معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 162006
ڈاؤنلوڈ: 7023

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162006 / ڈاؤنلوڈ: 7023
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عثمان نے کہا:تم وہی ہو کہ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کہاہے:خدا کے ہاتھ بندھے ہیں اور خداوند فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں؟

     ابوذر نے کہا:اگر تم لوگوں کا ایسا اعتقاد نہ ہوتا تو خدا کا مال خدا کے بندوں پر خرچ کرتے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

     جب ابوالعاص کے بیٹوں کی تعدا د تیس تک پہنچ جائے تو وہ خدا کے مال کو اپنا مال،خدا کے بندوں کو اپنا غلام اور خدا کے دین کو تباہی کا وسیلہ قرار دیں گے۔(1)

     عثمان نے حاضرین سے کہا:کیا تم نے یہ بات رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     انہوں نے کہا: نہیں

     عثمان نے کہا:ابوذر ؛وای ہو تم پر!تم رسول خدا(ص)کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو؟

     ابوذر نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں سچ بولتا ہوں؟!

     انہوں  نے کہا:خدا کی قسم!نہیں۔

     عثمان نے کہا:علی(علیہ السلام)کو میرے پاس بلاؤ اور جیسے ہی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ابوذر سے کہا:ابوالعاص کے بیٹوں کے بارے میں اپنی حدیث علی (علیہ السلام) سے بیان کرو۔

     ابوذر نے وہ حدیث دوبارہ بیان کی۔

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کہا:کیا آپ نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     فرمایا:نہیں؛لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ابوذر سچ بول رہے ہیں۔

     عثمان نے کہا: تم اس کی سچائی سے کیسے آگاہ ہو؟فرمایا:

--------------

[1]۔ یہ حدیث''النہایة ابن اثیر:ج۲ص۸۸اور 140''میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

۲۲۱

     میں نے خود رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے انسان پرسایہ نہیں کیا اور زمین نے اس سے زیادہ کسی سچے انسان کو خود پر حمل نہیں کیا۔(1)

     وہاں پر موجود لوگوں نے کہا:ہم سب نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے۔

     ابوذر نے کہا:میں تمہارے لئے حدیث بیان کرتا ہوںجو کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) سےسنی ہے لیکن تم مجھ پرتہمت  لگاتے ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی زندگی گذاروں گا کہ مجھے اصحاب محمد(ص) سے ایسا سننے کو ملے گا!

     واقدی نے ایک دوسری روایت میں اپنی سند سے صہبان (اسلمیوں سے وابستہ)سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:جس دن ابوذر کو عثمان کے پاس لائے تومیں

نے دیکھا کہ عثمان نے ابوذر سے کہا:تم وہی ہو کہ جس نے ایسا ویساکیا ہے؟

ابوزر نے کہا:میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور تم سوچ رہے ہوکہ میں خیانت کر رہا ہوں، میں تمہارے دوستوں کو نصیحت کر رہا ہوں جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:تم جھوٹ بول رہے ہو،تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو اور فتنہ طلب ہو اور تم نے ہمارے لئے شام کو تباہ کر دیاہے!

     ابوذر نے کہا:اپنے وو دوستوں کی روش کی پیروی کرو تا کہ کوئی بھی تم پر بات نہ کرے۔

     عثمان نے کہا:اے بے مادر!تمہارا اس بات سے کیا سرو کارہے؟

     ابوذر نے کہا:خدا کی قسم!میرے پاس امربہ معروف اور نہی ازمنکر کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

--------------

[1] ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنیوں کی مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ بحار الانوار مرحوم علامہ مجلسی: ج22ص393، نئی چاپ کہ جس میں مختلف منابع بھی لائے گے ہیں اور النہایة ابن اثیر: ج2ص42۔

۲۲۲

     عثمان غصہ میں آگیا اور اس نے کہا:مجھے اس بوڑھے اور جھوٹے آدمی کے بارے میں میری رہنمائی کرو کہ میں اس کا کیا کروں؟اسے ماروں؛قید میں ڈال دوں، قتل کر دوں یا اسے اسلامی ممالک سے نکام دوں کہ اس نے مسلمانوں کی جماعت کو منتشرکر دیا ہے؟!

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرمایا کہ جو وہاںموجود تھے:

     میں  تمہاری اس طرح رہنمائی کرتا ہوں کہ جس طرح مؤمن آل فرعون نے کہا:''اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں ۔ بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے''۔(1)

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوبہت تند جواب دیا اور آنحضرت نے بھی ویسا ہی جواب دیا اور ہم ان دونوں جوابوں کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ ان میں مذمت کی گئی ہے۔

     واقدی کہتا ہے:اس کے بعد عثمان نے لوگوں کو ابوذر کے ساتھ اٹھنے بیٹھے اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا اور انہوں  نے کچھ عرصہ اسی طرح گذارا۔پھر انہیں عثمان کے پاس لایا گیا اور جب وہ عثمان کے سامنے کھڑے ہوئے تو عثمان سے کہا:اے وای ہو تم پر! کیا تم نے رسول خدا(ص) ، ابوبکر اور عمر کو نہیں دیکھا ؛کیا تمہارا طریقۂ کار انہیں کے طریقۂ کار کی طرح ہے؟تم مجھ پر اس طرح ظلم و ستم کر رہے ہو جس طرح ظالم ظلم کرتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:میرے سامنے اور میری ریاستوں سے دور چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:ہاں ؛ تمہاری ہمسائیگی  میرے لے کتنی ناخوشگوار ہے، بتاؤ میں کہاں چلاجاؤں؟

     کہا:جہاں چاہو چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:شام چلے جاؤں، جو جہاد کی سرزمین ہے؟

--------------

[1]۔ سورہ غافر، آیت:۲۸

۲۲۳

     عثمان نے کہا:میں نے تمہیں شام سے یہاں اسی لئے بلایا تھا کہ تم نے شام کو تباہ کر دیا تھااور اب میں تمہیں دوبارہ وہیں بھیج دوں؟ ابوذر نے کہا:عراق چلاجاؤں؟

     کہا:نہیں،اگر تم عراق چلے گے تو تم ایسی قوم کے پاس چلے جاؤ گے جو رہبروں اور حکمرانوں پر شک و شبہ کرتے ہیں اور انہیں طعنہ دیتے ہیں۔

     ابوذر نے کہا: کیا میں مصر کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا:نہیں۔

     ابوزر نے کہا: تو پھر میں کہاں جاؤں؟

     کہا: صحرا کی طرف چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہجرت کے بعد پھرسے عرب صحرا نشین ہو جاؤں؟

     کہا:ہاں!

     ابوذر نے کہا:میں نجد کے بادیہ کی طرف جا سکتا ہوں؟

     عثمان نے کہا:نہیں؛مشرق سے دوچلے جاؤاور اس راستہ سے جاؤ اور ربذہ سے آگے مت جاؤ۔

     جناب ابوذر ربذہ کی طرف چلے گئے۔

     واقدی نے اسی طرح مالک بن ابی الرجال  اور موسی بن مسیرة سے نقل کیا ہے کہ ابوالأسود دئلی نے کہا ہے:

     میں ابوذر کو دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں ان سے ربذہ کی طرف جانے کا سبب پوچھوں؛ میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مدینہ سے اپنی مرضی سے چلے آئے ہیں یا کسی نے آپ کو آنے پر مجبور کیا ہے؟

     کہا:میں مسلمانوں کی ایک سرحد کے کنارے پر تھا اور دفاع کر رہا تھا ، میں مدینہ واپس گیا اور میں نے کہا کہ یہ ہجرت اور میرے دوستوں کی جگہ ہے اور میں مدینہ سے بھی یہاں آ گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

۲۲۴

     پھرکہا: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک رات میں مسجد میں سو رہا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) میرے پاس سے گذرے اور اپنے پاؤں سے مجھے مارا اور فرمایا:میں یہ نہ دیکھوں کہ مسجد میں ہی سو رہے ہو۔

     میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں؛ مجھ پر نیند نے غلبہ کر دیا تھا اور آنکھ لگ گئی اور  میں مسجد میں ہی سو گیا۔

     فرمایا:تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں اس مسجد سے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے گا؟

     میں نے کہا:میں  اس صورت میں شام چلا جاؤں گا کہ جو مقدس سرزمین اور جہاد کی جگہ ہے۔

     فرمایا:اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیں تو تم کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اسی مسجد میں واپس آجاؤں گا۔

     فرمایا:اگر پھر تمہیں اس مسجد سے نکال دیں تو کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اپنی تلوار نکال کر ان کے ساتھ لڑوں گا۔

     فرمایا:کیا اس کام میں تمہاری رہنمائی کروں؟وہ تمہیں جہاں کھینچیں ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کے فرمانبردا بنو اور ان کی سنو۔

     میں نے سنا اور اطاعت کی اور اب بھی سن رہا ہوں اور اطاعت کر رہا ہوں اور خدا کی قسم؛عثمان اس حال میں خدا سے ملے گا جب کہ وہ میرامجرم ہوگا۔(1)

     اس گذشتہ واقعہ میں جناب ابوذر نے معاویہ کے مستقبل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے تین روایات نقل کی ہیں جو معاویہ کے گمراہ ہونے،لعنت نفرین کے حقدارہونے اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ان سب کے باوجود  رسول خدا(ص) کی سنت کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معاویہ کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟!

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۴ص۲۰۴

۲۲۵

 کیاپیغمبر اکرم(ص) نے یہ نہیں فرمایا:''امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے''؟

کیا انہیں سب سے زیادہ سچے شخص یعنی جناب ابوذر کا بھی یقین نہیں ہے؟!

کیا عثمان نے رسول خدا (ص)کے محبوب ترین صحابی جناب ابوذر کو اس شہر سے اس دیار میں صرف اس لئیجلاوطن نہیں کر دیا تھا کہ وہ عثمان پر اعتراض کرتے تھے کہ عثمان اپنے داماد مروان اور اپنے دوسرے چہیتے لوگوں کو بیت المال سے مال عطا کرتا تھا؟!

کیا عثمان کا یہ فعل بھی سنت رسول خدا(ص) کی پیروی تھا؟!کیوں عثمان نے معاویہ کو شام کی حکمرانی پر باقی رکھا جب کہ رسول خدا(ص) نے بارہا س پر لعنت و نفرین کی ہے؟رسول خدا(ص) کے فرمان کی رو سے کیا عثمان کو اس کا پیٹ چیر دینا چاہئے تھا یا اسے گورنر بنانا چاہئے تھا؟

     ان سوالوں کے جواب کے لئے پیشنگوئیوں کے ان واقعات کی طرف توجہ کریں:

معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

     یونس بن خباب نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، علی علیہ السلام بھی میرے ساتھ تھے ، ہم ایک باغ کیپاس سے گذرے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے رسول خدا(ص): آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنا خوبصورت باغ ہے؟

     پیغمبر (ص) نے فرمایا: اے علی؛ جنت میں تمہارا باغ اس سے کہیں زیادہ آباد ہے۔

     ہم سات باغات کے پاس سے گذرے ، علی علیہ السلام نے ہر بار وہی بات کی اور رسول خدا(ص) نے بھی وہی جواب دیا۔پھر پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے ،ہم بھی کھڑے ہو گئے ،پیغمبر(ص) اپنا سر مبارک علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر رونے لگے۔علی علیہ السلام نے پوچھا:

     اے رسول خدا(ص)؛ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟

۲۲۶

     فرمایا:ایک قوم کے دل میں اتنا بغض و کینہ ہے کہ وہ تمہارے لئے آشکار نہیں کرتے مگر میرے جانے کے بعد وہ اپنا کینہ آشکار کریں گے۔

     علی علیہ السلام نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛کیا میں کندھے پر تلوار نہ رکھ لوں اور انہیں نیست و نابود نہ کردوں؟

     فرمایا: بہتر یہ ہے کہ صبر کرو۔

     کہا: اگر میں صبر کروں تو کیا ہو گا؟

     فرمایا: تمہیں مشکلات اور مشقّت وسامنا کرنا پڑے گا۔

     کتاب''الغارات''کے مؤلف نے اعمش سے اور انہوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     جلد ہی میری امت کاایک شخص حاکم بنے گاکہ جس کا گلا اور پیٹ موٹا ہو گا،وہ بہت زیادہ  کھائے گا لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرے گا،اس کے کندھوں پر جن و انس کے گناہ ہوں گے،ایک دن وہ ریاست کی جستجو کرے گا  اور جب بھی اسے ریاست مل گئی تو اس کا پیٹ چیر دینا۔

     وہ کہتا ہے:اس وقت رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور آپ اس کے ذریعہ معاویہ کے پیٹ کی طرف اشارہ کررہے تھے۔

     نیز ابوجعفراسکافی - صاحب کتاب''المعیار والموازنة''- کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سو رہے تھے،حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام نے آپ کو اٹھانا چاہاتو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     انہیں سونے دو کیونکہ انہیں میرے بعد بہت طولانی راتیں جاگ کر گزارنی ہیں،اس سے بغض وکینہ رکھنے کی  وجہ سے میرے خاندان پر کیا کیا ظلم وستم کیا جائے گا۔

۲۲۷

     حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام روئیں، پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

     مت رو کہ تم دونوں میرے ساتھ ہوگے اور میرے نزدیک صاحب شرف و کرامت ہو۔

     ابوسعید خدری کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) اپنے بعد علی علیہ السلام پر ٹوٹنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو بیان کر رہے تھے اور اس بارے میں آپ نے بہت وضاحت فرمائی،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے عرض کیا:

     اے رسول خدا(ص)؛ میں آپ کو آپ کے اہلبیت کے حق کی قسم دیتا ہوں تا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریںاور یہ طلب کریں کہ آپ سے پہلے میری روح قبض کی جائے۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری عمر کی مدت کے بارے میں سوال کروں کہ جو مقدر و مقرر ہو چکی ہے؟

     علی علیہ السلام نے فرمایا: اے رسول خدا؛ آپ نے مجھے جن سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے میں ان کے ساتھ کس سلسلہ میں جنگ کروں ؟

 فرمایا: جب وہ دین میں بدعتیں پیدا کریں۔(1)

  اس روایت کے مطابق معاویہ کے کندھوں پر جنّ و انس کے گناہوں کا بوجھ ہے اور لوگوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی وہ انہیں ملتا وہ اس کا پیٹ پھاڑ دیتے! روایت کے آخری حصہ سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ سے جنگ دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے تھی اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کے حکم پر اس سے جنگ کی ہے۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ( جنہیں اہلسنت چوتھا خلیفہ مانتے ہیں) نے معاویہ سے جنگ کی ، اہلسنت کے دوسرے تین خلفاء نے کیوں معاویہ سے دوستی رکھی  اور دو خلفاء نے تو اسے شام کے حکمرانی بھی دے دی؟!

     کیا ان کے اس کام نے اسے حجاز پر قبضہ کرنے اور رسول خدا(ص) کے منبر پر بیٹھے کاموقع فراہم نہیں کیا ہے؟

--------------

[1] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: 380

۲۲۸

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

نصر نے عبدالعزیزسے، حبیب بن ابی ثابت اور منذر بن ثوری سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

محمد بن حنفیہ کہتے تھے: فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم(ص) اپنی فوج کے ساتھ درّہ کے اوپر اور نیچے سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے اور سپاہ اسلام نے پورے درہ کو گھیر لیا تھاتو یہ دونوں (ابوسفیان اور معاویہ) تسلیم ہوئے تا کہ اپنے لئے ساتھی  فراہم کر سکیں۔اسی طرح نصر نے حکم بن ظہیر ، اسماعیل ، حسن بصری اور نیز حکم کے قول سے، عاصم ابی النجود سے، زر بن جیش سے اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ بن ابی سفیان کو دیکھو کہ وہ  میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اس کی گردن مار دو۔

     حسن بصری کہتا ہیں: خدا کی قسم؛ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کامیاب نہیں ہوئے۔(1)

     اسی طرح نصر بن مزاحم اپنی کتاب ''صفین'' میں کہتا ہے: جنگ صفین کے دوران ایک شخص نے عمار یاسر سے کہا: اے ابوالیقظان! کیا پیغمبر(ص) نے نہیں فرمایا تھا: لوگوں کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور جب مسلمان ہو جائیں تو ان کا خون اور مال محفوظ ہے؟

     عمار نے کہا: ہاں؛ ایسا ہی ہے، لیکن خدا کی قسم! یہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور ان کے سینوں میں کفر پوشیدہ ہے تا کہ اسلام کا اظہارکر کے انہیں ساتھی مل جائیں۔(2)

--------------

[1] ۔ ابن ابی الحدید حسن بصری کے بارے میں کہتے ہیں: وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔وہ وسوسہ میں مبتلا تھا ۔ ایک دن وضو کرتے وقت اپنے ہاتھوں اورپاؤں پر بہت زیادہ پانی ڈال رہا تھاتو، امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اسے دیکھا اور فرمایا: اے حسن؛ تم بہت زیادہ پانی گرا رہے ہو؟اس نے کہا:امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مسلمانوں کا خون زمین پر بہا رہے ہیں،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے!

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا: کیا اس کام نے تمہیں غمگین کیا ہے؟ اس نے کہا :ہاں

آپ نے فرمایا:ہمیشہ اسی طرح غمگین ہی رہو۔کہتے ہیں:اس کے بعد حسن بصری مرتے دم تک غمگین اوربد مزاج تھا۔

[2] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳77

۲۲۹

     اس واقعہ میں رسول خدا(ص) نے مدینہ پر معاویہ کے تسلط اور اس کا آنحضرت کے منبر پربیٹھنے کی پیشنگوئی فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی تم لوگ دیکھو کہ معاویہ میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اسے مار دو۔لیکن افسوس پیغمبر(ص) کے اس حکم پر بھی عمل نہ ہو ا۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہے اورقابل احترام ہوتا ہے،اس بناء پر پیغمبر اکرم (ص) کا معاویہ کو قتل کرنے کا حکم دینا اس چیز کی دلیل ہے کہ معاویہ ایمان نہیں لایا تھا اور اسی طرح اپنے کفر پر باقی تھا۔     اب ہم جو واقعہ بیان کریں گے وہ اسی حقیقت کی دلیل ہے معاویہ و ابوسفیان کے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد بھی  پیغمبر اسلام نے ان پر لعنت و نفرین کی ہے:

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

 ابوعبداللہ بصری متکلّم معتزلی نے نصر بن عاصم لیثی اور اس کے باپ سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے:ہم رسول خدا(ص) کی مسجد میں داخل ہوئے ، ہم نے دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں: ہم خدا اور رسول خدا(ص) کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔

     ہم نے کہا: کیا ہوا ہے؟

     انہوں نے کہا: ابھی  معاویہ اٹھا اور اس نے ابوسفیان کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں مسجد سے باہر چلے گئے۔ اسی وقت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     خداوند تابع ومتبوع پر لعنت کرے!میری امت پر اس معاویہ کفل بزرگ کی طرف سے کتنے سخت دن آئیں گے!

     نیز علاء بن حریز قشیری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے معاویہ سے فرمایا:

     اے معاویہ؛ بیشک تم بدعت کو سنت اور برائیوں کو اچھائیوں میں بدلدوگے، تمہاری خوراک بہت زیادہ اور تمہارے ظلم بہت بڑے ہوں ہیں۔(1)

--------------

[1]۔ عجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۹

۲۳۰

     پہلی پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے ابوسفیان اور معاویہ و ابوسفیان پر اپنی لعنت کی ہے اور معاویہ کے ہاتھوں اپنی امت پر آنے والی سختیوں کے بارے میں پیشنگوئی کی ہے۔رسول خدا(ص)  نے لوگوں کے سامنے انتہائی  غصہ کے عالم میں یہ فرمان بیان فرمایا۔

 دوسری پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے معاویہ کو نہ صرف بدعت گذار قرار دیابلکہ اس کے علاوہ فرمایا: تم اپنا برا کردار لوگوں کے سامنے اچھا کر کے پیش کرو گے اور لوگوں پر بہت ظلم و ستم کرو گے۔

ایک اور پیشنگوئی  میں رسول خدا(ص) نے عمروعاص کو معاویہ کا اہم یار و مددگار قرار دیا ہے کہ جب یہ اکٹھے ہو جائیں گے تو مکاری اور دھوکہ کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوگا! اسی لئے فرمایا:جب بھی ان دونوں کو اکٹھا دیکھو تو ان دونوں میں جدائی پیدا کرو۔ایک دن یہ دونوں بلند آواز سے گانا گا رہے تھے اور اس وجہ سے بھی رسول خدا(ص) نے ان دونوں پر نفرین کی اور خدا سے دعا کی کہ ان دونوں کو اہل جہنم میں سے قرار دے۔

عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     یہ واقعہ قاضی ابوحنیفہ نعمان مغربی نے کتاب''المناقب والمثالب'' میں اس طرح بیان کیا ہے:

     عبداللہ بن عمروعاص کہتاہے: میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور کچھ اصحاب بھی آنحضرت کی خدمت میں تھے۔میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     اوّل طالع یطلع علیکم من هذا الفجّ،یموت علی غیر ملّت

     اس راستہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا ،وہ میری ملت پر نہیں مرے گا۔

عبداللہ بن عمرو عاص نے کہا:جب میں اپنے باپ سے مل کر آیا تھا تو وہ بھی رسول خدا(ص) کے پاس آنے کے لئے لباس پہن رہا تھا،اس وجہ سے مسلسل میری نگاہیں اس راستہ پر جمی ہوئیں تھیں اور خوف کے مارے میری ایسی حالت تھی جیسے کسی نے اپنا

۲۳۱

پیشاب روک رکھاہو کہ کہیں یہ نہ ہو کہ داخل ہونے والا میرا باپ ہو،یہاں تک کہ معاویہ داخل ہوا؛پس رسول خدا(ص) نے فرمایا: وہ یہی شخص ہے۔(1)

     پھر وہ لکھتے ہیں:ابن عباس نے عبداللہ بن عمرو عاص کی یہ بات سنی تو اس نے کہا:عبداللہ بن عمرو عاص نییہ حدیث نقل کرنے کے باوجود کس طرح معاویہ کے ساتھ مل کر علی علیہ السلام سے جنگ کی؟

     عبداللہ کے پاس اپنے لئے (نہ کہ دوسروں کے نزدیک) عذر تھا(!)جس سے ابن عباس بے خبر تھے اور وہ عذر یہ تھا : کہا گیا ہے کہ وہ ایک دن کسی گروہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حسین بن علی علیہما السلام کا گذر ہوا۔ عبداللہ بن عمرو نے کہا:آگاہ ہو جاؤ؛خدا کی قسم؛ یہ اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سب سے زیادہ محبوب فرد ہے۔  انہوں  نے جنگ صفین میں میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اور اگر یہ میرے ساتھ بات کرتے اور مجھ سے راضی ہوتے تو یہ میرے لئے سرخ رنگ کے اونٹ سے  زیادہ محبوب تھا۔

     پھر عبداللہ بن عمرو نے کسی کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تا کہ آنحضرت کی رضائیت حاصل کر سکے اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں آپ کو بتائے اور آنحضرت کی حدمت میں شرفیاب ہونے کے لئے اجازت طلب کرے۔

     امام حسین علیہ السلام نے اجازت دی اور وہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

     تم جانتے ہو کہ میں آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوںاور تم نے رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:حسن اور حسین جوانان جنت  کے سردار ہیں اور ان کے باباان دونوں سے بہتر ہیں، لیکن پھر بھی تم نے ان کے خلاف جنگ کی؟!

--------------

[1]۔ المناقب و المثالب:219

۲۳۲

عبداللہ بن عمرو نے کہا:خدا کی قسم؛اے فرزند رسول خدا(ص)؛ مجھے اس کام پر مجبور نہیں کیا مگر رسول خدا(ص) کے اس فرمان نے جو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب عمرونے آنحضرت کے پاس آ کر میری شکایت کی اور کہا:وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ رواداری سے کام لے لیکن یہ نہیں مانتا۔

پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے باپ کی اطاعت کرو ۔ پس وہ معاویہ  کے پاس گیااور اس نے مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اس کے ساتھ جاؤں ۔ لہذا میں نے اس کی اطاعت کی جیسا کہ رسول  خدا(ص) نے حکم دیا تھا۔

 امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

أولم تسمع قول اللّٰه عزوجلّ ف کتابه و قد أمر ببرّ الوالدین ،ثمّ قال: ( وَِن جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلَا تُطِعْهُمَا) (1)  و قول رسول اللهّٰ: انّما  الطّاعة ف المعروف؟

     کیا تم نے خداوند کا کتاب خدا میں یہ قول نہیں سنا کہ جس میں ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر فرمایا:''اور اگر وہ کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا ''۔اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: اطاعت صرف اچھے اور نیک کاموں میں ہے (نہ کہ برے کاموں میں)؟

     عبداللہ بن عمرو نے کہا: میں نے یہ سنا تھا لیکن خدا کی قسم جیسے گویا اسے نہیں سنا تھا۔(2)

     جی ہاں؛ شیطان گمراہوں کو گمراہ کرنے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ انہوں نے جو چیز دیکھی یا سنی ہو گویا انہوں نے نہ تو دیکھی ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ چونکہ وہ اہل غفلت ہیں اس لئے وہ انہیں غفلت و گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

--------------

[2]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: 8

[3]۔ المناقب والمثالب:220، مناقب آل ابی طالب: ج 3 ص228، مسند احمد میں کچھ اختصار کے ساتھ: ج 2ص164، تاریخ دمشق:27831

۲۳۳

معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     کتاب''معاویہ و تاریخ''میں لکھتے ہیں: طبرانی نے کبیرمیں اور ابن عساکر نے شدّاد بن اوس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ اور عمرو عاص کو اکٹھے دیکھوتو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالو؛خدا کی قسم؛یہ دونوں جب بھی اکٹھے ہوں تومکاری اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔

     احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابویعلی نے ابوبرزہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:ہم رسول خدا(ص) کی خدمت میں تھے کہ اچانک گانے کی آواز آئی ،آنحضرت نے فرمایا:

     دیکھو، یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟

     میں اوپر گیا اور میں نے دیکھا کہ معاویہ اور عمرو عاص گانا گا رہے تھے۔میں نے واپس آ کر سارا  واقعہ آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا:

خداوندا! ان دونوں کو فتنہ میں داخل کر۔پروردگارا! انہیں آگ میں ڈال دے۔

طبرانی نے یہ حدیث مسند کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے۔(1)

--------------

[1] ۔ معاویہ و تاریخ: 175

۲۳۴

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

مرحوم سلطان الواعظین شیرازی لکھتے ہیں: اگر آپ  غور سے نہج البلاغہ (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات وکلمات کا مجموعہ ہے) کا مطالعہ کریںتو آپ کو مختلف حوادث، بڑے بادشاہوں کے حالات،صاحب زنج کا خروج، مغلوں کا غالب آنا، چنگیز خان کی سلطنت، ظالم خلفاء کے حالات اور شیعوں کے ساتھ ان کے معاملات کے بارے میں آنحضرت کی بیان کی گئی غیب کی بہت سی خبریں ملیں گی۔خاص طور پر شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدکی پہلی جلد کے صفحہ 208 سے 211 تک یہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

 خواجہ کلان بلخی حنفی نے بھی ''ینابیع المودّة''کے چودہویں باب کے آغاز میں  امام علی علیہ السلام کے کچھ خطبات اور پیشنگوئیاں بیان کی ہیں  جو آنحضرت کے کثرت علم پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں پڑھیئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے۔

معاویہ کے غلبہ پانے اور اس ملعو ن کے مظالم کی پیشنگوئی کرنا:

 ان پیشنگوئیوں میں سے ایک آنحضرت کا کوفہ والوں کو معاویہ علیہ الھاویہ کے ان پر غلبہ پانے اور انہیں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ ولعن کرنے کے حکم کے بارے بتانا ہے۔چنانچہ جیسا آپ نے بتایا تھا ویسے ہی بعد میں رونما ہوا۔ ان میں سے آپ نے فرمایا:

 أما أنّه سیظهر علیکم بعد رجل رحب البلعوم مندحق البطن، یأکل ما یجد ویطلب مالایجد، فاقتلوه ولن تقتلوهألا؛ وَانّه سیأمرکم بسبّ والبرائة منّ ؛ فأماّالسبّ فسبّون،فانّه لی زکوة ولکم نجاة وأمّاالبرائة، فلا تتبرّؤا منّ، فانّ ولدت علی الفطرة و سبقت الی الایمان والهجرة

     جلدی ہی میرے بعد تم لوگوں پر موٹی گردن والا اور باہر نکلے ہوئے پیٹ والا آدمی غالب آئے گا،اسے جو ملے گا وہ کھالے گااور اسے جو چیز نہیں ملے گی وہ اسے طلب کرے گا؛ پس اسے قتل کر دینا  لیکن تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔

     آگاہ ہو جاؤ؛ جلد ہی وہ شخص تمہیں مجھ پر سبّ و شتم کرنے اور مجھ سے سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دے گا۔میں

۲۳۵

تمہیں سبّ و شتم کرنے کی اجازت دیتا ہوں(چونکہ وہ زبانی ہے)کیونکہ یہ سبّ وشتم میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس ملعون کے شر ّ سے) نجات ہے۔لیکن مجھ سے بیزاری کا ظہار نہ کرنا(چونکہ یہ ایک قلبی امر ہے) کیونکہ میں فطرت (توحید و اسلام) پر متولد ہوا ہوں ، (یہ جملہ اشارہ ہے کہ آنحضرت کے والدین مؤمن تھے)اور میں نے آنحضرت کے ساتھ ایمان اور ہجرت میں سبقت لی ہے۔(1)

--------------

[1] ۔ زیادہ کھانے والے شخص  سے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد معاویہ علیہ الھاویہ ہے کیونکہ ابن ابی الحدید ''شرح نہج البلاغہ (چاپ مصر):3351''میں کہتے ہیں: معاویہ زیادہ کھاتا تھا اور وہ تاریخ میں زیادہ کھانے والے کے نام سے مشہور ہے۔''وکان یأکل فی الیوم سبع أکلات'' (جیسا کہ زمخشری نے کتاب''ربیع الأبرار''میں کہاہے)وہ دن میں سات مرتبہ کھاناکھاتا تھااور ہر مرتبہ اتنا زیادہ کھاتا تھاکہ وہ دسترخوان کے ساتھ ہی لیٹ جاتا تھااور آواز دیتا تھا:''یا غلام ؛ارفع فواللّٰه ما شبعت ولکن مللت' 'اے غلام؛آؤ اور یہ دسترخوان لے جاؤ خدا کی قسم؛ میں  تھک گیا ہوں لیکن ابھی تک سیر نہیں ہوا۔

یہ ملعون ان لوگوں میں سے تھا کہ جسے ''جوع الکلاب''کی بیماری لاحق تھی۔(قدیم طب میں اس بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس بیماری کے دوران بیمار کے معدہ میں ایسی حرارت ہوتی ہے کہ چاہے جو غذا مری کے ذریعہ معدہ تک پہنچے لیکن پھر بھی وہ بحارات میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کا نفع و نقصان معلوم نہیں ہوگا)۔

اس کا زیادہ کھانا ایک ضرب المثل بن گئی۔ہر زیادہ کھانے والے شخص کو اس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ایک شاعر نے زیادہ کھانے والے  .1پنے ایک دوست کی خوبصورت انداز میں مذمت کی ہے اور کہا ہے:

و صاحب ل بطنه کالهاویة        کأنّ ف امعانه معاویة

 میراایک ایسا دوست ہے کہ جس کا پیٹ ہاویہ کی طرح ہے کہ جیسے اس کی انتڑیوںمیں معاویہ بیٹھا ہو۔

ہاویہ ،جہنم کے طبقوں میں سے ایک ہے، چونکہ جہنم کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے:جہنم سے کہا جائے گا:( ه َلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُولُ ه َلْ مِن مَّزِیْدٍ )(سور ه ٔ ق،آیت:٣٠) ''کہ کیا تو بھر گیا  ہے؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور مل سکتا ہے؟ ''یہ اشارہ ہے کہ جہنم کبھی بھی کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گا۔

۲۳۶

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ(چاپ مصر):ج 1ص۳6۵'' اور دوسروں نے اہلسنت کے بزرگ علماء سے تصدیق کی ہے کہ وہ لعین، معاویہ بن ابی سفیان ہی تھاکہ جب وہ غالب ہوا تو اس کی خلافت محکم ہو گئی تو اس نے لوگوں کوامیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے اور آنحضرت سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ آٹھ سال تک مسلمانوں میں یہ قبیح فعل رائج رہا اور وہ ظالمانہ طور پر عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے تکمحراب و منبر حتی کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی آنحضرت پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ پھر اس وقت کے اس اموی خلیفہ نے صالحانہ سوجھ بوجھ سے سبّ و شتم کو ختم کیا اور لوگوں کو یہ قبیح کام کرنے سے منع کیا۔(1)

عمر بن عبدالعزیز کے کئی چہرے تھے اور اس نے صرف منبروں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے سے منع کیا اور منبروں کے علاوہ ہر کسی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی لیکن اگر کوئی معاویہ پر لعنت کرتا تھا تو وہ عمربن عبدالعزیز کے حکم پر تازیانہ کھاتا تھا!!

''الغارات'' کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اہل کوفہ سے فرمایا:

     تم لوگوں پر شامی غلبہ پا لیں گے۔

     انہوںنے کہا: آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا؟

     فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا کام بڑھتا چلا گیا ہے لیکن تمہاری آگ بجھ چکی ہے ، وہ کوشش کر رہے ہیں اور تم لوگ مست ہو، وہ متحد ہیں لیکن تم لوگ بکھرے ہوئے ہو،وہ اپنے امیرکی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امیر کی ایک نہیں سنتے۔ خدا کی قسم! اگر وہ تم پر غلبہ پالیںتو میرے بعد وہ تمہارے ساتھ بہت براسلوک کریں گے۔

--------------

[1]۔ شب ہای پشاور:940

۲۳۷

     میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے شہروں پر قبضہ کر لیں گے،تمہارا مال اور غنائم اپنی طرف لئے جائیں گے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں میں سے کچھ تو چھپکلی کی طرح زمین پرگھسیٹے جاؤ گے اور آرام سے ایک دوسرے کی طرف چلو گے، وہ تمہارا کوئی بھی حق ادا نہیں کریں گے اور خدا کے محترمات کا خیال نہیں کریں گے۔

     گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے قاریوں کو قتل کردیں گے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہیں محروم کر دیں گے اور تمہیں اپنے پاس نہیں آنے دیں گے، وہ لوگ شامیوں کو تو آنے دیں گے لیکن تمہیں مسترد کر دیں گے ۔ اس وقت کہ جب تم لوگوں نے محرومیت اور بدعتوں کودیکھا اور جب تم پر تلواریں چلائی گئیں تو تم لوگ پچھتاؤ گے  اور تم محزون ہو گے کہ کیوں ان سے جہاد نہیں کیا، لیکن اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔(1)

  اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے''ولئن أمهل اللّٰه الظالم فلن یفوت أخذه وهو له بالمرصاد فرض کرو کہ اگر خداوند ظالم کو مہلت دے لیکن ان کا مؤاخذہ کرنے سے باز نہیں آئے گا اور خداوند اس کے لئے کمین میں ہے''سے شروع ہونے والے خطبہ میں کلمات کی تشریح کرنے کے بعد اس طرح سے بحث بیان کی ہے:

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام  قسم کھاتے ہیں کہ شامی ضرور عراق کے لوگوں پر کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حق پر اور عراقی باطل پر ہیں ، بلکہ اس کا یہ سبب ہے کہ وہ اپنے امیر کے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہیں۔

     جنگ میں فتح کا دارومدار فوج کی کمانڈ اور اس کے امور کو منظم رکھنے پر ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کا دارومدار حق پر ہوتا ہے۔اگر عقیدے کے لحاظ سے کوئی لشکر حق پر ہو لیکن ان کی آراء مختلف ہوں اور وہ اپنے سپہ سالار کی فرمانبرداری نہ کریں تو اس جنگ میں ان سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اسی لئے ہم نے کئی باردیکھا ہے کہ مشرک ، اہل توحید پر فتح پا جاتے ہیں۔

     پھر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس بارے میں ایک لطیف نکتہ نقل کیا ہے اور فرمایا ہے:

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن:277

۲۳۸

     عام طور پر عرف میں یہ ہوتا ہے کہ رعایا حاکم کے ظلم و ستم سے ڈرتی ہے جب کہ میں خود پراپنی رعایا کے ستم سے خوفزدہ ہوں۔

جو کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دورۂ حلافت کے حالات پر غور کرے تو وہ یہ سمجھ جائے گا کہ آنحضرت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں جو کچھ تھا آپ وہ نہیں کر سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت کو حق وحقیقت سمجھنے والے بہت کم تھے اور اکثر لوگوں کا آنحضرت کے بارے میں ویسا عقیدہ نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہئے تھااور وہ آپ سے پہلے خلفاء کو آپ سے افضل سمجھتے تھے اوران کا یہ خیال تھا کہ افضلیت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔ان کی نئی نسل بھی  اپنے آباء  و اجداد کی تقلید کرتی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا: اگر ہمارے آباء و اجداد ان کی فضیلت سے آگاہ ہوتے تو انہیں دوسروں پر مقدم کرتے اور وہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کوپہلے خلفاء کی رعایا اور پیروکار سمجھتے تھے! آنحضرت کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے بھی اکثر کی بنیاد تعصب، جوش، تکبراورعربی گھمنڈتھا نہ کہ وہ عقیدے اور دین کی وجہ سے جنگ کر رہے تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں  مجبوراً برداشت کررہے تھے اور آپ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔(1)

''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     کتاب''الغارات'' میں لکھتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہر دن مسجد کوفہ میں ایک مقام پر تشریف فرما ہوتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی انگلیاں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے اور فرماتے تھے: صرف کوفہ باقی رہ گیا ہے کہ جس میں میرا حکم چلتا ہے ۔ اور فرمایا:

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ ددر نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج3ص370

۲۳۹

لعمر أبیک الخیر یا عمرو انّن           علی وضر من ذا الاناء قلیل

     ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے کوفہ؛ اب صرف تم ہی میرے پاس ہو ،کاش کہ تو بھی نہ ہوتا اور مجھے اپنے طوفانوں سے پریشان نہ کرتا ۔ اے کوفہ؛ تمہارا منہ کالا ہو۔

     نیز آپ نے فرمایا:اے لوگو؛بسر بن ارطاة یمن پر ظاہر ہوا اور اب عبیداللہ عباس اور سعید بن نمران آگئے ہیں ۔ میں دیکھ رہا کہ یہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی اور باطل غالب آجاے گا؛لیکن تم لوگ حقپر ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہو۔وہ لوگ اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امام کی بات نہیں سنتے ۔وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں   لیکن تم لوگ امانت میں خیانت کرتے ہو۔

     میں نے فلاں شخص کو ولی بنایا اور اس نے خیانت کی،مسلمانوں کے مال اور غنائم لے کر معاویہ کی طرف چلا گیا۔دوسرے کو حاکم بنایا تو اس نے بھی اسی کی طرح خیانت کی۔اب مجھے اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ میں ایک تازیانہ بھی تم لوگوں کے پاس بطور امانت رکھوں۔

     میں گرمیوں میں تم لوگوں سے کہوں کہ جہاد کے لئے جاؤ تو کہتے ہو:اب موسم گرم ہے ،کچھ تأخیر کر دیں تاکہ گرمیاں گذر جائیں۔اگر سردیوں میں جنگ پر جانے کا حکم دوں تو کہتے ہو کہ ابھی موسم سرد ہے ،کچھ مدت تک رک جائیں تا کہ سردیاں گذر جائیں۔

     خدایا:وہ مجھ سے تھک گئے ہیں اور میں ان سے تھک گیا ہوں، مجھے ان سے بہتر (امت) عطا کر اور ان پر مجھ سے برا (حاکم) مسلط کر۔ان کے دل کو پانی کر دے ؛جس طرح نمک پانی میں گھل ہو جاتا ہے۔

     حارث بن سلیمان کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     یہ قوم تم لوگوں پر غالب آ ئے گی؛کیونکہ تم لوگمتحد نہیں ہو اور حق کا دفاع نہیں کرتے ہو ، لیکن وہ لوگ اپنے باطل

۲۴۰