معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 161799
ڈاؤنلوڈ: 7005

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 161799 / ڈاؤنلوڈ: 7005
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پرمتحد ہیں ۔ جب بھی تم لوگوںمیں  ک  وئی ایسا امام ہو کہ جو لوگوں میں عدالت سے کام لے اور مال تقسیم کرنے میں سب کو یکساں دیکھے تو اس کی اطاعت کرواور اس کی باتوں کو سنو۔ لوگوں میں نظم و ضبط نہیں پایا جاتا مگر یہ کہ ان میں کوئی امام ہو،خواہ وہ امام اچھا عمل کرے یا برا عمل کرے۔اگر وہ نیک  کام کرے تو اس کے اپنے لئے بھی اچھا ہے اور لوگوں کے لئے بھی اور اگر بدکار ہو تو اس کی حکومت میں مؤمن خدا کی عبادت میں مشغول ہو جائیں اور فاسق و فاجر اس وقت تک کام کرتے رہیں گے جب تک ان کے لئے معین ہواہو۔

     اے لوگو!میرے جانے کے بعد تم لوگوں کو حکم  دیا جاے گا کہ مجھ پر سبّ و شتم کرو اور مجھ سے بیزاری  و برائت اختیارکرو۔جو بھی مجھپر سبّ و شتم کرنا چاہے اس میں کوئی مانع نہیں ہے،لیکن مجھ  سے برائت اختیار  نہ کرنا کیونکہ میرا دین اسلام ہے۔

ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:لوگ ایک دوسرے سے ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کی مذمت کی  اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے، اشراف اور بزرگ افراد آپس میں مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے اور پھر وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:یاامیر المؤمنین ؛آپ کسی شخص کو معین کریں اور اس کے ساتھ ایک لشکر بھیج دیں تا کہ اسے سبق سکھا سکیں،اور اس کے بعد بھی آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی اطاعت کریں گے اور آپ کی  خوشنودی کے برخلاف کوئی فعل انجام نہیں دیں گے۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے اس مرد کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا مگر یہ کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو مار دے اور اسے اس ملک سے باہر نکال دے،اب تم لوگ استقامت کا مظاہرہ کرو اور میری باتوں کو سنو اور خود کو شامیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار کرو۔

۲۴۱

     اسی دوران سعید بن قیس ہمدانی اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛خداکی قسم؛اگر آپ ہمیں قسطنطنیہ یا روم کی طرف پیدل بھی بھیج دیں اور ہمیں کوئی تنخواہ اور کوئی فائدہ بھی نہ دیں  پھر بھی میں اور میری قوم آپ کی مخالفت نہیں کرے گی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     تم سچ کہہ رہے ہو،خدا تمہیں جزاء خیر عطا فرمائے۔

     اس کے بعد زیاد بن خصفہ اور وعلة بن مخدوع اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛ہم آپ کے شیعہ ہیں اور آپ کا حکم مانتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہماری کوئی مخالفت نہیں ہے۔

     فرمایا: ہاں؛ تم سچ کہہ رہے ہو اور اب خود کو شام جانے کے لئے تیار کرو۔

     لوگوں  نے اپنی اطاعت کاا علان کیا اور آپ نے فرمایا:کسی ایسے شخص کے بارے میں بتاؤ جوعراقی سرحدوں کی طرف سے لوگوں کو جنگ کی دعوت دے۔

     سعید بن قیس نے کہا:خدا کی قسم؛ عربوں کے اس جنگی امور کے لئے ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جو مکمل طور پر آپ کا دفاع کرے گا اور آپ کے دشمنوں سے سختی سے پیش آئے گا۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: وہ شخص کون ہے؟

     کہا: معقل بن قیس ریاحی۔

     آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے بلایا اور اور کوفہ کی سرحد کی طرف بھیجا اور ابھی تک وہ واپس نہیں آیا تھا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام  شہید ہو گئے۔(1)

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 333

۲۴۲

  ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     معاویہ نے اپنے دوستوں میں سے کسی کو کوفہ بھیجا تھا تا کہ مروان اسے وہاں  پہنچائے ۔ اس بارے میں لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کیں یہاں تک کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام تک یہ بات پہنچی اور آپ نے اپنی ایک نشست میں فرمایا:

     تم لوگ معاویہ کی موت کے بارے میں بہت باتیں کر رہے ہو ؛ خدا کی قسم وہ تب تک نہیں مرے گا کہ جب تک میری سلطنت میں بھی تصرف نہ کر لے ۔ جگر خور کا یہ بیٹا مجھ سے یہ سنا چاہتا ہے اور اس نے کسی کو بھیجا ہے تا کہ وہ اپنی موت کی خبر پھیلائے اور اپنے مستقبل کے بارے میں میرے نظریہ کو یقین سے جان لے؟

     پھر آپ نے بہت سے کلمات ارشاد فرمائے اور پھر معاویہ اور اس کی نسل میں سے یزید  و مروان اور اس کے بیٹوں کا تذکرہ کیا اور پھر حجاج اور ان ساتھ ہونے والے تشدد کو بیان فرمایا۔

     لوگ رونے لگے اور ان کے گریہ وزاری کی آوازیں اور زیادہ ہو گئیں اور ان میں سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا: اے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام !آپ نے بہت بڑے حادثات کے بارے میں بتایا ہے ، آپ کو خدا کی قسم؛کیا یہ سب واقع ہوں گے؟

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی قسم؛یہ سب واقع ہوں گے اور مجھ سے جھوٹ نہیں  بتایا گیا اور میں بھی جھوٹ نہیں بولتا۔

     بعض لوگوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛ یہ سب کب واقع ہو گا؟فرمایا:جب یہ رنگین ہو جائے۔ اور پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ اپنی ڈاڑھی مبارک اور دوسرا ہاتھ سر اقدس پر رکھا اور لوگوں  نے بہت گریہ کیا، پھر آپ نے فرمایا:

اب مت رو کیونکہ تمہیں میرے بعد بہت رونا ہے؟

اس کے بعد کوفہ کے اکثر لوگوں نے مخفی طور پر معاویہ کو اپنے بارے میں خط لکھا اوروہ اس کی حوصلہ افزائی کا وسیلہ بنے! کچھ دن ہی گذرے تے یہ سانحہ (شہادت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ) رونما ہوا۔(1)

--------------

[1]۔ مروج الذہب: ج۱ ص۷۷۷

۲۴۳

جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس کے  اثرات کو بیان کرنے سے پہلے ہم جناب عمار یاسر کی عظمت کے بارے میں کچھ مطالب ذکر کرتے ہیں:

     جناب عماریاسر نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی  اور آپ جنگ بدر،احد،خندق اور بیعت رضوان میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہتھے اور آپ نے اسلام کا دفاع کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا اور مشرکوں سے جنگ کی۔رسول اکرم(ص) جناب عمار کے متعلق بات کرتے تھے اور فرماتے تھے:

     صحیح راستہ عمارسے سیکھو اور ان کی پیروی کرو۔

     خالد بن ولید کہتا ہے:میرے اور عمار کے درمیان گفتگوہوئی اور میں نے ان کے ساتھ غصہ سے بات کی ، عمار رسول خدا(ص) کے پاس گئے اور میری شکایت کی ، خالد بھی گیا اور اس نے بھی شکایت کی اور عمار کے بارے میں کچھ سخت کلمات کہے ، پیغمبر اکرم(ص) خاموش ہو گئے اور آپ نے کچھ نہیں کیا۔اسی دوران عمار بن یاسر رونے لگے۔     عمار نے کہا:یا رسول اللہ!آپ نے خالد کی باتیں سنی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔     اس وقت رسول خدا(ص) نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:

     جو بھی عمار سے دشمنی رکھے ،اس نے خدا سے دشمنی کی اور جو بھی عمار کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا۔

     خالد نے کہا:میں پیغمبر اکرم(ص) کے پاس سے اٹھ کر باہرچلا گیا اور میں نے عمار سے صلح کر لی اور ان کی رضائیت حاصل کر لی۔(1)

     رسول اکرم(ص) مدینہ میں ابوایوب انصاری کے گھر گئے اور اس کے ساتھ زمین خرید ی،جس میں مسجد اور اپنا گھر بنایا۔(2)

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 492

[2]۔ السیرة النبویّة:ج 4ص106

۲۴۴

     ابن اسحاق نے مسجد بنانے (جسے مسلمانوں نے تعمیر کیا) کے واقعہ کو بیان کرتے  ہوئے خاص طور سے عمار کا نام ذکر کیا ہے۔

     وہ کہتے ہیں: جب عمار یاسر داخل ہوئے تو ان کے کندھوں پر بہت زیادہ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔

     انہوں ے کہا: یا رسول اللہ! مجھے مارڈالا؛ یہ جو چیز خود نہیں اٹھا سکتے وہ میرے کندھوں پر رکھ دیتے ہیں۔

     ام سلمہ - پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ - کہتی ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) نے اپنے ہاتھوں سے ان   کے سر سے بوجھ کو اتارا جب کہ ان کے گھنگھریالے بال تھے .....اور فرمایا:     یہ تمہیں قتل نہیں کریں گے؛ بلکہ ایک باغی گروہ (سرکش اور ظالم) تمہیں قتل کرے گا۔(1)

     یہ ہے رسول اکرم(ص) کا وہ مشہور فرمان جو آپ نے اپنے اس صحابی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس نے فداکاری میں اپنی جان سے بھی دریغ نہ کیا۔     اس مرحلہ کاد قیق مطالعہ ہم پیغمبر اکرم(ص) کا اپنے صحابی کے بارے میں بیان کئے گئے فرمان سے نزدیک ہوں اور ان کی شخصیت کی مکمل طور پر معرفت حاصل کریں ، ان میں سے کچھ یہ ہے:

     ان کے بینظیر کردار و رفتار،روشن نقش اور سب سے بڑھ کر رسول اکرم(ص) سے ان کا مضبوط تعلق ہے۔ اس بارے میں -زہری کی روایت کی بنیاد پر-جس زمین پر عمار نے گھر بنایا تھا،وہ زمین انہیں رسول خدا نے عطا کی تھی۔(2)

     جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے کی بنیاد پر اخوت و بھائی چارہ کا اعلان ہوا تو اس موقع پر  انصار میں سے ایک جلیل القدر صحابی جناب حزیفہ بن یمان کوعمار کا بھائی قرار دیا گیا۔(4)(3)

--------------

[1]۔ السیرة النبویّة:ج2ص102

[2]۔ الطبقات الکبری:ج3ص250

[3]۔ الطبقات الکبری:ج3 ص 250

[4]۔ رفتار شناسی امام علی علیہ السلام در آئنہ ٔ تاریخ: 196

۲۴۵

     اس بناء پر رسول خدا(ص) کے صحابیوں میں سے عمار یاسر ایک  نمایاں چہرہہے جنہیں مسلمانوں میں بہت زیادہ محبوبیت حاصل ہے۔

     رسول خدا(ص) نے جناب عمار یاسرکے ماضی، شہرت، محبوبیت اور تمام خصوصیت کی وجہ سے لوگوں میں عمار کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں پیشنگوئی بیان فرمائی تا کہ اس کے ذریعہ تمام مسلمان حق و باطل کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکیں اور یہ جان لیں کہ جس گروہ میں بھی عمار ہوں گے وہ راہ ہدایت پر ہو گا اور دوسرا گروہ گمراہی و ضلالت کی راہ پر گامزن ہو گا۔

     جناب عمار کی ایک خصوصیت آپ کی خطابت تھی ۔ آپ اپنے خطاب کی طاقت سے حقائق کو واضح کر تے تھے اور دلیل و برہان کے ذریعہ افراد کی رہنمائی کرتے تھے۔ حق کی حمایت کی راہ میں انہیں کوئی خوف و ملال نہیں تھا اور وہ کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے کلام کی تأثیر سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

     ابن ابی الحدید نے نصر بن مزاحم سے جناب عمار یاسرکی رہنمائی کے واقعہ کو اس طرح سے بیان کیا ہے:

جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

     نصر بن مزاحم کہتے ہیں: یحییٰ بن یعلی نے صباح مزنی سے اور انہوں نے حارث بن حصن سے، زید بن ابی رجاء سے اورانہوںنے اسماء بن حکیم فزاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

ہم جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ اور عمار یاسر کے پرچم تلے تھے۔ظہر کے وقت ہم نے سرخ چادرسے اپنے لئے سایہ فراہم کیا ہوا تھا ۔ صفوں کے پیچھے سے گزرنے والا ایک شخص کہ جیسے وہ انہیں شمار کر رہا ہو، وہ آگے آیا اور میرے پاس آ کر اس نے پوچھا: تم میں سے عمار یاسر کون ہے؟

     عمار نے کہا: میں عمار ہوں۔

     اس نے پوچھا:وہی کہ جس کا دشمن ابویقظان ہے؟

     کہا: ہاں

۲۴۶

     اس شخص نے کہا:میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کیا سب کے سامنے کہوں یا تنہائی میں؟

     عمار نے کہا: تم جس طرح چاہو کہہ سکتے ہو۔

     اس نے کہا:میں سب کے سامنے کہتا ہوں۔

     عمار نے کہا: کہو۔     ہم جس حق پر ہیں،اس کی وجہ سے میں اپنے خاندان سے نکل آیا ہوںاور مجھے اس گروہ کے گمراہ ہونے میںبھی کوئی شک نہیں ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ باطل پر ہیں اور کل رات تک میں اسی حال میں تھا لیکن کل رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ آگے آئی اور اس نے اذان کہی اور اس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد(ص) خدا کے رسول ہیں اور اذان کے ساتھ نماز قائم ہو گئی ،ان کے مؤذن نے بھی ایسے ہی کیا اور نماز کی صفیں کھڑی ہو گئیں ،ہم نے ایک ساتھ نماز ادا کی اور ایک ساتھ قرآن کی تلاوت کی اور ایک ساتھ دعا پڑھی۔کل رات سے میں شک میں مبتلا ہوں اور میں نے کس حال میں رات گذاری ہے یہ خدا ہی جانتا ہے کہ مجھ پر کیا گذری۔جب رات سے صبح ہوئی تو میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور یہ سارا واقعہ آنحضرت سے بیان کیا۔آپ نے فرمایا:     کیا تم نے عمار یاسر کو دیکھا ہے؟

     میں نے کہا:نہیں۔

     فرمایا:ان سے ملو اور دیکھو کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ن کے فرمان کی پیروی کرو۔     لہذا اس کام کے لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں؟عمار نے اس سے کہا:کیا تم اس شخص کو جانتے ہو جو میرے سامنے سیاہ رنگ کا پرچم پکڑ ے کھڑا ہے؟وہ عمرو عاص کا پرچم ہے اور میں  نے پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ اس سے تین بار مقابلہ کیا ہے اور جنگ کی ہے اور یہ چوتھی مرتبہ ہے اور پہلے کی بنسبت اس بار نہ صرف بہتر ہے بلکہ یہ ان سب سے زیادہ بدتر اور تباہ کرنے والا ہے۔ کیا تم نے خود جنگ بدر،احد اور حنین(1) میں شرکت کی یاتمہارے باپ نے شرکت کی کہ جس نے تمہیں یہ بتایا ہو؟

--------------

[1] ۔ حالانکہ متن اور''وقعة صفین'' میں یونہی ہے لیکن حنین کی بجائے احزاب صحیح ہے کیونکہ جنگ حنین میں عمروعاص ظاہری طور پر مسلمان ہو چکا تھا۔وہ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوا تھا۔

۲۴۷

     اس نے کہا: نہیں۔

     عمار نے کہا:ہمارا مقام اور پرچم وہی مقام اور وہی پرچم ہے جو رسول خدا(ص) کا جنگ بدر،احد اور حنین میں تھا اور اس گروہ کا پرچم وہی احزاب کے مشرکوں کا پرچم ہے۔     کیا تم وہ لشکر اور اس میںموجود افراد کو دیکھ رہے ہو؟خدا کی قسم؛میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کااور معاویہ کے ساتھ مل کر ہمارے علم سے جنگ کرنے کے لئے آنے والوں  اور ہم سے الگ ہونے والوں (جن کے ہم معتقد تھے اور ہم ایک ہی جسم تھے )کا سر کاٹ دوں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔خدا کی قسم؛ان سب کا خون بہانا چڑیا کا خون بہانے سے بھی زیادہ حلال ہے۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو۔

     اس نے کہا:نہیں؛ بلکہ یہ حلال ہے۔

     عمار نے کہا:اسی طرح ان کا خون بھی حلال ہے۔کیامیں نے تمہارے لئے یہ مسئلہ واضح کر دیا۔

     اس نے کہا:جی ہاں۔

مار نے کہا:اب جسے چاہتے ہو منتخب کر لو۔

     وہ شخص واپس لوٹ گیا،عمار یاسر نے دوبارہ اسے بلایا اور کہا:بیشک بہت جلد ممکن ہے کہ یہ اپنی تلواروں سے تم پر ایسا وار کریں کہ تمہارے باطل کے پیروکار بھی شک و تردید کا شکار ہو جائیں اور کہیں:اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ہم پر کبھی کامیاب نہ ہوتے۔

     خدا کی قسم؛یہ لوگ مکھی کی آنکھ کو آلود کرنے والے تنکے کے برابر بھی حق پر نہیں ہیں۔اور خدا کی قسم!اگر ہم اپنی تلواروں سے ان پر ایسا وار کریں کہ انہیں ہجر(2) کے صحراؤں تک بھگا دیں ۔اور ضرور یہ جان لو کہ ہم حق پر ہیں اور یہ باطل پر۔(3)

--------------

[2] ۔ ہجر؛بحرین کی وہی سرزمین ہے کہ جہاں کی کھجوریں زیادہ  اور اچھی ہونے کے لحاظ سے مشہور ہیں ۔ ترجمہ ''تقویم البلدان:137''

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج3ص135

۲۴۸

جنگ صفین میں عمار یاسرکا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

     قابل توجہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے سپہ سالار عمار یاسر نہ صرف اپنے کلام سے عراق کی فوج کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ شام کے لشکر اورعمرو عاص جیسے افراد سے سے خطاب کرتے تھے اور انہیں ان کے شرمناک انجام سے خبردار کرتے تھے۔

     ابن ابی الحدید کھڑے ہوئے  نصر بن مزاحم منقری سینقل کرتے ہیں:

     جنگ صفین میں عمار یاس ر کھڑے ہوئے اور کہااے خدا کے بندو! میرے ساتھ مل کر اس قوم سے جنگ کرنے کے لئےکھڑے ہو جاؤ کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے ظالم شخص کے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو خود ظلم و ستم کرتا تھا۔ بیشک اسے اچھے لوگوں نے قتل کیا ہے کہ جو اسے ظلم و ستم اور تجاوز کرنے سے منع کرتے تھے اور اسے نیکی کا حکم دیتے تھے۔یہ لوگ ( اگر دنیا کے بدلے ان کا دین چلا بھی جائے تو یہ پھر بھی اس کو کوئی اہمیت نہ دیتے ) ہم پر اعتراض کرتے ہیںاور کہتے ہیں:کیوں اسے قتل کیا؟

     ہم نے کہا: دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے اسے قتل کیا ہے۔

     وہ کہتے ہیں: اس نے کوئی بدعت  ایجاد نہیں کی تھی اور اس کی یہ وجہ ہے کہ اس نے ان کے ہاتھوں میں دنیا دے دی تھی ؛ کہ جیسے یہ صرف کھاتے اور چرتے ہیں اور اگر پہاڑ بھی آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کے بکھر جائیں تویہ اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔

     خدا کی قسم! میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ خون کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس قوم نے دنیا داری کا مزہ چکھا ہے اور اس کو شیریں پایا ہے۔ جب کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر صاحب حق ان کے اوپر حاکم ہو جائے تو جو یہ کھاتے اور چرتے ہیں ،اس کے اور ان کے درمیان رکاوٹ ایاد کر دے۔

     اس قوم کا اسلام میں سے کو واسطہ نہیںہے کہ جس کی وجہ سے یہ حکومت کے حقدار ہوں۔انہوں نے اپنے پیروکاروں کو

۲۴۹

دھوکہ دیا ہے اور انہیں صرفسبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ کہیںہمارا پیشوا مظلوم مارا گیا ہے تا کہ اس وجہ سے یہ جابر بادشاہ بن جائیں ۔ اور یہ ایسا دھوکہ ہے کہ جس کی پناہ میں یہ وہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں تم دیکھ رہے ہو۔اگر یہ دھوکہ و فریب نہ ہوتا تو کوئی ایک شخص بھی ان کی بیعت نہ کرتا۔

     خدایا! اگر تو ہماری مدد کرے کہ تو ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے اور اگر تو انہیں حکومت دے تو بندوں میں ان کی پیدا کی گئی بدعتوں کی وجہ سے (آخرت) میں انہیں دردناک عذاب دے۔

     پھر عمار چلے جب کہ آپ کے ساتھی بھی آپ کے ہمراہ تھے اور جب آپ عمرو عاص کے قریب پہنچے تو اس سے کہا:اے عمرو؛تم نے مصر(کی حکومت) کے لئے اپنا دین بیچ دیا؟بدبختی تمہارے ساتھ ہو کہ تم کب سے اسلام سے یہی لینے کے لئے پرتول رہے تھے۔

     عمار یاسرنے پھر بیان کیا:پروردگارا؛تو خود جانتا ہے کہ کہ اگر میں یہ جان لوں کہ تیری رضا و خوشنودی اس میں ہے کہ میں اس دریا میں کود جاؤں،تو میں کود جاؤں گا۔

     خدایا! توجانتا ہے کہ اگر میں یہ جان  لوں کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار کی نوک اپنے پیٹ پر رکھ کے اس پر ٹیک لگاؤ تا کہ وہ میری پشتسے باہر نکل آئے ، تو میں ایسا ہی کروں گا۔

     پروردگارا؛تو نے مجھے جو کچھ سکھایا اسی کے مطابق میں یہ جانتا ہوں کہ آج اس گروہ کے خلاف جہاد کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے کہ جسے میں انجام دوں اور اگر میں یہ جان لوں کہ کوئی دوسرا کام تیری رضائیت کا باعث ہے تو میں وہی انجام دوں گا۔

     نصر کہتے ہیں: عمروبن سعید نے شعبی سے میرے لئے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:

     جناب عمار بن یاسرنے عبداللہ بن عمرو عاص کو آواز دی اور کہا:تم نے اپنا دین دنیا کے بدلے بیچ دیا اور وہ بھی خدا و اسلام کے دشمن (معاویہ) کے کہنے پر ، اور تم نے اپنے باپ کی  ہوا وہوس کے لئے تباہی اختیار کر لی ہے۔

۲۵۰

     اس نے کہا: ایسا نہیں ہے کہ میںشہید مظلوم عثمان کا خون کا تقاضا رہا ہوں!

     عمار نے کہا:ہرگز ایسا نہیں ہے۔میں تمہارے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں اس کی رو سے میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اپنے کسی بھی کام سے خدا کی رضائیت نہیں چاہتے اور جان لو کہ اگر آج تم قتل نہ بھی ہوئے تو کل مر جاؤ گے،اور دیکھ لو کہ جب خدا اپنے بندوں کو ان کے نیت کے اعتبار سے اجر دے گا تو تمہاری کیا نیت ہو گی؟(1)

  جس طرح ہم یہ بیان کریں گے کہ کچھ سنی علماء جیسے سیوطی  نے اپنی کتابوںمیں وضاحت کی ہے کہ جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں متواتر احادیث میں سے ہیں۔ یعنی اس حدیث کے روای اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا اس روایت کو نقل کرنے میں جھوٹ پرا جماع اور ان کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں  نے جھوٹ بولا ہے، یہ حال ہے۔

     قابل توجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حتی کہ عمرو عاص بلکہ معاویہ سے بھی نقل ہوئی ہے!! اگرچہ انہوں نے خود یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس پر اعتنا نہیں کی اور اس کے برخلاف عمل کیا ہے!

 اس حدیث سے آگاہ ہونے کے باوجودان کاحضرت رسول اکرم(ص) کے فرمان کے بر خلاف عمل کرنا آنحضرت کی خلافت وجانشینی کے مسئلہ میں ان کی رسول خدا(ص) کی مخالفت کی دلیل ہے۔

عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

     شبث بن ربعی نے  جنگ صفین میں معاویہ سے اپنی ملاقات کے اہم اور قابل توجہ واقعہ کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں جناب عمار کے قتل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔     ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب میں یوں بیان کیا ہے:     شبث بن ربعی نے معاویہ سے کہا: کیا تم عمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟

معاویہ نے کہا: کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟! اگر سمیہ کا بیٹا میرے ہاتھ آئے تو میں اسے عثمان کے غلام کے سامنے قتل کردوں۔

--------------

[1] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج3 ص131

۲۵۱

     شبث نے کہا:اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے؛تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو گی مگر یہ کہ بہت سے سر تن سے جدا ہو جائیں اور زمین آسمان کے کنارے تم پر تنگ ہو جائیں۔

     معاویہ نے کہا:اگر ایسا ہوا تو تجھ پر زیادہ تنگ ہو جائیں گے۔(1)

     اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے کہ معاویہ نے بھی پیغمبر اکرم(ص) کی متواتر روایت-کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:عمار کو ظالم و ستمگر گروہ قتل کرے گا''-کونقل کیا ہے۔جب شبث بن ربعی نے کہا:کیا تمعمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟تومعاویہ نے کہا:کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟!اس سے رسول خدا(ص) کے فرمان کے سامنے معاویہ کی واضح و آشکارمخالفت ثابتہوجاتی ہے۔

     جنگ صفین میں  عمار کے قتل کے بارے میں معاویہ کا شبث بن ربعی کوجواب دینے میں اہم نکتہ موجود ہے کہ معاویہ نے حتی رسول خدا(ص) کے فرمان اور عمار کے قاتلوں کے بارے میںآنحضرت کی پیشنگوئی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔

     جناب عمار کی عظمت، درخشاں کارنامہ اورنمایاں  چہرہ سب کے نزدیک ثابت ہے لیکن معاویہ نے اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچنے اور حکومت و طاقت کے حصول کے لئے ان کا خون بہایا اور خود کو جہنم کی طرف روانہ کیا۔

     جناب عمار کی شخصیت اتنی جلیل القدر اور اہمیت کی حامل ہے حتی کہ ان کے زمانے میں سب سے زیادہ ظالم اور خونخوار شخص یعنی حجاج بن یوسف ثقفی بھی معتقد تھا:اگردنیا کے سب لوگ عمار کو قتل کرنے میں شریک ہوں تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔

     ابن اثیر جو کہ علماء اہلسنت میں سے ہیں، یہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

     بعض کہتے ہیں: ابوالغازیہ کہ جس نے عمار کو قتل کیا تھا،وہ حجاج بن یوسف ثقفی کے زمانے تک زندہ تھا۔وہ ایک دن حجاج کے پاس گیا۔حجاج نے اس کا احترام کیا اور پوچھا:تم نے سمیہ کے بیٹے (عمار)کو قتل کیا ہے؟اس نے کہا:ہاں۔

--------------

[1]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج5 ص1869

۲۵۲

     حجاج نے کہا:جو کوئی بھی روز قیامت کسی بزرگ شخص کو دیکھنا چاہئے تو اس شخص کو دیکھے کہ اس نے سمیہ کے بیٹے کو قتل کیا ہے!

     اس دوران ابوالغازیہ نے حجاج سے کچھ تقاضا کیا۔لیکن حجاج نے وہ پورا نہ کیا۔

     ابوالغازیہ نے کہا:ان کے لئے دنیا ہموار کر رہے ہیں اور ہمیں اس میں سے ایک پائی بھی نہیں دیتے  اور پھر گمان کرتے ہیں کہ ہم روز قیامت بزرگوار ہوں گے!

     حجاج نے کہا:ہاںخدا کی قسم؛جس کے دانت احد کے پہاڑ،اس کی ران وَرِقام کے پہاڑ اور اس کا گروہ  مدینہ وربذہ کی طرح ہو ،وہ قیامت کے دن بزرگوار بن جائے گا! خدا کی قسم کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگ عمار کے خون میں شریک ہوتے تو سب کے سب جہنم میں جاتے۔

     عبدالرحمن سلَمی کہتے ہیں:جب عمار قتل ہو گئے تو میں معاویہ کی فوج میں گیا کہ کیاجنابعمار کے قتل سے ان میں بھی اسی طرح شور مچا ہوا ہے کہ جس طرح ہم میں شور بپا تھا؟

     معاویہ کے سپاہیوں کے ساتھ ہمارا یہ حال تھا کہ جب بھی جنگ کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تھی تو وہ ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ معاویہ،عمرو عاص،ابوالأعور اور عبداللہ بن عمرو گفتگو میں مصروف تھے۔     میں نے اپنا گھوڑا ن کی طرف دوڑایا تا کہ ان کی  کسی بات سے محروم نہ رہ جاؤں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اپنے باپ سے کہا:بابا ان؛آپ  نے اس شخص کو اس دن قتل کیا ہے ، کیا آپ جانتے ہیں پیغمبر اکرم(ص) نے کیا فرمایا تھا؟اس نے کہا: کیا فرمایا تھا؟

     کہا:کیا اس طرح نہیں تھا کہ جب مسجد نبوی تعمیر کی جا رہی تھی تو لوگ ہر دفعہ ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور عمار ہر بار دو اینٹیں اٹھاتے تھے اور انہوں نے اس کام میں اتنی کوشش کی کہ بے ہوش ہو گئے۔پیغمبر اکرم(ص) ان کی بالین کے پاس آئے اور

۲۵۳

ان کے چہرے سے گردو خاک صاف کی اور فرمایا:

     اے سمیہ کے بیٹے؛ شاباش ہے تجھ پر، دوسرے ہر مرتبہ ایک اینٹ اٹھاتے ہیں اور تو ہر بار دو اینٹیں اٹھاتا ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود ظالموں کا لشکرتمہیں قتل کر دے گا۔

     عمرو عاص نے معاویہ سے کہا: دیکھ رہے ہو کہ میرا بیٹا عبداللہ کیا کہہ رہا ہے؟

     معاویہ نے پوچھا: کیا کہہ رہا ہے؟

     عمرونے اس سے بھی یہی واقعہ بیان کیا ۔معاویہ نے کہا: کیا ہم نے اسے قتل کیا ہے؟! اسے اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!     شامی اپنے خیموںسے باہر آئے اور سب نے کہا: بیشک عمار کو اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!

     میں  نے جانتا تھا کہ کون زیادہ حیرت زدہ ہیں ، وہ یا یہ؟(1)

     عمار کے بارے میں آپظالم اور خونخوارحجاج بن یوسف  کےقول سے بھی آگاہ ہوئے۔ عبداللہ بن عمرو عاص کہ جو معاویہ کے لشکر کے رہنماؤں میں سے تھا،اس کا بھی عمار یاسر کے قتل کے بارے میں ایسا عقیدہ تھا۔اب اس واقعہ کی طرف توجہ کریں:

     جناب عمار کے قتل ہوجانے کے بعد دو افراد میں عمار کے لباس اور لوازمات (جو میدان جنگ میں عمار کے پاس تھے) کے بارے میں جنگ و نزاع ہو گیا،وہ دونوں عبداللہ بن عاص کے پاس آئے تا کہ وہ ان کااختلاف برطرف کرے۔

     عبداللہ نے کہا:وای ہو تم پر!میرے پاس سے دور ہو جاؤ،رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا:

     قریش کوعمار سے کیا کام؟عمار انہیں جنت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور وہ اسے آگ کی طرف دعوت دے رہے ہیں، ان کا قاتل اور ان کے لباس و لوازمات لے جانے والے جہنمی ہیں۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج5ص1895

[2]۔ الغارات و شرح اعلام آن: 514

۲۵۴

 جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

     جناب عمار کی شہادت کے بارے میں روایات تواتر کی حد تک ہیں اور کئی اہلسنت علماء نے اس کی تصریح کی ہے ۔ ابوبکر، عمر، عثمان، عائشہ، معاویہ، عمرو عاص، حجاج اور اہلسنت کے دوسرے بے شمار سے بزرگوں اور رہبروں نے یہ روایت نقل کی ہے۔اسی طرح بخاری اور مسلم جیسے افراد نے یہ روایت اپنی صحاح میں ذکر کی ہے۔ اب ہم ان کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     بخاری نے اپنی صحیح میں عکرمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:ابن عباس نے مجھے اور اپنے بیٹے علی سے کہا:ابوسعید کے پاس جاؤ اور اس کی احادیث سنو۔

     عکرمہ کہتے  ہیں:ہم ابوسعید کے پاس گئے جب کہ وہ اپنے باغ میںباغبانی میں مصروف تھا۔ابوسعید نے ہمیں دیکھنے کے بعد اپنی عباء اٹھائی اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

     باتوں باتوں میں حضرت رسول اکرم(ص) کی مسجد کی تعمیر کی بات آئی تو ابوسعید نے کہا: ہم ہر بار ایک اینٹ اٹھا کر لے جاتے تھے لیکن عمار دو اینٹیں اٹھاتے تھے،اس دوران پیغمبر اکرم(ص) متوجہ ہوئے تو آپ نے ان کے کپڑوں کی خاک جھاڑی اور فرمایا:

     عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا؛ عمار انہوں جنت کی طرف دعوت دیں گے  لیکن ''فئہ باغیہ'' (یعنی باغی گروہ) انہیں جہنم کی طرف دعوت دیں گے۔

     اس روایت کو مسلم، طبرانی، ترمذی، حاکم، احمد بن حنبل اور دوسروں نے روایت کیا ہے اور جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو متواتر روایات میں سے قرار دیا ہے۔

     سیوطی کہتے ہیں:شیخین نے یہ روایت ابوسعیدسے،مسلم نے ابوقتادہ سے ،ام سلمہ اور ابویعلی سے،احمد نے عمارسے ،ان کے بیٹے اورعمرو بن حزم اورحزیمۂ ذوالشہادتین سے،طبرانی نے عثمان سے،انس اور ابوہریرہ سے،حاکم نے حذیفہ اور ابن مسعود ،رفای نے ابورافع سے،ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ سے اور جابر بن سمرہ ،ابن عباس،معاویہ،زید بن اوفی،ابوالیسر کعب بن عمرو، زیادکعب بن

۲۵۵

مالک،ابوامامہ،  عائشہ اور ابن ابی شیبہ نے عمرو بن عاص  اور اس کے بیٹے عبداللہ نے نقل کی ہے۔

     شافعی کہتے ہیں: صحابیوں میں سے یہ ستائیس افراد ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور ان میں حزیمہ بھی شامل ہیں کہ جو صحابیوں کی جگہشمار کئے جاتے ہیں۔

     حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں: متواتر رویات میں ہے کہ رسول خا(ص) نے فرمایا:

     ظالموں اور ستمگروں کا گروہ (فئہ باغیہ)عمار کو قتل کرے گا۔

     یہ موضوع اخبار غیبیہ میں سے ہے کہ حقیقت میں آنحضرت کی نبوت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ حدیث صحیح ترین روایات میں سے ہے۔

     ابن دحیہ کہتے ہیں:کسی نے بھی اس حدیث پر کوئی اشکال و اعتراض نہیں کیا اور اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو معاویہ اسے ردّ کر دیتا اور اس کا انکار کر دیتا ۔

     ابن حر کا کہنا ہے:اس روایت کو اصحاب کے ایک گروہ نے نقل کیا ہے اور ان کے نام ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:اس حدیث میں- کہ جو اخبار غیبیہ میں سے شمار کی جاتی ہے-واضح طور پر نبوت کی نشانیاں موجود ہیں اور یہ عمار کے لئے بھی بہت بڑی فضیلت ہے۔     سب جانتے ہیں کہ عمار جنگ صفین میں قتل ہوئے،اور عمار صفین میں امیر  المؤمنین علی علیہ السلام کی فوج میں تھے اور معاویہ کے طرفداروں نے آپ کو قتل کیا۔اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ''باغی''تھا جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیتا تھا اور جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلائے وہ لعنت کا  حقدار ہے اور قیامت کے دن بے یارومددگار اورعذاب میں گرفتار ہو گا اور کالے چہرے کے ساتھ محشور ہوگا۔قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے:

    (وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ ِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُونَ ، وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِیْ هَذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِیْنَ) (1)

--------------

[1]۔ سورۂ قصص،آیت:41 اور 42

۲۵۶

     اور ہم نے ان لوگوں کوجہنم کی طرف دعوت دینے والا پیشوا قرار د ے دیا ہے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔اور دنیا میں بھی ہم نے ان کے پیچھے لعنت کو لگادیا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کے چہرے بگاڑ دیئے جائیں گے ۔

     اس آیت میں''مقبوح''سے مرادوہ ہے کہ جو خیر سے دور ہو۔

     معاویہ نے صفین کے دن مکر و فریب کیا تا کہ اس حدیث کے مضمون سے اپنا دامن بچاسکے اور اس پر اس کے صحابی کوئی اعتراض و اشکال نہ ہوکریں،لہذا اس نے کہا:

     میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اسے اس نے قتل کیا کہ جس نے انہیں ان کے گھر سے باہر نکالا اور جو انہیں اس جنگ میں لے کر آئے!اس فریب اور دھوکہ سے اس نے اپنے ساتھیوں کی بغاوت سے نجات حاصل کی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس کے ردّ میں فرمایا:

     اگر ایسی بات ہے تو پھر اس بناء پر سید الشہداء حمزہ کے قاتل رسول خدا (ص) ہوں گے کیوں  کہ وہ انہیں گھر سے باہرلے کر آئے اور انہیں جنگ احد میں شریک کیا اور آخرکار قتل ہو گئے۔

     اس کلام کے بعد معاویہ لاجواب ہو گیا اور اس کاکوئی جواب نہ دے سکا۔

     معاویہ جو کہ بہت چالاک ، مکار اور دھوکہ باز تھا،اس نے دوسری مرتبہ پھرحدیث کا دوسرا معنی کیا اور کہا:جی ہاں؛فرقۂ باغیہ ہم ہی ہیں کہ جنہوں نے عثمان کے خوان کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا۔

     معاویہ نے باغیہ کو ''بغای''سے لیا کہ جس کے معنی طلب کرناہے اور اس طرح اس نے دوسری مرتبہ اپنے ساتھیوں کو قانع کیا ۔ لیکن معاویہ نے دونوں معنی میں خطا کی ہے ۔ پہلا معنی تو واضح ہے اور اسے ردّ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے معنی میں  اگر ''باغیہ'' کے معنی ''طلب کرنے والا''ہو تو اس کا  کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ حضرت رسول اکرم(ص) نے

۲۵۷

فرمایا:''عمار انہیں جنت کی طرف عوت دیتے ہیں اور وہ عمار کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں''۔ اور یہ واضح ہے کہ یہاں''باغیہ''مذموم بغی کے معنی میں ہے کہ جس سے خدا نے منع کیا ہے جیسا کہ قرآ ن میں آیا ہے:( وَیَنْهَی عَنِ الْفَحْشَاء  وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ (1) اس ''بغی''کا طلب کے معنی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔

     پھر وہ کہتاہے:میرے نزدیک یہ مسلّم ہے کہ معاویہ اپنی مخصوص فہم و فراست (دھاء)  سے یہ جانتا تھا کہ یہ تأویلیں  مکمل طور پر بے ربط ہیں اور ان کا حدیث سے کوئی ارتباط نہیں ہے کیونکہ یہ معنی اس قدر فاسدہے کہ حتی عام افراد بھی اس کے غلط اور بے ربط ہونے سے واقف ہیں۔ضروی تھا کہ  جناب عمار کی شہارت کے بعد معاویہ ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لیتا اور مخالفت سے دستبردار ہو جاتا لیکن اس کی باطنی خباثت اور ذاتی شقاوت نے اسے مجبور کیا کہ اپنی مکاری وعیاری سے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دے ، اور دنیا اور حکومت حاصل کرنے کے لئے یہ باطل تأویلیں پیش کرے۔

     معاویہ اپنے گماشتوں کو راضی رکھنے اور ان سے حقائق چھپانے کے لئے ایسے ناروا مطالب بیان کرتا ، افتراء و بہتان کے ذریعہ لوگوں کو راضی رکھتا اور لوگوں کو دوزخ کی طرف دعوت دیتا تھااور خدا سے جنگ کرتا تھا۔

     جناب عمار کے قتل ہو جانے کے بعد کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ معاویہ  ''فئہ باغیہ''کا پیشوا ہے ؛عبداللہ بن عمر بہت زیادہ افسوس کرتا تھا کہ میں نے کیوں معاویہ سے جنگ نہیں کی۔ابوحنیفہ نے عطاء بن ابی ریاح سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتا تھا:مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے کیوں   ''فئہ باغیہ''سے جنگ نہیں کی۔

ابن عبدالبر نے ایک گروہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے وفات کے وقت کہا: مجھے بہت افسوس ہے کہ علی بن ابیطالب علیہما السلام کے ساتھ مل کر ''فئہ باغیہ'' سے جنگ کیوں نہیں ۔اس روایت کو حاکم نے صحیح سند سے نقل کیا ہے۔

     بیہقی نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:مجھے افسوس ہے کہ میں نے فرقۂ باغیہ سے جنگ کیوں نہیں کی کیونکہ خداوند متعال نے فرمایا ہے:

--------------

[1]۔ سورۂ نحل،آیت:90

۲۵۸

     (فَاِن بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َا ِلَی أَمْرِ اللَّهِ) (1)

      اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے ۔

حاکم کہتا ہے:اس بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں اور بزرگ تابعین کے ایک گروہ نے یہ روایات عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہیں۔(2) کتاب ''اعلام نصر مبین در داوری میان اہل صفین'' میںاس روایت (کہ ستمگر گروہ عمار کا قاتل ہے) کی اسناد کو دوسری طرح ذکر کیا ہے۔

     مسلم نے محمدبن مثنّی سے روایت کی ہے اور اس نے بشار سے اور ان دونوں نے کہا ہے:محمد بن جعفر نے تبعہ سے اور اس نے ابومسلمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے ابونضرہ سے سنا کہ ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: مجھے اس نے خبر دی کہ جو مجھ سے بہتر تھا کہ جب عمار خندق کھود رہے تھے تو رسول خدا(ص) اپنا دست مبارک ان کے سر پر پھیر تے تھے اور فرماتے تھے:

     ابن سمیہ  کے لئے افسوس!کہ اسے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔(3)

     اسی طرح یہ روایت اسحاق بن ابراہیم،اسحاق بن منصور ،محمود بن غیلان اور محمد بن قدامہ کی سند سے بھی نقل ہوئی ہے اور سب نے کہا ہے:نضر بن شُمیِّل نے ابومسلمہ سے اسی سلسلہ سند سے ہمارے لئے روایت کی ہے مگر یہ کہ حدیث کی سند میں نصر بھی آیا ہے کہ اس نے کہا:مجھے اس نے خبر دی ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،ابوقتادہ نے کہا:خالد بن حارث نے بھی کہاہے کہ میں نے ابوقتادہ کو دیکھا ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ حجرات، آیت:9

[2]۔ معاویہ و تاریخ:42

[3]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج18ص30

۲۵۹

     مسلم نے کہا ہے کہ محمد بن عمرو جَبَلہ نے محمد بن جعفر(1) اور انہوں نے عقبة بن مکرم العمی اور انہوں نے ابوبکر بن نافع سے عقبی کے قول کو ہمارے لئے روایت کیا اور ابوبکر نے کہا:غنذر(2) نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں  نے کہا ہے:شعبہ نے ہمیں خبر دی ہے اور انہوں نے الخداء(حذاء)سے سنا ہے اور انہوں نے سعید بن ابی الحسن اور انہوں نے اپنی ماں اور انہوں  نے ام سلمہ سے سنا کہ رسول خدا(ص) نے عمار سے فرمایا:تجھے ستمگر گروہ قتل کرے گا۔(3)

     صحیح مسلم میں یہ روایت دوسرے سلسلہ سے موجود ہے کہ سعید نے اپنے بھائی حسن بصری اور اس نے اپنی ماں خیرہ اور اس نے زوجۂ پیغمبر اکرم(ص) ام سلمہ سے نقل کیا ہے۔     حدیث متواتر ہے۔طبرانی نے اسے معجم الکبیر(4) میں نقل کیاہے اور اس کی اصل کتاب دوسو تیس حصوں میں میرے پاس موجود ہے اور وہ دنیا (اسلام) کی سب سے بڑی سند ہے۔ میں نے وہ تمام اصفہان میں پڑھی اور یہ موضوع اپنی کتاب  میں بھی ذکر کیا کہ جس کا نام میں نے ''علم المشہور''رکھا۔

     طبرانی نے یہ حدیث معاویہ کے قول،عمرو عاص ،اس کے بیٹے عبداللہ اور اصحاب پیغمبر (ص) کے ایک دوسرے گروہ سے نقل کی ہے۔      ابوعبدالملک مروان بن عبدالعزیز نے کہا:فقیہ محدث عالم ابوعمران موسی بن عبدالرحمن بن ابی تلید نے ابوعمر بن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کتاب''استیعاب'میں عمار کے حالات زندگی   میں پڑھا ہے کہ:پیغمبر اکرم(ص) سے متواتر روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں فرمایا:عمار کو ستمگر اور ظالم گروہ قتل کرے گا،اور یہ روایت صحیح ترین روایات میں سے ہے۔(5)

--------------

[1]۔ صحیح مسلم: ج18ص41

[2]۔ صحیح مسلم: ج18ص41

[3]۔ صحیح مسلم بہ شرح نووی، کتاب الفتن: ج18ص42

[4]۔ معجم الکبیر:ج1ص330

[5]۔ الاستیعاب في معرفة الأصحاب:ج٢ص٤٨١

۲۶۰