معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168090 / ڈاؤنلوڈ: 7629
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسی طرح ہر نبی کا کوئی وصی ہوتا ہے جو اس کی امت میں اس کا خلیفہ ہوتا ہے تاکہ وہ تفرقہ و پراکنگی کا شکار نہ ہوجائے۔

قسم اپنی جان کی یہ تو فطری  چیز ہےکہ جیسے علما اور ان پڑھ مومنین و کافرین سب جانتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہر قبیلہ ، گروہ اور حکومت کا ایک ہی رئیس و صدر ہوتا ہے جو اس کا  قائد اور زمام دار ہوتا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں دو سرداروں کے حکم کی پیروی کریں۔

ان ہی وجوہ کی بنا پر  خدا نے ایک رسول ملائکہ میں سے اور ایک انسانوں میں سے منتخب کیا اور اپنے بندوں کی قیادت کےشرف سے انھیں سرفراز کیا اور انھیں امام بنایا  جو اس کے حکم کے مطابق ہدایت کرتے۔

ارشاد خداوند ہے:

" بے شک خدا نے آدم و نوح اور آل ابرہیم و آل عمران کو عالمین میں سے منتخب کرلیا ہے۔ (آل عمران/۳۳)

اور محمد(ص) کی ختمِ رسالت پر خدا نے جن لوگوں کو منتخب کیا وہ ائمہ نبی(ص) کی عترت میں سے ہیں اور سب کےسب آل ابراہیم (ع) سے ہیں اوران میں سے بعض ، بعض کی ذریت سے ہیں۔ رسول(ص) خدا نےان کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے، میرے  بعد بارہ(۱۲) خلیفہ ہوں گے وہ سب قریش سے ہوں گے( بخاری ج۸،ص۱۲۷، مسلم ج۶، ص۳، بعض روایات میں ہے کہ وہ خلفا سب بنی ہاشم سے ہوں گے ۔ خواہ بنی ہاشم سے ہوں اور خواہ قریش سے بہر حال سب نسلِ ابراہیم(ع) سے ہوں گے۔)

ہر زمانہ کا امام معین و معلوم ہے پس جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے اور خداوند عالم جس کی امامت کے لئے منتخب فرماتا ہےاس کو پاک و پاکیزہ رکھتا ہے ۔ اسے زبور عصمت سے آراستہ کرتا ہے، علم کے خزانہ سے

۱۸۱

مالا مال کرتا ہے اور حکمت اسی کودی  جاتی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہوتا ہے۔

اورجب  ہم اصل موضوع یعنی معرفت امام کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر وہ چیز جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے جیسے نصوص قرآن  و ںصوص سنت سے  احکام کا نکالنا اور قیامت میں جن چیزوں کی بشریت کو احتیاج ہوگی وہ سب ان کے پاس ہیں۔

ہم نے ائمہ اہلِ بیت(ع) کےعلاوہ ملت اسلامیہ میں سے کسی کو اس بات کا دعوی کرتے نہیں دیکھا جبکہ انھوں نے متعدد بار صریح طور پر یہ فرمایا : ہمارے پاس رسول(ص) کا املا کیا ہوا اور علی ابن ابی طالب(ع) کے ہاتھ کا لکھا ہوا، الجامعہ صحٰیفہ موجود ہے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی لوگوں کو  قیامت تک ضرورت ہوگی۔ یہاں تک اس میں ارش الخدش بھی مرقوم ہے۔

ہم اس صحیفہ جامعہ کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ جس کو علی(ع) اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔نیز بخاری و مسلم نے مختصر لفظوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے اس لئے کوئی مسلمان اسےجٹھلانہیں سکتا۔

اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ ائمہ اہلِ بیت(ع) سے احکام لیتے ہیں کہ جو شریعت میں نصِ قرآن و نصِ سنت سے حکم لگاتے ہیں وہ ان ( کتاب و سنت) کے علاوہ کسی اور چیز کے محتاج نہیں ہیں اور ائمہ اثناعشر کا زمانہ کم از کم تین سو سال پر  محیط ہے۔لیکن اہل سنت والجماعت خلیفہ اوّل ہی کے زمانہ سے نصوص کے فقدان اور ان سے ان کی سربراہوں کے جاہل ہونے کی بنا پر قیاس و اجتہاد کے محتاج ہیں۔

اور پھر خلفا نے ںصوص نبوی(ص) کو نذر آتش کردیا اور اس پرعمل کرنے اورانھیں قلم بند کرنے سے منع کردیا تھا۔

انکے سردار نے تو سنت نبوی(ص) کو دیوار پر دے مارا تھا اور صاف کہدیا تھا کہ ہمارے لئے کتابِ خدا کا فی ہے جب کہ وہ احکام قرآن کے سلسلہ میں واضح ںصوص کے محتاج تھے۔

اور اس بات کو تو سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن کےظاہری احکام بہت ہی مختصر ہیں اور

۱۸۲

 وہ اس کے عموم میں بھی نبی(ص) کے بیان کے محتاج ہیں لہذا ارشاد ہے:

ہم نے آپ(ص) پر  ذکر نازل کیا تاکہ لوگوں کو وہ چیز بتائیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔( نحل/۴۴)

اور جب قرآن اپنے احکام و مقاصد کے بیان کے سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کا محتاج ہے۔

اور جب اہل سنت والجماعت کے اقطاب نے قرآن کو بیان کرنے والی سنتِ نبی(ص) کو نذر آتش کردیا تھا  تو اس کے بعد ان کے پاس قرآن کو بیان کرنے والی ںصوص نہیں رہ گئی تھیں اور نہ ہی سنتِ نبوی(ص) کو بیان کرنے والی کوئی چیز باقی بچی تھی۔

اس لئے ناچار انھوں نے اجتہاد ، قیاس علما کے مشورے استحسان اور مصلحتِ وقت کے مطابق عمل کیا۔

بدیہی بات ہے کہ وہ نصوص کے  فقدان کی وجہ سے ان چیزوں کے محتاج قرار پائے اور ان  کے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آیا تھا۔

۱۸۳

تقلید و مرجعیت ، شیعوں کی نظر میں

وہ بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کا قرآن وسنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس کے لئے ضروری ہےکہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرئط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خدا ندِ عالم کا ارشاد ہے:

اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو۔(نحل/۴۲)

جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تومعلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے با خبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(ص) سے آج تک علمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔

شیعوں کی تقلید کا سسلسلہ ائمہ اثںا عشر تک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی  نہج پر  جاری رہا ۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ ان کےنزدیک نصوصِ قرآن و سنت ہی لائق اتباع تھیں۔ لہذا انھوں نے کبھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کےدرمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

۱۸۴

ان باتوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مذہب " اہل سنت والجماعت " خواہ وہ حنفی ہو یا مالکی ، شافعی ہو یا حنبلی، اس شخص کی رائے پر مبنی ہے جو زمانہ رسالت سے کافی بعد میں پیدا ہوا اور جس کا نبی(ص) سے کوئی ربط نہیں ہے۔

لیکن مذہب شیعہ امامیہ ذریٰت نبی(ص) کے بارہ(۱۲) ائمہ سے تواتر سے ثابت ہے ان میں سے بیٹا باپ سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ ایک امام کی حدیث ہے کہ میری حدیث میرے پدر کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث امیرالمؤمنین علی(ع) کی حدیث ہے اور علی(ع) کی حدیث رسول(ص) کی حدیث ہے اور رسول(ص) کی حدیث جبرئیل کی حدیث ہے اور وہ کلامِ خدا ہے۔

اگر یہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے (نساء/۸۲)

معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر فقہاء کا سلسلہ چلاآرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انھوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت وار تقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یاجسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو  رکھنا  یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔

او ر مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایان مقام پر فائذ ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا  مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہا جاتا ہے۔

شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہہ کی تقلید کرتےرہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات

۱۸۵

کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انھیں جواب دیتا ہے۔

اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعتِ اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب و سنت کی حفاظت کی ہے اور ائمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علما کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب (ع) ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے خود حضرت علی(ع)  صحیفہ جامعہ کو محفوظ رکھے ہوئے تھے کہ جس میں وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی قیامت تک لوگوں کو ضرورت ہوگی اور وہ صحیفہ باپ سے بیٹے کو میراث میں ملتا رہا اور وہ ایسے ہی اس کی حفاظت کرتے رہے جیسے لوگ سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہم شہید ّآیت اللہ باقر الصدر کا قول نقل کرچکے ہیں کہ:

ہم صرف قرآن و سنت  پر اعتماد کرتے ہیں:

ہم نے شہید صدر کی مثال پیش کی ہے ورنہ تمام شیعہ مراجع کا یہی قول ہے۔

شرعی تقلید اور دینی مرجعیت کے سلسلہ میں مختصر بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے حقیقت میں شیعہ ہی قرآن اور ان احادیث رسول(ص) کے اہل میں جو کہ باب العلم ، عالم ربانی نبی(ص) کے بعد امت کے مرشد ثانی ، جس کو قرآن میں نفس نبی(ص) کہا گیا ہے ، سے منقول ہیں۔ ( آیت" قل تعالوا ندع انفسنا و انفسکم" کی طرف اشارہ ہے کہ نفس کی جگہ رسول(ص) علی(ع) کو لے گئے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں مسلم باب فضائل علی علیہ السلام)

پس جو شہر میں آنا چاہتا ہے اور اس کے دروازہ سے داخل ہوتا ہے وہی شفا بخش چشم تک پہونچتا ہے، فائدہ اٹھاتا ہے اور شفا بخش علاج سے مستفید ہوتا ہے  اور اس رسی سے متمسک ہوتا ہے جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے چنانچہ خداوندِ عالم کا  ارشاد ہے:

۱۸۶

گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ (بقرہ ۱۸۹)

جو دروازہ کو چھوڑ کر کسی اور راستہ سے گھر میں داخل ہوتا ہے  وہ چور کہلاتا ہے اور جو گھر میں داخل نہ ہوا اور سنت نبی(ص) کو نہ پہچان سکا۔ اس  پر خدا عقاب کرے گا۔

۱۸۷

تقلید اہل سنت والجماعت کی نظر میں

جب ہم اس موضوع ، تقلید و مرجعیت اہل سنت کی نظر میں سے بحث کرتے ہیں تو متحیر رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا سلسلہ رسول(ص) سے جوڑتے ہیں لیکن ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ ، ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کی تقلید کرتے ہیں اور یہ چاروں رسول(ص) کو  نہیں پہچانتے تھے اور نہ ہی ان کی صحبت میں رہے تھے۔

جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) کی تقلید کرتے ہیں کہ جو ہمیشہ رسول(ص) کی خدمت میں رہے اور علی(ع) کے بعد جوانانِ جنت کے سردار امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) فرزندانِ نبی(ص) کی تقلید کرتے ہیں۔ پھر امام زین العابدین(ع) کی ان کے بعد ان کے فرزند باقر(ع) کی اور ان کے بعد ان کے لختِ جگر صادق(ص) کی تقلید کرتے ہیں، اس زمانہ میں اہل سنت والجماعت کا کہیں وجود بھی نہیں تھا اور نہ ہی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس وقت اہل سنت والجماعت کہاں تھے اور ان کا امام کون تھا کہ جس کی تقلید کرتے تھے اور شریعت کے حلال و حرام احکام کے سلسلہ میں نبی(ص) کی وفات سے لے کر ان مذاہب اربعہ کے وجود میں آنے تک وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟

۱۸۸

اس کے بعد مذاہبِ اربعہ ائمہ کی زندگی کا محور بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ اگر چہ بنی عباس کے حکام کے حسبِ منشا ائمہ اربعہ کے زمانہ میں تفاوت ہے جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں بیان کرچکے ہیں۔

اس کےبعد یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے چاروں مذاہب ایک بڑے ہی دلفریب نعرہ "اہلِ سنت والجماعت"  کے نیچے جمع ہوگئے۔ اور ہر دشمنِ علی(ع) آکر ان ہی میں شامل ہوگیا اور خلفاء ثلاثہ اور بنی امیہ و بنی عباس کے حکام کا شیدائی بھی ان میں مل گیا۔ پس لوگوں نے زبردستی بادلِ نخواستہ اس مذہب کی ترویج کررہے تھے۔ پھر لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر چلتے ہیں۔

پھر ہم اہلِ سنت والجماعت کو ائمہ اربعہ کی موت کے بعد اپنے علما پر دروازہ اجتہاد بند کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ پس وہ مردہ لوگوں ہی کی تقلید کرسکتے ہیں۔

شاید ان کے حکام و امراء ہی نے ان کے لئے دروازہ اجتہاد اس خوف سے بند کردیا تھا کہ کہیں لوگ فکری آزادی حاصل نہ کرلیں اور ہماری حکومت و نظام کے لئے چیلنج نہ بن جائیں لہذا انھوں نے نقد و تبصرہ کا حق بھی علما سے چھین لیا۔

لہذا اہلِ سنت والجماعت ایک ایسے مردہ شخص کے مقلد اور  کے پابند ہوکے رہ گئے کہ جس سے ان کی دید و شنید اور شناسائی تک نہیں ہے کہ جس سے اس کے عدل و ورع اور علم سے مطمئن ہوجاتے وہ صرف اسلاف کے سلسلہ میں حسنِ ظن رکھتے ہیں ان میں سے ہر فریق اپنے امام کے خیالی مناقب بیان کرتا ہے جبکہ ان کے ائمہ کے فضائل خواب و خیال یا ظن و وہم کی پیداوار ہیں ہر ایک گروہ اپنی ہی چیز پر خوش ہے۔

اگر آج اہلِ سنت والجماعت کے ذہین و روشن فکر ان نے ہودگیوں کو دیکھیں کہ جو ان کے بزرگوں نے بیان کی ہیں یا ان کے اقوال میں موجود اس تناقض کا جائزہ لیں کہ  جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر کہنے لگا اور جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہوگیا، تو وہ

۱۸۹

ضرور ان ائمہ کو چھوڑ دیں گے اور ہدایت پا جائیں گے۔

پھر ایک مسلمان دورِ حاضر میں اس شخص کی کیسے تقلید کرسکتا ہے کہ جو زمانہ کی جدتوں اور ایجاد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی کسی مسئلہ سے واقف ہے۔

طے شدہ بات ہےکہ مالک اور ابوحنیفہ اور اہلِ سنت سے قیامت کے روز اظہار برائت کریں گے اور کہیں گے۔ پروردگارا ان چیزوں کے بارے میں ہماری گرفت نہ فرما جن کے ہ مرتکب ہوئے ہین ہم تو انھیں جانتے بھی نہیں ہیں اور یہ بھی ہمیں نہیں جانتے اور ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں کہا کہ ہماری تقلید واجب ہے۔

مجھے نہیں معلوم اہلِ سنت والجماعت اس روز کیا جواب دیں گے جب خداوندِ عالم ثقلین کے بارے میں سوال کرے گا؟ پھر اس کے لئے رسول(ص) کو گواہی میں پیش کرے گا اور اہلسنت رسول(ص) کی گواہی نہیں جھٹلا سکیں گے ۔ خواہ یہ  عذر ہی کیوں نہ پیش کریں کہ ہم نے اپنے سرداروں کی اطاعت میں ایسا کیا ہے۔

اور جب ان سے خدا یہ سوال کرےگا کیا تم نے میری کتاب یا میرے رسول(ص) کی سنت میں مذاہبِ اربعہ کے اتباع میں کوئی عہد وپیمان یا محبت دیکھی ہے؟

اس کا جواب معروف ہے اس کے لئے مزید علم کی ضرورت نہیں ہے۔ کتابِ خدا  اور سنت رسول(ص) میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) میں صاف طور پر عترتِ طاہرہ(ع) سے تمسک کا حکم ہے اور ان سے روگردانی ۔ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ شاید وہ کہیں گے۔

پروردگارا ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک مرتبہ پھر لوٹا دے تاکہ ہم نیک کام کریں اب تو ہم کو پورا یقین آگیا ہے۔(سجدہ ۱۲)

لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تو تم پہلے بھی کہا کرتے تھے ۔ اور رسول(ص) فرمائیں گے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑدیا۔ میں نے انھیں اپنی عترت کے

۱۹۰

بارے میں وصیت کی اور اپنے قرابتداروں کے متعلق ان تک تیرا حکم پہنچادیا ، لیکن انھوں نے میری بیعت توڑ ڈالی اور مجھ سے قطع رحم کیا میرے بیٹوں کو ذبح کر ڈالا اور میری حرمت کو مباح سمجھا۔ انھیں میری شفاعت نصیب نہ ہو۔

ایک مرتبہ پھر ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ " اہل سنت والجماعت نے نہ رسول(ص) کے ساتھ صلہ رحم کیا اور نہ ان کی آل سے محبت کی اور جس نے عترت کو چھوڑدیا اس نے قرآن کو  چھوڑدیا اور جس نے قرآن کو چھوڑدیا  اللہ اس کا سرپرست و مددگار نہیں ہے۔

اور جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹنے لگیگا اور کہے گا اے کاش میں

 بھی رسول(ص) کے ساتھ ہوگیا ہوتا ہائے افسوس ! کاش میں فلاں

 کو دوست نہ بناتا یقینا اس نے میرے پاس نصیحت آنے کے بعد

مجھے بہکایا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے۔(الفرقان ۲۷/۲۹)

۱۹۱

خلفائے راشدین شیعوں کی نظر میں

یعنی نبی(ص) کی عترتِ طاہرہ(ع) میں سے بارہ ائمہ۔

۱: امیرالمؤمنین، امام المتقین، سفید پیشانی والوں کے پیشوا، مسلمانوں کےسردار، بادشاہ دین و شریعت، اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب(ع) ہیں، شہر علم کے وہ باب ہیں جنھوں نے عقلوں کو متحیر نفوس کو ہکابکا، دلوں کو ضیاء بار کردیا، اگر رسول(ص) کے بعد وہ نہ ہوتے تو دین قائم نہ رہتا۔

۲: امام ابو محّمد حسن بن علی(ع)، جوانانِ جنت کے سردار  ہیں جو کہ اس امّت میں نبی(ص) کا پھول ، عابد، زاہد اور سچے ناصح تھے۔

۳: امام ابو عبداللہ الحسین بن علی(ع) جوانان جنت کےسردار ہیں جو کہ اس امت میں نبی(ص) کا پھول، سید  الشہداء اور کشتۃ کربلا ہیں جس نے امت کی اصلاح کے لئے جامِ شہادت نوش کیا۔

۴: امام علی بن الحسین زین العابدین(ع) سید الساجدین ہیں۔

۱۹۲

۵: امام محمد بن علی(ع) ہیں جو کہ اوّلین و آخرین کے علوم کی تہوں میں اترے ہوئے تھے۔

۶: امام جعفرِ صادق بن محمد(ع) ہیں کہ ان جیسا نہ کسی آنکھ نےدیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دلِ میں نہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ میں کوئی ان سے بڑا بھی ہوگا۔

۷: امام موسیٰ کاظم بن جعفر(ع) ہیں جو کہ سلیل النبوّت اور معدن علم ہیں۔

۸: امام علی بن موسیٰ رضا(ع) ہیں  جنھیں بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی تھی۔

۹: امام محمّد بن علی الجواد(ع) ہیں جو کہ امام الجود والکرم اور اخلاق کے بلند پایہ پر فائز ہیں۔

۱۰: امام علی بن محمّد ہادی(ع) صاحبِ فضل و ہدایت ہیں۔

۱۱: امام حسن العسکری(ع) جوکہ زاہد و تقوی کے مرقع ہیں۔

۱۲: امام محمّد بن الحسن المہدی(عج) ہیں جوکہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اور ابنِ مریم ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔ خدا ان کے ذریعہ اپنے نور کو کامل کرے گا اور مؤمنوں کو فرحت بخشے گا۔یہ ہیں شیعوں کے بارہ ائمہ پس جب کہیں شیعہ اثناعشری، جعفری کا نام آتا ہے ۔ وہاں شیعہ مراد ہوتے ہیں۔ کوئی اور نہیں! کیونکہ شیعوں کے علاوہ اسلامی فرقوں میں کوئی بھی بارہ ائمہ کی امامت کا قائل نہیں ہے۔اور جب ہم ان کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کی چھان بین کرتے ہیں جوکہ ان کے فضل و شرف ، عظمت اور طینت کی پاکیزگی اور ان کے نفوس کی طہارت اور شان و شوکت  کو بیان کرتی ہیں ، جیسے آیت مودّت، آیت تطہیر ، آیت مباہلہ، آیت ابرار و صلوٰۃ وغیرہ۔

اور جب ہم ان کی شان میں نقل ہونے والی احادیث نبوی(ص) کی تحقیق کرتے ہیں جوکہ امت پر ان کی فضیلت و تقدم اور ان کے اعلم و معصوم ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ تو اس وقت ہم قطعی طور پر ان کی امامت کے قائل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہی امت کے لئے باعث امان اور راہِ ہدایت ہیں۔

اور عنقریب یہ بھی آشکار ہوجائے گا کہ شیعہ ہی کامیاب ہیں کیونکہ انھوں نے اللہ کی رسی کو

۱۹۳

 مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ یعنی ولایتِ اہلِ بیت(ع) کے معتقد ہیں اور اس مستحکم سلسلہ سے تمسک کر رکھا ہے جس میں کہیں خدشہ نہیں ہے۔ یعنی مودّت و محبّت اہلِ بیت(ع) کو دل میں سما رکھا ہے۔ چنانچہ وہ نجات کی کشتی پر سوار ہوکر ڈوبنے اور ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں۔

لہذا ہم پورے یقین ومعرفت اور اعتماد کےساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ امامیہ ہی اہلِ سنت ہیں۔

ارشاد خداوند ہے:

" یقینا تم غفلت میں پڑے تھے پس ہم نے تمھارے سامنے سے پردہ ہٹا دیا تو آج تمھاری آنکھیں چار ہوگئیں ۔"(ق/۲۲)

۱۹۴

خلفائے راشدین اہلِ سنت کی نظر میں

وہ چار خلیفہ جو وفاتِ رسول(ص) کے بعد تختِ خلافت پر متمکن ہوئے خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے اہلہِ سنت والجماعت انھیں نبی(ص) کے تمام صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ آج اہلِ سنت کی زبان سے ہمسنتے ہیں۔ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) کو اہلِ سنت دیگر خلفا میں بھی شمار نہیں کرتے تھے چہ جائے کہ خلفائے راشدین میں انھیں گنتے ہوں۔ عرصہ دراز کے بعد امام احمدبن حنبل نے علی(ع) کو زمرہ خلفا میں شامل کیا جچکہ اس سے قبل تمام اسلامی شہروں کے منبروں سے اور اموی بادشاہوں کی طرف سے آپ(ع) پر لعنت کی جاتی تھی۔

مزید تحقیق اور قارئین کو اس افسوس ناک حقیقت سے مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آنے والی عبارت کو مدِّ نظر  رکھا جائے۔

ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہی کہ عبداللہ بن عمر اہلِ سنت والجماعت کے بڑے فقہا میں سے ایک ہیں۔ موطا میں مالک نے اور بخاری و مسلم نے صحاح میں ان پر بہت اعتماد کیا ہے

۱۹۵

اور دیگر محدثین نے بھی بڑے باپ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انھیں اہمیت دی ہے۔

جب کہ عبداللہ بن عمر پکا ناصبی ہے۔ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) سے جس کا بغض آشکار ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اس نے خدا، امیر المؤمنین (ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔ جبکہ دشمن خدا و رسول(ص) حجاج ملعون کی بیعت کے لئے دوڑ پڑا تھا۔ ( حجاج بن یوسف ثقفی اپنے فسق و کفر اور  جرائم میں مشہور تھا اور دوسروں کی نظروں میں دین کو حقیر بنارکھا تھا۔ حاکم نے مستدرک  ج۳ ص ۵۵۶، ابن عساکر نے ج۴ ص۶۹ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج کہتا تھا کہ ابنِ مسعود یہ گمان کرتے ہیں کہ انھوں نے خدا کا قرآن پڑھا ہے! قسم خدا کی وہ قرآن نہیں ہے بکلہ عربوں کا ایک رجز ہے۔ وہ کہتا تھا کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس سے ڈرتے رہو! اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین عبدالملک بن مروان کی بات سنو اور اطالعت کرو۔ کیوں کہ یہی کارِ ثواب ہے ابنِ عقیل نے کتاب النصائح الکافیہ کے ص۸۱ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج نے کوفہ میں خطبہ دیا اور نبی(ص) کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا ہلاکت ان لوگوں کے لئے ہے جو لکڑی اور گیلی مٹی کا طواف کرتے ہیں ۔ امیرالمؤمنین عبدالملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ لوگوں کا خلیفہ وہ شخص ہے جو ان کے رسول(ص) سے بہتر ہے۔)

عبداللہ بن عمر نے اپنی دلی کیفیت اور پوشیدہ راز کا اس وقت انکشاف کیا جب اس نے علی(ع) کی کسی ایک بھی فضیلت و شرافت و منقبت کا اعتراف نہ کیا یہاں تک کہ عثمان بن عفان کے بعد چوتھے درجے میں بھی آپ(ع) کو نہ رکھا۔

اس کی نظروں میں ابوبکر وعمر اور عثمان سب سے افضل ہیں جبکہ علی(ع) کو ایک عام انسان سمجھتا ہے آپ کے سامنے میں ایک اور حقیقت پیش کرتا ہوں جس کو محدثین و مورخین نے نقل کیا ہے اس سے عبداللہ بن عمر کی علی(ع)  اور تمام ائمہ اطہار(ع) سے دشمنی اور کینہ توزی واضح ہوجائے گی۔

نبی(ص) کی الائمہ اثناعشری بعدی حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے عبداللہ بن عمر کہتا ہے کہ رسول(ص) کی یہ حدیث

۱۹۶

کہ میرے بعد بارہ(۱۲) خلیفہ ہوں گے اور سب قریش سے وں گے  کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ ہیں۔

ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالںورین، معاویہ اور مقدس زمین کا بادشاہ وہ اس کا بیٹا، سفاح، سلام ، منصور ، جابر، مہدی، امین، اور میرے العصیب یہ سب بنی کعب بن لوی کی اولاد میں سے ہیں اور سب صالح ہیں ان کی مثال نہیں ہے۔ ( تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۱۴۰، کنزالعمال جلد۶ ص۶۷ تاریخ ابن عساکر و ذہبی۔)

قارئین محترم اہلِ سنت والجماعت کے اس عظیم فقیہہ کے بارے میں پڑھئے اور تعجب کیجئے کہ وہ کس طرح حقائق کو بدل دیتا ہے اور معاویہ، اس اس کے بیٹے یزید اور سفاح کو تمام بندگان خدا سے افضل قرار دیتا ہے اور صریح طور پر کہتا ہے، وہ سب صالح تھے ان کی مثال نہیں ہے۔

بغض و عداوت نے اسے اندھا بنادیا تھا ۔اسی طرح حسد و بغض نے اس کی بصیرت چھین لی تھی چنانچہ امیرالمؤمنین علی(ع) کی اسے کوئی فضیلت ہی نظر نہیں آتی تھی اسی لئے تو اس نے آپ(ع) پر معاویہ اور اس کے بیٹے یزید زندیق اور مجرم سفاح کو مقدم کیا ۔ پڑھئے اور اس قولِ رسول(ص) کو فراموش نہ کیجئے کہ جس کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے کہ علی بن ابی طالب(ع) کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض نفاق ہے اور زمانہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منافقین  بغضِ علی(ع) ہی سے پہچانے جاتے تھے۔)عبداللہ بن عمر یقینا اپنے باپ کا حقیقی بیٹا تھا۔ کیوںکہ برتن میں جو ہوتا ہے اس سے وہی ٹپکتا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے باپ نے علی(ع) کو خلافت سے الگ رکھنے اور لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔

یہ ان ہی کا کینہ توزی اور شقی بیٹا ہے۔ عثمان کے بعد علی(ع) کے خلیفہ ہونے اور انصار و مہاجرین کے بیعت کر لینے کے باوجود عبداللہ بن عمر نے علی(ع) کی بیعت  نہ کی اور آپ(ع) کی شمع حیات کو گل کرنے کے درپے رہا اور آپ(ع) کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتارہا۔ اسی لئے تو مسلمانوں سے

۱۹۷

کہتا تھا کہ علی(ع) کی حیثیت تھوڑی ہی ہے وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے عام آدمی۔

لیکن عبداللہ بن عمر اموی حکومت کی بے لوث خدمت کرتا اور معاویہ و یزید(لع)  کو جھوٹی خلافت کا تاج پہناتا ہے اور نبی(ص) پر بہتان لگاتا ہے ۔ منصور و سفاح اور بنی امیہ کے تمام فاسق و فاجر کی خلافت کو تسلیم کرتا ہے اور انھیں مسلمانوں کے سردار ، نص قرآن و سنت سے مومنین کے ولی پر مقدم کرتا ہے اور علی(ع) کی خلافت کا اعتراف نہیں کرتا ہے یہ چیزیں یقینا تعجب  خیز ہیں۔

آنے والی بحثوں میں ہم عبداللہ بن عمر سے پھر ملاقات کریں گے تاکہ ان کی حقیقت کا انکشاف کرسکیں۔ اگر چہ ان کو غیر معتبر قرار دینے اور دائرہ عدالت سے خارج کرنے اور دائرہ نواصب میں رکھنے کے لئے ہمارا گذشتہ بیان کافی ہے۔ یہ ہیں مذہبِ اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھنے والے ابنِ عمر چنانچہ آج وہی ان کے بڑے فقیہہ اور عظیم محدث بھی ہیں۔

اگر آپ مغرب و مشرق کی خاک چھانیں اور اہلِ سنت والجماعت کی ساری مسجدوں میں نماز پڑھیں اور ان کے علما سے گفتگو کریں تو ان کے علما سے یہ" عن عبدالل ه بن عمر" سنتے سنتے آپ کے کان پک جائیں گے۔

۱۹۸

نبی(ص) کو اہل سنت والجماعت کی تشریع قبول نہیں

گذشتہ بحثوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شیعہ ائمہ اہل بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں۔ اور رائے و قیاس پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان دونوں کو حرام جانتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک رائے و قیاس نصِ نبوی(ص) سے حرام ہیں اور یہی فکر ان میں نسلا بعد چلی آرہی ہے۔ جیسا کہ اس صحیفہ جامعہ کا ذکر ہوچکا ہے کہ جس کا طول ستر (۷۰) گز ہے اور جس میں مسلمانوں کی قیامت تک کی مایحتاج  چیزیں مرقوم ہیں۔

یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اہل سنت والجماعت ہر عمل میں رائے اور قیاس کے محتاج ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نصوص نبوی(ص) نہیں ہیں۔ جبکہ یہ اس کے محتاج ہیں ۔ کیونکہ ان کے بڑے سرداروں نے نصوصِ نبوی(ص) کا انکار کیا اور انھیں نذرِ آتش کردیا اورلوگوں کو ان کی تدوین وجمع آوری سے منع کردیا تھا۔

اس کے بعد اجتہاد ورائے کےقائلوں نے اپنے مذہب کی تائید اور حق کو باچل سے مشتبہ کرنے کے لیے رسول(ص) ک طرف سے حدیثیں گھڑیں اور کہا کہ جب رسول(ص) نے معاذ بن جبل

۱۹۹

کو یمن بھیج اتوان سے پوچھا تم کیسے فیصلے کروگے؟ معاذ نے کہا: میں کتابِ خدا سے فیصلہ کرونگا نبی(ص) نےفرمایا:

کتابِ خدا میں اس کا حکم نہ ہو تو؟

معاذ نے کہا:

تو سنتِ رسول(ص) سے فیٓصلہ کروں گا۔

رسول(ص) نے فرمایا:

اگرسنت رسول(ص) میں بھی نہ ہو توؕ

معاذ نےکہا:

اس وقت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔

اس وقت نبی(ص) نے فرمایا:

حمد و ستائش ہے خدا کی کہ جس نے رسول اللہ(ص) کے نمائندہ کو ایسی توفیق عطا کی جس سے اللہ اور اس کا رسول(ص) راضی ہے۔

یہ حدیث باطل ہے۔ رسول اللہ(ص) ایسی بات نہیں کہہ سکتے اورنبی(ص) معاذ سے کیونکر کہہ سکتے تھے اگر تمھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) میں اس چیز کا حکم نہ ملے؟ جب کہ خدا نے اپنے رسول(ص) سے فرمایا تھا:

اور  ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ (نحل/۸۹)

ہم نے کتاب میں کوئی بات بھی بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی ہے۔(انعام/۳۸)

جو کچھ رسول(ص) تمھارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔(حشر/۷)

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

     عمر نے کہا: کیا میں وہ شخص ہوں؟     آنحضرت نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ہے کہ جو اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا ہے۔

     پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔(۲)(۱)

     یہ روایت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے جنگوں کے حق پر ہونے اور آنحضرت سے جنگ کرنے والوں کی گمراہی کی تائید کرتی ہے۔ چاہے وہ ناکثین ہوں، قاسطین ہوں یا پھرمارقین ہوں۔

 محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     جن ایام میں رسول خدا(ص) مدینہ میں تھے تو ابوبکر کو کسی ایک جنگ میں بھیجا گیا۔اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب دیکھا کہ جیسے ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو مہندی لگائی ہو اور سفید کپڑے پہنے ہوں۔ وہ عائشہ کے پاس آئی اور اس نے اپنا خواب بیان کیا۔     عائشہ نے کہا:اگر تمہارا خواب سچا ہو تو ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔وہ خضاب اس کا خون اور سفید کپڑے اس کا کفن ہے۔اس نے رونا شروع کر دیا اور جب عائشہ رو رہی تھی تو پیغمبر اکرم(ص) تشریف لائے اور اس سے پوچھا:تم کس لئے رو رہی ہو؟     انہوں نے کہا:اے رسول خدا(ص)؛اسے کسی نے نہیں رلایا ہے ۔اسماء نے ابوبکر کے بارے میں جو خواب دیکھا ہے کہ جس کی وجہ سے عائشہ رو رہی ہے۔جب آنحضرت سے وہ خواب بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

     جس طرح عائشہ نے تعبیر کی ہے ویسے نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم واپس آ جائے گا۔اسماء کو دیکھ رہے ہو۔اسماء حاملہ ہو گی اور وہ ایک بیٹے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمدرکھا جائے گااور خدا وند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔(۳)

--------------

[۱] ۔ اس حدیث اور اس میں ذکر ہونے والے منابع کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے کتاب "فضائل الخمسة من الصحاح الستّة'':ج۲ص۳۵۴-۳۴۹ تیسری چاپ بیروت ۱۳۷۳ ہجری  قمری کی طرف رجوع فرمائیں۔

[۲]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ص۳۸۹

[۳]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۳ص۲۲۷

۳۲۱

یہ واقعہ کتاب''الغارات''میں کچھ فرق کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

     ابواسحاق کہتے ہیں:جب محمد کی ماں  اسماء بن عمیس کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی اور اس کے ساتھ جو کچھ بیتا،وہ اس سے آگاہ ہوئی تو انہوں نے اپنے حزن کو ظاہر نہ ہونے دیا جب کہ دل میں وہ غمگین تھی۔جب وہ مسجد کی طرف جا رہی تھی تو اس کے سینہ سے خون جاری ہو گیا۔

     ابواسماعیل کثیر النواء کہتے ہیں:ابوبکر کسی جنگ میں شرکت کے لئے مدینہ سے باہر گیا تو اس کی بیوی اسماء بنت عمیس نے خواب میں دیکھا کہ ابوبکر نے اپنے سر اور داڑھی کو خضاب لگایا ہے اور سفید لباس پہنا ہے۔وہ عائشہ کے پاس آئیں اور اس سے اپنا خواب بیان کیا ۔عائشہ نے کہا کہ اگر تمہارا خواب سچ ہے تو گویا ابوبکر قتل ہو گیا ہے۔خضاب خون کی علامت ہے اور اس کا سفید لباس اس کے کفن کی علامت ہے۔عائشہ روتی ہوئی رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئی۔رسول اکرم(ص) نے پوچھا:تم کیوں رو رہی ہو؟     اس نے اسماء کاخواب بیان کیا۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:عائشہ نے جو تعبیر کی ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابوبکر صحیح و سالم  اسماء کے پاس واپس آ جائے گا۔اس کے بعد اسماء ایک بچے کو جنم دے گی کہ جس کا نام محمد رکھا جائے گا،خداوند اسے کافروں اور منافقوں کے لئے غضب قرار دے گا۔

     یہ جوان وہی محمد بن ابی بکر ہیں کہ جو اس دن شہید ہوئے۔(۱)

     جیسا کہ رسول خدا نے خبر دی تھی محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں آپ کے باوفا ساتھیوں اور آنحضرت کے دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا تھے۔جنگ جمل و صفین میں آپ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے اور آپ اپنی زندگی کے آخری دن تک آنحضرت کی خدمت میں رہے۔

     محمد بن ابی بکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرف سے مصر کے حاکم تھے اور بالآخر معاویہ بن حدیج کے ہاتھوں شہید ہو گئے کہ جسے معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص نے محمد بن ابی بکر کو گرفتار کرنے کے لئے مأمور کیا تھا۔

--------------

[۱]۔ الغارات و شرح اعلام آن:۱۵۰

۳۲۲

     معاویہ بن حدیج شریر اور بے رحم شخص تھا۔اس نے محمد بن ابی بکر کو مصر میں گرفتار کرنے کے بعد پہلے ان کی گردن جدا کی اور پھر ان کا جسم گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دیا۔

     جب محمد کی بہن عائشہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بے تاب ہوئی اس کے بعد وہ ہمیشہ ہر نماز کی تعقیبات میں قنوت پڑھتی تھی کہ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عمروبن عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھے۔

     جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو کوفہ میں محمد بن ابی بکر کی شہادت  کی خبر ہوئی تو آپ بہت غمگین ہوئے اور فرمایا:

     بیشک مکہ کو تباہ کرنے والو اور ظلم و ستم کو دوست رکھنے والو اور لوگوں کو خدا کی راہ سے دور رکھنے والو اور اسلام کو کجی کی طرف لے جانے والو ۔آگاہ ہو جاؤ کہ محمد بن ابی بکر شہید ہو گئے ہیں ،ان پر خدا کی رحمت ہو،انہیں خدا کے نزدیک بغیر حساب لایا جائے گا۔

     مدائنی کہتے ہیں: علی علیہ السلام سے کہا گیا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام !آپ محمد بن ابی بکر کی  شہادت پر بہت بے چین ہوئے؟

     فرمایا: اس میں کیا حرج ہے ، وہ میرے ہاتھوں کا پروردہ اور تربیت یافتہ تھا اور وہ میرے بیٹوں کے لئے بھائی اور میں اس کا باپ ہوں اور وہ میرے بیٹے کی طرح ہے۔(۱)

سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

     شریک روایت کرتے ہیں:عبداللہ بن سعد نے حجر بن عدی سے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :میں مدینہ میں آیا اور میں ابوہریرہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔  اس نے پوچھا:کہاں کے رہنے والے ہو؟

     میں نے کہا:میں بصرہ کا رہنے والا ہوں۔

--------------

[۱]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آئندہ:۳۵۱

۳۲۳

     اس نے پوچھا:سمرة بن جندب کا کیا حال ہے؟میں نے کہا:وہ زندہ ہے۔

     اس نے کہا:کسی اور کی لمبی عمر میرے لئے اس کی لمبی عمر سے زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔

     میں نے کہا:اس کی کیا وجہ ہے؟کہا:پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے ،اسے اور حذیفہ بن الیمان سے فرمایا تھا:جو کوئی بھی تم میں سے دو کے بعد مرے وہ دوزخ میں ہے۔     حذیفہ مجھ سے پہلے چلے گئے اور اب میری یہ خواہش ہے کہ میں سمرة سے پہلے مر جاؤں۔     کہتے ہیں: سمرة حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت تک زندہ تھا۔

     احمد بن بشیر ، مسعربن کدام سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:امام حسین علیہ السلام کے کوفہ کی طرف روانگی کے وقت سمرة بن جندب عبداللہ بن زیاد کا سپہ سالار تھا اور وہ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے اور قیام کے لئے  ابھارتاتھا۔(۱)

کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     حسن بن محبوب نے ثابت ثمالی اور انہوں  نے سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے:  ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے۔ایک شخص منبر کے پاس سے اٹھا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین !میں وادی القری سے گذر رہا تھا تو میں متوجہ ہوا کہ خالد بن غرفطہ مر گیا ہے۔اس کے لئے مغفرت طلب کریں۔     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:  خدا کی قسم!وہ نہیں مرا اور تب تک نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ گمراہ لشکر کی قیادت کرے گا جو اس کے علم کو کندھوں پر اٹھائے گا۔وہ حبیب بن حمار(۲) ہیں ۔

--------------

[۱] ۔ سمرة کی موت کے سال میں اختلاف ہے اور اس کے بارے میں ۵۸،۵۹ اور ۶۰ ہجری لکھا گیا ہے۔ابن عبدالبر نے کتاب الاستیعاب: ج ۲ص۷۶ میں الاصابہ کے حاشیہ میں لکھا ہے: وہ ابلتے پانی کے برتن میں گر کر جل گیا اور ابوہریرہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے جو بات فرمائی تھی (کہ تم تینوں میں سے جو آخر میں مرے وہ آگ میں ہے) وہ  بات صحیح  ثابت ہوئی۔

[۲] ۔ حالانکہ تہران کی قدیم چاپ میں بھی اس شخص کا نام یہی نام ہے لیکن ظاہراً اس کا صحیح نام جماز ہے کہ جو شیخ مفید کی کتاب ''اختصاص'' اور صفّار کی کتاب ''بصائر الدرجات'' میں آیا ہے: بحار الأنوار:ج ۴۱ص۲۸۹

۳۲۴

     اسی وقت ایک دوسرا شخص منبر کے قریب سے کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام ؛!میں حبیب بن حمار ہوں۔آپ کا شیعہ اور محب ہوں۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:تم حبیب بن حمار ہو؟

     کہا:جی ہاں۔

     علی علیہ السلام نے دوبارہ پوچھا:تمہیں خدا کی قسم!کیا تم ہی حبیب بن حمار ہو؟

     اس نے کہا: خدا کی قسم!جی ہاں۔

     فرمایا: خدا کی قسم؛تم وہ علم کندھوں پر اٹھاؤ گے اور اس علم کے ساتھ مسجد کے اس دروازے سے داخل ہو گے۔اور آپ نے مسجد کوفہ کے باب الفیل کی طرف اشارہ کیا۔ثابت نے کہا:خدا کی قسم ؛میں تب تک نہیں مرا کہ جب تک میں نے ابن زیاد کو دیکھا کہ اس نے عمرو بن سعد کو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے بھیجا۔اس نے خالد بن عرفطہ کو اپنے لشکر کا سالاربنایا اور حبیب بن حمار نے اس کا رایت اپنے کندھوں پر اٹھایا اور باب الفیل سے مسجد میں داخل ہوا۔(۱)

کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے منبر پر خطبہ دیااور اس کے ضمن میں فرمایا:

     ''مجھ سے پوچھو؛ اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو.....''

     تمیم بن اسامة بن زہیر بن درید تمیمی نے آپ پر اعتراض کیا اور آپ کی بات کو کاٹ کر پوچھا:

      میرے سر پر کتنے بال ہیں؟

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

--------------

[۱] ۔ یہ موضوع امالی شیخ صدوق میں  آیاہے کہ جو اس میں سہو سے خالی نہیں ہے، شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں تمیم اور حصین کا نام ذکر کئے بغیر اسے ذکر کیا ہے ۔ مفید ی پیروی کرتے ہوئے طبرسی نے بھی اعلام الوری میں کسی کا نام ذکر نہیں کیا۔:بحار الأنوار: ج۴۴ص۲۵۷

۳۲۵

     بیشک خدا کی قسم؛میں یہ جانتا ہوں اور فرض کرو کہ میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں تو تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہو گی(تم کس طرح انہیں گنوگے) اور میں تمہیں تمہارے کھڑے ہونے اور سوال پوچھنے کی وجہ سے ایک خبر دیتا ہوںکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہارے ہر بال پر ایک فرشتہ ہے کہ جو تجھ پر لعنت کر رہا ہے اورایک شیطان تمہیں ابھارتا ہے اور اس بات کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے گھر میں ایک شیر خوار بچہ ہے کہ جو رسول خدا(ص) کے بیٹے (امام حسین علیہ السلام) کو قتل کرے گا اور دوسروں کوبھی ان کے قتل کے لئے ابھارے گا۔

     اور بعینہ ویسے ہی ہوا جیسی امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ تمیم کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام حصین تھا کہ جو اس وقت شیر خوار بچہ تھا اور بالآخر یہ ابن زیاد کے لشکر کا سالاربن گیا اور ابن زیاد نے اسے عمر بن سعد کے پاس بھیج دیا اور اسے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیااور حصین سے کہا:ابن سعد کو اس کے قول سے خبردار کرے کہ ان  کے کام میں تأخیر نہ کرے۔جس دن امام حسین علیہ السلام صبح کی شہادت ہوئی اس سے پہلے والی رات حصین کربلا پہنچا تھا۔(۱)

  پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

     قابل توجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے تمام منصوبوں کے ذریعہ پیشنگوئیوں کو روکنے کی کوشش کی  اور  انہوں نے رسول خدا(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی حدیثوں کو لکھنے اور تدوین کرنے سے منع کیا(۲) اور اسی طرح پیشنگوئیوں کو چھپانے کے لئے ان کے ددوسرے تمام منصوبوں کے علاوہ بھی یہ لوگوں تک پہنچ گئیں اور جس طرح ہم نے بعض موارد میں ذکر کیاہے کہ یہ پیشنگوئیاں بہت سے لوگوں کو  بیدار کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کا باعث بنیں۔     یہ واضح سی بات کہ اگر لوگ پیغمبر خدا(ص) اور آپ کے پاک خاندان علیہم السلام کے تمام فرمودات سے آگاہ ہوجائیں تو بے شمار افراد راہ راست پر آجائیں گے۔

--------------

[۱]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۵ ص۱۰

[۲] ۔  احادیث کو تدوین کرنے سے روکنے کے مختلف عوامل ہیںکہ جن میں سے ایک عامل رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔

۳۲۶

     بہت ہی بہترین اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ لوگوں میں خاندان اطہار علیہم السلام کی کچھ پیشنگوئیاں پھیلنے کے بعد دشمن کو خاندان وحی علیہم السلام کی پیشنگوئیوں کو روکنے کے سلسلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑاتو انہوں نے ان پیشنگوئیوں کی مخالفت کے لئے نیا منصوبہ بنایا تا کہ شاید ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو ختم کر سکیں کہ جن کی وجہ سے لوگ ہدایت پا رہے تھے،بلکہ ان کے مثبت اثرات کومنفی اثرات میں تبدیل کر سکیں ۔ جب کہ وہ اس چیز سے غافل تھے کہ(وَ مَکَرُوا وَمَکَرَ اللّٰه وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْن) ۔ لیکن ان کے نئے منصوبے بھی ان پیشنگوئیوں کے اثرات کو کم نہ کر سکے بلکہ اس سے بنی امیہ اور خاندان وحی علیہم السلام کے مخالفین کو مزید رسوائی کا سامنا کرنا پڑا  اور ان کی رسوائی میں سو گنا اضافہ ہوا۔

     لوگوں میں پھیلنے والی پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے ان کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ ان کے برخلاف عمل کرتے تھے ۔ بنی امیہ اور دوسرے تمام دشمنوں نے یہ ارادہ کیا کہ پیشنگوئیوں میں   جو کچھ کہا گیا ہے اس کے برخلاف عمل کریں تا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ان کے مثبت اثرات کو ختم کرکے لوگوں کو بدظن کریں اور ان کے جھوٹ ہونے کو ثابت کر سکیں!

     ہم یہاں ان پیشنگوئیوں کے ددو نمونہ نقل کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے ان کی مخالفت کرنے اور ان کے برخلاف عمل کرنے کا ارادہ کیا تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ ان کے اس منصوبہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے نہ صرف خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کی عظمت مزید واضح ہوگئی بلکہ بنی امیہ اور اہلبیت علیہم السلام کے دوسرے دشمنوں کی خباثت بھی مزید آشکار ہوگئی۔

     یہ پیشنگوئیاں شیعوں کی دو  بہت ہی باعظمت شخصیات کے بارے میں ہیں: ایک رشید ہجری اور دوسرے جناب میثم تمّار ہیں۔

     اب ہم ان پیشنگوئیوں کو نقل کریں گے اور پھر ان کا تجزیہ و تحلیل کریں گے:

۳۲۷

 ۱- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' کے مؤلف لکھتے ہیں: زیاد بن نصر حارثی کہتے ہیں: میں زیاد بن ابیہ کے پاس تھاکہ (حضرت) علی علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے رُشید  ہَجَری کو اس کے پاس لایا گیا۔

     زیاد نے ان سے پوچھا: تمہارے دوست (حضرت علی علیہ السلام) نے ہمارے اعمال کے بارے میں تجھ سے کیا کہا ہے؟

     رُشید نے کہا: میرے آقا نے فرمایا کہ میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کرمجھے تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔

     زیاد نے کہا: خدا کی قسم میں ان کی بات کو غلط ثابت کر دوں گا ! اسے آزاد کر دو۔

     جیسے ہی رُشید نے جانا چاہا ،زیاد نے کہا: اسے واپس  لے آؤ۔پھر رشید کی طرف رخ کر کے کہا:

     تمہارے دوست نے تمہارے بارے میں جو کچھ کہا، مجھے تمہارے لئے اس سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔اگر تم زندہ رہے تو ہمیشہ میرے لئے شرّاور بدی کی کوشش کرتے رہو گے ۔پھر اس نے حکم دیا کہ رُشید کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔

     رشید اس حالت میں بنی امیہ اور  زیاد پر لعنت (سبّ و شتم) کر رہے تھے۔ زیاد نے حکم دیاکہ رشید کو پھانسی دے دی جائے۔ جب انہیں تختۂ دار پر لے کر گئے تورشید نے کہا: میرے ساتھ تمہار ایک کام باقی رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ تم وہ کام انجام نہیں دو گے۔

     زیاد نے کہا: اس کی زبان  کاٹ دو۔جب  زیاد کے جلّادوں نے ان کی زبان باہر نکالی تا کہ اسے کاٹ دیں تو رشید نے کہا: مجھے ایک بات اور کہنے کی اجازت دے وو۔ جب انہیں اجازت دے دی گئی تو رشید نے کہا:خدا کی قسم؛ یہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خبر کی تصدیق ہے کہ انہوں نے مجھے اس کی خبر دی تھی کہ میری زبان کاٹ دی جائے گی اور پھر ان کی زبان کاٹ دی گئی۔(۱)

--------------

[۱]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: ۱۱۶

۳۲۸

 ۲- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     کتاب ''الغارات'' میں محمد بن حسن میثمی نقل کرتے ہیں:

     میثم تمار حضرت علی علیہ السلام کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ پہلے وہ بنی اسد کی ایک عورت کے غلام تھے امام علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کر دیا اور ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟

     انہوں نے کہا: سالم

     امام علی علیہ السلام نے فرمایا:رسول خدا(ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے باپ نے عجم میں تمہارا جو نام رکھا تھا، وہ میثم تھا ۔ میثم نے کہا:جی ہاِں! خدا ،اس کے رسول اور آپ امیر المؤمنین نے سچ کہا ہے اور  خدا کی قسم !میرا نام وہی میثم ہے۔

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:اپنے نام کی طرف لوٹ جاؤاور سالم کو چھوڑ دو اور ہم تمہاری کنیت ابو سالم رکھتے ہیں۔

     احمد بن حسن کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے انہیں علوم اور اسرار و رموز میں سے بہت سے رازوں سے آگاہ کیا تھا اور میثم ان میں سے کچھ بیان بھی کرتے تھے ۔

     کوفہ کے کچھ لوگوں کو اس بارے میں شک و تردیدتھی۔وہ امام علی علیہ السلام پر خرافات کہنے والے اور تدلیس کرنے والے کا الزام لگاتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے بہت سے اصحاب (کہ جن میں مخلص اور شک کرنے والے دونوں شامل تھے)کے سامنے جناب میثم سے فرمایا:اے میثم!میرے بعد تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور تختۂ دار پر لے جایا جائے گا،دوسرے دن تمہارے ناک اور منہ سے خون نکلے گا کہ جس سے تمہار داڑھی رنگین ہو جائے گی، تیسرے دن تم پر گرز ماراجائے گی جس سیتمہاری شہادت ہو جائیگے۔انتظار کرو اور جہاں تمہیں صلیب پر لے جایا جائے گا ،وہ جگہ عمر وبن حریث کے گھر کے دروازے کے ساتھ ہے اور تم ان دس افراد میںسے دسویں ہو گے کہ جن کا تختہ زمین پرسے سب سے زیادہ نزدیک ہو گا۔میں تمہیں کھجور کا وہ درخت بھی دکھاؤں گا کہ جس پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔

۳۲۹

     دو دن کے بعد امام علی علیہ السلام نے میثم کو وہ درخت دکھایا، میثم اس درخت کے پاس آ کر نماز ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم کجھور کے کتنے خوش نصیب درخت ہو کہ میں تمہارے لئے خلق کیا گیا ہوں اور تم میرے لئے پیدا کئے گئے ہو۔

     جناب میثم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس درخت کے پاس آتے  یہاں تک کہ اس کو کاٹ دیا گیا لیکن وہ اسی طرح اس درخت کے تنے کا خیال رکھتے اور اس کے پاس رفت و آمدکرتے تھے اور اس کی طرف دیکھتے تھے۔جب بھی عمرو بن حریث کو دیکھتے تھے تو اس سے کہتے کہ  میں جلد ہی تمہارا ہمسایہ بن جاؤں گا۔میرے ساتھ اچھے پڑوسی کی طرح برتاؤ کرنا۔

     عمرو بن حریث کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ ان سے پوچھاکہ کیا آپ یہاں ابن مسعود کا گھر خریدنا چاہتے ہیں یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں؟

     جس سال میثم شہید ہوئے انہوں نے حج ادا کیا( ۶۰ھ) وہ مدینہ میں رسول اکرم(ص) کی زوجہ جناب ام سلمہ کے پاس آئے  تو جناب ام سلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:میں عراقی شخص ہوں؟

     ام سلمہ نے ان سے کہا:اپنا حسب و نسب بتاؤ؟

     انہوں نے کہا:میں علی علیہ السلام کا آزاد کیا ہوا غلام ہوں۔

     ام سلمہ نے کہا:کیا تم میثم ہو؟

     کہا:ہاں میں میثم ہوں۔

     جناب ام سلمہ نے کہا: سبحان اللہ؛ خدا کی قسم! میں نے بہتمرتبہ رسول خدا(ص) کو آدھی رات کے وقت حضرت علی علیہ السلام سے تمہارے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔

     جناب میثم نے حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ  نخلستان (مدینہ)میں ہیں۔

     جناب میثم نے کہا: ان سے کہیں کہ میں آپ کو سلام کہنا چاہتا تھا اور ہم خدا کے سامنے آپس میں ملاقات کریں گے۔آج آپ کے دیدار کی فرصت نہیں ہے۔اور میں واپس آنا چاہتا ہوں۔

۳۳۰

     اس وقت ام سلمہ نے عطر منگوائی ،عطر لایا گیا توجناب میثم نے اس سے اپنی ڈاڑھی معطر کی ۔

     جناب میثم نے کہا:بیشک جلد ہی یہ داڑھی خون سے خضاب ہو گی۔

     جناب ام سلمہ نے پوچھا: کس نے تمہیں اس بارے میں خبر دی ہے؟

     فرمایا:میرے آقا و مولا نے مجھے بتایا ہے۔

     جناب ام سلمہ نے گریہ کیا اور فرمایا:وہ صرف تمہارے ہی آقا و مولا نہیں ہیں بلکہ وہ میرے اور تمام مسلمانوں کے آقا و مولا ہیں ۔

     پھر جناب میثم تمار نے انہیں الوداع کیا اور عراق واپس چلے گئے۔ جب وہ کوفہ پہنچے تو انہیں گرفتار کرکے کر عبداللہ بن زیاد کے پاس لے گئے ۔ ابن زیاد سے کہا گیا کہ یہ ابوتراب کی نظر میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ برگزیدہ ہے۔

     ابن زیاد نے کہا: تم لوگوں پر وای ہو؛یہ عجمی شخص؟!

     کہا:ہاں۔

     عبداللہ نے میثم سے کہا:تمہارا پروردگار کہاں ہے؟

     جناب میثم نے کہا: تمہاری کمین گاہ میں ہے۔

     ابن زیادنے کہا: ابوتراب کے بارے میںاپنے عشق و محبت کے بارے میں بتاؤ؟

     جناب میثم نے کہا:کسی حد تک ایسے ہی تھا اور اب تم کیا چاہتے ہو؟

     ابن زیاد نے کہا:کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ جلد ہی جو کچھ ہو گا ،انہوں نے تمہیں اس سے آگاہ کیا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔

     ابن زیاد نے پوچھا:میں تمہارے ساتھ جو کچھ کروں گا،اس کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے؟

     جناب میثم نے کہا:انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم مجھے پھانسی دو گے جب کہ میں دسواں شخص ہوں گا میرا پھانسی کا تختہ سب سے چھوٹا ہو گا اور میں سب سے زیادہ زمین سے نزدیک ہوں گا۔

۳۳۱

     ابن زیاد نے کہا:میں یقینا ابوتراب کے قول کی مخالفت کروں گا ۔

     میثم نے کہا: اے ابن زیاد!وای ہو تجھ پر! تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو حالانکہ انہوں  نے رسول خدا(ص) کے قول سے اور رسول خدا(ص) نے جبرئیل اور جبرئیل نے خداوند سے یہ خبر دی ہے؟ تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو؟ بیشک خدا کی قسم! کوفہ میں مجھے جس جگہ پھانسی دی جائے گی میں اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔میں خدا کی وہ پہلی مخلوق ہوں کہ اسلام میں جس کے منہ پر اس طرح لگام لگائی جائے گی کہ جس طرح گھوڑے کو لگام لگائی جاتی ہے۔     اس گفتگو کے بعد ابن زیاد نے جناب میثم کو قید کر دیا اور مختار بن ابی عبید ثقفی کو بھی ان کے ساتھ قید کر دیا جب کہ وہ دونوں ابن زیاد کی قید میں تھے ،جناب میثم نے مختار سے کہا:تمہیں اس شخص کی قید سے رہائی مل جائے گی اور تم امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینیکے لئے قیام کرو گے اور ہم جس ظالم کی قید میں ہیں تم اسے قتل کرو گے اورتم اسی پاؤں (مختار کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا) سے اس کے چہرے اور گالوں کو کچلو گے۔ انہیں دنوں میں ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے لئے زندان سے بلوایا لیکن اچانک یزید بن معاویہ کی طرف سے خط آیا جس میں ابن زیاد کو خطاب کیا گیا تھا اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ مختار کو آزاد کر دیا جائے۔اس کی یہ وجہ تھی کہ مختار کی بہن عبداللہ بن عمر کی بیوی تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ یزید سے مختار کی شفاعت کرے ،عبداللہ نے ایسے ہی کیا اور یزید نے اس کی شفارش مان لی اور مختار کی رہائی کا فرمان لکھ دیااور تیز رفتار سواری پر کوفہ بھیج دیا۔وہ خط اس وقت پہنچا کہ جب مختار کو قتل کرنے کے لئے باہر لایا جا رہا تھا۔اس طرح مختار کو رہا کر دیا گیا ۔ان کی رہائی کے بعدجناب میثم کو باہر لایا گیا تا کہ انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔

     ابن زیاد نے کہا:ابوتراب نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہی کروں گا۔

     اسی وقت ایک شخص نے دیکھا اور ان سے کہا:اے میثم! یہ کام تمہیں بے نیاز نہیں کرے گا(امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی دوستی تمہارے کسی کام نہیں آئی)۔

     میثم مسکرائے اور کہا:میں اسی تختۂ دار کے لئے خلق ہوا ہوں اور یہ میرے لئے بنایا گیا ہے ۔ جب میثم کوتختۂ دار پر لٹکایا

۳۳۲

گیا تو لوگ تختۂ دار کے اردگرد جمع تھے کہ جو عمر وبن حریث کے دروازے پر  تھا۔عمرو نے کہا: میثم ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں تمہارا پڑوسی بنوں گا ۔عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ ہر شام میثم کے تختۂ دارکے نیچے جھاڑو لگائے اور پانی چھڑکے اوراگربتی جلائے۔وہ کنیزکافی دنوں تک تک ایسا ہی کرتی رہی۔جب جناب میثم کو تختۂ دار پر باندھ دیا گیا تھا تو  آپ بنی ہاشم کے فضائل اور بنی امیہ کی خباثتیں بیان کر رہے تھے ۔ابن زیاد کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس غلام نے تو تمہیں رسوا کر دیا ہے۔

     ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی جائے ۔ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی گئی تا کہ وہ کوئی بات نہ کر سکیں اور وہ خدا کی سب سے پہلی مخلوق تھی کہ اسلام کے بعد جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔دوسرے دن ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہو گیا اور جب تیسرا دن ہوا تو ان کر گرزمارا گیا جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔امام حسین علیہ السلام کے عراق پہنچنے سے دس دن پہلے  ۶۰ھ میں میثم کی شہادت ہوئی۔(۱)

     آخر میں یہ نکتہ بھی قابل ذکرہے کہ ہم نے جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں ان میں سے کچھ رسول خدا(ص) اور کچھ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیاں ہیں کہ جو ہم نے اس کتاب کے مطالب سے مربوط ہونے کے بنا پر ذکر کی ہیں  ورنہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی پیشنگوئیاں  بہت زیادہ ہیں کہ جنہیں اکٹھا کرنے کے لئے کئی جلد کتابوں کی ضرورت ہے۔یہ خود مکتب تشیع کی حقانت کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق(وَکُوْنُوا مَعَ الصّٰادِقِیْنَ) سچوں کی پیروی کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام ہے۔     قابل توجہ ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء میں سے اور اسی طرح ان سے پہلے اور ان کے بعد میں حکومت کرنے والوں میں سے کسی نے کوئی پیشنگوئی نہیں کی۔مگرجو کچھ انہوں نے یہودیوں اور گذشتگان سے سنا تھااور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے فرمودات کے بحر بیکراں کے مقابلہ میں ایک ان  کی حیثیت ایک ناچیز قطرہ سے بڑھ کر  نہیں ہے۔پاک اور بے غرض انسانوں کے لئے (جنہوں نے جاہلانہ تعصب کا لبادہ اتار پھنکا ہو)پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی پیشنگوئیاںراہ مستقیم کو آشکار کرتی ہیں کہ جو مکتب وحی اور خدا کا حقیقی دین ہے۔

--------------

[۱]۔ پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ: ۱۱۲

۳۳۳

     حق کی جستجو کرنے والوں اور راہ حق کو تلاش کرنے والوں سے ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں جو پیشنگوئیاں ذکر کی ہیں انہیں  پوری توجہ اور غور و فکر  کے ساتھ پڑھیںتا کہ جب تک زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہیںتب تک ان کے لئے صراط مستقیم (کہ ہر دن نماز میں ہم خداسے چاہتے ہیں کہ راہ راست کی طرف ہماری ہدایت فرما: (اِهْدِنَا الصِّرٰاطَ الْمُسْتَقِیْم) واضح ہو جائے اور اسی راہ پرگامزن رہیں اور واضح سی بات ہے کہ خداوند ان سب کا یار و مددگار ہے کہ جو اس سے مدد مانگتے ہیں۔

     جو افراد پیغمبر اکرم(ص) کی روایات اور فرمودات سے آشنا ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے اپنے بعد رونما ہونے والے واقعات اور اسی طرح امیر المؤمنین علی علیہ السلام ،حجرت فاطمہ زہراء علیہا السلام،آپ کے خاندان اطہار علیہم السلام اور بالخصوص سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے بہت زیادہ مطالب بیان فرمائے ہیں۔

     اگر ہم اس کتاب میں بنی امیہ اور تمام غاصب خلفاء کے بارے میں ان پیشنگوئیوں کو ذکر کرنا چاہیں تو یہ ستّر من کاغذ کی مثنوی بن جائے گی ۔ اسی لئے ہم اتنی مقدار میں ان پیشنگوئیوں کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور خداوند کریم سے ہماری یہ دعا ہے کہ محترم قارئین ان بزرگ ہستیوں کے فرامین سے بطور کامل مستفید ہوں۔

     ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اسلام کے دشمنوں کے گھنونے منصوبوں کے بارے آپ کے علم و آگاہی میں اضافہ ہو گااور آپ یہ جان لیں گے بنی امیہ نے کس طرح یہود و نصاریٰ کی مدد سے اسلام کے خلاف جنگ کی۔

۳۳۴

فہرست

انتساب. ۳

حرف مترجم ۴

پیش گفتار ۶

ایک اہم نکتہ ۷

کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں: ۸

یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ ۱۱

بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز ۱۳

یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ. ۱۶

اس کتاب کے بارے میں. ۱۷

معاویہ بروز غدیر ۱۹

۳۳۵

پہلاباب. ۲۲

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۲۲

بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۲۳

یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا ۲۳

اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش. ۲۷

یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا ۲۷

''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل. ۳۲

حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا ۳۵

یہودیوں کی قوم پرستی ۳۹

امویوں کی قوم پرستی ۴۲

یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی ۴۷

پیغمبر اکرم(ص)  کو زہر دینا ۴۸

۳۳۶

یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوںاسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت. ۵۰

یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی. ۵۴

اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال، جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔ ۵۶

مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنےکے لئے یہودیوں کی سازش. ۵۸

دوسرا باب. ۶۴

یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے ۶۴

۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو ۶۵

۲- ایک دوسرا گروہ ۷۰

۳- ابوہریرہ ۷۲

۴-عبداللہ بن عمرو عاص.. ۷۵

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت. ۷۵

۵- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی ۷۷

۳۳۷

''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م۶۳):(۱) ۷۷

۶- کعب الأحبار ۸۲

کعب الأحبار اور عمر ۸۳

کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات. ۸۶

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار ۸۸

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف.. ۹۰

۷- وہب بن منبّہ ۹۳

وہب بن منبّہ کے عقائد ۹۴

تیسراباب. ۹۵

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. ۹۵

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات. ۹۶

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات. ۹۷

۳۳۸

عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج ۹۸

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔ ۹۸

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج ۱۰۴

عمر کے دور حکومت میں تمیم داری. ۱۰۸

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا ۱۱۰

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی ۱۱۲

چوتھاباب. ۱۱۴

دشمنوں کے دو بنیادی حربے.. ۱۱۴

۱- مسلمانوں میں تفرقہ سازی. ۱۱۵

اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک. ۱۱۶

جہمیّہ ۱۱۶

اموی دور میں معتزلہ ۱۱۹

۳۳۹

مرجئہ ، اموی دور میں. ۱۲۰

بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ ۱۲۲

مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی ۱۲۴

معاشرے میں مرجئہ کا کردار ۱۲۶

بہشتی کافر! ۱۲۷

مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی ۱۲۹

مرجئہ کے فرقے ۱۳۰

ابو حنیفہ اور مرجئہ ۱۳۲

مرجئہ اور شیعہ ۱۳۴

مرجئہ اور شیعہ روایات. ۱۳۶

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار ۱۳۹

عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ ۱۴۱

۳۴۰

341

342

343

344

345

346