معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 161850
ڈاؤنلوڈ: 7005

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 161850 / ڈاؤنلوڈ: 7005
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     4۔یہ سب اس شخص کے بارے میں ہے کہ جو خدا،پیغمبر،قرآن اور قبلہ کا معتقد ہے لیکن اگر اس اعتقاد کی بنیادمصلحت و سیاست یا دوسرے لفظوں میں نفاق کی بنیاد پر ہو-جس طرح معاویہ اور عمرو عاص کا ایسا ہی عقیدہ تھا-تو پھر کس طرح اس طرح کے افراد کو خدا کے حقیقی بندوں سے متحد پر سکتے ہیں؟!

     5۔قابل توجہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی پیشنگوئیوں میں فرمایا ہے:لوگوں کا ایک گروہ  فتنہ و امتحان میں واقع ہو گا اور وہ ان میں مبتلا ہو گا''۔اس موقع پر آنحضرت نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایسے افراد کے ساتھطریقۂ کار یہ ہے کہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے اگرچہ وہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہوں،اور قرآن کو آسمانی کتاب سمجھتے ہوں!

     ابن ابی الحدید نے اس بارے میں کہا ہے:حضرت  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سامنے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا:ہمیں فتنوں سے آگاہ فرمائیں اور کیا اس بارے میں آپ نے پیغمبر خدا(ص) سے پوچھا ہے؟

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     چونکہ خداوند متعال نے اپنا یہ قول نازل فرمایا ہے:

    (الم* أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ) (1)

     الم*کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا۔

     میں سمجھ گیا کہ جب تک رسول خدا(ص) ہم میں موجود ہیں تب تک ہم پر کوئی بلا نازل نہیں ہوگا، اس لئے میں نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا:یہ کون سا فتنہ ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے خبر دی ہے؟

     فرمایا:اے علی علیہ السلام!بیشک میرے بعد جلد ہی میری امت فتنہ میں  گرفتار ہو جائے گی اور انہیں پرکھا جائے گا۔

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: 1،2

۲۸۱

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فتنوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے اور اسی وجہ سے اسے امر بہ معروف اور نہی از منکر سے یادکیاہے اور فرمایا ہے:''تمہارے لئے کتاب خدا سے تمسک اختیارکرنا ضروری ہے''یعنی جب بھی کوئی فتنہ درپیش اور لوگ حیرانگی کے عالم میں ہوں تو تمہیں کتاب خدا سے متمسک ہونا چاہئے۔اسی لئے ایک شخص اٹھا اور اس نے آنحضرت سے فتنوں کے بارے   میں  سوال کیا۔

      پیغمبر خدا(ص) سےنقل ہونے والی یہ حدیث(بہت سے محدثین نے اس حدیث کوحضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل کیاہے اور اس پر غور کرنا چاہئے)یوں ہے:

     پیغمبر اکرم(ص) نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

     خداوند  متعال نے تم پر فتنوں میں گرفتار لوگوں کے ساتھ جہاد کو واب قراردیا ہے؛جس طرح مشرکوں کے ساتھ جہاد کرنا مجھ پر واجب قرار دیا  تھا۔(1)

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے پیغمبر خدا(ص) سیعرض کیا:یا رسول اللہ !وہ کون سافتنہ ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ پر جہا واجب کیا گیاہے؟

     فرمایا:ایک  گروہ ہے کہ جو گواہی دیتا ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور میں خدا کا رسول ہوں لیکن وہ میری سنت کے مخالف ہیں۔

     میں نے کہا:یا رسول اللہ!کس وجہ  سے ان سے جنگ کروں حلانکہ  انہی عقائد کا اقرار کرتے ہیں کہ جن کے ہم معتقدہیں؟

     فرمایا:دین میں وجود میں آنے والی بدعتوںاور حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے۔

--------------

[1] ۔ اس  بارے میں مزید جاننے کے لئے ''کنز العمال:ج 8 ص215 اور فضائل الخمسة: ج2ص363 - 349'' کی طرف رجوع کریں

۲۸۲

     میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ نے مھے شہادت کی بشارت دی تھی اب خدا سے دعا کریں کہ میری شہادت کے بارے میں عجلت کرے۔

     فرمایا:اس صورت میں کون عہد و پیمان توڑنے والوں، تباہی پھیلانے والوں اور دین سے خارج ہونے والوں سے جنگ کرے گا؟ بیشک میں نے تمہیں شہادت کی بشارت دیہے اور تم جلد ہی شہید ہو جاؤ گے،تمہارے سر پرضربت لگائی  جائے گا اور تمہاری ڈاڑھی تمہارے خون سے خضاب ہو گی۔اس موقع پرآپ کا صبر کیسا ہو گا؟

میں نے کہا:یا رسول اللہ!یہ تو صبر کا نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے۔

     فرمایا:ہاں!تم نے صحیح کہا ہے۔ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ آپ کے ساتھ جنگ کی جائے گا۔

     میں نےعرض کیا:یا رسول اللہ!کاش آپ میرے لئے کچھ اور واضح فرما دیں۔

     فرمایا:میرے بعد میری امت فتنوں اور امتحانوں میں گرفتار ہو جائے گی،وہ قرآن کی تأویل  اور اپنی رائے کے مطابق عمل کرے گی۔برائیوں کو اچھائی اور رشوت کو ہدیہ  اور سود کو بیع کے نام پر حلال شمار کرے گی۔قرآن کے معانی میںتحریف کرے گی اور گمراہی کابول بالاہو گا۔

     (اور پھرایسا ہوگا) پہلے اپنے گھر میں بیٹھ جاؤیہاں تک کہ تمہیں حکومت مل جائے اور جب تمہیں حکومت ملے تو تمہارے خلاف سینوں میں آگ بھڑک اٹھے گی اورحالات تمہارے  برخلاف ہو جائیں گے؛اس موقع پر تم تأویل قرآن کے سلسلہ میں جنگ کرو گے کہ جس طرح تنزیل کے سلسلہ میں جنگ کی تھی اور ان کی یہ دوسری حالت ان کی پہلی حالت سے کم نہیں ہے۔

     میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپ کے بعد جو فتنوں سے دچار ہوںگے،ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں  اور انہیں کس مقام پر رکھوں؟کیا فتنہ  کے مقام  پر یا دین سے منحرف ہو جانے والوں کے مقام پر؟

     فرمایا:انہیں مقام فتنہ میں رکھوکہ وہ ششدر ہو جائیں گے یہاں تک کہ انہیں عدل و انصاف اپنی گرفت میں لے۔

۲۸۳

     میں نے کہا؛اے رسول خدا(ص)؛ کیا ہماری طرف سے عدل انہیں اپنی آغوش میں لے گا یا کسی اور کی طرف سے؟

     فرمایا:ہماری طرف سے کہ جو ہم سے ہی شروع ہوا تھا اور ہم پر ہیختمہو گا،خداوند شرک کے بعد ہمارے وسیلہ سے دلوں میں الفت قرار دے گا۔     میں نے عرض کیا:خدا کی ان نعمتوں پر خدا کا شکر کہ جو اس نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔(1)      اس روایت پرغور و فکرکریں کہ جسے شیعہ و سنّی علماء نے نقل کیا ہے اور جس نیبے شمار افراد کے اعتقادی نظریہ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔اس روایت کا دو مرتبہ مطالعہ کریں اور اس کے مطالب پر غورکریں اور اپنے لئے ہدایت کے دریچہ کھولیں۔

     6۔مذکورہ واقعہ کی رو سے جناب عمار خود کو ان لوگوںکے ساتھ سمجھتے تھے کہ جو عثمان کے قتل میں شریک ہوئے ۔اس روایت کی بناء پر عثمان کو قتل کرنے میں جناب عمار کا ہاتھ تھا۔اس صورت میں  ان روایات کے مطابق (کہ جو رسول اکرم(ص) سے عمار کی مدح  اور ان کی برحق ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں)عثمان کے قتل کی وجہ سے جناب عمار کی سرزنش نہیں کی جا سکتی اور عثمان کے کڑتے کو قتل عمار کے لئے حربہ قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ عمار کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی رائے اس سے بھی واضح ہے۔

 7۔ اگرچہ عمار کے کاموں اور شخصیت کی وجہ سے معاویہ توہین کے عنوان سے انہیںسیاہ غلام کا نام دیتاتھا لیکن وہ جانتا تھا کہ لوگوں میں ان کی شخصیت اتنی اہم ہے کہ وہ اپنے خطاب سے لشکر کو حرکت اور ان کی مخالفت پر ابھار سکتے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنے مخالفوں کو کس حد تک حقیر سمجھتے ہیں اور انہیںکمتر شمار کرتے ہیں۔     معاویہ کا یہ رویہ عمار کو حقیقر سمجھنے اور ان کی شخصیت کوکمتر شمار کرنے کے لئے تھا تا کہ وہ شام کے لوگوں کے درمیان فتنہ پیدا کریں اور انہیں ان کی رہنمائی سے دور رکھیں۔

     8۔ چونکہ عمرو عاص ،عمار کوسیاہ غلام نہیں کہہ سکتا تھااور ان کی شخصیت کو کمترشمار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے اس نے ایک دورسری چال چلی اور

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج4 ص323

۲۸۴

جب ذوالکلاع ،مار اور عمرو عاص کی گفتگو سے مطمئن نہ ہوا تو عمرو عاص نے اس سے کہا:عمار جلد ہی ان سے الگ ہو کر ہم سے ملحق ہو جائے گا!     اس عمل سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سیاستدان اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کا حربہ اختیار کر سکتے ہیںاور ہر قسم کا جھوٹ بول سکتے ہیں۔

     9۔ چونکہ ذوالکلاع نے عام لوگوں کی طرح (کہ جنہوں نے سیاستدانوں کے جھوٹے و عدوں سے دھوکا کھایا تھا)اپنی راہ کو جاری رکھا ۔اگر وہ فہم و فراست رکھتااور اور چالاک ہوتا (کہ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے)ہوتا تو اس نے جو روایت سنی تھی ،اس کی بناء پر عمار کے راستہ کومنتخب کر لیتا۔اور اس محال فرض کی بناء پر اگر عمار دوسرے لشکر سے منسلک ہو جاتے تو وہ بھی عمار کے منسلک ہو جانے کے بعد یہی کام انجام دیتے۔لیکن عمرو عاص کے ذریعہ فریفتہ ہو جانے کی وجہ سے اس نے باطل راہ میں اپنی جان گنوا دی۔حالانکہ وہ  باطل کے خلاف چند گھنٹوں کی مقاومت کرکے جاویدانی حیات حاصل کر سکتا تھا۔وہ بیچارہ یہ نہیں جانتا تھا کہ عمرو عاص اس کے قتل ہوجانے کی وجہ سے کتنا خوش ہو گا۔چونکہ جس دن جناب عمار شہید ہو گئے اسے دن ذوالکلاع بھی قتل ہو گیا اورعمرو عاص نے معاویہ سے کہا:خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کس کے قتل ہونے پر زیادہ خوشی مناؤں۔

     10۔ اجتماعی شخصیت کے مالک افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ ان پر لوگوں کی نگاہیں ٹکی ہوتی ہیں  کیونکہ لوگوں میں ان کی شخصیت مؤثر ہوتی ہے۔لوگ ان کے کردار و رفتار میں غور و فکرکرتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔

     اس بناء پر کسی باطل راستہ کو منتخب کریں تونہ صرف وہ خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی شخصیت کے مطابق لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔اگر دو باطل راستوں یا حق و باطل میں سے کسی ایک کے انتخاب کے دوران باطل راستہ کو منتخب کریں تو کچھ لوگ انہیں کے رائے اور عقیدے کی وجہ سے باطل راستے کو ہی انتخاب کر لیتے ہیں اور انہیں  قیامت کے دن اس کا جواب دینا ہو گا۔

     عمرو عاص چونکہ یہ جانتا تھا کہ ذوالکلاع اجتماعی شخصیت کا مالک تھااور وہ شام کے لشکرمیں سے بہت سے افراد کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کی طرف کھینچ سکتا ہے،اس لئے عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:اگرذوالکلاع، عمار کے قتل ہونے کے بعد زندہ ہوتا تو مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ہم سے جدا ہو کر ان سے ملحق ہوجاتا اور ہمارا کام خراب کر دیتا۔

۲۸۵

     11۔رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں کونہ صرف ذوالکلاع  جانتا تھا بلکہ شام کے لشکر میں سے بھی بہبے شمار افراد ان سے آگاہ تھے۔اس لئے جناب عمار کی شہادت کے بعد ان میں اختلاف پیدا ہو گیالیکن معاویہ نے فوراً مکاری سے کام لیا  اور یہ بات پھیلا دی کہ عمار کو اس نے قتل کیا ہے جو اسے میدان جنگ میں لے کر آیا تھا! جلد شام کی زود باور عوام پراس کی باتیں اثرانداز ہوئیں جس نے ان کی چہ میگوئیوں کو راستہ روک لیا۔

     پوری تاریخ میں باطل کے مقابلہ میںحق کی ظاہری شکست کی دو وجوہات ہیں:

     الف:بے دین سیاستدانوں کی مکاریاں اور ان کامکر و رفریب۔

     ب:عوام الناس کاجلدی یقینکر لینا کہ وہ جو کچھ بھی سنیں اسے فوراً مان لینا اور جھوٹے لوگوں کی پروپیگنڈوں سے اثر لینا کہ جس کے نتیجہ میںوہ خیانت کرنے والے سیاستدانوں کی پستپناہی کرتے ہیں۔

     12۔حقیقت چاہے سخت اور تلخ ہو پھر بھی وہ ایک گروہ (اگرچہ کم)کے لئے راستہ کھول دیتی ہے اور ان کی ہدایت کرتی ہے اور انہیں عام لوگوں سے الگ کر دیتی ہے۔

     صفین میں بھی کچھ عام لوگوں نے معاویہ ا ور عمرو عاص کی فریب  کاریوں سے دھوکہ کھایالیکن پھر بھی معاویہ کے لشکر میں سے متعدد لوگ جناب عمار کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو گئے کہ جن میں عبداللہ بن سوید بھی شامل ہیں۔

     ان لوگوں کا امیر المؤمنین  علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو جانا اس بات کا سبب بنا کہ معاویہ غصہ سے بھڑک اٹھا اور اس نے عمرو عاص کو کہلوا بھیجا کہ تم نے شام کے لوگوں کو میرے لئے تباہ کر دیا ہے ۔کیا تم نے جو کچھ بھی پیغمبر(ص) سے سنا تھا، وہ سب کہنا ضروری تھا؟

     13۔عمرو عاص نے معاویہ کے اعتراض کا جواب دیا اور وہ بھی ایک دوسرے سے اس طرح ناراض ہو گئے کہ جس طرح سیاستدان اپنے گناہ اور غلطیاں دوسروں پرتھونپدیتے ہیں ۔عمرو عاص نے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کر لیالیکن چونکہ سیاستدان جانتے

۲۸۶

ہیں کہ انہیں نیا کے حصول اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے آپس میں بنا کر رکھنی پڑتی ہے،اس لئے انہوں نے آپس کے تعلقات صحیح  کر لئے،اور حق کے مقابلہ باطل کا پرچم لہڑا دیا اورجنگ کے شعلہ روشن کر دیئے۔

     14۔ایک اہم مطلب کہ جس کی طرف سب کو توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ تاریخ کو دہراتی ہے۔اور یہ جان لینا چاہئے کہ یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور امت کی اعتقادی حیات اسی سے وابستہ ہے۔

     ہم سب کو یہ جاننا چاہئے کہ بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو بھر دیا ہے اور یہ واقعات  پھر سے کسی اورنئے رنگ و روپ میں رونما ہوتے ہیں۔اگرہمیں تاریخ کے مطالعہاور تاریخی و اعتقادی واقعات سے آشنا ہوکر عمرو عاص کی مکاریوں اور ابوموسی اشعری کی پستی سے دکھ ہوتا ہے تو ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی انہی کی صف میں کھڑے نہ ہو جائیں!!

     ابوموسی اشعری اور عمرو عاص ایک ساتھ متحد ہو گئے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو معزول کر سکیں لیکن عمرو عاص نے ابوموسی اشعری کو دھوکہ دے کر معاویہ کو منتخب کر لیا ،اب ہم شیعہ عقائد و شعائر کو چھوڑ کر تشیع کو پامال نہ کریں کہ یوں عمرو عاص اور معاویہ کے پیروکاروں کی صف میںکھڑے ہو جائیں!

     اگر اتحاد اور وحدت کی خاطر ضروری ہے کہ شیعہ اپنے کچھ عقائد و شعائر سے دستبردار ہو جائیں تو پھر آج تک سنی اپنے کس مخصوص شعائر سے دستبردار ہوئے ہیں؟

     کیا ایسا اتحاد ابوموسی اور عمرو عاص کے اتحاد کی طرح نہیں ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر صرف شیعہ ہی اپنے کچھ عقائد سے کیوں ہاتھ اٹھا لیں؟

     جی ہاں!اگر ہم اس وقت نہیں تھے کہ جب صفین میں جنگ کے شعلہ بھڑک رہے تھے تا کہ ہم اس میں شریک ہو کر  امیر المؤمنین علی علیہ السلام پراپنی جان قربان کریں،تو ہمیں اس زمانے میں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ابوموسی اور عمرو عاص کی راہ پر نہ چلیں۔

۲۸۷

     اس بناء پربندگان صالح کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور یہ جان  لینا چاہئے کہ سیاسی اتحاد و وحدت ایک چیز ہے اور اعتقادی وحدت دوسری چیزہے۔ ان دونوں کوتشخیص دینے والے افراد کو انہیں آپس میں نہیں ملانا چاہئے اور انہیں اپنے عقائد کاپاک گوہر ناپاک  ہاتھوں میں  نہیں بیچنا چاہئے۔

     جب کبھی اتحاد و وحدت کی بات آئے تو اس سے سیاسی وحدت مراد ہونی چاہئے  اور اگر اس کی ضرورت ہو ورنہ ان دوگروہوں کے درمیان کس طرح اتحاد و وحدت ہو سکتا ہے کہ جن کے امام دو طرح کے ہوں؟لیکن کیا یہ ایسا نہیں ہے مقام امامت کے علاوہ بھی دو مختلف اقوام کے افراد کہ جن کے دو الگ الگ صدر ہو،کیا یہ ممکن ہے کہ قانون کے لحاظ سے ان میں اتحاد و وحدت ہو؟

     اگر دشمن دوممالک پر حملہ کرے تو سیاسی وحدت سے اپنا دفاع تو کر سکتے ہیں اور دشمن سے جنگ کے لئے ایک ساتھ متحد ہو سکتے ہیں۔

     اس بناء پر جب دو ملکوں کا قانون کے لحاظ سے رفتار و کردار یکساں نہیں ہو سکتا اور اسن میں وحدت نہیں ہو سکتی (کیونکہ وہ دو مختلف عقیدے کے قانون بنانے والوں کے تابع ہیں)تو پھر کس طرح دو  امتیں عقیدہ و رفتار کے لحاظ سے یکساں اور متحد ہو سکتی ہیں کہ جو کئی ممالک سے زیادہ ہیں؟

     جی ہاں!قرآن تو ایک ہے لیکن اسے سمجھنے میں اختلاف ہے۔قبلہ ایک ہے لیکن اس کی طرف نماز پڑھنے کا طریقہ یکساں نہیں ہے۔رسول خدا(ص) ایک ہے لیکن سب ان کے فرامین کو نہیں سنتے بلکہ غدیر میںآپ کے اہم ترین فرامین ،حدیث منزلت اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں فرمودات کو چھوڑ دیاگیا۔بلکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کو تدوین کرنے اور لکھنے سے روکنے کا حکم دیا گیا اس سے بھی بڑھ کر معاویہ نے تو اپنے بارے میں جھوٹی روایات گھڑنے کا حکم دیا اور ان کی نسبت آنحضرت کی طرف  دی۔لہذاکس طرح عقیدے کے لحاظ سے اتحاد و وحدت کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟

     اس بناء پر اتحاد و وحدت کے مسئلہ میں غور کریں کہ کیا ہم عمرو عاص کی راہ پر چل رہے ہیں یا ہم عقیدے کے لحاظ سے جناب عمار کے ساتھ ہیں اور اس راہ پر چل رہے ہیں کہ جس کا اختتام جنت پر ہوتا ہے؟

۲۸۸

     15۔جنگ صفین کے واقعہ میں عرب کے کچھ مشہور و معروف افراد جیسے ذوالکلاع ،کچھ عابد و زاہد افراد جیسے عبداللہ بن سوید اور کچھ عام معاشرے کے افراد جیسے ذوالکلاع کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول خدا(ص)کی پیشنگوئی کی وجہ سے ایسے لشکر میں ہونا چاہئے کہ جس میں عمار ہوں۔کیونکہ آنحضرت کے فرمان کے مطابق کسی بھی لشکر میں عمار کا وجود اس گروہ کے حق اورصراط مستقیم پر ہونے کا معیار ہے۔

     اس بناء پروہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام اورآنحضرت کی فوج کو اسی صورت میں حق پر سمجھتے تھے کہ جناب عمار ان کے ساتھ ہوں ورنہ انہیں   امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی عظمت اور شخصیت کی کوئی  معرفت نہیں تھی۔

     یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ کئی سال سے معاویہ نے شام کی حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا تھااور وہ وہاں کے لوگوں پر حکومت کر رہا تھالیکن اس نے کبھی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور خاندان اطہار علیہم السلام کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی بے شمار حدیثوں میں سے کسی حدیث کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور انہیں خاندان پیغمبر اکرم (ص) (جو دین کے ارکان ہیں)کی کوئی معرفت نہیں تھی۔

     پس اگر معاویہ نماز اور ر وزہ وغیرہ کے بارے میںبات کرتا تھا تو وہ اپنی حکومت و سلطنت کو استوار کرنے کے لئے ایسا کرتا تھانہ یہ کہ اس کا دین اسلام پر کوئی عقیدہ تھا۔اس وجہ سیجہاں بھی کوئی دینی حکم اس کے نقصان میں ہوتا تویا اسے  بالکل بیان نہیں کرتا تھا اور یا پھرلوگوں کے لئے برعکس بیان کرتا تھا۔ اس لئے وہ خاندان وحی علیہم السلام کی تعریف کرنے کی بجائے ان کی مذمت کے لئے کوشاں رہتا تھا اور یہ خود اس حقیقت کی دلیل ہے کہ معاویہ ایک سیاسی حکمران تھا نہ کہ مذہبی حکمران۔

     اگر معاویہ اور عمرو عاص خدا،رسول،کتاب اور قبلہ کے معتقد ہوتے تو وہ ان لوگوں سے جنگ نہ کرتے کہ جن لوگوںکابھی یہ عقیدہتھا۔پس جنگ سے پہلے جب   امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے انہیں کتاب خدا کی دعوت دی تو انہوں نے کیوں قبول نہیں کیا؟

     انہوں نے کیوں خود جنگ کا آغاز کیا؟لیکن کیا اس زمانے میں دوخدا،دو پیغمبر،دو کتابیں اور دو قبلہ تھے کہ جو انہوں نے جنگ کا آغاز کر دیا اور جب انہیں شکست کے آثار نظر آ نے لگے تو ان کا خدا، رسول خدا،کتاب ا ور قبلہ ایک ہو گئے؟!

۲۸۹

     اگر معاویہ اور عمرو عاص کا حقیقت میں خدا،رسول خدا،کتاب اور قبلہ پر ایمان تھا اور وہ خود کو اس لحاظ سے عراق کے لوگوں اور  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ متحد سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے کو اتحاد و وحدت کے برخلاف سمجھتے تھے تو پھر جنگ صفین کے بعد معاویہ کے ساتھیوں نے کیوں کئی مرتبہ عراق پر شب خون مارا اور بے شمار مسلمانوں کو ایک ساتھ قتل کیا؟!

     معاویہ کے حکم پربسر بن ارطاة کی لشکر کشی کا واقعہ کہ جسے شیعہ و سنی علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے،کیا اس کی لشکر کشی اور نہتے لوگوں کو قتل کرنا اتحاد و وحدت کے منافی نہیں تھا؟

     اسی طرح  معاویہ کے حکم پر ہی عمرو عاص کا مصر پرحملہ کرنا ،اس ملک پر لشکر کشی کرنا ، مظلوم لوگوں کو   امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دوستی کے جرم میں قتل کرنا اور محمد بن ابی بکر کو شہید کرنااور اسی طرح ان کے بے جان جسم کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دینا کیا یہی اتحاد و وحدت کے معنی میں تھا؟

     اگر معاویہ''خال المؤمنین ''تھا!چونکہ وہ ام حبیبہ کا بھائی تھا تو پھر محمد بن ابی بکر بھی خال المؤمنین تھے؛چونکہ وہ بھی عائشہ کے بھائی اور ابوبکر کے بیٹے تھے۔کیا خال المؤمنین کا خال المؤمنین!سے جنگ کرنا اور پھر محمد بن ابی بکر کے جسم کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دینا!کیا یہ معاویہ کے ان لوگوں کے ساتھ اتحاد و وحدت کی دلیل تھی کہ جو خدا،قبلہ اور قرآن کو مانتے تھے؟!

     16۔یہ بہت ہی قابل توجہ اور قابل غور نکتہ ہے:اس روایت میں رسول خدا(ص)نے واضح طور پر فرمایا:

     پوری تاریخ کے دوران یہ فتنہ لوگوں کے گلے پڑے گا یہاں تک کہ الٰہی عادلانہ حکومت قائم ہو جائے اور معاشرہ عدل و انصاف سے بھر جائے۔

     اس بناء پر جیسا کہ ہم نے کہا انحرافی افکار اورعقائد کن افکار صرف معاویہ اور عمروعاص کے زمانے سے ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہیں گے؛جیسا کہ پیغمبر خدا(ص) نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

۲۹۰

     اس بناء پر ہوشیار رہیں اور گمراہ کرنے والے اس طرح کے افکار کے راستہ پر نہ چلیں  یہاں تک کہ پوری دنیا پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عادلانہ و ہدایت کرنے والی حکومت قائم ہوجائے۔

     جب خاندان وحی علیہم السلام کی عالانہ عالمی حکومت پوری دنیا کو تسخیر کرلے گی تو فتنہ اور فتنہ برپا کرنے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گی اوردنیا والوں کے دلوں میں الفت و محبت پیداہو گی،پھر حقیقی اتحاد و وحدت قائمہوگی اور ان میں  کسی طرح کا کوئی کینہ اور حسد نہیں ہوگا ۔ جس طرح عدالت کی ابتداء بھی اسی خاندان سے ہوئی تھی اور اس کے اختتام بھی خاندان وحی  علیہم السلام کے ذخیرۂ الٰہی  حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے دست قدرت سے ہو گا۔

 جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص)کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت

     جناب اویس قرانی کا شمار زاہدوں اور بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے کہ جنہوں نے جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہم رکاب جنگ کی۔

     عبدالرحمن سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے :جنگ صفین میں شام کے لشکر میں سے ایک شخص باہر آیا اور اس نے عراق کے لشکر کی طرف رخ کر کے کہا:کیا اویس قرنی تم لوگوں میں ہیں؟

     ہم نے اس سے کہا:ہاں۔

     شامی شخص نے کہا:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

''خیر التابعین اویس القرنی''   بہترین تابعی اویس قرنی ہیں۔  وہ یہ کہہ کر شام کے لشکر سے خارج ہو گیا اور ہمارے پاس آ کر ہم سے ملحق ہو گیا۔     اصبغ بن نباتہ سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا:میں صفین میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ننانوے افراد نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت نے فرمایا:

     سوواںشخص کہاں ہے؟کہ رسول خدا(ص) نے مجھے خبر دی تھی کہ اس دن سو افرادمیری بیعت کریں گے؟

۲۹۱

     اصبغ کہتے ہیں: اسی وقت ایک شخصآگے آیا کہ جس نے دو اونیلباس زیب تن ہوئے تھے اور دو تلواریں حمائل ہوئیں تھیں، اس نے کہا: اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تا کہ آپ کی بیعت کروں۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کس لئے میری بیعت کرنا چاہتے ہو؟

     اس نے عرض کیا:تا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر سکوں۔

     فرمایا:تم کون ہو؟ عرض کیا: میں اویس قرنی ہوں۔

     اس کے بعد انہوں نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت کے سامنے اس طرح سے جنگ کی کہ آخر کار شہید ہو گئے اور ان کا جنازہ پیادوں کے درمیان ملا۔

     ''مناقب ابن شہر آشوب''میں ہے کہ : انہوں ے دو تلواریں حمائل ہوئیں تھیں اور وہ دشمن  پر پتھر پھینکنے کے لئے فلاخنی (غلیل کی طرح کا آلہ) بھی ساتھ لائے تھے۔

     ''حلیة الأولیاء'' میں بھی اصبغ سے روایت ہوا ہے:اویس قرنی رسول اکرم(ص)  کے پاس نہیںآئے ، اس کی وجہ ان کی اپنی ماں سے اطاعت تھی۔ اویس کی روش یہ تھی کہ جب شام ہوتی تو وہ کہتے : آج رات رکوع کی رات ہے اور پھر صبح تک رکوع کرتے اور جب رات ہوتی تو اس دن کی خوراک اور پوشاک میں سے جو چیز بھی بچ جاتی ، وہ سب صدقہ دے دیتے تھے اور پھر کہتے تھے:

     أللّٰهُمَّ مَنْ مٰاتَ جُوعاً فَلاٰ تُؤٰاخِذْنِی بِهِ، وَ مَنْ مٰاتَ عُرْیٰاناً فَلاٰ تُؤٰاخِذْنِْ بِهِ

     خدایا؛ جو کوئی بھوکا مرجائے مجھے تو میرا اس سے مؤاخذہ نہ کرنا اور جو کوئی برہنہ مر جائے میرا اس سے بھی مؤاخذہ نہ کرنا۔

     دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

     أَبْشِرُوا بِرَجُلٍ مِنْ اُمَّتِ یُقٰالُ لَهُ:اُوَیْسُ الْقَرَنِْ؛ فَاِنَّهُ یَشْفَعُ لِمِثْلِ رَبِیْعَةِ وَمُضَر

۲۹۲

     میں تمہیں اپنی امت کے ایک شخص کے بارے میں بشارت دیتا ہوں کہ جسے اویس قرنی کہتے ہیں ۔ اور جو (قیامت کے دن ) ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں (بہت زیادہ آبادی والے قبائل) کی شفاعت کریں گے۔(1)

 اس روایت کی بناء پر اویس قرنی جنگ صفین میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں تھے اور انہوں نے آنحضرت کی بیعت کی ہے۔ لیکن ہم جو دوسری روایت نقل کر رہے ہیں، اس میں آپ نے جنگ صفین سے پہلے ہی کوفہ میں آنحضرت کی بیعت کی تھی۔

  جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت

      جنگ صفین میں رسول اکرم(ص) کے کئی بزرگ اصحاب شریک ہوئے اور انہوں نے  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پرچم تلے اکٹھے ہو کر معاویہ اوراس کے گماشتوں سے جنگ کی اور جام شہادت نوش کیا۔

      امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں صحابیوں کے علاوہ تابعین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور انہوں نے مولائئے کائنات علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے معاویہ اور شام کے لشکر سے جنگ کی۔

     ان بزرگوں میں سے ایک ایسا شخص ہے جس نے خود سازی کی اور جس کا دل ولاء پیغمبر اور آل پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین سے سرشار تھا، اور وہ اویس قرنی ہیں۔

     جناب اویس قرنی ایک مشہور شخصیت ہیں اگرچہ انہوں نے رسول خدا(ص) کو نہیں دیکھا تھالیکن پھر  بھی وہ آنحضرت کے شیدائی تھے اور یہ بزرگ آنحضرت سے بہت زیادہ الفت و محبت کرتے تھے۔     وہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے زمانے میں آنحضرت کے ساتھیوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے آنحضرت کی نصرت کے لئے کمر کس لی۔     ایک دن  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوفہ میں لوگوں معاویہ سے جنگ (جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہے) کے لئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے ۔ کوفہ کے لوگوں میں سے ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا اور اس نے اپنا نام ''اویس قرنی'' بتایا

--------------

[1]۔ زندگانی امیرالمؤمنین علیہ السلام (سید ہاشم رسولی محلاتی): 559

۲۹۳

۔ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

     ایک دن پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا:

   ان أدرک رجلاًمن أمته یقال له''اویس قرنی''، من حزب اللّٰه و رسوله ،  یموت علی الشهادة یدخل ف شفاعته مثل ربیعة و مضر

     بیشک تم میری امت میں سے اویس قرنی نام کے ایک شخص سے ملاقات کروگے ۔  وہ خدا اور رسول خدا (ص) کی حزب میں سے ہے، اسے شہید کیا جائے گا اور قیامت کے اس کی شفاعت سے اتنیزیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے جیسے ربیعہ اور مضر کے قبیلے کے لوگ ۔ جناب اویس قرنی نے جنگ صفین میں شرکت کی اور شہید ہوئے۔(1)

اس روایت میں اہم نکات

      رسول اکرم(ص) کی یہ پیشنگوئی نہ صرف جناب اویس قرنی کی عظمت اور ان کی راہ کی حقانیت کی دلیل ہے بلکہ جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت (رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی میں اس بارے میں غور کرنے سے کہ ان کی موت شہادت سے ہو گی) ان بے شمار دلیلوں میں سے ہے کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی راہ ہی راہ حق ہے اور صرف وہی لوگ اس راہ پر چل سکتے ہیں کہ     جو آنحضرت کے فرمانبردار ہوں۔

     اس روایت سے کچھ نکات اخذکئے جاتے ہیں کہ جنہیں ہم بیان کرتے ہیں:

     1۔ جناب اویس قرنی کا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے

 بارے میں رسول خدا(ص) کا خبر دینا۔

     2۔ آپ نے جناب اویس قرنی کو خدا اور رسول خدا(ص) کی حزب میں سے قرار دیاہے جب کہ وہ مکان کے اعتبار سے آنحضرت کے نزدیک نہیں تھے۔اس بناء پر مکان کے لحاظ سے دوری اور نزدیکی لیاقت اور عدم لیاقت کی دلیل نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ:290

۲۹۴

     3۔ رسول خدا(ص) کا اویس قرنی کے مستقبل کے بارے میں خبر دینا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ شہادت پر ہو گا۔''یموت علی الشہادة''۔

     4۔ حضرت  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی حقانیت اور آپ کے زیر پرچم جان دینے والے افرادشہیدہیں ۔

     5۔ اس روایت سے شفاعت کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:

''یدخل ف شفاعتہ''۔

     6۔ شفاعت کا مسئلہ صرف معصومین  علیہم السلام سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ان کے بزرگ اولیاء بھی بہت سے افراد کی شفاعت کر سکتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد قبیلۂ ربیعہ اور مضر کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

     7۔ گذشتہ مطالب کے علاوہ یہ روایت ان کے لئے بہت اچھی رہنما ہے کہ جو شک و تردید میں  دچار ہوئے اور معاویہ کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے راہ حق کوراہ باطلسے جدا نہکر سکے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ  سکتے تھے کہ عمار یاسر اور اویس قرنی جیسے افراد (جو جس گروہ میں بھی ہوں وہ حق پر ہو گا) کس گروہ میں ہیں تا کہ ان کے وجود کے ذریعہ اس گروہ کے حق ہونے کے بارے میں جان سکیں۔

     قابل توجہ ہے کہ اس روایت کو جاننے والے متعددافراد معاویہ کے لشکر سے جدا ہو کر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق گئے کہ جن میں جناب اویس قرنی بھی شامل تھے۔

جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     ایک ووسرا اہم ترین واقعہ کہ جو معاویہ اور اس کیگماشتوں کی راہ کے باطل ہونے کو واضح کر دیتا ہے ،وہ جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشنگوئی ہے۔ فریقین کے بزرگوں نے یہ پیشنگوئی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور راہب کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔

     ''تاریخ روضة الصفا'' میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشنگوئی کو یوں ذکر کیاگیا ہے:

۲۹۵

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نُخَیلہ سے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب نماز کا وقت قریب ہوا تو آپ راستہ میں موجود مسجد میں تشریف لے گئے،  آپ نے قصر نماز ادا کی اور وہاں سیتیزی سے گذر گئے اور دیر ابوموسی میں قیام فرمایا اور اس جگہ عصر کی نماز ادا کی اور وہاں سے روانہ ہو گئے ،فرات کے کنارے آپ نے مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے قیام کیا ، مدائن کے خیمہ لشکر ظفر کی خیمہ گاہ سے نزدیک ہو گئے ،وہاں کے کسانوں نے مکان کی پیشکش کی لیکن قبول نہیں کی اور رات وہیں گذاری۔ پھر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ انوشیروان کے دارالملک تک پہنچ گئے اور اسی طرح وہاں سے بھی روانہ ہو گئے اور منزلیں اور مراحل طے کرتے ہوئے جزیرة العرب کی حدود میں دیر راہبی تک پہنچ گئے کہ جس پر انہوں نے مینار بنائے ہوئے تھے۔آنحضرت نے وہاں کھوڑے کی لگام کھینچی اور راہب کو آواز دی ،جب راہب نے رعبدارآواز سنی تو کمزور بدن ،رد رنگ اور سیاہ لباس کے ساتھ خانقاہ کی چھت پر آیا۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس سے پوچھا:میرے ساتھی پیاسے ہیں کیاتمہارے پاس تھوڑا پانی ہے ؟

     راہب نے کہا:کچھ دیر ٹھہریں ،میں خوش ذائقہ پانی کی ایک بالٹی لے کر آتا ہوں۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اتنا پانی کافی نہیں ہے۔

     راہب نے کہا: اتنا پانی لاؤں کہ جو بیس افراد کے لئے کافی ہو۔

     امام المسلمین علیہ السلام نے فرمایا: میرے ساتھ بہت سے لوگ ہیں۔

     راہب نے جواب دیا: میرے پاس پانی کے تین برتن بھرے ہوئے ہیں ، میں سارا پانی آپ پر قربان کر تا ہوںاور جو کچھ میرے پاس ہے میں آپ کے قدموں پر نچھاور کرتا ہوں۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے راہب! اس مینار کے نزدیک ایکچشمہ ہے کہ جس سے بنی اسرائیل کے چھ انبیاء سیراب ہوئے اور اب وہ چشمہ دیکھنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔

۲۹۶

     جب راہب نے یہ بات سنی تو چھت سے نیچے آیا اور اس نے عرض کیا: میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ اس جگہ پانی کا ایک چشمہ ہے کہ جو بند ہو گیا ہے ،اوراسے پیغمبر یا ان کے وصی کے علاوہ کوئی بھی نہیں کھول سکتا۔

     حضرت امیر کائنات علیہ السلام نے فرمایا: میں انشاء اللہ اس بند چشمہ کو ڈھونڈ لوں گا۔

راہب نے پوچھا:آپ کا نام کیا ہے؟

     آپ نے فرمایا:علی بن ابیطالب (علیہما السلام)

     راہب نے کہا:مجھے میرے والد سے ایک کتاب ملی ہے کہ جس میں آخر الزمان کے پیغمبر(ص) اور اس چشمہ کو ظاہر کرنے والے کا نام لکھا ہے اور اگر یہ اہم کام آپ کی کوششوں سے انجام پا گیا تو میں آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کروں  گا۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام خانقاہ کے مشرق کی طرف آگے بڑھے اور تقریباً بیس گز کا دائرہ کھینچا اور اس حصہ کو کھودنے کا حکم دیا ،جب وہاں کچھ مقدار میں کھوددائی کی گئی تو بہت بڑا پتھر نمودار ہوا جسے طاقتورلوگوں کے ایک گروہ کے مل کر ہٹانے کی کوشش کی لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اسیس ہلا نہ سکے۔

      امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر خداوند عزّوجل نے چاہا تو میں اس چشمہ سے یہ پتھر ہٹا دوں گا۔

     راہب نے کہا: آپ تنہا یہ کام کیسے انجام دے سکتے ہیں؟ کیونکہ کئی طاقتور پہلوان مل کر بھی اس کو ہٹانے سے عاجز رہے۔      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے راہب؛ ایک دن میں رسول خدا(ص)کے ساتھ سیر کر رہا تھا کہ اچانک آپ نے قریش کے کچھ سربراہوں کو دیکھا کہ جو  ایک پتھرکو اٹھا کی کوشش کر رہے تھے۔

     رسول خدا(ص) نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم لوگ سوچتے ہو کہ طاقت یہ ہے؟ نہیں؛ بلکہ طاقت یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو اس پر قابورکھو۔

۲۹۷

     اس کے بعدٔ جبل ابوقُبیس پر آئے تووہاں ایک بہت بڑا پتھر لڑھک کر زمین پر آیا، آپ نے زبان معجز سے بیان فرمایا:کوی ہے جو اس پتھر کو اٹھا سکے؟

     انہوں  نے کہا:کسی میں بھی اس پتھر کو اٹھانے کی طاقت نہیں ہے۔

     رسول خدا(ص) نے فرمایا:میرے چچا حمزہ،عباس اور میرے چچا کے بیٹے علی (علیہم السلام) کے علاوہ سب لوگ مل کر اٹھا لیں۔

     ابوجہل ملعون اس بات پر ہنسا اور اس نے کہا:یہ بچہ کون ہے کہ جسے تم اپنے چچا کی لڑی میں پرو رہے ہو؟

      پیغمبر اکرم(ص) نے ابوجہل کے مذاق اور مسخرہ کو دیکھا تو فرمایا:میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔

     پھر فرمایا:اے علی؛کلمہ''لاٰ حولَ ولا قوّة الاّٰ باللّٰ ہ''کہو اور اس پتھر کو اٹھاؤ۔

     میں  نے یہ کلمہ کہا اور اس پتھر کو آسانی سے اٹھا لیا۔

     اے راہب !ہم گنج الٰہی کے خزینہ د ار اور وحی آسمانی کے وارث ہیں۔جذبۂ رحمانی ضرور مدد کرے گا اور یہ ہی کافی ہو گا۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کاکلام تمام ہوا تو آپ نے اپناپاک و پاکیزہ  سینہ پتھر پر رکھا اور زور لگایا اور اس عظیم پتھر کو چشمہ سے اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس پتھر کے نیچے سے صاف،خوش ذائقہ اور ٹھنڈا پانی نکلاجس سے لشکر کے افراد اور جانور سیراب ہوئے اور لوگوں کا آنحضرت کی ولایت و کرامت پر اعتقاد مزید مستحکم ہو گیا۔

     راہب نے یہ صورت حال دیکھ کر اسلام کا لباس زیب تن کر لیا اور اجازت چاہی کہ اسے اس کے آباء و اجداد سے وراثت میں ملنے والا صحیفہ  کیمیا اثر امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرے۔وہ کتاب سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی اس کے خلاصہ کا ترجمہ یہ ہے:

     شمعون نے مسیح علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

۲۹۸

میرے  بعد باری تعالی ایسا پیغمبر(ص) مبعوث کرے گا کہ جو خاتم الانبیاء اور خاتم الرسل ہو گا۔

     خوش اخلاق ہو گا،تند کلامی نہیں کرے گا،بازاروں میں آواز اونچی نہیںکرے گا،برائی کا جواب برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو و مہربانی فرمائے گااوراپنے کرم سے درگذر کرے گا ،ان کی  امت مخفی و اعلانیہ جہر سے خدا کی حمد و ثناء میں مشغول رہے گی۔

     جب وہ اس دار فانی سے جائیں گے تو ان کے تابعین اختلاف کے بعد اتفاق کرے  اور کچھ عرصہ کے بعد پھر ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور ان کی امت میں سے ایک شخص اہل مشرق کو ساتھ لے کر اہل مغرب سے جنگ کے لئے اس دریا کے کنارے سے گذرے گا کہ جو صورت اور سیرت کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ پیغمبر اکرم(ص) سے نزدیک ہو گا اور اس شخص کا حکم انصاف اور سچائی پر مبنی ہو گا۔وہ مہم امور میں سستی نہیں کرے گا ،رشوت نہیں لے گا،دنیا کے زرق برق اس کی نظر میں راکھ سے بھی زیادہ بے قیمت ہوں گے اور اس کی طینت میں موت پیاسے کے حلق میں پانی جانے سے بھی زیادہ آسان ہے اور تنہائی میں خداوند سے ڈرتا ہو گااور علانیہ طور پر سچائی اور عدالت سے کام لے گا۔جو بھی ان کے زمانے  کو درک کرے گا ا،وہ ان کی اطاعت و پیروی کرے کیونکہ ان کی خوشنودی خدا وند متعال کی رضائیت کا باعث ہے۔     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اس صحیفہ کے مضمون کے بارے میں علم ہواتو آپ نے  خدائے واجب الوجود کی حمد و ثنا کے لے اپنے لب کھولے اور کہا:     میں کس طرح اس نعمت کو شکر ادا کروں کہ جس نے ہمارے تذکرة کو باقی رکھا اور ہمیں محروم نہیں چھوڑا۔راہب نے کہا:یا  امیر المؤمنین !میں آپ کی خدمت سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا اور نعمت و نقمت ہر حال میں پوری زندگی آپ کی خدمت میں رہوں گا اور دنیامیں مجھے جو بھی زحمت اور مصیبت ملے اسے دل و جان سے قبول کروں گا۔حبیبة الغربی کہتے ہیں:وہ جوان  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا مصاحب تھا یہاں تک کہ وہ جنگ صفین میں شہید ہو گیا اور  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان پر نماز ادا کی اور فرمایا: یہ ہم اہلبیت میں سے ہیں۔(1)

--------------

[1] - تاریخ روضة الصفا: ج۴ ص۱۹۴6، نصر بن مزاحم منقری نے اس کا کچھ حصہ ''وقعة صفین'' میں ذکر کیا ہے۔

۲۹۹

     اس پیشنگوئی میں جو اہم ترین نکتہ موجود ہے ، وہ یہ ہے کہ معاویہ کے لشکر کو اہل مغرب سے تعبیر کیا گیا ہے ، ممکن ہے کہ یہ صفین کی جنگ میں معاویہ کے روم کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات کے لئے قرینہ ہو۔انشاء اللہ اس بارے میں مناسب موقع پر بحث کریں گے۔

حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

     جنگ صفین اور حکمیّت کے مسئلہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں اس قدر واضح و روشن ہیں کہ اگر مسلمان ان کے بارے میں  تھوڑا سا بھی غور کریں تو وہ بخوبی متوجہ ہو جائیں گے کہ معاویہ نے جنگ صفین میں رسول خدا(ص) کے حکم کے برخلاف عمل کیا۔

     اس حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لئے اصل واقعہ ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں ہم اہم نکات بیان کریں گے:

     جنگ بنی قریظہ اور اس کے بھیانک انجام کے بعد (کہ جس کا سبب حیّ بن أخطب یہودی تھا) ہجرت کے پانچویں  سال  میں مدینہ میں خبر پہنچی کہ کچھ ڈاکوؤں نے مدینہ کے شمال اور ''دومة(1) الجندل''کے علاقہ میں  قافلوں کے لئے سدّراہ بن گئے ہیں  اور وہ لوگوں کا مال لوٹ رہے ہیں۔

     پیغمبر اکرم(ص) ایک ہزار اصحاب کے ساتھ 52 ربیع الأوّل 5 ھ کو مدینہ سے دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔

     جب ڈاکوؤں نے لشکر اسلام کو دیکھا تو وہ سب بھاگ گئے لیکن ان کا کچھ مال و مویشی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔''دومة الجندل'' میں توقف کے دوران رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب (کہ جن میں ابوموسیٰ اشعری بھی موجود تھا) کی طرف دیکھ کر فرمایا:     میرے بعد یہاں میرے اصحاب میں سے دو افراد فیصلہ کے لئے بیٹھیں گے ، ان کا فیصلہ ظلم و ستم کی وجہ سے ہو گا کہ جس طرح بنی اسرائیل کے دو افراد نے بھی یہاں ظلم و ستم سے فیصلہ کیا تھا۔

--------------

[1]۔ دومة یا دوما ،حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا۔

۳۰۰