معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168124 / ڈاؤنلوڈ: 7631
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے بعد تیسرے شخص حضرت ابراہیم کی مثال ہے جو اللہ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے مردوں کو زندہ کرتے ہوئے دکھا دے ،مجھے پورا یقین ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے لیکن یہ مطالبہ صرف شرح صدر کے لئے ہے یعنی یہ تیسرا شخص نہ تو پہلے کی طرح متکبر ہے اور نہ ہی دوسرے کی طرح متشکک۔اسی طرح کی ایک مثال سورہ مجادلہ میں ذکر ہے ایک عورت ہے جو دینی معاملات میں اللہ سے مجادلہ اور رسول سے شکوہ کرتی ہے یہ مجادلہ اور شکوہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شکوک اور اضطرابات کو دور کرے اور اس کے بعدایک منافق کی مثال دی گئی ہے جو اس گھات میں رہتا ہے کہ دین اسلام میں کوئی ایسی اعتراض اور نکتہ چینی کی بات پائیں اور اس کو لے اڑیں۔(۱۳) ان کے متعلق قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :

( إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ ) (سورہ المجادلة :۵)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرتے ہیں وہ لوگ ذلیل کردیئے گئے ہیں جس طرح وہ لوگ ذلیل کر دئیے گئے جو ان سے پہلے تھے اور ہم نے کھلی کھلی آیتیں اتار دی ہیں اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔

اوپر جو ایک عورت اور ایک منافق کا ذکر آیا ہے اصلاًیہ دو جماعتوں کا ذکر ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ خدا اور رسول کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عرض ومعروض اور شکوہ و التجا ہے نہ کہ محارّہ اور مشاقہ۔ پش خدا کے دین یا اس کی کتاب میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی راہ صرف یہی ہے کہ اس کو خدا ہی کے سامنے پیش کرے اور اسی سے تسلی و تشفی اور فتح باب کا متمنی ہو یہ نہ کرے کہ جھٹ اس کو ذریعہ اعتراض و نکتہ چینی بنا کر ایک نیا دین کھڑا کر دے۔(۱۴)

____________________

۱۳۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھیے ص۵۳۶۴

۱۴۔ایضاًص۶۴

۶۱

تدبر قرآن کی ایک بنیادی شرط تقویٰ اور عمل ہے

سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورہے:

( ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )

اور سورہ لقمان میں ہے :

( تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ هُديً وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ )

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی ہے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہوا ہے:

( وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَى ) ( فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا )

یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت ہے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظہور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود ہوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج ہوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی ہے قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا ہے عرب ،یہود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھےاسی طرح یہود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھےقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انہوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیںانہوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ

۶۲

( یَكَادُ زَیْتُهَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ. نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یَهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ مَن یَشَاءُ )

اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے محسنین اور متقین مراد ہیںاحادیث میں بھی احسان کا یہی مفہوم بیان کیا گیاہےمولانا کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن مجیدنے اسی مفہوم کے اعتبار سے اہل مکہ یا اہل کتاب کی ان جماعتوں کے لئے اس کو استعمال کیا ہے جنہوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ،قرآن میں جگہ جگہ وارد ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھتا ہےان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا،ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ کتاب الہی ہدایت و رحمت ہے۔(۱۵)

ان کے علاوہ جو دوسرے حضرات ہیں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد کرڈالا تھااوروہ غیر فطری معتقدات و اوہام کے شکار ہوگئے تھےمولانا نے ان لوگوں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ”چنانچہ جب آنحضرت نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیںاس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیااور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا۔ انہوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا ہونا قدرتی تھا۔(۱۶)

اس کے بعد مولانا نے اس پہلو کو لیاہے کہ شریعت الہی عمل کے لئے نازل ہوئی ہے اسی لئے یہاں علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے اگر علم بغیر عمل کے ہے تو یہ علم ناقابل اعتبار ہے اور اس علم سے مزید علم و عمل کے دروازے نہیں کھلا کرتےایسے علم کو علم نہیں بلکہ جہل کہیں گےیہود کی اکثریت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاانہوں نے اپنے تمام انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلا دیااور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا

___________________

۱۵۔وضاحت کے لئے ص۶۵۷۱

۱۶۔ایضاً ص۷۱

۶۳

مولانا آگے لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ابتداء ہی میں یہ اصولی بات ذکر کردی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کہا کہ”انی جاعل لٰلناس اماما“اسی طرح حضرت موسی نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے دعا کی ۔(۱۷) تو اللہ نے فرمایا:

( عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ) (سورہ الاعراف:۱۵۶)

میرا عذاب تو میں جس پر چاہتا ہوں (یعنی جو اس کا مستحق ہوتا ہے) اس پر نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے پس میں اس کو لکھ رکھوں گاان لوگوں کے لیے جوتقوی پر قائم رہیں گےیعنی جو اللہ کے عہد پر قائم رہیں گے اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھیں گے۔ انہیں کے لیے یہ کتاب باعث ہدایت ثابت ہو گی مولانا فرماتے ہیں،اس کو وہی لوگ قبول کریں گے جو متقی ہیں جنہوں نے اپنے عہدو پیمان کو قائم رکھا ہے جنہوں نے خدا کی نعمت کی قدر کی ہے۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو یاد رکھا ہے اور جن لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا ہے اس کے رشتوں پرمقراض چلا چکے ہیںوہ ہرگز قرآن کریم کو بطور صحیفہ ہدایت کے قبول نہیں کریں گےقرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

( وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ - الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ) (سورہ البقرہ:۲۶ ۲۷)

اللہ تعالیٰ اس حقیر مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مثال کی وجہ سے بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو الگ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر صرف بے حکمی کرنے والوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیںزمین میں پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں۔

___________________

۱۷۔ایضاً۷۳۷۴

۶۴

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے چونکہ اللہ کے وعدوں اور اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اسی لئے وہ قرآن عظیم جیسی نعمت اور رحمت سے محروم ہے۔ ٹھیک یہی حال نصاری کے ایک بڑے حصے کا بھی تھاجو تعلیمات قرآن کو اپنے افکار وخیالات کے برعکس تصور کرتا تھاچنانچہ یہ حضرات قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رہے لیکن ان میں سے ایک ایسا صالح العقیدہ طبقہ تھا جس نے قرآن کریم کی آواز پر بڑھ کر لبیک کہاقرآن کریم نے انہیں محسنین کے لقب سے یاد کیا قرآن کریم میں ارشاد ہے

( فَأَثَابَهُمُ اللَّـهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ المائدہ :۸۵)

پس ان کے اس قول کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایسے باغ دیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اوریہ بدلہ محسنین کا۔

مولانا فرماتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ،یہ ہدایت ہے محسنین کے لئے تو اس کا مفہوم اس سے کس قدر وسیع ہے جو ہم عام طور پرسمجھتے ہیںاس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس وجہ سے اس کا فہم و تدبر صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہےجو اس نعمت پر اللہ کے شکر گزار ہوں اور اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے ان کو دی گئی ہے اس مقصد کو پورا کریںاس کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی عملی و اعتقادی زندگی پر اس کو پوری طرح طاری کریںجوں جوں وہ اس نعمت کے قدر و احترام میں بڑھتے جائیں گے اس قدر اس کی برکتیں ان کے لئے بڑھتی جائیں گی۔(۱۹)

___________________

۱۸۔ایضاً ص۷۵

۱۹۔ایضاً ص۷۹۸۰

۶۵

اس کے بعد مولانا نے تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل سے بحث کی ہے لیکن مولانا نے خود بتایا کہ یہاں پہلے سوال کے ایک حصہ اور دوسرے سوال کے بعض ضروری پہلوؤں کی طرف بالاجمال اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے سوال کے ایک حصہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے سب سے پہلی چیز خود قرآن کریم ہےسلف کا یہ مذہب رہا ہے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآن کریم ہی کی طرف رجوع کرتے کیونکہ القرآن یفسربعضہ بعضا“اور قرآن نے خود اپنی صفت بتا ئی ہے مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیب کلام و نحوی تالیف وغیرہ کے باب میں بھی قرآن مجید کا یہی حال ہےمولانا کہتے ہیں کہ ارباب نحو قرآن مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح اس کو نہیں سلجھا سکے ہیں خود قرآن مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈ لیں تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی اس کے علاوہ قرآن مجید کی تعلیمات ،اس کے تاریخی اشہارات اور اس کی مخفی تعلیمات کے سلسلے میں تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس تفسیر اور تصریح بیان کی ہے ۔

قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا کا خیال ہے ہے تفاسیر کو ہرگز مقدم نہ رکھا جائےتفاسیر دو طرح کی ملتی ہیںایک تو کسی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں یاتو روایات اور اقوال سلف کے تمام رطب ویابس کا مجموعہ ہیںمولانا کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا طالب علم ہرگز ان تمام تفاسیر کے چکر میں نہ پڑیںورنہ اس کی تحقیق اور جستجو کا سلسلہ منقطع ہو جائے گاپہلے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد ان تفاسیر کا رخ کرے،انشاء اللہ روایات سے ضرور اس کی تائید ہو گیاگر روایات سے تائید نہ ہو رہی ہو تو دوبارہ اپنے خیال اور روایات کو سامنے رکھ کر غور کرے،انشاء اللہ یاتوآپ کی رائے کی کمزوری کا پہلو واضح ہو جائے گایا حدیث کا صنعف منظر عام پر آجائے گالیکن ان مقامات پر عجلت کی نہیں بلکہ توقف کی ضرورت ہے اس طرح دھیرے دھیرے ضرور وہ حکمتوں اور معارف کے خزینوں کو پالے گا۔

۶۶

مولانا نے فہم قرآن کے متعلق یہ بھی بتایا کہ طالب قرآن کے لئے ضروری ہے کو وہ عید نزول قرآن،قدیم عرب اور ان سے متعلقہ اقوام کی تاریخ سے واقف ہو کیونکہ قرآن کریم بے شمارآیات انہی موضوعات سے متعلق ہیںکیونکہ ان کے بغیر قرآن کریم کی تاثیر پورے طور سے منظر عام پر نہیں آسکتی(۲۰) مولانا فرماتے ہیں اس عہد کی تمدنی حالت ،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانہ نزول میں مختلف قوموں کے تعلقات کی رعیت،ان کے دستورومراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ(۲۱) پر قرآن کریم پر غور کرنے والی کی نظر ہونا بہت ضروری ہےایسی کوئی تفسیر ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکے؟اس کے علاوہ عرب کی جو تاریخ موجود ہیںوہ ناقابل اعتبار ہیں اس لئے اس باب میں جو کچھ قرآن میں موجود ہے اسی پر اعتماد کیا جائے اس سلسلے میں مولانا نے اپنے استاذگرامی کا حوالہ دیا ہے کہ اس باب میں ان کی تفسیر سورہ فیل!(۲۲) ایک اعلیٰ نمود کا درجہ رکھتی ہے مولانا لکھتے ہیں ”اس معاملہ میں استاذ امام مولانا حمید الدین صاحب قراہی کے طریق فکر ونظر کا اندازہ کرنے کے لئے سورہ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے اس سے معلوم ہو گا کہ ان کا اصلی اعتماد ،قرآن مجید کے اشارات اور کلام عرب پر ہوتا ہے،اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس باب میں ان دوچیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی ہے۔(۲۳) آگے مولانافرماتے ہیں قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں تین چیزیں کتاب لغت اور کلام عرب،کتب نحو اور کتب بلاغت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

___________________

۲۰۔وضاحت کے لیے دیکھیےص۸۴۹۰ ---------------- ۲۱۔ایضاً ص۹۰

۲۲۔مولانا کی یہ تفسیر جزوی طور پر اور دیگر تفسیری اجزاء کے ساتھ شائع ہو چکی ہے دیکھیے تفسیر نظام القرآن حمید الدین قراہی (ترجمہ از امین احسن اصلاحی) دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم ۱۹۹۰ء ء ص۳۶۳۴۱۰ مولانا کی یہ تفسیر اہل علم کے نزدیک ہمیشہ معرض بحث بنی رہی اس سلسلے میں دیکھیے مولانا فراہی فیل پر اعتراضات کا جائزہمولانا نسیم ظہیر اصلاحی مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ۶ /۲، اپریل جون ۱۹۷۸ء ص ۲۸۱۹۶

۲۳۔تدبر قرآن ص۹۱

۶۷

کتب لغت میں سب سے زیادہ اہم مولانا نے”لسان العرب“ کو قرار دیا ہے یہ لغت قرآن مجید کے سلسلے میں ارباب تاویل کے اقوال نقل کردیتا ہے ،اس سے بچنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے لغت کا مفہوم فوت جاتا ہےاس کے بعد مولانا نے امام راغب کی مفردات القرآن کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ لغت بھی قرآن کے سلسلے میں زیادہ حقیر نہیں ہے بلکہ یہ صرف مبتدیوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں نہ تو سارے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی کلام عرب سے استشہاد پیش کیا گیا ہےمولانا کہتے ہیں کہ ایسا کوئی لغت نہیں ہے جس میں بہ صراحت ہو کہ بہ لفظ خالص عربی ہے ،یامولداس کے معنی کیا ہیں اور اس کے معانی میں سے کس پر اس کا اطلاق حقیقتہً ہے اور کن پر اطلاق مجاز(۲۴) صرف ” صحاح جویری“(۲۵) میں کہیں کہیں یہ چیز ملتی ہے مگر بہت کم لفظوں کے حقائق کااندازہ صرف کلام عرب اور اسالیب کلام سے لگایا جاسکتا ہے اور انہی دونوں چیزوں کے ذریعہ الفاظ کے معروف اور شاذ معانی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ وہی ہوگاکہ”تمنی“ کے معنی تلاوت کرنے کے اور”نحر“ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے جائیں گےمولانا قراہی کا انس سلسلے میں تمام تر انحصار کلام عرب تھاوہ اگر کسی لفظ کے باب میں متردد ہوتے تو کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتے۔(۲۶) اس سلسلے میں مولانا کی دو کتابیں ” اسالیب القرآن“(۲۷) اور ”مفردات القرآن“(۲۸) بڑی عظمت کی حامل ہیں۔ قرآن کریم کی نحوی مشکلات کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کو اس سلسلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکےارباب تفسیر میں تنہاز مُحشری ہیں جنہوں نے اپنی تفسیرمیں نحوی مسائل سے بحث کی ہے مولانا نے اس باب میں ایک گرانقدر بات یہ کہی ہے کہ قرآن کریم کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ کلام عرب پر اعتماد کریں

___________________

۲۴ایضاً ص۹۱۹۲ -- ۲۵صحاج جوہری بحوالہ تدبر قرآن ص۹۱۹۲ ----- ۲۶مبادی تدبر قرآنمولانا امین احسن اصلاحی مرکزی انجمن خدام القرآنلاہورباب چہارم ۱۹۸۰ء ص۶۰

۲۷ ” اسالیب القرآن“پر دیکھیے قرآن مجید کے بعض اسالیب سے متعلق مولانا فراہی کی توصیحاتایک مطالعہ مولانا تعلیم الدین اصلاحی (علامہ حمید الدین فراہی ،حیات و افکار، ۱۹۹۲ء انجمن طلبہ قدیم مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھیوپی انڈیاص۳۸۷۴۰۱

۲۸مفردات پر خاکسار کامضمون دیکھیے

۶۸

اسی طرح مولانا نے یہ بھی بتایا کہ میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں قرآنی بلاغت سے بحث کی گئی ہو(۲۹) البتہ اس موضوع پر امام باقلانی(۳۰) کی خدمات قابل قدر ہیں اسی طرح ابن تیمہ امداد بن قیم کی تصانیف میں بھی کچھ ہوجواہر ریزے مل جاتے ہیں اور مولانا کی کتاب پر ”جمیرةالبلاغہ“(۳۱) اس سلسلہ کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز ہے(۳۲) یہ کتاب قرآنی بلاغت کو سمجھنے میں حد درجہ معاون ہے۔ اس مقالہ کے آخر میں مولانا نے بتایا کہ قرآن کریم کے طالب علم کو دیگر آسمانی کتب کا مطالعہ بھی ضرور ی ہے تاکہ قرآن کریم کی ایک آخری آسمانی کتاب کی حیثیت سے عظمت منظر عام پر اس کے نیز اہل کتاب کے اعتراضات کا علمی اور مُسکت جواب اسی وقت ممکن ہے جب کسی کو توریت اور انجیل پرگہری نظر ہوان کتابوں کے مطالعہ سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اہل کتاب کے باب میں جو اشارات اور تلمیحات ہیں انہیں بخوبی سمجھنے میں آسانی ہو گیخود قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان آسمانی صحیفوں کا مطالعہ کیا جائے مثلاً ارشاد باقی ہے:

( وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ) (سورہ الانبیاء:۱۰۵)

ہم نے زبور کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :( إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ ) (سورہ الاعلیٰ:۱۸۔۱۹)

بیشک یہ بات پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے ابراہیم اور موسی کی کتابوں میں۔

___________________

۲۹۔تدبر قرآن ص۹۵۹۶ ----۳۰۔وضاحت کے لیے دیکھیے ”اعجاز القرآن الباقلانی ابوبکر محمد بن الطیب(تحقیق،السید احمد صفر) دارالمعارف مصر(بدون تاریخ) ص۷۲

۳۱وضاحت کے لیے دیکھیےجمرة البلاغہالمعلم عبدالحمید القراہیالدائرة الحمدیہ،اعظم گڑھ،الہند ۱۳۶۰ئھ ص۱۸۸

۳۲۔”جمرة البلاغہ“ پر دیکھیے؛ مولانا فراہی کے تنقیدی نظریاتجمرة البلاغہ کی روشنی میں پروفیسر محمد راشد ندویص۵۳۳۵۷۶(علامہ حمید الدین فراہی ؛حیات افکار) نیز دیکھیےمولانا فراہی اور شعریات مشرق،ڈاکٹر عبدالباریص۵۴۷۵۶۱(علامہ حمید الدین فراہی حیات وافکار)

۶۹

کتب سابقہ سے ایک قرآن کا طالب علم متعدد فوائد حاصل کر سکتا ہے لیکن ان کتابوں کے باب میں اصل معیار اور کوئی قرآن کریم ہی کو بتایا جائے گامولانا حمید الدین قراہی نے ایک طرف جہاں ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا وہیں قرآن کی روشنی میں ان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں(۳۳) اس سلسلے میں مولانا کی کتاب ”الذبیح“(۳۴) بطور مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے اسی طرح علامہ ابن تیمہ کے یہاں بھی ان کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس کتاب کا تیسراباب تیسیرالقرآن ہے ،آغاز بحث میں مولانا نے فرمایا کہ قرآن نے خود مختلف جگہوں پر اپنی تعریف بیان کر دی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اللہ نے اسے آسان بنایا ہےوہ پیچیدگیوں سے پاک ہےاور ہر چیزکو وضاحت سے بیان کرتی ہے قرآن کی اس تعریف کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کوئی چیز گنجلگ نہیں ہے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے محتاج تفسیر تاویل نہیں اس کا انداز اتنا شگفتہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی چیز کا محتاج نہیں قرآن دانی کے لیے عربی زبان دانی کافی ہے اور وہ تفسیر آیات میں احادیث،شان نزول اور لغت عرب کا محتاج نہیں ہےیعنی وہ بالکل واضح ہے تفسیر آیات کے لئے صرف عربی زبان کا جاننا کافی ہے مذکورہ خیال کی روشنی میں تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔

ایک تو یہ کہ چونکہ تمام طبقوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے اس لئے قرآنی تعلیم دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہے اس کے اسرار و رموز کی وضاحت کے لئے خواص کی ضرورت نہیںدوسرے یہ کہ قرآن کریم کی ہر بات چونکہ قطعیت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کی وضاحت کے لئے تفسیر و تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انحصارظنیات یعنی روایات و احادیث پر ہوتا ہے اور تیسرے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم اپنے زبان وبیان کے لحاظ سے اس قدر شگفتہ ہے کہ ایک عجمی کے لئے صرف عربی زبان کے علم کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیںمولانا کا خیال ہے کہ ان آراء کے پیچھے بہت سی غلطیاں پوشیدہ ہیں جن کو آگے چل کر واضح کریں گے۔

___________________

۳۳۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۹۶۱۰۰

۳۴۔ذبیح کون ہے حمید الدین فراہی(ترجمہ امین احسن اصلاحی) طبع اول دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(بدول تاریخ)ص۱۱۸۵

۷۰

اس سلسلے میں مولانا سب سے پہلے تفسیر کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیااور بتایا کہ قرآن کریم کا سب سے مبارک دور دوراول تھالیکن بعد میں جب دائرہ اسلام کشادہ ہوا اور مختلف بدعات وخطرات سے قرآنی تعلیم دوچار ہوئی تو اہل سنت اور اہل حق نے یہ طے کیا کہ تفسیر قرآن کے باب میں یہ تمام قیل وقال سے قطع نظرصرف احادیث رسول اور افوال و آثار صحابہ پر اعتماد کیا جائے گااس اصول کے پیش نظر سب سے پہلے جو تفسیر منظر عام پر آئی وہ علامہ ابن جریر کی تفسیر ہے ایک آیت کی تفسیر کے لیے تمام روایات نقل کر دی گئی ہیںلیکن روایات کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں جو جواہر ریزے ہیں وہ منکر اور ضعیف روایات کے انبار میں گم ہیںلیکن پھر بھی مولف کی یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔

اس کے بعد سب سے زیادہ مقبول اور مشہور تفسیر ابن کثیر کی ہے جو تفسیر ابن جریر کا خلاصہ ہے اس میں ایک اضافہ ہے کہ محدثانہ طریق پر اس میں روایات کی تنقید کی گئی ہے اس کے بعد تفسیر کی بنیادی کتاب امام رازی کی ہے جوحکیمانہ طرز پر لکھی گئی ہے اصلاًیہ تفسیراشعریت کی تائید و توثیق کے لئے لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے مفید کی بجائے مضر ثابت ہوئی اس کے بعد تفسیر کی چوتھی اہم کتاب علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف ہے یہ تمام مذکورہ تفاسیر سے جداگانہ ہے یہ اپنا محور عبارت قرآن کو بتاتے ہیں یہ پہلے لغت اعراب اور ربط کلام سے بحث کرتے ہیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ روایات بھی لاتے ہیںیہ تفسیر قرآن کریم کے طلبہ کے لئے مفید ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ جس طرح امام رازی اشعریت کے ممدو معاون ہیں اسی طرح علامہ زمحشری مذہب اعتدال کے وکیل ہیںقرآن کریم کے ساتھ یہ حددرجہ نا انصافی ہے کہ اس کے پیچھے چلنے کے بجائے آدمی اس بات کی کوشش کرے کہ اس کو خود اپنے کسی فکر وخیال کے پیچھے چلائے۔

تفسیر کی یہی بنیادی کتابیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول کے بعد تفسیر قرآن کی راہ میں جوہ پہلا قدم اٹھایاگیا وہی غلط تھااس کے سدباب کے لئے روایات و آثار کاسہارا لیاگیالیکن اس درجہ انہماک ہو ا کہ صحیح اور ضعیف کا امتیاز مٹ گیااور روایات کے ساتھ ساتھ قصوں اور اسرائیلیات کا ایک بڑا حصہ تفاسیر میں داخل کر دیا گیا۔(۳۵)

___________________

۳۵۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۱۰۳۱۱۲

۷۱

اس کے متعلق مولانا کا خیال ہے ظاہر ہے کہ تفسیر میں صرف روایات ہی پر پورا پورا اعتماد کر لینا قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچانا ہے اس صورت میں خود قرآن مجید کے الفاظ کا فیصلہ باطل ہو جاتا ہے(۳۶) مذکورہ گفتگو سے دو چیزیں منظر عام پر آتی ہیں ایک تو یہ کہ تفاسیر کا تمام تر انحصار صدر اول کے بعد روایت و آثار پر ہو گیا اور دوسرے یہ کہ علم کلام کے علو م نے قرآن مجید کی قطعیت کو حد درجہ متاثر کیا یعنی قرآن کریم کے الفاظ پر اعتماد کرنے کے بجائے متکلمین کی برہانیات پر اعتماد شروع ہو گیا۔(۳۷)

اس کے بعد مولانا نے کلام کے مشکل اور آسان ہونے کے تین پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد کیا ہے چونکہ روز اول ہی سے بنی نوع انسان کو شیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑا اس لئے شیطان کی جعل سازیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنے انبیاء ورسل کے ذریعہ ہدایات بھیجنے کا انتظام کیا اور خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی کو آخری صحیفہ ہدایت قرآن کریم عطا کیا گیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوجائےاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے اس طرح تسلی دی۔

( فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) (سورہ بقرہ:۳۸)

اگر میری جانب سے کوئی ہدایت آئے تو تم اس کی پیروی کرنا جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لئے نہ خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں۔

___________________

۳۶۔ایضاً ص۱۱۲

۳۷۔ایضاً ص۱۱۹ ۳۸۔وضاحت کے لیے دیکھیےایضاًص۱۲۶۱۴۲

۷۲

اس کے بعد مولانا نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جن و بشر میں سے جو بھی ہدایتکے راستہ سے لوگوں کو دور کرے وہ شیطان ہے یعنی یہ شیاطین انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیںقرآن کریم کی اصطلاح میں شیطان کا مفہوم بہت وسیع ہے انسانی شیاطین کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا ہے

( الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ) (سورہ الناس:۵،۶)

جو لوگوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ ) (سورہ البقرة:۱۴)

جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں(سرداروں)کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

مولانا لکھتے ہیں کہ ایک ضمنی بحث تھی اصلاً بتانا یہ ہے کہ قرآن کا نزول کن مقاصد کے پیش نظر ہوا ہے قرآن کریم میں یہ چیز صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ نبی کو اس دنیا میں تین چیزوں کے لئے مبعوث کیا گیا۔

۱ تلاوت آیات ۲ تزکیہ ۳ تعلیم کتاب

تلاوت آیات: آیت کے مختلف مفاہم قرآن کریم میں موجود ہیں جس کا ایک مفہوم دلیل او حجت بھی ہے یہاں پر آیات سے مراد قرآن مجید کا وہ حصہ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے دلائل و براہین پر مشتمل ہے قرآن کی جو آیات ابتداء میں نازل ہوئیںفقہی احکامات سے بالکل خالی ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھاابتداء میں صرف دین اسلام کے اساسی مسائل سے بحث ہےجس سے اسلام کا پورا نظام سامنے آجاتا ہے بعد میں دین اسلام کی تمام جزئیات مدلل طریقہ سے بیان کی گئی ہیں۔

۷۳

تلاوت آیات کے بعد جب انسانی قلوب سے بدعات و خرافات اور باطل خیالات خارج ہو جاتے ہیں تو تزکیہ کی نوبت آتی ہے یعنی انسان کے دل میں صحیح خیالات و عقائد اپنی جگہ بتانا شروع کر دیتے ہیں تلاوت آیات کے بعد ہی انسان کے اندر جو فطری روشنی موجود ہے اس کے ذریعہ وہ سیاہ و سفید میں تمیز کرنے لگتا ہے اس روشنی کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے ۔

( بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ) (سورہ القیامة :۱۴)

بلکہ انسان اپنے نفس پر خود بصیرت رکھتا ہے ۔

یہی چیز دوسرے مقام پر اس طرح مذکور ہے:

( فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ) (سورہ الشمس:۸)

پس اُس کوالہام کی گئیں اس کی بدیاں اور اس کی نیکیاں۔

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو لوگ دنیاوی لذت اور شہوات میں منھمک ہو کر اپنی اس فطری قوت اور فطری روشنی کو کھو دیتے ہیں تو قرآنی آیات اور پیغمبرانہ ارشادات اس کے لئے لاحاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانی اعتبار سے مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ) (سورہ نمل:۸۰)

آپ مردوں کو نہیں ستا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں

۷۴

جن کے دلوں میں یہ روشنی ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی دھندلی ہو پیغمبر تلاوت آیات سے اسے روشن تر کردیتا ہےیعنی پیغمبر تزکیہ فطرت کے مطابق کرتا ہے مولانا کا خیال ہے کہ تزکیہ صرف مفرد اور سادہ عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی اجزاء کا مرکب ہے اس کا موضوع نفس انسانی ہے جو دوچیزوں یعنی علم اور عمل کا مجموعہ ہے اس لئے تزکیہ کے بھی دو پہلوہیں تزکیہ علم اور تزکیہ عملتزکیہ علم کامطلب یہ ہے کہ وہ تمام کثافتوں اور آلودگیوں سے اتنا دور ہو کہ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں اس پر اپنا اثر نہ رکھاسکیں اور کبھی وہ خواہشات نفس کا شکارہو جائے تو تنبیہ ہوتے ہی اس سے باز آجائے اور تو یہ دانابت سے اس کی تلافی کرے ایسے لوگوں کے قرآن کریم میں آیا ہے

( إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ) (سورہ اعراف:۲۰۱)

جو ڈر رکھتے ہیں اگر ان کو بھی شیطان کی چھوٹ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوتے ہیں اور پھر دفعتہً ان کو نظر آنے لگتی ہے ۔

آگے مولانا یہ فرماتے ہیں کہ ایک صالح علم کے لئے مستقل اللہ سے دعا مانگنی چاہیے خود پیغمبر جس کی فطرت علم وعمل کی مافوق العادت قوتوں اور قابلیتوں کا خزانہ ہوتی ہے وہ بھی ان آیات کا تزکیہ کے لئے محتاج ہوتا ہے یہ آیات اس کے دلوں کو کھول دیتی ہیںاور وہ عشق آیات میں بیتاب ہو کر ”رب زدنی علما“ کا ورد کرنے لگتا ہے اس کی بے خودی اور عجلت کا یہ حال ہوتا ہے کہ معلم غیب کی زبان سے اس کو”لاتعجل بالقرآن“ کا محبت امیز عتاب سننا پڑتا ہے ۔

جس قرآن عظیم کا یہ رتبہ ہو اس کے متعلق یہ بد گمانی مناسب نہیں کہ وہ صرف چند قوانین ،وعظوں اور قصوں کا ایک منتشر مجموعہ ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت نہیں ہے مولانا تعلیم آیات کے سلسلے میں نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں”اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پیغمبر پہلے تلاوت آیات کے ذریعے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھارتا ہے الٹے ہوئے چشموں کو جاری کرتاہےدبی ہوئی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے چونکہ فساو علم کی جڑ شرک اور فساو علم کی جڑ انکار حصار ہے اس لئے سب سے پہلے توحید وحصار کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرتا ہے

۷۵

اور جب ان سے فارغ ہو چکتا ہے تو تعلیم کتاب کا باب شروع کردیتا ہے(۳۹)

اس کے بعد مولانا نے تعلیم کتاب پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ تعلیم کتاب سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اس سے پورا قرآن مقصود نہیں ہے کیونکہ آگے حکمت کی بحث آرہی ہے تعلیم کتاب سے وہ حصہ مراد ہے جو احکام و قوانین سے متعلق ہے۔ کتاب کا متعدد مفہوم قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً آسمانی کتاب،اللہ کا قرار دادہ فیصلہ،شرائع وقوانین ،اللہ کے قرار دادہ فیصلوں کا دفتر اور اعمال نامے وغیرہلیکن یہاں تعلیم کتاب سے مراد قرآنی احکام و قوانین ہیں۔ اس مفہوم میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں مثلاً

( كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ ) ( وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ ) ( وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ )

اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تعلیم الہیٰ حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے پہلے اس نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق دلائل کے ذریعہ سے ہم کو غیر فطری آلودگیوں سے پاک نہ کرلیا اس وقت تک قوانین کی اطاعت کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی۔(۴۰)

تعلیم کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ ”تمام شریعت کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیںجس طرح ایک سے سو اور ہزار وجود میں آتے ہیںاسی طرح چند بنیادی حقائق کے لوازم و نتائج کے طور پر دین کا سارا عملی واعتقادی نظام وجود میں آتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے۔(۴۱) اور آگے ایک دوسری چیز یہ بتائی کہ ”دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرائع و احکام حقیقت میں تزکیہ کے جزئیات ہیں یہ تزکیہ کو کامل اور روشن کرتے ہیںاللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت سے ایمان پیدا ہوتا ہے اور عمل کے ذریعہ سے بندہ اس ایمان کو بڑھاتا ہے۔(۴۲)

___________________

۳۹۔ایضاً ص۱۴۳ -------- ۴۰۔ایضاً ص۱۴۳۱۴۶

۴۱ایضاً ص۱۴۶ -------- ۴۲۔ایضاًص۱۴۷

۷۶

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنكَرِ )

نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔

قربانی کی بابت قرآن کریم میں ارشاد ہے :

( لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ) (سورہ الحج:۳۷)

خدا کو قربانی گوشت اور خون نہیں پہنچے گابلکہ تمہار تقوی ٰپہنچے گا۔

اس کے بعد مولانا نے ”حکمت“ سے بحث کی ہے کہ آیت میں حکمت سے مراد حکمت قرآن ہے یاحدیثمولانا نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہاس سے مراد حدیث نہیں بلکہ حکمت قرآن مراد ہے کیونکہ متعدد آیات میں حکمت کے لئےیُتْلیٰ اُنْزِل اوراٰوحیِ کے الفاظ آئے ہیں جس کا استعمال حدیث کے لئے قرآن میں کہیں نہیں ہوا ہے مثلاً

( وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ ) (سورہ النساء:۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے۔

دوسری جگہ ہے :

( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ ) (سورہ الاحزاب:۳۴)

تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔

۷۷

ایک تیسری جگہ ارشاد ہے:

( ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ ) (سورہ الاسراء:۳۹)

تمہارے رب نے تمہارے پاس جو حکمت وحی کی ہے یہ اس میں سے ہے۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کے دلائل و براہین کو حکمت بالغہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا ہے مثلاً

”حکمة بالغة فماتغن النذرویٰسیں والقرآن الحکیم“

حضرت عیسی کی متعلق فرمایا گیا:

( وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ ) (سورہ المائدہ:۱۱۰)

یاد کرو جب ہم نے تم کو کتاب حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔

یہاں پر ہر کتاب اور حکمت کے بعد تورات اور انجیل بطور تشریح کے آئے ہیں کتاب کا لفظ تورات کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ احکام و قوانین پر مشتمل ہے اور حکمت کا لفظ انجیل کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ دلائل ونصائح پر چلتی ہے ۔(۴۳)

مذکورہ وجود کی بنا پر حکمت سے حدیث مراد لینا مناسب نہیں ہے آگے مولانا نے مولانا قراہی کتاب ”حکمت قرآن“ سے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ لفظ حکمت کی لغوی تحقیق پیش کی ہے ۔(۴۵) مذکورہ بالا بحث کے بعد مولانا اس پہلو پر آتے ہیں

___________________

۴۳۔ایضاًوضاحت کے لیے دیکھیےص۱۴۹۱۵۶”حکمت قرآن“ کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے (ترجمہ از خالد مسعود)طبع اول قاران فاونڈیشنلاہور ۱۹۹۵ء

۴۴۔ص۱۱۴۱ --------- ۴۵۔حکمت قرآن امام حمید الدین فراہی(اردو ترجمہ) ص۱۴

۷۸

کہ وہ احکام و قوانین کا مجموعہ ہی نہیںاس کے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ بغیر تفکر وتدبر کے اس کی حکمتوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور اسے سمجھنے کے لئے صرف زبان عربی کا جاننا ہی کا فی ہے یہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر ایک عمبق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتاہے جس تک رسائی کے لئے صرف تیرنا ہی کافی نہیں بلکہ ڈوبنے کی بھی شدید ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک سورہ اور ایک ایک آیت پر سالوں سال اور گھنٹے صرف کرتےاورقرآن پر غوروخوض کے لئے وہ مجلسیں قائم کرتےخود سرورکائنات اس طرح کی مجلسوں کے قیام کے لئے صحابہ کرام کو شوق دلاتے(۴۵) ابو داود میں ذکر ہے ۔

”مااجتمع قوم فی بیت من بیوت الله یتلون کتاب الله ویتارسونه بینهم الانزلت علیهم السکینة وغشیتهم الرحمة وحقتهم الملائکة وذکرهم الله فیمن عنده“ (۴۶)

جو لوگ کسی جگہ متہد ہو کر اللہ کی کتاب پڑھنے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیںان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں آتا ہے :

”عبدالله بن عمر مکث علی سورة البقرة ثمانی سنین یتعلمها“ (۴۷)

حضرت عبداللہ بن عمر مسلسل آٹھ برس تک سورہ بقرہ پر تدبر فرماتے رہے۔ اس کے علاوہ خود قرآن کی بیشتر سورتوں میں مختلف انداز سے تفکر تدبر کی دعوت دی گئی ہےکہیں( لعلکم تعقلون ) کہیں( لعلکم تفکرون ) اور کہیں( لعلکم تذکرون ) آیا ہے فہم قرآن مجید کے لئے ایک ضروری شرط کی طرف یوں اشارہ کیاگیاہے ۔

___________________

۴۶۔بنابر قولص۱۶۰۱۶۱

۴۷۔ابو داؤد بخاری اور مسلم دونوں میں یہ روایت موجود ہے

۷۹

( إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ) (ق:۳۷)

بیشک اس میں یاددہانی ہے اس شخص کے لئے جس کے پاس دل ہو بامتوجہ ہو کر بات پر کان دھر لے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ فہم قرآن کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ انسان کے پا س بیدار دل ہو اور سننے والا کان ہو بغیر اس کے قرآنی حکمتوں سے فیضیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔(۴۸) مولانا فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا لازمی ہے یاتو آدمی کے سینہ کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور فہم وادراک کی روشنی اس کے اندر زندہ ہو یایہ کہ اپنے کانوں کو وہ اس کے لئے کھول دے اورطبیعت کی آمادگی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرےجو حضرات دونوں باتوں سے محروم ہیں وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم ہیںان لوگوں کی تصویر سورہ محمد میں ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے۔(۴۹)

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا )

کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ۔

اسی بحث کو مولانا نے آگے بڑھاتے ہوئے ”ولقدیسّرنا القرآن کی صحیح تاویل“ پیش کی ہے کہ قرآن کریم ایک سیدھی سادی کتاب ہے یہ احکام و قوانین اورپندو موعظت پر مشتمل ہے اس کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟اس کے لئے روایات ،تفاسیر اور شان نزول کی کوئی حاجت نہیںمولانا فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ہرگز ایسا نہ کہا جاتا بالعموم اس آیت کا مفہوم یہ بتایاجاتا ہے کہ حصول نصیحت کی غرض سے یہ کتاب آسان ہے جو ایک مناسب خیال ہے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ حفظ کے نقطہ نظر سے آسان ہے۔(۵۰)

___________________

۴۸۔تدبر قرآنص۱۶۴۱۶۵ ------- ۴۹۔ایضاًص۱۶۵

۵۰۔ایضاًص۱۷۱۱۷۲

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

     رسول خدا(ص) کی یہ  پیشنگوئی سن پانچ ہجری میں تھی اور تیس سال کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا کیونکہ جنگ صفین میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو حکمیّت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں سے ابوموسی اشعری کو منتخب کیا گیا لیکن امام علیہ السلام اس کو منتخب کرنے پر راضی نہیں تھے جب کہ معاویہ کا نمائندہ عمرو عاص تھا۔

     یہ دو افراد ''دومة الجندل'' کی سرزمین پر فیصلہ کے لئے بیٹھے۔ اس فیصلہ میں ابوموسی اشعری اگرچہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ تھا لیکن پھر بھی اس نے خیانت کی اور اس نے آنحضرت کو مسند خلافت (جو آنحضرت کا مسلّم حق تھا) سے معزول کر دیالیکن عمرو عاص نے اپنی آسائشوں کے  ولی یعنی معاویہ کی خلافت کا حکم دیا۔

جیسا کہ ابن ابی الحدید اور تمام اہلسنت دانشوروں نے لکھا ہے کہ حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی اس واقعہ کے رونما ہونے سے تیس سال پہلے تھی تا کہ سب کے لئے یہ ثابت ہو جائے کہ حکمیّت کے واقعہ سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ ظلم ہوا اور معاویہ نے ظلم و ستم سے  مسند خلافت پر غاصبانہ طریقہ سے قبضہ کیا۔

حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص)کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے نصر بن مزاحم سے نقل کیا ہے: جب عمرو عاص اور ابوموسی اشعری کے درمیان صلح نامہ لکھنا شروع ہوا تو اس میں یوں لکھا گیا:

     یہ وہ عہد ہے جس پر علی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور معاویہ بن ابی سفیان نے موافقت کی....۔

     معاویہ نے کہا: کتنا برا شخص بن جاؤں گا کہ جب میں یہ اقرار کروں کہ وہ (علی علیہ السلام) امیر المؤمنین ہیں.....۔

     جب عہدنامہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ ''امیر المؤمنین'' کا عنوان مٹا دیا جائے اور پھر فرمایا: جب حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا:یا علی!تمہارے لئے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا جائے گا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۱۷۸

۳۰۱

     اب ہم حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی کا اصل واقعہ بیان کرتے ہیں:

     پیغمبر اکرم(ص) نے بیس دن تک حدیبیہ کے مقام پر قیام کیااس مدت کے دوران پیغمبر(ص) کے سفیر مکہ بھی جاتے تھے تا کہ مشرکین کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے راضی کر سکیں اور مشرکین کے سفیر حدیبیہ آتے  تھے تا کہ رسول خدا(ص) کو مکہ میں داخل ہونے سے  روک سکیں۔

     آخرکار مشرکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ پیغمبر خدا(ص) کے ساتھ صلح نامہ پردستخط کریں تا کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا جائے اور اس کے بدلے میں آئندہ سالتین دن تک صرف عمرہ انجام دینے کے لئے مکہ میں آئیں۔

     مشرکین کے سربراہوں میں سے دو افراد سہیل بن عمر اور حفص بن احنف معاہدہ کے لئے مکہ سے روانہ ہوئے۔ان دونوں سے پہلے حفص کا بیٹا مِکَرز پیش قراول کے طور پر موجود تھا۔پیغمبر(ص) نے دور سے مِکَرز کو دیکھا تو اپنے اصحاب سے فرمایا:

     کوئی بھی اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے کہ یہ پیمان شکن اور فاجر شخص ہے۔

     لہذا اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کے ساتھ  گفتگو نہیں کی۔ اورجب آپ نے سہیل بن عمرو کو دیکھا تو فرمایا:''سہل أمرنا'' یعنی ہمارے لئے کام آسان ہو گیا۔

     ابتدائی  گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ صلح نامہ لکھا جائے۔  امیر المؤمنین علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے ساتھ  تشریف فرما تھے،اور قلم و کاغذ بھی آپ کے ہی دست مبارک میں تھے،سہل اور حفص بھی دو زانو ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول خدا(ص) کے باقی اصحاب خیمہ کے اردگرد موجود تھے اور لکھنے کا سارا عمل دیکھ رہے تھے۔

     پیغمبر خدا(ص) نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو حکم دیا :

     لکھو:بسم اللّٰه الرحمن الرحیم

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے لکھنا شروع کیا تو سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور لکھنے سے روک دیا اور کہا: ٹھریں؛ یہ رحمن و رحیم کیا ہے؟ میں کسی رحمن و رحیم کو نہیں جانتا!  بلکہ آپ لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

۳۰۲

       امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھا، آنحضرت نے صبرو تحمل کے ساتھ فرمایا:

     یا علی ! لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

     اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: لکھو: یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کے ساتھ صلح  نامہ ہے۔

     پھر سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا:اے محمد! اگر ہم تمہیں خدا کا رسول مانتے تو یہ سارے اختلافات نہ ہوتے! اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھو۔

     مسلمانوں میں سے ہر کوئی آپس میں گفتگو کرنے لگا لیکن  امیر المؤمنین علی علیہ السلام پیغمبر خدا(ص) کے حکم کے منتظر تھے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     یا علی؛''محمد رسول اللہ ''کی بجائے'' محمد بن عبداللہ'' لکھو۔

     بہرحال اس طرح لکھا گیا اور ہر بار سہیل لکھنے کے وقت کسی مطلب پر اعتراض کرتا تھا۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے''محمد رسول اللہ'' کو مٹایا اور اس کی بجائے''محمد بن عبداللہ'' لکھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

     یا علی!ایسا دن تمہارے لئے بھی آئے گا۔

     اکتیس سال بعد (یعنی جنگ صفین کے بعد) جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ یعنی ابوموسی اشعری اور معاویہ کا نمائندہ یعنی عمرو عاص دومة الجندل میں فیصلہ کے لئے بیٹھے تو تاریخ نے ایک بار پھرتاریخ کو دہرایاکیونکہ جس طرح رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا: عہد نامہ لکھتے وقت عمرو عاص نے ابوموسی سے کہا: اے شخص؛اگر ہم علی کو'' امیرالمؤمنین ''سمجھتے تو کبھی بھی اس کے ساتھ نزاع واختلاف نہ کرتے۔     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی توآپ کو فوراً رسول خدا(ص) کی وہ باتیں یاد آئیں اور آپ نے فرمایا: کبھی بھی کوئی پیغمبر خدا(ص) سے زیادہ سچا نہیں ہو سکتا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۱۸۷

۳۰۳

  ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ابو محمد بن منویہ نے کتاب''الکفایة'' میں لکھا ہے:

     ابوموسی نے جو کام انجام دیا وہ ایک گناہ عظیم ہے اور اس کے کام کا جونقصان  ہوا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اپنے قنوت میں اس پر اور کچھ دوسرے لوگوں پر لعنت کرتے تھے اور کہتے تھے:

     خدایا؛ پہلے معاویہ، دوسرے عمرو عاص ،تیسرے ابواعور سلمی اور چوتھے ابوموسی پر لعنت فرما۔

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ابوموسی کے بارے میں فرمایا:

     پہلے اس نے علم کا رنگ اپنایا جس طرح اس کا حق تھا اور پھر اس سے الگ کر دیا گیا جیسے الگ ہونے کا حق تھا۔

     ابن منویہ کہتا ہے: ابوموسی وہی ہے کہ جس نے پیغمبر خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

     بنی اسرائیل کے درمیان دو گمراہ منصف تھے اور جلد ہی میری امت میں بھی دو گمراہ منصف ہوں گے، جو بھی ان دونوں کی پیروی کرے وہ گمراہ ہے۔

     اس سے کہا گیا: کہیں ان دو منصف میں سے ایک تم ہی نہ ہو؟

     اس نے کہا: نہیں  یاکوئی ایسی بات کی کہ جس کے ایسے ہی معنی تھے، جب وہ اس مسئلہ میں گرفتار ہوا تو اس کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس نے اپنی ہی زبان سے بلا و مصیبت کو گلے لگایا ۔ جس طرح دوسروں کی توبہ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اس طرح اس کی توبہ بھی ثابت نہیں ہے۔(۱)

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۵ ص۴۰۱

۳۰۴

 حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

     ان پیشنگوئیوں میں اہم اور قابل توجہ نکات موجود ہیں  کہ جن کے بارے میں غور کرنا ضروری ہے:

     ۱۔رسول خدا(ص) کے فرمان سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت تمام اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو عادل ہونے سے مبرّا جانا ہے۔ کیونکہ آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے: میرے صحابیوں میں سے دو افراد انصاف کرنے کے لئے بیٹھیں گے اور ان کا فیصلہ ظلم و ستم پر مبنی ہو گا۔ اس بنا پر ان دو افراد کو نہ صرف عادل نہیں سمجھا گیا بلکہ ان کا تعارف ظالم ا ور ستمگر کے طور پر کروایا گیا ہے۔

     ۲۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس روایت کی بناء پر اہلسنت کے لئے عدالت صحابہ پر استدلال کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور ان کا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے۔

     ۳۔ تیسرا نکتہ کہ جس پر غور کرنا ضروری  ہے ،وہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے حکمیت کی اس پیشنگوئی میں دو حکَم کو باطل سمجھا ہے اور انہیں ظلم و ستم قرار دیا ہے۔اس بناء پر ابوموسی کاامیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کا حکم ظلم و ستم تھا اور عمرو عاص کا معاویہ کو خلافت کے منصب پر فائز کرنا بھی ظلم و ستم تھا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو گا:

     الف: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا حق مسلّم تھا اور انہیں خلافت سے الگ کرنا ظلم و ستم ہے۔

     ب: معاویہ میں خلافت کی لیاقت و صلاحیت نہیں تھی اوراسے خلیفہ بنانا بھی ظلم وستم تھا۔

     پس رسول خدا(ص) کے فرمان کی بناء پر آنحضرت کے خلیفہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں اور معاویہ امیر کائنات علی علیہ السلام کے حق کا غاصب ہے ۔ حکمیّت کے واقعہ میں آنحضرت پر ظلم وستم ہوا اور آپ مظلوم واقع ہوئے۔

     ۴۔رسول خدا(ص) کا فرمان قرآن اور وحی الٰہی کے مطابق تھا جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

    (وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْهَوَی * إنْ هُوَ إلاّ وَحْی یُوحَی ) (۱)

--------------

[۱]۔ سورۂ نجم، آیت:۳،۴

۳۰۵

     ''اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے  اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ''۔

     اس بناء  پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکمیّت (جن کو رسول خدا(ص) نے ردّ کیا) قرآن کی بنیاد پر نہیں تھی اور دونوں افراد نے اپنے ذاتی مفاد کی بناء پر حکم کیا تھا نہ کہ انہوں نے آیات قرآن اور وحی الٰہی سے استفادہ کیا۔

     قرآن کی کون سی آیات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے اور معاویہ کو مقام خلافت پر بٹھانے پر دالت کرتی ہیں؟!

     ۵۔ حکمیّت کا مسئلہ قرآن کی پیروی کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ جنگ کو ختم کرنے،معاویہ اور  عمرو عاص کو یقینی شکست سے بچنے کے لئے تھا۔

     ۶۔ اگر شکست سے بھاگنے کے لئے حکمیّت کے مسئلہ کو مطرح نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے قرآن کے حکم کی پیروی کی وجہ سے  مطرح کیا گیا تھا تو انہوں نے جنگ سے پہلے اس حکم کو کیوں قبول نہیں کیا کہ جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام  انہیں حکم الٰہی کو قبول کرنے اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دے رہے تھے؟!

     ۷۔ حکمیّت کے مسئلہ میں قرآن سے استدلال نہیں کیا گیا اور اپنے حکم کے لئے کسی بھی آیت کو عنوان قرار نہیں دیا گیاپس پھر کچھ مسلمان کس طرح معاویہ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ مانتے ہیں؟!

     ۸۔ صرف یہی نہیں کہ حکمیّت کے مسئلہ کی بنیاد قرآن پر نہیں تھی بلکہ معاویہ کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے اور معاویہ کی آنحضرت سے مخالفت اصل میں قرآن کی مخالفت ہے۔کیونکہ   عثمان کی موت سے معاویہ کو شام پر نہ ہی تو کوئی قانونی اختیار تھا اور نہ ہی اس کے پاس خلافت کاکوئی

     جواز تھا۔ پس جب اس کے پاس خلافت نہیں تھی تو وہ کس طرح عثمان کے خون کا ولی ہو سکتا ہے؟!

     ۹۔ اس کے علاوہ عثمان کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے معاویہ عثمان کے خون کا ولی بھی نہیں تھا تو پھر کس طرح معاویہ خود کو عثمان کے خون کا ولی کہہ رہا تھا؟ اس بناء پر معاویہ کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا اور آپ کی مخالفت کرنا درحقیقت قرآن کی مخالفت تھی۔

۳۰۶

     ۱۰۔ دوسرا اہم نکتہ: جس طرح حدیبیہ کے صلح نامہ سے لفظ ''رسول اللہ'' کو مٹا دینا خلاف واقع اور حکم خدا کے برخلاف تھا اسی طرح حکمیّت کے مسئلہ میں لفظ''  امیرالمؤمنین'' کو مٹا دینا بھی خلاف واقع اور خوشنودی پروردگار کے بر خلاف ہے۔     اس بناء پر جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ''رسول اللہ'' تھے اور یہ لفظ آن حضرت کے اسم مبارک کے ساتھ ہونا چاہئے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ''  امیرالمؤمنین''بھی ہونا چاہئے،اور جس طرح لفظ ''رسول اللہ''کو مٹا دینا پیغمبر خدا(ص) پر ظلم تھا اسی طرح لفظ ''  امیرالمؤمنین''کو مٹا دینا  مولائے کائنات علی علیہ السلام پر ظلم ہے۔

     ۱۱۔ ایک اور اہم نکتہ: کلمہ''امیرالمؤمنین'' کو مٹا دیناحضرت علی علیہ السلام  پر ظلم ہے کیونکہ آنحضرت سب مؤمنوں کے امیر ہیں۔اس بناء پر معاویہ کے دعویٰ کا کوئی جواز باقی نہیں بچتاکیونکہ وہ نہ ہی تو مؤمنوں کاامیر ہے اور نہ ہی رسول(ص) کا خلیفہ ہے۔

     ۱۲۔ دوسرا اہم نکتہ: چونکہ معاویہ کے پاس مؤمنوں کی سربراہی و خلافت کا مقام نہیں تھا۔ایسے مقام کا دعویٰ کرنے والا انسان گمراہا ور گمراہ کرنے والا ہوتا ہے اور اس کے پیروکار اور تابعین بھی سب کے سب گمرا ہ ہوتے ہیں۔

     ۱۳۔ ایک اور اہم نکتہ:رسول خدا(ص) کی تیسری پیشنگوئی کے مطابق معاویہ نہ صرف یہ کہ گمراہ شخص ہے بلکہ اسے برسرحکومت لانے والے دونوں منصف بھی گمراہ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے بھی گمراہ ہیں۔     قابل توجہ یہ ہے ابوموسی اشعری نے خود یہ روایت رسول خدا(ص) سے سنی اور روایت کی ہے۔     حکمیّت کے واقعہ کے رونما ہونے اور اس کے بطلان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں میں بہت زیادہ اہم نکات موجود ہیں جو سب کے لئے بخوبی یہ واضح کردیتے ہیں کہ معاویہ کو تخت خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس نے پہلے سے تیارشدہ پروگرام ،اپنی مکاریوں اور عمرو عاص کی فریب کاریوں کی مدد سے بے شمار مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کیا ہے۔  حکمیّت کے موضوع کے علاوہ رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئیوںسے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ کا کردار و رفتار رسول خدا(ص) کے ارشادات و فرمودات کے برخلاف تھا۔

۳۰۷

  رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

     محمد بن مہران نے محمد بن علی بن خلف سے  ، انہوں نے محمد بن کثیر سے، انہوںنے اسماعیل بن زیاد بزّار سے نہوں نے ابی ادریس سے اور انہوں نے رافع (عائشہ کا آزاد کیا ہوا) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

جب میں کمسن تھا  اور اس کی خدمت میرے ذمہ تھی اور عام طورپر جب پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں ہوتے تو میں وہاں قریب ہی رہتا۔ایک دن پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں تھے،کوئی آیا اور اس نے دستک دی۔ میں گیا، دیکھا تو ایک کنیز تھی کہ جس کے پاس ایک برتن تھا کہ جو اوپر سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں عائشہ کے پاس آیا اور اسے اس بارے میں بتایا۔اس نے کہا: اسے گھر میں لے آؤ۔وہ کنیز آئی اور اس نے وہ برتن عائشہ کے پاس رکھ دیا ، عائشہ نے وہ برتن پیغمبر (ص) کے پاس رکھ دیا اور آپ نے کھانا شروع کیا اور فرمایا:

     اے کاش! امیرالمؤمنین، سالار اوصیاء ،پیشوا اور امام المتقین بھی میرے ساتھ ہوتے اور اس غذا سے تناول کرتے۔

     عائشہ نے پوچھا: وہ کون ہیں؟

     اسی موقع پر پھر سے دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں گیا اور دیکھا کہ  امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں ۔ میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: علی علیہ السلام گھر کے دروازے پر ہیں۔

     فرمایا: انہیں اندرلے آؤ۔جیسے ہی  علی علیہ السلام داخل ہوئے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     کیا بہتر؛میں نے آپ کے آنے کی آرزو کی تھی اور اگر آپ دیر سے آتے تو میں خدا سے دعا کرتا کہ آپ کو میرے پاس بھیج دے۔بیٹھو اور میرے ساتھ یہ غذا تناول فرماؤ۔

     جب   امیر المؤمنین علی علیہ السلام بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:

     خداوند انہیں  ہلاک کر کہ جوآپ سے جنگ کرے ،خداوند اس سے دشمنی رکھتا ہے کہ آپ سے دشمنی کرے۔

     عائشہ نے کہا:ان کے ساتھ کون جنگ کرے گا اور کون ان سے دشمنی رکھے گا؟

۳۰۸

     فرمایا: تو اور تیرے ساتھی۔     یہ حدیث بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے عائشہ کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے اور حلانکہ وہ جانتی  تھی کہ امام المتقین کون ہیں، لیکن پھر بھی اس نے پوچھا کہ جواس کے انکار کی حکایت کرتا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نفرین بھی حکایت کرتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ عائشہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرے گی ۔ لہذا رسول خدا(ص)   امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتے تھے اور امت کے افکارسے ہر قسم کے شبہات کو دور کرنا چاہتے تھے کہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام حق و صراط مستقیم پر ہیں اور آپ کا دشمن اپنی دشمنی میں باطل پر ہے۔(۲)(۱) پیغمبر اکرم(ص) نے یہ روایت مطلق ارشاد فرمائی ہے اس بناء پر اس میں معاویہ اور دوسرے بھی شامل ہیں۔

مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

کتاب ''المناقب والمثالب''میں لکھتے ہیں:جب مروان پیدا ہوا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لے کر گئے تا کہ اس طالو اتار دیں؛جس طرح مسلمان بچوں کے ساتھ یہ رسم  انجام دی جاتی ہے۔  پیغمبر اکرم(ص) نے اس کے لئے یہ کام انجام نہ دیا اور اسے اپنی خیر سے محروم کردیا اور فرمایا:أتون بأزرقهم (۳)   سب سے زیادہ نیلی آنکھوں والے کو میرے پاس لائے ہیں۔(۴)

     کتاب ''الفتن'' میں مروزی نے پیغمبر اکرم(ص) کے قول سے یہ جملہ نقل کیاہے:

    ابن الزرقاء هلاک عامّة اُمّتی علی یدیه و ید ذرّیّته ۔(۵)

     میری عام امت ابن زرقاء اور اس کی ذرّیّت کے ہاتھوں ہلاک ہو گی۔

--------------

[۱] ۔ یہ روایت کشف الیقین:۱۳ اور ۱۴ ،بحار الأنوار(جدید چاپ): ۳۵۱۳۸  میں آئی  ہے۔ اسی طرح بحار الانوار: ج ۳۸ ص۳۶۰ -۳۴۸  کی طرف رجوع فرمائیں۔

[۲]۔ نبرد جمل:۲۵۴

[۳]۔ المناقب و المثالب:۲۹۶

[۴]۔''فرہنگ جامع''میں  لکھا ہے:''ازرق''خبیث اور بدجنس دشمن کے لیے کنایہ ہے۔

[۵]۔ الفتن مروزی:۷۲

۳۰۹

  مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

     جمل کے واقعہ کے بعد مروان معاویہ سے مل گیا اور اپنی پیدائشی خباثت و نجاست اور اپنے گندے عقیدے کی وجہ سے وہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دشمنی میں کوشاں کرتا رہا اور آنحضرت کی وفات کے بعد اسے دو مرتبہ مدینہ کی حکومت ملی۔

 ابن اثیر نے کہا ہے: یہ ہر جمعہ کے دن منبر رسول خدا(ص) پر جاتا اور مہاجرین و انصار کی موجود میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام بہت زیادہ سبّ و شتم کرتا۔جب یزید بن معاویہ کو حکومت ملی تو مروان مدینہ میں تھا اور اس نے واقعۂ حرّہ میں مدینہ والوں کو قتل کرنے کے لئے مسلم بن عقبہ کو ورغلایا اور معاویہ بن یزید کی خلافت کے زمانے میں وہ شام میں تھا اور جب معاویہ مر گیا اور آل ابی سفیان کی حکومت ختم ہو   گئی اور لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت کر لی تو مروان نے ابن زبیر کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا، ااس نے مکہ کی طرف جانا چاہا تو بعض نے اسے منع کیا اور اس خلافت کا لالچ دلایا۔مروان جاثیہ کی طرف چلا گیا کہ جو شام اور اردن کے درمیان ہے۔عمرو بن سعید بن العاص (جو أشدق کے نام سے مشہور تھا) نے مروان سے کہاکہ میں لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لیتا ہوں بشرطیکہ تمہارے بعد مجھے حکومت اور خلافت ملے ۔

     مروان نے کہا: خالد بن یزید بن معاویہ کے بعد خلافت تمہاری ہے۔اشدق نے قبول کر لیا اور لوگوں کو اس کی بیعت کی طرف بلایا۔

     سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کی بیعت کی وہ اردن کے لوگ تھے کہ جنہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار کے خوف سے بیعت کی۔پھر شام اور کچھ دوسرے شہروں  کے لوگوں  نے بیعت کی۔

     مروان نے اپنے کارندوں کو مختلف شہروں میں بھیجا اور خود مصر کی طرف روانہ ہو گیا  اور اس نے اہل مصر کا محاصرہ کر لیا اور ان کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر کی بیعت کو چھوڑ دیا اور مروان کی اطاعت میں کرلی۔

     مروان نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ان کا حاکم مقرر کیا اور خود شام واپس لوٹ آیا۔جب وہ شام میں داخل ہوا تو اس نے حسان بن مالک (جوقحطان کا  سید و سربراہ تھا) کو بلایااور اس خوف سے کہیں اس کے بعدبداعیۂ ریاست میں بغاوت و سرکشی نہ ہو جائے لہذا اس نے اسے ترغیب  دلائی کہ وہ خلافت کی طمع  کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔

۳۱۰

     جب حسان نے یہ دیکھا تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے ایک خطبہ پڑھا اور لوگوں کو مروان کے بعد عبدالملک بن مروان اور عبدالملک کے بعد عبدالعزیزمروان کی بیعت کی دعوت دی اور لوگوں نے بیعت کر لی اور مخالفت نہ کی۔

     جب مروان کی بیوی اور خالد بن یزید کی ماں فاختہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے مروان کو قتل  کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس نے اپنا وعدہ توڑا تھا جب کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بعد خلافت خالد بن یزید کی ہو گی۔پس اس نے دودھ میں زہر ملایا اور مروان کو دیا ۔جب مروان نے اسے پیا تو اس کی زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ حالت احتضار میں پہنچ گیا۔

     عبدالملک اور اس کے سب بیٹے اس کے پاس آئے اور مروان نے اپنی انگلی سے خالد کی ماں کی طرف اشارہ کیا یعنی اس نے مجھے قتل کیا ہے ،لیکن خالد کی ماں نے یہ بات چھپانے کے لئے کہا: میرا باپ تجھ پر قربان؛تم مجھے کتنا چاہتے ہو کہ مرتے وقت بھی مجھے ہی یاد کر رہے ہواور اپنے بیٹوں کو میری  بارے میں وصیت کر رہے ہو۔

     دوسرے قول کے مطابق جب مروان سو رہا تھا تو خالد کی ماں نے اس کے منہ پر تکیہ رکھ دیا اور اپنی کنیز کے ساتھ اس پر بیٹھ گئی یہاں تک کہ مروان کا دم نکل گیا۔

     یہ واقعہ۶۵ھ میں پیش آیا اور مروان کی تریسٹھ سال عمر تھی اوراس نے تقریباً نو مہینے  خلافت کی۔اس کے بیس بھائی، آٹھ بہنیں،گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

     فریقین کی کتابوں میں اس پر لعنت کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور اہلسنت کی کتابوں میں اس بارے میں ایک روایت ہے کہ عائشہ نے مروان سے کہا:

میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نے تیرے باپ پر لعنت کی جب کہ تو اس کے صلب میں تھا۔

     ''حیاة الحیوان''، ''تاریخ خمیس ''اور ''اخبار الدول'' میں مستدرک حاکم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :عبدالرحمن بن عوف نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لایا جاتا تا کہ آنحضرت اس کے لئے دعا کریں لیکن جب آنحضرت کے پاس مروان کو لایا گیا تو آپ نے اس کے حق میں فرمایا:

۳۱۱

     هو وزغ بن الوزغ الملعون بن الملعون

     یہ چھپکلی اور چھپکلی کا بیٹا ہے، یہ ملعون  اور ملعون کا بیٹا ہے۔

     حاکم نے بھی روایت کی ہے:

عن عمرو بن مرّة الجهن و کانت له صحبة: ان الحکم بن أبی العاص استأذن عن النبی (ص) فعرف صوته فقال: ائذنوا له، علیه و علی من یخرج من صلبه لعنة اللّٰه الاَّ المؤمن منهم و قلیل ماهم، یترفهون فی الدنیا و یضیعون فی الآخرة، ذومکر و خدیعة، یعطون ف الدنیا وما لهم فی الآخرة من خلاق ۔(۱)

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     واقدی نے کہاہے کہ جب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام جنگ جمل جیت گے تو قریش کے جوانوں کا ایک گروہ آیا اور انہوں نے آنحضرت سے امان طلب کی اور یہ کہ انہیں بیعت کرنے کی اجازت دی جائے اور اس بارے میں انہوں نے عبداللہ بن عباس کو شفیع قرار دیا۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان کی شفاعت قبول کی اور انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے خطاب فرمایا:

     افسوس ہے تم گروہ قریش پر!کس جرم کی بناء  پر تم نے مجھ سے جنگ کی؟کیا میں نے تمہارے درمیان عدل کے بغیر کبھی کوئی حکم کیا؟ یا کبھی ایسا ہوا کہ تم لوگوں میں کوئی مال برابر تقسیم نہیں کیا؟یا کسی کو تم لوگوں پر برتری دی؟ یا میں پیغمبر(ص) سے دور تھا؟یا میں نے اسلام کی راہ میں کم مصیبتیں بردشت کی ہیں؟

     انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین!ہماری مثال یوسف کے بھائیوں کی طرح ہیں ،ہمیں معاف فرمائیں اور ہمارے لئے استغفار کیجئے۔

--------------

[۱] ۔تتمّة المنتهی :۷۹

۳۱۲

     آپ نے ان میں سے ایک کی طرف دیکھ کر کہا:تم کون ہو؟

     اس نے کہا: میں مخرمہ کا بیٹا مساحق ہوں اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کا اعتراف کرتا ہوں اور   میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے تم لوگوں سے درگذر کی اور تم سب کو معاف کر دیا اور خدا کی قسم!اگرچہ تم لوگوں میں وہ شخص بھی موجودہے کہ اگر چہ وہ ہمارے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کربیعت تو کرے گا لیکن پشت دکھا دے گا۔

     مروان بن حکم جس نے ایک شخص کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی،وہ آگے آیا۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا:تمہیں کیا ہوا ہے کیا تم زخمی ہو؟

     کہا:جی ہاں!اے امیر المؤمنین !اور مجھے اپنی موت بھی اسی زخم میں دیکھائی دے رہی ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا:

     نہیں؛ خدا کی قسم! اس زخم کا تم پر کوئی خوف نہ ہو اور جلد ہی یہ امت تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے خون آلود دن دیکھے گی۔

     مروان نے بیعت کی اور واپس لوٹ گیا۔

پھر عبدالرحمن بن حارث بن ہشام آگے آیا اور جب اس پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی  نگاہ پڑی توآپ نے فرمایا:

     خدا کی قسم!اگرچہ تم اور تمہارا خاندان اہل صلح تھا  اگرچہ تم لوگ توانگر ہولیکن پھر بھی تم لوگوں سے  درگذر کرتا ہوں اور یہ میرے لئے بہت پریشانی کا باعث ہے کہ میں  نے تمہیں اس قوم کے ساتھ دیکھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ یہ اتفاق نہ ہوتا۔ عبدالرحمن نے کہا: وہ ہو گیا کہ جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ اس نے بھی بیعت کی اور واپس چلا گیا۔(۱)

--------------

[۱]۔ نبرد جمل:۲۴۸

۳۱۳

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابو مخنف نے عدی سے، انہوںنے ابی ہشام سے، انہوں نے بریدسے، انہوں نے عبداللہ بن مخارق سے اور انہوں نے ہاشم بن مساحق قرشی سے نقل کیا ہے کہ انہوںنے کہا ہے: میرا باپ کہتا تھا: جب جنگ جمل سے لوگ بھاگ گئے تو قریش کا ایک گروہ کہ ( جن میں مروان بن حکم بھی شامل تھا) اس کے پاس آیا اور ان میں سے بعض نے دوسروں سے کہا: خدا کی قسم! ہم نے اس شخص (یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام) پر ظلم کیا ہے اور بغیر کسی وجہ کے ان کی بیعت کو توڑا  ہے ۔اور خدا کی قسم!جب یہ ہم پر کامیاب ہو گئے تو ہم نے رسول خدا(ص) کے بعد ان سے زیادہ کوئی کریم اور بخشنے والا نہیں دیکھا۔اب آؤ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں۔     کہتے ہیں: ہم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر گئے اور اجازت طلب کی۔ آنحضرت نے اجازت دی اور جب ہم آپ کے سامنے پہنچے تو ہم میں سے ایک شخص نیکلام کرناچاہا ۔ لیکن آپ نے فرمایا:جب تک میں بات نہ کر لوں آرام سے اور خاموش رہو۔ بیشک میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ،اگر میں حق کہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگرغلط بیانی سے کام لوں تو میری بات کو ردّ کرنا۔اب میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں!کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب رسول خدا(ص) کی رحلت فرما گئیتو میں آنحضرت کے سب سے زیادہ قریبی تھا اور لوگوں پر حکومت کے لئے سب سے زیادہ حق دار تھا؟     انہوں نے کہا:جی ہاں! ہم جانتے ہیں۔

     آپ نے فرمایا:لیکن پھر بھی تم لوگوں نے مجھ سیمنہ موڑ لیا اور ابوبکر کی بیعت کر لی،میں نے برداشت کیا اور میں نہیں چاہا تھا کہ مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو حکومت دے دی۔میں نے پھر بھی گریز کیا اور لوگوں میں کوئی تحریک پیدا نہ کی حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کام کے لئے میں ہی سب سے زیادہ شائستہ ہوں اور رسول خدا(ص) کی جانشینی کے لئے میں ہی سب  سے زیادہ اہل ہوں۔لیکن میں نے صبر و تحملکا دامن نہ چھوڑایہاں تک کہ وہ قتل ہو گیا اور اس (عمر)نے مجھے شوریٰ کا چھٹا شخص قرار دیا۔میں نے پھر بھی خلافت سے ہاتھ اٹھا لیاکیونکہ میں مسلمانوں میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتا تھااور تم

۳۱۴

لوگوں نے عثمان کی بیعت کر لی اور تم نے خود ہی اس کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کر دیا تھا۔میں تو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ،تم لوگ خود میرے پاس آئے اور میری بیعت کی کہ جس طرح تم لوگوں نے ابوبکر اور عمر کی بیعت کی تھی ۔تم لوگوں نے ان دونوں سے تو وفاداری کی لیکن تم نے مجھ سے اپنے عہد کی وفا نہ کی ۔کس چیز کی وجہ سے تم لوگوں نے ان دونوں کی بیعت تو نہ توڑی لیکن میری بیعت توڑ دی؟

     ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام!آپ خدا کے صالح بندے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بنیں کہ جو فرماتےتھے:      آج تمہارے لئے کوئی ملامت نہیںہے ۔خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے .(۱)

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: آج تم لوگوں کے لئے کوئی سرزنش نہیں ہے اگرچہ تم لوگوں میں ایسا شخص بھی موجود  ہے کہ اگر وہ اپنے ہاتھ سے میری بیعت کرے تو مجھے پشت دکھا دے گا۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مراد مروان بن حکم تھا۔(۲)

مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

     کتاب ''الأستعاب'' کے مؤلف کہتے ہیں: امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مروان کو دیکھا تو اس سے فرمایا: وای ہواور افسوس !تم سے اور تمہارے بیٹوں سے امت محمد(ص)پر!؛ جب تمہارے شقیقہ کے بال سفید ہو جائیں گے۔

     مروان''خیط باطل''کے نام سے مشہور تھا۔اور اسے یہ ا س وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ لمبے قد کا اور کانپتاتھا۔عثمان کے گھر میں ہونے والی جنگ میں مروان کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا۔

     جب مروان کو حکومت ملی تو اس کے بھائی عبدالرحمن بن حکم (جو شوخ شاعراور مسخراباز اوروہ اچھے شعر کہتا تھا مروان کا ہم عقیدہ نہیں تھا) نے یوں شعر کہا:

--------------

[۱]۔ سورۂ یوسف،آیت:۹۲

[۲]۔ نبرد جمل:۲۴۹

۳۱۵

     ''خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں کہ اس شخص کی بیوی سے پوچھوں کہ آخر کیا ہوا ہے کہ جسے گردن کے پچھے ضربت لگی تھی؟ خداوند اس قوم کو نابود کرے کہ جس نے لمبے قد کے کانپنے والے شخص کو لوگوں کا امیر بنا دیا اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا عطا نہیں کرتا''۔     کہا گیا ہے:عبدالرحمن نے یہ شعر اس وقت کہا کہ جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تھا۔عبدالرحمن ،مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا اور اس کی مذمت میں اس کے اوراشعار یوں ہیں:

     اے مروان؛میں نے اپنا فائدہ تجھے،عمرو، کانپنے والے دراز قامت مروان اور خالد کو بخش دیا۔

     مالک الریب نے بھی مروان کی مذمت کی ہے اور یوں شعر کہا ہے:

     ''مجھے تیری جان کی قسم!مروان ہمارے امور انجام نہیں دے گا ، بلکہ جعفر کی بیٹی ہمارے بارے میں حکم دے گی۔اے کاش؛وہی ہماری امیر ہوتی ۔اور اے کاش؛اے مروان تمہارے پاس زنانہ شرمگاہ ہوتی۔

     مروان کی مذمت میں اس کے بھائی عبدالرحمن کے دوسرے اشعار یوں ہیں:ہاں؛کون ہے کہ جو میری طرف سے میرا پیغام مروان تک پہنچائے۔     جب معاویہ کو خلافت ملی توسب سے پہلے اس نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا اور پھر مکہ اور طائف کی حکومت بھی اسی کے سپرد کردی۔پھر اسے اس حکومت سے معزول کر دیا  اورسعید بن عاص کو حاکم بنا دیا۔جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا تو اس کا بیٹے ابولیلیٰ معاویہ بن یزید کو ۶۴ھ میں  حکومت ملی ۔وہ چالیس دن تک خلیفہ رہا اور پھر مر گیا۔اس کی ماں (ام خالدبنت ابوخالد بنت ابوہاشم بن عتیبہ بن ربیعة بن عبد شمس تھی)نے اس سے کہا:اپنے بعد خلافت اپنے بھائی کو دی دو۔

     معاویہ بن یزید نے قبول نہ کیا اور کہا:یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی باتوں کی تلخی میرے ذمہ ہو اور مٹھاس تمہارے لئے ہو۔   اس وقت مروان نے خلافت کے لئے قیام کیا اوریہ شعر کہا:

     میں ایسا فتنہ دیکھ رہا ہوںکہ جس کی دیگ ابل رہی ہے اور ابولیلیٰ کے بعد بادشاہی اسی کی ہے کہ جو غلبہ پا جائے گا اور جیت جائے گا۔(۱)

--------------

[۱] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۳ ص۲۶۶

۳۱۶

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

     کتاب''نہایة الأرب''میں آیا ہے: مروان نے رسول خدا(ص) کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ابھی تک ناسمجھ بچہ تھا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ طائف چلا گیا اور پھر عثمان کی حکومت کے دوران مدینہ واپس آیا تھا۔

     جب اس کا باپ مر گیا تو عثمان نے اسے اپنے کاتب کے طور پر رکھ لیا۔مروان عثمان کے افکار و رفتار پراس طرح حاوی ہوگیا تھا کہ لوگوں کے قیام و بغاوت اور عثمان کے قتل کا اصل سبب  وہی تھا۔

     ابن عبدالبر نے کتاب''الاستیعاب''(۱) میں نقل کیا ہے: ایک دن حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام مروان کے پاس گئے اور فرمایا:

     اے وای ہو تجھ پر! تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے امت محمد پر وای ہو،وای ہو!اس وقت کہ جب تجھے طاقت ملے گی۔

     مروان کو ''خیط باطل''کہتے تھے۔عثمان کے گھر جنگ کے دن اس کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ منہ کے بل زمین پرگر پڑا۔

     اس کا بھائی عبدالرحمن بن حکم اس کا ہم عقیدہ نہیں تھا اور وہ شوخ طبیعت کا شاعر تھا جس نے اس کے بارے میں یوں کہا:

     خدا کی قسم! میں نہیں جانتا اورجس شخص کوپس پشتس ضربت ماری گئی میں اس کی بیوی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہے،خداوند اس قوم کو رسوا کرے کہ جس نے اس بوسیدہ رسی کو حاکم بنا دیا ہے اور وہ لوگوں کا امیر بن گیا ہے وہ جسے چاہتا ہیعطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے۔    نقل کیا گیا ہے:جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تو اس کے بھائی نے یہ شعر کہا تھا اور وہ مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا۔(۲)

--------------

[۱]۔ الاستیعاب: ۱۳۸۸

[۲]۔ نہایة الأرب: ج۶ص۶۹

۳۱۷

  عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     معاویہ نے عمرو بن سعید بن عاص کو مکہ کا حاکم بنایا کہ جو تکبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا اور یہ وہی ظالم و جابر ہے کہ رسول خدا(ص) کے منبر پر جس کے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔

     ابن قتیبہ اور اس کے علاوہ دوسروں  نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے پیغمبر خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

     میرے منبر پر بنی امیہ کے  ظالموں اورجابروں میں سے ایک کے ناک سے خون جاری ہو گا اور  منبر پراس کا خون گرے گا۔ابوعبیدہ نے کتاب ''مثالب'' میں اور ابوجعفر نے تاریخ میں روایت کی ہے کہ عمرو بن سعید بن عاص جب مدینہ کا حاکم بنا تو اسے عبید اللہ بن زیاد کا خط ملا جس میں اس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی! اس نے منبر پر سے لوگوں کے لئے خط پڑھا اور کہا:

     اے محمد!یہ عمل بدر میں تمہارے عمل کے بدلہ میں انجام پایا ہے!اس وقت انصار کے ایک گروہ نے اس کی بات کو ردّ کیا۔(۱)

  جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     ابراہیم بن دیزیل نے کتاب''صفین'' میں اعمش کے قول سے اور اس نے زید بن وہب سے نقل کیاہے:جب علی علیہ السلام نے خوراج کے پاؤں نیزوں کے ذریعہ اکھاڑ دیئے تو فرمایا: ذوالثدیہ کا جسم تلاش کرو اور انہوں نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ، وہ انہیں ایک نچلی اور ناہموار زمین پر دوسرے مردوں کے نیچے ملا۔اسے حضرت علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا اور اس کے سینہ پر بلی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے ۔ آنحضرت نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی خوشی سے آپ کے ساتھ مل کر تکبیر کہی۔

--------------

[۱]۔ معاویہ و تاریخ:۱۰۱

۳۱۸

     اسی طرح انہوں نے مسلم ضبی سے اور نہوں  نے حبّة عرنی سے نقل کیاہے کہ انہوں  نے کہا:

     ذوالثدیہ ایک سیاہ اور بدبوناک شخص تھا ۔اس کے ہاتھ عورتوں کے پستان کی طرح تھے ۔جب اسے کھینچتے تھے تو بلندی کی وجہ سے اس کے دوسرے ہاتھ تک پہنچ جاتے تھے اور جب اسے چھوڑتے تھے تو اکٹھے ہو کر عورت کے پستان کی طرح بن جاتے تھے۔اس پر بلّی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے۔جب اس کا جسم ملا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھااور اور اس کے ہاتھ کو نیزہ پر بلند کیا گیا۔علی علیہ السلام نے بلند آواز سے کہا:

     خدا نے سچ کہا ہے اور اس کے رسول (ص) نے صحیح ابلاغ کیا ہے۔

     عصر کے بعد تک آپ اور آپ کے ساتھی یہی کلمہ کہہ رہے تھے کہ جب تک سورج غروب ہو گیا یا غروب  ہونے کے نزدیک تھا۔

     ابن دیزیل نے بھی اسی طرح روایت کی ہے کہ جب ذوالثدیہ کے جسم کو تلاش کرنے میں علی علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو فرمایا:رسول خدا(ص) کی سواری لے آؤ۔

     سواری لائی گئی اور آپ اس پر سوار ہوئے لوگ آپ کے پیچھے چل پڑے۔آپ مقتولین کو دیکھ رہے تھے اور فرماتے تھے:منہ کے بل پڑے ہوئے مقتولین کو سیدھا کرو اور آپ ایک ایک کر کے مقتولین کا جائزہ لے رہے تھے یہاں تک کہ اس کا جسم ملا تو علی علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لائے۔

     بہت سے گروہ نے روایت کی ہے کہ جب علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کی سواری طلب کی تا کہ اس پر سوار ہوں تو فرمایا: یہ سواری لاؤ تا کہ یہ رہنما ہو اور آخر کا وہ سواری منہ کے بل پڑے ایک جنازے کے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر ذوالثدیہ کے جسم کو مردوں کے نیچے سے باہر نکال لیا گیا۔

     عوام بن حوشب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا یزید بن رویم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے دن فرمایا:

۳۱۹

     آج ہم ہزار چار ہزارخوارج کو قتل کریں گے کہ جن میں سے ایک ذوالثدیہ ہو گا۔

     جب خوارج یہ جنگ ہار گئے تو علی علیہ السلام نے اس کے جسم کو تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔میں بھی آنحضرت کے پیچھے چل پڑا اور علی علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے چار ہزار تیر تراشے جائیں۔پھر وہ رسول خدا(ص) کی سواری پر سوار ہوئے اور مجھ سے فرمایا:مقتولین میں سے ہر ایک پر ایک تیر رکھو۔

     میں اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ میرے پیچھے آ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔میں ہر مقتول پر ایک تیر رکھتا تھا یہاں تک کہ میرے پاس ایک تیر ہی باقی بچا ۔میں نے آنحضرت کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے آپ کا چہرہ افسردہ و اداس ہو۔

     آپ نے فرمایا:خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا۔

اچانک میں نے ایک نچلی جگہ سے پانی بہنے کی آواز سنی ۔

     فرمایا:یہاں تلاش کرو۔

     میں نے جستجو کی تو دیکھا کہ ایک مقتول پانی میں گرا پڑا ہے۔میں نے اس کا ایک پاؤں پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ یہ کسی انسان کا پاؤں ہے۔حضرت علی علیہ السلام بھی جلدی سے اپنی سواری سے نیچے اترے اور دوسرے پاؤں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور مل کر اسے باہر نکالا اور جب اسے زمین پر رکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالثدیہ کا پاؤں ہے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے بہت بلند آوز سے تکبیر کہی اور پھر سجدۂ شکر بجا لائے اورپھر سب لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔

     بہت سے محدثین نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا:

     بیشک تم میں سے ایک قرآن کی تأویل کے لئے جنگ کرے گا کہ جس طرح میں تنزیل قرآن کے لئے جنگ کی۔

     ابوبکر نے کہا:اے رسول خدا(ص) ؛کیا وہ شخص میں ہوں۔

     فرمایا:نہیں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346