معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 148364
ڈاؤنلوڈ: 5440

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148364 / ڈاؤنلوڈ: 5440
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تبلیغات تعلیم ، دین کے اسرار آمیز اور اعجاز آمیز  پہلوؤں پر زور دیتی  ہیںاور ضرورت پڑنے پر مضامین و مقالات بھی شائع کرتے ہیں،ہم اپنی خدائی حکومت کا گذشتہ حکومتوں سے تقابل کرتے ہیں اور غیر یہود ی حکومتوں کی غلطیوں کو بہت واضح طور پر بیان کرتے ہیں اور کچھ حکّام کی سفّاکانہ و ظالمانہ حرکات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے انسانوں پر تشدد کیا اور انسانیت کو پامال کیااور اس سے انسانوں کی نفرت کو بھڑکاتے ہیں جس سے انسان غلامی کے دور کی آسائش و سہولت کو غلامی کے بعد کے زمانے کی سہولیات پر ترجیح دیتا ہے۔

ہمارے ذریعہ سے غیر یہودی حکومتوں میں رونما ہونے والی بے فائدہ تبدیلیوں سے ان کی حکومتوں کا اعتبار کم ہو جاتا ہے اور لوگ اپنی حکومتوں کی غیر یقینی صورت حال سے تھک کر ہمارے دورحکومت میں ہر طرح کی خفّت و ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ہمارے تسلط سے نکل کر ماضی کی مصیبتوں کو پھر سے برداشت کرنے کے لئے رضامند نہیں ہوتے۔

اسی دوران ہم غیر یہودی حکمرانوںسے لاعلمی اور مسائل کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے سرزد ہونے والی تاریخی غلطیوں پر بھی بہت تاکید کرتے ہیں  اوران حکمرانوں کے ہاتھوں انسان کو پیش آنے والی مشکلات اور مصیبتیں یاد دلاتے ہیں۔

ہمارے کاموں کا طریقہ واصول اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم جو کچھ پیش کریں اورجو تفسیر کریں وہ سب بہترین اور عیب و نقص سے پاک ہے لیکن جو کچھ ماضی میں موجود تھا وہ سب بیہودہ اور بیکار تھا۔

ہمارے فلاسفہ دوسرے عقائد و مذاہب کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں لیکن کوئی اور ہمارے مذہب کے حقیقی عقائد کا تجزیہ و تحلیل نہ کرے۔کیونکہ ہمارے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے دین کے امور کو نہ سمجھنے پائے ۔اور تو اور ہماری اپنی قوم کے افراد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمارے دین کے اسرار کوبرملا کریں۔

ترقی و پیشرفت اور روشن فکری کے نام سے مشہور صدیوں میں ہم نے پست ،بیہودہ اور ذلت آمیز ادبیات کو رواج دیا اور ہمیں قدرت و طاقت مل جانے کے بعد تک ہم چاہیں گے کہ ادبیات کا یہ  طریقۂ کار اسی طرح چلتا رہے۔(1)

--------------

[1]۔ پروتکل ھای رہبران یہود برای تسخیر جھان:97

۴۱

امویوں کی قوم پرستی

بنی امیہ بھی خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے؛حلانکہ ان کی کچھ عورتوں کے گھروں کی چھتوں پر آزادی کے پرچم نصب تھے اور بہت سے مرد ان کی عورتوں کے ساتھ مباشرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے!!

وہ خود کو تمام قریش حتی کہ بنی ہاشم سے بھی افضل سمجھتے تھے اور غیر عرب کو حیوان سمجھتے تھے چاہئے وہ ایرانی ہوں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہو یا اسلام قبول نہ کیا ہو۔

بنی امیہ عربوں کو عجمیوں سے برتر سمجھتے تھے اور عرب ،غیر عرب کو علوج (یعنی موٹی گائے یا موٹا انسان اور سرخ و سفید)کہتے تھے،بلکہ جریر کہتا ہے:

قالوا نَبیعکه بیعاً فقلت لهم                    بیعوا الموالی واستغنوا عن العرب

انہوں نے کہا ہے:تمہیں ان کے پاس فروخت کردیتے ہیں،میں نے کہا:غیر عربوںکو فروخت کرو اور عربوں کو فروخت کرنے سے بے نیاز ہو جاؤ۔

مبرّد کہتا ہے:غیر عربوں کو جس چیز نے زیادہ پریشان کیا ہے وہ یہی شعرہے کیونکہ اس میں انہیں خوار اور پست قرار دیا گیا ہے۔

ایک غیر عرب نےعربوں میں سے قبیلۂ بنی سلیم کی عورت سے شادی کی۔  ایک محتسب نے    عبدالملک مروان کے داماداورمدینہ کے حاکم ابراہیم بن ہشام سے شکایت کر دی۔حاکم نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور شوہر کو سزا دی کیونکہ اس سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا تھا!اس کی سزا یہ تھی کہ اسے دوسو کوڑے مارے گئے اور اس کی ڈاڑھی مونچھ منڈوا دی گئی۔

۴۲

اس حاکم کے بارے میں کہا گیا ہے:

قضیت بسنّة وحکمت عدلاً                        و لم ترث الحکومة من بعید

تم نے سنت کے مطابق فیصلہ کیا اور عادلانہ حکم جاری کیا اور تم نے حکومت کسی بیگانہ سے ارث میں نہیں لی۔

اب اس پرکشش اور پڑھنے کے قابل واقعہ کی طرف توجہ کریں:

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام نے اپنے ایک درباری سے ملک کے مختلف شہروں کے فقہا کے بارے میں پوچھا اور پوچھا کہ مدینہ کا فقیہ کون ہے؟

اس نے کہا:عمر کا زاد کیا ہوا۔

پوچھا:مکہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:عطاء بن ابی ریاح

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:یمن کا فقیہ کون ہے؟کہا:طاووس بن کیسان

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:یمامہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:یحیی  بن کثیر

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:شام کا فقیہ کون ہے؟کہا:مکحول

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:میمون بن مہران

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟ کہا:ضحأک بن مزاحم

۴۳

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:بصرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:حسن اور ابن سیرین

پوچھا:کیا وہ عرب ہیں یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔

پوچھا:کوفہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:ابراہیم نخعی

پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا: عرب۔

ہشام نے کہا:میری جان  پہ بنی ہوئی تھی ،تم نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ عرب ہے۔(1)

اس واقعہ کی بناء پر عرب، غیر عربوں کو ''علوج''کے نام سے پکارتے تھے  اور یہودی بھی غیر یہود کو ''جویم''یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے تھے۔

کتاب''حکومت امویان''میں لکھتے ہیں:اموی حاکموں کی محفلوں میں عرب پرستی واضح طور پر نظر آتی تھی ۔اموی عربوں کی طرف مائل تھے اور انہیں برتری دیتے تھے جس کے اثرات سیاسی، اقتصای اور سماجی تینوںلحاظ سے رونما ہوتے تھے۔

لیکن سیاسی صورت کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بہت سے عجممذہبی ،سماجی یا مادّی وجوہات کی وجہ سے اسلام  کی طرف مائل ہوئے لیکن  ان کے ساتھ اسلامی امتیازات(جیسے عرب اور عجم کا برابر ہونا) کے مطابق سلوک  نہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اہم حکومتی(2) عہدوں  اور دوسری سہولیات  سے  محروم رہے کہ جس کے وہ اہل تھے جیسے فوج میں آنا،اور مسلمان ہونے کے باوجود وہ لوگ جزیہ دینے پر مجبور تھے۔

--------------

[1]۔ پیشوای علم و معرفت:430

[2]۔ حکومت کو ملازمین کی ضرورت تھی لیکن حکمران  اپنے کسی بھی من پسند شخص کو کوئی سا بھی عوامی عہدہ بالخصوص خزانہ کے امور کی ذمہ داری سونپ دیتا تھا۔

۴۴

یہ واضح سی بات ہے کہ اس سیاسی تفرقہ کی وجہ امویوں کا عربی نسل پرستی میں دلچسپی رکھنا تھا اور ان کے اس رویے نے ان میں  تشدد اور جنگ طلبی کا مزاج پیدا کر دیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ کوئی چیز بھی امویوں کی اس دلچسپی کو نہیں روک سکتی تھی کیونکہ حقیقت میں وہ قریشی اور اس سے بھی وسیع طور پر دیکھیں تو وہ قیسی تھے۔ اسلام کی فتوحات اور بہت سے غیر عربوں کی اسلام کی طرف آنے سے پیدا ہونے والی نئی تبدیلی سے انہوں نے اپنی غیر استعمال شدہ مقامی اور قبائلی نوعیت کو محفوظ رکھا۔

انہوںنے اسلام کے عقائد اور اسلامی علاقوں کی تاریخ میں بنیادی فتوحات سے وجود میں آنے والی تبدیلیوں کودرک نہیں کیا تھا۔

اموی حکومت کے دور میں اس طریقۂ کار سے موالی تحریک کے دلوں میں عربی حکام کے خلاف نفرت و  کینہ تھا جس کے نتیجہ میں جدید تفرقہ وجود میں آیاجن کی بنیادقومی مسائل تھے۔

انہوں نے ایک سیاسی دباؤ کے لئے ایک  لشکر بنایا جن کا اموی خلافت کے زوال میں بھی ہاتھ تھا کیونکہایہ گروہ ایسا تھا جوکام تو بہت زیادہ کرتا تھا لیکن اجرت بہت کم پاتے تھے اوروہ حکومت و معاشرے میںسخت ذمہ داری  کی وجہ سے خود کو عربوں سے برابری کی بنا ء پر خود کو ان کا ہم نوالہ ہونے کے لائق  سمجھتے تھے۔

اموی  دور کے آغاز میں(جب مشرق اور بالخصوص ایران میں اسلامی تحریک اپنے قدم آگے بڑھا رہی تھی)سن۴۳/66۳میں کوفہ میں  سب سے پہلی اسلامی تحریک  کا آغاز کیا۔معاویہ نے اس تحریک کا مقابلہ کیا اور ان میں سے کچھ کو کوچ کروا کر شام میں بھیج دیا

دور یزید کے بعد یہ موالی تحریک  واضح و شفاف ہو گئی کیونکہ فتح کی گئی سر زمینوں میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور نئے مسلمانوں  نے دیکھا کہ عربوںاور خاص کر ان کے حکمرانوں کے امتیازات میں اضافہ ہوا رہا ہے۔لہذا انہوں  نے ایک لشکر بنایا جس کا اس دور کے اسلامی معاشرے میں مقام تھا۔موالیوں نے اموی حکومت کے خلاف اس تحریک سے الگ پالیسی اپنائی اور یہ

۴۵

اپنے جن حقوق  سے محروم تھے ،ان کی دستیابی کے لئے انہوں نے اموی حکومت میں ابن زبیر کی تحریک کی حمایت کی۔ان کی فوج مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی تحریک کی بدولت میں آشکار ہوئی اورتحریک شیعوں اور ایرانی عوام میں اتحادکے آغاز کا باعث بنی۔ان تحریکوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مساوات کے حق کا قانون چاہتے تھے  اگرچہ وہ اپنے تمام اہداف حاصل نہ کر سکے۔

موالیوں کے مقابلہ میں عمر بن عبد العزید کے ددور خلافت میں امویوں کی سیاست بدل گئی ۔ اسے قطب اسلامی! اور بنی امیہ کے درمیان مصالحتی سیاست کہا جا سکتا ہے جس سے وہ افراتفری اور بے سکونی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔یہ سیاست عمر کی موت کے بعد پھر بدل گئی اور امویوں نے ایک بار پھر عربوں اور موالیوں میں فرق کرنا شروع کر دیا۔

ایسا معلوم ہوتاہے کہ موالیوں کے ذریعہ وجود میں آنے والا سیاسی گروہ عباسیوں کا آلہ کار بن گیا ۔ کیونکہ انہیںاس تحریک سے عربوں کے ساتھمساوات کی امید تھی اسی لئے عباسی ایرانی عوام اور سرزمین کے مرہون منت ہیں کیونکہ ان  کے لئے امویوں کے سامنے خراسان ہی  مقابلہ کاپہلا میدان قرار پایا۔لیکن اقتصادی لحاظ سے یہ کہنا ضروری ہے کہ امویوں نے مشخص اقتصادی سیاست نافذ کی جو موالیوں کو اقتصادی امتیازات سے محروم رکھنے پر مبنی تھی۔جس نے ان کے لئے بہت سے مسائل پیدا کئے  اور آخر کار یہ بد امنی پیدا کرنے پر اختتام پذیر ہوا جو ان کی حکومت کی نابودی کا باعث بنا۔

موالی ہر جگہ اقتصادی حالات کی شکایت کرتے ۔وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہر شخص کے ساتھ ملحق ہو جاتے ۔خراسان کے موالی دوسروں کی بنسبت زیادہ شکایت کرتے  تھے، وہ دوسرے اسلامی شہروں سے پہلے اسلام کی طرف آئے اور انہوں نے عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے ساتھ سرزمین ماوراء النہر میں اور ہندیوں سے سندھ میں جہاد میں شرکت کی ۔ان خدمات کے باوجود حکومت نے انہیں اقتصادی امتیازات سے محروم رکھا۔(1)

--------------

[1]۔ دولت امویان:240

۴۶

 یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی

یہودیوں کی اسلام سے دشمنی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ان کی اقتصادی شکست تھی۔ سب جانتے ہیں کہ یہودی کس حد تک اقتصای امور اورمال و دولت جمع کرنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ چونکہ وہ خود کو انسانوں کی سب سے افضل قوم سمجھتے ہیں!جس کے لئے وہ اس قدر کوشش کرتے ہیں کہ وہ مالی اعتبار سے سب لوگوں سے برتر ہوں ۔ اقتصادی برتری حاصل کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام انجام دیتے ہیں۔ وہ فساد، فحاشی،شراب ،جوّا اور بربادی کے کسی بھی طرح کے ایسے وسیلہ سے دستبردار نہیں ہوتے جس سے ان کے مال و ددولت میں اضافہ ہو۔جوانوں اور پورے انسانی معاشرے میں ظہور اسلام اور اسلامی اخلاقیات کے عام ہونے سے بے راہ روی،فحاشی اور شراب نوشی کا خاتمہ ہو گیا اور پیغمبر اکرم(ص) کے وجودکی وجہ سے لوگ ناپسندیدہ اور خلاف شریعت کام ترک کر دیتے تھے اور انسانی اخلاقیات کی طرف مائل ہوتے تھے اور اسلامی بازارتشکیل دیتے تھے۔اس وجہ سے یہودیوں کے بازاروں کی رونق ختم ہو گئی اور بہت سے حرام کاروبار یا تو ختم ہو گئے یا ان میں پہلے جیسی بات نہ رہی ؛اور خاص طور پر رسول اکرم(ص) نے حکم دیا تھا کہ مدینہ میں اسلامی قوانین کے مطابق ایک بازار بنایا جائے۔ اسی لئے پیغمبر اکرم(ص) کے مدینہ ہجرت کرجانے کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں (جو تین قبائل''بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر''پر مشتمل تھے) کو اقتصادی منافع خطرے میں نظر آ رہا تھا؛ کیونکہ انہوں نے مدینہ میں مشروب سازی کے کارخانے، فحاشی کے اڈے اور خنزیروں کی پرورش کے لئے مراکز قائم کئے ہوئے تھے۔اسی طرح سونے چاندی کی ذخیرہ اندوزی،سودی معاملات اور اسلحہ سازی بھی انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔المختصر یہ کہ مدینہ کی اقتصای نبض یہودیوں کے ہاتھوں میں تھی۔لیکن مدینہ میں اسلام آنے اور اسلامی حکومت کے قیام سے یہودیوں کے اقتصادی  امتیازات اور منافع کو خطرات لاحق تھے اور یہودیوں کے بازار کی رونق بھی ماند پڑ گئی تھی۔یہ اس وجہ سے تھا کہ مدینہ کے جوان ان کے میکدوں کا  رخ نہیں کرتے تھے ،مدینہ کے لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور اس سے یہودیوں کے اقتصاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔(1)

--------------

[1]۔ اسرائیلیات القرآن:42، ملاحظہ کریں: المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج6ص۵۴۳

۴۷

کتاب''محمد(ص) رسول الحرّیة''میں نقل ہوا ہے :رسول خدا(ص) نے مدینہ کے تاجروں کو حکم دیا کہ وہ مدینہ میں ایک مستقل بازار کھولیں۔مدینہ میں ایسے بازار کے قیام کا مقصد اسلامی قوانین اور تجارتی معاملات میں عدل و انصاف کی رعایت کرنا تھا۔اردگرد کے بہت سے تاجروں نے اس بازار کا رخ کیا جو یہودیوں کے بازار کی رونقمیں کمی کاباعث بنا۔(2)(1) یہودیوں کی اقتصادی شکست ، آمدنی اور کاروبار کے بہت سے ذرائع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے یہودی مسلمانوںسے بغض رکھنے والے سخت دشمن بن گئے اسی وجہ سے جہاں تک ہو سکاانہوں نے زمانۂ جاہلیت میں  اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلمانوں کو نابود کرنے کی کوشش کی۔اس بناء پریہودیوں کی اقتصای شکست اور ان کے بازارکی رونق میں کمی یہودیوں کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا باعث  ہے۔

پیغمبر اکرم(ص)  کو زہر دینا

 یہودیوں کی اقتصادی شکست اس بات کاایک اہم سبب ہے کہ جس کی بناء پر انہوں نے رسول اکرم(ص) کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔یہودیوں کے  ہاتھو ں رسول اکرم(ص) کے مسموم ہونے کا موضوع تاریخی منابع میں اس حد تک مشہور ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں:زینب بنت حارث، سلّام بن مشکم کی بیوی (جس کے کچھ رشتہ دار جنگ خیبر میں مارے گئےتھے(3) نے بھیڑکے ایسے حصہ کو زہر آلود کیا جسے پیغمبر اکرم(ص) کھانا پسند کرتے تھے اوراس نے وہ گوشت پیغمبر (ص)کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت(ص) نے اپنے اصحاب کے ساتھ کھانا شروع کیا لیکن ابھی ایک لقمہ بھی تناول نہیں  کیاتھا کہ آپ (ص) نے فرمایا:یہ غذا مجھے بتا رہی ہے کہ یہ زہرآلود ہے ۔ بشر بن براء کہ جنہوں نے اس کا ایک لقمہ کھا لیا تھا وہ شہید ہو گئے۔ پیغمبر اکرم(ص)نے اپنی رحلت کے وقت بشر کی ماں سے فرمایا تھا:

--------------

[1]۔ اسرائیلیات القرآن:43

[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:54

[3]۔ المغازی:6792

۴۸

یہ بیماری اسی لقمہ کا اثر ہے جو تمہارے بیٹے کے ساتھ خیبر میں کھایا تھا۔(1)

جب آنحضرت نے اس کام کی وجہ پوچھی تو زینب نے کہا:کیونکہ تم نے میرے رشتہ داروں کو قتل کیا تھا لہذا میں نے سوچا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو آپ  زہر کسے آگاہ ہو جائیں گے ورنہ ہمیں تم سے نجات مل جائے گی۔

اس مسئلہ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا رسول اکرم(ص) نے اس یہودی عورت کو قتل کر دیاتھا یااسے آزاد کر دیا؟ سہیلی کہتے ہیں: دو طرح کی روایات میں جمع اس طرح سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پہغمبر اکرم(ص) نے پہلے اپنا انتقام نہیں لیا اور اسے آزاد کر دیا اورجب بشر بن براء دنیا سے چلے گئے تو اس یہودی عورت سے قصاص  لیاگیا۔(2)

تاریخ میں کچھ دوسرے واقعات بھی موجود ہیں کہ کچھ اور افراد نے بھی رسول اکرم(ص) کو زہر دیا اور آنحضرت(ص) کو شہید کیا۔

--------------

[1] ۔ پیغمبر اکرم(ص) کو زہر دینے کے واقععہ کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن احاق کہتے ہیں:پیغمبر اکرم(ص) نے اس غذا کا لقمہ نہیں کھایا تھا ۔ لیکن واقدی کہتے ہیں: آنحضرت(ص) نے وہ غذاکھائی ۔ اسی طرح یہ موضوع بھی واضح نہیں ہے کہ بشر اسی وقت یا ایک سال کے بعد فوت ہوئے ۔ لیکن اصل واقعہ کو اور اس کی وجہ سے تین سال کے بعد پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کو مؤرخین قبول کرتے ہیں۔اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے : سیرۂ ہشام:ج2ص337،  المغازی:ج2ص677، الطبقات الکبری:ج2ص82 اور 154،تاریخ الیعقوبی:ج1ص375 ، التنبیہ الاشراف:224،  جامع السیرة:169،الروض الأنف: ج6ص571

[2]۔ الروض الأنف:ج6ص571

۴۹

یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوںاسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت

اموی حکام، عیسائیوں اور یہودیوں کے طرفدار گورنر مسلمانوں کو اس قدر سخت تکالیف پہنچاتے تھے کہ بعض اوقات انہی یہودی و عیسائی زادوں کے ہاتھوں مسلمان شہید ہو جاتے تھے۔

وہ اموی حکمرانوں کا نام سے استعمال کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اسلام کے پیشواؤں اور مسلمانوں کو شہید کرتے اور بے انتہاقتل و غارت کرتے تھے۔ تاریخ انسانیت میں نقل ہونے والا ایک نہایت شرمناک اور وحشیانہ قتل محمد بن ابی بکر کی شہادت ہیجو معاویہ بن حدیج کندی کے نام سے ایک یہودی زادہ نے انجام دیا۔

محمد بن ابی بکر اگرچہ ابو بکر کے بیٹا تھے لیکن چونکہ وہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے طرفدار اور مصر میں آنحضرت کے گورنر تھے اسی لئے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا اور ایک یہودی زادہ نے انہیں شہید کرنے کے بعد ان کے بدن کو گدھے کی کھالمیں رکھ کر آگ لگا دی۔اس واقعہ کو جاننے کے لئے ہم عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج سے ان کی جنگ کو ذکر کرتے ہیں:

عمروعاص مصر نے مصر کا قصد کیا ۔ محمد بن ابی بکر لوگوںکے درمیان کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد یوںفرمایا:

امّا بعد؛اے مسلمانو اور مومنو!بیشک جو لوگ بے حرمتی کرتے ہیں اور گمراہی میں پڑے ہیں اور ظلم و وجور کے ساتھ سرکشی کرتے ہیں،اب وہ تمہارے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور لشکروں کے ساتھ تمہاری طرف روانہ ہو چکے ہیں ۔ جو بھی جنت اور بخشش کا طلبگار ہے وہ ان سے جنگ کے لئے تیار ہو جائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرے، خدا تم پر رحمت کرے؛کنانہ بن بشر کے ساتھ فوراً روانہ ہو جاؤ۔

تقریباً دوہزار افراد کنانہ کے ساتھروانہ ہو گئے اور محمد بن ابی بکر دوہزار افراد کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ ہوئے اور انہوں نے کچھ دیر اپنی لشکر گاہ میں قیام کیا۔ عمر وبن عاص، محمد بن ابی بکر کے پہلے لشکرکے سپہ سالار کنانہ کے مقابلہ میں لڑنے کے لئے

۵۰

آیااور عمرو جونہی کنانہ کے قریب پہنچاتو اس نے کنانہ سے مقابلہ کے لئے ایک کے بعد ایک گروہ بھیجالیکن شامیوں کا جو بھی گروہ آتا کنانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پر حملہ کرتے اور ان پر ایسے وار کرتے کہ وہ انہیں عمرو عاص کی طرف الٹے پاؤں بھگا دیتے تھے اور انہوں نے اس کام کو متعدد بار انجام دیا۔

 عمروعاص نے جب یہ دیکھا تو معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا اور وہ بہت بڑے لشکر کے ساتھ اس کی مدد کے لئے آیا ۔کنانہ نے جب وہ لشکر دیکھا تووہ اور ان کے ساتھی اپنے گھوڑوں سے اتر آئے   اور انہوں نے ان پر تلوار سے وار کرنا شروع کئے جب کہ وہ اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے:''کوئی نفس بھی اذنِ پروردگار کے بغیر نہیں مرسکتا ہے سب کی ایک اجل اور مدت معین ہے''(1) اور تلوار کے ذریعے ان پر اسی طرح وار ر رہے تھے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔خدا ان پر رحمت کرے۔

ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:محمد بن عبداللہ نے مدائنی سے اور وہ محمد بن یوسف سے نقل کرتے ہیں کہ جب کنانہ قتل ہو گئے تو عمرو عاص نے محمد بن ابی بکر کو اپنا ہدف بنایا اور چونکہ محمد کے ساتھی ان سے منتشر ہو گئے تھے،وہ آرام سے باہر آئے اور اپنی راہ کو جاری رکھا  یہاں تک کہ ایک ویرانہ  پر پہنچے اور وہاں پناہ لی۔عمرو عاص آیا اور شہر فسطاط(2) میں داخل ہوا اور معاویہ بن حدیج ،محمد بن ابی بکرکا تعاقب اور ان کی تلاش میں  باہر آیا۔راستے میں اسے کچھ غیر مسلمان افرادملے  اس نے ان سے پوچھا:کیا تمہارے پاس سے کوئی اجنبی  شخص گذرا ہے؟پہلے انہوں نے کہا:نہیں ۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا:میں اس خرابہ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔معاویہ بن حدیج نے کہا:ربّ کعبہ کی قسم! یہ وہی ہے۔اور سب دوڑتے ہوئے وہاں گئے اور محمد تک پہنچ گئے،وہ لوگ انہیں باہر لائے  اور نزدیک تھا کہ وہ پیاس سے جان بحق ہوجاتے،وہ انہیں فسطاط  لے کر آئے ۔اسی وقت محمد بن ابی بکر کا بھائی عبدالرحمن-جو عمرو عاص کے لشکر میں تھا-کھڑا ہوا اور اس نے عمرو سے کہا:خدا کی قسم! میرے بھائی کوپھانسی نہ دی جائے،معاویہ بن حدیج کو پیغام دو اور اسے اس کام سے منع کرو۔

--------------

[1]۔ سورۂ آل عمران، آیت:145

[2] ۔ فسطاط وہ پہلا شہر تھا مصر میں عربوں  نے دریائے نیل کے مشرق میں بنا اور یہ شہر عمرو عاص کے توسط سے بنایا گیا اور اس میں ایک مسجد بھی بنائی !(المنجد الأعلام)

۵۱

عمرو بن عاص نے معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا کہ محمد کو میرے پاس بھیج دو۔

معاویہ نے کہا:تم نے میرے چچا زاد بھائی کنانہ  بن بشر کو قتل کیا ہے اور اب میں محمد بن ابی بکر کو چھوڑ دوں؟کبھی نہیں؛''اور کیا تمہارے کفار ان سب سے بہتر ہیںیا ان کے لئے کتابوں میں کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے''(1)

محمد نے کہا:مجھے ایک بوند پانی پلا دو۔

معاویہ نے کہا:اگر تمہیں پانی کی ایک بوند بھی دوں توخدا مجھے سیراب نہ کرے،تم عثمان کو پانی پلانے کی راہ میں رکاوٹ تھے اور اسے حالت روزہ میں اس کت گھر میں قتل کیا تھا ،خدا نے اسے جنت کا ٹھنڈا شربت پلایا!خدا  کی قسم؛اے ابوبکر کے بیٹے! میں تمہیںپیاسا ہی قتل کروں گااور خدا تمہیں  گرم پانی اور جہنم کے کھولتے ہوئے اورناپاک پانی  سے سیراب کرے گا۔!

محمد بن ابی بکر نے اس سے کہا:اے کاتنے والی یہودی عورت کے بیٹے!یہ خدا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو سیراب کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو پیاسا رکھتا ہے،تم اور تمہاری طرح کے افراد وہ لوگ ہیںکہ جنہیں تم پسند کرتے ہو اور وہ تمیں پسند کرتے ہیں اور خدا کی قسم! اگر میرے ہاتھوں میں   تلوار ہوتی تو تم مجھے اس طرح نہ پکڑ سکتے۔

معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟تمہیں اس مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے جلا دوں گا۔

محمد نے کہا:فرض کرو کہ تم میرے ساتھ ایسا کرو گے تو کیاہوا کیونکہ بہت سے اولیاء خدا کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔خدا کی قسم!مجھے امیدہے کہ تم مجھے جس آگ سے ڈرا رہے ہو ،خدا میرے لئے وہ آگ ٹھنڈی کردے گا اور مجھے سلامت رکھے گا جس طرح خدا نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کیا اور مجھے امید ہے کہ خدا یہ آگ تمہارے اور تمہارے دوستوں کے لئے

-------------

[1]۔ سورۂ قمر،آیت:43

۵۲

قرار دے جس طرح نمرود اور اس کے دوستوں کے لئے قرار دی اور مجھے امید ہے کہ خدا تجھے،تیرے پیشوا اور اس شخص( عمرو عاص کی طرف اشارہ کیا)کو جلنے والی آگ میں جلائے گا۔''کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواپ بننے کے لئے خدا کافی ہے کہ وہی اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی کیفیات کا دیکھنے والا ہے''(1)

معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:میں تمہیں ظلم و ستم سے قتل نہیں کر رہا بلکہ تمہیں عثمان بن عفان کے خون کے بدلےقتل کررہا ہوں۔

محمد نے کہا:تمہیں عثمان سے کیا سروکار؟جس شخص نے ظلم کیا ،خدا اور قرآن کے حکم کو تبدیل کر دیا اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''اور جو ہمارے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے''۔''وہ ظالموں میں شمار ہو گا''۔''وہ فاسقوں میں شمار ہو گا''(2)

اس کے کئے گئے ناروا کاموں کی وجہ سے ہم غضبناک ہوگئے اور ہم اسے واضح طور پر خلافت سے الگ کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے قبول نہ کیا اور لوگوں کے ایک گروہ نے اسے قتل کر دیا۔

معاویہ بن حدیج غصہ میں آگیا اور انہیں اپنے سامنے لا کر ان کی گردن اڑا دی اور پھر ان کے بدن کومردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔

جب عائشہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ ا س پر بہت روئی۔وہ ہر نماز کے بعد قنوت پڑھتی تھی جس میں معاویہ بن ابی سفیان،عمرو عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھی۔اس نے اپنے بھائی کے اہل  وعیال اور بیٹوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا جن میں قاسم بن محمد بھی شامل تھے۔

--------------

[1]۔ سورۂ بنی اسرائیل،آیت:96

[2]۔ سورۂ مائدہ،آیات:44،45 اور 47

۵۳

کہتے ہیں:معاویہ بن حدیج ایک پلید اور لعنتی شخص تھا جو حضرت  علی بن ابی طالب علیہما السلام کو دشنام دیتا تھا۔

ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:عمرو بن حماد بن طلحہ قناد نے علی بن ہاشم سے انہوں نے اپنے والد سے، انہوں  نے داؤد بن ابی عوف سے ہمار ے  لئے روایت نقل کی ہے کہ معاویہ بن حدیج مسجد نبوی میں امام حسن بن علی علیہما السلام کی خدمت میں آیا۔

امام حسن علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

اے معاویہ! لعنت ہو تم پر؛تم وہی ہو جو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کو دشنام دیتا تھا ؟! خدا کی قسم!اگر تم انہیں قیامت کے دن دیکھو - اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم انہیں دیکھو گے-تو تم انہیں اس حال میں دیکھو گے کہ وہ اپنے پا برہنہ تم جیسے لوگوں کے چہروں کو کچلیں گے اور انہیں حوض کوثر کے پاس سے بھگادیںگے جس طرح بیگانے اونٹوں اجنبیوں کو بھگا دیا جاتا ہے۔(1)

یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی

یہودی اسلام اور مسلمانوں کے اس حد تک دشمن تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا بغض بھرا ہوا تھا کہ وہ اسلام کے نام اور اسلام کے نام پر کسی بھی حکومت سے راضی نہیں تھے۔ لیکن  اسلام کا نام استعمال کئے بغیروہ اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔اس لئے انہوں نے بنی امیہ کی مدد کرنا شروع کی جن کے پاس اسلام اور مسلمانوں کا نام تھا تاکہ ان کے ذریعہ اصل اسلام کو کچل سکیں۔

اس بارے میں بنی امیہ بھی یہودیوں کے ہمدرد تھے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اسلام کے نام اور مسلمانوں سے استفادہ کرنا چاہئے لہذا انہوں نے ظاہری  طور پر اسلام قبول کیا اور ظاہری طور پر مسلمان ہو گئے اور خلافت کا لبادہ اوڑھ کرخدا ،پیغمبر ،کعبہ اور دین کے تمام مقدسات کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔

--------------

[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:2253

۵۴

اموی خلیفہ اپنے باطنی خواہشات کو بخوبی جانتے تھے بلکہ وہ یہودیوں کی شیطانی مکاریوں اور سازشوں سے بھی باخبر تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کی اسلام اور مسلمانوں سے درینہ دشمنی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود کچھ موارد میں انہوں نے یہودیوں سے اس طرح دھوکا کھایا کہ جس کی شرمندگی ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئی اور جس سے ان کی بے شرمی میں مزید اضافہ ہوا۔

ان کا ایک منصوبہ اسکندریہ کے مینار کو برباد کرنا تھاجو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک تھا۔

بہت سے مفکر دنیاکے سات عجوبوں سے کم وبیش آشنا ہیں اوروہ جانتے ہیںکہ ایک روایت کے مطابق اسکندریہ کا مینار  اسکندر مقدونی نے بنایا تھا جو دنیا کی حیرت انگیز تعمیرات میں سے ایک ہے۔اس عجیب عمارت  اور اسے تباہ کرنے کے لئے یہودیوں کی سازششوں کو جاننے کے لئے ان مطالب پر غور کریں:

حیرت انگیز عمارتوں میں سے ایک اسکندریہ کا مینارہے  جوتراشے ہوئے پتھروںاور سیسہ سے بنایا گیا ہے ۔اس کے تین سو کمرے ہیں جن میں سے ہر ایک کمرے میں سے مینار کے اوپر جایا جا سکتا ہے اور ان کمروں میںسے دریاکو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

کہتے ہیں:اسے بنانے والا سکندر مقدونی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں:اسے مصر کی ملکہ''دلوکا'' نے  بنایا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس مینار کے مشرقی کنارے میں لکھا ہوا ہے کہ طوفان نوح کے ایک ہزار دوسو سال بعدستاروں کے معائنہ کے لئے  مربیوش یونانی کی بیٹی کے حکم پر یہ مینار بنا گیا۔

کہتے ہیں:اس مینار کی لمبائی ہزار ذراع ہے اور اب اس کے اوپر کچھ مجسمے ہیں جن میں سے ایک مجسمہ ایک مرد کاہے جو اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے سورج  کی طرف اشارہ کرتا  ہیچاہے وہ آسمان میں جس جگہ بھی ہو اورجس طرف سورج پلٹتا ہے وہ بھی اسی طرف پلٹ جاتا ہے۔

ایک دوسرا بدن ہے جو سمندرکی طرف دیکھ رہا ہے اور جب دشمن اس شہر سے ایک میل کی دوری پر ہو وہ خوفناک آواز نکالتا ہے تا کہ شہر کے لوگوں کو دشمن کے آنے کی خبر ہو جائے۔

۵۵

ایک اور مجسمہ بھی ہے جو راتمیں ہر گھنٹے کے بعد  دلنشین آواز نکالتا ہے۔کہتے ہیںکہ اس مینار کے اوپر ایک آئینہ ہے جس کا رخ سمندر کی طرف ہے اور جس طرف سے بھی کشتیاں آئیں وہ رستے میں تین دن تک اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہیں تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ تاجر ہیں یا دشمن۔یہ مینارولید بن عبدالملک کے زمانے تک عروج پر تھا۔(1)

کتاب''تحفةالدھر''میں  اسکندر کو اس مینار کے بنانے والا قرار دیا گیا ہے اور لکھتے ہیں:اس مینار کو بنانے سے پہلے اس نے مختلف پتھروں کو پانچ سال تک پانی میں رکھا تا کہ اس سے یہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کون سا پتھر پانی کے مقابلہ میں زیادہ مزاحمت کر سکتا ہے۔پانچ سال کے بعد پتہ   چلا کہ آبگینہ(شیشہ)میں زیادہ استحکام و مزاحمت ہے۔اس لئے اس نے حکم دیا کہ پانی میںمینار کی بنیادوں کو آبگینہ سے بنایا جائے۔مشہور تاریخ نویس مسعودی نے یوں لکھا  ہے:ولید بن عبدالملک کے زمانۂ خلافت میں روم کے بادشاہ نے اپنے ایک خاص ذہین اورفہیم شخص کو مہاجر کی شکل میں کچھ اشیاء کے ساتھ ایک اسلامی ملک کی حدود میں بھیجا۔وہ شخص ولید کے پاس آیا اور اس سے کہا:میں روم کے بادشاہ کے قریبی افراد میں سے تھاوہ مجھ سے ناراض ہوگیاہے اور اس نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیاہے ۔میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ آیا اوراب میں اسلام کی طرف مائل ہو چکا ہوں۔وہ ولید کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا اور اس کے نزدیکی افراد میں سے ہو گیا۔ اس نے روم  سے نکالے جانے والے ذخائر اور خزانوں کی بات کی ۔اس نے ان کی تفصیل اپنے پاس لکھی ہوئی تھی  اور اس نے ان میں سے کچھ چیزیں ولید کو پیش کیں جس سے ولید لالچ میں پڑ گیا۔

اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال، جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔

ولید نے کہا: کہاں ہیں؟

اس نے کہا:اسکندریہ کے مینار کے نیچے اموال بھرے پڑے ہیں کیونکہ جب اسکندر دنیا کے جواہرات اکھٹیکئے تو انہیں زمین کے نیچے رکھ دیا اور اس کے اوپر مینار بنا دیا۔

--------------

[1]۔ ترجمۂ نخیة الدھر ف عجائب البرّ و البحر:53

۵۶

ولید جو کہ لالچ میں آچکا تھا،اس نے اس شخص کے ساتھ اسکندریہ کے مسمار کو برباد کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجا۔جب آدھے مینار کو مسمار کر دیا تو وہ مینار زمین پر گر گیاتو اسکندریہ کے لوگوں کا نالا بلند ہوا اور تب جاکروہ لوگ سمجھے کہ دشمن نے کس مکر و حیلہ سے کام لیا ہے۔جب وہ شخص بھی جان گیا کہ اس کی مکاری کو لوگ بھانپ گئے یں تو وہ رات کی تاریکی میں  فرار ہو گیا اور ہمارے زمانے  یعنی  سن 1432ھ میں بھی وہ مینار اسی حالت میں باقی ہے۔(1)

دو وجوہات کی بناء پر ہم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے:ایک، اسکندریہ کے مینار کی وضاحت اور یہ کہ  گذشتہ زمانے میں دنیا میں کیسے کیسے عجوبے پائے جاتے تھے۔اور اس سے بھی اہم نکتہ مسلمانوں کے دشمنوں کی بیداری،ہوشیاری اور ان کے مکرو فریب کو بیان کرنا ہے ۔ یہودی دشمن،جاہل عیسائی اور تمام مسالک و عقائد نے پوری تاریخ میں اسلام کی شان و شوکت ، جاہ و جلال اور مسلمانوں کی معنوی و باطنی رفعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کے مقابلہ میں مسلمان ہمیشہ بے حس رہے اور انہوں نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔لہذا آپ عزیزجوانوں کو میری یہی تاکید اور سفارش ہے کہ دشمن کی طرف سے جو کچھ آئے اسے ہمیشہ اچھا نہ سمجھو بلکہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ خدمت کے نام پر کیسی کیسی خیانتیں کی جاتی ہیں،ترقی و تمدن کے نام پر کیسا کیسا نقصان پہنچاتے ہیں،نئی ایجادات   کے نام پر کیسے کیسے اصل گوہر ہم سے لے لئے جاتے ہیں اورکیسے ہمارا ظاہری و باطنی اور مادی و معنوی  سرمایہ لوٹ لیا جاتا ہے؟

میرے عزیزو!جان لو کہ دشمن دوست نہیں بن سکتا ،کفر کبھی اسلام کے ساتھ یکجا نہیں ہو سکتا۔ یہودی،عیسائی،کفار اور منافقین ہماری مدد کے لئےکبھی بھی حاضر نہیں ہوں گے ۔ وہ تمہیں جتنا دینا چاہتے ہیںوہ اس سے کہیں زیادہ تم سے لے چکے ہیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اوراتنا بھی دھوکا نہ کھائیں اور سادہ لوح نہ رہیں۔ ہم ان کے دیئے گئے نقصانات اور ان کی خیانتوں سے واقف تھے اور واقف ہیں لیکن پھر بھی وہ جو کچھ لاتے ہیں ہم باہیں پھیلا کر ان کے افکار و رفتار کا استقبال کرتے ہیں؟

--------------

[1]۔ مروج الذھب:4171

۵۷

خدا کو اس کی عزت و جلال کا واسطہ دیتے ہیںکہ پروردگارا!جلد از جلد اسلام اور مسلمانوں کی عزت کو پہنچا دے:''این معزّ الأولیاء و مذّل الأعداء'' (1)

مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنےکے لئے یہودیوں کی سازش

پیغمبر اکرم(ص)کے خلاف یہودیوں کی سازشیں صرف غیر مسلمانوں کو اسلام کی  طرف آنے سے روکنے میں ہی منحصر نہیں تھیں بلکہ جہاں تک ہو سکتا تھا وہ مسلمانوں میں تخریب کاری اور سازشیں کرتے تھے تا کہ فتنہ و فساد اور افراتفری پیدا کرکے مسلمانوں کو کمزور کر سکیں۔

یہودیوں نے مسلمانوں میں اختلاف ایجادا کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور اب بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں۔ان میں سے ایک راہ قومی تعصب سے استفادہ کرکے قبائلی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔

اوس اور خزرج عرب کے دو بہت ہی مشہور قبیلے ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودیوں کی سازش کی وہ سے جنگ و جدال میں مشغول تھے۔

کتاب ''تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی''میں لکھتے ہیں: مدینہ میں داخل ہوتے وقت پیغمبر اکرم(ص) کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک اوس اور خزرج دو قبیلوں کے درمیان اختلاف تھا۔اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے ایسی دشمنی اور تفرقہ اندازی کو ختم کرنا آنحضرت کے لئے ضروری تھا ۔  لہذا آپ نے پہلی فرصت میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ قائم کیا اور آنحضرت(ص) کے اسی اقدام کی وجہ سے ان دو قبائل کے درمیان کئی سال کی دشمنی ختم ہو گئی۔اوس و خزرج میں اتفاق و اتحاد ہو جانے کی وجہ سے یہودی اپنے اقتصادی مقاصد اور دوسرے منافع حاصل نہیں کر سکتے تھے،اس لئے انہوں نے اسلام کی روزمرہ کی ترقی سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنے کی کوشش کی۔

--------------

[1]۔ جامعہ در حرم:364

۵۸

یہودیوں نے اپنے اس مشہور قاعدہ''تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو''پر عمل کرتے ہوئے دو قبائل اوس اور خزرج میں اختلافات پیدا کئے تھے اور ان سے قدرت کو یکجا کرنے کا وسیلہ سلب کر لیا تھا۔ اقتصادی،سیاسی اور دوسرے مختلف شعبوں میں یہودیوں کی ترقی کا یہی راز تھا۔چونکہ اسلام کے آنے سے انہیں اپنے یہ منہوس منصوبہ خاک میں ملتے دکھائی دے رہے تھے اس لئے انہوں  نے مختلف کاروائیاں کرنا شروع کیںتا کہ ان کے درمیان روابط ختم کرکے انہیں دوبارہ زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹا دیں اور یوںتیزی سے ترقی کرتے ہوئے اسلام کا راستہ روکا جا سکے۔اس مقصد کی خاطر یہودی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ جس میں اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں اور اس اہم امر کے لئے اپنی سازش پر عمل کریں۔

ایک دن شاس بن قیس (جو ایک دولتمند یہودی تھا) ایک جگہ سے گذر رہا تھا ،جب اس نے دیکھا کہ وہاں اوس اور خزرج قبیلوں کے افراد پیار و محبت سے اکٹھے ہیں تو وہ اپنے حس اور رشک پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے اپنے منہوس منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا۔وہ کسی یہودی جوان کو اس مجمع میں بھیجنا چاہتا تھا جو ان کے درمیان زمانۂ جاہلیت کے درینہ بغض کو پھر سے تازہ کر دے اور اس اتحاد و دوستی کو تفرقہ و دشمنی میں بدل دے۔(1)

جونہی اس جوان نے ان کے درمیان ماضی کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو یاد کیا اور ایک دوسرے کے بارے میں توہین آمیز اشعار پڑھ کر ان کی پیار محبت کی محفل کو لڑائی جھگڑے میںتبدیل کر دیادتوونوں قبیلوں نے ایک دوسرے پرتلواریں اٹھا لیں اور دوسرے افراد بھی ان کی مدد کو پہنچ آئے۔

جب یہ خبر رسول اکرم(ص) تک پہنچی تو آپ فوراً اس مجمع میں پہنچے اور فرمایا:خدا کی پناہ میں آجاؤ،کیا تم پھر سے جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟! خدا نے اسلام کی طرف تمہاری ہدایت کی،تمہیں عزیز بنایا،جاہلیت کے رشتہ کو ختم کر دیا ،تمہیں کفر سے نجات دی اور   تمہارے دلوں کو متحد کیا۔(2)

--------------

[1]۔ السیرة النبویة: ج۲ص۲۰۴، فروغ ابدیت: 91-468

[2] ۔''یا معشر المسلمین؛ اللّٰه اللّٰه أبدعوی الجاهلیة و أنا بین أظهرکم بعد أن هداکم للاسلام، و أکرمکم به و قطع به عنکم أمر الجاهلیّة و استنقذکم من الکفر و ألّف بین قلوبکم'' منشور جاوید:306-299، السیرة النبویة: ج۲ص۲۰۵

۵۹

پیغمبر اکرم(ص) کی باتیں ایک ایسے طمانچہ کی طرح تھیںجو بے ہوش افراد کے منہ پر پڑا اور س کے پڑتے ہی سب ہوش میں آگئے اور سب کو یہ پتہ چل گیا کہ اس یہودی جوان کے اس شیطانی کام کا منصوبہ پہلے ہی سے بنایا گیا تھا اور یہ دشمن کی مکاری تھی ۔اس بناء پر انہوں نے ندامت و شرمندگی سے روتے ہوئے اپنے اسلحہ زمین پر رکھ دیئے اور استغفار کی اور ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر الفت و بھائی چارے کی تجدید کی۔(1)

خداوند کریم نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

(یٰاأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوَاْ ِن تُطِیْعُواْ فَرِیْقاً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ یَرُدُّوکُم بَعْدَ ِیْمَانِکُمْ کَافِرِیْنَ) (2)

اے ایمان والو!اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کر لی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹا دیں گے۔(3) اس دنیا میں یہودیوں کا بنیادی ہدف دنیاوی  آرائش وخوبصورتی اور اسی میں دلچسپی ہے۔ اور چونکہ ان کا آخری مقصد ہی دنیا ہے اس لئے وہ اس تک پہنچنے کے لئے انسانی اقدار کو پامال کر دیتے ہیں اور سب انسانوں  کے درمیان تفرقہ و نفاق کا سبب بنتے ہیں اور اس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور یہودی اپنی مکاریوں کو جاری رکھتے ہیں۔اسی  لئے خداوند متعال نے بھی قرآن مجید میں دنیا کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش   اور مذمت کی ہے اور فرمایا ہے:

(أُولَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ یُنصَرُونَ) (4)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخر ت کو دے کر دنیا خریدلی ہے اب نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

--------------

[1]۔ منشور جاوید:300،الصافی فی تفسیر القرآن:ج 1ص۳۳6

[2]۔ سورۂ آل عمران، آیت:100

[3]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:49

[4]۔ سورۂ بقرہ،آیت:86

۶۰