معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168162 / ڈاؤنلوڈ: 7640
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

عثمان نے کہا:تم وہی ہو کہ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کہاہے:خدا کے ہاتھ بندھے ہیں اور خداوند فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں؟

     ابوذر نے کہا:اگر تم لوگوں کا ایسا اعتقاد نہ ہوتا تو خدا کا مال خدا کے بندوں پر خرچ کرتے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

     جب ابوالعاص کے بیٹوں کی تعدا د تیس تک پہنچ جائے تو وہ خدا کے مال کو اپنا مال،خدا کے بندوں کو اپنا غلام اور خدا کے دین کو تباہی کا وسیلہ قرار دیں گے۔(۱)

     عثمان نے حاضرین سے کہا:کیا تم نے یہ بات رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     انہوں نے کہا: نہیں

     عثمان نے کہا:ابوذر ؛وای ہو تم پر!تم رسول خدا(ص)کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو؟

     ابوذر نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں سچ بولتا ہوں؟!

     انہوں  نے کہا:خدا کی قسم!نہیں۔

     عثمان نے کہا:علی(علیہ السلام)کو میرے پاس بلاؤ اور جیسے ہی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ابوذر سے کہا:ابوالعاص کے بیٹوں کے بارے میں اپنی حدیث علی (علیہ السلام) سے بیان کرو۔

     ابوذر نے وہ حدیث دوبارہ بیان کی۔

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کہا:کیا آپ نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     فرمایا:نہیں؛لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ابوذر سچ بول رہے ہیں۔

     عثمان نے کہا: تم اس کی سچائی سے کیسے آگاہ ہو؟فرمایا:

--------------

[۱]۔ یہ حدیث''النہایة ابن اثیر:ج۲ص۸۸اور ۱۴۰''میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

۲۲۱

     میں نے خود رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے انسان پرسایہ نہیں کیا اور زمین نے اس سے زیادہ کسی سچے انسان کو خود پر حمل نہیں کیا۔(۱)

     وہاں پر موجود لوگوں نے کہا:ہم سب نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے۔

     ابوذر نے کہا:میں تمہارے لئے حدیث بیان کرتا ہوںجو کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) سےسنی ہے لیکن تم مجھ پرتہمت  لگاتے ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی زندگی گذاروں گا کہ مجھے اصحاب محمد(ص) سے ایسا سننے کو ملے گا!

     واقدی نے ایک دوسری روایت میں اپنی سند سے صہبان (اسلمیوں سے وابستہ)سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:جس دن ابوذر کو عثمان کے پاس لائے تومیں

نے دیکھا کہ عثمان نے ابوذر سے کہا:تم وہی ہو کہ جس نے ایسا ویساکیا ہے؟

ابوزر نے کہا:میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور تم سوچ رہے ہوکہ میں خیانت کر رہا ہوں، میں تمہارے دوستوں کو نصیحت کر رہا ہوں جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:تم جھوٹ بول رہے ہو،تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو اور فتنہ طلب ہو اور تم نے ہمارے لئے شام کو تباہ کر دیاہے!

     ابوذر نے کہا:اپنے وو دوستوں کی روش کی پیروی کرو تا کہ کوئی بھی تم پر بات نہ کرے۔

     عثمان نے کہا:اے بے مادر!تمہارا اس بات سے کیا سرو کارہے؟

     ابوذر نے کہا:خدا کی قسم!میرے پاس امربہ معروف اور نہی ازمنکر کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

--------------

[۱] ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنیوں کی مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ بحار الانوار مرحوم علامہ مجلسی: ج۲۲ص۳۹۳، نئی چاپ کہ جس میں مختلف منابع بھی لائے گے ہیں اور النہایة ابن اثیر: ج۲ص۴۲۔

۲۲۲

     عثمان غصہ میں آگیا اور اس نے کہا:مجھے اس بوڑھے اور جھوٹے آدمی کے بارے میں میری رہنمائی کرو کہ میں اس کا کیا کروں؟اسے ماروں؛قید میں ڈال دوں، قتل کر دوں یا اسے اسلامی ممالک سے نکام دوں کہ اس نے مسلمانوں کی جماعت کو منتشرکر دیا ہے؟!

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرمایا کہ جو وہاںموجود تھے:

     میں  تمہاری اس طرح رہنمائی کرتا ہوں کہ جس طرح مؤمن آل فرعون نے کہا:''اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں ۔ بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے''۔(۱)

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوبہت تند جواب دیا اور آنحضرت نے بھی ویسا ہی جواب دیا اور ہم ان دونوں جوابوں کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ ان میں مذمت کی گئی ہے۔

     واقدی کہتا ہے:اس کے بعد عثمان نے لوگوں کو ابوذر کے ساتھ اٹھنے بیٹھے اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا اور انہوں  نے کچھ عرصہ اسی طرح گذارا۔پھر انہیں عثمان کے پاس لایا گیا اور جب وہ عثمان کے سامنے کھڑے ہوئے تو عثمان سے کہا:اے وای ہو تم پر! کیا تم نے رسول خدا(ص) ، ابوبکر اور عمر کو نہیں دیکھا ؛کیا تمہارا طریقۂ کار انہیں کے طریقۂ کار کی طرح ہے؟تم مجھ پر اس طرح ظلم و ستم کر رہے ہو جس طرح ظالم ظلم کرتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:میرے سامنے اور میری ریاستوں سے دور چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:ہاں ؛ تمہاری ہمسائیگی  میرے لے کتنی ناخوشگوار ہے، بتاؤ میں کہاں چلاجاؤں؟

     کہا:جہاں چاہو چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:شام چلے جاؤں، جو جہاد کی سرزمین ہے؟

--------------

[۱]۔ سورہ غافر، آیت:۲۸

۲۲۳

     عثمان نے کہا:میں نے تمہیں شام سے یہاں اسی لئے بلایا تھا کہ تم نے شام کو تباہ کر دیا تھااور اب میں تمہیں دوبارہ وہیں بھیج دوں؟ ابوذر نے کہا:عراق چلاجاؤں؟

     کہا:نہیں،اگر تم عراق چلے گے تو تم ایسی قوم کے پاس چلے جاؤ گے جو رہبروں اور حکمرانوں پر شک و شبہ کرتے ہیں اور انہیں طعنہ دیتے ہیں۔

     ابوذر نے کہا: کیا میں مصر کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا:نہیں۔

     ابوزر نے کہا: تو پھر میں کہاں جاؤں؟

     کہا: صحرا کی طرف چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہجرت کے بعد پھرسے عرب صحرا نشین ہو جاؤں؟

     کہا:ہاں!

     ابوذر نے کہا:میں نجد کے بادیہ کی طرف جا سکتا ہوں؟

     عثمان نے کہا:نہیں؛مشرق سے دوچلے جاؤاور اس راستہ سے جاؤ اور ربذہ سے آگے مت جاؤ۔

     جناب ابوذر ربذہ کی طرف چلے گئے۔

     واقدی نے اسی طرح مالک بن ابی الرجال  اور موسی بن مسیرة سے نقل کیا ہے کہ ابوالأسود دئلی نے کہا ہے:

     میں ابوذر کو دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں ان سے ربذہ کی طرف جانے کا سبب پوچھوں؛ میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مدینہ سے اپنی مرضی سے چلے آئے ہیں یا کسی نے آپ کو آنے پر مجبور کیا ہے؟

     کہا:میں مسلمانوں کی ایک سرحد کے کنارے پر تھا اور دفاع کر رہا تھا ، میں مدینہ واپس گیا اور میں نے کہا کہ یہ ہجرت اور میرے دوستوں کی جگہ ہے اور میں مدینہ سے بھی یہاں آ گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

۲۲۴

     پھرکہا: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک رات میں مسجد میں سو رہا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) میرے پاس سے گذرے اور اپنے پاؤں سے مجھے مارا اور فرمایا:میں یہ نہ دیکھوں کہ مسجد میں ہی سو رہے ہو۔

     میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں؛ مجھ پر نیند نے غلبہ کر دیا تھا اور آنکھ لگ گئی اور  میں مسجد میں ہی سو گیا۔

     فرمایا:تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں اس مسجد سے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے گا؟

     میں نے کہا:میں  اس صورت میں شام چلا جاؤں گا کہ جو مقدس سرزمین اور جہاد کی جگہ ہے۔

     فرمایا:اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیں تو تم کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اسی مسجد میں واپس آجاؤں گا۔

     فرمایا:اگر پھر تمہیں اس مسجد سے نکال دیں تو کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اپنی تلوار نکال کر ان کے ساتھ لڑوں گا۔

     فرمایا:کیا اس کام میں تمہاری رہنمائی کروں؟وہ تمہیں جہاں کھینچیں ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کے فرمانبردا بنو اور ان کی سنو۔

     میں نے سنا اور اطاعت کی اور اب بھی سن رہا ہوں اور اطاعت کر رہا ہوں اور خدا کی قسم؛عثمان اس حال میں خدا سے ملے گا جب کہ وہ میرامجرم ہوگا۔(۱)

     اس گذشتہ واقعہ میں جناب ابوذر نے معاویہ کے مستقبل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے تین روایات نقل کی ہیں جو معاویہ کے گمراہ ہونے،لعنت نفرین کے حقدارہونے اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ان سب کے باوجود  رسول خدا(ص) کی سنت کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معاویہ کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟!

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۴ص۲۰۴

۲۲۵

 کیاپیغمبر اکرم(ص) نے یہ نہیں فرمایا:''امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے''؟

کیا انہیں سب سے زیادہ سچے شخص یعنی جناب ابوذر کا بھی یقین نہیں ہے؟!

کیا عثمان نے رسول خدا (ص)کے محبوب ترین صحابی جناب ابوذر کو اس شہر سے اس دیار میں صرف اس لئیجلاوطن نہیں کر دیا تھا کہ وہ عثمان پر اعتراض کرتے تھے کہ عثمان اپنے داماد مروان اور اپنے دوسرے چہیتے لوگوں کو بیت المال سے مال عطا کرتا تھا؟!

کیا عثمان کا یہ فعل بھی سنت رسول خدا(ص) کی پیروی تھا؟!کیوں عثمان نے معاویہ کو شام کی حکمرانی پر باقی رکھا جب کہ رسول خدا(ص) نے بارہا س پر لعنت و نفرین کی ہے؟رسول خدا(ص) کے فرمان کی رو سے کیا عثمان کو اس کا پیٹ چیر دینا چاہئے تھا یا اسے گورنر بنانا چاہئے تھا؟

     ان سوالوں کے جواب کے لئے پیشنگوئیوں کے ان واقعات کی طرف توجہ کریں:

معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

     یونس بن خباب نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، علی علیہ السلام بھی میرے ساتھ تھے ، ہم ایک باغ کیپاس سے گذرے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے رسول خدا(ص): آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنا خوبصورت باغ ہے؟

     پیغمبر (ص) نے فرمایا: اے علی؛ جنت میں تمہارا باغ اس سے کہیں زیادہ آباد ہے۔

     ہم سات باغات کے پاس سے گذرے ، علی علیہ السلام نے ہر بار وہی بات کی اور رسول خدا(ص) نے بھی وہی جواب دیا۔پھر پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے ،ہم بھی کھڑے ہو گئے ،پیغمبر(ص) اپنا سر مبارک علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر رونے لگے۔علی علیہ السلام نے پوچھا:

     اے رسول خدا(ص)؛ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟

۲۲۶

     فرمایا:ایک قوم کے دل میں اتنا بغض و کینہ ہے کہ وہ تمہارے لئے آشکار نہیں کرتے مگر میرے جانے کے بعد وہ اپنا کینہ آشکار کریں گے۔

     علی علیہ السلام نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛کیا میں کندھے پر تلوار نہ رکھ لوں اور انہیں نیست و نابود نہ کردوں؟

     فرمایا: بہتر یہ ہے کہ صبر کرو۔

     کہا: اگر میں صبر کروں تو کیا ہو گا؟

     فرمایا: تمہیں مشکلات اور مشقّت وسامنا کرنا پڑے گا۔

     کتاب''الغارات''کے مؤلف نے اعمش سے اور انہوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     جلد ہی میری امت کاایک شخص حاکم بنے گاکہ جس کا گلا اور پیٹ موٹا ہو گا،وہ بہت زیادہ  کھائے گا لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرے گا،اس کے کندھوں پر جن و انس کے گناہ ہوں گے،ایک دن وہ ریاست کی جستجو کرے گا  اور جب بھی اسے ریاست مل گئی تو اس کا پیٹ چیر دینا۔

     وہ کہتا ہے:اس وقت رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور آپ اس کے ذریعہ معاویہ کے پیٹ کی طرف اشارہ کررہے تھے۔

     نیز ابوجعفراسکافی - صاحب کتاب''المعیار والموازنة''- کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سو رہے تھے،حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام نے آپ کو اٹھانا چاہاتو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     انہیں سونے دو کیونکہ انہیں میرے بعد بہت طولانی راتیں جاگ کر گزارنی ہیں،اس سے بغض وکینہ رکھنے کی  وجہ سے میرے خاندان پر کیا کیا ظلم وستم کیا جائے گا۔

۲۲۷

     حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام روئیں، پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

     مت رو کہ تم دونوں میرے ساتھ ہوگے اور میرے نزدیک صاحب شرف و کرامت ہو۔

     ابوسعید خدری کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) اپنے بعد علی علیہ السلام پر ٹوٹنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو بیان کر رہے تھے اور اس بارے میں آپ نے بہت وضاحت فرمائی،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے عرض کیا:

     اے رسول خدا(ص)؛ میں آپ کو آپ کے اہلبیت کے حق کی قسم دیتا ہوں تا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریںاور یہ طلب کریں کہ آپ سے پہلے میری روح قبض کی جائے۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری عمر کی مدت کے بارے میں سوال کروں کہ جو مقدر و مقرر ہو چکی ہے؟

     علی علیہ السلام نے فرمایا: اے رسول خدا؛ آپ نے مجھے جن سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے میں ان کے ساتھ کس سلسلہ میں جنگ کروں ؟

 فرمایا: جب وہ دین میں بدعتیں پیدا کریں۔(۱)

  اس روایت کے مطابق معاویہ کے کندھوں پر جنّ و انس کے گناہوں کا بوجھ ہے اور لوگوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی وہ انہیں ملتا وہ اس کا پیٹ پھاڑ دیتے! روایت کے آخری حصہ سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ سے جنگ دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے تھی اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کے حکم پر اس سے جنگ کی ہے۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ( جنہیں اہلسنت چوتھا خلیفہ مانتے ہیں) نے معاویہ سے جنگ کی ، اہلسنت کے دوسرے تین خلفاء نے کیوں معاویہ سے دوستی رکھی  اور دو خلفاء نے تو اسے شام کے حکمرانی بھی دے دی؟!

     کیا ان کے اس کام نے اسے حجاز پر قبضہ کرنے اور رسول خدا(ص) کے منبر پر بیٹھے کاموقع فراہم نہیں کیا ہے؟

--------------

[۱] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۸۰

۲۲۸

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

نصر نے عبدالعزیزسے، حبیب بن ابی ثابت اور منذر بن ثوری سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

محمد بن حنفیہ کہتے تھے: فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم(ص) اپنی فوج کے ساتھ درّہ کے اوپر اور نیچے سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے اور سپاہ اسلام نے پورے درہ کو گھیر لیا تھاتو یہ دونوں (ابوسفیان اور معاویہ) تسلیم ہوئے تا کہ اپنے لئے ساتھی  فراہم کر سکیں۔اسی طرح نصر نے حکم بن ظہیر ، اسماعیل ، حسن بصری اور نیز حکم کے قول سے، عاصم ابی النجود سے، زر بن جیش سے اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ بن ابی سفیان کو دیکھو کہ وہ  میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اس کی گردن مار دو۔

     حسن بصری کہتا ہیں: خدا کی قسم؛ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کامیاب نہیں ہوئے۔(۱)

     اسی طرح نصر بن مزاحم اپنی کتاب ''صفین'' میں کہتا ہے: جنگ صفین کے دوران ایک شخص نے عمار یاسر سے کہا: اے ابوالیقظان! کیا پیغمبر(ص) نے نہیں فرمایا تھا: لوگوں کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور جب مسلمان ہو جائیں تو ان کا خون اور مال محفوظ ہے؟

     عمار نے کہا: ہاں؛ ایسا ہی ہے، لیکن خدا کی قسم! یہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور ان کے سینوں میں کفر پوشیدہ ہے تا کہ اسلام کا اظہارکر کے انہیں ساتھی مل جائیں۔(۲)

--------------

[۱] ۔ ابن ابی الحدید حسن بصری کے بارے میں کہتے ہیں: وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔وہ وسوسہ میں مبتلا تھا ۔ ایک دن وضو کرتے وقت اپنے ہاتھوں اورپاؤں پر بہت زیادہ پانی ڈال رہا تھاتو، امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اسے دیکھا اور فرمایا: اے حسن؛ تم بہت زیادہ پانی گرا رہے ہو؟اس نے کہا:امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مسلمانوں کا خون زمین پر بہا رہے ہیں،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے!

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا: کیا اس کام نے تمہیں غمگین کیا ہے؟ اس نے کہا :ہاں

آپ نے فرمایا:ہمیشہ اسی طرح غمگین ہی رہو۔کہتے ہیں:اس کے بعد حسن بصری مرتے دم تک غمگین اوربد مزاج تھا۔

[۲] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۷

۲۲۹

     اس واقعہ میں رسول خدا(ص) نے مدینہ پر معاویہ کے تسلط اور اس کا آنحضرت کے منبر پربیٹھنے کی پیشنگوئی فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی تم لوگ دیکھو کہ معاویہ میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اسے مار دو۔لیکن افسوس پیغمبر(ص) کے اس حکم پر بھی عمل نہ ہو ا۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہے اورقابل احترام ہوتا ہے،اس بناء پر پیغمبر اکرم (ص) کا معاویہ کو قتل کرنے کا حکم دینا اس چیز کی دلیل ہے کہ معاویہ ایمان نہیں لایا تھا اور اسی طرح اپنے کفر پر باقی تھا۔     اب ہم جو واقعہ بیان کریں گے وہ اسی حقیقت کی دلیل ہے معاویہ و ابوسفیان کے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد بھی  پیغمبر اسلام نے ان پر لعنت و نفرین کی ہے:

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

 ابوعبداللہ بصری متکلّم معتزلی نے نصر بن عاصم لیثی اور اس کے باپ سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے:ہم رسول خدا(ص) کی مسجد میں داخل ہوئے ، ہم نے دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں: ہم خدا اور رسول خدا(ص) کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔

     ہم نے کہا: کیا ہوا ہے؟

     انہوں نے کہا: ابھی  معاویہ اٹھا اور اس نے ابوسفیان کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں مسجد سے باہر چلے گئے۔ اسی وقت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     خداوند تابع ومتبوع پر لعنت کرے!میری امت پر اس معاویہ کفل بزرگ کی طرف سے کتنے سخت دن آئیں گے!

     نیز علاء بن حریز قشیری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے معاویہ سے فرمایا:

     اے معاویہ؛ بیشک تم بدعت کو سنت اور برائیوں کو اچھائیوں میں بدلدوگے، تمہاری خوراک بہت زیادہ اور تمہارے ظلم بہت بڑے ہوں ہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔ عجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۹

۲۳۰

     پہلی پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے ابوسفیان اور معاویہ و ابوسفیان پر اپنی لعنت کی ہے اور معاویہ کے ہاتھوں اپنی امت پر آنے والی سختیوں کے بارے میں پیشنگوئی کی ہے۔رسول خدا(ص)  نے لوگوں کے سامنے انتہائی  غصہ کے عالم میں یہ فرمان بیان فرمایا۔

 دوسری پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے معاویہ کو نہ صرف بدعت گذار قرار دیابلکہ اس کے علاوہ فرمایا: تم اپنا برا کردار لوگوں کے سامنے اچھا کر کے پیش کرو گے اور لوگوں پر بہت ظلم و ستم کرو گے۔

ایک اور پیشنگوئی  میں رسول خدا(ص) نے عمروعاص کو معاویہ کا اہم یار و مددگار قرار دیا ہے کہ جب یہ اکٹھے ہو جائیں گے تو مکاری اور دھوکہ کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوگا! اسی لئے فرمایا:جب بھی ان دونوں کو اکٹھا دیکھو تو ان دونوں میں جدائی پیدا کرو۔ایک دن یہ دونوں بلند آواز سے گانا گا رہے تھے اور اس وجہ سے بھی رسول خدا(ص) نے ان دونوں پر نفرین کی اور خدا سے دعا کی کہ ان دونوں کو اہل جہنم میں سے قرار دے۔

عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     یہ واقعہ قاضی ابوحنیفہ نعمان مغربی نے کتاب''المناقب والمثالب'' میں اس طرح بیان کیا ہے:

     عبداللہ بن عمروعاص کہتاہے: میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور کچھ اصحاب بھی آنحضرت کی خدمت میں تھے۔میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     اوّل طالع یطلع علیکم من هذا الفجّ،یموت علی غیر ملّت

     اس راستہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا ،وہ میری ملت پر نہیں مرے گا۔

عبداللہ بن عمرو عاص نے کہا:جب میں اپنے باپ سے مل کر آیا تھا تو وہ بھی رسول خدا(ص) کے پاس آنے کے لئے لباس پہن رہا تھا،اس وجہ سے مسلسل میری نگاہیں اس راستہ پر جمی ہوئیں تھیں اور خوف کے مارے میری ایسی حالت تھی جیسے کسی نے اپنا

۲۳۱

پیشاب روک رکھاہو کہ کہیں یہ نہ ہو کہ داخل ہونے والا میرا باپ ہو،یہاں تک کہ معاویہ داخل ہوا؛پس رسول خدا(ص) نے فرمایا: وہ یہی شخص ہے۔(۱)

     پھر وہ لکھتے ہیں:ابن عباس نے عبداللہ بن عمرو عاص کی یہ بات سنی تو اس نے کہا:عبداللہ بن عمرو عاص نییہ حدیث نقل کرنے کے باوجود کس طرح معاویہ کے ساتھ مل کر علی علیہ السلام سے جنگ کی؟

     عبداللہ کے پاس اپنے لئے (نہ کہ دوسروں کے نزدیک) عذر تھا(!)جس سے ابن عباس بے خبر تھے اور وہ عذر یہ تھا : کہا گیا ہے کہ وہ ایک دن کسی گروہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حسین بن علی علیہما السلام کا گذر ہوا۔ عبداللہ بن عمرو نے کہا:آگاہ ہو جاؤ؛خدا کی قسم؛ یہ اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سب سے زیادہ محبوب فرد ہے۔  انہوں  نے جنگ صفین میں میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اور اگر یہ میرے ساتھ بات کرتے اور مجھ سے راضی ہوتے تو یہ میرے لئے سرخ رنگ کے اونٹ سے  زیادہ محبوب تھا۔

     پھر عبداللہ بن عمرو نے کسی کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تا کہ آنحضرت کی رضائیت حاصل کر سکے اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں آپ کو بتائے اور آنحضرت کی حدمت میں شرفیاب ہونے کے لئے اجازت طلب کرے۔

     امام حسین علیہ السلام نے اجازت دی اور وہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

     تم جانتے ہو کہ میں آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوںاور تم نے رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:حسن اور حسین جوانان جنت  کے سردار ہیں اور ان کے باباان دونوں سے بہتر ہیں، لیکن پھر بھی تم نے ان کے خلاف جنگ کی؟!

--------------

[۱]۔ المناقب و المثالب:۲۱۹

۲۳۲

عبداللہ بن عمرو نے کہا:خدا کی قسم؛اے فرزند رسول خدا(ص)؛ مجھے اس کام پر مجبور نہیں کیا مگر رسول خدا(ص) کے اس فرمان نے جو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب عمرونے آنحضرت کے پاس آ کر میری شکایت کی اور کہا:وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ رواداری سے کام لے لیکن یہ نہیں مانتا۔

پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے باپ کی اطاعت کرو ۔ پس وہ معاویہ  کے پاس گیااور اس نے مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اس کے ساتھ جاؤں ۔ لہذا میں نے اس کی اطاعت کی جیسا کہ رسول  خدا(ص) نے حکم دیا تھا۔

 امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

أولم تسمع قول اللّٰه عزوجلّ ف کتابه و قد أمر ببرّ الوالدین ،ثمّ قال: ( وَِن جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلَا تُطِعْهُمَا) (۱)  و قول رسول اللهّٰ: انّما  الطّاعة ف المعروف؟

     کیا تم نے خداوند کا کتاب خدا میں یہ قول نہیں سنا کہ جس میں ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر فرمایا:''اور اگر وہ کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا ''۔اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: اطاعت صرف اچھے اور نیک کاموں میں ہے (نہ کہ برے کاموں میں)؟

     عبداللہ بن عمرو نے کہا: میں نے یہ سنا تھا لیکن خدا کی قسم جیسے گویا اسے نہیں سنا تھا۔(۲)

     جی ہاں؛ شیطان گمراہوں کو گمراہ کرنے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ انہوں نے جو چیز دیکھی یا سنی ہو گویا انہوں نے نہ تو دیکھی ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ چونکہ وہ اہل غفلت ہیں اس لئے وہ انہیں غفلت و گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

--------------

[۲]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: ۸

[۳]۔ المناقب والمثالب:۲۲۰، مناقب آل ابی طالب: ج ۳ ص۲۲۸، مسند احمد میں کچھ اختصار کے ساتھ: ج ۲ص۱۶۴، تاریخ دمشق:۲۷۸۳۱

۲۳۳

معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     کتاب''معاویہ و تاریخ''میں لکھتے ہیں: طبرانی نے کبیرمیں اور ابن عساکر نے شدّاد بن اوس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ اور عمرو عاص کو اکٹھے دیکھوتو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالو؛خدا کی قسم؛یہ دونوں جب بھی اکٹھے ہوں تومکاری اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔

     احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابویعلی نے ابوبرزہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:ہم رسول خدا(ص) کی خدمت میں تھے کہ اچانک گانے کی آواز آئی ،آنحضرت نے فرمایا:

     دیکھو، یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟

     میں اوپر گیا اور میں نے دیکھا کہ معاویہ اور عمرو عاص گانا گا رہے تھے۔میں نے واپس آ کر سارا  واقعہ آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا:

خداوندا! ان دونوں کو فتنہ میں داخل کر۔پروردگارا! انہیں آگ میں ڈال دے۔

طبرانی نے یہ حدیث مسند کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے۔(۱)

--------------

[۱] ۔ معاویہ و تاریخ: ۱۷۵

۲۳۴

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

مرحوم سلطان الواعظین شیرازی لکھتے ہیں: اگر آپ  غور سے نہج البلاغہ (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات وکلمات کا مجموعہ ہے) کا مطالعہ کریںتو آپ کو مختلف حوادث، بڑے بادشاہوں کے حالات،صاحب زنج کا خروج، مغلوں کا غالب آنا، چنگیز خان کی سلطنت، ظالم خلفاء کے حالات اور شیعوں کے ساتھ ان کے معاملات کے بارے میں آنحضرت کی بیان کی گئی غیب کی بہت سی خبریں ملیں گی۔خاص طور پر شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدکی پہلی جلد کے صفحہ ۲۰۸ سے ۲۱۱ تک یہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

 خواجہ کلان بلخی حنفی نے بھی ''ینابیع المودّة''کے چودہویں باب کے آغاز میں  امام علی علیہ السلام کے کچھ خطبات اور پیشنگوئیاں بیان کی ہیں  جو آنحضرت کے کثرت علم پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں پڑھیئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے۔

معاویہ کے غلبہ پانے اور اس ملعو ن کے مظالم کی پیشنگوئی کرنا:

 ان پیشنگوئیوں میں سے ایک آنحضرت کا کوفہ والوں کو معاویہ علیہ الھاویہ کے ان پر غلبہ پانے اور انہیں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ ولعن کرنے کے حکم کے بارے بتانا ہے۔چنانچہ جیسا آپ نے بتایا تھا ویسے ہی بعد میں رونما ہوا۔ ان میں سے آپ نے فرمایا:

 أما أنّه سیظهر علیکم بعد رجل رحب البلعوم مندحق البطن، یأکل ما یجد ویطلب مالایجد، فاقتلوه ولن تقتلوهألا؛ وَانّه سیأمرکم بسبّ والبرائة منّ ؛ فأماّالسبّ فسبّون،فانّه لی زکوة ولکم نجاة وأمّاالبرائة، فلا تتبرّؤا منّ، فانّ ولدت علی الفطرة و سبقت الی الایمان والهجرة

     جلدی ہی میرے بعد تم لوگوں پر موٹی گردن والا اور باہر نکلے ہوئے پیٹ والا آدمی غالب آئے گا،اسے جو ملے گا وہ کھالے گااور اسے جو چیز نہیں ملے گی وہ اسے طلب کرے گا؛ پس اسے قتل کر دینا  لیکن تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔

     آگاہ ہو جاؤ؛ جلد ہی وہ شخص تمہیں مجھ پر سبّ و شتم کرنے اور مجھ سے سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دے گا۔میں

۲۳۵

تمہیں سبّ و شتم کرنے کی اجازت دیتا ہوں(چونکہ وہ زبانی ہے)کیونکہ یہ سبّ وشتم میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس ملعون کے شر ّ سے) نجات ہے۔لیکن مجھ سے بیزاری کا ظہار نہ کرنا(چونکہ یہ ایک قلبی امر ہے) کیونکہ میں فطرت (توحید و اسلام) پر متولد ہوا ہوں ، (یہ جملہ اشارہ ہے کہ آنحضرت کے والدین مؤمن تھے)اور میں نے آنحضرت کے ساتھ ایمان اور ہجرت میں سبقت لی ہے۔(۱)

--------------

[۱] ۔ زیادہ کھانے والے شخص  سے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد معاویہ علیہ الھاویہ ہے کیونکہ ابن ابی الحدید ''شرح نہج البلاغہ (چاپ مصر):۳۳۵۱''میں کہتے ہیں: معاویہ زیادہ کھاتا تھا اور وہ تاریخ میں زیادہ کھانے والے کے نام سے مشہور ہے۔''وکان یأکل فی الیوم سبع أکلات'' (جیسا کہ زمخشری نے کتاب''ربیع الأبرار''میں کہاہے)وہ دن میں سات مرتبہ کھاناکھاتا تھااور ہر مرتبہ اتنا زیادہ کھاتا تھاکہ وہ دسترخوان کے ساتھ ہی لیٹ جاتا تھااور آواز دیتا تھا:''یا غلام ؛ارفع فواللّٰه ما شبعت ولکن مللت' 'اے غلام؛آؤ اور یہ دسترخوان لے جاؤ خدا کی قسم؛ میں  تھک گیا ہوں لیکن ابھی تک سیر نہیں ہوا۔

یہ ملعون ان لوگوں میں سے تھا کہ جسے ''جوع الکلاب''کی بیماری لاحق تھی۔(قدیم طب میں اس بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس بیماری کے دوران بیمار کے معدہ میں ایسی حرارت ہوتی ہے کہ چاہے جو غذا مری کے ذریعہ معدہ تک پہنچے لیکن پھر بھی وہ بحارات میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کا نفع و نقصان معلوم نہیں ہوگا)۔

اس کا زیادہ کھانا ایک ضرب المثل بن گئی۔ہر زیادہ کھانے والے شخص کو اس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ایک شاعر نے زیادہ کھانے والے  .۱پنے ایک دوست کی خوبصورت انداز میں مذمت کی ہے اور کہا ہے:

و صاحب ل بطنه کالهاویة        کأنّ ف امعانه معاویة

 میراایک ایسا دوست ہے کہ جس کا پیٹ ہاویہ کی طرح ہے کہ جیسے اس کی انتڑیوںمیں معاویہ بیٹھا ہو۔

ہاویہ ،جہنم کے طبقوں میں سے ایک ہے، چونکہ جہنم کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے:جہنم سے کہا جائے گا:( ه َلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُولُ ه َلْ مِن مَّزِیْدٍ )(سور ه ٔ ق،آیت:٣٠) ''کہ کیا تو بھر گیا  ہے؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور مل سکتا ہے؟ ''یہ اشارہ ہے کہ جہنم کبھی بھی کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گا۔

۲۳۶

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ(چاپ مصر):ج ۱ص۳۶۵'' اور دوسروں نے اہلسنت کے بزرگ علماء سے تصدیق کی ہے کہ وہ لعین، معاویہ بن ابی سفیان ہی تھاکہ جب وہ غالب ہوا تو اس کی خلافت محکم ہو گئی تو اس نے لوگوں کوامیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے اور آنحضرت سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ آٹھ سال تک مسلمانوں میں یہ قبیح فعل رائج رہا اور وہ ظالمانہ طور پر عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے تکمحراب و منبر حتی کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی آنحضرت پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ پھر اس وقت کے اس اموی خلیفہ نے صالحانہ سوجھ بوجھ سے سبّ و شتم کو ختم کیا اور لوگوں کو یہ قبیح کام کرنے سے منع کیا۔(۱)

عمر بن عبدالعزیز کے کئی چہرے تھے اور اس نے صرف منبروں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے سے منع کیا اور منبروں کے علاوہ ہر کسی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی لیکن اگر کوئی معاویہ پر لعنت کرتا تھا تو وہ عمربن عبدالعزیز کے حکم پر تازیانہ کھاتا تھا!!

''الغارات'' کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اہل کوفہ سے فرمایا:

     تم لوگوں پر شامی غلبہ پا لیں گے۔

     انہوںنے کہا: آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا؟

     فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا کام بڑھتا چلا گیا ہے لیکن تمہاری آگ بجھ چکی ہے ، وہ کوشش کر رہے ہیں اور تم لوگ مست ہو، وہ متحد ہیں لیکن تم لوگ بکھرے ہوئے ہو،وہ اپنے امیرکی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امیر کی ایک نہیں سنتے۔ خدا کی قسم! اگر وہ تم پر غلبہ پالیںتو میرے بعد وہ تمہارے ساتھ بہت براسلوک کریں گے۔

--------------

[۱]۔ شب ہای پشاور:۹۴۰

۲۳۷

     میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے شہروں پر قبضہ کر لیں گے،تمہارا مال اور غنائم اپنی طرف لئے جائیں گے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں میں سے کچھ تو چھپکلی کی طرح زمین پرگھسیٹے جاؤ گے اور آرام سے ایک دوسرے کی طرف چلو گے، وہ تمہارا کوئی بھی حق ادا نہیں کریں گے اور خدا کے محترمات کا خیال نہیں کریں گے۔

     گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے قاریوں کو قتل کردیں گے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہیں محروم کر دیں گے اور تمہیں اپنے پاس نہیں آنے دیں گے، وہ لوگ شامیوں کو تو آنے دیں گے لیکن تمہیں مسترد کر دیں گے ۔ اس وقت کہ جب تم لوگوں نے محرومیت اور بدعتوں کودیکھا اور جب تم پر تلواریں چلائی گئیں تو تم لوگ پچھتاؤ گے  اور تم محزون ہو گے کہ کیوں ان سے جہاد نہیں کیا، لیکن اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔(۱)

  اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے''ولئن أمهل اللّٰه الظالم فلن یفوت أخذه وهو له بالمرصاد فرض کرو کہ اگر خداوند ظالم کو مہلت دے لیکن ان کا مؤاخذہ کرنے سے باز نہیں آئے گا اور خداوند اس کے لئے کمین میں ہے''سے شروع ہونے والے خطبہ میں کلمات کی تشریح کرنے کے بعد اس طرح سے بحث بیان کی ہے:

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام  قسم کھاتے ہیں کہ شامی ضرور عراق کے لوگوں پر کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حق پر اور عراقی باطل پر ہیں ، بلکہ اس کا یہ سبب ہے کہ وہ اپنے امیر کے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہیں۔

     جنگ میں فتح کا دارومدار فوج کی کمانڈ اور اس کے امور کو منظم رکھنے پر ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کا دارومدار حق پر ہوتا ہے۔اگر عقیدے کے لحاظ سے کوئی لشکر حق پر ہو لیکن ان کی آراء مختلف ہوں اور وہ اپنے سپہ سالار کی فرمانبرداری نہ کریں تو اس جنگ میں ان سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اسی لئے ہم نے کئی باردیکھا ہے کہ مشرک ، اہل توحید پر فتح پا جاتے ہیں۔

     پھر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس بارے میں ایک لطیف نکتہ نقل کیا ہے اور فرمایا ہے:

--------------

[۱]۔ الغارات و شرح اعلام آن:۲۷۷

۲۳۸

     عام طور پر عرف میں یہ ہوتا ہے کہ رعایا حاکم کے ظلم و ستم سے ڈرتی ہے جب کہ میں خود پراپنی رعایا کے ستم سے خوفزدہ ہوں۔

جو کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دورۂ حلافت کے حالات پر غور کرے تو وہ یہ سمجھ جائے گا کہ آنحضرت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں جو کچھ تھا آپ وہ نہیں کر سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت کو حق وحقیقت سمجھنے والے بہت کم تھے اور اکثر لوگوں کا آنحضرت کے بارے میں ویسا عقیدہ نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہئے تھااور وہ آپ سے پہلے خلفاء کو آپ سے افضل سمجھتے تھے اوران کا یہ خیال تھا کہ افضلیت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔ان کی نئی نسل بھی  اپنے آباء  و اجداد کی تقلید کرتی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا: اگر ہمارے آباء و اجداد ان کی فضیلت سے آگاہ ہوتے تو انہیں دوسروں پر مقدم کرتے اور وہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کوپہلے خلفاء کی رعایا اور پیروکار سمجھتے تھے! آنحضرت کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے بھی اکثر کی بنیاد تعصب، جوش، تکبراورعربی گھمنڈتھا نہ کہ وہ عقیدے اور دین کی وجہ سے جنگ کر رہے تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں  مجبوراً برداشت کررہے تھے اور آپ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔(۱)

''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     کتاب''الغارات'' میں لکھتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہر دن مسجد کوفہ میں ایک مقام پر تشریف فرما ہوتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی انگلیاں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے اور فرماتے تھے: صرف کوفہ باقی رہ گیا ہے کہ جس میں میرا حکم چلتا ہے ۔ اور فرمایا:

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ ددر نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۳۷۰

۲۳۹

لعمر أبیک الخیر یا عمرو انّن           علی وضر من ذا الاناء قلیل

     ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے کوفہ؛ اب صرف تم ہی میرے پاس ہو ،کاش کہ تو بھی نہ ہوتا اور مجھے اپنے طوفانوں سے پریشان نہ کرتا ۔ اے کوفہ؛ تمہارا منہ کالا ہو۔

     نیز آپ نے فرمایا:اے لوگو؛بسر بن ارطاة یمن پر ظاہر ہوا اور اب عبیداللہ عباس اور سعید بن نمران آگئے ہیں ۔ میں دیکھ رہا کہ یہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی اور باطل غالب آجاے گا؛لیکن تم لوگ حقپر ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہو۔وہ لوگ اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امام کی بات نہیں سنتے ۔وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں   لیکن تم لوگ امانت میں خیانت کرتے ہو۔

     میں نے فلاں شخص کو ولی بنایا اور اس نے خیانت کی،مسلمانوں کے مال اور غنائم لے کر معاویہ کی طرف چلا گیا۔دوسرے کو حاکم بنایا تو اس نے بھی اسی کی طرح خیانت کی۔اب مجھے اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ میں ایک تازیانہ بھی تم لوگوں کے پاس بطور امانت رکھوں۔

     میں گرمیوں میں تم لوگوں سے کہوں کہ جہاد کے لئے جاؤ تو کہتے ہو:اب موسم گرم ہے ،کچھ تأخیر کر دیں تاکہ گرمیاں گذر جائیں۔اگر سردیوں میں جنگ پر جانے کا حکم دوں تو کہتے ہو کہ ابھی موسم سرد ہے ،کچھ مدت تک رک جائیں تا کہ سردیاں گذر جائیں۔

     خدایا:وہ مجھ سے تھک گئے ہیں اور میں ان سے تھک گیا ہوں، مجھے ان سے بہتر (امت) عطا کر اور ان پر مجھ سے برا (حاکم) مسلط کر۔ان کے دل کو پانی کر دے ؛جس طرح نمک پانی میں گھل ہو جاتا ہے۔

     حارث بن سلیمان کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     یہ قوم تم لوگوں پر غالب آ ئے گی؛کیونکہ تم لوگمتحد نہیں ہو اور حق کا دفاع نہیں کرتے ہو ، لیکن وہ لوگ اپنے باطل

۲۴۰

پرمتحد ہیں ۔ جب بھی تم لوگوںمیں  ک  وئی ایسا امام ہو کہ جو لوگوں میں عدالت سے کام لے اور مال تقسیم کرنے میں سب کو یکساں دیکھے تو اس کی اطاعت کرواور اس کی باتوں کو سنو۔ لوگوں میں نظم و ضبط نہیں پایا جاتا مگر یہ کہ ان میں کوئی امام ہو،خواہ وہ امام اچھا عمل کرے یا برا عمل کرے۔اگر وہ نیک  کام کرے تو اس کے اپنے لئے بھی اچھا ہے اور لوگوں کے لئے بھی اور اگر بدکار ہو تو اس کی حکومت میں مؤمن خدا کی عبادت میں مشغول ہو جائیں اور فاسق و فاجر اس وقت تک کام کرتے رہیں گے جب تک ان کے لئے معین ہواہو۔

     اے لوگو!میرے جانے کے بعد تم لوگوں کو حکم  دیا جاے گا کہ مجھ پر سبّ و شتم کرو اور مجھ سے بیزاری  و برائت اختیارکرو۔جو بھی مجھپر سبّ و شتم کرنا چاہے اس میں کوئی مانع نہیں ہے،لیکن مجھ  سے برائت اختیار  نہ کرنا کیونکہ میرا دین اسلام ہے۔

ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:لوگ ایک دوسرے سے ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کی مذمت کی  اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے، اشراف اور بزرگ افراد آپس میں مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے اور پھر وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:یاامیر المؤمنین ؛آپ کسی شخص کو معین کریں اور اس کے ساتھ ایک لشکر بھیج دیں تا کہ اسے سبق سکھا سکیں،اور اس کے بعد بھی آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی اطاعت کریں گے اور آپ کی  خوشنودی کے برخلاف کوئی فعل انجام نہیں دیں گے۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے اس مرد کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا مگر یہ کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو مار دے اور اسے اس ملک سے باہر نکال دے،اب تم لوگ استقامت کا مظاہرہ کرو اور میری باتوں کو سنو اور خود کو شامیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار کرو۔

۲۴۱

     اسی دوران سعید بن قیس ہمدانی اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛خداکی قسم؛اگر آپ ہمیں قسطنطنیہ یا روم کی طرف پیدل بھی بھیج دیں اور ہمیں کوئی تنخواہ اور کوئی فائدہ بھی نہ دیں  پھر بھی میں اور میری قوم آپ کی مخالفت نہیں کرے گی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     تم سچ کہہ رہے ہو،خدا تمہیں جزاء خیر عطا فرمائے۔

     اس کے بعد زیاد بن خصفہ اور وعلة بن مخدوع اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛ہم آپ کے شیعہ ہیں اور آپ کا حکم مانتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہماری کوئی مخالفت نہیں ہے۔

     فرمایا: ہاں؛ تم سچ کہہ رہے ہو اور اب خود کو شام جانے کے لئے تیار کرو۔

     لوگوں  نے اپنی اطاعت کاا علان کیا اور آپ نے فرمایا:کسی ایسے شخص کے بارے میں بتاؤ جوعراقی سرحدوں کی طرف سے لوگوں کو جنگ کی دعوت دے۔

     سعید بن قیس نے کہا:خدا کی قسم؛ عربوں کے اس جنگی امور کے لئے ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جو مکمل طور پر آپ کا دفاع کرے گا اور آپ کے دشمنوں سے سختی سے پیش آئے گا۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: وہ شخص کون ہے؟

     کہا: معقل بن قیس ریاحی۔

     آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے بلایا اور اور کوفہ کی سرحد کی طرف بھیجا اور ابھی تک وہ واپس نہیں آیا تھا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام  شہید ہو گئے۔(1)

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 333

۲۴۲

  ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     معاویہ نے اپنے دوستوں میں سے کسی کو کوفہ بھیجا تھا تا کہ مروان اسے وہاں  پہنچائے ۔ اس بارے میں لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کیں یہاں تک کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام تک یہ بات پہنچی اور آپ نے اپنی ایک نشست میں فرمایا:

     تم لوگ معاویہ کی موت کے بارے میں بہت باتیں کر رہے ہو ؛ خدا کی قسم وہ تب تک نہیں مرے گا کہ جب تک میری سلطنت میں بھی تصرف نہ کر لے ۔ جگر خور کا یہ بیٹا مجھ سے یہ سنا چاہتا ہے اور اس نے کسی کو بھیجا ہے تا کہ وہ اپنی موت کی خبر پھیلائے اور اپنے مستقبل کے بارے میں میرے نظریہ کو یقین سے جان لے؟

     پھر آپ نے بہت سے کلمات ارشاد فرمائے اور پھر معاویہ اور اس کی نسل میں سے یزید  و مروان اور اس کے بیٹوں کا تذکرہ کیا اور پھر حجاج اور ان ساتھ ہونے والے تشدد کو بیان فرمایا۔

     لوگ رونے لگے اور ان کے گریہ وزاری کی آوازیں اور زیادہ ہو گئیں اور ان میں سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا: اے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام !آپ نے بہت بڑے حادثات کے بارے میں بتایا ہے ، آپ کو خدا کی قسم؛کیا یہ سب واقع ہوں گے؟

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی قسم؛یہ سب واقع ہوں گے اور مجھ سے جھوٹ نہیں  بتایا گیا اور میں بھی جھوٹ نہیں بولتا۔

     بعض لوگوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛ یہ سب کب واقع ہو گا؟فرمایا:جب یہ رنگین ہو جائے۔ اور پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ اپنی ڈاڑھی مبارک اور دوسرا ہاتھ سر اقدس پر رکھا اور لوگوں  نے بہت گریہ کیا، پھر آپ نے فرمایا:

اب مت رو کیونکہ تمہیں میرے بعد بہت رونا ہے؟

اس کے بعد کوفہ کے اکثر لوگوں نے مخفی طور پر معاویہ کو اپنے بارے میں خط لکھا اوروہ اس کی حوصلہ افزائی کا وسیلہ بنے! کچھ دن ہی گذرے تے یہ سانحہ (شہادت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ) رونما ہوا۔(1)

--------------

[1]۔ مروج الذہب: ج۱ ص۷۷۷

۲۴۳

جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس کے  اثرات کو بیان کرنے سے پہلے ہم جناب عمار یاسر کی عظمت کے بارے میں کچھ مطالب ذکر کرتے ہیں:

     جناب عماریاسر نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی  اور آپ جنگ بدر،احد،خندق اور بیعت رضوان میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہتھے اور آپ نے اسلام کا دفاع کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا اور مشرکوں سے جنگ کی۔رسول اکرم(ص) جناب عمار کے متعلق بات کرتے تھے اور فرماتے تھے:

     صحیح راستہ عمارسے سیکھو اور ان کی پیروی کرو۔

     خالد بن ولید کہتا ہے:میرے اور عمار کے درمیان گفتگوہوئی اور میں نے ان کے ساتھ غصہ سے بات کی ، عمار رسول خدا(ص) کے پاس گئے اور میری شکایت کی ، خالد بھی گیا اور اس نے بھی شکایت کی اور عمار کے بارے میں کچھ سخت کلمات کہے ، پیغمبر اکرم(ص) خاموش ہو گئے اور آپ نے کچھ نہیں کیا۔اسی دوران عمار بن یاسر رونے لگے۔     عمار نے کہا:یا رسول اللہ!آپ نے خالد کی باتیں سنی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔     اس وقت رسول خدا(ص) نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:

     جو بھی عمار سے دشمنی رکھے ،اس نے خدا سے دشمنی کی اور جو بھی عمار کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا۔

     خالد نے کہا:میں پیغمبر اکرم(ص) کے پاس سے اٹھ کر باہرچلا گیا اور میں نے عمار سے صلح کر لی اور ان کی رضائیت حاصل کر لی۔(1)

     رسول اکرم(ص) مدینہ میں ابوایوب انصاری کے گھر گئے اور اس کے ساتھ زمین خرید ی،جس میں مسجد اور اپنا گھر بنایا۔(2)

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 492

[2]۔ السیرة النبویّة:ج 4ص106

۲۴۴

     ابن اسحاق نے مسجد بنانے (جسے مسلمانوں نے تعمیر کیا) کے واقعہ کو بیان کرتے  ہوئے خاص طور سے عمار کا نام ذکر کیا ہے۔

     وہ کہتے ہیں: جب عمار یاسر داخل ہوئے تو ان کے کندھوں پر بہت زیادہ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔

     انہوں ے کہا: یا رسول اللہ! مجھے مارڈالا؛ یہ جو چیز خود نہیں اٹھا سکتے وہ میرے کندھوں پر رکھ دیتے ہیں۔

     ام سلمہ - پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ - کہتی ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) نے اپنے ہاتھوں سے ان   کے سر سے بوجھ کو اتارا جب کہ ان کے گھنگھریالے بال تھے .....اور فرمایا:     یہ تمہیں قتل نہیں کریں گے؛ بلکہ ایک باغی گروہ (سرکش اور ظالم) تمہیں قتل کرے گا۔(1)

     یہ ہے رسول اکرم(ص) کا وہ مشہور فرمان جو آپ نے اپنے اس صحابی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس نے فداکاری میں اپنی جان سے بھی دریغ نہ کیا۔     اس مرحلہ کاد قیق مطالعہ ہم پیغمبر اکرم(ص) کا اپنے صحابی کے بارے میں بیان کئے گئے فرمان سے نزدیک ہوں اور ان کی شخصیت کی مکمل طور پر معرفت حاصل کریں ، ان میں سے کچھ یہ ہے:

     ان کے بینظیر کردار و رفتار،روشن نقش اور سب سے بڑھ کر رسول اکرم(ص) سے ان کا مضبوط تعلق ہے۔ اس بارے میں -زہری کی روایت کی بنیاد پر-جس زمین پر عمار نے گھر بنایا تھا،وہ زمین انہیں رسول خدا نے عطا کی تھی۔(2)

     جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے کی بنیاد پر اخوت و بھائی چارہ کا اعلان ہوا تو اس موقع پر  انصار میں سے ایک جلیل القدر صحابی جناب حزیفہ بن یمان کوعمار کا بھائی قرار دیا گیا۔(4)(3)

--------------

[1]۔ السیرة النبویّة:ج2ص102

[2]۔ الطبقات الکبری:ج3ص250

[3]۔ الطبقات الکبری:ج3 ص 250

[4]۔ رفتار شناسی امام علی علیہ السلام در آئنہ ٔ تاریخ: 196

۲۴۵

     اس بناء پر رسول خدا(ص) کے صحابیوں میں سے عمار یاسر ایک  نمایاں چہرہہے جنہیں مسلمانوں میں بہت زیادہ محبوبیت حاصل ہے۔

     رسول خدا(ص) نے جناب عمار یاسرکے ماضی، شہرت، محبوبیت اور تمام خصوصیت کی وجہ سے لوگوں میں عمار کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں پیشنگوئی بیان فرمائی تا کہ اس کے ذریعہ تمام مسلمان حق و باطل کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکیں اور یہ جان لیں کہ جس گروہ میں بھی عمار ہوں گے وہ راہ ہدایت پر ہو گا اور دوسرا گروہ گمراہی و ضلالت کی راہ پر گامزن ہو گا۔

     جناب عمار کی ایک خصوصیت آپ کی خطابت تھی ۔ آپ اپنے خطاب کی طاقت سے حقائق کو واضح کر تے تھے اور دلیل و برہان کے ذریعہ افراد کی رہنمائی کرتے تھے۔ حق کی حمایت کی راہ میں انہیں کوئی خوف و ملال نہیں تھا اور وہ کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے کلام کی تأثیر سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

     ابن ابی الحدید نے نصر بن مزاحم سے جناب عمار یاسرکی رہنمائی کے واقعہ کو اس طرح سے بیان کیا ہے:

جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

     نصر بن مزاحم کہتے ہیں: یحییٰ بن یعلی نے صباح مزنی سے اور انہوں نے حارث بن حصن سے، زید بن ابی رجاء سے اورانہوںنے اسماء بن حکیم فزاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

ہم جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ اور عمار یاسر کے پرچم تلے تھے۔ظہر کے وقت ہم نے سرخ چادرسے اپنے لئے سایہ فراہم کیا ہوا تھا ۔ صفوں کے پیچھے سے گزرنے والا ایک شخص کہ جیسے وہ انہیں شمار کر رہا ہو، وہ آگے آیا اور میرے پاس آ کر اس نے پوچھا: تم میں سے عمار یاسر کون ہے؟

     عمار نے کہا: میں عمار ہوں۔

     اس نے پوچھا:وہی کہ جس کا دشمن ابویقظان ہے؟

     کہا: ہاں

۲۴۶

     اس شخص نے کہا:میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کیا سب کے سامنے کہوں یا تنہائی میں؟

     عمار نے کہا: تم جس طرح چاہو کہہ سکتے ہو۔

     اس نے کہا:میں سب کے سامنے کہتا ہوں۔

     عمار نے کہا: کہو۔     ہم جس حق پر ہیں،اس کی وجہ سے میں اپنے خاندان سے نکل آیا ہوںاور مجھے اس گروہ کے گمراہ ہونے میںبھی کوئی شک نہیں ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ باطل پر ہیں اور کل رات تک میں اسی حال میں تھا لیکن کل رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ آگے آئی اور اس نے اذان کہی اور اس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد(ص) خدا کے رسول ہیں اور اذان کے ساتھ نماز قائم ہو گئی ،ان کے مؤذن نے بھی ایسے ہی کیا اور نماز کی صفیں کھڑی ہو گئیں ،ہم نے ایک ساتھ نماز ادا کی اور ایک ساتھ قرآن کی تلاوت کی اور ایک ساتھ دعا پڑھی۔کل رات سے میں شک میں مبتلا ہوں اور میں نے کس حال میں رات گذاری ہے یہ خدا ہی جانتا ہے کہ مجھ پر کیا گذری۔جب رات سے صبح ہوئی تو میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور یہ سارا واقعہ آنحضرت سے بیان کیا۔آپ نے فرمایا:     کیا تم نے عمار یاسر کو دیکھا ہے؟

     میں نے کہا:نہیں۔

     فرمایا:ان سے ملو اور دیکھو کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ن کے فرمان کی پیروی کرو۔     لہذا اس کام کے لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں؟عمار نے اس سے کہا:کیا تم اس شخص کو جانتے ہو جو میرے سامنے سیاہ رنگ کا پرچم پکڑ ے کھڑا ہے؟وہ عمرو عاص کا پرچم ہے اور میں  نے پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ اس سے تین بار مقابلہ کیا ہے اور جنگ کی ہے اور یہ چوتھی مرتبہ ہے اور پہلے کی بنسبت اس بار نہ صرف بہتر ہے بلکہ یہ ان سب سے زیادہ بدتر اور تباہ کرنے والا ہے۔ کیا تم نے خود جنگ بدر،احد اور حنین(1) میں شرکت کی یاتمہارے باپ نے شرکت کی کہ جس نے تمہیں یہ بتایا ہو؟

--------------

[1] ۔ حالانکہ متن اور''وقعة صفین'' میں یونہی ہے لیکن حنین کی بجائے احزاب صحیح ہے کیونکہ جنگ حنین میں عمروعاص ظاہری طور پر مسلمان ہو چکا تھا۔وہ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوا تھا۔

۲۴۷

     اس نے کہا: نہیں۔

     عمار نے کہا:ہمارا مقام اور پرچم وہی مقام اور وہی پرچم ہے جو رسول خدا(ص) کا جنگ بدر،احد اور حنین میں تھا اور اس گروہ کا پرچم وہی احزاب کے مشرکوں کا پرچم ہے۔     کیا تم وہ لشکر اور اس میںموجود افراد کو دیکھ رہے ہو؟خدا کی قسم؛میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کااور معاویہ کے ساتھ مل کر ہمارے علم سے جنگ کرنے کے لئے آنے والوں  اور ہم سے الگ ہونے والوں (جن کے ہم معتقد تھے اور ہم ایک ہی جسم تھے )کا سر کاٹ دوں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔خدا کی قسم؛ان سب کا خون بہانا چڑیا کا خون بہانے سے بھی زیادہ حلال ہے۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو۔

     اس نے کہا:نہیں؛ بلکہ یہ حلال ہے۔

     عمار نے کہا:اسی طرح ان کا خون بھی حلال ہے۔کیامیں نے تمہارے لئے یہ مسئلہ واضح کر دیا۔

     اس نے کہا:جی ہاں۔

مار نے کہا:اب جسے چاہتے ہو منتخب کر لو۔

     وہ شخص واپس لوٹ گیا،عمار یاسر نے دوبارہ اسے بلایا اور کہا:بیشک بہت جلد ممکن ہے کہ یہ اپنی تلواروں سے تم پر ایسا وار کریں کہ تمہارے باطل کے پیروکار بھی شک و تردید کا شکار ہو جائیں اور کہیں:اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ہم پر کبھی کامیاب نہ ہوتے۔

     خدا کی قسم؛یہ لوگ مکھی کی آنکھ کو آلود کرنے والے تنکے کے برابر بھی حق پر نہیں ہیں۔اور خدا کی قسم!اگر ہم اپنی تلواروں سے ان پر ایسا وار کریں کہ انہیں ہجر(2) کے صحراؤں تک بھگا دیں ۔اور ضرور یہ جان لو کہ ہم حق پر ہیں اور یہ باطل پر۔(3)

--------------

[2] ۔ ہجر؛بحرین کی وہی سرزمین ہے کہ جہاں کی کھجوریں زیادہ  اور اچھی ہونے کے لحاظ سے مشہور ہیں ۔ ترجمہ ''تقویم البلدان:137''

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج3ص135

۲۴۸

جنگ صفین میں عمار یاسرکا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

     قابل توجہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے سپہ سالار عمار یاسر نہ صرف اپنے کلام سے عراق کی فوج کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ شام کے لشکر اورعمرو عاص جیسے افراد سے سے خطاب کرتے تھے اور انہیں ان کے شرمناک انجام سے خبردار کرتے تھے۔

     ابن ابی الحدید کھڑے ہوئے  نصر بن مزاحم منقری سینقل کرتے ہیں:

     جنگ صفین میں عمار یاس ر کھڑے ہوئے اور کہااے خدا کے بندو! میرے ساتھ مل کر اس قوم سے جنگ کرنے کے لئےکھڑے ہو جاؤ کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے ظالم شخص کے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو خود ظلم و ستم کرتا تھا۔ بیشک اسے اچھے لوگوں نے قتل کیا ہے کہ جو اسے ظلم و ستم اور تجاوز کرنے سے منع کرتے تھے اور اسے نیکی کا حکم دیتے تھے۔یہ لوگ ( اگر دنیا کے بدلے ان کا دین چلا بھی جائے تو یہ پھر بھی اس کو کوئی اہمیت نہ دیتے ) ہم پر اعتراض کرتے ہیںاور کہتے ہیں:کیوں اسے قتل کیا؟

     ہم نے کہا: دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے اسے قتل کیا ہے۔

     وہ کہتے ہیں: اس نے کوئی بدعت  ایجاد نہیں کی تھی اور اس کی یہ وجہ ہے کہ اس نے ان کے ہاتھوں میں دنیا دے دی تھی ؛ کہ جیسے یہ صرف کھاتے اور چرتے ہیں اور اگر پہاڑ بھی آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کے بکھر جائیں تویہ اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔

     خدا کی قسم! میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ خون کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس قوم نے دنیا داری کا مزہ چکھا ہے اور اس کو شیریں پایا ہے۔ جب کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر صاحب حق ان کے اوپر حاکم ہو جائے تو جو یہ کھاتے اور چرتے ہیں ،اس کے اور ان کے درمیان رکاوٹ ایاد کر دے۔

     اس قوم کا اسلام میں سے کو واسطہ نہیںہے کہ جس کی وجہ سے یہ حکومت کے حقدار ہوں۔انہوں نے اپنے پیروکاروں کو

۲۴۹

دھوکہ دیا ہے اور انہیں صرفسبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ کہیںہمارا پیشوا مظلوم مارا گیا ہے تا کہ اس وجہ سے یہ جابر بادشاہ بن جائیں ۔ اور یہ ایسا دھوکہ ہے کہ جس کی پناہ میں یہ وہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں تم دیکھ رہے ہو۔اگر یہ دھوکہ و فریب نہ ہوتا تو کوئی ایک شخص بھی ان کی بیعت نہ کرتا۔

     خدایا! اگر تو ہماری مدد کرے کہ تو ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے اور اگر تو انہیں حکومت دے تو بندوں میں ان کی پیدا کی گئی بدعتوں کی وجہ سے (آخرت) میں انہیں دردناک عذاب دے۔

     پھر عمار چلے جب کہ آپ کے ساتھی بھی آپ کے ہمراہ تھے اور جب آپ عمرو عاص کے قریب پہنچے تو اس سے کہا:اے عمرو؛تم نے مصر(کی حکومت) کے لئے اپنا دین بیچ دیا؟بدبختی تمہارے ساتھ ہو کہ تم کب سے اسلام سے یہی لینے کے لئے پرتول رہے تھے۔

     عمار یاسرنے پھر بیان کیا:پروردگارا؛تو خود جانتا ہے کہ کہ اگر میں یہ جان لوں کہ تیری رضا و خوشنودی اس میں ہے کہ میں اس دریا میں کود جاؤں،تو میں کود جاؤں گا۔

     خدایا! توجانتا ہے کہ اگر میں یہ جان  لوں کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار کی نوک اپنے پیٹ پر رکھ کے اس پر ٹیک لگاؤ تا کہ وہ میری پشتسے باہر نکل آئے ، تو میں ایسا ہی کروں گا۔

     پروردگارا؛تو نے مجھے جو کچھ سکھایا اسی کے مطابق میں یہ جانتا ہوں کہ آج اس گروہ کے خلاف جہاد کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے کہ جسے میں انجام دوں اور اگر میں یہ جان لوں کہ کوئی دوسرا کام تیری رضائیت کا باعث ہے تو میں وہی انجام دوں گا۔

     نصر کہتے ہیں: عمروبن سعید نے شعبی سے میرے لئے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:

     جناب عمار بن یاسرنے عبداللہ بن عمرو عاص کو آواز دی اور کہا:تم نے اپنا دین دنیا کے بدلے بیچ دیا اور وہ بھی خدا و اسلام کے دشمن (معاویہ) کے کہنے پر ، اور تم نے اپنے باپ کی  ہوا وہوس کے لئے تباہی اختیار کر لی ہے۔

۲۵۰

     اس نے کہا: ایسا نہیں ہے کہ میںشہید مظلوم عثمان کا خون کا تقاضا رہا ہوں!

     عمار نے کہا:ہرگز ایسا نہیں ہے۔میں تمہارے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں اس کی رو سے میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اپنے کسی بھی کام سے خدا کی رضائیت نہیں چاہتے اور جان لو کہ اگر آج تم قتل نہ بھی ہوئے تو کل مر جاؤ گے،اور دیکھ لو کہ جب خدا اپنے بندوں کو ان کے نیت کے اعتبار سے اجر دے گا تو تمہاری کیا نیت ہو گی؟(1)

  جس طرح ہم یہ بیان کریں گے کہ کچھ سنی علماء جیسے سیوطی  نے اپنی کتابوںمیں وضاحت کی ہے کہ جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں متواتر احادیث میں سے ہیں۔ یعنی اس حدیث کے روای اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا اس روایت کو نقل کرنے میں جھوٹ پرا جماع اور ان کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں  نے جھوٹ بولا ہے، یہ حال ہے۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حتی کہ عمرو عاص بلکہ معاویہ سے بھی نقل ہوئی ہے!! اگرچہ انہوں نے خود یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس پر اعتنا نہیں کی اور اس کے برخلاف عمل کیا ہے!

 اس حدیث سے آگاہ ہونے کے باوجودان کاحضرت رسول اکرم(ص) کے فرمان کے بر خلاف عمل کرنا آنحضرت کی خلافت وجانشینی کے مسئلہ میں ان کی رسول خدا(ص) کی مخالفت کی دلیل ہے۔

عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

     شبث بن ربعی نے  جنگ صفین میں معاویہ سے اپنی ملاقات کے اہم اور قابل توجہ واقعہ کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں جناب عمار کے قتل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔     ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب میں یوں بیان کیا ہے:     شبث بن ربعی نے معاویہ سے کہا: کیا تم عمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟

معاویہ نے کہا: کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟! اگر سمیہ کا بیٹا میرے ہاتھ آئے تو میں اسے عثمان کے غلام کے سامنے قتل کردوں۔

--------------

[1] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج3 ص131

۲۵۱

     شبث نے کہا:اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے؛تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو گی مگر یہ کہ بہت سے سر تن سے جدا ہو جائیں اور زمین آسمان کے کنارے تم پر تنگ ہو جائیں۔

     معاویہ نے کہا:اگر ایسا ہوا تو تجھ پر زیادہ تنگ ہو جائیں گے۔(1)

     اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے کہ معاویہ نے بھی پیغمبر اکرم(ص) کی متواتر روایت-کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:عمار کو ظالم و ستمگر گروہ قتل کرے گا''-کونقل کیا ہے۔جب شبث بن ربعی نے کہا:کیا تمعمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟تومعاویہ نے کہا:کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟!اس سے رسول خدا(ص) کے فرمان کے سامنے معاویہ کی واضح و آشکارمخالفت ثابتہوجاتی ہے۔

     جنگ صفین میں  عمار کے قتل کے بارے میں معاویہ کا شبث بن ربعی کوجواب دینے میں اہم نکتہ موجود ہے کہ معاویہ نے حتی رسول خدا(ص) کے فرمان اور عمار کے قاتلوں کے بارے میںآنحضرت کی پیشنگوئی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔

     جناب عمار کی عظمت، درخشاں کارنامہ اورنمایاں  چہرہ سب کے نزدیک ثابت ہے لیکن معاویہ نے اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچنے اور حکومت و طاقت کے حصول کے لئے ان کا خون بہایا اور خود کو جہنم کی طرف روانہ کیا۔

     جناب عمار کی شخصیت اتنی جلیل القدر اور اہمیت کی حامل ہے حتی کہ ان کے زمانے میں سب سے زیادہ ظالم اور خونخوار شخص یعنی حجاج بن یوسف ثقفی بھی معتقد تھا:اگردنیا کے سب لوگ عمار کو قتل کرنے میں شریک ہوں تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔

     ابن اثیر جو کہ علماء اہلسنت میں سے ہیں، یہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

     بعض کہتے ہیں: ابوالغازیہ کہ جس نے عمار کو قتل کیا تھا،وہ حجاج بن یوسف ثقفی کے زمانے تک زندہ تھا۔وہ ایک دن حجاج کے پاس گیا۔حجاج نے اس کا احترام کیا اور پوچھا:تم نے سمیہ کے بیٹے (عمار)کو قتل کیا ہے؟اس نے کہا:ہاں۔

--------------

[1]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج5 ص1869

۲۵۲

     حجاج نے کہا:جو کوئی بھی روز قیامت کسی بزرگ شخص کو دیکھنا چاہئے تو اس شخص کو دیکھے کہ اس نے سمیہ کے بیٹے کو قتل کیا ہے!

     اس دوران ابوالغازیہ نے حجاج سے کچھ تقاضا کیا۔لیکن حجاج نے وہ پورا نہ کیا۔

     ابوالغازیہ نے کہا:ان کے لئے دنیا ہموار کر رہے ہیں اور ہمیں اس میں سے ایک پائی بھی نہیں دیتے  اور پھر گمان کرتے ہیں کہ ہم روز قیامت بزرگوار ہوں گے!

     حجاج نے کہا:ہاںخدا کی قسم؛جس کے دانت احد کے پہاڑ،اس کی ران وَرِقام کے پہاڑ اور اس کا گروہ  مدینہ وربذہ کی طرح ہو ،وہ قیامت کے دن بزرگوار بن جائے گا! خدا کی قسم کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگ عمار کے خون میں شریک ہوتے تو سب کے سب جہنم میں جاتے۔

     عبدالرحمن سلَمی کہتے ہیں:جب عمار قتل ہو گئے تو میں معاویہ کی فوج میں گیا کہ کیاجنابعمار کے قتل سے ان میں بھی اسی طرح شور مچا ہوا ہے کہ جس طرح ہم میں شور بپا تھا؟

     معاویہ کے سپاہیوں کے ساتھ ہمارا یہ حال تھا کہ جب بھی جنگ کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تھی تو وہ ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ معاویہ،عمرو عاص،ابوالأعور اور عبداللہ بن عمرو گفتگو میں مصروف تھے۔     میں نے اپنا گھوڑا ن کی طرف دوڑایا تا کہ ان کی  کسی بات سے محروم نہ رہ جاؤں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اپنے باپ سے کہا:بابا ان؛آپ  نے اس شخص کو اس دن قتل کیا ہے ، کیا آپ جانتے ہیں پیغمبر اکرم(ص) نے کیا فرمایا تھا؟اس نے کہا: کیا فرمایا تھا؟

     کہا:کیا اس طرح نہیں تھا کہ جب مسجد نبوی تعمیر کی جا رہی تھی تو لوگ ہر دفعہ ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور عمار ہر بار دو اینٹیں اٹھاتے تھے اور انہوں نے اس کام میں اتنی کوشش کی کہ بے ہوش ہو گئے۔پیغمبر اکرم(ص) ان کی بالین کے پاس آئے اور

۲۵۳

ان کے چہرے سے گردو خاک صاف کی اور فرمایا:

     اے سمیہ کے بیٹے؛ شاباش ہے تجھ پر، دوسرے ہر مرتبہ ایک اینٹ اٹھاتے ہیں اور تو ہر بار دو اینٹیں اٹھاتا ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود ظالموں کا لشکرتمہیں قتل کر دے گا۔

     عمرو عاص نے معاویہ سے کہا: دیکھ رہے ہو کہ میرا بیٹا عبداللہ کیا کہہ رہا ہے؟

     معاویہ نے پوچھا: کیا کہہ رہا ہے؟

     عمرونے اس سے بھی یہی واقعہ بیان کیا ۔معاویہ نے کہا: کیا ہم نے اسے قتل کیا ہے؟! اسے اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!     شامی اپنے خیموںسے باہر آئے اور سب نے کہا: بیشک عمار کو اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!

     میں  نے جانتا تھا کہ کون زیادہ حیرت زدہ ہیں ، وہ یا یہ؟(1)

     عمار کے بارے میں آپظالم اور خونخوارحجاج بن یوسف  کےقول سے بھی آگاہ ہوئے۔ عبداللہ بن عمرو عاص کہ جو معاویہ کے لشکر کے رہنماؤں میں سے تھا،اس کا بھی عمار یاسر کے قتل کے بارے میں ایسا عقیدہ تھا۔اب اس واقعہ کی طرف توجہ کریں:

     جناب عمار کے قتل ہوجانے کے بعد دو افراد میں عمار کے لباس اور لوازمات (جو میدان جنگ میں عمار کے پاس تھے) کے بارے میں جنگ و نزاع ہو گیا،وہ دونوں عبداللہ بن عاص کے پاس آئے تا کہ وہ ان کااختلاف برطرف کرے۔

     عبداللہ نے کہا:وای ہو تم پر!میرے پاس سے دور ہو جاؤ،رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا:

     قریش کوعمار سے کیا کام؟عمار انہیں جنت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور وہ اسے آگ کی طرف دعوت دے رہے ہیں، ان کا قاتل اور ان کے لباس و لوازمات لے جانے والے جہنمی ہیں۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج5ص1895

[2]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 514

۲۵۴

 جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

     جناب عمار کی شہادت کے بارے میں روایات تواتر کی حد تک ہیں اور کئی اہلسنت علماء نے اس کی تصریح کی ہے ۔ ابوبکر، عمر، عثمان، عائشہ، معاویہ، عمرو عاص، حجاج اور اہلسنت کے دوسرے بے شمار سے بزرگوں اور رہبروں نے یہ روایت نقل کی ہے۔اسی طرح بخاری اور مسلم جیسے افراد نے یہ روایت اپنی صحاح میں ذکر کی ہے۔ اب ہم ان کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     بخاری نے اپنی صحیح میں عکرمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:ابن عباس نے مجھے اور اپنے بیٹے علی سے کہا:ابوسعید کے پاس جاؤ اور اس کی احادیث سنو۔

     عکرمہ کہتے  ہیں:ہم ابوسعید کے پاس گئے جب کہ وہ اپنے باغ میںباغبانی میں مصروف تھا۔ابوسعید نے ہمیں دیکھنے کے بعد اپنی عباء اٹھائی اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

     باتوں باتوں میں حضرت رسول اکرم(ص) کی مسجد کی تعمیر کی بات آئی تو ابوسعید نے کہا: ہم ہر بار ایک اینٹ اٹھا کر لے جاتے تھے لیکن عمار دو اینٹیں اٹھاتے تھے،اس دوران پیغمبر اکرم(ص) متوجہ ہوئے تو آپ نے ان کے کپڑوں کی خاک جھاڑی اور فرمایا:

     عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا؛ عمار انہوں جنت کی طرف دعوت دیں گے  لیکن ''فئہ باغیہ'' (یعنی باغی گروہ) انہیں جہنم کی طرف دعوت دیں گے۔

     اس روایت کو مسلم، طبرانی، ترمذی، حاکم، احمد بن حنبل اور دوسروں نے روایت کیا ہے اور جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو متواتر روایات میں سے قرار دیا ہے۔

     سیوطی کہتے ہیں:شیخین نے یہ روایت ابوسعیدسے،مسلم نے ابوقتادہ سے ،ام سلمہ اور ابویعلی سے،احمد نے عمارسے ،ان کے بیٹے اورعمرو بن حزم اورحزیمۂ ذوالشہادتین سے،طبرانی نے عثمان سے،انس اور ابوہریرہ سے،حاکم نے حذیفہ اور ابن مسعود ،رفای نے ابورافع سے،ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ سے اور جابر بن سمرہ ،ابن عباس،معاویہ،زید بن اوفی،ابوالیسر کعب بن عمرو، زیادکعب بن

۲۵۵

مالک،ابوامامہ،  عائشہ اور ابن ابی شیبہ نے عمرو بن عاص  اور اس کے بیٹے عبداللہ نے نقل کی ہے۔

     شافعی کہتے ہیں: صحابیوں میں سے یہ ستائیس افراد ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور ان میں حزیمہ بھی شامل ہیں کہ جو صحابیوں کی جگہشمار کئے جاتے ہیں۔

     حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں: متواتر رویات میں ہے کہ رسول خا(ص) نے فرمایا:

     ظالموں اور ستمگروں کا گروہ (فئہ باغیہ)عمار کو قتل کرے گا۔

     یہ موضوع اخبار غیبیہ میں سے ہے کہ حقیقت میں آنحضرت کی نبوت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ حدیث صحیح ترین روایات میں سے ہے۔

     ابن دحیہ کہتے ہیں:کسی نے بھی اس حدیث پر کوئی اشکال و اعتراض نہیں کیا اور اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو معاویہ اسے ردّ کر دیتا اور اس کا انکار کر دیتا ۔

     ابن حر کا کہنا ہے:اس روایت کو اصحاب کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے اور ان کے نام ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:اس حدیث میں- کہ جو اخبار غیبیہ میں سے شمار کی جاتی ہے-واضح طور پر نبوت کی نشانیاں موجود ہیں اور یہ عمار کے لئے بھی بہت بڑی فضیلت ہے۔     سب جانتے ہیں کہ عمار جنگ صفین میں قتل ہوئے،اور عمار صفین میں امیر  المؤمنین علی علیہ السلام کی فوج میں تھے اور معاویہ کے طرفداروں نے آپ کو قتل کیا۔اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ''باغی''تھا جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیتا تھا اور جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلائے وہ لعنت کا  حقدار ہے اور قیامت کے دن بے یارومددگار اورعذاب میں گرفتار ہو گا اور کالے چہرے کے ساتھ محشور ہوگا۔قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے:

    (وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ ِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُونَ ، وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِیْ هَذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِیْنَ) (1)

--------------

[1]۔ سورۂ قصص،آیت:41 اور 42

۲۵۶

     اور ہم نے ان لوگوں کوجہنم کی طرف دعوت دینے والا پیشوا قرار د ے دیا ہے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔اور دنیا میں بھی ہم نے ان کے پیچھے لعنت کو لگادیا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے چہرے بگاڑ دیئے جائیں گے ۔

     اس آیت میں''مقبوح''سے مرادوہ ہے کہ جو خیر سے دور ہو۔

     معاویہ نے صفین کے دن مکر و فریب کیا تا کہ اس حدیث کے مضمون سے اپنا دامن بچاسکے اور اس پر اس کے صحابی کوئی اعتراض و اشکال نہ ہوکریں،لہذا اس نے کہا:

     میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اسے اس نے قتل کیا کہ جس نے انہیں ان کے گھر سے باہر نکالا اور جو انہیں اس جنگ میں لے کر آئے!اس فریب اور دھوکہ سے اس نے اپنے ساتھیوں کی بغاوت سے نجات حاصل کی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس کے ردّ میں فرمایا:

     اگر ایسی بات ہے تو پھر اس بناء پر سید الشہداء حمزہ کے قاتل رسول خدا (ص) ہوں گے کیوں  کہ وہ انہیں گھر سے باہرلے کر آئے اور انہیں جنگ احد میں شریک کیا اور آخرکار قتل ہو گئے۔

     اس کلام کے بعد معاویہ لاجواب ہو گیا اور اس کاکوئی جواب نہ دے سکا۔

     معاویہ جو کہ بہت چالاک ، مکار اور دھوکہ باز تھا،اس نے دوسری مرتبہ پھرحدیث کا دوسرا معنی کیا اور کہا:جی ہاں؛فرقۂ باغیہ ہم ہی ہیں کہ جنہوں نے عثمان کے خوان کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا۔

     معاویہ نے باغیہ کو ''بغای''سے لیا کہ جس کے معنی طلب کرناہے اور اس طرح اس نے دوسری مرتبہ اپنے ساتھیوں کو قانع کیا ۔ لیکن معاویہ نے دونوں معنی میں خطا کی ہے ۔ پہلا معنی تو واضح ہے اور اسے ردّ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے معنی میں  اگر ''باغیہ'' کے معنی ''طلب کرنے والا''ہو تو اس کا  کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ حضرت رسول اکرم(ص) نے

۲۵۷

فرمایا:''عمار انہیں جنت کی طرف عوت دیتے ہیں اور وہ عمار کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں''۔ اور یہ واضح ہے کہ یہاں''باغیہ''مذموم بغی کے معنی میں ہے کہ جس سے خدا نے منع کیا ہے جیسا کہ قرآ ن میں آیا ہے:( وَیَنْهَی عَنِ الْفَحْشَاء  وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ (1) اس ''بغی''کا طلب کے معنی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔

     پھر وہ کہتاہے:میرے نزدیک یہ مسلّم ہے کہ معاویہ اپنی مخصوص فہم و فراست (دھاء)  سے یہ جانتا تھا کہ یہ تأویلیں  مکمل طور پر بے ربط ہیں اور ان کا حدیث سے کوئی ارتباط نہیں ہے کیونکہ یہ معنی اس قدر فاسدہے کہ حتی عام افراد بھی اس کے غلط اور بے ربط ہونے سے واقف ہیں۔ضروی تھا کہ  جناب عمار کی شہارت کے بعد معاویہ ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لیتا اور مخالفت سے دستبردار ہو جاتا لیکن اس کی باطنی خباثت اور ذاتی شقاوت نے اسے مجبور کیا کہ اپنی مکاری وعیاری سے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دے ، اور دنیا اور حکومت حاصل کرنے کے لئے یہ باطل تأویلیں پیش کرے۔

     معاویہ اپنے گماشتوں کو راضی رکھنے اور ان سے حقائق چھپانے کے لئے ایسے ناروا مطالب بیان کرتا ، افتراء و بہتان کے ذریعہ لوگوں کو راضی رکھتا اور لوگوں کو دوزخ کی طرف دعوت دیتا تھااور خدا سے جنگ کرتا تھا۔

     جناب عمار کے قتل ہو جانے کے بعد کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ معاویہ  ''فئہ باغیہ''کا پیشوا ہے ؛عبداللہ بن عمر بہت زیادہ افسوس کرتا تھا کہ میں نے کیوں معاویہ سے جنگ نہیں کی۔ابوحنیفہ نے عطاء بن ابی ریاح سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتا تھا:مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے کیوں   ''فئہ باغیہ''سے جنگ نہیں کی۔

ابن عبدالبر نے ایک گروہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے وفات کے وقت کہا: مجھے بہت افسوس ہے کہ علی بن ابیطالب علیہما السلام کے ساتھ مل کر ''فئہ باغیہ'' سے جنگ کیوں نہیں ۔اس روایت کو حاکم نے صحیح سند سے نقل کیا ہے۔

     بیہقی نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:مجھے افسوس ہے کہ میں نے فرقۂ باغیہ سے جنگ کیوں نہیں کی کیونکہ خداوند متعال نے فرمایا ہے:

--------------

[1]۔ سورۂ نحل،آیت:90

۲۵۸

     (فَاِن بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َا ِلَی أَمْرِ اللَّهِ) (1)

      اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے ۔

حاکم کہتا ہے:اس بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں اور بزرگ تابعین کے ایک گروہ نے یہ روایات عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہیں۔(2) کتاب ''اعلام نصر مبین در داوری میان اہل صفین'' میںاس روایت (کہ ستمگر گروہ عمار کا قاتل ہے) کی اسناد کو دوسری طرح ذکر کیا ہے۔

     مسلم نے محمدبن مثنّی سے روایت کی ہے اور اس نے بشار سے اور ان دونوں نے کہا ہے:محمد بن جعفر نے تبعہ سے اور اس نے ابومسلمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے ابونضرہ سے سنا کہ ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: مجھے اس نے خبر دی کہ جو مجھ سے بہتر تھا کہ جب عمار خندق کھود رہے تھے تو رسول خدا(ص) اپنا دست مبارک ان کے سر پر پھیر تے تھے اور فرماتے تھے:

     ابن سمیہ  کے لئے افسوس!کہ اسے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔(3)

     اسی طرح یہ روایت اسحاق بن ابراہیم،اسحاق بن منصور ،محمود بن غیلان اور محمد بن قدامہ کی سند سے بھی نقل ہوئی ہے اور سب نے کہا ہے:نضر بن شُمیِّل نے ابومسلمہ سے اسی سلسلہ سند سے ہمارے لئے روایت کی ہے مگر یہ کہ حدیث کی سند میں نصر بھی آیا ہے کہ اس نے کہا:مجھے اس نے خبر دی ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،ابوقتادہ نے کہا:خالد بن حارث نے بھی کہاہے کہ میں نے ابوقتادہ کو دیکھا ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ حجرات، آیت:9

[2]۔ معاویہ و تاریخ:42

[3]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج18ص30

۲۵۹

     مسلم نے کہا ہے کہ محمد بن عمرو جَبَلہ نے محمد بن جعفر(1) اور انہوں نے عقبة بن مکرم العمی اور انہوں نے ابوبکر بن نافع سے عقبی کے قول کو ہمارے لئے روایت کیا اور ابوبکر نے کہا:غنذر(2) نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں  نے کہا ہے:شعبہ نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں نے الخداء(حذاء)سے سنا ہے اور انہوں نے سعید بن ابی الحسن اور انہوں نے اپنی ماں اور انہوں  نے ام سلمہ سے سنا کہ رسول خدا(ص) نے عمار سے فرمایا:تجھے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔(3)

     صحیح مسلم میں یہ روایت دوسرے سلسلہ سے موجود ہے کہ سعید نے اپنے بھائی حسن بصری اور اس نے اپنی ماں خیرہ اور اس نے زوجۂ پیغمبر اکرم(ص) ام سلمہ سے نقل کیا ہے۔     حدیث متواتر ہے۔طبرانی نے اسے معجم الکبیر(4) میں نقل کیاہے اور اس کی اصل کتاب دوسو تیس حصوں میں میرے پاس موجود ہے اور وہ دنیا (اسلام) کی سب سے بڑی سند ہے۔ میں نے وہ تمام اصفہان میں پڑھی اور یہ موضوع اپنی کتاب  میں بھی ذکر کیا کہ جس کا نام میں نے ''علم المشہور''رکھا۔

     طبرانی نے یہ حدیث معاویہ کے قول،عمرو عاص ،اس کے بیٹے عبداللہ اور اصحاب پیغمبر (ص) کے ایک دوسرے گروہ سے نقل کی ہے۔      ابوعبدالملک مروان بن عبدالعزیز نے کہا:فقیہ محدث عالم ابوعمران موسی بن عبدالرحمن بن ابی تلید نے ابوعمر بن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کتاب''استیعاب'میں عمار کے حالات زندگی   میں پڑھا ہے کہ:پیغمبر اکرم(ص) سے متواتر روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں فرمایا:عمار کو ستمگر اور ظالم گروہ قتل کرے گا،اور یہ روایت صحیح ترین روایات میں سے ہے۔(5)

--------------

[1]۔ صحیح مسلم: ج18ص41

[2]۔ صحیح مسلم: ج18ص41

[3]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج18ص42

[4]۔ معجم الکبیر:ج1ص330

[5]۔ الاستیعاب في معرفة الأصحاب:ج٢ص٤٨١

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346