عبادت و نماز

عبادت و نماز0%

عبادت و نماز مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 100

عبادت و نماز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 100
مشاہدے: 41121
ڈاؤنلوڈ: 3894

تبصرے:

عبادت و نماز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 100 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41121 / ڈاؤنلوڈ: 3894
سائز سائز سائز
عبادت و نماز

عبادت و نماز

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شاید رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے سوال کیا :یا روحَ اﷲ ! مَنْ نُجَالِسَ؟ (اے روح اﷲ ! ہم کس قسم کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں؟ )حضرت عیسیٰ نے فرمایا:مَنْ یُذَکِّرُ کُمُ اﷲَ رَؤْیَتَهُ وَیَز یدُ فی عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَیر غَبُکُمْ فیِ الْخَیْرِ عَمَلُهُ (۲) (ایسے شخص کے ساتھ میل جول رکھو جسے دیکھ کر خدا کی یاد میں ڈوب جاؤ)، اسکی شکل و صورت پر، اسکے چہرے مہرے پر خدا ترسی کو دیکھوعلاوہ ازایں یزید فی علمکم منطقہ (جب وہ بات کرے تو اسکی باتوں سے استفادہ کرو، اسکی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے) یرغبکم فی الخیر عملہ (اسکا کردار دیکھ کر، تمہارے اندر بھی نیک کاموں کا شوق پیدا ہو)

آگے چل کر آیت کہتی ہے:

:ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التّوِْرٰه وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَه، فَاٰزَ رَه، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِه یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْکُفَّارَ

یہی ان کی مثال توریت میں ہے اور یہی ان کی صفت انجیل میں ہےجیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے، پھر اسے مضبوط بنائے، پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعے کفار کوجلایا جائےسورہ فتح ۴۸آیت ۲۹

توریت و انجیل میں ان کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، ایک ایسی ملت کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہےان کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے، اس انداز میں توصیف کی گئی ہےان کی مثال ایک زراعت کی مثال ہے، گندم کے ایک دانے کی مانند ہیں جسے زمین میں بویا جاتا ہے اور کیونکہ یہ دانہ زندہ ہوتا ہے اس لئے ایک باریک پتی کی صورت میں اپنا سر زمین سے باہر نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ ایک سخت پتے کی صورت اختیار کر لیتا ہے،

--------------

2:-اصول کافی ج ۴کتاب فضل العالم، باب مجالس العلماء وصحبتھم۔

۶۱

 اس میں مضبوطی اور استحکام آ جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک موٹی ڈالی بن جاتا ہےاسکے بعد خود اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہےحالانکہ ابتدا میں وہ زمین پرپڑا ہوا ایک معمولی سا پتا تھا، جسے ثبات و استحکام حاصل نہ تھابعد میںیہ ایسا پھلتا پھولتا ہے کہ انسان شناسی کے تمام ماہرین کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور وہ فکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسی پختہ اور شاندار قوم وجود میں آئی ہےالبتہ حیرت و استعجاب کا باعث ایسی ہی قوم ہوسکتی ہے جو اشداء علی الکفار بھی ہو، رحماء بینھم بھی ہو اور رکعاً سجداً اور یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا بھی ہواس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں۔

اب بتایئےہم مسلمان اس قدرزوال و انحطاط کا شکار کیوں ہیں؟ اس قدر بد بخت اور ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ بتایئے ان مذکورہ خصوصیات میں سے کونسی خصوصیت ہمارے اندر موجود ہے؟ اورہم کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں؟

معنویات کو خفیف نہ سمجھئے

ہمیں صد در صد اعتراف ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے، اسکے احکام و فرامین اسکے اجتماعی ہونے کے عکاس ہیںلیکن یہ حقیقت اس بات کا سبب نہیں ہو سکتی کہ ہم عبادت، دعا اور خدا سے ارتباط کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں، انہیں معمولی سمجھنے لگیں، نماز کو بے اہمیت سمجھیں۔

نماز کوخفیف اور معمولی سمجھنا بھی ایک گناہ ہےنماز نہ پڑھنا ایک بڑا گناہ ہے لیکن نماز پڑھنا مگر اسے خفیف سمجھنا، اسے بے اہمیت قراردینا بھی ایک گناہ ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد (آپ کے ایک صحابی) ابو بصیر تعزیت کی غرض سے ام حمیدہ کے یہاں حاضر ہوئےام حمیدہ رونے لگیںابو بصیر، جو نا بینا تھے وہ بھی رونے لگےاسکے بعد ام حمیدہ نے ابو بصیر سے کہا: اے ابو بصیر! تم نہ تھے، تم نے اپنے امام کے آخر لمحات کو نہ دیکھا، اس وقت ایک عجیب قصہ ہواامام قریب قریب عالم غشی میں تھے، اسی اثنا میں آپ نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا: میرے تمام نزدیکی رشتے داروں کو بلاؤ، سب کو میرے سرہانے جمع کرو۔ ہم نے امام کے حکم کی

۶۲

تعمیل کرتے ہوئے سب لوگوں کو اکھٹا کیاجب سب لوگ جمع ہو گئے تو امام نے اسی عالم غشی میں، جبکہ آپ اپنی حیاتِ مبارک کے آخری لمحات طے کر رہے تھے، اپنی آنکھوں کو کھولا، ارد گرد جمع ہونے والوں کی طرف رخ کیا اور صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا:اِنَّ شَفا عَتَنا لاٰ تَنٰالُ مُسْتَخِفُّا بِالصَّلوٰةِ (ہماری شفاعت کسی بھی صورت میں ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی سمجھتے ہیںوسائل الشیعہج۳ص۱۷۔ ح ۱۱) امام نے صرف اتنا کہا اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

امام نے یہ نہیں فرمایا کہ ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز نہیں پڑھتےان لوگوں کا معاملہ تو بالکل واضح ((clearہےبلکہ فرمایا کہ ایسے لوگ جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ ہماری شفاعت نہ پا سکیں گے۔

کون لوگ ہیں جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں؟

نمازکو معمولی چیز اور بے اہمیت سمجھنے والے لوگ وہ ہیں جنہیں وقت اور فرصت میسر ہوتی ہے، وہ اطمینان کے ساتھ ایک اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کرتےظہر عصر کی نماز اس وقت پڑھتے ہیں جب سورج غروب ہونے کو ہوتا ہےجب دیکھتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کو ہے تو بھاگم بھاگ وضو کرتے ہیں، جھٹ پٹ نماز پڑھتے ہیں اور تیزی کے ساتھ سجدہ گاہ ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ایسی نماز پڑھتے ہیں جس کا نہ مقدمہ ہوتا ہے نہ موخرہ، نہ جس میں اطمیان ہوتا ہے نہ حضورِ قلبایسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، جیسے نماز بھی دوسرے معمولی کاموں کی طرح کا ایک کام ہے۔

یہ ہے نماز کو خفیف سمجھناایسی نماز، اس نمازسے بہت زیادہ مختلف ہے جس کی طرف انسان ذوق وشوق کے ساتھ جاتا ہےجوں ہی ظہر کا اول وقت آتا ہے وہ مکمل اطمینان کے ساتھ جا کر وضو کرتا ہے، ایسا وضو جس میں تمام آداب کو ملحوظ رکھا گیا ہوتا ہےاسکے بعد جا نماز پر آ کر اذان و اقامت کہتا ہے اورسکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز پڑھتا ہےسلام کہہ کر فوراً ہی کھڑا نہیں ہوجاتابلکہ اطمینانِ قلب کے ساتھ کچھ دیر تعقیباتِ نماز پڑھتا ہے، ذکرِ خدا کرتا ہےیہ اس بات کی علامت ہے کہ (اس گھر میں) اس کی نظر میں نماز کو احترام حاصل ہے۔

۶۳

ایسے نمازی جو نماز کو خفیف قرار دیتے ہیں، یعنی حقیر اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ فجرکی نماز عین طلوعِ آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں اور ظہر و عصر کی نماز غروبِ آفتاب کے وقت ادا کرتے ہیں، مغرب اور عشاء کی نماز انہیں رات کے چار گھنٹے گزرجانے کے بعد یاد آتی ہےیہ لوگ برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیںتجربہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے بچے سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں۔

آپ اگر حقیقی نمازگزار بننا چاہتے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی نماز کے پابند بنیں تو آپ کو نماز کا احترام کرنا چاہئےہم آپ سے صرف یہ تقاضا نہیں کر رہے کہ نماز پڑھئے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ چاہتے ہیں کہ نماز کا احترام کیجئےاس مقصد کیلئے پہلے توخود اپنے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ بنایئے (یہ مستحب بھی ہے)یعنی گھر میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جو آپ کی عبادت گاہ ہو، مصلا نما ایک چیز اپنے لئے بنایئے۔

جیسے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لئے ایک جگہ معین کی ہوئی تھی اگر ممکن ہو تو آپ بھی ایک کمرے کو نماز پڑھنے کی جگہ کے طور پرمقرر کرلیجئےاگر گھر میں کمرے زیادہ نہ ہوں تو خود اپنے کمرے میں نمازکے لئے ایک خاص جگہ معین کر لیجئےایک پاک صاف جا نماز وہاں رکھئے، نماز کے لئے کھڑے ہونے سے قبل اسے بچھایئےآپ کے پاس ایک مسواک بھی ہو، ذکر پڑھنے کے لئے تسبیح بھی ہو۔

جب وضو کر رہے ہوں تو اسے بھی جلدی جلدی اور عجلت میں نہ کیجئےہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی کے شیعہ ہیںبرادرِ عزیز !نام رکھ لینے سے علی کاشیعہ نہیں ہوا جاسکتا، جس شخص نے حضرت علی کے وضو کو بیان کیا ہے وہ کہتا ہے: علی ابن ابی طالب جب وضو کے لئے تشریف لاتے اور ہاتھوں کو پانی میں ڈالتے (وضو کا پہلا مستحب عمل یہ ہے کہ انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے) تو فرماتے :

۶۴

بِسْمِ ﷲِ وَ بِاﷲِ اَللَّهُمَّ اجعَّلَنْی مِنَ التَّوّٰابِینَ وَاجْعَلْنی مِنَ الْمُتَطَهِّریِنَ

اﷲ کے نام اور اﷲ ہی کے سہارے سےخدایا ! مجھے توبہ کرنے والوں میں قرار دے، مجھے پاکیزہ رہنے والوں میں قرار دے

دو دن پہلے ہم نے توبہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ توبہ کے معنی خود کو پاکیزہ کرنا ہیںپانی رمزطہارت ہےیہی وجہ ہے کہ جب علی پانی کا رخ کرتے ہیں تو، توبہ کو یاد کر کے، اپنے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے، اپنی روح کی طہارت کی جانب متوجہ ہو کے، ہم سے کہتے ہیں کہ جب اس پانی، جب اس طہور، جب اس مادے کا سامنا کرو جسے خدا نے پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا ہے، جب اس مادّے کی طرف جاؤ اور تمہاری نگاہ اس پر پڑے اور اپنے ہاتھوں کو اس سے دھوؤ اور پاک کرو تو یہ بات ذہن میں رکھو کہ ایک اور پاکیزگی بھی ہے، ایک اور پانی بھی ہے، وہ پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے اور وہ پانی، توبہ کا پانی ہے۔

کہتے ہیں کہ ہاتھوں کو دھونے کے بعد علی، اپنے چہرے پر پانی ڈالتے اور فرماتے:اَللَّهُمَّ بَیَّضْ وَجْهِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیه الْوُجُوهُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْهی یَوْمَ تَبْیَض فیهِ الْوُجُوهُ

آپ اپنے چہرے کو دھوتے ہیں اور حسب ظاہر صاف کرتے ہیںخوب! جب اپنے چہرے کوپانی سے دھوتے ہیں تووہ سفید براق ہو جاتا ہےلیکن علی اسی پر اکتفا نہیں کرتے، اسلام بھی اسی پر اکتفا کا قائل نہیںیہ عمل درست ہے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہئے لیکن ایک اور پاکیزگی کے ساتھ اور ایک اور نورانیت کے ہمراہ، چہرے پر ایک اور سفیدی ہونی چاہئےفرماتے ہیں:

اَللَّهُمَّ بَیَّضْ وَجْهِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیه الْوُجُوهُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْهی یَوْمَ تَبْیَض فیهِ الْوُجُوهُ

خدایا میرے چہرے کو اس دن روشن کر دینا جس دن چہرے سیاہ ہو جائیں (روزِقیامت) اور اس دن چہرے کو سیاہ نہ کرنا جس دن چہرے روشن ہو جائیں۔

۶۵

اس کے بعد دائیں ہاتھ پر پانی ڈال کے فرماتے ہیں :

اَللَّهُمَّ اَعْطِنی کِتٰابی بِیَمِینی واَلْخُلَد فیِ الْجَنَانِ بِیَسَاریِ وَ حٰاسِبْنی حِسٰاباً یسراً

خدایا! قیامت میں میرانامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دینا (کیونکہ کامیاب اور نجات یافتہ لوگوں کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا) اور جنت مجھے آسانی سے عنایت فرما دینا، اور حساب میں بھی آسانی فرمانا۔

اس طرح آپ آخرت کے حساب کو یاد کرتے ہیں اس کے بعد بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَللَّهُمَ لاٰ تَعْطِنی کِتٰابی بِشِمٰالیِ وَلاٰ مِنْ وَراءِ ظَهری وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغَلولَةَ اِلیٰ عُنْقی وَاَعُوذُبِکَ مِنْ مُقطَّعٰات النِیران

خدایا! میرے نامہ اعمال کو بائیں ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے نہ دینا(کچھ لوگوں کا نامہ اعمال انہیں پیچھے سے پکڑایا جائے گا اور یہ بھی ایک رمز ہے) اور نہ میرے ہاتھوں کو میری گردن سے باندھ دینامیں جہنم کی آگ کے قطعات سے تیری پناہ چاہتا ہوں

کہتے ہیں: اسکے بعد آپ نے سر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اَللَّهُمَّ غَشَنی بِرَحْمَتِکَ وَ بَرَکاتِک

خدایا ! مجھے اپنی رحمت اور برکتوں میں ڈبو دے

پھر آپ نے پیر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اللَّهُمَّ ثَبَّتْ قَدَمی عَلیٰ الصِّراطِ یَوْمَ یَزِلُّ فیهِ الْاَقْدَامُ

خدایا ! میرے ان قدموں کوصراط پر اس دن ثابت رکھنا جس دن سارے قدم پھسل رہے ہوں گے

وَاجْعَلْ سَعْیی فیما یَرضِکَ عَنّی

میرے عمل اور کد و کاوش کو ان کاموں میں قرار دینا جو تجھے راضی کر سکیں

۶۶

ایسا وضو جو اس قدر عشق و اشتیاق اورتوجہ و اہتمام کے ساتھ کیا جائے گا، وہ (بارگاہِ الٰہی میں) ایک علیحدہ ہی انداز سے قبول کیا جائے گا، اور وہ وضو جو ہم اورآپ کرتے ہیں اسکی قبولیت کسی اور طرح کی ہو گی۔

پس نماز کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، سبک نہیں شمار کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ انسان دورانِ نماز صرف اسکے واجبات کی ادائیگی پر اکتفا کی کوشش کرے(اور جب کوئی اسے اس جانب متوجہ کرے تو کہے کہ) آؤ، دیکھیں، مرجع تقلید کا فتویٰ کیا ہے، کیا وہ کہتے ہیں کہ (دوسری اورتیسری رکعت میں) تین مرتبہ سبحان اﷲ، والحمد اﷲ، ولا الہ الا اﷲ، واﷲ اکبر کہنا چاہئے، یا اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی قرار دیتے ہیں؟

جی ہاں (درست ہے کہ)، مجتہد فتویٰ دیتے ہیں کہ اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی ہےالبتہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ احتیاطِ مستحب یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ کہا جائےلہٰذاہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ جب مجتہد نے ایک مرتبہ کہنا کافی قرار دیا ہے تو ہم بھی صرف ایک ہی مرتبہ کہیں گےیہ دراصل نماز سے جی چرانا ہےہمیں ایسا ہونا چاہئے کہ اگر مجتہد ایک مرتبہ کہنا واجب قرار دے اور مزید دو مرتبہ کہنا مستحب سمجھے، تو ہم بہترسمجھتے ہوئے اس مستحب کو بھی انجام دیں ہے۔

روزے کو بھی معمولی اور خفیف نہیں بنادینا چاہئےبعض لوگوں کا روزہ رکھنے کا ایک خاص انداز ہے (یہ میں ازراہِ مذاق کہہ رہا ہوں) کہ نعوذ باﷲ اگر میں خدا کی جگہ ہوں تو کسی صورت ان کایہ روزہ قبول نہ کروں۔

میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ماہِ رمضان میں رات بھر نہیں سوتےالبتہ ان کی یہ شب بیداری عبادت کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے جاگتے ہیں کہ ان کی نیند پوری نہ ہو سکےصبح تک چائے پینے اور سگریٹ نوشی میں وقت گزارتے ہیںصبح طلوع ہونے کے بعد اول وقت نمازِفجر پڑھ کے سو جاتے ہیں اور (سارے دن سو کر) اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ظہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کاانتہائی قلیل وقت باقی رہ جاتا ہےاور پھر برق رفتاری سے یہ نمازیں پڑھنے کے بعد افطار کے سامنے آ بیٹھتے ہیں۔

۶۷

آخر یہ کس قسم کا روزہ ہے؟

انسان رات بھر صرف اس لئے نہ سوئے کہ دن میں روزہ رکھ کر سوتا رہے، تاکہ روزے کی سختی اورمشقت محسوس نہ کرے۔

کیا یہ روزے کو معمولی سمجھنا نہیں؟

میرے خیال میں تو یہ روزے کو گالی دینے کے مترادف ہے، یعنی یہ تو زبانِ حال سے یہ کہنا ہے کہ اے روزے! میں تجھ سے اس قدر نفرت کرتا ہوں کہ تیرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا!!

ہم حج کرتے ہیں لیکن حقارت کے ساتھ، روزہ رکھتے ہیں لیکن معمولی بنا کے، نماز پڑھتے ہیں لیکن سبک کر کے، اذان کہتے ہیں لیکن بے حیثیت انداز میں۔

دیکھئے، ہم اذان کو کیسے بے حیثیت کرتے ہیں؟

موذن کا ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہونا مستحب ہےاسی طرح جیسے قرآنِ مجید کی قراءت کے لئے تجوید یعنی حروفِ قرآن کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی، خوبصورت آواز میں قرآن پڑھنا سنت ہے، جو روح پر بھی بہت زیادہ اثر اندا ز ہوتا ہےاسی طرح اذان میں بھی مستحب یہ ہے کہ موذن ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہو، اس انداز سے اذان کہے کہ سننے والوں پروجد طاری کر دے، ان میں خدا کی یاد تازہ کر دے۔

بہت سے افراد خوش آواز ہیں اور اچھے انداز میں اذان کہہ سکتے ہیںلیکن اگر ان سے کہا جائے کہ جناب آگے بڑھئے، آج آپ اذان کہہ دیجئے تو وہ تیار نہیں ہوتےکیوں؟ اس لئے کہ وہ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ کیا میں اس قدر حقیرشخص ہوں کہ موذن بنوں؟

جناب! موذن ہونے پر تو آپ کو فخر کرناچاہئے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام موذن تھےجس دور میں آپ خلیفہ تھے، اس دور میں بھی اذان کہا کرتے تھےموذن ہونے کو اپنی توہین سمجھنا، یا موذن ہونے کو کسی خاص طبقے سے وابستہ قرار دینا اور یہ کہنا کہ میں جو اشراف و عمائدین میں سے ہوں، رجال و شخصیات میں میرا شمار ہوتا ہے، میں اذان دوں؟ ۔۔۔ یہ سب باتیں اذان کی تحقیر کرنا اور اسے حقیر سمجھناہیں۔

۶۸

پس ہمیں کسی بھی صورت میں عبادات کی تحقیر نہیں کرنی چاہئےہمیں ایک کامل اور جامع مسلمان ہونا چاہئےاسلام کی حیثیت اور قدر و قیمت اسکی جامعیت میں ہےنہ تو ہمارا کردار یہ ہو کہ صرف عبادات سے چپکے رہیں، اسکے سوا تمام چیزوں کو ترک کر دیں اور نہ ہی ہمیں دورِ حاضر میں پیدا ہونے والے ان لوگوں کی مانند ہونا چاہئے جنہیں اسلام کی صرف اجتماعی تعلیمات ہی نظر آتی ہیں اور عبادات کی تحقیر کرنے لگیں۔

انشاء اﷲ آئندہ شب جب ہم اسی بحث کے تسلسل میں عرائض پیش کریں گے تو دوسرے تمام اسلامی فرائض کی نظر سے عبادت کی اہمیت پر گفتگو کریں گےاور واضح کریں گے کہ خود عبادت خدا کے تقرب کا ایک رکن اورمرکب (سواری) ہونے کے علاوہ، نیز علاوہ اس کے کہ”وَاَقِمِ الصَّلٰوةِ لِذِکْرِیْ“ (۱) نماز کا مقصد یادِ خدا اور تقربِ الٰہی ہے اور خدا کا تقرب اور اس سے نزدیکی خود اتنا بڑا مقصد ہے کہ اسے اپنے سے بڑھ کرکسی اور مقصد کی ضرورت نہیں (خود یہی اعلی ترین مقصد ہے)ان سب باتوں سے قطع نظر اگر ہم عبادت کی تحقیر کریں تو دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی سے بھی رہ جائیں گےعبادت تمام دوسرے اسلامی احکام و فرامین کی قوہمجریہ اوران کے اجرا کی ضامن ہے۔

یہیں پر ہم اپنے عرائض ختم کرتے ہیں۔

خدایا! تجھے تیری درگاہ کے عبادت گزار بندوں کے حق کا واسطہ، ان صاحبانِ قرآن کے صدقے، اپنے پاکیزہ اور مخلص مناجات کرنے والوں کے صدقے، ہم سب کو حقیقی عبادت گزاروں میں قرار دے۔

بارِالٰہا! ہمیں دین اسلام کی جامعیت سے آشنا فرما اور ہمیں ایک جامع مسلمان بنادے۔

پروردگار! ہم سب کو خلوصِ نیت کی توفیق کرامت فرما۔

الٰہی! ان محترم شبوں میں ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے مرحومین کی مغرفت فرما۔

رَحِمَ اﷲُ قَرَأَ الْفاتِحَةَ مَعَ الصَّلَوَات

--------------

۱۔ اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ ( سورہ طہ ۲۰ آیت ۱۴)

۶۹

عبادت اور تربیت

اِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ (۱)

اسلام میں عبادات اصل اور بنیاد کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی تربیتی اسکیم کا حصہ بھی ہیں اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ :عبادات کے اصل اور بنیاد کے حامل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ہر پہلو سے قطع نظر، انسانی زندگی کے مسائل سے قطع نظر خود عبادت مقاصدِ خلقت میں سے ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے(سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶)

عبادت انسان کے حقیقی کمال اور تقربِ الٰہی کا ایک وسیلہ ہے۔

ایسی چیز جو خود انسان کے کمال کا مظہر، اورخود ہدف اور غایت ہے اسکے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسری چیز کا مقدمہ اور وسیلہ ہولیکن اسکے باوجود، عبادات اس اصالت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری چیز کا مقدمہ بھی ہیںیعنی جیسا کہ ہم نے عرض کیا (عبادات) اسلام کی تربیتی اسکیم کا حصہ ہیںیعنی اسلام، جو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے افراد کی تربیت کرنا چاہتا ہے، وہ اس مقصد کے لئے جو وسائل اختیار کرتا ہے ان میں سے ایک وسیلہ عبادت ہے اور اتفاق سے یہ وسیلہ انسان کے اخلاق اور روح پر ہر دوسرے وسیلے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہےایسا کس طرح ہے؟ ہم آئندہ سطور میں اس کی وضاحت کریں گے۔

اخلاقی مسائل کا محور ”ایثار و فدا کاری“ اور اپنے فائدے اور مفاد کوپس پشت رکھنا ہےجس طرح ”حمیہ“ یعنی پر خوری سے اجتناب، جسمانی سلامتی کا ایک اصول ہے، جو (جسمانی صحت سے متعلق) تمام خوبیوں کی اسا س اوربنیاد ہے، اسی طرح اخلاق میں بھی ایک چیز ہے،

----------

1:-بے شک نماز ہر برائی اور بد کاری سے روکنے والی ہے اور اﷲ کا ذکر بہت بڑی شے ہے(سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

۷۰

 جو تمام اخلاقی مسائل کی اصلِ اساس ہے، اور وہ ہے اپنی ذات سے گزر جانا، اپنی ذات کوبھلا دینا، ”انانیت“ کی اسیری سے آزاد ہو جانا اور ”میں“ کو ترک کر دینا۔

اجتماعی مسائل میں عدالت کا اصول تمام اصولوں کی ماں ہےعدالت، یعنی دوسرے افرادکے حق کوملحوظ رکھنا، ان کے حقوق کی رعایت کرنا۔

وہ مشکل جس سے انسانیت اخلاقی مسائل میں بھی دوچار ہے اور اجتماعی مسائل میں بھی اس کا سامنا کر رہی ہے، وہ ان اصولوں کو روبہ عمل لانے کا مسئلہ ہےیعنی کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو اخلاق سے ناواقف ہو، یا اس بات کا علم نہ رکھتا ہو کہ عدالت کس درجہ ضروری ہےلیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ان اصولوں پر عمل کا مرحلہ آتا ہے۔

جس وقت انسان کسی اخلاقی اصول کی پابندی کرنا چاہتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ اسکا مفاد اور منفعت ایک طرف ہے اوراس اخلاقی اصول کی پابندی دوسری طرفوہ دیکھتا ہے کہ راست گوئی ایک طرف ہے اور منفعت اور فائدہ دوسری طرفیا تو وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے اور نفع حاصل کر لے، یا پھرسچ بولے، امانت داری کا ثبوت دے اور اپنے منافع کو پس پشت ڈال دےیہ وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عدل و اخلاق کا دم بھرنے والا انسان بھی عمل کے موقع پر اخلاق اور عدالت کی مخالف راہ اختیار کرتا ہے۔

ایمان کی تاثیر

جو چیز اخلاق اور عدالت کی پشت پناہ اور ضمانت ہے، اور جو اگر انسان میں پیدا ہو جائے تو انسان باآسانی اخلاق اور عدالت کے راستے پر قدم بڑھاسکتا ہے اور اپنے نفع اور مفاد سے دستبردار ہوسکتا ہے، وہ صرف ”ایمان“ ہے۔

البتہ کونسا ایمان؟ جی ہاں، خود عدالت پر ایمان، خود اخلاق پر ایمان۔

انسان میں عدالت پر ایک مقدس امر کے طور پر، اخلاق پر ایک مقدس امر کے طور پر ایمان کب پیدا ہوتا ہے؟

۷۱

(یہ ایمان)اس وقت (پیدا ہوتا ہے)جب وہ تقدس کی اصل و اساس یعنی ”خدا“ پر ایمان رکھتا ہولہٰذا انسان عملاً اتنا ہی عدالت کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا کا معتقد ہوتا ہے، عملاً اتنا ہی اخلاق کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا پر ایمان رکھتا ہے۔

ہمارے دور کی مشکل یہی ہے کہ (لوگ) سمجھتے ہیں کہ ”علم“ کافی ہےیعنی بااخلاق اور عادل ہونے کیلئے ہماراعدالت اور اخلاق سے واقف ہونا اور ان کا علم رکھنا ہی کافی ہےلیکن تجربے نے بتایا ہے کہ اگر علم سے ایمان کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہو، تویہ عدالت اور اخلاق کے لئے نہ صرف مفید نہیں، بلکہ مضر بھی ہےاور ”سنائی“ کے ا س قول کے مصداق ہو جاتا ہے کہ: چودزد باچراغ آید گزیدہ تربرد کالا (جب چور چراغ کے ہمراہ آتا ہے تو اچھی طرح چن چن کے مال لے جاتا ہے)

لیکن اگر ایمان پیدا ہو جائے، تو اخلاق اور عدالت میں استحکام آجاتا ہےمذہبی ایمان کے بغیر اخلاق اور عدالت ایسے ہی ہے جیسے بغیر ضمانت کے کرنسی نوٹوں کا جاری کر دیناجب مذہبی ایمان آ جاتا ہے تو اخلاق اور عدالت بھی آ جاتے ہیں۔

یہیں پہنچ کر ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلام نے خدا کی پرستش اور عبادت کو اخلاق اور عدالت سے جدا ایک علیحدہ مسئلہ قرار نہیں دیا ہےیعنی جس عبادت کا اسلام حکم دیتا ہے اسکی چاشنی اخلاق اور عدالت کو قرار دیتا ہےیا یہ کہیں کہ جس عدالت اور اخلاق کو تجویز کرتا ہے، اسکی چاشنی عبادت کو قرار دیتا ہے کیونکہ اسکے بغیر یہ ممکن نہیں۔

ایک مثال عرض کرتا ہوں : آپ کوکہاں، اور دنیا میں پائے جانے والے مکاتیب و ادیان میں سے کس مکتب اور دین میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ایک مجرم خود اپنے قدموں سے چل کر آئے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرے؟ مجرم تو ہمیشہ سزا سے بچنے کی کوشش کرتا ہےوہ واحد قدرت جو مجرم کو خود اپنے قدموں پر چلاکے اور اپنے ارادے اور اختیار سے سزا کی طرف لاتی ہے وہ ”ایمان“ کی طاقت ہے، اسکے سوا کوئی اور چیز ایسانہیں کر سکتی۔

۷۲

جب ہم اسلام کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی بکثرت مثالیں نظر آتی ہیں البتہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس ابتدائی دور کے سوا کسی اور دور میں ایسی مثالیں نہیں ملتیںنہیں، صدرِ اسلام کے علاوہ دوسرے ادوار میں بھی، لوگوں میں پائے جانے والے ایمان کے تناسب سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔

اسلام نے مجرم کے لئے سزاؤں کا تعین کیا ہےمثلاً شراب نوشی کے مرتکب فرد، زناکار اور چورکے لئے سزائیں معین کی ہیںدوسری طرف اسلام میں ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہاَلْحُدُوُد تَدْرَ أُبِالشَّبْهَاتِ یعنی حدود معمولی شبہے پر دفع ہو جاتے ہیں اسلام قاضی اور حاکم کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ مجرم کوتلاش کرنے کے لئے جاسوسی کریں، تجسس کریںبلکہ مجرم کے دل میں ایک طاقت ڈالتا ہے جس کے اثر سے وہ خود اپنے آپ کوسزا کے لئے پیش کرتا ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دور میں کثرت کے ساتھ ایسا ہوا کرتا تھا کہ لوگ خود پیغمبر یا امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ (یا امیر المومنین) ہم فلاں جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، ہمیں سزا دیجئےہم آلودہ ہیں، ہمیں پاک کر دیجئے۔

ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیجئے(کیونکہ اس قسم کے مسائل میں ایسے شخص کے لئے چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے، ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، لہٰذا) پیغمبر نے فرمایا:لَعَلَّکَ قَبَّلْتُ شاید تم نے اس عورت کا بوسہ لیا ہو گا اور کہہ رہے ہو کہ میں نے زنا کیا ہے (یعنی آنحضرت اسکے منہ میں الفاظ رکھ رہے ہیں)اگر وہ کہے کہ ہاں میں نے بوسہ لیا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ بوس و کنار بھی زنا کی مانند ہے اور معاملہ صرف یہیں پر ختم ہو گیا ہو گااس نے کہا : نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں نے زنا کیا ہےفرمایا:لَعَلَّکَ غَمَّزْتَ ، شاید تو نے برائی کا صرف ارادہ کیا ہو گا، یا اسکے جسم کوگدگدایا ہوگا(شاید وہ کہے کہ ہاں، ایسا ہی تھا، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا)اس نے کہا: نہیں، اے

۷۳

اﷲ کے رسول! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں آپ نے فرمایا: شاید تو زنا کے قریب قریب پہنچ گیا ہو اور در حقیقت زنا واقع نہ ہوا ہو؟ اس نے کہا: نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں آلودہ ہوا ہوں، میں ناپاک ہو گیا ہوںمیں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھ پر حد جاری فرمائیں اور اسی دنیا میں مجھے سزا دیں، میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ جرم دوسری دنیا میں میرے ساتھ جائے۔

یہ حدیث جسے ہم اب پیش کر رہے ہیں ”کافی“ میں ہے (فروع کافی ج ۷ص ۱۶۵)

ایک عورت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اے امیر المومنین! میں نے زنائے محصنہ کا ارتکاب کیا ہے، میں شادی شدہ ہوں، شوہر کی غیر موجودگی میں زنا کی مرتکب ہوئی ہوں اور اسکے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہوں ”طَهَّرْنی “ مجھے پاک کر دیجئے، میں آلودہ ہوںامام نے فرمایا : ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے(۱) پھر یہ کہ اگر ایک شادی شدہ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اسے ”رجم“ یعنی سنگسار کیا جائے گامیں اگر تمہیں سنگسار کرنے کا حکم دوں گا تو اس بچے کا کیا بنے گا جو تمہارے شکم میں ہے؟ بچے کو تو ہم سنگسار نہیں کر سکتےتم جاؤ، بچے کی پیدائش کے بعد آنا، ہم اس بچے کی وجہ سے تمہیں سنگسار نہیں کر سکتےیہ سن کر وہ عورت چلی گئی۔

چند ماہ بعد دیکھتے ہیں کہ وہی عورت چلی آ رہی ہے، ایک بچہ بھی اس کی گود میں ہےکہتی ہے: یا امیر المومنین طہرنی اے امیر المومنین !مجھے پاک کر دیجئے۔ بولی، میرا عذر یہ بچہ تھا، اب یہ دنیا میں آچکا ہے (یہ دوسرا اقرار تھا)امیر المومنین نے فرمایا: اب اس موقع پر اگر ہم تجھے سنگسار کردیں تو اس بچے کا کیا قصور ہے؟ ابھی اسے ماں کی ضرورت ہے، اسے ماں کا دودھ چاہئے، یہ ماں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طالب ہےفی الحال جاؤ، ابھی اس بچے کو تمہاری ضرورت ہےوہ عورت دل شکستہ اور رنجیدہ حالت لئے لوٹ گئی۔

--------------

1:-اسلام میں کسی صورت حتیٰ قاضی تک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تجسس کرے یابہانے سے اقرار لے بلکہ جب کوئی انسان اقرار کرتا ہے تو قاضی ایک بہانے کے ذریعے اسکے اقرار کو مسترد کرتا ہے۔

۷۴

ایک دو سال بعد وہ عورت دوبارہ آئی، بچہ بھی اسکے ساتھ تھا اور آ کے کہنے لگی: ”یا امیر المومنین! طہرنی“ اب میرا بچہ دودھ نہیں پیتا، اسے دودھ پلانے والی کی ضرورت نہیں رہی، بڑاہو گیا ہےاب مجھے پاک کر دیجئےفرمایا: نہیں، ابھی اس بچے کو ماں کی ضرورت ہےابھی جاؤیہ سن کر اس عورت نے بچے کا ہاتھ پکڑا، اب وہ روتی جاتی تھی اور یہ کہتی جاتی تھی کہ: خدایا! یہ تیسری مرتبہ ہے کہ میں گناہ کی اس آلودگی سے پاک ہونے کی غرض سے تیرے (مقرر کردہ) امام کی خدمت میں آئی ہوں، خلیفہ مسلمین کے پاس آئی ہوں اور وہ ہیں کہ ہر مرتبہ ایک بہانہ کر کے مجھے واپس لوٹا دیتے ہیںبارالٰہا ! میں اس گندگی سے چھٹکارا چاہتی ہوں، میں آئی ہوں کہ وہ مجھے سنگسار کریں اور میں پاک ہو جاؤںوہ یہ کہتی ہوئی جا رہی تھی کہ اتفاقاً اس پر عمرو بن حریث کی نگاہ پڑگئی، یہ ایک منافق انسان تھااس نے عورت سے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا معاملہ ہے؟ عورت نے پورا قصہ کہہ سنایاعمرو بن حریث نے کہا : آؤ میرے ساتھ، میں تمہاا مسئلہ حل کرتا ہوں۔ تم ایسا کرو کہ بچہ میرے حوالے کردو، میں اس کی کفالت قبول کرتاہوںاسے یہ معلوم نہ تھا کہ علی اس عورت سے چوتھی مرتبہ اقرار لینا نہیں چاہتے۔

امام دیکھتے ہیں کہ وہ عورت اپنے بچے اور عمرو بن حریث کے ساتھ واپس چلی آ رہی ہے۔ آپ کے نزدیک آتی ہے اور کہتی ہے: یا امیر المومنین! طہرنی (اے امیر المومنین! مجھے پاک کر دیجئے)، میں نے زنا کیا ہے، بچے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے، اس شخص نے اسے پالنے پوسنے کی ذمے داری لے لی ہے، اب آپ مجھے پاک کر دیجئے۔۔۔

کہتے ہیں کہ امیر المومنین کو معاملے کا یہاں تک پہنچنا بہت ناگوار گزرا۔

یہ ایمان اور مذہب کی طاقت ہے جو انسان کے ضمیر کی گہرائیوں میں اثر انداز ہو کر اسے عدالت اور اخلاق کے سامنے جھکا دیتی ہےعبادت اس لئے ہے تاکہ انسان کی ایمانی حیات کی تجدید ہو، اسکا ایمان تازہ ہو، اس میں طراوت اور نشاط پیدا ہو، وہ قوت اور طاقت حاصل کرے۔

۷۵

جتنا انسان کا ایمان زیادہ ہو گا، اتنا ہی وہ خداکو زیادہ یاد رکھے گا، اور جتنا انسان کو خدا یا د رہے گا اتنا ہی وہ گناہ کا کم مرتکب ہوگاگناہ اور نافرمانی کرنے یا نہ کرنے کا دارو مدار علم پر نہیں ہے، اسکا دارو مدار غفلت اور یاد پر ہےجتنا انسان غافل ہو گا، یعنی اس نے جتنا خدا کو فراموش کر دیا ہو گا، اتنا ہی زیادہ وہ گناہ کا ارتکاب کرے گا اور جتنا زیادہ وہ خدا کو یاد رکھے گا، اتنی ہی اسکی نافرمانیاں کم ہوں گی۔

عصمت اور ایمان

آپ نے سنا ہوا ہے کہ انبیا اور ائمہ معصوم ہوتے ہیں اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انبیا اور ائمہ کے معصوم ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ اسکا جواب دیں گے کہ وہ کبھی کسی بھی صورت میں گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔

ٹھیک ہے(عصمت کے) معنی یہی ہیںلیکن اگر اسکے بعد آ پ سے سوال کیا جائے کہ (یہ لوگ) کیوں گناہ نہیں کرتے؟ تو ممکن ہے آپ اس سوال کادو طرح سے جواب دیںایک یہ کہ انبیا اور ائمہ اس وجہ سے معصوم ہیں اور گناہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم ان کے ارتکابِ گناہ میں رکاوٹ ہے، اس نے انہیں بالجبر گناہ اور معصیت سے روکا ہوا ہےیعنی جب کبھی وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں، خدا رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے اور ان کا راستہ روک دیتا ہے۔

اگر عصمت کے معنی یہ ہیں تو یہ (انبیا اور ائمہ کے لئے) کوئی فضیلت اور کمال نہیںاگر میرے اور آپ کے ساتھ بھی اسی طرح ہونے لگے کہ جوں ہی ہم گناہ کرنا چاہیں، خدا کی نافرمانی کرنا چاہیں تو ایک خارجی طاقت ہمارے راستے میں حائل ہو جائے، ہمارے مانع و مزاحم ہو جائے اور ہمارے اور گناہ کے درمیان رکاوٹ بن جائےایسی صورت میں بحالتِ مجبوری ہم بھی گناہ سے محفوظ رہیں گے۔

۷۶

پس، ایسی صورت میں انہیں (انبیا اور ائمہ کو) ہم پر کیا فضیلت ہوئی؟ اس صورت میں ان کے اور ہمارے درمیان صرف یہ فرق ہو گا کہ وہ خدا کے ایسے بندے ہیں جنہیں اس نے خاص امتیاز دیا ہوا ہے، جب وہ خدا کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، توخدا ان کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے لیکن (ہمیں یہ امتیاز حاصل نہیں) جب ہم نافرمانی کا ارادہ کرتے ہیں، تو خدا ہمارا راستہ نہیں روکتا۔

نہیں، یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔

ان (انبیا اور ائمہ) کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ گناہ کرنا چاہتے اورخدا ان کے مانع ہو جاتا ہے !

پس پھرحقیقت کیا ہے؟

عصمت کے معنی، ایمان کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونا ہےجتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنا ہی انسان کو خدا زیادہ یاد رہے گامثلاً ایک بے ایمان انسان ایک روز گزارتا ہے ایک ہفتہ گزارتا ہے، ایک مہینہ گزارتا ہے، جو چیز اسکے ذہن میں پھٹکتی تک نہیں، وہ خدا ہےایسا شخص یکسر غافل ہے۔

بعض لوگوں کو کبھی کبھی خدا یاد آتا ہےاس موقع پر انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہمارا ایک خدا ہے، خدا ہمارے سروں پر ہے اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہےلیکن خدا اسی ایک لمحے کے لئے ان کے ذہن میں آتا ہے، اسکے بعد وہ اسے ایسے بھلا بیٹھتے ہیں جیسے سرے سے کسی خدا کا وجود ہی نہیں۔

لیکن کچھ افراد جن کا ایمان (مذکورہ بالا لوگوں سے کچھ) زیادہ ہوتا ہے، کبھی غفلت میں ہوتے ہیں، کبھی بیدارجب غافل ہوتے ہیں تو ان سے گناہ صادر ہوتے ہیں لیکن جب بیدار ہوتے ہیں تو اس بیداری کے نتیجے میں ان سے گناہ صادر نہیں ہوتےکیونکہ جب وہ خدا کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو ان سے گناہ کے صدور کا امکان ختم ہو جاتا ہےلایزنی الزانی وهو مو من (کوئی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کر سکتاوسائل الشیعہ ج ۱ص ۲۴ح ۱۴)

۷۷

جب انسان کی روح میں سچا ایمان موجود ہو اور وہ بیدار ہو تو گناہ میں مبتلا نہیں ہوتااب اگر انسان کا ایمان کمال کی حدوں کو چھو لے، یہاں تک کہ وہ خداکو ہمیشہ حاضر و ناظر سمجھنے لگےیعنی خدا ہمیشہ اس کے دل میں موجود ہو، تواس صورت میں وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوتا، ہر عمل کی انجام دہی کے دوران خدا کی یاد اسکے ساتھ ساتھ ہوتی ہےقرآنِ مجید کہتا ہے :

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ

وہ مرد جنہیں کاروبار یا خرید و فروخت ذکرِ خدا سے غافل نہیں کر سکتی(سورہ نور ۲۴آیت ۳۷)

(قرآن) یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جوتجارت نہیں کرتےاسلام لوگوں کو تجارت اور کاروبار سے روکنے کے لئے نہیں آیایہ نہیں کہتا کہ تجارت نہ کرواسکے برعکس حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ محنت کرو، کماؤ، کاروبار کرو، تجارت کرووہ لوگ جو خرید و فروخت کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، کماتے ہیں، ملازمت کرتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایک لمحے کے لئے بھی خدا سے غافل نہیں ہوتےدکان کے کاؤنٹر پر کھڑے ہوتے ہیں، چیزیں فروخت کرتے ہیں، تولتے ہیں، بولتے ہیں، پیسے لیتے ہیں اور مال حوالے کرتے ہیں لیکن جس چیز کو وہ ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہیں کرتے وہ ”خدا“ ہےخدا ہمیشہ ان کے ذہن میں رہتا ہے۔

اگر کوئی ہمیشہ بیدارہو، ہمیشہ خدا اسکے ذہن میں ہو، تو قدرتی بات ہے کہ وہ کبھی بھی گناہ کا مرتکب نہیں ہوگاالبتہ ہم ایسی دائمی بیداری معصومین علیہم السلام کے سوا کسی اور میں نہیں پاتے(چنانچہ)معصومین یعنی وہ لوگ جو کسی بھی لمحے خدا کو نہیں بھولتے۔

آپ کی خدمت میں ایک مثال عرض کرتا ہوں: کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ (آپ نے جانتے بوجھتے) اپنا ہاتھ آگ میں ڈال دیا ہو، یا آگ میں کود پڑے ہوں؟ اگر آپ کو معلوم نہ ہو، بے خبری میں ایسا ہو گیا ہو تو دوسری بات ہےپوری زندگی میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کوئی ارادتاً خود کو آگ میں جھونک دےالبتہ اگر ہم خودکشی کرناچاہیں تو (بات دوسری ہے)۔

۷۸

ایسا کیوں ہے؟ ایسااس لئے ہے کہ ہم بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ آگ کا کام جلانا ہے، یہ جانتے ہیں کہ اگر آگ کے بھڑکتے شعلوں میں گر جائیں تو یقیناً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گےہم قطعی اور یقینی طور پر اس بات کا علم رکھتے ہیں اور جوں ہی ہمیں آگ نظر آتی ہے یہ علم ہمارے ذہن میں حاضر ہو جاتا ہے اور ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوتےلہٰذا ہم اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے سے معصوم ہیںیعنی ہمیں حاصل یہ علم و یقین اور ایمان کہ آگ جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ہمیں آگ میں کود پڑنے سے باز رکھتے ہیں۔

جتنا ہم آگ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں، اتنا ہی اولیائے خدا، گناہ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیںلہٰذا وہ معصوم ہوتے ہیں (کسی گناہ کے قریب نہیں جاتے)۔

اب جبکہ معصوم کے معنی معلوم ہو چکے ہیں، تواس جملے کا مقصد بھی واضح ہو گیا ہو گا کہ ”عبادت اسلام کی تربیتی اسکیم کاحصہ ہے“عبادت اس لئے ہے کہ انسان کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد خدا کی یاد دلائی جائے اور انسان کو جتنا خدا یاد ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ اخلاق، عدالت اور حقوق کا پابند ہو گایہ ایک بالکل واضح (clear)بات ہے۔

اسلام، دنیا اور آخرت کا جامع

اب اپنی پور ی توجہ اس موضوع پر مرکوز فرمایئے کہ اسلام میں دنیا اور آخرت کس طرح باہم ملے ہوئے ہیں اسلام مسیحیت کی طرح نہیں ہےمسیحیت میں دنیا اور آخرت کا حساب جدا جدا ہےمسیحیت کہتی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں علیحد ہ علیحدہ عالم ہیں (ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے)، یا یہ، یا وہلیکن اسلام میں ایسا نہیں ہےاسلام آخرت کو دنیا کے ساتھ اوردنیا کو آخرت کے ہمراہ قرار دیتا ہےمثلاً نماز ہی کو لے لیجئے، اسکا خالص اخروی پہلو یہ ہے کہ انسان خدا کو یاد کرے، خوفِ خدا رکھے۔

۷۹

حضورِ قلب اور خداکی جانب متوجہ ہونے کیلئے اس قدرادب آداب کی ضرورت نہیں کہ انسان پہلے جا کر وضو کرے، اپنے آپ کو دھوئے، صاف کرےکیا خدا سے ملاقات کے لئے وضو اور پاکیزگی کوئی تاثیر رکھتی ہے؟ خدا کے حضور جانے کے لحاظ سے اس بات کی کوئی تاثیرنہیں کہ انسان کا منہ دھلا ہوا ہے یا نہیں، لیکن خداوند عالم فرماتا ہے :

اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰةِ، فَاغْسِلُوْ اوُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَفِقِ

ایمان والو! جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ(سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۶)

پھر اسکے بعد نماز پڑھو۔

دیکھا آپ نے (اسلام نے) صفائی کو عبادت کے ساتھ ملا دیا ہے:وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُ وْا (اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کروسورہ مائدہ ۵آیت ۶) اوریہاں عبادت کے ساتھ پاکیزگی کا ذکر ہے۔

اگر آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کی عبادت کی جگہ مباح ہونی چاہئے، غصب شدہ نہ ہووہ جا نماز جس پر کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھتے ہیں، وہ لباس جسے پہن کر آپ نماز ادا کرتے ہیں، اسے حلال اورمباح ہونا چاہئےاگر آپ کے لباس کا ایک دھاگا بھی غصبی ہوا، تو آپ کی نماز باطل ہو جائے گیاس مقام پر عبادت حقوق کا دامن تھام لیتی ہےخدا کی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ کہا جا رہا ہے کہ (لوگوں کے) حقوق کا بھی احترام کیجئےیعنی اسلام کہتا ہے کہ میں ایسی عبادت قبول ہی نہیں کرتا جس میں دوسروں کے حقوق کا پاس ولحاظ نہ رکھا گیا ہو۔

لہٰذا جب نمازپڑھنے والا کوئی شخص، نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے یہ دیکھتا ہے کہ یہ گھر جس میں، میں ہوں، اسے میں نے کسی سے بالجبر تو نہیں ہتھیایا؟ اگر جبراً قابض ہوں، تو میری نماز باطل ہو گیپس اگر وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو مجبور ہے کہ پہلے اپنے لئے ایک ایسے گھر کا بندوبست کرے جو اسکے لئے حلال ہویعنی اسکے اصل مالک سے خریدا ہوا ہو، یا وہ (مالک) اسکے وہاں رہنے سے راضی ہو۔

۸۰