معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 169951 / ڈاؤنلوڈ: 7806
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معاویہ

جلد-۱

تألیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

ترجمہ

عرفان حیدر

۱

کتاب :.........................معاویہ جلد-۱

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر

نظر ثانی:........................سید ساجد رضوی ، زین العابدین علوی

کمپوزنگ : ..................  شاذان حیدر

ڈیزاین : ..........................  شایان حیدر

طبع: .  اوّل

تاریخ طبع :........................۲۳ نومبر ۲۰۱۳ ئ

تعداد:. ............................۲۰۰۰    

قیمت: .............................۲۵۰

ناشر.................................. الماس قم

مؤلف کی ویب سائیٹ :www.almonji.com

ہم سے رابطہ:info@almonji.com

ایمیل:irfanhaider۰۱۴@gmail.com

۲

انتساب

میں اپنی یہ ناچیز کاوش وارث علم کردگار، حامل علم رسول مختار، ناظر گردش لیل و نہار،

شیعیت کی محور و مدار، نور چشم صاحب ذوالفقار ، قائم آل محمد،

یوسف زہرا علیہا السلام، حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کی پاک بارگاہ

میں پیش کر کے قبولیت کا متمنی ہوں۔

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

حرف مترجم

تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیںکہ جن کی زندگی کا ہدف  و مقصد انسان کو سعادت تک پہنچانا ہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو شیطان کی نیابت میں  لوگوں کو ہلاک و گمراہ کرنے کا کام بطور احسن انجام دیتے ہیں۔

خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے، پیغمبر اوراہلبیت اطہار علیہم السلام  وہی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی بے مثال سیرت اور بے نظیر کردار کے ذریعہ انسانی معاشرہ کی دنیاوی و اخروی سعادت کی طرف ہدایت و راہنمائی کی۔

بیشک پیغمبراکرم(ص)  ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکیاور معاشرے کو تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے بہترین ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ اگر صرف مسلمان ہی رسول خاتم(ص) کی تعلیمات پر عمل کرتے اور اختلاف ، تفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقینا  چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین ثمر تناول کرتے،لیکن افسوس صد افسوس کہ پیغمبر (ص) کی جانسوز اور دردناک رحلت کے بعد ظاہراً اسلام قبول کرنے والے کچھ مسلمانوں پر خود غرضی اور مقام طلبیحاکم ہو گئی اور وہ رسول (ص) کے بتائے ہوئے خدا ساختہ راستہ کو چھوڑ کر خود سا ختہ راستہ پر نکل پڑے    اور آجتک انسان اور بالخصوص مسلمان ان کے اس گناہ عظیم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

لیکن خدائے عظیم نے ان کریم  ہستیوں کے ذریعہ ہر دور کے انسان کے لئے ہدایت کا سامان فراہم کیا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان تعصب و تنگ نظری اور اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کو چھوڑ کرحقیقی معنوں میں منطقی طریقے سے تحقیق و جستجو کرے۔

۴

 ان معصوم ہستیوں کیسیرت و کردارصرف اسی دور کے مسلمانوں کے لئے ہی اسوہ نہیںتھی بلکہ ان کی احادیث اور پیشنگوئیاں ہر دور کے مسلمان کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہیں ۔ رسول اکرم(ص) اور امیر کائنات علی علیہ السلام نے اپنی پیشنگوئیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آئندہ کے واقعات و حادثات اور  اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نیست و نابود کرنے والے  شیطان کے نائبین خاص سے  آگاہ فرماتا کہ لوگ ان ظاہری مسلمانوں کے شرّ سے محفوظ رہیں۔

یہ کتاب بھی راہ حق  سے بھٹکے ہوئے سادہ لوح  افرادکے لئے نایاب تحفہ ہے جن کے لئے یہ چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں اسلام  کے سب سے بڑے دشمن بنی امیہ اور بالخصوص معاویہ کے خبیث چہرے سے پیغمبر(ص) کی احادیث اور پیشنگوئیوں کے ذریعہ  نقاب کشائی کی گئی ہیں تاکہ  ہمارے اہلسنت بھائی یہ جان لیں کہ وہ جسے اپنا خلیفہ مانتے ہیں وہ اسلام کے نام پر اسلام کو ہی مٹانے کے لئے کس حد تک کوشاں رہا۔

اور یقینا اس کار خیر کو انجام دینا مجھ  اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی لہذا میں اپنے والدین، اساتید، بھائیوں اور دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس کام میں میرے راہنمائی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔خداان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور وقت کے ہادی، راہنما، یوسف زہرا،امام زمانہ(عجل الله تعالى فرجه ) کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔

عرفان حیدر

قم المقدس ( ایران )

۵

بسم الله الرحمن الرحیم

پیش گفتار

    ایک اہم نکتہ

    یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رو یّہ

    بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز

    یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ

    اس کتاب کے بارے میں

    معاویہ بروز غدیر

۶

ایک اہم نکتہ

محققین جس بارے میں بھی تحقیق کریں اور جس موضوع کے بارے میں تحقیق کا آغاز کریں انہیں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اس موضوع سے مربوط بہت سے تاریخی ،تفسیری اور فقہی حقائق مطالب پر دقّت اور غور وفکرکرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔

مثال کے طور پر تاریخ اور تاریخ نگاری میں ہو سکتا ہے کہ بعض مؤرخین نے تاریخی حقائق کو واضح و آشکار طور پر بیان نہ کیا ہواور ممکن ہے کہ یہ ان حقائق سے لاعلمی کی دلیل ہو یا اس میںمؤرخین کے اغراض و مقاصدشامل ہوں ۔لیکن جو محققین اور اہل تحقیق تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق سب کے آشکار کرنا چاہتے ہیں ،انہیں  چاہئے کہ ان مطالب کو عام سطحی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ جو کچھ پڑھیں اس پر دقّت اور مکمل فہم و فراست سے غور وفکر اور تأمل کریں  تاکہ اس غور و فکر ور تدبّر کی وجہ سے تاریخ کے تاریک اور بیان نہ کئے گئے نکات کوواضح و روشن کرکے معاشرے کے لئے بیان کریں۔

اب ہم تاریخ کا ایک چھوٹا سا نکتہ بیان کرتے ہیں اور پھر ہم اس کی علت کے بارے میں جستجو کریں گے:

تاریخ میں  ذکر ہواہے :اسلام کی طرف مائل ہونے والے یہودی اور عیسائی عثمان کے زمانے تک اسے خلیفہ مانتے تھے حتی کہ جب عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو ان میں سے کچھ نے تو جانفشانی کی حد تک عثمان کا دفاع کیا لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان میں سے بہت سے معروف افراد نے نہ صرف امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کی بلکہ مدینہ کو چھوڑ کر شام میں معاویہ کے گرد جمع ہو گئے!

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ نے بیان کیا ہے اور ایسے ہی کچھ نمونے ہم نے اس کتاب میں ذکر کئے ہیں۔اب اس بارے میں غور و فکر کریں کہ ظاہری طور پر مسلمان ہونے والے یہ یہودی و عیسائی کیوں عثمان کی حمایت کرنے کے لئے تیار تھے؟اورانہوں نے کیوں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حمایت نہ کی ؟اور کیوں انہوں نے شام جا کر معاویہ کی حمایت کی؟

۷

کیا ان کے اس عمل کو اس چیز کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا کہ کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر ظاہری طور پر مسلمان ہوئے اور عثمان کے گرد جمع ہو گئے؟عثمان نے ان کے لئے ایسا کیا کیا کہ مسلمانوں نے اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا؟کیوں انہوں نے خاندان وحی علیہم السلام کا دامن نہ تھاما اور معاویہ کے پیچھے چل پڑے؟

ان امورپر غور کرنا اس حقیقت کو واضح کر دیتاہے کہ ظاہری طورپر مسلمان ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروہ نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے معاویہ کو طاقت دی؟حتی انہوں نے عثمان کے قتل ہونے سے پہلے ہی معاویہ کو  خلیفہ کے عنوان سے واضح کر دیا تھا۔ان کے شام جانے کے بعد معاویہ نے انہیں قبول کر لیا اور ان میں سے بعض کو تو مسلمانوں کی سرپرستی کے لئے بھی منتخب کر لیا!!

ان کے مسلمان ہونے کے آثار میں سے ایک اسرائیلیات،خرافات اور جھوٹی حدیثیں گھڑنا تھا۔وہ ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان امور کی ترویج کرتے تھے اور اسلام کے لئے درد دل نہ رکھنے والے خلفاء نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی۔یہ ایسے افراد کے مسلمان ہونے کے عامل میں سے  ایک ہے۔

جی ہاں!انہوں نے اصحاب پیغمبر (ص) کے نام پر دین پیغمبرکو نقصان پہنچایا اوریہ نکتہ بہت ہی قابل غور ہے کہ عمر کے بہت سے رشتہ دار ایسے ہی افراد کے دوست اور ہم نشین تھے۔

کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں:

جو چیز اسرائیلیات اور اہل کتاب کے خرافاتی و جعلی قصوں کو پھیلانے میں مدد کرتی تھی وہ بعض یہودو نصارا علماء کا ظاہری اسلام لانا تھا کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور حتی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کا لبادہ اوڑھ کر  وہ بڑی آسانی سے  اپنے بہت سے خرافاتی عقائد اور فکری رسومات کو روایات اور احادیث کے قالب میں مسلمان کے سپرد کرسکتے تھے اور اسلام کی شفاف فرہنگ کو اپنے مجعولات و توہمات سے آلودہ کر سکتے تھے۔

۸

اہل کتاب میں سے اس مسلمان نما گروہ کی اسرائیلیات کو قبول کرنے کے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اکثر مسلمان انہیں رسول خدا(ص)کے اصحاب کے برابر شان و مرتبہ د یتے تھے اور ان کے لئے عزت اور تقرب کے قائل تھے حلانکہ کے وہ ان کی پست نیتوں سے بے خبر تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس مسلمان نما گروہ سے جعل حدیث کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''پیغمبر خدا(ص)سے حد یث نقل کرنے والا ایک گروہ ایسے منافقوں کا ہے کہ جو ظاہری طور پر تو اسلام لائے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر پیغمبر اکرم (ص)ک ی طرف ججھوٹی نسبت دی ۔اگر لوگ جان لیتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں تو ان کی حدیث کو قبول نہ کرتے، لیکن لوگ کہتے ہیں :یہ رسول خدا(ص)کے اصحاب ہ یں ؛انہوں نے آنحضرت کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث سنی ہے ،اس وجہ سے ان کی حدیث کو قبول کرتے ہیں ؛ حلانکہ خدا نے قرآن میں منافق صحابیوں کی صفات بیان کرکے ان کے جھوٹ کو بیان کیا ہے.....۔یہ جھوٹے منافقین پیغمبر اکرم(ص)کے بعد بھ ی زندہ رہے اور اپنے جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ گمراہ رہبروں کے مقرب بن گئے اور ان رہبروں نے انہیں حکومتی منصب عطا کئے اور انہیں لوگوں پر مسلّط کر دیا اور ان کے ذریعہ اپنی دنیا کو آباد کیا ۔ لوگ اپنے حاکموں کے فرمانروا اور دنیا کے ساتھ ہیں،مگر ان حضرات کے علاوہ کہ جنہیں خدا محفوظ رکھے''(۱) حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کے لئے تاریخ اسلام میں متعدد اور واضح مثالیں موجود ہیں کہ جو مسلمان کے اصحاب کی صف میں بیٹھنے والے ایسے ہی اہل کتاب سے خوش بینی پر مبنی ہیں ؛حتی کہ بعض تاریخی منابع میں یہاں تک ذکر ہوا ہے:معاذ بن جبل نے حالت احتضار میں اپنے اطرافیوں کو تاکید کی کہ چار افراد سے علم حاصل کریں: سلمان،ابن مسعود ،ابو درداء اور عبداللہ بن سلاّم (جویہودی تھا اورپھر اس نے اسلام قبول کیاتھا)؛ کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ (یعنی عبداللہ بن سلاّم) ان دس افراد میں سے ہے جو بہشت الٰہی میں جائیں گے!(۲) اس سے واضح اور صریح روایت  ہے: ایک شخص نے کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ عمر سے پوچھا۔ جب کہ عبداللہ کے پاس یوسف نام کا ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا،عبداللہ نے اس سے کہا:

--------------

(۱):- نہج البلاغہ، خطبہ:۲۰۱،اصول کافی:ج ۱ص۱۰۶-(۲):- التفسیر المفسرون:ج۱ص۱۸۶،الصحیح من سیرة النبی الأعظم: ج۱ص۱۰۶

۹

یوسف سے سوال پوچھوکہ خدا نے ان کے بارے میں فرمایاہے:(فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ) (۱)(۲) اس واقعہ میں کچھ ایسے نکات ہیں جو قابل غور ہیں:

۱۔ معاذ بن جبل(عمر کا دوست) نے کیوں عبداللہ بن سلاّم (جو یہودی سے مسلمان ہوا تھا) کا نام لیا لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نام نہ لیا جب کہ آپ ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ ہوتے تھے؟! کیا یہودی سے مسلمان ہونے والا عبد اللہ بن سلاّم دینی عقائد و مسائل  امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نعوذ بالله) زیادہ جانتا تھا؟!یا اس کی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ بن سلاّم دین کے نام پر دوسرے مطالب بھی نادان اور لا علم مسلمانوں کے حوالہ کرتا تھا؟!

۲۔ جب کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے سوال کیا تو اس نے کیوں یوسف نام کے ایک یہودی کی طرف رجوع کرنے کو کہا؟

۳۔ کیوں عبداللہ بن عمر نے آیۂ شریفہ(فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ) کو یوسف اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر تطبیق دی؟! حلانکہ شیعہ اور سنّی تفاسیر میں ہے کہ یہ آیت اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شان میں ہے۔

۴۔ کیوں عبداللہ بن عمر ایک یہودی شخص کا ہم نشین تھا اور اس نے کیوں اسے اتنا سراہا؟!

۵۔عبد اللہ بن عمر نے یہودی سے ہم نشینی اور اسے سراہنا کس سے سیکھا؟کیا خود ہی اس کی ایسی عادت تھی؟کیا عمرکو اس کے اس عمل اور رویہ کا علم  تھا؟اگر وہ اس سے آگاہ تھا تو کیوں اسے اس کام سے منع نہ کیا؟ اگر عمر اس کے اس کام سے آگاہ  نہیں تھا تو جو مدینہ میں اپنے بیٹے کے کاموں سے آگاہ نہ ہو تو وہ کس طرح پورے ملک میں مسلمانوں کے امور سے باخبر ہو سکتاہے؟!! یہ واضح ہے کہ ان امور میںغور و فکر اور دقّت کرنے سے جستجو کرنے والوں کے لئے اہم مطالب آشکار ہوں گے۔

قابل توجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے تمام مسلمانوں کو اہل کتاب کی ہم نشینی سے منع فرمایا تھا۔

--------------

(۱):- سورۂ انبیاء، آیت:۷'' اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو''،الصحیح من سیرة النبی الأعظم   سے منقول: ج۱ص۱۰۶

(۲):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۴۷

۱۰

 یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ

پیغمبر اکرم(ص) نے مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے ،ان سے سوال پوچھنے اور ان کی مسخ شدہ فرہنگ و ثقافت کے سامنےجھکنے سے منع فرمایاہے ۔اور جو لوگ اہل کتاب اور ان کی تحریف شدہ کتابوں کو احترام وتقدّس کی نظر سے دیکھتے تھے   آپ انہیں خبردار کرتے تھےکہ ظہور اسلام کے زمانے میں اسلام کی حیات بخش اور شفّاف تعلیمات کے ہوتے ہوئے ایسے عقائد کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔درج ذیل چند مثالیں آنحضرت(ص) کے موقف کو بیان کرتی ہیں:

تفسیر ''در المنثور'' میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم (ص) کے کچھ صحابی تورات  میں  سے کچھ چیزیں لکھتے تھے ،یہ خبر رسول اکرم(ص) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:

بیوقوفوں  میں سب سے بڑے  بیوقوف اور گمراہوں میں سب سے بڑیگمراہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبروں پر نازل کی گئی خدا کی کتاب سے روگردانی کریں اور ایسی کتابوں کی طرف مائل ہوں کہ جو خدا نے ان کے پیغمبر کے علاوہ کسی  دوسرے پیغمبر پر نازل کی ہواور اس امت کے علاوہ کسی اور امت کے لئے بھیجی گئی ہو۔

اسی واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

(أَوَلَمْ یَکْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْْهِمْ ِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَرَحْمَةً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ) (۱)(۲)

 کیا ان کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میںرحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاددہانی کا سامان موجود ہے ۔

--------------

(۱):- سورۂ عنکبوت، آیت:۵۱

(۲):- تفسیر الدر المنثور:ج ۵ص۱۴۸اور۱۴۹۔ نیز ملاحظہ فرمائیں: تفسیر المیزان:ج۱۶ص۲۲۵

۱۱

اکثر مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے گذشتہ کتابوں سے خرافات کے ساتھ ملے جلے مطالب لکھے اور ان پر اعتماد کیا لہذا خدا نے انہیں بتا دیاکہ ان کے لئے قرآن کافی ہے۔(۱)

صاحب تفسیر ''کشف الأسرار''اس آیت کا شان نزول عمر بن خطاب کو قرار دیتے ہیں کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے سامنے تورات کے ایک حصہ کو پڑھنے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے رسول خدا(ص) ناراض ہوئے اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔(۳)(۲)

--------------

(۱):- دیکھئے: تفسیر التبیان:۲۱۸۸ اور تفسیر طبری:۷۲۱

(۲):- تفسیر کشف الأسرار: ج۷ص۴۰۷ اور ۴۰۸

(۳):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۴۷

۱۲

 بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں مسلمانوں کو یہودیوں سے تعلق و واسطہ رکھنے سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان سے دوری  اختیارکی جائے؟

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں:انسان کابرے اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے کے اہم عوامل میں سے ایک خداوند کریم پر ایمان اور قیامت پر اعتقاد رکھنا ہے۔

اگر انسان خدا اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ انسان کے تمام اعمال ،کردار بلکہ کے تمام سوچ و افکار کے اثرات ہیں جو آئندہ اس کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے لہذا وہ کوشش کرے گا کہ اس کے اعمال،افکار اور کردار ایسے ہوں کہ جواس کی ذاتی زندگی اور دوسروں کے لئے نقصان دہ اور منفی اثرات نہ رکھتے ہوں۔

گذشتہ لوگوں کی تاریخ کو ملاحظہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں سب سے بڑے مجرم وہ لوگ ہیں کہ جو خدا اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ۔اسی لئے انہوں نے تاریخ میں ایسے ایسیبرے اور وحشیانہ کام انجام دیئے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کو تباہ کیا ہے بلکہ دنیا کے بے شمار لوگوں بھی تباہ و برباد کر دیا۔

 یہودی اپنی مخفی چالوں کے ذریعہ تاریخ کے واقعات پر اثرانداز ہوتے آئے ہیں اور اپنی مکاریوں سے لوگوں کی خواہشات کو پامال کرتے آئے ہیں ،یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس سے مأیوس ہیں ۔

یہودی چونکہ صرف مادی دنیا پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں مادی دنیا کے حصول پر ہی خرچ کرتے ہیں اور اپنی اصلی ذمہ داری سے غافل رہتے ہیں۔اسی لئے تاریخ میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی دنیاوی خواہشات کے حصول کے لئے وحشیانہ ترین اعمال انجام دیئے ہیں اور یہ بات مسلّم ہے کہ اگر وہ موت کے بعد کی دنیا پر ایمان رکھتے تو کبھی بھی ایسے ناپسندیدہ اور برے اعمال انجام نہ دیتے۔

قرآن کریم بھی ان کے آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی تائید کرتا ہوئے فرماتا ہے:

۱۳

(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْْهِمْ قَدْ یَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ) (۱)

اے ایمان والو! خبردار! اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے کہ وہ آخرت سے اسی طرح مایوس ہوں گے جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

یعنی قوم یہود (جو عذاب کی مستحق ہے)کو دوست نہ رکھیں اور اس کی مدد نہ کریں کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت میں کسی ثواب کی خواہش نہیں رکھتے ،اوروہ کافروں اور بت پرستوں کی طرح عالم   آخرت کے منکر ہیںاور یہ مطلب اعجاز قرآن کو بیان کر رہا ہے۔کیونکہ ان کی مذہبی تعلیمات میں بھی یہ بات مشہور ہے اور یہودیوں کے ہاتھوں میں موجود آج کی تورات میں بھی موت کے بعد کی زندگی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(۲)

یہودیوں کا آخرت پر ایمان نہ رکھنا اس قدر مشہور ہے کہ اس بارے میںتحریر کرنے والے اکثر مصنّفین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ان میں سے ''ویل دورانت''لکھتے ہیں:

یہودی موت کے بعد کی دنیا پر ایمان نہیں رکھتے اور سزا و جزاء کو صرف اسی دنیا میں منحصر سمجھتے ہیں۔(۳)

یہ واضح ہے کہ ایسے عقیدہ کا نتیجہ فساد ،بے راہ روی ، ظلم و ستم ، تباہی، گستاخی او ر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے :

بہت سی برائیاں اور خرابیاں قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ہی وجود میں آتی ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ ممتحنہ، آیت:۱۳

[۲]۔ عفیف عبد الفتاح، الیہود فی القرآن:۷-۳۶

[۳]۔ ول وایریل دیورانت (منبع عربی):ج۲ص ۳۴۵

۱۴

قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کااصلی ہدف ومقصد دنیا اور مال و دولت کو جمع کرنا  ہے اور یہ اپنے مقصد تک رسائی  کے لئے کوئی بھی کام انجام دے سکتے ہیںحتی کہ یہ مختلف  چالوں کے ذریعہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کوخطرے میں ڈال کر انہیں اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی طرف دھکیلتے ہیں  اور اس طرح وہ نفسیات پر حاوی ہو کر انسان کی پاکیزہ فطرت،غیرت،مردانگی اور جوانمردی کو کمزور کرتے ہیں  اور ان کے اپنے سامنے قیام کرنے کے احتمال کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔

مذکورہ بیان کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہودی سربراہ اپنی تمام تر حیوانی اور بری صفات کی وجہ سے روئے زمین پر سب سے زیادہ خطرناک مخلوق بن چکے ہیں!(۱)

یہودیوں کا خطرہ اس قدر سنگین ہے کہجس سے اکثر صاحب نظر اور فن کے ماہرین کو خدشہہ لاحق ہے یہاں تک کہ انگلینڈ کے ایک اخبار میں لکھا تھا:

دنیا کی تمام سیاسی اور مالی مشکلات اور جنگوں کے اخراجات یہودیوں نے فراہم کئے ہیں۔(۲)(۳)

--------------

[۱]۔ پرتکل ھای دانشروان صھیون ،دنیا بازیچۂ یہود، السیرة النبویہ و....۔

[۲]۔ ژرژ لامبلن، اسرار سازمان یھود:۷، روزنامہ''Morning Post'' سے اقتباس

[۳]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: ۱۲۶

۱۵

 یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ

''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:

 اپنی تحقیق کے دوران مجھے یہودیوں کے ایسے بہت سے ناموں کا پتہ چلا جو گندے اور آلودہ مواد بنانے کے کارخانوں میں عمل دخل رکھتے ہیں ۔اکثر نشہ آور گولیاں ،نقلی ادویات حتی کہ زہریلے کھانے بھی انہی کے ہاتھوں وجودمیں آتے ہیں۔

اس تحقیق  کا نتیجہ توقع سے بڑھ کر پریشان کن تھا ۔ اس کے بعد جب میں مزید متوجہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہودیوں سے کارخانوں سے بننے والی اکثر اجناس گندی،غلیظ یا کم سے کم نقلی اور نقصان دہ ہیں ۔ یقینی طور پر %۹۵ ادبی گندگی (جو نوجوانوں میں اخلاقی برائیوں ، ہنری پستی اور غیر اخلاقی نمائش کا باعث ہے)کا نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے چلایا  جا رہا ہے کہ جو ملک کی ۱فیصد آبادی پر مشتمل ہیں اور کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔

ہر دن میرے لئے ایک نیا مسئلہ کشف ہوتا تھا جسے لکھنے کا نہ تو میں عادی تھا اور نہ ہی میں انہیں برداشت کر سکتا تھا اس لئے میں اپنے سامنے کے ان  ظاہری طور پر سادہ مسائل کو سمجھنے  کیلئے انہیں کئی بار پڑھنے پر مجبور تھاتا کہ اصلی مقصد کو کشف کر سکوں حلانکہ بیان ہونے والے یہ اکثر مسائل جھوٹے تھے.....۔

''دکھاوے کی تنقید اور وسیع پیمانے پر تعریف غالباً یہودیوں اور اس  مشینری کو چلانے والوں کے   اد میں ہوتی تھی''(۱)

یہودیوں کے کام واضح طور پر یہ بیان کر رہے تھے کہ تخریب کاری کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے ۔یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے وہ ایک مخصوص گروہ اورلوگوں کی طرف سے  مخفی طور پر مأمور ہوئے ہوں کہ تمام سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں میں تخریب کاری کریں۔(۲)(۳)

--------------

[۱]۔ آدولف ہٹلر، نبرد من: ۴۱ -۴۲

[۲]۔ آدولف ہٹلر،نبرد من:۴۳

[۳]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: ۱۱۳

۱۶

ہٹلر( جو کہ خود بھی دنیا کے خونخوار افراد میں سے تھا)یہودیوں کے ظلم و ستم اور فسا د سے اتنا تنگ آچکا تھا کہ اس نے کہا:تخریب کاری کے سوا یہودیوں کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے!

یہودیوں نے کرۂ زمین پر جو تمام فساد،تباہی و بربادی،ظلم و ستم اور انحرافات انجام دیئے ہیں ،وہ صرف یہودیوں کی خود غرضی اور خودبینی اور آخرت پر ایمان و یقین نہ رکھنے کی وجہ سے ہے!

یہ واضح ہے کہ جب یہودیوں کا سب سے بڑے جرائم اور برے سے برے اعمال کو انجام دینے کا معیار ان کی خود بینی اور خود غرضی کی حس ہو تو اس سے ان کا اخروی دنیا پرسے ایمان ختم ہو جائے گا۔صرف ہمارے زمانے میں ہی نہیں بلکہ گزشتہ صدیوں میں  بھی وہ جو جرم بھی کر سکتے تھے انہوں نے وہ جرم کیا۔

 انہوں نے ابتدائے اسلام سے ہی نہیں بلکہ رسول خدا(ص) کے مبعوث ہونے سے پہلے ہی اسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے تھے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا جس کے لئے بنی امیہ نے ان کی مدد اور خدمت کی۔نیز یہ بھی واضح ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی ان کی سازشوں میں وسعت آگئی  اور اب جب کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اسلام کی عالمی حکومت سے ان کی بے شرم حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا ،اس لئے وہ کسی بھی نئے خائن اور سازشی حربہ کو انجام دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔

اس کتاب کے بارے میں

معاویہ اور بنی امیہ (جو ہزار مہینہ اقتدار کی کرسی پر قابض رہے) کے کارناموں کے تجزیہ و تحلیل اور ان کی تاریخ سے مکمل آشنائی کے لئے دسیوں جلد کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کی حکومت میں ملک کی وسعت اور ان کے طولانی اقتدار نے ان کے رفتار و کردار کی فائل کو بہت وزنی بنا دیا ہے ۔ اس لئے حقیقت کے متلاشی اور واقعیت تک پہنچنے کی جستجو کرنے والا ہر شخص بنی امیہ کے کارناموںسے بہت ہی اہم نکات اخذ کر سکتا ہے جس سے ان کے رفتار و کردار کی ماہیت و کیفیت بخوبی واضح ہو جائے گی۔

۱۷

اب جب کہ معاویہ کی حکومت اور اموی خاندان کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں اور کروڑوں اہلسنت مسلمان اموی حاکموں کو رسول اکرم(ص) کے جانشین اور اسلام کے ولی کے طور پر پہچانتے ہیں !لیکن کیا حقیقت میں یہ لوگ امویوں کی سیاہ  کاروایوں سے آگاہ ہیں؟!

کیاوہ  جانتے ہیں کہ معاویہ اور اس کے جانشینوں کا تاریخ اسلام کو بدلنے میں کتنا اہم کردار ہے اور انہوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے کس قسم کی سازشیں کیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ امویوں کی ہزار مہینہ پر مشتمل حکومت میں اسلامی معارف و عقائد کے ساتھ کیس سلوک کیا گیا؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ ابوسفیان،معاویہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی ہیں؟

کیا وہ جانتے ہیں کہ اہلسنت کے مشہور علماء و دانشوروں نے اپنی کتابوں میں ان کے بارے میں  بہت سی اہم اور حقیقت کو واضح کرنے والی احادیث نقل کی ہیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں بنی امیہ  کے کیسے کیسے شرمناک کام درج کئے گئے ہیں؟!

کیا وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں بلکہ انسانیت کی تاریخ کے راستے کو  کیسے بدل دیا اور اسے انحراف کی طرف لے گئے؟!

یہ واضح  ہے کہ جواپنے لئے گذشتہ لوگوں کی تاریخ کے دریچہ کھول کر کسی تعصب کے بغیر ہشیار اور خبردار کرنے والے نکات سے آگاہ ہیں،وہ جانتے ہیں کہ امویوں نے اسلام کے نام پر خدا اور خاندان وحی علیہم السلام کے آئین کے خلاف کیسے جدوجہد کی۔

ہم نے یہ کتاب ایسے افراد کی مزید آگاہی اور جوحضرات ان واقعات سے مطلع نہیں ہیں ، انہیں ان سے آشنا کرنے کے لئے تألیف کی ہے اور اسے عام لوگوں کے لئے پیش کیا ہے تا کہ سب لوگ بنی امیہ کے شرمناک اہداف و مقاصد سے آشنا ہوں اور وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ کس طرح خلافت کی کرسی پر قابض ہوئے اور انہوں نے کس طرح امت کی رہبری حاصل کی !اور اسلام کی جڑوں پر کیسی کیسی کاری ضربیں لگائیں!

۱۸

اب شیعہ عقائد کے حقائق کی نورانیت سے دنیا کے بے شمار لوگوں نے اسلام کا رخ کیا ہے اور اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے فرقوں میں کون سا فرقہ حقیقت پر مبنی ہے اور کون سا راستہ انحراف و گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔

یہ کتاب''معاویہ''مذہب حقہ کے انتخاب کے سلسلہ میں بخوبی ان کی راہنمائی کر سکتی ہے اور نہ صرف معاویہ بلکہ اہلسنت کا بھی تعارف کروائے گی کہ جو معاویہ کی پیروی کرتے ہیں اور اسے اپنا رہبر و پیشوا سمجھتے ہیں۔

اسی طرح یہ کتاب بہت سے اہلسنت حضرات کی رہنمائی کے لئے بھی اہم ہے جو شیعہ عقائد سے آشنا ہوئے ہیں لیکن ابھی تک شکو ک و شبہات کا شکار ہیں۔یہ کتاب باطل راستے کا تعارف کراتی ہے جس کے نتیجہ میں راہ حق کو آشکار کرتی ہے۔

دین کے انحراف میں معاویہ کے کردار اور رسول خدا(ص) کے ساتھ اس کی مخالفت کی کوششوں کو جاننے کے لئے ہم یہ اہم رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن اسے پوری توجہ سے مطالعہ کریں:

  معاویہ بروز غدیر

غدیر کے دن ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی اور خداوند متعال کے حکم کی اطاعت کی حتی کہ امام علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے سب سے بڑے دشمن ابوبکر اور عمر نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اگرچہ انہوں نے ظاہری طورپر آنحضرت کی ولایت کو قبول کر لیا اور جیسا کہ اہلسنت علماء لکھتے ہیں:عمر نے کہا:''بخّ بخّ لک یا علی''۔عورتوں نے بھی بیعت کی اس تقریب میں شرکت کی اور پانی کے ایک  ایسے برتن میں اپنا ہاتھ رکھکر آنحضرت  کی بیعت کی جس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا دست مبارک تھا اور یوں انہوں نے آپ کی ولایت کو قبول کیا۔

اپنے وطن لوٹنے کے بعد مسلمانوں نے اپنی اقوام اور دوستوں سے غدیر کے دن کی بیعت کا واقعہ بیان کیا اور سب نے آنحضرت کی ولایت کو قبول کیا۔ حتی کہ جو لوگ باطنی طور پرمخالفت تھے انہوں نے ظاہری طور پر رضا مندی کا اظہار کیا اور پوری امت نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے (اگرچہ ظاہری طور پر ہی سہی) کے لئے شرکت کی۔

۱۹

اس بناء پر غدیر کی جاودانہ عید کے دن تمام مسلمانوں اور حتی کے تمام منافقوں نے بھی رسول خدا(ص) کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو امت کی سرپرستی کے لئے ضروری سمجھا اور اسے تسلیم کیا۔

اس دوران صرف ایک شخص  مخالفت کے لئے اٹھا اور اس نے اسی دن اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص)  کو جھٹلانا شروع کر دیا اور پوری امت کے سامنے اپنے کفر و نفاق کو واضح و ثابت کر دیا اور وہ شخص معاویہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔

اہلسنت علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم میں معاویہ تنہا ہی خدا ،رسول خدا(ص) ، ولی خدا   ،حکم خدا  اور پوری امت کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور اس نے  رسول خدا(ص)کے فرمان کو -نعوذ باللہ-جھٹلایا اور اسے رد ّکیا۔

اس حقیقت کو اہلسنت کے چند علماء نے لکھا ہے اور یوں اس کے کفر کو ثابت کیا ہے۔

اگرسقیفہ  میں بیٹھنے والوں نے رسول خدا(ص) کی شہادت کے ستر دن بعد واضح طور پر حکمخدااور رسول (ص) کی وصیت کی مخالفت کی لیکن  معاویہ نے پہلے دن ہی سے غدیر خم میں خدا،رسول خدا(ص)،ولی خدا اور حکم خدا کا انکار کیا۔

معاویہ نے اس پر اتنا زور دیا کہ اہلسنت مفسّرین کے مطابق اس کے برے عمل اور ناقابل  معافی گناہ کے بارے میں کئی آیات نازل ہوئیں۔

اے کاش! دنیا کے مسلمان ابتدائے اسلام سے اب تک ان حقائق سے آشنا ہوتے جن کے نتیجہ میں انہیں معاویہ کی صحیح اور مکمل شناخت ہوتی۔لیکن افسوس کہ علم کی کمی اور اسلامی حقائق سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسلمان گمراہی میں مبتلا رہے ، جیسے انہیں ضروری اور واضح حقائق کی بھی خبر نہ ہوجس کی وجہ سے وہ آب اور سراب میں تشخیص نہ دے سکے۔

شیعہ اور اہلسنت  مفسرین نے کہا ہے کہ سورۂالقیامة کی کچھ آیات معاویہ کے برے اعمال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اس کے کفر کی واضح دلیل ہے۔خداوند کریم نے سورۂالقیامة میں ارشاد فرمایا ہے:

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱ سید رشید رضا(۱)

متاخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :

” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے(۲)

سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :

” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی

____________________

۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ

۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔

۴۱

خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲ ابو الفدء

ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳ ابن اثیر

ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں(۱)

____________________

۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔

۴۲

جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “

یہاں تک کہ کہتا ہے :

” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“

اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے)نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴ ابن کثیر

ابن کثیر ---(وفات ۷۷۴ ھ)نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“

۴۳

اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری نے نقل کیا ہے “۔

اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵ ابن خلدون

عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد(۲) صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :

یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاں موجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “

اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :

میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع (امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیں ا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۴۴

۶ فرید وجدی

فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷ بستانی

بستانی(وفات ۱۳۰۰ ھ)نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “(۱) کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸ احمد امین

عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے

____________________

۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے

۴۵

بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے(۱) ” مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا

” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “

وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “

اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

____________________

۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔

۴۶

” ہم مالی امور کے سلسلے میں ا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذهب و الفضة و لا ینفقونها فی سبیل الله فبشّرهم بعذابٍ الیم >(۱)

اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں ، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں ؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟

ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت(۲) کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن

____________________

۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والو ں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔

۲۔یہ دونو ں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

۴۷

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے(۱)

اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔

چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“

اور حاشیہ میں لکھا ہے :

____________________

۱” تاریخ طبری کا حصہ پنجم ملاحظہ ہو “

وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :

” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -(شیعوں) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔

۴۸

احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریں گے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴ پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔

ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “

اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :

” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “

اپنی کتاب کے ۲۶۶ ۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :

رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے(۱) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی

____________________

۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعو ں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں ، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبنا ں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

۴۹

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے(۱)

اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :

ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“

احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!

احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری

____________________

۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوں میں تاریخی مآخذمیں جانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟

۵۰

سے نقل کیا ہے ۔

اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹ حسن ابراہیم

معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوں نے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری (جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے)نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “

۵۱

اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری(۱) کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوں لکھا ہے :

” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “

کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میں نے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰ ابن بدران

ابن بدران (وفات ۳۴۶ ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس

____________________

۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

۵۲

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے(۱)

لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱ سعید افغانی

سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں ۔

اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر(۱) ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔

میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔

میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔

____________________

۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

۵۳

غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں

۱ فان فلوٹن

وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ”السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عهد بنی امیة “ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :

” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیں نیز ان افراد میں ہیں جو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “

اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔

۲ نکلسن

نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الادب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :

” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “

اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

۵۴

۳ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین

ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے :(۱)

____________________

۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن

۵۵

” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “

ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میں مقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔

۴ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن

ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:

” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“

۵۶

جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :

۱ ۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “

۲ ۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵ ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵ ولھاوزن

ولھاوزں اپنی کتاب ”الدولة العربیة و سقوطها “ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :

” سبائیوں نے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “

۵۷

اس کے بعد لکھتا ہے :

” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “

ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :

” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔

سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔

محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔

جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔

۵۸

وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔

مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :

۱ میر خواند:

اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲ غیاث الدین

غیاث الدین فرزند میرخواند (وفات ۹۴۰ ھ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد

جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵۹

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346