معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168104 / ڈاؤنلوڈ: 7630
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

     رسول خدا(ص) کی یہ  پیشنگوئی سن پانچ ہجری میں تھی اور تیس سال کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا کیونکہ جنگ صفین میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو حکمیّت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں سے ابوموسی اشعری کو منتخب کیا گیا لیکن امام علیہ السلام اس کو منتخب کرنے پر راضی نہیں تھے جب کہ معاویہ کا نمائندہ عمرو عاص تھا۔

     یہ دو افراد ''دومة الجندل'' کی سرزمین پر فیصلہ کے لئے بیٹھے۔ اس فیصلہ میں ابوموسی اشعری اگرچہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ تھا لیکن پھر بھی اس نے خیانت کی اور اس نے آنحضرت کو مسند خلافت (جو آنحضرت کا مسلّم حق تھا) سے معزول کر دیالیکن عمرو عاص نے اپنی آسائشوں کے  ولی یعنی معاویہ کی خلافت کا حکم دیا۔

جیسا کہ ابن ابی الحدید اور تمام اہلسنت دانشوروں نے لکھا ہے کہ حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی اس واقعہ کے رونما ہونے سے تیس سال پہلے تھی تا کہ سب کے لئے یہ ثابت ہو جائے کہ حکمیّت کے واقعہ سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ ظلم ہوا اور معاویہ نے ظلم و ستم سے  مسند خلافت پر غاصبانہ طریقہ سے قبضہ کیا۔

حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص)کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے نصر بن مزاحم سے نقل کیا ہے: جب عمرو عاص اور ابوموسی اشعری کے درمیان صلح نامہ لکھنا شروع ہوا تو اس میں یوں لکھا گیا:

     یہ وہ عہد ہے جس پر علی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور معاویہ بن ابی سفیان نے موافقت کی....۔

     معاویہ نے کہا: کتنا برا شخص بن جاؤں گا کہ جب میں یہ اقرار کروں کہ وہ (علی علیہ السلام) امیر المؤمنین ہیں.....۔

     جب عہدنامہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ ''امیر المؤمنین'' کا عنوان مٹا دیا جائے اور پھر فرمایا: جب حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا:یا علی!تمہارے لئے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا جائے گا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۱۷۸

۳۰۱

     اب ہم حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی کا اصل واقعہ بیان کرتے ہیں:

     پیغمبر اکرم(ص) نے بیس دن تک حدیبیہ کے مقام پر قیام کیااس مدت کے دوران پیغمبر(ص) کے سفیر مکہ بھی جاتے تھے تا کہ مشرکین کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے راضی کر سکیں اور مشرکین کے سفیر حدیبیہ آتے  تھے تا کہ رسول خدا(ص) کو مکہ میں داخل ہونے سے  روک سکیں۔

     آخرکار مشرکین اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ پیغمبر خدا(ص) کے ساتھ صلح نامہ پردستخط کریں تا کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا جائے اور اس کے بدلے میں آئندہ سالتین دن تک صرف عمرہ انجام دینے کے لئے مکہ میں آئیں۔

     مشرکین کے سربراہوں میں سے دو افراد سہیل بن عمر اور حفص بن احنف معاہدہ کے لئے مکہ سے روانہ ہوئے۔ان دونوں سے پہلے حفص کا بیٹا مِکَرز پیش قراول کے طور پر موجود تھا۔پیغمبر(ص) نے دور سے مِکَرز کو دیکھا تو اپنے اصحاب سے فرمایا:

     کوئی بھی اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے کہ یہ پیمان شکن اور فاجر شخص ہے۔

     لہذا اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کے ساتھ  گفتگو نہیں کی۔ اورجب آپ نے سہیل بن عمرو کو دیکھا تو فرمایا:''سہل أمرنا'' یعنی ہمارے لئے کام آسان ہو گیا۔

     ابتدائی  گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ صلح نامہ لکھا جائے۔  امیر المؤمنین علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے ساتھ  تشریف فرما تھے،اور قلم و کاغذ بھی آپ کے ہی دست مبارک میں تھے،سہل اور حفص بھی دو زانو ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول خدا(ص) کے باقی اصحاب خیمہ کے اردگرد موجود تھے اور لکھنے کا سارا عمل دیکھ رہے تھے۔

     پیغمبر خدا(ص) نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو حکم دیا :

     لکھو:بسم اللّٰه الرحمن الرحیم

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے لکھنا شروع کیا تو سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور لکھنے سے روک دیا اور کہا: ٹھریں؛ یہ رحمن و رحیم کیا ہے؟ میں کسی رحمن و رحیم کو نہیں جانتا!  بلکہ آپ لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

۳۰۲

       امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھا، آنحضرت نے صبرو تحمل کے ساتھ فرمایا:

     یا علی ! لکھو: بسمک اللّٰھمّ۔

     اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: لکھو: یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کے ساتھ صلح  نامہ ہے۔

     پھر سہیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا:اے محمد! اگر ہم تمہیں خدا کا رسول مانتے تو یہ سارے اختلافات نہ ہوتے! اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھو۔

     مسلمانوں میں سے ہر کوئی آپس میں گفتگو کرنے لگا لیکن  امیر المؤمنین علی علیہ السلام پیغمبر خدا(ص) کے حکم کے منتظر تھے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     یا علی؛''محمد رسول اللہ ''کی بجائے'' محمد بن عبداللہ'' لکھو۔

     بہرحال اس طرح لکھا گیا اور ہر بار سہیل لکھنے کے وقت کسی مطلب پر اعتراض کرتا تھا۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے''محمد رسول اللہ'' کو مٹایا اور اس کی بجائے''محمد بن عبداللہ'' لکھا تو پیغمبر اکرم(ص) نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

     یا علی!ایسا دن تمہارے لئے بھی آئے گا۔

     اکتیس سال بعد (یعنی جنگ صفین کے بعد) جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نمائندہ یعنی ابوموسی اشعری اور معاویہ کا نمائندہ یعنی عمرو عاص دومة الجندل میں فیصلہ کے لئے بیٹھے تو تاریخ نے ایک بار پھرتاریخ کو دہرایاکیونکہ جس طرح رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا: عہد نامہ لکھتے وقت عمرو عاص نے ابوموسی سے کہا: اے شخص؛اگر ہم علی کو'' امیرالمؤمنین ''سمجھتے تو کبھی بھی اس کے ساتھ نزاع واختلاف نہ کرتے۔     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی توآپ کو فوراً رسول خدا(ص) کی وہ باتیں یاد آئیں اور آپ نے فرمایا: کبھی بھی کوئی پیغمبر خدا(ص) سے زیادہ سچا نہیں ہو سکتا۔(۱)

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ: ۱۸۷

۳۰۳

  ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ابو محمد بن منویہ نے کتاب''الکفایة'' میں لکھا ہے:

     ابوموسی نے جو کام انجام دیا وہ ایک گناہ عظیم ہے اور اس کے کام کا جونقصان  ہوا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اپنے قنوت میں اس پر اور کچھ دوسرے لوگوں پر لعنت کرتے تھے اور کہتے تھے:

     خدایا؛ پہلے معاویہ، دوسرے عمرو عاص ،تیسرے ابواعور سلمی اور چوتھے ابوموسی پر لعنت فرما۔

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ابوموسی کے بارے میں فرمایا:

     پہلے اس نے علم کا رنگ اپنایا جس طرح اس کا حق تھا اور پھر اس سے الگ کر دیا گیا جیسے الگ ہونے کا حق تھا۔

     ابن منویہ کہتا ہے: ابوموسی وہی ہے کہ جس نے پیغمبر خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

     بنی اسرائیل کے درمیان دو گمراہ منصف تھے اور جلد ہی میری امت میں بھی دو گمراہ منصف ہوں گے، جو بھی ان دونوں کی پیروی کرے وہ گمراہ ہے۔

     اس سے کہا گیا: کہیں ان دو منصف میں سے ایک تم ہی نہ ہو؟

     اس نے کہا: نہیں  یاکوئی ایسی بات کی کہ جس کے ایسے ہی معنی تھے، جب وہ اس مسئلہ میں گرفتار ہوا تو اس کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس نے اپنی ہی زبان سے بلا و مصیبت کو گلے لگایا ۔ جس طرح دوسروں کی توبہ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اس طرح اس کی توبہ بھی ثابت نہیں ہے۔(۱)

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۵ ص۴۰۱

۳۰۴

 حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

     ان پیشنگوئیوں میں اہم اور قابل توجہ نکات موجود ہیں  کہ جن کے بارے میں غور کرنا ضروری ہے:

     ۱۔رسول خدا(ص) کے فرمان سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت تمام اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو عادل ہونے سے مبرّا جانا ہے۔ کیونکہ آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے: میرے صحابیوں میں سے دو افراد انصاف کرنے کے لئے بیٹھیں گے اور ان کا فیصلہ ظلم و ستم پر مبنی ہو گا۔ اس بنا پر ان دو افراد کو نہ صرف عادل نہیں سمجھا گیا بلکہ ان کا تعارف ظالم ا ور ستمگر کے طور پر کروایا گیا ہے۔

     ۲۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس روایت کی بناء پر اہلسنت کے لئے عدالت صحابہ پر استدلال کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور ان کا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے۔

     ۳۔ تیسرا نکتہ کہ جس پر غور کرنا ضروری  ہے ،وہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے حکمیت کی اس پیشنگوئی میں دو حکَم کو باطل سمجھا ہے اور انہیں ظلم و ستم قرار دیا ہے۔اس بناء پر ابوموسی کاامیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کا حکم ظلم و ستم تھا اور عمرو عاص کا معاویہ کو خلافت کے منصب پر فائز کرنا بھی ظلم و ستم تھا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو گا:

     الف: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا حق مسلّم تھا اور انہیں خلافت سے الگ کرنا ظلم و ستم ہے۔

     ب: معاویہ میں خلافت کی لیاقت و صلاحیت نہیں تھی اوراسے خلیفہ بنانا بھی ظلم وستم تھا۔

     پس رسول خدا(ص) کے فرمان کی بناء پر آنحضرت کے خلیفہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں اور معاویہ امیر کائنات علی علیہ السلام کے حق کا غاصب ہے ۔ حکمیّت کے واقعہ میں آنحضرت پر ظلم وستم ہوا اور آپ مظلوم واقع ہوئے۔

     ۴۔رسول خدا(ص) کا فرمان قرآن اور وحی الٰہی کے مطابق تھا جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

    (وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْهَوَی * إنْ هُوَ إلاّ وَحْی یُوحَی ) (۱)

--------------

[۱]۔ سورۂ نجم، آیت:۳،۴

۳۰۵

     ''اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے  اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ''۔

     اس بناء  پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکمیّت (جن کو رسول خدا(ص) نے ردّ کیا) قرآن کی بنیاد پر نہیں تھی اور دونوں افراد نے اپنے ذاتی مفاد کی بناء پر حکم کیا تھا نہ کہ انہوں نے آیات قرآن اور وحی الٰہی سے استفادہ کیا۔

     قرآن کی کون سی آیات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے اور معاویہ کو مقام خلافت پر بٹھانے پر دالت کرتی ہیں؟!

     ۵۔ حکمیّت کا مسئلہ قرآن کی پیروی کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ جنگ کو ختم کرنے،معاویہ اور  عمرو عاص کو یقینی شکست سے بچنے کے لئے تھا۔

     ۶۔ اگر شکست سے بھاگنے کے لئے حکمیّت کے مسئلہ کو مطرح نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے قرآن کے حکم کی پیروی کی وجہ سے  مطرح کیا گیا تھا تو انہوں نے جنگ سے پہلے اس حکم کو کیوں قبول نہیں کیا کہ جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام  انہیں حکم الٰہی کو قبول کرنے اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دے رہے تھے؟!

     ۷۔ حکمیّت کے مسئلہ میں قرآن سے استدلال نہیں کیا گیا اور اپنے حکم کے لئے کسی بھی آیت کو عنوان قرار نہیں دیا گیاپس پھر کچھ مسلمان کس طرح معاویہ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ مانتے ہیں؟!

     ۸۔ صرف یہی نہیں کہ حکمیّت کے مسئلہ کی بنیاد قرآن پر نہیں تھی بلکہ معاویہ کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے اور معاویہ کی آنحضرت سے مخالفت اصل میں قرآن کی مخالفت ہے۔کیونکہ   عثمان کی موت سے معاویہ کو شام پر نہ ہی تو کوئی قانونی اختیار تھا اور نہ ہی اس کے پاس خلافت کاکوئی

     جواز تھا۔ پس جب اس کے پاس خلافت نہیں تھی تو وہ کس طرح عثمان کے خون کا ولی ہو سکتا ہے؟!

     ۹۔ اس کے علاوہ عثمان کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے معاویہ عثمان کے خون کا ولی بھی نہیں تھا تو پھر کس طرح معاویہ خود کو عثمان کے خون کا ولی کہہ رہا تھا؟ اس بناء پر معاویہ کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا اور آپ کی مخالفت کرنا درحقیقت قرآن کی مخالفت تھی۔

۳۰۶

     ۱۰۔ دوسرا اہم نکتہ: جس طرح حدیبیہ کے صلح نامہ سے لفظ ''رسول اللہ'' کو مٹا دینا خلاف واقع اور حکم خدا کے برخلاف تھا اسی طرح حکمیّت کے مسئلہ میں لفظ''  امیرالمؤمنین'' کو مٹا دینا بھی خلاف واقع اور خوشنودی پروردگار کے بر خلاف ہے۔     اس بناء پر جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ''رسول اللہ'' تھے اور یہ لفظ آن حضرت کے اسم مبارک کے ساتھ ہونا چاہئے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ''  امیرالمؤمنین''بھی ہونا چاہئے،اور جس طرح لفظ ''رسول اللہ''کو مٹا دینا پیغمبر خدا(ص) پر ظلم تھا اسی طرح لفظ ''  امیرالمؤمنین''کو مٹا دینا  مولائے کائنات علی علیہ السلام پر ظلم ہے۔

     ۱۱۔ ایک اور اہم نکتہ: کلمہ''امیرالمؤمنین'' کو مٹا دیناحضرت علی علیہ السلام  پر ظلم ہے کیونکہ آنحضرت سب مؤمنوں کے امیر ہیں۔اس بناء پر معاویہ کے دعویٰ کا کوئی جواز باقی نہیں بچتاکیونکہ وہ نہ ہی تو مؤمنوں کاامیر ہے اور نہ ہی رسول(ص) کا خلیفہ ہے۔

     ۱۲۔ دوسرا اہم نکتہ: چونکہ معاویہ کے پاس مؤمنوں کی سربراہی و خلافت کا مقام نہیں تھا۔ایسے مقام کا دعویٰ کرنے والا انسان گمراہا ور گمراہ کرنے والا ہوتا ہے اور اس کے پیروکار اور تابعین بھی سب کے سب گمرا ہ ہوتے ہیں۔

     ۱۳۔ ایک اور اہم نکتہ:رسول خدا(ص) کی تیسری پیشنگوئی کے مطابق معاویہ نہ صرف یہ کہ گمراہ شخص ہے بلکہ اسے برسرحکومت لانے والے دونوں منصف بھی گمراہ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے بھی گمراہ ہیں۔     قابل توجہ یہ ہے ابوموسی اشعری نے خود یہ روایت رسول خدا(ص) سے سنی اور روایت کی ہے۔     حکمیّت کے واقعہ کے رونما ہونے اور اس کے بطلان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں میں بہت زیادہ اہم نکات موجود ہیں جو سب کے لئے بخوبی یہ واضح کردیتے ہیں کہ معاویہ کو تخت خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس نے پہلے سے تیارشدہ پروگرام ،اپنی مکاریوں اور عمرو عاص کی فریب کاریوں کی مدد سے بے شمار مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کیا ہے۔  حکمیّت کے موضوع کے علاوہ رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئیوںسے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ کا کردار و رفتار رسول خدا(ص) کے ارشادات و فرمودات کے برخلاف تھا۔

۳۰۷

  رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

     محمد بن مہران نے محمد بن علی بن خلف سے  ، انہوں نے محمد بن کثیر سے، انہوںنے اسماعیل بن زیاد بزّار سے نہوں نے ابی ادریس سے اور انہوں نے رافع (عائشہ کا آزاد کیا ہوا) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

جب میں کمسن تھا  اور اس کی خدمت میرے ذمہ تھی اور عام طورپر جب پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں ہوتے تو میں وہاں قریب ہی رہتا۔ایک دن پیغمبر اکرم(ص) عائشہ کے گھر میں تھے،کوئی آیا اور اس نے دستک دی۔ میں گیا، دیکھا تو ایک کنیز تھی کہ جس کے پاس ایک برتن تھا کہ جو اوپر سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں عائشہ کے پاس آیا اور اسے اس بارے میں بتایا۔اس نے کہا: اسے گھر میں لے آؤ۔وہ کنیز آئی اور اس نے وہ برتن عائشہ کے پاس رکھ دیا ، عائشہ نے وہ برتن پیغمبر (ص) کے پاس رکھ دیا اور آپ نے کھانا شروع کیا اور فرمایا:

     اے کاش! امیرالمؤمنین، سالار اوصیاء ،پیشوا اور امام المتقین بھی میرے ساتھ ہوتے اور اس غذا سے تناول کرتے۔

     عائشہ نے پوچھا: وہ کون ہیں؟

     اسی موقع پر پھر سے دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں گیا اور دیکھا کہ  امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں ۔ میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: علی علیہ السلام گھر کے دروازے پر ہیں۔

     فرمایا: انہیں اندرلے آؤ۔جیسے ہی  علی علیہ السلام داخل ہوئے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

     کیا بہتر؛میں نے آپ کے آنے کی آرزو کی تھی اور اگر آپ دیر سے آتے تو میں خدا سے دعا کرتا کہ آپ کو میرے پاس بھیج دے۔بیٹھو اور میرے ساتھ یہ غذا تناول فرماؤ۔

     جب   امیر المؤمنین علی علیہ السلام بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:

     خداوند انہیں  ہلاک کر کہ جوآپ سے جنگ کرے ،خداوند اس سے دشمنی رکھتا ہے کہ آپ سے دشمنی کرے۔

     عائشہ نے کہا:ان کے ساتھ کون جنگ کرے گا اور کون ان سے دشمنی رکھے گا؟

۳۰۸

     فرمایا: تو اور تیرے ساتھی۔     یہ حدیث بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے عائشہ کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے اور حلانکہ وہ جانتی  تھی کہ امام المتقین کون ہیں، لیکن پھر بھی اس نے پوچھا کہ جواس کے انکار کی حکایت کرتا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نفرین بھی حکایت کرتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ عائشہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرے گی ۔ لہذا رسول خدا(ص)   امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتے تھے اور امت کے افکارسے ہر قسم کے شبہات کو دور کرنا چاہتے تھے کہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام حق و صراط مستقیم پر ہیں اور آپ کا دشمن اپنی دشمنی میں باطل پر ہے۔(۲)(۱) پیغمبر اکرم(ص) نے یہ روایت مطلق ارشاد فرمائی ہے اس بناء پر اس میں معاویہ اور دوسرے بھی شامل ہیں۔

مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

کتاب ''المناقب والمثالب''میں لکھتے ہیں:جب مروان پیدا ہوا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لے کر گئے تا کہ اس طالو اتار دیں؛جس طرح مسلمان بچوں کے ساتھ یہ رسم  انجام دی جاتی ہے۔  پیغمبر اکرم(ص) نے اس کے لئے یہ کام انجام نہ دیا اور اسے اپنی خیر سے محروم کردیا اور فرمایا:أتون بأزرقهم (۳)   سب سے زیادہ نیلی آنکھوں والے کو میرے پاس لائے ہیں۔(۴)

     کتاب ''الفتن'' میں مروزی نے پیغمبر اکرم(ص) کے قول سے یہ جملہ نقل کیاہے:

    ابن الزرقاء هلاک عامّة اُمّتی علی یدیه و ید ذرّیّته ۔(۵)

     میری عام امت ابن زرقاء اور اس کی ذرّیّت کے ہاتھوں ہلاک ہو گی۔

--------------

[۱] ۔ یہ روایت کشف الیقین:۱۳ اور ۱۴ ،بحار الأنوار(جدید چاپ): ۳۵۱۳۸  میں آئی  ہے۔ اسی طرح بحار الانوار: ج ۳۸ ص۳۶۰ -۳۴۸  کی طرف رجوع فرمائیں۔

[۲]۔ نبرد جمل:۲۵۴

[۳]۔ المناقب و المثالب:۲۹۶

[۴]۔''فرہنگ جامع''میں  لکھا ہے:''ازرق''خبیث اور بدجنس دشمن کے لیے کنایہ ہے۔

[۵]۔ الفتن مروزی:۷۲

۳۰۹

  مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

     جمل کے واقعہ کے بعد مروان معاویہ سے مل گیا اور اپنی پیدائشی خباثت و نجاست اور اپنے گندے عقیدے کی وجہ سے وہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دشمنی میں کوشاں کرتا رہا اور آنحضرت کی وفات کے بعد اسے دو مرتبہ مدینہ کی حکومت ملی۔

 ابن اثیر نے کہا ہے: یہ ہر جمعہ کے دن منبر رسول خدا(ص) پر جاتا اور مہاجرین و انصار کی موجود میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام بہت زیادہ سبّ و شتم کرتا۔جب یزید بن معاویہ کو حکومت ملی تو مروان مدینہ میں تھا اور اس نے واقعۂ حرّہ میں مدینہ والوں کو قتل کرنے کے لئے مسلم بن عقبہ کو ورغلایا اور معاویہ بن یزید کی خلافت کے زمانے میں وہ شام میں تھا اور جب معاویہ مر گیا اور آل ابی سفیان کی حکومت ختم ہو   گئی اور لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت کر لی تو مروان نے ابن زبیر کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا، ااس نے مکہ کی طرف جانا چاہا تو بعض نے اسے منع کیا اور اس خلافت کا لالچ دلایا۔مروان جاثیہ کی طرف چلا گیا کہ جو شام اور اردن کے درمیان ہے۔عمرو بن سعید بن العاص (جو أشدق کے نام سے مشہور تھا) نے مروان سے کہاکہ میں لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لیتا ہوں بشرطیکہ تمہارے بعد مجھے حکومت اور خلافت ملے ۔

     مروان نے کہا: خالد بن یزید بن معاویہ کے بعد خلافت تمہاری ہے۔اشدق نے قبول کر لیا اور لوگوں کو اس کی بیعت کی طرف بلایا۔

     سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کی بیعت کی وہ اردن کے لوگ تھے کہ جنہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار کے خوف سے بیعت کی۔پھر شام اور کچھ دوسرے شہروں  کے لوگوں  نے بیعت کی۔

     مروان نے اپنے کارندوں کو مختلف شہروں میں بھیجا اور خود مصر کی طرف روانہ ہو گیا  اور اس نے اہل مصر کا محاصرہ کر لیا اور ان کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر کی بیعت کو چھوڑ دیا اور مروان کی اطاعت میں کرلی۔

     مروان نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ان کا حاکم مقرر کیا اور خود شام واپس لوٹ آیا۔جب وہ شام میں داخل ہوا تو اس نے حسان بن مالک (جوقحطان کا  سید و سربراہ تھا) کو بلایااور اس خوف سے کہیں اس کے بعدبداعیۂ ریاست میں بغاوت و سرکشی نہ ہو جائے لہذا اس نے اسے ترغیب  دلائی کہ وہ خلافت کی طمع  کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔

۳۱۰

     جب حسان نے یہ دیکھا تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے ایک خطبہ پڑھا اور لوگوں کو مروان کے بعد عبدالملک بن مروان اور عبدالملک کے بعد عبدالعزیزمروان کی بیعت کی دعوت دی اور لوگوں نے بیعت کر لی اور مخالفت نہ کی۔

     جب مروان کی بیوی اور خالد بن یزید کی ماں فاختہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے مروان کو قتل  کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس نے اپنا وعدہ توڑا تھا جب کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بعد خلافت خالد بن یزید کی ہو گی۔پس اس نے دودھ میں زہر ملایا اور مروان کو دیا ۔جب مروان نے اسے پیا تو اس کی زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ حالت احتضار میں پہنچ گیا۔

     عبدالملک اور اس کے سب بیٹے اس کے پاس آئے اور مروان نے اپنی انگلی سے خالد کی ماں کی طرف اشارہ کیا یعنی اس نے مجھے قتل کیا ہے ،لیکن خالد کی ماں نے یہ بات چھپانے کے لئے کہا: میرا باپ تجھ پر قربان؛تم مجھے کتنا چاہتے ہو کہ مرتے وقت بھی مجھے ہی یاد کر رہے ہواور اپنے بیٹوں کو میری  بارے میں وصیت کر رہے ہو۔

     دوسرے قول کے مطابق جب مروان سو رہا تھا تو خالد کی ماں نے اس کے منہ پر تکیہ رکھ دیا اور اپنی کنیز کے ساتھ اس پر بیٹھ گئی یہاں تک کہ مروان کا دم نکل گیا۔

     یہ واقعہ۶۵ھ میں پیش آیا اور مروان کی تریسٹھ سال عمر تھی اوراس نے تقریباً نو مہینے  خلافت کی۔اس کے بیس بھائی، آٹھ بہنیں،گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

     فریقین کی کتابوں میں اس پر لعنت کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور اہلسنت کی کتابوں میں اس بارے میں ایک روایت ہے کہ عائشہ نے مروان سے کہا:

میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نے تیرے باپ پر لعنت کی جب کہ تو اس کے صلب میں تھا۔

     ''حیاة الحیوان''، ''تاریخ خمیس ''اور ''اخبار الدول'' میں مستدرک حاکم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :عبدالرحمن بن عوف نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے رسول خدا(ص) کے پاس لایا جاتا تا کہ آنحضرت اس کے لئے دعا کریں لیکن جب آنحضرت کے پاس مروان کو لایا گیا تو آپ نے اس کے حق میں فرمایا:

۳۱۱

     هو وزغ بن الوزغ الملعون بن الملعون

     یہ چھپکلی اور چھپکلی کا بیٹا ہے، یہ ملعون  اور ملعون کا بیٹا ہے۔

     حاکم نے بھی روایت کی ہے:

عن عمرو بن مرّة الجهن و کانت له صحبة: ان الحکم بن أبی العاص استأذن عن النبی (ص) فعرف صوته فقال: ائذنوا له، علیه و علی من یخرج من صلبه لعنة اللّٰه الاَّ المؤمن منهم و قلیل ماهم، یترفهون فی الدنیا و یضیعون فی الآخرة، ذومکر و خدیعة، یعطون ف الدنیا وما لهم فی الآخرة من خلاق ۔(۱)

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     واقدی نے کہاہے کہ جب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام جنگ جمل جیت گے تو قریش کے جوانوں کا ایک گروہ آیا اور انہوں نے آنحضرت سے امان طلب کی اور یہ کہ انہیں بیعت کرنے کی اجازت دی جائے اور اس بارے میں انہوں نے عبداللہ بن عباس کو شفیع قرار دیا۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان کی شفاعت قبول کی اور انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دی۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے خطاب فرمایا:

     افسوس ہے تم گروہ قریش پر!کس جرم کی بناء  پر تم نے مجھ سے جنگ کی؟کیا میں نے تمہارے درمیان عدل کے بغیر کبھی کوئی حکم کیا؟ یا کبھی ایسا ہوا کہ تم لوگوں میں کوئی مال برابر تقسیم نہیں کیا؟یا کسی کو تم لوگوں پر برتری دی؟ یا میں پیغمبر(ص) سے دور تھا؟یا میں نے اسلام کی راہ میں کم مصیبتیں بردشت کی ہیں؟

     انہوں نے کہا:اے امیر المؤمنین!ہماری مثال یوسف کے بھائیوں کی طرح ہیں ،ہمیں معاف فرمائیں اور ہمارے لئے استغفار کیجئے۔

--------------

[۱] ۔تتمّة المنتهی :۷۹

۳۱۲

     آپ نے ان میں سے ایک کی طرف دیکھ کر کہا:تم کون ہو؟

     اس نے کہا: میں مخرمہ کا بیٹا مساحق ہوں اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کا اعتراف کرتا ہوں اور   میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے تم لوگوں سے درگذر کی اور تم سب کو معاف کر دیا اور خدا کی قسم!اگرچہ تم لوگوں میں وہ شخص بھی موجودہے کہ اگر چہ وہ ہمارے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کربیعت تو کرے گا لیکن پشت دکھا دے گا۔

     مروان بن حکم جس نے ایک شخص کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی،وہ آگے آیا۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے پوچھا:تمہیں کیا ہوا ہے کیا تم زخمی ہو؟

     کہا:جی ہاں!اے امیر المؤمنین !اور مجھے اپنی موت بھی اسی زخم میں دیکھائی دے رہی ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا:

     نہیں؛ خدا کی قسم! اس زخم کا تم پر کوئی خوف نہ ہو اور جلد ہی یہ امت تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے خون آلود دن دیکھے گی۔

     مروان نے بیعت کی اور واپس لوٹ گیا۔

پھر عبدالرحمن بن حارث بن ہشام آگے آیا اور جب اس پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی  نگاہ پڑی توآپ نے فرمایا:

     خدا کی قسم!اگرچہ تم اور تمہارا خاندان اہل صلح تھا  اگرچہ تم لوگ توانگر ہولیکن پھر بھی تم لوگوں سے  درگذر کرتا ہوں اور یہ میرے لئے بہت پریشانی کا باعث ہے کہ میں  نے تمہیں اس قوم کے ساتھ دیکھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ یہ اتفاق نہ ہوتا۔ عبدالرحمن نے کہا: وہ ہو گیا کہ جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ اس نے بھی بیعت کی اور واپس چلا گیا۔(۱)

--------------

[۱]۔ نبرد جمل:۲۴۸

۳۱۳

مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

     ابو مخنف نے عدی سے، انہوںنے ابی ہشام سے، انہوں نے بریدسے، انہوں نے عبداللہ بن مخارق سے اور انہوں نے ہاشم بن مساحق قرشی سے نقل کیا ہے کہ انہوںنے کہا ہے: میرا باپ کہتا تھا: جب جنگ جمل سے لوگ بھاگ گئے تو قریش کا ایک گروہ کہ ( جن میں مروان بن حکم بھی شامل تھا) اس کے پاس آیا اور ان میں سے بعض نے دوسروں سے کہا: خدا کی قسم! ہم نے اس شخص (یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام) پر ظلم کیا ہے اور بغیر کسی وجہ کے ان کی بیعت کو توڑا  ہے ۔اور خدا کی قسم!جب یہ ہم پر کامیاب ہو گئے تو ہم نے رسول خدا(ص) کے بعد ان سے زیادہ کوئی کریم اور بخشنے والا نہیں دیکھا۔اب آؤ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان سے معافی مانگتے ہیں۔     کہتے ہیں: ہم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر گئے اور اجازت طلب کی۔ آنحضرت نے اجازت دی اور جب ہم آپ کے سامنے پہنچے تو ہم میں سے ایک شخص نیکلام کرناچاہا ۔ لیکن آپ نے فرمایا:جب تک میں بات نہ کر لوں آرام سے اور خاموش رہو۔ بیشک میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ،اگر میں حق کہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگرغلط بیانی سے کام لوں تو میری بات کو ردّ کرنا۔اب میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں!کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب رسول خدا(ص) کی رحلت فرما گئیتو میں آنحضرت کے سب سے زیادہ قریبی تھا اور لوگوں پر حکومت کے لئے سب سے زیادہ حق دار تھا؟     انہوں نے کہا:جی ہاں! ہم جانتے ہیں۔

     آپ نے فرمایا:لیکن پھر بھی تم لوگوں نے مجھ سیمنہ موڑ لیا اور ابوبکر کی بیعت کر لی،میں نے برداشت کیا اور میں نہیں چاہا تھا کہ مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا ہو۔ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو حکومت دے دی۔میں نے پھر بھی گریز کیا اور لوگوں میں کوئی تحریک پیدا نہ کی حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کام کے لئے میں ہی سب سے زیادہ شائستہ ہوں اور رسول خدا(ص) کی جانشینی کے لئے میں ہی سب  سے زیادہ اہل ہوں۔لیکن میں نے صبر و تحملکا دامن نہ چھوڑایہاں تک کہ وہ قتل ہو گیا اور اس (عمر)نے مجھے شوریٰ کا چھٹا شخص قرار دیا۔میں نے پھر بھی خلافت سے ہاتھ اٹھا لیاکیونکہ میں مسلمانوں میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتا تھااور تم

۳۱۴

لوگوں نے عثمان کی بیعت کر لی اور تم نے خود ہی اس کے خلاف بغاوت کرکے اسے قتل کر دیا تھا۔میں تو اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا ،تم لوگ خود میرے پاس آئے اور میری بیعت کی کہ جس طرح تم لوگوں نے ابوبکر اور عمر کی بیعت کی تھی ۔تم لوگوں نے ان دونوں سے تو وفاداری کی لیکن تم نے مجھ سے اپنے عہد کی وفا نہ کی ۔کس چیز کی وجہ سے تم لوگوں نے ان دونوں کی بیعت تو نہ توڑی لیکن میری بیعت توڑ دی؟

     ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام!آپ خدا کے صالح بندے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بنیں کہ جو فرماتےتھے:      آج تمہارے لئے کوئی ملامت نہیںہے ۔خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے .(۱)

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: آج تم لوگوں کے لئے کوئی سرزنش نہیں ہے اگرچہ تم لوگوں میں ایسا شخص بھی موجود  ہے کہ اگر وہ اپنے ہاتھ سے میری بیعت کرے تو مجھے پشت دکھا دے گا۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مراد مروان بن حکم تھا۔(۲)

مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

     کتاب ''الأستعاب'' کے مؤلف کہتے ہیں: امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مروان کو دیکھا تو اس سے فرمایا: وای ہواور افسوس !تم سے اور تمہارے بیٹوں سے امت محمد(ص)پر!؛ جب تمہارے شقیقہ کے بال سفید ہو جائیں گے۔

     مروان''خیط باطل''کے نام سے مشہور تھا۔اور اسے یہ ا س وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ لمبے قد کا اور کانپتاتھا۔عثمان کے گھر میں ہونے والی جنگ میں مروان کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا۔

     جب مروان کو حکومت ملی تو اس کے بھائی عبدالرحمن بن حکم (جو شوخ شاعراور مسخراباز اوروہ اچھے شعر کہتا تھا مروان کا ہم عقیدہ نہیں تھا) نے یوں شعر کہا:

--------------

[۱]۔ سورۂ یوسف،آیت:۹۲

[۲]۔ نبرد جمل:۲۴۹

۳۱۵

     ''خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں کہ اس شخص کی بیوی سے پوچھوں کہ آخر کیا ہوا ہے کہ جسے گردن کے پچھے ضربت لگی تھی؟ خداوند اس قوم کو نابود کرے کہ جس نے لمبے قد کے کانپنے والے شخص کو لوگوں کا امیر بنا دیا اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا عطا نہیں کرتا''۔     کہا گیا ہے:عبدالرحمن نے یہ شعر اس وقت کہا کہ جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تھا۔عبدالرحمن ،مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا اور اس کی مذمت میں اس کے اوراشعار یوں ہیں:

     اے مروان؛میں نے اپنا فائدہ تجھے،عمرو، کانپنے والے دراز قامت مروان اور خالد کو بخش دیا۔

     مالک الریب نے بھی مروان کی مذمت کی ہے اور یوں شعر کہا ہے:

     ''مجھے تیری جان کی قسم!مروان ہمارے امور انجام نہیں دے گا ، بلکہ جعفر کی بیٹی ہمارے بارے میں حکم دے گی۔اے کاش؛وہی ہماری امیر ہوتی ۔اور اے کاش؛اے مروان تمہارے پاس زنانہ شرمگاہ ہوتی۔

     مروان کی مذمت میں اس کے بھائی عبدالرحمن کے دوسرے اشعار یوں ہیں:ہاں؛کون ہے کہ جو میری طرف سے میرا پیغام مروان تک پہنچائے۔     جب معاویہ کو خلافت ملی توسب سے پہلے اس نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا اور پھر مکہ اور طائف کی حکومت بھی اسی کے سپرد کردی۔پھر اسے اس حکومت سے معزول کر دیا  اورسعید بن عاص کو حاکم بنا دیا۔جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا تو اس کا بیٹے ابولیلیٰ معاویہ بن یزید کو ۶۴ھ میں  حکومت ملی ۔وہ چالیس دن تک خلیفہ رہا اور پھر مر گیا۔اس کی ماں (ام خالدبنت ابوخالد بنت ابوہاشم بن عتیبہ بن ربیعة بن عبد شمس تھی)نے اس سے کہا:اپنے بعد خلافت اپنے بھائی کو دی دو۔

     معاویہ بن یزید نے قبول نہ کیا اور کہا:یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی باتوں کی تلخی میرے ذمہ ہو اور مٹھاس تمہارے لئے ہو۔   اس وقت مروان نے خلافت کے لئے قیام کیا اوریہ شعر کہا:

     میں ایسا فتنہ دیکھ رہا ہوںکہ جس کی دیگ ابل رہی ہے اور ابولیلیٰ کے بعد بادشاہی اسی کی ہے کہ جو غلبہ پا جائے گا اور جیت جائے گا۔(۱)

--------------

[۱] ۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۳ ص۲۶۶

۳۱۶

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

     کتاب''نہایة الأرب''میں آیا ہے: مروان نے رسول خدا(ص) کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ابھی تک ناسمجھ بچہ تھا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ طائف چلا گیا اور پھر عثمان کی حکومت کے دوران مدینہ واپس آیا تھا۔

     جب اس کا باپ مر گیا تو عثمان نے اسے اپنے کاتب کے طور پر رکھ لیا۔مروان عثمان کے افکار و رفتار پراس طرح حاوی ہوگیا تھا کہ لوگوں کے قیام و بغاوت اور عثمان کے قتل کا اصل سبب  وہی تھا۔

     ابن عبدالبر نے کتاب''الاستیعاب''(۱) میں نقل کیا ہے: ایک دن حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام مروان کے پاس گئے اور فرمایا:

     اے وای ہو تجھ پر! تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے امت محمد پر وای ہو،وای ہو!اس وقت کہ جب تجھے طاقت ملے گی۔

     مروان کو ''خیط باطل''کہتے تھے۔عثمان کے گھر جنگ کے دن اس کی گردن کے پیچھے ایسی ضربت لگی تھی کہ منہ کے بل زمین پرگر پڑا۔

     اس کا بھائی عبدالرحمن بن حکم اس کا ہم عقیدہ نہیں تھا اور وہ شوخ طبیعت کا شاعر تھا جس نے اس کے بارے میں یوں کہا:

     خدا کی قسم! میں نہیں جانتا اورجس شخص کوپس پشتس ضربت ماری گئی میں اس کی بیوی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہے،خداوند اس قوم کو رسوا کرے کہ جس نے اس بوسیدہ رسی کو حاکم بنا دیا ہے اور وہ لوگوں کا امیر بن گیا ہے وہ جسے چاہتا ہیعطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے۔    نقل کیا گیا ہے:جب معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم بنایا تو اس کے بھائی نے یہ شعر کہا تھا اور وہ مروان کی بہت زیادہ مذمت کرتا تھا۔(۲)

--------------

[۱]۔ الاستیعاب: ۱۳۸۸

[۲]۔ نہایة الأرب: ج۶ص۶۹

۳۱۷

  عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     معاویہ نے عمرو بن سعید بن عاص کو مکہ کا حاکم بنایا کہ جو تکبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا اور یہ وہی ظالم و جابر ہے کہ رسول خدا(ص) کے منبر پر جس کے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔

     ابن قتیبہ اور اس کے علاوہ دوسروں  نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں نے پیغمبر خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

     میرے منبر پر بنی امیہ کے  ظالموں اورجابروں میں سے ایک کے ناک سے خون جاری ہو گا اور  منبر پراس کا خون گرے گا۔ابوعبیدہ نے کتاب ''مثالب'' میں اور ابوجعفر نے تاریخ میں روایت کی ہے کہ عمرو بن سعید بن عاص جب مدینہ کا حاکم بنا تو اسے عبید اللہ بن زیاد کا خط ملا جس میں اس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی! اس نے منبر پر سے لوگوں کے لئے خط پڑھا اور کہا:

     اے محمد!یہ عمل بدر میں تمہارے عمل کے بدلہ میں انجام پایا ہے!اس وقت انصار کے ایک گروہ نے اس کی بات کو ردّ کیا۔(۱)

  جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     ابراہیم بن دیزیل نے کتاب''صفین'' میں اعمش کے قول سے اور اس نے زید بن وہب سے نقل کیاہے:جب علی علیہ السلام نے خوراج کے پاؤں نیزوں کے ذریعہ اکھاڑ دیئے تو فرمایا: ذوالثدیہ کا جسم تلاش کرو اور انہوں نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ، وہ انہیں ایک نچلی اور ناہموار زمین پر دوسرے مردوں کے نیچے ملا۔اسے حضرت علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا اور اس کے سینہ پر بلی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے ۔ آنحضرت نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی خوشی سے آپ کے ساتھ مل کر تکبیر کہی۔

--------------

[۱]۔ معاویہ و تاریخ:۱۰۱

۳۱۸

     اسی طرح انہوں نے مسلم ضبی سے اور نہوں  نے حبّة عرنی سے نقل کیاہے کہ انہوں  نے کہا:

     ذوالثدیہ ایک سیاہ اور بدبوناک شخص تھا ۔اس کے ہاتھ عورتوں کے پستان کی طرح تھے ۔جب اسے کھینچتے تھے تو بلندی کی وجہ سے اس کے دوسرے ہاتھ تک پہنچ جاتے تھے اور جب اسے چھوڑتے تھے تو اکٹھے ہو کر عورت کے پستان کی طرح بن جاتے تھے۔اس پر بلّی کی مونچھوں کی طرح بال نکلے ہوئے تھے۔جب اس کا جسم ملا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھااور اور اس کے ہاتھ کو نیزہ پر بلند کیا گیا۔علی علیہ السلام نے بلند آواز سے کہا:

     خدا نے سچ کہا ہے اور اس کے رسول (ص) نے صحیح ابلاغ کیا ہے۔

     عصر کے بعد تک آپ اور آپ کے ساتھی یہی کلمہ کہہ رہے تھے کہ جب تک سورج غروب ہو گیا یا غروب  ہونے کے نزدیک تھا۔

     ابن دیزیل نے بھی اسی طرح روایت کی ہے کہ جب ذوالثدیہ کے جسم کو تلاش کرنے میں علی علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو فرمایا:رسول خدا(ص) کی سواری لے آؤ۔

     سواری لائی گئی اور آپ اس پر سوار ہوئے لوگ آپ کے پیچھے چل پڑے۔آپ مقتولین کو دیکھ رہے تھے اور فرماتے تھے:منہ کے بل پڑے ہوئے مقتولین کو سیدھا کرو اور آپ ایک ایک کر کے مقتولین کا جائزہ لے رہے تھے یہاں تک کہ اس کا جسم ملا تو علی علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لائے۔

     بہت سے گروہ نے روایت کی ہے کہ جب علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کی سواری طلب کی تا کہ اس پر سوار ہوں تو فرمایا: یہ سواری لاؤ تا کہ یہ رہنما ہو اور آخر کا وہ سواری منہ کے بل پڑے ایک جنازے کے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر ذوالثدیہ کے جسم کو مردوں کے نیچے سے باہر نکال لیا گیا۔

     عوام بن حوشب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا یزید بن رویم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے دن فرمایا:

۳۱۹

     آج ہم ہزار چار ہزارخوارج کو قتل کریں گے کہ جن میں سے ایک ذوالثدیہ ہو گا۔

     جب خوارج یہ جنگ ہار گئے تو علی علیہ السلام نے اس کے جسم کو تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔میں بھی آنحضرت کے پیچھے چل پڑا اور علی علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے چار ہزار تیر تراشے جائیں۔پھر وہ رسول خدا(ص) کی سواری پر سوار ہوئے اور مجھ سے فرمایا:مقتولین میں سے ہر ایک پر ایک تیر رکھو۔

     میں اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ میرے پیچھے آ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔میں ہر مقتول پر ایک تیر رکھتا تھا یہاں تک کہ میرے پاس ایک تیر ہی باقی بچا ۔میں نے آنحضرت کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے آپ کا چہرہ افسردہ و اداس ہو۔

     آپ نے فرمایا:خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا۔

اچانک میں نے ایک نچلی جگہ سے پانی بہنے کی آواز سنی ۔

     فرمایا:یہاں تلاش کرو۔

     میں نے جستجو کی تو دیکھا کہ ایک مقتول پانی میں گرا پڑا ہے۔میں نے اس کا ایک پاؤں پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ یہ کسی انسان کا پاؤں ہے۔حضرت علی علیہ السلام بھی جلدی سے اپنی سواری سے نیچے اترے اور دوسرے پاؤں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور مل کر اسے باہر نکالا اور جب اسے زمین پر رکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ذوالثدیہ کا پاؤں ہے۔

     حضرت علی علیہ السلام نے بہت بلند آوز سے تکبیر کہی اور پھر سجدۂ شکر بجا لائے اورپھر سب لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔

     بہت سے محدثین نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا:

     بیشک تم میں سے ایک قرآن کی تأویل کے لئے جنگ کرے گا کہ جس طرح میں تنزیل قرآن کے لئے جنگ کی۔

     ابوبکر نے کہا:اے رسول خدا(ص) ؛کیا وہ شخص میں ہوں۔

     فرمایا:نہیں۔

۳۲۰

     عمر نے کہا: کیا میں وہ شخص ہوں؟     آنحضرت نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ہے کہ جو اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا ہے۔

     پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔(2)(1)

     یہ روایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے جنگوں کے حق پر ہونے اور آنحضرت سے جنگ کرنے والوں کی گمراہی کی تائید کرتی ہے۔ چاہے وہ ناکثین ہوں، قاسطین ہوں یا پھرمارقین ہوں۔

 محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     جن ایام میں رسول خدا(ص) مدینہ میں تھے تو ابوبکر کو کسی ایک جنگ میں بھیجا گیا۔اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب دیکھا کہ جیسے ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو مہندی لگائی ہو اور سفید کپڑے پہنے ہوں۔ وہ عائشہ کے پاس آئی اور اس نے اپنا خواب بیان کیا۔     عائشہ نے کہا:اگر تمہارا خواب سچا ہو تو ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔وہ خضاب اس کا خون اور سفید کپڑے اس کا کفن ہے۔اس نے رونا شروع کر دیا اور جب عائشہ رو رہی تھی تو پیغمبر اکرم(ص) تشریف لائے اور اس سے پوچھا:تم کس لئے رو رہی ہو؟     انہوں نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛اسے کسی نے نہیں رلایا ہے ۔اسماء نے ابوبکر کے بارے میں جو خواب دیکھا ہے کہ جس کی وجہ سے عائشہ رو رہی ہے۔جب آنحضرت سے وہ خواب بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

     جس طرح عائشہ نے تعبیر کی ہے ویسے نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم واپس آ جائے گا۔اسماء کو دیکھ رہے ہو۔اسماء حاملہ ہو گی اور وہ ایک بیٹے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمدرکھا جائے گااور خدا وند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔(3)

--------------

[1] ۔ اس حدیث اور اس میں ذکر ہونے والے منابع کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے کتاب "فضائل الخمسة من الصحاح الستّة'':ج۲ص۳۵۴-349 تیسری چاپ بیروت 1373 ہجری  قمری کی طرف رجوع فرمائیں۔

[2]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ص۳۸۹

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۲۲۷

۳۲۱

یہ واقعہ کتاب''الغارات''میں کچھ فرق کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

     ابواسحاق کہتے ہیں:جب محمد کی ماں  اسماء بن عمیس کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی اور اس کے ساتھ جو کچھ بیتا،وہ اس سے آگاہ ہوئی تو انہوں نے اپنے حزن کو ظاہر نہ ہونے دیا جب کہ دل میں وہ غمگین تھی۔جب وہ مسجد کی طرف جا رہی تھی تو اس کے سینہ سے خون جاری ہو گیا۔

     ابواسماعیل کثیر النواء کہتے ہیں:ابوبکر کسی جنگ میں شرکت کے لئے مدینہ سے باہر گیا تو اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب میں دیکھا کہ ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو خضاب لگایا ہے اور سفید لباس پہنا ہے۔وہ عائشہ کے پاس آئیں اور اس سے اپنا خواب بیان کیا ۔عائشہ نے کہا کہ اگر تمہارا خواب سچ ہے تو گویا ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔خضاب خون کی علامت ہے اور اس کا سفید لباس اس کے کفن کی علامت ہے۔عائشہ روتی ہوئی رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئی۔رسول اکرم(ص) نے پوچھا:تم کیوں رو رہی ہو؟     اس نے اسماء کاخواب بیان کیا۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:عائشہ نے جو تعبیر کی ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم  اسماء کے پاس واپس آ جائے گا۔اس کے بعد اسماء ایک بچے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمد رکھا جائے گا،خداوند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔

     یہ جوان وہی محمد بن ابی بکر ہیں کہ جو اس دن شہید ہوئے۔(1)

     جیسا کہ رسول خدا نے خبر دی تھی محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں آپ کے باوفا ساتھیوں اور آنحضرت کے دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا تھے۔جنگ جمل و صفین میں آپ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے اور آپ اپنی زندگی کے آخری دن تک آنحضرت کی خدمت میں رہے۔

     محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرف سے مصر کے حاکم تھے اور بالآخر معاویہ بن حدیج کے ہاتھوں شہید ہو گئے کہ جسے معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص نے محمد بن ابی بکر کو گرفتار کرنے کے لئے مأمور کیا تھا۔

--------------

[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن:150

۳۲۲

     معاویہ بن حدیج شریر اور بے رحم شخص تھا۔اس نے محمد بن ابی بکر کو مصر میں گرفتار کرنے کے بعد پہلے ان کی گردن جدا کی اور پھر ان کا جسم گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دیا۔

     جب محمد کی بہن عائشہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بے تاب ہوئی اس کے بعد وہ ہمیشہ ہر نماز کی تعقیبات میں قنوت پڑھتی تھی کہ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عمروبن عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھے۔

     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو کوفہ میں محمد بن ابی بکر کی شہادت  کی خبر ہوئی تو آپ بہت غمگین ہوئے اور فرمایا:

     بیشک مکہ کو تباہ کرنے والو اور ظلم و ستم کو دوست رکھنے والو اور لوگوں کو خدا کی راہ سے دور رکھنے والو اور اسلام کو کجی کی طرف لے جانے والو ۔آگاہ ہو جاؤ کہ محمد بن ابی بکر شہید ہو گئے ہیں ،ان پر خدا کی رحمت ہو،انہیں خدا کے نزدیک بغیر حساب لایا جائے گا۔

     مدائنی کہتے ہیں: علی علیہ السلام سے کہا گیا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام !آپ محمد بن ابی بکر کی  شہادت پر بہت بے چین ہوئے؟

     فرمایا: اس میں کیا حرج ہے ، وہ میرے ہاتھوں کا پروردہ اور تربیت یافتہ تھا اور وہ میرے بیٹوں کے لئے بھائی اور میں اس کا باپ ہوں اور وہ میرے بیٹے کی طرح ہے۔(1)

سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     شریک روایت کرتے ہیں:عبداللہ بن سعد نے حجر بن عدی سے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :میں مدینہ میں آیا اور میں ابوہریرہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔  اس نے پوچھا:کہاں کے رہنے والے ہو؟

     میں نے کہا:میں بصرہ کا رہنے والا ہوں۔

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ:351

۳۲۳

     اس نے پوچھا:سمرة بن جندب کا کیا حال ہے؟میں نے کہا:وہ زندہ ہے۔

     اس نے کہا:کسی اور کی لمبی عمر میرے لئے اس کی لمبی عمر سے زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔

     میں نے کہا:اس کی کیا وجہ ہے؟کہا:پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے ،اسے اور حذیفہ بن الیمان سے فرمایا تھا:جو کوئی بھی تم میں سے دو کے بعد مرے وہ دوزخ میں ہے۔     حذیفہ مجھ سے پہلے چلے گئے اور اب میری یہ خواہش ہے کہ میں سمرة سے پہلے مر جاؤں۔     کہتے ہیں: سمرة حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت تک زندہ تھا۔

     احمد بن بشیر ، مسعربن کدام سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:امام حسین علیہ السلام کے کوفہ کی طرف روانگی کے وقت سمرة بن جندب عبداللہ بن زیاد کا سپہ سالار تھا اور وہ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے اور قیام کے لئے  ابھارتاتھا۔(1)

کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     حسن بن محبوب نے ثابت ثمالی اور انہوں  نے سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے:  ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے۔ایک شخص منبر کے پاس سے اٹھا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین !میں وادی القری سے گذر رہا تھا تو میں متوجہ ہوا کہ خالد بن غرفطہ مر گیا ہے۔اس کے لئے مغفرت طلب کریں۔     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:  خدا کی قسم!وہ نہیں مرا اور تب تک نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ گمراہ لشکر کی قیادت کرے گا جو اس کے علم کو کندھوں پر اٹھائے گا۔وہ حبیب بن حمار(2) ہیں ۔

--------------

[1] ۔ سمرة کی موت کے سال میں اختلاف ہے اور اس کے بارے میں 58،59 اور 60 ہجری لکھا گیا ہے۔ابن عبدالبر نے کتاب الاستیعاب: ج 2ص76 میں الاصابہ کے حاشیہ میں لکھا ہے: وہ ابلتے پانی کے برتن میں گر کر جل گیا اور ابوہریرہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے جو بات فرمائی تھی (کہ تم تینوں میں سے جو آخر میں مرے وہ آگ میں ہے) وہ  بات صحیح  ثابت ہوئی۔

[2] ۔ حالانکہ تہران کی قدیم چاپ میں بھی اس شخص کا نام یہی نام ہے لیکن ظاہراً اس کا صحیح نام جماز ہے کہ جو شیخ مفید کی کتاب ''اختصاص'' اور صفّار کی کتاب ''بصائر الدرجات'' میں آیا ہے: بحار الأنوار:ج 41ص289

۳۲۴

     اسی وقت ایک دوسرا شخص منبر کے قریب سے کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام ؛!میں حبیب بن حمار ہوں۔آپ کا شیعہ اور محب ہوں۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:تم حبیب بن حمار ہو؟

     کہا:جی ہاں۔

     علی علیہ السلام نے دوبارہ پوچھا:تمہیں خدا کی قسم!کیا تم ہی حبیب بن حمار ہو؟

     اس نے کہا: خدا کی قسم!جی ہاں۔

     فرمایا: خدا کی قسم؛تم وہ علم کندھوں پر اٹھاؤ گے اور اس علم کے ساتھ مسجد کے اس دروازے سے داخل ہو گے۔اور آپ نے مسجد کوفہ کے باب الفیل کی طرف اشارہ کیا۔ثابت نے کہا:خدا کی قسم ؛میں تب تک نہیں مرا کہ جب تک میں نے ابن زیاد کو دیکھا کہ اس نے عمرو بن سعد کو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے بھیجا۔اس نے خالد بن عرفطہ کو اپنے لشکر کا سالاربنایا اور حبیب بن حمار نے اس کا رایت اپنے کندھوں پر اٹھایا اور باب الفیل سے مسجد میں داخل ہوا۔(1)

کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے منبر پر خطبہ دیااور اس کے ضمن میں فرمایا:

     ''مجھ سے پوچھو؛ اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو.....''

     تمیم بن اسامة بن زہیر بن درید تمیمی نے آپ پر اعتراض کیا اور آپ کی بات کو کاٹ کر پوچھا:

      میرے سر پر کتنے بال ہیں؟

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

--------------

[1] ۔ یہ موضوع امالی شیخ صدوق میں  آیاہے کہ جو اس میں سہو سے خالی نہیں ہے، شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں تمیم اور حصین کا نام ذکر کئے بغیر اسے ذکر کیا ہے ۔ مفید ی پیروی کرتے ہوئے طبرسی نے بھی اعلام الوری میں کسی کا نام ذکر نہیں کیا۔:بحار الأنوار: ج44ص257

۳۲۵

     بیشک خدا کی قسم؛میں یہ جانتا ہوں اور فرض کرو کہ میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں تو تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہو گی(تم کس طرح انہیں گنوگے) اور میں تمہیں تمہارے کھڑے ہونے اور سوال پوچھنے کی وجہ سے ایک خبر دیتا ہوںکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہارے ہر بال پر ایک فرشتہ ہے کہ جو تجھ پر لعنت کر رہا ہے اورایک شیطان تمہیں ابھارتا ہے اور اس بات کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے گھر میں ایک شیر خوار بچہ ہے کہ جو رسول خدا(ص) کے بیٹے (امام حسین علیہ السلام) کو قتل کرے گا اور دوسروں کوبھی ان کے قتل کے لئے ابھارے گا۔

     اور بعینہ ویسے ہی ہوا جیسی امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ تمیم کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام حصین تھا کہ جو اس وقت شیر خوار بچہ تھا اور بالآخر یہ ابن زیاد کے لشکر کا سالاربن گیا اور ابن زیاد نے اسے عمر بن سعد کے پاس بھیج دیا اور اسے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیااور حصین سے کہا:ابن سعد کو اس کے قول سے خبردار کرے کہ ان  کے کام میں تأخیر نہ کرے۔جس دن امام حسین علیہ السلام صبح کی شہادت ہوئی اس سے پہلے والی رات حصین کربلا پہنچا تھا۔(1)

  پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

     قابل توجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے تمام منصوبوں کے ذریعہ پیشنگوئیوں کو روکنے کی کوشش کی  اور  انہوں نے رسول خدا(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حدیثوں کو لکھنے اور تدوین کرنے سے منع کیا(2) اور اسی طرح پیشنگوئیوں کو چھپانے کے لئے ان کے ددوسرے تمام منصوبوں کے علاوہ بھی یہ لوگوں تک پہنچ گئیں اور جس طرح ہم نے بعض موارد میں ذکر کیاہے کہ یہ پیشنگوئیاں بہت سے لوگوں کو  بیدار کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کا باعث بنیں۔     یہ واضح سی بات کہ اگر لوگ پیغمبر خدا(ص) اور آپ کے پاک خاندان علیہم السلام کے تمام فرمودات سے آگاہ ہوجائیں تو بے شمار افراد راہ راست پر آجائیں گے۔

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج5 ص10

[2] ۔  احادیث کو تدوین کرنے سے روکنے کے مختلف عوامل ہیںکہ جن میں سے ایک عامل رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

۳۲۶

     بہت ہی بہترین اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ لوگوں میں خاندان اطہار علیہم السلام کی کچھ پیشنگوئیاں پھیلنے کے بعد دشمن کو خاندان وحی علیہم السلام کی پیشنگوئیوں کو روکنے کے سلسلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑاتو انہوں نے ان پیشنگوئیوں کی مخالفت کے لئے نیا منصوبہ بنایا تا کہ شاید ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو ختم کر سکیں کہ جن کی وجہ سے لوگ ہدایت پا رہے تھے،بلکہ ان کے مثبت اثرات کومنفی اثرات میں تبدیل کر سکیں ۔ جب کہ وہ اس چیز سے غافل تھے کہ(وَ مَکَرُوا وَمَکَرَ اللّٰه وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْن) ۔ لیکن ان کے نئے منصوبے بھی ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو کم نہ کر سکے بلکہ اس سے بنی امیہ اور خاندان وحی علیہم السلام کے مخالفین کو مزید رسوائی کا سامنا کرنا پڑا  اور ان کی رسوائی میں سو گنا اضافہ ہوا۔

     لوگوں میں پھیلنے والی پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے ان کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ ان کے برخلاف عمل کرتے تھے ۔ بنی امیہ اور دوسرے تمام دشمنوں نے یہ ارادہ کیا کہ پیشنگوئیوں میں   جو کچھ کہا گیا ہے اس کے برخلاف عمل کریں تا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ان کے مثبت اثرات کو ختم کرکے لوگوں کو بدظن کریں اور ان کے جھوٹ ہونے کو ثابت کر سکیں!

     ہم یہاں ان پیشنگوئیوں کے ددو نمونہ نقل کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے ان کی مخالفت کرنے اور ان کے برخلاف عمل کرنے کا ارادہ کیا تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ ان کے اس منصوبہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے نہ صرف خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کی عظمت مزید واضح ہوگئی بلکہ بنی امیہ اور اہلبیت علیہم السلام کے دوسرے دشمنوں کی خباثت بھی مزید آشکار ہوگئی۔

     یہ پیشنگوئیاں شیعوں کی دو  بہت ہی باعظمت شخصیات کے بارے میں ہیں: ایک رشید ہجری اور دوسرے جناب میثم تمّار ہیں۔

     اب ہم ان پیشنگوئیوں کو نقل کریں گے اور پھر ان کا تجزیہ و تحلیل کریں گے:

۳۲۷

 1- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' کے مؤلف لکھتے ہیں: زیاد بن نصر حارثی کہتے ہیں: میں زیاد بن ابیہ کے پاس تھاکہ (حضرت) علی علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے رُشید  ہَجَری کو اس کے پاس لایا گیا۔

     زیاد نے ان سے پوچھا: تمہارے دوست (حضرت علی علیہ السلام) نے ہمارے اعمال کے بارے میں تجھ سے کیا کہا ہے؟

     رُشید نے کہا: میرے آقا نے فرمایا کہ میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کرمجھے تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔

     زیاد نے کہا: خدا کی قسم میں ان کی بات کو غلط ثابت کر دوں گا ! اسے آزاد کر دو۔

     جیسے ہی رُشید نے جانا چاہا ،زیاد نے کہا: اسے واپس  لے آؤ۔پھر رشید کی طرف رخ کر کے کہا:

     تمہارے دوست نے تمہارے بارے میں جو کچھ کہا، مجھے تمہارے لئے اس سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔اگر تم زندہ رہے تو ہمیشہ میرے لئے شرّاور بدی کی کوشش کرتے رہو گے ۔پھر اس نے حکم دیا کہ رُشید کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔

     رشید اس حالت میں بنی امیہ اور  زیاد پر لعنت (سبّ و شتم) کر رہے تھے۔ زیاد نے حکم دیاکہ رشید کو پھانسی دے دی جائے۔ جب انہیں تختۂ دار پر لے کر گئے تورشید نے کہا: میرے ساتھ تمہار ایک کام باقی رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ تم وہ کام انجام نہیں دو گے۔

     زیاد نے کہا: اس کی زبان  کاٹ دو۔جب  زیاد کے جلّادوں نے ان کی زبان باہر نکالی تا کہ اسے کاٹ دیں تو رشید نے کہا: مجھے ایک بات اور کہنے کی اجازت دے وو۔ جب انہیں اجازت دے دی گئی تو رشید نے کہا:خدا کی قسم؛ یہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خبر کی تصدیق ہے کہ انہوں نے مجھے اس کی خبر دی تھی کہ میری زبان کاٹ دی جائے گی اور پھر ان کی زبان کاٹ دی گئی۔(1)

--------------

[1]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: 116

۳۲۸

 2- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' میں محمد بن حسن میثمی نقل کرتے ہیں:

     میثم تمار حضرت علی علیہ السلام کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ پہلے وہ بنی اسد کی ایک عورت کے غلام تھے امام علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کر دیا اور ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟

     انہوں نے کہا: سالم

     امام علی علیہ السلام نے فرمایا:رسول خدا(ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے باپ نے عجم میں تمہارا جو نام رکھا تھا، وہ میثم تھا ۔ میثم نے کہا:جی ہاِں! خدا ،اس کے رسول اور آپ امیر المؤمنین نے سچ کہا ہے اور  خدا کی قسم !میرا نام وہی میثم ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:اپنے نام کی طرف لوٹ جاؤاور سالم کو چھوڑ دو اور ہم تمہاری کنیت ابو سالم رکھتے ہیں۔

     احمد بن حسن کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے انہیں علوم اور اسرار و رموز میں سے بہت سے رازوں سے آگاہ کیا تھا اور میثم ان میں سے کچھ بیان بھی کرتے تھے ۔

     کوفہ کے کچھ لوگوں کو اس بارے میں شک و تردیدتھی۔وہ امام علی علیہ السلام پر خرافات کہنے والے اور تدلیس کرنے والے کا الزام لگاتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے بہت سے اصحاب (کہ جن میں مخلص اور شک کرنے والے دونوں شامل تھے)کے سامنے جناب میثم سے فرمایا:اے میثم!میرے بعد تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور تختۂ دار پر لے جایا جائے گا،دوسرے دن تمہارے ناک اور منہ سے خون نکلے گا کہ جس سے تمہار داڑھی رنگین ہو جائے گی، تیسرے دن تم پر گرز ماراجائے گی جس سیتمہاری شہادت ہو جائیگے۔انتظار کرو اور جہاں تمہیں صلیب پر لے جایا جائے گا ،وہ جگہ عمر وبن حریث کے گھر کے دروازے کے ساتھ ہے اور تم ان دس افراد میںسے دسویں ہو گے کہ جن کا تختہ زمین پرسے سب سے زیادہ نزدیک ہو گا۔میں تمہیں کھجور کا وہ درخت بھی دکھاؤں گا کہ جس پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔

۳۲۹

     دو دن کے بعد امام علی علیہ السلام نے میثم کو وہ درخت دکھایا، میثم اس درخت کے پاس آ کر نماز ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم کجھور کے کتنے خوش نصیب درخت ہو کہ میں تمہارے لئے خلق کیا گیا ہوں اور تم میرے لئے پیدا کئے گئے ہو۔

     جناب میثم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس درخت کے پاس آتے  یہاں تک کہ اس کو کاٹ دیا گیا لیکن وہ اسی طرح اس درخت کے تنے کا خیال رکھتے اور اس کے پاس رفت و آمدکرتے تھے اور اس کی طرف دیکھتے تھے۔جب بھی عمرو بن حریث کو دیکھتے تھے تو اس سے کہتے کہ  میں جلد ہی تمہارا ہمسایہ بن جاؤں گا۔میرے ساتھ اچھے پڑوسی کی طرح برتاؤ کرنا۔

     عمرو بن حریث کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ ان سے پوچھاکہ کیا آپ یہاں ابن مسعود کا گھر خریدنا چاہتے ہیں یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں؟

     جس سال میثم شہید ہوئے انہوں نے حج ادا کیا( 60ھ) وہ مدینہ میں رسول اکرم(ص) کی زوجہ جناب ام سلمہ کے پاس آئے  تو جناب ام سلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:میں عراقی شخص ہوں؟

     ام سلمہ نے ان سے کہا:اپنا حسب و نسب بتاؤ؟

     انہوں نے کہا:میں علی علیہ السلام کا آزاد کیا ہوا غلام ہوں۔

     ام سلمہ نے کہا:کیا تم میثم ہو؟

     کہا:ہاں میں میثم ہوں۔

     جناب ام سلمہ نے کہا: سبحان اللہ؛ خدا کی قسم! میں نے بہتمرتبہ رسول خدا(ص) کو آدھی رات کے وقت حضرت علی علیہ السلام سے تمہارے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔

     جناب میثم نے حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ  نخلستان (مدینہ)میں ہیں۔

     جناب میثم نے کہا: ان سے کہیں کہ میں آپ کو سلام کہنا چاہتا تھا اور ہم خدا کے سامنے آپس میں ملاقات کریں گے۔آج آپ کے دیدار کی فرصت نہیں ہے۔اور میں واپس آنا چاہتا ہوں۔

۳۳۰

     اس وقت ام سلمہ نے عطر منگوائی ،عطر لایا گیا توجناب میثم نے اس سے اپنی ڈاڑھی معطر کی ۔

     جناب میثم نے کہا:بیشک جلد ہی یہ داڑھی خون سے خضاب ہو گی۔

     جناب ام سلمہ نے پوچھا: کس نے تمہیں اس بارے میں خبر دی ہے؟

     فرمایا:میرے آقا و مولا نے مجھے بتایا ہے۔

     جناب ام سلمہ نے گریہ کیا اور فرمایا:وہ صرف تمہارے ہی آقا و مولا نہیں ہیں بلکہ وہ میرے اور تمام مسلمانوں کے آقا و مولا ہیں ۔

     پھر جناب میثم تمار نے انہیں الوداع کیا اور عراق واپس چلے گئے۔ جب وہ کوفہ پہنچے تو انہیں گرفتار کرکے کر عبداللہ بن زیاد کے پاس لے گئے ۔ ابن زیاد سے کہا گیا کہ یہ ابوتراب کی نظر میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ برگزیدہ ہے۔

     ابن زیاد نے کہا: تم لوگوں پر وای ہو؛یہ عجمی شخص؟!

     کہا:ہاں۔

     عبداللہ نے میثم سے کہا:تمہارا پروردگار کہاں ہے؟

     جناب میثم نے کہا: تمہاری کمین گاہ میں ہے۔

     ابن زیادنے کہا: ابوتراب کے بارے میںاپنے عشق و محبت کے بارے میں بتاؤ؟

     جناب میثم نے کہا:کسی حد تک ایسے ہی تھا اور اب تم کیا چاہتے ہو؟

     ابن زیاد نے کہا:کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ جلد ہی جو کچھ ہو گا ،انہوں نے تمہیں اس سے آگاہ کیا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔

     ابن زیاد نے پوچھا:میں تمہارے ساتھ جو کچھ کروں گا،اس کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم مجھے پھانسی دو گے جب کہ میں دسواں شخص ہوں گا میرا پھانسی کا تختہ سب سے چھوٹا ہو گا اور میں سب سے زیادہ زمین سے نزدیک ہوں گا۔

۳۳۱

     ابن زیاد نے کہا:میں یقینا ابوتراب کے قول کی مخالفت کروں گا ۔

     میثم نے کہا: اے ابن زیاد!وای ہو تجھ پر! تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو حالانکہ انہوں  نے رسول خدا(ص) کے قول سے اور رسول خدا(ص) نے جبرئیل اور جبرئیل نے خداوند سے یہ خبر دی ہے؟ تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو؟ بیشک خدا کی قسم! کوفہ میں مجھے جس جگہ پھانسی دی جائے گی میں اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔میں خدا کی وہ پہلی مخلوق ہوں کہ اسلام میں جس کے منہ پر اس طرح لگام لگائی جائے گی کہ جس طرح گھوڑے کو لگام لگائی جاتی ہے۔     اس گفتگو کے بعد ابن زیاد نے جناب میثم کو قید کر دیا اور مختار بن ابی عبید ثقفی کو بھی ان کے ساتھ قید کر دیا جب کہ وہ دونوں ابن زیاد کی قید میں تھے ،جناب میثم نے مختار سے کہا:تمہیں اس شخص کی قید سے رہائی مل جائے گی اور تم امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینیکے لئے قیام کرو گے اور ہم جس ظالم کی قید میں ہیں تم اسے قتل کرو گے اورتم اسی پاؤں (مختار کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا) سے اس کے چہرے اور گالوں کو کچلو گے۔ انہیں دنوں میں ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے لئے زندان سے بلوایا لیکن اچانک یزید بن معاویہ کی طرف سے خط آیا جس میں ابن زیاد کو خطاب کیا گیا تھا اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ مختار کو آزاد کر دیا جائے۔اس کی یہ وجہ تھی کہ مختار کی بہن عبداللہ بن عمر کی بیوی تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ یزید سے مختار کی شفاعت کرے ،عبداللہ نے ایسے ہی کیا اور یزید نے اس کی شفارش مان لی اور مختار کی رہائی کا فرمان لکھ دیااور تیز رفتار سواری پر کوفہ بھیج دیا۔وہ خط اس وقت پہنچا کہ جب مختار کو قتل کرنے کے لئے باہر لایا جا رہا تھا۔اس طرح مختار کو رہا کر دیا گیا ۔ان کی رہائی کے بعدجناب میثم کو باہر لایا گیا تا کہ انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔

     ابن زیاد نے کہا:ابوتراب نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہی کروں گا۔

     اسی وقت ایک شخص نے دیکھا اور ان سے کہا:اے میثم! یہ کام تمہیں بے نیاز نہیں کرے گا(امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی دوستی تمہارے کسی کام نہیں آئی)۔

     میثم مسکرائے اور کہا:میں اسی تختۂ دار کے لئے خلق ہوا ہوں اور یہ میرے لئے بنایا گیا ہے ۔ جب میثم کوتختۂ دار پر لٹکایا

۳۳۲

گیا تو لوگ تختۂ دار کے اردگرد جمع تھے کہ جو عمر وبن حریث کے دروازے پر  تھا۔عمرو نے کہا: میثم ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں تمہارا پڑوسی بنوں گا ۔عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ ہر شام میثم کے تختۂ دارکے نیچے جھاڑو لگائے اور پانی چھڑکے اوراگربتی جلائے۔وہ کنیزکافی دنوں تک تک ایسا ہی کرتی رہی۔جب جناب میثم کو تختۂ دار پر باندھ دیا گیا تھا تو  آپ بنی ہاشم کے فضائل اور بنی امیہ کی خباثتیں بیان کر رہے تھے ۔ابن زیاد کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس غلام نے تو تمہیں رسوا کر دیا ہے۔

     ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی جائے ۔ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی گئی تا کہ وہ کوئی بات نہ کر سکیں اور وہ خدا کی سب سے پہلی مخلوق تھی کہ اسلام کے بعد جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔دوسرے دن ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہو گیا اور جب تیسرا دن ہوا تو ان کر گرزمارا گیا جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔امام حسین علیہ السلام کے عراق پہنچنے سے دس دن پہلے  60ھ میں میثم کی شہادت ہوئی۔(1)

     آخر میں یہ نکتہ بھی قابل ذکرہے کہ ہم نے جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں ان میں سے کچھ رسول خدا(ص) اور کچھ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیاں ہیں کہ جو ہم نے اس کتاب کے مطالب سے مربوط ہونے کے بنا پر ذکر کی ہیں  ورنہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی پیشنگوئیاں  بہت زیادہ ہیں کہ جنہیں اکٹھا کرنے کے لئے کئی جلد کتابوں کی ضرورت ہے۔یہ خود مکتب تشیع کی حقانت کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق(وَکُوْنُوا مَعَ الصّٰادِقِیْنَ) سچوں کی پیروی کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام ہے۔     قابل توجہ ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء میں سے اور اسی طرح ان سے پہلے اور ان کے بعد میں حکومت کرنے والوں میں سے کسی نے کوئی پیشنگوئی نہیں کی۔مگرجو کچھ انہوں نے یہودیوں اور گذشتگان سے سنا تھااور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے فرمودات کے بحر بیکراں کے مقابلہ میں ایک ان  کی حیثیت ایک ناچیز قطرہ سے بڑھ کر  نہیں ہے۔پاک اور بے غرض انسانوں کے لئے (جنہوں نے جاہلانہ تعصب کا لبادہ اتار پھنکا ہو)پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی پیشنگوئیاںراہ مستقیم کو آشکار کرتی ہیں کہ جو مکتب وحی اور خدا کا حقیقی دین ہے۔

--------------

[1]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: 112

۳۳۳

     حق کی جستجو کرنے والوں اور راہ حق کو تلاش کرنے والوں سے ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں انہیں  پوری توجہ اور غور و فکر  کے ساتھ پڑھیںتا کہ جب تک زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہیںتب تک ان کے لئے صراط مستقیم (کہ ہر دن نماز میں ہم خداسے چاہتے ہیں کہ راہ راست کی طرف ہماری ہدایت فرما: (اِهْدِنَا الصِّرٰاطَ الْمُسْتَقِیْم) واضح ہو جائے اور اسی راہ پرگامزن رہیں اور واضح سی بات ہے کہ خداوند ان سب کا یار و مددگار ہے کہ جو اس سے مدد مانگتے ہیں۔

     جو افراد پیغمبر اکرم(ص) کی روایات اور فرمودات سے آشنا ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے اپنے بعد رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام ،حجرت فاطمہ زہراء علیہا السلام،آپ کے خاندان اطہار علیہم السلام اور بالخصوص سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے بہت زیادہ مطالب بیان فرمائے ہیں۔

     اگر ہم اس کتاب میں بنی امیہ اور تمام غاصب خلفاء کے بارے میں ان پیشنگوئیوں کو ذکر کرنا چاہیں تو یہ ستّر من کاغذ کی مثنوی بن جائے گی ۔ اسی لئے ہم اتنی مقدار میں ان پیشنگوئیوں کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور خداوند کریم سے ہماری یہ دعا ہے کہ محترم قارئین ان بزرگ ہستیوں کے فرامین سے بطور کامل مستفید ہوں۔

     ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اسلام کے دشمنوں کے گھنونے منصوبوں کے بارے آپ کے علم و آگاہی میں اضافہ ہو گااور آپ یہ جان لیں گے بنی امیہ نے کس طرح یہود و نصاریٰ کی مدد سے اسلام کے خلاف جنگ کی۔

۳۳۴

فہرست

انتساب. 3

حرف مترجم 4

پیش گفتار 6

ایک اہم نکتہ 7

کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں: 8

یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ 11

بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز 13

یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ. 16

اس کتاب کے بارے میں. 17

معاویہ بروز غدیر 19

۳۳۵

پہلاباب. 22

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. 22

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. 23

یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا 23

اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش. 27

یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا 27

''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل. 32

حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا 35

یہودیوں کی قوم پرستی 39

امویوں کی قوم پرستی 42

یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی 47

پیغمبر اکرم(ص)  کو زہر دینا 48

۳۳۶

یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوںاسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت. 50

یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی. 54

اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال، جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔ 56

مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنےکے لئے یہودیوں کی سازش. 58

دوسرا باب. 64

یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے 64

۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو 65

2- ایک دوسرا گروہ 70

3- ابوہریرہ 72

4-عبداللہ بن عمرو عاص.. 75

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت. 75

5- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی 77

۳۳۷

''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م63):(1) 77

6- کعب الأحبار 82

کعب الأحبار اور عمر 83

کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات. 86

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار 88

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف.. 90

7- وہب بن منبّہ 93

وہب بن منبّہ کے عقائد 94

تیسراباب. 95

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. 95

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. 96

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات. 97

۳۳۸

عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج 98

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔ 98

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج 104

عمر کے دور حکومت میں تمیم داری. 108

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا 110

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی 112

چوتھاباب. 114

دشمنوں کے دو بنیادی حربے.. 114

1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی. 115

اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک. 116

جہمیّہ 116

اموی دور میں معتزلہ 119

۳۳۹

مرجئہ ، اموی دور میں. 120

بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ 122

مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی 124

معاشرے میں مرجئہ کا کردار 126

بہشتی کافر! 127

مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی 129

مرجئہ کے فرقے 130

ابو حنیفہ اور مرجئہ 132

مرجئہ اور شیعہ 134

مرجئہ اور شیعہ روایات. 136

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار 139

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ 141

۳۴۰

341

342

343

344

345

346