معاویہ

معاویہ  0%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
زمرہ جات: صفحے: 346
مشاہدے: 162010
ڈاؤنلوڈ: 7023

تبصرے:

معاویہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162010 / ڈاؤنلوڈ: 7023
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پس جب ہم ابتدائے اسلام سے اب تک کی برائیوں اور تخریب کاریوںکی بنیاد کا تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کا اصلی سبب یہودی تھے یا وہ اس میں حصہ دار تھے؛جیسا کہ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:بشریت کو نابود کرنے کے لئے یہودیوں کے بچھائے ہوئے جالوں سے دنیا کو شدید جنگی خطرات لاحق ہیں۔(1) ابتداء سے ہی یہودیوں کی سیاست ایسی ہی رہی ہے کہ جو چیز بھی دنیاوی امور تک رسائی کی راہ میں حائل ہواسے کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے،چاہے اس کے لئے وحشیانہ ترین اور غیر انسانی کام ہی کیوں نہ کرنے پڑیں  جیسے انسانوں کو برائیوں اور فحاشی کی طرف دھکیلنا،ان کے درمیان تفرقہ و نفاق ایجاد کرنا یا ضرورت پڑنے پر انہیں اجتماعی صورت میں قتل کر دینا۔اس رو سے یہ کہاجا سکتا ہے کہ روئے زمین پر اکثر خرابیوں کی بنیادصرف یہودی ہی ہیں۔حتی کہ تورات میں تحریف و تبدیلی کے لئےیہودی علماء رضاکارنہ طور پر  سامنے آئے اور اس کام کے لئے وہ یہودی حکمرانوں اور سلطانوں سے رشوت لیتے تھے اور ان کی خوشامد اور اپنی دنیا کے حصول کے لئے دین یہود کو اس کے اصلی راہ سے منحرف کرتے تھے اور رسول اکرم(ص) کی صفات کو الگ انداز سے نقل کرتے تھے۔(2) خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(أَلَمْ تَرَ ِلَی الَّذِیْنَ أُوتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْلَ) (3) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہ دے دیا گیا ہے اور وہ( اس سے اپنی اور دوسروں کی ہدایت کے لئے استفادہ کرنے کی بجائے اپنے لئے) گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جا ؤ۔؟!مرحوم طبرسی ذکر کرتے ہیں:یہودی علماء خود بھی بہت زیادہ مال دیتے تھے تا کہ توریت کے ایسے مطالب میں تحریف کریںجو یہودیوں کے لئے مادّی نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ درحقییقت یہودی علماء توریت کے یہ تحریف شدہ مطالب دنیاوی اموال کے مقابلہ میں بیچتے تھے۔(4)

--------------

[1]۔ اسرار سازمان مخفی ہود:8

[2]۔ ابوالفتوح رازی:ج۴ص۳۹6

[3]۔ سورۂ نساء،آیت:44

[4]۔ مجمع البیان ف تفسیر القرآن:ج3ص96

۶۱

جب یہودیوں  نے  پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے ناجائز اقتصادی مقاصد کے حصول کی راہ میں حائل دیکھا اور یہ مختلف حربوں سے بھی اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کا بھی منصوبہ بنایالیکن پیغمبر(ص) وحی کے ذریعہ ان کے منصوبے سے آگاہ ہو گئے اور اس جگہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے جہاں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انہیں اس ناپسندیدہ کام کی وجہ سے تنبیہ کی گئی اور انہیں شہر بدر کر دیا گیا۔(1)

یہودیوں میں آج بھی حب دنیا اور مال پرستی پائی جاتی ہے اور آج ہم اس کے شاہد ہیں کہ وہ دنیاوی مقاصدکے حصول کے لئے ہر قسم کے غیر انسانی اور ناجائزفعل انجام دیتے ہیں چاہے یہ ان کے اپنے دین کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں۔اگراس دن وہ معاشرے میں  فساد برپا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو آج بھی استعماری ممالک - جن میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہے-اہم کیمیائی و معدنی موادلوٹ رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں منشیات  اور بوسیدہ اسلحہ فروخت کرتے ہیں جو سالوں سے اسٹور میں بے کار پڑا ہوتاہے۔(2)

....اگر اس دن یہودی دولت حاصل کرنے کے لئے اوس و خزرج میں تفرقہ ڈالتے تھے تا کہ غالب طرف کی حمایت کرنے سے مغلوب کے مال پر قبضہ کیا  جا سکے تو آج اس روش کا نیا نمونہ سامنے آیا ہے اور اقوام کے ذخائر تک رسائی کے لئے ہر قسم کی مکاری اور ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں کی نظر میں حق صرف طاقت کا نام ہے اور آزادی خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور صرف طاقت کے ذریعہ  ہی سیاست میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔(3)

یہودی ''پروتکل''اور اپنی کمیٹی کی گذارشات میں یوں اعتراف کرتے ہیں:ہم داخلی جنگوں کے ذریعہ اقوام کو کمزور کرتے ہیں  جو بعد میں سماجی جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

--------------

[1]۔ السیرة النبویةج: 3ص199-200

[2]۔ چہرۂ یہود در قرآن:6

[3]۔ چہرہ یہود در قرآن:9-8

۶۲

جو ملک بھی ہماری مخالفت میں کھڑا ہو ہم اس ملک اور اس کے پڑوسی ملک کے درمیان جنگ چھیڑ دیتے ہیں تا کہ وہ اسلحہ کے مقابلہ میں مال دیں ،اسلحہ کی افزائش اور جنگیں ہمارے فائدے میں ہیں۔کیونکہ ایک طرف سے ہم اقوام و ملل کے درمیان اپنے لئے احترام پیدا کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہم نظم اور بے نظمی کے عواملہیں اور دوسری طرح سے ہم ان پر اقتصادی قراردادوں اور مالی عہدو پیمان کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔(2)(1) پیغمبر اکرم(ص)  اور آپ کے بعد کے زمانے میں یہودیوں کی تخریب کاری کا ایک اور سبب ان کے مقام و منصب کو درپیش آنے والا خطرہ تھا۔اس بناء پر یہودیوں نے مختلف زمانوں میں حکومتوں کو اپنے قابومیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ان موارد میں سے ایک ان کے ثقافتی اور مطبوعاتی تہوار ہیں جن کے ذریعہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں اور اپنے مقام کو مستحکم کرتے ہیں۔اس بارے میں ''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:''.....زہریلے افکار کو پھیلانے والے یہودیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں۔ گفتگو کرنے کے لئے ان کے کچھ خاص  لہجہ ہوتے ہیں جو ذہنی و فکری مغالطہ پیدا کرنے میں بہت ماہر ہوتے تھے۔سیاسی بحث کے دوران وہ کئی دھوکا دینے والے کلمات جیسے ملت،آزادی،امن و امان کا قیام وغیرہ سے اپنے مقابل کوخارج کر دیتے۔لیکن چونکہ یہ جنگ میں شکست کھانے والے ان افراد کی طرح  عاجز و بے بس ہوجاتے تھے جن کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہ ہو۔اس لئے یہ خود ہی حماقت  وبے وقوفی کرتے۔اگر ان کا  کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا تو وہ فوراً نئی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ۔ان کے دلائل اتنے بے بنیاد تھے کہ یہ خود بھی اس سے واقف تھے لیکن پھر بھی اس کا خیال نہ کرتے۔یہودی  ایک  خودغرض،لاپرواہ ،اپنے ملک اور خاندان کی غدارمخلوق ہے۔اگر کسی روز کسی ملک کی زمام ان کے ہاتھوں میں آجاتے اور وہ اسے اپنا مال سمجھنے لگیں تو اس ملک کو دوسرے ملک میں تخریب کاری پھیلانے کا مرکز بنا دیں''(4)(3)

--------------

[1]۔ اسرار سازمان مخفی یہود:68-67

[2]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:110

[3]۔ نبرد من:45

[4]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی :118

۶۳

دوسرا باب

یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے

    ۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو

    2- ایک دوسرا گروہ

    3- ابوہریرہ

    4- عبداللہ بن عمرو عاص

    5- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی

    6- کعب الأحبار

    کعب الأحبار اور عمر

    کعب الأحبارکے توسط سے معاویہ کے یہودیوں سے تعلقات

    یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

    کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

    7- وہب بن منبّہ

    وہب بن منبّہ کے عقائد

۶۴

 ۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو

تاریخ اسلام کے منابع میں یہودی سربراہوں میں سے کچھ نام دوسروں سے نمایاںدکھائی دیتے ہیں ۔ جیسے کعب بن اشرف، ابو رافع (سلّام1 بن ابی حقیق) اور ابو حقیق کا خاندان کہ جن میں کعب بن اسد،حیی بن اخطب اور اس کا خاندان،  مخیریق، سلّام (1) بن مشکم، عبداللہ بن سلّام، محمد بن کعب قرظی اور کعب الأحبار۔

کعب بن اشرف بنی نضیر کے شاعروں میں سے تھا  جو اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنے پروپیگنڈوں اور کوششوں کی وجہ سے آنحضرت کے اصحاب کے ہاتھوں مارا گیا۔حکومت مدینہ کے خلاف تحریکوں میں ابو رافع کا بھی بہت اہم کردار تھا اور آخر میں اسے اسی کی سزا ملی۔ کنانہ بن ربعی بن حُقیق کہ جسے کبھی کنانہ بن ابی حقیق کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جوخیبر کے بزرگوں میں  سے تھا اور ان کاصاحب کنز تھا۔(2) وہ خیبرکی جنگ میں مارا گیا۔اس سے پہلے مدینہ کے خلاف جماعتوں کی تحریکوں میں بھی اس کا نام نظر آتا ہے۔حیی بن اخطب، جو پیغمبر اکرم (ص) سے معاہدے  پر دستخط لینے کے لئے بنی نضیر کا نمائندہ تھا اور اسلام کے سخت دشمنوں میں سے تھا۔وہ اس قبیلہ کا بزرگ شمار کیا جاتا تھا،عہد وپیمان توڑنے کی وجہ سے اسے مدینہ سے نکال دیا گیا اور وہ خیبر چلا گیا۔جنگ احزاب میں اس نے کعب بن اسد(جو بنی قریظہ کا بزرگ اور رسول اکرم(ص) سے معاہدہ میں مدّ مقابل تھا) سے بہت اصرار کیا اور اسے پیغمبر (ص) سے کئے گئے معاہدے کو توڑنے  اور پیغمبر(ص) کے دشمنوں سے مل جانے پر مجبور کیا۔ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ یہ دونوں بنی قریظہ کے واقعہ میں قتل ہو گئے۔

----------------

[1] ۔ منابع میں ان یہودیوں کا نام تشدید کے نقل ہوا ہے اور اگر مؤرخین نے اس کی طرف توجہ نہ بھی کی ہو تو پھر بھی محققین نے اس کی تاکید کی ہے۔ سہیلی''عبداللہ بن سلّام'' کے نام کے ذیل میں کہتے ہیں:چونکہ سلام(تشدید کے بغیر)خدا کے اسماء میں سے ہے اس لئے مسلمانوں میں یہ نام نہیں ہے بلکہ یہودی اس طرح(سلام ، تشدید کے بغیر) نام رکھتے تھے۔ لیکن سہیلی کے قول پر بہت سے اعتراضات ہوئے کہ جن میں سے ایک یہی مورد ہے۔

[2] ۔ آل ابی حقیق کا کنز یہودیوں کے مال کا خزانہ تھا ۔اونٹ کی کھال میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، جو اس خاندان کے بزرگ کے پاس ہوتا تھا۔ مکہ کی شادیوں کے لئے یہ خزانہ کرائے پر دیا جاتا تھا اور کبھی ایک مہینہ کے لئے یہ مکہ والوں کے پاس ہوتا۔''المغازی:ج۲ص6۷۱'

۶۵

مخیریق  وہ تنہا یہودی تھا جسنے اسلام قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہا۔ان کا شماربنی قینقاع کے بزرگوں اور عالموں  میں ہوتا تھاجو پیغمبر(ص) سے معاہدے میں یہودیوں کے تیسرے گروہ کے نمائندہ تھے۔جب رسول اکرم(ص) جنگ احد کے لئے مدینہ سے باہر گئے تو مخیریق نے اپنی قوم سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اس لئے ان کی مدد کرنی چاہئے ۔یہودیوں نے کہا:آج ہفتہ کا دن ہے اور وہ ان کے ساتھ نہ گئے۔مخیریق نے اسلحہ اٹھایااور احد پہنچ گئے اور مسلمانوں سے مل کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے:یہودیوں میں سے مخیریق بہترین تھے۔(1) سلّام بن مشکم اگرچہ اسلام کے دشمنوں میں سے تھا لیکن اس کے باوجود اپنے یہودی کیش و علماء کورسول خدا(ص) سے جنگ کرنے اور عہد و پیمان توڑنے سے ہوشیار کرتاتھا اور آنحضرت کی رسالت کا   اعتراف کرتا تھا۔(2) غزوۂ سویق میں بھی اس یہودی کا نام ملتا ہے۔بدر کی شکست کے بعد ابو سفیان نے رسول اکرم(ص) سے جنگ کرنے کی نذر کی تھی  جس کے لئے وہ مشرکین کے ایک گروہ کے ساتھ چھپ کر مدینہ آیا اور بنی نضیر کے پاس گیا ۔ سلّام بن مشکم نے (جواس وقت بنی نضیر کا بزرگ اور ان کاصاحب کنز تھا )ابوسفیان کی بات مان کر اسے مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مشرکوں نے مدینہ کے اطراف میں  انتشار پھیلایا اور وہ ستّوؤںکووہیں چھوڑ کراس جگہ سے چلے گئے۔جب مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا تو انہیں  یہی ستّو ملے جو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا زاد راہ تھا اس وجہ سے اسے غزوۂ سویق کہا جاتا ہے۔(3) سلّام بن مشکم مدینہ سے نکل جانے کے بعد خیبر میں زندگی گزارتا تھا۔بنی قریظہ کے واقعہ اور حیی بن اخطب کے مارے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر یہودیوں کی قیادت سنبھالی اور جنگ خیبر میں قتل ہو گیا جب کہ وہ بستر مرگ پر تھا۔(4)

---------------

[1]۔ سیرۂ ابن ہشام:5181،المغازی:ج۱ص۲6۲

[2]۔ المغازی:ج1ص365،368 اور 373

[3]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج2ص44،المغازی:ج1ص181

[4]۔ المغازی:ج1ص530 اورج2ص679

۶۶

جنگ خیبر کے بعد جس عورت نے رسول اکرم(ص) کو زہر دیا تھا وہ اسی سلّام کی بیوی تھی کہ جس کاباپ اور چچا بھی جنگ میں مارے گئے تھے۔(1) عبداللہ بن سلّام دوسرا یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا لیکن مخیریق کے برعکس آخر میں یہ امویوں کا آلۂ کار اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کا مخالف بن گیا۔یہی موضوع اور اس کا اسرائیلیات سے آگاہ ہونا باعث بنا کہ اس سے نقل ہونے والی روایات یااس کے بارے میں نقل ہونے والی گذارشات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔مثلاً اس کے اسلام لانے کے زمانے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس نے ہجرت کے پہلے سال اسلام قبول کیا۔(2) ابن اسحاق نے خود عبداللہ سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے مدینہ میں داخل ہوتے وقت اس نے اسلام قبول کیا کہ جب آنحضرت قبا میں رہتے تھے۔(3) لیکن اس کے اسلام لانے کے بارے میں ایک دوسری خبر یہ ہے کہ اس نے سن آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا۔(4) معاصر مؤرخ جعفر مرتضی عاملی دوسرے قول کو قبول کرتے ہیںاور کہتے ہیں:اس روایت کی طر ف توجہ نہ کرنے کی وجہ اس کے راویوں میں سے ایک کا شیعہ ہونا ہے۔(5)

دوسرا مورد اختلاف موضوع اس کے بارے میں نازل ہونے والی کچھ آیات کا شان نزول ہے ۔ انہیں آیات میں سے ایک سورۂ احقاف میں ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے:'کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا جب کہ بنی اسرائیل کاایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکا ہے اور وہ ایمان بھی لایا ہے اور پھر بھی تم نے غرور سے کام لیا ہے بیشک اللہ ظالمین کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے ''(6)

--------------

[1]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج2ص337 اور 679

[2] ۔ تاریخ خلیفہ:19، دلائل النبوة:ج2ص526۔ بیہقی نے اس کتاب میں ایک مخصوص باب کھولا ہے جس میں عبداللہ کے اسلام قبول کرنے کی روایت کو ذکر کیاہے۔

[3]۔۔سیرۂ ابن ہشام:ج1ص51[4]۔ الأصابہ: ج4ص118[5]۔ الصحیح:ج4ص145

[6]۔ سورۂ احقاف،آیت:10

۶۷

بہت سی کتابوں میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(1) لیکن بعض کہتے ہیں چونکہ سورۂ احقاف مکی ہے  اور عبداللہ مدینہ میں اسلام لایا اس لئے اس آیت سے عبداللہ مراد نہیں ہو سکتا۔(2)

علامہ طباطبائی سورہ کے مکی اور آیت کے مدنی ہونے کے اشکال کو ردّ کرتے ہوئے متعدد روایات کی بنیاد پر عبداللہ کو ہی اس آیت کا مصداق سمجھتے ہیں۔نیز وہ ان روایات کو بھی اشکال سے خالی نہیں سمجھتے۔(3)

دوسری آیات جن کا مصداق عبداللہ کو شمار کیا جاتا ہے وہ یہ ہیں:سورۂ آل عمران آیت199، سورۂ رعد آیت43 اور سورۂ شعراء آیت197۔(4) ایسا لگتا ہے کہ اہل کتاب میں سے اسلام لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی(5)   اس لئے راویوں اور مفسروں نے اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف اشارہ کرنے والی آیات عبداللہ بن سلّام پر منطبق کی ہیں۔البتہ ان تین آیتوں کے بارے میں دوسروں کے نام بھی لئے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود شعبی نے کہا ہے:''کوئی آیت بھی عبد اللہ کی شأن میں نازل نہیں ہوئی ہے۔(6)   دلچسپ تو یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں ان شأن نزول کا راوی بھی خود عبداللہ ہے!

عسقلانی کہتا ہے:جب ابن سلّام عثمان کا دفاع کرنے کے لئے لوگوں سے بات کر رہا تھا تو اس نے اشارہ کیا کہ میرے بارے میں آیۂ''شهد شاهد' 'اور'من عنده علم الکتاب''  نازل ہوئی ہے۔(7)

--------------

[1]۔ صحیح البخاری:ج4ص229،الطبقات الکبری:ج2ص269،مجمع البیان:ج5ص126[2]۔ الدر المنثور:ج7ص380

[3]۔ المیزان:ج18ص199 اور 203[4] ۔ ان تین آیتوں کے بارے میں بالترتیب :المغازی:3291،مجمع البیان:4623،الطبقات الکبری:2692

[5] ۔  ابن اسحاق نے صرف مخیریق اور عبداللہ بن سلّام کا نام لیا ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا(سیرۂ ابن ہشام:  ج۱ص۵۱6)   البتہ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ دوسرے افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔(سبل الہدی:ج۳  ص۳۷۸)  لیکن بہ ہر حال ان کی تعداد کم ہے۔

[6] ۔  الدر المنثور:ج۷ص۳۸۰۔جعفر مرتضی بھی ان قرآنی آیتوں کو عبداللہ پر منطبق کرنے کی مخالفت اور اس روایت کو تقویت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بعید نہیں کہ معاویہ نے ابن سلّام کے لئے فضیلت گھڑی ہو ،بالخصوص آیۂ رعد کے مصداق امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں ۔ وہ کتاب سلیم کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں قیس بن سعد آیت کو حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ اسے عبداللہ سے تفسیر کرتا ہے۔(الصحیح :ج۴ص۱۴۸ اور 150)

[7]۔ الأصابة:ج۴ص۱۲۰

۶۸

ابن سلّام کے بارے دوسرا قابل توجہ موضوع کچھ روایات ہیں جن میں اسے ''عشرۂ مبشرہ''(1) میں سے قرار دیا گیا ہے۔(2)

ان متعددروایتوں(جنہیں نقل کرنے کے سلسلہ میں عبداللہ بن سلّام بھی ہے) کے علاوہ جس مورد میں اس کا نام منابع میں نقل ہوا ہے وہ عثمان کے محاصرہ کا واقعہ ہے۔ اس بارے میں مؤرخین کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سلّام نیعثمان کا محاصرہ کرنے والوں کو دور کرنے اور انہیں خلیفہ کا خون بہانے سے روکنے کی کوشش کی۔

عبداللہ کے جواب میں مخاطبین نے کہا:

  ''اے یہودی زادہ!ان امور سے تمہارا کیا سروکار؟''(3)

 ابن شبّہ اپنی کتاب میں عبداللہ کے عثمان سے دفاع کرنے کے بارے میں ایک باب لکھا ہے(4) اور ابن سعد نے عثمان کی حمایت میں اس سے روایات نقل کی ہیں اور لکھا ہے:

عبداللہ بن سلّام نے عثمان کے قتل کے دن کہا:''آج عرب نابود ہوگئے''(5)

یہنومسلمان یہودی ان لوگوں میں ہے جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی!(6) اور جو  43 ھ میں اس دنیا سے چلا گیا۔(7)

-------------

[1]۔ وہ دس افراجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے!

[2]۔ صحیح البخاری: ج۴ص۲۲۹، الطبقات الکبری:ج۲ص۲6۹

[3]۔ انساب الأشراف: ج6ص192 اور 221، تاریخ الطبری:ج3ص452

[4]۔ تاریخ المدینہ:ج2ص1175

[5]۔ الطبقات الکبری:ج3ص59

[6]۔ مروج الذہب:ج2ص361، شرح نہج البلاغہ:94،تاریخ الطبری:ج3ص452

[7]۔ تاریخ خلیفہ:126

۶۹

2- ایک دوسرا گروہ

ایک دوسرا گروہ کہ رسول اکرم(ص) کو جن کا سامنا تھاور جنہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کیں، وہ لوگ تھے جنہوں نے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کے دلوں میں اسلام نہیں تھا حتی کہ وہ اسے ختم کرنے کی تاک میں رہتے تھے۔خداوند کریم نے قرآن کی بہت سی آیتوں میں ان کی سختی سے سرزنش کی ہے اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔

اگر تاریخی شواہد سے استفادہ کیا جائے تو ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کی اکثریت پہلے یہودی تھی۔ابن اسحاق نے اپنی کتاب کے ایک باب  میں یہودیوں کے کچھ علماء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے ظاہراً تو اسلام کیا لیکن وہ منافقین کا حصہ تھے۔ان افراد میں رفاعة بن زید بن تابوت، زید بن لصیت،عثمان اور نعمان جو اوفی کے بیٹے تھے،رافع بن حریملہ،سعید بن حنیف، سلسلة بن براھام اور کنانة بن صوریا۔(1)

بلاذری نے سوید،داعس، مالک بن ابی نوفل(نوقل) اور لبید بن اعصم کا نام بھی ذکر کیا ہے۔(2)

ان ناموں میں سے زید بن لصیت (لصیب) کا نام سیرت کی اکثر و بیشتر کتابوں میں نظر آتا ہے۔مؤرخین نے کہا ہے:جنگ تبوک میں جب پیغمبراکرم(ص) کا اونٹ گم ہو گیا تو زید نے کہا:محمد(ص) کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور آسمان کی خبر دیتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان کی سواری کہاں ہے۔ رسول خدا (ص)کو اس کی ان باتوں کی خبر ہوئی تو فرمایا:خدا نے جو کچھ مجھے تعلیم دیا میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اب خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔مسلمان اسی جگہ گئے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے بتایا تھااور وہاں سے اونٹ لے آئے۔(3)

--------------

[1]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج1ص527

[2]۔ انساب الاشراف: ج1ص339 اور 340

[3]۔ تاریخ الطبری: ج3ص370

۷۰

 واقدی نے یہ واقعہ دو جگہ غزوۂ بنی مصطلق اور جنگ تبوک میں ذکر کیا ہے۔(1) جس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ ملتا جلتا واقعہ دوبار پیش آیا ہو۔لیکن اس میں شک نہیں ہے اصل واقعہ ایک ہی بارپیش آیا تھالیکن جب مختلف راویوں نے اسے نقل کیا تو غزوہ کو معین کرنے میں(جس میں یہ واقعہ پیش آیا) ان میں اختلاف اور  اشتباہ ہوا۔رفاعة بن زید بن تابوت ( واقدی نے جس کا نام''زید بن رفاعة بن تابوت ''لکھا ہے)کے بارے میںذکرہواہے:غزوۂ مریسیع (بنی مصطلق) سے واپسی پر تند و تیز ہوا چلی جس سے مسلمان خوفزدہ ہو گئے۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:ڈرو نہیں۔یہ ہوا مدینہ میں منافقوں کے ایک بزرگ کی موت کی وجہ سے چلی ہے۔جابر بن عبداللہ نے کہا:جب ہم مدینہ پہنچے تو میں نے گھر جانے سے پہلے پوچھا کہ آج کس کی موت واقع ہوئی ہے؟کہا:زید بن رفاعہ۔(2) طبری نے بھی یہ واقعہ غزوۂ مریسیع میں ذکر کیا ہے(3) لیکن جنگ تبوک کا واقعہ بیان کرتے وقت بھی اس کے نام کو دوہرایا ہے۔(4) ابن اسحاق نے اسی سے ملتا جلتا جملہ رسول اکرم(ص) سے رافع بن حریملہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ جب تند و تیز ہوا چلنا شروع ہوئی تو فرمایا:آج منافقوں کا ایک بڑا مر گیا ہے۔لیکن سیرت کے ایک دوسرے مقام پر اس کا نام ذکر کرکے اسے یہودیوں میں سے شمار کیا ہے جس میں اس کے اسلام لانے اور نفاق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔(5)

 بلاذی نے یہودیوں کے کنیسہ میں منافقین کے آمد ورفت کی خبر دی ہے اور ایک ددوسری جگہ کہا ہے:مالک بن نوفل (جو یہودی عالم تھا) نے اسلام تو قبول کیا لیکن وہ یہودیوں کو رسول خدا(ص) کی خبریں پہنچاتا تھا۔(6)

--------------

[1]۔ المغازی: ج1ص24 اور ج2ص1010

[2]۔ المغازی: ج1ص423، سیرۂ اب ہشام:ج2ص292(کچھ فرق کے ساتھ)

[3]۔ تاریخ الطبری: ج2ص262

[4]۔ تاریخ الطبری: ج2ص367

[5]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج1ص527، انساب الأشراف: ج1ص340

[6]۔ انساب الأشراف: ج1ص329 اور 339

۷۱

 گذشتہ ابحاث سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میںیہودی ہونے کی وجہ سے کچھ منافقین کے ان دو گروہوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ بنی قینقاع اور بنی نضیر کے دو حادثوں میں عبداللہ بن ابی(منافقین کا بڑا)کا یہودی دوستوں کو چھڑانے کی کوششوں کو اس مطلب کی دلیل قرار   دیا جا سکتا ہے۔ ابن ابی کے ساتھی اور ہم فکریہودیوںمیں سےتھے جن کے نام مؤرخین نے اسی کے ساتھ ذکر کئے ہیں  اور جن کے نام پہلے ذکر کئے گئے ہیں۔(1)

3- ابوہریرہ

صحیح بخاری میں ایک طولانی حدیث کے ضمن میں آیا ہے:ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا (ص) کی ملازمت کی۔(2) اسی جگہ ابن مسبب اور ابو مسلمہ کے سلسلہ سے ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا:''میں اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھا!''(3) اسی طرح بخاری نے ابوہریرہ تک اپنی سند سے خود اسی سے نقل کیا ہے:لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثوں کی رسول خدا(ص) کی طرف نسبت دیتا ہے حلانکہ میں ہمیشہ آنحضرت کے ساتھ ہوتا تھا کہ شاید میرا پیٹ بھر جائے۔(4) یا خود ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے :میں نے خود کو دیکھا کہ میں بھوک کے مارے  رسول خدا(ص) کے منبر اور عائشہ کے حجرے کے درمیان نڈھال گرا پڑا تھا ،جو کوئی بھی آتا میری گردن پہ پاؤں رکھتا اور سوچتا  کہ میں پاگل ہوں جب کہ میں پاگل نہیں تھا بلکہ یہ سخت بھوک کی وجہ سے تھا۔(5)

--------------

[1]۔پیغمبر(ص)  و یہود و حجاز:5۲۔

[2]۔ صحیح بخاری:ج1ص24، کتاب العلم، باب حفظ علم

[3] ۔ صحیح بخاری:ج3ص1،کتاب البیوع

[4]۔ صحیح بخاری:ج2 ص197، باب مناقب جعفر بن ابی طالب

[5] ۔ صحیح بخاری:ج4ص175،کتاب اعتصام بہ کتاب و سنت،نیز ملاحظہ کریں: تذکرة الحفّاظ:ج1ص35اور الاصابة: ج4 ص202

۷۲

گویا اس نے  پیغمبر(ص) کے ساتھ اپنی ساری زندگی راستہ میں بیٹھ کر اپنی بھوک کا اظہارکرتے ہوئے اور تھوڑے سے کھانے کی درخواست کرتے ہوئے گزار دی جب کہ اس کا کوئی اور کام نہیں تھا۔اس کا  نام نہ تو کسی جنگ میں ملتا ہے اور نہ ہی صلح میں۔البتہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ موتہ میں دشمن کے لشکر سے ڈر کر بھاگ گیا تھا(1) اس کے علاوہ اس کی کوئی اور بہادری نہیں ہے۔!جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا اور ناجائز اموی حکومت نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری سنبھالی تو ابوہریرہ کو دوبارہ  نئی زندگی ملی اور اس کی معمولی زندگی ایک شاہانہ زندگی میں بدل گئی۔

 ابوریّہ لکھتے ہیں:جب حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان یا دوسرے لفظوں میں بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکی اور مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے تو ابوہریرہ بھی اپنے نفس اور اپنی ہواو ہوس کے پیروی کرتے ہوئے معاویہ کے ساتھ مل گیا؛کیونکہ معاویہ کی طرف اسے طاقت،دنیا کا مال،عیش و عشرت اور دنیاوی زندگی کی تمام سہولتیں مہیا تھیں اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف تقوی و پرہیزگاری کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔

 یہ واضح سی بات ہے کہ ابوہریرہ ایسے امور سے بیزار تھا ۔اس بناء پر ابوہریرہ نے اپنا راستہ معاویہ کے دربار کی طرف موڑ دیا تا کہ وہ اس کے رنگ برنگے دسترخوان،تحائف اور قیمتی انعامات سے مستفید ہو سکے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے۔

وہ ابوہریرہ جو کبھی بھوک کی وجہ سے غش کھا کر دروازے پہ گر جاتا تھا-جیسا کہ اس نے خود کہا ہے-وہ کس طرح بنی امیہ کی دولت،طاقت اور خوش ذائقہ و  لذیذ کھانوں کو ہاتھ سے جانے دیتا اور کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جو کی روٹی پرگزارا کر سکتا تھا؟یہ ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت اور نفسانی غرائز کے ساتھ سازگار نہیں ہے سوائے چند گنے چنے افراد کے کہ جنہیں خدا نے لغزشوں سے محفوظ رکھا ہو۔(2)

--------------

[1] ۔ المستدرک:423

[2] ۔  شیخ المضیرة:207 اور 208،و أضواء علی السنّة المحمدیّة:213

۷۳

 بنی امیہ کے برسرکار آنے سے ابوہریرہ ان کے دوستوں اور مبلّغوں کے دائرہ میں آگیا جس نے   اپنی زبان اور روایات سے ان کی مدد کی اور اس طرح اسے ان کا لطف،عنایات،تحائف اورلذیذ غذائیں مہیا ہوئیں۔(1) بالخصوص ''مضیرة''(2) جو معاویہ کی بہترین غذا شمار کی جاتی تھی اور ابوہریرہ کووہ غذا اتنی پسند تھی کہ اسے اس نام کا لقب دے دیا گیا اور یہ لقب اس کا لازمہ بن گیا اور ہر زمانے میں اسے ''شیخ المضیرة'' کے نام سے پہچانا جانے لگا۔

 محمد عبدہ کہتے ہیں: جب لوگوں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بیعت کی تو اس کے بعد معاویہ نے خلافت کا دعوی کیا لیکن حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں لذت و شہوت کے پیروکاروں اور مضیرة (جو معاویہ کے کھانوں میں سے ایک تھا) میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ کسی نے معاویہ کی طرفداری نہیں کی۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہی وجہ تھی کہ مضیرة کھانے والے معاویہ کی خلافت کی گواہی دیں۔(3)

 کہتے ہیں:ابوہریرہ مضیرة کو بہت پسند کرتا تھا اور اسے معاویہ کے دسترخوان پر کھاتا تھا اور جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور جب بھی اس سے اس بارے میں بات کی جاتی تو اس کے جواب میں کہتا:

''معاویہ کا مضیرة زیادہ لذیذہے اورحضرت علی علیہ السلام کے پیچھےنماز  افضل ہے''(4)

--------------

[1] ۔  سید شرف الدین عاملی لکھتے ہیں:امویوں کے خلافت پر آنے کے بعد انہوں ے ابوہریرہ کو زمین سے اٹھا کر اس سے غربت وتنگدستی اور بیچارگی کی خاک جھاڑ دی اور اسے ریشم کا بہترین لباس پہنا دیا۔انہوں نے اسے ریشم اور لیلن کے کپڑے پہنائے اور محلہ عقیق میں اس کے لئے محل بنوایا  اور اس طرح انہوں نے اس کے گلے میں نوکری کا طوق ڈال دیااور اس کے نام کو بلند کیا اور اسے مدینہ کی حکومت دے دی۔(ابوہریرہ اور جعلی حدیثیں:50)

[2] ۔  مضیرة گوشت کی ایک قسم ہے کہ جسے کبھی لسّی اور کبھی تازہ دودھ کے ساتھ ملا کر پکاتے ہیں اور پھر اس میں مصالحہ اور دوسری چیزیں ڈالتے ہیں جس سے وہ مزید لذیذ ہو جاتی ہے۔ (شیخ المضیرة:55)

[3]، شیخ المضیرة:57

[4]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:127

۷۴

 4-عبداللہ بن عمرو عاص

اسے مصر میں سونے کے خزانے اپنے باپ عمروعاص سے ارث میں ملے تھے اسی  لئے اسے اصحاب پیغمبر(ص) میں سے بادشاہوں میں سے شمار کیا جاتاہے۔(1)

 بعض آثار اور تاریخی روایات اس کی حکایت کرتی ہیں کہ وہ رسول خدا(ص) کی احادیث بھی لکھتا  تھاحتی کہ ''صادقہ''کے نام سے ایک صحیفہ کو بھی اس سے نسبت دی جاتی ہے کہ جس میں اس نے پیغمبر اکرم(ص) کی حدیثوں کو جمع کیا ۔(2)

 بخاری نے بھی کتاب علم میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی نے بھی مجھ سے زیادہ پیغمبر اکرم(ص) سے حدیثیں نقل نہیں کی ہیں مگر عبداللہ بن عمرو کہ وہ جو کچھ بھی سنتا اسے لکھ لیتا لیکن میں لکھتا نہیں تھا۔اسی طرح کہتے ہیں: اس نے سریانی زبان بھی سیکھی تھی جو تورات کی اصلی زبان ہے۔طبقات ابن سعد میں شریک بن خلیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:میں نے عبداللہ کو سریانی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کر تے ہوئے دیکھا۔(3)

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت

مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ سن تیرہ ہجری میں ابوبکر نے شام کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر کو اس کی طرف بھیجا اور فوج کے ایک گروہ کی کمانڈ عمرو بن عاص کو دی۔

کہتے ہیں:عمرو کا بیٹا یعنی عبداللہ بھی اس جنگ میں شامل تھا اور ''یرموک''کی سرزمین پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو شدید جنگ ہوئی اس میں عبدااللہ اسی لشکر کا علمدار تھا جس کی کمانڈ  اس کے باپ کے پاس تھی۔(4)

--------------

[1] ۔ تذکرة الحفّاظ: ج1ص4۲

[2] ۔  طبقات ابن سعد: ج4ص261 اورج 5 ص189 ''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:145

[3] ۔  طبقات ابن سعد: ج4ص261''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:146

[4] ۔  اسد الغابة: ج3ص243

۷۵

عبداللہ  کے لئے جنگ ''یرموک''کے دوران  پیش آنے والے واقعات میں ایک اسے دوبار اہل کتاب کی کتابوں سے لدے اونٹوں کا ملنا تھا۔(جو اہل کتاب کے معارف سے اس کی آشنائی پر بہت اہم اثر رکھتا ہے)وہ ان غنائم کا بہت خیال رکھتا تھا اور مسلمان کے لئے ان کے بہت سے مطالب نقل کرتا تھااسی وجہ سے تابعین سے پہلے کے افراد عبداللہ سے احادیث نقل کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔(1)

وہ مسلمانوں کے لئے ان کتابوں کے مطالب بیان کرنے میں اتناافراط کرتا تھا کہ بعض اسے واضح الفاظ میں کہتے تھے کہ ان دوکتابوں کے مطالب بیان کرنے سے پرہیز کرے۔

احمد بن حنبل کا اپنا قول اس کی اپنی مسند میں اس مدّعا پر بہترین شاہد ہے:اس نے نقل کیا ہے کہ ایک دن کوئی شخص عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے کہا:تم  نے رسول خدا(ص) سے جو سنا اس میں سے کچھ میرے لئے نقل کرو ،نہ کہ اونٹوں کے اس وزن سے کہ جوفتح ''یرموک''میں تمہارے ہاتھ لگا''(2)

ابی سعد سے ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ میں عبداللہ عمرو کے پاس گیا اور اس سے کہا: ''تم نے رسول خدا(ص) کی احادیث سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے نقل کرو نہ کہ تورورات و انجیل سے''(3)(4)

--------------

[1] ۔ فتح الباری: ج1ص167'' أضواء علی السنّة المحمدیّة'' سے اقتباس:164،نیز دیکھیں: تذکرة الحطّاظ: ج1ص42

[2]۔  مسند احمد بن حنبل: ج2ص195،202،203،209.نیز ملاحظہ کریں:تفسیر ابن کثیر: ج3 ص102

[3] ۔  مسند احمد بن حنبل: ج11ص78،79،173

[4] ۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:138

۷۶

 5- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی

اموی قاضیوں میں سے ایکمسروق بن اجدع کوفی  ہے۔وہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا اور آنحضرت پر سبّ و شتم کرنے میں افراط اور زیادہ روی کرتا تھا۔جب بھی شریح کوفہ میں نہ ہوتا تو وہ کوفہ میں قضاوت کا منصب سنبھالتا تھا۔کتاب'' بازتاب تفکر عثمانی''میں اس کے بارے میں بہت اہم مطالب بیان کئے گئے ہیں:

''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م63):(1)

اجدع یعنی کٹی ناک والا اور یہ شیطان کا نام بھی ہے۔عمر نے اسے عبدالرحمن سے بدل دیا تھا۔(2) یہ عبداللہ بن مسعود کے خاص پانچ صحابیوں میں سے ہے اور بعض کے مطابق ان پانچ افراد میں سے یہ پہلا ہے۔(3) وہ فقہا و مفسّرین تابعی،آٹھ زاہدوں اور کوفہ کے عابدوں میں سے ہے۔(4) وہ اپنے گھر والوں کے کھانے کا انتظام نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا:خدا رزق و روزی دینے والا ہے۔(5) اس کا شاگرد شعبی کہتا ہے:مسروق فتویٰ کے لحاظ سے شریح قاضی سے اعلم تھا اور شریح مسروق کے ساتھ مشورہ کرتا تھا لیکن مسروق شریح سے بے نیاز تھا۔علقمہ کے بعد کوفہ میں امام المفسّرین تھا۔(6) ذہبی نے بھی اسے تفسیر میں امام اور قرآن کے مفاہیم کا علم رکھنے والا عالم قرار دیا ہے!۔(7)

--------------

[1] ۔  اس کے تفصیلی حالات زندگی  الطبقات الکبری: ج6ص76،تہذیب التہذیب:ج10ص100 اور ارموی کی کتاب الغارات:ج2ص702 ح909 میں ذکر ہوئے ہیں۔کہا گیا ہے کہ وہ بچپن میں  گم ہو گیا تھا اور جب ملا تو اس کانام مسروق رکھ دیا گیا۔ (قاموس الرجال:ج10ص53)

[2]۔ الطبقات الکبری:ج6ص76

[3] ۔  الطبقات الکبری:ج6ص76،تاریخ بغداد:ج13ص233-234،تہذیب التہذیب:ج10ص100-101

[4] ۔  کتاب الثقات:ج5ص456،اختیار معرفة الرجال:ج1ص315۔البتہ ابو مسلم خولانی شامی کی طرح اس کے زہد و تقوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ریا اور لوگوں میں مقام حاصل کرنے لئے تھا۔(ر.ک:رجال ابن داود:278)

[5]۔  الطبقات الکبری:ج6ص79-[6]۔ الطبقات الکبری:82

[7]۔  التفسیرو المفسرون(ذہبی):ج1ص120

۷۷

 قادسیہ میں وہ ابطال میں سے تھا(1) اور عثمانی تھا،(2) جو کوفہ کے لوگوں کو عثمان کی مدد کرنے کی دعوت دیتا تھا(3) ۔ان کے علاوہ مسروق اپنی تبلیغ اور باتوں سے ابووائل کو بھی عثمانی مذہب کی طرف لے گیا جس کا تعلق پہلے علوی مذہب سے تھا۔(4) وہ اور اسود نخعی عائشہ کے پاس جاتے تھے اور آنحضرت کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہو جاتے تھے۔(5) مرّۂ ہمدانی اور وہ امیر  المؤمنین علی علیہ السلام سے اپنی عطا لینے کے بعد قزوین کی طرف بھاگ گئے۔(6) مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور آنحضرت کے مدّ مقابل آجاتاحتی اس کی بیوی کہتی تھی کہ مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے میںزیادہ روی کرتا ہے۔اس کاان تین افراد(مسروق،مرّہ اور شریح)میں شمارہوناہے جن کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر اعتقاد نہیں تھا۔(7) اس بناء پر اس نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کی اور جب اس سے پوچھا گیا:اے مسروق!تم نے علی علیہ السلام کی جنگوں میں شرکت نہیں کی؟

اس نے کہا:اگر دو صفوں کو ایک دوسرے کے برابر میں دیکھو تو اس وقت فرشتہ نازل ہو گا اور کہے گا:(وَلاٰتَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ بِکُمْ رَحِیْماً) (8) کیا یہ تمہارے لئے مانع نہیں ہو گا؟!کہا:کیوں ؟مسروق نے کہا:خدا کی قسم ایسا فرشتہ(جبرئیل)نازل ہو ا اور ایسی آیت پیغمبر پر نازل کی اور یہ آیت محکمات میں سے بھی ہے کہ جو نسخ بھی نہیں ہوئی!۔(9)

--------------

[1]۔ الطبقات الکبری:ج6ص76[2]۔  تاریخ الثقات:ج1ص460[3]۔ تاریخ الطبری:ج3ص388

[4]۔ تاریخ الثقات:ج1ص461[5]۔ الغارات:ج2ص563

[6]۔  المسترشد:157

[7]۔  شرح نہج البلاغہ:ج4ص98۔شعبی کو چوتھا شخص شمار کیا گیا ہے۔

[8]۔  سورۂ نساء،آیت:29

[9] ۔  الطبقات الکبری:ج6ص78۔اس بناء پر مسروق  کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں میں شریک ہونے والی روایت صحیح نہیں ہو سکتی  کہ جس کی طرف ابن حجر نے (تہذیب التہذیب:ج10ص101میں) اشارہ کیا ہے۔

۷۸

ایک روایت جو یہ بیان کر رہی ہے کہ اس نے یہ بات صفین میں دو لشکروں کے درمیان میں کہی اور یہ بات کہہ کر بھاگ گیا۔(1) اس رو سے علامہ شوستری نے اس روایت کو ردّ کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ مسروق نے نہروان میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا ساتھ دیا اور فرض کریں کہ اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ حتی اموی بھی خوارج سے جنگ کو صحیح سمجھتے تھے۔اور مسروق کے ماضی اور اس کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس موضوع میںاس کے لئے کوئی مثبت نکتہ نہیں ہے۔اس روایت میں مزیدکہا گیا ہے کہ عائشہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا کہتی تھی ،یہ اس کی خباثت کی دلیل ہے۔(2)

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی نسبتاس کا ایسا مقام تھااور وہ کچھ زمانے تک معاویہ کے لئے کام(ٹیکس وصول کرنے والا)کرتا رہا اور اور کچھ زمانے تک قاضی رہا اور اسی منصب پر اس دنیا سے چلا گیا۔(3)

 وہ کہتا تھا:زیاد ،شریح اور شیطان نے مجھے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے(4) اوراگر کبھی زیاد ، شریح قاضی کو اپنے ساتھ بصرہ لے جاتا تھا تو مسروق کوفہ میں قضاوت کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔(5)

یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی سیاسی سوچ کے ہوتے ہوئے ایسے شخص کی قیام کربلا کے بارے   میں  کیا رائے ہو گی؛اسی وجہ سے وہ عبداللہ بن زیاد کا کارندہ تھا۔(6) مسروق    63ھ میں کوفہ میں دنیا سے چلا گیا(7) اور اس نے وصیت کی تھی کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے!۔(8)(9)

--------------

[1]۔ الطبقات الکبری:ج6ص78

[2] ۔  قاموس الرجال:ج10ص52البتہ علامہ شوستری نے یہ روایت مسروق بن اجدع ابو عائشہ کوفی کے ذیل میں بیان کی ہے  اور یہ وضاحت کی ہے کہ جو یہ نام دو اشخاص کے لئے سمجھتے ہیں انہوں نے مکمل طور پر غلطی کی ہے۔

[3] ۔  الطبقات الکبری:ج6ص83-84۔اختیار معرفة الرجال:ج1ص315اس کی قبر دریائے دجلہ کے کنارے رصافہ کے مقام پر ہے۔   

[4]۔  الطبقات الکبری:836،تاریخ الاسلام:ج5ص240-[5]۔  تاریخ خلیفة بن خیّاط:173-[6]۔ المسترشد:157

[7] ۔  الطبقات الکبری:ج6ص84، تاریخ الثقات:ج1ص461،تاریخ یحیی بن معین:233،کتاب الثقات:ج5ص456،  تہذیب التہذیب: ج10ص101

[8]۔  المسترشد:157-[9]۔  بازتاب تفکر عثمانی در واقعۂ کربلا:218

۷۹

جو لوگ حقیقت کی جستجو کر ہے ہیں اور تاریخ کے صفحات میں سے حقائق  جانناچاہتے ہیں ،انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔

جو شخص پہلے یا دوسرے مقام پر پورے ملک میں قضاوت کے فرائض انجام دے رہا ہو ،وہ کس طرح یہ وصیت کر سکتا ہے کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے؟!

کیا اس سے بلند منصب کے لوگوں کے یہودیوں سے تعلقات نہیں تھے؟!کیا یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کرنا کسی ایسے شخص کی طرف سے نہیں تھی کہ جس کا ظاہراً تو قضاوت کے لئے مذہبی چہرہ تھا لیکن اس کی آڑ میں وہ  یہودیوں کی تبلیغ و ترویج کررہاتھا؟!

 کیوں  بنی امیہ کی حکومت کے بزرگوں سے ایسے شرمناک کام سرزد ہواکرتے تھے؟

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ جب لوگوں کو ان کی کالی کرتوتوں کا علم ہونا چاہئے  اور کیا انہیں یہ نہیں جاننا چاہئے کہ وہ خلافت کو غصب کرنے والے تھے نہ کہ دیانتدار راہنما؟!

 مسروق نے اپنی اس وصیت کے علاوہ کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے،اپنی وصیت کی توجیہ میں ایسی بات جو اس کی وصیت سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔اس نے کہا:وہ اس حال میں اپنی قبر سے نکلے گا کہ وہاں اس کے علاوہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔!

مسروق ابن زیاد کے لشکر کا لیڈر تھا۔(1)

مسروق ان کوفیوں میں سے تھا جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو طعنہ دیتے تھے۔(2)

--------------

[1]۔  المسترشد:

[2]۔ المسترشد:207

۸۰