معاویہ

معاویہ  11%

معاویہ  مؤلف:
: عرفان حیدر
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 346

معاویہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 346 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168074 / ڈاؤنلوڈ: 7628
سائز سائز سائز
معاویہ

معاویہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جب کہ مسروق نے عائشہ سے نقل کیا ہے:یا رسول اللّٰه؛ من الخلیفة من بعدک

قال:خاصف النعل قالت:من خاصف النعل قال:انظر ،فنظرت فاذا علی بن ابی طالب علیهما السلام

قالت :یا رسول اللّٰه؛ذاک علی بن ابی طالب قال :هو ذاک

عائشہ نے رسول خدا(ص) سے پوچھا:آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا؟

 فرمایا:جو اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے۔

عائشہ نے پوچھا:کون اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے؟

 فرمایا:دیکھو،جب میں نے دیکھا تو علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

 میں نے کہا:اے رسول خدا!وہ علی بن ابی طالب ہیں!

 فرمایا:وہ میرا خلیفہ ہے۔(۱)

 ابن مغازی نے کتاب''المناقب:۵۵'' پر نقل کیا ہے کہ عائشہ مسروق کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتی تھی اور اسے کہتی تھی:تم میرے بیٹے ہو اور ان میں سب سے زیادہ عزیز ہو.۔ مسروق نے عائشہ سے کہا:ماں میرا تم سے ایک سوال ہے تمہیں خدا ،رسول خدا(ص) اور میرے حق  (کیونکہ میں تمہارے بیٹوںجیساہوں) کی قسم !تم نے رسول خدا(ص) سے مخدج کے بارے میں کیا سنا کہ    جو جنگ نہروان میں مارا گیا تھا؟عائشہ نے کہا:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

 هم شرّالخلق والخلیقة، یقتلهم خیرالخلق والخلیقة، وأقربهم عند اللّٰه وسیلة ۔(۲)

 وہ بدترین انسان اور دنیائے خلقت کی بدترین مخلوق ہے،انہیں بہترین انسان اور دنیائے خلقت کی بہترین مخلوق قتل کرے گی۔

--------------

[۱]۔  المسترشد:۶۲۲

[۲] ۔  المسترشد:۲۸۱

۸۱

۶- کعب الأحبار

یہودیوں نے دین اسلام کو نابود کرنے اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے مقام خلافت کو چھیننے کے لئے نہ صرف معاویہ کے دور حکومت میں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی معاویہ کی حمایت میں کھڑے ہوئے اورانہوں نے معاویہ کو عثمان کے بعد خلیفہ  کے طور پرپہچنوایا۔معاویہ کو برسر اقتدار لانے کے لئے یہ منصوبہ بندی و حمایت اس وقت کی جارہی تھی۔اگر لوگوں میں عثمان کے بعد خلافت کے بارے میں بات ہوتی تو لوگ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت و حکومت کی حمایت کرتے اور اسی لئے عثمان کے قتل ہونے کے بعد لوگوں نے آنحضرت کی خلافت کا انتخاب کیا۔لیکن کچھ عوامل اور یہودی کٹھپتلیاں اسی وقت سے ہی معاویہ کی حکومت کا دم بھرتے تھے اور اس کام سے لوگوں کے افکار بنی امیہ(جو دین اسلام کے دیرینہ دشمن تھے) میں سے معاویہ کی طرف موڑنا چاہتے تھے تا کہ خاندان پیغمبر علیہم السلام کو حکومت  نہ ملے اور کسی ایسے کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ ہو جس کی اسلام سے دیرینہ دشمنی ہو۔جن افرادنے ایسے افکار کو پھیلانے کی  بہت زیادہ کوشش کی ان میں سے ایک کعب الأحبار تھا۔محمود ابوریّہ کعب اور اس کی سازشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :عثمان کے زمانے میں فتنہ کی آگ بھڑکنے کے بعد عثمان بھی آگ کے ان شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور اسے اسی کے گھر میں قتل کر دیا گیا،اس چالاک کاہن نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پوری طاقت سے فتنہ کی آگکوبھڑکایا اور جس قدر ہو سکا اس نے اپنی مختلف سازشوں سے استفادہ کیا۔ اس واقعہ میں جس مکروفریب  سے استفادہ کیا اورکھل کر یہودی مزاج گری کا اظہار کیا وہ یہ تھا کہ اس نے یہ دعوی کیا کہ عثمان کے بعد معاویہ ہی خلافت کے لائق ہے۔(۱) وکیع نے اعمش اور اس نے ابو صالح سے روایت کی ہے(۲) کچھ لوگوں کے درمیان عثمان کے بعد خلیفہ کی بات چلی تو ''الحادی''نام کے شخص نے اپنے شعر کے ضمن میں اس بارے میں یوں کہا:

-----------------

[۱]۔ أضواء علی السنة المحمدیّة:۱۸۰

[۲] ۔رسالة النّزاع والتّخاصم فیما بین بن امیّة و بنی هاشم (مقریزی):۵۱،أضواء علی السنة المحمدیّة سے اقتباس:۱۸۰،نیز ملاحظہ فرمائیں:تاریخ طبری:ج۴ص۳۴۲ اور الکامل: ج۳ص۱۲۳

۸۲

انَّ الأمیر بعده علّی                   و فی الزّبیر خلق رضّی

 بیشک اس کے بعد علی امیر ہیں اور زبیر بھی اچھے اخلاق کامالک ہے۔

 کعب الأحبار (جو اس جلسہ میں موجود تھا) نے کہا:''بل هو صاحب البغلة الشهباء'' یعنی اس کے بعد خلیفہ وہ ہے جو خاکی رنگ کی سواری کا مالک ہے (یعنی معاویہ)۔ کیونکہ معاویہ کو بعض اوقات اس طرح کی سواری پر سوار دیکھا جاتا تھا۔

یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا اور کہا:اے بو اسحاق!علی علیہ السلام،زبیر اور اصحاب محمد(ص) کے ہوتے ہوئے تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟کعب نے کہا:بلکہ تم خلافت کے مالک ہو!اور شاید اس نے مزید یہ کہا ہو کہ میں نے یہ پہلی کتاب(تورات ) میں پڑھا ہے۔!(۱)

 کعب الأحبار اور عمر

کعب الأحبارکہ جس کا نام کعب بن ماتع تھا اور جس کا تعلق یمن اور قبیلۂ حمیر سے تھا۔ اس نے عمر کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور مدینہ آ گیا۔ عمر کے نزدیک اس کا صحابہ بلکہ صحابہ سے بڑھ کر مقام تھا۔(۲) عمر کو اہل کتاب سے علم حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے پیغمبر(ص) اس پر ناراض ہوئے تھے۔(۳) لیکن اپنی خلافت کے زمانے میںاس نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور نئے مسلمان ہونے والے اہل کتاب  حضرات سے زیادہ استفادہ کیا۔ اسی وجہ سے وہ کعب کو اپنے پاس لے گیااوروہ مختلف موضوعات کے بارے میں اس سے سوال پوچھتا تھا۔ابن ابی الحدید نے کعب کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منحرفین میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت کعب کو جھوٹا کہتے تھے۔(۴) (کعب الأحبار)جو ۳۲ھ میں شہرحمص میں ہلاک ہو ا(۵)

--------------

[۱]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۹۲

[۲] ۔  کعب الأحبار اور دوسرے خلیفہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں  تاریخ سیاسی اسلام: ج۲ص۸۹ کے مابعد ملاحظہ کریں۔

[۳]۔  المصنف:ج۶ص۱۱۲

[۴]۔  شرح نہج البلاغہ: ج ۴ص۷۷، کعب پر ابوذر کے اعتراض کے بارے میں بھی وہی منبع: ج۳ص۵۴

[۵]۔  الطبقات الکبری:ج۷ص۳۰۹

۸۳

 صدیوں سے مورد وثوق اور قابل اطمینان تھا اور تفسیری و تاریخی کتابیں اس کی روایات سے بھری پڑی ہیں ،لیکن دور حاضر میں جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابہامات و اشکالات کے ضخیم پردے کے پیچھے  کعب الأحبار کا چہرہ ہے جس نے اہلسنت کی دین شناس اور علماء رجال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(۱) چاند اور سورج کی خلقت کے موضوع میں  طبری نے کعب سے منقول اسرائیلیات کے کچھ نمونے بیان کئے ہیں۔اس رپورٹ میں ابن عباس کعب کی باتوں پر نارض ہوئے اور تین مرتبہ کہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے، اور اس کے بعد مزیدیہ کہا:یہ بات یہودیوں کی ہے جسے کعب اسلام میں   داخل کرنا چاہتا ہے۔(۳)(۲)

عمر کا کعب سے مشوہ لینا صرف دینی واعتقادی امور میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے سیاسی و حکومتی نقطۂ نظر کے پیچھے بھی جناب کعب کے مشورے شامل تھے۔! امالی میں ابوجعفر محمد بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:عمر نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں  جب اس پر ناتوانی حاکم ہو گئی اور وہ لوگوں کے امور چلانے سے عاجز ہو گیا تو وہ خدا سے موت کی دعا کرتا تھا۔ایک دن جب میں اس کے پاس موجود تھا ، اس نے کعب الأحبار سے کہا:مجھے میری موت نزدیک دکھائی دے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد خلافت کسی ایسے کو سونپ کر جاؤں جو اس مقام کے لائق ہو۔علی علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟اس بارے میں تمہیں اپنی کتابوں میں کیا کچھ ملا ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے تمام واقعات  تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے!

 کعب نے کہا:میرے خیال میں علی علیہ السلام اس کام کے لائق نہیں ہیں!کیونکہ وہ شخص دین پر استوار ہے اور کسی بھی غلطی سے چشم پوشی نہیں کرتا اور اپنے اجتہاد پر بھی عمل نہیں کرتا،اس طریقۂ کار سے وہ لوگوں پر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اپنی کتابوں میں جو کچھ ملا وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بیٹوں کو حکومت نہیں ملے گی اور اگر انہیں حکومت مل بھی گئی تو شدید افراتفری پھیلے گی!

--------------

[۱]۔  تاریخ سیاسی اسلام:ج۲ص۸۹

[۲]۔  تاریخ الطبری:ج۱ص۴۴اور ۵۱

[۳]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:۴۵

۸۴

عمر نے پوچھا:کیوں؟

کعب نے کہا:چونکہ اس نے خون بہایا ہے!اور خدا نے ایسے افراد پر حکومت کو حرام قرار دیاہے! جس طرح داؤد نے جب بیت المقدس کو بنانے کا ارادہ کیا تو خدانے اس سے فرمایا:تم اس کام کے لائق نہیں ہو کیونکہ تم نے خون بہایا ہے؛بلکہ یہ کام سلیمان کے ذریعہ انجام پائے گا!

 عمر نے کہا:لیکن کیا علی علیہ السلام نے یہ خون حق پر نہیں بہایا؟

کعب نے جواب دیا:اے امیرالمؤمنین!لیکن کیا داؤدنے بھی وہ خون حق پر نہیں بہایا تھا؟!

عمر نے کہا:پس مجھے یہ بتاؤ کہ حکومت کسے ملے گی؟کعب نے کہا:ہمیں یہ ملتا ہے کہ صاحب شریعت اور ان کے دو صحابیوں کے بعد حکومت انہیں ملے گی جن کے ساتھ پیغمبر(ص) نے اصل دین پر جنگ کی ہے (یعنی اموی)۔ یہ سننے کے بعد عمر نے کئی بار آیت استرجاع پڑھی اور ابن عباس کی طرف دیکھ کر کہا:میں نے اسی سے ملتے جلتے مطالب رسول خدا(ص) سے سنے ہیں کہ آپ نے فرمایا:بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیںگے،میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے منبر پر بندر بیٹھے ہیں اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:(وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ) ۔(۲)(۱)

یہ واقعہ کئی اعتبار سے قابل غور ہے: اس واقعہ سے کعب کی امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے شدید دشمنی اور بغض کا پتہ چلتا ہے اور اس کی دلیل بھی بہت ہی واضح ہے کیونکہ جزیرة العرب میں آنحضرت ہی کے طاقتوار ہاتھوں سے یہود کی شان و شوکت خاک میں ملی اور کعب یہ جانتا تھا کہ اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت و رہبری ملی تو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔اسی وجہ سے کعب کی یہ شدید خواہش تھی کہ خلافت امویوں کو ملے کیونکہ ان کے لئے اسلام کی تقدیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے  اور ان کا ہدف و مقصد صرف دنیا ہے۔(۴)(۳)

-------------

[۱]۔ سورۂ اسراء،آیت:۶۰-[۲]۔  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱۲ص۸۱

[۳]۔ شیعہ و تہمت ھای ناروا:۶۷-[۴]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۹۰

۸۵

 کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات

ایک روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے کعب سے کہا:مجھے توریت کے سب سے بڑے علماء  کے بارے میں بتاؤتا کہ میں تمہارے مطالب کے ساتھ ان کے مطالب بھی سنوں۔

 کعب نے یمن کے ایک شخص کا نام لیا ۔ معاویہ نے اسے بلایا اور پھر دونوں کو حاضر کیا۔کعب نے اس شخص سے کہا: تمہیں اس کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی کے لئے دریامیں شگاف کر دیا؛کیا تم نے آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ  موسی نے توریت کی طرف دیکھ کر کہا:

 پروردگارا!میں محبت کی جانے والی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جو بہترین امت ہے اور جو لوگوں میں سے لوگوں کے لئے ہی آئی ہے،وہ ملت نیک کاموں کی دعوت دے گی اور برے کاموں سے روکے گی، اس کا پہلی کتاب (توریت) اور آخری کتاب(قرآن) پر ایمان ہے(۱) اور وہ گمراہوں سے جنگ کرے گی اور اعور کذاب کے ساتھ بھی اس کا تنازع ہو گا ۔ خدایا! انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔ اس دانشور نے کہا:کیوں نہیں ؛ میں نے یہ موضوع دیکھا ہے۔

کعب نے اس سے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں  جس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی کی آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا! میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  کہ جب وہ بلند جگہ پہنچے تو تکبیر کہے گی اور جب صحرا میں پہنچے تو خدا کی عبادت کرے گی،زمین کو اس کے لئے مطہر قراد دیا کہ اگر پانی نہ ملے تو جنابت سے تیمم کے ذریعہ پاک ہو سکتے ہیں،وہ جہاں بھی ہوں ان کی مسجد وہیں ہوگی ،وضو سے ان کے چہرے  منور  ہوں گے، خدایا!انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

--------------

[۱]۔ سیرة الحلبیّہ کی پہلی جلد کے صفحہ ۲۱۷ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۸۶

اس نے کہا:جی ہاں ؛میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا:تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جب ان میں سے کوئی ایک  کسی نیک کام کرنے کا ارادہ کرے اگرچہ اس پر عمل نہ بھی کرے تو اسے دس سے سات سو تک اجر دیا جائے گا اور اگر کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کرے تو جب تک اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے انجام دے  تو اس کے لئے صرف ایک گناہ لکھا جائے گا ۔ خدایا! اسے میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔

مذکورہ دانشور نے کہا: ہاں؛ میں نے یہ دیکھا ہے۔

کعب نے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:

پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں  جو اپنے صدقات اور کفّارہ کھاتی ہے اور انہیں اپنے فقراء کو دیتی ہے ، اور جیسا کہ  دوسری امتیں انہیں جلا دیتی تھیںوہ ایسا نہیں کرتے؟

دوسری حدیث کے اس حصہ میںذکر ہواہے کہ :جو اپنی قربانی کو کھا سکتے ہیں اور قربانی کے گوشت سے مراد عید قربان وغیرہ ہیں۔(۱)

--------------

[۱]۔نهایة الأرب :ج۱ص۱۲۶

۸۷

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

قبلہ کابیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہونایہودیوں کے غضبناک کا بہت اہم سبب تھا۔ یہودی بیت المقدس کا بڑا احترام کرتے تھے اور وہ کسی بھی سرزمین کو اس کے مقابلہ میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔قبلہ کا تبدیل ہونا ان کے لئے بہت ہی اہم اور انہیں غضبناک کرنے والا امر تھا۔

اس واقعہ سے ان کو اتنی شدید نفرت تھی کہ وہ بعد کی صدیوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں  اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہے۔

اسی وجہ سے بعض غاصب اموی خلفاء  یہودیوں کا دل خوش کرنے اور اسلام و مسلمین کو شکست دینے کے لئے کوشاں رہے کہ بیت المقدس کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت دے دی جائے اور وہ معنوی اعتبار سے مسجد الحرام کے برابر یااس سے بھی افضل و برتر ہو جائے۔

اس بارے میں غاصب اموی خلفاء میں سے جس نے سب سے زیادہ کوشش کی وہ عبدالملک تھا۔عبدالملک نے اس راہ میں جن عوامل کی وجہ سے کوشش کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے اس کے دورحکومت میں قیام کیا تھا اور اموی خلیفہ سے مکہکو چھینلیا تھا ۔عبدالملک  لوگوں کو خانۂ خدا کی طرف جانے سے روکنے کے لئے یہ کوششیں کر رہا تھا کہ ان کے لئے بیت المقدس کی عظمت کو زندہ کرے تا کہ لوگ مکہ میں جانے اور وہاں خانۂ خدا کی زیارت کرنے سے گریز کریں اور انہیں بیت المقدس کی طرف کھینچا جا سکے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء سیاست کی وجہ سے مذہبی حقائق کو تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔اس بناء پر اگر وہ اسلام اور دین کے نام پر حکومت کا دم بھرتے تھے تو اس کی وجہ دینی اعتقادات نہیں بلکہ سیاست اور طاقت کا حصول تھا۔

کتاب''پیغمبر(ص)و یہود و حجاز''میں لکھتے ہیں:

۸۸

تغییر قبلہ سے یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو استقلال ملنے کے علاوہ عربوںکے اسلام کی طرف آنے میں بھی مدد ملی ۔ چونکہ وہ کعبہ کی بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے۔ اگرچہ مسلمان تغییر قبلہ سے پہلے بھی کعبہ کو اہمیت دیتے تھے اوراس بارے میں قرآن کی کچھ آیات بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ یہودیوں اور مسلمانوں میںجدائی کا پہلا مرحلہ شمار کیا جاتا ہے جس سے اس قوم (جو اسلام اور پیغمبر(ص) کی برتری کا اعتراف کرتی تھی) کے بغض میں مزید اضافہ ہوا۔

تاریخ اسلام میں یہودیت سے اسلام لانے والے  مسلمان بیت المقدس کو کعبہ پر برتری دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جن کی کتابیں اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں۔کعب الأحبار نے ایک حدیث گھڑی کہ جس میں آیا ہے: کعبہ ہر صبح بیت المقدس پر سجدہ کرتا ہے۔

امام باقر علیہ السلام نے اس بات کوجھوٹ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:خدا کے نزدیک روئے زمین پر کعبہ سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے۔(۱)

غاصب اموی حکمران اپنے سیاسی اہداف سے استفادہ کرنے کے لئے ایسی ہی روایات سے استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکہ عبداللہ بن زبیر کے پاس تھا عبدالملک نے لوگوں کو حج پر جانے سے روکنے کے لئے زہری سے ایک حدیث کو ترویج دیا جس میں پیغمبر(ص) کی طرف یہ بات منسوب کی گئی:

تین مساجد کے علاوہ کسی کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد الحرام۔مسجد النبی اور مسجد بیت المقدس کہ جس کا مقام و مرتبہ کعبہ کی طرح ہے۔(۳)(۲)

--------------

[۱]۔ الکافی:ج ۴ص۲۴۰

[۲] ۔  حدیث''لا تشدّ الرجال'' کے بارے میں: صحیح مسلم: ج۱ص۶۳۶، صحیح البخاری: ج۲ص۵۶۔ البتہ اس کتاب میں یہ جملہ''وهو یقوم مقام الکعبة'' نہیں ہے ۔اس حدیث سے عبدلملک کے استفادہ کرنے کے بارے میں ۔تاریخ سیاسی اسلام: ج۲ص۷۴۶ (سیرۂ خلفائ) اور تاریخ طبری سے منقول۔

[۳]۔  پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:۵۶

۸۹

کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

کتاب ''اسرائیلیات اور....'' میں لکھتے ہیں:

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے واقعات اور انحرافی تحریکوں کا سامنا کیا جن میں مسلمان نما اہل کتاب اور ان کے قصہ کہانیوں سامنا کرنا تھا کہ جن میں سے ہر ایک نے اپنے حصہ کے مطابق دین کے چہرے کو غبار آلود کیا۔

آنحضرت  بھی مختلف راستوں سے ان کے ہاتھ قلم کرتے اور ان کا مقابلہ کرتے۔

 ہم یہاں اسرائیلیات اور انہیں پھیلانے والوں سے  حضرت علی علیہ السلام کیمقابلہ کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:

۱۔ نقل کیا گیا ہے: عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک دن خلیفہ کے سامنے ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے۔اور حاضرین میں سے ایک کعب بھی تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا:اے کعب!کیا تمہیں پوری تورات حفظ ہے؟

 کعب نے جواب دیا:نہیں؛لیکن مجھے اس میں سے کافی حفظ ہے!

کسی شخص نے خلیفہ سے کہا:یا امیرالمؤمنین!اس سے پوچھیں کہ خدا اپنے عرش کو خلق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟اور نیز پانی کو کس سے خلق کیا کہ جس پر بعد میںاپنا عرش بنایا؟

عمر نے کہا:اے کعب !کیا تمہیں ان کا جواب معلوم ہے؟

کعب نے جواب دیا:جی ہاں ؛یا امیر المؤمنین!حقیقت میں مجھے حکیم(توریت)ملا کہ خداوند کریم عرش کی خلقت سے پہلے قدیم و ازلی تھا اور بیت المقدس کی چٹان پر تھا اور یہ چٹان ہوا پر بنی ہوئی تھی اور جب خدا نے عرش کو بناے کا ارادہ کیا تو اس پراپنالعاب دہن گرایا اور جس سے گہرے  سمندر اور ان کی موجیں خلق ہوگئیں ۔ اس موقع پر خدا نے بیت المقدس کی چٹان کے کچھ حصہ پر اپنا عرشخلق کر لیا اور اس پر بیٹھ گیااور چٹان کے بقیہ حصہ پر بیت المقدس کو خلق کیا۔

۹۰

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنے لباس کو ہلارہے تھے اورآپ کی زبان پر خدا کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرنے والے کلمات جاری تھے جیسے''جل الخالق یا جلّ اللّٰه یا اللّٰه اکبر'' اسی حال میں آپ کھڑے ہوئے اور اعتراض کیطور پر مجلس سے چلے گئے!(۱)

جب خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو امام  کو قسم دی کہ اپنی جگہ واپس آ جائیں اور مورد بحث مسئلہ میں  ا پنا نظریہ بیان کریں۔امام اپنی جگہ واپس آگئے اور کعب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

تمہارے اصحاب غلط ہیں اور انہوں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کی ہے اور خدا کی طرف ھوٹی نسبت دیہے۔

اے کعب !وای ہو تم پر؛اگر ایسا ہو کہ چٹان ا ور ہوا بھی خدا کے ساتھ ہوں تو اس صورت میں وہ بھی خدا کی طرح قدیم و ازلی ہوں جائیں گے پس پھر تین قدیم موجودات ہوں گی۔

اس کے علاوہ خداوند متعال اس سے بے نیاز ہے کہ اس کا کوئی مکان ہو کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور  جیسے ملحد کہتے اور جاہل خیال کرتے ہیں خداو ویسا نہیں ہے۔وای ہو تم پر اے کعب!تمہارے قول کے مطابق جس لعاب دہن سے یہ عظیم دریا و سمند وجود میں آئیں وہ بیت المقدس کی چٹان پربیٹھنے سے بے نیاز ہے اور ....۔(۲)

۲۔ آنحضرت سے نقل ہوا ہے کہ آپ کعب الأحبار کے بارے میں فرما رہے تھے:

وہ جھوٹا و کذّاب شخص ہے۔(۳) یہی وجہ تھی کہ کعب،حضرت علی علیہ السلام سے روگرداں تھا۔(۴)

--------------

[۱] ـ یہ ایک عربی رسم ہے کہ جب کسی چیز سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو اپنا لباس ہلاتے ہیںگویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کو قبول نہیں کرتا۔

[۲] ۔ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر (المعروف بہ مجموعۂ وراّم): ج۲ص ۵ اور۶،نقش ائمہ در احیاء دین (چھٹا شمارہ):۱۱۴ اور ۱۱۵

[۳]۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۷۷۴ ،أضواء علی السنّة المحمدیة :۱۶۵

[۴] ۔  شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):۷۷۴،أضواء علی السنّة المحمدیة :۱۶۵

۹۱

۳۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کعب کے شاگرد یعنی ابوہریرہ کو بھی جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا شخص کہا ہے اور فرمایا ہے:

انّ أکذب النّاس علی رسول اللّٰه (ص)لأبی هریرة الدُّوس ۔(۱) بیشک جس نے سب سے زیادہ رسول خدا(ص) کی طرف ھوٹی نسبت دی،وہ ابوہریرہ دوسی ہے۔(۲) اس واقعہ سے چند اہم نکات سیکھنے کو ملتے ہیں:

۱۔ اسرائیلیات کو پھیلانے میں خلفاء کا بہت اہم کردار تھا اس کے علاوہ اسرائیلیات کی جھوٹی ثقافت کو پھیلانے میں  ان کی دینی اورتاریخی واقعات سے جہالت و نادانی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔اس واقعہ میں کعب الأحبارنے جھوٹ بولااوراس نے دین کو خرافات اور بیت المقدس اور اس کے نتیجہ میں یہودیت کو عظیم اوربڑا دکھانے کے لئے کچھ جھوٹے مطالب بیان کئے۔

۲۔ اس واقعہ میں نہ صرف عمر نے بلکہ اس نے اور اس کے کسی بھی طرفدار اور پیروکار نے کعب پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ عمر اور اس کے پیروکارکعب الأحبارکی کہی گئی باتوں سے جاہل تھے یایہ کہ وہ اس طرح کی خرافات اور اسرائیلیات کو پھیلانے کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے تھے۔ اور ان میں سے دونوں صورتوں میں ایسا شخص کس طرح رسول(ص) کا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!

۳۔ کعب الأحبار کے قول کے مطابق خدا بیت المقدس کی چٹان پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لعاب دہن پھینکا اور..... ۔ یہ عاقل اور متفکر افراد کو منحرف کے لئے بہت ہی مؤثر چال تھی کیونکہ کوئی بھی عقل مند اور متفکر انسان یہ قبول نہیں کر سکتا کہ خدا بیت المقدس کے پتھر پر بیٹھا تھا- اور وہ بھی ان کی  خلقت سے پہلے - اور اس نے اپنے لعاب دہن سے گہرے دریا خلق کئے!

جس دین میں ایسی اسرائیلیات اور خرافات موجود ہوںکیااس دین کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کیااس دین پر اعتقاد رکھا جا سکتا ہے؟!یہ واضح سی بات ہے کہ دانشور اور متفکر اس طرح کی من گھڑت باتوں کی پیروی نہیں کریں گے ۔ بلکہ وہ حقائق جاننے کے لئے کعب الأحبار کی بجائے خاندان وحی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف رجوع کریں گے۔

--------------

[۵]۔ شیخ المضیرة: ۱۳۵

[۶]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۵۳

۹۲

۷- وہب بن منبّہ

ابوعبداللہ وہب بن منبّہ اہل  صنعاء میں سے تھا جو یمن کے شہروں میں سے ہے۔ اس کا باپ ایرانی اور ہرات کے لوگوں میں سے تھا اور وہ اس فوج کا ایک سپاہی تھا جسے انوشیروان نے یمن کو فتح کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اس کا بیٹا وہب بھی اسی جگہ (یمن) پیدا ہوا۔کہتے ہیں کہ کے وہب کے باپ نے رسول اکرم(ص) کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔

ذہبی  ''تذکرة الحفّاظ'' میںوہب بن منبّہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وہ  یمن کا ایک دانشور تھا جو سن ۳۴ ہجری - یعنی عثمان کی خلافت کے زمانے میں- میں پیدا ہوا۔جسے اہل کتاب کے علوم کے بارے میں بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس کی ساری توجہ انہی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پرمرکوز تھی۔

صحیح بخاری اوراور مسلم میں اس کے بھائی''ہمام'' کے سلسلہ سے اس سے حدیث نقل ہوئی ہے''(۱)

 ڈاکٹر جوا دعلی نے بھی اس کے بارے میں کہاہے:وہب بن منبّہ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے اور اسرائیلی کہانیوں کو نقل کرنے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔اس کے اکثر اقوال گذشتہ آسمانی کتابوں سے ہی اخذ شدہ ہوتے تھے۔اس کے بھائی نے شام کے اپنے تجارتی سفر میں اس کے لئے یہ کتابیں خریدیں اور وہ ان کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس  متقدمین کی تاریخ پر تسلط  تھا اور اسے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔(۲) وہب کا خاندان یمن میں رہتا تھاجو یہودیوں کے آداب و رسومات اور ان کی روایات سے متأثر تھااور دوسری طرف سے وہ حبشہ کے ذریعہ عیسائیوں کے عقائد اور ثقافت سے بھی آشنا تھے۔ وہب خود یونانی زبانی سے بھی آشنا تھا جس کی وجہ سے اسے ان دوثقافتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی کافی معلومات تھیں۔(۳) وہ گذشتہ آسمانی کتابوں کے مطالب اور گذشتہ اقوام و ملل کی روایات اور قصہ کہانیوں کو بیان کرنے میں اتنی توجہ دیتا تھا کہ اس اعتبار سے اسے ''کعب الأحبار''سے تشبیہ دی جاتی ہے۔(۴)

--------------

[۱]۔ تذکرة الحفّاظ:ج ۱ص۱۰۰اور ۱۰۱،الأعلام: ج۹ص۱۵۰-[۲] ۔ المفصّل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج۶ص۵۶۵

[۳]۔ الأدب العربی: ج۱ص۳۸۱-[۴]۔ تذکرة الحفّاظ: ج۱ص۱۰۱

۹۳

وہ بنی امیہ اور ان کے حکمرانوں سے بھی غافل نہیں تھا یہاں تک کہ وہ بعض اوقات ان کی تائید میں من گھڑت مطالب بیان کرتا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کو مہدی موعود سمجھتا تھا!(۱) اور اسی کے خلافت کے دوران یہ قضاوت کے عہدے پر فائز تھا(۲) ،وہ ۱۱۰ھ میں شہر صنعاء میں ہلاک ہوا۔(۳)(۴)

وہب بن منبّہ کے عقائد

قابل ذکر ہے کہ اس جدید مسلمان یہودی کے ذریعہ اسلامی معاشرے میں پھیلنے والے عقائد میں سے یہ ہے کہ اس نے جبر اور نفی مشیت و اختیار جیسے عقائد کو فروغ دیا۔

حماد بن سلمہ نے ابو سنان سے نقل کیاہے کہ میں نے وہب بن منبّہ سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا: میں ایک مدت تک انسان کی قدرت و مشیت کا قائل تھا یہاںتک کہ میں  نے پیغمبروں کی ستّر سے زائد کتابوں کامطالعہ کیااور ان سب میں یہی تھا کہ جو بھی اپنے لئے اختیار کا قائل ہو وہ کافر ہو جائے گا۔اس لئے میں نے اپنے پہلے والے عقیدہ کو چھوڑ دیا۔(۵)

جبر اور نفی مشیت و اختیار کی حمایت  اور ہر طرح کی قدرت و مشیت کا انکار کرناانسان کے لئے ایک ایسی آگ تھی کہ جو پہلی صدی ہجری کے آخر میں مسلمانوں میں بھڑکائی گئی جس نے انہیں دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ۔جب کہ جبر کا عقیدہ بنی امیہ کی حکومت کی بنیادوں سے سازگار تھا۔ اسی وجہ سے وہب ایسے نظرئے کو پھیلانے کی بہت زیادہ کوشش کرتا تھا۔(۷)(۶)

--------------

[۱]۔ تاریخ الخلفاء:۲۶۳

[۲]۔ الأعلام:ج۹ص۱۵۰

[۳]۔ فجرالاسلام:۱۶۱

[۴]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۱۶

[۵]۔ میزان الاعتدال: ج۴ ص۳۵۳

[۶]۔  ملاحظہ کریں: بحوث فی ملل و النحل:۹۱۱،فرہنگ عقائد و مزاہب اسلامی: ج۱ص۱۰۲ اور ۱۰۳

[۷]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۱۲۱

۹۴

تیسراباب

بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

    اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

    عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

    تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

    عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

    بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

    اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

۹۵

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات

 بنی امیہ کے عیسائیوں سے بھی تعلقات تھے اور وہ اپنے امور میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات کی بہترین مثال معاویہ  کے ان سے تعلقات ہیں۔

معاویہ کےعیسائیوں سے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ نہ صرف اس کے دربار میں ان کی آمد و رفت تھی بلکہ معاویہ عیسائیوں سے مشورہ بھی کرتا تھا اور انہیں حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کے علاوہ ہ عیسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا اور ان کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتا تھا۔ آپ یہ نکتہ یعنی معاویہ کے عیسائیوں سے تعلقات اور معاویہ کا عیسائیوں سے مشورہ کرنا،تاریخ کے صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہ واضح سی بات ہے کہ ایسے افکار و نظریات رسول اکرم(ص) کے حکومتی طریقۂ کار کے افکار و نظریات سے متضاد ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کا عیسائیوں اور کسی بھی اہل کتاب سے مشورہ کرنا اور ان کے دین مخالف افکار و نظریات کولوگوں پر مسلّط کرنا  تو دور کی بات بلکہ آپ نے کبھی انہیں  اپنا ہمنشین قرار نہیں دیا۔لیکن معاویہ نے چونکہ بزردستی اور طاقت کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی تھی اور وہ رسول خدا(ص) کے منصب خلافت کا غاصب تھا،اس لئے اس کے اعمال رسول اکرم(ص)کے اعمال کی طرح نہیں تھے بلکہ دین پر کاری ضرب لگانے اور دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے وہ دین کے مخالفوں سے مشورہ کرتا تھااور ان کے نظریات کو اہمیت دیتاتھا۔

 کتاب''امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام''میں لکھتے ہیں:روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاویہ عیسائیوں کی سیرت و روایات کے لئے احترام کا قائل تھا کہ جو اب تک شام کے شہروں میں مقیم تھے اور وہاں کی اکثر آبادی انہیں پر مشتمل تھی۔ اس کے مشیروں میں سے ایک سرجون(سرگیوس) تھا جویونانی  Orthodox خاندان کا ایک فرد تھا اور جو شام میں رومن انتظامیہ کے لئے کام کرتا تھااور اس کا باپ'سنت جون''(وفات: ۷۴۸ء) شام میں Orthodoxکے متکلمین میں سے تھا۔(۱)

--------------

[۱] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۵۷

۹۶

  اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات

اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ہم ''جرجی زیدان''کے اس قول پر غور کریں، جو کہتے ہیں: بنی امیہ کے زمانے میں عیسائی مسجدمیں آتے تھے اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ اخطل(عرب کا عیسائی شاعر)بغیرا جازت کے نشے کی حالت میں گردن میں صلیب ڈال کر عبدالملک بن مروان کے پاس آیا اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا؛کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کے اصحاب و انصار کی مذمت میں بہتر طور پر شعر کہتا تھا!(۱)

تاریخ میں ہے کہ:''بطریق یوحنا دمشقی''نام کا شخص اپنے باپ کے ساتھ عبدالملک بن مروان   کے دربار میں رہتا تھا۔جو اسلامی ثقافت سے مبارزہ کرنے والوں میں نمایاں شمار کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے درمیان شہبات اور جھوٹ شامل کرنے میں دریغ نہیں کرتا تھا۔اس  نے عیسائیوں کے لئے ایک کتاب تألیف کی جس نے انہیں مسلمانوں کی تبلیغات کے مقابلہ میں مسلح کیا۔(۲)

 یہی شخص پیغمبر اکرم(ص) کی اپنی پھوپھی زاد زینب بن جحش سے عشق و محبت کی جعلی کہانی کو رائج کرنے والا تھا!

 کچھ اموی خلفاء کی کوشش تھی کہ اہل کتاب جو کچھ کہتے ہیں یا پیش آنے والی مصالحت کی بنیاد پر  یہ بات ان کے منہ میں ڈال دیں  کہ ان کا نام گذشتہ آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔کیونکہ ان کی حکومت کی مشروعیت  ظاہر کرنے کے لئے اس مسئلہ کے بہت اہم اثرات تھے اور یہ فلاں خلیفہ کے لئے ایک طرح سے قضاء الٰہی کو بیان کرنا چاہتے تھے۔(۳)

یہودی سے مسلمان ہونے والے یوسف نامی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے عبدالملک کی خلافت کی پیشنگوئی کی تھی ۔(۴) وہب بن منبّہ نے بھی عمر بن عبدالعزیز کو امت کا مہدی شمار کیا تھا۔(۵)

--------------

[۱]۔  تاریخ تمدن اسلامی:۷۴۵

[۲]۔ تراث الاسلام:ج۱ص۲۷۵،''الاسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر''سے اقتباس:۴۲۹

[۳]۔ تاریخ سیاسی اسلام:ج۲ص۷۳۵ اور ۷۳۶

[۴]۔ تاریخ الخلفاء:۲۴۳

[۵]۔ تاریخ الخلفاء:۲۶۳

۹۷

 عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج

اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں جو مطالب ذکر کئے ہیں،ان کی بناء پر یہ قابل غور نکتہ سمجھ میں آتا ہے:شعر و شاعری نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث سے دورکیا اورنہ یہ کہ صرف  شراب نوشی،فساد،فحاشی اور لوگوں کودین سے دور کرنے کا باعث بنی بلکہ انہیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے اور مسلمانوں کوعیسائی بنانے کا بھی باعث بنی۔(۱)

اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کے دربار میں عیسائی شاعروں کا اتنا احترام کیوں تھا اور انہیں کیوں اتنی اہمیت دی جاتی تھی؟!مسلمانوں کے خلیفہ کے دربار میں کیوں ان کا اتنا بلند مرتبہ تھا؟!یہاں تک کہ کبھی مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا تھا!

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔

 ابوزبید(جو ایک شراب خور اور ولید کا ہم پیالہ تھا)عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پرمأمور تھا۔حلانکہ ابوزبیدعیسائی تھااور''الاستیعاب''کے مطابق یہ عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاةجمع کرنے کے لئے  مأمور تھا۔

 اس کام سے عمر نے آنے والے افراد کے لئے راستہ کھول دیاتا کہ وہ عیسائیوں اور دین سے خارج افراد سے کام لیں یہاں تک کہ عثمان کے زمانے میں عیسائیوں کے کئی افراد حکومتی منصب پر فائز تھے۔جب حکومتی باگ دوڑ اور حکومتی عہدوں میں عیسائیوں کو بلند مقام ملا تو وہ اشعار کی ترویج میں لگ گئے تا کہ اس کے ذریعہ قرآن پر سے لوگوں کی توجہ کو کم کیا جا سکے اور یہ وہی چیز تھی کہ رسول اکرم(ص) نے جس کی پیشنگوئی کی تھی۔

انہوں نے شعر کی ترویج کو دستاویز قراردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو شراب نوشی اور دین سے روگردانی کی طرف راغب کرتے تھے اور یہ نہ صرف لوگوںکے عقائد کمزور کرنے کا باعث بن رہا تھا بلکہ دوسروں کے اسلام کی طرف آنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔

--------------

[۱]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:۸۱

۹۸

 جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے کہ ابن شہاب کی روایت کے مطابق عمر نے ابو موسی کو خط لکھا جس میں لکھا تھا:انہیں حکم دو کہ شعر روایت کریں کہ یہ اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں!۔(۱) اس لحاظ سے شعر کی طرف رغبت دلانانا عمر کی زبان سے شروع ہوا اور معاویہ کے زمانے میں   رائج ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ نے شعر کی ترویج میں مبالغہ سے کام لیا۔

''الاستیعاب''کے مصنف ولیدکے بارے میں لکھتے ہیں:اہل عمل کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ''(۲) ولیدکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۳) اسی طرح ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے،ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے''(۴) حضرت علی بن ابی طالب  علیہما السلام  کے ایمان اور ولید کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورہم اس بارے میں ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں۔(۵) 'الاصابة''کے مصنف ابوزبید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ماموں کے پاس بنی تغلب میں زندگی گذارتا تھا اور اسلام کے دوران جب ولید کو جزیرہ اور پھر کوفہ کی حکمرانی ملی تو یہ اسی کے ساتھ تھا۔(۶) ابن قتیبہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابوزبید ہرگز مسلمان نہیں ہوا تھااور وہ اسی طرح عیسائیت پر باقی رہا اور دنیا سے چلا گیا۔مرزبانی کہتے ہیں کہ اسے طویل عمر ملی اور وہ ایک سو پچاس سال زندہ رہا  ۔ اس نے اسلام کو تو درک کیا لیکن مسلمان نہیں ہوا اور وہ معاویہ کی حکومت کے زمانے تک زندہ تھا۔(۷)

--------------

[۱]۔ کنزالعمال:ج۱۰ص۳۳۰

[۲]۔ سورۂ حجرات،آیت:۶

[۳]۔ الاستیعاب:ج۳ص۶۳۲

[۴]۔ سورۂ سجدہ،آیت:۱۸

[۵]۔ الاستیعاب:ج۳ص۶۳۳

[۶]۔ الاصابہ:ج۴ص۸۰

[۷]۔ الاصابہ:ج۴ص۸۰

۹۹

 اگرچہ قرآن وحدیث کی رو سے ولید فاسق اور اکثر مؤرخین کے مطابق ابوزبید عیسائی تھا۔لیکن عمر نے اس میں عوامی مفاد کو دیکھا اور ولید کو جزیرہ کا حاکم بنا دیا اور ابن حجر کے مطابق''ابوزبید کو اسی کے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پر مأمور کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور عیسائی کوئی ذمہ داری نہیں دی''(۱) ۔اسی دوران عمر نے حکم جاری کیا اور ابن شہاب کی روایت کی رو سے اس نے ابو موسی اشعری کو خط لکھاکہ'' اپنے اطرافیوں کو حکم دو کہ وہ عربی قواعد سیکھیں جو صحیح گفتگو کے لئے راہنما ہیں اور انہیں  حکم

دو کہ وہ شعر روایت کریں جو اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں''(۲)

 شعرکو روایت کرنا ایک عربی سنت و روایت تھی جس کی طرف اسلام نے کوئی خاص توجہ نہیں  دی اور نہ ہی خدا کی کتاب میں شعر اور شاعروں کی کوئی تعریف کی ہے اور نہ ہی سنت میں انہیں کوئی خاص اہمیت دی گئی ہے۔

منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھمبعوث کیا ،میرے بعد میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب مال ناجائز طریقہ سے لیا جائے گا اور خون بہایا جائے گا اور قرآن کی جگہ اشعار لے لیں گے۔(۳)

یہ کہ شعر روایت کرنے کی طرف دعوت دینا،غیب کی خبر دینا اور حجت قائم کرنا ،اس وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب شعر قرآن کی جگہ لے لیں گے۔اشعار روایت کرنے کی دعوت دینے کے بہانے قبیلۂ بنی تغلب ( رسول خدا(ص) نے جن کی سرزنش کی ہے)،حیرہ کے عیسائیوں(جو عباسیوں کی خلافت کے زمانے تک عیسائیت پر باقی تھے)قیساریہ کے اسیروں کے قافلوں(انہیں معاویہ نے اپنی خلافت میں دالخلافہ کی طرف بھیجا)نے راہ خدا کو بند کرنا چاہا۔

--------------

[۱] ۔  الاصابہ:ج۴ص۸۰

[۲]۔ کنزالعمّال:۱۰ص۳۰۰ابن الأنباری کی روایت کے مطابق

[۳]۔  کنزالعمال:ج۱۱ص۱۸۷ دیلی کی روایت کے مطابق

۱۰۰

عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہطور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے شعروں کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کا خواہاں تھے۔

ان میں سے کچھ موارد ہم نے اپنی دوسری کتاب''الانحرافات الکبری''میں ذکر کئے ہیں  لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔

 دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ  اور اس کا درباری ابوزبید اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔

'الاستیعاب''کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔(1) بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہکی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟(2)

عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ  ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے شعر عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے   والے فحاش شعر نمودار ہوئے    جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔بنی امیہ اشعار کی ترویج میں مبالغہ کرتے تھے اور کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے  تھے۔لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے  اور انہوں نے بہت سا مال حاصل کیا۔

--------------

[1]۔  الاستیعاب:ج3ص633

[2]۔  الاستیعاب:ج3ص633

۱۰۱

شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ  ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل  کو بطور نمونہ پیش  کرتے تھے۔اسی دوران منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والوں نے فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ دیتا تھا۔(1) ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کے اشعار کو بہت  سراہا جاتا تھا۔(2)

فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل ہوتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔(3)

شعر،شراب اور فحاشی کی مدد سے وجود میں آنے والے فتنہ کے اس لبادہ میں سے زندیقی اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے(4) ،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے

--------------

[1]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص۲۰۵

[2]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص238

[3]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص256

[4]۔ الحضارة الاسلامیة:ج2ص65

۱۰۲

جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء مرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس پھیلے۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے  سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مگن ہو گئے۔

اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے کہ جس کی اس سے  پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(363-449)عقلی نظریات کی آڑ میںہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ کہ تمہاری ایمانداری گذرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے کہ جو اس  کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوںکی سنت دم توڑ گئی۔(!)

وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔(1) پھر ابن راوندی(متوفی 293ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔(2) اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لے کھڑا ہوا   اور اس نے''الفصول والغایات فی محاذاة السور ولآیات''کے نام سے ایک کتاب  لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس  نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے تو تا کہ یہ چمک جائے ،پھر اسے ددیکھو کہ یہ کیسی ہے۔(3)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:137

[2]۔ الحضارة الاسلامیة:139

[3]۔  الحضارة الاسلامیة:140

۱۰۳

اس طرح  اشعار کو قوت ملنے کے بارے میںرسول خدا(ص)کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود میں لے لیں۔پھر دیراس کے بعد شراب اور پھر فحاش شعار رائج ہوئے اور عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر وہ خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے پاؤںجما لئے  اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ ،مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا۔(1) کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔(2)

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

 یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میںقصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔اہل کتاب کے علماء حکومتی وسرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کی کہانیاںسنانے میں اور جو کچھ  لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار  ہو،اسی میں  مشغول رکھیں۔(3) تمیم داری(تازہ  مسلمان ہونے والا عیسائی)دوسرے خلیفہ کی نظر میں مدینہ کے بہترین لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا(4) !اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ  گوئی کرتا تھا۔(5) عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا!(6)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:ج1ص127-[2]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج1ص418-[3]۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج1ص122-124(تلخیص)

[4]۔  الاصابة فی تمییز الصحابة:ج1ص215-[5] ۔  الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج1ص183،184 اور 186۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔[6]۔ القصاص و المذکرین:29

۱۰۴

 حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (مسلمان ،جو پہلے عیسائی تھے)نے سب سے پہلے قصہگوئی کی اور کعب الأحبار(تازہ مسلمان ہونے والا یہودی)کابھی شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصہگوئی کرتا تھا!

محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔

 قصہ  گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیااور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح  نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔(1)

 ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں: اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد - جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میںبہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے  ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ''جسّاسہ''کی کہانی کہ ججسے اس کے راویوں نے  رسول اکرم(ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔(2)

 ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:

--------------

[1]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:63

[2]۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:79 اور 80

۱۰۵

 شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا کہ جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔(1)

 اس لحاظ سے شام کو ''اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین''کا نام دیا جا سکتاہے۔ معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ''سرجون''وزیراور دربار کا خاص مصنف،''ابن آثال''دربار کامخصوص طبیب اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ''اخطل'' کے نام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔  یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے کہ جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔(2) مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 1۔ سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت میں تھا۔

 کتاب''الأغانی''میںوارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب خوری کرتا تھا اورجب  مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔(3) اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:189

[2]۔ معالم المدرستین:ج1ص50 اور 51

[3] ۔  الاغانی:ج16ص68 ،''معالم المدرستین ''سے اقتباس:ج2ص50،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج3ص228 اور 239،الکامل فی التاریخ :ج 4 ص 17''

[4]۔ التنبیہ الاشراف:261،معالم :سے اقتباس:ج2ص50

۱۰۶

2۔ ابن آثال: مؤرخین کے مطابق یہ  عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی ڈاکٹر تھا۔

 احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی و عقیدت تھی اور  ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔(1)

 یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین''حمص'' سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔(2)

 3۔ اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ  کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے اخطل کے بارے میں بتایا۔(3)

 ''الأغانی''میں بھی اسذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تو ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی بنی  ہوئی صلیب پہنے ہوتے تھا اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتا اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتا۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے

انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:162

[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳

[3]۔ البیان والتبیین:ج1ص86،معالم المدرستینسے اقتباس:ج2ص50

[4]۔ الأغانی:ج8ص229 ،321اور ج16ص68معالم المدرستین سے اقتباس:ج2ص50 اور 51

۱۰۷

 اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے اموی دور میں بھی عربوں کی بت پرستی کی  کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔(1)   یہ شواہد واضح و روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف و مقصد ایک تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی  اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی  میں ہو رہا تھا۔(2)

  عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

ابوریہ لکھتے ہیں: عمر بن خطاب بھی تمیم کا بہت احترام کرتا تھااور اسے''خیر أهل المدینة'' (3) (یعنی مدینے کا بہترین فرد ) کے الفاظ سے یاد کرتا تھا۔اور یہ سب بالکل اسی وقت ہو رہا تھا جب حضرت علی علیہ السلام اور بزرگ صحابی بھی موجود تھے ۔ جب بعد میں دوسرے خلیفہ کے حکم پرلوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تو تمیم اہل بدر کے ساتھ تھا جن کا شمار پیغمبراکرم(ص) کے سب سے محترم اصحاب میں سے ہوتا تھا اور وہ سب سے زیادہ حقوق لیتا تھا۔

--------------

[1]۔ انتقال علوم یونانی  بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):216-[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:74

[3] ۔  الاصابة: ج3ص473، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس، چھٹا شمارہ:  87 ۔ ذہبی کی روایت میں تمیم کو ''خیر المؤمنین''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔''سیر أعلام النبلاء''کی طرف رجوع کریں: ج2ص446

۱۰۸

اسی طرح جب اس نے حکم دیا کہ ماہ رمضان کی مستحب نمازوں اور نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے (سن 14 ہجری)تو اس نے دو افراد کو امام جماعت نامزد کیا تھا جن میں سے ایک تمیم داری تھا جو کہ راہب اور نصرانی عالم تھا اور جو تازہ مسلمان ہوا تھا۔

وہ ہزار درہم کی مالیت کا  لباس پہن کر بڑے جلال اور مزیّن ہو کر نماز جماعت میں آتا اور مسلمانوں کی امامت کرتا تھا۔(1) عثمان کی خلافت کے اختتام تک تمیم مدینہ میں تھا لیکن اس کے قتل ہو جانے کے بعد وہ شام چلا گیا اورر  40ھ کو وہیں اس دنیا سے چلا گیا۔(2)

ابوریہ لکھتے ہیں:قابل توجہ نکات میں سے یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے  اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تازہ مسلمان ہونے والے تمام یہودی  کاہن ،عیسائی اورسب ہوس پرست مسلمان شام چلے گئے۔

 یہ واضح ہے کہ یہ کام خدا کے لئے نہیں بلکہ فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں میں نفرت و بغض کی آگ بھڑکانے کے لئے تھا تا کہ اس کے ذریعے اموی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوں اور ان کے کشکول بھی اموی حکمرانوں کے دین سے بھر جائیں۔!(4)(3)

--------------

[1] ۔  تاریخ ابن عساکر:ج10ص479، تہذیب ابن عساکر:ج3ص360، سیر اعلام النبلاء:ج2س447، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس :ج6ص87

[2]۔  الاعلام(زرکلی):ج2ص71،اسد الغابہ: ج1ص25

[3]۔ اضواء علی السنّة المحمدیة:182(حوالہ)

[4]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:103

۱۰۹

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

یہ اموی حکمرانوں کا غیر اسلامی کردار و رفتاراور ان کے عیسایوں سے تعلقات صرف ولید تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس سے قبل وبعد بھی اسی کی طرح ہی تھے جنہوں نے ان کی مدد سے غصب کی گئی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال لیا۔

 ولید سے پہلے ہشام نے بھی عیسائیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کو اتنا بلند مقام دیاکہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کا حاکم بنا دیا ۔ جو کہ عیسائی زادہ تھا اور وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کی بھی حمایت اور طرفداری کرتا تھا۔

کتاب ''امویاں....''میں لکھتے ہیں: ہشام کی خلافت کے کچھ عرصہ بعد  خالد بن عبداللہ قسری  724 سے 738 م تک عراق کا حاکم رہا ۔ بعض موقعوں پر وہ مشرقی ریاستوںکی بھی مکمل نگرانی کرتا تھا لیکن کہتے ہیںکہ بعض دوسرے مواقع میں خراسان اس کی حکومت سے خارج ہوگیا تھااور خلیفہ بذات خود وہاں کا حاکم مقرر کرتا تھا۔تقریباً اموی دور کے آغاز سے ہیشام میں خالد کا خاندان اثر و رسوخ رکھتا تھا اور ولید کی خلافت کے زمانے میں خالد کچھ عرصے تک مکہ کا حاکم تھا۔ہشام کی طرح عراق میں مال پر قبضہ جمانے اور مال و دولت کے حصول کی خاطر چونچیں مارنے میںاس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنت روائی میں اس کے بارے میں بھی دشمنانہ نظر کا احساس ہوتا ہے کہ کبھی اسے اسلام کا دشمن تو کبھی عیسائیوں،یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کا طرفدار بیان کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک بار اس نے عیسائیت کو اسلام پر برتری دی اور اپنی عیسائی ماں کے لئے کوفہ میں مسجد کے پیچھے ایک کلیسا بنوایا۔بعض کتابوں میں اسے زندیق شمار کیا گیا۔یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ جس میں اکثر تردید و تنازع رہاہے نیز اسے مانوی حتی کہ ملحدانی افکار میں بھی دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں:اسے اپنے خاندان سے اتنی محبت تھی کہ حتی اگر خلیفہ اسے کعبہ کو تباہ کرنے کا حکم دیتا تو یہ اس کے بھی تیار تھا۔لکھتے ہیں کہ جب یہ مکہ کا حاکم تھا  تو اس نے زائرین کے لئے الگ سے پانی فراہم کیا تا کہ اس اقدام سے زمزم کے مقدس کنویں کی اہمیت کو کم کر سکے اور یہ بتائے کہ اس کا پانی کڑوا ہے،اور اس نے یہ اعلان کیا جو پانی اس نے فراہم کیا ہے وہ خدا کے نمائندے(خلیفہ) کے حکم سے ہے!(1)

--------------

[1]۔ امویان؛ نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:99

۱۱۰

 ''نہایت الأدب''میں لکھتے ہیں:خالد کی ماں عیسائی کنیزتھی(جس کا تعلق روم سے تھا اور خالد کے باپ نے اسے اسیر بنا لیا اوپھر خالد بھی اسی سے پیدا ہوا)خالد کا بھائی اسد بھی اسی عورت سے پیدا ہوا لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور جب وہ مرا تو خالد نے اس کے لئے اس کی قبر پر کلیسا بنوایا جس پر لوگوں نے اس کی مذمت کی اور فرزدق نے یہ اشعار کہے:''اے خدائے رحمن!اس سواری کی پشت شکستہ کردے جو خالد کو سوار کروا کرہمارے لئے دمشق سے لائی،کس طرح وہ لوگوں کی امامت کرنا چاہتا ہے جس کی ماں کا ایسا دین ہے کہ جوخدا کو یکتا نہیں مانتی؟ وہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنواتا ہے جس میں عیسائی ہیں اور جو کفر سے مساجد کے مینار تباہ کر رہا ہے''

 خالد نے حکم دیا تھا کہ مسجدوں کے مینار تباہ کر دیئے جائیں اور اس  کی وجہ یہ تھی کہ کسی شاعر نے اس بارے میں شعر کہے تھے:

 ''اے کاش!میری زندگی مؤذنوں کے ساتھ ہوتی کہ وہ کسی بھی شخص کوگھر کی چھت پر دیکھ سکتے ہیں ،یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا دلکش نازنین ان کی طرف اشارہ کرتیںہیں''جب خالد کو اس شعر کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بہانہ بنا کر مساجد کے مینار تباہ کرنے کا حکم دیا اور جب خالد تک یہ خبر پہنچی کہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنوانے کی وجہ سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں تو اس نے کہا:خداوند ان کے دین و آئین (اگر تمہارے دین و آئین سے بدتر ہے)پرلعنت کرے اوروہ معذرت کے طور پر یہ بات کہتا تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی بھی شخص کا خلیفہ و جانشین اس کے خاندان میں اس کے رسول  سے محترم ہے۔اور اس کی مراد یہ تھی کہ ہشام رسول خدا(ص) سے محترم ہے!ہم ان خرافات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔(1) حجاج بن یوسف سے بھی یہی بات عبدالملک اور رسول خدا(ص)کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔خالد بن عبداللہ قسری (جو عراق اور مشرقی علاوے میں حکومت کرتا تھا) حجاج کی سیاست پر عمل کرتا تھا۔

--------------

[1]۔ نہایت الأدب: ج6 ص۳۷۰

۱۱۱

 خالد ایک عام انسان تھااور جس طرح لکھا ہے کہ حتی وہ قرآن کو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا! ایک دن خطبہ پڑھتے وقت اس نے ایک آیت غلط پڑھی  اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے دوستوں میں سے قبیلہ تغلب کا ایک شخص اٹھا اور اس سے کہا:امیر؛اپنے لئے کام آسان کرو ،میں نے کوئی عاقل انسان نہیں دیکھا جو قرآن کوحفظ کرکے پڑھے۔حفظ کرکے قرآن  پڑھنااحمقوں کا کام ہے۔! خالد نے کہا:تم نے ٹھیک کہا ہے۔(2)(1) عراق میں خالد کے مظالم اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ہشام نے مجبوراً اسے برطرف کردیا۔(3)

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

 ''الکامل''میں مبرد نے نقل کیا ہے:خالد بن عبداللہ قسری جب عراق کا حاکم بنا تو وہ منبر سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتا تھا اور کہتاتھا:''أللّٰهم علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن هاشم، صهر رسول الله علی ابنته و أبا الحسن و الحسین'' اس کے بعد   وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر کہتا تھا: کیا یہ محترمانہ انداز نہیں ہے!(4)

 یہ کلام رسول اور آل رسول علیہم السلام سے اس کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔

--------------

[1]۔ ابولفرج اصفہانی: ج19ص60، تاریخ تمدن اسلامی سے اقتباس: ج4 ص80

[2] ۔ نہ  صرف خالد بلکہ بنی امیہ کے کچھ خلفاء صحیح سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی۔

اس بارے میں نقل ہونے والے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک مروان اپنی گفتگو اور محاوروں کے دوران بہت غلطیاں کرتا تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دوران ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی توہین کی اور کہا:''انه لصّ ابن لصّ'' اور کلمہ'' لص''ّ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ۔ لوگ اس پر بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا:ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ان دو باتوں میں سے کس پر ہنسیں؛اس نسبت پر جو تم  نے علی بن ابی طالب علیہما السلام سے دی ہے یا کلمہ لصّ پر جسے تم نے مجرور پڑھا ہے۔ (معاویہ و تاریخ: 147)

[3] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:218

[4]۔ معاویہ و تاریخ: 147

۱۱۲

ولید اور اس کے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کے مسلمانوں سے خاص دشمنی تھی۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:ولید نے ایک خط میں حجاز پر اپنے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو حکم دیا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی حجاز میں ہیں انہیں وہاں سے نکال کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دو۔پس خالد نے عثمان بن حیّان مرّی کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی مدینہ میں موجود ہیں انہیں نکال دے اور اس نے بھی ان تمام لوگوںکو ان کے اہل و عیال ہمراہ حجاج کے پاس  بھیج دیا ،تاجروں اور غیرتاجروں میںسے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اعلان کیا کہ جو بھی کسی عراقی کوپناہ دے گا وہ امان میں نہیں ہے۔ اسے جیسے ہی خبر ملتی کہ مدینہ والوں میں سے کسی کے گھر میں  کوئی عراقی ہے تو وہ اسے فوراً نکال دیتا تھا۔(1)

 بنی امیہ کے کارندے کلیسا بناتے تھے،قرآن کو حفظ کرکے پڑھنا احمقوں کا کام سمجھتے تھے اور فرزدق شاعر کے قول کے مطابق مساجد کے میناراپنے کفر کی وجہ سے تباہ کر دیتے تھے، خانۂ خدا کو آگ لگاتے تھے، پیغمبراکرم(ص) کے آثار نیست و نابود کرتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا وہ دین کے احکامات کو تبدیل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو خدا کا خلیفہ سمجھتے تھے اوروہ جو کچھ کہتے تھے قوم  بھی بغیر سوچے سمجھے اسے مان لیتی تھی!!

کیا ایسے لوگ مذہبی شعور رکھتے ہیں؟!

--------------

[1]۔ تاریخ یعقوبی: ج2ص246

۱۱۳

چوتھاباب

دشمنوں کے دو بنیادی حربے

    1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی-    اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک-    جہمیّہ-

    اموی دور میں معتزلہ-    مرجئہ ، اموی دور میں-    بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

    مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی-    معاشرے میں مرجئہ کا کردار-    بہشتی کافر!-

    مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی-    مرجئہ کے فرقے-    ابو حنیفہ اور مرجئہ-

    مرجئہ اور شیعہ-    مرجئہ اور شیعہ روایات-    امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

    عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

    اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.     خارجی کتابوں کا ترجمہ

    مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

    2- پیشنگوئیوں کوچھپانا

    الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

    نتیجۂ بحث

۱۱۴

 1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی

جوافراد یہودیوں کی تاریخ سے آشنا ہیں اور انہیں اسلام کے آئین سے ان کی دشمنی کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے خلاف مبارزہ آرائی کی ۔ ان کے پاس جو وسیلہ بھی تھاانہوں نے اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کیا تاکہ نہ صرف یہودی اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان ان کی ترقی کا راستہ روک سکیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی ہاری ہوئی سیاسی وفوجی طاقت کا کچھ سامان کر سکیں تا کہ غیر یہودی اقوام پر بھی اپنا حکم چلا سکیں!

اس قدرت طلبی کی بنیاد پر وہ مختلف مکر و فریب اور چال بازیوں کے مرتکب ہوئے تا کہ شاید ان کی دیرینہ خواہشات پوری ہوجائیں اور ان کے  سینے میں موجود دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔

ان کی ایک  سازش (جسے وہ مناسب منصوبوں کے ساتھ انجام دیتے تھے) مسلمانوں کے درمیان عقیدتی تفرقہ پیدا کرنا تھا ۔

 مسلمانوں میں مختلف فرقے بنانے میں عیسائیوں کا بھی ہاتھ تھا جو ان میں تفرقہ بازی اور عقیدتی اختلاف پیدا کرتے تھے۔

 ان منصوبوںسے یہودیوں کے دو اہم مقاصد تھے:

1۔ اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور مختلف گروہ بنانے سے نہ صرف ان کے ہاتھوں سے طاقت چلی جائے گی بلکہ اس عملسے مسلمان اصل دین اور اسلام کی بنیادمیں شک کرنے لگیں۔

لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ایک ایسا حربہ تھا کہ جسے یہودی صرف ابتدائے اسلام ہی سے نہیں بلکہ ظہوراسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے تا کہ ظہور اسلام کے بعد لوگ اس میں شک و شبہ کریں بلکہ اسے منکرانہ نگاہوں سے دیکھیں۔

2۔ اعتقادات میں اتحاد و یگانگت کو ختم کرکے انہوں نے نہصرف مسلمانوں کے اتحاد کو برہم کر دیا بلکہ ان پر اپناغلبہ پانے کا راستہ بھی ہموار کر لیا۔

۱۱۵

  اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک

 کتاب''دولت عباسیان''میں لکھتے ہیں:زندیق اموی دور میں وجود میں آئے اور عباسیوں کے پہلے دور میں ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئیں۔

 .....حقیقت میں زندقہ منظم مذہبی افکار کے قالب میں ایک سیاسی تحریک تھی جو اپنے پیروکاروں کو مانوی مذہب ،دینی اعتقاد کے محتویٰ اور ان کی فکری میراث کی طرف دعوت دیتی تھی۔اس اعتبار سے کہ اسلامی میراث کی جاگزین عربی ہے۔اور کبھی فلسفی دعوت کے پیچھے سیاست چھپی ہوتی تھی کیونکہ زندقہ نے فلسفہ کا لبادہ اوڑھ کرخود کو چھوپایا ہوا تھا اوردر حقیقت بعض انقلابی پہلوؤں سے مجوس تھے کہ جن کا مقصد اسلامی حکومت کو نابود کرنا اور اس کی جگہ ایرانی حکومت کو لانا تھا۔

 یہ واضح ہے کہ زندقہ ایک مانوی تحریک تھی جس نے اسلامی فتوحات کے بعد دوبارہ سے عراق اور ایران کے کچھ علاقوں میں جگہ بنا لی۔اس رجحان کے انتشار کی وجہ مذہبی آزادی تھی کہ فتوحات کے بعد مختلف مذاہب کے پیروکار وں کو اس کا سامنا تھا

اورجو معاشرے میں ایک طرح کے فکری و نظری  اختلافات اختتام پذیر ہوا۔(1)

اس بناء پر کہ زندیقی ایک فرقہ کے عنوان سے اموی دور میں وجود میں آئے،اب چاہے اسے مانوی تحریک سمجھیں یا مانوی و غیر مانوی تحریک سے اعم سمجھیں۔

جہمیّہ

 اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار  اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!

--------------

[1] ۔ دولت عباسیان:75

۱۱۶

 ''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل  اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!

 اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!

اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔

     وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں   کوئی کمی  واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!

     اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔

     شہرستانی کہتے ہیں:(1) اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔     اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ  جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے  تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں  کرتا!

--------------

[1] ۔  الملل و النحل:801، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج1ص198

۱۱۷

     وہ کہتا تھا:(1) ایمان ایک  قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں  مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے  اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!

     اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور   نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔

     وہ کہتا تھا:(2) ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی  ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔

     وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔

     اشعری کہتا ہے:(3) یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں  بلکہ  حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔

--------------

[1]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج4 ص204

[2]۔ الملل و النحل:ج1ص80، مقالات الاسلامیّین: ج1ص198

[3]۔ مقالات الاسلامیّین: ج1 ص312، الفرق بین الفرق:128 ، الملل و النحل: ج1ص80

۱۱۸

خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔

 وہ کہتا تھا:(1) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔(2)

اموی دور میں معتزلہ

 بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔

 حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔

 ''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ  گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟

--------------

[1]۔ الملل والنحل: ج1ص80

[2]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:79

۱۱۹

واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔

     واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔

     ''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔

 ''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبر(ص) سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔(1)

مرجئہ ، اموی دور میں

مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔

لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ  کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346