امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟0%

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟ مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)
صفحے: 41

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 41
مشاہدے: 22599
ڈاؤنلوڈ: 4162

تبصرے:

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22599 / ڈاؤنلوڈ: 4162
سائز سائز سائز
امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اِس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جب کوئی عمل معاشرے کا حکمراں انجام دینے لگتا ہے، تو عام لوگوں میں بھی وہ عمل رائج ہوجاتا ہےعبادت میں بھی اسلام پر عمل نہیں ہورہا تھاامام حسین ؑ دیکھ رہے تھے کہ حق کی پروا نہیں کی جاتی اور اِس پر عمل نہیں ہوتاآپ ؑ کو بخوبی علم تھا کہ نہی عن المنکر کرنے کے لیے اِس حکومت کے خلاف مختلف پہلوؤں میں جدوجہد کرنا ہوگی اور اِسی مقصد کے لیے آپ ؑ نے اپنی تحریک کاآغاز کیا، حکومت کو نابود کرنے اور اگر ممکن ہو تو حکومتِ حق کے قیام کے لیے اقدام کیا۔

امامؑ کی تحریک میں فریضے کی انجام دہی اور مقصد و غایت کو کیسے یکجا کیا جائے؟

سوال: بعض محققین کہتے ہیں کہ فریضے کی ادائیگی میں ہدف و غایت کو نہیں دیکھا جاتایعنی انسان پر لاز م ہے کہ ہر صورت میں اپنا فرض ادا کرے، خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہولیکن آپ نے اِن دونوں باتوں کو یکجا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِن دونوں کو یکجا کرنے کی وضاحت کس طرح کریں گے؟

اِن دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہےامام حسین ؑ کا مقصد تمام شعبوں میں حق کا احیا اور باطل کی نابودی تھااس ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ امام ؑ ایک راستہ اپنائیںامام ؑ نے وہ راستہ تلاش کیا اور اس کاآغاز حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس سے ناراضگی کے اظہار سے کیا۔

اوّلین مرحلے ہی میں جب امام ؑ نے یزید کی بیعت قبول نہ کی، تواُن کے مقصد کا ایک حصہ مکمل ہوااس مرحلے میں مقصد کے حصول کا راستہ حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس کی مخالفت تھا۔

میں پیغمبرؐ کا نواسہ اِس حکومت سے راضی نہیں، اِس کے افعال کو پسند نہیں کرتابس یہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔

۲۱

اِس عمل سے امام ؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کیا اور اپنے مقصد کو بھی حاصل کیااگر بالفرض اِس کے بعد امام حسین ؑ کوئی قدم نہ اٹھاپاتے، تب بھی اپنے مقصد تک پہنچ چکے تھےآپ ؑ کے مکہ جانے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوااگر اِس کے بعدکے مراحل بھی واقع نہ ہوتے، تب بھی امام ؑ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا اور کامیابی حاصل کرلی تھیاِس کے بعد بھی اگرامام ؑ جاتے اور حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے، تو اپنا مقصد پالیتے اور اگرحکومت حاصل نہ کرپاتے اور اِس راہ میں جامِ شہادت نوش کرلیتے، تب بھی اپنے مقصدکو حاصل کرلیتے کیونکہ آپ ؑ کامقصد امربالمعروف اور سیرتِ پیغمبر ؐ کا احیا تھا۔

حسینی تحریک کے اسباب اور مقاصد

تاریخ کے مختلف ادوارمیں رونماہونے والے بڑے بڑے انقلابات کی جمہوری یا استبدادی ماہیت اِن انقلابات کے رہنماؤں کے افکار و نظریات کی عکاس ہوتی ہے بلند پایہ اور مقدس تحریکوں کے اہداف و مقاصد اِنہیں غیر مقدس اور استبدادی تحریکوں سے جدا کرتے ہیںباالفاظِ دیگر رہنماؤں کے افکار و نظریات اور تحریکوں کے اغراض و مقاصد ہی کے ذریعے ان کے درمیان فرق قائم کیا جاتا ہے۔

آزادی بخش انقلابات، بد عنوان اور گھٹن زدہ معاشروں میں نا انصافی اور ظلم و ستم کے ردِ عمل میں رونما ہوتے ہیں۱۷۸۹ء میں رونما ہونے والا انقلابِ فرانس مزدوروں اور کسانوں پر طبقہ اشرافیہ کے المناک مظالم کا نتیجہ تھایورپ کے علمی انقلاب (رنسانس، جو سولہویں صدی عیسوی میں رونما ہوا) کا ایک بڑا سبب کلیسا کی طرف سے دانشوروں پر مسلط کردہ دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھاغلامی اور نسلی امتیازات کے خلاف رونما ہونے والے انقلابات کی وجہ بھی آقاؤں اور نسل پرست حکمرانوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی حق تلفی اور سخت گیری میں تلاش کی جانی چاہیےآزادی بخش تحریکوں کا اصل اوربنیادی مقصد عوام کو سیاسی اور اقتصادی جبر سے نجات دلانا اور انفرادی اوراجتماعی آزادیوں کا حصول تھا۔

۲۲

دینی تحریکوں کا امتیاز

تبدیلی اور انقلاب وجود میں لانے کے لیے انبیا ؑ اور اولیائے دین کے محرکات اور مقاصد دوسری تحریکوں سے مختلف ہوتے ہیں انبیا ؑ نے انسانوں کو صرف ظلم وستم سے نجات دلانے کے لیے قیام اور جد و جہد نہیں کی تھی، بلکہ وہ دوسرے مقدس مقاصد کے حصول کے لیے بھی سرگرمِ عمل رہے تھے، جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

(۱) انسانوں کو بیہودہ عقائد، گناہ زدہ زندگی، اخلاقی، اقتصادی اور معاشرتی خرابیوں سے نجات دلانااس فریضے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم فرماتا ہے:

وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ

اور (رسول) اِن پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قید و بند کواٹھا دیتا ہے۔(۱)

(۲) باطل ادیان کی یلغار سے نجات دلانا۔

(۳) خداکی بندگی کی طرف بلانا۔

(۴) لوگوں پر خدا کی حاکمیت کا قیام۔

انبیا ؑ کی تحریکیں اخلاقی اقدار اور الٰہی قوانین کے رواج کے لیے ہوتی ہیں، ذاتی اغراض و مقاصد کا اِن میں کوئی کردار اور حصہ نہیں ہوتاایسا معاشرہ جس میں عدالت اور آزادی کا چلن ہو، جہاں قانون کی نظر میں سب مساوی ہوں اور جہاں برائی اور بدعنوانیوں کوجڑ سے ختم کر دیا جائے، وہاں حکومتِ الٰہی کے قیام کے لیے حالات سازگار ہوتے ہیں اس تمہید کی روشنی میں اب ہم عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اِس کے مختلف محرکات کے بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔

--------------

۱:- سورہ اعراف۷آیت ۱۵۷

۲۳

امام حسین ؑ نے اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ برائیوں کے خلاف اقدام اٹھایا، تاکہ الٰہی اقدار اور فضیلتوں کی حکمرانی قائم کی جا سکےاس لحاظ سے عاشورا کی تحریک اور آزادی کی دوسری تحریکوں کے درمیان ہدف اور مقصد کا فرق نمایاں ہےجولوگ اس تحریک کو دوسری بشری تحریکوں ہی میں سے ایک تحریک سمجھتے ہیں، اُنہوں نے دراصل اس کے اہداف و مقاصد کو نہیں سمجھاعالی مرتبہ مسلم محققین نے بھی اس کے اسرار کے کسی خاص گوشے ہی سے پردہ اٹھایا ہے، لیکن اس کی بہت سی حکمتیں تا ہنور پوشیدہ ہیںکیا اِس تحریک کی وجہ(امام حسین ؑ کی جانب سے) یزید کی مخالفت اور اُس کی بیعت سے روگردانی تھی؟ کیا تحریک کا محرک کوفیوں کی دعوت تھا؟ یا اس کاسبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام تھا؟ یا ان مذکورہ عوامل کے علاوہ کوئی اور عامل انقلابِ کربلا کا موجب تھا؟

تحریف کرنے والے سادہ لوح افراد کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی گناہگار امت کی شفاعت کے لیے یہ قیام کیایہ طرزِ فکر عیسائیوں کے اس عقیدے کی مانند ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں۔

بعض دوسرے لوگ یزیدی حکومت کی نابودی، قبائلی رنجش اور بنی امیہ سے انتقام لینے کوامام حسین ؑ کی تحریک کا بنیادی مقصد قراردیتے ہیںکچھ مقدس اور محدث حضرات بھی امام ؑ کے قیام کو ایک خاص غیبی دستورِ عمل(program) کی پیروی قرار دیتے ہیںجبکہ اگر ایسا ہو تو یہ قیام دوسروں کے لیے درسِ عمل اور قابلِ پیروی نہیں رہتا۔

ایک اہلِ سنت عالم ” عبداﷲ علائلی“ لکھتے ہیں:

” مجھے اِن تاریخ نگاروں پر تعجب ہے جو بے انصافی کرتے ہوئے امام حسین ؑ پر بغاوت کی تہمت لگاتے ہیں اور تلخ لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیںمیں ان جوانمردوں کو داد دیتا ہوں جوبد عنوان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، تاکہ ان حالات کو بدل کر مناسب اور مطلوب حالات وجود میں لائے جاسکیں اور ان لوگوں کے اخلاص، شرافت اور عزمِ صمیم سے معمور قلوب کو آفرین کہتا ہوںان جوانمردوں کے سالار حسین ابن علی ؑ ہیں، حسین ؑ جو حق کے مدافع اور نگہبان تھے، آپ ؑ نے اس مقصد کے لیے اپنے آپ

۲۴

کو آگ میں جھونک دیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن نے یہ آگ آپ ؑ کی دعوت اور تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھڑکائی ہے لیکن امام ؑ کی آوازِ حق نے اس آگ کو اور شعلہ ور کر دیا، وہ مزید بھڑک اٹھی اور اس کے شعلوں نے ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نابود کر دیا جنہوں نے ناحق اس آگ کو بھڑکایا تھا۔“(1)

مشہور مصری مصنف ” عباس محمود عقاد“ لکھتا ہے:

” حسین ؑ الٰہی اور روحانی شخصیت کے مالک تھےان کا بپاکردہ انقلاب ان کی بلند مرتبہ، باصفا اور گہری الٰہی روح کا عکاس ہےاس کے برعکس یزید صرف اِس دنیا کی مستی، عیش وعشرت اور لذتوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کے تمام اعمال پستی میں لے جانے والے تھے۔“(2)

امام حسین ؑ کا قیام اسلام کی مانند وسیع اور جامع پہلوؤں کا حامل تھاایک طرف تو یہ تمام انبیا ؑ کے مقاصد کی تکمیل اور بقائے دین کا موجب تھا، تو دوسری طرف انسانی اقدار اور فضیلتوں کے احیااوربیدار ضمیروں اور سالم فطرتوں کو ابھارنے کاباعث بنااسی بنا پر یہ دینی تحریکوں کے رہنماؤں کے لیے آئیڈیل اورآزادی کی تمام تحریکوں کے لیے نمونہ عمل بن گیاغیر مسلم رہنما بھی اپنی قوموں کی نجات اور آزادی کے لیے، امام حسین ؑ کے انقلاب سے رہنمائی لیتے تھے۔

عاشورا کی تحریک میں چند مسائل کوبنیادی کردار حاصل ہے اوراِنہیں انقلابِ کربلا کے اصولوں میں شمار کرناچاہیےجبکہ دوسرے مسائل کو اِن کی فرع سمجھنا چاہیےیہ بنیادی مسائل درجِ ذیل ہیں:

(۱) حکومت اور خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ

حکومت کا موضوع ہمارے مکتب میں بنیادی ترین مسائل میں شمار ہوتا ہےامام محمد باقر ؑ کا ارشاد ہے:

بُنِی الْاِسْلامُ عَلیٰ خَمْسٍ:عَلَی الصَّلوٰ ةِ وَ الزَّکوٰ ةِ وَالصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَالْوِ لا یَةِ وَلَمْ یُنادَ بِشَیْ ءٍ کَمانودِیَ بَالْوِلایَهِ

--------------

1:- سمو الذات فی سمو المعنیص ۶

2:- حیات الحسین ؑ ج ۱ص ۵۶

۲۵

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:نمازپر، زکات پر، روزے پر، حج پر اور ولایت پر، لیکن جتنی (اہمیت کے ساتھ)ولایت کی طرف دعوت دی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کی جانب دعوت نہیں دی گئی۔(1)

گویا نماز، روزہ، حج اور زکات صامت احکام میں سے ہیں اور لوگوں کو عام انداز میں اُن کی طرف دعوت دی گئی ہے لیکن خداوندِ عالم نے ولایت پر خاص توجہ دی ہےکیونکہ حکومت دین کی حیات و روح اور احکام کے اجرا ونفاذکا ذریعہ ہےجس طرح باطل حکومت تمام فضیلتوں کے خاتمے اور ہر قسم کی برائیوں کی نشو و نما کا سبب ہوتی ہے، اسی طرح حکومتِ حق برائیوں کی نابودی اور معنوی اقدار اور فضائل کے رواج کا باعث ہوتی ہے۔

اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰؤُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ

اﷲ صاحبانِ ایمان کاولی ہے اور وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے، اورکفار کے ولی طاغوت ہیں جوانہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں(سور ہ بقرہ ۲آیت ۲۵۷)حکومتِ اسلامی میں حکمراں کی صلاحیت علم، تقویٰ، عدالت اور زہد و پارسائی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حکومت کے اپنے اصل راستے سے ہٹ جانے اور اہلِ بیت علیہم السلام کو ایک طرف کر دینے کے نتیجے میں طاقت اور مکروفریب کی حکمرانی کے لیے میدان ہموار ہو گیایہاں تک کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں تمام حساس عہدوں پر بنی امیہ کے افراد بیٹھ گئےحضرت علی ؑ کے بقول: وَقَامَ مَعَهُ بَنُوأَبِیهِ یَخْضَمُونَ مَالَ اﷲِ خِضْمَةَ الْاِ بِل نِبْتَةَ الرَّبِیعِ

اور ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی کھڑے ہو گئے جو مالِ خدا کواس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کوچر لیتا ہے۔ (2)

--------------

1:- وسائل الشیعہ۔ ج۱۔ ص۴

2:- نہج البلاغہ خطبہ ۳

۲۶

اِس طرح بنی امیہ کی قوت میں اضافہ ہوا اور بیت المال میں اُن کاخوردبرد اوراُن کا عیش وعشرت روز بروز بڑھنے لگااِس صورتحال پر علمی شخصیات، بزرگ اصحابِ رسول، عام افراد اورحد یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی تنبیہ بھی کارگر نہ ہوئیبلکہ لوگوں کے حقوق پر تجاوز، قانون شکنی، امت کی خواہشات اور مطالبات سے بے اعتنائی، اپنے اعزہ و اقربا کو معاملات میں شامل کرنے اور اصحابِ پیغمبر کوعلیحدہ کرنے جیسے امور بڑھنے ہی لگےممتاز افراد نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور مثبت و منفی، علانیہ اورخفیہ حکومت کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگینیک سیرت افراد، علما اور گرامی قدر محدثین کلیدی ذمے داریوں اورحکومتی مناصب سے کنارہ کش ہوگئےلہٰذا حکام نے اِس خلا کو پُرکرنے کے لیے کعب الاحبار اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کا سہارا لیااِن لوگوں نے اس حکومت کے جواز اور استحکام کے لیے احادیثِ نبوی وضع کیںحضرت عثمان کے بعد بے انصافیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کے پُرزور مطالبے پر حضرت علی ؑ بارِ خلافت اٹھانے پر تیار ہو ئےاپنے دورِ اقتدار میں آپ ؑ کو مسلسل جنگوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔

امام حسن ؑ کو بحالتِ مجبوری معاویہ سے جنگ ترک کرنا پڑیامام حسین ؑ ظلم وستم، بدعتوں کے رواج اور قتل و غارت گری کا بازار گرم دیکھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے رہے اور لوگوں کوبیدار کرتے رہے معاویہ کا سب سے بڑا مکروہ عمل یزیدکو بطورِ ولی عہد مسلط کرنا اور خلافت کو اُس کے اصل راستے سے ہٹانا ہے۔

معاویہ کی موت کے بعداپنی نفسانی خواہشات کا غلام، کتوں سے کھیلنے والا یزید مسلمانوں کا حاکم بناوہ مکالمے اور نصیحت سے ناآشنا تھااسلام کو نابود کر دینے کے سوا اس کا کوئی اورمقصدنہ تھا یہ وقت ایک ایسی تحریک کا تقاضا کر رہا تھا جو اسلام کو نابودی سے محفوظ رکھ سکےیزید خود کو امیر المو منین اورخلیفہرسول کہتا تھااس کے اس دعوے کے فریب میں صرف جاہل عوام اور لاعلم شامی ہی آ سکتے تھےالبتہ یزید کے علانیہ کفر آمیز اشعار، شراب نوشی، اور اس کے سابقہ قبیح کردار نیز بعض اصحابِ رسول کی جانب سے اس کی مخالفت نے بنی امیہ کی ” یزید کو خلیفہمسلمین کہنے کی“ خواہش پوری نہ ہونے دیلیکن یزید کی حکومت کو جائز قرار دلوانے کے لیے انہوں نے ” شریح قاضی“ جیسے لوگوں کو تلاش کرہی لیا۔

۲۷

دوسری طرف امام حسین ؑ اعلیٰ اسلامی اقدار کے احیا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھےجب آپ ؑ نے کربلا کی سمت سفر کا آغاز کیا، تو آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ سے کہا: اگر آپ ؑ سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں، تو کم از کم ان عورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ نہ لے جایئےامام ؑ نے اُنہیں جواب دیا:

وَقَدْ شٰاءَ اﷲ اَنْ یَراهُنَّ سَبٰایٰا

اﷲ کی مرضی ہے کہ یہ بھی قید کیے جائیں۔(1)

امام ؑ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کہ عاشورا کی تحریک کو ان پہلوؤں اور اس کے بعد کے حوادث کے اعتبار سے دوسری تمام تحریکوں سے ممتاز ہونا چاہیے، تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہعمل اور آئیڈیل قرار پائےایک ایسی تحریک ہو جس میں شیر خواربچے سے لے کر اسّی سالہ بوڑھا تک جانثاری اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا پرچم بلند رکھے، اپنا خون نچھاور کرے اور اِس کارواں کی خواتین کے اسیر ہوجانے کے ذریعے بنی امیہ کی استبدادی حکومت کے زوال کے لیے زمین ہموار ہو۔

(۲) اسلام کی حفاظت اور دین کا احیا

اسلام کی حفاظت امام حسین ؑ کی تحریک کا دوسرا محرک (motive)تھاجیسا کہ کہا گیا ہے بنی امیہ کے ہاتھوں اسلام کی تباہی کی راہ ہموار ہو رہی تھی، اِن کاخفیہ ایجنڈا اسلام کی نابودی اور پیغمبر اسلام ؐکے نام کو مٹانا تھایہاں ہم عاشورا کے قیام کا اصل سبب واضح کرنے کے لیے امام حسین ؑ کے کلمات اور تاریخی شواہد سے کام لیں گے۔

الف: ابوسفیان نے اپنے اقربا اور بیٹوں سے کہا تھا:

” خلافت ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہنا، تاکہ یہ تمہاری اولادوں میں وراثت کے طور پر پہنچتی رہے۔“

--------------

1:- لہوفص ۲۷

۲۸

ب: مسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:

” مطرف بن مغیرہ نے کہا کہ معاویہ کے دربار میں میرے والد کی کافی آمد ورفت تھی اوروہ اکثر معاویہ کی تعریف و تمجید کیاکرتے تھےایک روز وہ دربار سے واپس آئے تو بہت غصے میں تھے اور مضطرب دکھائی دیتے تھےمیں نے دریافت کیا: کیا بات ہے آپ کیوں دل گرفتہ اور ملول نظر آ رہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا:مجھے معلوم نہ تھا کہ معاویہ ایسا شخص ہے۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہ تو ہمارے زمانے کا سب سے زیادہ خراب آدمی ہےمیں نے پوچھا: بتایئے تو ہوا کیا ہے؟ کہا: میں نے اُس سے کہا کہ اب جبکہ تم نے اپنا مقصود حاصل کر لیا ہے، تو اپنی عمر کے ا س آخری حصے میں لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، اور بنی ہاشم کو ستاناچھوڑدو، تاکہ تمہارے بعد تمہارانام احترام اور نیکی کے ساتھ لیا جائےاِس پرمعاویہ نے کہا: افسوس، افسوس ابوبکر نے عدل و انصاف سے کام لیا لیکن دنیا سے گزر جانے کے بعد اُن کانام بھی باقی نہ بچاعمر اور عثمان بھی اسی طرح بے نام گزر گئے لیکن برادرِ ہاشم! تمام اسلامی شہروں میں ہر روز پانچ مرتبہ اذان میں اُس کی گواہی دی جاتی ہےاب نیک نامی کے لیے کونسا عمل باقی رہا ہے۔“(1)

اِس حقیقت کی عکاسی امام حسین ؑ کے کلمات اور خطبات سے بھی ہوتی ہےامام ؑ اسلام اور قرآن کے لیے پائے جانے والے ایک بڑے خطرے سے پردہ ہٹاتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اہلِ کوفہ کی دعوت اور یزید کابیعت طلب کرنا فرعی مسائل ہیں، اصل چیز بقائے اسلام اورحکومت کا قیام ہےاِس بارے میں امام ؑ کے کلمات اور خطبات ملاحظہ ہوں:

-------------

1:- مروج الذھبج ۲ص ۲۶۶

۲۹

 (۱) معاویہ کی موت سے دوسال قبل امام حسین ؑ نے مکہ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

اَمَّا بَعْدُ فَاِنَ هٰذَه الطّٰاغِیَةَ قَدْ فَعَلَ بِنٰا وَ بِشیعَتِنٰا مٰاقَدْ رَأَیْتُمْ وَعَلِمْتُمْ وَشَهِدْتُمْ وَاِنّی اُریدُ أَنْ أَسأَلَکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاِنْ صَدَقْتُ فَصَدِّ قُونی، وَاِنْ کَذِبْتُ فَکَذِّبُونی، اِسْمَعُوا مَقٰالَتی وَاکْتُبُوا قَوْلی ثُمَّ ارْجِعُوااِلیٰ اَمْصٰارِکُمْ وَقَبٰاءِلِکُمْ فَمَنْ آمَنْتُمْ مِنَ النَّاسِ وَوَثِقْتُمْ بِهِ فَادْعُوهُمْ اِلٰی مٰا تَعْلَمُونَ مِنْ حَقِّنٰا فَاِنّی أَ تَخَوَّفُ اَنْ یَدْرُسَ هَذَا الْاَمْرُ وَیَذْهَبَ الْحَقُّ وَیُغلَبَ، وَاﷲُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْکَرِهَ الْکٰافِرُونَ

اِس شخص نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو ظلم وستم روا رکھا ہواہے، وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے علم میں ہے اور آپ اس کے گواہ ہیں۔ آج میں آپ سے کچھ امورکے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوںاگر میں حقائق پیش کروں، تو میری تصدیق کیجیے گا بصورتِ دیگر بلا جھجک میری بات جھٹلا دیجیے گامیری باتوں کو سنیے اور انہیں لکھ لیجیے، پھر جب اپنے شہروں کوپلٹیے اور اپنے قبیلوں میں واپس جایئے، تو اپنے قابلِ اعتماد ہم وطنوں کو ہمارے اور ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہوں اُس کی دعوت دیجیے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ دین حق فرسودہ ہو کر سرے سے ختم ہی نہ ہو جائےاور خداوندِ قدوس اپنے نور کو مکمل کر دیتا ہے چاہے انکار کرنے والوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(1)

(۲) مدینہ میں یزید کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے جب امام ؑ سے یزید کی بیعت کا تقاضا کیا، تو آپ ؑ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:

أَیُّهَا الْأَمیرُ! انّٰا أَهْلُ بَیْتِ النُّبُوَّة وَمَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ وَمُخْتَلَفُ الْمَلاٰءِکَةِ وَبِنٰافَتَحَ اﷲُ وَبِنٰاخَتَمَ، وَیَزیدُ رَجُلٌ فٰاسِقٌ شٰارِبُ خَمْرٍ قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحَرَّمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ، وَمِثْلی لاٰیُبٰایِعُ لِمِثْلِهِ، وَلٰکِنْ نُصْبِحُ وَ تُصْبِحُونَ وَنَنْتَظِرُوَتَنْتَظِروُنَ أَ یُّنٰاأَحَقُّ بِالْخِلاٰفَةِ وَالْبَیْعَةِ

--------------

1:- مقتلِ مقرمص ۱۲۷، مقتلِ امین ص ۲۲

۳۰

اے امیر! ہم اہلِ بیتِ نبوت اور معدنِ رسالت ہیں، ہمارے ہی یہاں فرشتوں کی آمد و رفت رہی ہے، ہم ہی سے خدا نے آغاز کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گایزید ایک فاسق شخص ہے جو شراب پیتا ہے، نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور فسق و فجور کا کھلم کھلا ارتکاب کرتا ہےمجھ جیسا انسان اُس جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتالیکن ہم بھی صبح تک دیکھتے ہیں تم بھی دیکھو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں، تم بھی انتظار کرو کہ ہم میں سے کون خلافت اور بیعت کا زیادہ حق دار ہے۔(1)

(۳) مروان بن حکم سے آپ ؑ کی ملاقات ہوئی، تو اُس نے کہا کہ آپ ؑ یزید کی بیعت کر لیجیے، دنیا اور آخرت میں آپ ؑ کی بھلائی اِسی میں ہےیہ سن کر امام ؑ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:

اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ، وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان

انا ﷲ واناالیہ راجعون (یعنی اب ہمیں اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اسلام کو الوداع کہہ دینا چاہیے) اب امت یزید جیسے حاکم کے شکنجے میں آ گئی ہے میں نے اپنے نانا رسول اﷲ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐ فرماتے تھے: خلافت اولادِ ابو سفیان کے لیے حرام ہے(2)

(۴) معروف مؤرخ طبری کہتا ہے کہ امام حسین ؑ نے ” ذی حسم“ کے مقام پر درجِ ذیل مضمون کا ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ

--------------

1:- امالئصدوقص ۱۳۰

2:- مقتلِ مقرمص ۱۳۰، لہوف ص ۱۳، مثیرالاحزان ص ۱۰

۳۱

تم دیکھ رہے ہو کہ حالات کہاں پہنچ گئے ہیںدنیا بدل گئی ہے، اس کی اچھائیاں ختم ہو گئی ہیں اور برائیاں چھا گئی ہیں اب اس میں سے اتنا بچا ہے جتنا برتن کی تہہ میں بچ رہنے والے چند قطرے اور ایسی ذلت آمیز زندگی جیسے سخت اور بنجر زمین۔(۱)

اِس کے بعد فرماتے ہیں:

أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً

کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کی روک تھام کی کوشش نہیں کی جاتیایسے حالات میں مومن کو خدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہیے (2) فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً ۔میں تو ایسی موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلت (3)

سَاَمْضِی وَمٰابِالْمَوْتِ عٰارٌعَلَی الْفَتیٰ

اِذٰا مٰانَویٰ حَقّاً وَجٰاهَدَ مُسْلِماً

وَوٰاسیَ الرِّجٰالَ الصّٰالِحینَ بِنَفْسِهِ

وَفٰارَقَ مَثْبُوراًوَخٰالَفَ مُجْرِماً

فَاِنْ عِشْتُ لَمْ اَنْدَمْ وَاِنْ مِتُّ لَمْ أُلَمْ

کَفیٰ بِکَ ذُلاًّ أََنْ تَعیشً وَتَرْغَمٰا

--------------

1:- مقتلِ مقرمص ۱۳۰، لہوفص ۱۳

2:- تحف العقولص ۱۷۴، تاریخِ طبریج ۷ص ۳۰۰، لہوفص۶۹، تاریخِ ابن عساکرص ۲۱۴، مثیرالاحزانص ۲۳۰، مقتلِ خوارزمیج ۲ص ۵

3:-۔ بلاغۃ الحسین ؑ ص ۸۶

۳۲

میں یہی راہ اپناؤں گاجواں مرد کے لیے موت عیب نہیں اگر وہ حق کی راہ میں اور اسلام کی خاطر مصروفِ جہاد ہو، پھر جبکہ وہ صالح انسانوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان فدا کر دے، ظالموں سے دورہو اور مجرموں کا مخالفاگر زندہ رہا تو مجھے کوئی پشیمانی نہ ہوگی اور نہ ہی مارے جانے کی صورت میں کوئی رنج۔ جبکہ تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ تم یہ ذلت بھری زندگی بسر کرو(۱)

(۵) امام حسین ؑ نے مکہ تشریف لانے کے بعد بصرہ کے عمائدین اور سرداروں میں سے مالک بن مسمع، احنف بن قیس، منذر بن جارود، مسعود بن عمرو، قیس بن الہیثم اور عمرو بن عبید کے نام ایک خط لکھا، جس میں فرمایا:

أَمّٰابَعْدُ:فَاِنَّ اﷲَ اصْطَفیٰ مُحَمَّداً ( ص) مِنْ خَلْقِهِ، وَأَکْرَمَهُ بِنُبُوَّتِهِ، وَاخْتٰارَهُ لِرِسٰالَتِهِ، ثُمَّ قَبَضَهُ اِلَیْهِ وَقَدْ نَصَحَ لِعِبٰادِهِ وَبَلَّغَ مٰااُرْسِلَ بِهِ(ص) وَکُنّٰاأَهْلَهُ وَأَوْلِیٰاءَ هُ وَأَوصِیٰاءَ هُ وَوَرَثَتَهُ وَأَحَقَّ النَّاسِ بِمَقٰامِهِ فِی النّٰاسِ، فَاسْتَأْ ثَرَعَلَیْنٰا قَوْمُنٰابِذٰلِکَ، فَرَضینٰاوَکَرِهْنَا الْفُرْقَةَ وَأَحْبَبْنَاالْعٰافِیَةَ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنّٰاأَحَقُّ بِذٰلِکَ الْحَقِّ الْمُسْتَحَقِّ عَلَیْنٰا مِمَّنْ تَوَلاّٰهُ وَقَدْ بَعَثْتُ رَسُولِی اِلَیْکُمْ بِهٰذَا الْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اﷲِ وَ سُنَّةِ نَبیِّهِ(ص)، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ، وَالْبِدْعَةَ قَدْ اُحیِیَتْ، فَاِن تَسْمَعُوا قَوْلِی اَهْدِکُمْ اِلیٰ سَبِیلِ الرَّشٰادِ، وَالسَّلاٰمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرکٰاتُهُ

اما بعد! خدا نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مخلوقات میں سے منتخب کیا، نبوت سے اُنہیں بزرگی بخشی اور رسالت کے لیے اُن کا انتخاب کیا اور جب اُنہوں نے رسالت کے فریضے کو بحسن و خوبی انجام دے لیا اور بندگانِ خدا کی ہدایت اور رہنمائی فرما چکے، تو حق تعالیٰ نے اُنہیں اپنے پاس بلا لیاہم لوگ اُن کے اہل، وصی، وارث اور تمام امت میں اُن کے مقام کے سب سے زیادہ حقدار تھےلیکن ایک گروہ نے ہمارا یہ حق ہم سے چھین لیااور ہم نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہم ان لوگوں سے

--------------

1:- اصابہج ۳ص ۴۸۰، تاریخِ طبریج۳ص ۲۸۰، مثیر الالحزان ص ۲۸۰

۳۳

زیادہ لائق اور حقدار ہیں امت کو اختلاف اور انتشار سے بچانے اور دشمنوں کے تسلط سے محفوظ رکھنے کے لیے اِس صورتحال پر رضا و رغبت کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے امن و سکون کو اپنے حق پر ترجیح دی البتہ اب میں نے اپنا پیغام رساں تمہاری طرف بھیجا ہے اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبرؐ کی طرف دعوت دے رہا ہوںکیونکہ اب ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ سنتِ رسول ؐمٹا دی گئی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے لے لی ہےاگر تم نے میری بات سنی تو میں سعادت اور خوش بختی کے راستے کی جانب تمہاری ہدایت کروں گاوالسلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔(۱)

امام حسین ؑ اپنی شہادت، عاشورا کی تحریک کے ثمرات اوراپنے اہلِ بیت ؑ کی اسیری سے پوری طرح واقف تھے نیز آپ ؑ جانتے تھے کہ دین کی بقا اور اُس کے احیا کے لیے جہاد و شہادت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔

لَوْکُنْتُ فی جُحْرِهٰامَّةٍ مِنْ هٰذِهِ الْهَوٰامِّ لاَسْتَخْرَجُونِی حَتّٰی یَقْضُوا فیَّ حَاجَتَهُمْ

اگر میں حشرات کے بلوں میں بھی جا چھپوں، تب بھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال لیں گے تاکہ اس طرح اپنا مقصد پورا کر لیں۔

امام ؑ کے پاس صرف دو راستے تھے یا تو جہاد و شہادت کی راہ اپنائیں یا کفروگمراہی کا راستہ منتخب کریں، تیسری کوئی راہ نہ تھی ظاہر ہے امام حسین ؑ نے پہلا ہی راستہ اختیار کیاکیونکہ یزیدی حکومت اسلام کو صفحہہستی سے مٹا دینے پر کمر بستہ تھی اور عامتہ الناس کا جہل اور لاعلمی ان کے اس مقصد کی تکمیل میں ان کی مدد کر رہے تھے زیارتِ اربعین کے ایک حصے میں اس بات کی جانب اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:

وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبٰادَکَ مِنَ الْجَهٰالَةِ وَحَیْرَةِ الضَّلاٰلَةِ

اور تیری راہ میں اپناخون نچھاورکیا، تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی سرگردانی سے نجات دلائیں۔ (2)

--------------

1:- تاریخِ طبری ج ۳ص ۳۰۶، الکامل فی التاریخ۔ ج۲۔ ص ۵۵۲، احقاق الحق۔ ج۱۱۔ ص ۶۰۹، وقعہ الطف ص ۱۷۲، مقتلِ خوارزمی۔ ج۱۔ ص ۲۲۴، انساب الاشراف ج ۳ص ۱۷۱

2:- مفاتیح الجنان ص ۸۵۶

۳۴

عاشورا کا قیام صرف اس لیے نہ تھا کہ امام ؑ یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ اگر صرف بیعت نہ کرنا مقصود ہوتا، تو امام ؑ اِس علاقے سے چلے جاتے اور جزیرہ عرب سے باہر نکل جاتے جس طرح اور بہت سے لوگ فتنے کے مقام سے دور چلے گئے اور بیعت نہ کی اور نہ ہی آپ ؑ کے قیام کا محرک کوفیوں کی دعوت پر لبیک کہنا تھا کیونکہ ایک تو امام ؑ انہیں خوب اچھی طرح جانتے تھے (اور اِس بات کی جانب محمد بن حنفیہ نے بھی آپ ؑ کو متوجہ کیا تھا کہ اہلِ کوفہ بے وفا ہیں، انہوں نے آپ ؑ کے والد اور بھائی کے ساتھ بھی بے وفائی کی تھی) دوسرے یہ کہ امام ؑ کے لیے حضرت مسلم بن عقیل ؑ کی شہادت بھی کوفہ کی جانب سفر ترک کر دینے کے لیے کافی تھی۔

در اصل اِس مقدّس تحریک میں امام ؑ کے پیش نظر دو بنیادی مقاصد تھے۔

*ایک دین کو نابودی سے بچانا اور اسلام و قرآن کی بقا۔

* اور دوسرا بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ، خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ اور اِس کے موروثی ہونے کی بدعت کے خلاف جہاد۔

امام ؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، بیعت سے پرہیز اور کوفیوں کی دعوت قبول کرنے کی بابت جو کچھ فرمایا، وہ دراصل لوگوں کو آگاہ کرنے، حالاتِ حاضرہ پر اُن کی توجہ مبذول کرانے، اُن پر اتمامِ حجت کرنے اور اپنے آپ کو نام نہاد خلیفۃ المسلمین کے خلاف خروج کی تہمت سے بچانے کے لیے تھا۔

کتاب ” العواصم والقواصم“ میں ابن عربی نے لکھا ہے : ” حسین ؑ اپنے جد کی تلوار سے قتل ہوئے۔ کیونکہ جب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی اور اربابِ حل و عقد کے اجماع کے ذریعے اُس کی خلافت پر اتفاق ہوگیا، تو حسین ؑ نے بلا کسی جواز کے اپنے زمانے کے امام (یزید ) کے خلاف خروج کیا، جو اُن کے قتل کا سبب بنا۔“

یہی وجہ تھی کہ امام ؑ نے ہرہر قدم پر یزید کے فاسق و فاجر اور ظالم ہونے کا اعلان کیااور خلافت کے لیے اپنی لیاقت اور اولویت کا بار ہا ذکرکیانیز واضح کیا کہ خرابی کی جڑ حکومتِ یزید ہے اور بس۔

۳۵

(۶) امام حسین ؑ نے معاویہ کی زندگی کے آخری ایام میں اصحابِ رسول اور تابعین کو خطوط تحریر کر کے اُنہیں منیٰ آنے کی دعوت دی، اور وہاں اُن کے سامنے ایک تقریر کی۔

اِس تقریر میں حکومت کے بارے میں اُن (اصحاب و تابعین ) کی سنگین ذمے داری کی جانب اُنہیں متوجہ کرنے اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ معاشرتی امور کی باگ ڈور علمائے ربانی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے فرمایا :

فَأَنْتُمْ الْمَسْلُوبُونَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ، وَمٰاسُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَاخْتِلاٰفِکُمْ فِی الْسُنَّةِ بَعْدَالْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ، وَلَوْصَبَرْتُمْ عَلَی الْأذیٰ وَتَحَمَّلْتُمُ الْمَؤُونَةَ فٰی ذٰاتِ اﷲِ کٰانَتْ اُمُورُاﷲِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ، وَعَنْکُمْ تَصْدُرُ، وَاِلَیْکُمْ تَرْجِعُ

تم جو مقام و منزلت رکھتے تھے وہ تم سے چھین لی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ تم حق کے بارے میں تفرقے کا شکار ہوئے اور سنتِ پیغمبر کی اتباع کے واضح اور روشن راستے میں باہم اختلاف کیا اگر تم سختیوں پر صبر کرتے اور راہِ خدا میں مشکلات برداشت کرتے، تو امورِ الٰہی تمہارے سپرد ہوجاتے، حکومتی معاملات کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں ہوتی، تم فیصلے صادر کرتے اور لوگ اپنی حاجات کے سلسلے میں تم سے رجوع کرتے۔

وَلٰکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ، وَأَسْتَسلَمْتُمْ اُمُورَاﷲِ فِی أَیْدیهِمْ یَعْمَلُونَ بِالشُّبُهٰاتِ وَ یَسیرُونَ فِی الشَّهَوٰاتِ

لیکن تم نے رضا آمیز خاموشی کے ذریعے قوت و قدرت ظالموں کے لیے چھوڑ دی، امورِ الٰہی اُن کے سپرد کر دیے، تو اب وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور شہوات و خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں(۱)

(۷) مکہ یا بیضہ کے مقام پر آپ ؑ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں اللہ رب العزت کی حمدو ثناکے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے آغاز کیا اور فرمایا :

--------------

۱:- تحت العقول ص ۲۳۷

۳۶

أَیُّهَاالنَّاسُ !اِنَّ رَسُولَ اﷲِ (ص) قٰالَ:مَنْ رَأیٰ سلْطٰاناً جٰائراً مُسْتَحِلّاًلِحَرامِ اﷲِ، نٰا کِثاً لِعَهْدِاﷲِ، مُخَالِفاً لِسُنَّنهِ رَسُولِ اﷲِ، یَعْمَلُ فِی عِبٰادِاﷲِ بِالْاِ ثْمِ وَالْعَدْوٰانِ، فَلَمْ یُغَیِّرْعَلَیْهِ بِفِعْلٍ وَلاٰ قَوْلٍ، کٰانَ حَقَّاً عَلَی اﷲِ أَنْ یُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ

اے لوگو ! رسول اﷲ ؐ نے فرمایا ہے: جو کوئی بھی ایسے ظالم حکمراں کو دیکھے جو خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال قرار دے، اﷲ رب العزت سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرے، سنتِ رسول کی مخالفت کرے اور لوگوں سے ظالمانہ سلوک کرے، تو اُس (شخص) پر واجب ہے کہ اپنے قول یا عمل سے اس حکمراں کی مخالفت کا اظہار کرے اگر وہ ایسا نہ کرے، تو خداوندِ عالم کو حق ہے کہ اسے بھی اِس ظالم حکمراں کے ٹھکانے میں جگہ دے۔

اِس کے بعد فرمایا:

اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوابِالْفَیْءِ، وَأَحَلّوُا حَرٰامَ اﷲِ، وَحَرَّمُواحَلاٰلَهُ، وَأَنٰا أَحَقُّ مَنَ غَیَّرَ“

دیکھو اِن لوگوں نے خود کو شیطان کی پیروی کا پابند کر لیاہے، خدا کی اطاعت ترک کردی ہے، بُرائیوں کو علانیہ کر دیا ہے، حدودِ الٰہی کو معطل کیے ہوئے ہیں، اور (میں حسین ابن علی ؑ ) اِس صورتحال پر ردِعمل کے اظہار اور معاشرے میں انقلاب اور تبدیلی کے لیے اقدام کا دوسروں سے زیادہ ذمے دار ہوں۔(۱)

(۸) امام حسین ؑ نے متعدد مواقع پر خلافت کے لیے اپنی لیاقت کی جانب اشارہ کیا اور اسی پر اپنی جدوجہد کی بنیاد استوار کی حضرت ؑ نے نمازِ ظہر کے موقع پر ” حرا بن یزید ریاحی“ کے سامنے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

أَمّٰابَعْدُ، أَ یُّهَاالنَّاسُ! فَاِنَّکُمْ اِنْ تَتَّقُواﷲ وَتَعْرِفُوا الْحَقَّ لِاَهْلِهِ یَکُنْ اَرْضیٰ لِلّٰهِ، وَنَحْنُ اَهْلُ بیْتِ مُحَمَّدٍ اَوْلیٰ بِوِلاٰیَةِ هٰذَاالْأَمْرِ مِنْ هٰؤُلاٰءِ الْمُدَّعینَ مٰا لَیْسَ لَهُمْ وَالسّٰائرینَ بِالْجَوْرِوَالْعُدوٰانِ

--------------

۱:- کامل ابن اثیرج۲۔ ص۵۵۲، لہوف ص۳۴، اعیان الشیعہج۱ص۵۹۶، وقعہ الطف ص۱۷، بحارالانوار ج۴۴۔ ص۳۷۷

۳۷

لوگو ! اگر تم خوفِ خدا کرو اور اِس بات کو مانو کہ حق حقداروں کے پاس ہوناچاہیے، تویہ خوشنودئ خدا کا باعث ہو گا۔ اور ہم اہلِ بیتِ پیغمبر لوگوں کی ولایت و رہبری کے لیے اِن (بنی امیہ) سے زیادہ اہل اور لائق ہیں، جو ناحق اِس مقام کے دعویدار بن بیٹھے ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ ظلم و ستم اور خدا سے دشمنی کا راستہ اختیار کیا ہے۔(1)

امام حسین ؑ کی تحریک ایک ایسی حکومتِ حق کے قیام کے لیے تھی جو بقائے اسلام کی ضامن ہو۔ آپ ؑ کا اپنے وصیت نامے میں شہادتین کے اظہار اور قبر و قیامت کی حقانیت کے اعتراف کے بعد یہ فرمانا کہ:” وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً“ ( میں سرکشی کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے ) اس لیے تھا کہ اپنی تحریک کو دشمنوں کی تہمت اور ناروا الزامات سے محفو ظ رکھیںمبادا وہ آپ ؑ کو خارجی اور مرتد کہیں(نعوذباﷲ)۔ اُسی طرح جیسے انہی لوگوں نے حضرت علی ؑ کو(نعوذباﷲ) کافر اور تارک الصلوٰۃ کہا تھا۔

امام ؑ نے اپنے کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا :

وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی

میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں۔

آپ ؑ اپنی تحریک کوامت کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھےوہ امت جس پر ظلم و ستم، جرم و جنایت کی حکومت تھی اور جس کا حاکم بغیر کسی خوف اورڈر کے اسلام کو مٹانے کے راستے تلاش کر رہا تھا، بے جھجک کفر آمیز اشعار پڑھتا تھا آپ ؑ نے دورانِ تحریک جب کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کیا، تو آپ ؑ کے پیش نظر حکومت ہوا کرتی تھی عوام نہیں۔ جس طرح منیٰ میں اپنے خطاب کے دوران سورہتوبہ کی آیت نمبر۷۱ کی تلاوت کے بعد فرمایا :

--------------

۱:- مقتلِ خوارزمی ج۱ص۲۳۲، الفتوحج۵ص۸۷، تاریخِ طبریج۳۔ ص ۳۰۶

۳۸

فَبَدَأَﷲُ بِالْأَمْرِبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِفَریضَةً مِنْهُ لِعِلْمِهِ بِأَنَّهٰا اِذٰااُدِّیَتْ وَاُقیمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرٰاءِضُ کُلُّهٰا هَیِّنُهٰاوَصَعْبُهٰا، وَذٰلِکَ أَنَّ الْأَمْرَبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِدُعٰاءٌ اِلَی الْاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَمُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ، وَقِسْمَةِ الْفَیْیءِ وَالْغَنٰاءِمِ وَأَخْذِالصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِهٰا وَوَضْعِهٰا فِی حَقِّهٰا

(مذکورہ آیہ کریمہ میں ) خداوندِ عالم نے پہلا فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دیا ہے، سب سے پہلے اسی کو واجب کیا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ فریضہ انجام دیا جاتا رہے اور لوگ اس حکم کی پابندی کریں، توسارے سخت اور سہل فرائض خودبخودادا ہو جائیں گےامر بالمعروف اور نہی عن المنکر درحقیقت لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا، مظلوموں کے حقوق کی بازیابی، ظالموں کی مخالفت، لوگوں کے مال اور جنگی غنائم کی عادلانہ تقسیم، صدقات کی صحیح صحیح جگہوں سے وصولی اور اُن کی درست تقسیم ہے۔

یہ ہماری مختصر گزارشات تھیں امام حسین ؑ کی تحریک کے اسباب اور مقاصد کے بارے میں، امید ہے امام ؑ کی راہ پر چلنے والوں کے لیے مفید اور قابلِ تقلید ثابت ہوں گی۔

۳۹

فہرست

عرضِ ناشر 2

امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟ 3

امر بالمعروف اور نہی عن المنکراپنی اصلاحی تحریک کے لیے امام ؑ کا وسیلہ 5

اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐ سے اسلامی معاشرے اور حکومت کا انحراف.. 6

امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا 7

اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور 7

ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔ 8

انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔ 8

یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔ 8

فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔ 8

۴۰