معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168164 / ڈاؤنلوڈ: 7640
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

عثمان نے کہا:تم وہی ہو کہ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کہاہے:خدا کے ہاتھ بندھے ہیں اور خداوند فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں؟

     ابوذر نے کہا:اگر تم لوگوں کا ایسا اعتقاد نہ ہوتا تو خدا کا مال خدا کے بندوں پر خرچ کرتے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

     جب ابوالعاص کے بیٹوں کی تعدا د تیس تک پہنچ جائے تو وہ خدا کے مال کو اپنا مال،خدا کے بندوں کو اپنا غلام اور خدا کے دین کو تباہی کا وسیلہ قرار دیں گے۔(۱)

     عثمان نے حاضرین سے کہا:کیا تم نے یہ بات رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     انہوں نے کہا: نہیں

     عثمان نے کہا:ابوذر ؛وای ہو تم پر!تم رسول خدا(ص)کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو؟

     ابوذر نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں سچ بولتا ہوں؟!

     انہوں  نے کہا:خدا کی قسم!نہیں۔

     عثمان نے کہا:علی(علیہ السلام)کو میرے پاس بلاؤ اور جیسے ہی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ابوذر سے کہا:ابوالعاص کے بیٹوں کے بارے میں اپنی حدیث علی (علیہ السلام) سے بیان کرو۔

     ابوذر نے وہ حدیث دوبارہ بیان کی۔

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کہا:کیا آپ نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے؟

     فرمایا:نہیں؛لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ابوذر سچ بول رہے ہیں۔

     عثمان نے کہا: تم اس کی سچائی سے کیسے آگاہ ہو؟فرمایا:

--------------

[۱]۔ یہ حدیث''النہایة ابن اثیر:ج۲ص۸۸اور ۱۴۰''میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

۲۲۱

     میں نے خود رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے انسان پرسایہ نہیں کیا اور زمین نے اس سے زیادہ کسی سچے انسان کو خود پر حمل نہیں کیا۔(۱)

     وہاں پر موجود لوگوں نے کہا:ہم سب نے یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سنی ہے۔

     ابوذر نے کہا:میں تمہارے لئے حدیث بیان کرتا ہوںجو کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) سےسنی ہے لیکن تم مجھ پرتہمت  لگاتے ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی زندگی گذاروں گا کہ مجھے اصحاب محمد(ص) سے ایسا سننے کو ملے گا!

     واقدی نے ایک دوسری روایت میں اپنی سند سے صہبان (اسلمیوں سے وابستہ)سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:جس دن ابوذر کو عثمان کے پاس لائے تومیں

نے دیکھا کہ عثمان نے ابوذر سے کہا:تم وہی ہو کہ جس نے ایسا ویساکیا ہے؟

ابوزر نے کہا:میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور تم سوچ رہے ہوکہ میں خیانت کر رہا ہوں، میں تمہارے دوستوں کو نصیحت کر رہا ہوں جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:تم جھوٹ بول رہے ہو،تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو اور فتنہ طلب ہو اور تم نے ہمارے لئے شام کو تباہ کر دیاہے!

     ابوذر نے کہا:اپنے وو دوستوں کی روش کی پیروی کرو تا کہ کوئی بھی تم پر بات نہ کرے۔

     عثمان نے کہا:اے بے مادر!تمہارا اس بات سے کیا سرو کارہے؟

     ابوذر نے کہا:خدا کی قسم!میرے پاس امربہ معروف اور نہی ازمنکر کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

--------------

[۱] ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنیوں کی مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ بحار الانوار مرحوم علامہ مجلسی: ج۲۲ص۳۹۳، نئی چاپ کہ جس میں مختلف منابع بھی لائے گے ہیں اور النہایة ابن اثیر: ج۲ص۴۲۔

۲۲۲

     عثمان غصہ میں آگیا اور اس نے کہا:مجھے اس بوڑھے اور جھوٹے آدمی کے بارے میں میری رہنمائی کرو کہ میں اس کا کیا کروں؟اسے ماروں؛قید میں ڈال دوں، قتل کر دوں یا اسے اسلامی ممالک سے نکام دوں کہ اس نے مسلمانوں کی جماعت کو منتشرکر دیا ہے؟!

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرمایا کہ جو وہاںموجود تھے:

     میں  تمہاری اس طرح رہنمائی کرتا ہوں کہ جس طرح مؤمن آل فرعون نے کہا:''اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں ۔ بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے''۔(۱)

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوبہت تند جواب دیا اور آنحضرت نے بھی ویسا ہی جواب دیا اور ہم ان دونوں جوابوں کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ ان میں مذمت کی گئی ہے۔

     واقدی کہتا ہے:اس کے بعد عثمان نے لوگوں کو ابوذر کے ساتھ اٹھنے بیٹھے اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا اور انہوں  نے کچھ عرصہ اسی طرح گذارا۔پھر انہیں عثمان کے پاس لایا گیا اور جب وہ عثمان کے سامنے کھڑے ہوئے تو عثمان سے کہا:اے وای ہو تم پر! کیا تم نے رسول خدا(ص) ، ابوبکر اور عمر کو نہیں دیکھا ؛کیا تمہارا طریقۂ کار انہیں کے طریقۂ کار کی طرح ہے؟تم مجھ پر اس طرح ظلم و ستم کر رہے ہو جس طرح ظالم ظلم کرتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:میرے سامنے اور میری ریاستوں سے دور چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:ہاں ؛ تمہاری ہمسائیگی  میرے لے کتنی ناخوشگوار ہے، بتاؤ میں کہاں چلاجاؤں؟

     کہا:جہاں چاہو چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:شام چلے جاؤں، جو جہاد کی سرزمین ہے؟

--------------

[۱]۔ سورہ غافر، آیت:۲۸

۲۲۳

     عثمان نے کہا:میں نے تمہیں شام سے یہاں اسی لئے بلایا تھا کہ تم نے شام کو تباہ کر دیا تھااور اب میں تمہیں دوبارہ وہیں بھیج دوں؟ ابوذر نے کہا:عراق چلاجاؤں؟

     کہا:نہیں،اگر تم عراق چلے گے تو تم ایسی قوم کے پاس چلے جاؤ گے جو رہبروں اور حکمرانوں پر شک و شبہ کرتے ہیں اور انہیں طعنہ دیتے ہیں۔

     ابوذر نے کہا: کیا میں مصر کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا:نہیں۔

     ابوزر نے کہا: تو پھر میں کہاں جاؤں؟

     کہا: صحرا کی طرف چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہجرت کے بعد پھرسے عرب صحرا نشین ہو جاؤں؟

     کہا:ہاں!

     ابوذر نے کہا:میں نجد کے بادیہ کی طرف جا سکتا ہوں؟

     عثمان نے کہا:نہیں؛مشرق سے دوچلے جاؤاور اس راستہ سے جاؤ اور ربذہ سے آگے مت جاؤ۔

     جناب ابوذر ربذہ کی طرف چلے گئے۔

     واقدی نے اسی طرح مالک بن ابی الرجال  اور موسی بن مسیرة سے نقل کیا ہے کہ ابوالأسود دئلی نے کہا ہے:

     میں ابوذر کو دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں ان سے ربذہ کی طرف جانے کا سبب پوچھوں؛ میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مدینہ سے اپنی مرضی سے چلے آئے ہیں یا کسی نے آپ کو آنے پر مجبور کیا ہے؟

     کہا:میں مسلمانوں کی ایک سرحد کے کنارے پر تھا اور دفاع کر رہا تھا ، میں مدینہ واپس گیا اور میں نے کہا کہ یہ ہجرت اور میرے دوستوں کی جگہ ہے اور میں مدینہ سے بھی یہاں آ گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

۲۲۴

     پھرکہا: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک رات میں مسجد میں سو رہا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) میرے پاس سے گذرے اور اپنے پاؤں سے مجھے مارا اور فرمایا:میں یہ نہ دیکھوں کہ مسجد میں ہی سو رہے ہو۔

     میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں؛ مجھ پر نیند نے غلبہ کر دیا تھا اور آنکھ لگ گئی اور  میں مسجد میں ہی سو گیا۔

     فرمایا:تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں اس مسجد سے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے گا؟

     میں نے کہا:میں  اس صورت میں شام چلا جاؤں گا کہ جو مقدس سرزمین اور جہاد کی جگہ ہے۔

     فرمایا:اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیں تو تم کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اسی مسجد میں واپس آجاؤں گا۔

     فرمایا:اگر پھر تمہیں اس مسجد سے نکال دیں تو کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اپنی تلوار نکال کر ان کے ساتھ لڑوں گا۔

     فرمایا:کیا اس کام میں تمہاری رہنمائی کروں؟وہ تمہیں جہاں کھینچیں ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کے فرمانبردا بنو اور ان کی سنو۔

     میں نے سنا اور اطاعت کی اور اب بھی سن رہا ہوں اور اطاعت کر رہا ہوں اور خدا کی قسم؛عثمان اس حال میں خدا سے ملے گا جب کہ وہ میرامجرم ہوگا۔(۱)

     اس گذشتہ واقعہ میں جناب ابوذر نے معاویہ کے مستقبل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے تین روایات نقل کی ہیں جو معاویہ کے گمراہ ہونے،لعنت نفرین کے حقدارہونے اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ان سب کے باوجود  رسول خدا(ص) کی سنت کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معاویہ کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟!

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۴ص۲۰۴

۲۲۵

 کیاپیغمبر اکرم(ص) نے یہ نہیں فرمایا:''امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے''؟

کیا انہیں سب سے زیادہ سچے شخص یعنی جناب ابوذر کا بھی یقین نہیں ہے؟!

کیا عثمان نے رسول خدا (ص)کے محبوب ترین صحابی جناب ابوذر کو اس شہر سے اس دیار میں صرف اس لئیجلاوطن نہیں کر دیا تھا کہ وہ عثمان پر اعتراض کرتے تھے کہ عثمان اپنے داماد مروان اور اپنے دوسرے چہیتے لوگوں کو بیت المال سے مال عطا کرتا تھا؟!

کیا عثمان کا یہ فعل بھی سنت رسول خدا(ص) کی پیروی تھا؟!کیوں عثمان نے معاویہ کو شام کی حکمرانی پر باقی رکھا جب کہ رسول خدا(ص) نے بارہا س پر لعنت و نفرین کی ہے؟رسول خدا(ص) کے فرمان کی رو سے کیا عثمان کو اس کا پیٹ چیر دینا چاہئے تھا یا اسے گورنر بنانا چاہئے تھا؟

     ان سوالوں کے جواب کے لئے پیشنگوئیوں کے ان واقعات کی طرف توجہ کریں:

معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

     یونس بن خباب نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، علی علیہ السلام بھی میرے ساتھ تھے ، ہم ایک باغ کیپاس سے گذرے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے رسول خدا(ص): آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنا خوبصورت باغ ہے؟

     پیغمبر (ص) نے فرمایا: اے علی؛ جنت میں تمہارا باغ اس سے کہیں زیادہ آباد ہے۔

     ہم سات باغات کے پاس سے گذرے ، علی علیہ السلام نے ہر بار وہی بات کی اور رسول خدا(ص) نے بھی وہی جواب دیا۔پھر پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے ،ہم بھی کھڑے ہو گئے ،پیغمبر(ص) اپنا سر مبارک علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر رونے لگے۔علی علیہ السلام نے پوچھا:

     اے رسول خدا(ص)؛ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟

۲۲۶

     فرمایا:ایک قوم کے دل میں اتنا بغض و کینہ ہے کہ وہ تمہارے لئے آشکار نہیں کرتے مگر میرے جانے کے بعد وہ اپنا کینہ آشکار کریں گے۔

     علی علیہ السلام نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛کیا میں کندھے پر تلوار نہ رکھ لوں اور انہیں نیست و نابود نہ کردوں؟

     فرمایا: بہتر یہ ہے کہ صبر کرو۔

     کہا: اگر میں صبر کروں تو کیا ہو گا؟

     فرمایا: تمہیں مشکلات اور مشقّت وسامنا کرنا پڑے گا۔

     کتاب''الغارات''کے مؤلف نے اعمش سے اور انہوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     جلد ہی میری امت کاایک شخص حاکم بنے گاکہ جس کا گلا اور پیٹ موٹا ہو گا،وہ بہت زیادہ  کھائے گا لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرے گا،اس کے کندھوں پر جن و انس کے گناہ ہوں گے،ایک دن وہ ریاست کی جستجو کرے گا  اور جب بھی اسے ریاست مل گئی تو اس کا پیٹ چیر دینا۔

     وہ کہتا ہے:اس وقت رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور آپ اس کے ذریعہ معاویہ کے پیٹ کی طرف اشارہ کررہے تھے۔

     نیز ابوجعفراسکافی - صاحب کتاب''المعیار والموازنة''- کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سو رہے تھے،حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام نے آپ کو اٹھانا چاہاتو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     انہیں سونے دو کیونکہ انہیں میرے بعد بہت طولانی راتیں جاگ کر گزارنی ہیں،اس سے بغض وکینہ رکھنے کی  وجہ سے میرے خاندان پر کیا کیا ظلم وستم کیا جائے گا۔

۲۲۷

     حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام روئیں، پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا:

     مت رو کہ تم دونوں میرے ساتھ ہوگے اور میرے نزدیک صاحب شرف و کرامت ہو۔

     ابوسعید خدری کہتے ہیں:ایک دن پیغمبر اکرم(ص) اپنے بعد علی علیہ السلام پر ٹوٹنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو بیان کر رہے تھے اور اس بارے میں آپ نے بہت وضاحت فرمائی،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے عرض کیا:

     اے رسول خدا(ص)؛ میں آپ کو آپ کے اہلبیت کے حق کی قسم دیتا ہوں تا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریںاور یہ طلب کریں کہ آپ سے پہلے میری روح قبض کی جائے۔

     پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری عمر کی مدت کے بارے میں سوال کروں کہ جو مقدر و مقرر ہو چکی ہے؟

     علی علیہ السلام نے فرمایا: اے رسول خدا؛ آپ نے مجھے جن سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے میں ان کے ساتھ کس سلسلہ میں جنگ کروں ؟

 فرمایا: جب وہ دین میں بدعتیں پیدا کریں۔(۱)

  اس روایت کے مطابق معاویہ کے کندھوں پر جنّ و انس کے گناہوں کا بوجھ ہے اور لوگوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی وہ انہیں ملتا وہ اس کا پیٹ پھاڑ دیتے! روایت کے آخری حصہ سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ سے جنگ دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے تھی اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کے حکم پر اس سے جنگ کی ہے۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ( جنہیں اہلسنت چوتھا خلیفہ مانتے ہیں) نے معاویہ سے جنگ کی ، اہلسنت کے دوسرے تین خلفاء نے کیوں معاویہ سے دوستی رکھی  اور دو خلفاء نے تو اسے شام کے حکمرانی بھی دے دی؟!

     کیا ان کے اس کام نے اسے حجاز پر قبضہ کرنے اور رسول خدا(ص) کے منبر پر بیٹھے کاموقع فراہم نہیں کیا ہے؟

--------------

[۱] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۸۰

۲۲۸

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

نصر نے عبدالعزیزسے، حبیب بن ابی ثابت اور منذر بن ثوری سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

محمد بن حنفیہ کہتے تھے: فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم(ص) اپنی فوج کے ساتھ درّہ کے اوپر اور نیچے سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے اور سپاہ اسلام نے پورے درہ کو گھیر لیا تھاتو یہ دونوں (ابوسفیان اور معاویہ) تسلیم ہوئے تا کہ اپنے لئے ساتھی  فراہم کر سکیں۔اسی طرح نصر نے حکم بن ظہیر ، اسماعیل ، حسن بصری اور نیز حکم کے قول سے، عاصم ابی النجود سے، زر بن جیش سے اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ بن ابی سفیان کو دیکھو کہ وہ  میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اس کی گردن مار دو۔

     حسن بصری کہتا ہیں: خدا کی قسم؛ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کامیاب نہیں ہوئے۔(۱)

     اسی طرح نصر بن مزاحم اپنی کتاب ''صفین'' میں کہتا ہے: جنگ صفین کے دوران ایک شخص نے عمار یاسر سے کہا: اے ابوالیقظان! کیا پیغمبر(ص) نے نہیں فرمایا تھا: لوگوں کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور جب مسلمان ہو جائیں تو ان کا خون اور مال محفوظ ہے؟

     عمار نے کہا: ہاں؛ ایسا ہی ہے، لیکن خدا کی قسم! یہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور ان کے سینوں میں کفر پوشیدہ ہے تا کہ اسلام کا اظہارکر کے انہیں ساتھی مل جائیں۔(۲)

--------------

[۱] ۔ ابن ابی الحدید حسن بصری کے بارے میں کہتے ہیں: وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔وہ وسوسہ میں مبتلا تھا ۔ ایک دن وضو کرتے وقت اپنے ہاتھوں اورپاؤں پر بہت زیادہ پانی ڈال رہا تھاتو، امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اسے دیکھا اور فرمایا: اے حسن؛ تم بہت زیادہ پانی گرا رہے ہو؟اس نے کہا:امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مسلمانوں کا خون زمین پر بہا رہے ہیں،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے!

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا: کیا اس کام نے تمہیں غمگین کیا ہے؟ اس نے کہا :ہاں

آپ نے فرمایا:ہمیشہ اسی طرح غمگین ہی رہو۔کہتے ہیں:اس کے بعد حسن بصری مرتے دم تک غمگین اوربد مزاج تھا۔

[۲] ۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۷

۲۲۹

     اس واقعہ میں رسول خدا(ص) نے مدینہ پر معاویہ کے تسلط اور اس کا آنحضرت کے منبر پربیٹھنے کی پیشنگوئی فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی تم لوگ دیکھو کہ معاویہ میرے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو اسے مار دو۔لیکن افسوس پیغمبر(ص) کے اس حکم پر بھی عمل نہ ہو ا۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہے اورقابل احترام ہوتا ہے،اس بناء پر پیغمبر اکرم (ص) کا معاویہ کو قتل کرنے کا حکم دینا اس چیز کی دلیل ہے کہ معاویہ ایمان نہیں لایا تھا اور اسی طرح اپنے کفر پر باقی تھا۔     اب ہم جو واقعہ بیان کریں گے وہ اسی حقیقت کی دلیل ہے معاویہ و ابوسفیان کے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد بھی  پیغمبر اسلام نے ان پر لعنت و نفرین کی ہے:

  معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

 ابوعبداللہ بصری متکلّم معتزلی نے نصر بن عاصم لیثی اور اس کے باپ سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے:ہم رسول خدا(ص) کی مسجد میں داخل ہوئے ، ہم نے دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں: ہم خدا اور رسول خدا(ص) کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔

     ہم نے کہا: کیا ہوا ہے؟

     انہوں نے کہا: ابھی  معاویہ اٹھا اور اس نے ابوسفیان کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں مسجد سے باہر چلے گئے۔ اسی وقت رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     خداوند تابع ومتبوع پر لعنت کرے!میری امت پر اس معاویہ کفل بزرگ کی طرف سے کتنے سخت دن آئیں گے!

     نیز علاء بن حریز قشیری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے معاویہ سے فرمایا:

     اے معاویہ؛ بیشک تم بدعت کو سنت اور برائیوں کو اچھائیوں میں بدلدوگے، تمہاری خوراک بہت زیادہ اور تمہارے ظلم بہت بڑے ہوں ہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔ عجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۳۷۹

۲۳۰

     پہلی پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے ابوسفیان اور معاویہ و ابوسفیان پر اپنی لعنت کی ہے اور معاویہ کے ہاتھوں اپنی امت پر آنے والی سختیوں کے بارے میں پیشنگوئی کی ہے۔رسول خدا(ص)  نے لوگوں کے سامنے انتہائی  غصہ کے عالم میں یہ فرمان بیان فرمایا۔

 دوسری پیشنگوئی میں رسول خدا(ص) نے معاویہ کو نہ صرف بدعت گذار قرار دیابلکہ اس کے علاوہ فرمایا: تم اپنا برا کردار لوگوں کے سامنے اچھا کر کے پیش کرو گے اور لوگوں پر بہت ظلم و ستم کرو گے۔

ایک اور پیشنگوئی  میں رسول خدا(ص) نے عمروعاص کو معاویہ کا اہم یار و مددگار قرار دیا ہے کہ جب یہ اکٹھے ہو جائیں گے تو مکاری اور دھوکہ کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوگا! اسی لئے فرمایا:جب بھی ان دونوں کو اکٹھا دیکھو تو ان دونوں میں جدائی پیدا کرو۔ایک دن یہ دونوں بلند آواز سے گانا گا رہے تھے اور اس وجہ سے بھی رسول خدا(ص) نے ان دونوں پر نفرین کی اور خدا سے دعا کی کہ ان دونوں کو اہل جہنم میں سے قرار دے۔

عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     یہ واقعہ قاضی ابوحنیفہ نعمان مغربی نے کتاب''المناقب والمثالب'' میں اس طرح بیان کیا ہے:

     عبداللہ بن عمروعاص کہتاہے: میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور کچھ اصحاب بھی آنحضرت کی خدمت میں تھے۔میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا:

     اوّل طالع یطلع علیکم من هذا الفجّ،یموت علی غیر ملّت

     اس راستہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا ،وہ میری ملت پر نہیں مرے گا۔

عبداللہ بن عمرو عاص نے کہا:جب میں اپنے باپ سے مل کر آیا تھا تو وہ بھی رسول خدا(ص) کے پاس آنے کے لئے لباس پہن رہا تھا،اس وجہ سے مسلسل میری نگاہیں اس راستہ پر جمی ہوئیں تھیں اور خوف کے مارے میری ایسی حالت تھی جیسے کسی نے اپنا

۲۳۱

پیشاب روک رکھاہو کہ کہیں یہ نہ ہو کہ داخل ہونے والا میرا باپ ہو،یہاں تک کہ معاویہ داخل ہوا؛پس رسول خدا(ص) نے فرمایا: وہ یہی شخص ہے۔(۱)

     پھر وہ لکھتے ہیں:ابن عباس نے عبداللہ بن عمرو عاص کی یہ بات سنی تو اس نے کہا:عبداللہ بن عمرو عاص نییہ حدیث نقل کرنے کے باوجود کس طرح معاویہ کے ساتھ مل کر علی علیہ السلام سے جنگ کی؟

     عبداللہ کے پاس اپنے لئے (نہ کہ دوسروں کے نزدیک) عذر تھا(!)جس سے ابن عباس بے خبر تھے اور وہ عذر یہ تھا : کہا گیا ہے کہ وہ ایک دن کسی گروہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حسین بن علی علیہما السلام کا گذر ہوا۔ عبداللہ بن عمرو نے کہا:آگاہ ہو جاؤ؛خدا کی قسم؛ یہ اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سب سے زیادہ محبوب فرد ہے۔  انہوں  نے جنگ صفین میں میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی اور اگر یہ میرے ساتھ بات کرتے اور مجھ سے راضی ہوتے تو یہ میرے لئے سرخ رنگ کے اونٹ سے  زیادہ محبوب تھا۔

     پھر عبداللہ بن عمرو نے کسی کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تا کہ آنحضرت کی رضائیت حاصل کر سکے اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں آپ کو بتائے اور آنحضرت کی حدمت میں شرفیاب ہونے کے لئے اجازت طلب کرے۔

     امام حسین علیہ السلام نے اجازت دی اور وہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

     تم جانتے ہو کہ میں آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوںاور تم نے رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:حسن اور حسین جوانان جنت  کے سردار ہیں اور ان کے باباان دونوں سے بہتر ہیں، لیکن پھر بھی تم نے ان کے خلاف جنگ کی؟!

--------------

[۱]۔ المناقب و المثالب:۲۱۹

۲۳۲

عبداللہ بن عمرو نے کہا:خدا کی قسم؛اے فرزند رسول خدا(ص)؛ مجھے اس کام پر مجبور نہیں کیا مگر رسول خدا(ص) کے اس فرمان نے جو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب عمرونے آنحضرت کے پاس آ کر میری شکایت کی اور کہا:وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ یہ رواداری سے کام لے لیکن یہ نہیں مانتا۔

پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے باپ کی اطاعت کرو ۔ پس وہ معاویہ  کے پاس گیااور اس نے مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی اس کے ساتھ جاؤں ۔ لہذا میں نے اس کی اطاعت کی جیسا کہ رسول  خدا(ص) نے حکم دیا تھا۔

 امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

أولم تسمع قول اللّٰه عزوجلّ ف کتابه و قد أمر ببرّ الوالدین ،ثمّ قال: ( وَِن جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلَا تُطِعْهُمَا) (۱)  و قول رسول اللهّٰ: انّما  الطّاعة ف المعروف؟

     کیا تم نے خداوند کا کتاب خدا میں یہ قول نہیں سنا کہ جس میں ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر فرمایا:''اور اگر وہ کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا ''۔اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: اطاعت صرف اچھے اور نیک کاموں میں ہے (نہ کہ برے کاموں میں)؟

     عبداللہ بن عمرو نے کہا: میں نے یہ سنا تھا لیکن خدا کی قسم جیسے گویا اسے نہیں سنا تھا۔(۲)

     جی ہاں؛ شیطان گمراہوں کو گمراہ کرنے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ انہوں نے جو چیز دیکھی یا سنی ہو گویا انہوں نے نہ تو دیکھی ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ چونکہ وہ اہل غفلت ہیں اس لئے وہ انہیں غفلت و گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

--------------

[۲]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: ۸

[۳]۔ المناقب والمثالب:۲۲۰، مناقب آل ابی طالب: ج ۳ ص۲۲۸، مسند احمد میں کچھ اختصار کے ساتھ: ج ۲ص۱۶۴، تاریخ دمشق:۲۷۸۳۱

۲۳۳

معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     کتاب''معاویہ و تاریخ''میں لکھتے ہیں: طبرانی نے کبیرمیں اور ابن عساکر نے شدّاد بن اوس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

     جب بھی معاویہ اور عمرو عاص کو اکٹھے دیکھوتو ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالو؛خدا کی قسم؛یہ دونوں جب بھی اکٹھے ہوں تومکاری اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔

     احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابویعلی نے ابوبرزہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:ہم رسول خدا(ص) کی خدمت میں تھے کہ اچانک گانے کی آواز آئی ،آنحضرت نے فرمایا:

     دیکھو، یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟

     میں اوپر گیا اور میں نے دیکھا کہ معاویہ اور عمرو عاص گانا گا رہے تھے۔میں نے واپس آ کر سارا  واقعہ آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا:

خداوندا! ان دونوں کو فتنہ میں داخل کر۔پروردگارا! انہیں آگ میں ڈال دے۔

طبرانی نے یہ حدیث مسند کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے۔(۱)

--------------

[۱] ۔ معاویہ و تاریخ: ۱۷۵

۲۳۴

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

مرحوم سلطان الواعظین شیرازی لکھتے ہیں: اگر آپ  غور سے نہج البلاغہ (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات وکلمات کا مجموعہ ہے) کا مطالعہ کریںتو آپ کو مختلف حوادث، بڑے بادشاہوں کے حالات،صاحب زنج کا خروج، مغلوں کا غالب آنا، چنگیز خان کی سلطنت، ظالم خلفاء کے حالات اور شیعوں کے ساتھ ان کے معاملات کے بارے میں آنحضرت کی بیان کی گئی غیب کی بہت سی خبریں ملیں گی۔خاص طور پر شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدکی پہلی جلد کے صفحہ ۲۰۸ سے ۲۱۱ تک یہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

 خواجہ کلان بلخی حنفی نے بھی ''ینابیع المودّة''کے چودہویں باب کے آغاز میں  امام علی علیہ السلام کے کچھ خطبات اور پیشنگوئیاں بیان کی ہیں  جو آنحضرت کے کثرت علم پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں پڑھیئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے۔

معاویہ کے غلبہ پانے اور اس ملعو ن کے مظالم کی پیشنگوئی کرنا:

 ان پیشنگوئیوں میں سے ایک آنحضرت کا کوفہ والوں کو معاویہ علیہ الھاویہ کے ان پر غلبہ پانے اور انہیں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ ولعن کرنے کے حکم کے بارے بتانا ہے۔چنانچہ جیسا آپ نے بتایا تھا ویسے ہی بعد میں رونما ہوا۔ ان میں سے آپ نے فرمایا:

 أما أنّه سیظهر علیکم بعد رجل رحب البلعوم مندحق البطن، یأکل ما یجد ویطلب مالایجد، فاقتلوه ولن تقتلوهألا؛ وَانّه سیأمرکم بسبّ والبرائة منّ ؛ فأماّالسبّ فسبّون،فانّه لی زکوة ولکم نجاة وأمّاالبرائة، فلا تتبرّؤا منّ، فانّ ولدت علی الفطرة و سبقت الی الایمان والهجرة

     جلدی ہی میرے بعد تم لوگوں پر موٹی گردن والا اور باہر نکلے ہوئے پیٹ والا آدمی غالب آئے گا،اسے جو ملے گا وہ کھالے گااور اسے جو چیز نہیں ملے گی وہ اسے طلب کرے گا؛ پس اسے قتل کر دینا  لیکن تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔

     آگاہ ہو جاؤ؛ جلد ہی وہ شخص تمہیں مجھ پر سبّ و شتم کرنے اور مجھ سے سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دے گا۔میں

۲۳۵

تمہیں سبّ و شتم کرنے کی اجازت دیتا ہوں(چونکہ وہ زبانی ہے)کیونکہ یہ سبّ وشتم میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس ملعون کے شر ّ سے) نجات ہے۔لیکن مجھ سے بیزاری کا ظہار نہ کرنا(چونکہ یہ ایک قلبی امر ہے) کیونکہ میں فطرت (توحید و اسلام) پر متولد ہوا ہوں ، (یہ جملہ اشارہ ہے کہ آنحضرت کے والدین مؤمن تھے)اور میں نے آنحضرت کے ساتھ ایمان اور ہجرت میں سبقت لی ہے۔(۱)

--------------

[۱] ۔ زیادہ کھانے والے شخص  سے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد معاویہ علیہ الھاویہ ہے کیونکہ ابن ابی الحدید ''شرح نہج البلاغہ (چاپ مصر):۳۳۵۱''میں کہتے ہیں: معاویہ زیادہ کھاتا تھا اور وہ تاریخ میں زیادہ کھانے والے کے نام سے مشہور ہے۔''وکان یأکل فی الیوم سبع أکلات'' (جیسا کہ زمخشری نے کتاب''ربیع الأبرار''میں کہاہے)وہ دن میں سات مرتبہ کھاناکھاتا تھااور ہر مرتبہ اتنا زیادہ کھاتا تھاکہ وہ دسترخوان کے ساتھ ہی لیٹ جاتا تھااور آواز دیتا تھا:''یا غلام ؛ارفع فواللّٰه ما شبعت ولکن مللت' 'اے غلام؛آؤ اور یہ دسترخوان لے جاؤ خدا کی قسم؛ میں  تھک گیا ہوں لیکن ابھی تک سیر نہیں ہوا۔

یہ ملعون ان لوگوں میں سے تھا کہ جسے ''جوع الکلاب''کی بیماری لاحق تھی۔(قدیم طب میں اس بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس بیماری کے دوران بیمار کے معدہ میں ایسی حرارت ہوتی ہے کہ چاہے جو غذا مری کے ذریعہ معدہ تک پہنچے لیکن پھر بھی وہ بحارات میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کا نفع و نقصان معلوم نہیں ہوگا)۔

اس کا زیادہ کھانا ایک ضرب المثل بن گئی۔ہر زیادہ کھانے والے شخص کو اس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ایک شاعر نے زیادہ کھانے والے  .۱پنے ایک دوست کی خوبصورت انداز میں مذمت کی ہے اور کہا ہے:

و صاحب ل بطنه کالهاویة        کأنّ ف امعانه معاویة

 میراایک ایسا دوست ہے کہ جس کا پیٹ ہاویہ کی طرح ہے کہ جیسے اس کی انتڑیوںمیں معاویہ بیٹھا ہو۔

ہاویہ ،جہنم کے طبقوں میں سے ایک ہے، چونکہ جہنم کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے:جہنم سے کہا جائے گا:( ه َلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُولُ ه َلْ مِن مَّزِیْدٍ )(سور ه ٔ ق،آیت:٣٠) ''کہ کیا تو بھر گیا  ہے؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور مل سکتا ہے؟ ''یہ اشارہ ہے کہ جہنم کبھی بھی کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گا۔

۲۳۶

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ(چاپ مصر):ج ۱ص۳۶۵'' اور دوسروں نے اہلسنت کے بزرگ علماء سے تصدیق کی ہے کہ وہ لعین، معاویہ بن ابی سفیان ہی تھاکہ جب وہ غالب ہوا تو اس کی خلافت محکم ہو گئی تو اس نے لوگوں کوامیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے اور آنحضرت سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ آٹھ سال تک مسلمانوں میں یہ قبیح فعل رائج رہا اور وہ ظالمانہ طور پر عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے تکمحراب و منبر حتی کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی آنحضرت پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ پھر اس وقت کے اس اموی خلیفہ نے صالحانہ سوجھ بوجھ سے سبّ و شتم کو ختم کیا اور لوگوں کو یہ قبیح کام کرنے سے منع کیا۔(۱)

عمر بن عبدالعزیز کے کئی چہرے تھے اور اس نے صرف منبروں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے سے منع کیا اور منبروں کے علاوہ ہر کسی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی لیکن اگر کوئی معاویہ پر لعنت کرتا تھا تو وہ عمربن عبدالعزیز کے حکم پر تازیانہ کھاتا تھا!!

''الغارات'' کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اہل کوفہ سے فرمایا:

     تم لوگوں پر شامی غلبہ پا لیں گے۔

     انہوںنے کہا: آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا؟

     فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا کام بڑھتا چلا گیا ہے لیکن تمہاری آگ بجھ چکی ہے ، وہ کوشش کر رہے ہیں اور تم لوگ مست ہو، وہ متحد ہیں لیکن تم لوگ بکھرے ہوئے ہو،وہ اپنے امیرکی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امیر کی ایک نہیں سنتے۔ خدا کی قسم! اگر وہ تم پر غلبہ پالیںتو میرے بعد وہ تمہارے ساتھ بہت براسلوک کریں گے۔

--------------

[۱]۔ شب ہای پشاور:۹۴۰

۲۳۷

     میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے شہروں پر قبضہ کر لیں گے،تمہارا مال اور غنائم اپنی طرف لئے جائیں گے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں میں سے کچھ تو چھپکلی کی طرح زمین پرگھسیٹے جاؤ گے اور آرام سے ایک دوسرے کی طرف چلو گے، وہ تمہارا کوئی بھی حق ادا نہیں کریں گے اور خدا کے محترمات کا خیال نہیں کریں گے۔

     گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہارے قاریوں کو قتل کردیں گے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمہیں محروم کر دیں گے اور تمہیں اپنے پاس نہیں آنے دیں گے، وہ لوگ شامیوں کو تو آنے دیں گے لیکن تمہیں مسترد کر دیں گے ۔ اس وقت کہ جب تم لوگوں نے محرومیت اور بدعتوں کودیکھا اور جب تم پر تلواریں چلائی گئیں تو تم لوگ پچھتاؤ گے  اور تم محزون ہو گے کہ کیوں ان سے جہاد نہیں کیا، لیکن اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔(۱)

  اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے''ولئن أمهل اللّٰه الظالم فلن یفوت أخذه وهو له بالمرصاد فرض کرو کہ اگر خداوند ظالم کو مہلت دے لیکن ان کا مؤاخذہ کرنے سے باز نہیں آئے گا اور خداوند اس کے لئے کمین میں ہے''سے شروع ہونے والے خطبہ میں کلمات کی تشریح کرنے کے بعد اس طرح سے بحث بیان کی ہے:

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام  قسم کھاتے ہیں کہ شامی ضرور عراق کے لوگوں پر کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حق پر اور عراقی باطل پر ہیں ، بلکہ اس کا یہ سبب ہے کہ وہ اپنے امیر کے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہیں۔

     جنگ میں فتح کا دارومدار فوج کی کمانڈ اور اس کے امور کو منظم رکھنے پر ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کا دارومدار حق پر ہوتا ہے۔اگر عقیدے کے لحاظ سے کوئی لشکر حق پر ہو لیکن ان کی آراء مختلف ہوں اور وہ اپنے سپہ سالار کی فرمانبرداری نہ کریں تو اس جنگ میں ان سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اسی لئے ہم نے کئی باردیکھا ہے کہ مشرک ، اہل توحید پر فتح پا جاتے ہیں۔

     پھر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس بارے میں ایک لطیف نکتہ نقل کیا ہے اور فرمایا ہے:

--------------

[۱]۔ الغارات و شرح اعلام آن:۲۷۷

۲۳۸

     عام طور پر عرف میں یہ ہوتا ہے کہ رعایا حاکم کے ظلم و ستم سے ڈرتی ہے جب کہ میں خود پراپنی رعایا کے ستم سے خوفزدہ ہوں۔

جو کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دورۂ حلافت کے حالات پر غور کرے تو وہ یہ سمجھ جائے گا کہ آنحضرت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں جو کچھ تھا آپ وہ نہیں کر سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت کو حق وحقیقت سمجھنے والے بہت کم تھے اور اکثر لوگوں کا آنحضرت کے بارے میں ویسا عقیدہ نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہئے تھااور وہ آپ سے پہلے خلفاء کو آپ سے افضل سمجھتے تھے اوران کا یہ خیال تھا کہ افضلیت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔ان کی نئی نسل بھی  اپنے آباء  و اجداد کی تقلید کرتی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا: اگر ہمارے آباء و اجداد ان کی فضیلت سے آگاہ ہوتے تو انہیں دوسروں پر مقدم کرتے اور وہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کوپہلے خلفاء کی رعایا اور پیروکار سمجھتے تھے! آنحضرت کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے بھی اکثر کی بنیاد تعصب، جوش، تکبراورعربی گھمنڈتھا نہ کہ وہ عقیدے اور دین کی وجہ سے جنگ کر رہے تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں  مجبوراً برداشت کررہے تھے اور آپ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔(۱)

''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     کتاب''الغارات'' میں لکھتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہر دن مسجد کوفہ میں ایک مقام پر تشریف فرما ہوتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی انگلیاں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے اور فرماتے تھے: صرف کوفہ باقی رہ گیا ہے کہ جس میں میرا حکم چلتا ہے ۔ اور فرمایا:

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ ددر نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۳۷۰

۲۳۹

لعمر أبیک الخیر یا عمرو انّن           علی وضر من ذا الاناء قلیل

     ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے کوفہ؛ اب صرف تم ہی میرے پاس ہو ،کاش کہ تو بھی نہ ہوتا اور مجھے اپنے طوفانوں سے پریشان نہ کرتا ۔ اے کوفہ؛ تمہارا منہ کالا ہو۔

     نیز آپ نے فرمایا:اے لوگو؛بسر بن ارطاة یمن پر ظاہر ہوا اور اب عبیداللہ عباس اور سعید بن نمران آگئے ہیں ۔ میں دیکھ رہا کہ یہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی اور باطل غالب آجاے گا؛لیکن تم لوگ حقپر ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہو۔وہ لوگ اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امام کی بات نہیں سنتے ۔وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں   لیکن تم لوگ امانت میں خیانت کرتے ہو۔

     میں نے فلاں شخص کو ولی بنایا اور اس نے خیانت کی،مسلمانوں کے مال اور غنائم لے کر معاویہ کی طرف چلا گیا۔دوسرے کو حاکم بنایا تو اس نے بھی اسی کی طرح خیانت کی۔اب مجھے اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ میں ایک تازیانہ بھی تم لوگوں کے پاس بطور امانت رکھوں۔

     میں گرمیوں میں تم لوگوں سے کہوں کہ جہاد کے لئے جاؤ تو کہتے ہو:اب موسم گرم ہے ،کچھ تأخیر کر دیں تاکہ گرمیاں گذر جائیں۔اگر سردیوں میں جنگ پر جانے کا حکم دوں تو کہتے ہو کہ ابھی موسم سرد ہے ،کچھ مدت تک رک جائیں تا کہ سردیاں گذر جائیں۔

     خدایا:وہ مجھ سے تھک گئے ہیں اور میں ان سے تھک گیا ہوں، مجھے ان سے بہتر (امت) عطا کر اور ان پر مجھ سے برا (حاکم) مسلط کر۔ان کے دل کو پانی کر دے ؛جس طرح نمک پانی میں گھل ہو جاتا ہے۔

     حارث بن سلیمان کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     یہ قوم تم لوگوں پر غالب آ ئے گی؛کیونکہ تم لوگمتحد نہیں ہو اور حق کا دفاع نہیں کرتے ہو ، لیکن وہ لوگ اپنے باطل

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346