معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 161782
ڈاؤنلوڈ: 7005

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 161782 / ڈاؤنلوڈ: 7005
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلَّی وَلَکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلَّی.ثُمَّ ذَهَبَ ِلَی أَهْلِهِ یَتَمَطَّی ) (1)(2)

اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی،بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا،پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا۔اس اہم نکتہ پر توجہ کریں: تصدیق نہ کرنا،نماز نہ پڑھنا، جھٹلانا اور روگردانی کرنا یہ سب کفار کے کام ہیں ۔ لیکن ان سب کے باوجود معاویہ اپنی ان کفر آمیز کرتوتوں پر نہ ہی توپشیمان اور شرمندہ تھا بلکہ وہ یہ کفر آمیز باتیں کہنے کے ساتھ ساتھ ان پر فخر بھی کرتا ۔اگرغدیر کے دن عمر،ابوبکر،مغیرہ وغیرہ میں رسول اکرم(ص) کی مخالفت و گستاخی کی طاقت نہیں تھی لیکن معاویہ نے نہ صرف آنحضرت(ص) کی مخالفت کی بلکہ اس کے علاوہ تکبرانہ انداز میں فخر کرتے ہوئے انتہائی نازیبا کلمات کہے اور رسول اکرم(ص) اور مسلمانوں کے سامنے اسے کسی قسم کی شرم و حیاء نہ آئی!!!جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور رویہ اس کی ذات اور باطن کی عکاسی کرتے ہیں ۔جس انسان کی ذات اور باطن پاک ہو گا وہ برے اور ناپسندیدہ کام انجام نہیں دے گا اور جس کی ذات اور باطن برا ہو،وہ برے اعمال و گفتار کا مرتکب ہو گا۔معاویہ کی بھی ذات اور باطن ناپاک تھا کیونکہ وہ جگر خور ہند کا بیٹا تھا اور اس کی ماں فاحشہ کے طور رپر مشہور تھی۔معاویہ نے برے اور نازیبا کلمات بھی کہے اور بڑے ناز سے فخر کرتے ہوئے خدا اور خدا کے رسول(ص)  کو جھٹلایا۔یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی گستاخ شخصیت کے مالک انسان-حتی کہ جو خدا اور رسول خدا(ص) کے سامنے بھی گستاخی کرے- کے چہرے کو چند صفحات پر مشتمل ابحاث سے بے نقاب نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ ایسے شخص کے کارناموں سے مکمل آگاہی کے لئے اس کے اجداد اور حسب و نسب سے بھی آگاہ ہونا ضروری ہے۔اسی لئے ہم نے اس کتاب میں خاندان بنی امیہ کے حسب و نسب کے بارے میں بھی بحث کی ہے تا کہ معاویہ کے ماضی اور اس کے بد کردار ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے۔ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام کسی بھی طرح کے تعصب کے بغیر اس کتاب کو غور و فکر اور دقّت کے ساتھ پڑھیں گے تا کہ بہت سے حقائق کو جاننے کے لئے راستہ کھلے اور انہیں اہم اور مؤثر  نکات سے آشنا کرے۔

وما توفیق الّا باللّٰہ

سید مرتضیٰ مجتہدی سیتانی

--------------

[1]۔ سورۂ القیامہ، آیت:33-31

[2]۔ شواہد التنزیل:3902 اور 391 روایت 1040 اور 1041۔قرآن کریم میں معاویہ کے بارے میں نازل ہونے والی متعدد آیات ہیں جنہیں شیعہ و سنی مفسرین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ہم معاویہ کے بارے میں آیات کو''معاویہ، قرآن کی نظر میں''کی بحث میں بیان کریں گے۔

۲۱

 پہلاباب

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات

    بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات

    یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا

    اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش

    یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا

    ''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل

    حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا

    یہودیوں کی قوم پرستی

    امویوں کی قوم پرستی

    یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی

    پیغمبر اکرم(ص) کو زہر دینا

    یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوں اسلام کے کچھ بزرگوںکی شہادت

    یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی

    مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنے کے لئے یہودیوں کی سازش

۲۲

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات

یہودیوں کی ایک اور اہم سازش جو انہوں نے غیر مسلمانوں کو مسلمان ہونے سے روکنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلافات ایجاد کرنے کے لئے کی، وہ مسلمانوں کے صحیح عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا۔

گذشتہ کئی صدیوں سے اب تک جتنا ممکن ہو سکا انہوں نے اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرکے لوگوںکو عالمی دین اسلام کی طرف راغب ہونے سے روکا ہے۔یہ وہی سازشیں ہیں کہ دسیوں سالوں سے وہابیت نے اس پر عمل پیرا ہو کر اسلام میں نو سازی و ترمیم کے نام پرغیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکا ہوا ہے۔یہ واضح ہے کہ مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے یہودیوں نے نہ صرف کچھ مسلمانوں کو دین سے ناامید کیاہے بلکہ دوسروں کو اسلام کی طرف آنے سے روکا ہے جس کے نتیجہ میں انہوں نے اختلاف و تفرقہ پیدا کرکے اپنے ظالمانہ تسلّط کو جاری رکھا ہوا ہے اور لوگوں پر حکومت کررہے ہیں۔کتاب ''تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی''میں لکھتے ہیں:

  یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا

یہودیوں کے جرائم کے بہت زیادہ اثرات و نتائج ہیں لیکن ان میں سے ایک اہم ترین اثر ثقافتی  اور عقیدتی تخریب کاری ہے ۔ جس کا سبب مسلمانوں کے درمیان شبہات،بعض باطل افکار اور خرافات پھیلانا ہے۔

انہوں نے اس وقت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی بنیاد رکھی اورتورات میں تحریف کے ذریعہ  شکوک وشبہات پیدا کئے اور بعض جھوٹی روایات نقل کیں،پھر انہیں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ترویج دیا ۔ان کا یہی ناپسندیدہ عمل یہودی عوام حتی کہ بعض مسلمانوں کی گمراہی کا بھی باعث بنا اور انہیں دوراہے پر کھڑا کر دیا۔ اس بناء پر یہودی سربراہوں کی طرف سے شبہات اور انحرافی افکار پھیلانے سے ذہنوں پر بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان شبہات کو لوگوں کے افکار سے اتنی آسانی سے مٹاناممکن نہیں ہے۔

۲۳

یہودیوں کی مخالفانہ کاروائیوں میں سے روایات میں اسرائیلیات کو داخل کرنا ہے جب کہ ان میں سے اکثر جعلی اور جھوٹی تھیں اور اسلام کے خلاف ثقافتی اور عقیدتی سازشیں بھی اسی کا حصہ ہیں تا کہ اس کے ذریعہ  اسلام کی عظمت کو کم کرسکیں  اور اسے انسانی معاشرے میں غیر معقول شکل میں پیش کریں اور اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روک سکیں۔

مگر افسوس کہ وہ اس پس منظر میں دھوکہ اور فریب سے داخل ہو ئے اور جتنا ہو سکاانہوں نے کامیابی سے عمل کیا اور مخصوص افراد کے ذریعہ گمراہ کرنے والے افکار ،یہودی عوام حتی کہ مسلمانوں میں بھی پھیلائے اور انہیں  شبہات کے سمندر میں  غرق کیا۔

اس بناء پر اگر رسول اکرم(ص) مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے اور ان کی کتابوں سے استنادکرنے سے منع کریں(1) تو یقینا اس میں حکمت ہے اور یہودیوں کی طرف سے شامل کی گئی چیزیں اس کی واضح دلیل ہیں۔خاص طور پر جب عمر بن خطاب نے یہودیوں کی کتاب سے استفادہ کیا تو  رسول اکرم (ص) کا اس کے ساتھ سخت رویہ اس بات کا شاہد ہے۔

--------------

[1]۔ تفسیر القرآن العظیم0ابن کثیر): ج۲ص۴6۷

عمربن خطاب کا اہل کتاب سے رشتہ اور اس کے ساتھ رسول اکرم(ص) کے  روّیہ کے بارے میں روایت نقل کرتے ہیں۔وہ کہتا ہے:میں نے یہودیوں سے کچھ مطالب پوچھے اور لکھے اور انہیں ایک جلد میں رکھ کر لایاتو رسول اکرم(ص) نے پوچھا:اے عمر تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟

میں نے جواب دیا:اس میں ایک تحریر ہے جو میں نے یہودیوں سے اخذ کی ہے تا کہ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکوں!!

پیغمبر اکرم(ص) اس طرح ناراض ہوئے کہ آپ کا چہرا سرخ ہو گیا ،پھر آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا:

اے لوگو!تمہیں زندگی میں جن مسائل،احکام اور اخلاق کی ضرورت تھی ،میں نے وہ سب خوبصورت اور مختصر شکل میں بغیر کسی آزردگی  کے تمہارے لئے بیان کئے  جو سب واضح و روشن ہیں۔پس گمراہ نہ ہوجاؤ اور گناہ و معصیت نہ کرو ،نیز کوئی پست اور گناہگار انسان بھی تمہیں دھوکہ نہ دے۔

پس میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا:میں راضی ہوں کہ خداوند متعال میرا ربّ،اسلام میرا دین اور آپ میرے نبی ہوں!!

۲۴

افسوس کہ یہودیوں کے ساتھ اس کے اسی رشتہ نے اپنے اثرات دکھائے اور پیغمبر اکرم(ص) کی حیات کے آخری دنوں میں اسلام اور اسلامی سرزمین کی وسعت کے باوجود مسلمانوں کے درمیان یہودیوں کی خرافات نے انتشار پیدا کر دیا اور کعب الأحبار،عبداللہ بن عمرو بن عاص اور ابوہریرہ جیسے افراد نے اس میں حصہ دار تھے۔جیسا کہ عمر بن خطاب نے بھی اس زمانے میں ''تمیم بن اوس''کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے برملا اپنے قصہ اور نتائج بیان کرے  ،جب کہ وہ خود کعب الأحبار کے قصہ سنا کرتاتھا۔(1) اس بناء پر عمر کی تائید سے مساجدمیں  قصہ  گوئی رائج ہو گئی اور انہی قصہ کہانیوں  کے ذریعہ لوگوں کے درمیان خرافات اور جھوٹ عام ہوا ۔

چونکہ عوام الناس کو حیرت انگیز چیزوں میں دلچسپی  ہوتی ہے ،اس لئے وہ قصہ کہانیاں سنانے والوں کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کی جھوٹی باتیں سنتے تھے ،اس طرح سے انہوں نے لوگوں میں اسرائیلیات کو عام کر دیا۔

ڈاکٹر ابو شبہہ کہتے ہیں:قصہ  گوئی کی بدعت عمر بن خطاب کے آخری زمانے میں شروع ہوئی اور پھر اسے ایک فن کے طور پر پیش کیا جانے لگااور اس میں ایسی چیزیں داخل ہو گئیں جو علم و اخلاق کے شایان شان نہیں ہیں۔(2)

اس بناء پرلوگوں میں اسرائیلیات اور انحرافی افکار کو پھیلانے میں یہودیوں کی سازشیں اور عمر بن خطاب کا ان کی حمایت کرنا اور قصہ  گوئی کو عام کرنا(جب کہ وہ قصہ کہانیاں بھی مکمل طور پر اسرائیلیات اور خرافات میں سے تھیں)مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار اور گمراہ کن شبہات کو پھیلانے کا باعث بنا۔جس کی بدولت بہت سے غیر مناسب اثرات سامنے آئے ۔انہی کاموں کی وجہ سے بہت سے اہل کتاب اپنی گمراہی و ضلالت پر باقی رہے اور کچھ کمزور ایمان والے مسلمان بھی راستہ سے بھٹک گئے۔اس روسے ہر زمانے میں  نامناسب اور گمراہ کرنے والے افکار کی ترویج  کے اثرات نقصان دہ ہی ہوتے ہیں اور اس زمانے میں یہودی اس مسئلہ

--------------

[1]۔ التفسیر المفسرون فی ثوبة القشیب:ج۲ص۱۲۲

[2]۔ اسرائیلیات والموضوعات فی  کتب التفسیر:89 اور 123

۲۵

سے آگاہ تھے لہذا انہوں نے لوگوں میں شبہات پھیلانا شروع کر دیئے ،ان کے اس ناجائز کام کے بہت مضر اثرات تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت ان شبہات کو رد ّکرنے میں صرف کیا۔(1) ایک انتہائی اہم نکتہ کہ جس کے بارے میں اہلسنت حضرات کومکمل طور پر سوچنا چاہئے -جیسا کہ ان کے مشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے -اوروہ نکتہ یہ ہے :عمر لوگوں کی پیغمبر اسلام(ص) کی احادیث لکھنے اور ان کے بارے میں گفتگو کرنے سے روکتا تھااور کہتا تھا:رسول خدا(ص) کی احادیث کو نقل کرنا،لوگوں کا خدا کی کتاب سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا باعث بنے گا!

اگرعمر کا لوگوں کو احادیث نقل کرنے سے روکنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن کی طرف توجہ کریں  تو پھر کیوں اس نے لوگوں کو قصہ گوئی اور اسرائیلیات بیان کرنے سے منع نہیں کیا؟بلکہ اس نے توتمیم بن اوس جیسے شخس کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے اپنے قصہ بیان کرے!اور یہ صورت حال ایسے ہی جاری رہی یہاں تک کہ  ڈاکٹر ابو شبہہ کے مطابق عمر کے آخری زمانے میں قصہ گوئی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور  پھر اسے بعض افراد نے ایک فن اور پیشہ کے طور پر اخذ کیا!

اگر رسول اکرم(ص) کے مطالب اور احادیث قرآن سے دوری کا باعث بنتی ہیں تو کیا عمر کا یہودیوں کے مطالب کو جمع کرنا ،قرآن کی طرف توجہ نہ کرنے یا کم توجہ کرنے کا باعث نہیں تھا؟!!!

جی ہاں!راہ حق ہمیشہ واضح و روشن تھی اور ہے لہذا اہلسنت کو چاہئے کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں اس پر غور کریں ،خاص طور پر ان کے جوانوں کوزیادہ تفکّر کرناچاہئے جو کہ زیادہ روشن فکر ہیں تا کہ مکمل ہوشیاری کے ساتھ جس چیز کا یقین ہو جائے ،اسے حاصل کریں۔

--------------

[1]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:148

۲۶

  اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش

افسوس کہ پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث کو تدوین کرنے سے منع کرنا اسی مرحلہ پر اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ یہودیوں نے اپنے ظاہری اور مخفی  ہتھکنڈوں سے رسول خدا(ص) کی اب تک باقی بچنے والی حدیثوں کو جھٹلایا اور انہیں پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد کی صدیوں میں بناوٹی حدیثیں قرار دیا۔

یہودیوں کے کارندوں کا یہ دعویٰ مسلمانوں کا رسول اکرم(ص) کے فرموات سے روگردانی کرنے کا باعث بنا ۔

اب اس رپورٹ پرمکمل غور کریں:کچھ عرصہ پہلے ایک ہنگری نژادیہودی محقق ''ایگناز گلدزیہر''(Ignaz Gold Ziher ) نے Muhammedanische Studien   کے نام سے اپنی کتاب کی دوسری جلد لکھی اور اس میںایسی اسلامی روایات و احادیث کا تجزیہ کیا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کلام، عقائد اور پیغمبر اکرم(ص) کے شخصی کردار کے بارے میں ہیں۔وہ معتقد ہیں کہ مطلق طور پر ان  احادیث کا پیغمبر (ص) کی حیات میں کوئی بنیادی کردار نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں وجود میں آئیں جواسلام کی وسعت کے زمانے میں پیش آنے والے  مسائل کی عکاسی کرتی ہیں ،یعنی پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد کی ایک صدی یا اس سے کچھزیادہ مدت کے دوران۔

''گلدزیہر''کے نظریہ کی بناء پر جب بھی مسلمانوں کے درمیان کوئی سیاسی،مذہبی یا حقوقی اختلاف رونما ہوتا تو کئی حدیثیں وجود میں آجاتیں اور طرفین اپنے عقائد کا دفاع کرنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) سے نسبت دی گی احادیث کا دامن تھامتے۔انہوں نے اپنی مباحث میں کچھ اسناد کا تجزیہ کیا اور بنی امیہ کے طرفداروں اور ان کے مخالفوں کے نظریات کا جائزہ لیا۔

  یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا

انہوں نے یہ  کہا:اس زمانے میں دوسری تبدیلی مسلمانوں کی روائی سنت کے خلاف تنقیدی رویہ تھا جو امویوں کی کامیابی کا مثبت طور پر تعین کرتا تھا۔

۲۷

ولہاوزن کے مطابق امویوں کی کامیابی ایک سلطنت کے قیام کے لئے تھی اور اسے انتظامیہ کی مدد سے چلانا لائق تحسین تھا۔''ہینری لامنز بلژکی''  کی تحریروں میں یہ تحسین اور زیادہ نکھر جاتی ہے۔

''لامنز''(Lammens) امویوں کو شام میں  عرب کی ملّی حکومت کا بانی سمجھتے ہیں اور اسے اسلام کے زیر تسلّط نہ جانے کی وجہ سے ایک طاقتور اور کامیاب حکومت قرار دیتے ہیں۔ اپنے آبائی ملک سے عشق و محبت کی وجہ سے اس مہاجر مؤلف نے اپنے علم و دانش کو عربی منابع کے مطالعہ میں استعمال کیا اور اپنی چاہت کے مطابق اموی حکومت کا بہت ہی مناسب چہرا  دکھایا۔(انہوں  نے اپنی تحریروتألیف کا زمانہ لبنان میں گذاراجو تاریخی اعتبار سے شامِ کبیر کا ایک حصہ  شمار کیا جاتا تھا)۔حقیقت میں ان کا کام یہ تھا کہ مختلف منابع میں امویوں کے دفاع میں مطالب جمع کریں اور اسے اسلام کی روائی سنت کے خلاف چھپے ہوئے عام تعصب کو حربہ کے طور پر استعمال کریں۔مجموعی طور پر تقریباً کچھ عرصہ پہلے تک غربی محققین اسی طرح ان دو رویوں پر ہی عمل پیرا رہے اور گلدزیہر،ولہاوزن،لامنزاور ان کے کچھ معاصرین جیسے ''ک.ھ بکر''اس سے آگے نہیں بڑے۔

1940ء کی دہائی کے آخر میں امریکی محقیق D.C Dennett نے طیارے کے حادثہ میں اپنی موت سے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ولہاوزن کے تجزیہ کے مطابق امویوں کے ٹیکس کے نظام پر اعتراض اور اشکال وارد ہوتاہے اور جو عباسی انقلاب کی اصطلاح کے بارے میں تجزیہ پر دلالت کرتا ہے۔دوسرے محققین نے امویوں کے زوال کے بارے میں ولہاوزن کے نتائج پر تنقید کی ہے اور وہ معتقد ہیں کہ اس نے حد سے زیادہ  عربوں کی حیثیت اورہاشمی تحریک میں ایرانی سربراہوں کے کردار پر زور دیا ہے۔اور اسی تاکید سے ایک برعکس تاکید وجود میں آئی کہ جو اسلامی تاریخ میں عربوں کی اہمیت کا بیان کرتی ہے ۔اس کی تائید کے لئے ''م.آ.شبان'' کے آثاربطور نمونہ پیش کیا۔ان سب تنقیدوں کے باوجود ولہاوزن نے اموی تاریخ میں جو عمارت تعمیر کی وہ وسیع  بنیادوں پر آج بھی قائم ہے ۔لیکن پھر بھی اس کے منابع میں تجزیاتی روش کو ناکارہ بلکہ شبہہ آمیز سمجھا گیا ہے اور اسے قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے۔کچھ دانشورکو اس بارے میں شک و شبہ ہے کہ کیا اموی دور کے بارے میں کوئی تفصیلی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔

۲۸

اس سے پہلے 1950ء میں تاریخ صدر اسلام کے مرجع کے عنوان سے مسلمانوں کی روائی سنت پر کلی شکایت کی گئی  جس پر گلدزیہر نے اپنے آثار میں مہر تائید ثبت کر دی اور بعد میں اس کے شاگرد ''جی.شاخت''نے زیادہ شدت کے ساتھ اپنے استاد کے فکری سفر کو جاری رکھا۔

''شاخت ''نے اسلامی شریعت کے مآخذکے بارے میں تاریخی تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا کہ  اسے اپنے استاد کے نظریات کی تائید میں بہت سے شواہد ملے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی روایات پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہیں  اور ان سب سے بڑھ کران کی تشکیل پر قانونی تنازعہ اثرانداز ہوتا ہے۔!!

پھر کچھ ایسے لوگ بھی پائے گئے جنہوں نے ''شاخت''کی تحقیقات کی مدد سے سنت روائی میں تاریخ صدر اسلام کی تحقیقات پر حملہ کیا۔

1973ءمیں''آ.نت''نےUntersuchungen Quellenkritischeکے نام سے اپنی ایک کتاب شائع کی جس میں اس نے منابع کا تجزیہ کرنے والی ولہاوزن کی بنیاد پر اعتراض کئے۔اس نے اس بات پر زور دیا کہ تاریخی روایات کو جمع اور منتقل کرتے وقت انہیں پھر سے نئی طرز پر لکھا گیاحتی کہ ابتدائے اسلام کے اخباریوں کا ابتدائی سنت روائی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا جب کہ ان کی تحریروں کا خلاصہ ہمارے منابع میں موجود ہے۔بلکہ وہ بھی ایسی معلومات کو جمع و تدوین کرنے والے تھے کہ جن تک رسائی سے پہلے  یہ ابتدائی تشکیل کے مرحلہ تک ہی تھا۔

وہ معتقد تھا کہ ہم تک پہنچنے والے منابع تک رسائی نہیں ہیں اور اسی طرح آٹھویں صدی عیسوی کے اخباریوں اور واضح و معین خصوصیات کے خاص مکاتب تک بھی رسائی ممکن نہیں ہے  اور ان میں سے ہر کسی کی واقعیت اور جزوی حیثیت کو الگ الگ مشخص نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو متنوع معلومات اور نظریات سے منتقل کیا گیا ہے۔

پھر''نت''نے منابع پر اشکالات اور ان کی داخلی شکل کوعلیحدہ کیا تا کہ وہ یہ دکھا سکے کہ منابع صرف ''topoi''کا ایک مجموعہ ہے  اور تاریخی اعتبار سے اس کی بنیاد پر سوال اٹھا ہے۔

۲۹

 مفصل صورت میںصدر اسلام کی تاریخ کی تعمیر نو کے لئے ان منابع سے استفادہ کرنا برا سمجھتا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ''نت''یہ چاہتا تھا کہ اپنی کتاب کی تألیف سے ابتدائے اسلام کی تاریخ سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج اخذ کرے لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنانے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔تمام مؤرخین نے کم و بیش امویوں کی تاریخ لکھنے میںولہاوزن  کی تقلید کی اور منابع پر تنقید کے ذریعہ ان کا خیال تھا  کہ صحیح تنقید سے اموی تاریخ کی تعمیر نومیں مدد مل سکتی ہے۔

جرمنی میں ''ردوان سعید ''اور ''گرانٹ روٹر''جیسے د انشوروں کا نام لیا جا سکتا ہے جن کی کوشش تھی کہ ولہاوزن کے اسی طریقہ کار سے استفادہ کریں۔لیکن وہ جدید سماجی اور اقتصادی مفاہیم کے منابع سے زیادہ استفادہ کرتے تھے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں''ف.مک گراو دانر'' (F.Mcgraw Fonner)نے فتوحات عرب کی تاریخ کو جدید انداز میں لکھا اور اس نے اپنی کتاب کی تألیف میں اپنی روش شناسی کی توجیہ کا وعدہ کیا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثر ایسی بدعت آمیز تحقیقات میں پابندی اور تعطّل کا احساس ہوتا ہے۔ ''ورنراندہ''(Wener Ende) اور ''ا.ل پترسون''(E.L Peterssen)ایسے مؤلفین کا واضح نمونہ ہیں۔

حالیہ دنوںمیں'Slavesson Horsesesکےنام سے 'پیڑیسیاکرون'  (Patricia Crone)کی تألیف میں کوشش کی گئی ہے کہگلدزیہر،شاخت اور نت کے طریقۂ کار کو قبول کرتے ہوئے اسلامی منابع میں ایک دوسری  روش سے استفادہ کیا جائے۔ ''پیڑیسیاکرون''کے مطابق یہ طریقۂ کار زندگی نامہ یا انساب کے لئے موذوں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی منابع  میں بنیادی معلومات(اسماء ،تاریخ خلفاء اور سربراہ وغیرہ) کا مستقل منابع (جیسے سکّے،نوشتہ جات اور غیر اسلامی منابع)سے رجوع کرکے تجزیہ کیا جائے تو دو طرح کے یہ مناب ایک دوسرے کی  باہمی تائیدسے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اس کا خیال ہے کہ اگر اسلامی معلومات میں پوشیدہ تمام معلومات کوبعد کے زمانے  کی جعلی یا topoiکے نوشتہ جات کا اقتباس کہہ کر کم اہمیت دی جائے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔

۳۰

واضح ضمنی موارد جیسے کسی شخص کاسماجی مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،  قبیلہ  میں ازدواج،سماجی وسیاسی روابط سے بہتر انداز میں حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جزئی دکھائی دینے والی معلومات  جیسے کسی شخص کا مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،ازدواجکے اعتبار سے کسی شخص کے تعلقات،سماجی و سیاسی روابط حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں اور مؤرخ کوان معلومات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور اس کے بعد دوسرے مراحل( جیسے قیام کرنے کے اسباب  اور تاریخ کے بڑے واقعات کے بارے میں تاریخی رپورٹ)کو طے کرے۔

اس نظرئے کی رو سے ''کرون''کی کتاب میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ مشترکہ یکجہتی اور مفہومی باریک بینی ہے۔اس نقطۂ نظر کے نتائج (کہ جنہیں  اخذ کرنے میں کچھ دوسرے بھی حصہ دار ہیں یاپھر پیش پیش ہیں)میں سے یہ ہے کہ یہ سادہ روایت اور واضح سیاسی واقعات سے دور ہوگئے اور مختلف ادروں اور سماجی و مذہبی تاریخ میں زیادہ دلچسپی دکھانے لگے۔

''م.ج.مورنی''(M.G Morony)کی کتاب ایک دوسرا نمونہ ہے کہ جس میں اس نقطۂ نظر کی پیروی کی گئی ہے ۔ جدید اسلامی دنیا بالخصوص عربی دنیا میں اموی تاریخ بعض مواقع (مثل آئینہ) آج کے مذہبی اور سیاسی خدشات کی عکاسی کر سکتی ہے۔لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اموی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی تمام نئی  عربی و اسلامی کتابیںآج کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں یا اگر کسی مصنّف کے مذہبی یا سیاسی رویہ کو پہلے ہی سے یہ پیشنگوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔بلکہ اموی دور کی اہمیت مشرق وسطی کو اسلامی و عربی بنانا ہے۔!

اس معنی میں  یہ واضح ہے کہ عرب یا مسلمان (جو آج کی جدید دنیا میںاپنی شناخت کے پیچھے ہیں)اموی سلسلہ کی تاریخ میں اپنی شناخت کی تلاش کر رہے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور عربی قومیت کے درمیان کسی  بھی طرح کی ممکنہ کشیدگی اموی تاریخ کے بارے میں نظریات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

عربی قومیت کی نظر میں اموی سلسلہ کوپہلی عرب سلطنت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی روائی سنت میں امویوں کی عام طور پردشمنانہ تصویر پیش کی گئی ہے اور اگر شناخت کے مسئلہ میں اسلام کی  طرف دیکھا جائے تو عرب اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

۳۱

 اگرشیعہ اپنی مخصوص شیعی نظر (یعنی تشیع کی روائی سنت سے اخذ کی جانے والی نظر) سے اموی تاریخ پر نگاہ کریں تویہ ایک کلی کشیدگی اور شاید پوشیدہ و مخفی کشیدگی بھی ہے اور اگرشامی قومیت  اورعام عربی قومیت کو حاشیہ میں رکھیں تو دونوں صورتوں میں ممکن ہے کہ یہ کشیدگی ظاہر ہو کر حقیقت کوزیادہ واضح طور پر بیان کرسکے۔(1)

''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل

اس رپورٹمیں'' گلدزیہر''نے احادیث نبوی کا انکار کیا ہے اور انہیں پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد کی اختراع قرار دیاہے ۔ وہ ایک یہودی کے طور پر جانا جاتا ہے جو رسول خدا(ص) کی احادیث کوآنحضرت(ص) کے بعد سیاسی  جھڑپوں کا نتیجہ  سمجھتا ہے۔

اس کے بعد  ''ولہاوزن ''نے نہ صرف آنحضرت(ص) کی احادیث کا انکار کیا بلکہ امویوں کی تعریف بھی کی اور اس کے بعد ''لامنز''نے امویوں کی اور زیادہ تعریف و تحسین کی۔

جرمنی اور امریکہ میں بھی مصنّفین نے ''ولہاوزن'' کی اسی راہ و روش کو جاری رکھا اور وہ بھی بنی امیہ کی تعریف کرتے رہے۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب بہت سے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے اور وہ سوال یہ ہے:یہودی اور ان کے طرفدار مصنّفین جیسے ''گلدزیہر'' اور''ولہاوزن''نے پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث کا انکارکیوں کیا

اور انہیں آنحضرت(ص) کی رحلت کے بعد تشکیل دی جانے والی اختراع قرار دیا؟!!

ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں:اگرچہ عمر  نے مسلمانوں کے درمیان حدیث کے عام   ہونے اور تدوین حدیث کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن ان سب کے باوجود ابتدائے اسلام ہی سے کچھ مسلمانوں نے رسول اکرم(ص) کے آثاریعنی احادیث کو لکھنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے رسول اکرم (ص) کی بہت سی احادیث امت میں باقی رہیں۔

--------------

[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:146

۳۲

فریقین کی کتابوں میں موجود پیغمبر اکرم(ص) کی حدیثیں مذہبی اور اعتقادی پہلو کے علاوہ سیاسی اعتبار سے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں  جیسے وہ روایات کہ جن میں آنحضرت(ص) نے بنی امیہ کے بارے میں پیشنگوئیاں کی ہیں۔

ان پیشنگوئیوں(جو اس کتاب میں تفصیل سے ذکر ہوئی ہیں) میں رسول خدا(ص) نے مذہبی اور عقیدتی پہلو کے علاوہ سیاسی اعتبار سے بھی عام لوگوں اور پوری ملت کو بنی امیہ کی کالی کرتوتوں سے آگاہ کیاہے۔

چونکہ یہ پیشنگوئیاں تواتر کی حد تک ہیں اورعلمائے اہلسنت نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے لہذا بنی امیہ کے جرائم اور مجرمانہ رویہ میںکسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔بعثت سے پہلے،زمانۂ رسول خدا(ص) اور آنحضرت کے بعد ان کی  دین اورپیغمبر اکرم(ص) کے خاندان سے دشمنی واضح و آشکار ہے۔

تحقیق کرنے والے یہودی بنی امیہ کے بے شرم خاندان کے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونا چاہتے تھے لہذا ان کے پاس پیغمبراکرم(ص) کے فرمودات و ارشادات کا انکار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا!

یہ واضح سی بات ہے کہ جومختلف پہلوؤں سے تمام خاندان بنی امیہ یا ان کے مخصوص افراد کے بارے میں ان پیشنگوئیوں کو جانتا ہو ،وہ کبھی بھی امویوں کو دین کا طرفدار اور خدا کا خلیفہ نہیں سمجھ سکتا۔

یہودی اور ان کے طرفدار چاہے وہ امریکہ میں ہوں یا جرمنی میں یااس راہ میں یہودیوں کی حمایت کرنے والے دوسرے ممالک میں ہوں ،انہوں نے امویوں کے گمراہ کرنے والے عقائد( آج کل وہابیت جن کی ترویج کر رہی ہے)کو زندہ کرنے کے لئے احادیث کا انکار کیا تا کہ وہ بنی امیہ  کے گمراہ کرنے والے عقائد کی تبلیغ و ترویج سے معاشرے میں وہابیوں کے پست عقائد کو عام کریں۔

بنی امیہ کی شکست اور امویوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ ہی ان کا اقتدار بھی ختم ہو گیا اور آہستہ آہستہ ان کی ظالم حکومت کا نام و نشان مٹ گیا۔

یہودی مسلمان ممالک میں امویوں کی نئی حکومت کی تشکیل سے ناامید ہو چکے تھے لہذا انہوں نے ایک اور چال چلی اورمسلمانوں

۳۳

میں امویوں کے عقائد و افکار کوزندہ کرنے کا فیصلہ  کیا اور اس کے لئے انہوں  نے امت اسلامی میں اختلافات کی آگ بھڑکائی (جو یہودیوں کی ہمیشہ سے دیرینہ سازش رہی ہے)اور امویوں کے عقائد و افکار(یعنی جو رسول خدا (ص) اور خاندان وحی علیہم السلام کی دشمنی پر مبنی ہیں) بھی امت میں عام کئے۔

 تاریخ سے آشنا  اور تاریخ کو انصاف کی نظرسے  دیکھنے کی کوشش و جستجو کرنے والے جانتے ہیں کہ بعثت سے پہلے ہی  بنی امیہ کیبنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی تھی جسے انہوں نے اسلام کے بعد بھی منافقانہ صورت میں مخفیانہ طور پرباقی رکھااگرچہ کئی بار اس سے پردہ اٹھا جس سے ان کی حقیقت آشکار ہو گئی۔

ایسے محققین کو باآسانی پتہ چل جاتا ہے کہ امویوں کی راہ و روش کو زندہ کرنے والے وہابی ہی ہیں اور یہی مذہب کے خلاف ان کے عقائد و افکار کی ترویج کرنے والے ہیں۔

خدا سے دشمنی، خدا کے رسول اور آل رسول علیہم السلام سے دشمنی،قبروں کو برباد کرنا،رسول خدا(ص) کے آثار کو ختم کرنا، اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ،یہودیوں اور عیسائیوں سے روابط قائم  کرنا، خانۂ کعبہ سے دشمنی اور کعبہ کے مقابلہ میں بیت المقدس کو محترم شمار کرناامویوں کی اہم سازشوں اور ہتھکنڈوں میں سے ہیں اوراب وہابیت اس کی ترویج کر رہی ہے اور انہی کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔

 امویوں نے کس طرح یہودیوں کے مطالبات کو پورا کیا،یہ جاننے کے لئے حجّاج (جو بنی امیہ کے وحشی و خونخوار حاکموں میں ہے)کے افکار و کردارکا مختصر حصہ اور اسی طرح عبد الملک کے  افکار کا  کچھ حصہبیان کرتے ہیں تا کہ آپ یہ جان لیں کہ امویوں نے کس طرح یہودیوں کے مطالبات کو پوارا کیا:

۳۴

 حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا

جتنے سالحجّاج کی حکومت زیادہ ہوتی گئی، اسلام اور دین کے خلاف اس کی سرکشی اور گستاخی بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے ایک خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا:ان لوگوں کو موت آئے! کیوں یہ لوگ مٹی کے ڈھیر اور لکڑی کے گرد چکر لگا رہے ہیں؟! کیوں یہ امیر المؤمنین عبدالملک !! کے دربار کا طواف نہیں کرتے؟ کیاانہیں معلوم نہیں ہے کہ ہر شخص کا خلیفہ اس کے رسول سے بہتر ہے!(1)

چونکہ دوسرے حاکم خلیفہ کی نظر میں اس کی حرمت کو جانتے تھے لہذا وہ اس کی چاپلوسی کرتے اور اس کا تقرّب حاصل کرنا چاہتے تھے!حجّاج نے نئے سرے سے پورے عراق اور مشرقی علاقوں میں  دہشت گردی کی حکومت کا آغاز کیا ۔اس نے کوفہ کے بہت سے بزرگ اور نیک افراد کو بے گناہ قتل کیا یہ وہی تھا جس نے خوارج کی بغاوت اور فسادات کی آگ کو بجھایا۔اس نے دلوں میں اتنا خوف ڈال دیا تھا کہ نہ صرف عراق بلکہ پورے خوزستان اور مشرق پر آسانی سے قبضہ میں کر لیا۔اگرچہ حجّاج اپنے ماتحت افراد پر بہت سختی کرتا لیکن حاکموں کے سامنے بہت خشوع و خضوع اور چاپلوسی سے پیش آتاتھا۔جیسا کہ اس نے عبدالملک کو خط لکھا: میں نے سنا ہے کہ امیر المؤمنین!!کو محفل میں چھینک آئی اور وہاں موجود لوگوں نے''یَرْحَمُکَ اللّٰه'' کہا ہے،''فَیٰا لَیْتَنِْ کُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوْزَ فَوْزاًعَظِیْماً''! (2) وہ اپنے کلام میں عبدالملک کا مقام و مرتبہ پیغمبر سے زیادہ سمجھتا اور کہتا:  لوگو!کیا تمہاری طرف بھیجا گیا رسول زیادہ عزیز ہے یا تمہارا خلیفہ؟ پیغمبر خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور عبدالملک اس کا خلیفہ ہے۔(3)(4)

--------------

[1]۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۱۵ص۲۴۲،عقد الفرید :ج۵ص۲۸۴، مروج الذہب:442

[2]۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸6

[3]۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸6

[4]۔ تاریخ تحلیلی اسلام:205

۳۵

عبدالملک بھی لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف سے روکنے کی کوشش کرتا تھا اور لوگوں کومکہ و مدینہ کی بجائے  شام کو حرم خدا کے طور پرپیش کرتا تھا۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:جب اسے رومیوں اور ابن زبیر کی طرف سے دھمکیاں ملیں تو اس نے پہلی بار رومیوں  کے ساتھ چارہ سازی  کے بارے میں  سوچا اور سلطنت روم کے ساتھ معاہدہ کیا اور بہت زیادہ ٹیکس دینے کی ذمہ داری لی۔چونکہ اسے بیرونی دشمنوں سے راحت مل چکی تھی لہذا وہ ابن زبیر کوکچلنے کے لئے تیار ہو گیا ۔حجاز سے مقابلہ کے لئے اس نے فوجی اور سیاسی دونوں طریقوں سے کام لیا۔اس نے سب سےپہلے سفر حج کو اس لئے ممنوع کر دیا تاکہ کہیں شام کے حاجی ابن زبیر کی تبلیغات سے متاثر ہو کر اس کی دعوت کو شام میں نہ پھیلائیں۔

یعقوبی لکھتے ہیں:لوگوں نے شکایت کی کہ کیوں ہمیں واجب حج سے روک رہے ہو؟

عبدالملک نے کہا:پیغمبر سے ابن شہاب زُہری روایت کرتا ہے کہ تین مساجد کی زیارت کے لئے جانا چاہئے:مسجد الحرام،میری مسجد(مسجد نبوی) اور مسجد بیت المقدّس ۔ آج تمہارے لئے بیت المقدّس کا احترام مسجد الحرام کے برابر ہے!!یہی ابن شہاب کہتا ہے:یہ پتھر کہ جس پر یہودی قربانی کرتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر شب معراج پیغمبر(ص) نے قدم رکھاتھا!عبدالملک کے حکم پر اس پتھر پر ایک گنبد بنایا گیا جس پر ریشم کے پردے آویزاں کئے گئے ،اس کے لئے خادم معین کئے گئے اور لوگوں کو اس کا طواف کرنے پر مجبور کیا گیا۔بنی امیہ کے پورے دورۂ حکومت میں یہ رسم جاری رہی۔(1) عبدالملک  یہ چاہتا تھا کہ مکہ و مدینہ کی رونق کو ختم کرکے مسلمانوں کی نظرمیں شام کو حرم خدا کے طور پر پیش کرے (اس کام کی کچھ حکمرانوں نے بھی تقلید کی ہے)۔(2) اب اس واقع پر بھی توجہ کریں:جب عبدالملک کے بیٹے سلیمان نے رسول خدا(ص) کے آثار میں سے ایک اثر کو نابود کیا تو عبدالملک نے اسے بہت سراہا: سلیمان بن عبدالملک ولی عہدی کے زمانے میں مدینہ آیا اور اس نے ابان بن عثمان بن عفّان سے سنا کہ اس نے ایک سیرت تحریر کی

--------------

[1] ۔ تاریخ یعقوبی:ج۳ص۸

[2]۔ تاریخ تحلیلی اسلام:202

۳۶

ہے۔(1)

--------------

[1] ۔ سیرت کو لکھنے والا ابان بن عثمان بن عفان تھا یا کوئی دوسرا شخص؟اس کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ کریں:دوسری صدی ہجری میں سیرت لکھنے والوں میں سے ایک ''ابان بن عثمان بجلی''ہے اور اکثر و بیشتر حوالوں میں اسے ''ابان بن عثمان الأحمر البجلی''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔صرف یاقوت حموی نے ''ابان بن عثمان بن یحیی بن زکریا اللؤلؤی''کے نام سے ان کا تعارف کروایا ہے ۔اس کی یہ وجہ ہے کہ  یاقوت نے حوالوں یعنی'الفہرست،تألیف شیخ طوسی''سے استفادہ کرنے میں دو زندگی ناموں کو آپس میں ملا دیا ہے۔شیعہ منابع میں جو کچھ ذکر ہوا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ بجیلہ نامی قبیلہ کے موالیوں میں سے تھا ۔یہ معلوم ہے کہ ''موالی ''ہونے سے عجمی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہاسلام سے پہلے اور شاید بعد میں بھی خود عربوں میں عقد ولاء موجود تھا۔اس کی مثال رسول اکرم(ص) کی نسبت سے زید بن حارثہ کا ولاء یا بنی مخزوم کی نسبت سے عمار بن یاسر کا ولاء ہے۔اس صورت میں ابان کے عجمی ہونے کا قوی احتمال ہے۔بجیلہ قبیلہ کو ایک قحطانی قبیلہ سمجھا گیا ہے۔یہ قبیلہ بھی حجاز یا یمن کے بہت سے دوسرے قبائل کی طرح فتوحات کے آغاز میں عراق کوچ کر گیا اور یہ قادسیہ میںموجود تھا۔اس جنگ میں کچھ ایرانیوں نے خود کو عربوں سے ملحق کیا اور ان کی ولاء کو قبول کیا۔  ان میں سے کافی لوگ  قید کر لئے گئے اور پھر آہستہ آہستہ آزاد ہونے کے بعد موالی کے عنوان سے عربی قبائل سے ملحق ہو گئے ۔ قبیلۂ بجیلہ جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا حتی انہوں نے مختار کے مخالفین کے خلاف مختار کابھی دفاع کیا ہے۔(معجم قبائل العرب:651-63).اس لحاظ سے اس قبیلہ میں تشیع کے آثار تلاش کرنے چاہئیں۔احمر کے علاوہ ان کے لئے محمد بن سلام(جو ان کے شاگردوں میں سے تھا)نے ایک اور لقب بھی ذکرکیاہے اور وہ ''الأعرج''ہے ۔ انہوں نے کچھ موارد میں انہیں ''أبان الأعرج''کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔(نک:طبقات فحول الشعراء:ج2ص482)أبان سے ان کی متعدد روایات (جو طبقات الشعراء میں مکرّر ذکر ہوئی ہیں) پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ہمارامور نظر أبان ہے۔  یہ احتمال بھی ہے کہ اعرج ،أحمر سے تصحیف ہوا ہو۔اس نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ ''أبان بن عثمان الأحمر''کے علاوہ ''أبان بن عثمان بن عفّان''کے نام سے کوئی دوسرا شخص بھی موجود تھا کہ جو عثمان کا بیٹا تھا  اور اس کے علاوہ اس کے پاس کئی سال مدینہ کی حکومت بھی تھی  اور جس کے بارے میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ سیرۂ نبوی کی روایات لکھنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ تھا۔نام میں تشابہ کی وجہ سے بعض لوگ غلطی سے عثمان بن عفان کے بیٹے کو ''أبان''کی بجائے امامی مذہب قرار دیتے ہیں۔ان میں سے ''فؤادد سزگین''نے زمانۂ اوّل کے سیرت  نگاروں میں ابان بن عثمان بن عفان کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ''تاریخ یعقوبی''میں اس سے کچھ منقولات  بھی ذکر ہوئے ہیں۔(تاریخ التراث العربی،التدوین التاریخی:٧٠) حلانکہ تاریخ یعقوبی میں جس شخص سے منقولات ذکر ہوئے ہیں ،وہ ابان بن عثمان الأحمر ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ خود یعقوبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ (ابان )حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہے۔نیز یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ عثمان کے بیٹے ( جس نے جنگ جمل میں عائشہ کے ساتھ مل کر جنگ کی)کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہو۔اس کے علاہو  شیعہ حدیث کے منابع پر مختصر سی نظر ڈالنے اور ابان کی احادیث سے تھوڑی سے آشنائی سے پتہ چلتا ہے کہ (بقیہ صفحہ بعد پر)

۳۷

اور جب اس کےسامنے  وہ سیرت پڑھی گئی تو اس نے دیکھاکہ اس میں انصار کے قبلۂ اوّل و دوّم اورجنگ بدر میں حاضر ہونے کا تذکرہ ہے ۔سلیمان نے کہا:''ما کنت أری لهولاء القوم هذا الفضل'' میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس قبیلہ میں بھی کوئی فضیلت ہے۔اس کے بعد اس نے حکم دیا اور اس سیرت کو جلا دیا گیا۔جب وہ واپس دمشق پہنچا تو اس کے باپ نے اس کام کی وجہ سے اس کی تعریف کی اور کہا:''ما حاجتک أن تقدم بکتاب لیس لنا فیه فضل'' (1) عبد الملک کے مطابق جس کتاب میں بنی امیہ کی فضیلت بیان نہ ہوئی ہو ،اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگرچہ وہ رسول خدا(ص) کے فرمودات کا مجموعہ ہی  کیوں نہ ہوں۔کتاب''امویاں''میں لکھتے ہیں:طاقت کے زور پر انہوں نے ایسی سیاست اختیار کی کہ بہترین  ممکن شکل میں بھی انہوں نے اسلام کے تقاضوں کا ذرہ برابر خیال نہیں کیا اور بدترین ممکن شکل میں قطعی طور پر اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ان کے سنگین ترین جرائم میں سے یہ ہے کہ انہوں نے خلافت کو اپنے خاندان کے لئے موروثی بنا لیا۔انہوں نے اسلام کے بہت سے پیروکاروں پر ظلم و ستم کئے حتی ان میں سے کئی افراد  ،خاندان پیغمبر (ص) اورخاص طور پر پیغمبر اکرم(ص) کے نواسہ حضرت امام حسین علیہ السلام شہید کیا۔انہوں نے شہر مکہ و مدینہ پر حملہ کیااوریہاں تک  کہ انہوں نے  دو بار مکہ کو اپنے تیروں کا نشانہ  بنایا۔

--------------

(بقیہ صفحہ قبل) اس میں دو ناموں کو آپس میں غلطی سے مخلوط کر دیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کوفی تھے کیونکہ قبیلۂ بجیلہ کوفہ میں تھا۔نجاشی ''أصلہ کوف''کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''کان یسکنها تارة و البصرة تارة'' ۔اسی وجہ سے بہت سے بصری جیسے ابو عبیدہ ،معمر بن مثنّی  اور محمد بن سلام بصرہ میں ان کے شاگردوں میں سے تھے۔(رجال النجاش:13 رقم 8) قابل ذکر ہے کہ ''کشی''میں نقل ہونے والی عبارت میں آیا ہے:''و کان أبان من اہل البصرة''(رجال الکشی:352 رقم660)یہ جان لیں کہ أبان اصحاب اجماع میں سے تھے؛''أجمعت العصابة علی تصحیح ما یصحّ عنهم'' یعنی جن سے انتساب دینا صحیح ہو اس میں کوئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔یہ ابان بن عثمان کی علمی وثاقت کا بلند مرتبہ کی واضح دلیل ہے۔وہ فقہ  میں بے شمار ابواب کی روایات کے راوی ہیں  جو کتب اربعہ اور دوسرے فقہی آثار میں روایت ہوئی ہیں۔علامہ تستری نے''قاموس الرجال'' میں ان سے ایک فہرست ہمارے لئے ذکر کی ہیں۔کتاب' 'الفروع کافی''میںابان بن عثمان سے نقل ہونے والے موارد دوسرے محققین نے فراہم کئے ہیں۔(الشیخ الکلینی و کتابہ الکافی:263-299)۔''منابع تاریخ اسلام:63''

[1] ۔ مقالات تاریخی:263

۳۸

روایات بنی امیہ کی یہ بھیانک تصویر ہمارے لئے بخوبی آشکار کرتی ہیں۔حتی کہ امویوں نے دوسروں کو اسلام قبول کرنے سے بھی اور طاقت کے زار پر زبردستی  حکومت کرتے رہے۔اس دور میں ایسے ادبی آثار لکھے گئے ہیں جن میں بنی امیہ کے جرائم اور ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہے ، ان کے حریفوں اور دشمنوں کی منظوم ستائش کی گئی ہے اور خدا کو گواہ قرار دیاہے کہ کیوں اسلامی   معاشرہ  ان خدا سے بے خبر ظالموں کے ہاتھوں گرفتار رہا۔ان آثار میں سے ایک عام نام جاحظ کی لکھی گئی کتاب ہے جو نویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور مقریزی کی کتاب جو پانچویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔(1)

یہودیوں کی قوم پرستی

''بریٹانیکا'' انسائیکلوپیڈیامیں ذکر ہوا ہے: خود کو منتخب کردہ امت سمجھنے میں یہودیوں کے عقائد کے اصل عامل کوکتاب تلمودسے نسبت دیتے ہیں اور اس پر شدت پسندانہ طور پر عمل کرتے ہیں خود کو ہی محترم اور زندہ قوم سمجھتے ہیں۔(3)(2)

جاہل عربوں میں یہودیت کے نہ پھیلنے کے بارے میں محمد جواد مغنیہ لکھتے ہیں:

یہودی اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ان کے آئین دوسری اقوام و ملل میں پھیلے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے وہ دوسرے تمام انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے اس لئے وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہوئے۔کیونکہ وہ معتقد تھے کہ خدا نے انہیں

--------------

[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۲۷

[2]۔ نقدو نگرشی بر تلمود سے اقتباس:133

[3]۔۔ تلمود کی تصریح کے مطابق:خدا کے نزدیک اسرائیلیوں کا ملائکہ سے زیادہ مقام ہے اور ان کے خلاف جنگ شوکت الٰہی کے خلاف جنگ ہو گی کیونکہ ہر یہودی خدا کا ایک مادی جزء ہے جس طرح بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے۔یہودی اور غیر یہودی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا انسان اور حیوان میں فرق ہے۔(تلمود،سنہدرین:582،الکنز المرصود فی قواعد التلموذ سے اقتباس:60،نیز ملاحظہ کریں:''الأسفار المقدسة قبل الاسلام:165 اور 166،الکتاب المقدّس فی المیزان:23،مقارنة الادیان (الیہود): 272 تا 274،العرب و الیہود فی التاریخ:174)

۳۹

پوری کائنات پر برتری دی ہے اور انہیں منتخب کردہ قوم اور دوسری تمام اقوام کو ان کا غلام قراردیا ہے۔اسی وجہ سے یہودی غیر یہود افراد کو''جوییم''یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے ہیں۔(2)(1) یہودی قوم پرستی اور بنی اسرائیل کو دنیا کے تمام لوگوں پر افضل سمجھنے میں مشہور ہیں۔انہوںنے اپنے عقیدہ پر اس قدر اصرار کیا کہ ان کا کہنا ہے:بنی اسرائیل کے علاوہ کسی میں یہودی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے! اور صرف بنی اسرائیل ہی دین یہود کے معتقد ہو سکتے ہیں۔اسی بناء پر دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکاروں میں سے کسی ایک نے بھی یہودی مذہب کا رخ نہ کیا لیکن کبھی یہودی دوسرے مذاہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

یہودیوں کے اس عقیدے (یعنی بنی اسرائیل سب سے افضل قوم ہیں اوردین یہود انہی سے مخصوص ہے)کی وجہ سے دنیا کے لوگ ان کی مذہبی تبلیغات کے شرّ اور دوسرے مذاہب والے ان کے تحریف شدہ مذہب کی طرف مائل ہونے سے محفوظ رہے۔

یہودی یہ سوچتے ہیں کہ وہ پوری دنیا پر حاکم ہو کر اپنے مخالفین کو ختم کر دیں گے کیونکہ ساری زمین انہی کی ہے ، اورصرف اسی وقت اہل دنیا یا تو یہودی مذہب اختیار کر سکیں گے یا پھر تمام کے تمام مار دیئے جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں: جب ہماری شہنشاہی حکومت کا آغاز ہو گا توہمارے دین کے علاوہ تمام ادیان ختم ہونے چاہئیں  اور ہمارا دین خدائے واحد پر اعتقاد رکھنے کا نامہے۔بیشک ہماری قوم کی تقدیر برگزیدہ قوم کے عنوان سے خدا کے وجود سے بندھی ہوئی ہے اور اسی نے دنیا والوں کے مقدر کو ہماری تقدیر سے وابستہ کیا ہے۔لہذا ہر قسم کے عقیدے کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں حتی اگر کام کا انجام خدا کے وججود کا انکار ہی ک یوں نہ ہو کہ آج ہم جس کے شاہد ہیں۔

یہ کام نہ صرف حکومت کے انتقال کے زمانہ میں مفید ہے بلکہ ایسے جوانوں کے لئے بھی مفید ہے جو آئندہ مذہب موسیٰ کی تبلیغات کو سنیں گے ۔ایسا دین جس کے احکامات پائیدار اور ترقی یافتہ ہیں  اور تمام دنیا والوں کو ہماری اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔

--------------

[1]۔ اسرائیلیات القرآن:16 اور 17

[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:37

۴۰