عبادت و نماز

عبادت و نماز0%

عبادت و نماز مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 100

عبادت و نماز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 100
مشاہدے: 44748
ڈاؤنلوڈ: 4555

تبصرے:

عبادت و نماز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 100 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44748 / ڈاؤنلوڈ: 4555
سائز سائز سائز
عبادت و نماز

عبادت و نماز

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بیرونی دنیا پر تصرف کی قدرت

کیا اس سے بھی بڑھ کر ہے؟ جی ہاں، اگر آپ وحشت کا شکار نہ ہوں، تو اس سے بلند تر بھی ہےوہ بالاتر مرحلہ، وہ قدرت ہے کہ انسان خدا کی بندگی اور عبودیت کے اثر سے اور ذاتِ اقدسِ الٰہی سے قرب کے اثر سے اور ہستی کے لامتناہی مرکز سے نزدیک ہونے کے زیر اثر اپنے سے باہر کی دنیا میں بھی تصرف کر سکتا ہےوہ ایک عصا کو اژدھے میں بدل سکتا ہے، وہ چاند کے گولے کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے، وہ تختِ بلقیس کو پلک جھپکتے میں یمن سے فلسطین لا سکتا ہےجی ہاں، کر سکتا ہےاَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌ کُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ لیکن یہ مراحل ہم سے بہت دور ہیںہم اپنے ہی مرحلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

ہم جو آج رات یہاں جمع ہوئے ہیں، قطع نظر اسکے کہ یہ رات احیا کی راتوں میں سے ایک رات ہے، جسے ہمیں جاگ کر بسر کرنا چاہئےلیکن اس رات کو ایک اعتبار سے ایک برکت و سعادت حاصل ہے، اور ایک اعتبار سے ایک نحوست اور بدشگونی بھینحوست اس اعتبار سے ہے کہ ایسی ہی ایک رات کو ہم علی ابن ابیطالب جیسی ہستی سے محروم ہوئے ہیں، اور برکت و سعادت اس اعتبار سے ہے کہ علی ابن ابیطالب کا جانا، ایک عام جانا نہیں تھاایک ایسا جانا ہے جو واقعاً ”مبارکباد“ کا حامل ہےجیسے کہ ”صعصعۃ بن صوحان عبدی“ امیر المومنین کے دفن کی شب، جب امیر المومنین کی قبر کے سرہانے آیا، کھڑا ہوا (وہ اور گنتی کے چند اور امیر المومنین کے خاص ساتھی تھے جنہیں امام حسن مجتبیٰ سلام اﷲ علیہ نے اس موقع پربلایا تھا) اور کہا کہ کیسی اچھی زندگی بسر کی اور کیسی عالی موت پائی!

آج کی رات احیا کی شب بھی ہے اور وہ رات بھی ہے جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ حضرت علی کو دوسروں کی نسبت کیا خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ آپ علی کے اس قدر شیفتہ ہیں؟ علی کی آپ سے کیا رشتہ داری ہے؟ کوئی نہیںعلی کا آپ سے کیا مادّی تعلق ہے؟ کسی قسم کا مادّی تعلق نہیں ہےعلی کا امتیاز اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟ علی کی خصوصیت عبودیت اور بندگی ہےعلی خدا کے ایک کامل صالح بندے ہیں ایک ایسے بندے ہیں جو بندگی کے سوا کسی اور بات کے

۴۱

بارے میں نہیں سوچتےایک ایسے بندے ہیں کہ ربوبیت اور تسلط کے اُن تمام مراحل کو، جن کے متعلق ہم نے عرض کیا، علی نے اعلیٰ حد تک طے کیا ہےایک ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ خدا کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر سمجھتے ہیں۔

مالک اشتر نخعی کو کیا عالی تحریر کیا ہے! مالک اشتر کو حضرت علی علیہ السلام کا فرمان، جو نہج البلاغہ میں موجود ہے، اسلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہےانسان حیرت زد ہ ہو جاتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے، ایسی گنوار اور وحشی قوم کے درمیان ایک ایسا عظیم الشان اجتماعی دستورِ عمل (صاد ہوتا ہے) کہ انسان کو خیال گزرتا ہے کہ اسے انیسویں اور بیسویں صدی میں کچھ فلاسفہ نے بیٹھ کر تحریرکیا ہےمجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ جو معجزے کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ خیال کرتے ہیں کہ بس معجزہ یہ ہے کہ عصا، اژدھا بن جائےیہ معجزہ عوام کے لئے ہے۔ عالم لوگوں کے لئے دعائے کمیل، دعائے ابوحمزہ ثمالی اور مناجاتِ شعبانیہ معجزہ ہیں، مالکِ اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا فرمان معجزہ ہےاس فرمان میں آپ یوں تحریرفرماتے ہیں: مالک ! خیال نہ کرنا کہ اب جبکہ تم مصر گئے ہو، تو اب ان لوگوں کے والی اور ان سے برتر ہوگئے ہو اور لوگوں کو اپنی رعایا سمجھنے لگولہٰذا ایک درندے بھیڑیئے کی طرح جو دل چاہے کرتے پھرونہیں، ایسا نہیں ہےلوگوں کی تقسیم کرتے ہیں: وہ جو مسلمان ہیں، وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور وہ جو مسلمان نہیں ہیں، وہ تمہارے ہم نوع انسان ہیں اسکے بعد آخر میں (ہماری گفتگو کا شاہد یہی ہے) فرماتے ہیں: مالک!فَاِنَّکَ فَوْقَهُم تم اپنی رعیت پر بالادست بنائے گئے ہووہ محکوم ہیں اور تم حاکم لیکنوَاِلی الاَ مْرِعَلَیْکَ فَوْقَک جس ہستی نے یہ فرمان تمہارے نام تحریر کیا ہے اور اس ابلاغ کو تمہارے لئے صادر کیاہے، اور جو میں ہوں، وہ تمہارے اوپر ہےمیں تم پر نظر رکھے ہوئے ہوںاگر تم نے کوئی غلطی کی، تو تمہیں اسکی سزا دوں گاوَاللّٰهُ فَوْقَ مَنْ وَلّاکَ (۱) اور پروردگارِ اقدس کی ذات اس کے اوپر ہے جس نے تمہیں مصر کے لوگوں کا حاکم بنایا ہےخدا علی کے اوپر ہے اور علی ہمیشہ اپنے خدا سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی خطا سرزد نہ ہوجائے۔

--------------

۱۔ نہج البلاغہ مکتوب۵۳

۴۲

دوسرا مرحلہ، جو خیال اور فکر کے تمرکز کا مرحلہ ہے (اس کے تعلق سے) اب اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ علی نماز میں کھڑے ہوتے ہیں، خدا اور عبادت میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ وہ تیر جو آپ کے پائے مبارک میں پیوست ہے اور اگر عام حالت میں اسے آپ کے پیر سے نکالیں تو بہت تکلیف دے اور شاید بے تاب کر دے، حالتِ نماز میں آپ کے بدن سے باہر نکالتے ہیں اور آپ کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔

حضرت علی علیہ السلام کوجو عظمت ومنزلت حاصل ہے وہ آپ کی شخصیت کے انہی پہلوؤں کی وجہ سے ہےحضرت علی علیہ السلام ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ طی الارض اور اس طرح کے مسائل آپ کے لئے انتہائی آسان ہیںمیں نے سنا ہے کہ ایک جاہل و نادان شخص نے کہا ہے کہ ایک ڈیڑھ میٹر یا دو میٹر کے انسان (یعنی العیاذ باﷲ علی ابن ابیطالب علیہ السلام) کے لئے جواس قدر فضائل اور معجزات بیان کئے جاتے ہیں وہ گھڑے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہےان لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے مسائل کا تعلق انسان کے قد کاٹھ سے ہےلہٰذا ایک ایسا شخص جس کا قد دو میٹر ہو، وہ زیادہ موثر ہوا کرتا ہےاس قسم کے انسانوں کی نظر میں اگر دنیا میں کوئی معجزہ وجود رکھتا ہے تو اسکا تعلق ”اوج بن عُنُق“ سے ہےکیونکہ وہ عظیم الجثہ تھایہ لوگ انسان کو پہچاننا کیوں نہیں چاہتے؟ کیوں خدا کو نہیں پہچاننا چاہتے؟ کیوں تقربِ الٰہی کو نہیں سمجھنا چاہتے؟ کیوں عبودیت کے معنی نہیں سمجھنا چاہتے؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ولایتِ تکوینی، یعنی اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ خدا نے دنیا کے کام کونعوذ باﷲ ایک انسان کے سپرد کر دیا ہے، اور خود ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا ہے، ایسی چیز محال ہےولایتِ تکوینی، یعنی بنیادی طور پر عبودیت کا پہلا قدم ولایت ہےلیکن درجہ بدرجہ (ولایت یعنی تسلط و قدرت) اِس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ اس ہاتھ کا مالک ہو جائے، اس آنکھ کا مالک ہو جائے، اس کان کا مالک ہو جائے، اپنے پیر کا مالک ہو جائے، اپنی جبلّتوں کا مالک ہو جائےدوسرا قدم اپنے فکر و خیال کا مالک ہو جائے، اپنے بدن کے مقابل اپنے نفس کا مالک ہو جائےقدم بقدم (آگے بڑھتا ہے) یہاں تک کہ عالمِ

۴۳

تکوین پر بھی کچھ تسلط حاصل کر لیتا ہےپھر یہ باتیں نہیں کیا کرتا، یہ باتیں بے شعوری اور بے معرفتی کا نتیجہ ہیںہمیں علی اس لئے محبوب ہیں اور ہم اس لئے علی کے شیفتہ ہیں کہ یہ بات انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہےوہ شخص جو خود اپنے آپ سے بے خود ہو گیا ہے، وہ جس کی دنیا میں اب خودی نہیں پائی جاتی، جو کچھ ہے خدا ہے اور خدا کے سوا کوئی اور چیز اسکی بساط میں نہیں۔

علی، بسترِ شہادت پر

آیئے پروردگار کے اس صالح بندے کی عیادت کو چلتے ہیں آج کی رات علی کے بچوں کے لئے، علی کے شیعوں اور دوستوں کے لئے انتہائی پر اضطراب رات ہے۔

کم و بیش بہت سے لوگ سمجھ چکے تھے کہ علی ؑ اس مسموم ضربت سے نہیں بچ سکیں گےجیسا کہ آپ نے سنا ہے، علی ؑ نے جنگِ خندق میں عمرو بن عبدود سے ایک سخت ضرب کھائی تھی، یہ ضرب علی ؑ کے فرقِ نازنین پر پڑی تھی اور سپر کو توڑتی ہوئی امام کے سر میں ایک شگاف کا باعث بنی تھیالبتہ ایسی نہ تھی کہ خطرناک ہوتی اور بعد کے مرحلے میں امام نے عمرو کو زمین پر پٹخ دیا تھایہ زخم صحیح ہو گیا تھاکہتے ہیں کہ اس ازل و ابد کے لعین (ابن ملجم) کی ضربت اسی جگہ پر پڑی تھی، جہاں اس سے پہلے عمرو بن عبدود کی ضربت لگی تھی حضرت علی ؑ کے سرِ اقدس میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا تھابہت سے لوگوں کو اب بھی اس بات کی امید تھی کہ علی ؑ صحت یاب ہو جائیں گےحضرت علی ؑ کے بچوں میں سے ایک، ظاہر اً ان کی محترم صاحبزادی امِ کلثوم کی گزرتے ہوئے عبدالرحمن ابن ملجم پر نظر پڑی، انہوں نے کہا: اے ازل و ابد کے لعین! مجھے امید ہے تیری تمنا پوری نہ ہوگی، خدا میرے والد کو شفا عنایت کرے گا(ابن ملجم) مسکرایا اور کہا کہ میں نے اس تلوار کو ہزار درہم میں خریدا ہے، یہ بہت کارآمد تلوار ہے، اور میں نے اسے زہر میں بجھانے کے ہزار درہم ادا کئے ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ ضربت جو میں نے تمہارے باپ کے سر پر لگائی ہے، اگر اسے تمام انسانوں پر تقسیم کیا جائے، تو سب لوگ مر جائیں گےآپ خاطر جمع رکھئےاس بات نے علی ؑ کے بچوں کی امید کو بڑی حد تک توڑ دیاکہا کہ طبیب کو بلاؤایک شخص ہے جس کا نام ”ہانی بن عمرو سلولی“ ہے، ظاہراً یہ شخص (جیسا کہ ایک مرتبہ

۴۴

میں نے تاریخ میں پڑھا) ایک ایسا طبیب تھا جس نے ”جندی شا پور“ کی یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی، یہ یونیورسٹی ایران میں تھی اور ایران کے عیسائی اسے چلاتے تھےیہ شخص کوفہ میں مقیم تھالوگ گئے اور اسے لے کر آئے، تاکہ معائنہ کرے، بلکہ ہوسکے تو علاج کرےلکھا ہے کہ اس نے ایک گوسفند یا ایک بکرے کو ذبح کرنے کو کہااسکے پھیپھڑے سے اس نے ایک رگ باہر نکالی، اس رگ کو گرم گرم اس زخم کی جگہ میں داخل کیا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس زہر کے آثار کس قدر ہیں، یا جاننا چاہتا تھا کہ یہ کس قدر نفوذ کر گیا ہے، ان باتوں کو اس سے زیادہ میں نہیں جانتالیکن صرف اس قدر جانتا ہوں کہ تاریخ میں یہ لکھا ہے۔ یہ شخص اپنی طبی آزمائش سے فارغ ہوا، توخاموش بیٹھ گیا، کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا، صرف اتنا کیا کہ امیر المومنین کی طرف رخ کرکے عرض کیا کہ: اے امیر المومنین ؑ ! اگر آپ کی کوئی وصیت ہے تو کر دیجئےیہ وہ مقام ہے جہاں حضرت علی ؑ کے گھرانے، علی ؑ کے اعزہ اور علی ؑ کے شیعوں کی امید ختم ہو گئی۔

علی ؑ مہر و محبت اور بغض و عداوت ہردوچیزوں کا مرکز ہیں آپ کے ایسے ایسے محب ہیں جو آپ سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن بھی انتہائی شدید ہیں، جیسے عبدالرحمن ابن ملجماسی طرح آپ کے دوست بھی عجیب و غریب تھےان دو راتوں اور دنوں میں، حضرت علی ؑ کے دوستوں میں ایک ولولہ پایا جاتا تھا، وہ علی کے گھر کے گرد جمع تھے اوروہ سب علی ؑ کی عیادت کی اجازت طلب کر رہے تھےسب کہہ رہے تھے کہ ایک بار ہمیں اپنے مولا کے جمال کے دیدار کی اجازت دے دیجئےکیا ممکن ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر علی ؑ کی آواز سن سکیں، علی ؑ کا رخِ انور دیکھ سکیں؟ ان میں سے ایک ”اصبغ بن نباتہ“ ہیںوہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ علی ؑ کے گھر کے گرد جمع ہیں، مضطرب ہیں اور گریہ و بکا کر رہے ہیں، سب داخلے کی اجازت ملنے کے منتظر ہیں یکلخت میں نے دیکھا کہ امام حسن ؑ باہر تشریف لائے اور اپنے والدِ بزرگوار کی طرف سے لوگوں سے ان کی محبت کا شکریہ ادا کیااسکے بعد فرمایا: اے لوگو! میرے والد کی حالت ایسی نہیں ہے کہ آپ ان سے ملاقات کر سکیںوالد صاحب نے آپ سے معذرت چاہی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں، چلے جایئے، یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہےمیرے لئے آپ سے ملاقات ممکن نہیںلوگ چلے گئےمیں نے بھی بہت چاہا کہ میں بھی چلا جاؤں لیکن نہ جا سکا میرے قدموں میں جانے کی

۴۵

طاقت ہی نہیں رہی تھیمیں کھڑا رہاامام حسن ؑ ایک مرتبہ پھر تشریف لائےمجھے دیکھا اور کہا: اصبغ کیا تم نے نہیں سنا میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں آقا سنا ہےفرمایا:پھر کیوں نہیں گئے؟ میں نے عرض کیا: میرا دل جانے کو تیار نہیں ہوتا، میرا دل چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے آقا کی زیارت کر لوںامام تشریف لے گئے اور میرے لئے اجازت حاصل کر لائےمیں امیر المومنین کے سرہانے پہنچ گیامیں نے دیکھا کہ امیر المومنین کے سر پر ایک زرد رومال باندھا گیا ہےمیں تعین نہیں کر پا رہا تھا کہ علی کا چہر ہ اقدس زیادہ زرد ہے یا وہ رومال۔

بعض نے کہا ہے کہ تلوار کی ضربت اور اس مسمومیت کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی قوتِ مدافعت ایک غیر معمولی بات ہےقاعدتاًعلی کو ضربت لگتے ہی دنیا سے رخصت ہو جانا چاہئے تھاان آخری لمحات میں علی کبھی بے ہوش ہو جاتے کبھی ہوش میں آ جاتےجب آپ ہوش میں آتے تو آپ کی زبانِ مقدس پر ذکرِ خدا اور وعظ و نصیحت جاری ہو جاتےکیسے کیسے نصائح، کیسے کیسے مواعظ، کیسی کیسی باتیں۔

اب اس موقع پر علی ؑ کی اولاد کے سوا کوئی علی ؑ کے بستر کے نزدیک نہ تھاذکرِ مصیبت ہمارا یہی ایک جملہ ہےعلی کے بچے علی کے بستر کو گھیرے میں لئے ہوئے تھےوہ دیکھتے تھے کہ آقا کبھی باتیں کرنے لگتے ہیں اور کبھی بے حال ہو جاتے ہیںہم نے ایک مرتبہ علی ؑ کی آواز سنی، جیسے آپ کسی سے باتیں کر رہے ہیںفرشتوں کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں:اِرْفَقوا مَلا ءِکَةَ رَبّی بی میرے خدا کے فرشتو، جومیری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہو، میرے ساتھ نرمی کا سلوک کرناایک مرتبہ دیکھتے ہیں کہ علی ؑ کی صدا بلند ہوئی:اشْهَدُ اَنْ لا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لاشَریکَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسولُهُ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰ یہ علی کے کلمات تھےمیں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں، میں پیغمبر کی رسالت کی شہادت دیتا ہوں}اسکے بعد{جان، جان آفرین کے سپرد کی اور علی ؑ کے گھر سے نالا و شیون کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔(۱)

--------------

1:-تقریر کے آخری چندسیکنڈ کیسٹ پر ریکارڈ نہیں ہوئے ہیں۔

۴۶

نماز کی اہمیت

یآ اَیُّهَا الذَِّیْنَ اٰمَنُوا ا ذْکُرُ وااﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ه وَّسَبِحُّوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً (۱)

ہم اپنے مذہبی مضامین میں بعض ایسی چیزیں بھی دیکھتے ہیں جو کچھ اذہان میں عبادت کے موضوع پر سوالات پیدا کرتی ہیںمثلاً نماز کے بارے میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے یا ائمہ اطہار علیہم السلام(۲) کا فرمان ہے کہ:اَلصَّلوٰةُ عَمودُ الدّینِ (نماز دین کا ستون ہے۔ وسائل الشیعہج ۳ص ۲۳ح ۱۳) یعنی اگر ہم دین کو ایک نصب شدہ خیمہ سمجھیں، جس میں اس کی چادر بھی ہے، طناب بھی، حلقہ بھی، زمین میں گڑی ہوئی بڑی بڑی کیلیں بھی اور ایک ستون بھی جس نے اس خیمے کو کھڑا کیا ہوا ہے، تو نماز اس نصب شدہ خیمے کے ستون کی مانند ہے۔

حدیث نبوی میں، جو خود رسول کریم سے نقل ہوئی ہے، خاص طور پر اسی بات کی بالکل اسی طرح وضاحت کی گئی ہے، جس طرح ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے۔

نماز کے بارے میں روایت ہے: اِنَّ قُبِلَتْ قِبُلَ مَاسوِیها وَانْ رُدَّتْ رُد مَّاسواها مراد یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کی قبولیت نماز کے قبول ہونے سے مشروط ہےیعنی اگرانسان کوئی نیک عمل انجام دے لیکن نماز نہ پڑھے، یا نماز پڑھے تو سہی لیکن درست نہ پڑھے، ایسی نماز پڑھے جوبارگاہِ الٰہی میں قبول نہ کی جائے، مسترد کر دی جائے، تو ایسی صورت میں اسکے دوسرے تمام نیک اعمال بھی مسترد کر دیئے جائیں گےانسان کے تما م نیک اعمال کی قبولیت اسکی نماز کی قبولیت سے وابستہ ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے:اَلصَّلوٰةُ قُرْبَان کُلِّ تَقِّی (نماز ہر متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہےنہج البلاغہ کلمات قصار ۱۳۶)اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان اس وقت تک مومن سے دور اوراس سے ناراض رہتا ہے جب تک وہ اپنی نماز کی حفاظت اورپابندی کرتا ہے۔

--------------

1:-ایمان والو ! کثرت کے ساتھ اﷲ کا ذکر کیا کرواور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔ (سورہ احزاب ۳۳آیت ۴۱، ۴۲)

2:-کیونکہ یہ چیز پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات میں بھی پائی جاتی ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے فرمودات میں بھی موجود ہے۔

۴۷

احادیث و روایات میں کثرت کے ساتھ اس طرح کی باتیں ملتی ہیں، حتیٰ خود آیاتِ قرآنی سے اس مفہوم یعنی نماز کی غیرمعمولی اہمیت کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں اٹھنے والا ایک سوال جو گاہ بگاہ کچھ لوگوں کی زبان پر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ نماز کی اہمیت کے بارے میں اس قدر زیادہ احادیث میں سے کچھ احادیث تو ضرور جعلی ہوں گی، درست نہ ہوں گی، صحیح اور معتبر نہ ہوں گی، پیغمبر یا ائمہ اطہار کا کلام نہ ہوں گی؟ ان احادیث کو شاید اس دور میں وضع کیا گیا ہو گا جس میں عالم اسلام میں زاہد اور عبادت گزار افراد کی کثرت ہو گئی تھی، یہ اس دور کی ساختہ ہوں گی جب (اسلامی دنیا) میں زہد و عبادت کا بازار گرم تھا، بالخصوص دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جبکہ زاہد مسلک اور عبادت میں حد سے گزر جانے والے افراد ظاہر ہوئے تھے، جو کم و بیش رہبانیت اختیار کر چکے تھے۔

زاہد اور صوفی نما لوگ

ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت سے دنیائے اسلام میں تصوف نے جنم لیا، اسی دور سے ایسے افراد پیدا ہو گئے تھے جو دیگر اسلامی فرائض و واجبات کو بھلا کر اپنی ساری طاقتیں صرف عبادت اور نماز میں صرف کرتے تھے۔

مثلاً ہم حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں ربیع بن خثیم نامی ایک شخص کوپاتے ہیں، یہ وہی معروف خواجہ ربیع ہیں جن سے منسوب ایک قبر مشہدِ مقدس میں ہےاب میںیہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ قبر انہی کی ہے یا نہیں، مجھے اس بارے میں خاطر خواہ معلومات نہیںالبتہ اس بارے میں شک نہیں کہ یہ ”زھادِ ثمانیہ“ یعنی دنیائے اسلام کے آٹھ معروف زاہدوں میں سے ایک شمارکئے جاتے ہیں۔

۴۸

ربیع بن خثیم کے زہد و عبادت کا یہ عالم تھا کہ اپنی عمر کے آخری دور میں(۱) انہوں نے اپنی قبر کھودی اور وقتاً فوقتاً جا کے اس قبر میں لیٹ جایا کرتے اور اپنے آپ کو وعظ ونصیحت کرتےقبر میں لیٹ کراپنے آپ سے کہتے کہ :یہ نہ بھلا بیٹھنا کہ آخر کارتمہیں یہیں آنا ہے۔

جب انہیں اطلاع ملی کہ لوگوں نے فرزندِ رسول حسین ابن علی علیہ السلام کو شہید کردیا ہے تو انہوں نے اس اندوہناک واقعے پر اظہارِ افسوس کے طور پر صرف اتنا کہا کہ: ”وائے ہو اس امت پر جس نے اپنے پیغمبر کے فرزند کوشہید کیا۔“ اور یہ (اس بیس سال کے عرصے میں) ذکرِ الٰہی اور دعاومناجات کے سوا ان کی زبان سے ادا ہونے والا واحد جملہ تھا۔ کہتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے استغفار کیا اور پشیمان ہوئے کہ آخر کیوں میں یہ چند کلمات زبان پر لایا جو ذکرِ خدا نہ تھے۔

یہی ربیع بن خثیم، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دورِخلافت میں، حضرت کی سپاہ میں شامل تھےایک روز امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یا اَمیر اَلْمُؤمِنِینَ اَنّا شَکَکْنٰا فی هٰذَا الْ قِتال(۲) اے امیر المومنین! ہمیں اس جنگ کے بارے میں شک ہےہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ جنگ غیر شرعی نہ ہو۔ (کیوں؟ کس وجہ سے؟ ) اس لئے کہ ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے خلاف برسرِپیکار ہیں، ہم ایسے لوگوں کے خلاف تلواریں اٹھائے ہوئے ہیں جو ہماری ہی مانند شہادتین (کلمہ) پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح نماز ادا کرتے ہیں، ہماری ہی مثل روبہ قبلہ کھڑے ہوتے ہیں۔

--------------

1:-ربیع، حضرت علی علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے زمانے تک حیات رہے، یہ تقریباً ۲۰ سال پر محیط عرصہ ہےیعنی جس زمانے میں امام حسین کو شہید کیا گیا، یہ زندہ تھےکتابوں میں لکھا ہے کہ پورے ۲۰ سال ان کا کام فقط اور فقط عبادت تھا، اور اس عرصے میں انہوں نے کوئی دنیاوی بات زبان سے ادا نہ کی۔

2:-ان کے ”انا“ کہنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کئی لوگوں کے نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے۔

ایک ایسا شخص جوحضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت کے لشکر میں شامل ہولیکن علی کی دکھائی ہوئی راہ، اور علی کے فرمانِ جہاد کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو، یہ خیال اسکے ذہن میں آئے کہ آپ کا یہ فرمان، یہ حکم درست بھی ہے یا نہیں؟ اس موقع پروہ احتیاط پر عمل کرے، احتیاط پر بنا رکھےاسی طرح جیسے آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیوں مشکوک روزہ رکھیں؟ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان یہ بات بہت عام ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں ایسا روزہ رکھیں جس میں شک ہے، یہ بھی کوئی عمل ہوا؟ کیوں ایسی جگہ جنگ کریں جہاں شک ہو؟ ہمیں ایسی جگہ چلنا چاہئے جہاں رکھے جانے والے روزے میں شک نہ ہو۔

۴۹

ربیع، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ تھے اس لئے ان سے جدا بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، لہٰذا کہتے ہیں: اے امیر المومنین! برائے کرم میرے سپرد کوئی ایسا کام کیجئے جو شک و شبہ سے پاک ہو۔ مجھے کسی ایسی جگہ، کسی ایسی ڈیوٹی پر بھیج دیجئے جس میں شک نہ ہوامیر المومنین نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا : بہت اچھا، اگر تم شک میں مبتلا ہو تو میں تمہیں ایک دوسری جگہ بھیج دیتا ہوں۔

معلوم نہیں خود انہوں نے اس جگہ جانے کی درخواست کی یا خودامیر المومنین ہی نے فیصلہ کر کے انہیں مملکتِ اسلامی کی سرحدوں میں سے ایک سرحد پر بھیج دیا، وہاں بھی وہ سپاہی کی حیثیت سے تعینات تھے، لیکن یہ ایک ایسی سرحد تھی کہ اگر اتفاق سے وہاں جنگ اور خونریزی کی نوبت آتی بھی تو دوسری طرف کفار یا بت پرست ہوتے، غیر مسلم ہوتے۔

جی ہاں، یہ تھا اس زمانے کے زہاد اور عبادت گزار افراد کا ایک نمونہ۔

ایسا زہد و عبادت کس کام کا؟ کسی کام کا نہیں۔

اس بات کی کیا اہمیت ہے؟

اسلام بصیرت کا تقاضا کرتا ہےعمل بھی طلب کرتا ہے بصیرت بھییہ شخص (خواجہ ربیع) بصیرت کے حامل نہ تھےانہوں نے معاویہ اور یزید جیسے ظالم کے دور میں زندگی بسر کیدورِ معاویہ جس میں دین خدا میں تبدیلیاں کی گئیں، اس میں بدعتیں ایجاد کی گئیںیزید جو تاریخ اسلام کے بھیانک ترین جرائم کا مرتکب ہوا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر کوششوں اور محنتوں پر پانی پھیر دینے کے درپے ہوالیکن ایسے دور میں یہ صاحب (خواجہ ربیع) گوشہ نشینی اختیار کر کے شب و روز مسلسل نماز میں مشغول رہتے ہیں، ذکرِ الٰہی کے سوا کوئی کلمہ ان کی زبان سے ادا نہیں ہوتا اور اگر حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت پر اظہارِ تاسف کے لئے ایک جملہ ان کی زبان سے نکل بھی جاتا ہے، تو بعد میں اپنے اس عمل پر پشیمان ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ

۵۰

تو دنیوی بات ہو گئی، میں نے اس کی بجائے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، کیوں نہ کہا؟ اسکی جگہ یاحی یا قیوم کیوں نہ کہا؟ اﷲ اکبر اور لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کیوں نہ پڑھا؟

یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے موافق نہیںلایُرَی الجاهِلُ اِلاّمُفْرِ طاًاَوْ مُفَرَّطاً (جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے بڑھا ہوا اور یا ا س سے بہت پیچھےنہج البلاغہ کلمات قصار ۲۶)جاہل یا تو بہت آگے بڑھ جاتا ہے یا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

دین کے بارے میں ایک غلط تصور

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: الَصَّلوٰۃُ عَمُودُ الدّین (نماز دین کا ستون ہے) والی بات کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات سے موافق نہیں۔ کیونکہ دین اسلام تو سب چیزوں سے زیادہ اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہےاسلام تو اِنَّ اﷲَیَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالِاْ حْسَانِ (۱) کا دین ہےاسلام تولَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَات وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (۲) کا دین ہےاسلام تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دین ہے:کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۳) اسلام جہدِ مسلسل اور کوشش اور عمل کا دین ہےاسلام ایک عظیم دین ہے۔

--------------

۱:-بے شک اﷲ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے(سورہ نحل ۱۶آیت ۹۰)

2:-بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں(سورہ حدید ۵۷آیت ۲۵)

3:-تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہےتم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اوربرائیوں سے روکتے ہو(سورہ آل عمران ۳آیت ۱۱۰)

۵۱

ایک ایسا دین جو مذکورہ مسائل کو اتنی اہمیت دیتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ عبادت کے لئے اتنی زیادہ اہمیت کا قائل ہو؟ نہیں، دین اسلام میں عبادت کے مسئلے کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہیںہمیں اسلام کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات کے نفاذ کے لئے کوشش کرنی چاہئےعبادت بے کار لوگوں کا مشغلہ ہےجنہیں کوئی اہم ترین کام نہ ہو وہ نماز پڑھیں، وہ عبادت کریںلیکن ایک ایسا شخص جس کے سامنے اہم ترین کام ہوں اسکے لئے لازم نہیں کہ وہ عبادت بجا لائے۔

یہ بھی ایک غلط فکر ہے اور انتہائی انتہائی خطرناکاسلام کو اس طرح سمجھنا چاہئے، جیسا کہ وہ ہے۔

میرے ان عرائض کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کومیں اپنے معاشرے میں ایک بیماری کی صورت میں محسوس کر رہا ہوںانتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو لوگ اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ان میں سے اکثر (البتہ سب کو نہیں کہتا) دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک گروہ ربیع بن خثیم جیسے طرزِ فکر کا حامل ہے، خواجہ ربیع کی طرح سوچتا ہےایسے لوگوں کے نزدیک ”اسلام“ ذکر و دعاکرنے، نوافل پڑھ لینے، زیارات پر جانے اور زیارتِ عاشورہ کی قرآئت کا نام ہےایسے افراد کے نزدیک اسلام کے معنی مفاتیح اور زاد المعاد ہے (دعاؤں کی دو معروف کتابیں)ان کا پورا کا پورا اسلام مفاتیح الجنان میں سمٹ آیا ہےاسکے سوا ان کے نزدیک کسی اور چیز کا وجود ہی نہیں، یہ لوگ بالکل ربیع بن خثیم کی سی سوچ رکھتے ہیں انہیں دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں، مسائل حیات سے کوئی غرض ہی نہیں، اسلام کی اجتماعی تعلیمات سے کوئی مطلب نہیں، اسلامی اصول و ارکان سے کوئی لگاؤ نہیں، اسلامی تربیت سے کوئی واسطہ نہیںانہیں سرے سے کسی بھی چیز سے مطلب نہیں۔

ان لوگوں کی تفریط کے ردِ عمل میں ایک افراطی طبقہ پیدا ہوا ہےیہ طبقہ اسلام کے اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہے، ان کے بارے میں حساسیت کا اظہار بھی کرتا ہےاس پہلو سے یہ لوگ قابل قدر ہیںلیکن انہی لوگوں میں سے کچھ کو بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ مثلاً مستطیع ہونے کے باوجود حج کو نہیں جاتےیہ شخص جو واقعاً مسلمانوں سے، حقیقتاً اسلام سے لگاؤ رکھتا ہے، اسکا دل اسلام کے لئے دھڑکتا ہے، لیکن مستطیع ہوتے ہوئے بھی حج کو نہیں جاتا، اس کی نظر میں حج کی کوئی اہمیت ہی نہیں، تقلید ضروری ہے لیکن اسے اہمیت نہیں دیتاحالانکہ تقلید ایک معقول بات ہے۔

۵۲

تقلید کسے کہتے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ یا تو آپ، نماز روزہ جیسی چیزوں کے مسائل کو (مصادرِ شرع سے) براہِ راست خود اخذ کیجئےیعنی اس میدان میں اس قدر ماہر ہو جائیے کہ اس مہارت کے بل بوتے پر خود استنباط کر سکیں۔ یا پھر یہ کہ احتیاط پر عمل کیجئے، جو ایک خاصا دشوار کام ہےیا پھرایک ماہر جامع الشرائط عادل شخص کاانتخاب کیجئے اور جس طرح ایک ماہر طبیب سے رجوع کر کے اسکے بتائے ہوئے پر عمل کرتے ہیں اسی طرح اس کی رائے پر عمل کیجئےانسان بغیر تقلید کے رہ ہی نہیں سکتایعنی اگر وہ تقلید نہ کرے تو اپنے آپ کو بہت زیادہ مشکل میں ڈال لیتا ہے۔

اسی طرح بعض لوگ روزے کو اہمیت نہیں دیتےاگر کسی سفر کی وجہ سے ان کا روزہ قضا ہو جائے تواس قضا کو ادا نہیں کرتےیہ لوگ بھی اپنے آپ کو ایک کامل مسلمان سمجھتے ہیںوہ اوّل الذکر گروہ بھی خود کو کامل مسلمان سمجھتا ہے، جبکہ نہ یہ کامل مسلمان ہیں نہ وہ۔

دین اسلامنُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ (1) سے اتفاق نہیں کرتایہ نہیں ہوسکتا کہ انسان اسلامی عبادات کو تو اپنائے لیکن اسکے معاشرتی اور اخلاقی قوانین کو نہ لے، اسکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اختیار نہ کرےاور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لے لے، اور اسلامی عبادات کوچھوڑ دے۔

قرآنِ مجید جہاں کہیں بھی اقیمو الصلاۃ کہتا ہے، اسکے فورا بعد آتوالزکاۃ کہتا ہےاگر اقام الصلاۃ کہتا ہے تواسکے بعد آتی الزکاۃ کہتا ہےجب یقیمون الصلاۃ کہتا ہے تو اسکے بعد یوتون الزکاۃ کہتا ہےیقیمون الصلاۃ کا تعلق بندے اور خدا کے درمیان رشتے سے اور یوتون الزکاۃ کا ربط بندگانِ خدا کے آپس کے تعلقات سے ہے۔

--------------

1:-ہم بعض چیزوں پر ایمان لائیں گے اور بعض چیزوں کا انکار کریں گے(سورہ نسا ۴آیت ۱۵۰)

۵۳

جس طرح ایک مردِ مسلمان کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایک مستقل اور مسلسل رابطے کی ضرورت ہے اسی طرح اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے معاشرے کے درمیان بھی ایک مستقل اور مسلسل رابطہ قائم رکھے۔

بغیر عبادت کے، بغیر ذکرِ الٰہی کے، بغیر یادِ خدا کے، بغیر مناجات کے، بغیر حضورِ قلب کے، بغیر نماز کے، بغیر روزے کے ایک اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا، حتیٰ خود انسان بھی سالم نہیں رہ سکتا۔

اسی طرح بغیر ایک سالم معاشرے کے، بغیر ایک سالم ماحول کے، بغیر امر بالمعروف کے، بغیر نہی عن المنکرکے، بغیر مسلمانوں سے پیار و محبت کے اوربغیر دوسروں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کے انسان ایک اچھاعبادت گزار بندہ نہیں بن سکتا۔

علی ؑ ایک جامع الصفات ہستی

آپ اگر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حیات پر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈالیں تو پتا چل جاتا ہے کہ آپ ایک عابد بلکہ دنیا کے اوّلین درجے کے عابد ہیں یہاں تک کہ آپ کی عبادت تمام عالم میں ضرب المثل بن جاتی ہےعبادت بھی ایسی کہ فقط خم و راست ہونا نہیں، (بے روح رکوع و سجود نہیں) بلکہ ایسی عبادت جو اوّل سے آخر تک جذبات سے، ولولے سے، عشق سے، گریہ و زاری سے لبریز ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ”ضرار“ نامی ایک شخص کی معاویہ سے ملاقات ہوتی ہےمعاویہ کو معلوم تھا کہ ”ضرار“ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیںچنانچہ فرمائش کی: تم علی کے ساتھ ہوا کرتے تھے، میرے سامنے ان کے فضائل بیان کروخود معاویہ اچھی طرح حضرت علی سے واقف تھےلیکن اسکے باوجود وہ دوسروں سے ان کے بارے میں سننا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں سے حضرت علی کی عظمت کے قائل تھے، حالانکہ یہی تھے جنہوں نے حضرت علی کے خلاف تلوار تک اٹھائی تھی۔

انسان ایسا ہی موجود ہے!! وہ علی کے عقیدتمند بھی تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے حضرت علی کے خلاف نا پسندیدہ اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

۵۴

”ضرار“ نے معاویہ کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ نقل کیاکہا: میں نے ایک رات علی کو محرابِ عبادت میں دیکھا :یَتَمَلْمَلَ تَمَلْمَلَ السَّلیِم وَیَبْکی بَکاءَ الْحَزینِ یعنی آپ محرابِ عبادت میں خوفِ خدا سے، ایک ایسے شخص کی مانند تڑپ رہے تھے جسے سانپ نے کاٹ لیا ہوغم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کی مانند گریہ و زاری میں مشغول تھے، سرد آہیں بھرتے تھے، آتش جہنم سے لرزاں آہ آہ کرتے تھےمولائے کائنات کی یہ کیفیت سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے۔

اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک موقع پر معاویہ اور عدی بن حاتم کی ملاقات ہوئی تو معاویہ نے عدی بن حاتم کو حضرت علی کے خلاف بھڑکانا چاہاعدی سے کہا: این الطرفات؟ طریف، طرفہ اور طارف کیا ہوئے؟(۱)

حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا: وہ سب صفین میں علی کی رکاب میں شہید ہو گئے۔

معاویہ نے کہا: علی نے تیرے ساتھ نا انصافی کی، اپنے بچوں حسن اورحسین کو تو پیچھے رکھا اور تیرے بچوں کو آگے کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا : حقیقت تویہ ہے کہ میں نے علی کے ساتھ ناانصافی کیاگر میں انصاف کرتا تو آج میں زندہ اور علی زیرِ خاک نہ ہوتے۔

معاویہ نے جب اپنا نشانہ خطا جاتے دیکھا تو عدی سے کہا: اے عدی ! میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھے علی کے بارے میں کچھ بتاؤعدی بن حاتم نے تفصیل کے ساتھ حضرت علی کے اوصاف بیان کئےوہ کہتے ہیں کہ آخر میں، میں نے دیکھا کہ معاویہ زار و قطار رو رہے ہیں اسکے بعد انہوں نے آستین سے اپنے آنسو صاف کئے اور کہا : افسوس کہ زمانہ علی کی مانند انسان جننے سے بانجھ ہے۔

--------------

1:-حضرت عدی بن حاتم کے تین فرزند تھے، جن کے نام طریف، طرفہ اورطارف تھےان کے ان تینوں فرزندوں نے حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھامعاویہ عدی بن حاتم کے جذبات بھڑکانا چاہتے تھےلہٰذا ان کے زخموں پر نمک پاشی کی تاکہ ان کے منہ سے حضرت علی کے خلاف ایک لفظ ہی نکلوا سکیں۔

۵۵

دیکھئے حقیقت کیسے جلوہ گر ہوتی ہے؟

یہ تو تھی حضرت علی علیہ السلام کی عبادت، لیکن کیا علی صرف اہل محراب تھے، محراب کے سوا کہیں اور نظر نہ آتے تھے؟

ہم حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک اور رخ کا جائزہ لیتے ہیں (اور وہ آپ کی حیاتِ اجتماعی سے تعلق رکھتا ہے) آپ ہر لحاظ سے ایک اجتماعی ترین فرد تھے، ضرورت مندوں، بے کسوں، مسکینوں اور لاچاروں کے حالات سے واقف ترین فرد تھےخلیفہ ہونے کے باوجود آپ دن کے وقت اپنا درہ یعنی کوڑا کاندھے پر لٹکائے، بنفس نفیس لوگوں کے درمیان گشت فرماتے تھےان کے معاملات کا جائزہ لیتے تھےجب تاجروں کے پاس پہنچتے تو فرماتے:اَلْفَقْهَ ثُمَّ اَلْمَتْجَر (۲) جاؤ پہلے تجارت کے مسائل سیکھو، اسکے شرعی احکام کی تعلیم حاصل کرو، اسکے بعد آ کے تجارت کرناحرام خرید و فروخت نہ کرو، سودی معاملہ نہ کرو۔

اگر کسی کو تاخیر سے اپنے کام پر جاتے دیکھتے تو فرماتےاُغْدوا اِلٰی عِزَّکُمْایک انتہائی عبادت گزار فرد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میں یہ خصوصیت بھی تھیپہلی مرتبہ میں نے مذکورہ حدیث مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ کی زبانی سنی تھیایک مرتبہ ایک گداگر، آقائے بروجردی کے یہاں آ کے ان کے سر ہو گیا، اور کچھ طلب کرنے لگاانہوں نے اس پر نگاہ ڈالی، دیکھا تو محسوس کیاکہ یہ شخص محنت مزدوری کر سکتا ہے لیکن گداگری کو اس نے اپنا پیشہ بنا لیا ہےلہٰذا انہوں نے اسے نصیحت کی اور بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ حضرت علی علیہ السلام کا یہ جملہ بھی فرمایا: کہا کہ امیر المومنین لوگوں سے فرماتے تھے:

اُغْدوا اِلیٰ عِزَّکُمْ (۳)

علیٰ الصبح اپنی عزت و شرف کی طرف روانہ ہوا کرو۔

--------------

2:-وسائل الشیعہ ج ۱۲ص ۲۸۲ح ۱

3:-وسائل الشیعہ ج ۱۲۔ ص۴۔ ح ۱۰

۵۶

یعنی اپنے کام، محنت مزدوری اور حصول روزگار کی طرف جایا کروانسان اس وقت عزیز وسربلند ہے جب وہ خود کماتا ہو، اپنی معاش کا بندوبست خود کرتا ہومحنت مزدوری عزت ہے، شرافت ہے۔

اسے کہتے ہیں حقیقی مثالی مسلمان۔

آپ عبادت کے میدان میں سرِفہرست عبادت گزار ہیںجب قضاوت کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو ایک عادل قاضی ہیں، ذرہ برابر بے انصافی نہیں کرتےجب میدانِ جنگ کا رخ کرتے ہیں تو ایک بہادر سپاہی اور شجاع سپاہ سالار ہیں، ایک اول درجے کے کمانڈر ہیں، خود فرماتے ہیں: میں نے ابتدائے شباب ہی سے جنگ کی ہے، جنگ کا تجربہ رکھتا ہوںاور جب آپ خطابت کی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو اوّل درجے کے خطیب ہیںجب تدریس کی ذمے داری سنبھالتے ہیں تو اوّل درجے کے معلم و مدرس ہیں۔

ہر ایک فضیلت میں آپ کا یہی حال ہےیہ ہیں اسلام کا نمونہ کامل۔

اسلام کسی صورتنُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ کو قبول نہیں کرتالہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسلام کے اِس ایک پہلو کو تو مانیں گے لیکن اس کے اس دوسرے پہلو کا انکار کریں گےدنیائے اسلام میں پیدا ہونے والے انحراف کا نقطہ آغاز یہی ہےاگر ہم اسلام کے کسی ایک پہلو کو لے لیں لیکن اسکے دوسرے پہلووں کو چھوڑ دیں تو اس طرح ہر چیز میں خرابی اور بگاڑ پیدا کر بیٹھیں گے۔

جس طرح گزشتہ ادوار میں ہمارے بہت سے زاہد پیشہ افراد کی روش غلط تھی، ایسے لوگوں کی روش غلط تھی جوپورے اسلام کو مثلاً مفاتیح الجنان میں منحصر سمجھتے ہیں، (دعاؤں کی ایک کتاب) بیاض میں محدود کر دیتے ہیں، اسی طرح ایسے لوگوں کی روش بھی غلط ہے جو دعا، عبادت، نوافل اور فرائض کو یکسر چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اسلام کے صرف اجتماعی مسائل کے بارے میں توجہ چاہتے ہیں۔

۵۷

مردِ مسلمان کی بعض نمایاں صفات

سورہ مبارکہ ”انا فتحنا“ میں ارشاد الٰہی ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَه،  اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ (محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں سورہ فتح ۴۸آیت ۲۹)

اس آیت میں ایک اسلامی معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہےسب سے پہلے جس مسئلے کاذکر کیا گیا ہے وہ پیغمبر کی معیت اور ان پر ایمان ہے، اسکے بعد اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابلے میں سخت ترین، قوی اور طاقتور ہونے کا ذکر ہے۔

پس وہ خشک مقدس نما لوگ جو مسجد میں ڈیرہ جمائے رہتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باجود صرف ایک سپاہی کی للکار پر دم سادھ لیتے ہیں اور چوں بھی نہیں کرتے، وہ مسلمان نہیں۔

قرآن کریم نے مسلمان کی ایک خصوصیت، بلکہ اولین خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ دشمن کے بالمقابل سخت، پائیدار اور ثابت قدم ہوتا ہےاسلام سست اور کمزور مسلمان کوپسند نہیں کرتا:وَلاَ تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا، اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سر بلندی تمہارے ہی لئے ہےسورہ آل عمران ۳آیت ۱۳۹)۔

اسلام میں سستی اور کمزوری کی کوئی گنجائش نہیں ویل ڈیورنٹ کتاب ”تاریخ تمدن“ میں کہتا ہے: کسی اور دین نے اپنے ماننے والوں کو قوت و طاقت کے حصول کی ایسی دعوت نہیں دی، جتنی اس سلسلے میں اسلام نے دعوت دی ہے۔ ۔

گرد ن ڈالے رکھنا، گوشہ لب سے رال ٹپکنا، گریبان (collar) کا ایک طرف ڈھلکا ہونا، اسکا گندہ ہونا، خود کو غریب و لاچار ظاہر کرنا، زمین پر پیر گھسیٹ کر چلنا، عبا سر پر ڈال لینا، یہ سب چیزیں اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیںیوں ہی بلا وجہ آہیں بھرنا اسلام کے خلاف ہے۔

۵۸

وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث (اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو مسلسل بیان کرتے رہنا سورہ ضحٰی ۹۳آیت ۱۱)

خدا نے آپ کو صحت دی ہے، جسمانی سلامتی دی ہے، قوت عطا کی ہے، طاقت و توانائی سے نوازا ہےآپ اپنی کمر سیدھی رکھ سکتے ہیں تو کیوں بلاوجہ اسے جھکاتے ہیں؟ آپ اپنی گردن سیدھی رکھ سکتے ہیں، کیوں بغیر کسی وجہ کے اسے ایک جانب لٹکائے رکھتے ہیں؟ کیوں بے وجہ آہ و نالہ بلند کرتے ہیں؟ آہ و نالہ تو انسا ن تکلیف کی حالت میں بلند کرتا ہےخدا نے آپ کو کسی درد اور تکلیف میں مبتلا نہیں کیا ہے، توپھر کیوں آپ آہیں بھرتے ہیں؟ یہ تو نعماتِ الٰہی کا کفران ہےکیا حضرت علی علیہ السلام بھی اسی طرح راستہ چلتے تھے جیسے ہم اور آپ چلتے ہیں؟ کیا علی اسی طرح عبا سر پر ڈالتے تھے اور اسی طرح ٹیڑھے ٹیڑھے چلتے ہوئے راستہ طے کرتے تھے؟(۱) ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابل سخت ترین، پکے اور مضبوط، جیسے سدِ سکندری۔

(ایک مردِ مسلم کو) حلقہ یاراں میں، مسلمانوں کے ساتھ، کس طرح ہوناچاہئے؟ رحماء بینھم یعنی آپس میں مہربان، گہرے دوست(ایک دوسرے کے ساتھ ریشم کی طرح نرم ہونا چاہئے)۔

(اسکے بر خلاف) جب ہم اپنے بعض مقدس نما لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے یہاں جاتے ہیں تو جو چیز ہمیں ان میں نظرنہیں آتی وہ یہی اخلاص اور مہربانی ہےہمیشہ ان کی تیوریوں پر بل پڑے رہتے ہیں، بداخلاق اور ترش رو ہیںکسی کے ساتھ گرم جوشی سے پیش نہیں آتے، کسی سے ہنس کے نہیں ملتے، دنیا کے ہر انسان پراحسان رکھتے ہیں ایسے لوگ مسلمان نہیں، یہ لوگ خود کو اسلام سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں۔

--------------

1:-شہید مطہری نے ان سطور میں اپنے دور کے بعض علما نما افراد کی تصویر کشی کی ہے(مترجم)

۵۹

یہ تھی (ایک مسلمان میں پائی جانے والی) دوسری خصوصیتکیا یہی کافی ہے؟

کیا مسلمان ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ انسان کفار کے ساتھ سختی سے پیش آئے اوراہل اسلام سے مہربانی اور پیارو محبت کا برتاؤکرے؟ ۔ ۔ جی نہیں:تَرٰهُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَاناً (تم انہیں دیکھو گے کہ بارگاہِ احدیت میں سر جھکائے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہیں سورہ فتح ۴۸آیت ۲۹)

وہ شخص جو بے گانوں کیلئے سخت دل اور اپنوں کے لئے مشفق و مہربان ہے، اسی فرد کو جب محرابِ عبادت میں دیکھو گے تو رکوع و سجود، دعا و عبادت اور مناجات میں مشغول پاؤ گےرکعاً و سجداً اسکی عبادت ہے، یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا اسکی دعا ہے۔

البتہ ہم دعا اور عبادت کے درمیان حد بندی کے قائل نہیں ہیںدعا عبادت ہے اور عبادت بھی دعا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل فقط اور فقط خالص دعا ہوتا ہےیعنی ایک ایسی عبادت ہوتی ہے جو صرف دعا پر مشتمل ہےلیکن کچھ عبادات ایسی ہیں جن میں دعا اور دعا کے علاوہ دوسری چیزیں بھی پائی جاتی ہیں، جیسے نمازاسی طرح اور عبادات ہیں جو بنیادی طور پر دعا نہیں، جیسے روزہ۔

سِیْمَا هُمْ فِیْ وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے چہروں پر نشان پائے جاتے ہیں)یہ لوگ اتنے زیادہ عبادت گزار ہیں کہ عبادت کے آثار، تقویٰ کے آثار، خدا پرستی کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہیں ان کودیکھنے والا ہر شخص ان کے وجود میں خدا کی معرفت اور خدا کی یاد کا نظارہ کرتا ہے، اور انہیں دیکھ کر یادِ خدا میں ڈوب جاتا ہے۔

۶۰