معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 161810
ڈاؤنلوڈ: 7005

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 161810 / ڈاؤنلوڈ: 7005
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 خدا  کی  قسم! اگر اپنے برے اعمال سے دستبردار نہ ہوئے  اور فساد سے پرہیز نہ کیا تو  میں وہ بتادو گا کہ جواس واقعہ کے بارے میں  رسول خدا(ص) کی زبان سے سنا تھا،میں کہنے والی باتیں کہوں گا تا کہ مسائل واضح ہو جائیں اور سب پہچانیں جائیں۔

 آج جو اہل فتنہ کے ساتھ جنگ کر نے والوں کے لئے حقائق واضح و روشن ہیں اور وہ بصیرت سے جنگ کر رہے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ فتنہ انگیز لوگ گمرا ہ ہیں اور وہ فتنہ برپا کرنے والوں کے ساتھ جہاد میں ثابت قدم اور راہ راست پر ہیں۔

 اس کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو،میں مر جاؤں یا قتل ہو جاؤں گا؛بلکہ قتل ہی ہوں گا،اب انتظار میں ہوں تا کہ بدترین شخص میرے داڑھی کو خضاب کرے اور میرے سر سے خون بہائے۔

 اسی وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اپنی داڑھی پر پھیرا اور فرمایا:

اس خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے؛مجھ سے آج سے لے کر قیامت تک کے آئندہ کے واقعات کے بارے میں پوچھو،میں ہر ایک کا جواب دوں گا اور تم میں سے گمشدہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو مطلع کروںگا۔

 اسی وقت ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا:یا امیر المؤمنین؛مجھے مشکلات کے بارے میں بتائیں۔

 حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 تم لوگ اس زمانے میں ہو کہ جب بھی کوئی سائل سوال کرے تو اس کے سوال پر غور کرو اور سوال کو عقل و درایت سے بیان کرو اور جب بھی کسی سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ بھی غور و فکر کے ساتھ اور سوچ سمجھ کرجواب دے۔

 اب یہ جان لو کے تمہارے پیچھے بہت بڑے حادثات ہیں اور ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونماہو گا یہ مشکلات اور فتنہ انسان کو اندھا  اور سرگردان کر دیں گے اور حق کو باطل کے نیچے پوشیدہ کردیں گے۔  اس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیااورمخلوقات کو خلق کیا؛اگر تم لوگوں نے مجھے کھو دیا اور ناگوار حادثات پیش آئیں  ،تمہیں مصیبتیں گھیر لیں  اور تم پر بلائیں ٹوٹ پڑیں تو پھر نہ تو سوال کرنے والے سوال کر سکیں گے اور نہ ہی جواب دینے والے جواب دے سکیں گے۔

۱۸۱

یہ مصیبتیں اس وقت پیش آئیں گی کہ جب جنگ شدت اختیار کر لے گی اور پھیل جائے گی اورسب لوگ اس کی آگ میں گرفتار ہو جائیں گے،اس وقت تم لوگوں پر دنیا تنگ ہو جائے گی اور ہر طرف سے تم پر اور تمہارے خاندان پر بلائیں نازل ہوں گی یہاں تک کہ خدا کاموں اور حالات میں آسانی پیدا کرے اور باقی بچنے والے نیک افراد ان مصیبتوں سے نجات حاصل کریں۔

 اور اب بدر و حنین کے دن پرچم اٹھانے والوں کی مدد کرو تا کہ تمہاری بھی مدد کی جائے اور تمہیں اس کا اجر دیا جائے،ان پر سبقت نہ لو ورنہ مشکلات میں ہلاک ہو جاؤگے اور  منہ کے بل زمین پر گر جاؤگے۔

 یہاں وہ شخص اٹھا اور اس نے کہا:یا امیرالمؤمنین !مجھے فتنوں سے آگاہ فرمائیں اور آئندہ کے حادثات کے بارے بیان فرمائیں۔حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 جب فتنوں نے سر اٹھایا تو وہ لوگوں کو شبہ میں ڈال دیں گے اور جب بھیپشت کریں گے تو لوگوں کو آگاہ کردیں گے  اور حقائق کو آشکار کردیں گے۔جب بھی سامنا کریں گے تو شبہ پیدا کردیں گے اور جب پیٹھ کریں گے تو پہچانیں جائیں گے،فتنوں کی مثال ہواؤں کی طرح ہے کہ جو بعض شہروں میں تو چلتی ہے اور بعض میں نہیں چلتی۔

  اے لوگو!آگاہ ہو جاؤ کہ سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہوگا۔وہ اندھا اور تاریک فتنہ ہے کہ جس میں کوئی نور و روشنی نہیں ہے،وہ فتنہ ہر جگہ پھیل جائے گا اور ایک گروہ کومبتلا کر دے گا،جو اہل بصیرت ہوں گے وہ اس فتنہ میں حق کو پا لیں گے اور جس کا دل اندھا ہو گا اور جس میں بصیرت نہیں ہو گی  اور وہ اس میں گرفتار ہو جائیں گے۔

  اس اندھے اور گھیرنے والے فتنہ میں کہ جس میں حق کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہو گا،اہل باطل  حق کے طرفداروں پر غلبہ پالیں گے یہاں تک کہ زمین دشمنی اور ظلم وستم سے بھر جائے گی اور ہر طرف بدعت پھیل جائے گی اورسب سے پہلے خداوند اس ظلم و ستم کو ختم کرے گا اور اس کے ستونوں اور بنیادوں کو درہم برہم کر دے گا۔

 خدا کی قسم!بنی امیہ برے حکمران ہیں،میرے بعد وہ تمہیںاپنے دانتوں سے چباڈالیں گے،وہ اپنے منہ سے تمہیںکاٹیں گے،اپنے ہاتھوں ہاتھوں اور پاؤں سے تمہیں کچلیں گے اور تمہیں تکلیفیں پہنچائیں گے اور تمہیں خیرات سے منع کریں گے، وہ تمہارے ساتھ ایسا سلوک کریں گے کہ سب لوگ یا تو ان کی اطاعت کریں یا پھر خاموش رہیں۔

۱۸۲

     بنی امیہ تم  پر ایسی بلائیں نازل کریں گے تا کہ تم سب ان کی طرفداری کرو اور ان کی اطاعت  کرو؛جس طرح ایک غلام اپنے آقا کی اطاعت کرتاہے اور اس کی مدد کرتا ہے،غلاموں کی عادت یہ ہے کہ جب بھی اپنے مولا و آقا کو دیکھتے ہیں تو اس کی اطاعت کرتے ہیں اور جب بھی اس سے دور ہو جائیں تو اسے دشنام دیتے ہیں۔

     خدا کی قسم!اگر بنی امیہ تمہیں بیابانوں میں منتشرکر دیں اور تم میں سے ہر کوئی کسی پتھر کے نیچے چھپ جائیتو خداوند تم لوگوں کو ایک دن اکٹھا کرے گا اور وہ دن ان کے لئے بہت برا دن ہو گا۔تم لوگ میرے بعد منتشر گروہ بن جاؤگے جب کہ تم لوگوں کا قبلہ،حج اور عمرہ ایک ہے لیکن دلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہے اور اس کے بعد اپنی انگلیاں آپس میں ملا دیں۔

     ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا:یا امیرالمؤمنین!آپ نے اپنی انگلیاں آپس میں کیوں ملائیں؟

     حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     ان میں سے ایک اسے قتل کرے گا اور وہ اس کے پاؤں کاٹ دے گا۔وہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا ہوکر گروہ گروہ ہو جائیں گے،انہیں سعادت کا راستہ نہیں ملے گا اور ہدایت کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔

     اس جماعت کا کوئی راہنما نہیں ہے کہ جو ان کی راہنمائی کرے اور انہیں حق کا راستہ دکھائے۔ ہم اہلبیت ان حادثات اور فتنوں سے نجات پائیں گے اور لوگوں کو فتنوں اور گمراہی کی طرف نہیں ڈھکیلیں گے اور انہیں فساد و تباہی کی طرف نہیں لے کر جائیں گے۔

 یہاں ایک شخص پھر کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا:یا امیر المؤمنین؛ہم اس زمانے میں کون سا کام انجام دیں؟

 حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

 جس وقت ہر جگہ فتنہ اور فسادپھیل جائے  اور معاشرے میں بدعتیں پیدا ہو جائیں تو تم لوگ اپنے پیغمبر(ص) کی اہلبیت علیہم السلام کی پیروی کرنا،اگر وہ گھر میں بیٹھیں تو تم بھی اپنے گھروں میں رہنا اور اگر انہوں نے قیام کیااورتم لوگوں کو بھی جنگ کی دعوت دی تو تم ان کی آواز پر لبیک کہنا اور ان کی مدد کرنا۔

۱۸۳

     تم لوگ ہوشیاررہنا کہ ان پر سبقت نہ لینا ورنہ اس صورت میں تم زمین پر گر جاؤ گے۔

     ایک شخص پھر کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین؛اس کے بعد کیا ہو گا؟

     حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اس کے بعد خداوند ہم اہلبیت علیہم السلام کے ذریعے فنتوں کوتھام دے  گاکہ جس طرح گوشت سے کھال کو جدا کرتا ہے۔

میرے بابا اس بہترین کنیز کے فرزند پر قربان ہوں؛وہ اہل فتنہ، تخریب کاروں اور فساد پھیلانے والوں کو ہلاک کرے گا اور انہیں خوار وذلیل کرے گا۔ان کے حلق میں تلخ جام انڈیل دے گا اور سب کو تلوار سے نابود کرے گا اور سب کا خون بہائے گا۔وہ آٹھ ماہ تک تلوار اپنے کندھے پر رکھ کے جنگ کرے گا۔

  اس وقت قریشی یہ خواہش کریں گے کہ کاش ایک لمحے کے لئے میں وہاں ہوتا اور ان کی مدد کرتا، اس دن قریشی کہیں گے: اگر یہ اولاد فاطمہ علیہا السلام میں سے ہوتا تو ہم پر اپنا رحم و کرم کرتا اور ہمارا خون نہ بہاتا۔

خداوند اسے بنی امیہ پر مسلط کرے گا اور وہ اسے جہاں بھی ملیں گے ، وہ انہیں قتل کرے گا اور ان پر نفرین و لعنت کرے گا۔(1)

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بہت ہی اہم پیشنگوئی دلالت کرتی ہے کہ فتنوں اور فتنوں کے ذریعے گمراہ کرنے والوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ قائم آل محمد علیہم السلام کے قیام سے  پوری دنیا پرفتنہ گروں کی حکومت کا خاتمہ ہو گا اور کائنات کو پھر سے راہ ہدایت  نصیب ہو گی۔

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن:31

۱۸۴

 بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی  ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ144 کے آغاز میں پیغمبر اور رسول مبعوث کرنے کی حکمت بیان فرمائی اور پھرخطبہ کے ایک حصہ میں گمراہوں کی پہچان اور عبدالملک کے مظالم کاتذکرہ کیا:

 امام علی علیہ السلام نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا:

بعث اللّٰه رسله بِما خصّهم بِهِ مِن وحیِهِ، وجعلهم حجّة له علی خلقِهِ، لِئلاّ تجِب الحجّة لهم بِتَرکِ الاِعذارِ اِلیهِم، فدعاهم بِلِسانِ الصِّدقِ اِلٰی سبِیلِ الحقِّ

....أین الّذِین زعموا أَنَّهم الرّٰاسِخون فِی العِلمِ دونناکذباً وبغیاً علینا؟ أَن رفعنا اللّٰه ووضعهم، وأعطانا وحرمهم، وأَدخلَنا وَأَخرجهم، بِنا یُستعطَی الهُدی،  وَیُسْتجلَی العمی، اِنَّ الْأَئِمَّةَ مِن قریش غُرِسوا فِی هذا البطنِ مِن هاشِم، لا تصلح علی سِواهم، ولا تصلُح الوُلاة مِن غیرِهم

 پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نواز کر بھیجا اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تا کہ بندوں کی یہ حجت تما م نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔پروردگار نے ان لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف دعوت دی ہے۔ ....کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے وہی راسخون فی العلم ہیں؟اور یہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا ہوا ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنا دیا ہے اور انہیں پست رکھا ہے،ہمیں کمالات عنایت فرما دیئے ہیں اور انہیں محروم رکھا ہے،ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا ہے اور انہیں باہر رکھا ہے، ہمارے ہی ذریعہ سے ہدایت طلب کی جاتی ہے اور اندھیروں میں  روشنی حاصل کی جاتی ہے۔یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشف زار میں قرار دیئے گئے ہیں۔(1) اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی ان کا اہل ہو سکتا ہے۔ (ولایت و امامت اور رہبری و قیادت صرف خاندان ہاشم سے مخصوص ہے)

--------------

[1] ۔  امام علیہ السلام کا یہ سخن گویا واقعہ سقیفہ کی طرف اشارہ ہے۔ جب انصار نے خلافت کا دعوی کیا تو ابوبکر نے کہا: ''الأئمة من قریش'' اور اپنے اس کلام سے اس نے انصار کے دعوی کوردّ کیا۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: جی ہاں؛ امام قریش سے ہیں لیکن قریش کے کسی بھی طائفہ سے نہیں بلکہ صرف خاندان ہاشم  میںسے ہیں ۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام باپ کی طرف سے بھی اور ماں کی طرف سے بھی ہاشمی ہیں۔

۱۸۵

 آثروا عاجِلاً، وأَخَّروا آجِلاً، وترکوا صافِیاً، وشرِبوا آجِناً کأَنِّ أنظر اِلی فاسِقِهِم وقد صحِب المنکر فألِفَه، وَبَسَِ بِهِ ووافقه، حتی شابت علیهِ مفارِقه، وصُبِغت بِهِ خلائِقه،ثمّ أَقبل مُزبِداً کالتّیّارِ لا یبالِی ما غرّق، أو کَوَقْع النّٰارِ فی الهَشیمِ لا یحفِل ما حرَّق

 (بنی امیہ) ان لوگوں نے حاضر دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور دیر میں آنے والی آخرت کو پیچھے ہٹا دیا ہے، صاف پانی کو نظر انداز کر دیا ہے اور گندہ پانی کو پی لیاہے،گویا کہ میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں جو منکرات سے مانوس ہے اور برائیوں سے ہم رنگ و ہم آہنگ ہوگیا ہے،یہاں تک کہ اسی ماحول میں اس کے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں اور اسی رنگ میں اس کے اخلاقیات رنگ گئے ہیں۔اس کے بعد ایک سیلاب کی طرح اٹھا ہے جسے اس کی فکر نہیں ہے کہ کس کو ڈبو دیا ہے اور بھوسہ کی ایک آگ ہے جسے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کیا کیا جلا دیا ہے۔

 امام علی علیہ السلام نے اس خطبہ میں ایک شخص کو مدنظر رکھا ہے کہ برائی،  پلیدی اور ناپاکی اس کی طبیعت کا حصہ بن گئی ہیں ۔ امام علیہ السلام کا مورد نظر شخص ذات و صفات کے لحاظ سے ناپاک اور بد طینت ہے اور اسی بد طینتی کے ساتھ وہ بوڑھاہو جائے گا۔

 ان دونوں طرح کے اشخاص میں فرق ہے کہ جو کبھی جہالت و نادانی یا دنیا طلبی یا غرور کی وجہ سے کوئی ناپسندیدہ کام انجام دے  اور اپنے گناہ و معصیت کی طرف متوجہ ہوکر توبہ کرے اور اس نے جو کچھ انجام دیا ہو اس پر پشیمان ہو، اورجو ناپسندیدہ کام اور برائیاں اس طرح سے انجام دے کہ یہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جائیں تو اس صورت میں وہ اپنے اعمال کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے کام کی برائی اور اچھائی کو سمجھنے سے عاجز ہوتا ہے۔

 ہندو شاہ ''تجارب السلف'' میں کہتا ہے:ایک دن عبدالملک مروان نے سعید بن مسیب سے کہا: میں ایسا بن گیا ہوںکہ اگر کوئی اچھا کام کروں تو خوش نہیں ہوتا اور اگر کوئی شر بپا کروں تو میں غمگین نہیں ہوتا۔

 سعید نے کہا:''الآن تکامل فیک موت القلب''

 اب تمہارے دل کی موت مکمل ہو گئی ہے۔

۱۸۶

 عبدالملک مروان ان میں سے ہے کہ جس نے اپنی حکومت  کے اکیس سال کے دوران بے  شمار  شرمناک کام انجام دیئے ہیں: جن میں سے ایک حجاج بن یوسف ثقفی کو منتخب کرناتھاجو عراق کی حکومت کے لئے عرب کامشہور خونخوار تھا۔

 حجاج کے قید خانہ میں کئی ہزار قیدی تھے جن میں سے اکثر سادات بنی ہاشم ،قرآن کے قاری،اسلام کے فقہاء اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے شیعہ تھے۔اس نے حکم دیا تھا کہ زندان میں قیدیوں کو نمک یا چونا ملا پانی دیا جائے اور کھانے کی بجائے گدھے کا فضلہ۔(1)

 اس کا دوسرا گناہ خانۂ کعبہ کو آگ لگانا اور اسے ویران کرنا تھا۔

 فاسق سے امام علی علیہ السلام کی مراد کون ہے؟اس کے بارے میں نہج البلاغہ کے شارحین نے مختلف اقوال بیان کئے ہیں۔ابن میثم کہتے ہیں:ممکن ہے فاسق سے ان کی مراد عبدالملک مروان ہو   اس صورت میں اس ضمیر سے مرادبنی امیہ ہیں۔

لیکن ابن ابی الحدید کہتے ہیں: میرے نزدیک بعید نہیں ہے کہ فاسق سے مراد وہ لوگ ہوں کہ جنہیں صحابی تو کہا جاتا ہے لیکن ان کی روش بہت بری تھی جیسے مغیرة بن شعبہ،عمروعاص، مروان بن حکم،معاویہ اور کچھ دوسرے لوگ....۔

 ممکن ہے کہ امام علیہ السلام کی مراد وہی معاویہ بن ابی سفیان ہو کیونکہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے بیس سال تک حکومت کی اور اس مدت کے دوران اس نے بے شمار گناہ و منکرات انجام دیئے اور وہ کبھی بھی اپنے اعمال پر پشیمان نہیں ہوا کیونکہ پلیدی و ناپاکی اس کی فطرت ثانیہ اور اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔

 حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں معاویہ نے جنگ صفین شروع کی کہ جس میں بے شمار مسلمان قتل ہوئے اور آنحضرت کی شہادت کے بعد اس نے حکم دیا کہ تمام مساجد اور منبروں سے خلیفۂ مسلمین پر سبّ و شتم کیا جائے اور یہ گناہ عظیم ساٹھ (60)  سال تک رائج رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے اس گناہ کو ختم کیا۔ معاویہ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یزید کو اپنا جانشین بنایا کہ جو  برملا گناہ انجام دیتا تھا اور وہ یہ گناہ انجام دینے میں  بے باک تھا۔

--------------

[1]۔ تجارب السلف ہندو شاہ  نخجوانی:75

۱۸۷

 کہتے ہیں: کہ جب معاویہ ثانی ( یعنی اسی معاویہ کا پوتا ) کو حکومت ملی تو چالیس یا اس سے کچھ زیادہ دنوں کے بعد شام کی مسجد میں منبر پر گیا اور اس نے کہا: اے لوگو!جو کام میرے آباء و اجداد کرتے تھے چاہے وہ حق تھا یا باطل، میں اب اس سے زیادہ انجام نہیں دے سکتا،تم لوگ جسے چاہو معین کر لو ۔ یہ کہہ کر وہ منبر سے نیچے اتر آیا اور اپنے گھر جا کر اس نے اپنا دروازہ بند کر لیا یہاں تک کہ مر گیا یا قتل ہو گیا۔اس کی یہی بات باعث بنی کہ بنی سفیان سے حکومت بنی مروان کی طرف منتقل ہوئی۔

 لیکن معاویہ بن ابی سفیان میں اتنی بھی شرافت  اور اتنا انصاف نہیں تھا  اور اس نے اپنے ناپاک  و پلید بیٹے یزید  کے لئے مکر وفریب اور درہم و دینار کے ذریعہ قبائل کے سربراہوں سے بیعت لے لی اور انہیں مسلمانوں کی گردن پر سوار کر دیا ۔ معاویہ ستّر سال تک زندہ رہا اور حقیقت میں وہ اپنی عمر کے آخری حصہ کو پہنچ چکا تھا کہ جب امام علیہ السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا۔(1)

  بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ166 میںاپنے بعد اپنے انصار اور شیعوں کے حالات کے بارے میں بیان فرمایا ہے اور پھر بنی امیہ کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے اور چونکہ کہ بنی امیہ کے بارے میں تاریخی ابحاث کسی حد تک گذشتہ ابحاث میں ذکر ہوئیں۔یہاں ہم خطبہ کے ایک حصہ کے ترجمہ اور بنی امیہ کے انجام کے بارے میں کچھ حوادث بیان کرنے پرہی اکتفاء کریں گے۔مولائے سخن امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 اِفترقوا بعد اُلفتِهِم، وتشتّتوا عن أصلِهِم، فمِنهم آخِذ بِغُصن أَینما مال،مال معهعلی أنّ اللّٰه تعالی سیجمعهم لِشرِّ یوم لِبنِ أُمیَّة، کما تجتمِع قَزَع الخرِیفِ  یُؤلِّف اللّٰه بینهم، ثم یجعلهم رُکاماً کرکامِ السّحابِ، ثم یفتح لهم ابواباً، یسِیلون مِن مستثارِهِم کسیلِ الجنّتینِ، حیث لم تسلم علیهِ قارة ولم تثبت علیهِ أَکمة، ولم یردّ سننه رَصّ طَود، ولا حِداب أرض یُذعذِعهم اللّٰه فِی بطونِ أودِیتِهِ ثمّ یسلکهم ینابِیع فِ الأرضِ، یَأخذ بِهِم مِن قوم حقوق قوم، ویمکّن لِقوم فِی دِیارِ قوموایم اللّٰه؛ لیذوبنّ ما فِی أیدِیهم بعد العلوِّ والتمکِینِ،کَما تذوب الألیة علی النّٰارِ....

--------------

[1]۔ پیشنگوئی ھای امیرالمؤمنین علیہ السلام :322

۱۸۸

 یہ لوگ (یعنی آنحضرت کے پیروکار اور شیعہ) باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہو گئے اور اپنی اصل سے جدا ہو گئے۔ (شاید یہ شیعوں کے مختلف فرقوں کیسانیہ،علوی اور زیدی کی طرف اشارہ ہو) بعض لوگوں نے ایک شاخ کو پکڑ لیا اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے(شیعہ امامیہ)۔

 یہاں تک کہ خداوند متعال انہیں بنی امیہ کے بدترین دن کے لے جمع کر دے گا جس طرح خریف  میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔پھر ان کے درمیان محبت پیداکرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابر کے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنا دے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گاکہ یہ اپنے ابھرنے کی  جگہ سے شہر صبا کے دوباغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے۔(1) جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی ہے اور نہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا ہے ۔نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اور نہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گااور پھر انہیں چشموں کے بہاؤ کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق د وسری قوم سے حاصل کرے گااور ایک جماعت کو دودسرے جماعت کے دیار میں اقتدار عطا کرے گا۔خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

 .... بنی امیہ کی حکومت کی تأسیس سے پہلے امام علیہ السلام نے حکومت بنی امیہ کے زوال اور انحطاط کے بارے میں پیشنگوئی فرمائی اور ویسے ہی ہوا جیسے امام علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ حجاز میں ابراہیم امام بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نام کا ایک شخص اپنے سجادہ پر بیٹھا عبادت   میں مشغول ہے اور خراسان میں کچھ لوگ اس کے نام پر کام کر یں گے اور اپنی جان خطرے میں ڈالیں گے۔

--------------

[1] ۔ امام علی علیہ السلام اس خطبہ میں فرماتے ہیں: '' یسِ یلون مِن مستثارِہِم کسیلِ الجنّتینِ''شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ بنی امیہ پر دو طرف سے حملہ کیا جائے گا۔ایک ایرانیوں کی طرف سے یعنی ابومسلم خراسانی  اور دوسرا حجاز کوفہ وغیرہ کے لوگوں کی طرف سے۔

مؤلف:ممکن ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد بنی امیہ کی آخری حکومت ہے کہ جو سفیانی کے توسط سے تشکیل پائے گی اور اس پر جناب یمانی اور سید حسنی کی طرف سے حملہ ہو گا۔

۱۸۹

ابراہیم بن محمد(جو ابراہیم امام کے نام سے مشہور ہیں)کا نام ایک ہی دفعہ زبانوں پر آئے گا اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔مروان حمار اسے گرفتار کرے گا اور اسے ''حرّان''لے جائے گااور اسے زندان میں مار دے گا ۔اس کے بھائی منصور اور سفّاح مدینہ سے ''حیرہ''کی طرف کوچ کریں گے۔

 ابو سلمہ انہیں کے گھر میں خلال  چھپائے گا۔ابو مسلم خراسانیوں کے بہت بڑے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو گا اور خود کو کوفہ پہنچائے گا۔جب وہ ان دو بھائیوں یعنی منصور اور سفّاح کودیکھے گا تو ان سے پوچھے گا :تم میں سے کون ابن حارثیّہ ہے ؟سفّاح کے بارے میں بتایا جائے گا اور ابو مسلم خلافت کے عنوان سے اسے سلام کرے گا۔پھر سفّاح ،منصور ،کوفہ کے کچھ رہائشی اور خاندان بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ کوفہ کی طرف روانہ ہوں گے اور مسجدمیں جائیں گے جب کہ ابو مسلم خراسانی ان کے پیش پیش ہو گادوسری طرف ''حرّان''میں مروان بطورخلیفۂ  اموی  حکومت کرے گا جب کہ کوفہ میں لوگ سفّاح کی عباسی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کریں گے۔

132ھ میں تمام مختلف گروہ بنی امیہ کے خلاف متحدہو جائیں گے ۔مروان حمار جنگ زاب میں شکست کے بعد ایک شہر سے دوسرے شہر بھاگے گا یہاں تک کہ بصرہ میں مارا جائے گا اور اس کا خاندان قیدی و در بہ درہو جائے گا۔

مؤرخین کہتے ہیں:بنی امیہ کی مشکلات کے انہیںایّام میں ایک دن مروان اپنے گدھے سے پیشاب کرنے کے لئے اترا اور جب واپس آیا اور اس نے گدھے پر سوار ہونا چاہا تو گدھا اس کے قابومیں نہ آیا اور اس سے بھاگ گیا جب کہ اس کے لشکر والے یہ صورت حال دیکھ رہے تھے۔اسی وجہ سے مروان بن محمد کو''مروان حمار''کا  لقب دیا گیا ۔لوگ کہتے تھے:''ذھبت الدولة ببولة'' یعنی بنی  امیہ کی حکومت پیشاب کے ساتھ بہہ گئی۔چونکہ حقیقت میں اسی دن مروان کی حکومت ختم ہوئی  اور سمجھ گیا کہ اب زمین و زمان دونوں اس کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔جنگ زاب (عراق میں موصل کے نزدیک ایک مقام) میں جب بھی مروان اپنی فوج کے کسی دستہ کو لڑنے کا حکم دیتا تھا وہ جواب میں کہتے تھے:کسی دوسرے دستہ کو حکم دو۔اس طرح سے وہ اس کا حکم ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ بالآخر اس نے اپنے سپہ سالار سے کہا: اٹھو اور جنگ کے لئے جاؤ۔ اس نے جواب میں کہا:میں ہر گز اپنی زندگی ہلاکت میں نہیں ڈالوں گا۔

۱۹۰

مروان نے کہا:میں تمہیں یہ کردوں گا وہ کر ددوںگا اور اس طرح اسے دھمکیاں دی۔

 سپہ سالار نے مروان سے کہا:مجھے اچھا لگتا اگر تم میں ایسا کرنے کی طاقت ہوتی ۔جب مروان نے جنگ میں اپنے لشکر والوں کی سستی دیکھی تو اس نے لشکر گاہ کے درمیان بہت زیادہ سکہ رکھ دیئے اور کہا:اے لوگو!جنگ کرو اور ان سکّوں میں سے اٹھا لو۔

 سپاہی جنگ کئے بغیر ہی سکّوں کی طرف بڑھے اور انہوں نے ان میں سے سکہ اٹھالئے ۔کسی شخص نے مروان کو بتایا کہ لوگ سکہ اٹھا کر جا رہے ہیں۔مروان نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ فوج کے پیچھے کھڑے ہو جاؤ اور جو بھی ان سکّوں میں سے اٹھا کر جانے لگے اسے قتل کر دو۔

 جب مروان کا بیٹا اپنے پرچم کے ساتھ لشکر کے پیچھے روانہ ہوا تو لوگوں نے چلانا شروع کر دیا :شکست!شکست! اور سب کے سب بھاگ گئے اور دجلہ سے بھی گذر گئے۔کہتے ہیں کہ دجلہ میں غرق ہونے والوں کی تعداد قتل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

 جب مروان کو ''زاب''میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف روانہ ہوا گیا ۔موصل کے لوگوں نے نہر کا پل اٹھایالیا اور اسے وہاں سے گذرنے نہ دیا۔مروان کے ساتھیوں نے چلا کر کہا:اے موصل کے لوگو!یہ امیرالمؤمنین !ہے کہ جو پل سے گذرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا:جھوٹ بولتے ہو،امیرالمؤمنین فرارنہیں ہے اور انہوں نے مروان کو گالیاں دیں  اور کہا:اس خدا کی حمد و ثنا کہ جس نے تم سے طاقت چھین لی اور تمہاری حکومت کو ختم کر دیا اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کو ہم تک پہنچا دیا۔ جب مروان نے یہ باتیں سنیں تو ''بلد''(2) کی طرف چل پڑا اور وہاں سےحرّان اور حرّان سے دمشق اور دمشق سے مصر میں داخل ہوا جب کہ عبداللہ بن علی بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔(3) آخر کار مروان مصر میں مارا گیا اور اس کا سر کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کے پاس بھیج دیا گیا۔لیکن اس کی عورتیں، بچے اور خاندان والے بنی العباس کے کارندوں سے بچنے کے لئے شہر شہر در بہ در ہو رہے تھے اور انہوں نے جنوب افریقہ کا راستہ اختیار کر لیا۔

--------------

[2] ۔ بلد، دجلہ کے کنارے موصل سے سات فرسنگ (ایک فرسنگ ساڑھے تین میل کے برابر ہوتا ہے ایک قدیم شہر ہے ۔ (معجم البلدان)

[3]۔ تاریخ فخری:198-195

۱۹۱

 یہ بیچارے تو اپنوں کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے تھے یہ جہاں کہیں بھی جس کسی کے پاس پناہ لیتے تھے وہ لوگ بنی العباس کے خوف سے انہیں خود سے دور کر دیتے تھے۔سر زمین نوبہ (یعنی سوڈان) میںان لوگوں پر وحشی اقوام نے حملہ کر دیا اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے لوٹ لیا۔ خاندان مروان میں سے کچھ مارے گئے اور کچھ لوگ بھوک پیاس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 یعقوبی کے مطابق ان کی حالت اتنی  خراب ہو چکی تھی کہ اپنا پیشاب پیتے تھے تا کہ پیاس کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔آل مروان سے کچھ زندہ بچ جانے والے ''باب المندب''پہنچ گئے (جب کہ وہ ننگے،بھوکے اور پیاسے تھے۔وہ کشتی میں کام کرنے والوں کی صورت میں چھپ کر حجاز میں داخل ہوئے اور اسی طرح مخفیانہ طور زندگی گذارتے رہے۔

 یہ ہے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام کا معنی کہ جو آپ نے فرمایا:

 خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔(1)

 بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

 حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک اور پیشنگوئی میں بنی امیہ کے شرمناک انجام کے بارے میں فرمایا ہے:

انّ لبن امیّة مروداً یجزون فیه ،ولو قد اختلفو فیما بینهم،ثم لو کادتهم الضباع لغلبتهم

 بیشک بنی امیہ کو مہلت  دی گئی ہے کہ جس میں وہ اکڑیں گے اور جب بھی ان کے درمیان اختلاف ہوا تو پھر اگر کبوتر بھی ان سے مکرو حیلہ کریں تو وہ پر غلبہ پا جائیں گے۔

 قال الرضی رحمه اللّٰه تعالی: وهذا من افصح الکلام وأعربه، والمرودُ هاهنا مفعل من الأرواد، وهو الامهال و الانظار، فکأنّه علیه السلام شبّه المهلة الّت هم فیها بالمضمار الّذی یجرون فیه الی الغایة، فاذا بلغوا منقطعها انتفض نظامهم بعدها

--------------

[1]۔ پیشگوئی ھای امیر المؤمنین علیہ السلام :305

۱۹۲

سید رضی  کہتے ہیں: یہ فصیح ترین اور غریب ترین سخن ہے،یہاں کلمہ مرود ''ارواد'کے مصدر سے ہے۔جس کے معنی مہلت دینا ہے ، گویا امام علیہ السلام نے ان کو دی گئی مہلت کو مقبلہ کی جگہ سے تشبیہ دی ہے کہ جس کے اختتام تک اکڑیں اور جب وہ اپنے اختتام تک پہنچنے لگیں گے تو ان کا نظام علیحدہ ہو جائے گا۔

ابن ابی الحدید اس سخن کی شرح میں کہتے ہیں:یہ سخن واضح طور پر غیبی امور کی خبر دیتا ہے؛ کیونکہ بنی امیہ میں جب تک اختلاف نہیں تھا ، ان کی حکومت منظم تھی ۔ ان کی جنگیں بھی دوسرے افراد کے ساتھ تھیں۔جیسے معاویہ کی صفین میں جنگ، یزید کی اہل مدینہ اور مکہ میں ابن زبیر سے جنگ، مروان کی ضحّاک سے جنگ، عبدالملک کی ابن اشعث اور ابن زبیر سے جنگ، یزید  بن عبدالملک کی بنی  مہلب سے جنگ اور ہشام کی زید بن علی سے جنگ۔

اور جونہی ولید بن یزید کو حکومت ملی اور اس کے چچا کے بیٹے یزید بن ولید نے اس کے خلاف قیام کیا اور اسے قتل کر دیا تو بنی امیہ کے درمیان بھی اختلاف پیدا ہو گیا تو اس وعدے کا وقت آ پہنچا اور جنہیں وعدہ دیا گیا تھا انہوں نے سچ کہا تھا کہ ولید کے قتل ہونے کے ساتھ بنی العباس کی دعوت دینے والوں نے خراسان میں دعوت دینا شروع کی۔

 مروان بن محمد خلافت کی طلب میں جزیرہ سے آیا اور ابراہیم بن ولید کو نکال د یااور بنی امیہ کے کچھ لوگوں کو قتل کر دیا۔جس کے نتیجہ میں ملک اور حکومت کا نظام مضطرب و پراکندہ ہو گیا۔ ہاشمیوں کی حکومت سامنے آئی اور اس نے نشو نما پائی ۔ بنی امیہ کی حکومت زوال کا شکار ہو گئی  اور ان کی حکومت کا زوال ابو مسلم کے ہاتھوں انجام پایا کہ ابتدا میں  لوگوں میں ناتواں، بینوا اور درویش تھا اور اسی موضوع کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سخن کا مصداق واضح ہوگیا کہ آپ نے فرمایا:

 اگر کبوتر بھی ان پر مکروحیلہ کریں تو وہ ان پر غلبہ پا جائیں گے۔(1)

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۸ص۲۷۲

۱۹۳

  بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں:

     جو خطبہ''حتّی بعث اللّٰه محمداً صلّی اللّٰه علیه شهیداً و بشیراً و نذیراً'' ( یہاں تک کہ خدا نے حضرت محمد (ص) کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ گواہ، خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہوں) کی عبارت سے شروع ہوتا ہے، اس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گلہ اور آنحضرت کے قسم (کہ بنی امیہ بہت جلدحکومت دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھیں گے) کے متعلق عبارت میں کچھ کلمات و تعبیرات کی وضاحت کے بعد تفصیلی طور پر تاریخی بحث بیان کی گئی ہے کہ جو یوں ہے:

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے گلہ و شکوہ کو دہراتے ہوئے فرمایا:

جی ہاں! دنیامیں تمہارے ہاتھ کھول دیئے گئے ہیں حالانکہ جو حکومت و ریاست کے لائق ہیں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ تمہاری تلواریں اہلبیت کے افراد (جو حقیقت میں رہبر وسالار ہیں) پر غالب اور ان کی تلواریں تم سے دور کی گئی ہیں۔

 گویا حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے افراد کے قتل ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ان کا مشاہدہ فرمایا اور اس بارے میں خطاب کرتے ہیں اور آپ کے کلام کی بنیاد وہ فکر ہے کہ جو آپ ک ے ذہن میں آئی۔پھر آپ نے فرمایا:

بیشک ہر خون کا کوئی خونخواہ ہوتا ہے کہ جو اس کا مطالبہ کرتاہے اور ہمارے خون کا خونخواہ خدائے احد کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جوکسی بھی کام کو انجام دینے سے عاجز و ناتوان نہیں ہے  اورکوئی بھی فرار کرنے والا اس سے فرار نہیں کر سکتا۔

 اور یہ جو کہا: ''گویا خدا اپنے حق میں  حکم  کرے گا''یعنی خداوند ہمارے خون کا مطالبہ کرنے میں کوتاہی نہیں فرمائے گا۔ایسےحاکم کی طرح کہ جو اپنے بارے میں حکم کرے اور خود ہی قاضی ہو کہ اس صورت میں اپنے حقوق کے بارے میں مبالغہ و کوشش کرے گا۔

۱۹۴

 پھرحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے قسم کھائی اور واضح الفاظ میں بنی امیہ کا نام لے کر ان سے خطاب کیا اور ذکر فرما یاکہ وہ بہت جلد دنیا دوسروں کے ہاتھوں اور گھروں میں دیکھیں گے اور ان کے دشمن بہت جلد ان کے ہاتھوں سے بادشاہی و حکومت چھین لیں گے  اور جس طرح حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے خبر دی تھی اسی طرح ہوا۔نوے(90) سال کے قریب حکومت ان کے  پاس تھی اور پھر خاندان ہاشم کے پاس لوٹ گئی اور خدا وند نے ان کے سب سے بڑے دشمن کے ہاتھوں سے ان سے انتقام لیا۔

  ابن ابی الحدید کے قول کی رو سے جنگ زاب میں مروان بن محمد کی شکست اورپھر اس کا قتل ہونا:

     عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن عباس عظیم لشکر کے ساتھ مروان بن محمد(آخری اموی خلیفہ ) کا سامنا اور اس سے جنگ کرنے کے لئے  روانہ ہوا اور نہر ''زاب''(1)   کے کنارے موصل کے مقام پر ان کا سامنا ہوا۔

     اگرچہ مروان بھی بہت بڑے لشکر اور بہت زادہ افراد کے ساتھ تھا لیکن اس نے شکست کھائی اور بھاگ گیا۔عبداللہ بن علی نے اس کی لشکر گاہ پر فتح پائی اور اس کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔مروان نے ڈرتے ہوئے شام کا راستہ اختیار کیا اور عبداللہ بن علی نے اس کا پیچھا کیا۔     مروان مصر چلا گیا تو عبداللہ نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھاکیا اور''بوصیر اشمونین'' (جو صعید مصر کی طرف سے ہے)میں اس نے اسے اور اس کے تمام نزدیکی افراد کو قتل کر دیا۔

     عبداللہ بن علی نہر ''ابی فطرس''(2) (جو فلسطین کے نواح میں ہے)کے کنارے بنی امیہ کے اسّی(80) افراد کو مثلہ کیا اور پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں قتل کردیا ۔ حجاز میں اس کے بھائی داؤد بن علی نے بھی ایسا ہی کیا اور تقریباً اسی تعداد کے برابر انہیں قتل کیا اور مختلف صورتوں سے انہیں مثلہ کیا یعنی ان کے اعضاء کاٹ دیئے۔

--------------

[1]۔ اس سے مراد زاب کی بالائی نہر ہے کہ جوموصل اور اربل کے درمیان ہے۔

[2] ۔ صاحب ''مراصد الاطلاع'' نے اس کلمہ میں (ف) کو پیش(ط) کو سکون اور(ر)کو پیش کے ساتھ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : یہ رملہ کے نزدیک اور فلسطین  میں سے ہے۔

۱۹۵

     جب مروان قتل ہوگیا تو اس کے دو بیٹے عبداللہ اور عبید اللہ(جو دونوں اس کے ولی عہد تھے) اس کے ساتھ ہی تھے اور دونوں اپنے مخصوص لوگوں  کے ساتھ'' اسوان مصر''کی طرف بھاگ گئے   اور  وہاں سے سرزمین نوبہ(سوڈدان)کی طرف چلے گئے ۔راستے میں انہیں سخت  مشکلات اور تکالیف  کا سامنا کرنا پڑا اور عبداللہ بن مروان اپنے  ساتھیوں کے ساتھ ہی قتل ہو گیا اور کچھ لوگ راستے کی زحمتوں اور پیاس کی وجہ سے مر گئے۔

عبیداللہ کچھ لوگوں کے ساتھ سرزمین ''بجة'' پہنچ گیا جب کہ ان کی جانمنہ کو آئی ہوئی تھی اور وہ دریائے سرخ سے عبور کرے جدّہ کے ساحل پر پہنچے۔ عبیداللہ اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کے ساتھ چھپ چھپا کے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے تھے اور وہ بادشاہی کے بعد رعایا کی صورت میں زندگی گذارنے پر بھی خوش تھے۔ عبیداللہ کا انجام یہ ہوا کہ وہ سفاح کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور قید کر دیا گیا۔اس نے سفاح کی خلافت  اور منصور و مہدی و ہادی کی حکومت کے زمانے اور رشید کی حکومت کے کچھ زمانے تک اپنی زندگی قید میں گذاری۔

 رشید نے اسے زندان سے باہر نکالا جب کہ وہ بوڑھا اور اندھا ہو چکا تھااور اس سے اس کے بارے میں پوچھا :

 اس نے کہا:اے امیرالمؤمنین !جب میں نوجوان اور بینا تھا مجھے قید کیا گیا اور اب بوڑھے اور اندھے شخص کی صورت میں قید سے باہر لایا گیا ہوں۔

 کہا گیاہے:وہ رشید کے زمانے میں ہی مر گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے :وہ امین کے زمانے تک زندہ تھا۔

* * *

 ایک روایت کے مطابق جنگ زاب میں ابراہیم بن ولید بن عبدالملک (جسے خلافت سے معزول کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے بھائی کی موت کے بعد یزید بن ولید بن عبدالملک نے اس کے نام خلافت کا خطبہ پڑھا تھا) مروان کے ساتھ تھا اور مارا گیا اور دوسری روایت کے مطابق مروان حمار نے ابراہیم کو اس سے پہلے قتل کیا ہے۔

 جب مروان کو جنگ زاب میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف بھاگ گیا لیکن موصل کے لوگوں نے اسے شہر میں داخل

۱۹۶

نہیں ہونے دیا۔وہ مجبوراً ''حران''چلا گیا کہ اس کا گھر اور جگہ بھی وہیں تھی۔ اس زمانے میں کہ جب منبروں اور نمازوں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر لعن کو ختم کر دیا گیا تھا،حرّان کے لوگوں نے اس بات کو قبول نہ کیا اور انہوں نے کہا:ابوتراب پر لعن کئے بغیر نما ز،نماز نہیں ہے!

عبداللہ بن علی نے اپنے لشکرکے ساتھ مروان کا پیچھا کیا اور جونہیں حرّان پہنچا تو مروان اس کا مقابلہ کرنے سے بھاگ گیا اورنہر فرات سے بھی گذر گیا۔عبداللہ بن علی حرّان پہنچا اور اس نے مروان کے محل کو تباہ و برباد کر دیا کہ جس کی تعمیر میں اس نے ایک کروڑ درہم خرچ کئے تھے اور جسں میں اس نے اپنے خزانے اور اپنا مال رکھا تھا۔

     مروان اپنے خاندان کے افراد،بنی امیہ اور اپنے خاص لوگوں کے ساتھ نہر ابی فطرس کے کنارے آیا اور عبداللہ بن علی بھی روانہ ہو گیا اور دمشق کے قریب  پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔مروان کی طرف سے ولید بن معاویہ بن عبدالملک بن مروان پچاس ہزار جنگجوؤں  کے ساتھ دمشق کی حکومت کی طرف روانہ ہوا تھا اور خداوند متعال نے ان کے درمیان یہ تعصب پیدا کر دیا کہ نزاریوں کو یمانیوں پر برتری ہے یا یمانیوں کو نزاریوں پر۔ یوں وہ آپس میں ہی لڑنے لگے اور ولید بن معاویہ مارا گیا۔

 کہتے ہیں:وہ عبداللہ بن علی سے جنگ کرتے ہوئے مارا گیا۔

عبداللہ نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور یزید بن معاویہ بن مروان  اور عبدلجبار بن یزید بن عبدالملک کوگرفتار کر لیا  اور انہوں قیدیوں کی صورت میں ابوالعباس سفاح کے پاس بھیج دیا اور اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان کے جسم کو حیرہ میں  پھانسی پرلٹکا دیا۔

عبداللہ بن علی نے دمشق میں بھی مروان کے بہت سے رشتہ داروں،ساتھیوں اور بنی امیہ کے پیروکاروں کو قتل کیا۔پھر وہ نہر ابی فطرس کے کنارے پہنا اوراس نے وہاں بنی امیہ کے تقریباً اسّی(80) افراد کو قتل کیا۔یہ واقعہ     132ھ ذی القعدہ میں پیش آیا۔(1)

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۳۷۳

۱۹۷

بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے ایک دوسرے خطبہ میں قسم کھائی کہ قیامت تک ہونے والے کسی بھی واقعہ کے بارے میں آپ سے سوال کیا جائے تو آپ اس کاجواب دیں گے۔سو افراد پر مشتمل ہر گروہ (چاہئے وہ ہدایت یافتہ ہو ںیا گمراہ) کے بارے میں بتائیں گے اور یہ کہ ان کا رہبر کون ہو گا؟ وہ کہاںوجود میں آئیںگے؟ان میں سے کون قتل ہو گا؟اور کون اپنی طبیعی موت مرے گا؟

 اس خطبہ کے آخر میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

  اس وقت (بنی العباس کے ہاتھوں بنی امیہ کی نابودی کے وقت) قریش کی یہ خواہش ہو گی کہ ساری دنیامیرے ہاتھوں میں رکھ دیں تا کہ صرف ایک بار مجھے دیکھ لیں۔اس مطلب سے گویا آنحضرت نے ابومسلم خراسانی اور سیاہ لباس پہنے ہوئے لوگوں کے شام میں حملہ اور بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد (جو مروان حمارکے نام سے مشہور ہے) کی نابودی کی خبر دی ہے۔

مؤرخین نے نقل کیا ہے: مروان بن محمد نے جنگ زاب میںجونہی عبداللہ علی بن عبداللہ بن عباس کو خراسانیوں کی صفوں میں اپنے مد مقابل دیکھا تو کہا:میں پسند کرتا کہ اگر اس پرچم کے نیچے اس جوان کی بجائے علی بن ابی طالب علیہما السلام ہوتے۔(1)

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ کے بارے میں فرمایا ہے:

خداوند بنی امیہ کے فتنہ کی اس طرح سے سرکوبی کرے گا کہ جیسے گوشت سے کھال اتار لی جائے خداوند ا کسی ایسے کے ذریعہ انہیں خوار کرے گا اور اس طرح سے کہ یہ جو جبر کرتے ہیں انہیں نکال دیا جائے گا اور انہیں بلاؤں کا جام پلایا جائے گا۔تلوار کے علاوہ انہیں کوئی تحفہ نہیں دیا جائے اور ان کے جسم پر خوف کے علاوہ کوئی لباس نہیں ہوگا۔

اب مختصر طور پر  تاریخ یعقوبی سے بنی امیہ کے شرمناک انجام اور ان کے برے دنو ں کا تذکرہ کرتے ہیں:

--------------

[1] ۔ اس خبر کی مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں کامل التواریخ:3344 -327، نیزمقاتل الطالبین کے آخری حصہ میں بنی امیہ کے دور صفحہ260 کی طرف رجوع کریں۔

۱۹۸

یعقوبی کہتے ہیں:(1) جب   132ھ میں کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کی بیعت کی گئی تو کوفہ بنی امیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا،مروان بن محمد بنی امیہ کا آخری خلیفہ موصل کے نزدیک زاب کے مقام پر پہنچا تا کہ بنی العباس اور ان کے حامیوں سے جنگ کرے ۔ پہلے عباسی خلیفہ ابوالعباس سفاح نے اپنے چچا عبداللہ بن علی کو مروان سے جنگ کے لئے زاب بھیجا۔مروان شکست کھا کر شام لوٹ گیا۔اس دوران مروان شام کے کسی بھی شہر سے نہیں گزر سکتا تھا مگر یہ کہ وہاں کے لوگ اسے تباہ و برباد کر دیتے ، بالآخرمروان دمشق پہنچا اور اس کاارادہ یہ تھا کہ اس شہر میں کہ جو بنی امیہ کی حکومت کامرکز تھا،قلعہ میں پناہ  لے لے لیکن دمشق کے لوگوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا کہ جن میں سے اکثر بنی امیہ میں سے تھے اور قبیلۂ قیس نے ان پر حملہ کر دیا۔

عبداللہ بن علی بھی مروان کا پیچھا کرتا ہوا دمشق آ پہنچا۔اس نے مروان کے جانشین ولید بن معاویہ کو قتل کر دیا۔مروان فلسطین کی  طرف بھاگ گیا اور فلسطین کے بعد مصر کی طرف فرار کر گیا اور مصر میں بنی العباس کی دعوت کرنے والوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور اس کا سر سفاح کے پاس ''حیرہ'' میں بھیج دیا گیا۔مروان کا کٹا ہوا سر ایک کونے میں رکھ دیا گیا تاکہ  اسے سفاح کے پاس بھیجا جاسکے اور اسی دوران ایک بلی  نے اس کی زبان نوچ لی۔مروان کی عمر 64 اور ایک قول کے مطابق 68 سال تھی اور وہماہ ذی الحجہ    132  ھ میں مارا گیا اور کی خلافت کی مدت پانچ سال تھی۔

  مروان کے چار بیٹے تھے جن کے نام عبدالملک ، عبداللہ، عبیداللہ اور محمد تھے۔مصر کی طرف بھاگتے وقت مروان اپنے خاندان کے اکثر و بیشتر افراد کو اپنے ساتھ لے گیا تھا خاص طور پر اپنے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو اور بہت سی عورتیں اور اس کی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ تھیں ۔ جب مروان مصر میں قتل ہو گیا تو اس کے بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ نے مصر کےشہر صعید میں پناہ لے لی اور وہ وہاں بھی نہ رہ سکے کیونکہ بنی العباس کی حکومت کے حامی ان کا  پیچھا کر رہے تھے۔لہذا انہوں نے سرزمین نوبہ(سوڈان)کا راستہ اختیار کر لیا۔یعقوبی کہتے ہیں:(2) عبداللہ اور عبیداللہ کے ساتھ کچھ عورتیں،اس کی یٹیاں،

--------------

[1]۔ تاریخ یعقوبی:ج2ص325-324

[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۳۲۵-324

۱۹۹

 بہنیں اور اس کے چچا کی بیٹیاں پیدل اور پریشانی کے عالم میں بھاگ رہیں تھیں ،یہاں تک کہ شام کا ایک شخص اس کی بیٹی کے پاس سے گذرا جو اسی اجنبی لگی اور پھر اچانک اس نے اسے پہچان لیا کہ یہ مروان کی چھ سال کی بیٹی ہے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور اسے عبداللہ بن مروان(1) کے حوالہ کر دیا۔

مروانی شہر نوبہ (سوڈان) پہنچ گئے ۔ نوبہ کے حاکم نے ان کا احترام کیا۔مروانیوں نے کہا: ہم شہر نوبہ کے کسی قلعہ میں رہ لیں گے تا کہ ہمیں کوئی پناہ گاہ میسر آجائے اور پھر ہم اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دیں ۔شاید خدا نے ہم سے جو کچھ لے لیا ہے اس کا کچھ حصة ہمیں پھر سے لوٹا دے۔

نوبہ کے حاکم نے ان سے کہا:ان کوّوں (سیاہ فام) کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان کے پاس لباس اور اسلحہ بہت کم ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ تم ان کے ہاتھوں کچلے نہ جاؤ۔ لہذا وہ نوبہ سے حبشہ کی   طرف فرار کر گئے اور حبشہ میں کچھ سیاہ فارم لوگوں کی مروانیوں سے لڑائی ہوئی  اور عبیداللہ بن مروان اس لڑائی میں مارا گیا اور اس کے ساتھی اسیر ہو گئے۔

 ان کے پاس جو کچھ تھا،وہ حبشیوںنے چھین کر انہیں چھوڑ دیا۔وہ برہنہ اور ننگے پاؤں بیابانوں میں پریشان حالتھے اور پیاس کی وجہ سے ان کی جان منہ کو آئی ہوئی تھی یہاں تک کہ مرد اپنے ہاتھوں میں پیشاب کرتے اور پھر اسے پیتے تھے اور اپنے پیشاب سے ریت کوگوندھ کر کھاتے تھے یہاں تک کہ وہ عبداللہ بن مروان تک پہنچ گئے۔ان سے پہلے اس نے بھی مشکلات اور پیاس کی شدت برداشت کی اور اس کے ساتھ کچھ برہنہ عورتیں تھیں کہ جو سر سے پاؤں تک عریان تھیں اور پیدل چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں  اور پیشاب پینے کی وجہ سے ان کے ہونٹ پھٹ چکے تھے ،یہاں تک کہ وہ مندب (یمن کے ساحل باب المندب) پہنچے اور ایک مہینہ تک وہاں رہے،لوگوں نے انہیں کچھ چیزیں فراہم کیں۔پھر وہ وزن اٹھانے والوں اور کشتی پر کام کرنے والوں کی شکل میں چھپ کر مکہ کے قصدسے باہر نکل گئے۔

--------------

[1] ۔ ابولفرج علی بن الحسن اصفہانی ،صاحب کتاب ''معروف الاگان اور مقاتل الطالبین''اسی عبداللہ بن مروان کے فرزندوں  میں سے ہے۔اس نے کتاب مقاتل میں بنی امیہ پر لعنت کی حالانکہ وہ خود بھی بنی امیہ میں سے تھا۔

۲۰۰