معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168036 / ڈاؤنلوڈ: 7627
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

     عمر نے کہا: کیا میں وہ شخص ہوں؟     آنحضرت نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ہے کہ جو اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا ہے۔

     پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔(۲)(۱)

     یہ روایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے جنگوں کے حق پر ہونے اور آنحضرت سے جنگ کرنے والوں کی گمراہی کی تائید کرتی ہے۔ چاہے وہ ناکثین ہوں، قاسطین ہوں یا پھرمارقین ہوں۔

 محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     جن ایام میں رسول خدا(ص) مدینہ میں تھے تو ابوبکر کو کسی ایک جنگ میں بھیجا گیا۔اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب دیکھا کہ جیسے ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو مہندی لگائی ہو اور سفید کپڑے پہنے ہوں۔ وہ عائشہ کے پاس آئی اور اس نے اپنا خواب بیان کیا۔     عائشہ نے کہا:اگر تمہارا خواب سچا ہو تو ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔وہ خضاب اس کا خون اور سفید کپڑے اس کا کفن ہے۔اس نے رونا شروع کر دیا اور جب عائشہ رو رہی تھی تو پیغمبر اکرم(ص) تشریف لائے اور اس سے پوچھا:تم کس لئے رو رہی ہو؟     انہوں نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛اسے کسی نے نہیں رلایا ہے ۔اسماء نے ابوبکر کے بارے میں جو خواب دیکھا ہے کہ جس کی وجہ سے عائشہ رو رہی ہے۔جب آنحضرت سے وہ خواب بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

     جس طرح عائشہ نے تعبیر کی ہے ویسے نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم واپس آ جائے گا۔اسماء کو دیکھ رہے ہو۔اسماء حاملہ ہو گی اور وہ ایک بیٹے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمدرکھا جائے گااور خدا وند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔(۳)

--------------

[۱] ۔ اس حدیث اور اس میں ذکر ہونے والے منابع کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے کتاب "فضائل الخمسة من الصحاح الستّة'':ج۲ص۳۵۴-۳۴۹ تیسری چاپ بیروت ۱۳۷۳ ہجری  قمری کی طرف رجوع فرمائیں۔

[۲]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ص۳۸۹

[۳]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۲۲۷

۳۲۱

یہ واقعہ کتاب''الغارات''میں کچھ فرق کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

     ابواسحاق کہتے ہیں:جب محمد کی ماں  اسماء بن عمیس کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی اور اس کے ساتھ جو کچھ بیتا،وہ اس سے آگاہ ہوئی تو انہوں نے اپنے حزن کو ظاہر نہ ہونے دیا جب کہ دل میں وہ غمگین تھی۔جب وہ مسجد کی طرف جا رہی تھی تو اس کے سینہ سے خون جاری ہو گیا۔

     ابواسماعیل کثیر النواء کہتے ہیں:ابوبکر کسی جنگ میں شرکت کے لئے مدینہ سے باہر گیا تو اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب میں دیکھا کہ ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو خضاب لگایا ہے اور سفید لباس پہنا ہے۔وہ عائشہ کے پاس آئیں اور اس سے اپنا خواب بیان کیا ۔عائشہ نے کہا کہ اگر تمہارا خواب سچ ہے تو گویا ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔خضاب خون کی علامت ہے اور اس کا سفید لباس اس کے کفن کی علامت ہے۔عائشہ روتی ہوئی رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئی۔رسول اکرم(ص) نے پوچھا:تم کیوں رو رہی ہو؟     اس نے اسماء کاخواب بیان کیا۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:عائشہ نے جو تعبیر کی ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم  اسماء کے پاس واپس آ جائے گا۔اس کے بعد اسماء ایک بچے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمد رکھا جائے گا،خداوند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔

     یہ جوان وہی محمد بن ابی بکر ہیں کہ جو اس دن شہید ہوئے۔(۱)

     جیسا کہ رسول خدا نے خبر دی تھی محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں آپ کے باوفا ساتھیوں اور آنحضرت کے دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا تھے۔جنگ جمل و صفین میں آپ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے اور آپ اپنی زندگی کے آخری دن تک آنحضرت کی خدمت میں رہے۔

     محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرف سے مصر کے حاکم تھے اور بالآخر معاویہ بن حدیج کے ہاتھوں شہید ہو گئے کہ جسے معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص نے محمد بن ابی بکر کو گرفتار کرنے کے لئے مأمور کیا تھا۔

--------------

[۱]۔ الغارات و شرح اعلام آن:۱۵۰

۳۲۲

     معاویہ بن حدیج شریر اور بے رحم شخص تھا۔اس نے محمد بن ابی بکر کو مصر میں گرفتار کرنے کے بعد پہلے ان کی گردن جدا کی اور پھر ان کا جسم گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دیا۔

     جب محمد کی بہن عائشہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بے تاب ہوئی اس کے بعد وہ ہمیشہ ہر نماز کی تعقیبات میں قنوت پڑھتی تھی کہ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عمروبن عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھے۔

     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو کوفہ میں محمد بن ابی بکر کی شہادت  کی خبر ہوئی تو آپ بہت غمگین ہوئے اور فرمایا:

     بیشک مکہ کو تباہ کرنے والو اور ظلم و ستم کو دوست رکھنے والو اور لوگوں کو خدا کی راہ سے دور رکھنے والو اور اسلام کو کجی کی طرف لے جانے والو ۔آگاہ ہو جاؤ کہ محمد بن ابی بکر شہید ہو گئے ہیں ،ان پر خدا کی رحمت ہو،انہیں خدا کے نزدیک بغیر حساب لایا جائے گا۔

     مدائنی کہتے ہیں: علی علیہ السلام سے کہا گیا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام !آپ محمد بن ابی بکر کی  شہادت پر بہت بے چین ہوئے؟

     فرمایا: اس میں کیا حرج ہے ، وہ میرے ہاتھوں کا پروردہ اور تربیت یافتہ تھا اور وہ میرے بیٹوں کے لئے بھائی اور میں اس کا باپ ہوں اور وہ میرے بیٹے کی طرح ہے۔(۱)

سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     شریک روایت کرتے ہیں:عبداللہ بن سعد نے حجر بن عدی سے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :میں مدینہ میں آیا اور میں ابوہریرہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔  اس نے پوچھا:کہاں کے رہنے والے ہو؟

     میں نے کہا:میں بصرہ کا رہنے والا ہوں۔

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ:۳۵۱

۳۲۳

     اس نے پوچھا:سمرة بن جندب کا کیا حال ہے؟میں نے کہا:وہ زندہ ہے۔

     اس نے کہا:کسی اور کی لمبی عمر میرے لئے اس کی لمبی عمر سے زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔

     میں نے کہا:اس کی کیا وجہ ہے؟کہا:پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے ،اسے اور حذیفہ بن الیمان سے فرمایا تھا:جو کوئی بھی تم میں سے دو کے بعد مرے وہ دوزخ میں ہے۔     حذیفہ مجھ سے پہلے چلے گئے اور اب میری یہ خواہش ہے کہ میں سمرة سے پہلے مر جاؤں۔     کہتے ہیں: سمرة حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت تک زندہ تھا۔

     احمد بن بشیر ، مسعربن کدام سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:امام حسین علیہ السلام کے کوفہ کی طرف روانگی کے وقت سمرة بن جندب عبداللہ بن زیاد کا سپہ سالار تھا اور وہ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے اور قیام کے لئے  ابھارتاتھا۔(۱)

کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     حسن بن محبوب نے ثابت ثمالی اور انہوں  نے سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے:  ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے۔ایک شخص منبر کے پاس سے اٹھا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین !میں وادی القری سے گذر رہا تھا تو میں متوجہ ہوا کہ خالد بن غرفطہ مر گیا ہے۔اس کے لئے مغفرت طلب کریں۔     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:  خدا کی قسم!وہ نہیں مرا اور تب تک نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ گمراہ لشکر کی قیادت کرے گا جو اس کے علم کو کندھوں پر اٹھائے گا۔وہ حبیب بن حمار(۲) ہیں ۔

--------------

[۱] ۔ سمرة کی موت کے سال میں اختلاف ہے اور اس کے بارے میں ۵۸،۵۹ اور ۶۰ ہجری لکھا گیا ہے۔ابن عبدالبر نے کتاب الاستیعاب: ج ۲ص۷۶ میں الاصابہ کے حاشیہ میں لکھا ہے: وہ ابلتے پانی کے برتن میں گر کر جل گیا اور ابوہریرہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے جو بات فرمائی تھی (کہ تم تینوں میں سے جو آخر میں مرے وہ آگ میں ہے) وہ  بات صحیح  ثابت ہوئی۔

[۲] ۔ حالانکہ تہران کی قدیم چاپ میں بھی اس شخص کا نام یہی نام ہے لیکن ظاہراً اس کا صحیح نام جماز ہے کہ جو شیخ مفید کی کتاب ''اختصاص'' اور صفّار کی کتاب ''بصائر الدرجات'' میں آیا ہے: بحار الأنوار:ج ۴۱ص۲۸۹

۳۲۴

     اسی وقت ایک دوسرا شخص منبر کے قریب سے کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام ؛!میں حبیب بن حمار ہوں۔آپ کا شیعہ اور محب ہوں۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:تم حبیب بن حمار ہو؟

     کہا:جی ہاں۔

     علی علیہ السلام نے دوبارہ پوچھا:تمہیں خدا کی قسم!کیا تم ہی حبیب بن حمار ہو؟

     اس نے کہا: خدا کی قسم!جی ہاں۔

     فرمایا: خدا کی قسم؛تم وہ علم کندھوں پر اٹھاؤ گے اور اس علم کے ساتھ مسجد کے اس دروازے سے داخل ہو گے۔اور آپ نے مسجد کوفہ کے باب الفیل کی طرف اشارہ کیا۔ثابت نے کہا:خدا کی قسم ؛میں تب تک نہیں مرا کہ جب تک میں نے ابن زیاد کو دیکھا کہ اس نے عمرو بن سعد کو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے بھیجا۔اس نے خالد بن عرفطہ کو اپنے لشکر کا سالاربنایا اور حبیب بن حمار نے اس کا رایت اپنے کندھوں پر اٹھایا اور باب الفیل سے مسجد میں داخل ہوا۔(۱)

کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے منبر پر خطبہ دیااور اس کے ضمن میں فرمایا:

     ''مجھ سے پوچھو؛ اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو.....''

     تمیم بن اسامة بن زہیر بن درید تمیمی نے آپ پر اعتراض کیا اور آپ کی بات کو کاٹ کر پوچھا:

      میرے سر پر کتنے بال ہیں؟

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

--------------

[۱] ۔ یہ موضوع امالی شیخ صدوق میں  آیاہے کہ جو اس میں سہو سے خالی نہیں ہے، شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں تمیم اور حصین کا نام ذکر کئے بغیر اسے ذکر کیا ہے ۔ مفید ی پیروی کرتے ہوئے طبرسی نے بھی اعلام الوری میں کسی کا نام ذکر نہیں کیا۔:بحار الأنوار: ج۴۴ص۲۵۷

۳۲۵

     بیشک خدا کی قسم؛میں یہ جانتا ہوں اور فرض کرو کہ میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں تو تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہو گی(تم کس طرح انہیں گنوگے) اور میں تمہیں تمہارے کھڑے ہونے اور سوال پوچھنے کی وجہ سے ایک خبر دیتا ہوںکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہارے ہر بال پر ایک فرشتہ ہے کہ جو تجھ پر لعنت کر رہا ہے اورایک شیطان تمہیں ابھارتا ہے اور اس بات کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے گھر میں ایک شیر خوار بچہ ہے کہ جو رسول خدا(ص) کے بیٹے (امام حسین علیہ السلام) کو قتل کرے گا اور دوسروں کوبھی ان کے قتل کے لئے ابھارے گا۔

     اور بعینہ ویسے ہی ہوا جیسی امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ تمیم کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام حصین تھا کہ جو اس وقت شیر خوار بچہ تھا اور بالآخر یہ ابن زیاد کے لشکر کا سالاربن گیا اور ابن زیاد نے اسے عمر بن سعد کے پاس بھیج دیا اور اسے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیااور حصین سے کہا:ابن سعد کو اس کے قول سے خبردار کرے کہ ان  کے کام میں تأخیر نہ کرے۔جس دن امام حسین علیہ السلام صبح کی شہادت ہوئی اس سے پہلے والی رات حصین کربلا پہنچا تھا۔(۱)

  پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

     قابل توجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے تمام منصوبوں کے ذریعہ پیشنگوئیوں کو روکنے کی کوشش کی  اور  انہوں نے رسول خدا(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حدیثوں کو لکھنے اور تدوین کرنے سے منع کیا(۲) اور اسی طرح پیشنگوئیوں کو چھپانے کے لئے ان کے ددوسرے تمام منصوبوں کے علاوہ بھی یہ لوگوں تک پہنچ گئیں اور جس طرح ہم نے بعض موارد میں ذکر کیاہے کہ یہ پیشنگوئیاں بہت سے لوگوں کو  بیدار کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کا باعث بنیں۔     یہ واضح سی بات کہ اگر لوگ پیغمبر خدا(ص) اور آپ کے پاک خاندان علیہم السلام کے تمام فرمودات سے آگاہ ہوجائیں تو بے شمار افراد راہ راست پر آجائیں گے۔

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۵ ص۱۰

[۲] ۔  احادیث کو تدوین کرنے سے روکنے کے مختلف عوامل ہیںکہ جن میں سے ایک عامل رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

۳۲۶

     بہت ہی بہترین اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ لوگوں میں خاندان اطہار علیہم السلام کی کچھ پیشنگوئیاں پھیلنے کے بعد دشمن کو خاندان وحی علیہم السلام کی پیشنگوئیوں کو روکنے کے سلسلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑاتو انہوں نے ان پیشنگوئیوں کی مخالفت کے لئے نیا منصوبہ بنایا تا کہ شاید ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو ختم کر سکیں کہ جن کی وجہ سے لوگ ہدایت پا رہے تھے،بلکہ ان کے مثبت اثرات کومنفی اثرات میں تبدیل کر سکیں ۔ جب کہ وہ اس چیز سے غافل تھے کہ(وَ مَکَرُوا وَمَکَرَ اللّٰه وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْن) ۔ لیکن ان کے نئے منصوبے بھی ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو کم نہ کر سکے بلکہ اس سے بنی امیہ اور خاندان وحی علیہم السلام کے مخالفین کو مزید رسوائی کا سامنا کرنا پڑا  اور ان کی رسوائی میں سو گنا اضافہ ہوا۔

     لوگوں میں پھیلنے والی پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے ان کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ ان کے برخلاف عمل کرتے تھے ۔ بنی امیہ اور دوسرے تمام دشمنوں نے یہ ارادہ کیا کہ پیشنگوئیوں میں   جو کچھ کہا گیا ہے اس کے برخلاف عمل کریں تا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ان کے مثبت اثرات کو ختم کرکے لوگوں کو بدظن کریں اور ان کے جھوٹ ہونے کو ثابت کر سکیں!

     ہم یہاں ان پیشنگوئیوں کے ددو نمونہ نقل کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے ان کی مخالفت کرنے اور ان کے برخلاف عمل کرنے کا ارادہ کیا تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ ان کے اس منصوبہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے نہ صرف خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کی عظمت مزید واضح ہوگئی بلکہ بنی امیہ اور اہلبیت علیہم السلام کے دوسرے دشمنوں کی خباثت بھی مزید آشکار ہوگئی۔

     یہ پیشنگوئیاں شیعوں کی دو  بہت ہی باعظمت شخصیات کے بارے میں ہیں: ایک رشید ہجری اور دوسرے جناب میثم تمّار ہیں۔

     اب ہم ان پیشنگوئیوں کو نقل کریں گے اور پھر ان کا تجزیہ و تحلیل کریں گے:

۳۲۷

 ۱- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' کے مؤلف لکھتے ہیں: زیاد بن نصر حارثی کہتے ہیں: میں زیاد بن ابیہ کے پاس تھاکہ (حضرت) علی علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے رُشید  ہَجَری کو اس کے پاس لایا گیا۔

     زیاد نے ان سے پوچھا: تمہارے دوست (حضرت علی علیہ السلام) نے ہمارے اعمال کے بارے میں تجھ سے کیا کہا ہے؟

     رُشید نے کہا: میرے آقا نے فرمایا کہ میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کرمجھے تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔

     زیاد نے کہا: خدا کی قسم میں ان کی بات کو غلط ثابت کر دوں گا ! اسے آزاد کر دو۔

     جیسے ہی رُشید نے جانا چاہا ،زیاد نے کہا: اسے واپس  لے آؤ۔پھر رشید کی طرف رخ کر کے کہا:

     تمہارے دوست نے تمہارے بارے میں جو کچھ کہا، مجھے تمہارے لئے اس سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔اگر تم زندہ رہے تو ہمیشہ میرے لئے شرّاور بدی کی کوشش کرتے رہو گے ۔پھر اس نے حکم دیا کہ رُشید کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔

     رشید اس حالت میں بنی امیہ اور  زیاد پر لعنت (سبّ و شتم) کر رہے تھے۔ زیاد نے حکم دیاکہ رشید کو پھانسی دے دی جائے۔ جب انہیں تختۂ دار پر لے کر گئے تورشید نے کہا: میرے ساتھ تمہار ایک کام باقی رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ تم وہ کام انجام نہیں دو گے۔

     زیاد نے کہا: اس کی زبان  کاٹ دو۔جب  زیاد کے جلّادوں نے ان کی زبان باہر نکالی تا کہ اسے کاٹ دیں تو رشید نے کہا: مجھے ایک بات اور کہنے کی اجازت دے وو۔ جب انہیں اجازت دے دی گئی تو رشید نے کہا:خدا کی قسم؛ یہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خبر کی تصدیق ہے کہ انہوں نے مجھے اس کی خبر دی تھی کہ میری زبان کاٹ دی جائے گی اور پھر ان کی زبان کاٹ دی گئی۔(۱)

--------------

[۱]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: ۱۱۶

۳۲۸

 ۲- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' میں محمد بن حسن میثمی نقل کرتے ہیں:

     میثم تمار حضرت علی علیہ السلام کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ پہلے وہ بنی اسد کی ایک عورت کے غلام تھے امام علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کر دیا اور ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟

     انہوں نے کہا: سالم

     امام علی علیہ السلام نے فرمایا:رسول خدا(ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے باپ نے عجم میں تمہارا جو نام رکھا تھا، وہ میثم تھا ۔ میثم نے کہا:جی ہاِں! خدا ،اس کے رسول اور آپ امیر المؤمنین نے سچ کہا ہے اور  خدا کی قسم !میرا نام وہی میثم ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:اپنے نام کی طرف لوٹ جاؤاور سالم کو چھوڑ دو اور ہم تمہاری کنیت ابو سالم رکھتے ہیں۔

     احمد بن حسن کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے انہیں علوم اور اسرار و رموز میں سے بہت سے رازوں سے آگاہ کیا تھا اور میثم ان میں سے کچھ بیان بھی کرتے تھے ۔

     کوفہ کے کچھ لوگوں کو اس بارے میں شک و تردیدتھی۔وہ امام علی علیہ السلام پر خرافات کہنے والے اور تدلیس کرنے والے کا الزام لگاتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے بہت سے اصحاب (کہ جن میں مخلص اور شک کرنے والے دونوں شامل تھے)کے سامنے جناب میثم سے فرمایا:اے میثم!میرے بعد تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور تختۂ دار پر لے جایا جائے گا،دوسرے دن تمہارے ناک اور منہ سے خون نکلے گا کہ جس سے تمہار داڑھی رنگین ہو جائے گی، تیسرے دن تم پر گرز ماراجائے گی جس سیتمہاری شہادت ہو جائیگے۔انتظار کرو اور جہاں تمہیں صلیب پر لے جایا جائے گا ،وہ جگہ عمر وبن حریث کے گھر کے دروازے کے ساتھ ہے اور تم ان دس افراد میںسے دسویں ہو گے کہ جن کا تختہ زمین پرسے سب سے زیادہ نزدیک ہو گا۔میں تمہیں کھجور کا وہ درخت بھی دکھاؤں گا کہ جس پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔

۳۲۹

     دو دن کے بعد امام علی علیہ السلام نے میثم کو وہ درخت دکھایا، میثم اس درخت کے پاس آ کر نماز ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم کجھور کے کتنے خوش نصیب درخت ہو کہ میں تمہارے لئے خلق کیا گیا ہوں اور تم میرے لئے پیدا کئے گئے ہو۔

     جناب میثم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس درخت کے پاس آتے  یہاں تک کہ اس کو کاٹ دیا گیا لیکن وہ اسی طرح اس درخت کے تنے کا خیال رکھتے اور اس کے پاس رفت و آمدکرتے تھے اور اس کی طرف دیکھتے تھے۔جب بھی عمرو بن حریث کو دیکھتے تھے تو اس سے کہتے کہ  میں جلد ہی تمہارا ہمسایہ بن جاؤں گا۔میرے ساتھ اچھے پڑوسی کی طرح برتاؤ کرنا۔

     عمرو بن حریث کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ ان سے پوچھاکہ کیا آپ یہاں ابن مسعود کا گھر خریدنا چاہتے ہیں یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں؟

     جس سال میثم شہید ہوئے انہوں نے حج ادا کیا( ۶۰ھ) وہ مدینہ میں رسول اکرم(ص) کی زوجہ جناب ام سلمہ کے پاس آئے  تو جناب ام سلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:میں عراقی شخص ہوں؟

     ام سلمہ نے ان سے کہا:اپنا حسب و نسب بتاؤ؟

     انہوں نے کہا:میں علی علیہ السلام کا آزاد کیا ہوا غلام ہوں۔

     ام سلمہ نے کہا:کیا تم میثم ہو؟

     کہا:ہاں میں میثم ہوں۔

     جناب ام سلمہ نے کہا: سبحان اللہ؛ خدا کی قسم! میں نے بہتمرتبہ رسول خدا(ص) کو آدھی رات کے وقت حضرت علی علیہ السلام سے تمہارے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔

     جناب میثم نے حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ  نخلستان (مدینہ)میں ہیں۔

     جناب میثم نے کہا: ان سے کہیں کہ میں آپ کو سلام کہنا چاہتا تھا اور ہم خدا کے سامنے آپس میں ملاقات کریں گے۔آج آپ کے دیدار کی فرصت نہیں ہے۔اور میں واپس آنا چاہتا ہوں۔

۳۳۰

     اس وقت ام سلمہ نے عطر منگوائی ،عطر لایا گیا توجناب میثم نے اس سے اپنی ڈاڑھی معطر کی ۔

     جناب میثم نے کہا:بیشک جلد ہی یہ داڑھی خون سے خضاب ہو گی۔

     جناب ام سلمہ نے پوچھا: کس نے تمہیں اس بارے میں خبر دی ہے؟

     فرمایا:میرے آقا و مولا نے مجھے بتایا ہے۔

     جناب ام سلمہ نے گریہ کیا اور فرمایا:وہ صرف تمہارے ہی آقا و مولا نہیں ہیں بلکہ وہ میرے اور تمام مسلمانوں کے آقا و مولا ہیں ۔

     پھر جناب میثم تمار نے انہیں الوداع کیا اور عراق واپس چلے گئے۔ جب وہ کوفہ پہنچے تو انہیں گرفتار کرکے کر عبداللہ بن زیاد کے پاس لے گئے ۔ ابن زیاد سے کہا گیا کہ یہ ابوتراب کی نظر میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ برگزیدہ ہے۔

     ابن زیاد نے کہا: تم لوگوں پر وای ہو؛یہ عجمی شخص؟!

     کہا:ہاں۔

     عبداللہ نے میثم سے کہا:تمہارا پروردگار کہاں ہے؟

     جناب میثم نے کہا: تمہاری کمین گاہ میں ہے۔

     ابن زیادنے کہا: ابوتراب کے بارے میںاپنے عشق و محبت کے بارے میں بتاؤ؟

     جناب میثم نے کہا:کسی حد تک ایسے ہی تھا اور اب تم کیا چاہتے ہو؟

     ابن زیاد نے کہا:کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ جلد ہی جو کچھ ہو گا ،انہوں نے تمہیں اس سے آگاہ کیا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔

     ابن زیاد نے پوچھا:میں تمہارے ساتھ جو کچھ کروں گا،اس کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم مجھے پھانسی دو گے جب کہ میں دسواں شخص ہوں گا میرا پھانسی کا تختہ سب سے چھوٹا ہو گا اور میں سب سے زیادہ زمین سے نزدیک ہوں گا۔

۳۳۱

     ابن زیاد نے کہا:میں یقینا ابوتراب کے قول کی مخالفت کروں گا ۔

     میثم نے کہا: اے ابن زیاد!وای ہو تجھ پر! تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو حالانکہ انہوں  نے رسول خدا(ص) کے قول سے اور رسول خدا(ص) نے جبرئیل اور جبرئیل نے خداوند سے یہ خبر دی ہے؟ تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو؟ بیشک خدا کی قسم! کوفہ میں مجھے جس جگہ پھانسی دی جائے گی میں اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔میں خدا کی وہ پہلی مخلوق ہوں کہ اسلام میں جس کے منہ پر اس طرح لگام لگائی جائے گی کہ جس طرح گھوڑے کو لگام لگائی جاتی ہے۔     اس گفتگو کے بعد ابن زیاد نے جناب میثم کو قید کر دیا اور مختار بن ابی عبید ثقفی کو بھی ان کے ساتھ قید کر دیا جب کہ وہ دونوں ابن زیاد کی قید میں تھے ،جناب میثم نے مختار سے کہا:تمہیں اس شخص کی قید سے رہائی مل جائے گی اور تم امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینیکے لئے قیام کرو گے اور ہم جس ظالم کی قید میں ہیں تم اسے قتل کرو گے اورتم اسی پاؤں (مختار کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا) سے اس کے چہرے اور گالوں کو کچلو گے۔ انہیں دنوں میں ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے لئے زندان سے بلوایا لیکن اچانک یزید بن معاویہ کی طرف سے خط آیا جس میں ابن زیاد کو خطاب کیا گیا تھا اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ مختار کو آزاد کر دیا جائے۔اس کی یہ وجہ تھی کہ مختار کی بہن عبداللہ بن عمر کی بیوی تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ یزید سے مختار کی شفاعت کرے ،عبداللہ نے ایسے ہی کیا اور یزید نے اس کی شفارش مان لی اور مختار کی رہائی کا فرمان لکھ دیااور تیز رفتار سواری پر کوفہ بھیج دیا۔وہ خط اس وقت پہنچا کہ جب مختار کو قتل کرنے کے لئے باہر لایا جا رہا تھا۔اس طرح مختار کو رہا کر دیا گیا ۔ان کی رہائی کے بعدجناب میثم کو باہر لایا گیا تا کہ انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔

     ابن زیاد نے کہا:ابوتراب نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہی کروں گا۔

     اسی وقت ایک شخص نے دیکھا اور ان سے کہا:اے میثم! یہ کام تمہیں بے نیاز نہیں کرے گا(امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی دوستی تمہارے کسی کام نہیں آئی)۔

     میثم مسکرائے اور کہا:میں اسی تختۂ دار کے لئے خلق ہوا ہوں اور یہ میرے لئے بنایا گیا ہے ۔ جب میثم کوتختۂ دار پر لٹکایا

۳۳۲

گیا تو لوگ تختۂ دار کے اردگرد جمع تھے کہ جو عمر وبن حریث کے دروازے پر  تھا۔عمرو نے کہا: میثم ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں تمہارا پڑوسی بنوں گا ۔عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ ہر شام میثم کے تختۂ دارکے نیچے جھاڑو لگائے اور پانی چھڑکے اوراگربتی جلائے۔وہ کنیزکافی دنوں تک تک ایسا ہی کرتی رہی۔جب جناب میثم کو تختۂ دار پر باندھ دیا گیا تھا تو  آپ بنی ہاشم کے فضائل اور بنی امیہ کی خباثتیں بیان کر رہے تھے ۔ابن زیاد کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس غلام نے تو تمہیں رسوا کر دیا ہے۔

     ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی جائے ۔ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی گئی تا کہ وہ کوئی بات نہ کر سکیں اور وہ خدا کی سب سے پہلی مخلوق تھی کہ اسلام کے بعد جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔دوسرے دن ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہو گیا اور جب تیسرا دن ہوا تو ان کر گرزمارا گیا جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔امام حسین علیہ السلام کے عراق پہنچنے سے دس دن پہلے  ۶۰ھ میں میثم کی شہادت ہوئی۔(۱)

     آخر میں یہ نکتہ بھی قابل ذکرہے کہ ہم نے جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں ان میں سے کچھ رسول خدا(ص) اور کچھ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیاں ہیں کہ جو ہم نے اس کتاب کے مطالب سے مربوط ہونے کے بنا پر ذکر کی ہیں  ورنہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی پیشنگوئیاں  بہت زیادہ ہیں کہ جنہیں اکٹھا کرنے کے لئے کئی جلد کتابوں کی ضرورت ہے۔یہ خود مکتب تشیع کی حقانت کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق(وَکُوْنُوا مَعَ الصّٰادِقِیْنَ) سچوں کی پیروی کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام ہے۔     قابل توجہ ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء میں سے اور اسی طرح ان سے پہلے اور ان کے بعد میں حکومت کرنے والوں میں سے کسی نے کوئی پیشنگوئی نہیں کی۔مگرجو کچھ انہوں نے یہودیوں اور گذشتگان سے سنا تھااور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے فرمودات کے بحر بیکراں کے مقابلہ میں ایک ان  کی حیثیت ایک ناچیز قطرہ سے بڑھ کر  نہیں ہے۔پاک اور بے غرض انسانوں کے لئے (جنہوں نے جاہلانہ تعصب کا لبادہ اتار پھنکا ہو)پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی پیشنگوئیاںراہ مستقیم کو آشکار کرتی ہیں کہ جو مکتب وحی اور خدا کا حقیقی دین ہے۔

--------------

[۱]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: ۱۱۲

۳۳۳

     حق کی جستجو کرنے والوں اور راہ حق کو تلاش کرنے والوں سے ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں انہیں  پوری توجہ اور غور و فکر  کے ساتھ پڑھیںتا کہ جب تک زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہیںتب تک ان کے لئے صراط مستقیم (کہ ہر دن نماز میں ہم خداسے چاہتے ہیں کہ راہ راست کی طرف ہماری ہدایت فرما: (اِهْدِنَا الصِّرٰاطَ الْمُسْتَقِیْم) واضح ہو جائے اور اسی راہ پرگامزن رہیں اور واضح سی بات ہے کہ خداوند ان سب کا یار و مددگار ہے کہ جو اس سے مدد مانگتے ہیں۔

     جو افراد پیغمبر اکرم(ص) کی روایات اور فرمودات سے آشنا ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے اپنے بعد رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام ،حجرت فاطمہ زہراء علیہا السلام،آپ کے خاندان اطہار علیہم السلام اور بالخصوص سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے بہت زیادہ مطالب بیان فرمائے ہیں۔

     اگر ہم اس کتاب میں بنی امیہ اور تمام غاصب خلفاء کے بارے میں ان پیشنگوئیوں کو ذکر کرنا چاہیں تو یہ ستّر من کاغذ کی مثنوی بن جائے گی ۔ اسی لئے ہم اتنی مقدار میں ان پیشنگوئیوں کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور خداوند کریم سے ہماری یہ دعا ہے کہ محترم قارئین ان بزرگ ہستیوں کے فرامین سے بطور کامل مستفید ہوں۔

     ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اسلام کے دشمنوں کے گھنونے منصوبوں کے بارے آپ کے علم و آگاہی میں اضافہ ہو گااور آپ یہ جان لیں گے بنی امیہ نے کس طرح یہود و نصاریٰ کی مدد سے اسلام کے خلاف جنگ کی۔

۳۳۴

فہرست

انتساب. ۳

حرف مترجم ۴

پیش گفتار ۶

ایک اہم نکتہ ۷

کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں: ۸

یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ ۱۱

بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز ۱۳

یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ. ۱۶

اس کتاب کے بارے میں. ۱۷

معاویہ بروز غدیر ۱۹

۳۳۵

پہلاباب. ۲۲

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۲۲

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۲۳

یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا ۲۳

اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش. ۲۷

یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا ۲۷

''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل. ۳۲

حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا ۳۵

یہودیوں کی قوم پرستی ۳۹

امویوں کی قوم پرستی ۴۲

یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی ۴۷

پیغمبر اکرم(ص)  کو زہر دینا ۴۸

۳۳۶

یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوںاسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت. ۵۰

یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی. ۵۴

اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال، جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔ ۵۶

مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنےکے لئے یہودیوں کی سازش. ۵۸

دوسرا باب. ۶۴

یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے ۶۴

۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو ۶۵

۲- ایک دوسرا گروہ ۷۰

۳- ابوہریرہ ۷۲

۴-عبداللہ بن عمرو عاص.. ۷۵

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت. ۷۵

۵- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی ۷۷

۳۳۷

''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م۶۳):(۱) ۷۷

۶- کعب الأحبار ۸۲

کعب الأحبار اور عمر ۸۳

کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۸۶

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار ۸۸

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف.. ۹۰

۷- وہب بن منبّہ ۹۳

وہب بن منبّہ کے عقائد ۹۴

تیسراباب. ۹۵

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. ۹۵

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. ۹۶

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات. ۹۷

۳۳۸

عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج ۹۸

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔ ۹۸

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج ۱۰۴

عمر کے دور حکومت میں تمیم داری. ۱۰۸

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا ۱۱۰

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی ۱۱۲

چوتھاباب. ۱۱۴

دشمنوں کے دو بنیادی حربے.. ۱۱۴

۱- مسلمانوں میں تفرقہ سازی. ۱۱۵

اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک. ۱۱۶

جہمیّہ ۱۱۶

اموی دور میں معتزلہ ۱۱۹

۳۳۹

مرجئہ ، اموی دور میں. ۱۲۰

بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ ۱۲۲

مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی ۱۲۴

معاشرے میں مرجئہ کا کردار ۱۲۶

بہشتی کافر! ۱۲۷

مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی ۱۲۹

مرجئہ کے فرقے ۱۳۰

ابو حنیفہ اور مرجئہ ۱۳۲

مرجئہ اور شیعہ ۱۳۴

مرجئہ اور شیعہ روایات. ۱۳۶

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار ۱۳۹

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ ۱۴۱

۳۴۰

341

342

343

344

345

346