گادوسری طرف ''حرّان''میں مروان بطورخلیفۂ  اموی  حکومت کرے گا جب کہ کوفہ میں لوگ سفّاح کی عباسی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کریں گے۔

۱۳۲ھ میں تمام مختلف گروہ بنی امیہ کے خلاف متحدہو جائیں گے ۔مروان حمار جنگ زاب میں شکست کے بعد ایک شہر سے دوسرے شہر بھاگے گا یہاں تک کہ بصرہ میں مارا جائے گا اور اس کا خاندان قیدی و در بہ درہو جائے گا۔

مؤرخین کہتے ہیں:بنی امیہ کی مشکلات کے انہیںایّام میں ایک دن مروان اپنے گدھے سے پیشاب کرنے کے لئے اترا اور جب واپس آیا اور اس نے گدھے پر سوار ہونا چاہا تو گدھا اس کے قابومیں نہ آیا اور اس سے بھاگ گیا جب کہ اس کے لشکر والے یہ صورت حال دیکھ رہے تھے۔اسی وجہ سے مروان بن محمد کو''مروان حمار''کا  لقب دیا گیا ۔لوگ کہتے تھے:''ذھبت الدولة ببولة'' یعنی بنی  امیہ کی حکومت پیشاب کے ساتھ بہہ گئی۔چونکہ حقیقت میں اسی دن مروان کی حکومت ختم ہوئی  اور سمجھ گیا کہ اب زمین و زمان دونوں اس کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔جنگ زاب (عراق میں موصل کے نزدیک ایک مقام) میں جب بھی مروان اپنی فوج کے کسی دستہ کو لڑنے کا حکم دیتا تھا وہ جواب میں کہتے تھے:کسی دوسرے دستہ کو حکم دو۔اس طرح سے وہ اس کا حکم ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ بالآخر اس نے اپنے سپہ سالار سے کہا: اٹھو اور جنگ کے لئے جاؤ۔ اس نے جواب میں کہا:میں ہر گز اپنی زندگی ہلاکت میں نہیں ڈالوں گا۔

۱۹۰

مروان نے کہا:میں تمہیں یہ کردوں گا وہ کر ددوںگا اور اس طرح اسے دھمکیاں دی۔

 سپہ سالار نے مروان سے کہا:مجھے اچھا لگتا اگر تم میں ایسا کرنے کی طاقت ہوتی ۔جب مروان نے جنگ میں اپنے لشکر والوں کی سستی دیکھی تو اس نے لشکر گاہ کے درمیان بہت زیادہ سکہ رکھ دیئے اور کہا:اے لوگو!جنگ کرو اور ان سکّوں میں سے اٹھا لو۔

 سپاہی جنگ کئے بغیر ہی سکّوں کی طرف بڑھے اور انہوں نے ان میں سے سکہ اٹھالئے ۔کسی شخص نے مروان کو بتایا کہ لوگ سکہ اٹھا کر جا رہے ہیں۔مروان نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ فوج کے پیچھے کھڑے ہو جاؤ اور جو بھی ان سکّوں میں سے اٹھا کر جانے لگے اسے قتل کر دو۔

 جب مروان کا بیٹا اپنے پرچم کے ساتھ لشکر کے پیچھے روانہ ہوا تو لوگوں نے چلانا شروع کر دیا :شکست!شکست! اور سب کے سب بھاگ گئے اور دجلہ سے بھی گذر گئے۔کہتے ہیں کہ دجلہ میں غرق ہونے والوں کی تعداد قتل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

 جب مروان کو ''زاب''میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف روانہ ہوا گیا ۔موصل کے لوگوں نے نہر کا پل اٹھایالیا اور اسے وہاں سے گذرنے نہ دیا۔مروان کے ساتھیوں نے چلا کر کہا:اے موصل کے لوگو!یہ امیرالمؤمنین !ہے کہ جو پل سے گذرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا:جھوٹ بولتے ہو،امیرالمؤمنین فرارنہیں ہے اور انہوں نے مروان کو گالیاں دیں  اور کہا:اس خدا کی حمد و ثنا کہ جس نے تم سے طاقت چھین لی اور تمہاری حکومت کو ختم کر دیا اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کو ہم تک پہنچا دیا۔ جب مروان نے یہ باتیں سنیں تو ''بلد''(۲) کی طرف چل پڑا اور وہاں سےحرّان اور حرّان سے دمشق اور دمشق سے مصر میں داخل ہوا جب کہ عبداللہ بن علی بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔(۳) آخر کار مروان مصر میں مارا گیا اور اس کا سر کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کے پاس بھیج دیا گیا۔لیکن اس کی عورتیں، بچے اور خاندان والے بنی العباس کے کارندوں سے بچنے کے لئے شہر شہر در بہ در ہو رہے تھے اور انہوں نے جنوب افریقہ کا راستہ اختیار کر لیا۔

--------------

[۲] ۔ بلد، دجلہ کے کنارے موصل سے سات فرسنگ (ایک فرسنگ ساڑھے تین میل کے برابر ہوتا ہے ایک قدیم شہر ہے ۔ (معجم البلدان)

[۳]۔ تاریخ فخری:۱۹۸-۱۹۵

۱۹۱

 یہ بیچارے تو اپنوں کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے تھے یہ جہاں کہیں بھی جس کسی کے پاس پناہ لیتے تھے وہ لوگ بنی العباس کے خوف سے انہیں خود سے دور کر دیتے تھے۔سر زمین نوبہ (یعنی سوڈان) میںان لوگوں پر وحشی اقوام نے حملہ کر دیا اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے لوٹ لیا۔ خاندان مروان میں سے کچھ مارے گئے اور کچھ لوگ بھوک پیاس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 یعقوبی کے مطابق ان کی حالت اتنی  خراب ہو چکی تھی کہ اپنا پیشاب پیتے تھے تا کہ پیاس کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔آل مروان سے کچھ زندہ بچ جانے والے ''باب المندب''پہنچ گئے (جب کہ وہ ننگے،بھوکے اور پیاسے تھے۔وہ کشتی میں کام کرنے والوں کی صورت میں چھپ کر حجاز میں داخل ہوئے اور اسی طرح مخفیانہ طور زندگی گذارتے رہے۔

 یہ ہے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام کا معنی کہ جو آپ نے فرمایا:

 خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔(۱)

 بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

 حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک اور پیشنگوئی میں بنی امیہ کے شرمناک انجام کے بارے میں فرمایا ہے:

انّ لبن امیّة مروداً یجزون فیه ،ولو قد اختلفو فیما بینهم،ثم لو کادتهم الضباع لغلبتهم

 بیشک بنی امیہ کو مہلت  دی گئی ہے کہ جس میں وہ اکڑیں گے اور جب بھی ان کے درمیان اختلاف ہوا تو پھر اگر کبوتر بھی ان سے مکرو حیلہ کریں تو وہ پر غلبہ پا جائیں گے۔

 قال الرضی رحمه اللّٰه تعالی: وهذا من افصح الکلام وأعربه، والمرودُ هاهنا مفعل من الأرواد، وهو الامهال و الانظار، فکأنّه علیه السلام شبّه المهلة الّت هم فیها بالمضمار الّذی یجرون فیه الی الغایة، فاذا بلغوا منقطعها انتفض نظامهم بعدها

--------------

[۱]۔ پیشگوئی ھای امیر المؤمنین علیہ السلام :۳۰۵

۱۹۲

سید رضی  کہتے ہیں: یہ فصیح ترین اور غریب ترین سخن ہے،یہاں کلمہ مرود ''ارواد'کے مصدر سے ہے۔جس کے معنی مہلت دینا ہے ، گویا امام علیہ السلام نے ان کو دی گئی مہلت کو مقبلہ کی جگہ سے تشبیہ دی ہے کہ جس کے اختتام تک اکڑیں اور جب وہ اپنے اختتام تک پہنچنے لگیں گے تو ان کا نظام علیحدہ ہو جائے گا۔

ابن ابی الحدید اس سخن کی شرح میں کہتے ہیں:یہ سخن واضح طور پر غیبی امور کی خبر دیتا ہے؛ کیونکہ بنی امیہ میں جب تک اختلاف نہیں تھا ، ان کی حکومت منظم تھی ۔ ان کی جنگیں بھی دوسرے افراد کے ساتھ تھیں۔جیسے معاویہ کی صفین میں جنگ، یزید کی اہل مدینہ اور مکہ میں ابن زبیر سے جنگ، مروان کی ضحّاک سے جنگ، عبدالملک کی ابن اشعث اور ابن زبیر سے جنگ، یزید  بن عبدالملک کی بنی  مہلب سے جنگ اور ہشام کی زید بن علی سے جنگ۔

اور جونہی ولید بن یزید کو حکومت ملی اور اس کے چچا کے بیٹے یزید بن ولید نے اس کے خلاف قیام کیا اور اسے قتل کر دیا تو بنی امیہ کے درمیان بھی اختلاف پیدا ہو گیا تو اس وعدے کا وقت آ پہنچا اور جنہیں وعدہ دیا گیا تھا انہوں نے سچ کہا تھا کہ ولید کے قتل ہونے کے ساتھ بنی العباس کی دعوت دینے والوں نے خراسان میں دعوت دینا شروع کی۔

 مروان بن محمد خلافت کی طلب میں جزیرہ سے آیا اور ابراہیم بن ولید کو نکال د یااور بنی امیہ کے کچھ لوگوں کو قتل کر دیا۔جس کے نتیجہ میں ملک اور حکومت کا نظام مضطرب و پراکندہ ہو گیا۔ ہاشمیوں کی حکومت سامنے آئی اور اس نے نشو نما پائی ۔ بنی امیہ کی حکومت زوال کا شکار ہو گئی  اور ان کی حکومت کا زوال ابو مسلم کے ہاتھوں انجام پایا کہ ابتدا میں  لوگوں میں ناتواں، بینوا اور درویش تھا اور اسی موضوع کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سخن کا مصداق واضح ہوگیا کہ آپ نے فرمایا:

 اگر کبوتر بھی ان پر مکروحیلہ کریں تو وہ ان پر غلبہ پا جائیں گے۔(۱)

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۸ص۲۷۲

۱۹۳

  بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں:

     جو خطبہ''حتّی بعث اللّٰه محمداً صلّی اللّٰه علیه شهیداً و بشیراً و نذیراً'' ( یہاں تک کہ خدا نے حضرت محمد (ص) کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ گواہ، خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہوں) کی عبارت سے شروع ہوتا ہے، اس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گلہ اور آنحضرت کے قسم (کہ بنی امیہ بہت جلدحکومت دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھیں گے) کے متعلق عبارت میں کچھ کلمات و تعبیرات کی وضاحت کے بعد تفصیلی طور پر تاریخی بحث بیان کی گئی ہے کہ جو یوں ہے:

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے گلہ و شکوہ کو دہراتے ہوئے فرمایا:

جی ہاں! دنیامیں تمہارے ہاتھ کھول دیئے گئے ہیں حالانکہ جو حکومت و ریاست کے لائق ہیں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ تمہاری تلواریں اہلبیت کے افراد (جو حقیقت میں رہبر وسالار ہیں) پر غالب اور ان کی تلواریں تم سے دور کی گئی ہیں۔

 گویا حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے افراد کے قتل ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ان کا مشاہدہ فرمایا اور اس بارے میں خطاب کرتے ہیں اور آپ کے کلام کی بنیاد وہ فکر ہے کہ جو آپ ک ے ذہن میں آئی۔پھر آپ نے فرمایا:

بیشک ہر خون کا کوئی خونخواہ ہوتا ہے کہ جو اس کا مطالبہ کرتاہے اور ہمارے خون کا خونخواہ خدائے احد کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جوکسی بھی کام کو انجام دینے سے عاجز و ناتوان نہیں ہے  اورکوئی بھی فرار کرنے والا اس سے فرار نہیں کر سکتا۔

 اور یہ جو کہا: ''گویا خدا اپنے حق میں  حکم  کرے گا''یعنی خداوند ہمارے خون کا مطالبہ کرنے میں کوتاہی نہیں فرمائے گا۔ایسےحاکم کی طرح کہ جو اپنے بارے میں حکم کرے اور خود ہی قاضی ہو کہ اس صورت میں اپنے حقوق کے بارے میں مبالغہ و کوشش کرے گا۔

۱۹۴

 پھرحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے قسم کھائی اور واضح الفاظ میں بنی امیہ کا نام لے کر ان سے خطاب کیا اور ذکر فرما یاکہ وہ بہت جلد دنیا دوسروں کے ہاتھوں اور گھروں میں دیکھیں گے اور ان کے دشمن بہت جلد ان کے ہاتھوں سے بادشاہی و حکومت چھین لیں گے  اور جس طرح حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے خبر دی تھی اسی طرح ہوا۔نوے(۹۰) سال کے قریب حکومت ان کے  پاس تھی اور پھر خاندان ہاشم کے پاس لوٹ گئی اور خدا وند نے ان کے سب سے بڑے دشمن کے ہاتھوں سے ان سے انتقام لیا۔

  ابن ابی الحدید کے قول کی رو سے جنگ زاب میں مروان بن محمد کی شکست اورپھر اس کا قتل ہونا:

     عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن عباس عظیم لشکر کے ساتھ مروان بن محمد(آخری اموی خلیفہ ) کا سامنا اور اس سے جنگ کرنے کے لئے  روانہ ہوا اور نہر ''زاب''(۱)   کے کنارے موصل کے مقام پر ان کا سامنا ہوا۔

     اگرچہ مروان بھی بہت بڑے لشکر اور بہت زادہ افراد کے ساتھ تھا لیکن اس نے شکست کھائی اور بھاگ گیا۔عبداللہ بن علی نے اس کی لشکر گاہ پر فتح پائی اور اس کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔مروان نے ڈرتے ہوئے شام کا راستہ اختیار کیا اور عبداللہ بن علی نے اس کا پیچھا کیا۔     مروان مصر چلا گیا تو عبداللہ نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھاکیا اور''بوصیر اشمونین'' (جو صعید مصر کی طرف سے ہے)میں اس نے اسے اور اس کے تمام نزدیکی افراد کو قتل کر دیا۔

     عبداللہ بن علی نہر ''ابی فطرس''(۲) (جو فلسطین کے نواح میں ہے)کے کنارے بنی امیہ کے اسّی(۸۰) افراد کو مثلہ کیا اور پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں قتل کردیا ۔ حجاز میں اس کے بھائی داؤد بن علی نے بھی ایسا ہی کیا اور تقریباً اسی تعداد کے برابر انہیں قتل کیا اور مختلف صورتوں سے انہیں مثلہ کیا یعنی ان کے اعضاء کاٹ دیئے۔

--------------

[۱]۔ اس سے مراد زاب کی بالائی نہر ہے کہ جوموصل اور اربل کے درمیان ہے۔

[۲] ۔ صاحب ''مراصد الاطلاع'' نے اس کلمہ میں (ف) کو پیش(ط) کو سکون اور(ر)کو پیش کے ساتھ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : یہ رملہ کے نزدیک اور فلسطین  میں سے ہے۔

۱۹۵

     جب مروان قتل ہوگیا تو اس کے دو بیٹے عبداللہ اور عبید اللہ(جو دونوں اس کے ولی عہد تھے) اس کے ساتھ ہی تھے اور دونوں اپنے مخصوص لوگوں  کے ساتھ'' اسوان مصر''کی طرف بھاگ گئے   اور  وہاں سے سرزمین نوبہ(سوڈدان)کی طرف چلے گئے ۔راستے میں انہیں سخت  مشکلات اور تکالیف  کا سامنا کرنا پڑا اور عبداللہ بن مروان اپنے  ساتھیوں کے ساتھ ہی قتل ہو گیا اور کچھ لوگ راستے کی زحمتوں اور پیاس کی وجہ سے مر گئے۔

عبیداللہ کچھ لوگوں کے ساتھ سرزمین ''بجة'' پہنچ گیا جب کہ ان کی جانمنہ کو آئی ہوئی تھی اور وہ دریائے سرخ سے عبور کرے جدّہ کے ساحل پر پہنچے۔ عبیداللہ اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کے ساتھ چھپ چھپا کے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے تھے اور وہ بادشاہی کے بعد رعایا کی صورت میں زندگی گذارنے پر بھی خوش تھے۔ عبیداللہ کا انجام یہ ہوا کہ وہ سفاح کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور قید کر دیا گیا۔اس نے سفاح کی خلافت  اور منصور و مہدی و ہادی کی حکومت کے زمانے اور رشید کی حکومت کے کچھ زمانے تک اپنی زندگی قید میں گذاری۔

 رشید نے اسے زندان سے باہر نکالا جب کہ وہ بوڑھا اور اندھا ہو چکا تھااور اس سے اس کے بارے میں پوچھا :

 اس نے کہا:اے امیرالمؤمنین !جب میں نوجوان اور بینا تھا مجھے قید کیا گیا اور اب بوڑھے اور اندھے شخص کی صورت میں قید سے باہر لایا گیا ہوں۔

 کہا گیاہے:وہ رشید کے زمانے میں ہی مر گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے :وہ امین کے زمانے تک زندہ تھا۔

* * *

 ایک روایت کے مطابق جنگ زاب میں ابراہیم بن ولید بن عبدالملک (جسے خلافت سے معزول کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے بھائی کی موت کے بعد یزید بن ولید بن عبدالملک نے اس کے نام خلافت کا خطبہ پڑھا تھا) مروان کے ساتھ تھا اور مارا گیا اور دوسری روایت کے مطابق مروان حمار نے ابراہیم کو اس سے پہلے قتل کیا ہے۔

 جب مروان کو جنگ زاب میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف بھاگ گیا لیکن موصل کے لوگوں نے اسے شہر میں داخل

۱۹۶

نہیں ہونے دیا۔وہ مجبوراً ''حران''چلا گیا کہ اس کا گھر اور جگہ بھی وہیں تھی۔ اس زمانے میں کہ جب منبروں اور نمازوں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر لعن کو ختم کر دیا گیا تھا،حرّان کے لوگوں نے اس بات کو قبول نہ کیا اور انہوں نے کہا:ابوتراب پر لعن کئے بغیر نما ز،نماز نہیں ہے!

عبداللہ بن علی نے اپنے لشکرکے ساتھ مروان کا پیچھا کیا اور جونہیں حرّان پہنچا تو مروان اس کا مقابلہ کرنے سے بھاگ گیا اورنہر فرات سے بھی گذر گیا۔عبداللہ بن علی حرّان پہنچا اور اس نے مروان کے محل کو تباہ و برباد کر دیا کہ جس کی تعمیر میں اس نے ایک کروڑ درہم خرچ کئے تھے اور جسں میں اس نے اپنے خزانے اور اپنا مال رکھا تھا۔

     مروان اپنے خاندان کے افراد،بنی امیہ اور اپنے خاص لوگوں کے ساتھ نہر ابی فطرس کے کنارے آیا اور عبداللہ بن علی بھی روانہ ہو گیا اور دمشق کے قریب  پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔مروان کی طرف سے ولید بن معاویہ بن عبدالملک بن مروان پچاس ہزار جنگجوؤں  کے ساتھ دمشق کی حکومت کی طرف روانہ ہوا تھا اور خداوند متعال نے ان کے درمیان یہ تعصب پیدا کر دیا کہ نزاریوں کو یمانیوں پر برتری ہے یا یمانیوں کو نزاریوں پر۔ یوں وہ آپس میں ہی لڑنے لگے اور ولید بن معاویہ مارا گیا۔

 کہتے ہیں:وہ عبداللہ بن علی سے جنگ کرتے ہوئے مارا گیا۔

عبداللہ نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور یزید بن معاویہ بن مروان  اور عبدلجبار بن یزید بن عبدالملک کوگرفتار کر لیا  اور انہوں قیدیوں کی صورت میں ابوالعباس سفاح کے پاس بھیج دیا اور اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان کے جسم کو حیرہ میں  پھانسی پرلٹکا دیا۔

عبداللہ بن علی نے دمشق میں بھی مروان کے بہت سے رشتہ داروں،ساتھیوں اور بنی امیہ کے پیروکاروں کو قتل کیا۔پھر وہ نہر ابی فطرس کے کنارے پہنا اوراس نے وہاں بنی امیہ کے تقریباً اسّی(۸۰) افراد کو قتل کیا۔یہ واقعہ     ۱۳۲ھ ذی القعدہ میں پیش آیا۔(۱)

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۳۷۳

۱۹۷

بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں قسم کھائی کہ قیامت تک ہونے والے کسی بھی واقعہ کے بارے میں آپ سے سوال کیا جائے تو آپ اس کاجواب دیں گے۔سو افراد پر مشتمل ہر گروہ (چاہئے وہ ہدایت یافتہ ہو ںیا گمراہ) کے بارے میں بتائیں گے اور یہ کہ ان کا رہبر کون ہو گا؟ وہ کہاںوجود میں آئیںگے؟ان میں سے کون قتل ہو گا؟اور کون اپنی طبیعی موت مرے گا؟

 اس خطبہ کے آخر میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

  اس وقت (بنی العباس کے ہاتھوں بنی امیہ کی نابودی کے وقت) قریش کی یہ خواہش ہو گی کہ ساری دنیامیرے ہاتھوں میں رکھ دیں تا کہ صرف ایک بار مجھے دیکھ لیں۔اس مطلب سے گویا آنحضرت نے ابومسلم خراسانی اور سیاہ لباس پہنے ہوئے لوگوں کے شام میں حملہ اور بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد (جو مروان حمارکے نام سے مشہور ہے) کی نابودی کی خبر دی ہے۔

مؤرخین نے نقل کیا ہے: مروان بن محمد نے جنگ زاب میںجونہی عبداللہ علی بن عبداللہ بن عباس کو خراسانیوں کی صفوں میں اپنے مد مقابل دیکھا تو کہا:میں پسند کرتا کہ اگر اس پرچم کے نیچے اس جوان کی بجائے علی بن ابی طالب علیہما السلام ہوتے۔(۱)

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ کے بارے میں فرمایا ہے:

خداوند بنی امیہ کے فتنہ کی اس طرح سے سرکوبی کرے گا کہ جیسے گوشت سے کھال اتار لی جائے خداوند ا کسی ایسے کے ذریعہ انہیں خوار کرے گا اور اس طرح سے کہ یہ جو جبر کرتے ہیں انہیں نکال دیا جائے گا اور انہیں بلاؤں کا جام پلایا جائے گا۔تلوار کے علاوہ انہیں کوئی تحفہ نہیں دیا جائے اور ان کے جسم پر خوف کے علاوہ کوئی لباس نہیں ہوگا۔

اب مختصر طور پر  تاریخ یعقوبی سے بنی امیہ کے شرمناک انجام اور ان کے برے دنو ں کا تذکرہ کرتے ہیں:

--------------

[۱] ۔ اس خبر کی مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں کامل التواریخ:۳۳۴۴ -۳۲۷، نیزمقاتل الطالبین کے آخری حصہ میں بنی امیہ کے دور صفحہ۲۶۰ کی طرف رجوع کریں۔

۱۹۸

یعقوبی کہتے ہیں:(۱) جب   ۱۳۲ھ میں کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کی بیعت کی گئی تو کوفہ بنی امیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا،مروان بن محمد بنی امیہ کا آخری خلیفہ موصل کے نزدیک زاب کے مقام پر پہنچا تا کہ بنی العباس اور ان کے حامیوں سے جنگ کرے ۔ پہلے عباسی خلیفہ ابوالعباس سفاح نے اپنے چچا عبداللہ بن علی کو مروان سے جنگ کے لئے زاب بھیجا۔مروان شکست کھا کر شام لوٹ گیا۔اس دوران مروان شام کے کسی بھی شہر سے نہیں گزر سکتا تھا مگر یہ کہ وہاں کے لوگ اسے تباہ و برباد کر دیتے ، بالآخرمروان دمشق پہنچا اور اس کاارادہ یہ تھا کہ اس شہر میں کہ جو بنی امیہ کی حکومت کامرکز تھا،قلعہ میں پناہ  لے لے لیکن دمشق کے لوگوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا کہ جن میں سے اکثر بنی امیہ میں سے تھے اور قبیلۂ قیس نے ان پر حملہ کر دیا۔

عبداللہ بن علی بھی مروان کا پیچھا کرتا ہوا دمشق آ پہنچا۔اس نے مروان کے جانشین ولید بن معاویہ کو قتل کر دیا۔مروان فلسطین کی  طرف بھاگ گیا اور فلسطین کے بعد مصر کی طرف فرار کر گیا اور مصر میں بنی العباس کی دعوت کرنے والوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور اس کا سر سفاح کے پاس ''حیرہ'' میں بھیج دیا گیا۔مروان کا کٹا ہوا سر ایک کونے میں رکھ دیا گیا تاکہ  اسے سفاح کے پاس بھیجا جاسکے اور اسی دوران ایک بلی  نے اس کی زبان نوچ لی۔مروان کی عمر ۶۴ اور ایک قول کے مطابق ۶۸ سال تھی اور وہماہ ذی الحجہ    ۱۳۲  ھ میں مارا گیا اور کی خلافت کی مدت پانچ سال تھی۔

  مروان کے چار بیٹے تھے جن کے نام عبدالملک ، عبداللہ، عبیداللہ اور محمد تھے۔مصر کی طرف بھاگتے وقت مروان اپنے خاندان کے اکثر و بیشتر افراد کو اپنے ساتھ لے گیا تھا خاص طور پر اپنے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو اور بہت سی عورتیں اور اس کی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ تھیں ۔ جب مروان مصر میں قتل ہو گیا تو اس کے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ نے مصر کےشہر صعید میں پناہ لے لی اور وہ وہاں بھی نہ رہ سکے کیونکہ بنی العباس کی حکومت کے حامی ان کا  پیچھا کر رہے تھے۔لہذا انہوں نے سرزمین نوبہ(سوڈان)کا راستہ اختیار کر لیا۔یعقوبی کہتے ہیں:(۲) عبداللہ اور عبیداللہ کے ساتھ کچھ عورتیں،اس کی یٹیاں،

--------------

[۱]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۳۲۵-۳۲۴

[۲]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۳۲۵-۳۲۴

۱۹۹

 بہنیں اور اس کے چچا کی بیٹیاں پیدل اور پریشانی کے عالم میں بھاگ رہیں تھیں ،یہاں تک کہ شام کا ایک شخص اس کی بیٹی کے پاس سے گذرا جو اسی اجنبی لگی اور پھر اچانک اس نے اسے پہچان لیا کہ یہ مروان کی چھ سال کی بیٹی ہے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور اسے عبداللہ بن مروان(۱) کے حوالہ کر دیا۔

مروانی شہر نوبہ (سوڈان) پہنچ گئے ۔ نوبہ کے حاکم نے ان کا احترام کیا۔مروانیوں نے کہا: ہم شہر نوبہ کے کسی قلعہ میں رہ لیں گے تا کہ ہمیں کوئی پناہ گاہ میسر آجائے اور پھر ہم اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دیں ۔شاید خدا نے ہم سے جو کچھ لے لیا ہے اس کا کچھ حصة ہمیں پھر سے لوٹا دے۔

نوبہ کے حاکم نے ان سے کہا:ان کوّوں (سیاہ فام) کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان کے پاس لباس اور اسلحہ بہت کم ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ تم ان کے ہاتھوں کچلے نہ جاؤ۔ لہذا وہ نوبہ سے حبشہ کی   طرف فرار کر گئے اور حبشہ میں کچھ سیاہ فارم لوگوں کی مروانیوں سے لڑائی ہوئی  اور عبیداللہ بن مروان اس لڑائی میں مارا گیا اور اس کے ساتھی اسیر ہو گئے۔

 ان کے پاس جو کچھ تھا،وہ حبشیوںنے چھین کر انہیں چھوڑ دیا۔وہ برہنہ اور ننگے پاؤں بیابانوں میں پریشان حالتھے اور پیاس کی وجہ سے ان کی جان منہ کو آئی ہوئی تھی یہاں تک کہ مرد اپنے ہاتھوں میں پیشاب کرتے اور پھر اسے پیتے تھے اور اپنے پیشاب سے ریت کوگوندھ کر کھاتے تھے یہاں تک کہ وہ عبداللہ بن مروان تک پہنچ گئے۔ان سے پہلے اس نے بھی مشکلات اور پیاس کی شدت برداشت کی اور اس کے ساتھ کچھ برہنہ عورتیں تھیں کہ جو سر سے پاؤں تک عریان تھیں اور پیدل چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں  اور پیشاب پینے کی وجہ سے ان کے ہونٹ پھٹ چکے تھے ،یہاں تک کہ وہ مندب (یمن کے ساحل باب المندب) پہنچے اور ایک مہینہ تک وہاں رہے،لوگوں نے انہیں کچھ چیزیں فراہم کیں۔پھر وہ وزن اٹھانے والوں اور کشتی پر کام کرنے والوں کی شکل میں چھپ کر مکہ کے قصدسے باہر نکل گئے۔

--------------

[۱] ۔ ابولفرج علی بن الحسن اصفہانی ،صاحب کتاب ''معروف الاگان اور مقاتل الطالبین''اسی عبداللہ بن مروان کے فرزندوں  میں سے ہے۔اس نے کتاب مقاتل میں بنی امیہ پر لعنت کی حالانکہ وہ خود بھی بنی امیہ میں سے تھا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346