معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 148395
ڈاؤنلوڈ: 5445

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148395 / ڈاؤنلوڈ: 5445
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     رسول خدا(ص) کی یہ  پیشنگوئی سن پانچ ہجری میں تھی اور تیس سال کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا کیونکہ جنگ صفین میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو حکمیّت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں سے ابوموسی اشعری کو منتخب کیا گیا لیکن امام علیہ السلام اس کو منتخب کرنے پر راضی نہیں تھے جب کہ معاویہ کا نمائندہ عمرو عاص تھا۔

     یہ دو افراد ''دومة الجندل'' کی سرزمین پر فیصلہ کے لئے بیٹھے۔ اس فیصلہ میں ابوموسی اشعری اگرچہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ تھا لیکن پھر بھی اس نے خیانت کی اور اس نے آنحضرت کو مسند خلافت (جو آنحضرت کا مسلّم حق تھا) سے معزول کر دیالیکن عمرو عاص نے اپنی آسائشوں کے  ولی یعنی معاویہ کی خلافت کا حکم دیا۔

جیسا کہ ابن ابی الحدید اور تمام اہلسنت دانشوروں نے لکھا ہے کہ حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی اس واقعہ کے رونما ہونے سے تیس سال پہلے تھی تا کہ سب کے لئے یہ ثابت ہو جائے کہ حکمیّت کے واقعہ سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ ظلم ہوا اور معاویہ نے ظلم و ستم سے  مسند خلافت پر غاصبانہ طریقہ سے قبضہ کیا۔

حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص)کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے نصر بن مزاحم سے نقل کیا ہے: جب عمرو عاص اور ابوموسی اشعری کے درمیان صلح نامہ لکھنا شروع ہوا تو اس میں یوں لکھا گیا:

     یہ وہ عہد ہے جس پر علی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور معاویہ بن ابی سفیان نے موافقت کی....۔

     معاویہ نے کہا: کتنا برا شخص بن جاؤں گا کہ جب میں یہ اقرار کروں کہ وہ (علی علیہ السلام) امیر المؤمنین ہیں.....۔

     جب عہدنامہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ ''امیر المؤمنین'' کا عنوان مٹا دیا جائے اور پھر فرمایا: جب حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا:یا علی!تمہارے لئے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا جائے گا۔(1)

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: 178

۳۰۱

     اب ہم حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی کا اصل واقعہ بیان کرتے ہیں:

     پیغمبر اکرم(ص) نے بیس دن تک حدیبیہ کے مقام پر قیام کیااس مدت کے دوران پیغمبر(ص) کے سفیر مکہ بھی جاتے تھے تا کہ مشرکین کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے راضی کر سکیں اور مشرکین کے سفیر حدیبیہ آتے  تھے تا کہ رسول خدا(ص) کو مکہ میں داخل ہونے سے  روک سکیں۔

     آخرکار مشرکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ پیغمبر خدا(ص) کے ساتھ صلح نامہ پردستخط کریں تا کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا جائے اور اس کے بدلے میں آئندہ سالتین دن تک صرف عمرہ انجام دینے کے لئے مکہ میں آئیں۔

     مشرکین کے سربراہوں میں سے دو افراد سہیل بن عمر اور حفص بن احنف معاہدہ کے لئے مکہ سے روانہ ہوئے۔ان دونوں سے پہلے حفص کا بیٹا مِکَرز پیش قراول کے طور پر موجود تھا۔پیغمبر(ص) نے دور سے مِکَرز کو دیکھا تو اپنے اصحاب سے فرمایا:

     کوئی بھی اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے کہ یہ پیمان شکن اور فاجر شخص ہے۔

     لہذا اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کے ساتھ  گفتگو نہیں کی۔ اورجب آپ نے سہیل بن عمرو کو دیکھا تو فرمایا:''سہل أمرنا'' یعنی ہمارے لئے کام آسان ہو گیا۔

     ابتدائی  گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ صلح نامہ لکھا جائے۔  امیر المؤمنین علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے ساتھ  تشریف فرما تھے،اور قلم و کاغذ بھی آپ کے ہی دست مبارک میں تھے،سہل اور حفص بھی دو زانو ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول خدا(ص) کے باقی اصحاب خیمہ کے اردگرد موجود تھے اور لکھنے کا سارا عمل دیکھ رہے تھے۔

     پیغمبر خدا(ص) نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو حکم دیا :

     لکھو:بسم اللّٰه الرحمن الرحیم

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے لکھنا شروع کیا تو سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور لکھنے سے روک دیا اور کہا: ٹھریں؛ یہ رحمن و رحیم کیا ہے؟ میں کسی رحمن و رحیم کو نہیں جانتا!  بلکہ آپ لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

۳۰۲

       امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھا، آنحضرت نے صبرو تحمل کے ساتھ فرمایا:

     یا علی ! لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

     اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: لکھو: یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کے ساتھ صلح  نامہ ہے۔

     پھر سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا:اے محمد! اگر ہم تمہیں خدا کا رسول مانتے تو یہ سارے اختلافات نہ ہوتے! اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھو۔

     مسلمانوں میں سے ہر کوئی آپس میں گفتگو کرنے لگا لیکن  امیر المؤمنین علی علیہ السلام پیغمبر خدا(ص) کے حکم کے منتظر تھے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     یا علی؛''محمد رسول اللہ ''کی بجائے'' محمد بن عبداللہ'' لکھو۔

     بہرحال اس طرح لکھا گیا اور ہر بار سہیل لکھنے کے وقت کسی مطلب پر اعتراض کرتا تھا۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے''محمد رسول اللہ'' کو مٹایا اور اس کی بجائے''محمد بن عبداللہ'' لکھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

     یا علی!ایسا دن تمہارے لئے بھی آئے گا۔

     اکتیس سال بعد (یعنی جنگ صفین کے بعد) جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ یعنی ابوموسی اشعری اور معاویہ کا نمائندہ یعنی عمرو عاص دومة الجندل میں فیصلہ کے لئے بیٹھے تو تاریخ نے ایک بار پھرتاریخ کو دہرایاکیونکہ جس طرح رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا: عہد نامہ لکھتے وقت عمرو عاص نے ابوموسی سے کہا: اے شخص؛اگر ہم علی کو'' امیرالمؤمنین ''سمجھتے تو کبھی بھی اس کے ساتھ نزاع واختلاف نہ کرتے۔     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی توآپ کو فوراً رسول خدا(ص) کی وہ باتیں یاد آئیں اور آپ نے فرمایا: کبھی بھی کوئی پیغمبر خدا(ص) سے زیادہ سچا نہیں ہو سکتا۔(1)

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: 187

۳۰۳

  ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ابو محمد بن منویہ نے کتاب''الکفایة'' میں لکھا ہے:

     ابوموسی نے جو کام انجام دیا وہ ایک گناہ عظیم ہے اور اس کے کام کا جونقصان  ہوا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اپنے قنوت میں اس پر اور کچھ دوسرے لوگوں پر لعنت کرتے تھے اور کہتے تھے:

     خدایا؛ پہلے معاویہ، دوسرے عمرو عاص ،تیسرے ابواعور سلمی اور چوتھے ابوموسی پر لعنت فرما۔

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ابوموسی کے بارے میں فرمایا:

     پہلے اس نے علم کا رنگ اپنایا جس طرح اس کا حق تھا اور پھر اس سے الگ کر دیا گیا جیسے الگ ہونے کا حق تھا۔

     ابن منویہ کہتا ہے: ابوموسی وہی ہے کہ جس نے پیغمبر خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

     بنی اسرائیل کے درمیان دو گمراہ منصف تھے اور جلد ہی میری امت میں بھی دو گمراہ منصف ہوں گے، جو بھی ان دونوں کی پیروی کرے وہ گمراہ ہے۔

     اس سے کہا گیا: کہیں ان دو منصف میں سے ایک تم ہی نہ ہو؟

     اس نے کہا: نہیں  یاکوئی ایسی بات کی کہ جس کے ایسے ہی معنی تھے، جب وہ اس مسئلہ میں گرفتار ہوا تو اس کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس نے اپنی ہی زبان سے بلا و مصیبت کو گلے لگایا ۔ جس طرح دوسروں کی توبہ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اس طرح اس کی توبہ بھی ثابت نہیں ہے۔(1)

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۵ ص۴۰۱

۳۰۴

 حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

     ان پیشنگوئیوں میں اہم اور قابل توجہ نکات موجود ہیں  کہ جن کے بارے میں غور کرنا ضروری ہے:

     1۔رسول خدا(ص) کے فرمان سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت تمام اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو عادل ہونے سے مبرّا جانا ہے۔ کیونکہ آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے: میرے صحابیوں میں سے دو افراد انصاف کرنے کے لئے بیٹھیں گے اور ان کا فیصلہ ظلم و ستم پر مبنی ہو گا۔ اس بنا پر ان دو افراد کو نہ صرف عادل نہیں سمجھا گیا بلکہ ان کا تعارف ظالم ا ور ستمگر کے طور پر کروایا گیا ہے۔

     2۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس روایت کی بناء پر اہلسنت کے لئے عدالت صحابہ پر استدلال کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور ان کا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے۔

     3۔ تیسرا نکتہ کہ جس پر غور کرنا ضروری  ہے ،وہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے حکمیت کی اس پیشنگوئی میں دو حکَم کو باطل سمجھا ہے اور انہیں ظلم و ستم قرار دیا ہے۔اس بناء پر ابوموسی کاامیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کا حکم ظلم و ستم تھا اور عمرو عاص کا معاویہ کو خلافت کے منصب پر فائز کرنا بھی ظلم و ستم تھا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو گا:

     الف: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا حق مسلّم تھا اور انہیں خلافت سے الگ کرنا ظلم و ستم ہے۔

     ب: معاویہ میں خلافت کی لیاقت و صلاحیت نہیں تھی اوراسے خلیفہ بنانا بھی ظلم وستم تھا۔

     پس رسول خدا(ص) کے فرمان کی بناء پر آنحضرت کے خلیفہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں اور معاویہ امیر کائنات علی علیہ السلام کے حق کا غاصب ہے ۔ حکمیّت کے واقعہ میں آنحضرت پر ظلم وستم ہوا اور آپ مظلوم واقع ہوئے۔

     4۔رسول خدا(ص) کا فرمان قرآن اور وحی الٰہی کے مطابق تھا جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

    (وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْهَوَی * إنْ هُوَ إلاّ وَحْی یُوحَی ) (1)

--------------

[1]۔ سورۂ نجم، آیت:3،4

۳۰۵

     ''اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے  اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ''۔

     اس بناء  پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکمیّت (جن کو رسول خدا(ص) نے ردّ کیا) قرآن کی بنیاد پر نہیں تھی اور دونوں افراد نے اپنے ذاتی مفاد کی بناء پر حکم کیا تھا نہ کہ انہوں نے آیات قرآن اور وحی الٰہی سے استفادہ کیا۔

     قرآن کی کون سی آیات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے اور معاویہ کو مقام خلافت پر بٹھانے پر دالت کرتی ہیں؟!

     5۔ حکمیّت کا مسئلہ قرآن کی پیروی کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ جنگ کو ختم کرنے،معاویہ اور  عمرو عاص کو یقینی شکست سے بچنے کے لئے تھا۔

     6۔ اگر شکست سے بھاگنے کے لئے حکمیّت کے مسئلہ کو مطرح نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے قرآن کے حکم کی پیروی کی وجہ سے  مطرح کیا گیا تھا تو انہوں نے جنگ سے پہلے اس حکم کو کیوں قبول نہیں کیا کہ جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام  انہیں حکم الٰہی کو قبول کرنے اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دے رہے تھے؟!

     7۔ حکمیّت کے مسئلہ میں قرآن سے استدلال نہیں کیا گیا اور اپنے حکم کے لئے کسی بھی آیت کو عنوان قرار نہیں دیا گیاپس پھر کچھ مسلمان کس طرح معاویہ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ مانتے ہیں؟!

     8۔ صرف یہی نہیں کہ حکمیّت کے مسئلہ کی بنیاد قرآن پر نہیں تھی بلکہ معاویہ کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے اور معاویہ کی آنحضرت سے مخالفت اصل میں قرآن کی مخالفت ہے۔کیونکہ   عثمان کی موت سے معاویہ کو شام پر نہ ہی تو کوئی قانونی اختیار تھا اور نہ ہی اس کے پاس خلافت کاکوئی

     جواز تھا۔ پس جب اس کے پاس خلافت نہیں تھی تو وہ کس طرح عثمان کے خون کا ولی ہو سکتا ہے؟!

     9۔ اس کے علاوہ عثمان کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے معاویہ عثمان کے خون کا ولی بھی نہیں تھا تو پھر کس طرح معاویہ خود کو عثمان کے خون کا ولی کہہ رہا تھا؟ اس بناء پر معاویہ کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا اور آپ کی مخالفت کرنا درحقیقت قرآن کی مخالفت تھی۔

۳۰۶

     10۔ دوسرا اہم نکتہ: جس طرح حدیبیہ کے صلح نامہ سے لفظ ''رسول اللہ'' کو مٹا دینا خلاف واقع اور حکم خدا کے برخلاف تھا اسی طرح حکمیّت کے مسئلہ میں لفظ''  امیرالمؤمنین'' کو مٹا دینا بھی خلاف واقع اور خوشنودی پروردگار کے بر خلاف ہے۔     اس بناء پر جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ''رسول اللہ'' تھے اور یہ لفظ آن حضرت کے اسم مبارک کے ساتھ ہونا چاہئے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ''  امیرالمؤمنین''بھی ہونا چاہئے،اور جس طرح لفظ ''رسول اللہ''کو مٹا دینا پیغمبر خدا(ص) پر ظلم تھا اسی طرح لفظ ''  امیرالمؤمنین''کو مٹا دینا  مولائے کائنات علی علیہ السلام پر ظلم ہے۔

     11۔ ایک اور اہم نکتہ: کلمہ''امیرالمؤمنین'' کو مٹا دیناحضرت علی علیہ السلام  پر ظلم ہے کیونکہ آنحضرت سب مؤمنوں کے امیر ہیں۔اس بناء پر معاویہ کے دعویٰ کا کوئی جواز باقی نہیں بچتاکیونکہ وہ نہ ہی تو مؤمنوں کاامیر ہے اور نہ ہی رسول(ص) کا خلیفہ ہے۔

     12۔ دوسرا اہم نکتہ: چونکہ معاویہ کے پاس مؤمنوں کی سربراہی و خلافت کا مقام نہیں تھا۔ایسے مقام کا دعویٰ کرنے والا انسان گمراہا ور گمراہ کرنے والا ہوتا ہے اور اس کے پیروکار اور تابعین بھی سب کے سب گمرا ہ ہوتے ہیں۔

     13۔ ایک اور اہم نکتہ:رسول خدا(ص) کی تیسری پیشنگوئی کے مطابق معاویہ نہ صرف یہ کہ گمراہ شخص ہے بلکہ اسے برسرحکومت لانے والے دونوں منصف بھی گمراہ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے بھی گمراہ ہیں۔     قابل توجہ یہ ہے ابوموسی اشعری نے خود یہ روایت رسول خدا(ص) سے سنی اور روایت کی ہے۔     حکمیّت کے واقعہ کے رونما ہونے اور اس کے بطلان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں میں بہت زیادہ اہم نکات موجود ہیں جو سب کے لئے بخوبی یہ واضح کردیتے ہیں کہ معاویہ کو تخت خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس نے پہلے سے تیارشدہ پروگرام ،اپنی مکاریوں اور عمرو عاص کی فریب کاریوں کی مدد سے بے شمار مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کیا ہے۔  حکمیّت کے موضوع کے علاوہ رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئیوںسے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ کا کردار و رفتار رسول خدا(ص) کے ارشادات و فرمودات کے برخلاف تھا۔

۳۰۷

  رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

     محمد بن مہران نے محمد بن علی بن خلف سے  ، انہوں نے محمد بن کثیر سے، انہوںنے اسماعیل بن زیاد بزّار سے نہوں نے ابی ادریس سے اور انہوں نے رافع (عائشہ کا آزاد کیا ہوا) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

جب میں کمسن تھا  اور اس کی خدمت میرے ذمہ تھی اور عام طورپر جب پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں ہوتے تو میں وہاں قریب ہی رہتا۔ایک دن پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں تھے،کوئی آیا اور اس نے دستک دی۔ میں گیا، دیکھا تو ایک کنیز تھی کہ جس کے پاس ایک برتن تھا کہ جو اوپر سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں عائشہ کے پاس آیا اور اسے اس بارے میں بتایا۔اس نے کہا: اسے گھر میں لے آؤ۔وہ کنیز آئی اور اس نے وہ برتن عائشہ کے پاس رکھ دیا ، عائشہ نے وہ برتن پیغمبر (ص) کے پاس رکھ دیا اور آپ نے کھانا شروع کیا اور فرمایا:

     اے کاش! امیرالمؤمنین، سالار اوصیاء ،پیشوا اور امام المتقین بھی میرے ساتھ ہوتے اور اس غذا سے تناول کرتے۔

     عائشہ نے پوچھا: وہ کون ہیں؟

     اسی موقع پر پھر سے دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں گیا اور دیکھا کہ  امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں ۔ میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: علی علیہ السلام گھر کے دروازے پر ہیں۔

     فرمایا: انہیں اندرلے آؤ۔جیسے ہی  علی علیہ السلام داخل ہوئے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     کیا بہتر؛میں نے آپ کے آنے کی آرزو کی تھی اور اگر آپ دیر سے آتے تو میں خدا سے دعا کرتا کہ آپ کو میرے پاس بھیج دے۔بیٹھو اور میرے ساتھ یہ غذا تناول فرماؤ۔

     جب   امیر المؤمنین علی علیہ السلام بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:

     خداوند انہیں  ہلاک کر کہ جوآپ سے جنگ کرے ،خداوند اس سے دشمنی رکھتا ہے کہ آپ سے دشمنی کرے۔

     عائشہ نے کہا:ان کے ساتھ کون جنگ کرے گا اور کون ان سے دشمنی رکھے گا؟

۳۰۸

     فرمایا: تو اور تیرے ساتھی۔     یہ حدیث بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے عائشہ کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے اور حلانکہ وہ جانتی  تھی کہ امام المتقین کون ہیں، لیکن پھر بھی اس نے پوچھا کہ جواس کے انکار کی حکایت کرتا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نفرین بھی حکایت کرتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ عائشہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرے گی ۔ لہذا رسول خدا(ص)   امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتے تھے اور امت کے افکارسے ہر قسم کے شبہات کو دور کرنا چاہتے تھے کہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام حق و صراط مستقیم پر ہیں اور آپ کا دشمن اپنی دشمنی میں باطل پر ہے۔(2)(1) پیغمبر اکرم(ص) نے یہ روایت مطلق ارشاد فرمائی ہے اس بناء پر اس میں معاویہ اور دوسرے بھی شامل ہیں۔

مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

کتاب ''المناقب والمثالب''میں لکھتے ہیں:جب مروان پیدا ہوا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لے کر گئے تا کہ اس طالو اتار دیں؛جس طرح مسلمان بچوں کے ساتھ یہ رسم  انجام دی جاتی ہے۔  پیغمبر اکرم(ص) نے اس کے لئے یہ کام انجام نہ دیا اور اسے اپنی خیر سے محروم کردیا اور فرمایا:أتون بأزرقهم (3)   سب سے زیادہ نیلی آنکھوں والے کو میرے پاس لائے ہیں۔(4)

     کتاب ''الفتن'' میں مروزی نے پیغمبر اکرم(ص) کے قول سے یہ جملہ نقل کیاہے:

    ابن الزرقاء هلاک عامّة اُمّتی علی یدیه و ید ذرّیّته ۔(5)

     میری عام امت ابن زرقاء اور اس کی ذرّیّت کے ہاتھوں ہلاک ہو گی۔

--------------

[1] ۔ یہ روایت کشف الیقین:13 اور 14 ،بحار الأنوار(جدید چاپ): 35138  میں آئی  ہے۔ اسی طرح بحار الانوار: ج 38 ص360 -348  کی طرف رجوع فرمائیں۔

[2]۔ نبرد جمل:254

[3]۔ المناقب و المثالب:296

[4]۔''فرہنگ جامع''میں  لکھا ہے:''ازرق''خبیث اور بدجنس دشمن کے لیے کنایہ ہے۔

[5]۔ الفتن مروزی:72

۳۰۹

  مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

     جمل کے واقعہ کے بعد مروان معاویہ سے مل گیا اور اپنی پیدائشی خباثت و نجاست اور اپنے گندے عقیدے کی وجہ سے وہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دشمنی میں کوشاں کرتا رہا اور آنحضرت کی وفات کے بعد اسے دو مرتبہ مدینہ کی حکومت ملی۔

 ابن اثیر نے کہا ہے: یہ ہر جمعہ کے دن منبر رسول خدا(ص) پر جاتا اور مہاجرین و انصار کی موجود میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام بہت زیادہ سبّ و شتم کرتا۔جب یزید بن معاویہ کو حکومت ملی تو مروان مدینہ میں تھا اور اس نے واقعۂ حرّہ میں مدینہ والوں کو قتل کرنے کے لئے مسلم بن عقبہ کو ورغلایا اور معاویہ بن یزید کی خلافت کے زمانے میں وہ شام میں تھا اور جب معاویہ مر گیا اور آل ابی سفیان کی حکومت ختم ہو   گئی اور لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت کر لی تو مروان نے ابن زبیر کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا، ااس نے مکہ کی طرف جانا چاہا تو بعض نے اسے منع کیا اور اس خلافت کا لالچ دلایا۔مروان جاثیہ کی طرف چلا گیا کہ جو شام اور اردن کے درمیان ہے۔عمرو بن سعید بن العاص (جو أشدق کے نام سے مشہور تھا) نے مروان سے کہاکہ میں لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لیتا ہوں بشرطیکہ تمہارے بعد مجھے حکومت اور خلافت ملے ۔

     مروان نے کہا: خالد بن یزید بن معاویہ کے بعد خلافت تمہاری ہے۔اشدق نے قبول کر لیا اور لوگوں کو اس کی بیعت کی طرف بلایا۔

     سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کی بیعت کی وہ اردن کے لوگ تھے کہ جنہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار کے خوف سے بیعت کی۔پھر شام اور کچھ دوسرے شہروں  کے لوگوں  نے بیعت کی۔

     مروان نے اپنے کارندوں کو مختلف شہروں میں بھیجا اور خود مصر کی طرف روانہ ہو گیا  اور اس نے اہل مصر کا محاصرہ کر لیا اور ان کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر کی بیعت کو چھوڑ دیا اور مروان کی اطاعت میں کرلی۔

     مروان نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ان کا حاکم مقرر کیا اور خود شام واپس لوٹ آیا۔جب وہ شام میں داخل ہوا تو اس نے حسان بن مالک (جوقحطان کا  سید و سربراہ تھا) کو بلایااور اس خوف سے کہیں اس کے بعدبداعیۂ ریاست میں بغاوت و سرکشی نہ ہو جائے لہذا اس نے اسے ترغیب  دلائی کہ وہ خلافت کی طمع  کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔

۳۱۰

     جب حسان نے یہ دیکھا تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے ایک خطبہ پڑھا اور لوگوں کو مروان کے بعد عبدالملک بن مروان اور عبدالملک کے بعد عبدالعزیزمروان کی بیعت کی دعوت دی اور لوگوں نے بیعت کر لی اور مخالفت نہ کی۔

     جب مروان کی بیوی اور خالد بن یزید کی ماں فاختہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے مروان کو قتل  کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس نے اپنا وعدہ توڑا تھا جب کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بعد خلافت خالد بن یزید کی ہو گی۔پس اس نے دودھ میں زہر ملایا اور مروان کو دیا ۔جب مروان نے اسے پیا تو اس کی زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ حالت احتضار میں پہنچ گیا۔

     عبدالملک اور اس کے سب بیٹے اس کے پاس آئے اور مروان نے اپنی انگلی سے خالد کی ماں کی طرف اشارہ کیا یعنی اس نے مجھے قتل کیا ہے ،لیکن خالد کی ماں نے یہ بات چھپانے کے لئے کہا: میرا باپ تجھ پر قربان؛تم مجھے کتنا چاہتے ہو کہ مرتے وقت بھی مجھے ہی یاد کر رہے ہواور اپنے بیٹوں کو میری  بارے میں وصیت کر رہے ہو۔

     دوسرے قول کے مطابق جب مروان سو رہا تھا تو خالد کی ماں نے اس کے منہ پر تکیہ رکھ دیا اور اپنی کنیز کے ساتھ اس پر بیٹھ گئی یہاں تک کہ مروان کا دم نکل گیا۔

     یہ واقعہ65ھ میں پیش آیا اور مروان کی تریسٹھ سال عمر تھی اوراس نے تقریباً نو مہینے  خلافت کی۔اس کے بیس بھائی، آٹھ بہنیں،گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

     فریقین کی کتابوں میں اس پر لعنت کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور اہلسنت کی کتابوں میں اس بارے میں ایک روایت ہے کہ عائشہ نے مروان سے کہا:

میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نے تیرے باپ پر لعنت کی جب کہ تو اس کے صلب میں تھا۔

     ''حیاة الحیوان''، ''تاریخ خمیس ''اور ''اخبار الدول'' میں مستدرک حاکم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :عبدالرحمن بن عوف نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لایا جاتا تا کہ آنحضرت اس کے لئے دعا کریں لیکن جب آنحضرت کے پاس مروان کو لایا گیا تو آپ نے اس کے حق میں فرمایا:

۳۱۱

     هو وزغ بن الوزغ الملعون بن الملعون

     یہ چھپکلی اور چھپکلی کا بیٹا ہے، یہ ملعون  اور ملعون کا بیٹا ہے۔

     حاکم نے بھی روایت کی ہے:

عن عمرو بن مرّة الجهن و کانت له صحبة: ان الحکم بن أبی العاص استأذن عن النبی (ص) فعرف صوته فقال: ائذنوا له، علیه و علی من یخرج من صلبه لعنة اللّٰه الاَّ المؤمن منهم و قلیل ماهم، یترفهون فی الدنیا و یضیعون فی الآخرة، ذومکر و خدیعة، یعطون ف الدنیا وما لهم فی الآخرة من خلاق ۔(1)

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     واقدی نے کہاہے کہ جب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام جنگ جمل جیت گے تو قریش کے جوانوں کا ایک گروہ آیا اور انہوں نے آنحضرت سے امان طلب کی اور یہ کہ انہیں بیعت کرنے کی اجازت دی جائے اور اس بارے میں انہوں نے عبداللہ بن عباس کو شفیع قرار دیا۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان کی شفاعت قبول کی اور انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے خطاب فرمایا:

     افسوس ہے تم گروہ قریش پر!کس جرم کی بناء  پر تم نے مجھ سے جنگ کی؟کیا میں نے تمہارے درمیان عدل کے بغیر کبھی کوئی حکم کیا؟ یا کبھی ایسا ہوا کہ تم لوگوں میں کوئی مال برابر تقسیم نہیں کیا؟یا کسی کو تم لوگوں پر برتری دی؟ یا میں پیغمبر(ص) سے دور تھا؟یا میں نے اسلام کی راہ میں کم مصیبتیں بردشت کی ہیں؟

     انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین!ہماری مثال یوسف کے بھائیوں کی طرح ہیں ،ہمیں معاف فرمائیں اور ہمارے لئے استغفار کیجئے۔

--------------

[1] ۔تتمّة المنتهی :79

۳۱۲

     آپ نے ان میں سے ایک کی طرف دیکھ کر کہا:تم کون ہو؟

     اس نے کہا: میں مخرمہ کا بیٹا مساحق ہوں اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کا اعتراف کرتا ہوں اور   میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے تم لوگوں سے درگذر کی اور تم سب کو معاف کر دیا اور خدا کی قسم!اگرچہ تم لوگوں میں وہ شخص بھی موجودہے کہ اگر چہ وہ ہمارے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کربیعت تو کرے گا لیکن پشت دکھا دے گا۔

     مروان بن حکم جس نے ایک شخص کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی،وہ آگے آیا۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا:تمہیں کیا ہوا ہے کیا تم زخمی ہو؟

     کہا:جی ہاں!اے امیر المؤمنین !اور مجھے اپنی موت بھی اسی زخم میں دیکھائی دے رہی ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا:

     نہیں؛ خدا کی قسم! اس زخم کا تم پر کوئی خوف نہ ہو اور جلد ہی یہ امت تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے خون آلود دن دیکھے گی۔

     مروان نے بیعت کی اور واپس لوٹ گیا۔

پھر عبدالرحمن بن حارث بن ہشام آگے آیا اور جب اس پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی  نگاہ پڑی توآپ نے فرمایا:

     خدا کی قسم!اگرچہ تم اور تمہارا خاندان اہل صلح تھا  اگرچہ تم لوگ توانگر ہولیکن پھر بھی تم لوگوں سے  درگذر کرتا ہوں اور یہ میرے لئے بہت پریشانی کا باعث ہے کہ میں  نے تمہیں اس قوم کے ساتھ دیکھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ یہ اتفاق نہ ہوتا۔ عبدالرحمن نے کہا: وہ ہو گیا کہ جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ اس نے بھی بیعت کی اور واپس چلا گیا۔(1)

--------------

[1]۔ نبرد جمل:248

۳۱۳

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابو مخنف نے عدی سے، انہوںنے ابی ہشام سے، انہوں نے بریدسے، انہوں نے عبداللہ بن مخارق سے اور انہوں نے ہاشم بن مساحق قرشی سے نقل کیا ہے کہ انہوںنے کہا ہے: میرا باپ کہتا تھا: جب جنگ جمل سے لوگ بھاگ گئے تو قریش کا ایک گروہ کہ ( جن میں مروان بن حکم بھی شامل تھا) اس کے پاس آیا اور ان میں سے بعض نے دوسروں سے کہا: خدا کی قسم! ہم نے اس شخص (یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام) پر ظلم کیا ہے اور بغیر کسی وجہ کے ان کی بیعت کو توڑا  ہے ۔اور خدا کی قسم!جب یہ ہم پر کامیاب ہو گئے تو ہم نے رسول خدا(ص) کے بعد ان سے زیادہ کوئی کریم اور بخشنے والا نہیں دیکھا۔اب آؤ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں۔     کہتے ہیں: ہم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر گئے اور اجازت طلب کی۔ آنحضرت نے اجازت دی اور جب ہم آپ کے سامنے پہنچے تو ہم میں سے ایک شخص نیکلام کرناچاہا ۔ لیکن آپ نے فرمایا:جب تک میں بات نہ کر لوں آرام سے اور خاموش رہو۔ بیشک میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ،اگر میں حق کہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگرغلط بیانی سے کام لوں تو میری بات کو ردّ کرنا۔اب میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں!کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب رسول خدا(ص) کی رحلت فرما گئیتو میں آنحضرت کے سب سے زیادہ قریبی تھا اور لوگوں پر حکومت کے لئے سب سے زیادہ حق دار تھا؟     انہوں نے کہا:جی ہاں! ہم جانتے ہیں۔

     آپ نے فرمایا:لیکن پھر بھی تم لوگوں نے مجھ سیمنہ موڑ لیا اور ابوبکر کی بیعت کر لی،میں نے برداشت کیا اور میں نہیں چاہا تھا کہ مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو حکومت دے دی۔میں نے پھر بھی گریز کیا اور لوگوں میں کوئی تحریک پیدا نہ کی حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کام کے لئے میں ہی سب سے زیادہ شائستہ ہوں اور رسول خدا(ص) کی جانشینی کے لئے میں ہی سب  سے زیادہ اہل ہوں۔لیکن میں نے صبر و تحملکا دامن نہ چھوڑایہاں تک کہ وہ قتل ہو گیا اور اس (عمر)نے مجھے شوریٰ کا چھٹا شخص قرار دیا۔میں نے پھر بھی خلافت سے ہاتھ اٹھا لیاکیونکہ میں مسلمانوں میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتا تھااور تم

۳۱۴

لوگوں نے عثمان کی بیعت کر لی اور تم نے خود ہی اس کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کر دیا تھا۔میں تو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ،تم لوگ خود میرے پاس آئے اور میری بیعت کی کہ جس طرح تم لوگوں نے ابوبکر اور عمر کی بیعت کی تھی ۔تم لوگوں نے ان دونوں سے تو وفاداری کی لیکن تم نے مجھ سے اپنے عہد کی وفا نہ کی ۔کس چیز کی وجہ سے تم لوگوں نے ان دونوں کی بیعت تو نہ توڑی لیکن میری بیعت توڑ دی؟

     ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام!آپ خدا کے صالح بندے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بنیں کہ جو فرماتےتھے:      آج تمہارے لئے کوئی ملامت نہیںہے ۔خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے .(1)

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: آج تم لوگوں کے لئے کوئی سرزنش نہیں ہے اگرچہ تم لوگوں میں ایسا شخص بھی موجود  ہے کہ اگر وہ اپنے ہاتھ سے میری بیعت کرے تو مجھے پشت دکھا دے گا۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مراد مروان بن حکم تھا۔(2)

مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

     کتاب ''الأستعاب'' کے مؤلف کہتے ہیں: امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مروان کو دیکھا تو اس سے فرمایا: وای ہواور افسوس !تم سے اور تمہارے بیٹوں سے امت محمد(ص)پر!؛ جب تمہارے شقیقہ کے بال سفید ہو جائیں گے۔

     مروان''خیط باطل''کے نام سے مشہور تھا۔اور اسے یہ ا س وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ لمبے قد کا اور کانپتاتھا۔عثمان کے گھر میں ہونے والی جنگ میں مروان کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا۔

     جب مروان کو حکومت ملی تو اس کے بھائی عبدالرحمن بن حکم (جو شوخ شاعراور مسخراباز اوروہ اچھے شعر کہتا تھا مروان کا ہم عقیدہ نہیں تھا) نے یوں شعر کہا:

--------------

[1]۔ سورۂ یوسف،آیت:92

[2]۔ نبرد جمل:249

۳۱۵

     ''خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں کہ اس شخص کی بیوی سے پوچھوں کہ آخر کیا ہوا ہے کہ جسے گردن کے پچھے ضربت لگی تھی؟ خداوند اس قوم کو نابود کرے کہ جس نے لمبے قد کے کانپنے والے شخص کو لوگوں کا امیر بنا دیا اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا عطا نہیں کرتا''۔     کہا گیا ہے:عبدالرحمن نے یہ شعر اس وقت کہا کہ جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تھا۔عبدالرحمن ،مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا اور اس کی مذمت میں اس کے اوراشعار یوں ہیں:

     اے مروان؛میں نے اپنا فائدہ تجھے،عمرو، کانپنے والے دراز قامت مروان اور خالد کو بخش دیا۔

     مالک الریب نے بھی مروان کی مذمت کی ہے اور یوں شعر کہا ہے:

     ''مجھے تیری جان کی قسم!مروان ہمارے امور انجام نہیں دے گا ، بلکہ جعفر کی بیٹی ہمارے بارے میں حکم دے گی۔اے کاش؛وہی ہماری امیر ہوتی ۔اور اے کاش؛اے مروان تمہارے پاس زنانہ شرمگاہ ہوتی۔

     مروان کی مذمت میں اس کے بھائی عبدالرحمن کے دوسرے اشعار یوں ہیں:ہاں؛کون ہے کہ جو میری طرف سے میرا پیغام مروان تک پہنچائے۔     جب معاویہ کو خلافت ملی توسب سے پہلے اس نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا اور پھر مکہ اور طائف کی حکومت بھی اسی کے سپرد کردی۔پھر اسے اس حکومت سے معزول کر دیا  اورسعید بن عاص کو حاکم بنا دیا۔جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا تو اس کا بیٹے ابولیلیٰ معاویہ بن یزید کو 64ھ میں  حکومت ملی ۔وہ چالیس دن تک خلیفہ رہا اور پھر مر گیا۔اس کی ماں (ام خالدبنت ابوخالد بنت ابوہاشم بن عتیبہ بن ربیعة بن عبد شمس تھی)نے اس سے کہا:اپنے بعد خلافت اپنے بھائی کو دی دو۔

     معاویہ بن یزید نے قبول نہ کیا اور کہا:یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی باتوں کی تلخی میرے ذمہ ہو اور مٹھاس تمہارے لئے ہو۔   اس وقت مروان نے خلافت کے لئے قیام کیا اوریہ شعر کہا:

     میں ایسا فتنہ دیکھ رہا ہوںکہ جس کی دیگ ابل رہی ہے اور ابولیلیٰ کے بعد بادشاہی اسی کی ہے کہ جو غلبہ پا جائے گا اور جیت جائے گا۔(1)

--------------

[1] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج3 ص266

۳۱۶

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

     کتاب''نہایة الأرب''میں آیا ہے: مروان نے رسول خدا(ص) کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ابھی تک ناسمجھ بچہ تھا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ طائف چلا گیا اور پھر عثمان کی حکومت کے دوران مدینہ واپس آیا تھا۔

     جب اس کا باپ مر گیا تو عثمان نے اسے اپنے کاتب کے طور پر رکھ لیا۔مروان عثمان کے افکار و رفتار پراس طرح حاوی ہوگیا تھا کہ لوگوں کے قیام و بغاوت اور عثمان کے قتل کا اصل سبب  وہی تھا۔

     ابن عبدالبر نے کتاب''الاستیعاب''(1) میں نقل کیا ہے: ایک دن حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام مروان کے پاس گئے اور فرمایا:

     اے وای ہو تجھ پر! تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے امت محمد پر وای ہو،وای ہو!اس وقت کہ جب تجھے طاقت ملے گی۔

     مروان کو ''خیط باطل''کہتے تھے۔عثمان کے گھر جنگ کے دن اس کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ منہ کے بل زمین پرگر پڑا۔

     اس کا بھائی عبدالرحمن بن حکم اس کا ہم عقیدہ نہیں تھا اور وہ شوخ طبیعت کا شاعر تھا جس نے اس کے بارے میں یوں کہا:

     خدا کی قسم! میں نہیں جانتا اورجس شخص کوپس پشتس ضربت ماری گئی میں اس کی بیوی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہے،خداوند اس قوم کو رسوا کرے کہ جس نے اس بوسیدہ رسی کو حاکم بنا دیا ہے اور وہ لوگوں کا امیر بن گیا ہے وہ جسے چاہتا ہیعطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے۔    نقل کیا گیا ہے:جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تو اس کے بھائی نے یہ شعر کہا تھا اور وہ مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا۔(2)

--------------

[1]۔ الاستیعاب: 1388

[2]۔ نہایة الأرب: ج6ص6۹

۳۱۷

  عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     معاویہ نے عمرو بن سعید بن عاص کو مکہ کا حاکم بنایا کہ جو تکبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا اور یہ وہی ظالم و جابر ہے کہ رسول خدا(ص) کے منبر پر جس کے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔

     ابن قتیبہ اور اس کے علاوہ دوسروں  نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے پیغمبر خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

     میرے منبر پر بنی امیہ کے  ظالموں اورجابروں میں سے ایک کے ناک سے خون جاری ہو گا اور  منبر پراس کا خون گرے گا۔ابوعبیدہ نے کتاب ''مثالب'' میں اور ابوجعفر نے تاریخ میں روایت کی ہے کہ عمرو بن سعید بن عاص جب مدینہ کا حاکم بنا تو اسے عبید اللہ بن زیاد کا خط ملا جس میں اس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی! اس نے منبر پر سے لوگوں کے لئے خط پڑھا اور کہا:

     اے محمد!یہ عمل بدر میں تمہارے عمل کے بدلہ میں انجام پایا ہے!اس وقت انصار کے ایک گروہ نے اس کی بات کو ردّ کیا۔(1)

  جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     ابراہیم بن دیزیل نے کتاب''صفین'' میں اعمش کے قول سے اور اس نے زید بن وہب سے نقل کیاہے:جب علی علیہ السلام نے خوراج کے پاؤں نیزوں کے ذریعہ اکھاڑ دیئے تو فرمایا: ذوالثدیہ کا جسم تلاش کرو اور انہوں نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ، وہ انہیں ایک نچلی اور ناہموار زمین پر دوسرے مردوں کے نیچے ملا۔اسے حضرت علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا اور اس کے سینہ پر بلی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے ۔ آنحضرت نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی خوشی سے آپ کے ساتھ مل کر تکبیر کہی۔

--------------

[1]۔ معاویہ و تاریخ:101

۳۱۸

     اسی طرح انہوں نے مسلم ضبی سے اور نہوں  نے حبّة عرنی سے نقل کیاہے کہ انہوں  نے کہا:

     ذوالثدیہ ایک سیاہ اور بدبوناک شخص تھا ۔اس کے ہاتھ عورتوں کے پستان کی طرح تھے ۔جب اسے کھینچتے تھے تو بلندی کی وجہ سے اس کے دوسرے ہاتھ تک پہنچ جاتے تھے اور جب اسے چھوڑتے تھے تو اکٹھے ہو کر عورت کے پستان کی طرح بن جاتے تھے۔اس پر بلّی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے۔جب اس کا جسم ملا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھااور اور اس کے ہاتھ کو نیزہ پر بلند کیا گیا۔علی علیہ السلام نے بلند آواز سے کہا:

     خدا نے سچ کہا ہے اور اس کے رسول (ص) نے صحیح ابلاغ کیا ہے۔

     عصر کے بعد تک آپ اور آپ کے ساتھی یہی کلمہ کہہ رہے تھے کہ جب تک سورج غروب ہو گیا یا غروب  ہونے کے نزدیک تھا۔

     ابن دیزیل نے بھی اسی طرح روایت کی ہے کہ جب ذوالثدیہ کے جسم کو تلاش کرنے میں علی علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو فرمایا:رسول خدا(ص) کی سواری لے آؤ۔

     سواری لائی گئی اور آپ اس پر سوار ہوئے لوگ آپ کے پیچھے چل پڑے۔آپ مقتولین کو دیکھ رہے تھے اور فرماتے تھے:منہ کے بل پڑے ہوئے مقتولین کو سیدھا کرو اور آپ ایک ایک کر کے مقتولین کا جائزہ لے رہے تھے یہاں تک کہ اس کا جسم ملا تو علی علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لائے۔

     بہت سے گروہ نے روایت کی ہے کہ جب علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کی سواری طلب کی تا کہ اس پر سوار ہوں تو فرمایا: یہ سواری لاؤ تا کہ یہ رہنما ہو اور آخر کا وہ سواری منہ کے بل پڑے ایک جنازے کے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر ذوالثدیہ کے جسم کو مردوں کے نیچے سے باہر نکال لیا گیا۔

     عوام بن حوشب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا یزید بن رویم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے دن فرمایا:

۳۱۹

     آج ہم ہزار چار ہزارخوارج کو قتل کریں گے کہ جن میں سے ایک ذوالثدیہ ہو گا۔

     جب خوارج یہ جنگ ہار گئے تو علی علیہ السلام نے اس کے جسم کو تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔میں بھی آنحضرت کے پیچھے چل پڑا اور علی علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے چار ہزار تیر تراشے جائیں۔پھر وہ رسول خدا(ص) کی سواری پر سوار ہوئے اور مجھ سے فرمایا:مقتولین میں سے ہر ایک پر ایک تیر رکھو۔

     میں اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ میرے پیچھے آ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔میں ہر مقتول پر ایک تیر رکھتا تھا یہاں تک کہ میرے پاس ایک تیر ہی باقی بچا ۔میں نے آنحضرت کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے آپ کا چہرہ افسردہ و اداس ہو۔

     آپ نے فرمایا:خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا۔

اچانک میں نے ایک نچلی جگہ سے پانی بہنے کی آواز سنی ۔

     فرمایا:یہاں تلاش کرو۔

     میں نے جستجو کی تو دیکھا کہ ایک مقتول پانی میں گرا پڑا ہے۔میں نے اس کا ایک پاؤں پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ یہ کسی انسان کا پاؤں ہے۔حضرت علی علیہ السلام بھی جلدی سے اپنی سواری سے نیچے اترے اور دوسرے پاؤں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور مل کر اسے باہر نکالا اور جب اسے زمین پر رکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالثدیہ کا پاؤں ہے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے بہت بلند آوز سے تکبیر کہی اور پھر سجدۂ شکر بجا لائے اورپھر سب لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔

     بہت سے محدثین نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا:

     بیشک تم میں سے ایک قرآن کی تأویل کے لئے جنگ کرے گا کہ جس طرح میں تنزیل قرآن کے لئے جنگ کی۔

     ابوبکر نے کہا:اے رسول خدا(ص) ؛کیا وہ شخص میں ہوں۔

     فرمایا:نہیں۔

۳۲۰