ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)0%

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 61

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: صفحے: 61
مشاہدے: 28085
ڈاؤنلوڈ: 3756

تبصرے:

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28085 / ڈاؤنلوڈ: 3756
سائز سائز سائز
ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

ماہِ رمضان (تزکیہ نفس اور اصلاح کردار کا مہینہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اَللّٰهُمَّ وَ فِقْنی فِیهِ لِقَرا ئَةِ آیاٰتِکَ

بارِ الٰہا! اس دن مجھے آیاتِ قرآن کی قراءت کی توفیق عطا فرما۔

جبکہ بیسویں دن کی دعا میں ہے کہ:

اَللّٰهُمَّ وَ فِّقْنی فِیهِ لِتِلاٰوَةِ الْقُرآنِ

بارِ الٰہا! مجھے آج کے دن تلاوتِ قرآن کی توفیق عطا فرما۔

دعائوں کی صورت میں ذکر ہونے والی ان دو عبارتوں میں قرآنِ کریم کی تلاوت، اور اسے کھول کر پڑھنے کی توفیق بھی طلب کی گئی ہے اور تدبر کے ساتھ اور عمل کے ہمراہ قراءت کی توفیق بھی چاہی گئی ہےکیونکہ تلاوت کا لفط دراصل ”تِلو و تالی“ سے ماخوذ ہےجس کے معنی ہیں بغیر کسی فاصلے کے کسی کے پیچھے پیچھے چلنا، اس کی پیروی کرنا۔

واضح ہے کہ اس قسم کی توفیق قرآنِ مجید سے حقیقی اُنس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیقرآنِ کریم سے اُنس درحقیقت تین بنیادوں سے تشکیل پاتا ہےیہ بنیادیں درج ذیل ہیں:

۱:-آیاتِ قرآن کو پڑھنا۔

۲:- قرآن کی معرفت اور اس میں غور وفکر۔

۳:- قرآنی احکام اور فرامین پر عمل۔

اسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک مختصر تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے فرمایا ہے:

۲۱

قُرّاءُ الْقُرآنِ ثَلاثَةٌ، رَجُلٌ قَرَءَ الْقُرآنَ فَاتَّخَذَ بِضاعَةً، وَ اسْتَدَرَّبِهِ الْمُلوکَ، وَاسْتطالَ بِهِ عَلَی النّاسِوَرَجُلٌ قَرَءَ الْقُرْآنَ فَحَفِظَ حُرُوفَهُ وَضَیَّعَ حُدُودَهُ، وَ اَقاٰمَهُ اِقاٰمَةَ الْقِدْحِ، فَلا کَثَّرِ اللّٰهُ هٰؤُلاٰءِ مِنْ حَمَلَةِ الْقُرْآنِوَ رَجُلٌ قَرَءَ الْقُرآنَ، فَوَضَعَ دَواءَ الْقُرْآنِ عَلی داٰء قَلْبِهِ، فَاَشهَرَ بِهِ لَیْلَةُ، وَ اَظْمَأ بِهِ نَهاٰرَهُ، وَ قاٰمَ بِهِ فَی مَساٰجِدِهِ، وَ تَجاٰفیٰ بِهِ عَنْ فِراشِهِ، فَبِاوُلئٰکَ یَدْفَعُ اللّٰهُ الْعَزِیزُ الْجَبّٰارُ الْبَلاءََ

قرآن پڑھنے والے لوگ تین قسم کے ہیں:ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو قرائتِ قرآن کو اپنے لئے مال ودولت کمانے کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ قرائت قرآن کے ذریعے بادشاہوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور لوگوںکے سامنے اپنی بڑائی جتاتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اور اس کے حروف (اور اس کی تجوید) کا خیال رکھتے ہیں لیکن قرآن میں بیان شدہ حدود و احکام کو ضائع کرتے ہیں۔

(ایسے حاملانِ قرآن کسی صورت قرآن سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اور اس کے ذریعے نجات حاصل نہ کرسکیںگے)

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور اس سے اپنے قلب کے امراض کا علاج کرتے ہیں اور اس کی تلاوت (یعنی اسے پڑھنے اور اس پر غور وفکر) کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں، اور دن کو بھوکے پیاسے رہتے ہیں اس کے ذریعے مساجد میں کھڑے رہتے ہیں، اورذکرِ الٰہی کے لئے اپنے بستر سے دور رہتے ہیںیہی وہ لوگ ہیں جن کے وجود کی برکت سے اللہ رب العزت مصیبتیں ٹال دیتا ہے، بلائوں کو دور کرتا ہے، دشمن کی شر انگیزیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے۔

آخر میں امام ؑفرماتے ہیں:

فَوَ اللّٰهِ لَهٰؤلاٰءِ فِی قُرّاء الْقُرآنِ اَعَزُّ مِنَ الْکِبْریتِ الاَحْمَرِ

خدا کی قسم، قرآن پڑھنے والوں میں، اس قسم کے لوگ سرخ گندھک سے بھی زیادہ کامیاب ہیں(اصول کافی ج۲ص۶۲۷)

امام زین العابدین علیہ السلام ختمِ قرآن کے موقع پر ایک دعا کی تلاوت فرماتے تھے، اس دعا کے ایک حصے میں ہے کہ:

۲۲

اَللّٰهُمَّ فَاِذا اَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَعَلیٰ تِلاٰوَتِهِ وَ سَهَّلْتَ جَو اسِیَ اَلْسِنَتِناٰ بِحُسْنِ عِباٰرَتِهِ، فَاجْعَلْنٰا مِمِّنْ یَرْعاٰهُ حَقَّ رِعاٰیَتِهِ

بارِ الٰہا! جبکہ تو نے (قرآن کی) تلاوت کے سلسلے میںہماری مدد کی، اور اسے اچھے انداز میں پڑھنے کیلئے ہماری زبان کی گرہیں کھول دیںپس ہمیں ایسے لوگوں میں قرار دے جو اس (قرآن) کے حق کا ایسا لحاظ رکھتے ہیں جیسا اسے لحاظ رکھنے کا حق ہے(صحیفہ سجادیہدعانمبر۴۲)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت ِ قرآن:یَتْلُوْنَهُ حَقَّ تِلَاوَتِه (اور مومنین اس کتابِ الٰہی کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں، جیسا اس کی تلاوت کا حق ہےسورہ بقرہ ۲۔ آیت۱۲۱) کی تفسیر میں فرمایا:یَتَّبِعُونَهُ حَقَّ اِتَّباٰعِهِ (جیسا قرآن کی پیروی کا حق ہے، ویسی اس کی پیروی کرتے ہیںتفسیر درالمنثورج۱ص۱۱۱)

ایک دوسرے مقام پر آنحضرتؐ نے فرمایاہے:

رُبَّ تالِ الْقُرآنَ، وَ الْقُرآنُ یَلْعَنُهُ

کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں، جن پر قرآن لعنت کرتا ہے( بحار الانورج۔ ۹۲ص۱۸۴)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہارعلیہم السلام کے یہ کلمات اور اس بارے میں آپ حضرات کے ایسے دسیوں ارشادات یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی ایسی ہی تلاوت اہمیت اور قدر و قیمت رکھتی ہے جو آیاتِ قرآنی میں غور و فکر اوراس کے احکام و فرامین پر عمل کے عزم کے ساتھ ہونیز قرآن سے حقیقی اُنس و لگائو اس میں تدبر و تفکر اور اس پر عمل سے وابستہ ہےوگرنہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے خونخوار دشمن نہروان کے خوارج سب کے سب قاریانِ قرآن تھےلیکن قرآن کی صرف ”ق“ سے آشنا تھایہی وجہ تھی کہ سراپا توحید حضرت علی علیہ السلام کو(نعوذباللہ) کافر قرار دے کر ان سے مصروفِ جنگ تھے۔

۲۳

اولیائے خدا کے، قرآن سے اُنس و لگائو کے نمونے

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیائے الٰہی، قرآنِ کریم سے بہت زیادہ اُنس ورغبت رکھتے تھے اور اس کے ظاہری و باطنی فیوضات سے مستفیض ہوتے تھے۔

یہ ہستیاں، آیاتِ قرآنی کی صرف ظاہری تلاوت پر اکتفا نہیں کرتیں تھیں، بلکہ قرآنی آیات پر غور وفکر، تدبرو تفکر کے ساتھ اس کتاب ِہدایت کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیںٹھہر ٹھہر کر، خوبصورت اور پُرکشش آواز میں، قرآن کے معانی و مفاہیم پرتوجہ کے ساتھ، اور اس پر عمل کے عزم کے ہمراہ اسے پڑھتی تھیں۔

مثال کے طور پر قرآنِ مجید میں سینکڑوں مرتبہ”یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“ آیا ہےحضرت امام رضا علیہ السلام جب بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کے دوران اس جملے پر پہنچتے، اور اسے پڑھتے، فوراً کہا کرتے تھے کہ:لَبَّیْکَ اَللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں، بارِ الٰہا!حاضر ہوںبحار الانوارج۸۵ص۳۴)

آپ ؑ کا یہ طرزِ عمل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام توجہ اور تدبر کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تھے اوراس تلاوت کے ہمراہ فرامینِ الٰہی پر عمل کا عزم کرتے تھے۔

اب ہم ائمہ اطہارؑاور اولیائے الٰہی کے قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کے کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

۱:- امام حسین علیہ السلام کو قرآنِ کریم سے اس قدر اُنس اور الفت تھی کہ جب کربلا میںنویں محرم کے دن، عصر کے وقت، دشمن نے آپ ؑ اور آپ ؑکے اصحاب کے خیام پر حملے کا قصد کیا، تو آپ ؑ نے حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا: بھائی! آپ دشمن کے پاس جائیے اور ان سے کہیے کہ وہ ہمیں آج رات کی مہلت دیدیں، کیونکہ:هُوَ یَعْلَمُ اَنِّی اُحِبُّ الصَّلاةَ لَهُ وَ تِلاوَةَ کِتاٰبِهِ (خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز اور تلاوتِ قرآن کس قدر عزیز ہےتاریخ طبری ج۶ص۳۳۷، نفس المہمومص۱۱۳)

۲۴

۲:-امام زین العابدین علیہ السلام جب کبھی سورہ حمدپڑھتے ہوئے اس کی آیت”مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ پر پہنچتے تو اس آیت کو ایک خاص خضوع کے ساتھ دہراتے، یہاں تک کہ محسوس ہونے لگتا کہ ابھی آپ کی روح پرواز کر جائے گی(اصول کافی ج۲ص۶۰۲)

آپ ؑ اس قدر خوبصورت اور پیاری آواز میں قرآنِ کریم پڑھا کرتے تھے کہ قریب سے گزرنے والے سقّے (پانی لانے والے) یہ دلنشین آواز سننے کے لئے وہیں ٹھہرجاتے تھے(اصول کافی۔ ج۲ص۶۱۶)

۳:-امام جعفرصادق علیہ السلام دورانِ نماز ایک ایسی خاص ملکوتی حالت کے ساتھ آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرماتے تھے کہ آپؑ پر ایک غیر معمولی کیفیت طاری ہوجاتی تھیایک روز، ایسا ہونے کے بعد جب آپؑ کی حالت معمول پر آئی تو وہاںموجود لوگوں نے پوچھا:آپ ؑ پر یہ کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی؟ حضرت ؑنے جواب دیا:ماٰ زِلْتُ اُکَرِّرُ آیاٰتَ الْقُرْآنِ حَتَّی بَلَغْتُ اِلیٰ حاٰلٍ کَاَنَّنِی سَمِعْتُها مُشافِهَةً مَمَّنْ اَنْزَلَهاٰ (میں مسلسل آیاتِ قرآنی دُہرارہا تھا یہاں تک کہ میری حالت یہ ہو گئی کہ گویا میں ان قرآنی آیات کو براہِ راست، قرآن کے نازل کرنے والے کی زبانی سن رہا ہوںبحار الانوار۔ ج۸۴ص۲۴۸)

۴:-حضرت امام علی رضا علیہ السلام، قرآنِ کریم سے اس قدر اُنس و رغبت رکھتے تھے کہ ہر تین روز میں ایک پورا قرآن ختم کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ:اگر میں چاہوں تو تین دن سے بھی کم مدّت میں قرآن ختم کرسکتا ہوں، لیکن میں نے کبھی قرآن کی کوئی آیت اس کے معنی میں غوروفکر اور اس بارے میں سوچے بغیر نہیں پڑھی ہے کہ یہ آیت کس موضوع کے بارے میںہے، اور کس وقت نازل ہوئی ہےیہی وجہ ہے کہ میں تین دن میںایک پورے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، بصورت ِدیگرتین دن سے بھی کم میں پورا قرآن ختم کرلیتا(مناقب ابن شہر آشوب۔ ج ۴۔ ص۳۶۰)

۲۵

۵:- ”مستدرک الوسائل“ کے مئولف ”محدث نوریؒ“ معتبر سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ عالمِ ربانی و فقیہ ِصمدانی آیت اللہ العظمیٰ سید محمد مہدی بحر العلوم (م: ۱۲۱۲ھ ق) ایک روز امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی مرقدِ مطہر کی زیارت کے لئے آپؑ کے حرمِ مقدس میں داخل ہوئے، تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ وجد کی حالت میں یہ شعر گنگنا رہے ہیں:

چہ خوش است صوتِ قرآن ز نو دلربا شنیدن

بہ رخت نظارہ کردن سخنِ خدا شنیدن

کچھ دیر بعد بعض لوگوںنے ان سے پوچھا کہ آپ حرم میں کس مناسبت سے یہ شعر پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا، تو میں نے حضرتِ حجت امامِ زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کو امیر المومنین ؑکی ضریح کے نزدیک پایاآپؑ بلند اور خوبصورت لہجے میں قرائت ِقرآن میں مشغول تھےمیں نے آپ کی دل نشین آواز سن کر یہ شعر پڑھاتھاجب میں حرم میں پہنچا تو آنجناب ؑ قرائتِ قرآن ختم کر کے حرم سے نکل گئے( جنۃ الماویٰ)

۶:-جنگِ صفین کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے، ایک روز مسجدِکوفہ میں اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس خطبے میں آپ ؑنے جنگِ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہونے والے اپنے چند خاص اصحاب کو انتہائی دکھ بھرے لہجے میں یاد کیا اور ان کے بارے میں فرمایا:

کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھی راہ پر چلتے رہے، اور حق پر گزر گئے؟ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان جیسے اور دوسرے بھائی کہ جو جانبازی کا عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو (کاٹ کر) فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔

۲۶

اس کے بعد حضرت ؑاپنی ریشِ مبارک پر ہاتھ رکھ کردیر تک روتے رہےاور پھر اپنے ان ساتھیوں کی چند صفات کا ذکر کیا، اور ان کی پہلی صفت ”تلاوتِ قرآن اور اس کے احکام پر عمل“ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اَوِّهِ عَلَیٰ اِخْوانِیَ الَّذِیْنَ تَلَوُا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ، وَتَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَاَقَامُوْهُ

آہ! میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اس پر کاربند ہوئےاپنے فرئض پر غوروفکر کیا تو انہیں ادا کیا(نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۰)

۷:-ہم گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے اسلامی جمہوری ٔایران کے بانی رہبر کبیر حضرت امام خمینیؒ کے قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔

امام خمینی علیہ الرحمہ، اپنے ظاہر وباطن میں، قرآنِ مجید پر انتہائی زیادہ اور بہت گہری توجہ دیتے تھےآپ کا قرآنِ کریم سے تعلق انتہائی عقیدت و احترام پر مبنی تھاآپ نے اس کتابِ ہدایت سے بکثرت فکری اور عملی استفادہ کیااپنے مقاصد کی پیشرفت اور اس سلسلے میں حصولِ قوت کے لئے قرآن ہی آپ کا سب سے زیادہ اطمینان بخش سہارا تھاآپ فرماتے تھے کہ:

اگر خدا نے قرآن میں طاغوتوں سے مقابلے پر مشتمل انبیا کی داستانوں کا ذکر کیا ہے، موسیٰ و فرعون، ابراہیم ونمرود وغیرہ۔ ۔ کا تذکرہ کیا ہے، تو اس کا مقصد داستان سرائی نہیں ہے، بلکہ طاغوتوں کے خلاف انبیا کے لائحہ عمل کا بیان مقصود ہے یعنی ہم جو قرآن کے پیروکار ہیں، ہمیں طاغوتوں کی نابودی تک ان کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔

آپ نے بارہا فرمایا کہ:قرآن ایک مکمل انسان ساز کتاب ہےیہ انسان سازی کے لئے نازل ہوئی ہے۔

۲۷

امام خمینی علیہ الرحمہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ، حتیٰ وہ دور بھی جب ایران پر عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ جاری تھی اور وہ زمانہ بھی جب آپ اپنی آخری عمر میں سخت بیماری کے نتیجے میں صاحب ِفراش تھے، قرآن سے اُنس و رغبت کے ساتھ بسر ہواآپ آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے خداوندِ عالم سے تعلق اور رابطہ پیدا کرتے تھےآپ کے آفس کے ایک کا رکن کے مطابق:

ہر روز امام خمینی ؒکا ایک خاص منظم پروگرام ہوتا تھاآپ اپنے وقت کا ایک حصہ آیاتِ قرآن کی تلاوت میں گزارتے تھےآپ کے کام اس قدر منظم اور پروگرام کے مطابق ہوا کرتے تھے کہ معمولاً کبھی بھی ایک کام پر آپ کی توجہ، آپ کے دوسرے کام کے خراب ہونے کا موجب نہیں ہوتی تھی۔

امام خمینیؒ جب آدھی رات کو نمازِ شب کے لئے بیدار ہوتے، توکچھ دیر قران کی تلاوت کرتےحتیٰ عمر کے آخری دنوں میں جب آپ بہت زیادہ علالت کی باعث صاحب ِ فراش تھے، خفیہ کیمروں سے آ پ کی جو فلم بنائی گئی، اس فلم میں اکثر دیکھا گیاہے کہ آپ بستر سے اٹھتے او ربیٹھ کر قرآن ہاتھ میں لے کر آیاتِ قرآنی کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔

امام خمینی ؒ کو فراغت کا کوئی چھوٹا سا وقفہ بھی ملتا، تو آپ اسے قرآنِ کریم کی تلاوت میں گزارتےکہتے ہیں کہ جب گھر میں کھانے کیلئے دسترخوان چنا جا رہا ہوتا، تو اس چھوٹے سے وقفے میں بھی آپ قرآنِ کریم کھول کر پڑھنے لگتے۔

جس زمانے میں آپ نجفِ اشرف میں مقیم تھے، آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہوئیآپ نے ڈاکٹر سے رجوع کیا، ڈاکٹر نے آپ کی آنکھوں کے معاینے کے بعد کہا کہ: آپ کچھ دن قرآن نہ پڑھئے گا، اور اپنی آنکھوں کوآرام دیجئے گایہ سن کر امام خمینیؒ مسکرائے اور ڈاکٹر سے کہا:میں قرآن پڑھنے ہی کیلئے توآنکھیں چاہتا ہوں، کیا فائدہ کہ میری آنکھیں تو ہوں لیکن میں ان سے قرآن نہ پڑھ سکوں؟ آپ کچھ ایسا کیجئے کہ میں قرآن پڑھ سکوں۔ نجفِ اشرف میں امام خمینیؒ کے ساتھ رہنے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ: امام خمینیؒ ماہِ رمضان میں ہر روز قرآنِ مجید کے دس پارے پڑھتے تھےیعنی ہر تین دن بعد ایک قرآن ختم کرتے تھےیوں آپ ماہِ رمضان میں دس قرآن ختم کرتے تھے۔

۲۸

روایات میں آیا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ایک ممتاز شاگرد ”علی بن مغیرہ“ نے آپ ؑ سے عرض کیا: میں ا پنے والد کی طرح، ماہ ِرمضان میں چالیس قرآن ختم کرتا ہوں کبھی مصروفیات یا تھکن کی وجہ سے یہ تعداد کم ہوجاتی ہے اورکبھی فراغت اوربشاشت کی وجہ سے زیادہپھر (عید)فطر کے دن، ان میں سے ایک ختمِ قرآن کا ثواب پیغمبر اسلامؐ کو ہدیہ کرتا ہوںدوسرے ختمِ قرآن کا ثواب حضرت علی ؑ کو، تیسرے ختمِ قرآن کا ثواب حضرت فاطمہ ؑکو اور اسی طرح دوسرے ائمہ ٔاطہار ؑ کو۔ ۔ یہاں تک کہ آپؑ کوبھی شامل کرتا ہوںاس عمل سے مجھے کیا ثواب ملے گا؟

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

لَکَ بِذٰلِکَ أَنْ تَکُونَ مَعَهُمْ یَوْمَ الْقِیامة

تمہاری جزا یہ ہے کہ تم روز ِقیامت ان لوگوں کے ساتھ ہوگے۔

میں نے کہا: اللہ اکبر! سچ مچ کیا میرا یہ مقام ہوگا؟ امام ؑنے تین مرتبہ فرمایا: ہاں، ہاں، ہاں۔ (اصول کافی ج۲۔ ص۶۱۸)

اس گفتگو کی آخری سطور کو ہم تلاوتِ قرآن کے ثواب کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کے ایک کلام سے زینت بخشتے ہیں آنحضرتؐ نے فرمایا:

جوشخص ہر رات قرآنِ کریم کی دس آیات پڑھے گا، اس کا نام ”غافلوں“ کے ساتھ نہیں لکھا جائے گااورجو کوئی ہر رات پچاس آیات پڑھے گا، اس کا نام ”ذاکرین“ میں لکھا جائے گا، اور جو کوئی سو آیات پڑھے گا، اس کا نام ”قانتین“ (مخلص اورعاجز بندگانِ خدا) میں، اورجو کوئی دو سو آیات پڑھے گااس کا نام خاشعین میں، اور جو کوئی تین سو آیات پڑھے گا، اس کا نام ”فائزین“ (کامیاب افراد) میں ثبت کیا جائے گااورجو شخص پانچ سو آیات کی تلاوت کرے گا، اس کا نام ”مجتہدین“ (راہِ حق کے متلاشی افراد) میں، اورجو کوئی ایک ہزار آیات پڑھے گا، اس کیلئے نیکیوں کا قنطار ہوگا۔ اور ہر قنطار پندرہ ہزار مثقال سونے کے برابرہوگا اور اس میں کا ہر مثقال چوبیس قیراط کا ہوگا اور اس کا سب سے چھوٹا قیراط کوہ ِاحد کے برابر ہوگا اور سب سے بڑا قیراط زمین سے آسمان کی بلندی جتنا ہوگا(اصول کافی۔ ج۲۔ ص۶۱۸)

۲۹

قرآن کا اصل مقصد، اس کے احکام پر عمل

البتہ اس جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ قرآن کے حوالے سے ہماری اہم ترین ذمے داری یہ ہے کہ ہم اس کی تعلیمات اوراس کے احکام پر عمل کریںیعنی قرآنِ مجید ہماری زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ہمارا دستور ِعمل ہواور عملاً گمراہی کی تاریکیوں سے ہدایت کی روشنی کی جانب انسانیت کا رہنما ہوجیسا کہ خود قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہےسورہ یونس میں ہے کہ :

یٰاَ یُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظٌَ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ هُدًی وَّ رَحْمٌَ لِّلْمُؤُمِنِیْنَ

اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لئے رحمت (قرآن) آچکا ہے(سورہ یونس۱۰۔ آیت۵۷)

لہٰذا قرآنِ مجید کو ہمارے لئے وعظ و نصیحت ہونا چاہئےیعنی اسے ہمیں غفلتوں اور لاپرواہیوں سے نکالنا چاہئے اور ہمارے کمال کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرکے، ہماری ترقی اور کمال کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔

اسی طرح اس نسخہ ٔشفا کو ہماری معنوی بیماریوں کا مداوا بھی کرنا چاہئے، اسے ہمارے دلوںکی صفائی اور پاکیزگی کا ذریعہ بھی بننا چاہئےنیز اسے کمال کی جانب ہماری ہدایت و رہنمائی کا وسیلہ اور مومنین کے لئے باعث ِرحمت ہونا چاہئے۔

پس اگر قرآنِ کریم ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ بنیادی کردار ادا نہ کررہا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن ہمارے درمیان متروک اور مہجور ہےسورہ ابراہیم کی پہلی ہی آیت میں ہے کہ:

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ

یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو خدا کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر، نور کی طرف لے آئیں(سورہ ابراہیم ۱۴آیت ۱)

۳۰

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے تاکید فرمائی ہے کہ:

اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الْقُرْاٰنِ لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِه غَیْرُکُمْ

قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل میں تم پر سبقت لے جائیں(نہج البلاغہ مکتوب ۴۷)

ہر چیز کے چار وجود ہوتے ہیں: وجودِ ذہنی، وجودِ لفظی، وجودِ تحریری اور وجودِ عینی و خارجی۔

مثلاً اگر انسان پیاسا ہو، تو کتنا ہی وہ زبان سے پانی، پانی، پانی، کہتا رہے، اس کی پیاس نہیں بجھے گیاور کتنا ہی وہ پانی، پانی لکھتا رہے، اس کی تشنگی جوں کی توں رہے گیاور کتنا ہی وہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا خیال اپنے ذہن میں لائے، پیاسا کا پیاساہی رہے گاصرف اسی صورت میں اس کی تشنگی ختم ہوگی، اس کی پیاس بجھے گی، جب وہ واقعی پانی کی جستجو کرے اور اس کا گلاس اٹھا کر پی جائے۔

بالکل اسی طرح قرآنِ کریم کے الفاظ، تحریر اور اس کی آیات کو ذہن میں لانا نجات و کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا، محض یہ عمل انسان کی معنوی ضروریات کی تسکین نہیں کرسکتابلکہ جو چیز باعث ِ نجات ہوگی وہ قرآن سے واقعی وابستگی ہےیعنی اپنی زندگی کو قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا، اپنے اعمال کو قرآن کے مطابق انجام دینا، زندگی کے تمام میدانوں میں قرآنی احکام و فرامین کا نفاذ کرنا۔

پہلے تین وجود (ذہنی، لفظی اورتحریری) اس وقت قابلِ قدر ہیں جب وہ قرآن سے شناسائی اور اس پر عمل کا مقدمہ ہوں۔

مثلاً ایک ویٹ لفٹر کو ذہن میں رکھئےوہ شروع شروع میں صرف بیس کلو وزن اٹھا پاتا ہےلیکن مسلسل مشق اور بار بار پریکٹس کے نتیجے میں، وہ اپنے اندر دوسو کلو تک وزن اٹھانے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے جی ہاں، عمل انسان میں اتنی قوت پیدا کر دیتا ہے۔

۳۱

تاریخ میں امِ عقیل نامی ایک بادیہ نشین خاتون کا ذکر آیا ہےاس خاتون نے دل کی گہرائیوں سے اسلام قبول کیا، اور سچے ایمان کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوئیںایک دن ان کے یہاں دو مہمان آئےمہمانوں کی خاطر تواضع کے دوران اچانک انہیں پتا چلا کہ ان کا بچہ اونٹوں کے نزدیک کھیل رہا تھا، کہ اونٹوں نے اسے کچل کر مار دیاامِ عقیل نے مہمانوں کو اس سانحے سے مطلع کئے بغیر، اس واقعے کی خبر لانے والے سے درخواست کی کہ وہ مہمانوں کی خاطر مدارت میں ان کی مدد کرےکھانا پکنے کے بعد جب مہمان اسے تناول کر چکے تب انہیں امِ عقیل کے بیٹے کی موت کا پتا چلاانہیں اس عورت کے صبر، حوصلے اور بلند ہمتی پر بڑاتعجب ہوا۔

مہمانوں کے چلے جانے کے بعد چند مسلمان امِ عقیل کے پاس تعزیت و تسلیت کی غرض سے آئےامِ عقیل نے ان سے کہا: کیا تم میں آیاتِ قرآنی جاننے والاکوئی شخص موجودہے، جو تلاوتِ قرآن کے ذریعے میرے دل کو تسلی دے؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں، میں ہوںاور پھر اس نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی:

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ  وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

اور آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے، جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں، ان (لوگوں) کے لئے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے، اوریہی ہدایت یافتہ ہیں( سورہ بقرہ۲آیت۱۵۵تا۱۵۷)

ان مسلمانوں کو رخصت کرنے کے بعد امِ عقیل نے وضو کیا اوردست ِدعا اٹھا کے بارگاہ ِالٰہی میں عرض کیابارِ الٰہا! تو نے صبر کا جو حکم دیا تھا، میں نے اسے انجام دیا، اب تو (صبر کی جزا کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا فرما۔

یوں اس خاتون نے قرآن سے سبق لیا، اور سخت ترین حالات میں اس پر عمل کیا، نتیجے کے طو رپر سکون و اطمینان کی دولت حاصل کی۔

۳۲

 بارگاہِ الٰہی میں دعا ومناجات کاموسمِ بہار

ماہ ِرمضان، خود سازی اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہےخداوندِ عالم نے گناہ کی آلودگیوں سے روح کی صفائی کے لئے اس مہینے میں تمام اسباب و وسائل فراہم کر دئیے ہیں اور اپنے مخصوص لطف و رحمت کے ذریعے تہذیب ِ نفس، صفائے باطن اور معنوی کمال کی راہ کے تمام دروازے کھول دئیے ہیں۔

یہ مہینہ انسانوں کے لئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ رحمت ِالٰہی کے وسیع اور رنگا رنگ دستر خوان سے مستفید ہوں اوراس پر موجود طرح طرح کی معنوی غذائوں کے ذریعے اپنی روح کو تقویت پہنچائیں۔

حدیث ِ قدسی میں آیا ہے کہ خداوندِ عالم نے اپنے نبی حضرت دائود علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ:اِنَّ لِلّٰهِ فِی اَیّٰامِ دَهْرِ کُمْ نَفَحاٰتٌ اَلاٰ فَتَرَ صَّدوُالَهاٰ (بے شک تمہاری زندگی میں خدا کے لئے سودمند لحظات پائے جاتے ہیںہوشیار رہوں اور ان لحظات کی تاک میں رہو اور ہوشیاری اور سنجیدگی کے ساتھ ان سے استفادہ کروبحار الانوار۔ ج ۷۵ص ۱۶۸ )

ماہ ِرمضان اصلاحِ ذات، تہذیب ِنفس اور باطن کو آلودہ کردینے والے ہر قسم کے عوامل سے چھٹکارا پانے کا بہترین موقع ہےہمیں چاہے کہ نہ صرف خود کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار کریں بلکہ لازم ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ اس موقع کی تاک میں رہیں اور کسی صور ت اسے ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ماہِ رمضان میں خود سازی اور تہذیب ِ نفس کا واحد ذریعہ صرف روزہ ہی نہیں، بلکہ اس مہینے میں مستحب قرار دیئے گئے اعمال میں سے ہر ایک عمل تہذیب ِنفس اور اصلاحِ کردار کے سلسلے میں خاص اثر رکھتا ہےیہ اعمال تلاوتِ قرآنِ مجید، خدا سے دعا و مناجات، یادِ ِخدا، یادِ قیامت، صبر و ثبات کا حصول اورمفلس و محروم افراد کو غذا کی فراہمی ہیں۔ان اعمال میں سے ایک عمل، جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود سازی کے سلسلے میں انتہائی اہم کردار (Role) رکھتا ہے، اور ماہِ رمضان کو اس کا موسمِ بہار کہا گیا ہے، وہ بارگاہِ الٰہی میں ”دعا اور مناجات“ ہے۔

زیرِ نظر سطور میں ہم دعا کی اہمیت، اسکے صحیح طریقے اور اسکے آثار و اثرات کے بارے میں ایک مختصر گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں۔

۳۳

اسلام کی نظر میں دعا کی اہمیت اور اسکی تاکید

قرآنِ مجید، گفتارِ پیغمبر ؐ اور فرامینِ ائمہؑ میں بارگاہ ِالٰہی میں دعا اور خدا سے مناجات کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہےچند مثالیں حاضرِخدمت ہیں:

۱:-خدا وندِ عالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:

قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآؤُکُمْ

آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔

( سورہ فرقان ۲۵آیت ۷۷)

لہٰذا انسان کی شخصیت کا وزن اور اسکی اہمیت بارگاہ ِالٰہی میں دعا اور اس کے ساتھ تعلق سے وابستہ ہے۔

۲:-اللہ رب العزت فرماتا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عباد ت سے اکڑتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جنم میں داخل ہو ں گے۔

( سورہ غافر ۴۰آیت ۶۰)

اس آیت میں دعا کے تعلق سے پانچ اہم نکات کی جانب اشارہ موجود ہے :

۳۴

٭ دعا کرنا خدا کو پسند ہےوہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس سے دعا کریں اور اسکی بارگاہ میں دعا کرنے والے اور اس سے رازو نیاز کرنے والے بنیں۔

٭ دعا قبول کی جاتی ہےقبولیت ِ دعا کی شرائط فراہم کرکے، پروردگارِ عالم سے مثبت جواب پائیےخدا سے دعا کی استجابت اور قبولیت کی ایک شرط خود سازی اور اصلاحِ کردار ہے۔

٭ دعا، عبادت ہے اور عبادت کا ثواب رکھتی ہےنیز بندگی اور عبودیت کی علامت ہے، بلکہ بعض احادیث کے مطابق دعا بہترین عبادت ہے۔

معاویہ بن عمار نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: آپ کے چاہنے والوں میں سے دو افراد مسجد میں آتے ہیں ان میں سے ایک شخص دیر تک نمازیں پڑھتا رہتا ہے اور دوسرا زیادہ وقت دعائوں میں مشغول رہتا ہےبتائیے ان میںسے کونسا شخص افضل ہے؟ امام ؑ نے انہیں جواب دیا : اکثرھُماٰ دُعاٰءً (جوشخص زیادہ دعا میں مشغول رہتا ہے، وہ افضل ہے۔ اصو ل کافی۔ ج ۲ص ۴۶۶)

٭ دعا ومناجات سے دور رہنے والے لوگ، مغرور اور متکبر ہوتے ہیں۔

٭ ذلت آمیزعذاب ِجہنم، دعا اور مناجات نہ کرنے والے لوگوں کا منتظر ہے۔

رسولِ کریم ؐ اور ائمہ معصومین ؑ کے کلمات و فرمودات میں، دعا کی اہمیت کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔

۳۵

ایک کلام میں پیغمبرؐ فرماتے ہیں :

الدُّعاٰ ئُ سَلاٰحُ الْمُؤْمِنِ، وَ عَموُدُ الدِّینِ، وَ نُورُ السَّماٰواٰتِ وَ الْاَ رْضِ

دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

تفسیر مجمع البیانج ۸ص ۵۲۹

یعنی دعا مومن کی تقویت کا باعث، اسکے دین اور عقیدے کے استحکام کا موجب اور ہر جگہ اسکی روح کی نورانیت کا سبب ہےنہایت واضح بات ہے کہ ان خصوصیات کا حامل ہونا خود سازی اور تہذیب ِ نفس کی بنیادی علامات میں سے ہے۔

پیغمبراسلامؐ نے اپنے ایک دوسرے کلام میں فرمایاہے:

الدُّعاٰئُ مُخُّ الْعِباٰدَةِ وَلاٰیَهلِکُ مَعَ الدُّعاٰءِ اَحَدٌ

دعا عبادت کا مغز (جوہر) ہے، دعا کرنے والوں میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔

بحار الانوارج۹۳ص ۳۰۰

یعنی دعا، انسان کی فکر اور سوچ کو تقویت دیتی اور کھولتی ہے، نیز اسے شادابی اورتازگی بخشتی ہے اور جو لوگ دعا و مناجات سے لگائو رکھتے ہیں وہ ان کے نتائج سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیشہ عافیت میں رہتے ہیں اور ہر گز ہلاکت میں مبتلا نہیں ہوتے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :

الدُّعاءُ مَفاٰتِیحُ النَّجاٰحِ، وَ مَقا لِیدُالْفَلاحِ

دعا، کامیابی کی کنجیاں اور نجات کے خزانے ہیں۔

اصول کافی ج۲ص ۴۶۸

۳۶

مکتب ِ دعا سے بہتر استفادے کیلئے آداب کا ملحوظ رکھنا

ہرعبادت کے کچھ آداب اورشرائط ہوتے ہیں، جن کے بغیر یہ عبادت بےاثر رہتی ہےلہٰذا ضروری ہے کہ ہم دعا کے آداب و شرائط کو جانیں اور انہیں ملحوظ رکھ کر دعا کریں، تاکہ ہماری دعائیں اثر بخش ہوںاسی صورت میں دعا تہذیب ِ نفس اوراصلاحِ کردار میں اپنا اثر دکھائے گیمثال کے طور پر گناہ سے کنارہ کش ہونے کا پختہ عزم، دل کو پاک کرنا، حلال غذا اور جائز کسب ِ معاش، امربالمعروف ونہی عن المنکراورعادل اور لائق قیادت کی رہبری قبول کرنا، دعا کی شرائط میں شامل ہیں۔

دعا کے آداب بھی متعدد ہیں جیسے:

۱:-خدا کے نام اور صفاتِ الٰہی کے تذکرے سے دعا کا آغاز کرنا۔

۲:-محمدؐ اور آلِ محمدؑ پر در ود اورسلام بھیجنا۔

۳:-دعا کے وقت اولیائےالٰہی، جیسے پیغمبراسلام اور ائمہاطہارؑ کو شفیع قرار دینا۔

۴:-اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا۔

۵:-دورانِ دعا بارگاہِ الٰہی میں گڑ گڑانا۔

۶:-دعا سے پہلے دو رکعت نمازِ حاجت ادا کرنا۔

۷:-دعا کو معمولی اور غیر اہم بات نہ سمجھنا۔

۸:-خدا کی عظمت و بزرگی کے سامنے اپنی خواہشات اور حاجات کو حقیر اور ناچیز سمجھنا۔

۹:-دعا میں عالی ہمتی اور بلند نظری کو پیش نظر رکھنا۔

۱۰:- اپنی دعا میں سب کوشامل کرنا۔

۱۱:-پوشیدہ دعا کرنا، جس کی اہمیت ستّرعلانیہ دعائوں کے مساوی ہے۔

۳۷

۱۲:-قبولیت ِدعا کے سلسلے میں حسنِ ظن رکھنا۔

۱۳:-مناسب و مقدس جگہوں اور اوقات میں دعا کرنا۔

۱۴:-دعا کرتے ہوئے اصرار کرنا( میزان الحکمہ۔ ج ۳ص ۲۶۰ تا ۲۶۷سے ماخوذ)

واضح رہے کہ ان آداب و شرائط میں سے ہر ایک، خدا سے مضبوط تعلق کے قیام اور خود سازی کے سلسلے میں مثبت کردار رکھتے ہیں اور انسان کو پاکیزگی، اصلاح اور کمال کی جانب اسکی صحیح اور ثابت قدمی کے ساتھ حرکت کیلئے زیادہ سے زیادہ تیار کرتے ہیںلہٰذا دعائے کمیل کے الفاظ ہیں کہ :

اَللّٰهُمَّ اِغْفِرْلِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ الدُّعاٰ

بارِ الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے، جو دعائوں کی قبولیت اور ان کی تاثیر میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔

اسی طرح ماہِ رمضان کی دعائوں اور ان کے علاوہ پڑھی جانے والی دعائوں میں ہم اکثر فکر و عمل کی پاکیزگی، گناہ اور گمراہی سے پرہیزاور ہر قسم کی برائیوں اور نجاستوں سے دوری طلب کرتے ہیں اور کلی طور پر دعائوں کے مضامین خودسازی کا رجحان لئے ہوتے ہیں۔

مثلاً ماہِ رمضان کی صبحوں میں پڑھی جانے والی دعا ”دعائے ابوحمزہ ثمالی“ کا ہر جملہ تہذیبِ نفس، اصلاحِ کردار اور صفائے باطن کا ایک مکتب ہےمثلاً اس دعا کے ایک حصے میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

اَللّٰهُمَّ طَهِّرْقَلْبِی مِنَ النِّفاٰقِ، وَ عَمَلِی مِنَ الرِّیاٰءِ، وَلِساٰنِی مِنَ الْکِذْبِ، وَ عَیْنِی مِنَ الْخِیاٰنَةِ

بارِ الٰہا! میرے دل کو نفا ق سے، میرے عمل کو ریا اور دکھاوے سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک فرما۔

۳۸

یہ تمام گفتگو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آداب و شرائط کے ساتھ صحیح دعا خود سازی اور تعمیر کردار کی غرض سے رمضان کی روح سے استفادے کیلئے ایک مضبوط اور گہرا عامل ہےنیز مکتب ِ ماہِ رمضان، اپنے مختلف پہلوئوں میں، جن میں سے ایک خدا کے اس مہینے میں دعا بھی ہے پاکیزہ روح، قلب ِسلیم اور خالص نیت کی پرورش و نشوونما کیلئے ایک عالی ترین مکتب ہے۔

ہمیں اہلِ بیت ؑسے دعا کا سلیقہ اور بارگاہ ِالٰہی میں التماس کا ڈھنگ سیکھنا چاہئےدعا کے بنیادی اراکین میں سے ایک رکن یہ بھی ہے کہ ہماری دعائیں معقول، مناسب، پُرمعنی اور صحیح اور جچے تلے اصولوں کی بنیاد پر ہوں۔

پیغمبرؐ اورائمہ اطہار ؑ سے نقل ہونے والی، یا قرآنِ مجید میں نظر آنے والی دعائیں وضاحت کے ساتھ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہیں کہ دعائوں کے مضامین کو اعلیٰ معنی اور گہرائی کا حامل ہونا چاہیےمثال کے طور پربطل توحید حضرت ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادوں کی تجدید کے بعد چند دعائیں کیں، جنہیں قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہےانہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمًَّ مُّسْلِمًَ لَّکَ وَ اَرِنَامَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُرَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ یَتْلُوْاعَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمََ وَیُزَ کِّیْهِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ

پروردگار! ہماری محنت کو قبول فرما لے، کہ تو بہترین سننے والا اور جاننے والا ہےپروردگار! ہم دونوں کو اپنا مسلمان اور فرمانبردار قرار دیدے، اورہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کرہمیں ہمارے مناسک دکھلا دے، اور ہماری تو بہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والامہربان ہےپروردگار! ان کے درمیان ایک رسول کومبعوث فرما جو، ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائےبے شک تو صاحب ِعزت اور صاحب ِ حکمت ہے( سورہ بقرہ ۲آیت ۱۲۷تا۱۲۹)

۳۹

رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَاٰ مِنًاوَّاجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَرَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًامِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّه مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ رَبَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوَ فَاجْعَلْ اَفْئِدًَ مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ اِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَرَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَانُخْفِیْ وَ مَانُعْلِنُ وَمَایَخْفٰی عَلَی اللّٰهِ مِنْ شَیْ ءٍ فَی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ

پروردگار! اس شہر کو محفوظ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائے رکھ، پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، تو اب جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہو گا، اور جو میری معصیت کرے گا، اسکے لئے تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہےپروردگار! میں نے اپنی ذرّیت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے، تاکہ نمازیں قائم کریںاب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ تیرے شکرگزار بندے بن جائیںپروردگار! ہم جس بات کا اعلان کرتے ہیں، یا جس کو چھپاتے ہیں، تو اس سب سے باخبر ہے اور اللہ پر زمین و آسمان میں کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی( سورہ ابراہیم ۱۴آیت ۳۵تا۳۸)

۴۰