معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 148375
ڈاؤنلوڈ: 5442

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148375 / ڈاؤنلوڈ: 5442
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جیسا کہ کہا گیا ہے:عبداللہ بن علی سفاح کا چچا دمشق میں بنی امیہ کا پیچھا کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ نہر ابو فطرس (فلسطین و اردن کے درمیان ایک مقام) پہنچا ۔ اس نے بنی امیہ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا:کل مجھ سے کچھ مال لینے کے لئے میرے پاس آؤ۔اس کے اگلے دن علی الصبح بنی امیہ کے اسّی(80)آدمی عبداللہ کے پاس آئے،اس نے بنی امیہ کے ہر مرد کے اوپر گرز کے ساتھ دو دوشخص معین کر دیئے اور پھر عبداللہ بن علی نے شاعر (کہ جسے اس نے تدارک سے پہلے دیکھا تھا) سے کہا : اپنے اشعار پڑھو۔ شاعر کہ جس کا نام عبدی تھا،اس نے یہ شعر پڑھا:

امّا الدعاة الی الجنان فهاشم             و بنو امیّة من کلاب النار

جنہیں  جنت کی طرف دعوت دی جائے گی وہ بنی ہاشم ہیں اور بنی امیہ جہنم کے کتوں میں سے ہیں۔

 اموی خلیفہ نعمان بن یزید بن عبدالملک ،عبداللہ بن علی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا،وہ شاعر پر ناراض ہوا اور اس نے کہا: اے بدبو دار عورت کے بیٹے ؛تم  نے جھوٹ بولا ہے۔عبداللہ بن علی نے شاعر سے کہا:تم نے صحیح کہا ہے، اپنے اشعار جاری رکھو۔

پھر عبداللہ بن علی نے بنی امیہ کے آدمیوں کی طرف رخ کیا اور انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کی اہلبیت علیہم السلام کو قتل کیا تھا ۔ پھر اس نے تالی بجائی اور اس کے سپاہیوں نے بنی امیہ کے آدمیوں کے سروں پر گرز مارنے شروع کر دیئے یہاں تک کہ ان  اسّی افراد کی جان حلق پہ آ گئی ۔ ان میں سے کچھ تو نیم مردہ تھے جنہیں اس نے ایک ساتھ رکھ کر ان پر فرش بچھا دیا ۔ پھر عبداللہ بن علی اور اس کے ساتھی فرش پر بیٹھ گئے اور ان کے لئے کھانا لایا گیا اور انہوں نے کھانا کھایا۔جب کہ فرش کے نیچے سے ان میں سے کچھ کے آہ و نالہ کی آواز سنی جا سکتی تھی،عبداللہ بن علی نے کہا:حسین علیہ السلام کے دن کی طرح کا دن ،لیکن یہ دن اس دن کی طرح نہیں

۲۰۱

ہے۔(5)

--------------

[5] ۔ تاریخ یعقوبی(ترجمہ آیتی):ج۲ص۳۲۵-324

ابوالفرجج اصفہانی نے کتاب اغانی کی چوتھی جلد میں بنی امیہ کے کچھ لوگوں کے قتل ہونے کے بارے میں دوسری روایت نقل کی ہے کہ جنہوں نے سفاح سے امان لی تھی،وہ کہتا ہے:زبیر بن بکار نے اپنے چچا سے روایت کی ہے کہ ایک دن سفاح اپنے دربار میں بیٹھا تھا جب کہ اس کے پاس بنی امیہ کے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔کسی شاعر نے سفاح کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا،سفاح نے بنی امیہ کے آدمیوں کی طرف دیکھ کر کہا: اس قصیدے کا مقابلہ تمہاری شان میں کہے گئے قصیدوں سے کہاں کیا جا سکتا ہے؟امویوں میں سے ایک نے کہا: تمہارے بارے میںشعرمیں ایسی مدح نہیں کیجیسا شعر قیس الرقیات نے ہمارے بارے میں کہا اور وہ شعر یہ ہے:

''کوئی چیز بنی امیہ کے لئے ناپسند شمار نہیں کرتے مگر یہ کہ وہ غصہ کے وقت بھی بردباری کرتے ہیں، بیشک وہ بادشاہوں کا معدن ہیں اور عرب صرف انہی کے ذریعہ صلاح تک پہنچیں گے۔

سفاح غصہ میں آ گیا اور اس نے کہا:اے فلاں؛ اپنی ماں کافلاں کاٹو!گویا اب بھی تمہارے سروں میں خلافت کی ہوس بھری ہوئی ہے۔پھر اس نے حکم دیا تا کہ اس کے مأمورین ان کے سروں پرماریں۔سفاح کے سپاہیوں نے گرز کے ساتھ اپنی مجلس میں بنی امیہ کے تمام آدمیوں کو مار ڈالا۔پھر ابوالعباس سفاح نے حکم دیا کہ غذا تیار کی جائے، ان کے جسموں پر فرش بچھایا گیا اور سفاح نے ان پر بیٹھ کرکھانا کھایاجب کہ ان میں سے کچھ زندہ تھے اور وہ آہ و نالہ کر رہے تھے۔ جب اس نے کھانا کھا لیا تو سفاح نے کہا: مجھے یاد نہیں   ہے کہ میں نے کبھی اس سے بہتر غذا کھائی  ہو۔ پھر اس نے حکم دیا کہ مردوں کو گھسیٹ  کر انہیں محل سے باہر لے جائیں اور گلی میں پھینک دیں۔

یہ خبر بیان کرنے والا کہتا ہے: ہم نے خود دیکھا کہ کتے ان مردوں کو پاؤں  سے پکڑ کر ادھر ادھر گھسیٹ رہے تھے جب کہ ان کے جسم پر مہنگے لباس تھے اور آخر کار وہ  سڑ گے اور انہیں ایک گڑے میں دفن کر دیا۔ (جلوہ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج3ص394 اغانی سے منقول)

۲۰۲

بنی امیہ کا انجام اور بری عاقبت خود ایک مثنوی بن جائے گی ۔  یہ تھی امام علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے انجام کے بارے میں  پیشنگوئی ۔ جس سے عقلمند عبرت لیں۔(1)

حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا

 بنی امیہ اس قدر گستاخ اور پست تھے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو پیغمبر اکرم(ص) کی حیات کے زمانے میں آپ کو تکالیف پہنچائیں اور انہیں اپنے اس پست کام پر کوئی شرم و حیا  کا احساس بھی نہیں ہوتا تھاکہ جو ان کے کفر و نفاق کی دلیل ہے۔ ان میں سے ایک ''حکم بن عاص'' ہے جس پر رسول اکرم(ص) نے لعنت کی ہے اور اسے''طرید رسول اللّٰه'' (یعنی رسول خدا(ص) کی طرف سے نکالا گیا) کا لقب ملا۔کتاب ''الاستیعاب'' کے مؤلف حکم کے بارے میں کہتے ہیں:ایک دن رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے ، اور اس دوران آپ نے فرمایا:اب تمہارے سامنے ایک ملعون شخص داخل ہو گا۔عبداللہ بن عمروعاص (عرب کا مشہور مکار و دھوکہ باز اور معاویہ بن ابی سفیان کا یار و مشیر) کہتا ہے:میں بھی اس مجلس میں موجود تھا اور جب میں نے رسول اکرم(ص)  کی یہ بات سنی تو میں پریشان ہو گیا کیونکہ میرے باپ عمرونے اپنا لباس پہن چکاتھا اور وہ رسول خدأ کے پاس آنے کا ارادہ رکھتا تھا،میں نے اپنے آپ سے کہا: کہیںایسا نہ ہو کہ اب میرا باپ آ جائے،اچانک میں نے دیکھا کہ حکم بن ابی العاص داخل ہوا۔     حکم بن ابی العاص وہی شخص ہے کہ جسے پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ سے نکال دیا تھااور مسلمانوں نے اسے ''طرید رسول اللّٰہ''کالقب دیا تھا۔مروان اسی کا بیٹا ہے اور بنی مروان (جنہیں   یزید اور مروان کے بعد خلافت ملی اور جنہوں نے    65ھ سے 132ھ تک شام میں حکومت کی) اسی شخص کی نسل میں سے ہیں۔(2) بعض مؤلفین نے اس کا اچھے انداز سے تعارف کروایا ہے اور اس کے برے کاموں سے پردہ اٹھایا ہے اور انہوں نے اس کی رعشہ کی بیماری اور مدینہ سے نکالے جانے کا واقعہ بیان کیا ہے:

--------------

[1]۔ پیشگوئی ھای امیرالمؤمنین علیہ السلام:203

[2]۔ اعجاز پیامبر اعظم(ص) در پیشگویی از حوادث آئندہ:384

۲۰۳

حکم بن عاص  نے فتح مکہ کے سال مسلمانوں کی طاقت دیکھ کر ظاہری طور پر اسلام قبول کیا۔لیکن اس کے دماغ میں ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کو تکالیف پہچنائے کے خیالات نشوونما پاتے تھے اور وہ مختلف صورتوں میں آنحضرت کو تکلیفیں پہنچاتاتھا۔ اس طرح سے کہ تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے کہ خصوصی  خفیہ جلسوں کی تشکیل  کے موقع پر یہ  جاسوسی کی غرض سے کسی کونے میں چھپ جاتا تھااور یہ مشرکین و منافقین کے بارے میں رسول اکرم(ص) اور اصحاب کے منصوبوں سے آگاہ ہو کر اسلام و مسلمانوں کی مصلحت کے برخلاف انہیں لوگوں میں پھیلا دیتا تھا یا دشمن کو ان کی اطلاع دے دیتا تھا۔

     کبھی یہ پیغمبر اکرم(ص) کے حجرے (جس کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے) کے پیچھے کان لگا کر سنتا تھا اور آنحضرت کی اپنے خاندان کے ساتھ کی جانے والی خصوصی باتیں سنتا تھااور پھر انہیں منافقین کی محفلوں میں توہین اور تمسخرانہ انداز میں بیان کرتا تھا۔

کبھی وہ کچھ منافقین  کے ساتھ رسول اکرم (ص) کے پیچھے پیچھے چلتااور آنحضرت کے چلنے کے انداز کی نقل کرتا  اور اپنے ہاتھوں اور سر کو ہلا کر مسخرانہ حرکتوں سے منافقین کو ہنساتا تھا۔

 رسول اکرم (ص) حکم بن ابی العاص کے گفتار وکردار سے آگاہ تھے لیکن رحمت و بزرگواری کی وجہ سے بیان نہیں فرماتے تھے کہ شاید وہ متنبہ ہو جائے اور اپنا راستہبدل کربرے کاموں کو چھوڑ دے ۔ لیکن اس نے رسول اکرم(ص) کے کرم اور برداشت کا الٹا اثر لیا  اور روز بروز اس کی گستاخیاں بڑھتی گئیں اور وہ مزید جرأت کے ساتھ اپنے نازیبا کام انجام دیتا۔ آخر کار نبی رحمت(ص) نے  اس کے بارے میں اپنی روش کو بدلنے اور اس کے عمل کا ردّ عمل کے طور پر جواب دینے کا ارادہ کر لیا۔

     ایک دن رسول اکرم(ص) راستہ سے گذر رہے تھے۔حکم بن ابی العاص آنحضرت کے پیچھے چل پڑا اوراس نے پہلے کی طرح سر اور ہاتھوں کو ہلا کر تمسخرانہ انداز سے مسخرہ کرنا شروع کر دیا اوراس کے ساتھ موجود منافقین ہنسنے لگے۔ اچانک پیغمبر اکرم(ص) پیچھے مڑے اور حکم کے رو برو کھڑے ہو گئے اور شدت سے اس سے فرمایا:

     کَذٰلِکَ فَلْتَکُنْ یٰا حَکَمْ      اے حکم؛ جس طرح ہو اسی طرح بن جاؤ۔

۲۰۴

حکم بن ابی العاص چونک گیا اور کسی تیاری اور آگاہی کے بغیر ہی اسے نبی اکرم(ص) کے ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ پیغمبر اکرم(ص) کے رو برو ہونے اور آن حضرت کے سخن کوسننے کی وجہ سے اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ رعشہ کی بیماری میں مبتلا ہوگیا اور وہ جو حرکتیں تمسخرانہ انداز میں اپنے ارادہ و اختیار سے انجام دیتا تھا، اب وہی حرکتیں بیماری کی وجہ سے بے اختیاری میں انجام دینے لگا۔

 اسے جاسوسی اور قانون و اخلاق کی خلاف ورزی کے جرم میں اجباری طور پرمدینہ سے شہر بدر کرکے طائف کی طرف بھیج دیا گیا۔(2)(1)

یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئےحکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ'' میں یہ بھی لکھا ہے:جب رسول اکرم(ص) نے رحلت فرمائی تو اس وقت مروان تقریباًآٹھ سال کا تھا۔ اور کہا گیا ہے:جب اس کے باپ کو طائف کی طرف نکال دیا گیا تو وہ بھی اس کے ساتھ تھا اور وہ ایک بچہ تھا کہ جسے کسی چیز کی کوئی سمجھ نہیں تھی  اور مروان نے پیغمبر اکرم(ص) کو نہیں دیکھا تھا۔

 پیغمبر اکرم(ص) نے مروان کے باپ حکم کو مدینہ سے نکال کر طائف کی طرف بھیج دیا تھا اور وہ عثمان کو حکومت ملنے تک طائف میں ہی مقیم تھا۔ عثمان نے اسے مدینہ واپس بلایا۔حکم اپنے بیٹے کے ساتھ عثمان کے زمانے میں مدینہ آیا۔حکم مدینہ میں مر گیا۔عثمان نے مروان کو اپنا سیکرٹری بنا لیا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیااور عثمان کے قتل ہونے تک مروان اس پر غالب تھا۔

حکم بن ابی العاص (جو عثمان بن عفان کا چچا ہے) ان افرادمیں سے تھا کہ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور ان کے دلوں کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں مال دیا  جاتا تھا۔عثمان کی حکومت کے زمانے میں اور اس کے قتل ہونے سے کچھ مہینے پہلے حکم مر گیاتھا۔

--------------

[1]۔ ناسخ التواریخ (حالات حضرت سجاد علیہ السلام): ج1ص730

[2]۔ اخلاق از نظر ہمزیستی و ارزشھای انسانی:ج1ص382

۲۰۵

 رسول خدا(ص) کے حکم پر اسے مدینہ سے نکالے جانے پر اختلاف ہے۔کہا گیاہے: حکم اپنے مکر و فریب سے چھپ جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) بزرگ اصحاب کے ساتھ مل کر قریش کے مشرکین یا منافقین اور کفار کے بارے میں جو بھی منصوبہ بناتے تھے ،یہ اسے فاش کر دیتا تھا اور جب اس کا یہ عمل ثابت ہو گیا  تو اسے نکال دیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے:وہ پیغمبر اکرم(ص) کی اپنی ازواج کے ساتھ کی جانے والی گفتگو کو چھپ کر سنے اور تمام ماجرے کو جاننے کی کوشش کرتا کہ جس کا جاننا جائز نہیں ہے اور پھر وہ یہ سب باتیں مذاق اور  مزاح کے طور پر منافقین کے لئے نقل کرتا تھا۔کہتے ہیں: وہ کچھ تمسخر انہ حرکتوں سے پیغمبر اکرم(ص) کے چلنے کی نقل کرتا تھا۔کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) چلتے وقت آگے سے تھوڑا جھک کر چلتے تھے(1) اور حکم بن ابی العاص بھی چلتے وقت ویسے ہی نقل کرتا تھا۔ وہ پیغمبر اکرم(ص) سے بغض و حسد رکھتا تھا ۔ایک دن رسول خدا(ص) واپس پلٹے تو آپ نے اسے دیکھا کہ وہ آپ کے پیچھے چل رہا ہے اور اسی طرح تمسخرانہ انداز میں آپ کے چلنے کی نقل کر رہا ہے۔آپ نے فرمایا:اے حکم؛ ایسے ہی ہو جاؤ۔اسی وقت سے حکم رعشہ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔یہ موضوع عبدالرحمن بن حسان بن ثابت نے عبدالرحمن بن حکم خطاب میں منظوم صورت میںبیان کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے: اپنیملعون باپ کی ہڈیوں پر پتھر برساؤاور فرض کرو کہ اگر تم پتھر برساؤ گے تو گویا تم نے ایک لرزنے اور کانپنے والے پاگل پر پتھر برسائے ہیں ۔ وہ اس حالت میں چلتا تھا کہ اس کا پیٹ تقوا کے کاموں سے خالی اور ناپسندیدہ کردار سے بھرا  ہواتھا۔''استیعاب''کے مؤلف کہتے ہیں:عبدالرحمن بن حسان نے یہ جو کلام کہا ہے:''تمہارا ملعون باپ'' اس کی یہ وجہ ہے کہ عائشہ سے مختلف اسناد اور سلسلوں سے روایت کیا ہے کہ جسے ابوخیثمہ اور دوسروں نے روایت کیا ہے، روایت ہوئی ہے کہ:جب مروان نے کہا:یہ آیت''اور جس نے اپنے ماں باپ سے یہ کہا کہ تمہارے لئے حیف ہے کہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں دوبارہ قبر سے نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں فریاد کررہے تھے کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے بیٹا ایمان لے آ۔

--------------

[1] ۔ پیغمبر اکرم(ص) کے چلنے کی کیفیت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ترجمۂ'' طبقات ابن سعد:282'' چاپ تہران،  1365 ش، اور ترجمہ ''دلائل النبوّة بیہقی:ج1ص135'' چاپ تہران،1361 ش، اور اس پر پیغمبر اکرم(ص) کی لعنت کے بارے میں جاننے کے لئے ''النہایة ابن اثیر:ج1ص310'' کی طرف رجوع فرمائیں۔      

۲۰۶

 خدا کا وعدہ بالکل سچا ہے تو کہنے لگا کہ یہ سب پرانے لوگوں کے افسانے ہیں ''(1) عبدالرحمن بن ابوبکر   یعنی عائشہ کے بھائی کے بارے میں نازل ہوئیہے۔عائشہ نے اس سے کہا: اے مروان!یہ تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نے تمہارے باپ پر لعنت کی ہے جب کہ تم اس کی پشت میں تھے۔(2)

حکم بن عاص  کی طرف سے پیغمبر اسلام(ص) پر روا رکھے جانے والے تمام ظلم و ستم اور اس کے لئے رسول خدا(ص) کی تمام نفرت  کے باوجودبہت سے اہلسنت علماء کی کتابوں کی بنا پر اہلسنت کے تیسرے خلیفہ عثمان کو اس سے بہت لگاؤ تھا!یہاں تک کہ اس نے آنحضرت کی خدمت میں سفارش کی کہ اسے اور اس کے بیٹے کو مدینہ واپس دیا جائے لیکن آنحضرت نے اس کی بات کی طرف توجہ نہیں کی۔

رسول اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر اور پھر عمر سے بھی یہی درخواست کی۔ان دونوں نے بھی اس کی درخواست قبول نہ کی لیکن جب وہ خود خلیفہ بنا تو اس نے انہیں مدینہ واپس بلا لیا اور اسے بہت سے پیسے اور مال عطا کیا اور اس کے بیٹے مروان کو اپنا کاتب بنا لیا!

 کتاب'راھبرد اہلسنت بہ مسئلہ ٔامامت''میں لکھتے ہیں:حضرت پیغمبر اکرم(ص) نے حکم بن ابی العاص پر لعنت کی ہے کہ جو مروان کا باپ ہے اور اسے مدینہ سے نکال کر طائف بھیج دیا تھا۔ اگرچہ عثمان نے اس کے لئے بہتگذارش و سفارش کی کہ آنحضرت اسے اور اس کی اولاد کو مدینہ آنے دیں لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا۔آنحضرت کی رحلت کے بعد ابوبکر اور عمر نے بھی قبول نہ کیا  اورعثمان نے جتنی بھی التماس اورگذارش کی لیکن اسے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔یہاں تک کہ حکم ''طریدرسول اللّٰہ ''کے لقب سے مشہور و معروف ہو گیا۔(3)

--------------

[1]۔ سورۂ احقاف، آیت: 17

[2]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۳ص۲6۴

[3] ۔ تاریخ اسلام ذہبی:ج3ص365 اور 366،الوافی بالوفیات:ج13ص112،الاصابة:ج1ص346، الاستیعاب:  ج1ص317،عقد الفرید:ج4ص28، معارف ابن قتیبة:112 اور 119،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج1ص198،  ج3ص29،ج6ص149 اور اسد الغابة:ج2ص34 اور 35۔

۲۰۷

 پس عثمان نے اپنی خلافت کے زمانے میں رسول خدا(ص) کی مخالفت کی اور حکم کو اس کے اہل و عیال   کے ساتھ مدینہ واپس بلا لیااور انہیں بہت مال و منال عطا کیا اور مروان بن حکم کو اپنا کاتب بنا لیا۔

 پس امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن اور عمار نے اس سے اس بارے میں گفتگو کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور اس نے جواب میں یہی  عذر پیش کیا:حکم سے مجھے جو قرابت ہے اگر تمہیں کسی سے ایسی قرابت ہوتی اور جو طاقت میرے پاس ہے وہ تمہارے پاس بھی ہوتی تو تم بھی اسے شہر میں داخل کر لیتے اور حالانکہ مدینہ کے لوگوں میں حکم سے بھی بدتر لوگ موجود ہیں!پھر وہ سب عثمان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے۔(2)(1)

اس خاندان کے بہت سے افراد پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کی اہلبیت اطہار علیہم السلام کے دشمن تھے۔ مغیرة بن عاص (جو حکم کا بھائی تھا) آنحضرت کے سخت دشمنوں میں سے تھااور اس نے آنحضرت کو شہید کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھالیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور اسی طرح اس کا بھائی حکم بن عاص آنحضرت کی لعنت کا شکار ہوااور آخر کار عمار کے ہاتھوںواصل جہنم ہوگیا۔ ''نفائح العلاّم فی سوانح الأیّام''میں لکھتے ہیں: مغیرة بن عاص پتھر پھینکنے میں بہت ماہر تھا اس کا نشانہ  کبھی چونکتا نہیں تھا۔جب وہ احد کی طرف جا رہا تھا تو اس نے راستہ میں سے اپنے ساتھ تین پتھر اٹھا لئے اور کہا:''بهذه اقتل محمداً'' میں انہی تین پتھروں کے ساتھ محمد کو قتل کردوں گا۔ پس جنگ کے دوران جب اس کی نظر رسول خدا(ص) پر پڑی اور دیکھا کہ''بیده السیف'' کہ آپ کے دست مبارک میں تلوار ہے تو پہلے اس نے پیغمبر اکرم(ص) کے ہاتھ کا نشانہ لیا اور ان تین پتھروں میں سے ایک پتھر پھینکا،وہ پتھر آنحضرت کے دست مبارک پر ایسا لگا کہ''سقط السیف من یده الشریفه''که آپ   کے دست مبارک سے تلوار زمین پر گر گئی۔ اس نے چیخ کرکہا:لات و عزّی کی قسم؛کہ محمد مارے گئے۔

---------------

[1] ۔  اسد الغابة:ج4ص348،مختصر تاریخ دمشق:ج24ص172،،طبقات ابن سعد:ج5ص36،الشافی سید مرتضی:ج  4ص269 اور شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج3ص30 اور 31

[2]۔ راھبر اہلسنت بہ مسئلۂ امامت:349

۲۰۸

 اس خبیث کی آواز امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:''کذب لعنه اللّٰه''

اس نے جھوٹ بولا ہے،خدا اس پر لعنت کرے ۔پیغمبر اکرم(ص)  قتل نہیں ہوئے۔

 پھر اس ملعون نے دوسرا پتھر پھینکا اور وہ پتھر''فَاَصٰاب جَبْهَتَه'' آپ کی نورانی پیشانی پر لگا اور اس نے پروردگار کے محل سجود کو تکلیف پہنچائی۔

 رسول خدا(ص) نے اس لعین کے لئے بد دعا کی کہ:

 خدایا؛ اسے حیران کر۔

 لہذا جب کفار واپس لوٹے تو ابن عاص پیغمبر اکرم(ص) کی بد دعا کی وجہ سے معرکہ میں حیران ہو گیا اور وہ وہاں سے فرار نہ کر سکا یہاں تک کہ عمار پہنچے اور اسے واصل جہنم کر دیا۔(1)

معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

 آئندہ زمانے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہیں (جیسا کہ ہم نے کہا) تا کہ لوگ گمراہ کرنے والے فتنوں سے آشنا ہو کرخود کو ہلاکت و گمراہی  سے نجات دیں اور خاندان وحی علیہم السلام کی پناہ میں آکر اور ان کے مکتب کی پیروی کرکے فکری و روحانی سکون حاصل کریں اور اضطراب، پریشانیوں ،وسوسوں اور نادانی سے محفوظ رہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) نے یہ پیشنگوئیاں مختلف زمانوں میں متعدد خطابات اور مختلف مناسبتوں پر بیان فرمائیں۔کبھی کلی صورت میںسب کے لئے آئندہ کی خصوصیات بیان فرمائیں  اور اپنی رحلت کے زمانے سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے قیام کے زمانے تک فتنوں اور امتحانات کو بیان کیا اور اس   اس زمانے اور بعد کے زمانے کے لوگوں کوان میں گرفتار ہونے سے ڈراتے اور کبھی کسی خاص موضوع اور خاص عنوان کوبیان کرتے اور اس بارے میں لوگوں کو خبردار کرتے تھے۔

--------------

[1]۔ نفائح العلاّم فی سوانح الأیّام: ج ۲ص۲۱۷

۲۰۹

     کبھی کچھ خاص افراد کا نام لیتے اور لوگوں کو ان سے آشنا کرنے اور ان سے ہوشیار رہنے کے بارے میں بیان کرتے تا کہ لوگ آنحضرت کے فرمان کے نتیجہ میں راہ اور چاہ میں تشخیص دے سکیں اور تاریخ کے مکار افراد کی میٹھی زبان سے دھوکا نہ کھائیں۔

     بعض معین افراد کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی کچھ پیشنگوئیوں میں سے کچھ ایسے فرامین ہیں کہ جو آنحضرت سے جناب عمار کی شخصیت کے بارے میں روایت ہوئے ہیں اور ان میں لوگوں کو وہی راستہ اختیار کرنے کی طرف راغب کیا گیا ہے کہ جو راستہ جناب عمار نے منتخب کیا۔

     اس کے مقابل میں کچھ ایسے افراد کا بھی نام لیا گیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے سختی سے ان کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے۔

     اب اس روایت پر غور کریں:

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں:ابن دیزیل نے عبداللہ بن عمر سے،اس نے زید بن حباب سے،اس نے علاء بن جریر عنبری سے،اس نے حکم بن عمیر ثمالی (جس کی ماں ابوسفیان کی بیٹی ہے) سے نقل کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

     اے ابو بکر؛اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:مجھے امید ہے کہ ہر گز ایسا نہیں ہوگا!

     رسول خدا(ص) نے فرمایا:

     اے عمر ؛اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:اے کاش؛میں سنگسار ہو جاؤ ں کہ اس صورت میں تو میں شر میں گرفتار ہو جاؤں گا۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

۲۱۰

     اے عثمان!اگر تم خلیفہ بن گئے تو کیا کرو گے؟

     عثمان نے کہا:میں خود بھی کھاؤں گا اور دوسروں کو بھی کھلاؤں گا،اموال تقسیم کروں گا اور ظلم و ستم نہیں کروں گا!

     رسول خدا(ص) نے فرمایا:

     یا علی؛اگر آپ خلیفہ بن گئے تو کیا کریں گے؟

     فرمایا:اپنے رزق و روزی اور قوت کے مطابق  کھاؤں گا اور اپنے قبیلہ(مسلمان)  کی حمایت کروں گا اور ایک خرما بھی ہو تو اسے تقسیم کروں گا اور ناموس کو پوشیدہ رکھوں    گا۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:تم میں سے ہرایک جلد ہی حاکم بنے گااور جلد ہی خدا تمہارے اعمال کو دیکھے گا۔

     پھر فرمایا:معاویہ ؛جب تم خلیفہ بنو گے تو کیا کرو گے؟

     اس نے کہا:خدا اور رسول بہتر جانتے ہیں!فرمایا:

     تم ساری بربادی کی جڑ اور بنیاد ہو اور ہر طرح کے مظالم کی کلید ہو۔تم برے کام کو اچھا اور اچھے کام کو برا شمار کرو گے؛جیسا کہ بچہ بوڑھا اور بوڑھا بچہ ہو جائے۔ تمہاری مدت تو کم ہو گی لیکن تمہارے مظالم بڑے ہوں گے!

     اسی طرح ابن دیزیل نے عمر بن عون سے، اس نے ہیثم سے، اس نے ابو فلج سے،اس نے عمرو بن میمون سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:

     عبداللہ بن مسعود کہتا تھا: کیسا ہو گا کہ جب کسی ایسے فتنہ کو دیکھو کہ جس میں بوڑھا شخص بچہ اور بچہ بوڑھا ہو جائے اور وہ فتنہ اس طرح سے لوگوں میں پھیلے گاکہ وہ اسے سنت سمجھیں گے اور جب فتنہ بدل جائے تو کہا جاے گا یہ برا کام ہے۔

     یعنی معاویہ اور اس کے جانشین دین میں بدعت ایجاد کریں گے کہ دین اپنی راہ سے خارج ہو  جائے گا اور جب ان کی حکومت ختم ہو گی اور کوئی ان بدعتوں کو ختم کرنا چاہے گا تو لوگ ان بدعتوں سے اتنے مانوس ہو چکے ہوں گے کہ وہ انہیں ختم کرنے کو برا شمار کریں گے۔جس طرح کہ جب عمر بن عبدالعزیز اپنی حکومت کے زمانے میں نمازوں کے خطبوں میں سے امیر

۲۱۱

المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کو ختم کرے گا تو شام کے لوگوں نے اسے برا شمار کیا۔(1)

     اس روایت میں ذکر ہونے والے پیغمبر اکرم(ص)کے سوالوں کے جواب میں ابوبکر کی خواہش تھی کہ اسے حکومت نہ ملے،عمر نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ اے کاش وہ سنگسار ہو جائے لیکن حاکم نہ بنے ورنہ وہ شر میں گرفتار ہو جاے گا اور عثمان نے کھانے کی بات کی اور کہا:میں خود بھی کھاؤں گا اور دوسروں کو بھی کھلاؤں گا....۔

     ان دونوں کی باتیں اس چیز پر گواہ ہیں کہ وہ خود کو حکومت کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنی قوت کے مطابق کھاؤں گا اور مسلمانوں کی حمایت کروں گا اور.....۔

     معاویہ نے سوال کے بعد وہ  ٹال مٹول اور اپنے کردار کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔

اس روایت کو حکم بن عمیر (جو معاویہ کا بھانجا ہے) نے نقل کیا ہے اور عمر کے بیٹے نے اسے دو واسطوں کے ذریعہ سے روایت کیا ہے۔

     اس بناء پر عمر کے بیٹے کی یہ روایت کہ جس میں عمر خود کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتا اور جس میں اس نے کہا ہے:اے کاش؛ میں سنگسار ہو جاؤں لیکن مجھے خلافت نہ ملے۔

     اے کاش! خود کو مکتب اسلام کا پیروکار اور رسول اکرم (ص) کا تابع سمجھنے والے تمام مسلمان اس پیشنگوئی (جو سنی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے) سے عبرت لیں اور اپنی آخرت کی اس فنا ہونے والے دنیا کے عوض نہ بیچیں۔

     رسول خدا(ص) ہمیشہ منبع وحی سیکلام کرتیتھے لہذا آپ نے اس اہم پیشنگوئی میں(کہ جس میں تمام مسلمانوں کے لئے بہت بڑا دسر ہے) معاویہ کے پس پردہ چہرے اور اس کی مکاری و عیاری کو سب لوگوں پر عیاں کر دیا ہے۔

--------------

[1]۔ اعجاز پیامبر اعظم(ص) در پیشگویی از حوادث آئندہ: 372

۲۱۲

 معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

رسول خدا(ص) نے معاویہ کے بارے میں ایک د وسری پیشنگوئی بھی کی اور یہ پیشنگوئی جناب ابوذر کے بارے میں بیان فرمائی ۔ یہ ایک مفصل واقعہ ہے جسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے اور  اس میں عثمان کے کھانے اور کھلانے کے بارے میں بھی اہم مطالب موجود ہیں لہذا ہم اسے نقل کرتے ہیں:

     جناب ابوذر  کا واقعہ اور انہیں ربذہ کی طرف نکال دینا ان کاموں میں سے ہے کہ جن کی وجہ سے عثمان پر اعتراضات کئے گئےہیں ۔ یہ بات ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے کتاب السقیفة  میں عبدالرزاق سے،انہوں نے اپنے پاب سے ،انہوں نے عکرمہ اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ہے: جب ابوذر کو ربذہ کی طرف نکال دیا گیا تو عثمان نے حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کروا و کہ کوئی بھی ابوذر سے ہم کلام نہ ہو اور نہ ہی انہیں دداع کرے اور مروان بن حکم کو حکم دیا کہ ابوذر کو مدینہ سے باہر نکال دے۔

     اس نے ایسا ہی کیا اور لوگوں نے ابوذر کی مدد کرنے سے اجتناب کیالیکن حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ،آپ کے بھائی جناب عقیل، حضرت امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام اور جناب عمار یاسر ،جناب ابوذر کے ساتھ شہر سے باہر آئے اور آپ کو وداع کیا۔

 امام حسن علیہ السلام نے جناب ابوذر سے گفتگو کا آغاز کیا: مروان نے آنحضرت سے کہا: اے حسن؛آرام کرو،لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ امیر المؤمنین !نے اس شخص سے بات کرنے سے منع کیا ہے؟!اگر نہیں جانتے تو اب جان  لو۔

     اسی وقت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مروان پر حملہ کیا اور تازیانہ سے اس  کی سواری دونوں کانوں کے درمیان مار کر فرمایا: دور ہو جا کہ خدا تمہیں آگ میں ڈالے۔

     مروان غصہ کے عالم میں عثمان کے پاس واپس لوٹ گیا اور عثمان سے سار واقعہ بیان کیا،پھر عثمان حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے ناراض ہوا!

۲۱۳

     جب جناب ابوذر کھڑے ہوئے تو ان حضرات نے انہیں وداع کیا ۔ ذکوان (ام ہانی بنت ابوطالب کا آزاد کیا ہوا کہ جو حافظ حدیث،قوی حافظہ کا مالک اور ابوذر کے ساتھ تھا) نے کہا ہے: میں نے ان حضرات کی ابوذرسے ہونے والی گفتگو کو حفظ کر لیا کہ جو یہ تھی:

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے ابوذر !تم نے خدا کے لئے ناراضگی اختیار کی ہے، یہ قوم تم سے اپنی دنیا کے لئے خوفزدہ تھی اور تم ان سے اپنے دین و آخرت کے لئے خوفزدہ تھے، انہوں نے تمہیں اپنی دشمنی اور بغض کی وجہ سے مشکلات میں ڈالا اور ایسی مصیبت میں گرفتار کر دیا اور تمہیں ایسے خشک صحرا کی طرفبھیج دیا۔خدا کی قسم! اگر آسمان و زمین کسی بندے  کے لئیبند ہو جائے اور وہ خدا سے ڈرے اور پرہیز گاررہے تو خداوند اس کے لئے ان ددونوں سے باہر آنے کا راستہ فراہم کرے گا۔

     اے ابوذر!حق کے علاوہ کوئی چیز بھی تم سے مأنوس نہ ہو اور باطل کے علاوہ تم کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہونا۔

     پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے ساتھ موجود افراد سے فرمایا: اپنے چچا سے خداحافظی کرو۔

     اور عقیل سے فرمایا:اپنے بھائی سے خداحافظ کرلو۔

     اس وقت عقیل نے گفتگو کی اور یوں اظہار کیا: اے ابوذر!اب کیا کہیں ، تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں کس قدر دوست رکھتے ہیں اور تم بھی ہمیں کس قدر دوست رکھتے ہو،خدا سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو کہ پرہیزگاری ہی کامیابی ہے، اور صبر کرو کیونکہ صبر ہی  کرامت ہے، اور جان لو کہ اگرتم نے صبر کو  مشکل سمجھا تو یہ بے تابی کا سبب بنے گا ، اور اگر عافیت آنے میں دیر سمجھوتو یہ ناامیدی ہے، اس لئے ناامیدی و بے تابی کو رہا کر دو۔

     پھر حضرت امام حسن علیہ السلام نے یوں فرمایا:

     چچا جان؛ اگر ایسا نہ ہوتا اور یہ امر پسندیدہ نہ ہوتا کہ و شخص خدا حافظی کہے وہ خاموش رہے اور وداع کرنے والا لوٹ جائے

۲۱۴

تو تمام غم و اندوہ کے ساتھ کلام بھی مختصر ہو جاتا ہے۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس قوم نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟! اور اب دنیا کو یاد کرنا چھوڑ دیں  کہ اس کاانجام اچھا ہو گا اورمشکلات کو امید سے اپنے لئے حل کریں، صبر کریں تا کہ اپنے پیغمبر(ان پر اور ان کی آل پر خدا کا درو ہو) کا دیدار کریں اور وہ آپ سے راضی و خوشنود ہوں۔

     پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے یوں فرمایا:

     چچا جان؛ خداوند اس چیز پر قادر ہے کہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے تبدیل کر دے اور وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے۔

     اس قوم نے اپنی دنیا کو آپ سے دور کیا اور آپ نے اپنا دین ان سے دور رکھا،  انہوں نے آپ سے جو چیز دور کی آپ اس سے بے نیاز ہیں، اور آپ نے ان سے جو چیز دورکردی انہیں اس کی شدید ضرورت ہے۔ اب خدا سے صبر و نصرت طلب کریں،  بے تابی  نہ کریں اور خدا سے پناہ مانگیں کیونکہ صبر دین و کرامت میں سے ہے اور لالچ حتی کہ ایک دن کو بھی مقدم نہیں کرتا اور بے تابی موت میں تاخیر نہیں کرتی ۔

     پھرجناب عمار یاسرنے غصے میں گفتگو کی اور یوں اظہار کیا:جس نے تمہیں مصیبت میں ڈالا خدا اسے آرام و سکون نہ دے اور جس نے تمہیں ڈرایا خدا اسے امان نہ دے ۔ بیشک خدا کی قسم؛اگر تم ان کی دنیا طلب کرتے اور ان کے ساتھ ہماہنگ ہوتے تو وہ تمہارے لئے دنیا فراہم کر دیتے اور اگر تم ان کے امورپر راضی ہوتے تووہ تمہیں دوست رکھتے۔ کسی بھی چیز نے لوگوں کو تمہارے کلام اور اعتقاد  سے بازنہیں رکھا مگر دنیا پر ان کی رضائیت اور موت سے خوف و بے تابی۔

     وہ اس چیز کی طرف مائل ہو گئے کہ جس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ''اور بادشاہی اسی کی ہے کہ جوفاتح ہو''(1) لوگوں نے اپنا دین انہیں بخش دیا اور اس قوم نے بھی اپنی دنیا انہیں دے دی اور وہ اس دنیا اور اس دنیا میں نقصان اٹھانے والے بن گئے، بیشکیہ آشکار  نقصان ہے۔

--------------

[1]۔ یہ ایک ضرب المثل ہے۔

۲۱۵

     جناب ابوذر جو کہ بوڑھے ہو چکے تھے، بہت روئے اور انہوں نے کہا:اے خاندان رحمت؛خدا آپ پر رحمت کرے کہ میں جب بھی آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں  تو مجھے رسول خدا (ص)  کی یاد آتی ہے، مدینہ میں آپ کے علاوہ میرے لئے نہ تو کوئی سہارا اور آرام تھا اور نہ ہے۔اب میں حجاز میں میراوجود عثمان پرگراں گذر رہا ہے کہ جس طرح شام میں میرا وجود معاویہ پر گراں گذر رہاتھا۔عثمان نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کے بھائی اور خالہ زادبھائی کے جوار میں ان دو شہروںمیں سے ایک میں رہوں(1) کہ کہیں میںان دوشہروں کے لوگوں کو ان کے خلاف نہ بھڑکاؤں۔اس نے مجھے ایسی سر زمین کی طرف بھیج دیا کہ جہاں خدا کے علاوہ کوئی میری نصرت کرنے والا اور میرادفاع کرنے والا نہ ہو گا اور خدا کی قسم! میں خدا کے علاوہ کسی کی ہمنشینی نہیں چاہتا اور مجھے خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہے۔(2) سیرت نگاروں،مؤرخوں اور راویوں میں سے اکثر کا یہی خیال ہے کہ عثمان نے پہلے ابوذر کو شام کی طرف جلا وطن کر دیا تھا اور جب معاویہ نے ان کی شکایت کی تو انہیں واپس مدینہ بلا لیااور چونکہ وہ جس طرح شام میں اعتراض کرتے تھے اسی طرح انہوں نے مدینہ میں بھی اعتراضات کئے لہذا انہیں ربذہ کی طرف جلا وطن دیا گیا۔ اصل واقعہ کچھ یوں ہے:چونکہ عثمان نے مروان بن حکم اور دوسرے لوگوں کو اموال عطا کئے تھے اور اس میں سے کچھ حصہ زید بن ثابت سے مخصوص کیا تھا،ابوذرگلی کوچوں میں لوگوں کے درمیان کہتا تھا۔کافروں کو دردناک عذاب کا مزہ چکھاؤ اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتا تھا:( وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ) (3)

 اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ پیغمبر،آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

--------------

[1] ۔ ظاہراًیہاں دو شہروں سے بصرہ اور مصر مراد ہیں۔مصر کا حاکم عبداللہ بن سد بن ابی شرح کہ جو ثمان کا رضاعی بھائی تھا اور بصرہ کا حاکم عبداللہ بن عامر کہ جو عثمان کی خالہ کا بیٹا تھا، ان دونوں کے حالات زندگی، مشکلات اور گندے کردار کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ''اسد الغابة: ج3ص174اور 192 ''کی طرف رجوع کریں۔

[2]۔ یہ واقعہ کتاب''السقیفة'' (جوہری متوفی 323ھ) میں تفصیل کیے ساتھ ذکر ہوا ہے۔

[3]۔ سورۂ توبہ،آیت:34

۲۱۶

     عثمان کو بارہا اس کی خبر دی گئی اور وہ خاموش رہا اور اس کے بعد عثمان نے اپنے ایک رشتہ دار اور اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کو ابوذر کے پاس بھیجا اور کہا:تمہارے بارے میں مجھ تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں ،اب ان سے دستبردار ہو جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا عثمان مجھے کتاب خداوند کی تلاوت کرنے اور حکم خدا کو پامال کرنے والے کے عیب بیان کرنے سے منع کر رہا ہے؟ خدا کی قسم !اگر میں عثمان کی ناراضگی مول لے کر خداوند کریم کو راضی کر لوں تو یہ میرے لئے اس سے

بہتراورپسندیدہ ہے کہ میں عثمان کی رضائیت سے خدا کو ناراض کروں۔یہ پیغام سن کر عثمان سخت غصہ میں آگیا اور اس نے اس بات کو ذہن نشین کر لیا جب کہ ظاہری طور پر وہ صبر سے کام لے رہا تھا،یہاں تک کہ ایک دن عثمان لوگوں کے درمیان تھا تو اس نے پوچھا: کیا امام کے لئے ایسا کرنا جائز ہےکہ وہ خدا کے مال سے کچھ قرض لے لئے اور پھر جب چاہئے اسے واپس کر دے؟

     کعب الأحبار نے کہا:اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے!

     ابوذر نے کہا:اے دو یہودیوں کے بیٹے؛کیا تم ہمارا دین ہمیں کو سکھا رہے ہو؟

     عثمان نے ابوذر سے کہا:تم نے مجھے اور میرے دوستوں کو بہت اذیت پہنچا  لی ،  اب بس تم شام کی طرف چلے جاؤ۔

     عثمان نے  جناب ابوزر کو مدینہ سے جلاوطن  کر شام کی طرف بھیج دیا۔ ابوذر معاویہ کے اعمال کو بھی برا شمار کرتا تھا۔ایک دن معاویہ نے ان کے لئے تین سو دینار بھیجے۔  ابوذر نے معاویہ کے قاصد سے کہا: اگر یہ میرا مقررشدہ مال ہے کہ جس سے اس سال تم نے مجھے محروم رکھا تو میں یہ قبول کروں گا اور اگر یہ صلہ و بخشش ہے تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ،لہذا اسے واپس لے جاؤ۔اس کے بعد معاویہ نے دمشق میں سبز محل بنوایا !جناب ابوذر نے معاویہ سے کہا:اگر تم نے یہ محل خدا کے مال سے بنوایا ہے تو یہ خیانت ہے اور اگر تم نے اپنے مال سے بنوایا ہے تو یہ اسراف ہے۔

     وہ شام میں کہتے تھے:خدا کی قسم؛ایسے امور رونما ہوئے  ہیں کہ جنہیں میں نہیں جانتا اور خدا کی قسم نہ تو ہ خدا کی کتاب میں ہیں اور نہ ہی رسول خدا(ص)کی سنت میں۔خدا کی قسم؛بیشک میں دیکھ رہا ہوں کہ چراغ حق بجھ جائے گا اور باطل زندہ ہو جائے

۲۱۷

گا اور میں سچے کو دیکھ رہا ہوں کہ جسے جھٹلایا جائے گا اوربے تقویٰ لوگوں کو منتخب کیا جائے گا اور دوسروں کو نیک لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

     حبیب بن مسلمۂ فہری نے معاویہ سے کہا: ابوذر تمہارے لئے شام کو تباہ کر دے گا،شام کے لوگوں سے ملو اور اگر تمہیں شام کی ضرورت ہے تو اس کے بارے میں کچھ سوچو۔

     ابوعثمان جاحظ کتاب''السفیانیّة'میں جلام بن جندل غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا:

     میں معاویہ کا غلام تھا اور ایک دن عثمان قنسرین اور عواصم(1) آیا تھا اور وہ ایک دن معاویہ کے پاس آیا تا کہ اس سے اپنے امور کے بارے میں پوچھے،اچانک میں نے سنا کے معاویہ کے دربار کے دروازے پر کوئی چلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:اونٹوں کی یہ قطار پہنچ گئی جس پر آگ حمل کی جائے گی،خدایا؛جو امر بہ معروف کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے اور جو نہی از منکر کرتے ہیں اور خود اسے انجام دیتے ہیں ان پر لعنت فرما۔

     معاویہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،اس کا رنگ بدل گیااور اس نے کہا:اے جلام!کیا تم اس چلانے والے شخص کو جانتے ہو؟

     میں نے کہا:ہر گز نہیں۔

     کہا:کون جندب بن جنادة سے میری جان چھڑاسکتا ہے؟ہر روزوہ میرے دربار کے دروازے پر آتا ہے اور یہی بات کہتا ہے کہ جو اب تم نے سنی ہے۔

     پھر کہا:ابوذر کو میرے پاس لایا جائے۔

     جناب ابوذر کو کچھ لوگ کھنچتے ہوے لے کر آئے!اور انہیں معاویہ کے سامنے کھڑا کر دیا،معاویہ نے ان سے کہا:اے خدا اور رسول خدا کے دشمن!ہر دن تم میرے سامنے آتے ہو اور ایسے ہی کرتے ہو؟

--------------

[1]۔ واصم،حلب کے نزدیک ایک قلعہ ہے۔ معجم البلدان:ج6ص237

۲۱۸

بیشک اگر میں امیرالمؤمنین عثمان! کی اجازت کے بغیراصحاب محمد (ص) میں سے کسی کو قتل کر سکتا تو بلا شک و شبہ  میں تمہیں قتل کر دیتا،اور اب میں تمہارے بارے میں اس سے اجازت لے لوں گا!

     جلام کہتاہے:میں ابوذرکا دیدار کرناچاہتا تھا چونکہ وہ میری قوم میں سے تھے،جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے گندمی رنگ  کا ایک کمزور شخص نظر آیا جن کے چہرے کی ہڈیاں ظاہر تھین اور کمر جھکی ہوئی تھی۔

     انہوں نے معاویہ کی طرف رخ کیا اور کہا:میں خدا اور رسول خدا(ص) کا دشمن نہیں ہوں؛بلکہ تو اور تیرا باپ ، تم دونوں خدا اور رسول خدا(ص) کے دشمن ہو ،جنہوںنے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور اپنے کفر کو چھپا لیا اور رسول خدا(ص) نے تم پر لعنت کی ہے اور کئی بار تم پر نفرین کی ہے کہ تمہار کبھی پیٹ نہ بھرے اور میں نے خود سنا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

     جب بھی تم موٹی آنکھوں والا اور موٹی گردن والا (جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا)شخص میری  امت کا حکمران بن جائے تو میری امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

معاویہ نے کہا:میں وہ شخص نہیں ہوں۔

     ابوزر نے کہا:نہیں؛تم ہی وہ شخص ہو،رسول خدا(ص) نے مجھے اس بارے میں بتایا ہے اور ایک بار تم آنحضرت (ص) کے پاسسے گذرے تھے تو میں سنا کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے خدا!اس پر لعنت فرما اور اسے خاک کے علاوہ کسی اور چیز سے سیر نہ فرما۔

     اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے  یہ بھی سنا کہ آپ نے فرمایا:

     معاویہ کا ٹھکاناجہنم میں ہے۔

     معاویہ ہنسا اور اس نے ابوذر کو قید کرنے کا حکم دیااور اس کے بارے میں عثمان کو لکھا۔

عثمان نے معاویہ کے جواب میں لکھا:جندب کومنہ زور اور سرکش ترین سواری پر بٹھا کر میرے پاس بھیج دو اور اسے کسی ایسے کے ساتھ بھیجو کہ جو شب و روز اسے تازیانے مارے!

۲۱۹

     معاویہ نے ابوزر کو ایک بوڑھے اونٹ پر پالان کے بغیر سوار کیا اور اسے مدینہ بھیج دیا جب کہ ان کی ران کا گوشت راستے کی سختیوں کی وجہ سے گر گیا تھا۔

     جب ابوذر مدینہ پہنچے تو عثمان نے انہیں پیغام دیا:تم جہاں جانا چاہو چلے جاؤ۔

     جناب ابوذر نے کہا:کیا میں مکہ کی طرف چلا جاؤں؟

     کہا:نہیں۔

     ابوذر نے کہا:بیت المقدس کی طرف چلا جاؤں؟

     کہا:نہیں۔

     کہا:کیا میں ان دوشہروں میں سے ایک کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا: نہیں بلکہ میں خود تمہیں ربذہ کی طرف جلاوطن رہا ہوں۔

     عثمان نے ابوذر کوربذہ کی طرف جلاوطن کردیا اور وہ آخر تک وہیں تھے ،یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

     واقدی کی روایت ذکر ہوا ہے کہ جب ابوذر عثمان کے پاس آئے تو عثمان نے ان کے لئے ایک شعر پڑھا کہ جو یوں تھا:خداوند قین کی آنکھوں کو کبھی روشن نہ کرنا اور کبھی اسے خوبصورتی نہ دینا اور جب بھی ہمارا آمنا سامنا ہوتا ہے تو ہمارا تحیت و سلام غصہ اور ناراضگی ہے۔

ابوذر نے کہا:میں اپنے لئے کبھی بھی ''قین''نام کو نہیں جانتا۔

     ودسری روایت میں آیاہے کہ عثمان نے ابوذرکے نام کو مصغّر کیا اور کہا:اے جنیدب!خدا تمہاری آنکھوں کو کبھی روشن نہ کرے۔

     ابوذر نے کہا:میرا نام جندب ہے اور رسول خدا(ص) نے مجھے ''عبداللہ ''کا نام عطا کیا ہے اور میں نے اپنے لئے وہی نام منتخب کیا ہے کہ جو نام پیغمبر(ص) نے مجھے دیا ہے۔

۲۲۰