عبادت و نماز

عبادت و نماز0%

عبادت و نماز مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 100

عبادت و نماز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 100
مشاہدے: 40535
ڈاؤنلوڈ: 3767

تبصرے:

عبادت و نماز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 100 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40535 / ڈاؤنلوڈ: 3767
سائز سائز سائز
عبادت و نماز

عبادت و نماز

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عبادت و نماز

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ترجمہ: سید سعید حیدر زیدی

۱

عرضِ ناشر

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں اور متعدد آیات موجود ہیں، جو ماہِ رمضان اور شب ِ قدر میں نزولِ قرآن پر دلالت کرتی ہیںجیسے سورہ ٔقدر کی پہلی آیت اور سورہ ٔدخان کی تیسری آیت۔

”اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ“

”بے شک ہم نے اسے (یعنی قرآن ِمجید کو) شب ِ قدر میںنازل کیا ہے۔“(سورہ قدر۹۷۔ آیت۱)

”اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیلَةٍ مُّبٰرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ“

”ہم نے اس( قرآن) کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے، ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تھے“(سورہ ٔدخان۴۴آیت۳)ان آیاتِ قرآنی سے بخوبی یہ بات روشن ہے کہ قرآنِ مجید، پیغمبر اسلامؐ پرماہِ مبارک رمضان میں نازل ہوا ہےالبتہ اس مہینے میں آنحضرتؐ پر نزولِ قرآن کی کیفیت کیا تھی؟ اس بار ے میں ایک علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے، جس کا یہاں موقع نہیں۔زیر نظر رسالہ عبادت اورنماز کے موضوع پر استادشہید مرتضیٰ مطہری کی چار تقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ تقاریر رمضان المبارک۱۳۹۰ ھ میں حسینیہ ارشاد تہران میں کی گئیںان تقاریر میں شہید مطہری نے اسلام میں عبادات و معنویات کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے، خداوندِ عالم پر ایمان اور عبادات کے تربیتی اثرات پر گفتگوکی ہے اورفقط انہی میں ڈوب کے رہ جانے، یا انہیں یکسر نظر انداز کردینے کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے ایک جامع اور دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی اور فلاح کے طالب دین ہونے کی وکالت کی ہے۔تقریر اور تحریر، اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے دو ذرائع ہیں ان میں سے ہر ایک کا اپناعلیحدہ انداز اور مخصوص اثرہوا کرتاہےمقرر اپنی حرکات و سکنات اور چشم و ابرو کی جنبش کے ذریعے بھی پیغام دیتا ہے، جبکہ تحریر اس سہولت سے محروم ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی تقریر کو اسکی پوری تاثیر کے ساتھ قلم بند کرنا ممکن نہیں۔ زیر نظر تقاریر کا ترجمہ کرتے ہو ئے کوشش کی گئی ہے کہ انکا تقریری انداز بھی محفوظ رہے اور ان میں کی جانے والی گفتگو بھی تحریر کی صورت میں پوری پوری پہنچ جائے۔ ہم اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے اس سے ہمیں قارئین مطلع کریں گے۔

امید ہے ہماری دوسری مطبوعات کی طرح یہ کتاب بھی قارئین میں مقبول ہوگی۔

۲

احیا

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو۔ (سورہ بقرہ ۲آیت ۱۵۳)

ہم اپنی بحث کا آغاز اسی کلمے ”احیا“ سے کرتے ہیںجیسا کہ ہم نے عرض کیا ”احیا“ یعنی زندہ کرنا، اسکی ضد ”اماتہ“ہے، یعنی مارنا۔ اس لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رات، جو انسان کے وقت کا ایک حصہ ہے، اسکی دو حالتیں ہیں، ممکن ہے کسی کی شب زندہ ہو، اور ممکن ہے اسکی شب مردہ ہو۔ زندہ شب، وہ شب ہے جس میں انسان پوری رات، یا کم از کم اس رات کے ایک حصے کو ذکرِ الٰہی، مناجات اور ذاتِ پروردگار سے راز و نیاز میں بسر کرےاورمردہ شب، و ہ شب ہے جس میں انسان تمام رات پروردگارکی مقدس ذات سے غفلت اور فراموشی کی حالت میں رہے۔

ممکن ہے کوئی یہ خیال کرے کہ یہ تعبیر ایک مجازی تعبیر ہےایک قسم کا تکلف ہے۔ کوئی رات زندہ اور مردہ نہیں ہوتی، رات آخر رات ہے، وقت ہےوقت کاوہ حصہ جس میں کرہ زمین کا وہ نصف حصہ جس پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں سورج کے سامنے نہیں ہوتا اور اس پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی، اسے رات کہا جاتا ہے۔ رات بہر صورت رات ہے، رات کی نہ زندگی ہوتی ہے اور نہ اسکی موت۔

یہ بات صحیح ہےلیکن وہ شخص جو کہتا ہے کہ احیا، رات میں جاگتے رہنا، اسکی مراد یہ نہیں ہے کہ آپ وقت کے اس حصے کو جگاکے رکھئے، بلکہ جاگے رہنے سے مراد وقت کے اس حصے میں خود آپ کاجاگے ہونا ہے۔

اور زیادہ دقیق عبارت میں، جیسا کہ ابتداً تصور ہوتا ہے اسکے برخلاف، ہم خیال کرتے ہیں کہ وقت ایک چیز ہے جس کے اندر ہم سب داخل ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہےوہ وقت جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہم سب اسکے اندر داخل ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہےوہ وقت جس کی بنیاد پر ہم حساب لگاتے ہیں، گھنٹوں، منٹوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا حساب کرتے ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہے، وہ اس زمین کا وقت ہےہمارا وقت ہمارے اپنے وجود سے متحد ایک حقیقت ہے، ہمارے وجود کا حصہ

۳

ہےہماراوقت، ہمارے وجود کاوقت، خود ہم سے علیحدہ اور جدا نہیں ہےدراصل ہوتایہ ہے کہ ہم اس وقت کاحساب، جس کی ایک مقدار ہوتی ہے، زمین کے وقت سے کرتے ہیں، اس کے مطابق کرتے ہیں، اسکے بعد یہ تصور کرتے ہیں کہ وقت ایک چیز ہے اور ہم سب اسکے اندر ہیں۔ نہیں میراوقت ایک چیز ہے اور آپ کاوقت ایک دوسری چیز ہےیعنی وہ خود آپ سے مخصوص ہےاسی طرح جیسے آپ کا قد مثلاً ایک سو ساٹھ سینٹی میٹر ہے، یہ کمیت اور مقدار آپ کی چیزہے، اور میرا قد جوایک سو ستّر سینٹی میٹر ہے، وہ مجھ سے مخصوص ہے۔ آپ کا ایک قد اور سائز ہے، اورمیرا بھی اپنا ایک مخصوص قد اور سائز ہے (اب یہ ایک دوسرے کے برابر ہوں یا نہ ہوں، ایک علیحدہ بات ہے) آپ کا وجود کیونکہ ایک متحرک، سیال اور متغیر وجود ہے، اس لئے خود آپ کے اپنے اندرایک وقت ہے اور میں بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہوںوہ پھول بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہے، وہ درخت بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہے، یہ پتھر بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہےاورہر چیزکے اندر پایا جانے والا وقت، عین اس چیز کا وجود ہوتاہے۔

اب جبکہ ہم نے اس نکتے کو سمجھ لیا ہے، شبِ قدر میں احیا کے معنی بھی ہماری سمجھ میں آگئے ہیں۔ وقت کو ز ندہ رکھیں، یعنی ہم خود اپنے وقت کو زندہ رکھیں، ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر موجود وقت کو زندہ رکھے۔

وہ وقت جو ہمارے اندر موجود ہے، وہ کیا ہے؟

وہ خود ہم ہیں، ہم سے جدا کوئی چیز نہیں ہےپس ہم خود اپنے وقت کو خود اپنی شب کو زندہ رکھیں یعنی ہم خود ایک رات واقعاً زندہ رہیں، واقعاً زندہ بسر کریں، نہ کہ مردہ بسر کریں۔

اخبار و احادیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن انسان پر گزرنے والی چیزوں کو، اُس پر گزرنے والے زمانے کو انسان کے سامنے پیش کیا جائے گا، اوروہاں مختلف انسان نظر آئیں گےکبھی انسان کوایک ایساموجود دکھائی دے گا جس کا کچھ حصہ سیاہ اور تاریک ہے اور کچھ حصہ سفید اور چمکداراس سے مختلف ایک انسان اپنے آپ کو دیکھے کہ اُس کازیادہ تر حصہ سیاہ ہے، جبکہ ایک اور انسان دیکھے گا کہ اُس کابیشتر حصہ سفید اور براق ہے۔ ممکن ہے کوئی انسان ایسا بھی ہو جسے اپنے اندر صرف چند ہی سیاہ نقطے دکھائی دیں، پورا

۴

کا پورا سفید نظر آئے، جبکہ ایک دوسرااسکے برعکس ہو اور وہ اپنے اندر صرف چند ہی سفید نقطے دیکھے، بقیہ پوراکا پورا اسے سیاہ نظر آئے۔

وہ تعجب کرے گا }اور پوچھے گا {کہ یہ کیا چیز اسکے سامنے پیش کی گئی ہے؟ کہیں گے کہ: یہ تمہارا وقت ہے، یہ تمہاری عمر ہے۔ وہ لمحات جن میں تم نے اس وقت کو، اس عمر کو روشن اور نورانی رکھا تھا، ان لمحات میں جب تم محو پرواز تھے، جذبے اور ولولے کے ساتھ تھے، عشق کے ہمراہ تھے، تمہارا دل اپنے خدا کی یاد سے زندہ تھا، وہ لمحہ، وہ نورانی اور چمکدار لمحہ ہےوہ لمحہ جب تم نے کسی کی خدمت کی تھی، کوئی مفید کام انجام دیا تھا، وہ تمہارا نورانی لمحہ ہےلیکن وہ لمحہ جس لمحے میں تم غافل رہے تھے، شہوات میں غرق رہے تھے، تم نے خدا کی رضا کے برخلاف قدم اٹھایاتھا، وہ تمہاری عمر کے سیاہ اور تاریک اوقات ہیںیہ تمہارا وقت ہے، تمہاری عمر ہے۔

روحِ عباد ت یادِ خدا

یادِ خدا، روحِ عبادت ہےعبادت کی روح یہ ہے کہ جب انسان عبادت کر رہا ہو، کوئی نماز پڑھ رہا ہو، کوئی دعا کر رہا ہو الغرض کوئی بھی عمل انجام دے رہا ہو، تو اس کا دل اپنے خدا کی یادمیں زندہ ہو:وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ (۱) قرآن کہتا ہے نماز قائم کروکس لئے؟ اس لئے کہ میری یاد میں رہوایک دوسری جگہ قرآنِ کریم فرماتا ہے :اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ (۲) اس آیت میں نماز کی خاصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ وہ نماز جو حقیقی ہو، جو واقعی نماز ہو، ایسی نماز ہو جو صحیح شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی گئی ہوفرماتا ہے: اگر انسان حقیقتاً نماز پڑھنے والا ہو اور صحیح نماز پڑھے، تو خود نماز انسان کو نازیبا کاموں اور منکرات سے روکتی ہےمحال ہے کہ انسان درست اور مقبول نماز پڑھے اور جھوٹا ہومحال ہے کہ انسان صحیح اور درست نماز پڑھے اور اس کا دل غیبت کرنے کو چاہے۔ محال ہے کہ انسان درست اور صحیح نماز پڑھنے والا ہو اور اس

--------------

۱:- اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (سورہ طہ ۲۰آیت ۱۴)

۲:- نماز ہر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے، اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ہے۔ (سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

۵

کی شرافت اسے شراب خوری کی طرف جانے کی اجازت دے، وہ بے حیائی کی طرف جائے، کسی بھی دوسرے نازیبا کام کی طرف قدم اٹھائے نماز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو عالمِ نورانیت کی طرف لے جاتی ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت ہے، جو معروف کتاب ”مصباح الشریعہ“ میں نقل ہوئی ہےہمارے پاس ”مصباح الشریعہ“ نامی ایک کتاب ہے، جسے بہت سے بزرگ علما معتبر سمجھتے ہیں، جبکہ بعض علما، جیسے مرحوم (علامہ) مجلسی، اس کتاب کو خاص معتبر نہیں سمجھتے، اس اعتبار سے کہ اسکے مضامین کچھ عرفانی مضامین پر مشتمل ہیں۔ البتہ یہ ایک معروف کتاب ہےحاجی نوری، سید بن طاؤوس اور ان جیسے دوسرے حضرات اس کتاب سے نقل کرتے ہیں اس کتاب میں بکثرت احادیث ہیں۔فضیل بن عیاض نام کا ایک شخص ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کا معاصر ہے، اُس کا شمار معروف لوگوں میں ہوتاہے، ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنی عمر کا ایک حصہ گناہ، فسق و فجور، چوری، ڈاکے اور اسی قسم کے دوسرے مشاغل میں بسر کیا ہےبعد میں اس میں ایک عجیب روحانی انقلاب پیدا ہوتا ہے اوروہ اپنی بقیہ عمر (اپنی آدھی عمر) تقویٰ، زہد، عبادت اور معرفت و حقیقت کی تلاش میں بسر کرتا ہے۔ اسکی داستان معروف ہےوہ ایک مشہور چور تھا، نقب زن، وہ خود اپنی داستان کچھ یوں بیان کرتا ہےکہتا ہے: ایک رات میں نے ایک گھر کو نظر میں رکھا ہوا تھا، کہ آج رات اس گھر میں چوری کروں گااس گھر کی دیوار بلند تھیآدھی رات گزر چکی تھی۔ میں دیوار کے اوپر چڑھا، جب میں دیوار کے اوپر پہنچا اور چاہا کہ نیچے اتروں، تو ہمسائے کے کسی گھر میں (یا اسی گھر کے اوپر) ایک عابد، زاہد اور متقی شخص، ایسے لوگوں میں سے ایک شخص جو اپنی راتوں کو بیداری کے عالم میں بسر کرتے ہیں، قرآن پڑھنے میں مشغول تھا، بہت اچھے انداز اور انتہائی خوبصورت لحن کے ساتھ(۳)

--------------

۳:-آپ جانتے ہیں کہ قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنا(تجوید یعنی خوبصورت بنانا) یعنی حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا، اچھے انداز میں پڑھنا، ایسا انداز جو الحانِ اہلِ فسق نہ ہو، ایک ایسے اندازسے پڑھنا جو قرآن سے تناسب رکھتا ہو قرآنی سنتوں میں سے ہے اور ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام خود اس میدان میں دوسروں سے آگے تھےہماری روایات میں ہے کہ امام محمد باقرعلیہ السلام اور امام سجادعلیہ السلام، انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن پڑھا کرتے تھےجب گھر کے اندرسے آپ کے قرآن پڑھنے کی آواز بلند ہوتی، تویہ آواز سن کر گلی سے گزرنے والوں کے قدم وہیں جم کے رہ جاتے (اس زمانے میں مدینہ میں سقے گھروں میں پانی پہنچایا کرتے تھے) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سقے پانی کی مشکیں اٹھائے ہوئے، باوجود یہ کہ انہیں زحمت کے ساتھ اٹھائے ہوتے تھے، جب وہاں پہنچتے تو یہ بھاری بوجھ اُٹھائے ہونے کے باوجود قرآن کی یہ دلنشیں تلاوت سننے کے لئے کھڑے ہو جاتےوہ عابد شخص اس قرآنی سنت کے ساتھ مطابق آدھی رات کے وقت قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا اور اپنے کمرے میں خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔

۶

جب میں دیوار کے اوپر پہنچا تواتفاقاً قرآن کا وہ قاری اور عابدشخص اس آیت پر تھا:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ (۴) ظاہر ہے فضیل عرب تھا، معنی سمجھتا تھااس آیت کے معنی یہ ہیں کہ :کیا وہ وقت نہیں آیا جب با ایمان لوگوں کے دل، ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے دل، خدا کی یاد قبول کرنے کے لئے نرم ہوجائیں؟ کب تک قساوتِ قلبی رہے گی؟ کب تک غفلت و بے خبری رہے گی؟ کب تک نیندکی حالت طاری رہے گی؟ کب تک حرام خوری میں مبتلا رہیں گے؟ کب تک دروغ گوئی اور غیبت کریں گے؟ کب تک شراب خوری اور قمار بازی کے مرتکب رہیں گے؟ کب تک نافرمانی میں مصروف رہیں گے؟

یہ خدا کی آواز ہے، اسکے مخاطب بھی ہم تمام لوگ ہیںخدا ہم سے بات کر رہا ہےاے میرے بندے، اے مسلمان! وہ وقت کب آئے گا جب یادِ خدا کے لئے تیرا دل نرم ہو جائے، جب توخدا کی یاد کے لئے خاضع اور خاشع ہو جائے؟

اس عابد شخص نے اس انداز سے اس آیت کو پڑھا کہ فضیل، جو دیوار پر چڑھا ہوا تھا، اُسے یوں محسوس ہوا کہ خود خدا اپنے بندے فضیل سے مخاطب ہےوہ کہتا ہے: اے فضیل! تو کب تک چوری اورڈاکا زنی اور لوٹ مار کرے گا؟

یہ آیت سُن کر فضیل لرز کر رہ گیا اور یکلخت پکار اٹھا: خدایا! بس اب وہ وقت آن پہنچا ہےپھر وہ اُسی وقت دیوار سے اتر آیااور توبہ کی، سچی توبہ، ایسی توبہ جس نے اُس شخص کو اوّل درجے کا عُبّاد بنا ڈالااس حد تک کہ تمام لوگ اُس کااحترام کرنے لگے۔

وہ ایسا شخص نہ تھا جو ہارون الرشید کے دربار میں حاضری دےہارون الرشید کو فضیل بن عیاض سے ملاقات کی بڑی آرزو تھی، لیکن کہتے ہیں کہ فضیل کبھی ہارون کے دربار میں نہیں آتے تھے۔ ہارون کہتا ہے کہ اگر فضیل نہیں آتے، تو میں چلا جاتا ہوںایک مرتبہ وہ فضیل کے پاس گیاوہ ہارون ہے، ایک مقتدر خلیفہ ہے، دنیا میں بہت کم بادشاہ ایسے گزرے ہیں

--------------

۴۔ کیا صاحبانِ ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکرِ خدا اور اُس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہوجائیں۔ (سورہ حدید ۵۷آیت ۱۶)

۷

جن کی مملکت کی وسعت اس کی مملکت کے برابر ہو، وہ دنیا کے مقتدر ترین سلاطین میں سے ایک ہےایک فاسق اور فاجر شخص ہےایک ایسا شخص ہے جو رات رات بھر شراب نوشی، رقص و سرود اور اسی قسم کی باتوں میں مشغول رہا کرتا ہے وہ فضیل کے پاس آتا ہے۔ وہی فضیل اپنی گفتگو کے چند جملوں سے (اسے منقلب کر دیتے ہیں) وہاں موجود تمام لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ فضیل کے سامنے ہارون انتہائی چھوٹا دکھائی دے رہا تھا، اور اسکی آنکھوں سے آنسو برسات کی طرح جاری تھے۔ فضیل اُسے وعظ و نصیحت کر رہے تھے، اسکے

سامنے اسکے ایک ایک گناہ کو گنوا رہے تھے۔ فضیل بن عیاض اس قسم کے شخص تھےوہ اس حالت میں، جو انہوں نے اس دور میں پیدا کی، تقویٰ اور معرفت کے اس درجے پر پہنچ گئے، امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر تھے اور انہوں نے ہارون یعنی امام موسیٰ ابن جعفر (الکاظم) کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔

کتاب ”مصباح الشریعہ“ ایک ایسی کتاب ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور امام سے چند مسائل کے بارے میں سوال کیا اور امام نے مجھے یہ جوابات دیئےظاہر بات ہے کہ جب اس قسم کا عارف، با معرفت، متقی اور زاہد انسان امام کی خدمت میں حاضر ہو گا، تو یہ کسی ایسے ساربان کے آپ کی خدمت میں جانے سے بہت مختلف ہو گا جو مثلاًشکیات (نماز) کا کوئی مسئلہ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوقدرتی طور پر اسکے سوالات، ایک درجہ بلند تر ہوں گے اور امام کے جواب بھی دوسروں کو دیئے جانے والے جوابات سے ایک درجہ بلند سطح کے ہوں گےقدرتی طور پر یہ کتاب ایک بلند درجہ کتاب ہےمثلاً امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کتاب میں اسرارِ وضو بیان کئے ہیں، اسرارِ نماز بیان کئے ہیں۔

۸

امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث

وہ جملہ جس سے ہم استدلال کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں ہےاور آپ نے اس جملے کو کم و بیش عرفانی کتب میں دیکھا ہو گاامام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل سے فرمایا:یا فُضَیلُ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ (انتہائی عجیب جملہ ہے، اور ایک لحاظ سے ہلا دینے والا جملہ بھی ہے) فضیل! کیا تم جانتے ہو کہ عبودیت کیا ہے؟ کیا جانتے ہو عبودیت کیسا گوہر ہے؟ عبودیت ایک ایسا گوہر ہے کہ اس کا ظاہر عبودیت ہے اور اس کا کنہ، نہایت اور باطن، اسکی آخری منزل اور ہدف ربوبیت ہے۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا امام جعفر صادق علیہ السلام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عبودیت کی ابتدا بندگی ہے اور اسکی انتہا خدائی؟ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ، بندگی کے راستے خدائی تک پہنچ جاتا ہے؟ نہیں، ائمہ علیہم السلام کی تعبیروں میں کسی صورت اس قسم کی کوئی تعبیر نہیں آ سکتیاہلِ عرفان دوسرے لوگوں پر طنز کرنے کے لئے، جو معانی نظر میں رکھتے ہیں، کچھ تعبیریں استعمال کرتے ہیں، تاکہ دوسرے ہل کے رہ جائیں، انہیں جھٹکا لگے، یہ ایک طرح سے لوگوں کوچھیڑناہوتا ہےمثلاً مولانا روم یا شبستری کے یہاں اس قسم کی تعبیریں ملتی ہیں، شبستری کہتے ہیں:

مسلمان گربدانستی کہ بت چیست

بدانستی کی دین در بت پرستی است

یہ انتہائی عجیب بات ہےلیکن اس سے مراد وہ نہیں ہے جو اسکے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ شعرایک صحیح مراد کا حامل ہےایک مقام پر اُس نے کہا ہے کہ بقول خود اُس کے اُس نے زاہد نما افراد کوچھیڑا ہے ایک معروف شعر ہے، جسے مولانا روم سے منسوب کیا جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم یہ مثنوی میں ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں:

از عبادت می توان اﷲ شد

فی توان موسیٰ کلیم اﷲ شد

۹

انتہائی عجیب (کلام) ہےکہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعے موسیٰ کلیم اﷲ نہیں بنا جا سکتا لیکن عبادت کے ذریعے اﷲ بننا ممکن ہے!مراد کیا ہے؟ یہ حدیث جس کے ہم آپ کے لئے معنی کر رہے ہیں، اسکی روشنی میں اس شعر کے معنی بھی واضح ہو جائیں گے۔

دراصل ربوبیت کے معنی ہیں تسلط، خداوندگاری، البتہ خدائی نہیںخدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے خداوند گاری، یعنی مالک ہونا، صاحبِ اختیار ہونااصحاب الفیل کے قصے میں جب ابرھہ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے آیا، تووہ وہاں بیابان میں موجودحضرت عبدالمطلب کے اونٹوں کوپکڑکر اپنے ساتھ لے گیاعبدالمطلب ابرھہ کے پاس گئےحضرت عبدالمطلب کے قیافے، شخصیت اور عظمت نے ابرھہ کو انتہائی متاثر کیا، یہاں تک کہ وہ سوچنے لگا کہ اگر اس مردِ بزرگ نے سفارش کی اور مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کعبہ کے خلاف اقدام نہ کروں، اور اسے نہ ڈھاؤں، تو میں اسے مسمار نہیں کروں گا۔ لیکن اسکی توقع کے برخلاف، جب حضرت عبدالمطلب نے بات کی تو فقط اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کی، کعبہ کے بارے میں ایک لفظ تک نہ کہاابرھہ کو تعجب ہوا، وہ بولا: میں تو آپ کو انتہائی بزرگ انسان سمجھا تھا، میرا خیال تھا کہ آپ کعبہ کی سفارش کرنے کے لئے آئے ہیںلیکن میں نے دیکھا کہ آپ تو اپنے اونٹوں کی سفارش کر رہے ہیںحضرت عبدالمطلب نے بھی اسے ایک خوبصورت جواب دیافرمایا:اَنارَبُّ الْاِبِلْ وَ لِلْبَیْتِ رَبُّ (میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے)

”رب“ یعنی مالکہم جو خدا کو رب کہتے ہیں، تو اس عنوان سے کہ وہ تمام عالم اور تمام عالموں کامالکِ حقیقی ہےہم کہتے ہیں:اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ شکر و سپاس اس خدا کے لئے جو مالک ہے، تمام عالموں کا مالک ہےپس ”رب“ کے حقیقی معنی ہیں مالک اور خداوند گار اور ربوبیت یعنی خداوند گاری، خدائی نہیں۔ خدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے۔ جو کوئی جس چیز کا مالک ہے، وہ اس چیز کا رب اور خداوند گار بھی ہے۔

اب اس حدیث کے کیا معنی ہیں، جس میں امام نے فرمایاہے کہ: عبودیت ایک ایسا جوہر ہے جس کی انتہا اور کنہ ربوبیت ہے۔

۱۰

ایک نہایت خوبصورت نکتہ ہےعبودیت اور خدا کی بندگی کی خاصیت یہ ہے کہ جس قدر انسان خداکی بندگی کے راستے کو زیادہ طے کرتا ہے، اسی قدر اُس کے تسلط، قدرت اور خداوندگاری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کس طرح؟ ہم اس نشست میں فقط ایک انتہائی چھوٹا سا موضوع آپ کی خدمت میں عرض کر رہے ہیں، اس کے بعض دوسرے مسائل کی ایک فہرست عرض کر رہے ہیں لیکن ایک موضوع کو کھول رہے ہیں۔

ربوبیت کا اوّلین درجہ: اپنے نفس پر تسلط

عبودیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ربوبیت اور خداوند گاری کا اوّلین درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا رب اور مالک ہو جاتا ہے، اپنے نفس پر تسلط اور غلبہ حاصل کر لیتا ہےہماری بے چارگیوں میں سے ایک بے چارگی، جسے ہم مکمل طور پر محسوس کرتے ہیں، یہ ہے کہ: ہمارے نفس کی لگام خود ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی، ہم اپنے آپ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی زبان پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی شہوت پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے شکم پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی شرم گاہ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی آنکھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے کان پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے ہاتھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے پیر پر اختیار نہیں رکھتے۔ اور یہ ہماری انتہائی بد بختی ہےہم ان گلی کوچوں میں چلتے پھرتے ہیں لیکن یہ آنکھ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی، }بلکہ{ ہم اس آنکھ کے اختیار میں ہوتے ہیںیعنی ہم ہیں کہ اس آنکھ کا دل چاہتا ہے کہ نظر بازی کرے، اس کا دل چاہتا ہے کہ لوگوں کی عزتوں پر شہوت کی نگاہ ڈالے اور ہمارا دل بھی اس انکھ کے تابع ہو جاتا ہے:

دل برود چشم چو مایل بود

دست نظر رشتہ کش دل بود

ہم خود اپنی زبان کے مالک نہیں ہیں، ہمیں اپنی زبان پر اختیار نہیں ہےجب گرم ہوتے ہیں، تو اصطلاحاً ہمارا دماغ گھوم جاتا ہے اور ہم جو دل میں آتا ہے بول ڈالتے ہیںبغیر سوچے سمجھے کہ کیا بول رہے ہیں، ایسی حالت میں نہ اپنے رازوں کی حفاظت کر پاتے ہیں

۱۱

نہ لوگوں کے اسرار کیاس حالت میں ہم لوگوں کے عیب نہیں چھپا پاتے، اپنے آپ کولوگوں کی غیبت سے نہیں روک پاتے۔۔۔(۱) ہم اپنے کانوں پر بھی اختیار نہیں رکھتے، جو چیز ہمارے کانوں کو اچھی لگے، مثلاً انہیں غیبت اچھی لگتی ہے، تو ہم بھی اسکے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، انہیں لہو ولعب پسند ہے، توہم بھی تسلیم ہو جاتے ہیںہم اپنے ہاتھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے پیر پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے غصّے پر اختیار نہیں رکھتے، کہتے ہیں (خود میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں)

جناب!اب مجھے غصّہ آ گیا ہے، جو میرے منہ میں آئے گا کہہ ڈالوں گامجھے غصّہ آ گیا ہے، یعنی کیا؟ یعنی میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اپنے نفس کا مالک نہیں ہوں، جوں ہی مجھے غصّہ آتا ہے،  میرا کنٹرول اسکے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، جو میرے منہ میں آتا ہے، کہہ ڈالتا ہوں، کیونکہ میں غصّے میں ہوںایک اور شخص ہے، جو اپنی نفسانی خواہشات کا مالک نہیں ہوتاکیا انسان کو اپنے نفس کا مالک نہیں ہونا چاہئے؟ جب تک ہم اپنے نفس کے مالک نہ ہوں، کیا مسلمان ہو سکتے ہیں؟ نہیں، مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کا مالک ہو۔

دوسرا درجہ: نفس کے خیالات کا مالک ہونا

یہاں تک ہم نے اس درجے کے بارے میں گفتگو کی، اب ہم اس سے بلندایک درجے پر چلتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس میں آنے والا خیالات کا، اپنے ضمیر کے خیالات کا مالک (ہونا چاہئے) اس مسئلے پر مکمل طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ہم میں سے وہ لوگ جو اپنی آنکھ کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ہیں، اپنے ہاتھ کے مالک ہیں، اپنے پیر کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، اپنی شہوت کے مالک ہیں، اپنے غصّے کے مالک ہیں، وہ ایک چیزکے مالک نہیں ہیںہم لوگ جویہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی فرد (اگر یہاں اولیا اﷲ موجود ہوں، تو مجھے نہیں معلوم ) اپنے ذہنی اور نفسانی خیالات کا مالک نہیں ہے

--------------

۱:-یہاں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہو سکی ہے۔

۱۲

یعنی کیا؟ یعنی ہمارے ذہن میں آنے والے مفاہیم و معنی ہمارے اختیار کے بغیر اِس شاخ سے اُس شاخ پر اور اُس شاخ سے اِس شاخ پر اڑتے پھرتے ہیںہمارے خیال کی قوت ایک چڑیا کی مانند ہےآپ نے درختوں پر بیٹھی چڑیا کو دیکھا ہو گا، وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتی رہتی ہے، تیزی کے ساتھ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اڑتی پھرتی ہے، ہمارے خیال کی قوت بھی مسلسل اِس شاخ سے اُس شاخ پر اڑتی ہےہم سے کہا جاتا ہے کہ برائے مہربانی اپنے ذہن کو دس منٹ کے لئے ایک نکتے پر مرکوز کر دیجئےصرف ایک موضوع کے بارے میں غور و فکر کیجئےکیا ہمارے لئے ممکن ہے؟ ؟

ہم اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ جب آپ نماز پڑھیں، تو آپ کاذہن اسی جانب مرکوز رہے، اورآپ میں حضورِ قلب پایا جائے”لا صَلوٰةَ اِلّابِحُضُورِ الْقَلْب“ حضورِ قلب کے بغیر نماز قبول نہیں ہےصحیح ہے، یعنی آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھی، لیکن ایسی نماز قبول نہیں ہےیعنی }ایسی نماز{آپ کو کسی مقام پر نہیں پہنچاتی، آپ کے لئے کسی خاصیت کی حامل نہیں ہوتیجوں ہی ہم اﷲ اکبر کہتے ہیں، اگر بالفرض ہم دکاندار ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے اپنی دکان کا تالا کھول لیا ہے، حمد اور سورہ پڑھتے ہیں، لیکن ہمارا دل دکان میں لگاہوتا ہے، ہمارا دھیان دفتر میں ہوتا ہے، ہمارا دل اپنی فلاں ملکیت میں اٹکا ہوتا ہے، فلاں شہوت کے پیچھے ہوتا ہے۔ ہم اچانک اُس وقت ہوش میں آتے ہیں، جب ”السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ“ کہہ رہے ہوتے ہیں۔

ہم نے }اس انداز سے{ اس قدر زیادہ نمازیں پڑھی ہیں کہ یہ ہماری عادت سی ہو چکی ہے۔ ہم اپنی اِس روش کو ترک نہیں کرپاتے۔ خودکار انداز میں ”اﷲ اکبر“ سے ”السلام علیکم“ تک پہنچ جاتے ہیں اور بغیر کچھ سمجھے بوجھے }نماز کو{ ختم کر لیتے ہیںحالانکہ نماز کے دوران حضورِ قلب اور ذہن کا مرکوزہونا ضروری ہے آپ یہ نہ کہئے گا کہ یہ ناممکن بات ہےنہیں، ممکن ہے، بہت زیادہ ممکن ہےاگر آپ عبودیت(اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ) کے ساتھ کوشش کریں، عبودیت کی راہ میں قدم اٹھائیں، تو واقعاً آپ ایسی نماز پڑھ سکتے ہیں جو اگر پانچ منٹ کی ہو، تو ان پورے پانچ منٹ میں آپ صرف خدا کی طرف متوجہ ہوں، آپ دس منٹ نماز پڑھیں تو خدا کی طرف متوجہ ہوںاصلاً آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہی نہ ہو، آدھے گھنٹے، ایک

۱۳

گھنٹے (اسی حال میں رہیں) اور پھر رفتہ رفتہ بعض اولیا اللہ کی مانند ہو جائیں اور ابتدائے شب سے صبح تک مسلسل عبادت کریں اور آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی بھی چیز کی طرف متوجہ نہ ہواس قدر غرق ہوں کہ اگر کوئی آ کر عین آپ کے سر پر کھڑا ہوکے شور وغل بھی مچائے، تب بھی آپ نہ سنیں، نہ سمجھیں اور اسکی جانب متوجہ نہ ہوں، آپ کا ذہن اس قدر مرکوز ہو جائے۔

حالتِ نماز میں امام سجاد ؑ کا حضورِ قلب

امام سجاد علیہ السلام عبادت میں مشغول تھےآپ کا ایک بچہ چھت سے نیچے گرا اور اس کا ہاتھ ٹوٹ گیاعورتیں جمع ہوگئیں اور چیخنے چلّانے لگیں کہ بچے کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہےجا کر بازوجوڑنے والے کو لاؤ، لوگ گئے اور اعضا جوڑنے والے کو بلا لائے اور بچے کا ہاتھ باندھ دیابچہ رویا، عورتوں نے آہ وفغاں کی، دوسرے افراد نے بھی چیخ پکار مچائی، بات ختم ہوگئی، قصہ گزر گیاعبادت سے فارغ ہونے کے بعدامام صحن میں تشریف لائے، اُن کی نگاہ اپنے بچے پر پڑی، دیکھا اُس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، آپ نے پوچھایہ کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا :بچہ چھت سے گر گیاتھا، اِس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، ہم اعضاجوڑنے والے کو لائے، اُس نے اِس کا ہاتھ باندھ دیا، اُس وقت آپ نماز اور عبادت میں مشغول تھےامام نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے بالکل پتا نہیں چلا۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ وہ امام زین العابدین علیہ السلام تھے، ہر آدمی تو ان کی مانند نہیں ہو سکتاخود ہم نے اپنی زندگی میں ایسے افراد کو دیکھا ہے (البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس حد اور اس درجے تک ) ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نماز شروع کرنے کے وقت سے لے کر اسکے اختتام تک ذکرِ خدا اور یادِ خدا میں اس طرح ڈب جاتے، اور نماز میں اس طرح غرق ہو جاتے کہ اپنے ارد گردسے یکسر بے خبر ہوجاتے تھے! ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے”اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ“ عبودیت اور بندگی کا نتیجہ اور اس کا اوّلین اثر یہ غلبہ اور تسلط ہے۔

۱۴

ہم نے اِس نشست میں تسلط کے دو مرحلوں کے بارے میں عرض کیا ہے۔ تسلط کا ایک درجہ، جو تسلط کا کم سے کم درجہ ہے، اور اگر یہ انسان میں پیدا نہ ہو، تو انسان کو یقین رکھنا چاہئے کہ اسکی عبادتیں درگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہیں }اور یہ درجہ{ اپنے نفس پر تسلط ہےیہ وہی چیز ہے کہ قرآن نماز کے بارے میں کہتا ہے:اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ (۱) نمازبے حیائی اوربُرے کاموں سے روکتی ہے۔

نماز کس طرح بے حیائی اور بُرے کاموں کا راستہ روکتی ہے؟

کیا نماز پولیس ہے، کہ جب آپ کسی بُرے کام کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو وہ ڈنڈا لئے آکر آپ کا راستہ روک لیتی ہے؟ نہیں، نماز عبودیت اور بندگی ہےاس عبودیت کا نتیجہ ربوبیت اور تسلط ہے، اور تسلط اور غلبے کا کم از کم درجہ نفس پر تسلط اور غلبہ ہے۔

تقویٰ

اِنَّ تَقْوَی اﷲِ حَمَتْ اَولیاءَ اﷲِ مَحارِمَهُ وَاَلْزَمَتْ قُلوبَهُمْ مَخا فَتَهُ

۔ تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو حرام کئے گئے کاموں سے بچایا ہے، اور اُن کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے(نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۲)

تقویٰ سے کیا مراد ہے؟

یعنی اپنے آپ کوبچانا، محفوظ رکھنا۔

اپنے آپ کو بچانے سے کیا مراد ہے؟مراد ہے اپنے نفس پر تسلط۔

--------------

۱:- نماز ہر بُرائی اور بد کاری سے روکتی ہے۔ (سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

۱۵

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، تقوائے الٰہی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو محرماتِ الٰہی سے محفوظ رکھتا ہےاسکی دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کے دل میں خدا کا خوف بٹھاتا ہے۔

قرآنِ مجید روزے کے بارے میں کہتا ہے:یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (1) اے اہلِ ایمان ! تمہارے لئے روزہ فرض کیا گیا ہے، اُسی طرح جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھاکیوں؟ قرآن روزے کا مقصد بھی بیان کرتا ہے:”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“ اس لئے کہ تمہارے اندر تقویٰ کی روح اور تقویٰ کا ملکہ پیدا ہو جائے۔

تقویٰ کے ملکہ سے کیا مراد ہے؟

مراد ہے نفس پر تسلط نفس پر تسلط وہی چیز ہے جس کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایاہے :اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ

پس اگر ہم نے ماہِ رمضان گزار لئے ہیں، احیا کی راتوں}شبہائے قدر{ کو گزار لیا ہے، مسلسل روزوں کو گزار لیا ہے، اور ماہِ رمضان کے بعدا اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں کہ ہم اب اپنی شہوات پر اس سے زیادہ مسلط ہیں جیسے ہم ماہِ رمضان سے پہلے ان پرمسلط تھے، اپنے غصّے پر پہلے سے زیادہ مسلط ہیں، اپنی آنکھوں پر ہمیں زیادہ قابوہوگیا ہے، اپنی زبان پر پہلے سے زیادہ کنٹرول ہے، اپنے اعضا و جوارح پر زیادہ مسلط ہیں، مختصر یہ کہ اپنے نفس پر زیادہ مسلط ہیں اور ہم نفس امارہ کا راستہ روک سکتے ہیں، تو یہ ہمارے روزے کی قبولیت کی علامت ہے۔لیکن اگر ماہِ رمضان گزر گیا، ختم ہوگیا، اور ماہِ رمضان سے ہمارا حاصل (جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ روزے سے بعض لوگوں کو صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے) صرف یہ ہو کہ ہم نے ایک مہینے بھوک اور پیاس برداشت کی ہے (اکثر کیونکہ ہم لوگ سحر و افطار کرتے ہیں،

--------------

1:- صاحبانِ ایمان تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورہ بقرہ ۲آیت۱۸۳)

۱۶

اس لئے بھوک اور پیاس بھی نہیں لگتیالبتہ ہم کم از کم بے حال توہوہی جاتے ہیں) ایک مہینے تک بے حالی کا شکار رہے، اور اِس بے حالی کے نتیجے میں کام کے لئے ہماری توانائی کم ہو گئی، اور کیونکہ کام کاج کے لئے ہماری قوت و توانائی کم ہو گئی، تو آ کے روزے پر الزام لگاتے ہیں کہ اِس روزے کی وجہ سے ہماری کارکردگی کم ہوئی(جوطالبِ علم ہے وہ کہتا ہے کہ پورے ماہِ رمضان میں میری پڑھنے کی قوت کم ہو گئی، جوکوئی اور کام کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میری فلاں کام کی طاقت کم ہو گئیپس روزہ ایک بُری چیز ہے) یہ ہمارے روزے کے قبول نہ ہونے کی علامت ہےجبکہ اگر انسان ماہِ رمضان میں واقعی معنی میں روزہ رکھنے والا ہو، اگر واقعاً اپنے آپ کو بھوکا رکھے، اگر جیسا کہ کہا گیا ہے تین وقت کے کھانے کو دو وقت کا کر لےیعنی پہلے وہ ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا کھاتا تھا، اب دوپہر کا کھانا نہیں کھائے، اسکی افطار ایک ناشتے کی مانند مختصر ہو، اسکے بعد سحر کے وقت معدے پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالے، بلکہ ایک معمول کی غذا کھائے، تو اسے احساس ہو گا کہ کاموں کے سلسلے میں اسکی جسمانی قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور کارِ خیر کے لئے اسکی روحانی قوت بھی بڑھی ہےیہ کم از کم عبادت ہے۔

ہم نے گفتگو کی ابتدا میں ایک آیت پڑھی تھیآپ کی خدمت میں اس آیت کا ترجمہ پیش کرتے ہیں، جس کا مفہوم یہی ہےقرآنِ مجید، نہج البلاغہ، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام زین العابدین علیہ السلام جو بھی باتیں مختلف الفاظ اور مختلف زبانوں میں کہیں، جب آپ ان پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ سب ایک ہی حقیقت تک پہنچے ہوئے ہیں، اور ایک ہی حقیقت کا ذکر کرتے ہیںہم آیاتِ قرآنی میں سے دو آیات میں اس طرح پڑھتے ہیںیعنی دو مقامات پر یہ آیت آئی ہے :یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ (۱) اے اہلِ ایمان! نماز اور صبر (جس کی تفسیر روزہ کی گئی ہے) سے مدد لویہ انتہائی عجیب تعبیر ہے !ہم سے کہتے ہیں کہ نماز سے مدد مانگو، روزے سے مدد مانگویعنی تم نہیں جانتے کہ یہ نماز قوت کا کیسا سرچشمہ ہے !یہ روزہ طاقت کا کیسا منبع ہے!

--------------

1:- :- سورہ بقرہ ۲آیت ۱۵۳

۱۷

 اگر تمہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے، تو قوت و طاقت کے ایک سرچشمے کی جانب تمہاری رہنمائی کی گئی ہے، اور اگر روزہ رکھنے کوکہا گیا ہے، تو طاقت کے ایک سرچشمے کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہےتم اپنے نفس اور روح پر مسلط ہونے کے لئے نماز پڑھو، روزہ رکھو۔ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْهَرَةٌ کُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ ۔

اب کیا اِس ربوبیت اور تسلط کا خاتمہ یہیں پر ہو جا تا ہے؟ نہیںاسکے درجات اور مراتب ہیں آپ عبادت کے راستے پر جس درجے بھی آگے بڑھیں گے، ربوبیت حاصل کریں گے اور اصطلاحاً ولایت حاصل کریں گےیعنی تسلط حاصل کریں گےاِس درجے سے جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا ایک درجے بالاتر}جا پہنچیں گے{، وہاں پہنچ جائیں گے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کے مالک بن جائیں گے۔

بالاتر درجات

کیا اس سے بھی بالاتر کوئی درجہ ہے؟ ہاں، انسان (کم از کم اپنے بارے میں) مستجاب الدعوۃ ہو جاتا ہےحتیٰ عبودیت کے نتیجے میں اپنے بدن پر اثر انداز ہو سکتا ہے، معجزہ کر سکتا ہے، کرامت کر سکتا ہے،(اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ) اس کا نتیجہ تسلط ہے۔کیا اِس سے بڑھ کر بھی ہے؟

جی ہاں، لیکن یہ بڑھ کر اور بالاتر درجہ ہمارے فہم اور ہماری فکر کے لئے بہت زیادہ ہےبہت سے افراد یہ باور نہیں کر سکتے کہ کوئی انسان عبودیت کے اثر سے، خدا کی بندگی اور تذلل کے اثر سے، صراطِ عبودیت کو طے کرنے کی وجہ سے، اس مقام پر جا پہنچتا ہے کہ کائنات میں بھی تصرف کر سکتا ہےیعنی ایک بیمار کا روحی راستے سے علاج کر سکتا ہے، ایک پیدائشی اندھے کو شفا دے سکتا ہے، ایک مبروص (leper) کو شفا دے سکتا ہے (جیسا کہ قرآنِ کریم حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں بیان کرتا ہے)

۱۸

البتہ اذنِ الٰہی سےخدا نے انہیں یہ قدرت دی ہوئی ہےاذنِ خدا وہی قدرت ہے جو خدا عطاکرتا ہے:وَ تُبْرِئُ الْاَکْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ (۱) یا ایک دوسری آیت میں:وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اﷲِ (۲) یہ ایک بلند تر درجہ ہے جس کے بارے میں ہم فی الحال گفتگو کرنانہیں چاہتے، بعد کی نشست میں انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں ”قرب“ کے بارے میں کچھ نکات عرض کریں گےیہ جو ہم عبادت میں کہتے ہیں کہ ”قربۃً اِلَی اﷲ“ اس کے کیا معنی ہیں؟ تقربِ خدا سے کیا مراد ہے؟ اس بات کی انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں وضاحت کریں گے۔

حضرت علی علیہ السلام اُن بندوں اور عابدوں میں سے ہیں جو اِس خداوند گاری پر پہنچے ہوئے ہیں البتہ غلط فہمی پیدانہ ہو جائے، آپ یہ تصور نہ کیجئے گا کہ یہ عبودیت جس کا نتیجہ خداوند گاری اور تسلط ہے اس کا نتیجہ خود پسندی بھی ہےہرگز نہیں، خود پسندی کا عبودیت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیںکیااس کا نتیجہ غرور اور انانیت ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

وہ بندہ جو ربوبیت کے لئے بندگی کرتاہے، اسے اپنے عمل کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتاعبودیت تذلل اور خاکساری کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنی مناجات میں عرض کرتے ہیں: خدایا! کَفیٰ لی فَخراً اَنْ اَکونَ لَکَ عَبْداً وَکَفیٰ لی عِزّاً اَنْ تَکونَ لی رَبّاً بارِالٰہا! میرے لئے یہ افتخار کافی ہے کہ میں تیرا بندہ رہوں اور میرے لئے یہ عزو شرف بہت ہے کہ تو میرا رب، خداوندگار، اور پروردگار ہے۔

ہم حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت سے مقامات اوردرجات کے قائل ہیں، اور قائل ہونا بھی چاہئےدراصل مسئلہ ولایت، جس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بغیر ولایتِ تکوینی کے (ان حدود میں جس کے بارے میں شاید ایک نشست میں آپ کی خدمت میں عرض کریں) دراصل ولایت ہی نہیں ہوتی}وہ لوگ{غلط فہمی کاشکار ہیں، انہوں نے سمجھا نہیں ہے، علم نہیں رکھتے،

--------------

1:- اور تم پیدائشی اندھوں کو اور برص میں مبتلا لوگوں کو ہماری اجازت سے صحیتیاب کردیتے تھے اور ہماری اجازت سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ (سورہ مائدہ ۵آیت ۱۱۰)

2:- اور حکمِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا۔ (سورہ آل عمران ۳آیت ۴۹)

۱۹

 وہ لوگ جو ولایت تکوینی کے منکر ہو گئے ہیں اور حتیٰ ولایتِ تکوینی کو نہیں سمجھے ہیں کہ وہ کیا ہےانہوں نے ایک اور چیز کو جاہلانہ طور پر فرض اور تصور کر لیا ہے اور اسی کو بار بار لوگوں سے کہا ہے، انہوں نے اسے اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہےکیونکہ ان کا ذہن ان مسائل تک نہیں پہنچتایہ لوگ بنیادی طور پر انسان اور خدا کو نہیں پہچانتےاس قسم کے مسائل کے بارے میں اظہارِ رائے کرنا، دو مسئلوں کی فرع ہے:اوّل خدا کی شناخت، دوّم: انسان کی شناخت اور انسان کی اندرونی صلاحیتوں کی شناخت، اور خدا سے انسان کے تقرب کے معنی اور عبودیت اور عبادت کے معنی۔

حضرت علی علیہ السلام جنہیں اس قدر محبوبیت حاصل ہے، یہ ان کی عبودیت کی وجہ سے ہےکیا خوب کہتے ہیں ابوسعید ابی الخیر (یاخواجہ عبداﷲ انصاری)

آن کس کہ تورا شناخت جان راچہ کند

فرزند و عیال و خانمان راچہ کند

دیوانہ کنی(1) ھر دوجہانش بخشی(2)

دیوانہ توھر دو جھان راچہ کند

ایسا شخص جو تیرا مجذوب ہو جاتا ہے، اُسے ان ربوبیتوں کی کیا پروا جو انانیت، غرور اور تکبر پیدا کرتی ہیں۔

یہ ایام، ایک طرف تو احیا کے دن اور راتیں ہیں، دعا کے دن اور راتیں ہیں، عبودیت اور بندگی کرنے کے دن اور راتیں ہیں اور دوسری طرف مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں اس ہستی کی شہادت کے ایام ہیں جو عظیم ترین بندگانِ خدا میں سے ایک ہےپیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہم ایسی بندگی رکھنے والے کسی اور بندے سے واقف نہیں ہیں۔

--------------

1:-یعنی اسے اپنا شیفتہ اور مجذوب کر لیتا ہے۔

2:-اسی ربوبیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں(اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ)

۲۰