معاویہ

معاویہ  16%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168116 / ڈاؤنلوڈ: 7631
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بعثت کی ابتدا ء اور حضرت علی(ع) کی وزارت

حضرت علی(ع) کی وزارت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک حدیث’’حدیث الدار‘‘ ہے۔ وہی دن کہ جس میں پیغمبراکرم(ص) نے اپنی بعثت کے آغاز میں قریبی رشتہ داروں کو جمع کر کے فرمایا:’’فایّکم یوازرنی علیٰ امری هذا؟‘‘ تم میں سے کون اس کام میں میرا وزیر بنو گے ؟

امیر المومنین(ع) نے عرض کیا :’’انا یا نبیّ الله!اکون وزیرک علیه ‘‘ میں ، اے اللہ کے رسول(ص)!اس مسئولیت میں ، میں آپ(ص)کا وزیر بنوں گا ۔

پیغمبر(ص)نے فرمایا:

’’انّ هٰذا اخی و و صیّی و خلیفتی فیکم فاسمعو ا له و اطیعوا ۔بے شک یہ میرے بھائی ، وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں ، پس اس کی بات پر کان دھرو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تفسیر بغوی: ۴/۲۷۸ ۔ نیز دوسرے مصادر۔

۴۱

حلبی ، اپنی سیرہ میں اس واقعے کو یوں نقل کرتا ہے :

اس وقت علی(ع) نے آمادگی کا اظہار کیا تو پیغمبر(ص) نے اس سے فرمایا :

’’اِجلس!فانت ا خی و وزیری و وصیّی و وارثی و خلیفتی من بعدی ۔بیٹھ جا!تو میرا بھائی، وزیر ، وصی ، وارث اور میرے بعد میرا جانشین ہوگا۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔السیرۃ الحلبیہ: ۱/ ۴۶۱

۴۲

علی(ع) کی وزارت اور پیغمبر(ص) کی دعا

تاریخ مدینہ دمشق ، المرقاۃ ، درالمنثور اور ریاض النضرۃ لکھنے والوں نے یہ روایت ابن مردویہ ، ابن عساکر ، خطیب بغدادی اور دوسروں سے نقل کی ہے کہ اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول خدا(ص) کو درگاہ الٰہی میں یہ عرض کرتے ہوئے سنا :

’’اللّهمّ انّی اقول کما قال اخی موسیٰ:اللّهمّ اجعل لی وزیراً من اهلی اخی علیّاً،اشدد به ازری و اشرکه فی امری کی نسبّحک کثیراً و نذکرک کثیراً، انّک کنت بنا بصیراً ۔ خداوندا!میں تجھ سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی موسیٰ نے کہا تھا: خدایا!

میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے میرے بھائی علیؑ کو، اس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط بنا، اسے میرے کام میں شریک فرما تاکہ زیادہ تیری تسبیح کروں اور زیادہ تیری یاد میں رہوں ، بے شک تو ہمیں دیکھنے والا ہے۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق:۱/۱۲۰۔۱۲۱، حدیث ۱۴۷، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی۔ الدر المنثور: ۵/۵۶۶؛ الریاض النضرۃ: ۳/ ۱۱۸

۴۳

مخصوص منزلت

امیر المومنین(ع)،پیغمبر اکرم(ص)کی نسبت سے ایک مخصوص مقام کے حامل ہیں جو آپ(ع) نے اپنے فصیح و بلیغ خطبے میں بیان فرمایا ہے :’’تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔‘‘

یہ وہی قریبی رشتہ ہے جو موسیٰ و ہارون(ع) کے واقعے میں حضرت موسیٰ نے خدا وند عالم سے طلب کرتے ہوئے عرض کیا :

’’وَاجْعَل لِی وَزِیراً مِن اَهلِی هٰارُونَ اَخِی ۔اور میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے، میرے بھائی ہارون کو۔‘‘

اسی وجہ سے ، جیسا کہ بعد میں بیان کریں گے، پیغمبر(ص) نے اپنی اور علی(ع) کی برادری کا اعلان کرتے وقت حدیث منزلت ذکر فرمائی۔

خصوصی برتری

امیر المومنین(ع) کی خصوصیات ان باتوں سے کہیں بلند ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’واُولُوا الاَرحٰامِ بَعضُهُم اَولیٰ بِبَعضٍ فِی کِتَابِ اللّٰهِ مِنَ المُومِنِین وَ المُهاجِرِینَ ۔ اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ احزاب: ۶

۴۴

یہ تین خصوصیات (ایمان ، ہجرت اور قرابت)حضرت علی(ع) کے سوا کسی پر منطبق نہیں ہو سکتیں۔ اس بناء پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (ص)کے بعد خلافت وولایت کے مضبوط پایوں میں سے ایک پایہ نزدیکی رشتہ ہونا ہے۔

فخر رازی نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ (فرزند امام حسن(ع) ) کے ، جو عالم و فاضل اور قرآن کریم سے آشنا شخص تھے، استدلال کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جناب محمد بن عبد اللہ بن حسن مثنیٰ نے عباسی خلیفہ منصور کو لکھے گئے ایک خط میں اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔

منصور نے ان کے جواب میں لکھا :پیغمبر(ص) کی نسبت ، علی(ع) سے زیادہ عباسؓ حقدار ہے ؛ کیونکہ عباس ؓ ،آنحضرت(ص) کے چچا جبکہ علی(ع)، چچا کے بیٹے ہیں۔

فخر رازی ، اگرچہ عباسی نہیں ہیں ؛ لیکن اس نے عباسیوں کے دعویٰ کو قبول کیا ہے۔ اس کا یہ عمل بنی عباس سے دوستی کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ بخاطر ۔۔۔!

البتہ خود فخر رازی کو بخوبی علم ہے کہ عباس اگرچہ حضور پاک(ص) کے چچا ہیں ؛ لیکن مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؛ کیونکہ وہ فتح مکہ کے بعد مدینہ آئے ہیں اور پیغمبر فرما چکے تھے کہ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں ہے ۔ اس بنا ء پر مہاجرین میں سے واحد شخص جو حضور(ص) کا قریبی رشتہ ہے وہ تنہا علی(ع) کی ذات گرامی ہے ۔

انصاف کی رو سے دیکھا جائے کہ پیغمبر(ص) کے اصحاب میں علی(ع) کے علاوہ مؤمن اور مہاجر بہت سارے ہیں ؛ لیکن ان میں سے کوئی بھی رسول خدا(ص) کا قریبی نہیں ہے ۔ فقط عباس رہ جاتا ہے ؛ لیکن وہ مہاجر نہیں ہے پس یہ آیت علی(ع) کے سوا کسی اور پر قابل انطباق نہیں ہے ۔

۴۵

قابل ذکر ہے کہ رازی اس مقام پر عباسیوں اور منصور عباسی سے موافقت کر لیتا ہے ؛ جبکہ ہاشمیوں اور علویوں کی مخالفت کرتا ہے تاکہ ، بزعم خود ، اس آیت سے امیر المومنین(ع) کی امامت پر استدلال نہ کیا جا سکے ۔

بنا ء بر ایں ، آیہ شریفہ’’اولوا الارحام‘‘ آپ(ع) کی امامت پر ایک اور دلیل ہو جائے گی اور یہیں سے آشکار ہو جاتا ہے کہ امیر المومنین(ع) کا اس آیت سے استدلال کرنا اور قرابت کا مسئلہ اٹھانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیت امامت و ولایت کے مسئلے میں دخل رکھتی ہے ۔

اس کے علاوہ یہ کہ عباس نے غدیر خم میں آپ(ع) کی بیعت کی اور اسی بیعت پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کی بیعت نہیں کی اور ماجرائے سقیفہ کے وقت جناب امیر المومنین(ع)کی خدمت میں آکر آپ(ع) کی تجدید بیعت کرنا چاہی۔

اس لحاظ سے عباس ؓ ، پیغمبر(ص) کے بعد امامت و خلافت کے مستحق نہ تھے ۔

امور میں شرکت

ایک مقام جو کسی اور آیت میں بیان ہوا ہے وہ یہ کہ موسیٰ نے جب خدا سے چاہا کہ ہارون(ع)کو ان کے کاموں میں شریک کردے تو عرض کیا :

( وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی ) اور اسے میرے کام میں شریک قرار دے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۲

۴۶

یعنی ہارون(ع) ان تمام مسئولیتوں اور تمام مناصب و مقامات میں شریک تھے جو حضرت موسیٰ کو دئیے گئے تھے ۔ اس حدیث کے تحت یہ مقام امیر المومنین(ع) کے لئے ثابت ہوگا اور آپ(ع) پیغمبری کے علاوہ تمام امور میں پیغمبر اکرم(ص) کے یاور ہوں گے ۔اس بناء پر پیغمبری کے علاوہ ہر منصب و مقام میں امیر المومنین(ع) پیغمبر خدا(ص) کے شریک ہوں گے۔

رسول خدا(ص) کی ایک ذمہ داری قرآن کریم کی تعلیم دینا اور اس کی تفسیر کرنا تھا ؛ جیسا کہ فرما رہا ہے :

( وَأَنزَلْنَا إلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔اور ہم نے قرآن آپ پر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان کی طرف جو کچھ اتارا گیا ہے اسے روشن کردیں اور شاید یہ لوگ غور کریں۔ ‘‘(۱؎)

اسی طرح آنحضرت(ص) کو حکمت عطا کی گئی ہے :

( وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) ۔اور خدا نے تم پر کتاب وحکمت نازل فرمائی ہے۔‘‘(۲؎)

نیز قرآن مجید کے مطابق آنحضرت (ص) کی ایک ذمہ داری ، اختلافات اور تنازعات کے موقع پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے:

( لِیُبَینَِّ لَهُمُ الَّذِی یخَْتَلِفُونَ فِیه ) تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ۔‘‘(۳؎)

اسی طرح آپ(ص) ،لوگوں پر حاکم تھے :

( إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّهُ ) ۔ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔‘‘(۴؎)

____________________

۱۔نحل: ۴۴

۲۔ نساء: ۱۱۳

۳۔ نحل : ۳۹

۴۔ نساء: ۱۰۵

۴۷

اور ایک جہت سے پیغمبر(ص) لوگوں پر خود ان سے زیادہ برتری رکھتے ہیں اور آپ(ص) کا حکم سب لوگوں پر نافذ ہے :

( النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُومِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ) ۔نب ی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔۔۔۔‘‘(۱؎)

ان تمام مقامات اور دیگر مناصب میں جو قرآن ، پیغمبر(ص) کے لئے ثابت کرتا ہے امیر المومنین(ع) ، پیغمبر(ص) کے شریک ہیں اور آپ(ع) خود ان مقامات کے حامل ہوں گے ۔

ایک مختصر جملے میں یہ کہ حضرت علی(ع) ،نفس پیغمبر(ص) ہیں اور نبوت کے علاوہ تمام مقامات و کمالات میں پیغمبر(ص) کے ساتھ شریک ہیں ۔یہ وہ نکتہ ہے جو پیغمبر اکرم(ص) نے روز مباہلہ اپنی جان اور نفس کے طور پر علی(ع) کا تعارف کرا کے بیان فرمایا ہے:

( فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَأَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا وَنِسَاء کُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ) ۔تو آپ کہہ د یں:آو ہم اپنے بیٹوںکو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاو، ہم اپنے نفسوںکو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو ۔‘‘(۲؎)

اس بناء پر امیر المومنین(ع)تمام مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان پر آپ(ع) کا حکم نافذ ہے ۔ آپ(ع) ہی قرآن کے مفسر ومبین ، احکام کوبیان کرنے والے، مطلق حاکم اور اختلافات کے وقت مرجع ہوں گے ۔

____________________

۱۔احزاب: ۶

۲۔ آل عمران: ۶۱

۴۸

اب کیا ایسے شخص کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی اور پیغمبر(ص) کا جانشین ہوگا ؟

کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایسے شخص کو کنارے لگا دیا جائے اور ایک ایسے کو خلیفہ بنا دیا جائے جو ذرہ برابر ان مقامات کا حامل نہیں ہے اور اس نے ان مقامات کی خوشبو تک نہیں سونگھی ہے ؟

پیغمبر اکرم(ص) کے بعد امیر المومنین(ع) کی موجودگی گویا خود پیغمبر(ص) کی موجودگی ہے کہ وہ جان پیغمبر (ص) اور آپ(ص) کے شریک کار تھے ۔

پیغمبر اکرم(ص) کی پشت پناہی

حضرت موسیٰ نے خدا سے جن چیزوں کی درخواست کی تھی ، ان میں ایک حضرت ہارون(ع) کے ذریعے اپنی پشت پناہی کی دعا تھی :( اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی ) ۔اسے میرا پشت پناہ بنا دے!‘‘(۱؎)

خدا نے بھی آپ(ع) کی دعا قبول کی اور فرمایا :( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ ) عنقریب ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے۔‘‘(۲؎)

____________________

۱۔طٰہٰ: ۳۱

۲۔ قصص: ۳۵

۴۹

اس بارے میں مروی روایات کے علاوہ مندرجہ بالا آیت ہی کی بنا پر پیغمبر(ص) کی پشتیبانی کا مرتبہ حضرت علی(ع) سے مخصوص ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ختم رسالت کا بوجھ پیغمبر خاتم (ص) کے کندھوں پر رکھا گیا ہے ، یہ تمام مسئو لیتوں سے بہت بڑی اور بہت بھاری مسئولیت تھی اور پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے سوا کوئی اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔

جیسا کہ ذکر شدہ احادیث میں گزر گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے دعا فرمائی کہ امیر المومنین(ع) اس بڑی مسئولیت کے سلسلے میں آپ(ص) کا پشت پناہ اور قوی بازو بن جائے ۔

لیکن واضح ہے کہ پیغمبر خاتم (ص) کی پشت پناہی اور حضرت موسیٰ کی پشت پناہی ، بہت ہی مختلف ہے اور یہ اختلاف اس اختلاف کے مطابق ہے جو ان حضرات کے مقام و مرتبے میں ہے ۔

امور کی اصلاح ودرستگی

ساتواں مرتبہ، جو آیت سے استفادہ ہوتا ہے ، امور کی اصلاح اوردرستگی ہے۔ خداوند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے خدا سے عرض کیا :

( وَقَالَ مُوسَی لأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ ) ۔اور موس یٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا۔(۱؎)

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۵۰

چنانچہ ہارون(ع) ،امت موسیٰ کے مصلح تھے اور آپ(ع) ، حضرت موسیٰ کی جگہ پر اس کی امت کے امور کی اصلاح اور انہیں منظم کرتے تھے ۔ اس امت میں یہ مقام علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے حوالے کیا گیا ہے ۔ آپ(ع) کو امت پیغمبر(ص) کے امور کی اصلاح و آراستگی کرنا ہے ، فتنوں کے آگے کھڑے ہو کر روکنا ہے اور گمراہی و انحرافات سے لوگوں کو بچا کر رکھنا ہے ۔

یہ واضح ہے کہ جو شخص ہرکام میں مطلقًا مصلح (اصلاح کرنے والا) ہو تو حتما ًاسے ہر حال میں صالح (اصلاح شدہ ) ہونا چاہئے ؛ اسی طرح جو مطلقًا ہر شعبے میں مصلح ہو اسے چاہئے کہ ہر چیز کی خوبی و برائی سے خوب آ گاہ ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلاح کے نام پر برائی کی ترویج کر بیٹھے ۔

اس لحاظ سے یہ مقام ، امیر المومنین(ع) کی عصمت اور علم لدنی کا اقتضا کرتا ہے ۔

علم و آگہی

ہارون(ع) کی منزلتوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ(ع) حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں سے داناتر اور آ گاہ ترین فرد تھے ۔ اور حضرت علی(ع) کے ہارون(ع) کی جگہ لینے سے یہ مقام آپ(ع) کے لئے بھی ثابت ہوجانا چاہئے ۔ آپ(ع) نے خطبہ قاصعہ میں اس فضیلت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے :

’’ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اَتَّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اَمَّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِهِ، عَلَمًا، وَیَامُرُنِی بِالْاِقْتَدَائِ بِهِ ۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کابچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۵۱

ایک اور خطبے میں ، جبکہ بات غیب کی ہوئی ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں :

’’فَهَذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِی لَا یَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَ مَا سِوَی ذَلِکَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ نَبِیَّهُ فَعَلَّمَنِیهِ وَ دَعَا لِی بِأَنْ یَعِیَهُ صَدْرِی وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِی ۔یہ وہی علم غیب ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور ( خدا نے جو علم اپنے لئے مختص کیا ہے ) اس کے علاوہ باقی وہ علم ہے کہ جو خدا نے پیغمبر(ص) کو سکھایا ہے ، پھر آنحضرت(ص) نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اور میرے لئے دعا فرمائی ہے کہ میرے سینے میں اس کی گنجائش ہو جائے اور میرے اعضاء و جوارح اس سے پُر ہو جائے ۔‘‘(۱؎)

آپ(ع) کی اعلمیت اور آگاہی ایک طرف سے اسی خطبہ قاصعہ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جس میں خود آپ(ع) نے آنحضرت(ص) سے نقل فرمایا ہے کہ حضور(ص) نے آپ(ع) سے فرمایا :

’’ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَتَرَیٰ مَا اَرَیٰ ۔( اے علی(ع)!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو۔‘‘(۲؎)

ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم(ص) ، امیر المومنین(ع) سے فرماتے ہیں :

’’انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیاتها من بابها ۔میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں پس جو اس شہر میں آنا چاہے اس پر لازم ہے کہ دروازے سے آئے ۔‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۸

۲۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۳۔تاریخ الخلفاء: ۱۳۵؛ المعجم الکبیر: ۱۱/۶۵ ، ح۱۱۰۶۱؛ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۴

۵۲

یہ حدیث بھی ان احادیث میں سے ہے جو امیر المومنین(ع) کی امامت کو ثابت کرتی ہیں ۔ اس حدیث کے لئے الگ ہی بحث مختص کر دینا چاہئے تاکہ اس کی اسناد و دلالت کی تحقیق و جستجو کی جائے اور اس کو ردّ کرنے کے لئے مخالفین کی طرف سے کی جانے والی کوششوں ، جھوٹے پروپیگنڈوں ، تحریفوں اور ان کی خیانتوں سے پردہ اٹھایا جائے ۔

لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد ہارون(ع) سب سے دانا تر تھے۔ بطور نمونہ مندرجہ ذیل آیت کے ضمن میں کتب تفاسیر سے رجوع فرمائیں!خدا وند متعال قارون کی زبانی نقل فرماتا ہے :

( قَالَ إنَّمَا أُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی ) ۔قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے حاصل ہے۔‘‘(۱؎)

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں یہ تصریح کی ہے کہ ہارون(ع) حضرت موسیٰ کے سوا تمام بنی اسرائیل سے دانا تر تھے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ قصص: ۷۸

۲۔ ملاحظہ ہوں: تفسیر بغوی: ۴/ ۳۵۷؛ تفسیر جلالین: ۲/ ۲۰۱ ۔ اور دوسری تفسیریں

۵۳

مقام عصمت

حدیث شریف سے معلوم ہونے والا نواں مقام ’’مقام عصمت ‘‘ہے ۔ واقعاً کیا کسی کو حضرت ہارون(ع) کی عصمت میں شک ہے ؟ اس حدیث میں پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو ہارون(ع) کی طرح اور ان کی منزلت پر قرار دیا ہے ۔ ایک طرف سے کسی ایک صحابی نے مقام عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔ اسی طرح کوئی بھی حضرت علی(ع) کے سوا کسی صحابی کی عصمت کا دعویٰ نہیں کرتا۔

ساتویں مقام کی توضیح میں ہم کہہ چکے ہیں کہ کوئی بھی تمام امور میں مصلح نہیں ہوتا مگر یہ کہ خود تمام امور میں صالح ہو ۔ اب اس مقام کی توضیح میں چند سوالات درپیش ہیں۔

کیا کوئی عاقل مان سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کے بعد معصوم کی موجودگی میں کوئی غیر معصوم شخص ، امام بن جائے ؟

کیا عقل انسانی تسلیم کرتی ہے کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم، خدا اور مخلوقات کے درمیان واسطہ بن جائے ؟

کیا عقل کی رو سے صحیح ہے اور کیا عقلاء اجازت دیتے ہیں کہ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم کی پیروی کی جائے ؟

جی ہاں!امیر المومنین(ع) خطبہ قاصعہ میں اسی مقام عصمت کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا ہوں اور نبوت و پیغمبری کی خوشبو کو استشمام کرتا ہوں ۔

۵۴

حقیقتاً کیا یہ معقول طرز عمل ہے کہ ایسے انسان کو کنارے لگا دیا جائے اور ایسے کی پیروی کی جائے جس کو اس منزلت سے تھوڑا سا حصہ بھی نہ ملا ہو ؟

واضح ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) جو کچھ دیکھتے اور سنتے تھے وہ گزشتہ انبیا ء کے دیکھنے اور سننے سے بہت بالا تر اور با اہمیت تھا ۔ پس امیر المومنین(ع) ہر وہ چیز سنتے تھے جو ہمارے پیغمبر(ص) سنتے اور ہر وہ دیکھتے جو ہمارے پیغمبر(ص) دیکھتے تھے ۔یہ نکتہ بیشتر غور و فکر کا متقاضی ہے ۔

مقام طہارت و پاکیزگی

دسویں منزلت ، طہارت و پاکیزگی کی منزلت ہے ۔ خدا ئے متعال نے مسجد الاقصیٰ کے بارے میں جناب ہارون(ع) کے لئے وہ چیزیں حلال کردیں جو دوسروں کے لئے حلال نہ تھیں ، حدیث منزلت کی رو سے یہ فضیلت و خصوصیت بھی امیر المومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے لئے موجود ہونا چاہئے ، اور یہ آپ(ع) اور اہل بیت(ع) کی ایک ایسی خصوصیت ہوگی جو ان بزرگواروں کو دوسروں سے ممتاز کرے گی اور یہ ہستیاں اس جہت سے دوسروں سے برتر ہوں گی ۔

جو فضیلت جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھی وہ امیر المومنین(ع) کے لئے اثبات کرنے کے لئے احادیث میں بہت سارے شواہد ہیں ۔

۵۵

ان میں سے ایک حدیث ’’سدّ الابواب‘‘ہے؛ ایسی حدیث جو شیعہ سنی مورد اتفاق روایات میں مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔ یہاں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے بعض احادیث کی طرف اشارہ کریں گے ۔

ابن عساکر اپنی تاریخ میں یوں نقل کرتے ہیں :ایک دن رسول خدا(ص) نے ایک خطبہ دیا اور اس طرح ارشاد فرمایا :

’’انّ الله امر موسیٰ و هارون ا ن یتبوّا لقومهما بیوتا ً ، و امرها ان لا یبیت فی مسجدهما جنب ، ولا یقربوا فیه النسآء الّا هارون و ذرّیّته ، ولا یحلّ لاحد ان یقرب النسآء فی مسجدی هذا ولا یبیت فیه جنب الّا علیّ و ذرّیّته ۔خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کریں اور انہیں حکم دیا کہ کوئی بھی موسیٰ و ہارون کی مسجد میں جنابت کی حالت میں رات نہ گزارے اور کوئی مسجد میں عورتوں سے مقاربت نہ کرے سوائے ہارون اور اس کی ذرّیت کے ۔ اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ میری اس مسجد میں عورتوں سے مقاربت کرے اور حالت جنابت میں یہاں رات بسر کرے ، سوائے علی(ع) اور اس کی ذرّیت کے ۔‘‘(۱؎)

اس حدیث کو سیوطی نے بھی در منثور میں ،تاریخ ابن عساکر سے نقل کیا ہے ۔(۲؎)

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۲۹۶، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی

۲۔ الدر المنثور: ۴/ ۳۸۴

۵۶

مجمع الزوائد میں ہے کہ علی(ع) نے فرمایا : پیغمبر(ص) نے میرا ہاتھ تھاما اور فرمایا :

’’انّ موسیٰ سال ربه ا ن یطهّر مسجده بهارون و انّی سالت ربّی ا ن یطهّر مسجدی بک و بذرّیّتک ۔موسیٰ نے اپنے پروردگار سے چاہا تھا کہ اس کی مسجد کو ہارون(ع) کے لئے پاک فرما دے اور میں نے اپنے پروردگار سے چاہا ہے کہ میری مسجد کو تمہارے اور تمہاری ذرّیت کے لئے پاک قرار دے ۔‘‘

اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے کسی کو ابوبکر کے پاس یہ کہلابھیجا کہ تم نے جو دروازہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف کھولا ہے اسے بند کرو ۔

ابوبکر نے کہا :’’انّا لله و انّا الیه راجعون‘‘ ، پھر کہا :سن لیا اور اطاعت کی۔ اسی وقت گھر کے دروازے کو مسدود کر دیا ۔پھر حضور اکرم(ص) نے کسی کو عمر اور ابن عباس کے ہاں اسی فرمان کے ساتھ بھیجا ۔

اس موقع پر آپ(ص) نے فرمایا :’’ما انا سددتُ ابوابکم و فتحتُ باب علیّ ، ولکنّ الله فتح باب علیّ و سدّ ابوابکم ۔میں نے تمہارے گھروں کے دروازے بند نہیں کئے اور علی(ع) کا دروازہ کھلا نہ چھوڑا ؛ بلکہ خدا نے علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا چھوڑا اور تمہارے دروازے بن کر دئیے ۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴

۵۷

یہ واقعہ دوسری بار مجمع الزوائد ، کنز العمال اور دیگر منابع میں کسی اور صورت میں نقل ہوا ہے ۔ مجمع الزوائد میں ذکر ہوا ہے کہ:

جب پیغمبر اکرم(ص) نے تمام اہل مسجد کو نکال باہر کر دیا اور علی(ع) کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرا دیئے تو لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ، لوگ اعتراض کرنے لگے ، حضور اکرم (ص) کو اس اعتراض کی خبر ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا :

’’ما انا اخرجتکم من قبل نفسی ولا انا ترکته، ولکن اللّٰه اخرجکم و ترکه ، انّما انا عبد مامور ، ما امرت به فعلت، ان اتّبع الّا ما یُوحیٰ الیّ ۔میں نے خود ہی سے تمہیں مسجد سے باہر نہیں نکالا اور علی(ع) کو اپنے حال پر باقی نہ رکھا ، بلکہ خدا وند متعال نے تمہیں خارج کردیا اور علی(ع) کے دروازے کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا ۔ میں تو فقط ایک مامور ہوں ، جس چیز کا مجھے حکم دیا جاتا ہے میں انجام دیتا ہوں ، میں فقط مجھ پر ہونے والی وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ ‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ مجمع الزوائد: ۹/۱۱۵؛ کنز العمال: ۱۱/ ۶۰۰، حدیث ۳۲۸۸۷

۵۸

دوسرے مصادرنے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے؛ احمد بن حنبل کی ’’مسند‘‘اور ’’المناقب‘‘، حاکم نیشاپوری کی ’’المستدرک‘‘، مجمع الزوائد ، تاریخ مدینہ دمشق اور دوسرے مصادر میں زید بن ارقم سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:

’’اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک گروہ کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے، ایک روز حضور(ص) نے فرمایا :’’سدّوا هذا الابواب الّا باب علیّ‘‘ علی(ع) کے دروازے کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کر دو!

بعض نے آپ(ص) کے اس حکم کے بارے میں مختلف باتیں کیں اور اعتراضات کئے۔ ایسے میں پیغمبر اکرم(ص) کھڑے ہو گئے اور حمد و ثنا ئے الٰہی کے بعد ارشاد فرمایا:

’’امّا بعد فانّی امرتُ سدّ هذه الابواب غیر باب علی ، فقال فیه قائلکم واللّٰه ما سددت شیئاً ولا فتحته ولکن امرت بشیء اتبعته ۔میں نے حکم دیا کہ سوائے در علی(ع) کے باقی تمام دروازے بند کردیئے جائیں ۔ تم میں سے بعض نے اعتراض کیا۔ خدا کی قسم!میں نے کوئی دروازہ بند نہیں کیا اور نہ ہی کھولا؛ بلکہ مجھے حکم دیا گیا اور میں نے اطاعت کی ۔‘‘(۱؎)

یہ حدیث سنن ترمذی ، خصائص نسائی اور دوسرے مصادرمیں بھی نقل ہوئی ہے۔(۲؎)

____________________

۱۔ المناقب: ۷۲، حدیث ۱۰۹؛ مسند احمد: ۵/ ۴۹۶، حدیث ۱۸۸۰۱؛ المستدرک: ۳/ ۱۲۵؛ مجمع الزوائد: ۹/ ۱۱۴؛ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۲۷۹۔۲۰۸، حدیث ۳۲۴، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی؛ الریاض النضرۃ: ۳/۱۸۵

۲۔ ملاحظہ ہو: سنن ترمذی: ۵/ ۳۰۵؛ خصائص نسائی: ۵۹ / حدیث ۳۸

۵۹

بنا بر این در خانہ علی(ع) کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنے کا ماجرا ، حدیث منزلت کے موارد میں سے ایک ہوگا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

’’انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی ۔تم میرے لئے اسی مقام پر جس مقام پر موسیٰ کے لئے ہارون تھے؛ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔‘‘

مذکورہ تمام مطالب کے پیش نظر حضرت امیر المومنین(ع) کی امامت پر حدیث منزلت کی دلالت چند جہات سے واضح ہوجاتی ہے:

۱ ۔حضرت امیر المومنین(ع) کی عصمت کی جہت سے،

۲ ۔ دوسروں پر آپ(ع) کی افضلیت و برتری کے حوالے سے،

۳ ۔ان خصوصیات کے ثابت ہونے کی جہت سے جو جناب ہارون(ع) کے لئے ثابت تھیں۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جب کہ مسروق نے عائشہ سے نقل کیا ہے:یا رسول اللّٰه؛ من الخلیفة من بعدک

قال:خاصف النعل قالت:من خاصف النعل قال:انظر ،فنظرت فاذا علی بن ابی طالب علیهما السلام

قالت :یا رسول اللّٰه؛ذاک علی بن ابی طالب قال :هو ذاک

عائشہ نے رسول خدا(ص) سے پوچھا:آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا؟

 فرمایا:جو اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے۔

عائشہ نے پوچھا:کون اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے؟

 فرمایا:دیکھو،جب میں نے دیکھا تو علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

 میں نے کہا:اے رسول خدا!وہ علی بن ابی طالب ہیں!

 فرمایا:وہ میرا خلیفہ ہے۔(۱)

 ابن مغازی نے کتاب''المناقب:۵۵'' پر نقل کیا ہے کہ عائشہ مسروق کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتی تھی اور اسے کہتی تھی:تم میرے بیٹے ہو اور ان میں سب سے زیادہ عزیز ہو.۔ مسروق نے عائشہ سے کہا:ماں میرا تم سے ایک سوال ہے تمہیں خدا ،رسول خدا(ص) اور میرے حق  (کیونکہ میں تمہارے بیٹوںجیساہوں) کی قسم !تم نے رسول خدا(ص) سے مخدج کے بارے میں کیا سنا کہ    جو جنگ نہروان میں مارا گیا تھا؟عائشہ نے کہا:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

 هم شرّالخلق والخلیقة، یقتلهم خیرالخلق والخلیقة، وأقربهم عند اللّٰه وسیلة ۔(۲)

 وہ بدترین انسان اور دنیائے خلقت کی بدترین مخلوق ہے،انہیں بہترین انسان اور دنیائے خلقت کی بہترین مخلوق قتل کرے گی۔

--------------

[۱]۔  المسترشد:۶۲۲

[۲] ۔  المسترشد:۲۸۱

۸۱

۶- کعب الأحبار

یہودیوں نے دین اسلام کو نابود کرنے اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے مقام خلافت کو چھیننے کے لئے نہ صرف معاویہ کے دور حکومت میں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی معاویہ کی حمایت میں کھڑے ہوئے اورانہوں نے معاویہ کو عثمان کے بعد خلیفہ  کے طور پرپہچنوایا۔معاویہ کو برسر اقتدار لانے کے لئے یہ منصوبہ بندی و حمایت اس وقت کی جارہی تھی۔اگر لوگوں میں عثمان کے بعد خلافت کے بارے میں بات ہوتی تو لوگ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت و حکومت کی حمایت کرتے اور اسی لئے عثمان کے قتل ہونے کے بعد لوگوں نے آنحضرت کی خلافت کا انتخاب کیا۔لیکن کچھ عوامل اور یہودی کٹھپتلیاں اسی وقت سے ہی معاویہ کی حکومت کا دم بھرتے تھے اور اس کام سے لوگوں کے افکار بنی امیہ(جو دین اسلام کے دیرینہ دشمن تھے) میں سے معاویہ کی طرف موڑنا چاہتے تھے تا کہ خاندان پیغمبر علیہم السلام کو حکومت  نہ ملے اور کسی ایسے کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ ہو جس کی اسلام سے دیرینہ دشمنی ہو۔جن افرادنے ایسے افکار کو پھیلانے کی  بہت زیادہ کوشش کی ان میں سے ایک کعب الأحبار تھا۔محمود ابوریّہ کعب اور اس کی سازشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :عثمان کے زمانے میں فتنہ کی آگ بھڑکنے کے بعد عثمان بھی آگ کے ان شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور اسے اسی کے گھر میں قتل کر دیا گیا،اس چالاک کاہن نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پوری طاقت سے فتنہ کی آگکوبھڑکایا اور جس قدر ہو سکا اس نے اپنی مختلف سازشوں سے استفادہ کیا۔ اس واقعہ میں جس مکروفریب  سے استفادہ کیا اورکھل کر یہودی مزاج گری کا اظہار کیا وہ یہ تھا کہ اس نے یہ دعوی کیا کہ عثمان کے بعد معاویہ ہی خلافت کے لائق ہے۔(۱) وکیع نے اعمش اور اس نے ابو صالح سے روایت کی ہے(۲) کچھ لوگوں کے درمیان عثمان کے بعد خلیفہ کی بات چلی تو ''الحادی''نام کے شخص نے اپنے شعر کے ضمن میں اس بارے میں یوں کہا:

-----------------

[۱]۔ أضواء علی السنة المحمدیّة:۱۸۰

[۲] ۔رسالة النّزاع والتّخاصم فیما بین بن امیّة و بنی هاشم (مقریزی):۵۱،أضواء علی السنة المحمدیّة سے اقتباس:۱۸۰،نیز ملاحظہ فرمائیں:تاریخ طبری:ج۴ص۳۴۲ اور الکامل: ج۳ص۱۲۳

۸۲

انَّ الأمیر بعده علّی                   و فی الزّبیر خلق رضّی

 بیشک اس کے بعد علی امیر ہیں اور زبیر بھی اچھے اخلاق کامالک ہے۔

 کعب الأحبار (جو اس جلسہ میں موجود تھا) نے کہا:''بل هو صاحب البغلة الشهباء'' یعنی اس کے بعد خلیفہ وہ ہے جو خاکی رنگ کی سواری کا مالک ہے (یعنی معاویہ)۔ کیونکہ معاویہ کو بعض اوقات اس طرح کی سواری پر سوار دیکھا جاتا تھا۔

یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا اور کہا:اے بو اسحاق!علی علیہ السلام،زبیر اور اصحاب محمد(ص) کے ہوتے ہوئے تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟کعب نے کہا:بلکہ تم خلافت کے مالک ہو!اور شاید اس نے مزید یہ کہا ہو کہ میں نے یہ پہلی کتاب(تورات ) میں پڑھا ہے۔!(۱)

 کعب الأحبار اور عمر

کعب الأحبارکہ جس کا نام کعب بن ماتع تھا اور جس کا تعلق یمن اور قبیلۂ حمیر سے تھا۔ اس نے عمر کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور مدینہ آ گیا۔ عمر کے نزدیک اس کا صحابہ بلکہ صحابہ سے بڑھ کر مقام تھا۔(۲) عمر کو اہل کتاب سے علم حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے پیغمبر(ص) اس پر ناراض ہوئے تھے۔(۳) لیکن اپنی خلافت کے زمانے میںاس نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور نئے مسلمان ہونے والے اہل کتاب  حضرات سے زیادہ استفادہ کیا۔ اسی وجہ سے وہ کعب کو اپنے پاس لے گیااوروہ مختلف موضوعات کے بارے میں اس سے سوال پوچھتا تھا۔ابن ابی الحدید نے کعب کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منحرفین میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت کعب کو جھوٹا کہتے تھے۔(۴) (کعب الأحبار)جو ۳۲ھ میں شہرحمص میں ہلاک ہو ا(۵)

--------------

[۱]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۹۲

[۲] ۔  کعب الأحبار اور دوسرے خلیفہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں  تاریخ سیاسی اسلام: ج۲ص۸۹ کے مابعد ملاحظہ کریں۔

[۳]۔  المصنف:ج۶ص۱۱۲

[۴]۔  شرح نہج البلاغہ: ج ۴ص۷۷، کعب پر ابوذر کے اعتراض کے بارے میں بھی وہی منبع: ج۳ص۵۴

[۵]۔  الطبقات الکبری:ج۷ص۳۰۹

۸۳

 صدیوں سے مورد وثوق اور قابل اطمینان تھا اور تفسیری و تاریخی کتابیں اس کی روایات سے بھری پڑی ہیں ،لیکن دور حاضر میں جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابہامات و اشکالات کے ضخیم پردے کے پیچھے  کعب الأحبار کا چہرہ ہے جس نے اہلسنت کی دین شناس اور علماء رجال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(۱) چاند اور سورج کی خلقت کے موضوع میں  طبری نے کعب سے منقول اسرائیلیات کے کچھ نمونے بیان کئے ہیں۔اس رپورٹ میں ابن عباس کعب کی باتوں پر نارض ہوئے اور تین مرتبہ کہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے، اور اس کے بعد مزیدیہ کہا:یہ بات یہودیوں کی ہے جسے کعب اسلام میں   داخل کرنا چاہتا ہے۔(۳)(۲)

عمر کا کعب سے مشوہ لینا صرف دینی واعتقادی امور میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے سیاسی و حکومتی نقطۂ نظر کے پیچھے بھی جناب کعب کے مشورے شامل تھے۔! امالی میں ابوجعفر محمد بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:عمر نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں  جب اس پر ناتوانی حاکم ہو گئی اور وہ لوگوں کے امور چلانے سے عاجز ہو گیا تو وہ خدا سے موت کی دعا کرتا تھا۔ایک دن جب میں اس کے پاس موجود تھا ، اس نے کعب الأحبار سے کہا:مجھے میری موت نزدیک دکھائی دے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد خلافت کسی ایسے کو سونپ کر جاؤں جو اس مقام کے لائق ہو۔علی علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟اس بارے میں تمہیں اپنی کتابوں میں کیا کچھ ملا ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے تمام واقعات  تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے!

 کعب نے کہا:میرے خیال میں علی علیہ السلام اس کام کے لائق نہیں ہیں!کیونکہ وہ شخص دین پر استوار ہے اور کسی بھی غلطی سے چشم پوشی نہیں کرتا اور اپنے اجتہاد پر بھی عمل نہیں کرتا،اس طریقۂ کار سے وہ لوگوں پر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اپنی کتابوں میں جو کچھ ملا وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بیٹوں کو حکومت نہیں ملے گی اور اگر انہیں حکومت مل بھی گئی تو شدید افراتفری پھیلے گی!

--------------

[۱]۔  تاریخ سیاسی اسلام:ج۲ص۸۹

[۲]۔  تاریخ الطبری:ج۱ص۴۴اور ۵۱

[۳]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:۴۵

۸۴

عمر نے پوچھا:کیوں؟

کعب نے کہا:چونکہ اس نے خون بہایا ہے!اور خدا نے ایسے افراد پر حکومت کو حرام قرار دیاہے! جس طرح داؤد نے جب بیت المقدس کو بنانے کا ارادہ کیا تو خدانے اس سے فرمایا:تم اس کام کے لائق نہیں ہو کیونکہ تم نے خون بہایا ہے؛بلکہ یہ کام سلیمان کے ذریعہ انجام پائے گا!

 عمر نے کہا:لیکن کیا علی علیہ السلام نے یہ خون حق پر نہیں بہایا؟

کعب نے جواب دیا:اے امیرالمؤمنین!لیکن کیا داؤدنے بھی وہ خون حق پر نہیں بہایا تھا؟!

عمر نے کہا:پس مجھے یہ بتاؤ کہ حکومت کسے ملے گی؟کعب نے کہا:ہمیں یہ ملتا ہے کہ صاحب شریعت اور ان کے دو صحابیوں کے بعد حکومت انہیں ملے گی جن کے ساتھ پیغمبر(ص) نے اصل دین پر جنگ کی ہے (یعنی اموی)۔ یہ سننے کے بعد عمر نے کئی بار آیت استرجاع پڑھی اور ابن عباس کی طرف دیکھ کر کہا:میں نے اسی سے ملتے جلتے مطالب رسول خدا(ص) سے سنے ہیں کہ آپ نے فرمایا:بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیںگے،میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے منبر پر بندر بیٹھے ہیں اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:(وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ) ۔(۲)(۱)

یہ واقعہ کئی اعتبار سے قابل غور ہے: اس واقعہ سے کعب کی امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے شدید دشمنی اور بغض کا پتہ چلتا ہے اور اس کی دلیل بھی بہت ہی واضح ہے کیونکہ جزیرة العرب میں آنحضرت ہی کے طاقتوار ہاتھوں سے یہود کی شان و شوکت خاک میں ملی اور کعب یہ جانتا تھا کہ اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت و رہبری ملی تو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔اسی وجہ سے کعب کی یہ شدید خواہش تھی کہ خلافت امویوں کو ملے کیونکہ ان کے لئے اسلام کی تقدیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے  اور ان کا ہدف و مقصد صرف دنیا ہے۔(۴)(۳)

-------------

[۱]۔ سورۂ اسراء،آیت:۶۰-[۲]۔  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱۲ص۸۱

[۳]۔ شیعہ و تہمت ھای ناروا:۶۷-[۴]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۹۰

۸۵

 کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات

ایک روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے کعب سے کہا:مجھے توریت کے سب سے بڑے علماء  کے بارے میں بتاؤتا کہ میں تمہارے مطالب کے ساتھ ان کے مطالب بھی سنوں۔

 کعب نے یمن کے ایک شخص کا نام لیا ۔ معاویہ نے اسے بلایا اور پھر دونوں کو حاضر کیا۔کعب نے اس شخص سے کہا: تمہیں اس کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی کے لئے دریامیں شگاف کر دیا؛کیا تم نے آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ  موسی نے توریت کی طرف دیکھ کر کہا:

 پروردگارا!میں محبت کی جانے والی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جو بہترین امت ہے اور جو لوگوں میں سے لوگوں کے لئے ہی آئی ہے،وہ ملت نیک کاموں کی دعوت دے گی اور برے کاموں سے روکے گی، اس کا پہلی کتاب (توریت) اور آخری کتاب(قرآن) پر ایمان ہے(۱) اور وہ گمراہوں سے جنگ کرے گی اور اعور کذاب کے ساتھ بھی اس کا تنازع ہو گا ۔ خدایا! انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔ اس دانشور نے کہا:کیوں نہیں ؛ میں نے یہ موضوع دیکھا ہے۔

کعب نے اس سے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں  جس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی کی آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا! میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  کہ جب وہ بلند جگہ پہنچے تو تکبیر کہے گی اور جب صحرا میں پہنچے تو خدا کی عبادت کرے گی،زمین کو اس کے لئے مطہر قراد دیا کہ اگر پانی نہ ملے تو جنابت سے تیمم کے ذریعہ پاک ہو سکتے ہیں،وہ جہاں بھی ہوں ان کی مسجد وہیں ہوگی ،وضو سے ان کے چہرے  منور  ہوں گے، خدایا!انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

--------------

[۱]۔ سیرة الحلبیّہ کی پہلی جلد کے صفحہ ۲۱۷ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۸۶

اس نے کہا:جی ہاں ؛میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا:تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جب ان میں سے کوئی ایک  کسی نیک کام کرنے کا ارادہ کرے اگرچہ اس پر عمل نہ بھی کرے تو اسے دس سے سات سو تک اجر دیا جائے گا اور اگر کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کرے تو جب تک اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے انجام دے  تو اس کے لئے صرف ایک گناہ لکھا جائے گا ۔ خدایا! اسے میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

مذکورہ دانشور نے کہا: ہاں؛ میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  جو اپنے صدقات اور کفّارہ کھاتی ہے اور انہیں اپنے فقراء کو دیتی ہے ، اور جیسا کہ  دوسری امتیں انہیں جلا دیتی تھیںوہ ایسا نہیں کرتے؟

دوسری حدیث کے اس حصہ میںذکر ہواہے کہ :جو اپنی قربانی کو کھا سکتے ہیں اور قربانی کے گوشت سے مراد عید قربان وغیرہ ہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔نهایة الأرب :ج۱ص۱۲۶

۸۷

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

قبلہ کابیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہونایہودیوں کے غضبناک کا بہت اہم سبب تھا۔ یہودی بیت المقدس کا بڑا احترام کرتے تھے اور وہ کسی بھی سرزمین کو اس کے مقابلہ میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔قبلہ کا تبدیل ہونا ان کے لئے بہت ہی اہم اور انہیں غضبناک کرنے والا امر تھا۔

اس واقعہ سے ان کو اتنی شدید نفرت تھی کہ وہ بعد کی صدیوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں  اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہے۔

اسی وجہ سے بعض غاصب اموی خلفاء  یہودیوں کا دل خوش کرنے اور اسلام و مسلمین کو شکست دینے کے لئے کوشاں رہے کہ بیت المقدس کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت دے دی جائے اور وہ معنوی اعتبار سے مسجد الحرام کے برابر یااس سے بھی افضل و برتر ہو جائے۔

اس بارے میں غاصب اموی خلفاء میں سے جس نے سب سے زیادہ کوشش کی وہ عبدالملک تھا۔عبدالملک نے اس راہ میں جن عوامل کی وجہ سے کوشش کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے اس کے دورحکومت میں قیام کیا تھا اور اموی خلیفہ سے مکہکو چھینلیا تھا ۔عبدالملک  لوگوں کو خانۂ خدا کی طرف جانے سے روکنے کے لئے یہ کوششیں کر رہا تھا کہ ان کے لئے بیت المقدس کی عظمت کو زندہ کرے تا کہ لوگ مکہ میں جانے اور وہاں خانۂ خدا کی زیارت کرنے سے گریز کریں اور انہیں بیت المقدس کی طرف کھینچا جا سکے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء سیاست کی وجہ سے مذہبی حقائق کو تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔اس بناء پر اگر وہ اسلام اور دین کے نام پر حکومت کا دم بھرتے تھے تو اس کی وجہ دینی اعتقادات نہیں بلکہ سیاست اور طاقت کا حصول تھا۔

کتاب''پیغمبر(ص)و یہود و حجاز''میں لکھتے ہیں:

۸۸

تغییر قبلہ سے یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو استقلال ملنے کے علاوہ عربوںکے اسلام کی طرف آنے میں بھی مدد ملی ۔ چونکہ وہ کعبہ کی بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے۔ اگرچہ مسلمان تغییر قبلہ سے پہلے بھی کعبہ کو اہمیت دیتے تھے اوراس بارے میں قرآن کی کچھ آیات بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ یہودیوں اور مسلمانوں میںجدائی کا پہلا مرحلہ شمار کیا جاتا ہے جس سے اس قوم (جو اسلام اور پیغمبر(ص) کی برتری کا اعتراف کرتی تھی) کے بغض میں مزید اضافہ ہوا۔

تاریخ اسلام میں یہودیت سے اسلام لانے والے  مسلمان بیت المقدس کو کعبہ پر برتری دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جن کی کتابیں اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں۔کعب الأحبار نے ایک حدیث گھڑی کہ جس میں آیا ہے: کعبہ ہر صبح بیت المقدس پر سجدہ کرتا ہے۔

امام باقر علیہ السلام نے اس بات کوجھوٹ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:خدا کے نزدیک روئے زمین پر کعبہ سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے۔(۱)

غاصب اموی حکمران اپنے سیاسی اہداف سے استفادہ کرنے کے لئے ایسی ہی روایات سے استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکہ عبداللہ بن زبیر کے پاس تھا عبدالملک نے لوگوں کو حج پر جانے سے روکنے کے لئے زہری سے ایک حدیث کو ترویج دیا جس میں پیغمبر(ص) کی طرف یہ بات منسوب کی گئی:

تین مساجد کے علاوہ کسی کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد الحرام۔مسجد النبی اور مسجد بیت المقدس کہ جس کا مقام و مرتبہ کعبہ کی طرح ہے۔(۳)(۲)

--------------

[۱]۔ الکافی:ج ۴ص۲۴۰

[۲] ۔  حدیث''لا تشدّ الرجال'' کے بارے میں: صحیح مسلم: ج۱ص۶۳۶، صحیح البخاری: ج۲ص۵۶۔ البتہ اس کتاب میں یہ جملہ''وهو یقوم مقام الکعبة'' نہیں ہے ۔اس حدیث سے عبدلملک کے استفادہ کرنے کے بارے میں ۔تاریخ سیاسی اسلام: ج۲ص۷۴۶ (سیرۂ خلفائ) اور تاریخ طبری سے منقول۔

[۳]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:۵۶

۸۹

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

کتاب ''اسرائیلیات اور....'' میں لکھتے ہیں:

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے واقعات اور انحرافی تحریکوں کا سامنا کیا جن میں مسلمان نما اہل کتاب اور ان کے قصہ کہانیوں سامنا کرنا تھا کہ جن میں سے ہر ایک نے اپنے حصہ کے مطابق دین کے چہرے کو غبار آلود کیا۔

آنحضرت  بھی مختلف راستوں سے ان کے ہاتھ قلم کرتے اور ان کا مقابلہ کرتے۔

 ہم یہاں اسرائیلیات اور انہیں پھیلانے والوں سے  حضرت علی علیہ السلام کیمقابلہ کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:

۱۔ نقل کیا گیا ہے: عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک دن خلیفہ کے سامنے ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے۔اور حاضرین میں سے ایک کعب بھی تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا:اے کعب!کیا تمہیں پوری تورات حفظ ہے؟

 کعب نے جواب دیا:نہیں؛لیکن مجھے اس میں سے کافی حفظ ہے!

کسی شخص نے خلیفہ سے کہا:یا امیرالمؤمنین!اس سے پوچھیں کہ خدا اپنے عرش کو خلق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟اور نیز پانی کو کس سے خلق کیا کہ جس پر بعد میںاپنا عرش بنایا؟

عمر نے کہا:اے کعب !کیا تمہیں ان کا جواب معلوم ہے؟

کعب نے جواب دیا:جی ہاں ؛یا امیر المؤمنین!حقیقت میں مجھے حکیم(توریت)ملا کہ خداوند کریم عرش کی خلقت سے پہلے قدیم و ازلی تھا اور بیت المقدس کی چٹان پر تھا اور یہ چٹان ہوا پر بنی ہوئی تھی اور جب خدا نے عرش کو بناے کا ارادہ کیا تو اس پراپنالعاب دہن گرایا اور جس سے گہرے  سمندر اور ان کی موجیں خلق ہوگئیں ۔ اس موقع پر خدا نے بیت المقدس کی چٹان کے کچھ حصہ پر اپنا عرشخلق کر لیا اور اس پر بیٹھ گیااور چٹان کے بقیہ حصہ پر بیت المقدس کو خلق کیا۔

۹۰

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنے لباس کو ہلارہے تھے اورآپ کی زبان پر خدا کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرنے والے کلمات جاری تھے جیسے''جل الخالق یا جلّ اللّٰه یا اللّٰه اکبر'' اسی حال میں آپ کھڑے ہوئے اور اعتراض کیطور پر مجلس سے چلے گئے!(۱)

جب خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو امام  کو قسم دی کہ اپنی جگہ واپس آ جائیں اور مورد بحث مسئلہ میں  ا پنا نظریہ بیان کریں۔امام اپنی جگہ واپس آگئے اور کعب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

تمہارے اصحاب غلط ہیں اور انہوں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کی ہے اور خدا کی طرف ھوٹی نسبت دیہے۔

اے کعب !وای ہو تم پر؛اگر ایسا ہو کہ چٹان ا ور ہوا بھی خدا کے ساتھ ہوں تو اس صورت میں وہ بھی خدا کی طرح قدیم و ازلی ہوں جائیں گے پس پھر تین قدیم موجودات ہوں گی۔

اس کے علاوہ خداوند متعال اس سے بے نیاز ہے کہ اس کا کوئی مکان ہو کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور  جیسے ملحد کہتے اور جاہل خیال کرتے ہیں خداو ویسا نہیں ہے۔وای ہو تم پر اے کعب!تمہارے قول کے مطابق جس لعاب دہن سے یہ عظیم دریا و سمند وجود میں آئیں وہ بیت المقدس کی چٹان پربیٹھنے سے بے نیاز ہے اور ....۔(۲)

۲۔ آنحضرت سے نقل ہوا ہے کہ آپ کعب الأحبار کے بارے میں فرما رہے تھے:

وہ جھوٹا و کذّاب شخص ہے۔(۳) یہی وجہ تھی کہ کعب،حضرت علی علیہ السلام سے روگرداں تھا۔(۴)

--------------

[۱] ـ یہ ایک عربی رسم ہے کہ جب کسی چیز سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو اپنا لباس ہلاتے ہیںگویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کو قبول نہیں کرتا۔

[۲] ۔ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر (المعروف بہ مجموعۂ وراّم): ج۲ص ۵ اور۶،نقش ائمہ در احیاء دین (چھٹا شمارہ):۱۱۴ اور ۱۱۵

[۳]۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۷۷۴ ،أضواء علی السنّة المحمدیة :۱۶۵

[۴] ۔  شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۷۷۴،أضواء علی السنّة المحمدیة :۱۶۵

۹۱

۳۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کعب کے شاگرد یعنی ابوہریرہ کو بھی جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا شخص کہا ہے اور فرمایا ہے:

انّ أکذب النّاس علی رسول اللّٰه (ص)لأبی هریرة الدُّوس ۔(۱) بیشک جس نے سب سے زیادہ رسول خدا(ص) کی طرف ھوٹی نسبت دی،وہ ابوہریرہ دوسی ہے۔(۲) اس واقعہ سے چند اہم نکات سیکھنے کو ملتے ہیں:

۱۔ اسرائیلیات کو پھیلانے میں خلفاء کا بہت اہم کردار تھا اس کے علاوہ اسرائیلیات کی جھوٹی ثقافت کو پھیلانے میں  ان کی دینی اورتاریخی واقعات سے جہالت و نادانی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔اس واقعہ میں کعب الأحبارنے جھوٹ بولااوراس نے دین کو خرافات اور بیت المقدس اور اس کے نتیجہ میں یہودیت کو عظیم اوربڑا دکھانے کے لئے کچھ جھوٹے مطالب بیان کئے۔

۲۔ اس واقعہ میں نہ صرف عمر نے بلکہ اس نے اور اس کے کسی بھی طرفدار اور پیروکار نے کعب پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ عمر اور اس کے پیروکارکعب الأحبارکی کہی گئی باتوں سے جاہل تھے یایہ کہ وہ اس طرح کی خرافات اور اسرائیلیات کو پھیلانے کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے تھے۔ اور ان میں سے دونوں صورتوں میں ایسا شخص کس طرح رسول(ص) کا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!

۳۔ کعب الأحبار کے قول کے مطابق خدا بیت المقدس کی چٹان پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لعاب دہن پھینکا اور..... ۔ یہ عاقل اور متفکر افراد کو منحرف کے لئے بہت ہی مؤثر چال تھی کیونکہ کوئی بھی عقل مند اور متفکر انسان یہ قبول نہیں کر سکتا کہ خدا بیت المقدس کے پتھر پر بیٹھا تھا- اور وہ بھی ان کی  خلقت سے پہلے - اور اس نے اپنے لعاب دہن سے گہرے دریا خلق کئے!

جس دین میں ایسی اسرائیلیات اور خرافات موجود ہوںکیااس دین کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کیااس دین پر اعتقاد رکھا جا سکتا ہے؟!یہ واضح سی بات ہے کہ دانشور اور متفکر اس طرح کی من گھڑت باتوں کی پیروی نہیں کریں گے ۔ بلکہ وہ حقائق جاننے کے لئے کعب الأحبار کی بجائے خاندان وحی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف رجوع کریں گے۔

--------------

[۵]۔ شیخ المضیرة: ۱۳۵

[۶]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۵۳

۹۲

۷- وہب بن منبّہ

ابوعبداللہ وہب بن منبّہ اہل  صنعاء میں سے تھا جو یمن کے شہروں میں سے ہے۔ اس کا باپ ایرانی اور ہرات کے لوگوں میں سے تھا اور وہ اس فوج کا ایک سپاہی تھا جسے انوشیروان نے یمن کو فتح کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اس کا بیٹا وہب بھی اسی جگہ (یمن) پیدا ہوا۔کہتے ہیں کہ کے وہب کے باپ نے رسول اکرم(ص) کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔

ذہبی  ''تذکرة الحفّاظ'' میںوہب بن منبّہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وہ  یمن کا ایک دانشور تھا جو سن ۳۴ ہجری - یعنی عثمان کی خلافت کے زمانے میں- میں پیدا ہوا۔جسے اہل کتاب کے علوم کے بارے میں بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس کی ساری توجہ انہی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پرمرکوز تھی۔

صحیح بخاری اوراور مسلم میں اس کے بھائی''ہمام'' کے سلسلہ سے اس سے حدیث نقل ہوئی ہے''(۱)

 ڈاکٹر جوا دعلی نے بھی اس کے بارے میں کہاہے:وہب بن منبّہ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے اور اسرائیلی کہانیوں کو نقل کرنے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔اس کے اکثر اقوال گذشتہ آسمانی کتابوں سے ہی اخذ شدہ ہوتے تھے۔اس کے بھائی نے شام کے اپنے تجارتی سفر میں اس کے لئے یہ کتابیں خریدیں اور وہ ان کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس  متقدمین کی تاریخ پر تسلط  تھا اور اسے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔(۲) وہب کا خاندان یمن میں رہتا تھاجو یہودیوں کے آداب و رسومات اور ان کی روایات سے متأثر تھااور دوسری طرف سے وہ حبشہ کے ذریعہ عیسائیوں کے عقائد اور ثقافت سے بھی آشنا تھے۔ وہب خود یونانی زبانی سے بھی آشنا تھا جس کی وجہ سے اسے ان دوثقافتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی کافی معلومات تھیں۔(۳) وہ گذشتہ آسمانی کتابوں کے مطالب اور گذشتہ اقوام و ملل کی روایات اور قصہ کہانیوں کو بیان کرنے میں اتنی توجہ دیتا تھا کہ اس اعتبار سے اسے ''کعب الأحبار''سے تشبیہ دی جاتی ہے۔(۴)

--------------

[۱]۔ تذکرة الحفّاظ:ج ۱ص۱۰۰اور ۱۰۱،الأعلام: ج۹ص۱۵۰-[۲] ۔ المفصّل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج۶ص۵۶۵

[۳]۔ الأدب العربی: ج۱ص۳۸۱-[۴]۔ تذکرة الحفّاظ: ج۱ص۱۰۱

۹۳

وہ بنی امیہ اور ان کے حکمرانوں سے بھی غافل نہیں تھا یہاں تک کہ وہ بعض اوقات ان کی تائید میں من گھڑت مطالب بیان کرتا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کو مہدی موعود سمجھتا تھا!(۱) اور اسی کے خلافت کے دوران یہ قضاوت کے عہدے پر فائز تھا(۲) ،وہ ۱۱۰ھ میں شہر صنعاء میں ہلاک ہوا۔(۳)(۴)

وہب بن منبّہ کے عقائد

قابل ذکر ہے کہ اس جدید مسلمان یہودی کے ذریعہ اسلامی معاشرے میں پھیلنے والے عقائد میں سے یہ ہے کہ اس نے جبر اور نفی مشیت و اختیار جیسے عقائد کو فروغ دیا۔

حماد بن سلمہ نے ابو سنان سے نقل کیاہے کہ میں نے وہب بن منبّہ سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا: میں ایک مدت تک انسان کی قدرت و مشیت کا قائل تھا یہاںتک کہ میں  نے پیغمبروں کی ستّر سے زائد کتابوں کامطالعہ کیااور ان سب میں یہی تھا کہ جو بھی اپنے لئے اختیار کا قائل ہو وہ کافر ہو جائے گا۔اس لئے میں نے اپنے پہلے والے عقیدہ کو چھوڑ دیا۔(۵)

جبر اور نفی مشیت و اختیار کی حمایت  اور ہر طرح کی قدرت و مشیت کا انکار کرناانسان کے لئے ایک ایسی آگ تھی کہ جو پہلی صدی ہجری کے آخر میں مسلمانوں میں بھڑکائی گئی جس نے انہیں دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ۔جب کہ جبر کا عقیدہ بنی امیہ کی حکومت کی بنیادوں سے سازگار تھا۔ اسی وجہ سے وہب ایسے نظرئے کو پھیلانے کی بہت زیادہ کوشش کرتا تھا۔(۷)(۶)

--------------

[۱]۔ تاریخ الخلفاء:۲۶۳

[۲]۔ الأعلام:ج۹ص۱۵۰

[۳]۔ فجرالاسلام:۱۶۱

[۴]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۱۶

[۵]۔ میزان الاعتدال: ج۴ ص۳۵۳

[۶]۔  ملاحظہ کریں: بحوث فی ملل و النحل:۹۱۱،فرہنگ عقائد و مزاہب اسلامی: ج۱ص۱۰۲ اور ۱۰۳

[۷]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۲۱

۹۴

تیسراباب

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

    عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

    تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

    عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

    بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

    اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

۹۵

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے بھی تعلقات تھے اور وہ اپنے امور میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات کی بہترین مثال معاویہ  کے ان سے تعلقات ہیں۔

معاویہ کےعیسائیوں سے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ نہ صرف اس کے دربار میں ان کی آمد و رفت تھی بلکہ معاویہ عیسائیوں سے مشورہ بھی کرتا تھا اور انہیں حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کے علاوہ ہ عیسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا اور ان کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتا تھا۔ آپ یہ نکتہ یعنی معاویہ کے عیسائیوں سے تعلقات اور معاویہ کا عیسائیوں سے مشورہ کرنا،تاریخ کے صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہ واضح سی بات ہے کہ ایسے افکار و نظریات رسول اکرم(ص) کے حکومتی طریقۂ کار کے افکار و نظریات سے متضاد ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کا عیسائیوں اور کسی بھی اہل کتاب سے مشورہ کرنا اور ان کے دین مخالف افکار و نظریات کولوگوں پر مسلّط کرنا  تو دور کی بات بلکہ آپ نے کبھی انہیں  اپنا ہمنشین قرار نہیں دیا۔لیکن معاویہ نے چونکہ بزردستی اور طاقت کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی تھی اور وہ رسول خدا(ص) کے منصب خلافت کا غاصب تھا،اس لئے اس کے اعمال رسول اکرم(ص)کے اعمال کی طرح نہیں تھے بلکہ دین پر کاری ضرب لگانے اور دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے وہ دین کے مخالفوں سے مشورہ کرتا تھااور ان کے نظریات کو اہمیت دیتاتھا۔

 کتاب''امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام''میں لکھتے ہیں:روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاویہ عیسائیوں کی سیرت و روایات کے لئے احترام کا قائل تھا کہ جو اب تک شام کے شہروں میں مقیم تھے اور وہاں کی اکثر آبادی انہیں پر مشتمل تھی۔ اس کے مشیروں میں سے ایک سرجون(سرگیوس) تھا جویونانی  Orthodox خاندان کا ایک فرد تھا اور جو شام میں رومن انتظامیہ کے لئے کام کرتا تھااور اس کا باپ'سنت جون''(وفات: ۷۴۸ء) شام میں Orthodoxکے متکلمین میں سے تھا۔(۱)

--------------

[۱] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۵۷

۹۶

  اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ہم ''جرجی زیدان''کے اس قول پر غور کریں، جو کہتے ہیں: بنی امیہ کے زمانے میں عیسائی مسجدمیں آتے تھے اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ اخطل(عرب کا عیسائی شاعر)بغیرا جازت کے نشے کی حالت میں گردن میں صلیب ڈال کر عبدالملک بن مروان کے پاس آیا اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا؛کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کے اصحاب و انصار کی مذمت میں بہتر طور پر شعر کہتا تھا!(۱)

تاریخ میں ہے کہ:''بطریق یوحنا دمشقی''نام کا شخص اپنے باپ کے ساتھ عبدالملک بن مروان   کے دربار میں رہتا تھا۔جو اسلامی ثقافت سے مبارزہ کرنے والوں میں نمایاں شمار کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے درمیان شہبات اور جھوٹ شامل کرنے میں دریغ نہیں کرتا تھا۔اس  نے عیسائیوں کے لئے ایک کتاب تألیف کی جس نے انہیں مسلمانوں کی تبلیغات کے مقابلہ میں مسلح کیا۔(۲)

 یہی شخص پیغمبر اکرم(ص) کی اپنی پھوپھی زاد زینب بن جحش سے عشق و محبت کی جعلی کہانی کو رائج کرنے والا تھا!

 کچھ اموی خلفاء کی کوشش تھی کہ اہل کتاب جو کچھ کہتے ہیں یا پیش آنے والی مصالحت کی بنیاد پر  یہ بات ان کے منہ میں ڈال دیں  کہ ان کا نام گذشتہ آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔کیونکہ ان کی حکومت کی مشروعیت  ظاہر کرنے کے لئے اس مسئلہ کے بہت اہم اثرات تھے اور یہ فلاں خلیفہ کے لئے ایک طرح سے قضاء الٰہی کو بیان کرنا چاہتے تھے۔(۳)

یہودی سے مسلمان ہونے والے یوسف نامی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے عبدالملک کی خلافت کی پیشنگوئی کی تھی ۔(۴) وہب بن منبّہ نے بھی عمر بن عبدالعزیز کو امت کا مہدی شمار کیا تھا۔(۵)

--------------

[۱]۔  تاریخ تمدن اسلامی:۷۴۵

[۲]۔ تراث الاسلام:ج۱ص۲۷۵،''الاسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر''سے اقتباس:۴۲۹

[۳]۔ تاریخ سیاسی اسلام:ج۲ص۷۳۵ اور ۷۳۶

[۴]۔ تاریخ الخلفاء:۲۴۳

[۵]۔ تاریخ الخلفاء:۲۶۳

۹۷

 عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں جو مطالب ذکر کئے ہیں،ان کی بناء پر یہ قابل غور نکتہ سمجھ میں آتا ہے:شعر و شاعری نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث سے دورکیا اورنہ یہ کہ صرف  شراب نوشی،فساد،فحاشی اور لوگوں کودین سے دور کرنے کا باعث بنی بلکہ انہیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے اور مسلمانوں کوعیسائی بنانے کا بھی باعث بنی۔(۱)

اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کے دربار میں عیسائی شاعروں کا اتنا احترام کیوں تھا اور انہیں کیوں اتنی اہمیت دی جاتی تھی؟!مسلمانوں کے خلیفہ کے دربار میں کیوں ان کا اتنا بلند مرتبہ تھا؟!یہاں تک کہ کبھی مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا تھا!

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔

 ابوزبید(جو ایک شراب خور اور ولید کا ہم پیالہ تھا)عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پرمأمور تھا۔حلانکہ ابوزبیدعیسائی تھااور''الاستیعاب''کے مطابق یہ عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاةجمع کرنے کے لئے  مأمور تھا۔

 اس کام سے عمر نے آنے والے افراد کے لئے راستہ کھول دیاتا کہ وہ عیسائیوں اور دین سے خارج افراد سے کام لیں یہاں تک کہ عثمان کے زمانے میں عیسائیوں کے کئی افراد حکومتی منصب پر فائز تھے۔جب حکومتی باگ دوڑ اور حکومتی عہدوں میں عیسائیوں کو بلند مقام ملا تو وہ اشعار کی ترویج میں لگ گئے تا کہ اس کے ذریعہ قرآن پر سے لوگوں کی توجہ کو کم کیا جا سکے اور یہ وہی چیز تھی کہ رسول اکرم(ص) نے جس کی پیشنگوئی کی تھی۔

انہوں نے شعر کی ترویج کو دستاویز قراردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو شراب نوشی اور دین سے روگردانی کی طرف راغب کرتے تھے اور یہ نہ صرف لوگوںکے عقائد کمزور کرنے کا باعث بن رہا تھا بلکہ دوسروں کے اسلام کی طرف آنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔

--------------

[۱]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۸۱

۹۸

 جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے کہ ابن شہاب کی روایت کے مطابق عمر نے ابو موسی کو خط لکھا جس میں لکھا تھا:انہیں حکم دو کہ شعر روایت کریں کہ یہ اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں!۔(۱) اس لحاظ سے شعر کی طرف رغبت دلانانا عمر کی زبان سے شروع ہوا اور معاویہ کے زمانے میں   رائج ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ نے شعر کی ترویج میں مبالغہ سے کام لیا۔

''الاستیعاب''کے مصنف ولیدکے بارے میں لکھتے ہیں:اہل عمل کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ''(۲) ولیدکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۳) اسی طرح ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے،ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے''(۴) حضرت علی بن ابی طالب  علیہما السلام  کے ایمان اور ولید کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورہم اس بارے میں ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں۔(۵) 'الاصابة''کے مصنف ابوزبید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ماموں کے پاس بنی تغلب میں زندگی گذارتا تھا اور اسلام کے دوران جب ولید کو جزیرہ اور پھر کوفہ کی حکمرانی ملی تو یہ اسی کے ساتھ تھا۔(۶) ابن قتیبہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابوزبید ہرگز مسلمان نہیں ہوا تھااور وہ اسی طرح عیسائیت پر باقی رہا اور دنیا سے چلا گیا۔مرزبانی کہتے ہیں کہ اسے طویل عمر ملی اور وہ ایک سو پچاس سال زندہ رہا  ۔ اس نے اسلام کو تو درک کیا لیکن مسلمان نہیں ہوا اور وہ معاویہ کی حکومت کے زمانے تک زندہ تھا۔(۷)

--------------

[۱]۔ کنزالعمال:ج۱۰ص۳۳۰

[۲]۔ سورۂ حجرات،آیت:۶

[۳]۔ الاستیعاب:ج۳ص۶۳۲

[۴]۔ سورۂ سجدہ،آیت:۱۸

[۵]۔ الاستیعاب:ج۳ص۶۳۳

[۶]۔ الاصابہ:ج۴ص۸۰

[۷]۔ الاصابہ:ج۴ص۸۰

۹۹

 اگرچہ قرآن وحدیث کی رو سے ولید فاسق اور اکثر مؤرخین کے مطابق ابوزبید عیسائی تھا۔لیکن عمر نے اس میں عوامی مفاد کو دیکھا اور ولید کو جزیرہ کا حاکم بنا دیا اور ابن حجر کے مطابق''ابوزبید کو اسی کے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پر مأمور کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور عیسائی کوئی ذمہ داری نہیں دی''(۱) ۔اسی دوران عمر نے حکم جاری کیا اور ابن شہاب کی روایت کی رو سے اس نے ابو موسی اشعری کو خط لکھاکہ'' اپنے اطرافیوں کو حکم دو کہ وہ عربی قواعد سیکھیں جو صحیح گفتگو کے لئے راہنما ہیں اور انہیں  حکم

دو کہ وہ شعر روایت کریں جو اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں''(۲)

 شعرکو روایت کرنا ایک عربی سنت و روایت تھی جس کی طرف اسلام نے کوئی خاص توجہ نہیں  دی اور نہ ہی خدا کی کتاب میں شعر اور شاعروں کی کوئی تعریف کی ہے اور نہ ہی سنت میں انہیں کوئی خاص اہمیت دی گئی ہے۔

منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھمبعوث کیا ،میرے بعد میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب مال ناجائز طریقہ سے لیا جائے گا اور خون بہایا جائے گا اور قرآن کی جگہ اشعار لے لیں گے۔(۳)

یہ کہ شعر روایت کرنے کی طرف دعوت دینا،غیب کی خبر دینا اور حجت قائم کرنا ،اس وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب شعر قرآن کی جگہ لے لیں گے۔اشعار روایت کرنے کی دعوت دینے کے بہانے قبیلۂ بنی تغلب ( رسول خدا(ص) نے جن کی سرزنش کی ہے)،حیرہ کے عیسائیوں(جو عباسیوں کی خلافت کے زمانے تک عیسائیت پر باقی تھے)قیساریہ کے اسیروں کے قافلوں(انہیں معاویہ نے اپنی خلافت میں دالخلافہ کی طرف بھیجا)نے راہ خدا کو بند کرنا چاہا۔

--------------

[۱] ۔  الاصابہ:ج۴ص۸۰

[۲]۔ کنزالعمّال:۱۰ص۳۰۰ابن الأنباری کی روایت کے مطابق

[۳]۔  کنزالعمال:ج۱۱ص۱۸۷ دیلی کی روایت کے مطابق

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346