عبادت و نماز

عبادت و نماز0%

عبادت و نماز مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 100

عبادت و نماز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 100
مشاہدے: 41142
ڈاؤنلوڈ: 3894

تبصرے:

عبادت و نماز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 100 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41142 / ڈاؤنلوڈ: 3894
سائز سائز سائز
عبادت و نماز

عبادت و نماز

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت علی علیہ السلام کے ضرب لگنے سے شہادت تک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً پینتالیس گھنٹے ہوں گےیعنی اس لحظے تک جب کہ آپ کی روح نے عالمِ ملکوت کی جانب پرواز کیاور ہمارے خیال میں پینتالیس گھنٹے کی یہ مدت حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے حیرت انگیز ترین ادوار میں سے ہےان پینتالیس گھنٹے میں انسان حضرت علی کی شخصیت کو دیکھتا ہے، ان پینتالیس گھنٹوں میں علی کایقین اور ایمان دوسروں پر نمایاں ہوتا ہےخود اُن کی نظر میں یہ ایسے لحظات اور ساعتیں ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنا انعام حاصل کیا ہےمقابلے کو انتہا تک پہنچایا ہے، انتہائی افتخار کے ساتھ اپنے پروردگار کے پاس جانا چاہتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری ہی شئے ہیںنہج البلاغہ میں ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ:اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّّقُوْلُوْآ ٰامَنَّا وَ هُمْ لااَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ (۵) تو میں سمجھ گیا کہ امتِ اسلامیہ میں فتنے پیدا ہوں گےمجھے شہادت کی بڑی تمنا تھی، میری آرزو تھی کہ احد میں شہید ہو جاؤںمسلمانوں کے ستر افراد شہید ہو گئےجب میں شہید نہ ہوا تو میں انتہائی دل گرفتہ تھا، میں رنجیدہ ہو گیا (یہ باتیں ایک جوان کر رہا ہےجنگِ احد کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام ایک تقریباً پچیس برس کے مرد تھے، ان کے دو چھوٹے بچے تھے، امام حسن اور امام حسین، صدیقہ طاہرہ جیسی ان کی زوجہ تھیں، اسکے باوجود شہادت کی آرزو نے علی کو اس قدر بے تاب کر رکھا تھا کہ جب آپ شہید نہ ہوئے تو رنجیدہ تھے) پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے ہی ان سے وعدہ کیا ہوا تھاشایدخود انہوں نے ہی رسولِ کریم سے سوال کیا تھا کہ اے اﷲ کے رسول! میں کس انداز سے دنیا سے رخصت ہوں گا؟ پیغمبر نے فرمایاتھا کہ تم ایک شہید کی صورت میں دنیا سے جاؤ گےلیکن جب آپ نے دیکھا کہ آپ جنگِ احد میں شہید نہیں ہوئے، تو آپ رنجیدہ ہو گئےرسولِ کریم کی خدمت میں تشریف لے گئے اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ خدا شہادت کو میرا مقدر بنائے گاپس آخر کیوں میں احد میں شہید نہیں ہوا؟

--------------

۵۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور اُن کا امتحان نہیں ہوگا۔ بے شک ہم نے اُن سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔ (سورہ عنکبوت ۲۹۔ آیت ۲ اور ۳)

۲۱

آنحضرت نے فرمایا: علی جان، زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا، آپ یقیناًاس امت کے شہید ہوں گےاسکے بعد پیغمبر نے علی سے ایک سوال کیا: علی جان، بتاؤ جب تم بسترِ شہادت پر ہو گے تو کس طرح صبر کرو گے؟ آپ کیسا شاندارجواب دیتے ہیں}فرماتے ہیں{: اے اﷲ کے رسول! وہ تو صبر کی جگہ نہیں، وہ توخوشی کی جگہ ہے، شکر اور سپاس گزاری کامقام ہےآپ مجھے بتایئے کہ جب میں بسترِشہادت پر ہوں، تو کس طرح خدا کا شکر ادا کروں؟

علی ہمیشہ اپنے اس گم گشتہ کی تلاش میں رہتے تھےاجمالاً آپ جانتے تھے کہ آپ کا یہ سر راہِ خدا میں ضرب کھائے گاآپ کہا کرتے تھے کہ خدایا! وہ پیارا لمحہ، وہ خوبصورت لحظہ، وہ پر لذت اور شادمانی بھری ساعت کب آئے گی؟ رسولِ مقبول نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ آپ کی شہادت ماہِ رمضان میں واقع ہو گی اور اِس اکتالیس ہجری کے ماہِ رمضان میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علی کے دل کو پتا چل گیا تھا کہ اس ماہِ مبارک میں اس کی تمنا پوری ہو جائے گاعلی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ اُن کے بابا اس ماہِ رمضان میں ایک انتظار، اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں ایسے جیسے کسی بڑی بات کا انتظار کر رہے ہیں۔

رمضان کی تیرہویں تاریخ ہے، آپ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، اُن سے خطاب فرماتے ہیں، خطبے کے درمیان آپ کی نگاہ امام حسن پر پڑتی ہے، اپنی گفتگو روک دیتے ہیںء آواز دیتے ہیں حسن !بتاؤ اس مہینے کے کتنے دن گزر گئے ہیں؟ ایک انتہائی عجیب سوال ہےعلی خود ہر ایک سے بہتر جانتے ہیں کہ کتنے روز گزر چکے ہیںکیوں اپنے اس جوان سے دریافت کر رہے ہیں؟ حسن عرض کرتے ہیں :بابا جان! تیرہ دن گزر چکے ہیں آپ فوراً امام حسین کی طرف رخ کرتے ہیں: بیٹا حسین! اس مہینے کے کتنے دن باقی بچے ہیں؟ (بالکل واضح ہے کہ جب تیرہ دن گزر چکے ہیں تو سترہ دن باقی رہے ہیں) بابا! سترہ روز باقی رہ گئے ہیں}یہ سن کر{ آپ اپنی ریشِ مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں: ا س داڑھی کا اس سر کے خون سے رنگا جانا بہت قریب ہےآپ کو اس ساعت، اور اس دن کا انتظار تھا۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ان پینتالیس گھنٹوں کے دوران جو خوبصورت جملے ارشاد فرمائے ان میں سے ایک یہ ہےدوسرے لوگ انتہائی مضطرب اور رنجیدہ تھےآنسو بہا رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے،

۲۲

لیکن خود علی، بشاشت کا اظہار کر رہے تھےفرمایا:واﷲِ مافَجَأَنی مِنَ الْمَوْتِ وارِدٌ کَرِهْتُهُ وَلا طالِعُ اَنْکَرْتُهُ وماکُنْتُ اِلّاکَقارِبٍ وَرَدَوَطالِبٍ وَجَدَ خدا کی قسم اگر میں مر گیا تو مجھے کوئی کراہت نہیں ہو گی، ذرّہ برابر کراہت نہیںیہ میرے لئے ایک انجانی بات نہیں تھی، ایک انجانا مہمان نہ تھا، ایک جانا پہچانا مہمان تھااسکے بعد فرمایا: تم جانتے ہو کہ میری مثال کیسی مثال ہے؟ اُس عاشق کی سی مثال ہے جو اپنے مطلوب اور معشوق کا پیچھا کرتا ہے، اور اُسے پا لیتا ہےمیری مثال اس پیاسے کی سی مثال ہے جو ایک تاریک رات میں پانی کی تلاش میں ہوتا ہے اور اچانک پانی دریافت کر لیتا ہے، وہ کس قدر خوش ہو تا ہے!

آپ کے اصحاب آتے ہیں، }کہتے ہیں{ بے شک اے امیر المومنین! آپ کے لئے ایسا ہی ہےلیکن آپ کے بعد ہم کیا کریں گے؟ انیسویں کی شب، حضرت علی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ آج ایک اور ہی طرح کی رات ہے، کیونکہ اس رات حضرت کی ایک خاص وضع تھیکبھی آپ باہر تشریف لاتے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے اورواپس پلٹ جاتےاس رات بھی علی صبح تک نہ سوئےآپ کے بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھےامیر المومنین کے یہاں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ تھییعنی گھر میں ایک کمرہ تھا جہاں نماز پڑھا کرتے اور عبادت کیا کرتے تھےحسن ابن علی علیہما السلام، جو اپنے گھر چلے گئے تھے، صبح طلوع ہونے سے پہلے اپنے گھر سے لوٹ آئے، اپنے پدرِ بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے نماز پڑھنے کی جگہ گئے، دیکھا کہ علی بیٹھے ہوئے عبادت میں مشغول ہیں اس موقع پر آپ نے وہ قصہ جو اس رات واقع ہوا تھا اپنے فرزند حسن سے بیان کیافرمایا: بیٹا! کل رات میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا (یعنی میں کل رات نہیں سویا تھا، بستر نہیں بچھایا تھا) کہ میری آنکھ لگ گئیایک لمحہ میں، ایک عجیب سرعت کے ساتھ، اسی خواب کے عالم میں، میں نے تمہارے نانا پیغمبر اکرم کو دیکھا”مَلَکَتْنی عَینی وَاَنا جالِسٌ فَسنَحَ لی رَسولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وَآلِهِ“ میری آنکھ لگ گئی، مجھ پر نیند کا غلبہ ہو گیا، میں نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے ایک لمحے کے لئے پیغمبر کو دیکھاجوں ہی پیغمبر پر میری نگاہ پڑی میں نے اُن کی خدمت میں امت کی شکایت کی، میں نے عر ض کیا :یا رسولَ اﷲِ ماذا لَقیتُ مِن اُمَّتِکَ مِنَ الْاَودِ وَاللَّدَد ِاے اﷲ کے رسول! میں نے آپ کی امت کے ہاتھوں کیا کیا ستم سہے ہیں، اور اس امت نے میرا کیسا کیسا دل دکھایا ہے! اے اﷲ کے رسول! میں آپ سے اپنے دشمنوں کی۔ ۔(*)

*آخری چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔

۲۳

حقیقی طور پر نزدیک ہونا

گزشتہ نشست میں ہم نے عبودیت، حق کی بندگی، حق کی پرستش اور ان آثار کے بارے میں کچھ گفتگو کی تھی جوعبودیت سے انسان کے لئے مرتب ہوتے ہیں، اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی وہ حدیث جو ”مصباح الشریعہ“ میں نقل ہوئی ہے، اُسے پیش کیا تھاحدیث یہ تھی:اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُنیزاس حدیث کے بارے میں کچھ وضاحتیں عرض کی تھیںلیکن گزشتہ وضاحتوں کے بارے میں مزید گفتگو کی ضرورت ہےساتھ ساتھ ہم ان نکات کے بارے میں بھی کچھ عرائض آپ کی خدمت میں پیش کریں گے جن کے حوالے سے ہم نے اِس نشست میں گفتگو کا وعدہ کیا تھا، یعنی مسئلہ ”تقربِ الٰہی“ جو عبادت کی روح ہےپہلے ہم آپ کی خدمت میں تقرب کا مسئلہ عرض کرتے ہیں۔

آپ جب کبھی کوئی عبادت انجام دینا چاہتے ہیں، مثلاً نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج انجام دیتے ہیں، یا زکات دیتے ہیں، تو نیت کرتے ہیں اور نیت میں کہتے ہیں کہ: نماز پڑھتا ہوںقُرْبَةً اِلَی اﷲ یعنی نماز پڑھتا ہوں تاکہ خدائے تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ہو جاؤںروزہ رکھتا ہوںقُرْبَةً اِلَی اﷲِ ، اس لئے کہ خدا سے نزدیک ہو جاؤں، حج کرتا ہوںقُرْبَةً اِلَی اﷲِ ، اس لئے کہ خدا کا قرب حاصل کر لوں، احسان کرتا ہوں، دوسرے انسانوں کے کام آتا ہوں، تاکہ خدا کا قرب میسر آ ئے۔

ہم اس نشست میں، آپ کی خدمت میں، خد ا سے نزدیک ہونے کے معنی کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں}یہ واضح کرنا چاہتے ہیں{کہ بنیادی طور پر خدا سے نزدیک ہونا کوئی معنی ومفہوم رکھتا بھی ہے یا نہیں بالفاظِ دیگر خدا سے نزدیک ہونا کیا ایک حقیقی نزدیکی ہے، واقعاً انسان ایک وسیلے سے، عبادت و اطاعت کے وسیلے سے (وہ عبادت و اطاعت جس شکل کی بھی ہوا کرے) خدا سے نزدیک ہوتا ہے، یا خدا سے واقعی نزدیک ہونے کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا سے نزدیک ہوتے ہیں، یہ ایک تعبیر ہے، ایک مجازی مفہوم ہےکس طرح؟ ہم آپ کی خدمت میں دو مثالیں پیش کرتے ہیں ایک اُس مقام کی جس میں ایک شئے کی دوسری شئے سے نزدیکی حقیقی ہے اور ایک اُس مقام کی جہاں ایک شئے کا دوسری شئے سے نزدیک ہونا ایک مجازی تعبیر ہے، حقیقی اور واقعی نہیں۔

۲۴

حقیقی طور پر نزدیک ہونا

جہاں نزدیک ہونے سے ہماری تعبیر حقیقی }طور پر نزدیک ہونا{ ہے }وہ یہ ہے کہ{ آپ یہاں }تہران{ سے قم جانا چاہتے ہیں، آپ جس قدر چلتے چلے جائیں گے اس قدر کہیں گے کہ میں قم سے قریب ہو رہا ہوں اور تہران سے دورسچ مچ یہاں قم سے آپ کا قریب ہونا ایک معنی اور مفہوم رکھتا ہےیعنی آپ جو تہران میں ہیں، آپ کے اور شہر قم کے درمیان ایک حقیقی فاصلہ موجود ہے، اور آپ }سفر کے ذریعے{ تدریجاً اس فاصلے کو کم کر رہے ہیںلہٰذا آپ کہتے ہیں کہ میں قم شہر سے نزدیک ہو رہا ہوںیہ نزدیک ہونے کے ایک معنی ہیں حقیقتاً آپ تہران سے چل کر قم کی طرف جا رہے ہیں، آپ کے اور قم کے درمیان ایک فاصلہ ہے، اور تدریجاً یہ فاصلہ کم ہو تا جاتا ہے، یہاں تک کہ آپ قم پہنچ جاتے ہیں آپ اس قدر نزدیک ہو جاتے ہیں کہ پھر ”نزدیکی“ کا لفظ بھی تقریباً بے معنی ہو جاتا ہےیعنی آپ قم پہنچ گئے ہیں اور واصلِ قم ہو گئے ہیںیہ نزدیک ہونا، حقیقی طور پر نزدیک ہونا ہے۔

مجازی طور پر نزدیک ہونا

ہم ایک اور طرح کے نزدیک ہونے سے بھی واقف ہیں، جو فقط تعبیر ہے، حقیقی طور پر نزدیک ہونا نہیں ہےوہ کس طرح؟

آپ ایک عہدے و منصب کے حامل شخص، یا کسی دولت مند شخص کو پیش نظر رکھئے، جس کے پاس بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ مال و دولت ہےپھر ہم بعض افراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں عہدیدار سے نزدیک ہے، فلاں شخص فلاں عہدیدار سے نزدیک ہےآپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ فلاں قدرت مند شخص سے نزدیک ہیں، یا نزدیک نہیں ہیں؟ مثلا آپ کہتے ہیں :نہیں، میں}اُس سے {نزدیک نہیں ہوںلیکن فلاں شخص اُس سے بہت نزدیک ہے۔

کیسے؟ مجھے کسی قدرت مند اور منصب ومقام کے حامل شخص سے کوئی کام پڑتاہے، میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسے شخص کے پاس جاؤں جو اس سے نزدیک ہو، وہ میرا اس سے تعارف کرائے اور میری مشکل حل ہو جائےیہ نزدیک ہونا کس قسم کا نزدیک ہونا ہے؟

۲۵

اگر آپ کہتے ہیں کہ ایاز، سطان محمود سے نزدیک تھا، تو اس نزدیک ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ کوہر قدرت مند شخص کے حوالے سے اس قسم کی چیزنظر آئے گیمثلاً کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزدیک تھےکیا اس سے مرادیہ ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اور علی کے درمیان کم مکانی فاصلہ رہاکرتاتھا؟ یعنی اگر اس کا حساب کیا جاتا، تو ہمیشہ دوسرے افراد پیغمبر سے ایک فاصلے پر ہوتے تھے اور وہ شخصیت جس کے جسم کا فاصلہ پیغمبر کے جسم سے سب سے زیادہ کم تھا وہ علی تھے؟

جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں عہدیدار سے قریب ہے؟ تو کیا آپ کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کا مکانی فاصلہ کم ہے؟ نہیں، یہ مراد نہیں ہوتی۔ اگر اس طرح ہو، تو اس عہدیدار کے دروازے پر رہنے والا چپراسی، تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ اس سے نزدیک ہےکیونکہ وہ ہمیشہ اس سے صرف تین چار میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے اور اسکی خدمت کے لئے تیار رہتا ہےکوئی بھی اور قدرت مند شخص اس عہدیدار کے چپراسی سے زیادہ اس سے نزدیک نہیںحالانکہ آپ کی مراد یہ نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ چپراسی ان معنی میں جو آپ کہہ رہے ہیں، اس شخص سے نزدیک نہیں ہے}بلکہ{ سرے سے نزدیک ہی نہیں ہے۔

پس پھر آپ کس معنی میں کہتے ہیں کہ اسکے نزدیک قریب اور مقرب ہے؟ آپ کی مراد یہ ہے کہ اسکے دل میں، اسکے ذہن میں اس انسان کوایسی محبوبیت اور ایسااحترام حاصل ہے کہ وہ اسکی بات نہیں ٹالتا، اسکی خواہش رد نہیں کرتا، اسکی خواہش اسکے لئے ایسے ہی ہے جیسے خود اسکی اپنی خواہش ہویہ قرب، قربِ معنوی ہےلیکن جب ہم قربِ معنوی بھی کہتے ہیں، تو در حقیقت تعبیر ہے، قربِ مجازی ہےیعنی خود یہ، خود اُس سے، یہ شخص اُس شخص سے نزدیک نہیں ہے، بلکہ یہ فقط اس انسان کے ذہن اور روح میں ایک خاص محبوبیت رکھتا ہے، اسکے لطف و عنایت کا مورد ہے، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ نزدیک ہے۔

۲۶

ایک بندے کے خدا سے نزدیک ہو نے کے کیا معنی ہیں؟

یقینی طور پر پہلے معنی والی نزدیکی مرادنہیں ہےیعنی جب ہم کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کی وجہ سے خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے، تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس بندے کا خدا سے فاصلہ کم ہو جاتا ہےیعنی پہلے اسکے اور خد ا کے درمیان فاصلہ موجود تھا، اب تدریجاً وہ اس سے نزدیک اور نزدیک ہو رہا ہےیہاں تک کہ فاصلہ کم ہوتا جاتاہے اور وہ مرحلہ }آپہنچتا ہے{ جس کے متعلق قرآنِ مجید کہتا ہے کہ:یٰاَیُّهَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ (۱) جس کا نام پروردگارِ عالم سے ملاقات اورلقائے رب ہےدو جسموں کی مانند جو ایک دوسرے کے نزدیک آ جاتے ہیںمثلاًجس طرح آپ قم پہنچ جاتے ہیں، ویسے ہی بندہ خدا تک پہنچ جاتا ہےاس قسم کے معنی نہیں ہیں اور یقیناًمراد یہ نہیں ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ اُن دسیوں عقلی دلائل سے قطع نظر جو یہاں موجود ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے فاصلے پر نہیں ہے، خدا کا کوئی مکان نہیں ہے، جس کی بنا پر اس قسم کا فاصلہ فرض ہو سکے، قرآن اور اسلام کی منطق کے لحاظ سے بھی، یعنی نقلی منطق کے لحاظ سے بھی، جس نے ہمیں خدا سے قرب اور نزدیکی کا حکم دیا ہے، جس نے ہمیں زُلفای عنداﷲ کا حکم دیا ہے، وہی جس نے ہم سے کہا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کروکوئی خدا سے دور ہوتاہے اور کوئی خدا سے نزدیک ہےوہی منطق کہتی ہے کہ خدا تمام موجودات سے نزدیک ہے، خدا کسی موجود سے دور نہیں:وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِه نَفْسُه وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۲) ہم انسان کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اسکے قریب ہیںدوسری آیت:وَ هُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (۳) تم جہاں کہیں ہو، خدا تمہارے ساتھ ہےخدا کسی موجود سے دور نہیں ہے۔

--------------

۱۔ اے انسان! تو اپنے رب کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے، توایک دن اس کا سامنا کرے گا۔ (سورہ انشقاق۸۴۔ آیت۶)

۲۔ اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ (سورہ ق ۵۰آیت ۱۶)

۳۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔ (سورہ حدید ۵۷آیت ۴)

۲۷

پس ان معنی میں فاصلے کو کم کرنے کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتاہاں، ایک نکتہ ہے جسے ہم بعد میں عرض کریں گےخدا تمام لوگوں سے مساوی طور پر نزدیک ہےبلکہ تمام اشیا سے یکساں طور پر نزدیک ہےلیکن اشیا مساوی طور پر خدا سے نزدیک نہیں ہیںبعض اشیا خدا سے دور ہوتی ہیں لیکن خدا تمام اشیا سے نزدیک ہے، اور اس میں بھی ایک راز پوشیدہ ہے، جسے شاید آپ کے لئے عرض کر سکوںبہرحال، ان معنی میں نہیں ہے کہ دو چیزوں کے درمیان فاصلہ ہو اور ہم عبادت کے ذریعے اِن دوچیزوں کا فاصلہ کم کریں۔

پس کیا دوسرے معنی مراد ہیں؟ یعنی کیاخدا وندِ عالم کا قرب، معاشرتی عہدے و مقام کی حامل ہستیوں سے تقرب کی مانند ہے؟ بالفاظِ دیگر خداسے تقرب ایک ایسی تعبیر ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ ایک مجاز ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ اسی طرح جیسے ہم نے اپنی اجتماعی گفتگو میں اس قسم کی باتوں کو قرار دیا ہوا ہےایک مطلب جو واقعی نزدیک ہونا نہیں ہے }بلکہ ہم نے{توجہ کا مورد ہونے کو، عنایت کا مورد ہونے کو، لطف کا مورد ہونے کو قرب اور تقرب کا نام دیاہوا ہےبہت سے افراد، حتیٰ بہت سے علما اس طرح تصور کرتے ہیںکہتے ہیں کہ پروردگار سے تقرب کے یہی معنی ہیں جو نتیجے میں تعبیر اور مجاز ہے۔

اگر ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ خدا سے نزدیک ہیںیعنی دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ خدا کے نزدیک مقرب ہیںیعنی ان پر خدا کا سب سے زیادہ لطف اور عنایت ہےبلاتشبیہ }عرض ہے{، ہم خدا سے تشبیہ دینا نہیں چاہتےممکن ہے آپ کے ایک سے زیادہ بچے ہوں، اور ان بچوں میں سے ایک بچہ آ پ کے ذوق، مزاج اور آئیڈیل کے زیادہ مطابق ہوآپ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں میں سے یہ بچہ دوسرے بچوں کی نسبت میرے سب سے زیادہ قریب ہےیعنی ان سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز ہےاگرچہ آپ کے تمام بچے، جسمانی اعتبارسے آپ سے مساوی طورپر نزدیک ہیں، سب کے سب ایک ہی گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیںکبھی کبھی وہ بچہ جسے آپ کم پسند کرتے ہیں وہ آپ کے نزدیک بیٹھ جاتا ہے اور وہ بچہ جسے آپ زیادہ پسند کرتے ہیں وہ آپ سے دو میٹر فاصلے پر بیٹھتا ہے۔

۲۸

کہتے ہیں کہ پروردگار کے مقرب ہونے کے معنی اسکے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ ہم زیادہ پروردگار کی عنایت کے مرکز ہوںوگرنہ یہ بے معنی بات ہے کہ ہم نزدیک ہو ں اور خدا کی طرف چلیںاسی طرح یہ بات بھی بے معنی ہے کہ خدا ہماری طرف آئے اور خدا ہم سے نزدیک ہو جائےہمارے واقعاً خدا سے نزدیک ہونے کا بھی کوئی مفہوم نہیںخدا تو ہر چیز سے نزدیک ہےہم خدا سے نزدیک ہو جائیں، یعنی کیا؟

قربِ الٰہی کے معنی

لیکن وہ علما جو گہری نظر رکھتے ہیں اور زیادہ معرفت کے حامل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہیں، بات اس طرح نہیں ہےخدا سے نزدیک ہونا، حقیقی طور پر نزدیک ہونا ہے، مجازی اور تعبیری طور پر نزدیک ہونا نہیںانسان واقعاً خدا سے نزدیک ترہو جاتا ہےلیکن یہ تصور نہ کیجئے گا کہ اس نزدیک ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی فاصلے کو کم کرتے ہیںفاصلے کی بات نہیں ہے۔پس پھر کیا بات ہے؟ کہتے ہیں کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کمالِ مطلق ہے، وجودِ بے حد ہے، ہستی کا لامتناہی مرکز ہے، وہ علمِ محض ہے، عین علم ہے}مشہور فلسفی عالم{میر داماد کے الفاظ میں:عِلْمٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْعِلْمُ، قُدْرَةُ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْقُدْرَةُ، حیاةٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْحَیاةُ، اِرادَةٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْاِرادَةُ، وہ کمالِ مطلق ہےموجودات جو ں جوں اپنے وجود کے واقعی کمالات حاصل کرتے جاتے ہیں اسی قدر ہستی کے مرکز، محور اور حقیقت سے واقعاً نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیںیہ نزدیک ہوناواقعی نزدیک ہونا ہے، جسمانی نزدیکی نہیں لیکن واقعی اور حقیقی نزدیکی ہے، مجاز اور تعبیر نہیں ہے}یہ تقرب{ایک انسان کے کسی معاشرتی مقام کے حامل شخص کے مقرب ہو جانے یا ایک بچے کے اپنے باپ کے مقرب ہونے کی قسم سے نہیں ہے، جو اس معنی میں ہے کہ اسکے لطف کے آثار زیادہ ہیںنہیں، واقعاً پیغمبر ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، حقیقتاً امیر المومنین ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، اور یہ قرب واقعی قرب ہےنتیجے میں جہاں ہم عبادت کرتے ہیں، عبودیت انجام دیتے ہیں، اگر واقعاً ہماری عبودیت عبودیت ہو، تو ہم قدم بقدم خدا کی طرف (حرکت کرتے ہیں) یہاں جو ہم ”قدم“ کہہ رہے ہیں، تو یہ بھی ایک تعبیر ہے، کیونکہ اس مقام پر یہ کلمات درست نہیں ہیں، ہم ”سیر“ کہتے ہیںکیونکہ علی ابن الحسین علیہما السلام جیسے اشخاص نے یہی تعبیر کی ہے، لہٰذا

۲۹

ہم بھی تعبیر کر رہے ہیں امام علی ا بن الحسین فرماتے ہیں: اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَجِدُ سُبُلَ الْمَطالِبِ اِلَیْکَ مُشْرَعَةٌ وَ مَناهِلَ الرَّجاءِ لَدَیْکَ مُتْرَعَةٌ وَاَعْلَمُ اَنَّکَ لِلرّاجین بِمَوْضِعِ اِجابَةٍ وَلِلْمَلْهوفینَ بِمَرْصَدِاِغاثَةٍ یہاں تک کہ فرماتے ہیں:وَاَنَّ الرّاحِلَ اِلَیْکَ قَریبُ الْمُسافَةِ بارِالٰہا! جو مسافر تیری طرف حرکت اور کوچ کرتا ہے، اُس کا فاصلہ نزدیک ہے، اسے بہت دور کا راستہ طے نہیں کرناہوتا، اسکی مسافت نزدیک ہے۔

دنیا ئے تشیع میں عظیم خزانے موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ دعائیں ہیں، خدا کی قسم یہ معرفت کے خزانے ہیں، اگر ہم اپنے پاس موجود ان دعاؤں کے سوا کوئی اور دلیل نہ بھی رکھتے ہوں، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی صحیفہ علویہ، امام زین العابدین علیہ السلام کی صحیفہ سجادیہ، یا صحیفہ سجادیہ کے علاوہ اور دعائیں، اگر ہمارے پاس علی ابن ابیطالب کی دعائے کمیل اور علی ابن الحسین کی دعائے ابوحمزہ ثمالی کے سوا کوئی اوردعا نہ ہو، اور اسلام کے پاس چودہ صدیوں میں کوئی اور چیز نہ ہو، تو اسلام کے ان دو شاگردوں کے توسط سے، اس بدویت اور جاہلیت سے پر دنیا میں ان دو آثار کا ظاہر ہونا ہی کافی ہےیہ اس قدر اوج و رفعت کے حامل ہیں کہ اصلاً معجزہ اسکے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔

بہر حال کہتے ہیں کہ، تقرب، تقربِ واقعی ہے، اورحقیقت ہے اور انسان سچ مچ خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے۔

خدا سے اس طرح نزدیک ہونے کے کیا معنی ہیں؟

یعنی خدا جو کمالِ مطلق ہے، ہم مسلسل زیادہ سے زیادہ کمال حاصل کریںخدا علمِ علیٰ الاطلاق ہے، ہمارے علم، ایمان اور بصیرت میں اضافہ ہوتا چلا جائےخدا قدرت علیٰ الاطلاق ہے، ہماری قدرت میں اضافہ ہو تا چلا جائےخدا حیات علیٰ الاطلاق ہے، ہماری حیات اور ارادے میں اضافہ ہوتا چلا جائےپس مسلہ عبودیت (اور یہ کہ) بندگی کرو (ایک شاعر کے بقول: بندگی کن تا کہ سلطانت کنند، یا امام جعفر صادق علیہ السلام کے الفاظ میں: اَلْعُبودِیَّةُ جَوْهَرَةٌ کُنْهُهَا الرُّبوبِیَّةُ عبودیت کے راستے پر جس قدر آگے بڑھو گے، اتنا ہی تمہاری ربوبیت او خداوند گاری (نعوذ باللہ خدائی نہیں) کے مالک ہونے اورتمہارے تسلط اور قدرت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گاعبادت قدرت اور تسلط کے حصول کا راستہ ہے۔

۳۰

اب سوال یہ ہے کہ یہ تسلط کس قسم کا ہے؟

اس تسلط کو ہم پانچ مرحلوں (یا ایک اعتبا سے چھے مرحلوں) میں آپ کی خدمت میں واضح کریں گے۔ اگرچہ اس کے وہ آخری مراحل اس قسم کی نشستوں کی حدود سے زیادہ ہیںلیکن کیونکہ ہم نے اوّلین مراحل کو تو عرض کرنا ہی ہے، لہٰذا آخری مرحلے کی جانب اشارہ کرنے پر بھی مجبورہیںگزشتہ نشست میں ہم نے اسکے کچھ حصوں کو عرض کیا تھا۔

عبادت کااوّلین اثر اپنے آپ پر تسلط

عبادت جو انسان کو خدا سے نزدیک کرتی ہے، اُس کا اوّلین اثر(اپنے نفس پر تسلط ہے) یہاں سے آپ سمجھ جائیں کہ کونسی عبادت مقبول ہے، اور کونسی عبادت قبول نہیںایسی عبادت جو انسان کو خدا سے نزدیک نہ کرے، عبادت نہیں ہے۔ یعنی آپ یقین نہ کیجئے گا کہ کوئی انسان درست طریقے سے عبادت کرے لیکن خدا سے نزدیک نہ ہویہ محال ہےعبادت خداوند عالم سے تقرب اور اس سے نزدیک ہونے سے مرکب ہےمیری اور آپ کی عبادت اس وقت مقبول ہے، جب وہ ہمیں خدا سے نزدیک کرے اور باور نہ کیجئے گا کہ انسان خدا سے، کائنات کے اس لامتناہی مرکز سے نزدیک ہو لیکن اسکی بصیرت، ایمان اور نور میں اضافہ نہ ہو، اسکی قدرت، حیات، ارادے اور اپنے آپ پر تسلط میں اضافہ نہ ہو۔

اوّلین مرحلہ، جو اس بات کو جاننے کی سب سے پہلی علامت ہے کہ ہماری عبادت پروردگار کی بارگاہ میں قبول ہوئی ہے یا نہیں ہمارے عمل کی اجتماعی قدر و قیمت ہے، یعنی کیا؟ یعنی اگر ہم عبادت کریںیہ عبادت (جو بار بار کی جاتی ہے اور بالخصوص نماز کے بارے میں زیادہ صادق آتی ہے) کس لئے ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ یہ بات ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہے کہ ہم بندے ہیں اور ہمارا ایک خدا ہے۔

بسا اوقات بعض افرادسوال کرتے ہیں کہ ہمارے نماز پڑھنے سے خدا کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ خدا کوکیا فائدہ ہے جو ہم نماز پڑھیں؟

۳۱

دوسرا کہتا ہے: آپ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھیں، خدا کے سامنے اسکی بندگی کا اظہار کریں، کیا خدا نہیں جانتا کہ ہم اسکے بندے ہیں جو ہم بار بار جا کر اسکی بارگاہ میں کھڑے ہوں اور بندگی کا اعلان کریں، تعظیم کریں، خوش آمد کریں، تاکہ خدا بھول نہ جائے کہ اُس کا ایسا بندہ ہے۔ اور اگر خدا بھول جاتا ہے، توایسا خدا تو خدا نہ ہواآپ جو کہتے ہیں کہ خدا کبھی نہیں بھولتا، تو پھر ہم کس لئے عبادت کریں؟

نہیں جناب، نماز اس لئے نہیں ہے کہ خدا نہ بھول جائے کہ اس کاایسا بندہ موجود ہے، بلکہ نماز اس لئے ہے کہ بندہ نہ بھول جائے کہ اس کا خدا ہے۔ نماز اس لئے ہے کہ ہمیشہ ہمیں یاد رہے کہ ہم بندے ہیںیعنی ہمارے سر پر ایک دیکھنے والی آنکھ موجود ہے، ہمارے دل میں موجود ہے، پوری کائنانت میں موجود ہے۔ ہم یہ بات نہ بھول جائیں کہ ہم بندے ہیں، لہٰذاہماری خلقت بے کار نہیں ہے، ہم بندے ہیں، لہٰذا ہمارے فرائض اور ذمے داریاں ہیںپس جب ہم نماز پڑھتے ہیں اور بار بار اللّہ اکبر، لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ، سبحان اللّٰہ کہتے ہیں، اوراپنی عبودیت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، کہ ہم بندے ہیں، تو یہ اس لئے ہے کہ خدا کی یاد ہمیشہ ہمارے دل میں رہے۔

اِس کا کیا فائدہ ہے؟

اس مرحلے میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں یاد ہے کہ ہم بندے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ ہمارے فرائض ہیں، ہمیں یاد ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون موجود ہے اور اس قانون پر عمل ہونا چاہئے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عادلانہ قانون موجود ہے۔

ابن سینا کا کلام

عظیم اسلامی فلسفی، بو علی سینا نے، اسلام کی روشنی میں کچھ مسائل کا ذکر کیا ہے، اس سے پہلے کسی یونانی اور غیر یونانی فلسفی نے ان مسائل کاذکر نہیں کیا تھاانہی میں سے ایک مسئلہ وہ یہ چھیڑتے ہیں کہ انسان مدنی بالطبع ہےاسکے بعد عبادت کے مسئلے میں داخل ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اجتماعی نکتہ نظر سے (وہ اجتماعی نکتہ نظر سے بھی گفتگو کرتے ہیں اور غیر اجتماعی نکتہ نظر سے بھی) اور انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کو پہچانتا ہو اور اسے پہچاننے کے بعد متوجہ ہو کہ اس

۳۲

خدا کی جانب سے انسانی زندگی کے لئے ایک عادلانہ قانون موجود ہے اور پھر واجب اور لازم ہے کہ عبادت کا وجود ہوعبادت کو بھی مکرر ہونا چاہئے، تاکہ ہمیشہ انسان کو یاد رہے کہ وہ بندہ ہے اور اُس کا ایک خدا ہےجب اسکی روح میں یہ یاد دہانی اور تلقین موجود ہو گی، تویہ اسکے گناہ اور معصیت کا شکار ہونے میں مانع ہو گیوہ ظلم کرنا چاہے گا، تو نماز آ کر اسکی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جائے گی، اور کہے گی کہ تو نے تو عبودیت کا اقرار کیا ہے، تو نے تو کہا ہے کہ میں آزاد نہیں ہوں، (پس کیوں ظلم کرنا چاہتا ہے؟ )(۱) یہاں کونسا قانون پایا جاتا ہے؟ کہتے ہیں: وفُرضت علیہم العبادۃ المفروضۃ بالتکریر، عبادت اس لئے واجب کی گئی ہے، تاکہ انسان کی روح میں ایک ایسی قوت پیدا ہو، کہ اس قوت کے اثرسے جو ایمان سے تجدیدِ عہد ہے مسلسل اس کے ایمان کی تجدید ہوتی رہے اور یہ ایمان گناہ کرنے میں مانع ہوجائے۔

یہ اس تسلط کا اوّلین درجہ ہے جو اپنے اوپر انسان عبادت کے ذریعے حاصل کرتا ہےاس مرحلے کو ہم نے گزشتہ نشست میں ایک حد تک آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا، کہ عبادت کی ایک قطعی خاصیت انسان کا خود اپنے نفس پر تسلط ہےیعنی انسان کا اپنی شہوات پر تسلط، انسان کا اپنی جاہ طلبی پر تسلط، انسان کا اپنی جبلّتوں پر تسلط، انسان کا اپنے اعضا وجوارح پر تسلط، انسان کا اپنی آنکھ پر تسلط، انسان کا اپنی زبان پر تسلط، انسان کا اپنے کان پر تسلط، انسان کا اپنے ہاتھ پر تسلط، انسان کا اپنے پیرپر تسلط، الغرض انسان کا اپنے پورے وجود پر تسلطاگر (یہ خاصیت) نہ ہو (تو ایسی عبادت) عبادت نہیںقرآنِ کریم کی نص کے مطابق:اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ کے ذریعے (ہمیں پتا چل چکا ہے کہ) خداوند گاری، قدرت و تسلط کا اوّلین مرحلہ، اورلا متناہی قدرت کے مرکز (خدا) سے قربت کی اوّلین علامت، اپنے قوہ، جبلّتوں، شہوات، نفسانی خواہشات پر تسلط اور اپنے اعضا پر غلبہ ہے، ہم خود اپنے آپ پر مسلط ہوں۔

--------------

۱۔ یہاں کیسٹ میں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔

۳۳

یہ مرحلہ، عام افراد کا مرحلہ ہےعام افراد اگر عبادت کریں بھی تو ضروری نہیں کہ انہوں نے انتہائی مشق کی ہو، وہ اس مرحلے پر پہنچتے ہیںیہ جو ہم عرض کر رہے ہیں کہ ”عام افراد“ تو اس سے یہ تصور نہ کیجئے گا کہ پس ہماری اور آپ کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، نہیں ہماری بہت اہم ذمے داری ہے۔

اپنے قوہ خیال پر تسلط

اس مرحلے سے جب ہم گزرجاتے ہیں، تو ایک بالاتر اور عالی تر مرحلہ ہے، اور وہ اپنے تصورات اور خیالات پر تسلط ہےیعنی ابھی ہم اور آپ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، دن کے وقت اپنے کام کاج اور روزگار کے سلسلے میں مشغول ہوتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تصورات اور خیالات ہمارے اختیار میں ہیں اور ہم اپنے اوپر حاکم ہیںہم اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ ہم پر ہمارے فکر و خیال کا حکم چلتا ہے (یہاں فکر سے مراد قوہ خیال ہے) یعنی کچھ بکھرے ہوئے افکار ہم پر حاکم ہوتے ہیں آپ ایک جلسے میں بیٹھ جائیں، اگر آپ اپنے ذہن کو ایک گھنٹے کے لئے ایک خاص موضوع پر مرکوز کر سکیںاس انداز سے کہ آپ کی قوہ خیال آپ کے قابوسے باہر نہ نکل سکے، تب پتا چلے گا کہ آپ اپنے فکر و خیال پر مسلط ہیں۔نما ز حضورِ قلب کے لئے ہےحضورِ قلب دراصل ہے کیا؟ یہ حضورِ قلب کا مسئلہ ایک انتہائی عجیب تعبیر ہےحضورِ قلب، یعنی دل حاضر ہو، غائب نہ ہویعنی جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ قبلہ رخ ہوں، تو اپنا جائزہ لیں، دیکھیں کہ آپ کا دل نماز میں حاضر ہے یا غائب؟ آپ نماز کی ابتدا میں اپنے دل کودیکھتے ہیں، وہ حاضر ہوجاتا ہےآپ کا دل بھی چاہتا ہے کہ وہ حاضر رہےجب آپ اﷲ اکبر، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو یکایک آپ دیکھتے ہیں کہ جماعت کا یہ طالبِ علم بھاگ گیا ہے، آپ نے اوّل سے آخر تک درس دیا ہے لیکن طالبِ علم کلاس میں نہیں تھاجب ہم نماز پڑھتے ہیں اور الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو ہم اپنے دل کو تفہیم کرنا چاہتے ہیں، اپنی روح کو تلقین کرنا چاہتے ہیں، لیکن جب ہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا جسم، یعنی ہماری زبان اورہمارے اعضا و جوارح ہمارے دل کو درس دینے میں مشغول تھے، اور جماعت کا طالبِ علم یہ دل تھا، لیکن افسوس کہ یہاں صورتحال یہ تھی کہ ہم نے درس دیا، جماعت کے طالبِ علم نے ابتدا میں اپنے حاضر ہونے کا اعلان کیا اور بعد میں بھاگ گیا اور ہم نے درس دیا اور فضول درس دیا۔

۳۴

ہم سے حضورِ قلب کے لئے کہا گیا ہے، نماز میں تمہارا دل حاضر رہے، غائب نہ ہواس بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیںعلی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی ایک روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے، اورعلما میں سے جس نے سب سے بہتر انداز میں اس نکتے کو بیان کیاہے وہ شیخ الرئیس بو علی سینا ہیں، وہ عارف کی عبادت کے باب میں کہتے ہیں:والعبادة عند العارف ریاضةٌ ما لهممه و قواه المتخیلة و المتوهمة لیجرّها با لتعو ید عن جناب الغرور الی جناب القدس (یہ مضمون ہو بہو حدیث کا مضمون ہےایک درس ہے جو بو علی نے پیغمبر اور ائمہ سے لیا ہے) کہتے ہیں کہ ایک عارف انسان جو عبادت کرتا ہے، ایک دانااور شناسا انسان جب عبادت کرتا ہے، توعبادت کے دوران ہر چیز سے زیادہ، اپنے قوہ خیال کے تمرکز کو اہمیت دیتا ہے، تاکہ اسکا ذہن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے اور قوہ خیال ہمیشہ حاضر ہو اور اس کلاس سے فرار نہ کرے۔

دل کے لئے پیغمبر اکرم کی تعبیر

دل کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک تعبیر ہےاس قسم کے دل جو ہمارے پاس ہیں، وہ دل جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں انتہائی عجیب تعبیر ہے! پیغمبر اکرم ایک مثل بیان کرتے ہیں، فرماتے ہیں:اِنَّما مَثَلُ هٰذَاالْقَلْبِ کَمَثَلِ ریشَةٍ فی فَلاةٍ مُعَلَّقِةٍ عَلٰی شَجَرَةٍ تُقَلِّبُهَاالرِّیحُ ظَهْراً لِبَطْن انسانوں کے دل کی مثل، وہ انسان جن کے دل کی تربیت نہیں ہوئی ہے، اور اب تک انہوں نے عبادت کی مشق نہیں کی ہے، ایک پر کی (مثلاً ایک پرندے کے پر کی) مثل ہےاگرآپ ایک پر کو صحرا و بیابان میں، ایک درخت پر لٹکا دیں، اسکے بعد یہ دیکھیں کہ کیایہ پر ایک حالت میں ٹھہرا رہتا ہےآپ دیکھیں گے کہ وہ مسلسل کبھی اِس طرف اور کبھی اُس طرف ہوتا رہتا ہےہوا کا ایک انتہائی معمولی جھونکا، جس کے چلنے کا آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا، آپ دیکھتے ہیں کہ }اس ہوا کے اثر سے{یہ پر اس شاخ پر حرکت کرنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں بنی آدم کے قلب (جس سے یہاں قوہ خیال مرادہے) کی مثل، قوہ خیال کی مثل ہے، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا، اس شاخ سے اس شاخ پر اڑتا پھرتا ہے، انسان کے اختیار سے باہر ہےاس پر کی مثل ہے، جو بیابان میں ایک شاخ پر آویزاں ہو، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتامولانا روم اسی مضمون کو شعر میں لائے ہیں:

۳۵

گفت پیغمبر کہ دل ہمچون پری است

دربیابانی بہ دست صرصری

کیا تمام دل اسی طرح کے ہوتے ہیں؟  نہیں، ہرگز نہیں۔

لازماً آپ کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا دل بھی نعوذ باﷲ اسی طرح کا تھانہیں، ایسا نہ تھانہ صرف علی ابن ابی طالب، بلکہ اُن کے معمولی سے شاگرد بھی اس طرح کے نہیں تھے۔

کیا اویس قرنی، عمارِ یاسر اور کمیل ابن زیادہ نخعی اسی طرح کے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

حتیٰ ان سے بھی کم تر لوگوں کو ہم نے دیکھا ہےوہ افراد جنہیں ہم نے اپنے زمانے میں دیکھا ہے، ان میں بھی، ان افراد میں بھی ہم نے بہت دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے قوہ خیال کے مالک اور اپنے قوہ خیال پر مسلط ہیں۔ یعنی خدا کی عبودیت اور بندگی کے زیر اثر وہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کر سکے ہیں کہ اگر وہ چاہیں کہ مسلسل ایک گھنٹے اپنے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز رکھیں، اس طرح سے کہ اس پورے وقت میں ان کا ذہن ذرّہ برابر بھی کسی اور نقطے کی طرف متوجہ نہ ہو، تو وہ ایسا کر سکے ہیںیہ خود ایک قدرت اور تسلط ہے، اور خداوندِ تبارک و تعالیٰ سے واقعی قرب کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہےاس قسم کی چیز ممکن ہے۔ بنیادی طور پر ان لوگوں کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ وہ اپنی فکر و خیال پر حاکم ہیں، فکر یعنی خیال ان پر حکومت نہیں کرتااس قسم کے نکتے کو مولانا روم نے کس قدر عالی بیان کیا ہے! پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:یَنامُ عَیْنی وَلا یَنامُ قَلْبی میری آنکھ سوتی ہے، لیکن میرا دل بیداررہتا ہےہمارے برعکس کہ ہماری آنکھ بیدار ہے اور ہمارا دل عالمِ خواب میں ہےپیغمبر نے فرمایا ہے کہ میں آنکھ سے سوتاہوں، میرا دل بیدار ہوتا ہےفرماتے ہیں:

گفت پیغمبر کہ عینای ینام

لاینام القلب عن رب الانام

۳۶

چشم تو پیدار و دل رفتہ بہ خواب

چشم من درخواب و دل در فتح یاب

حاکم اندیشہ ام محکوم نی

چون کہ بنا حاکم آمد بربنی

میری اور میرے فکر و خیال کی مثل بنّا}معمار{ اور بنا}عمارت{ کی سی ہے، اسے میں نے بنایا ہے، فکر و خیال نے مجھے نہیں بنایا ہے۔

من چومرغ او جم اندیشہ مگس

کی بود برمن مگس را دسترس

یہ دوسرا (اور ایک اعتبار سے تیسرا) مرحلہ، ان مراحل میں سے ہے کہ انسان تسلط اور قدرت پیدا کرتا ہے۔

روح کا بدن سے بے نیاز ہوجانا

کیا دوسرے مراحل بھی ہیں؟ اگرچہ یہ مراحل ہماری سطحِ فکر اور تصورات سے بعید ہیں لیکن صرف اس بنا پر کہ دوراور بعید ہیں ہمارے لئے یہ عذر نہیں ہوتا کہ ہم انہیں نہ پہچانیں اور ان سے بے خبر رہیںجی ہاں، ایک بالاتر مرحلہ بھی ہے (البتہ یہ خیال نہ کیجئے گا کہ جن مراحل کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہ امام یا پیغمبر کے مراحل ہیں، امام اور پیغمبر کے مرحلے تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مراحل ہیں) انسان خداوندِ عالم سے تقرب کے نتیجے میں (اور خداوندِ عالم سے تقرب عبودیت، اخلاص، اپنے آپ کو بھول جانا، پروردگارِ عالم کے مقابل خضوع و تذلل اور اسکے مقابل اطاعتِ محض کا نتیجہ ہے) ایک ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے کہ باوجود یہ کہ اُس کا بدن روح کا محتاج ہوتا ہے، اسکی روح بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔

۳۷

ایسا کیسے ہوتا ہے؟

اس وقت ہماری روح ہمارے بدن کی محتاج ہے، اور ہمارا بدن بھی ہماری روح کا محتاج ہےاس وقت اگر وہ روح اوروہ قوہ حیات نہ ہو، تو ہمارایہ بدن زندہ نہیں رہے گااگر ہمارایہ بدن بھی نہ ہو، تو ہماری روح بھی یہاں کسی کام کی نہ رہے گی، وہ کوئی کام نہیں کر سکے گی۔

لیکن کیا تمام انسان اسی طرح کے ہیں کہ ان کا بدن بھی روح کی ضرورت رکھتا ہے اور ان کی روح بھی بدن کی محتاج ہوتی ہے؟ یا یہ کہ بعض انسان خدا سے تقرب اور پروردگار کی عبودیت کے نتیجے میں اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کم از کم ان کی روح ان کے بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔

کیسے بے نیاز ہو جاتی ہے؟

یعنی وہ یہ قدرت حاصل کر لیتے ہیں کہ بقول روح کو اس بدن سے نکال لیتے ہیں (البتہ یہاں نکالنے کے معنی مرجانا نہیں ہیں) یعنی بدن کے مقابل روح کے استقلال کو محفوظ رکھتے ہیں۔

خود ہمارے زمانے میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو روح کو نکالنے کی قدرت رکھتے ہیںیعنی روح کو بدن سے جدا کرتے ہیں، اس طرح کہ اپنے آپ کو اس بدن پر مسلط دیکھتے ہیں اپنے بدن کو دیکھتے ہیں کہ مثلاً یہاں عبادت میں مشغول ہے اور وہ خود کسی دوسری جگہ کی سیر کر رہے ہوتے ہیں ایک وسیع ترین دریچہ اُن کے سامنے کھلا ہوتا ہےشیخ شہاب الدین سہروردی، جو ”شیخ اشراق“ کے نام سے معروف ہیں، اُن کی ایک عبارت ہےکہتے ہیں کہ ہم حکیم کواس وقت تک حکیم نہیں سمجھتے، جب تک اس میں اس بات کی قدرت نہ ہو کہ وہ اپنی روح کو اپنے بدن سے علیحدہ کر لےمیر داماد کہتے ہیں: ہم حکیم کو حکیم صرف اسی وقت سمجھتے ہیں جب بدن کو (روح سے) خالی کرنا اسکے لئے ملکہ بن چکا ہویعنی جب بھی وہ ارادہ کرے، اپنی روح کو بدن سے مستقل اور جدا کر سکے۔

۳۸

ہمارے لئے یہ باتیں انتہائی سنگین اور زیادہ ہیںہم ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتےہمیں ان پر یقین نہ رکھنے کا حق بھی ہےکیونکہ ہم ان مراحل سے بہت دور ہیںلیکن اس بدگمانی اور بے یقینی سے ذرا اوپر اٹھئےہم تو نہیں گئے ہیں، ہم نے تو عبودیت کے راستے کے اس پہلے ہی مرحلے کو طے نہیں کیا ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ کیا خدا کی عبادت کا اتنا اثر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ہم نے ایک بھی ماہِ رمضان میں، ایک بھی صحیح روزہ نہیں رکھا ہےآپ اسی ماہِ رمضان میں حقیقتاً تجربہ کرکے دیکھئےآپ دنیا کے تمام کاموں میں تجربہ کرتے ہیں ایک ماہِ رمضان میں تجربہ کیجئے اور ایک واقعی روزہ، ایسا روزہ جیسا پیغمبر اکرم نے فرمایاہے اور ائمہ اطہار نے حکم دیا ہے رکھئےیعنی پہلے تو روزے کے ظاہر پر، جو کھانے پینے کی اشیااور کچھ دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہے، عمل کیجئےالبتہ یہ کام ہم سب کرتے ہیںلیکن وہ روزہ جسے حدیث میں روزہَ خاص کہا گیا ہے، اس روزے کو بھی رکھ کر دیکھیں۔ یعنی اس ایک ماہ میں، صرف ہمارا دَہان روزے سے نہ ہو، بلکہ ہماری زبان بھی روزہ رکھےماہِ رمضان میں کوشش کریں کہ ہماری زبان غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، خواہ یہ جھوٹ اسکے انتہائی فائدے میں ہوزبان روزہ نہ توڑے، جھوٹ نہ بولے، کیونکہ روزہ صرف کھانے سے پرہیزکا نام نہیں ہےپیغمبراکرم نے فرمایا ہے:رُبَّ صاءِمٍ لاحَظَّ لَهُ اِلَّا الْجوعُ وَالْعَطَشُ بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں، روزے سے جن کے حصے میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتاہماری زبان بیہودہ اور لغو باتیں نہ بولے، وہ الفاظ جو ہماری دنیوی زندگی یا ہماری آخرت کے لئے ضروری ہوں ان کے سوا کوئی لفظ نہ بولےہمارے کان غیبت نہ سنیں، لہو ولعب نہ سنیں، فحش کلامی نہ سنیںہماری آنکھیں دوسروں کی عزت و آبرو پر نہ اٹھیںہمارے ہاتھ خیانت کے لئے دراز نہ ہوںہمارے قدم خیانت اور ظلم کی طرف نہ بڑھیںاسکے مقابل، اس ماہِ رمضان کو اطعام (دوسروں کو کھانا کھلانا) دلجوئی، محبت، احسان اور خدمت گزاری کا مہینہ قرار دیں۔

۳۹

امتحان کریں، ایک ماہِ رمضان انسان بننے کی کوشش کریںاس وقت آپ دیکھیں گے کہ ایک ماہ بعد، عبادت اور عبودیت اپنا اثر بخشتی ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو بدلتا ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو ربوبیت یعنی خداوندگاری اور تسلط و قدرت دیتا ہے یا نہیںاگر آپ دیکھیں کہ نہیں دیا، تب آپ ان بعد کے مراحل کا انکار کیجئےلیکن اگرآپ دیکھیں کہ نہیں، اس ایک مہینے میں آپ نے اس قدر ربوبیت، خداوند گاری، تصاحب، یعنی اپنے نفس پر، اپنی جبلّتوں اور شہوات پر، اپنے اعضا و جوارح پرتسلط حاصل کر لیا ہے، تو پھر یقین کر لیجئے گاکہ وہ اگلے مراحل بھی عملی ہیں۔

بدن پر تصرف کی قدرت

کیا اس سے بھی بڑھ کرہے؟ کیا عبودیت کی یہ سواری انسان کو اس سے زیادہ خدا سے نزدیک کرتی ہے اور کیا انسان کو اس سے زیادہ قدرت و توانائی دیتی ہے؟

جی ہاں، نہ صرف اس کا رابطہ (یعنی انسان کا اپنے بدن سے رابطہ) اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ روح بدن سے مستقل ہو جاتی ہے، اور بدن سے اپنی نیاز سلب کرلیتی ہے، اس مرحلے پر جا پہنچتی ہے کہ اپنے بدن پر جو بھی تصرف کرنا چاہتی ہے کر لیتی ہےحتیٰ} انسان{یہ قدرت بھی حاصل کر لیتا ہے (ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے بعض لوگ شاید اس بات پر دیر سے یقین کریں) کہ ایک گھنٹے تک اپنی حرکتِ قلب کو روک لیتا ہے، اور نہیں مرتااس بات کی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ دو گھنٹے سانس نہ لے اور نہیں مرتااس بات کی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس بدن کے ساتھ طی الارض کرےہاں، }انسان {ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہےیہ عبادت کا اثر ہے۔

۴۰