معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168089 / ڈاؤنلوڈ: 7629
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

پس جب ہم ابتدائے اسلام سے اب تک کی برائیوں اور تخریب کاریوںکی بنیاد کا تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کا اصلی سبب یہودی تھے یا وہ اس میں حصہ دار تھے؛جیسا کہ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:بشریت کو نابود کرنے کے لئے یہودیوں کے بچھائے ہوئے جالوں سے دنیا کو شدید جنگی خطرات لاحق ہیں۔(۱) ابتداء سے ہی یہودیوں کی سیاست ایسی ہی رہی ہے کہ جو چیز بھی دنیاوی امور تک رسائی کی راہ میں حائل ہواسے کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے،چاہے اس کے لئے وحشیانہ ترین اور غیر انسانی کام ہی کیوں نہ کرنے پڑیں  جیسے انسانوں کو برائیوں اور فحاشی کی طرف دھکیلنا،ان کے درمیان تفرقہ و نفاق ایجاد کرنا یا ضرورت پڑنے پر انہیں اجتماعی صورت میں قتل کر دینا۔اس رو سے یہ کہاجا سکتا ہے کہ روئے زمین پر اکثر خرابیوں کی بنیادصرف یہودی ہی ہیں۔حتی کہ تورات میں تحریف و تبدیلی کے لئےیہودی علماء رضاکارنہ طور پر  سامنے آئے اور اس کام کے لئے وہ یہودی حکمرانوں اور سلطانوں سے رشوت لیتے تھے اور ان کی خوشامد اور اپنی دنیا کے حصول کے لئے دین یہود کو اس کے اصلی راہ سے منحرف کرتے تھے اور رسول اکرم(ص) کی صفات کو الگ انداز سے نقل کرتے تھے۔(۲) خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(أَلَمْ تَرَ ِلَی الَّذِیْنَ أُوتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْلَ) (۳) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہ دے دیا گیا ہے اور وہ( اس سے اپنی اور دوسروں کی ہدایت کے لئے استفادہ کرنے کی بجائے اپنے لئے) گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جا ؤ۔؟!مرحوم طبرسی ذکر کرتے ہیں:یہودی علماء خود بھی بہت زیادہ مال دیتے تھے تا کہ توریت کے ایسے مطالب میں تحریف کریںجو یہودیوں کے لئے مادّی نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ درحقییقت یہودی علماء توریت کے یہ تحریف شدہ مطالب دنیاوی اموال کے مقابلہ میں بیچتے تھے۔(۴)

--------------

[۱]۔ اسرار سازمان مخفی ہود:۸

[۲]۔ ابوالفتوح رازی:ج۴ص۳۹۶

[۳]۔ سورۂ نساء،آیت:۴۴

[۴]۔ مجمع البیان ف تفسیر القرآن:ج۳ص۹۶

۶۱

جب یہودیوں  نے  پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے ناجائز اقتصادی مقاصد کے حصول کی راہ میں حائل دیکھا اور یہ مختلف حربوں سے بھی اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کا بھی منصوبہ بنایالیکن پیغمبر(ص) وحی کے ذریعہ ان کے منصوبے سے آگاہ ہو گئے اور اس جگہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے جہاں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انہیں اس ناپسندیدہ کام کی وجہ سے تنبیہ کی گئی اور انہیں شہر بدر کر دیا گیا۔(۱)

یہودیوں میں آج بھی حب دنیا اور مال پرستی پائی جاتی ہے اور آج ہم اس کے شاہد ہیں کہ وہ دنیاوی مقاصدکے حصول کے لئے ہر قسم کے غیر انسانی اور ناجائزفعل انجام دیتے ہیں چاہے یہ ان کے اپنے دین کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں۔اگراس دن وہ معاشرے میں  فساد برپا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو آج بھی استعماری ممالک - جن میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہے-اہم کیمیائی و معدنی موادلوٹ رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں منشیات  اور بوسیدہ اسلحہ فروخت کرتے ہیں جو سالوں سے اسٹور میں بے کار پڑا ہوتاہے۔(۲)

....اگر اس دن یہودی دولت حاصل کرنے کے لئے اوس و خزرج میں تفرقہ ڈالتے تھے تا کہ غالب طرف کی حمایت کرنے سے مغلوب کے مال پر قبضہ کیا  جا سکے تو آج اس روش کا نیا نمونہ سامنے آیا ہے اور اقوام کے ذخائر تک رسائی کے لئے ہر قسم کی مکاری اور ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں کی نظر میں حق صرف طاقت کا نام ہے اور آزادی خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور صرف طاقت کے ذریعہ  ہی سیاست میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔(۳)

یہودی ''پروتکل''اور اپنی کمیٹی کی گذارشات میں یوں اعتراف کرتے ہیں:ہم داخلی جنگوں کے ذریعہ اقوام کو کمزور کرتے ہیں  جو بعد میں سماجی جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

--------------

[۱]۔ السیرة النبویةج: ۳ص۱۹۹-۲۰۰

[۲]۔ چہرۂ یہود در قرآن:۶

[۳]۔ چہرہ یہود در قرآن:۹-۸

۶۲

جو ملک بھی ہماری مخالفت میں کھڑا ہو ہم اس ملک اور اس کے پڑوسی ملک کے درمیان جنگ چھیڑ دیتے ہیں تا کہ وہ اسلحہ کے مقابلہ میں مال دیں ،اسلحہ کی افزائش اور جنگیں ہمارے فائدے میں ہیں۔کیونکہ ایک طرف سے ہم اقوام و ملل کے درمیان اپنے لئے احترام پیدا کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہم نظم اور بے نظمی کے عواملہیں اور دوسری طرح سے ہم ان پر اقتصادی قراردادوں اور مالی عہدو پیمان کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔(۲)(۱) پیغمبر اکرم(ص)  اور آپ کے بعد کے زمانے میں یہودیوں کی تخریب کاری کا ایک اور سبب ان کے مقام و منصب کو درپیش آنے والا خطرہ تھا۔اس بناء پر یہودیوں نے مختلف زمانوں میں حکومتوں کو اپنے قابومیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ان موارد میں سے ایک ان کے ثقافتی اور مطبوعاتی تہوار ہیں جن کے ذریعہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں اور اپنے مقام کو مستحکم کرتے ہیں۔اس بارے میں ''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:''.....زہریلے افکار کو پھیلانے والے یہودیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں۔ گفتگو کرنے کے لئے ان کے کچھ خاص  لہجہ ہوتے ہیں جو ذہنی و فکری مغالطہ پیدا کرنے میں بہت ماہر ہوتے تھے۔سیاسی بحث کے دوران وہ کئی دھوکا دینے والے کلمات جیسے ملت،آزادی،امن و امان کا قیام وغیرہ سے اپنے مقابل کوخارج کر دیتے۔لیکن چونکہ یہ جنگ میں شکست کھانے والے ان افراد کی طرح  عاجز و بے بس ہوجاتے تھے جن کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہ ہو۔اس لئے یہ خود ہی حماقت  وبے وقوفی کرتے۔اگر ان کا  کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا تو وہ فوراً نئی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ۔ان کے دلائل اتنے بے بنیاد تھے کہ یہ خود بھی اس سے واقف تھے لیکن پھر بھی اس کا خیال نہ کرتے۔یہودی  ایک  خودغرض،لاپرواہ ،اپنے ملک اور خاندان کی غدارمخلوق ہے۔اگر کسی روز کسی ملک کی زمام ان کے ہاتھوں میں آجاتے اور وہ اسے اپنا مال سمجھنے لگیں تو اس ملک کو دوسرے ملک میں تخریب کاری پھیلانے کا مرکز بنا دیں''(۴)(۳)

--------------

[۱]۔ اسرار سازمان مخفی یہود:۶۸-۶۷

[۲]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:۱۱۰

[۳]۔ نبرد من:۴۵

[۴]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی :۱۱۸

۶۳

دوسرا باب

یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے

    ۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو

    ۲- ایک دوسرا گروہ

    ۳- ابوہریرہ

    ۴- عبداللہ بن عمرو عاص

    ۵- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی

    ۶- کعب الأحبار

    کعب الأحبار اور عمر

    کعب الأحبارکے توسط سے معاویہ کے یہودیوں سے تعلقات

    یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

    کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

    ۷- وہب بن منبّہ

    وہب بن منبّہ کے عقائد

۶۴

 ۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو

تاریخ اسلام کے منابع میں یہودی سربراہوں میں سے کچھ نام دوسروں سے نمایاںدکھائی دیتے ہیں ۔ جیسے کعب بن اشرف، ابو رافع (سلّام۱ بن ابی حقیق) اور ابو حقیق کا خاندان کہ جن میں کعب بن اسد،حیی بن اخطب اور اس کا خاندان،  مخیریق، سلّام (۱) بن مشکم، عبداللہ بن سلّام، محمد بن کعب قرظی اور کعب الأحبار۔

کعب بن اشرف بنی نضیر کے شاعروں میں سے تھا  جو اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنے پروپیگنڈوں اور کوششوں کی وجہ سے آنحضرت کے اصحاب کے ہاتھوں مارا گیا۔حکومت مدینہ کے خلاف تحریکوں میں ابو رافع کا بھی بہت اہم کردار تھا اور آخر میں اسے اسی کی سزا ملی۔ کنانہ بن ربعی بن حُقیق کہ جسے کبھی کنانہ بن ابی حقیق کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جوخیبر کے بزرگوں میں  سے تھا اور ان کاصاحب کنز تھا۔(۲) وہ خیبرکی جنگ میں مارا گیا۔اس سے پہلے مدینہ کے خلاف جماعتوں کی تحریکوں میں بھی اس کا نام نظر آتا ہے۔حیی بن اخطب، جو پیغمبر اکرم (ص) سے معاہدے  پر دستخط لینے کے لئے بنی نضیر کا نمائندہ تھا اور اسلام کے سخت دشمنوں میں سے تھا۔وہ اس قبیلہ کا بزرگ شمار کیا جاتا تھا،عہد وپیمان توڑنے کی وجہ سے اسے مدینہ سے نکال دیا گیا اور وہ خیبر چلا گیا۔جنگ احزاب میں اس نے کعب بن اسد(جو بنی قریظہ کا بزرگ اور رسول اکرم(ص) سے معاہدہ میں مدّ مقابل تھا) سے بہت اصرار کیا اور اسے پیغمبر (ص) سے کئے گئے معاہدے کو توڑنے  اور پیغمبر(ص) کے دشمنوں سے مل جانے پر مجبور کیا۔ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ یہ دونوں بنی قریظہ کے واقعہ میں قتل ہو گئے۔

----------------

[۱] ۔ منابع میں ان یہودیوں کا نام تشدید کے نقل ہوا ہے اور اگر مؤرخین نے اس کی طرف توجہ نہ بھی کی ہو تو پھر بھی محققین نے اس کی تاکید کی ہے۔ سہیلی''عبداللہ بن سلّام'' کے نام کے ذیل میں کہتے ہیں:چونکہ سلام(تشدید کے بغیر)خدا کے اسماء میں سے ہے اس لئے مسلمانوں میں یہ نام نہیں ہے بلکہ یہودی اس طرح(سلام ، تشدید کے بغیر) نام رکھتے تھے۔ لیکن سہیلی کے قول پر بہت سے اعتراضات ہوئے کہ جن میں سے ایک یہی مورد ہے۔

[۲] ۔ آل ابی حقیق کا کنز یہودیوں کے مال کا خزانہ تھا ۔اونٹ کی کھال میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، جو اس خاندان کے بزرگ کے پاس ہوتا تھا۔ مکہ کی شادیوں کے لئے یہ خزانہ کرائے پر دیا جاتا تھا اور کبھی ایک مہینہ کے لئے یہ مکہ والوں کے پاس ہوتا۔''المغازی:ج۲ص۶۷۱'

۶۵

مخیریق  وہ تنہا یہودی تھا جسنے اسلام قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہا۔ان کا شماربنی قینقاع کے بزرگوں اور عالموں  میں ہوتا تھاجو پیغمبر(ص) سے معاہدے میں یہودیوں کے تیسرے گروہ کے نمائندہ تھے۔جب رسول اکرم(ص) جنگ احد کے لئے مدینہ سے باہر گئے تو مخیریق نے اپنی قوم سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اس لئے ان کی مدد کرنی چاہئے ۔یہودیوں نے کہا:آج ہفتہ کا دن ہے اور وہ ان کے ساتھ نہ گئے۔مخیریق نے اسلحہ اٹھایااور احد پہنچ گئے اور مسلمانوں سے مل کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے:یہودیوں میں سے مخیریق بہترین تھے۔(۱) سلّام بن مشکم اگرچہ اسلام کے دشمنوں میں سے تھا لیکن اس کے باوجود اپنے یہودی کیش و علماء کورسول خدا(ص) سے جنگ کرنے اور عہد و پیمان توڑنے سے ہوشیار کرتاتھا اور آنحضرت کی رسالت کا   اعتراف کرتا تھا۔(۲) غزوۂ سویق میں بھی اس یہودی کا نام ملتا ہے۔بدر کی شکست کے بعد ابو سفیان نے رسول اکرم(ص) سے جنگ کرنے کی نذر کی تھی  جس کے لئے وہ مشرکین کے ایک گروہ کے ساتھ چھپ کر مدینہ آیا اور بنی نضیر کے پاس گیا ۔ سلّام بن مشکم نے (جواس وقت بنی نضیر کا بزرگ اور ان کاصاحب کنز تھا )ابوسفیان کی بات مان کر اسے مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مشرکوں نے مدینہ کے اطراف میں  انتشار پھیلایا اور وہ ستّوؤںکووہیں چھوڑ کراس جگہ سے چلے گئے۔جب مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا تو انہیں  یہی ستّو ملے جو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا زاد راہ تھا اس وجہ سے اسے غزوۂ سویق کہا جاتا ہے۔(۳) سلّام بن مشکم مدینہ سے نکل جانے کے بعد خیبر میں زندگی گزارتا تھا۔بنی قریظہ کے واقعہ اور حیی بن اخطب کے مارے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر یہودیوں کی قیادت سنبھالی اور جنگ خیبر میں قتل ہو گیا جب کہ وہ بستر مرگ پر تھا۔(۴)

---------------

[۱]۔ سیرۂ ابن ہشام:۵۱۸۱،المغازی:ج۱ص۲۶۲

[۲]۔ المغازی:ج۱ص۳۶۵،۳۶۸ اور ۳۷۳

[۳]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج۲ص۴۴،المغازی:ج۱ص۱۸۱

[۴]۔ المغازی:ج۱ص۵۳۰ اورج۲ص۶۷۹

۶۶

جنگ خیبر کے بعد جس عورت نے رسول اکرم(ص) کو زہر دیا تھا وہ اسی سلّام کی بیوی تھی کہ جس کاباپ اور چچا بھی جنگ میں مارے گئے تھے۔(۱) عبداللہ بن سلّام دوسرا یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا لیکن مخیریق کے برعکس آخر میں یہ امویوں کا آلۂ کار اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کا مخالف بن گیا۔یہی موضوع اور اس کا اسرائیلیات سے آگاہ ہونا باعث بنا کہ اس سے نقل ہونے والی روایات یااس کے بارے میں نقل ہونے والی گذارشات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔مثلاً اس کے اسلام لانے کے زمانے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس نے ہجرت کے پہلے سال اسلام قبول کیا۔(۲) ابن اسحاق نے خود عبداللہ سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے مدینہ میں داخل ہوتے وقت اس نے اسلام قبول کیا کہ جب آنحضرت قبا میں رہتے تھے۔(۳) لیکن اس کے اسلام لانے کے بارے میں ایک دوسری خبر یہ ہے کہ اس نے سن آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا۔(۴) معاصر مؤرخ جعفر مرتضی عاملی دوسرے قول کو قبول کرتے ہیںاور کہتے ہیں:اس روایت کی طر ف توجہ نہ کرنے کی وجہ اس کے راویوں میں سے ایک کا شیعہ ہونا ہے۔(۵)

دوسرا مورد اختلاف موضوع اس کے بارے میں نازل ہونے والی کچھ آیات کا شان نزول ہے ۔ انہیں آیات میں سے ایک سورۂ احقاف میں ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے:'کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا جب کہ بنی اسرائیل کاایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکا ہے اور وہ ایمان بھی لایا ہے اور پھر بھی تم نے غرور سے کام لیا ہے بیشک اللہ ظالمین کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے ''(۶)

--------------

[۱]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج۲ص۳۳۷ اور ۶۷۹

[۲] ۔ تاریخ خلیفہ:۱۹، دلائل النبوة:ج۲ص۵۲۶۔ بیہقی نے اس کتاب میں ایک مخصوص باب کھولا ہے جس میں عبداللہ کے اسلام قبول کرنے کی روایت کو ذکر کیاہے۔

[۳]۔۔سیرۂ ابن ہشام:ج۱ص۵۱[۴]۔ الأصابہ: ج۴ص۱۱۸[۵]۔ الصحیح:ج۴ص۱۴۵

[۶]۔ سورۂ احقاف،آیت:۱۰

۶۷

بہت سی کتابوں میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۱) لیکن بعض کہتے ہیں چونکہ سورۂ احقاف مکی ہے  اور عبداللہ مدینہ میں اسلام لایا اس لئے اس آیت سے عبداللہ مراد نہیں ہو سکتا۔(۲)

علامہ طباطبائی سورہ کے مکی اور آیت کے مدنی ہونے کے اشکال کو ردّ کرتے ہوئے متعدد روایات کی بنیاد پر عبداللہ کو ہی اس آیت کا مصداق سمجھتے ہیں۔نیز وہ ان روایات کو بھی اشکال سے خالی نہیں سمجھتے۔(۳)

دوسری آیات جن کا مصداق عبداللہ کو شمار کیا جاتا ہے وہ یہ ہیں:سورۂ آل عمران آیت۱۹۹، سورۂ رعد آیت۴۳ اور سورۂ شعراء آیت۱۹۷۔(۴) ایسا لگتا ہے کہ اہل کتاب میں سے اسلام لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی(۵)   اس لئے راویوں اور مفسروں نے اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف اشارہ کرنے والی آیات عبداللہ بن سلّام پر منطبق کی ہیں۔البتہ ان تین آیتوں کے بارے میں دوسروں کے نام بھی لئے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود شعبی نے کہا ہے:''کوئی آیت بھی عبد اللہ کی شأن میں نازل نہیں ہوئی ہے۔(۶)   دلچسپ تو یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں ان شأن نزول کا راوی بھی خود عبداللہ ہے!

عسقلانی کہتا ہے:جب ابن سلّام عثمان کا دفاع کرنے کے لئے لوگوں سے بات کر رہا تھا تو اس نے اشارہ کیا کہ میرے بارے میں آیۂ''شهد شاهد' 'اور'من عنده علم الکتاب''  نازل ہوئی ہے۔(۷)

--------------

[۱]۔ صحیح البخاری:ج۴ص۲۲۹،الطبقات الکبری:ج۲ص۲۶۹،مجمع البیان:ج۵ص۱۲۶[۲]۔ الدر المنثور:ج۷ص۳۸۰

[۳]۔ المیزان:ج۱۸ص۱۹۹ اور ۲۰۳[۴] ۔ ان تین آیتوں کے بارے میں بالترتیب :المغازی:۳۲۹۱،مجمع البیان:۴۶۲۳،الطبقات الکبری:۲۶۹۲

[۵] ۔  ابن اسحاق نے صرف مخیریق اور عبداللہ بن سلّام کا نام لیا ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا(سیرۂ ابن ہشام:  ج۱ص۵۱۶)   البتہ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ دوسرے افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔(سبل الہدی:ج۳  ص۳۷۸)  لیکن بہ ہر حال ان کی تعداد کم ہے۔

[۶] ۔  الدر المنثور:ج۷ص۳۸۰۔جعفر مرتضی بھی ان قرآنی آیتوں کو عبداللہ پر منطبق کرنے کی مخالفت اور اس روایت کو تقویت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بعید نہیں کہ معاویہ نے ابن سلّام کے لئے فضیلت گھڑی ہو ،بالخصوص آیۂ رعد کے مصداق امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں ۔ وہ کتاب سلیم کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں قیس بن سعد آیت کو حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ اسے عبداللہ سے تفسیر کرتا ہے۔(الصحیح :ج۴ص۱۴۸ اور ۱۵۰)

[۷]۔ الأصابة:ج۴ص۱۲۰

۶۸

ابن سلّام کے بارے دوسرا قابل توجہ موضوع کچھ روایات ہیں جن میں اسے ''عشرۂ مبشرہ''(۱) میں سے قرار دیا گیا ہے۔(۲)

ان متعددروایتوں(جنہیں نقل کرنے کے سلسلہ میں عبداللہ بن سلّام بھی ہے) کے علاوہ جس مورد میں اس کا نام منابع میں نقل ہوا ہے وہ عثمان کے محاصرہ کا واقعہ ہے۔ اس بارے میں مؤرخین کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سلّام نیعثمان کا محاصرہ کرنے والوں کو دور کرنے اور انہیں خلیفہ کا خون بہانے سے روکنے کی کوشش کی۔

عبداللہ کے جواب میں مخاطبین نے کہا:

  ''اے یہودی زادہ!ان امور سے تمہارا کیا سروکار؟''(۳)

 ابن شبّہ اپنی کتاب میں عبداللہ کے عثمان سے دفاع کرنے کے بارے میں ایک باب لکھا ہے(۴) اور ابن سعد نے عثمان کی حمایت میں اس سے روایات نقل کی ہیں اور لکھا ہے:

عبداللہ بن سلّام نے عثمان کے قتل کے دن کہا:''آج عرب نابود ہوگئے''(۵)

یہنومسلمان یہودی ان لوگوں میں ہے جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی!(۶) اور جو  ۴۳ ھ میں اس دنیا سے چلا گیا۔(۷)

-------------

[۱]۔ وہ دس افراجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے!

[۲]۔ صحیح البخاری: ج۴ص۲۲۹، الطبقات الکبری:ج۲ص۲۶۹

[۳]۔ انساب الأشراف: ج۶ص۱۹۲ اور ۲۲۱، تاریخ الطبری:ج۳ص۴۵۲

[۴]۔ تاریخ المدینہ:ج۲ص۱۱۷۵

[۵]۔ الطبقات الکبری:ج۳ص۵۹

[۶]۔ مروج الذہب:ج۲ص۳۶۱، شرح نہج البلاغہ:۹۴،تاریخ الطبری:ج۳ص۴۵۲

[۷]۔ تاریخ خلیفہ:۱۲۶

۶۹

۲- ایک دوسرا گروہ

ایک دوسرا گروہ کہ رسول اکرم(ص) کو جن کا سامنا تھاور جنہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کیں، وہ لوگ تھے جنہوں نے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کے دلوں میں اسلام نہیں تھا حتی کہ وہ اسے ختم کرنے کی تاک میں رہتے تھے۔خداوند کریم نے قرآن کی بہت سی آیتوں میں ان کی سختی سے سرزنش کی ہے اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔

اگر تاریخی شواہد سے استفادہ کیا جائے تو ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کی اکثریت پہلے یہودی تھی۔ابن اسحاق نے اپنی کتاب کے ایک باب  میں یہودیوں کے کچھ علماء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے ظاہراً تو اسلام کیا لیکن وہ منافقین کا حصہ تھے۔ان افراد میں رفاعة بن زید بن تابوت، زید بن لصیت،عثمان اور نعمان جو اوفی کے بیٹے تھے،رافع بن حریملہ،سعید بن حنیف، سلسلة بن براھام اور کنانة بن صوریا۔(۱)

بلاذری نے سوید،داعس، مالک بن ابی نوفل(نوقل) اور لبید بن اعصم کا نام بھی ذکر کیا ہے۔(۲)

ان ناموں میں سے زید بن لصیت (لصیب) کا نام سیرت کی اکثر و بیشتر کتابوں میں نظر آتا ہے۔مؤرخین نے کہا ہے:جنگ تبوک میں جب پیغمبراکرم(ص) کا اونٹ گم ہو گیا تو زید نے کہا:محمد(ص) کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور آسمان کی خبر دیتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان کی سواری کہاں ہے۔ رسول خدا (ص)کو اس کی ان باتوں کی خبر ہوئی تو فرمایا:خدا نے جو کچھ مجھے تعلیم دیا میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اب خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔مسلمان اسی جگہ گئے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے بتایا تھااور وہاں سے اونٹ لے آئے۔(۳)

--------------

[۱]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج۱ص۵۲۷

[۲]۔ انساب الاشراف: ج۱ص۳۳۹ اور ۳۴۰

[۳]۔ تاریخ الطبری: ج۳ص۳۷۰

۷۰

 واقدی نے یہ واقعہ دو جگہ غزوۂ بنی مصطلق اور جنگ تبوک میں ذکر کیا ہے۔(۱) جس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ ملتا جلتا واقعہ دوبار پیش آیا ہو۔لیکن اس میں شک نہیں ہے اصل واقعہ ایک ہی بارپیش آیا تھالیکن جب مختلف راویوں نے اسے نقل کیا تو غزوہ کو معین کرنے میں(جس میں یہ واقعہ پیش آیا) ان میں اختلاف اور  اشتباہ ہوا۔رفاعة بن زید بن تابوت ( واقدی نے جس کا نام''زید بن رفاعة بن تابوت ''لکھا ہے)کے بارے میںذکرہواہے:غزوۂ مریسیع (بنی مصطلق) سے واپسی پر تند و تیز ہوا چلی جس سے مسلمان خوفزدہ ہو گئے۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:ڈرو نہیں۔یہ ہوا مدینہ میں منافقوں کے ایک بزرگ کی موت کی وجہ سے چلی ہے۔جابر بن عبداللہ نے کہا:جب ہم مدینہ پہنچے تو میں نے گھر جانے سے پہلے پوچھا کہ آج کس کی موت واقع ہوئی ہے؟کہا:زید بن رفاعہ۔(۲) طبری نے بھی یہ واقعہ غزوۂ مریسیع میں ذکر کیا ہے(۳) لیکن جنگ تبوک کا واقعہ بیان کرتے وقت بھی اس کے نام کو دوہرایا ہے۔(۴) ابن اسحاق نے اسی سے ملتا جلتا جملہ رسول اکرم(ص) سے رافع بن حریملہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ جب تند و تیز ہوا چلنا شروع ہوئی تو فرمایا:آج منافقوں کا ایک بڑا مر گیا ہے۔لیکن سیرت کے ایک دوسرے مقام پر اس کا نام ذکر کرکے اسے یہودیوں میں سے شمار کیا ہے جس میں اس کے اسلام لانے اور نفاق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔(۵)

 بلاذی نے یہودیوں کے کنیسہ میں منافقین کے آمد ورفت کی خبر دی ہے اور ایک ددوسری جگہ کہا ہے:مالک بن نوفل (جو یہودی عالم تھا) نے اسلام تو قبول کیا لیکن وہ یہودیوں کو رسول خدا(ص) کی خبریں پہنچاتا تھا۔(۶)

--------------

[۱]۔ المغازی: ج۱ص۲۴ اور ج۲ص۱۰۱۰

[۲]۔ المغازی: ج۱ص۴۲۳، سیرۂ اب ہشام:ج۲ص۲۹۲(کچھ فرق کے ساتھ)

[۳]۔ تاریخ الطبری: ج۲ص۲۶۲

[۴]۔ تاریخ الطبری: ج۲ص۳۶۷

[۵]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج۱ص۵۲۷، انساب الأشراف: ج۱ص۳۴۰

[۶]۔ انساب الأشراف: ج۱ص۳۲۹ اور ۳۳۹

۷۱

 گذشتہ ابحاث سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میںیہودی ہونے کی وجہ سے کچھ منافقین کے ان دو گروہوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ بنی قینقاع اور بنی نضیر کے دو حادثوں میں عبداللہ بن ابی(منافقین کا بڑا)کا یہودی دوستوں کو چھڑانے کی کوششوں کو اس مطلب کی دلیل قرار   دیا جا سکتا ہے۔ ابن ابی کے ساتھی اور ہم فکریہودیوںمیں سےتھے جن کے نام مؤرخین نے اسی کے ساتھ ذکر کئے ہیں  اور جن کے نام پہلے ذکر کئے گئے ہیں۔(۱)

۳- ابوہریرہ

صحیح بخاری میں ایک طولانی حدیث کے ضمن میں آیا ہے:ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا (ص) کی ملازمت کی۔(۲) اسی جگہ ابن مسبب اور ابو مسلمہ کے سلسلہ سے ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا:''میں اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھا!''(۳) اسی طرح بخاری نے ابوہریرہ تک اپنی سند سے خود اسی سے نقل کیا ہے:لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثوں کی رسول خدا(ص) کی طرف نسبت دیتا ہے حلانکہ میں ہمیشہ آنحضرت کے ساتھ ہوتا تھا کہ شاید میرا پیٹ بھر جائے۔(۴) یا خود ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے :میں نے خود کو دیکھا کہ میں بھوک کے مارے  رسول خدا(ص) کے منبر اور عائشہ کے حجرے کے درمیان نڈھال گرا پڑا تھا ،جو کوئی بھی آتا میری گردن پہ پاؤں رکھتا اور سوچتا  کہ میں پاگل ہوں جب کہ میں پاگل نہیں تھا بلکہ یہ سخت بھوک کی وجہ سے تھا۔(۵)

--------------

[۱]۔پیغمبر(ص)  و یہود و حجاز:۵۲۔

[۲]۔ صحیح بخاری:ج۱ص۲۴، کتاب العلم، باب حفظ علم

[۳] ۔ صحیح بخاری:ج۳ص۱،کتاب البیوع

[۴]۔ صحیح بخاری:ج۲ ص۱۹۷، باب مناقب جعفر بن ابی طالب

[۵] ۔ صحیح بخاری:ج۴ص۱۷۵،کتاب اعتصام بہ کتاب و سنت،نیز ملاحظہ کریں: تذکرة الحفّاظ:ج۱ص۳۵اور الاصابة: ج۴ ص۲۰۲

۷۲

گویا اس نے  پیغمبر(ص) کے ساتھ اپنی ساری زندگی راستہ میں بیٹھ کر اپنی بھوک کا اظہارکرتے ہوئے اور تھوڑے سے کھانے کی درخواست کرتے ہوئے گزار دی جب کہ اس کا کوئی اور کام نہیں تھا۔اس کا  نام نہ تو کسی جنگ میں ملتا ہے اور نہ ہی صلح میں۔البتہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ موتہ میں دشمن کے لشکر سے ڈر کر بھاگ گیا تھا(۱) اس کے علاوہ اس کی کوئی اور بہادری نہیں ہے۔!جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا اور ناجائز اموی حکومت نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری سنبھالی تو ابوہریرہ کو دوبارہ  نئی زندگی ملی اور اس کی معمولی زندگی ایک شاہانہ زندگی میں بدل گئی۔

 ابوریّہ لکھتے ہیں:جب حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان یا دوسرے لفظوں میں بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکی اور مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے تو ابوہریرہ بھی اپنے نفس اور اپنی ہواو ہوس کے پیروی کرتے ہوئے معاویہ کے ساتھ مل گیا؛کیونکہ معاویہ کی طرف اسے طاقت،دنیا کا مال،عیش و عشرت اور دنیاوی زندگی کی تمام سہولتیں مہیا تھیں اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف تقوی و پرہیزگاری کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔

 یہ واضح سی بات ہے کہ ابوہریرہ ایسے امور سے بیزار تھا ۔اس بناء پر ابوہریرہ نے اپنا راستہ معاویہ کے دربار کی طرف موڑ دیا تا کہ وہ اس کے رنگ برنگے دسترخوان،تحائف اور قیمتی انعامات سے مستفید ہو سکے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے۔

وہ ابوہریرہ جو کبھی بھوک کی وجہ سے غش کھا کر دروازے پہ گر جاتا تھا-جیسا کہ اس نے خود کہا ہے-وہ کس طرح بنی امیہ کی دولت،طاقت اور خوش ذائقہ و  لذیذ کھانوں کو ہاتھ سے جانے دیتا اور کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جو کی روٹی پرگزارا کر سکتا تھا؟یہ ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت اور نفسانی غرائز کے ساتھ سازگار نہیں ہے سوائے چند گنے چنے افراد کے کہ جنہیں خدا نے لغزشوں سے محفوظ رکھا ہو۔(۲)

--------------

[۱] ۔ المستدرک:۴۲۳

[۲] ۔  شیخ المضیرة:۲۰۷ اور ۲۰۸،و أضواء علی السنّة المحمدیّة:۲۱۳

۷۳

 بنی امیہ کے برسرکار آنے سے ابوہریرہ ان کے دوستوں اور مبلّغوں کے دائرہ میں آگیا جس نے   اپنی زبان اور روایات سے ان کی مدد کی اور اس طرح اسے ان کا لطف،عنایات،تحائف اورلذیذ غذائیں مہیا ہوئیں۔(۱) بالخصوص ''مضیرة''(۲) جو معاویہ کی بہترین غذا شمار کی جاتی تھی اور ابوہریرہ کووہ غذا اتنی پسند تھی کہ اسے اس نام کا لقب دے دیا گیا اور یہ لقب اس کا لازمہ بن گیا اور ہر زمانے میں اسے ''شیخ المضیرة'' کے نام سے پہچانا جانے لگا۔

 محمد عبدہ کہتے ہیں: جب لوگوں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بیعت کی تو اس کے بعد معاویہ نے خلافت کا دعوی کیا لیکن حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں لذت و شہوت کے پیروکاروں اور مضیرة (جو معاویہ کے کھانوں میں سے ایک تھا) میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ کسی نے معاویہ کی طرفداری نہیں کی۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہی وجہ تھی کہ مضیرة کھانے والے معاویہ کی خلافت کی گواہی دیں۔(۳)

 کہتے ہیں:ابوہریرہ مضیرة کو بہت پسند کرتا تھا اور اسے معاویہ کے دسترخوان پر کھاتا تھا اور جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور جب بھی اس سے اس بارے میں بات کی جاتی تو اس کے جواب میں کہتا:

''معاویہ کا مضیرة زیادہ لذیذہے اورحضرت علی علیہ السلام کے پیچھےنماز  افضل ہے''(۴)

--------------

[۱] ۔  سید شرف الدین عاملی لکھتے ہیں:امویوں کے خلافت پر آنے کے بعد انہوں ے ابوہریرہ کو زمین سے اٹھا کر اس سے غربت وتنگدستی اور بیچارگی کی خاک جھاڑ دی اور اسے ریشم کا بہترین لباس پہنا دیا۔انہوں نے اسے ریشم اور لیلن کے کپڑے پہنائے اور محلہ عقیق میں اس کے لئے محل بنوایا  اور اس طرح انہوں نے اس کے گلے میں نوکری کا طوق ڈال دیااور اس کے نام کو بلند کیا اور اسے مدینہ کی حکومت دے دی۔(ابوہریرہ اور جعلی حدیثیں:۵۰)

[۲] ۔  مضیرة گوشت کی ایک قسم ہے کہ جسے کبھی لسّی اور کبھی تازہ دودھ کے ساتھ ملا کر پکاتے ہیں اور پھر اس میں مصالحہ اور دوسری چیزیں ڈالتے ہیں جس سے وہ مزید لذیذ ہو جاتی ہے۔ (شیخ المضیرة:۵۵)

[۳]، شیخ المضیرة:۵۷

[۴]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۲۷

۷۴

 ۴-عبداللہ بن عمرو عاص

اسے مصر میں سونے کے خزانے اپنے باپ عمروعاص سے ارث میں ملے تھے اسی  لئے اسے اصحاب پیغمبر(ص) میں سے بادشاہوں میں سے شمار کیا جاتاہے۔(۱)

 بعض آثار اور تاریخی روایات اس کی حکایت کرتی ہیں کہ وہ رسول خدا(ص) کی احادیث بھی لکھتا  تھاحتی کہ ''صادقہ''کے نام سے ایک صحیفہ کو بھی اس سے نسبت دی جاتی ہے کہ جس میں اس نے پیغمبر اکرم(ص) کی حدیثوں کو جمع کیا ۔(۲)

 بخاری نے بھی کتاب علم میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی نے بھی مجھ سے زیادہ پیغمبر اکرم(ص) سے حدیثیں نقل نہیں کی ہیں مگر عبداللہ بن عمرو کہ وہ جو کچھ بھی سنتا اسے لکھ لیتا لیکن میں لکھتا نہیں تھا۔اسی طرح کہتے ہیں: اس نے سریانی زبان بھی سیکھی تھی جو تورات کی اصلی زبان ہے۔طبقات ابن سعد میں شریک بن خلیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:میں نے عبداللہ کو سریانی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کر تے ہوئے دیکھا۔(۳)

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت

مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ سن تیرہ ہجری میں ابوبکر نے شام کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر کو اس کی طرف بھیجا اور فوج کے ایک گروہ کی کمانڈ عمرو بن عاص کو دی۔

کہتے ہیں:عمرو کا بیٹا یعنی عبداللہ بھی اس جنگ میں شامل تھا اور ''یرموک''کی سرزمین پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو شدید جنگ ہوئی اس میں عبدااللہ اسی لشکر کا علمدار تھا جس کی کمانڈ  اس کے باپ کے پاس تھی۔(۴)

--------------

[۱] ۔ تذکرة الحفّاظ: ج۱ص۴۲

[۲] ۔  طبقات ابن سعد: ج۴ص۲۶۱ اورج ۵ ص۱۸۹ ''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:۱۴۵

[۳] ۔  طبقات ابن سعد: ج۴ص۲۶۱''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:۱۴۶

[۴] ۔  اسد الغابة: ج۳ص۲۴۳

۷۵

عبداللہ  کے لئے جنگ ''یرموک''کے دوران  پیش آنے والے واقعات میں ایک اسے دوبار اہل کتاب کی کتابوں سے لدے اونٹوں کا ملنا تھا۔(جو اہل کتاب کے معارف سے اس کی آشنائی پر بہت اہم اثر رکھتا ہے)وہ ان غنائم کا بہت خیال رکھتا تھا اور مسلمان کے لئے ان کے بہت سے مطالب نقل کرتا تھااسی وجہ سے تابعین سے پہلے کے افراد عبداللہ سے احادیث نقل کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔(۱)

وہ مسلمانوں کے لئے ان کتابوں کے مطالب بیان کرنے میں اتناافراط کرتا تھا کہ بعض اسے واضح الفاظ میں کہتے تھے کہ ان دوکتابوں کے مطالب بیان کرنے سے پرہیز کرے۔

احمد بن حنبل کا اپنا قول اس کی اپنی مسند میں اس مدّعا پر بہترین شاہد ہے:اس نے نقل کیا ہے کہ ایک دن کوئی شخص عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے کہا:تم  نے رسول خدا(ص) سے جو سنا اس میں سے کچھ میرے لئے نقل کرو ،نہ کہ اونٹوں کے اس وزن سے کہ جوفتح ''یرموک''میں تمہارے ہاتھ لگا''(۲)

ابی سعد سے ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ میں عبداللہ عمرو کے پاس گیا اور اس سے کہا: ''تم نے رسول خدا(ص) کی احادیث سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے نقل کرو نہ کہ تورورات و انجیل سے''(۳)(۴)

--------------

[۱] ۔ فتح الباری: ج۱ص۱۶۷'' أضواء علی السنّة المحمدیّة'' سے اقتباس:۱۶۴،نیز دیکھیں: تذکرة الحطّاظ: ج۱ص۴۲

[۲]۔  مسند احمد بن حنبل: ج۲ص۱۹۵،۲۰۲،۲۰۳،۲۰۹.نیز ملاحظہ کریں:تفسیر ابن کثیر: ج۳ ص۱۰۲

[۳] ۔  مسند احمد بن حنبل: ج۱۱ص۷۸،۷۹،۱۷۳

[۴] ۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۳۸

۷۶

 ۵- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی

اموی قاضیوں میں سے ایکمسروق بن اجدع کوفی  ہے۔وہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا اور آنحضرت پر سبّ و شتم کرنے میں افراط اور زیادہ روی کرتا تھا۔جب بھی شریح کوفہ میں نہ ہوتا تو وہ کوفہ میں قضاوت کا منصب سنبھالتا تھا۔کتاب'' بازتاب تفکر عثمانی''میں اس کے بارے میں بہت اہم مطالب بیان کئے گئے ہیں:

''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م۶۳):(۱)

اجدع یعنی کٹی ناک والا اور یہ شیطان کا نام بھی ہے۔عمر نے اسے عبدالرحمن سے بدل دیا تھا۔(۲) یہ عبداللہ بن مسعود کے خاص پانچ صحابیوں میں سے ہے اور بعض کے مطابق ان پانچ افراد میں سے یہ پہلا ہے۔(۳) وہ فقہا و مفسّرین تابعی،آٹھ زاہدوں اور کوفہ کے عابدوں میں سے ہے۔(۴) وہ اپنے گھر والوں کے کھانے کا انتظام نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا:خدا رزق و روزی دینے والا ہے۔(۵) اس کا شاگرد شعبی کہتا ہے:مسروق فتویٰ کے لحاظ سے شریح قاضی سے اعلم تھا اور شریح مسروق کے ساتھ مشورہ کرتا تھا لیکن مسروق شریح سے بے نیاز تھا۔علقمہ کے بعد کوفہ میں امام المفسّرین تھا۔(۶) ذہبی نے بھی اسے تفسیر میں امام اور قرآن کے مفاہیم کا علم رکھنے والا عالم قرار دیا ہے!۔(۷)

--------------

[۱] ۔  اس کے تفصیلی حالات زندگی  الطبقات الکبری: ج۶ص۷۶،تہذیب التہذیب:ج۱۰ص۱۰۰ اور ارموی کی کتاب الغارات:ج۲ص۷۰۲ ح۹۰۹ میں ذکر ہوئے ہیں۔کہا گیا ہے کہ وہ بچپن میں  گم ہو گیا تھا اور جب ملا تو اس کانام مسروق رکھ دیا گیا۔ (قاموس الرجال:ج۱۰ص۵۳)

[۲]۔ الطبقات الکبری:ج۶ص۷۶

[۳] ۔  الطبقات الکبری:ج۶ص۷۶،تاریخ بغداد:ج۱۳ص۲۳۳-۲۳۴،تہذیب التہذیب:ج۱۰ص۱۰۰-۱۰۱

[۴] ۔  کتاب الثقات:ج۵ص۴۵۶،اختیار معرفة الرجال:ج۱ص۳۱۵۔البتہ ابو مسلم خولانی شامی کی طرح اس کے زہد و تقوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ریا اور لوگوں میں مقام حاصل کرنے لئے تھا۔(ر.ک:رجال ابن داود:۲۷۸)

[۵]۔  الطبقات الکبری:ج۶ص۷۹-[۶]۔ الطبقات الکبری:۸۲

[۷]۔  التفسیرو المفسرون(ذہبی):ج۱ص۱۲۰

۷۷

 قادسیہ میں وہ ابطال میں سے تھا(۱) اور عثمانی تھا،(۲) جو کوفہ کے لوگوں کو عثمان کی مدد کرنے کی دعوت دیتا تھا(۳) ۔ان کے علاوہ مسروق اپنی تبلیغ اور باتوں سے ابووائل کو بھی عثمانی مذہب کی طرف لے گیا جس کا تعلق پہلے علوی مذہب سے تھا۔(۴) وہ اور اسود نخعی عائشہ کے پاس جاتے تھے اور آنحضرت کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہو جاتے تھے۔(۵) مرّۂ ہمدانی اور وہ امیر  المؤمنین علی علیہ السلام سے اپنی عطا لینے کے بعد قزوین کی طرف بھاگ گئے۔(۶) مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور آنحضرت کے مدّ مقابل آجاتاحتی اس کی بیوی کہتی تھی کہ مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے میںزیادہ روی کرتا ہے۔اس کاان تین افراد(مسروق،مرّہ اور شریح)میں شمارہوناہے جن کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر اعتقاد نہیں تھا۔(۷) اس بناء پر اس نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کی اور جب اس سے پوچھا گیا:اے مسروق!تم نے علی علیہ السلام کی جنگوں میں شرکت نہیں کی؟

اس نے کہا:اگر دو صفوں کو ایک دوسرے کے برابر میں دیکھو تو اس وقت فرشتہ نازل ہو گا اور کہے گا:(وَلاٰتَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ بِکُمْ رَحِیْماً) (۸) کیا یہ تمہارے لئے مانع نہیں ہو گا؟!کہا:کیوں ؟مسروق نے کہا:خدا کی قسم ایسا فرشتہ(جبرئیل)نازل ہو ا اور ایسی آیت پیغمبر پر نازل کی اور یہ آیت محکمات میں سے بھی ہے کہ جو نسخ بھی نہیں ہوئی!۔(۹)

--------------

[۱]۔ الطبقات الکبری:ج۶ص۷۶[۲]۔  تاریخ الثقات:ج۱ص۴۶۰[۳]۔ تاریخ الطبری:ج۳ص۳۸۸

[۴]۔ تاریخ الثقات:ج۱ص۴۶۱[۵]۔ الغارات:ج۲ص۵۶۳

[۶]۔  المسترشد:۱۵۷

[۷]۔  شرح نہج البلاغہ:ج۴ص۹۸۔شعبی کو چوتھا شخص شمار کیا گیا ہے۔

[۸]۔  سورۂ نساء،آیت:۲۹

[۹] ۔  الطبقات الکبری:ج۶ص۷۸۔اس بناء پر مسروق  کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں میں شریک ہونے والی روایت صحیح نہیں ہو سکتی  کہ جس کی طرف ابن حجر نے (تہذیب التہذیب:ج۱۰ص۱۰۱میں) اشارہ کیا ہے۔

۷۸

ایک روایت جو یہ بیان کر رہی ہے کہ اس نے یہ بات صفین میں دو لشکروں کے درمیان میں کہی اور یہ بات کہہ کر بھاگ گیا۔(۱) اس رو سے علامہ شوستری نے اس روایت کو ردّ کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ مسروق نے نہروان میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا ساتھ دیا اور فرض کریں کہ اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ حتی اموی بھی خوارج سے جنگ کو صحیح سمجھتے تھے۔اور مسروق کے ماضی اور اس کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس موضوع میںاس کے لئے کوئی مثبت نکتہ نہیں ہے۔اس روایت میں مزیدکہا گیا ہے کہ عائشہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا کہتی تھی ،یہ اس کی خباثت کی دلیل ہے۔(۲)

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی نسبتاس کا ایسا مقام تھااور وہ کچھ زمانے تک معاویہ کے لئے کام(ٹیکس وصول کرنے والا)کرتا رہا اور اور کچھ زمانے تک قاضی رہا اور اسی منصب پر اس دنیا سے چلا گیا۔(۳)

 وہ کہتا تھا:زیاد ،شریح اور شیطان نے مجھے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے(۴) اوراگر کبھی زیاد ، شریح قاضی کو اپنے ساتھ بصرہ لے جاتا تھا تو مسروق کوفہ میں قضاوت کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔(۵)

یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی سیاسی سوچ کے ہوتے ہوئے ایسے شخص کی قیام کربلا کے بارے   میں  کیا رائے ہو گی؛اسی وجہ سے وہ عبداللہ بن زیاد کا کارندہ تھا۔(۶) مسروق    ۶۳ھ میں کوفہ میں دنیا سے چلا گیا(۷) اور اس نے وصیت کی تھی کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے!۔(۸)(۹)

--------------

[۱]۔ الطبقات الکبری:ج۶ص۷۸

[۲] ۔  قاموس الرجال:ج۱۰ص۵۲البتہ علامہ شوستری نے یہ روایت مسروق بن اجدع ابو عائشہ کوفی کے ذیل میں بیان کی ہے  اور یہ وضاحت کی ہے کہ جو یہ نام دو اشخاص کے لئے سمجھتے ہیں انہوں نے مکمل طور پر غلطی کی ہے۔

[۳] ۔  الطبقات الکبری:ج۶ص۸۳-۸۴۔اختیار معرفة الرجال:ج۱ص۳۱۵اس کی قبر دریائے دجلہ کے کنارے رصافہ کے مقام پر ہے۔   

[۴]۔  الطبقات الکبری:۸۳۶،تاریخ الاسلام:ج۵ص۲۴۰-[۵]۔  تاریخ خلیفة بن خیّاط:۱۷۳-[۶]۔ المسترشد:۱۵۷

[۷] ۔  الطبقات الکبری:ج۶ص۸۴، تاریخ الثقات:ج۱ص۴۶۱،تاریخ یحیی بن معین:۲۳۳،کتاب الثقات:ج۵ص۴۵۶،  تہذیب التہذیب: ج۱۰ص۱۰۱

[۸]۔  المسترشد:۱۵۷-[۹]۔  بازتاب تفکر عثمانی در واقعۂ کربلا:۲۱۸

۷۹

جو لوگ حقیقت کی جستجو کر ہے ہیں اور تاریخ کے صفحات میں سے حقائق  جانناچاہتے ہیں ،انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔

جو شخص پہلے یا دوسرے مقام پر پورے ملک میں قضاوت کے فرائض انجام دے رہا ہو ،وہ کس طرح یہ وصیت کر سکتا ہے کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے؟!

کیا اس سے بلند منصب کے لوگوں کے یہودیوں سے تعلقات نہیں تھے؟!کیا یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کرنا کسی ایسے شخص کی طرف سے نہیں تھی کہ جس کا ظاہراً تو قضاوت کے لئے مذہبی چہرہ تھا لیکن اس کی آڑ میں وہ  یہودیوں کی تبلیغ و ترویج کررہاتھا؟!

 کیوں  بنی امیہ کی حکومت کے بزرگوں سے ایسے شرمناک کام سرزد ہواکرتے تھے؟

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ جب لوگوں کو ان کی کالی کرتوتوں کا علم ہونا چاہئے  اور کیا انہیں یہ نہیں جاننا چاہئے کہ وہ خلافت کو غصب کرنے والے تھے نہ کہ دیانتدار راہنما؟!

 مسروق نے اپنی اس وصیت کے علاوہ کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے،اپنی وصیت کی توجیہ میں ایسی بات جو اس کی وصیت سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔اس نے کہا:وہ اس حال میں اپنی قبر سے نکلے گا کہ وہاں اس کے علاوہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔!

مسروق ابن زیاد کے لشکر کا لیڈر تھا۔(۱)

مسروق ان کوفیوں میں سے تھا جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو طعنہ دیتے تھے۔(۲)

--------------

[۱]۔  المسترشد:

[۲]۔ المسترشد:۲۰۷

۸۰

جب کہ مسروق نے عائشہ سے نقل کیا ہے:یا رسول اللّٰه؛ من الخلیفة من بعدک

قال:خاصف النعل قالت:من خاصف النعل قال:انظر ،فنظرت فاذا علی بن ابی طالب علیهما السلام

قالت :یا رسول اللّٰه؛ذاک علی بن ابی طالب قال :هو ذاک

عائشہ نے رسول خدا(ص) سے پوچھا:آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا؟

 فرمایا:جو اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے۔

عائشہ نے پوچھا:کون اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے؟

 فرمایا:دیکھو،جب میں نے دیکھا تو علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

 میں نے کہا:اے رسول خدا!وہ علی بن ابی طالب ہیں!

 فرمایا:وہ میرا خلیفہ ہے۔(1)

 ابن مغازی نے کتاب''المناقب:55'' پر نقل کیا ہے کہ عائشہ مسروق کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتی تھی اور اسے کہتی تھی:تم میرے بیٹے ہو اور ان میں سب سے زیادہ عزیز ہو.۔ مسروق نے عائشہ سے کہا:ماں میرا تم سے ایک سوال ہے تمہیں خدا ،رسول خدا(ص) اور میرے حق  (کیونکہ میں تمہارے بیٹوںجیساہوں) کی قسم !تم نے رسول خدا(ص) سے مخدج کے بارے میں کیا سنا کہ    جو جنگ نہروان میں مارا گیا تھا؟عائشہ نے کہا:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

 هم شرّالخلق والخلیقة، یقتلهم خیرالخلق والخلیقة، وأقربهم عند اللّٰه وسیلة ۔(2)

 وہ بدترین انسان اور دنیائے خلقت کی بدترین مخلوق ہے،انہیں بہترین انسان اور دنیائے خلقت کی بہترین مخلوق قتل کرے گی۔

--------------

[1]۔  المسترشد:622

[2] ۔  المسترشد:281

۸۱

6- کعب الأحبار

یہودیوں نے دین اسلام کو نابود کرنے اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے مقام خلافت کو چھیننے کے لئے نہ صرف معاویہ کے دور حکومت میں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی معاویہ کی حمایت میں کھڑے ہوئے اورانہوں نے معاویہ کو عثمان کے بعد خلیفہ  کے طور پرپہچنوایا۔معاویہ کو برسر اقتدار لانے کے لئے یہ منصوبہ بندی و حمایت اس وقت کی جارہی تھی۔اگر لوگوں میں عثمان کے بعد خلافت کے بارے میں بات ہوتی تو لوگ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت و حکومت کی حمایت کرتے اور اسی لئے عثمان کے قتل ہونے کے بعد لوگوں نے آنحضرت کی خلافت کا انتخاب کیا۔لیکن کچھ عوامل اور یہودی کٹھپتلیاں اسی وقت سے ہی معاویہ کی حکومت کا دم بھرتے تھے اور اس کام سے لوگوں کے افکار بنی امیہ(جو دین اسلام کے دیرینہ دشمن تھے) میں سے معاویہ کی طرف موڑنا چاہتے تھے تا کہ خاندان پیغمبر علیہم السلام کو حکومت  نہ ملے اور کسی ایسے کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ ہو جس کی اسلام سے دیرینہ دشمنی ہو۔جن افرادنے ایسے افکار کو پھیلانے کی  بہت زیادہ کوشش کی ان میں سے ایک کعب الأحبار تھا۔محمود ابوریّہ کعب اور اس کی سازشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :عثمان کے زمانے میں فتنہ کی آگ بھڑکنے کے بعد عثمان بھی آگ کے ان شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور اسے اسی کے گھر میں قتل کر دیا گیا،اس چالاک کاہن نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پوری طاقت سے فتنہ کی آگکوبھڑکایا اور جس قدر ہو سکا اس نے اپنی مختلف سازشوں سے استفادہ کیا۔ اس واقعہ میں جس مکروفریب  سے استفادہ کیا اورکھل کر یہودی مزاج گری کا اظہار کیا وہ یہ تھا کہ اس نے یہ دعوی کیا کہ عثمان کے بعد معاویہ ہی خلافت کے لائق ہے۔(1) وکیع نے اعمش اور اس نے ابو صالح سے روایت کی ہے(2) کچھ لوگوں کے درمیان عثمان کے بعد خلیفہ کی بات چلی تو ''الحادی''نام کے شخص نے اپنے شعر کے ضمن میں اس بارے میں یوں کہا:

-----------------

[1]۔ أضواء علی السنة المحمدیّة:180

[2] ۔رسالة النّزاع والتّخاصم فیما بین بن امیّة و بنی هاشم (مقریزی):51،أضواء علی السنة المحمدیّة سے اقتباس:180،نیز ملاحظہ فرمائیں:تاریخ طبری:ج4ص342 اور الکامل: ج3ص123

۸۲

انَّ الأمیر بعده علّی                   و فی الزّبیر خلق رضّی

 بیشک اس کے بعد علی امیر ہیں اور زبیر بھی اچھے اخلاق کامالک ہے۔

 کعب الأحبار (جو اس جلسہ میں موجود تھا) نے کہا:''بل هو صاحب البغلة الشهباء'' یعنی اس کے بعد خلیفہ وہ ہے جو خاکی رنگ کی سواری کا مالک ہے (یعنی معاویہ)۔ کیونکہ معاویہ کو بعض اوقات اس طرح کی سواری پر سوار دیکھا جاتا تھا۔

یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا اور کہا:اے بو اسحاق!علی علیہ السلام،زبیر اور اصحاب محمد(ص) کے ہوتے ہوئے تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟کعب نے کہا:بلکہ تم خلافت کے مالک ہو!اور شاید اس نے مزید یہ کہا ہو کہ میں نے یہ پہلی کتاب(تورات ) میں پڑھا ہے۔!(1)

 کعب الأحبار اور عمر

کعب الأحبارکہ جس کا نام کعب بن ماتع تھا اور جس کا تعلق یمن اور قبیلۂ حمیر سے تھا۔ اس نے عمر کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور مدینہ آ گیا۔ عمر کے نزدیک اس کا صحابہ بلکہ صحابہ سے بڑھ کر مقام تھا۔(2) عمر کو اہل کتاب سے علم حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے پیغمبر(ص) اس پر ناراض ہوئے تھے۔(3) لیکن اپنی خلافت کے زمانے میںاس نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور نئے مسلمان ہونے والے اہل کتاب  حضرات سے زیادہ استفادہ کیا۔ اسی وجہ سے وہ کعب کو اپنے پاس لے گیااوروہ مختلف موضوعات کے بارے میں اس سے سوال پوچھتا تھا۔ابن ابی الحدید نے کعب کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منحرفین میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت کعب کو جھوٹا کہتے تھے۔(4) (کعب الأحبار)جو 32ھ میں شہرحمص میں ہلاک ہو ا(5)

--------------

[1]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:92

[2] ۔  کعب الأحبار اور دوسرے خلیفہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں  تاریخ سیاسی اسلام: ج2ص89 کے مابعد ملاحظہ کریں۔

[3]۔  المصنف:ج6ص112

[4]۔  شرح نہج البلاغہ: ج 4ص77، کعب پر ابوذر کے اعتراض کے بارے میں بھی وہی منبع: ج3ص54

[5]۔  الطبقات الکبری:ج7ص309

۸۳

 صدیوں سے مورد وثوق اور قابل اطمینان تھا اور تفسیری و تاریخی کتابیں اس کی روایات سے بھری پڑی ہیں ،لیکن دور حاضر میں جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابہامات و اشکالات کے ضخیم پردے کے پیچھے  کعب الأحبار کا چہرہ ہے جس نے اہلسنت کی دین شناس اور علماء رجال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(1) چاند اور سورج کی خلقت کے موضوع میں  طبری نے کعب سے منقول اسرائیلیات کے کچھ نمونے بیان کئے ہیں۔اس رپورٹ میں ابن عباس کعب کی باتوں پر نارض ہوئے اور تین مرتبہ کہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے، اور اس کے بعد مزیدیہ کہا:یہ بات یہودیوں کی ہے جسے کعب اسلام میں   داخل کرنا چاہتا ہے۔(3)(2)

عمر کا کعب سے مشوہ لینا صرف دینی واعتقادی امور میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے سیاسی و حکومتی نقطۂ نظر کے پیچھے بھی جناب کعب کے مشورے شامل تھے۔! امالی میں ابوجعفر محمد بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:عمر نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں  جب اس پر ناتوانی حاکم ہو گئی اور وہ لوگوں کے امور چلانے سے عاجز ہو گیا تو وہ خدا سے موت کی دعا کرتا تھا۔ایک دن جب میں اس کے پاس موجود تھا ، اس نے کعب الأحبار سے کہا:مجھے میری موت نزدیک دکھائی دے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد خلافت کسی ایسے کو سونپ کر جاؤں جو اس مقام کے لائق ہو۔علی علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟اس بارے میں تمہیں اپنی کتابوں میں کیا کچھ ملا ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے تمام واقعات  تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے!

 کعب نے کہا:میرے خیال میں علی علیہ السلام اس کام کے لائق نہیں ہیں!کیونکہ وہ شخص دین پر استوار ہے اور کسی بھی غلطی سے چشم پوشی نہیں کرتا اور اپنے اجتہاد پر بھی عمل نہیں کرتا،اس طریقۂ کار سے وہ لوگوں پر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اپنی کتابوں میں جو کچھ ملا وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بیٹوں کو حکومت نہیں ملے گی اور اگر انہیں حکومت مل بھی گئی تو شدید افراتفری پھیلے گی!

--------------

[1]۔  تاریخ سیاسی اسلام:ج2ص89

[2]۔  تاریخ الطبری:ج1ص44اور 51

[3]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:45

۸۴

عمر نے پوچھا:کیوں؟

کعب نے کہا:چونکہ اس نے خون بہایا ہے!اور خدا نے ایسے افراد پر حکومت کو حرام قرار دیاہے! جس طرح داؤد نے جب بیت المقدس کو بنانے کا ارادہ کیا تو خدانے اس سے فرمایا:تم اس کام کے لائق نہیں ہو کیونکہ تم نے خون بہایا ہے؛بلکہ یہ کام سلیمان کے ذریعہ انجام پائے گا!

 عمر نے کہا:لیکن کیا علی علیہ السلام نے یہ خون حق پر نہیں بہایا؟

کعب نے جواب دیا:اے امیرالمؤمنین!لیکن کیا داؤدنے بھی وہ خون حق پر نہیں بہایا تھا؟!

عمر نے کہا:پس مجھے یہ بتاؤ کہ حکومت کسے ملے گی؟کعب نے کہا:ہمیں یہ ملتا ہے کہ صاحب شریعت اور ان کے دو صحابیوں کے بعد حکومت انہیں ملے گی جن کے ساتھ پیغمبر(ص) نے اصل دین پر جنگ کی ہے (یعنی اموی)۔ یہ سننے کے بعد عمر نے کئی بار آیت استرجاع پڑھی اور ابن عباس کی طرف دیکھ کر کہا:میں نے اسی سے ملتے جلتے مطالب رسول خدا(ص) سے سنے ہیں کہ آپ نے فرمایا:بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیںگے،میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے منبر پر بندر بیٹھے ہیں اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:(وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ) ۔(2)(1)

یہ واقعہ کئی اعتبار سے قابل غور ہے: اس واقعہ سے کعب کی امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے شدید دشمنی اور بغض کا پتہ چلتا ہے اور اس کی دلیل بھی بہت ہی واضح ہے کیونکہ جزیرة العرب میں آنحضرت ہی کے طاقتوار ہاتھوں سے یہود کی شان و شوکت خاک میں ملی اور کعب یہ جانتا تھا کہ اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت و رہبری ملی تو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔اسی وجہ سے کعب کی یہ شدید خواہش تھی کہ خلافت امویوں کو ملے کیونکہ ان کے لئے اسلام کی تقدیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے  اور ان کا ہدف و مقصد صرف دنیا ہے۔(4)(3)

-------------

[1]۔ سورۂ اسراء،آیت:60-[2]۔  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج12ص81

[3]۔ شیعہ و تہمت ھای ناروا:67-[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:90

۸۵

 کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات

ایک روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے کعب سے کہا:مجھے توریت کے سب سے بڑے علماء  کے بارے میں بتاؤتا کہ میں تمہارے مطالب کے ساتھ ان کے مطالب بھی سنوں۔

 کعب نے یمن کے ایک شخص کا نام لیا ۔ معاویہ نے اسے بلایا اور پھر دونوں کو حاضر کیا۔کعب نے اس شخص سے کہا: تمہیں اس کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی کے لئے دریامیں شگاف کر دیا؛کیا تم نے آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ  موسی نے توریت کی طرف دیکھ کر کہا:

 پروردگارا!میں محبت کی جانے والی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جو بہترین امت ہے اور جو لوگوں میں سے لوگوں کے لئے ہی آئی ہے،وہ ملت نیک کاموں کی دعوت دے گی اور برے کاموں سے روکے گی، اس کا پہلی کتاب (توریت) اور آخری کتاب(قرآن) پر ایمان ہے(1) اور وہ گمراہوں سے جنگ کرے گی اور اعور کذاب کے ساتھ بھی اس کا تنازع ہو گا ۔ خدایا! انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔ اس دانشور نے کہا:کیوں نہیں ؛ میں نے یہ موضوع دیکھا ہے۔

کعب نے اس سے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں  جس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی کی آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا! میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  کہ جب وہ بلند جگہ پہنچے تو تکبیر کہے گی اور جب صحرا میں پہنچے تو خدا کی عبادت کرے گی،زمین کو اس کے لئے مطہر قراد دیا کہ اگر پانی نہ ملے تو جنابت سے تیمم کے ذریعہ پاک ہو سکتے ہیں،وہ جہاں بھی ہوں ان کی مسجد وہیں ہوگی ،وضو سے ان کے چہرے  منور  ہوں گے، خدایا!انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

--------------

[1]۔ سیرة الحلبیّہ کی پہلی جلد کے صفحہ 217 کی طرف رجوع فرمائیں۔

۸۶

اس نے کہا:جی ہاں ؛میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا:تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جب ان میں سے کوئی ایک  کسی نیک کام کرنے کا ارادہ کرے اگرچہ اس پر عمل نہ بھی کرے تو اسے دس سے سات سو تک اجر دیا جائے گا اور اگر کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کرے تو جب تک اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے انجام دے  تو اس کے لئے صرف ایک گناہ لکھا جائے گا ۔ خدایا! اسے میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

مذکورہ دانشور نے کہا: ہاں؛ میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  جو اپنے صدقات اور کفّارہ کھاتی ہے اور انہیں اپنے فقراء کو دیتی ہے ، اور جیسا کہ  دوسری امتیں انہیں جلا دیتی تھیںوہ ایسا نہیں کرتے؟

دوسری حدیث کے اس حصہ میںذکر ہواہے کہ :جو اپنی قربانی کو کھا سکتے ہیں اور قربانی کے گوشت سے مراد عید قربان وغیرہ ہیں۔(1)

--------------

[1]۔نهایة الأرب :ج1ص126

۸۷

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

قبلہ کابیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہونایہودیوں کے غضبناک کا بہت اہم سبب تھا۔ یہودی بیت المقدس کا بڑا احترام کرتے تھے اور وہ کسی بھی سرزمین کو اس کے مقابلہ میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔قبلہ کا تبدیل ہونا ان کے لئے بہت ہی اہم اور انہیں غضبناک کرنے والا امر تھا۔

اس واقعہ سے ان کو اتنی شدید نفرت تھی کہ وہ بعد کی صدیوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں  اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہے۔

اسی وجہ سے بعض غاصب اموی خلفاء  یہودیوں کا دل خوش کرنے اور اسلام و مسلمین کو شکست دینے کے لئے کوشاں رہے کہ بیت المقدس کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت دے دی جائے اور وہ معنوی اعتبار سے مسجد الحرام کے برابر یااس سے بھی افضل و برتر ہو جائے۔

اس بارے میں غاصب اموی خلفاء میں سے جس نے سب سے زیادہ کوشش کی وہ عبدالملک تھا۔عبدالملک نے اس راہ میں جن عوامل کی وجہ سے کوشش کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے اس کے دورحکومت میں قیام کیا تھا اور اموی خلیفہ سے مکہکو چھینلیا تھا ۔عبدالملک  لوگوں کو خانۂ خدا کی طرف جانے سے روکنے کے لئے یہ کوششیں کر رہا تھا کہ ان کے لئے بیت المقدس کی عظمت کو زندہ کرے تا کہ لوگ مکہ میں جانے اور وہاں خانۂ خدا کی زیارت کرنے سے گریز کریں اور انہیں بیت المقدس کی طرف کھینچا جا سکے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء سیاست کی وجہ سے مذہبی حقائق کو تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔اس بناء پر اگر وہ اسلام اور دین کے نام پر حکومت کا دم بھرتے تھے تو اس کی وجہ دینی اعتقادات نہیں بلکہ سیاست اور طاقت کا حصول تھا۔

کتاب''پیغمبر(ص)و یہود و حجاز''میں لکھتے ہیں:

۸۸

تغییر قبلہ سے یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو استقلال ملنے کے علاوہ عربوںکے اسلام کی طرف آنے میں بھی مدد ملی ۔ چونکہ وہ کعبہ کی بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے۔ اگرچہ مسلمان تغییر قبلہ سے پہلے بھی کعبہ کو اہمیت دیتے تھے اوراس بارے میں قرآن کی کچھ آیات بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ یہودیوں اور مسلمانوں میںجدائی کا پہلا مرحلہ شمار کیا جاتا ہے جس سے اس قوم (جو اسلام اور پیغمبر(ص) کی برتری کا اعتراف کرتی تھی) کے بغض میں مزید اضافہ ہوا۔

تاریخ اسلام میں یہودیت سے اسلام لانے والے  مسلمان بیت المقدس کو کعبہ پر برتری دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جن کی کتابیں اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں۔کعب الأحبار نے ایک حدیث گھڑی کہ جس میں آیا ہے: کعبہ ہر صبح بیت المقدس پر سجدہ کرتا ہے۔

امام باقر علیہ السلام نے اس بات کوجھوٹ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:خدا کے نزدیک روئے زمین پر کعبہ سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے۔(1)

غاصب اموی حکمران اپنے سیاسی اہداف سے استفادہ کرنے کے لئے ایسی ہی روایات سے استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکہ عبداللہ بن زبیر کے پاس تھا عبدالملک نے لوگوں کو حج پر جانے سے روکنے کے لئے زہری سے ایک حدیث کو ترویج دیا جس میں پیغمبر(ص) کی طرف یہ بات منسوب کی گئی:

تین مساجد کے علاوہ کسی کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد الحرام۔مسجد النبی اور مسجد بیت المقدس کہ جس کا مقام و مرتبہ کعبہ کی طرح ہے۔(3)(2)

--------------

[1]۔ الکافی:ج 4ص240

[2] ۔  حدیث''لا تشدّ الرجال'' کے بارے میں: صحیح مسلم: ج1ص636، صحیح البخاری: ج2ص56۔ البتہ اس کتاب میں یہ جملہ''وهو یقوم مقام الکعبة'' نہیں ہے ۔اس حدیث سے عبدلملک کے استفادہ کرنے کے بارے میں ۔تاریخ سیاسی اسلام: ج2ص746 (سیرۂ خلفائ) اور تاریخ طبری سے منقول۔

[3]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:56

۸۹

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

کتاب ''اسرائیلیات اور....'' میں لکھتے ہیں:

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے واقعات اور انحرافی تحریکوں کا سامنا کیا جن میں مسلمان نما اہل کتاب اور ان کے قصہ کہانیوں سامنا کرنا تھا کہ جن میں سے ہر ایک نے اپنے حصہ کے مطابق دین کے چہرے کو غبار آلود کیا۔

آنحضرت  بھی مختلف راستوں سے ان کے ہاتھ قلم کرتے اور ان کا مقابلہ کرتے۔

 ہم یہاں اسرائیلیات اور انہیں پھیلانے والوں سے  حضرت علی علیہ السلام کیمقابلہ کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:

1۔ نقل کیا گیا ہے: عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک دن خلیفہ کے سامنے ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے۔اور حاضرین میں سے ایک کعب بھی تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا:اے کعب!کیا تمہیں پوری تورات حفظ ہے؟

 کعب نے جواب دیا:نہیں؛لیکن مجھے اس میں سے کافی حفظ ہے!

کسی شخص نے خلیفہ سے کہا:یا امیرالمؤمنین!اس سے پوچھیں کہ خدا اپنے عرش کو خلق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟اور نیز پانی کو کس سے خلق کیا کہ جس پر بعد میںاپنا عرش بنایا؟

عمر نے کہا:اے کعب !کیا تمہیں ان کا جواب معلوم ہے؟

کعب نے جواب دیا:جی ہاں ؛یا امیر المؤمنین!حقیقت میں مجھے حکیم(توریت)ملا کہ خداوند کریم عرش کی خلقت سے پہلے قدیم و ازلی تھا اور بیت المقدس کی چٹان پر تھا اور یہ چٹان ہوا پر بنی ہوئی تھی اور جب خدا نے عرش کو بناے کا ارادہ کیا تو اس پراپنالعاب دہن گرایا اور جس سے گہرے  سمندر اور ان کی موجیں خلق ہوگئیں ۔ اس موقع پر خدا نے بیت المقدس کی چٹان کے کچھ حصہ پر اپنا عرشخلق کر لیا اور اس پر بیٹھ گیااور چٹان کے بقیہ حصہ پر بیت المقدس کو خلق کیا۔

۹۰

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنے لباس کو ہلارہے تھے اورآپ کی زبان پر خدا کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرنے والے کلمات جاری تھے جیسے''جل الخالق یا جلّ اللّٰه یا اللّٰه اکبر'' اسی حال میں آپ کھڑے ہوئے اور اعتراض کیطور پر مجلس سے چلے گئے!(1)

جب خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو امام  کو قسم دی کہ اپنی جگہ واپس آ جائیں اور مورد بحث مسئلہ میں  ا پنا نظریہ بیان کریں۔امام اپنی جگہ واپس آگئے اور کعب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

تمہارے اصحاب غلط ہیں اور انہوں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کی ہے اور خدا کی طرف ھوٹی نسبت دیہے۔

اے کعب !وای ہو تم پر؛اگر ایسا ہو کہ چٹان ا ور ہوا بھی خدا کے ساتھ ہوں تو اس صورت میں وہ بھی خدا کی طرح قدیم و ازلی ہوں جائیں گے پس پھر تین قدیم موجودات ہوں گی۔

اس کے علاوہ خداوند متعال اس سے بے نیاز ہے کہ اس کا کوئی مکان ہو کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور  جیسے ملحد کہتے اور جاہل خیال کرتے ہیں خداو ویسا نہیں ہے۔وای ہو تم پر اے کعب!تمہارے قول کے مطابق جس لعاب دہن سے یہ عظیم دریا و سمند وجود میں آئیں وہ بیت المقدس کی چٹان پربیٹھنے سے بے نیاز ہے اور ....۔(2)

2۔ آنحضرت سے نقل ہوا ہے کہ آپ کعب الأحبار کے بارے میں فرما رہے تھے:

وہ جھوٹا و کذّاب شخص ہے۔(3) یہی وجہ تھی کہ کعب،حضرت علی علیہ السلام سے روگرداں تھا۔(4)

--------------

[1] ـ یہ ایک عربی رسم ہے کہ جب کسی چیز سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو اپنا لباس ہلاتے ہیںگویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کو قبول نہیں کرتا۔

[2] ۔ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر (المعروف بہ مجموعۂ وراّم): ج2ص 5 اور6،نقش ائمہ در احیاء دین (چھٹا شمارہ):114 اور 115

[3]۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):774 ،أضواء علی السنّة المحمدیة :165

[4] ۔  شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):774،أضواء علی السنّة المحمدیة :165

۹۱

3۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کعب کے شاگرد یعنی ابوہریرہ کو بھی جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا شخص کہا ہے اور فرمایا ہے:

انّ أکذب النّاس علی رسول اللّٰه (ص)لأبی هریرة الدُّوس ۔(1) بیشک جس نے سب سے زیادہ رسول خدا(ص) کی طرف ھوٹی نسبت دی،وہ ابوہریرہ دوسی ہے۔(2) اس واقعہ سے چند اہم نکات سیکھنے کو ملتے ہیں:

1۔ اسرائیلیات کو پھیلانے میں خلفاء کا بہت اہم کردار تھا اس کے علاوہ اسرائیلیات کی جھوٹی ثقافت کو پھیلانے میں  ان کی دینی اورتاریخی واقعات سے جہالت و نادانی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔اس واقعہ میں کعب الأحبارنے جھوٹ بولااوراس نے دین کو خرافات اور بیت المقدس اور اس کے نتیجہ میں یہودیت کو عظیم اوربڑا دکھانے کے لئے کچھ جھوٹے مطالب بیان کئے۔

2۔ اس واقعہ میں نہ صرف عمر نے بلکہ اس نے اور اس کے کسی بھی طرفدار اور پیروکار نے کعب پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ عمر اور اس کے پیروکارکعب الأحبارکی کہی گئی باتوں سے جاہل تھے یایہ کہ وہ اس طرح کی خرافات اور اسرائیلیات کو پھیلانے کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے تھے۔ اور ان میں سے دونوں صورتوں میں ایسا شخص کس طرح رسول(ص) کا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!

3۔ کعب الأحبار کے قول کے مطابق خدا بیت المقدس کی چٹان پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لعاب دہن پھینکا اور..... ۔ یہ عاقل اور متفکر افراد کو منحرف کے لئے بہت ہی مؤثر چال تھی کیونکہ کوئی بھی عقل مند اور متفکر انسان یہ قبول نہیں کر سکتا کہ خدا بیت المقدس کے پتھر پر بیٹھا تھا- اور وہ بھی ان کی  خلقت سے پہلے - اور اس نے اپنے لعاب دہن سے گہرے دریا خلق کئے!

جس دین میں ایسی اسرائیلیات اور خرافات موجود ہوںکیااس دین کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کیااس دین پر اعتقاد رکھا جا سکتا ہے؟!یہ واضح سی بات ہے کہ دانشور اور متفکر اس طرح کی من گھڑت باتوں کی پیروی نہیں کریں گے ۔ بلکہ وہ حقائق جاننے کے لئے کعب الأحبار کی بجائے خاندان وحی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف رجوع کریں گے۔

--------------

[5]۔ شیخ المضیرة: 135

[6]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:153

۹۲

7- وہب بن منبّہ

ابوعبداللہ وہب بن منبّہ اہل  صنعاء میں سے تھا جو یمن کے شہروں میں سے ہے۔ اس کا باپ ایرانی اور ہرات کے لوگوں میں سے تھا اور وہ اس فوج کا ایک سپاہی تھا جسے انوشیروان نے یمن کو فتح کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اس کا بیٹا وہب بھی اسی جگہ (یمن) پیدا ہوا۔کہتے ہیں کہ کے وہب کے باپ نے رسول اکرم(ص) کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔

ذہبی  ''تذکرة الحفّاظ'' میںوہب بن منبّہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وہ  یمن کا ایک دانشور تھا جو سن 34 ہجری - یعنی عثمان کی خلافت کے زمانے میں- میں پیدا ہوا۔جسے اہل کتاب کے علوم کے بارے میں بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس کی ساری توجہ انہی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پرمرکوز تھی۔

صحیح بخاری اوراور مسلم میں اس کے بھائی''ہمام'' کے سلسلہ سے اس سے حدیث نقل ہوئی ہے''(1)

 ڈاکٹر جوا دعلی نے بھی اس کے بارے میں کہاہے:وہب بن منبّہ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے اور اسرائیلی کہانیوں کو نقل کرنے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔اس کے اکثر اقوال گذشتہ آسمانی کتابوں سے ہی اخذ شدہ ہوتے تھے۔اس کے بھائی نے شام کے اپنے تجارتی سفر میں اس کے لئے یہ کتابیں خریدیں اور وہ ان کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس  متقدمین کی تاریخ پر تسلط  تھا اور اسے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔(2) وہب کا خاندان یمن میں رہتا تھاجو یہودیوں کے آداب و رسومات اور ان کی روایات سے متأثر تھااور دوسری طرف سے وہ حبشہ کے ذریعہ عیسائیوں کے عقائد اور ثقافت سے بھی آشنا تھے۔ وہب خود یونانی زبانی سے بھی آشنا تھا جس کی وجہ سے اسے ان دوثقافتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی کافی معلومات تھیں۔(3) وہ گذشتہ آسمانی کتابوں کے مطالب اور گذشتہ اقوام و ملل کی روایات اور قصہ کہانیوں کو بیان کرنے میں اتنی توجہ دیتا تھا کہ اس اعتبار سے اسے ''کعب الأحبار''سے تشبیہ دی جاتی ہے۔(4)

--------------

[1]۔ تذکرة الحفّاظ:ج 1ص۱۰۰اور 101،الأعلام: ج۹ص۱۵۰-[2] ۔ المفصّل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج6ص565

[3]۔ الأدب العربی: ج1ص381-[4]۔ تذکرة الحفّاظ: ج1ص101

۹۳

وہ بنی امیہ اور ان کے حکمرانوں سے بھی غافل نہیں تھا یہاں تک کہ وہ بعض اوقات ان کی تائید میں من گھڑت مطالب بیان کرتا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کو مہدی موعود سمجھتا تھا!(1) اور اسی کے خلافت کے دوران یہ قضاوت کے عہدے پر فائز تھا(2) ،وہ 110ھ میں شہر صنعاء میں ہلاک ہوا۔(3)(4)

وہب بن منبّہ کے عقائد

قابل ذکر ہے کہ اس جدید مسلمان یہودی کے ذریعہ اسلامی معاشرے میں پھیلنے والے عقائد میں سے یہ ہے کہ اس نے جبر اور نفی مشیت و اختیار جیسے عقائد کو فروغ دیا۔

حماد بن سلمہ نے ابو سنان سے نقل کیاہے کہ میں نے وہب بن منبّہ سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا: میں ایک مدت تک انسان کی قدرت و مشیت کا قائل تھا یہاںتک کہ میں  نے پیغمبروں کی ستّر سے زائد کتابوں کامطالعہ کیااور ان سب میں یہی تھا کہ جو بھی اپنے لئے اختیار کا قائل ہو وہ کافر ہو جائے گا۔اس لئے میں نے اپنے پہلے والے عقیدہ کو چھوڑ دیا۔(5)

جبر اور نفی مشیت و اختیار کی حمایت  اور ہر طرح کی قدرت و مشیت کا انکار کرناانسان کے لئے ایک ایسی آگ تھی کہ جو پہلی صدی ہجری کے آخر میں مسلمانوں میں بھڑکائی گئی جس نے انہیں دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ۔جب کہ جبر کا عقیدہ بنی امیہ کی حکومت کی بنیادوں سے سازگار تھا۔ اسی وجہ سے وہب ایسے نظرئے کو پھیلانے کی بہت زیادہ کوشش کرتا تھا۔(7)(6)

--------------

[1]۔ تاریخ الخلفاء:263

[2]۔ الأعلام:ج9ص150

[3]۔ فجرالاسلام:161

[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:116

[5]۔ میزان الاعتدال: ج4 ص353

[6]۔  ملاحظہ کریں: بحوث فی ملل و النحل:911،فرہنگ عقائد و مزاہب اسلامی: ج1ص102 اور 103

[7]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:121

۹۴

تیسراباب

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

    عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

    تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

    عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

    بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

    اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

۹۵

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے بھی تعلقات تھے اور وہ اپنے امور میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات کی بہترین مثال معاویہ  کے ان سے تعلقات ہیں۔

معاویہ کےعیسائیوں سے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ نہ صرف اس کے دربار میں ان کی آمد و رفت تھی بلکہ معاویہ عیسائیوں سے مشورہ بھی کرتا تھا اور انہیں حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کے علاوہ ہ عیسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا اور ان کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتا تھا۔ آپ یہ نکتہ یعنی معاویہ کے عیسائیوں سے تعلقات اور معاویہ کا عیسائیوں سے مشورہ کرنا،تاریخ کے صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہ واضح سی بات ہے کہ ایسے افکار و نظریات رسول اکرم(ص) کے حکومتی طریقۂ کار کے افکار و نظریات سے متضاد ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کا عیسائیوں اور کسی بھی اہل کتاب سے مشورہ کرنا اور ان کے دین مخالف افکار و نظریات کولوگوں پر مسلّط کرنا  تو دور کی بات بلکہ آپ نے کبھی انہیں  اپنا ہمنشین قرار نہیں دیا۔لیکن معاویہ نے چونکہ بزردستی اور طاقت کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی تھی اور وہ رسول خدا(ص) کے منصب خلافت کا غاصب تھا،اس لئے اس کے اعمال رسول اکرم(ص)کے اعمال کی طرح نہیں تھے بلکہ دین پر کاری ضرب لگانے اور دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے وہ دین کے مخالفوں سے مشورہ کرتا تھااور ان کے نظریات کو اہمیت دیتاتھا۔

 کتاب''امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام''میں لکھتے ہیں:روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاویہ عیسائیوں کی سیرت و روایات کے لئے احترام کا قائل تھا کہ جو اب تک شام کے شہروں میں مقیم تھے اور وہاں کی اکثر آبادی انہیں پر مشتمل تھی۔ اس کے مشیروں میں سے ایک سرجون(سرگیوس) تھا جویونانی  Orthodox خاندان کا ایک فرد تھا اور جو شام میں رومن انتظامیہ کے لئے کام کرتا تھااور اس کا باپ'سنت جون''(وفات: 748ء) شام میں Orthodoxکے متکلمین میں سے تھا۔(1)

--------------

[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:57

۹۶

  اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ہم ''جرجی زیدان''کے اس قول پر غور کریں، جو کہتے ہیں: بنی امیہ کے زمانے میں عیسائی مسجدمیں آتے تھے اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ اخطل(عرب کا عیسائی شاعر)بغیرا جازت کے نشے کی حالت میں گردن میں صلیب ڈال کر عبدالملک بن مروان کے پاس آیا اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا؛کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کے اصحاب و انصار کی مذمت میں بہتر طور پر شعر کہتا تھا!(1)

تاریخ میں ہے کہ:''بطریق یوحنا دمشقی''نام کا شخص اپنے باپ کے ساتھ عبدالملک بن مروان   کے دربار میں رہتا تھا۔جو اسلامی ثقافت سے مبارزہ کرنے والوں میں نمایاں شمار کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے درمیان شہبات اور جھوٹ شامل کرنے میں دریغ نہیں کرتا تھا۔اس  نے عیسائیوں کے لئے ایک کتاب تألیف کی جس نے انہیں مسلمانوں کی تبلیغات کے مقابلہ میں مسلح کیا۔(2)

 یہی شخص پیغمبر اکرم(ص) کی اپنی پھوپھی زاد زینب بن جحش سے عشق و محبت کی جعلی کہانی کو رائج کرنے والا تھا!

 کچھ اموی خلفاء کی کوشش تھی کہ اہل کتاب جو کچھ کہتے ہیں یا پیش آنے والی مصالحت کی بنیاد پر  یہ بات ان کے منہ میں ڈال دیں  کہ ان کا نام گذشتہ آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔کیونکہ ان کی حکومت کی مشروعیت  ظاہر کرنے کے لئے اس مسئلہ کے بہت اہم اثرات تھے اور یہ فلاں خلیفہ کے لئے ایک طرح سے قضاء الٰہی کو بیان کرنا چاہتے تھے۔(3)

یہودی سے مسلمان ہونے والے یوسف نامی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے عبدالملک کی خلافت کی پیشنگوئی کی تھی ۔(4) وہب بن منبّہ نے بھی عمر بن عبدالعزیز کو امت کا مہدی شمار کیا تھا۔(5)

--------------

[1]۔  تاریخ تمدن اسلامی:745

[2]۔ تراث الاسلام:ج1ص275،''الاسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر''سے اقتباس:429

[3]۔ تاریخ سیاسی اسلام:ج2ص735 اور 736

[4]۔ تاریخ الخلفاء:243

[5]۔ تاریخ الخلفاء:263

۹۷

 عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں جو مطالب ذکر کئے ہیں،ان کی بناء پر یہ قابل غور نکتہ سمجھ میں آتا ہے:شعر و شاعری نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث سے دورکیا اورنہ یہ کہ صرف  شراب نوشی،فساد،فحاشی اور لوگوں کودین سے دور کرنے کا باعث بنی بلکہ انہیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے اور مسلمانوں کوعیسائی بنانے کا بھی باعث بنی۔(1)

اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کے دربار میں عیسائی شاعروں کا اتنا احترام کیوں تھا اور انہیں کیوں اتنی اہمیت دی جاتی تھی؟!مسلمانوں کے خلیفہ کے دربار میں کیوں ان کا اتنا بلند مرتبہ تھا؟!یہاں تک کہ کبھی مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا تھا!

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔

 ابوزبید(جو ایک شراب خور اور ولید کا ہم پیالہ تھا)عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پرمأمور تھا۔حلانکہ ابوزبیدعیسائی تھااور''الاستیعاب''کے مطابق یہ عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاةجمع کرنے کے لئے  مأمور تھا۔

 اس کام سے عمر نے آنے والے افراد کے لئے راستہ کھول دیاتا کہ وہ عیسائیوں اور دین سے خارج افراد سے کام لیں یہاں تک کہ عثمان کے زمانے میں عیسائیوں کے کئی افراد حکومتی منصب پر فائز تھے۔جب حکومتی باگ دوڑ اور حکومتی عہدوں میں عیسائیوں کو بلند مقام ملا تو وہ اشعار کی ترویج میں لگ گئے تا کہ اس کے ذریعہ قرآن پر سے لوگوں کی توجہ کو کم کیا جا سکے اور یہ وہی چیز تھی کہ رسول اکرم(ص) نے جس کی پیشنگوئی کی تھی۔

انہوں نے شعر کی ترویج کو دستاویز قراردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو شراب نوشی اور دین سے روگردانی کی طرف راغب کرتے تھے اور یہ نہ صرف لوگوںکے عقائد کمزور کرنے کا باعث بن رہا تھا بلکہ دوسروں کے اسلام کی طرف آنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔

--------------

[1]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:81

۹۸

 جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے کہ ابن شہاب کی روایت کے مطابق عمر نے ابو موسی کو خط لکھا جس میں لکھا تھا:انہیں حکم دو کہ شعر روایت کریں کہ یہ اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں!۔(1) اس لحاظ سے شعر کی طرف رغبت دلانانا عمر کی زبان سے شروع ہوا اور معاویہ کے زمانے میں   رائج ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ نے شعر کی ترویج میں مبالغہ سے کام لیا۔

''الاستیعاب''کے مصنف ولیدکے بارے میں لکھتے ہیں:اہل عمل کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ''(2) ولیدکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(3) اسی طرح ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے،ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے''(4) حضرت علی بن ابی طالب  علیہما السلام  کے ایمان اور ولید کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورہم اس بارے میں ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں۔(5) 'الاصابة''کے مصنف ابوزبید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ماموں کے پاس بنی تغلب میں زندگی گذارتا تھا اور اسلام کے دوران جب ولید کو جزیرہ اور پھر کوفہ کی حکمرانی ملی تو یہ اسی کے ساتھ تھا۔(6) ابن قتیبہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابوزبید ہرگز مسلمان نہیں ہوا تھااور وہ اسی طرح عیسائیت پر باقی رہا اور دنیا سے چلا گیا۔مرزبانی کہتے ہیں کہ اسے طویل عمر ملی اور وہ ایک سو پچاس سال زندہ رہا  ۔ اس نے اسلام کو تو درک کیا لیکن مسلمان نہیں ہوا اور وہ معاویہ کی حکومت کے زمانے تک زندہ تھا۔(7)

--------------

[1]۔ کنزالعمال:ج10ص330

[2]۔ سورۂ حجرات،آیت:6

[3]۔ الاستیعاب:ج3ص632

[4]۔ سورۂ سجدہ،آیت:18

[5]۔ الاستیعاب:ج3ص633

[6]۔ الاصابہ:ج4ص80

[7]۔ الاصابہ:ج4ص80

۹۹

 اگرچہ قرآن وحدیث کی رو سے ولید فاسق اور اکثر مؤرخین کے مطابق ابوزبید عیسائی تھا۔لیکن عمر نے اس میں عوامی مفاد کو دیکھا اور ولید کو جزیرہ کا حاکم بنا دیا اور ابن حجر کے مطابق''ابوزبید کو اسی کے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پر مأمور کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور عیسائی کوئی ذمہ داری نہیں دی''(1) ۔اسی دوران عمر نے حکم جاری کیا اور ابن شہاب کی روایت کی رو سے اس نے ابو موسی اشعری کو خط لکھاکہ'' اپنے اطرافیوں کو حکم دو کہ وہ عربی قواعد سیکھیں جو صحیح گفتگو کے لئے راہنما ہیں اور انہیں  حکم

دو کہ وہ شعر روایت کریں جو اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں''(2)

 شعرکو روایت کرنا ایک عربی سنت و روایت تھی جس کی طرف اسلام نے کوئی خاص توجہ نہیں  دی اور نہ ہی خدا کی کتاب میں شعر اور شاعروں کی کوئی تعریف کی ہے اور نہ ہی سنت میں انہیں کوئی خاص اہمیت دی گئی ہے۔

منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھمبعوث کیا ،میرے بعد میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب مال ناجائز طریقہ سے لیا جائے گا اور خون بہایا جائے گا اور قرآن کی جگہ اشعار لے لیں گے۔(3)

یہ کہ شعر روایت کرنے کی طرف دعوت دینا،غیب کی خبر دینا اور حجت قائم کرنا ،اس وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب شعر قرآن کی جگہ لے لیں گے۔اشعار روایت کرنے کی دعوت دینے کے بہانے قبیلۂ بنی تغلب ( رسول خدا(ص) نے جن کی سرزنش کی ہے)،حیرہ کے عیسائیوں(جو عباسیوں کی خلافت کے زمانے تک عیسائیت پر باقی تھے)قیساریہ کے اسیروں کے قافلوں(انہیں معاویہ نے اپنی خلافت میں دالخلافہ کی طرف بھیجا)نے راہ خدا کو بند کرنا چاہا۔

--------------

[1] ۔  الاصابہ:ج4ص80

[2]۔ کنزالعمّال:10ص300ابن الأنباری کی روایت کے مطابق

[3]۔  کنزالعمال:ج11ص187 دیلی کی روایت کے مطابق

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346