معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 148397
ڈاؤنلوڈ: 5445

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148397 / ڈاؤنلوڈ: 5445
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     ذوالنسبین (کہ خدا ان کی تائید کرے) کہتے ہیں:اس روایت میں کس طرح اختلاف ہے؟ حالانکہ ہم نے دیکھا ہے کہ خود معاویہ بھی اس کا انکار نہیں کر سکا اور اس نے کہا:اسے (عمار) اس نے قتل کیاکہ جو اسے میدان جنگ میں لے کر آیا۔اگر اس حدیث میں کسی شک کی گنجائش ہوتی تو معاویہ اس کا انکار کر دیتا اور اس کے نقل کرنے والے کی تکذیب کرتا یا اسے دھوکہ دیتا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے جب معاویہ کی یہ بات سنی تو یوں جواب دیا:پس رسول خدا(ص) نے حمزہ کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ انہیں میدان جنگ میں لے کر آے تھے۔حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کا کوئی جواب نہیں تھا اور یہ ایک ایسی حجت و دلیل تھی کہ جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا۔حضرت علی علیہ السلام کے اسی قول کومشہور فقہاء نے مدنظر رکھا ہے....۔

     مجدالدین مفتی الفرَق ابوسعید عبداللہ بن عمر بن صفار نے میرے لئے یہ روایت کتاب ''در مدرسہ شادیاخ'' سے پڑھی۔اس نے کہا: کئی محدثین نے  ابوالمعالی سے یہ میرے لئے روایت کی ہے۔     پیغمبر اکرم(ص) سے گذشتہ روایت میں''بؤس ابن سمیہ'' بھی آیا ہے۔کلمہ'' بؤس و بأس'' دونوں انسان کی جان اور حال کی سختی کے معنی میں ہے۔''بؤس''تنوین کے بغیر مصدر ہے جیسا کہ ہم نے ''یا بؤس بن سمیہ'' کی صورت میں بھی اسے روایت کیا ہے؛ یعنی ''وای ہواسے پہنچے والی بؤس اور تکلیفوں کی شدت پر''یہ عمار کے لئے باب ترحم سے کہا گیا ہے کہ جو اس کے آئندہ کے امور میں سے تھا۔کیونکہ پیغمبر خدا (ص) وحی کی مدد سے جانتے تھے کہ آئندہ زمانے میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا۔آپ نے (ابن سمیہ کہنے سے)ایمان کی وجہ سے ان پر اور ان کے ماں باپ پر ٹوٹنے والے مصائب اور مشکلات کو بیان کیا ہے۔     کیونکہ یہ روایت پیغمبر خدا(ص) کے معجزوں اور روایات میں سے ہے کہ آنحضرت نے واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کے بارے میں بتایا ہے اور آپ کا یہ فرمانا: ''الفئة الباغیة'' اس مراد ایک جماعت اور فرقہ ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:''فأیت رأسہ و فأوتہ''جب میں  نے انہیں دو حصہ کر دیا۔   پروردگار عالم فرماتا ہے:(فَمٰا لَکُمْ فِی الْمُنٰافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ) (1) "یعنی دو فرقہ'' یعنی اس بارے میں آپ نے دوگروہوں سے شدید اختلاف کیا۔ اور''الباغیہ'' یعنی ظالم و ستمگر، کیونکہ ''بغی'' ظالم کے معنی میں لیا گیا ہے اور اس کا اصل حسد ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ نساء، آیت: 88

۲۶۱

 رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتےوقت صحابہ و تابعین کے حالات

 ''صحیح بخاری'' میں خالد الحذاء سے اور انہوں نے عکرمہ سے، انہوںنے ابن عباس  اور ان کے بیٹے علیسے روایت کی ہے: یہ دونوں ابوسعید (خدری) کے پاس گئے تا کہ اس سے اس بارے میں حدیث سنیں ۔ اس وقت وہ ایک دیوار تعمیر کر رہا تھا، اس نے اپنی عبا اٹھائی اسے اکٹھاکیا اور گفتگو شروع کی یہاں تک کہ مسجد نبوی کی تعمیر کی بات چلی تو اس نے کہا:

     ہم مسجد کی اینٹیں ایک ایک کر کے اٹھا رہے تھے جب کہ عمار ددو دو اینٹیں اٹھاتے تھے ۔پس رسول خدا(ص) نے انہیں دیکھا تو ان کے چہرے کی دھول کو صاف کیا جب کہ آپ فرما رہے تھے:افسوس ہو عمارکے لئے!یہ انہیں جنت کی طرف دعوت دیں گے اوروہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔

     ابوسعید خدری نے کہا: عمار نے کہا: خدا کی قسم! اس گروہ سے پناہ مانگتا ہوں۔

     کتاب ''صحیح بخاری'' میں ایک دوسرے طریقہ سے بھی یہ حدیث ذکر ہوئی ہے۔(1)

  جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات

     جناب عمار یاسر کی شہادت ، ان کے اور جس گروہ میں وہ ہوں ،اس کے حق پر ہونے کے بارے میں  رسول اکرم(ص) کی  پیشنگوئی کو اس قدر شہرت ملی کہ یہ جنگ صفین میں شام کے لشکرپر بہت اثرانداز ہوئی ۔یہا ں تک کہ جنگ صفین میں  بعید نہیں تھا کہ ایک بڑی تبدیلی رونما ہو جائے اور ان کی راہ میں مانع ہو جائے یاشامی معاویہ کے اطراف سے منتشر ہو کر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو جاتے!لیکن معاویہ اورعمرو عاص کی مکاریاں اور شامیوں کی سادہ لوحی سبب بنی کہ انہوں نے اسی طرح اپنے باطل راستہ کو جاری رکھا۔

     ہم نے جو کچھ کہا وہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی بعض اہلسنت بزرگوں جیسے ابن ابی الحدید نے بھی تصریح کی ہے۔

     اب ہم ان کی عبارت نقل کرتے ہیں اور پھر ہم اس کا تجزیہ و تحلیل کریں گے:

--------------

[1]۔ اعلام نصر مبین ، در داوری میان اہل صفین: 66

۲۶۲

ابن ابی الحدید معتزلی نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں کہا ہے: ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام (جنگ صفین کے دوران) قبیلۂ ہمدان کے کچھ لوگوں، حمیر اور کچھ قحطیوں کے درمیان کھڑے تھے۔اسی دوران شامیوں میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے کہا:کون ابونوح حمیری کی طرف میری رہنمائی کرے گا؟

     ایک شخص نے اس سے کہا:وہ یہیں ہیں، تمہیں کیا چاہئے؟

     اس وقت  ایک شامی شخص کہ جوامام علی علیہ السلام کے محاذ کے نزدیک تھا،اس نے اپنا نقاب ہٹایاتو پتہ چلا کہ وہ ذوالکلاع حمیری ہے کہ جس کے ساتھ اس کی قوم کا ایک گروہ بھی تھا۔

     ذوالکلاع حمیری نے ابونوح حمیری (جو اس کا چچا زاد بھائی تھا) سے کہا: میرے ساتھ آؤ۔

     اس نے پوچھا: کہاں آؤں؟

     اس نے کہا:اس صف سے باہر چلے جائیں۔

     پوچھا:تمہیں کیا کام ہے؟

     اس نے کہا: مجھے تمہاری ضرورت ہے....بالآخر ذوالکلاع نے اپنے چچا کے بیٹے ابونوح سے عہد و پیمان کیا کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ابونوح ، ذوالکلاع کے ساتھ جنگ کی صفوں سے باہر نکل آئے اور پھر ذوالکلاع نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تجھ سے رسول خدا(ص) کی ایک حدیث کے بارے میں پوچھوں اور وہ حدیث یہ ہے:

     عمروعاص نے عمر کی خلافت کے زمانے میں کئی مرتبہ کہا ہے اور اب بھی میں نے اس سے پوچھا ہے،اور اس نے پھرپھر بھی یہی کہا اور وہ کہتا ہے:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

     شام اور عراق کے لوگ جنگ کریں گے ،امام برحق ان لشکروں میں سے کسی ایک لشکر میں ہوں گے اورعمار یاسر بھی انہی کے ساتھ ہوں گے۔

     ابونوح نے کہا:جی ہاں؛یہ صحیح ہے۔خدا کی قسم ؛عمار یاسر ہمارے درمیان ہیں۔

۲۶۳

     ذوالکلاع نے کہا:تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں؛کیا عمار ہمارے ساتھ جنگ کرنے میں سنجیدہ ہیں؟

     ابونوح نے کہا:ہاں،رب کعبہ کی قسم؛وہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے میں مجھ سے زیادہ سنجیدہ ہیں جب کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کاش تم سب ایک ہی جسم ہوتے اور میں اس ایک جسم کو قتل کر دیتا اور دوسرں کو قتل کرنے سے پہلے تمہیں قتل کرتا ،باوجود اس کے کہ تو میرے چچا کا بیٹا ہے!

     ذوالکلاع نے کہا:افسوس ہے تم پر!میرے بارے میں تمہاری  ایسی خواہش کیوں ہے؟حالانکہ خدا کی قسم!  میں تمہیں اور اپنے رشتہ کوکبھی نہیں بھولا اور تم میرے قریبی رشتہ دار ہو اور تمہیں قتل کرنے سے مجھے کبھی بھی خوشی نہیں ہو گی۔

     ابونوح نے کہا: خداوند نے اسلام کے ذریعہ بہت سے قریبی رشتوں کو ختم کر دیا ہے اور بہت سے دور کے رشتوں کو قریب کر دیا ہے۔میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کا قاتل ہوں، کیونکہ ہم حق پر  ہیں اور تم باطل پر۔

     ذوالکلاع نے کہا: کیا تم میرے ساتھ شام کے لشکر میں آسکتے ہو اور میں ان سے تمہاری حفاظت کروں گا اور تم میری پناہ میں ہو گے ،تا کہ عمرو عاص سے ملیں اور اسے عمار کے احوال اور ہمارے خلاف جنگ میں ان کی سنجیدہ کوششوں سے آگاہ کریں؟شاید اس طرح ان دونوں لشکروں کے درمیان صلح قائم ہو جائے؟

     پھر ابن ابی الحدید کہتے ہیں: حیرت کی بات ہے جو قوم عمار کے وجود کی وجہ سے اپنے کام میں شک میں مبتلا ہو گئی لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہوتے ہوئے بھی وہ اس شک و تردید کا شکار  نہیں ہوئے اور یہ استدلال کرتے ہیںچونکہ عمار عراقیوں کے ساتھ ہیں پس حق انہی کے ساتھ ہے لیکن انہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بلند مقام و مرتبہ کا کوئی خیال نہیں کیا،اور وہ عمار کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کے اس فرمان''تجھے سرکش اور ظالم و ستمگر گروہ قتل کرے گا''سے تو ڈرتے ہیں اور اس سے پرہیز کرتے ہیں لیکن انہیں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے رسول خدا(ص) کی اس حدیث ''خدایا؛تو سے دوست رکھ جو اسے(علی علیہ السلام) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو اس سے دشمنی رکھے'' اور اسی طرح دوسری حدیث کہ جس میں آپ نے فرمایا:'' مؤمن کے سوا کوئیتم سے محبت نہیں کرے  گا اور منافق کے علاوہ کوئی تجھ سے  دشمنی نہیں کرے گا''سے کوئی خوف نہیں تھا!

۲۶۴

     یہ موضوع ہمیں اس نتیجہ تک پہنچاتا ہے کہ قریش کے تمام افراد ابتداء ہی سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے نام،آپ کے فضائل کا ذکر اور آپ کی خصائص حسنہ چھپانے کے لئے کوشاں رہے یہاں تک کہ آنحضرت کی  بہت کم فضیلتوں کے علاوہ باقی سب لوگوں کے سینہ سے محو ہو گئیں۔

     بہرحال،ذوالکلاع اور اس کے چچا کا بیٹا ابونوح عمرو عاص کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اسے معاویہ کے خیمہ میں دیکھا جب کہ عمرو عاص کا بیٹا عبداللہ لوگوں کو جنگ کی ترغیب و تشویق دلا رہا تھا۔

     جونہی ذوالکلاع نے عمرو عاص کو دیکھا تو کہا:اے ابوعبداللہ!کیا تم چاہتے ہو کہ ایک خیرخواہ اور عقلمند شخص تمہیں عمار یاسر کے بارے میں بتائے اور جھوٹ نہ بولے؟

عمرو نے کہا: وہ شخص کون ہے؟

     کہا: وہ میرے چچا کا بیٹا ہے اور کوفہ کے لوگوں میں سے ہے۔

     جب وہ ایک دوسرے کے پاس آئے تو عمرو عاص نے ابونوح سے کہا:میں تمہارے چہرے  پر ابوتراب(علی علیہ السلام) کے نشان دیکھ رہا ہوں۔

     ابونوح نے کہا: ہاں؛ پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کے اصحاب کے چہرے کی نورانیت میرے چہرے پر ہے حالانکہ تمہارے چہرے پر ابوجہل اور فرعون کے چہرے کی سیاہی وتیرگی کے نشان ہیں۔

     اسی وقت عمرو عاص کے ساتھیوں میں سے ایک شخص اٹھا تا کہ وہ ابونوح پر حملہ کرے ،لیکن ذوالکلاع اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔

     آخر کا عمروعاص نے پوچھا: اے ابونوح؛تجھے خدا کی قسم کہ جھوٹ نہ بولنا؛کیا عمار یاسر تم لوگوں کے درمیان ہیں؟ ابونوح نے کہا:میں تمیں تب تک نہیں بتاؤں گا کہ جب تک تم یہ نہ بتاؤ کہ تم نے کس لئے صرف عمار کے بارے میں پوچھا حالانکہ پیغمبر اکرم(ص) کے دیگر اصحاب بھی ہمارے ساتھ ہیں اور سب تمہارے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں؟

۲۶۵

عمرو نے کہا:چونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

     بیشک عمار کو ظالم و ستمگرگروہ قتل کرے گااور عمارہرگز حق سے جدا نہیں ہوں گے اور(جہنم کی) آگ عمار کو چھو بھی نہیں سکے گی۔

     ابونوح نے کہا:''لااله الاَّاللّٰه''، ''اللّٰه أکبر'' ! اور پھر فرمایا:خدا کی قسم؛وہ ہمارے درمیان ہیں اور تمہارے خلاف جنگ کر نے میں مصروف ہیں۔

     عمرو عاص نے کہا:اے ابونوح؛ تجھے خدائے واحد کی قسم! کیا وہ ہمارے ساتھ جنگ کرنے میں  سنجیدہ ہیں؟

     کہا: ہاں، خدائے واحد کی قسم!حتی کہ انہوں(عمار یاسر) نے جنگ جمل میں مجھ سے کہا:ہم بصرہ کے لوگوں پر کامیاب ہوں گے،اور وہ کل بھی کہہ رہے تھے:اگر معاویہ کا لشکر ہم پر ایسا وار کرے اور ہمیں ہجر کے نخلستان تک پیچھے ڈھکیل تو پھر بھی ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں اور ہمارے قتل ہونے والے افراد جنت میں اور ان کے مارے جانے والے افراد جہنم میں جائیں گے۔

     عمرو نے کہا:کیا تم عمار سے میری ملاقات کروا سکتے ہو؟

     کہا:ہاں۔

     اس طرح عمرو عاص،اس کے دوبیٹے،معاویہ کا بھائی عتبہ،ذوالکلاع،ابوالأعور سلمی،حوشب اور ولید بن عقبہ سوار ہوئے تا کہ عمار سے ملاقات کر سکیں۔دوسری طرف ابونوح،شرجیلبن ذوالکلاع (جو معاویہ کے  سپاہیوں سے بچانے کے لئے ابونوح کے محافظ تھے) کے ساتھ عمار کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوئے۔

     اسی دوران عمار یاسر،مالک اشترہاشم،بدیل بن ورقاء کے دو بیٹے، خالد بن معمر،عبداللہ بن حجل اور عبداللہ بن عباس کے ساتھ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔

     ابونوح نے اپنے چچاکے بیٹے ذوالکلاع کا سارا ماجراعمار سے بیان کیا۔عمار نے کہا:اس(عمرو عاص)نے سچ کہا ہے اوراس نے یہ

۲۶۶

جو بات (حدیث پیغمبر اکرم(ص)) سنی ہے ،یہ اس کے لئے نقصان دہ ہے اور اس میں اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

     ابونوح نے کہا: اب عمرو عاص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔

     عمار یاسر نے اپنے ساتھیوں سے کہا:سوار ہوجاؤ،وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور ملاقات کے مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔

     بالآخر رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابی جناب عماراپنے بارہ ساتھیوں کے ساتھ معین جگہ پہنچے اور انہوں ے عمرو عاص سے ملاقات کی جب کہ اس کے ساتھ بھی اس کے تقریباً اتنے ہی ساتھی تھے۔اور وہ ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوئے کہ ان کے گھوڑوں کی گردنیں آپس میں ملنے لگیں۔

     ابن ابی الحدید کے مطابق دونوں گروہ گھوڑوں سے اتر آئے جب کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں تلواریں پکڑی ہوئی تھیں۔عمرو عاص نے کلمۂ شہادت پڑھنا شروع کیا۔

     جناب عمار نے اس سے کہا:خاموش ہو جاؤ! کہ تم نے اسے چھوڑ دیا ہے ،حلانکہ میں تجھ سے زیادہ اس کے لائق ہوں۔اگر تم لڑنا اور دشمنی کرنا چاہتے ہوں تو ہمارا حق تمہارے باطل کو ختم کر دے گا اور اگر تم بات کرنا چاہتے ہو تو ہم اچھی اور شائستہ باتیں کرنا تجھ سے بہتر جانتے ہیں۔اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری اطلاع کے لئے کوئی  ایسی بات کہوں کہ جو تجھے اور ہمیں مشخص کر دے اور جو تمہیں تمہاری جگہ سے اٹھنے سے پہلے کفر سے منسوب کر دے اور تم خود بھی اس کے صحیح ہونے کی گواہی دو اور اس بارے میں مجھے جھٹلا بھی نہ پاؤ؟

     عمرو عاص نے کہا:اے ابایقظان (عمار یاسر)! میں اس مقصد سے نہیں آیا بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ میں یہ دیکھوں کہ تم اس لشکر (لشکرامیر المؤمنین علی علیہ السلام ) سب سے زیادہ اطاعت گذار شخص ہو۔تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ان کے اسلحوں کو قتل کرنے سے روکو اور ان کے خون کی حفاظت کرو اور اس بارے میں ان کی تشویق کرو اور انہیں ترغیب دلاؤ۔کس لئے ہم سے جنگ کر رہے ہو؟کیا ہم ایک خدا کی عبادت نہیں کرتے؟ کیا ہم تمہارے قبیلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا نہیں کرتے اور

۲۶۷

کیا اسی چیز کی دعوت نہیں دیتے کہ جس کی تم دعوت دیتے ہو،اور کیا تمہاری کتاب کی تلاوت نہیں کرتے اور کیا ہم تمہارے پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے؟

     عمار نے کہا:اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے تمہارے منہ سے یہ باتیں جاری کیں۔ہاں؛یہ سب میرے اور میرے ساتھیوں کا ہے؛قبلہ،دین،خدا کی عبادت،پیغمبر اور کتاب کا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس خدا کا شکر کہ جس نے تمہیں ہمارے لئے ایسا اقرار کرنے پر مجبور کیا اور تمہیں گمراہ اور گمراہ کرنے والا اندھا دل قرار دیا ہے۔

     اب میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے کیوں جنگ کر رہے ہیں: بیشک رسول خدا(ص)نے مجھے حکم دیا کہ ناکثین(جمل کے عہد و پیمان توڑنے والے)سے جنگ کروں لہذا میں نے ایسا ہی کیا ۔اور فرمایا:قاسطین(ظالموں اور ستمگروں) سے جنگ کروں اور تم لوگ وہی ہو۔ لیکن میں مارقین(دین سے خارج ہونے والے نہروان کے خوارج) کے بارے میں نہیں جانتا کہ کیا میں ان کے زمانے تک رہوں گا یا نہیں؟

     اے دم بریدہ ابتر؛کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا تھا:

جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔خدایا؛اسے ددوست رکھ جو انہیں دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو انہیں دشمن رکھے؟

میں خدا اور رسول خدا(ص) کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے بعد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا دوست و محب ہوں۔

     عمرو نے کہا:اے ابو یقظان؛تم مجھے برا بھلا کیوں کہہ رہے ہو حلانکہ میں میں نے تمہیں بالکل برا بھلا نہیں کہا ہے؟

     عمار نے کہا:تم مجھے کس چیز کی وجہ سے برا بھلا کہوگے؟کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں نے حتی ایک دن بھی خدا اور خدا کے رسول (ص)کے حکم سے منہ پھیرا؟

     عمرو عاص نے کہا:ان کے علاوہ تم میںبھی برائیاں  اور پستیاںہیں!

     عمار نے کہا:بزرگ اور محترم وہی ہے جسے خدا نے محترم قرا دیا ہے۔میں پست  تھا خدا نے مجھے بزرگی عطا کی ،میں غلام تھا خدا نے مجھے آزاد یا،میں ناتواں تھا خدا نے مجھے توانا کیا،میں بینوا تھا خدا نے مجھے توانائی عطا کی۔

۲۶۸

     عمرو عاص نے کہا: قتل عثمان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟

     عمار نے کہا:اس  نے تم لوگوں کے لئے تمام برائیوں کا دروازہ کھول دیا۔

     عمرو نے کہا:اور پھر علی (علیہ السلام) نے اسے قتل کردیا۔

     عمار نے کہا:خداوند نے اسے قتل کیا جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا پروردگار ہے اور علی علیہ السلام اس کے ساتھ تھے۔

     عمرو نے کہا: تم بھی ان کے ساتھ تھے کہ جب اسے قتل کیا گیا۔

     عمار نے کہا:ہاں؛ میں ان کے ساتھ تھا جنہوںنے اسے قتل کیا اور آج بھی ان کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں۔

     پھر عمروعاص نے پوچھا:تم لوگوں نے عثمان کو کیوں قتل کیا؟

     عمار نے کہا:وہ ہمارے دین کو تبدیل کرنا چاہتا تھا لہذا ہم نے اسے قتل کردیا۔

     عمرو نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا:کیا تم لوگ نہیں سن رہے؟یہ تمہارے امام کو قتل کرنے کا اعتراف کر رہا ہے۔

     عمار نے کہا:تمہاری یہ بات تم سے پہلے فرعون نے اپنی قوم سے کہی تھی:''کہ کیا تم نہیں سن رہے ہو''۔(1)

     اس وقت شامی اٹھے اور شور وغل کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور واپس چلے گئے۔عمار بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے محاذ کی طرف واپس آگئے۔

     جب اس گفتگو کی خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے کہا:ہاں؛اگرسیاہ غلام (عمار یاسر)اعراب کو للکارے تو وہ یہ جان لے کہ حتمی طور پر نابود ہو جائے گا۔

     جب عمار عراق کے محاذ کے قریب  ہوئے تو انہوں نے ہاشم بن عتبہ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شام کے محاذ پر حملہ کیا اور اس قدر جنگ کی کہ آخرکار شہید ہو گئے۔

--------------

[1]۔ سورۂ شعراء کی 25ویں آیت کا کچھ حصہ ۔ تفسیر ابوالفتوی رازی:ج ۸ ص۳۳۳ چاپ شعرانی

۲۶۹

     مؤرخین کہتے ہیں:عمار یاسر نے شہادت سے کچھ لمحات پہلے پیاس کی شدت کی وجہ سے پانی کا تقاضا کیااور اس دوران عمار کا غلام راشد ان تک پہنچا اور کچھ دودھ پلا کر انہیں سیراب کیا ۔ رسول خدا(ص) نے پہلے ہی عمار سے فرمایا تھا:

     تمہاری شہادت سے پہلے تمہاری آخری غذا کچھ دودھ ہو گا۔

     ابوالمعاویہ کے نیزہ سے عمار یاسر زمین پر گرے اور ابن حوی  نے آپ کا سر تن سے جدا کیا تا کہ  معاویہ کے پاس لیجا کر اس سے اپنا انعام وصول کرے۔

     دوسری طرف ذوالکلاع عمار اور عمروعاص کی گفتگو سے راضی نہ ہوا اور وہ اسی طرح رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی فکر میں تھا لیکن عمرو عاص اسے تسلی دیتا تھاور کہتا تھا:جلد ہی تم یہ دیکھ لو گے کہ عمار ، ابوتراب(علی علیہ السلام)سے الگ ہوکر ہمارے ساتھ ملحق ہوجائے گا!

     ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق جس دن عمار یاسر شہید ہوئے ،ذوالکلاع بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا،لہذا عمرو عاص معاویہ سے کہہ رہا تھا:خدا کی قسم؛میں نہیں جانتا کہ ان دونوںمیں سے کس کے قتل ہونے پر زیادہ خوشی مناؤں ۔ اگر عمار کے قتل ہونے کے بعد ذوالکلاع زندہ ہوتا تویقیناً وہ اپنے ساتھیوں کو ہم سے جدا کرلیتا اور علی (علیہ السلام) سے ملحق ہو جاتا اور ہمارا کام خراب کر دیتا۔

مؤرخین کہتے ہیں: کچھ لوگ معاویہ کے پاس آ کر کہتے تھے کہ انہوں نے عمار کو قتل کیا ہے تا کہ اس سے انعام لے سکیں۔

     معاویہ  نے ان سے پوچھا: عمار اپنی زندگی کے آخرین لمحات میں کیا کہہ رہے تھے؟

     وہ اس کا صحیح جواب نہ دے سکے یہاں تک کہ حوی آیا اور اس نے کہا:میں نے عمار کو قتل کیا ہے۔

     عمرو عاص نے اس سے کہا:عمار کی آخری بات کیا تھی؟

     ابن حوی نے کہا:میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے:آج میں رسول خدا(ص) کے گرانقدر دوستوں اور  ان کے گروہسے ملاقات کروں گا۔

۲۷۰

     عمرو نے کہا:سچ کہہ رہے ہو،تم ہی اس کے قاتل ہو۔خدا کی قسم؛تمہیں کوئی چیز بھی حاصل نہیں ہوئی اور تم نے صرف خدا کو ناراض کیا ہے۔

     مؤرخین حذیفہ بن الیمان-صاحب سرّ پیغمبر(ص)-سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:میں نے سنا کہ پیغمبر خدا(ص) فرماتے تھے:

سمیہ کا بیٹا(عمار یاسر)کبھی بھی دوکاموں کے درمیان مخیر نہیں ہو گا مگر یہ کہ وہ صحیح کام کا انتخاب کرے گا؛اس کے ساتھ رہواور اس کی رائے پر عمل کرو۔(1)

     رسول اکرم(ص) کی جناب عمار یاسر کے بارے میں بیان کی گئی پیشنگوئیوں کو دیکھتے ہوئے ( کہ جو بہت سے لوگوں میں پھیل چکی تھیں)عمار کی شہادت کے بعد شام کے محاذ پر اختلافات پیدا ہو گئے  اور بلا فاصلہ معاویہ ( کہ جو مکار فریبی اور جھوٹا تھا) نے کہا: ہم نے عمار کو قتل نہیں یا بلکہ اس نے قتل کیا ہے کہ جو انہیں محاذ پر لے کر آئے تھے یعنی علی علیہ السلام!!

     معاویہ کی یہ باتیں شام کے نادان اور جلد یقین کر لینے والے لوگوں پر اثر انداز ہوئیںاور جس کی وجہ سے مزید گفتگو نہ ہو سکی۔

     اگرچہ معاویہ کے لشکر میں سے کچھ لوگ  جیسے عبداللہ بن سویدجناب عمار کی شہادت کے بعد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو گئے ۔

     اس وقت معاویہ عمرو عاص پر بہت ناراض ہوا اور اس نے کہا:تم نے شام کے لوگوں کو میرے لئے تباہ کر دیا ہے،تم نے پیغمبر(ص) سے جو کچھ بھی سنا کیا وہ کہنا ضروری تھا؟

     عمرو نے کہا:مجھے علم غیب نہیں تھا کہ یہ جنگ پیش آئے گی اور عمار ہمارے خلاف جنگ میں شریک ہو ں  گے ؛ اور تم نے تو یہ باتیں خود بھی بیان کی ہیں۔

--------------

[1] ۔ مذکورہ حدیث کتاب ''واقعۂ صفین نصر'' اور ''الستیعاب'' ابن عبدالبر میں اسی معنی میں ذکر ہوئی ہے لیکن اس کے کلمات کچھ مختلف ہیں.

۲۷۱

     معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان کچھ کشیدگی  کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔(1) ابن ابی الحدید نے یہ واقعہ دوسری طرح بھی نقل کیا ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں:

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں:نصر نے کہا:عمرو بن شمر نے ہم سے نقل کیا ہے کہ گھوڑ سوار جنگ کے لئے باہر نکلے اورانہوںنے ایک دوسرے کے سامنے صف بستہ ہوگئے اور لوگ جنگ اور حملہ کے لئے تیار ہو گئے۔عمار کہ جن کے جسم پر سفید زرہ تھی، انہوں نے کہا:اے لوگو؛ جنت کی طرف جانے میں جلدی کرو اور آگے بڑھو۔

     لوگوں نے اتنی شدید جنگ کی کہ سننے والوں نے اس جیسی کسی جنگ کے بارے میں سنا نہیں  تھا اور قتل ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ہر کسی نے خیموں کی رسیاں قتل ہونے والوں کے ہاتھوں یا پاؤں کے ساتھ بندھی ہوئیں تھیں۔اس کے بعد اشعث نے نقل کیا ہے کہ میں نے صفین کے خیموں کو دیکھا،کوئی ایسا خیمہ نہیں تھا کہ جس کی رسی قتل ہونے والے کے ہاتھ یا پاؤں کے ساتھ نہ بندھی ہو۔

     نصر کہتے ہیں:ابوسماک اسدی نے پانی کی ایک مشک اور لوہے کا چاقو اٹھا اور مقتولین اور زخمیوں کے درمیان چلے گئے؛جب بھی وہ کسی زخمی کے پاس پہنچتے اور دیکھتے تھے کہ اس میں ابھی کچھ سانسیں باقی ہیں تو وہ اسے بٹھاتے اور اس سے پوچھتے: امیر المؤمنین کون ہیں؟اگر وہ کہتا :علی (علیہ السلام)امیر المؤمنین ہیں تو وہ اس کے چہرے کا خون صاف کرتے اور اسے پانی پلاتے اور اگر وہ خاموش ہو جاتا تو اس کے گلے پر چاقو چلا دیتے تا کہ وہ مر جائے اور اسے پانی بھی نہیں دیتے تھے۔

     نصر کہتے ہیں:عمرو بن شمر نے جابر کے قول سے ہمارے لئےروایت کی  ہے کہ اس نے کہا ہے: میں نے سنا کہ شعبی کہتے تھے:احنف بن قیس نے روایت کی ہے اور کہا ہے:خدا کی قسم؛میں عمار بن یاسر کے ساتھ تھا ،میرے اور ان کے درمیان قبیلۂ بنی الشعیراء کے صرف ایک آدمی کا فاصلہ تھا،ہم آگے بڑھے اور ہاشم بن عتبہ تک پہنچ گئے۔

     عمار نے ہاشم سے کہا:میرے ماں باپ تجھ پر قربان جائیں؛جلدی حملہ کرو۔

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) د ر پیشگوئی از حوادث آئندہ: 351

۲۷۲

انہوں نے کہا:اے ابویقظان؛خدا تم پر رحمت کرے ؛تم ایسے شخص ہو کہ جو جنگ میں سبکبار ہو اور تم نیہمیشہ جنگ کو بہت ہلکا اور سادہ سمجھا ہے لیکن میںاس پرچم کے ساتھ آگے بڑھوں اور حملہ کروں اور مجھے امید ہے کہ میں دقّت اوہوشمندی و چالاکی سے اپنے ہدف و مقصد تک پہنچ جاؤں گا اور اگر میں سستی کروں تو میں نابودی اور خطرے سے محفوظ نہیں رہوں گا۔

     اس دن معاویہ نے عمرو عاص سے کہا تھا:اے وای ہو تجھ پر؛آج بھی ان کا پرچم ہاشم کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اس سے پہلے بھی سخت اور تیزی سے حملہ کرتا تھااور اگر آج اس نے تأمل سے حملہ کیا تو یہ شام کے لوگوں کے لئے ایک لمبا اور سخت دن ہو گا لیکن اگر اس نے اپنے ساتھیوں کے ایک گروہ کے ساتھ حملہ کیا تو مجھے امید ہے کہ ہم انہیں ایک دوسرے سے الگ کر کے ان کا محاصرہ کر سکتے ہو۔

     جناب عمار اسی طرح حملہ کرنے کے لئے ہاشم کی تشویق کر رہے تھے اور بالآخر انہوں  نے حملہ کر دیا۔ معاویہ جو کہ بہت ہوشیار تھا اور دور سے ان کا حملہ دیکھ رہا تھا، اس نے اپنے کچھ بہادر ساتھیوں کو ان کی طرف بھیجا کہ جو بہادری اور بے باکی میں مشہور تھے۔ عبداللہ بن عمرو عاص بھی اسی گروہ کے ساتھ تھا اور اس دن اس کے پاس دوتلواریں تھیں ، ایک تلوار اس نے لٹکائی ہوئی تھی اور دوسری سے وار کر رہا تھا۔اسی دوران علی علیہ السلام کے سواروں نے عبداللہ بن عمرو کو گھیر لیا ۔عمرو عاص نے چیخنا چلانا شروع  کیا کہ : اے خداے رحمن ؛ میرا بیٹا، میرا بیٹا۔

     معاویہ نے کہا: صبر کرو اس کے لئے کوئی خوف نہیں ہے۔

     عمرو نے کہا:اے معاویہ! اگر تمہارا بیٹا یزید اس حال میں ہوتا تو کیا تم صبر کرتے؟

لیکن شام کے سپاہیوں اور ان کے بہادروں نے عبداللہ بن عمرو کا ایسا دفاع کیا کہ اسے  لے گئے جب کہ وہ گھوڑے پر سوار تھا (اور اسی طرح اس کے ساتھی بھی فرار ہو گئے  اورہاشم اس معرکہ میں زخمی ہو گئے)۔

     نصر کہتے ہیں:عمر بن سعد نے ہمارے لئے بیان کیا ہے کہ عمار بن یاسر  اس دن قتل ہو گئے اور میدان جنگ میں گر گئے ۔انہوں نے جونہی عمرو عاص کے پرچم کی طرف دیکھا تو کہا:خدا کی قسم!یہ وہ پرچم ہے کہ جس کے خلاف میں نے تین مرتبہ جنگ کی ہے اور اس جنگ میں بھی اس کا ہدف ان تین سے صحیح نہیں ہے اور پھر یہ اشعار پڑھے:

۲۷۳

     جس طرح ہم نے پہلے بھی تم سے تنزیل قرآن کے بارے میں جنگ کی اور تم پر وار کیا اور اب ہم تأویل قرآن کے بارے میں تم سے جنگ کر رہے ہیں اور تم پر وار کر رہے ہیں؛ایسا وار کہ جو سر کو بدن اور دوست کو دوست سے جداکردے  تا کہ حق اپنے اصلی راستہ پر واپس چلا جائے۔

     عمار کہ جو بہت زیادہ پیاسے تھے،انہوں نے اس دوران   پانی طلب کیا۔ایک لمبے قد کی عورت ان کے پاس گئی اور میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس کے پاس جو مشک تھی کیا اس میں پانی تھا یا دودھ،اس نے وہ عمار کو دیا،جیسے ہی عمار نے وہ پیا تو کہا:جنت نیزوں کے نشانوں کے نیچے ہے۔آج میں محمد(ص) کے گرانقدر دوستوں اور ان کے گروہ سے ملاقات کروں گا۔خدا کی قسم؛اگر وہ ہم پر ایسا وار کریں کہ ہمیں ہجر کے نخلستان تک پیچھے ڈھکیل دیں تو پھر بھی ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں۔پھر انہوں نے حملہ کیا۔ابن حوی سکسکی اور ابوالعادیہ نے بھی ان پر حملہ کیا۔ابوالعادیہ نے عمار کو نیزہ مارا اور ابن حوی نے عمار کا سر بدن سے جدا کیا۔

     ذوالکلاع نے بارہا عمرو عاص سے سنا تھا کہ وہ کہتا تھا:پیغمبر(ص) نے عمار سے فرمایا ہے:

     تجھے سرکش اور ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اوتم آخر میں جوچیز پیو گے وہ پانی سے ملا ہوا دودوھ کا گھونٹ ہو گا۔

     ذوالکلاع نے عمروعاص سے کہا:اے وای ہو تجھ پر؛ہم جو دیکھ رہے ہیں یہ کیا ہے؟

     عمرو نے کہا:عمار جلد ہی ہمارے پاس آجائیں گے اور ابوتراب سے الگ ہو جائیں گے۔

     یہ عمار کے قتل ہونے سے پہلے تھا اور پھر جس دن عمار شہید ہوئے اسی دن ذوالکلاع بھی مارا گیا۔

     عمروعاص نے معاویہ سے کہا:خدا کی قسم؛میں نہیں جانتا کہ ان دونوںمیں سے کس کے قتل ہونے پر زیادہ خوشی مناؤں۔اور خدا کی قسم؛ اگر عمار کے قتل ہونے کے بعد ذوالکلاع زندہ ہوتا تو وہ اپنی پوری قوم کے ساتھ علی (علیہ السلام) سے مل جاتا اور ہمارا کام خراب کر دیتا۔

۲۷۴

     نصر کہتے ہیں:عمر بن سعد نے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ معاویہ اور عمرو عاص کے پاس آتے تھے اور کہتے  تھے:میں نے عمار کو قتل کیا ہے۔عمرو نے ان میں سے ہر ایک سے پوچھا :عمار کیا کہہ رہے تھے؟وہ اس کا جواب نہیں دے پائے بالآخر ابن حوی آیا اور اس نے کہا:میں نے عمار کو قتل کیاہے؟

     عمرو نے اس سے کہا:عمار نے آخر میں کیا بات کی تھی؟

     اس نے کہا:میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے:آج میں محمد (ص) کے گرانقدر دوستوں اور ان کے گروہ سے ملاقات کروں گا۔

     عمرو نے کہا:تم سچ کہہ رہے ہوتم ہی عمار کے قاتل ہو۔خدا کی قسم؛تمہیں خدا کی نارضگی کے سوا کوئی چیز حاصل نہیں ہوئی۔

     نصر کہتے ہیں:عمرو بن شمر نے ہمارے لئے اسماعیل سدی سے  اورعبدخیر ہمدانی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:میں نے صفین کے ایک دن دیکھا کہ عمار بن یاسر تیر لگنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے اور ظہر ،عصر،مغرب،عشاء اور صبح کی نمازیں نہ پڑھ سکے ۔ پھر جب وہ ہوش میں آئے تو انہوں نے اپنی نمازیں قضا کیں اور ترتیب سے اپنی قضا ہونے والوں نمازیں پڑھنا شروع کیں اور آخر ی پر نماز تمام کر دی۔

     نصر کہتے ہیں:عمرو بن شمر نے سدی اور ابوحریث سے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے: جس دن عمار قتل ہوئے ، ان کا غلام راشد ان کے لئے دودھ کا ایک گھونٹ لے کر آیا۔عمار نے کہا: بیشک میں نے اپنے دوست رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:     دنیا میں سے تمہارا آخری توشہ دودھ کا ایک گھونٹ ہے۔

     نصر کہتے ہیں:عمر بن شمر  نے سدی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:جنگ صفین میں دو افراد کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہو گیا کہ ان میں سے کس نے عمار کو قتل کیا ہے  تا کہ ان کا لباس اور ان کا اسلحہ لے سکیں، وہ دونوں عمرو عاص کے پاس آئے۔

۲۷۵

     اس نے کہا:وای ہو تم پر؛میرے پاس سے چلے جاؤ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

     قریش کو عمار سے کیا کام کہ وہ انہیں جنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وہ  لوگ انہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔انہیں قتل کرنے والا،ان کا لباس اور اسلحہ اتارنے والا جہنمی ہیں۔

     سدی نے کہا ہے:مجھ تک خبر پہنچی ہے کہ جب معاویہ نے یہ بات سنی تو اس نے شامیوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہا:انہیں اس نے قتل کیا ہے کہ جو انہیں اپنے ساتھ جنگ پر لے کر آیا!

     نصر کہتا ہے:عمرو نے جابر،ابوالزبیر سے میرے لئے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:قبیلۂ جہینہ کا ایک گروہ حذیفة بن الیمان کے پاس آیا اور ان سے کہا:اے ابوعبداللہ؛پیغمبر خدا (ص) نے خدا سے سوال کیا کہ ان کی امت سرگردان نہ رہے اور ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور انہوں نے دعا کی کہ ان کی امت ایک دوسرے کو ہراساں نہ کرے اوران کا آپس میں اختلاف نہ ہو،اور یہ قبول نہ ہوئی۔

     حذیفہ نے کہا:میں نے سنا ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا:

     سمیہ کا بیٹا(یعنی عمار یاسر)ہرگز دوکاموں میں مخیر نہیں ہوں گے مگر یہ کہ صحیح کام کا انتخاب کریں  ہمیشہ ان کی رائے پر عمل کرو۔

     نصر کہتے ہیں:عمر بن شمر نیہمارے لئے نقل کیا ہے کہ عمار نے اس دن شامیوں کی صفوں پر حملہ کیا اور انہوں نے یوں رجز پڑھا:رب کعبہ کی قسم؛میں ہزگز اپنی جگہ سے نہیں ہلوں گا مگر یہ کہ قتل ہو جاؤں یا جو میں دیکھنا چاہتا ہوں ، وہ دیکھ لوں۔میں ہمیشہ اپنی پوری زندگی علی علیہ السلام، پیغمبر(ص) کے داماد، امانتدارا ورعہد کی وفا کرنے والے کی پاسداری اور حمایت کروں گا۔     نصر کہتے ہیں:عبداللہ بن سوید حمیری(جو ذوالکلاع کے خاندان میں سے تھا) نے اس سے کہا:تم نے عمار کے بارے میں عمرو عاص سے جو حدیث سنی ہے ، وہ کیا ہے؟

     ذوالکلاع نے انہیں ساراواقعہ بتایا: جیسے ہی  عمار یاسر قتل ہو گئے تورات کے وقت  عبداللہننگے پاؤں معاویہ کے لشکر سے باہر آ گئے اور وہ صبح کو  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ تھے۔

۲۷۶

     عبداللہ بن سوید اپنی زندگی میں عبادت گذار تھے اور نزدیک تھا کہ شام کے لوگ ان کے اس کام سے مضطرب ہو کر منتشر ہو جائیں مگر یہ کہ معاویہ نے ان سے کہا:عمار کو علی (علیہ السلام ) نے قتل کیا ہے؛ کیونکہ وہ انہیں اس جنگ میں  لے کر آئے تھے اور انہیں اس فتنہ میں دھکیلا!  اس واقعہ کے بعد معاویہ نے عمرو عاص کو پیغام بھیجا کہ تم نے شام کے لوگوں کو میرے لئے تباہ کر دیا ہے؛تم نے جو کچھ بھی پیغمبر(ص) سے سنا کیا وہ سب لوگوں کو بتانا ضروری تھا؟

     عمرو عاص نے کہا:ہاں!میں نے یہ بات کہی ہے اور میرے پاس علم غیب نہیں تھا کہ جنگ صفین پیش آئے گی اور میں نے یہ اس وقت کہی تھی کہ جب عمار تمہارا دوست تھا اور جو کچھ میں نے روایت کیا ہے تم نے خود بھی تو اسی طرح کی باتیں نقل کی ہیں۔     معاویہ ناراض ہو گیا اور اسے عمرو پر غصہ آیا ،اس نے ارادہ کر لیا کہ اسے اپنی خیر و نیکی سے محروم کر دے۔عمرو بھی ایک متکبر اور مغرور شخص تھا ،اس نے اپنے بیٹے اور دوستوں سے کہا:اگر اس جنگ کی صورت حال واضح ہو جائے تو پھر معاویہ کے ساتھ رہنے میں کوئی خیر نہیں ہے اور میں حتمی طور پر اس سے الگ ہو جاؤں گا اور اس نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے:

     ''میں نے جو کچھ سنا تھااسے بیان کر دیا ،اب مجھ پر ناراض ہو رہے ہو اور میری سرزنش کر رہے ہو اور حالانکہ اگر انصاف کرو تو جوکچھ میں نے کہا تم نے بھی تو اسی کی طرح کی باتیں کہیں۔کیا تم نے جو کچھ کہا تھا اس پر ثابت و استوار تھے،اور کیا تم میں کوئی لغزش نہیں تھی اور میں نے جو کچھ کہا اس میں مجھ میں لغزش تھی؟...''

     معاویہ نے عمرو عاص کے جواب میں یہ اشعار پڑھے:     ''اب جب کہ جنگ نے اپنا دامن پھیلا دیا ہے اور میرے  لئے یہ دشوار کام پیش آیا ہے، اور اب ساٹھ سال کے بعد مجھے ایسا دھوکہ دے رہے ہو اور سوچتے ہو کہ میں کڑوے اور میٹھے کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھوں گا....''     جب معاویہ کے ان اشعار کی خبر عمرو کو ہوئی تو وہ معاویہ کے پاس گیا اور اس نے اس کی رضائیت حاصل کر لی اور وہ متحد ہوگئے۔(1)

--------------

[1] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۴ ص۱۴

۲۷۷

 ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

ہم نے ذوالکلاع اور عمار یاسر کی گفتگو کے بارے میں جو مطالب بیان کئے ہیں ، ان میں اہم نکات موجود ہیں کہ جن میں غور و فکر کرنا چاہئے:

     1۔ذوالکلاع نے پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی سننے کے بعد یہ تحقیق کی کہ  یہ حدیث آنحضرت سے صادر ہوئی ہے۔پھر اسے یقین حاصل ہو گیا کہ اس نے جو کچھ سنا ہے وہ صحیح ہے اور رسول خدا(ص) کا فرمان ہے۔

     چونکہ وہ معاویہ اور عمرو عاص کے دھوکہ و فریب میں آچکا تھا اور وہ انہیں صحیح طرح نہیں پہچانتا تھا ، وہ یہ سوچ رہا تھا کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں جناب عمار کے ہونے کی وجہ سے شاید وہ معاویہ اور عمرو عاص کو جنگ سے ڈرائے اور انہیں صلح پر مجبور کر سکے۔

     اس لئے اس نے اپنے چچا زاد ابونوح (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے بہادر سپاہیوں میں سے تھے)سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے ساتھ عمرو عاص سے ملنے کے لئے چلیں تا کہ شاید اس سے گفتگو کرنے سے جنگ اور خون خرابہ صلح وامن میں تبدیل ہو جائے۔لیکن وہ اس چیز سے غافل تھا    کہ معاویہ اور عمرو عاص کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا دین اسلام کی ترقی کے لئے نہیں تھا بلکہ تخت سلطنت پر بیٹھنے اور طاقت کے حصول کے لئے تھا اور عثمان کا کڑتا عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔

     گمراہ سیاستدانوں کی وجہ سے خوش فہمی کا شکار ہونے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا بلکہ اس میں صرف انسان کی گمراہی اور نابودی کا سامان ہوتا ہے۔

     2۔اس واقعہ میں عمرو عاص نے خود یہ اعتراف کیا کہ اس نے پیغمبر اکرم(ص) سے یہ حدیث سنی ہے اور جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ جناب عمار  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں ہیں تو ان کے ساتھ مل جانے کے بجائے اس نے عمار سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تا کہ شاید کوئی راستہ نکل آئے اور یہ واقعہ اس کے فائدہ میںاختتام پذیر ہو یا یہ کہ ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں میں شک و تردید ایجاد کر سکے۔اس  مقصد کے تحت عمرو عاص نے جناب عمار سے ملاقات کی۔

۲۷۸

سیاستدان اپنے   ہی  مقاصد و اہداف کومستحکم کرنے کے لئے  دوسروں سے ملاقات کرتے، گفتگو کرتے اور بیٹھتے ہیں نہ کہ وہ راہ حق اور عوام کی خدمت کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔

     3۔ذوالکلاع کے بہت زیادہ ساتھی تھے اور اگر وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ ملحق ہو جاتا تو شام کے لشکر میں رخنہ پڑ جاتا۔عمرو عاص چونکہ اس حقیقت سے آشنا تھا  لہذا اس نے ایک ایسی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ یہ واقعہ ہونے سے روک سکے۔

     اس  کی وہ چال اتحاد اور وحدت کا دعویٰ کرنا تھا!تا کہ دونوں لشکر کے درمیان اتحادا ور وحدت کا بہانا(اعتقاد کے لحاظ سے خدا،کعبہ اور قرآن کا ایک ہونا ) بنا کر اس جنگ سے بچ سکے کہ جس میں اسے شام کے محاذ پر واضح شکست نظر آرہی تھی ۔اور وہ ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملنے سے روکے کہ جس سے دوسرے محاذوں پر بھی ان کی شکست واضح ہو جاتی  تھی۔

     اس وجہ سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے سپہ سالار سے ملاقات کرتے ہیں سب سے پہلے کلمۂ '' شہادتین''کے لئے زبان کھولی اور خود کو مسلمان کہا!لیکن جناب عمار نے اس کے جواب میں فرمایا:خاموش ؛ تم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

     جناب عمار نے عمرو عاص کے جواب میں یہ کیوں کہا؟

     ج:کیونکہ رسول اکرم(ص) کے اس بزرگ صحابی کی نظر میں جو بھی اپنے زمانے کے امام پر ایمان نہ رکھتا ہو تو اس نے خدا کی توحید اور رسول اکرم(ص) کی رسالت کی گواہی کو بھی چھوڑ دیا ہے۔اس عظیم الشان اور دلاور شخص کی نظر میں کلمۂ شہادتین کا اسی صورت میں کوئی فائدہ ہے کہ جب شہادت ثالثہ بھی کہتا ہو۔ یہ حقیقت دنیائے اسلام کے ا س عظیم انسان کے کلام سے بخوبی واضح و آشکار ہوتی ہے کہ جب انہوں نے عمرو عاص سے فرمایا:''خاموش ؛تم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

     جناب عمار جو کہ بہادر و دلاوری کے علاوہ خطابت میں بھی ماہر تھے،انہوں نے عمرو عاص سے فرمایا:کیاتم چاہتےہو کہ ایسی بات کہوں کہ جو تمہیں تمہاری جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی کفر سے منسوب کر دے اور تم خود بھی اسے قبول کرو؟!

۲۷۹

     اس وقت عمرو عاص نے خود کو جناب عمار کے کلام سے محکوم ہوتے ہوئے دیکھا تو اس نے احترام کے عنوان سے آپ کو کنیت کے ذریعہ مخاطب کیا اور کہا:اے ابویقظان؛اس لشکر میں سب سے زیادہ تمہاری اطاعت و پیروی کی  جاتی ہے،تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ان کا اسلحہ قتل کرنے سے روکو.....تم لوگ کس لئے ہم سے جنگ کر رہے ہو؟ کیا ہم ایک ہی خدا کی عبادت نہیں کرتے ؟ لیکن کیا ہم آپ کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز نہیں پڑھتے اور جس چیز کی تم دعوت دیتے ہو اسی چیز کی دعوت نہیں دیتے؟ کیا ہم تمہاری کتاب کی تلاوت نہیں کرتے اور تمہارے پیغمبر(ص) پر ایمان نہیں رکھتے؟!

     اس موقع پر پیغمبر خدا(ص) کے بزرگ صحابی اور امیرالمؤمنین علی علیہ الساام کے یاور و دلاور نے لب کشائی کی اور خداوند کی عبادت،دین،قبلہ،کتاب خدا اور پیغمبرکے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے ہیںاوران کا تم سے یاتمہارے ساتھیوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔اور پھر آپ نے ناکثین(جمل میں عہد و پیمان توڑنے والے) اورقاسطین(صفین کے ظالم اور ستمگر)سے جنگ کرنے کے بارے میں رسول خدا(ص) کا فرمان بیان کیا اور پھر آپ نے  امیرالمؤمنین علی علیہ الساام کی پیروی کیبارے میں  رسول اکرم(ص) کا فرمان بیان کیا۔

     یہاں جو نکتہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ :عمرو عاص نے کتاب خدا،قبلہ،پیغمبر اور خدا کی  عبادت کو اتحاد و وحدت اور جنگ سے دوری کا وسیلہ قرار دیا لیکن لشکرعراق کے تواناسپہ سالار نے اسے ردّ کر دیا اور وہ قبلہ،قرآن،پیغمبر اور خدا کی عبادت کے ایک ہونے کو نہ صرف اتحاد و وحدت کا معیار قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں:قبلہ،قرآن وغیرہ.کا تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

     یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کے شیعہ و سنی معتقد ہی کیونکہ شیعہ ایک ایسے گروہ  (نواصب) کوبالکل مسلمان نہیں مانتے اور انہیں کافر قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ قرآن،قبلہ،پیغمبر اور خدا پر اعتقاد کے لحاظ سے ظاہری طور پر یکساں ہیں۔

     اہلسنت کے بھی مسلمانوں کے ایسے کئی فرقوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور انہیں رافضی قرار دیتے ہوئے کافر سمجھتے ہیںاگرچہ وہ خدا،پیغمبر ،قرآن اور قبلہ پر ایمان رکھتے ہیں۔اس بناء پر کس طرح قبلہ، کتاب ،پیغمبر کے ایک ہونے اور خدا پر اعتقاد کوعقیدہ میں اتحاد و وحدت کی دلیل سمجھ سکتے ہیں؟!

۲۸۰