عبادت و نماز

عبادت و نماز0%

عبادت و نماز مؤلف:
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 100

عبادت و نماز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
: سید سعید حیدرزیدی
زمرہ جات: صفحے: 100
مشاہدے: 41124
ڈاؤنلوڈ: 3894

تبصرے:

عبادت و نماز
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 100 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41124 / ڈاؤنلوڈ: 3894
سائز سائز سائز
عبادت و نماز

عبادت و نماز

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 وہ جس فرش پر کھڑا ہے، اس کا مسئلہ بھی یہی ہےاسکا لباس بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، حتیٰ اگر ناداروں کے حقوق، خمس یا زکات (وغیرہ) بھی اس کے ذمے ہوں، تو انہیں بھی ادا کرےاگراس نے انہیں ادا نہ کیا ہو گا، تو بھی اسکی نماز باطل ہوگی۔

اسی طرح (اسلام) ہم سے کہتا ہے اگر نماز پڑھنا چاہتے ہو تو تم سب کوکعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوناہو گاکعبہ کہاں ہے؟ وہ اوّلین معبد جو دنیا میں خدا کی پرستش کے لئے بنایا گیا، کہاں واقع ہے؟اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَرکًا (بے شک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکہ میں ہے، مبارک ہےسورہ آل عمران ۳آیت ۹۶) تم سب پر اس اوّلین معبد اور مسجد کی سمت رخ کر کے کھڑا ہونا لازم ہے جسے خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟ کیا وہاں خدا ہے؟ کیا خدا (معاذ اﷲ) خانہ کعبہ کے اندر ہے؟ قرآن مجید جو یہ کہتا ہے کہ :

فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اﷲِ

لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلے کا رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے(سورہ بقرہ ۲آیت ۱۱۵)

تم جہاں کہیں رخ کر کے کھڑے ہو جاؤ، وہیں خدا ہے، تم چاہے دائیں طرف رخ کر و یا بائیں طرف، خدا کی طرف رخ کر کے کھڑے ہواوپر رخ کرو یانیچے، خدا کی طرف تمہارا رخ ہو گااور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اگر تمہیں رسی سے باندھ کرنیچے زمین کے ساتویں طبقے تک بھی لے جائیں تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے۔ مشرق کی طرف جاؤ، تب بھی خداکی طرف جاؤ گے، مغرب کی طرف جاؤ، تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے، یہاں جوبیٹھے ہوئے ہو، خداکے ساتھ ہوخداکی کوئی سمت نہیں۔

۸۱

(اگر ایسا ہے تو) پھر ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟

(اسلام) کہتا ہے کہ آپ عبادت کی انجام دہی کے دوران ایک اجتماعی تعلیم و تربیت بھی حاصل کیجئےآپ سب کو ایک نقطہ واحد کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا چاہئے، اگرایسا نہ ہو تو ایک شخص ایک طرف رخ کئے کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری طرف اور یہ تفرقے اور انتشار کی علامت ہےلیکن اگرتمام لوگ ایک نقطے کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوں، تو اسکا مطلب ہے کہ سب یکسو ہیں۔

تمام مسلمانوں کی ایک ہی سمت اورجہت ہونی چاہئے، اس مقصد کے لئے کس نقطے کا انتخاب کریں جس میں شرک کی بو بھی نہ پائی جاتی ہو؟ (اسلام) کہتا ہے کہ اس نقطے کا انتخاب کرو جس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا یہ کہلائے کہ تم نے عبادت کااحترام ملحوظ رکھا ہے، اس سمت رخ کر کے کھڑے ہو جو اوّلین معبد ہے، معبد کا احترام عبادت کااحترام ہے۔

پھر (اسلام) کہتا ہے کہ اگر عبادت کرناچاہتے ہو تواسکا ایک متعین اورخاص وقت ہے، اس میں سیکنڈوں کا بھی خیال رکھا جانا چاہئےصبح کی نماز کا وقت طلوعِ صبح کے آغاز سے لے کر طلوع آفتاب کی ابتداء تک ہےاگر تم نے جانتے بوجھتے صبح طلوع ہونے سے ایک سیکنڈ پہلے یا سورج طلوع ہونے کے بعد نماز شروع کی تو تمہاری نماز باطل ہوگی، درست نہ ہو گی نماز کو ان دو (اوقات) کے درمیان ہونا چاہئےیہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ مجھے نیند آ رہی ہے، رات بھر کا جاگا ہوا ہوں، گو ابھی صبح طلوع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے، یوں بھی خدا کو نہ تو نیند آتی ہے اور نہ بیداری کا ا س سے کوئی تعلق ہے، کیا خدا طلوعین کے درمیان (معاذ اﷲ) اپنا مخصوص لباس پہن کر نماز قبول کرنے کے لئے تیار ہوکے بیٹھتا ہے؟ ۔ ۔ خدا کے لئے تو تمام ساعات اور تمام لمحات مساوی ہیں:لاَ تَاْخُذُه، سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ (اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھسورہ بقرہ ۲آیت ۲۵۵)لہٰذا کیونکہ میں نے رات جاگ کر گزاری ہے، بہت زور وں کی نیند آرہی ہے، کیوں نہ آدھے گھنٹے پہلے نماز پڑھ لوں۔

۸۲

نہیں جناب، وقت کی پابندی ضروری ہےاپنے مقررہ وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔

کیا خدا کی نظر میں اِس وقت یا اُس وقت کے درمیان کوئی فرق ہے؟

نہیں۔

ہاں، آپ کے لئے فرق ہےنماز کے ذریعے آپ کی تربیت مقصود ہے، اگر آپ رات کو دو بجے تک بھی بیدار رہے ہیں، تب بھی آپ کو طلوعین کے درمیان اٹھ کر نماز ادا کرنی چاہئےیہی حال ظہر اور عصر کی نمازوں کا ہے، (یہ بھی) قبل از وقت قبول نہیں، وقت گزرنے کے بعد بھی قبول نہیں۔ مغرب اور عشا کی نمازوں میں بھی ایسا ہی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز توعبادت ہے، خدا پرستی ہے، بھلاخدا پرستی کو ان معاملات سے کیا سروکار؟

نہیں جناب، اسلام میں خدا پرستی ان مسائل سے مربوط ہےاسلام عبادت و پرستش اور دوسرے مسائل کے درمیان تفریق کا قائل نہیں۔

(ممکن ہے کوئی کہے کہ) میں نمازپڑھتا ہوں، لیکن نماز کے دوران گریہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔ میں مصیبت میں مبتلا ہوں، پریشانی کا شکار ہوں، چاہتا ہوں کہ نماز کے درمیان کچھ آنسو بہا لوںیا کوئی بات میرے ذہن میں آ جائے، کوئی چیز دیکھوں اور ہنس پڑوں (اگر ایسا کروں) توکوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔

نہیں جناب، ایسا نہیں ہےنمازاحساسات کو ضبط کرنے کا مظہر ہے، حالتِ نماز میں جب آپ ایک نقطے کی سمت متوجہ ہوں تو اسی نقطے کی سمت متوجہ رہنا چاہئےنہ دائیں، نہ بائیں، نہ پیچھے، حتیٰ اپنا سر ادھر ادھر گھمانے کا بھی حق نہیں، ایک چوکس ((Alertحالت میں کھڑے ہوناچاہئے۔

کیا نماز میں ہنسا اور رویاجاسکتا ہے؟

نماز کے دوران کھانے پینے کا حکم کیاہے؟

۸۳

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز عبادت کی روح سے متصادم نہیںخداکو یاد کر رہے ہیں ساتھ ساتھ ہنسی آ رہی ہے، ہنسنا چاہتے ہیںرونا آ رہا ہے، رونا چاہتے ہیںیا دورانِ نماز کوئی چیز کھانا چاہتے ہیں۔

نہیں جناب، آپ کو اس تھوڑی سی مدت کے لئے مشق کرنی چاہئے تا کہ اس دوران آپ کواپنے پیٹ پر کنٹرول ہو، اپنی ہنسی پر کنٹرول ہو، اپنے رونے پر کنٹرول ہو، اپنی بے نظمی پر کنٹرول ہویہ اجتماعی مسائل میں سے ہے، لیکن عبادت ہےکیونکہ اسلا م میں عبادت، تربیتی اسکیم کا ایک حصہ ہے، اس اصول کی رعایت کئے بغیر مقبول نہیں۔

کیا سکون کے ساتھ جم کے کھڑے ہوناچاہئے؟

بعض کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے!!! میں نماز کی حالت میں حمد اور سورے کی تلاوت کرتے ہوئے اسکی تمام شرائط کو ملحوظ رکھتا ہوں لیکن اگر اپنے جسم کو حرکت دوں، ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیرپر رکھ لوں، اپنے آپ کو دائیں بائیں جنبش دوں، تو کہا جاتاہے کہ تمہاری یہ نماز باطل ہےرکوع یا سجود میں بھی اگر اپنے آپ کو ہلاؤں جلاؤں، اپنے پیروں یا ہاتھوں کو حرکت دوں، تو کہتے ہیں کہ تمہاری یہ نماز باطل ہے(کہتے ہیں) آرام اور سکون کے ساتھ نماز پڑھویعنی جب کھڑے ہو اور اﷲ اکبر کہنا چاہو تو جب تک تمہارا بدن ساکت نہ ہو جائے اس وقت تک اﷲ اکبر نہ کہواگرہلتے ہوئے اللہ اکبر کہا تو نماز باطل ہو گیپہلے سکون سے کھڑے ہو، پھر اللہ اکبر کہواسکے بعد اگر ہلنا ہو تو ہلو لیکن ہلتے وقت کوئی حرف زبان سے ادا نہ کرو، کوئی ذکر نہ کرواگر بالفرض تمہارے پاؤں میں درد ہو، یا تمہارے کسی اور عضو میں تکلیف ہو تو خاموش ہو جاؤ، پرسکون ہو جاؤ جب ٹھہر جاؤ تو پھرذکر شروع کروبِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہواگر نمازکے درمیان تمہارے پاؤں میں تکلیف ہو، تو ٹھہر جاؤ، خاموش ہو جاؤ، اسکے بعد دوبارہ وہیں سے شروع کرو۔

(نماز) سکون اور اطمینان کے ساتھ ہونی چاہئےاس دوران تمہاری روح بھی پرسکون ہو اور تمہاراجسم بھی۔

۸۴

آتے ہیں نماز کے دوسرے حصوں کی طرف۔

نماز خدا کی جانب توجہ کا نام ہےغیر خدا کی جانب توجہ شرک ہےلیکن اس کے باوجود ہم سے کہا گیا ہے کہ نماز میں کہو:اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِ اﷲِ الصَّالِحینَ (ہم پر اور تمام صالح بندگانِ خدا پر ہمارا سلام ہو) اس طرح ہم خدا کے تمام صالح اور نیک بندوں سے یکجہتی، موافقت اور صلح و صفا کا اعلان کرتے ہیں آج کی اصطلاح میں تمام اچھے لوگوں کے ساتھ مل جل کے باہمی محبت اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا اعلان کرتے ہیںحالتِ نماز میں کہتے ہیں کہ ہم کسی صالح بندہ خدا سے دشمنی اور عداوت نہیں رکھتےکیونکہ اگر ہم کسی صالح اور نیک انسان سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہوں تو (اسکے معنی یہ ہیں کہ ہم) خود صالح اور نیک نہیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں:اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِاﷲِ الصَّالِحینَ کہنا بھی عبادت کی روح (جو بارگاہِ الٰہی میں حضورِ قلب کا اظہار ہے) سے کوئی ربط نہیں رکھتالیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کی روح اور جسم تربیتی مسائل سے گندھے ہوئے ہیں۔

نماز پروردگار سے قرب کی سواری ہونے کے ساتھ ساتھ، تربیت کا مکتب و مدرسہ بھی ہےمعنوی اور روحانی مسائل کے لحاظ سے انسان جتنا اپنے آپ کو اور دوسروں کو فراموش کرے بہتر ہے لیکن اجتماعی نکتہ نظر سے دوسروں کو فراموش نہ کرنا لازم اور ضروری ہے۔سورہ حمد(۱) جو نماز کالازمی جز ہے، اس میں ہم کہتے ہیں:اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یہ نہیں کہتے کہ:ایاک اعبدو ایاک استعین ایاک اعبد، اصطلاحاً متکلم واحد ہے، اس کے معنی ہیں کہ خدایا ! میں صرف تیری پرستش کرتا ہوں، صرف تجھ سے مدد لیتا ہوں،

--------------

1:-ہر نماز میں سورہ حمد پڑھنا ضروری ہےلا صلوة الا بفاتحة الکتاب (بغیر سورہ فاتحہ کے نماز درست نہیں) دوسرے سورے کی جگہ پر کسی بھی سورے کا انتخاب کیاجا سکتاہے، لیکن سورہ حمد پڑھنا لازم ہے۔

۸۵

لیکن ہم یہ نہیں کہتے، بلکہ کہتے ہیں:اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ، یعنی خدایا ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد واستعانت طلب کرتے ہیںیعنی کہتے ہیں: خدایا ! میں تنہا نہیں ہوں، میں دوسرے تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔

اس طرح انسان عبادت کی حالت میں اسلامی معاشرے سے اپنی وابستگی اور پیوستگی کا اظہار کرتا ہے۔ کہتا ہے: خدایا میں ایک فرد نہیں ہوں، ایک نہیں ہوں، میں عضو ہوں، کل کا ایک جز اور ایک بدن کا حصہ ”ہم“ ہوں ”میں“ نہیں ہوںدنیائے اسلام میں ”میں“ نہیں پایا جاتا ”ہم“ پایا جاتا ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدا کی کبریائی

نماز کے دوسرے حصے بھی اسی طرح ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک درس ہے، تذکر اور یاد دہانی ہے۔

مثلاً آ پ ”اﷲ اکبر“ کے لفظ پر غور کیجئےآخر وہ کونسا انسان ہے جو کسی عظیم شے کا سامنا ہونے پر اس سے مرعوب نہ ہو؟ انسان میں خوف پایا جاتا ہے۔ ۔ جب وہ کسی پہاڑ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے یااسکی چوٹی پر کھڑے ہو کر نیچے نگاہ ڈالتا ہے، تو اس پرخوف طاری ہو جاتا ہےسمندر کی بپھری ہوئی موجیں دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا ہےجب کسی صاحبِ قدرت و ہیبت ہستی کو دیکھتا ہے، دبدبے اور جاہ و حشم کی مالک کسی ہستی کا سامنا کرتا ہے، یا اسکی خدمت میں جاتا ہے، تو ممکن ہے اسکے حواس باختہ ہوجائیں، اسکی زبان میں لکنت آ جائے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس لئے کہ وہ اس کی عظمت و ہیبت سے مرعوب ہو جاتا ہےیہ انسان کے لئے ایک طبیعی بات ہے۔

لیکن اﷲ اکبر کہنے والا شخص، ایسا شخص جو اپنے آپ کو خدا کی کبریائی کی تلقین کرتا ہے، اسے کسی چیز یا کسی ہستی کی عظمت مرعوب نہیں کرتیکیوں؟ کیو نکہ ”اﷲ اکبر“ یعنی ہر چیز سے بڑی بلکہ ہر توصیف سے بڑی ذات، ذاتِ اقدسِ الٰہی ہے، یعنی اس بات کا اظہار کہ میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں، اور جب میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ میرے سامنے اس کائنات کی تمام اشیا حقیر ہیں اللہ اکبر کا الفظ انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے، انسان کی روح کو بزرگی اور بلندی عطا کرتا ہے۔

۸۶

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:عَظُمَ الْخالِقَ فِی اَنْفَسِهِمْ فَصَغَرَ ما دَونِهَ فی اَعیَنِهِمْ (خالق ان کی نگاہ میں اس قدر عظیم ہے کہ ساری دنیا ان کی نگاہوں سے گر گئی ہےنہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱) یعنی خدا اہل حق کی روح میں جلوہ افروز ہے لہٰذا ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیزپست اور معمولی ہے۔

اس مقام پر آپ کے لئے ایک وضاحت عرض ہے :

چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبی (Relative) امر ہےمثلاً آپ حضرات جو اس ہال میں تشریف فرما ہیں، اگر یہاں آنے سے پہلے، اس سے ایک چھوٹے ہال میں (مثلاً اس سے ایک تہائی چھوٹے ہال میں) بیٹھے ہوئے تھے، تو یہ ہال آپ کوبہت بڑا محسوس ہو گا، لیکن اگر اسکے برعکس، پہلے آپ ایک ایسے ہال میں بیٹھے ہوں جو اس ہال سے تین گناہ بڑا تھا توجب وہاں سے یہاں آئیں گے تو آپ کویہ ہال بہت چھوٹا معلوم دے گا۔

انسان جب کبھی مختلف چیزوں کی چھوٹائی اور بڑائی کا موازنہ کرتا ہے تو ان میں چھوٹی دکھائی دینے والی چیزوں کو چھوٹا اور بڑی نظر آنے والی چیزوں کو بڑا قرار دیتا ہےلہٰذا ایسے افراد جو اپنے پروردگار کی عظمت و بزرگی سے آشنا ہیں اور اسکی عظمت کو محسوس کرتے ہیں، ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیز حقیر اور چھوٹی ہے، بڑی نہیں ہو سکتیسعدی نے بوستان میں بہت عالی بات کی ہے :

بر عارفان جز خدا ہیچ نسیت

رہ عقل جز پیچ در یچ نسیت

سعدی کہتے ہیں: اہل عرفان، خداکے سوا کسی چیز کی حیثیت کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی اور چیز کا سرے سے وجود ہی نہیں۔

۸۷

”وحدت الوجود“ کے ایک معنی یہی ہیں کہ جب عارف کے سامنے خداکی عظمت اور بزرگی واضح ہوجاتی تووہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسکے سوا کسی اور چیز کا بھی وجود ہےوہ کہتا ہے کہ اگر ”وہ“ وجود ہے تو ”اس“ کے سوا جوکچھ ہے وہ عدم ہےسعدی نے بھی وجود کے یہی معنی بیان کئے ہیںبعد میں کہتے ہیں:

توان گفتن این باحقایق شناس

ولی خردہ گیرند، اہل قیاس

حقیقت شناس لوگ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، لیکن وہ لوگ جو (ان کے خیال میں) اہلِ قیاس ہیں وہ ان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کس شئے کا نام ہے؟

کہ پس آسمان و زمین چیستند

بنی آدم و دیو و دد کیستند

اگر خدا کے سوا کسی اورچیز کا وجود نہیں، تو پھر زمین کیا ہے؟ آسمان کیا ہے؟ بنی آدم کیا ہے؟ دیو اور دو کیا ہے؟

پسندیدہ پرسیدی ای ھوشمند

جو ابت بگویم درایت پسند

کہ خورشید و دریا و کوہ و فلک

پری و آدمیزاد و دیو و ملک

ھمہ ہرچہ ہستنداز آن کمترند

کہ باہستیش نام ہستی برند

۸۸

کہتے ہیں: میں جب یہ کہتاہوں کہ خدا کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین، انسان اور فرشتے کسی بھی شے کا وجود نہیںتم کہتے ہو کہ میں دوسری اشیا کے وجود کا منکر ہو گیا ہوں، نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس (خدا) کی عظمت کو جان لینے کے بعد میں اسکے سوا جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اسے ہستی قرار دینے سے خود کو عاجز پاتا ہوں۔

کہ جای کہ دریا ست من چیستم

گرادہست حقا کہ من نیستم

جب آپ ”اﷲ اکبر“ کہتے ہیں تو اگر اپنی روح اور دل کی گہرائی سے کہیں گے تو خدا کی عظمت آپ کے سامنے مجسم ہو جائے گی۔ اگر آپ کے دل میں خدا کی عظمت و بزرگی پیدا ہو جائے تو پھر آپ کی نظر میں کسی اور کا عظمت و بزرگی کا حامل ہونامحال ہو گا، محال ہے کہ آپ کسی اور سے خوف کھائیں، کسی اور کے سامنے خضوع و خشوع کا اظہار کریں۔

یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ خدا کی بندگی انسان کو آزادی عطا کرتی ہےاگر انسان خدا کی عظمت اور بزرگی کو جان لے، تو اسکا بندہ بن جاتا ہے اورخدا کی بندگی کا لازمہ خدا کے سوا ہر کسی سے آزادی ہے :

نشوی بندہ تانگردی حر

نتوان کرد ظرف پر را پر

چند گوئی کہ بندگی چہ بود

بندگی جز شکندگی نبود

خدا کی بندگی غیر خدا کی بندگی سے آزادی کے مترادف ہےکیونکہ خداکی عظمت اوربزرگی کے ادراک کا لازمہ غیر خدا کی حقارت اوراسکے بے قیمت ہونے کا ادراک ہےاور جب انسان غیر خدا کو، خواہ وہ کوئی بھی ہو، حقیر اور معمولی سمجھنے لگے تو محال ہے کہ جانتے بوجھتے کسی حقیر کی بندگی کرےحقیر کی بندگی کو انسان غلطِ عظیم سمجھتا ہے۔

۸۹

نماز کے دوسرے اذکار جیسے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، سبحان ربی العظیم و بحمدہ، سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ اور تشہد وغیرہ، ہر ایک میں ایک رمز اور راز پوشیدہ ہے۔

ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا : ہم (نماز کی ہر رکعت میں)دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ جس طرح ایک مرتبہ رکوع کرتے ہیں اسی طرح ایک مرتبہ سجدہ کر لیں!!؟

البتہ آپ جانتے ہیں کہ سجدے میں، رکوع سے زیادہ خضوع و خشوع اور عاجزی وانکساری کا اظہار پایا جاتا ہےکیونکہ سجدے میں انسان اپنے عزیز ترین عضو (انسان کابلند ترین عضو سر ہے، جس میں انسان کا مغز ہوتا ہے اور سر میں بھی عزیز ترین نقطہ پیشانی ہے) کو عبودیت اوربندگی کے اظہار کے طور پر پست ترین چیز یعنی خاک پر رکھتا ہےاپنی پیشانی خاک پر رگڑتا ہے اور اس طرح اپنے پروردگار کے سامنے اپنے معمولی اورحقیر ہونے کا اظہار کرتا ہے۔

اس شخص نے کہا: ہم نماز کی ہر رکعت میں دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں، خاک میں کیا خصوصیت پائی جاتی ہے؟

امیر المومنین نے(اسکے جواب میں) یہ آیت پڑھی:مِنْهَا خَلَقْنَا کُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِ جُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی (اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کے لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گےسورہ طہ ۲۰آیت ۵۵)اور پھر فرمایا: پہلی مرتبہ سجدے میں سر رکھ کر جب اوپر اٹھاتے ہوتو اسکا مطلب اس بات کا اظہار ہے کہ: مِنْهَا خَلَقْنَاکُمْ (ہم سب خاک سے خلق ہوئے ہیں)، ہمارے اس پورے پیکر کی بنیاد خاک ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اس خاک سے وجود میں آئے ہیںجب دوسری مرتبہ اپنا سر خاک پر رکھتے ہو تو تمہارے ذہن میں یہ ہونا چاہئے کہ ایک دن تمہیں مر کر خاک میں واپس جانا ہےاور جب دوبارہ خاک سے اپنا سر اٹھاتے ہو تو تمہارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ ایک مرتبہ پھر اس خاک سے اٹھائے جاؤ گے۔

۹۰

اہل خانہ کے حوالے سے ذمے داری

ایک اور نکتے کا ذکر کر کے اپنے عرائض ختم کروں گا :

میرا دل بہت چاہتا ہے کہ نماز جو دین کا ستون ہے، ہم اسکی اہمیت کو جان لیں، سمجھ لیںسب جانتے ہیں کہ ہم اپنے اہل خانہ کی نماز کے ذمے دار ہیںیعنی اپنے بیوی بچوں کی نماز کے ذمے دار ہیںہم میں سے ہر فرد خود اپنی نماز کا بھی ذمے دار ہے اوراپنے اہل خانہ کی نمازوں کا بھی، یعنی اپنے بیوی بچوں کی نمازوں کا بھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے:وَاْمُرْ اَهْلَکَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا (۱) اے پیغمبر! اپنے اہل خانہ کو نماز کی تاکید کیجئے اور خود بھی نماز کے بارے میں صابر رہئےیہ (حکم) صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم سب اس بارے میں ذمے دار ہیں۔

بچوں (کو نماز کا عادی بنانے کے لئے ان) کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟

اس سلسلے میں بچوں کو بچپنے ہی سے نماز کی مشق کرانی چاہئےشریعت کا حکم ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی مشق کراؤظاہر ہے کہ سات سالہ بچہ صحیح طور سے نماز نہیں پڑھ سکتاالبتہ وہ نماز کی حرکات و سکنات ادا کر سکتا ہے، اسی عمر سے نماز کا عادی ہو سکتا ہے(خواہ لڑکا ہو یالڑکی)یعنی جوں ہی بچہ پرائمری کلاسوں میں آئے تو اسے اسکول میں نماز سکھانی چاہئے۔ گھر میں بھی اسے نماز سکھانا چاہئےالبتہ ایک بات پر توجہ رہے، اور وہ یہ کہ بچے کو بالجبر اور زبردستی نماز سکھانا، اسے اس طرح نماز پر آمادہ کرنا، نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔

--------------

1:-اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں(سورہ طہ ۲۰آیت ۱۳۲)

۹۱

کوشش کیجئے کہ آپ کے بچے ابتداء ہی سے شوق اور رغبت کے ساتھ نماز پڑھیں آپ ان کے اندر نماز سے لگاؤ پیدا کریں، جس طرح بھی ممکن ہو بچوں کے لئے شوق کے اسباب فراہم کریں تاکہ وہ ذوق و شوق سے نماز پڑھیںاس سلسلے میں ان کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کیجئے، انہیں انعام دیجئے، ان سے محبت کا اظہار کیجئے، یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگیں کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کے دل میں ان کے لئے محبت بڑھ جاتی ہے۔

مزید یہ کہ بچے کو ایسے ماحول میں لے جایئے جس میں اس کے اندر نماز پڑھنے کا شوق پیدا ہوتجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر بچہ مسجد نہ جائے، اگر اجتماع میں نہ جائے اور لوگوں کو اجتماعی طور پر نماز پڑھتے نہ دیکھے، تو اس میں نماز کا شوق پیدا نہیں ہوتاکیونکہ درحقیقت اجتماع میں حاضری انسان میں شوق پیدا کرتی ہے۔ بڑی عمر کا انسان بھی جب اپنے آپ کو عبادت گزار لوگوں کے مجمع میں پاتا ہے تو اس میں بھی عبادت کی روح بڑھتی ہے، بچہ تو بڑے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

افسوس کہ مساجد، عبادت گاہوں اور دینی محافل میں ہمارے کم جانے اور بچوں کے بہت کم دینی اجتماعات میں شرکت کرنے کی باعث، ان میں ابتداء ہی سے عبادت کی جانب رغبت پیدا نہیں ہوتییہ رغبت پیدا کرنا آپ کی ذمے داریوں میں سے ہے۔

اسلام جو یہ کہتا ہے کہ اپنے بچوں کو نماز کی تلقین کرو، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ آقاؤں کے سے انداز میں انہیں حکم دیں، ڈرائیں، دھمکائیں، ان کے سر پر سوار ہو جائیںنہیں، بلکہ ہر اس ذریعے سے استفادہ کیجئے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہوں کہ آپ کے بچوں کو نماز کی جانب راغب کرنے اورانہیں اس کاشوق دلانے کے سلسلے میں مفید واقع ہو گا۔

ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ مسجد جانے کا اہتمام کرنا چاہئے، تاکہ وہ مساجد اور عبادت گاہوں سے آشنا ہوںخودہم لوگ جو اپنے بچپنے ہی سے مساجد اور معابدسے آشنا تھے، اب آج کے ان حالات میں کس قدر مسجد جاتے ہیں؟ ہمارے بچے سات برس کی عمر سے اسکول جاتے ہیں، اسکول کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی لیکن کبھی انہوں نے مسجد میں قدم نہیں رکھا ہوتا، ایسی صورت میں کیا وہ مسجد جائیں گے؟

۹۲

 جی ہاں ! یہ بچے لازماً مسجد سے دور رہیں گےاس صورتحال میں کیا آپ یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ مساجد کے حالات اچھے نہیں، یا مثلاً (مذہبی اجتماعات میں) خطیب حضرات نامناسب باتیں کرتے ہیں (اس لئے ہم اپنے بچوں کو ان جگہوں سے دور رکھتے ہیں)ان چیزوں (مسجدوں اور منبروں) کو درست کرنا بھی ہمارا فریضہ ہےفریضہ کسی مقام پرختم نہیں ہوجاتااپنی مساجد کی اصلاح بھی ہماری ذمے داری ہے۔

پس اس بات کو بھی کبھی فراموش نہ کیجئے گاکہ ہم پرخود اپنی نمازکی ادائیگی بھی فرض ہے اور اپنے اہلِ خانہ کو نماز کا عادی بنانا بھی ہمارا فریضہ ہےاس کی صورت یہ ہے کہ ہم ان میں نماز کی جانب رغبت اورلگاؤ پیدا کریں، جس قدر ممکن ہو نماز پڑھنے کے فوائد اور خصوصیات اور نماز کے فلسفے سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں۔

قرآنِ کریم کہتاہے کہ جب بعض اہلِ جہنم کو عذاب دیا جا رہا ہو گا تو ان سے پوچھا جائے گا :مَاسَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ (کس چیز نے تمہیں اس جہنم میں پہنچا یا ہے)قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے)وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآ ءِضِیْنَ (لغو باتوں کی جگہ پر جاتے تھےسورہ مدثر۷۴آیت۴۲تا۴۵) جہاں کہیں بھی دین مخالف باتیں کی جاتی تھیں، وہاں جا کر انہیں سنتے تھے، یا خود ایسی باتیں کرتے تھےاور یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

یہاں سے سمجھ لیجئے کہ اسلام میں نماز کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے؟ کیوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اس خیمے کا ستون ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر نماز قائم ہو اور اسکا صحیح صحیح اجرا ہو تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی آخری وصیتوں میں، جنہیں آپ نے بارہا سنا ہو گا اور جو اﷲ اﷲ سے شروع ہو تی ہیں (یہ وصیتیں کر نے کے چند ہی لمحے بعد آپ نے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی تھی) انہی وصیتوں میں آپ نے نماز کے بارے میں فرمایا:اﷲَ اﷲَ بِالصَّلاةَ فَاِنهَّا عَمُودُ دینِکُمْ (نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہےنہج البلاغہمکتوب ۴۷)

۹۳

روزِ عاشورا کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا اورجانتے ہوں گے کہ زیادہ تر شہادتیں ظہر کی نماز کے بعد واقع ہوئیںیعنی ظہر کے وقت تک حضرت امام حسین علیہ السلام کے اکثر اصحاب، تمام بنی ہاشم اور خود امام حسین (جو سب سے آخر میں شہید ہوئے) زندہ تھےظہر سے پہلے امام حسین کے فقط تیس اصحاب دشمن کی طرف سے ہونے والی ایک تیر اندازی میں شہید ہوئے تھے، وگرنہ امام کے لشکر کے باقی دوسرے افرادظہر کے وقت تک بقیدِ حیات تھے۔

اصحابِ امام حسین میں سے ایک شخص کو خیال آیا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کا اول وقت آ پہنچا ہے۔ وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یا اباعبداﷲ! نماز کاوقت ہوا چاہتا ہے، ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتدا میں آخری نمازِ جماعت ادا کریں، امام نے نظر اٹھا کر(آسمان کی طرف) دیکھا اور نماز کا وقت ہو چکنے کی تصدیق کیکہتے ہیں کہ فرمایا: ذَکَرْتَ الصَّلوٰةَ یا: ذَکَّرْتَ الصَّلوٰةَ اگر”ذَکَرْتَ“ کہا ہو تو معنی ہوں گے کہ تمہیں نماز یاد آئی، اور اگر”ذَکَّرْتَ“ کہاہو تو معنی کئے جائیں گے کہ تم نے مجھے نماز یاد دلائیذَکَرْتَ الصَّلوٰهَ جَعَلَک اللّٰهُ مِنْ الْمُصَلِّینَ (تم نے نماز یاد دلائی، خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے)

تصور کیجئے کہ ایک ایسا شخص جو سر بکف ہے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہے، ایسے مجاہد کے بارے میں امام دعا فرمارہے ہیں کہ خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دےدیکھا آپ نے حقیقی نماز گزار کتنا عظیم مقام رکھتا ہے۔

فرمایا: ہاں، ہم نماز پڑھیں گے، اسی جگہ میدان جنگ میں نماز پڑھیں گے۔

اس موقع پر ایسی نماز پڑھی گئی جسے فقہ میں ”نمازِ خوف“ کہا جاتا ہےنمازِ خوف، مسافر کی نماز کی مانند چار رکعت کی بجائے دو رکعت ہوتی ہےیعنی انسان اگر اپنے وطن میں بھی ہو تو اسے دورکعت ہی پڑھنا چاہئےکیونکہ حالات سازگار نہیں لہٰذا یہاں مختصر نماز پڑھنی چاہئے، اس لئے کہ تمام افراد کے نماز میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے دفاع کی صورتحال خراب ہو جائے گیسپاہیوں کا فرض ہے کہ اس نماز کے دوران آدھے سپاہی دشمن کا مقابلہ کریں

۹۴

 اور آدھے امام جماعت کی اقتداء میں نماز پڑھیںامام جماعت ایک رکعت پڑھنے کے بعدٹھہرتا ہے تاکہ مقتدی اپنی دوسری رکعت پڑھ لیںاسکے بعد وہ جا کے اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ لے لیتے ہیںجبکہ امام اسی طرح بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتا ہےپھر دوسرے سپاہی آتے ہیں اور امام کی دوسری رکعت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے اسی طرح نمازِ خوف ادا کیلیکن امام کو ایک خاص صورتحال در پیش تھیکیونکہ آپ دشمن سے زیادہ فاصلے پر نہ تھےلہٰذا آپ کی حفاظت کرنے والا گروہ آپ کے بالکل سامنے کھڑا ہوا تھا، جبکہ بے حیا اور بے شرم دشمن نے انہیں نماز تک سکون سے نہ پڑھنے دیآپ نماز میں مشغول تھے کہ دشمن نے تیر اندازی شروع کر دی، آپ پردو قسم کی تیر اندازی کی گئی، ان میں سے ایک زبان کی تیر اندازی تھیدشمن کے ایک سپاہی نے چیخ کر کہا: حسین ! نماز نہ پڑھو، تمہاری نماز کا کوئی فائدہ نہیں، تم اپنے زمانے کے امام (یزید) کے باغی ہو، لہٰذا تمہاری نماز قبول نہ ہو گی(نعوذ باللہ)جبکہ دوسری تیر اندازی معمول کے مطابق کمانوں سے پھینکے جانے والے تیروں کی تھیامام حسین کے وہ ساتھی جنہوں نے اپنے آپ کو امام کی ڈھال بنایا ہوا تھا ان میں سے ایک دو اصحاب (تیر لگنے کی وجہ سے) خاک پر گر پڑےان میں سے ایک سعید بن عبداﷲ حنفی اس وقت گرے جب امام حسین اپنی نماز تمام کر چکے تھےوہ جانکنی کے عالم میں تھے کہ امام ان کے سرہانے پہنچےانہوں نے امام کو اپنے سرہانے دیکھ کر ایک عجیب جملہ کہا، عرض کیا: یا اباعبدا اﷲ ! اوفیت (اے اباعبداﷲ! کیا میں نے وفاکی؟ ) یعنی، اب اس حال میں بھی ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ امام حسین کا حق اس قدر بلند وبالا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے ایسی گرانقدرفدا کاری بھی شاید کافی نہ ہو۔

صحرائے کربلا میں ابو عبداﷲ الحسین علیہ السلام نے اس انداز سے نماز ادا کی۔

ابا عبداﷲ نے اس نمازمیں تکبیر کہی، ذکر کیا، سبحان اﷲ کہا، بحول اﷲ وقوتہ اقوم واقعد کہا، رکوع و سجود کئےاس نماز کے دو تین گھنٹے بعد امام حسین کے لئے ایک دوسری نماز پیش آئی، دوسرا رکوع پیش آیا، دوسرے سجود پیش آئےایک دوسرے انداز سے آپ نے ذکر کیاآپ کا رکوع اس وقت ہوا جب ایک تیر آپ کے مقدس سینے میں اترا اور آپ اسے اپنی پشت کی طرف سے نکالنے پر مجبور ہوئے۔

۹۵

کیا آپ کوپتا ہے کہ اباعبداﷲ کے سجود کی کیا صورت تھی؟ آپ نے پیشانی پر سجدے نہیں کئے، کیونکہ آپ بے بس ہو کر گھوڑے سے زمین پر گرے تھے، لہٰذاآپ نے اپنا داہنا رخسار کربلا کی گرم ریت پر رکھا۔

اس موقع پر اباعبداﷲ کا ذکر تھا:

بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ، وَلاحَوْلَ وَلاَ قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعلِی الْعَظِیمِ وَصَلَّی اﷲَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطّاهِرینَ

بِسِمِکَ الْعَظِیمِ الْاعْظَمِ

خدایا ! ہماری عاقبت خیر فرما، ہم سب کو اپنی عبادت، عبودیت اور بندگی کی توفیق کرامت فرما۔

خدایا ! ہمیں حقیقی نماز گزاروں میں سے قرار دے، ہم سب کی نیتوں کو خالص کر دےہمیں شیاطینِ جن و انس کے شر سے محفوظ فرما۔

خدایا ! ہم سب کے مرحومین کی مغفرت فرما۔

رَحِمَ اﷲُ مَنْ قَرَأ اْلفاتِحَة مَعَ الصَّلَوات’

۹۶

فہرست

عرضِ ناشر 2

احیا 3

روحِ عباد ت یادِ خدا 5

امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث. 9

ربوبیت کا اوّلین درجہ: اپنے نفس پر تسلط 11

دوسرا درجہ: نفس کے خیالات کا مالک ہونا 12

حالتِ نماز میں امام سجاد ؑ کا حضورِ قلب. 14

تقویٰ. 15

تقویٰ سے کیا مراد ہے؟ 15

تقویٰ کے ملکہ سے کیا مراد ہے؟ 16

۹۷

بالاتر درجات. 18

حقیقی طور پر نزدیک ہونا 24

حقیقی طور پر نزدیک ہونا 25

مجازی طور پر نزدیک ہونا 25

ایک بندے کے خدا سے نزدیک ہو نے کے کیا معنی ہیں؟ 27

قربِ الٰہی کے معنی 29

عبادت کااوّلین اثر اپنے آپ پر تسلط 31

اِس کا کیا فائدہ ہے؟ 32

ابن سینا کا کلام 32

اپنے قوہ خیال پر تسلط 34

دل کے لئے پیغمبر اکرم کی تعبیر 35

روح کا بدن سے بے نیاز ہوجانا 37

۹۸

بدن پر تصرف کی قدرت. 40

بیرونی دنیا پر تصرف کی قدرت. 41

علی، بسترِ شہادت پر 44

نماز کی اہمیت. 47

زاہد اور صوفی نما لوگ.. 48

دین کے بارے میں ایک غلط تصور 51

تقلید کسے کہتے ہیں؟ 53

علی ؑ ایک جامع الصفات ہستی 54

دیکھئے حقیقت کیسے جلوہ گر ہوتی ہے؟ 56

اسے کہتے ہیں حقیقی مثالی مسلمان۔ 57

مردِ مسلمان کی بعض نمایاں صفات. 58

معنویات کو خفیف نہ سمجھئے 62

۹۹

کون لوگ ہیں جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں؟ 63

عبادت اور تربیت. 70

ایمان کی تاثیر 71

عصمت اور ایمان. 76

اسلام، دنیا اور آخرت کا جامع 79

خدا کی کبریائی 86

اہل خانہ کے حوالے سے ذمے داری. 91

بچوں (کو نماز کا عادی بنانے کے لئے ان) کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟ 91

۱۰۰