مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)9%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 306985 / ڈاؤنلوڈ: 7981
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۴ـ          زید ابن شحام کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی سات بار یہ پڑھے گا” اسئل ﷲ الجنة واعوذ باﷲ من النار “ اے اﷲ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے سوا اور کچھ نہیں“ تو آگ کہے گی خدایا اس کو مجھ سے پناہ میں رکھ۔

۵ـ          معاذ بن مسلم کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، نعمت کے دشمنوں ( حسد کرنے والوں) پر صبر کرو کیوں کہ بہترین جواب اس بندہ کو تیرے لیے یہ ہے کہ وہ خدا کی معصیت کرے“ او تم ان کے حسد کرنے پر خدا کی اطاعت کرو۔

۶ـ           عمرو بن ابومقدام کہتے ہیں، امام باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی ایک بار” آیت الکرسی“ پڑھے تو خدا اس کی ہر برائی دنیا اور ہزار برائی آخرت کی مٹادے گا اور دنیا کی مشکلات میں سے آسان ترین فقر ہے اور آخرت کی مشکلات میں سے آسان ترین عذابِ قبر ہے۔

۷ـ          مدرک بن ھز کہتے ہیں امام صادق(ع) نےفرمایا اے مدرک خدا رحمت کرے گا اس بندے پر کہ جو لوگوں کی محبت کو ہماری طرف کھینچ لائے جو کچھ ہم سے سمجھے ان کے لیے بیان کرے اور اگر کسی کو منکر پائے تو اس کو چھوڑ دے۔

۸ـ          ہشام بن سالم نےکہا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا، ایک دن داؤد(ع) باہر گئے اور زبور کو پڑھا جب تک وہ زبور پڑھتےرہے پہاڑ و پتھر اور پرندے درندہ کوئی ایسا نہ تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہم آواز نہ ہوا ہو داؤد(ع) اسی طرح پڑھتے گئے یہاں تک کہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچ گئے اس پہاڑ پر ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل(ع) تھا کا مکان تھا جب انہوں نے نے پتھروں پہاڑوں پرندوں اور درندوں کی آوازوں کو سنا تو جان گئے کہ داؤد(ع) ہیں داؤد(ع) نے کہا اے حزقیل(ع) کیا مجھے اجازت دیتے ہو کہ پہاڑ پر تمہارے پاس آؤں کہا نہیں یہ سن کر داؤد(ع) نے گریہ کیا خدا نے حزقیل(ع) کو وحی کی، اے حزقیل(ع) داؤد(ع) کی سرزنش نہ کرو اور مجھ سے عافیت طلب کرو، حزقیل(ع) اٹھے اور حضرت داؤد(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ان کو اوپر لے گئے حزقیل(ع) نے کہا داؤد(ع) کیا تم نےقصد خطا کیا ہے نہیں کہا کیا عبادت کے دوران خود بینی میں مبتلا ہوئے، کہا نہیں، کہا تو کیا دل دنیا کے حوالے کیا اور اس سے شہوت و لذت چاہتے ہو کہا ہاں یہ بات میرے دل میں گزری ہے، حزقیل(ع) نے کہا کہ جب اس خیال نےتم پر غلبہ کیا تو تم نے

۱۰۱

 کیا، کیا داؤد(ع) نے کہا کہ مجھ پر جب یہ کیفیت طاری ہوئی تو میں ایک پہاڑی درے میں گیا اور جو وہاں دیکھا اس سے مجھے عبرت حاصل ہوئی میں نے وہاں دیکھا کہ لوہے کے ایک تخت پر ایک کھوپڑی اور کچھ بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہوئی ہیں اس تخت پر یہ تحریر کھدی ہوئی تھی کہ میں اروی سلم کا بیٹا ہوں میں نے ہزار سال حکومت کی اور  ہزاروں شہر آباد کیے ہزاروں عورتوں سے مقاربت کی مگر میری عمر میرے بستر پر خاک ہوگئی اب میرے سرہانے پتھر ہیں جن کا میں ہم نشین ہوں لہذا نیک و بد جو بھی  مجھے دیکھے دنیا کے فریب میں نہ آئے۔

۹ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی اپنے روزے کو قول صالح کے ساتھ یا عمل صالح کے ساتھ ختم کرے تو خدا اس کا روزہ قبول کرےگا عرض کیا گیا یا بن(ع) رسول اﷲ(ص) قول صالح کیا ہے فرمایا ” لا الہ الا اﷲ کی گواہی اور عمل صالح اخراج فطرہ ہے۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے روایت کیا اپنے آباء(ع) سے کہ امیر المومنین(ع) نے بروز عیدالفطر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو! آج تمہارا محسن تمہیں ثواب دے گا اور بدکاروں کو نقصان، یہ دن قیامت کے دن سے متشابہ ہے اس دن تم گھروں سے اس طرح باہر آتے ہو جس طرح قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے اور اپنے پروردگار کے سامنے اس طرح حاضر ہوگے جیسے کہ آج ہو پس آج کے دن خود کو اسی طرح اس کے حضور میں حاضر سمجھو۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب تم پلٹائے جاؤ گے اپنی منزل بہشت یا دوزخ کی طرف، اور جان لو اے خدا کے بندو کہ روزہ دار مرد وزن کے لیے سب سے چھوٹا انعام یہ ہے کہ ایک فرشتہ انہیں ندا دے گا کہ اے بندو خوشخبری لے لو تمہارے تمام گناہ معاف کردیے گئے اور قائم ہو جاؤ کہ تم آیندہ شاد رہوگے امام صادق(ع) نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے فرمایا  جب شب عیدالفطر ہو تو نماز مغرب کو پڑھو اور سجدہ کرو اور اس میں کہو” يا ذالطول یا ذالحول يا مصطفيٰ محمد و ناصره صل علیٰ محمد وآل محمد و اغفرلی کل ذنب اذنبتة انا وهو فی کتاب مبين “ اے فضل و بخشش والے قدرت و اختیار والے اےمحمد(ص) کو منتخب کرنے والے اور ان کے مددگار تو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میرے گناہ بخش دے جو میں نے کیے اور میں بھول گیا مگر تیرے پاس کھلی و روشن

۱۰۲

 کتاب میں درج ہیں“ پھر سو بار کہو” واتوب الی اﷲ“ میں اﷲ کی طرف توبہ کرتا ہوں مغرب و عشاء کے بعد اور نمازِ عید انہی تکبیرات ایام تشریق کو پڑھو کہو”اﷲاکبر اﷲ اکبر لا اله الا اﷲ واﷲ اکبر وﷲ اکبر والحمد اﷲ علی ماهدانا والحمد ﷲ علی ما ابلانا “ اﷲ سب سے بڑا ہے اﷲ  سب سے بڑا ہے نہیں کوئی معبود مگر اﷲ اور اﷲ سب سے بڑا ہے اﷲ ہی کے لیے حمد ہے اور اﷲ سب سے بڑا ہے اور اس بات پر کہ اس نے ہماری ہدایت کی اور اس کی حمد ہے کہ اس نے ہم لوگوں کو آزمایا اور اس میں یہ نہ کہو ”ورزقنا من بهيمة الانعام “ ہم لوگوں کورزق دیا جائے چوپائے جانوروں کا “ کیوںکہ یہ عبادت مخصوص ایام تشریق کی ہے( یعنی ۱۱۔۱۲۔۱۳ ذالحجہ)

۱۰۳

مجلس نمبر۲۲

( یوم عیدالفطر،یکم شوال سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا فرماتا ہے، اے میرے بندو تم تمام گمراہ ہو بجز اس کے کہ جس کی میں راہنمائی کرتا ہوں اور تم تمام فقیر ہوتے مگر یہ کہ میں نے تمہیں امیر بنایا اور تمام گناہ گار ہوتےمگر یہ میں نے تمہاری حفاظت کی ہے۔

اعرابی اور طلبِ قیمتِ اونٹ

۲ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول خدا(ص) نے پاس  آیا اور آپ(ص) سے کہا کہ مجھے میرے اونٹ کی قیمت جو کہ ستر(۷۰) درہم قرار پائی تھی ادا کردیں رسول خدا(ص) نےفرمایا کہ اے اعرابی کیا میں تجھے رقم ادا نہیں کرچکا، اس نے انکار کیا۔ آپ(ص) نے پھر فرمایا کہ وہ میں تجھے ادا کرچکا ہوں۔ اس نےکہا کہ اس بات کا فیصلہ میں لوگوں ( کسی منصف) سے کرواؤں گا۔ آپ(ص) اس کے ساتھ قریشی کے ایک فرد کے پاس گئے اس قریش نے طرفین کے بیانات سنے اور کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) اقرار کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے اونٹ خریدا اور ادائگی کردی تا ہم آپ(ص) رقم کی ادائگی کے سلسلے میں دو گواہ پیش کریں یا پھر ستر(۷۰) درہم اس اعرابی کو ادا کردیں۔ پیغمبر(ص) یہ سن کر غضبناک ہوگئے اور اپنی ردا کو کھینچتے ہوئے فرمایا خدا کی قسم اب میں اس شخص کے پاس تجھے لے کر جاؤں گا جو ہمارے درمیان حکمِ خدا کے مطابق فیصلہ کرے گا،لہذا آپ(ص) اسے لے کر امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) کے پاس فیصلے کے لیے آئےعلی(ع) نے اعرابی سے پوچھا کہ تیرا مدعا کیا ہے اس نے کہا کہ ستر ردہم اونٹ کی قیمت جو کہ میں ان کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ علی(ع) نے پوچھا رسول خدا(ص) آپ کیا فرماتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا کہ میں نے اس کو ادا کردیے تھے۔ علی(ع) نے کہا اے اعرابی کیا یہ سچ نہیں کہتے اعرابی نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے میں نے وصول نہیں کیے ۔ علی(ع) نےتلوار نکالی اور اس کا سر اڑا دیا رسول خدا(ص)نے فرمایا علی(ع) یہ کیا،کیا جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) اس نے آپ(ص) کی تکذیب کی اور جو کوئی

۱۰۴

آپ(ص) کی تکذیب کرے اسکا خون حلال ہے پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) جان لو کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا تیرا فیصلہ حکم خدا کے مطابق ہے لیکن دوبارہ ایسا مت کرنا۔

امام صادق(ع) اور عصمتِ انبیاء(ع)

۳ـ          علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ کس کی گوہی وول کی جائے ور کس کی گوہی قول نہکی جائے ، امام(ع) نے فرمایا اے علقمہ جو شخص فطرت اسلام پر ہو اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے علقمہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کیا گناہ گار کی گواہی بھی قابل قبول ہے تو فرمایا اگر قبول نہیں کرو گے تو پھر صرف انبیاء(ع) اور اوصیا(ع) ہی گواہی دیں گے جو کہ معصوم ہیں اور جب تک گناہ گار کے گناہ کو آنکھوں سے خود نہ دیکھو لو یا دو ایسے آدمی جوکہ اہل عدالت اور آبرومدن ہوں گواہی نہ دیں یقین مت کرو ور وہ شخص جسکا گناہ چھپا ہوا ہے( یعنی اس کے گناہ کے گواہ نہیں) کے گناہ کی غیبت جو کوئی بھی کرے گناہ گار ہے اور خدا سے کٹ گیا ہےاور شیطان سے پیوستہ ہے میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کیا اور مجھ سے بیان کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کی غیبت کرے گا تو خدا ان دونوں کو بہشت میں اکھٹا نہیں کرے گا اور جو کوئی کسی ایسی برائی کو کسی مومن کی طرف منسوب کرے جو اس میں نہ ہو تو ان دونوں کے درمیان سے عصمت قطع ہوجائے گی یہ غیبت کرنے والا ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور یہ کیا برا انجام ہے، علقمہ نےکہا  اے فرزند رسول(ص) لوگ ہمیں بڑے گناہوں سے منسوب کرتے ہیں ہمارے دل ان سے تنگ ہیں، فرمایا اے علقمہ لوگوں کی پسند کو اپنی کمزوری سمجھ اور اپنی زبان کو کمزوری کی وجہ سے ضبط کر تم کس طرح بچ سکتے ہو اس چیز سے  کہ جس سے پیغمبران خدا نہ بچ سکے اور نہ اس کے رسول اور نہ اس کی حجتیں کیا یوسف(ع) کو زنا سے متہم نہیں کیا گیا، اور کیا ایوب(ع) کو مصیبت میں مبتلا ہونے پر گناہ سے متہم نہیں کیا گیا، داؤد(ع) کو متہم نہ کیا گیا کہ ایک پرندے کے پیچھے گئے  یہاں تک کہ اوریا کی بیوی کو دیکھا اور اس کے عاشق ہوگئے اور اس کے شوہر کو تابوت کے آگے بھیجا یہاں تک کہ قتل ہوگئے اور اس کی بیوی سے شادی کرلی کیا موسی(ع) کو متہم نہ کیا کہ عنین (نامرد) ہے اور ان کو آزار دیا مگر خدا نے انکو ان تمام سے بری کیا یہ تمام پیغمبر

۱۰۵

خدا کے نزدیک آبرومند تھے لیکن کیا ان تمام انبیاء(ع) کو متہم نہ کیا گیا کہ جادوگر ہیں دنیا طلب ہیں مریم بنت عمران(ع) کو متہم نہ کیا کہ ایک بنجارے مرد یوسف سے حاملہ ہوئی ہے ہمارے پیغمبر(ص) کو متہم نہ کیا گیا کہ شاعر و دیوانہ ہے، کیا آپ(ص) کو متہم نہ کیا گیا کہ زید بن حارثہ کی بیوی کا عاشق ہوا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کو اپنے نکاح میں لے آئے، کیا روزِ بدر آپ کو متہم نہ کیا گیا کہ ایک چادر سرخ کو اپنے لیے غنیمت سے لیا یہاں تک کہ خدا نے اس مخمل کی چادر کو عیاں کیا اور ان کو بری کیا خیانت سے اور قرآن میں نازل کیا کہ وہ پیغمبر نہیں ہے کہ جو غنیمت سے چوری کرے جو کوئی غنیمت سے چوری کرے گا وہ روزِ قیامت اسی میں جکڑا ہوا ہوگا کیا متہم نہ کیا کہ ابن عمش علی(ع) کے بارے میں ہوائے نفس سے بات کرتا ہے یہاں تک کہ خدا نے ان کی تکذیب کی اور فرمایا ” کہ وہ ہوائے نفس سے بات  نہیں کرتا بیشک وہ وحی ہوتی ہے جو اس کو پہنچتی ہے(نجم) اور اس کو متہم نہ کیا کہ یہ اپنے جھوٹ سے رسول خدا(ص) کو جھوٹا جانتے ہیں یہاں تک کہ خدا نے ان کو وحی بھیجی” کہ تم سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی اور انہوں نے اپنی تکذیب پر صبر کیا اور آزردہ ہوئے یہاں تک کہ ان کو خدا کی مدد آپہنچی“ (انعام، ۲۴) اور جب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ مجھے کل رات خدا آسمان پر لے گیا تو کہا گیا کہ تمام رات یہ اپنے بستر سے تو اٹھے نہیں پھر کیسے آسمان پر گئے ہیں، اور اب جو کچھ اوصیاء کے بارے میں کہتے ہیں، کیا اس سے پہلے سید الاوصیاء کو متہم نہیں کرتے رہے کہ اپنی خاطر لوگوں کا خون گرارہے ہیں( جمل و صفین) جب کہ چاہتا ہے کہ ابوجہل کی بیٹی کو فاطمہ(س) پر سوتن لے آئے۔ تو رسول خدا(ص) نے ان لوگوں کی تکذیب میں کہا کہ فاطمہ(س) میرے بدن کا ٹکڑا ہے جو کوئی اس کو آزار دے گا اس نےمجھے آزار دیا جوکوئی اس کو غضبناک کرے گا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

پھر امام صادق(ع) نے فرمایا اے علقمہ لوگ کیسی کیسی عجیب باتیں علی(ع) کے بارے میں کرتے ہیں ایک گروہ ان کومعبود جانتا ہے تو دوسرا گناہ گار، معبود رکھنے اور ان (علی(ع)) پر ربوبیت کی تہمت سے زیادہ آسان ان کی معصیت ہے۔ اے علقمہ وہ (لوگ) عقیدہ،تثلیث کے قائل تو نہیں ہیں مگر ان (علی(ع)) کو خلق بھی نہیں مانتے کبھی کہتے ہیں کہ وہ اﷲ کا جسم ہیں، کبھی انہیں آسمان

۱۰۶

 کہتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ صورت ہے۔ اے علقمہ اﷲ کی ذات ان تمام سے نہایت بلند ہے۔ جو لوگ خدا کولائق نہیں جانتے وہ تیری عزت کیسے کریں گے۔ بس تم یہ کرو کہ جس چیز کو تم برا جانتے ہو اس سے دور رہو خدا سے مدد طلب کرو اور صابر رہو بےشک یہ زمین خداکی ہے اور وہ جسے چاہتا ہےدیتا ہے اور اس کا وارث بناتا ہے عافیت متقیوں کے لیے ہی ہے، بنی اسرائیل نے بھی موسیٰ(ع) سے کہا تھا کہ تم سے پہلے بھی ہم مصیبت میں تھے اور اب بھی مصیبت میں ہیں خدا فرماتا ہے” کہو اے موسیٰ(ع) امید ہے ( خدا) دشمنوں کو نابود کردے اور تم کو زمین میں اس کی جگہ لے آئے اور دیکھے کہ تم کیا کام کرتے ہو“۔

آںحضرت(ص) کے قتل کا منصوبہ

۴ـ          امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کہ ایک دن رسول خدا(ص) گھر سےباہر تشریف لائے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد فرمایا مجھے خبرملی ہےکہ تین اشخاص نے میرے قتل کے لیے لات و عزی کی قسم کھائی ہے رب کعبہ کی قسم وہ جھوٹے ہیں۔اے لوگو تم میں سے کوئی ہے جو ان سے میرا دفاع کرے کسی طرف سے جواب نہ پاکر رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو طلب کیا جو کہ بخار کی وجہ سے گھر میں استراحت فرمارہے تھے عامر بن قتادہ گئے اور انہیں بلا لائے۔ امیرالمومنین(ع) اسطرح تشریف لائے کہ ایک ہتھیار جس کے دو گوشے تھے گردن میں حمائل تھا علی(ع) نے رسول خدا(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ کیسی خبر ہے، جو میں سنتا ہوں آپ(ص) نےفرمایا علی مجھے خدا کے  پیامبر( جبریل(ع)) نے اس کی خبر دی ہے۔ علی(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) مجھے اجازت دیں میں تنہا ان کے سامنے جاؤںگا۔ رسول خدا(ص) نے اپنی رزہ علی(ع) کو پہنائی۔اپنی تلوار ان کے آراستہ کی اپنی پوشاک ان کو زیب تن کروائی اور اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھ کر اپنے گھوڑے پر ان کو سوار کروایا۔امیرالمومنین(ع) گئے تین دن تک ان کی کوئی خبر نہ آئی یہاں تک کہ جبرائیل(ع) بھی ان کی کوئی خبر نہ لائے فاطمہ(س) دونوں بچوں حسن(ع) اور حسین(ع) کو ساتھ لے کر رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا بابا کیا یہ دونوں بچے بن باپ کے ہوگئے ہیں یہ سن کر پیغمبر(ص) کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے اور فرمایا جو کوئی مجھے علی(ع) کی خبر دے گا میری طرف

۱۰۷

 سے اسے بہشت کی بشارت ہے۔ یہ سن کر لوگوں کوجدھر کا راستہ ملا چل پڑے یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کو غمزدہ دیکھ کر بوڑھی عورتیں بھی علی(ع) کو ڈھوںڈنے نکل گئیں۔

اسی اثناء میں عامر بن قتادہ واپس آئے اور آںحضرت(ص) کو علی(ع) کی واپسی کی خوشخبری سنائی جب کہ اسی دوران جبرائیل(ع) بھی حضور(ص) کو اطلاع پہنچا چکے تھے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) تین اونٹوں دو گھوڑوں اور دو اسیروں کو ساتھ لے کر پہچن گئے رسول خدا(ص) نے استقبال کے بعد فرمایا اے علی(ع) تمہاری غیر حاضری میں منافقین نے آزار دینے والی باتیں پھیلائی ہیں لہذا جو بیتی ہے وہ تم خود سناؤ تاکہ یہ لوگ گواہ رہیں۔ عل(ع) نے بیان کیا یا رسول اﷲ(ص) جب میں آپ(ص) کے پاس سے روانہ ہو کران کی وادی میں پہنچا تو دیکھاا کہ یہ تینوں اونٹوں پر سوار ہیں انہوں نے مجھے آوازدی  کہ تم کو ن ہو میں نے انہیں بتایا میں علی ابن ابی طالب(ع) برادر رسول خدا(ص) ہوں یہ کہنے لگے کہ ہم کسی رسول کو نہیں جانتے تیرا قتل اور محمد(ص) کا قتل ہمارے لیے برابر ہے۔یا رسول اﷲ(ص) یہ جو اشخاص میں اپنے ہمراہ لایا ہوں ان میں سے ایک کے  ساتھ میرا مبارزہ شروع ہوگیا۔ اس کے اور میرے درمیان چند داؤد پیچ کا رد و بدل ہوا تھا کہ یکا یک ایک سرخ آندھی نے ہمیں آگھیرا اسی آندھی سے آواز سنائی دی جو یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کی تھی کہ اے علی(ع) میں نے اس کی زرہ کا گریبان پکڑ رکھا ہے تم اس کے بازو اور اس کے شانے پر ضرب لگاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر اس ضرب کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اس کے بعد یکا یک سرخ آندھی تھم کر زرد آندھی چلنا شروع ہوگئی اور آپ(ص)  کی آواز مجھے پھر سنائی دی کہ اس کی ران پر اپنی زرہ اتار کر مارو میں نے ایسا ہی کیا اور اس ضرب سے ان کی ران کو قطع کردیا ۔ اگلے حملے میں میں نے اس کا سر قلم کر دیا اور اس کے جسم سے دور پھینک دیا باقی دو مردوں نےمجھ سے کہا کہ جنگ روک دو ہم نے سنا ہے کہ تمہارا رفیق مہربان و دلسوز ہے۔ ہمیں اس کےپاس لے جاؤ اور ہمارے قتل میں جلدی نہ کرو جس کو تونے قتل کیا ہے ہمارا سردار تھا اور ایک ہزار پہلوانوں پر بھاری تھا لہذا یا رسول اﷲ(ص) میں انہیں لے کر آگیا ہوں۔

رسول خدا(ص) نے یہ سننے کے بعد فرمایا اے علی(ع) آندھی کے دوران جو پہلی آواز تم نے سنی وہ جبرائیل(ع) کی تھی اور دوسری میکائیل کی تھی ان دونوں مردوں میں سے ایک کو آگے کرو جب وہ آگے

۱۰۸

 بڑھا تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہو لا الہ الا اﷲ اور میری رسالت کی گواہی دو وہ بولا کوہ ابوقبیس کو کھود ڈالنا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ اعتراف کروں کہ آپ(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو مگر قبل اس کے دوسرے کو پیش کرو جب وہ آیا تو اسے بھی یہی کہا گیا مگر اس نے بھی انکار کیا، علی انہیں لے کر پیچھے چلے تاکہ بحکم رسول(ص) ان کی گردنیں اڑا دیں تو جبرائیل تشریف لائے اور بتایا کہ اے محمد(ص) خداوند آپ کو سلام فرماتا ہے  اور حکم دیتا ہے کہ ان کو قتل نہ کرو کیونکہ یہ اپنے قبیلے میں خوش خلق اور سخی ہیں آپ(ص) نے علی(ع) کو روک دیا ان اشخاص نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا یہ خبر آپ(ص) کو آپ(ص) کے خدا نے بتائی ہے کہ ہم سخی و خوش خلق ہیں، آپ(ص) نے فرمایا ہاں یہ سن کر وہ نہایت متاثر ہوئے اور قبول اسلام کے بعد انہوں نے رسول اﷲ(ص) کو بتایا کہ اپنے بھائی کے مقابلے میں ہم ایک درہم کی وقعت بھی نہ رکھتے تھے اور یہ کہ جنگ عبوس ہم نے نہیں کی امام علی بن حسین(ع)نے اس کے بعد فرمایا کہ یہ حسن خلق اور سخاوت ہی تھی جو ان کو بہشت کی طرف کھینچ لائی۔

۱۰۹

مجلس نمبر۲۳

(۳ شوال کی شب سنہ۳۶۷ھ)

۱:ـامام صادق(ع) نے اپنے اجدادسے روایت کی ہے کہ جب امیرالمومنین(ع) ایک قبرستان سے گزرے تو فرمایا اے خاک نشینو (اہل تربت) اے آوارگان(اہل غربت) دوسرے لوگ تمہارے گھروں کو استعمال میں لے آئے ہیں اور انہوں نے تمہاری عورتوں سے شادیاں کرلی ہیں اور تمہارے اموال تقسیم کرلیے ہیں یہ ہیں خبریں ہمارے پاس تمہارے پاس ہمارے لیے کیا خبریں ہیں پھر منہ اپنے اصحاب کی طرف چہرہ کیا اور فرمایا اگر یہ بات کرنے کی اجازت رکھتے تو تم کو خبر دیتے کہ بہترین توشہ تقویٰ ہے۔

۲ـ امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا کوئی دن اولادِ آدم(ع) پر ایسا نہیں گزرتا کہ ان کو نہ کہا جائے کہ اے پسر آدم میں نیا دن ہوں، اورتم پر گواہ ہوں مجھ میں بہتر کہو اور بہتر کرو تاکہ روزِ قیامت تمہارے لیے گواہی دوں میرے جانے کےبعد تم ہرگز مجھے نہیں دیکھو دگے۔

۳ـ جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا مسلمان تین دوست رکھتا ہے ایک اس سے کہتاہے کہ میں تیری زندگی اور موت میں تیرے ساتھ ہوں اور وہ اس کا عمل ہے، دوسرا کہتا ہے کہ تیری موت کے وقت تک تیرے ساتھ ہوں وہ اس کا مال ہے کہ جب انسان مرگیا تو اس کے مال کا وارث کوئی اور ہے، تیسرا کہتا ہے میں تیرے ساتھ صرف قبر کے کنارے تک ہوں اور پھر تجھے چھوڑ دوں گا وہ اس کا فرزند ہے۔

۴ـ جنابِ علی(ع) نے فرمایاکوئی شخص اپنی موت کو حق کیساتھ نہیں پہچانتا اس لیے کہ اسے علم نہیں کہ موت کے بعد زندگی کے بارے میں کیسا حساب ہونے والا ہے۔

۵ـ جناب امیرالمومنین(ع) نے بصرہ میں خطبہ پڑھا خدا کی حمد و ستائش اور نبی(ص) پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا! چاہے کسی کی عمر طویل ہو یا مختصر زندگی کے لیے عبرت ہے اور مردہ کی نصیحت زندہ شخص کے لیے  یہ ہے کہ جو دن گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا اور جو آنے والا ہے اس پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی حال اور مستقبل جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں روزِ حساب علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے موت تمام پر غالب ہے اس دن تمام اعمال سامنے لائے جائیں گے اور مال اور اولاد

۱۱۰

سے اس دن فائدہ نہیں پہنچا سکے گا سوائے اس کے کہ نیک اعمال انجام دیئے جائیں، پھر آپ(ص) نے فرمایا اے میرے شیعو صبر کرنا اس کردار پر کہ نیکی کر کے اس کے ثواب سے بے نیاز ہو جاؤ کہ ایسے پر عذاب نہیں ہے۔ اطاعت خدا صبر کرنا آسان تر ہے بہ نسبت اس کے کہ عذاب کے خوف پر صبر کر لیا جائے۔ جان لو کہ انسان کی عمر محدود ہے مگر وہ اپنی آرزوئیں بلند رکھتا ہے اور اپنے نفس کے تابع ہے اور جان لو کہ جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اس کی عمر ناچاری میں بسر ہوتی ہے یہ فرما کر جنابِ امیر (ع) کی  آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور آپ(ع) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” اور بیشک محافظ تم پر نگران ہیں کراما کاتبین کہ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو“

۶ـ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تمام خیر تین خصلتوں میں جمع ہے نظر میں سکوت میں اور کلام میں، ہر وہ نظر جو بے عبرت ہو سہو ہے، ہر وہ خاموشی جو بے فکر ہو وہ غفلت ہے اور ہر وہ بات جس میں ذکر خدا نہ ہو لغو ہے، خوش قسمت ہے وہ بندہ جس کی نظر میں عبرت اور جس کی خاموشی میں فکر اور جس کی بات میں ذکرِ خدا ہو جو اپنے گناہوں پر گریہ کرے اور لوگ اس کےشر سے محفوظ رہیں۔

۷ـ امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا پانچ مواقع پر دعا کو غنیمت سمجھ، قرآن پڑھنے کے وقت، اذان کے وقت اور بارش آنے کے وقت اور دشمن پر حملہ کے وقت جب دونوں طرف سے صفیں قائم ہوں قصدِ شہادت کے لیے ( حق و باطل کی معرکہ آرائی کے وقت) اور اس وقت  کہ جب مظلوم پکارے۔ ان اوقات میں دعا سیدھی پردہ عرش تک  جاتی ہے۔

۸ـ      جنابِ امیر(ع) نے فرمایا غفلت زدہ انسان لباس خریدتے ہیں کہ اس کو زیب تن کریں جب کہ اصل لباس کفن ہے، بہترین گھر بناتے ہیں تاکہ اس میں رہیں جبکہ اصل گھر قبر ہے آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ ایسی کیا چیز ہے جو موت کا خوف نہیں رہنے دیتی ، آپ(ع) نےفرمایا حرام سے کنارہ کشی اور اعمال صالح کو انجام دینے سے موت کو خوف نہیں رہتا پھر فرمایا کہ خدا کی قسم ابن ابی طالب(ع) کو کوئی پرواہ نہیں کہ موت اس پر آپڑے یا وہ موت کو پالے جنابِ امیر(ع) نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا اے لوگو! بیشک دنیا نہ رہنے والا گھر ہے جبکہ آخرت زندگی کا گھر  ہے اپنی گذرگاہ کے لیے توشہ لے لو اور کسی کے راز کو جو تمہارے سینے میں ہے عیاں نہ کرو اپنے دلوں کو دنیا سے جدا رکھو اس سے پہلے کہ یہ تمہیں تنہا و جدا کردے ( دین سے) اور تم محتاج ہوجاؤ ، تم آخرت کے لیے پیدا ہوئے ہو دنیا زہر کی طرح ہے کہ بندہ اس کو کھاتا ہے مگر پہچانتا نہیں اور موت آگھیرتی ہے فرشتے کہتے ہیں کہ تم نے آگے کیا بھیجا جب کہ تم کہتے ہو کہ تم نے پیچھے کیا چھوڑا اپنے کاغذ عیش سے مت بھرو اور برائی کو نظر انداز مت کرو کہ تمہارے نقصان دہ ہے محروم وہ بندہ ہے کہ جس نے راہ صراط کو چھوڑ دیا ہو تم

۱۱۱

اس بندے پر رشک کرو،جس نے اپنے مال سے صدقات اور راہ خدا میں خرچ کیا اور جس کا بستر بہشت میں لگا ہے۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا امام میرے بعد بارہ ہوں گے کہ پہلے اے علی(ع) تم ہو اور آخری امام قائم ہے کہ خدا  اس کے ہاتھ پر مشرق و مغرب کی زمینوں کو فتح کرے گا۔

۱۰ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ لوگوں نے جنابِ رسول خدا(ص) کے اس فرمان کو بھلا دیا جو کہ انہوں نے جنابِ امیر(ع) کے بارے میں اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ(ع) حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرماتھے۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح غدیر خم کے فرمان کو بھلا دیا گیا ہے۔

امام(ع) نے فرمایا کہ آںحضرت(ص) حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرما تھے اور اصحاب بھی آپ(ص) کے ساتھ موجود تھے ناگاہ جنابِ امیر المومنین(ع) تشریف لائے تو اصحاب نے جنابِ امیر(ع) کے لیے جگہ نہ چھوڑی، جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ ماجرا دیکھا تو فرمایا۔ اے لوگو! یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں جب کہ تم انہیں احترام دینے میں مانع ہو۔ میں ابھی زندہ ہوں اور تمہارے درمیان موجود ہوں۔ تم آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم اگر میں تمہارے درمیان نہ بھی رہوں تب بھی خدا تو موجود ہوگا وہ تمہیں دیکھ رہا ہوگا ۔ تہنیت و بشارت اس بندے کے لیے ہے جو علی(ع) کی پیروی کرئے گا۔ اس سے محبت رکھے گا اور اس کی اولاد میں سے ( منصوص) اوصیاء(ع) کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا۔ یہ مجھ پر واجب ہے کہ میں ایسے بندے کو اپنی شفاعت مٰیں داخل کروں۔ ایسا بندہ جو علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے اوصیاء(ع) کی پیروی و اتباع کرے گا وہ یوں شمار ہوگا کہ گویا اس نے میری پیروی و اتباع کی وہ بندہ یقینا مجھ سے ہے۔ یہ سنت ابراہیم(ع) ہے جو کہ ہمارے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں ابراہیم سے ہوں اور ابراہیم مجھ  سے ہیں میرا فضل ان کا فضل اور انکی فضیلت ہے جبکہ میں ان ( ابراہیم(ع)) سے افضل ہوں جس کی تصدیق یہ قول خدا ہے کہ” بعض بعض کی ذریت سے ہیں  اور خدا سننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔“ ( آل عمران، ۳۳)

امام(ع) فرماتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کی حجرہ ام ابراہیم میں تشریف فرما ہونے کا سبب یہ تھا کہ آپ(ص) کے پاؤں مبارک پر زخم آگیا تھا جب کہ ہڈی کو کوئی گزند نہ پہنچا  تھا اور اس وقت لوگ آپ کی عیادت کی غرض سے جمع تھے۔

وصلی اﷲ علیٰ سيدنا محمد وآل الطيبين الطاهرين

۱۱۲

مجلس نمبر۲۴

(۴ شوال سنہ۳۶۷ھ )

شہادت حسین(ع) کی خبر

۱ـ           ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب روز قیامت ہوگا تو عرش رب العالمین کو ہر زینت دینے والی چیز سے زینت دی جائے گی اور اسے آراستہ کیا جائے گا اورنور کے دو منبر لائے جائیں گے کہ ہر ایک کا طول سو میل ہوگا ایک کو عرش کے دائیں طرف رکھا جائے اور دوسرے کو عرش کے بائیں طرف پھر حسن(ع) ایک منبر تشریف فرما ہوں گے اور حسین(ع) دوسرے پر تشریف رکھیں گے پروردگار اپنے عرش کو ان سے زینت دے گا جیسا کہ عورت اپنے دونوں کانوں میں گوشوارے پہن لیتی ہے۔

۲ـ           ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ امام حسن(ع) آئے رسول خدا(ص) نے جب ان کو دیکھا تو گریہ کیا اور پھر فرمایا میرے پاس آؤ اے میرے بیٹے پھر ان کو اپنے نزدیک کیا اور اپنے دائیں زانو پر بٹھا دیا پھر حسین(ع) آئے ںحضرت(ص) نے جب ان کو دیکھا تو گریہ کیا اور کہا آؤ آؤ میری جان میرے بیٹے ان کو بھی اپنے نزدیک بلایا اور بائیں زانو پر بٹھا دیا پھر جنابِ فاطمہ(س) آئیں جب انہیں دیکھا تو گریہ کیا پھر انہیں اپنے برابر بٹھا دیا اور پھر امیر المومنین(ع) آئے ان کو بھی جب دیکھا تو گریہ کیا ان کو بھی اپنے پاس طلب کیا اور اپنے دائیں پہلو میں بٹھایا ابن عباس کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ نے ان میں سے جس کسی کو بھی دیکھا گریہ کیا کیا آپ(ص) کے لیے ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ آپ کو دیکھ کر خوش ہوتے، فرمایا خدا کی قسم کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ نبوت عطا کی اور تمام لوگوں پر مجھے  برگزیدہ کیا یہ سب گرامی ترین خلق ہیں خدا نزدیک اور روئے زمین پر کوئی ایسا آدمی نہیں ہے کہ ان سے زیادہ میرا محبوب ہو علی ابن ابی طالب(ع) میرا بھایی ہے میرا مددگار ہے اور میرے بعد صاحب امر ہے ۔ میرے لوا کو اٹھانے والا ہے

۱۱۳

اور دنیا و آخرت میں میرے حوض کا صاحب اور ہر مسلمان کا مولی و سردار ہے ہر مومن کا امام ہے اور ہر متقی کا قائد ہے وہ میرا وصی و خلیفہ میرے خاندان اور میری امت پر ہے میری زندگی میںاور میری موت کے بعد بھی اس کو دوست میرا دوست ہے اس کا محب میرا محب ہے اس کا دشمن میرا دشمن ہے اس کی ولایت سے میری امت رحمت میں ہے اور جو کوئی بھی اس کا مخالف ہے وہ ملعون  ہے اور جب یہ (علی(ع)) آئے تو میں نے اس لیے گریہ کیا کہ مجھے یاد آیا کہ میرے بعد میری امت اس کے ساتھ غداری ودغا و مکر کرے گا اور اس کو مسند خلافت سے ہٹایا جائے گا جس کے لیے میں نے اس کو مقرر کیا ہے میرے بعد لوگ انہیں مصیبت میں گرفتار کردیںگے یہاںتک  کہ اس کے سر میں تلوار سے ضرب لگائی جائے گی اور ان کی ڈاڑھی خون سے خضاب و رنگین ہوجائے گی اس بہتریں مہینہ کے اندر جس کو ماہ رمضان کہتے ہیں جبکہ خدا نے اس مہینہ میں قرآن کا نازل کیا ہے لوگوں کی ہدایت کے لیے اور یہ کھلی گواہی( دلیل) ہے حق و باطل میں فرق کرنے کےلیے اور میری بیٹی فاطمہ(س) جو اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہے اور میرے بدن کاٹکڑا ہے اور میری آنکھوں کا نور ہے اور میرے دل کا ثمر ہے اورمیری روح ہے، میرا مرکز ہے میرا پہلو ہے، حوریہ انسیہ ہے، اور ہر وقت محراب عبادت میں اپنے پروررفگار کے سامنےکھڑی رہتی ہے اس کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشن کردیتا ہے جس طر چاند ستاروں کا نور زمین کو روشن کرتا ہے اور خدا اپنے فرشتوں کو فرماتا ہے میرے فرشتو میری کنزی فاطمہ(س) کو دیکھو کہ میرے سامنے کھڑی ہے اس کا دل مریے خوف سے لرزتا ہے اور میری عبادت میں مصروف ہے گواہ رہو کہ اس کے شیعوں کو میں نے دوزخ سے امان دی ہے لہذا جب میں ( محمد(ص)) نے اس کو دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ میرے بعد امت کے لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے اس کے گھر کو گرائیں گے اس کی حرمت کو زیر پاء کریں گے اس کے حق کو غصب کیا جائیگا اس کی وراثت کو ممنوع کردیا جائے گا اس کا پہلو شکستہ کیا جائیگا یہاں تک کہ اس کا جنین ساقط ہوجائےگا یہ فریاد کرے گی یا محمداہ مگر اس کو جواب نہیں ملے گا یہ استغاثہ کرےگی مگر کوئی اس کی مدد نہیں کرےگا میرےبعد یہ ہمیشہ پریشان اور غم زدہ رہے گی اور مصیبت میں گرفتار روتی  رہے گی اس کو یاد آئے گا کہ وحی اس کے گھر سے منقطع ہوگئی ہے، میری جدائی کے

۱۱۴

صدمے سے یہ خوف زدہ ہوجایا کرے گی اور مجھ جیسے شفیق باپ جس کا یہ مرکز تھی کو یاد کر کے غمزہ ہو جائے گی تب خداوند اس کے ساتھ فرشتوں کو مانوس کرےگا اور بالکل اسی طرح جس طرح یہ مریم بن عمران کو ندا کرتے تھے کہیں گے کہ فاطمہ(س) خدا نے تجھے برگزدیدہ کیا تمام عالمین کی عورتوں سے اور تجھے پاک کیا اے فاطمہ(س) قنوت پڑھو اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، اس کے بعد اس کی بیماری کا آغاز ہوگا تب خدا مریم بنت عمران کو بھیجے گا جو بیماری میں ان کی انیس ہوں گی اور ان کی تیمار داری کریں گی فاطمہ(س) اس مقام پر کہیں گی اے پروردگار میں اس زندگی سے تنگ آگئی ہوں اور اہل دنیا سے ملول ہوں مجھے میرے والد(ص) تک پہنچا دے یا اے خداندا انہیں مجھ تک پہنچا دے یہ وہ پہلی فرد ہوں گی جو میرے دنیا سے جانے کے بعد میرے خاندان سے مجھے آکر ملیں گی اور اس حال میں کہ مخزون و گرفتار بلا اور شہید مجھ تک وارد ہوں گی  اس وقت میں خدا سے درخواست کروں گا کہ خدایا لعنت کر اس شخص پر کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہے اور سزا دے پر اس  شخص کو کہ جس نے ان کا حق غصب کیا ہے اور خوار  کر اس بندے کو جس نے ان کو خوار کای ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے جہنم رسید کردے جنہوں نے اس کے پہلو پر دروازہ گرایا ہے جس سے اس کا جنین ساقط ہوا ہے میری اس دعا پر ملائکہ آمین کہیں گے پھر حسن(ع)  یہ میرا بیٹا میرا فرزند ہے یہ میرےبدن کا ٹکڑا اور میری آنکھوں کا نور، میرے دل کو روشنی اور میرے دل کا ثمر(میوہ) ہے وہ جوانانَ بہشت کا سردار ہے اور خدا کی حجت ہے میری امت پر اس کا امر میرا امر ہے اور اس کا قول میرا قول ہے جو کوئی اس کی پیروی کرے گا اس نے میری پیروی کی جو کوئی اسکی نافرمانی کرے  گا گویا اس نے میری نافرمانی کی جب میں نے اس کو دیکھا تومجھے یاد آیا کہ میرے بعد اس کی اہانت کی جا ئے گی میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اس پر کھلم کھلا ستم کریں گے اور اس کے دشمن اس کو قتل کردیں گے اس وقت سات آسمانوں کے فرشتے اس کی موت پر گریہ کریں گے اور تمام چیزیں یہاں تک کہ پرندے اور دریا کی مچھلیاں بھی اس پر گریہ کریں گی جو آنکھ اس پر گریہ کرے گی وہ اس دن دندھی نہ ہوگی کہ جس دن دوسری آنکھیں اندھی ہوں گی اور جوکوئی اس پر مخزون ہوگا تو اس دن جس دن تمام دل مخزون ہون گے وہ مخزون نہ ہوگا اور جوکوئی بقیع میں اس کی زیارت کرے گا تو اس کے قدم پل صراط

۱۱۵

پر مضبوط ہون گے۔ اس دن کہ جس دن تمام لغزش کھا رہے ہوں گے اور اس کے بعد حسین(ع)، حسین(ع) مجھ سے ہے اور میرا فرزند ہے اور بہتریں خلق ہے اپنے بھائی کے بعد مسلمانوں کا امام ہے اور مومنین کا ولی ہے اور عالمین پر خدا کا خلیفہ ہے وہ غیاثِ مستغیثین و امان طلب کرنے والوں کی پناہ اور تمام خلق پر خدا کی حجت ہے۔ وہ جوانان بہشت کا سردار اور نجات کا دروازہ ہے اس کا امر میرا امر ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے اس نےم میری پیروی کی ہے اور کوئی اسکی نافرمانی کرے اس نے میری نافرمانی کی جب میں نے اس کو دیکھا تو مجھے یاد آگیا کہ میرے بعد اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا میں دیکھاہوں کہ میں جو اپنے حرم اور اپنے قرب میں لوگوں کو پناہ دینے والا ہوں اسی کے فرزند کو پناہ نہ دی جائے گی۔

میں اس کو خواب میں اپنی آغوش میں لوں گا اور اپنے سینے سے لگاؤں گا اور حکم دونگا کہ میرے گھر سے ہجرت کر لیں میں اس کو شہادت کی بشارت دوں گا کہ اس جگہ سے کوچ کریں اس زمین کی طرف جوکہ اس کی قتل گاہ ہے، زمین کرب و بلا و قتل و رنج جہاں ایک گروہ مسلمین اس کی مدد کرے گا یہ سردار شہداء امت ہے ، روز قیامت میںاس کو ایسے دیکھتا ہوں کہ یہ تیر کھانے کے بعد اپنے گھوڑے سے زمین پر گرا ہے اور جیسے گوسفند کے سر کومظلومانہ کاٹا جاتا ہے اس کا سرکاٹ دیا جائے گا، پھر رسول خدا(ص) نے گریہ کیا اور وہ تمام بندےبھی جو آپ کے پاس جمع تھے رونے لگے اور صدائے شیون بلند ہوگئی آںحضرت(ص) اٹھے اور فرمایا خدا یا میں تجھ  سے شکایت کرتا ہوں اس کی جو میرے اہل بیت(ع) سےمیرے بعد کیا جائے گا اور پھر اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔

۳ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ ان کے جد(ع) نے فرمایا کہ ایک دن حسین بن علی(ع) امام حسن(ع) کے پاس تشریف لے گئے اور گریہ کیا امام حسن(ع) نے فرمایا اے ابو عبداﷲ(ع) تم کو کیا چیز رلاتی ہے امام حسین(ع) نےفرمایا برادر میں اس پر گریہ کرتا ہوں جو کہ آپ کے ساتھ روا رکھا جا ئے گا امام حسن(ع) نے فرمایا میرے ساتھ جو ہوگا وہ زہر ہے کہ جس کومیرے حلق سے نیچے اتارا جائے گا اور میں قتل کردیا جاؤں گا مگر اے ابو عبداﷲ(ع) ( حسین(ع)) میں اس دن کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ جس دن تیس ہزار مرد جو کہ ہمارے جد(ص) کی امت ہونے کا دعوی کریں گے تیرے گرد گھیرا ڈال لیں

۱۱۶

گے اور تیرے قتل کے لیے اور تیرا خون گرانے، تیری حرمت کی ہتک کرنے، تیری زریت کو اسیر کرنےاور تیرا مال لوٹنے کےلیے تجھ سے جنگ کریںگے بنی امیہ لعنت کی مستحق ٹھہرائی جائے گی آسمان راکھ اور خون برسائے گا اور ہر چیز آپ(ع) پر گریہ کرے گی یہانتک  کہ بیابان کے وحشی جانور اور دریا کی مچھلیان بھی آپ پر گریہ کناں ہونگے۔

توضیع وسیلہ

۴ـ          ابوسعید خدری(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب بھی خدا سے کوئی حاجت طلب کرو تو اسے وسیلے کا واسطہ دے کر کرو، پوچھا گیا پیغمبر(ص) سے کہ وسیلہ کیا ہے فرمایا وہ درجہ ہے جو کہ میں بہشت میں رکھتا ہوں کہ اس کے ہزار درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان ایک مہینہ گھوڑا دوڑنے کی راہ کا فاصلہ ہے اور یہ درجے گوہر، زبرجد، یاقوت اور سونے چاندی کے ہیں، ان کو  قیامت میں لایا جائے گا اور میرے برابر میں رکھ دیا جائے گا اور یہ جیسا کہ چاند روشن ہوتا ہے روشن ہوں گے، اس دن کوئی پیغمبر و صدیق و شہید نہ ہوگا کہ جو کہے گا، خوش قسمت ہے وہ بندہ جو یہ درجہ رکھتا ہے تو خدا کی طرف سے ندا آئے گی کہ تمام پیغمبر اور تمام خلائق سن لو کہ یہ درجہ محمد(ص) کا ہے پھر میں آؤں گا اور نور کی قبا دفوش پر رکھوں گا او تاج ملک واکلیل کرامت علی بن ابی طالب(ع) کے سر پر ہوگا پھر لوا حمد کو میرے آگے رکھا جائے گا اس پر لکھا ہوگا” لا الہ الا اﷲ“ اور وہی فلاح پاگئے جو خدا کو پہنچ گئے۔ جب پیغمبر(ص) گزریں گے تو کہیں گے کیا یہ مقرب فرشتے ہیں کہ ہم ان کو نہیں پہچانتے اور ہم نے ان کو نہیں دیکھا اور جب فرشتے گزریں گے۔ تو کہیں گے کہ کیا یہ دنوں پیغمبر مرسل ہیں یہاں تک کہ میں اس درجے سے اوپر جاؤں گا اوو علی(ع) میرے پیچھے آئیں گے اور یہاں تک کہ میں سب سے بلند مقام پر آؤں گا اور علی(ع) مجھ سے ایک درجہ نیچے ہوگا اس دن کوئی پیغمبر و صدیق و شہید نہ ہوگا کہ کہے گا، خوش قسمت ہیں یہ دو بندے خدا کے نزدیک کہ کیسے گرامی ہیں پھر خدا کی طرف سے ندا آئے گی۔ کہ تمام پیغمبر و صدیق وشہید و مومنین یہ سن لین کہ یہ میرے حبیب محمد(ص) ہیں اور یہ میرا ولی علی(ع) ہے اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو انہیں دوست رکھتا ہے اور اس کے لیے آج کا دن نہایت برا ہے

۱۱۷

جو ان کا دشمن ہے اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا اس دن تیرے دوست خوش و خرم ہوں گے اور ان کے چہرے نورانی اور دل شاد ہوں گے اور وہلوگ جوتجھے دوست نہیں رکھتے ان کے چہرے اس دن سیاہ اور قدم لرزاں ہوں گے پھر ان کے  درمیان سے دو فرشتے بر آمد ہوں گے اور میرے سامنے آئیں گے ایک رضوان، کلید دار بہشت اور دوسرا مالک، کلید دار دوزخ ہوگا، رضوان میرے نزدیک ہوگا اور کہے گا میں کلید دار بہشت ہوں یہ جنت کی کنجیاں ہیں جو کہ رب العزت نے آپ(ص) کے لیے بھیجی ہیں لہذا اے احمد(ص) ان کو لے لو میں کہوں گا حمد ہے اس خدا کی جس نے مجھ پر اپنا فضل کیا میں نے اپنے پروردگار سے انہیں قبول کیا پھر یہ کنجیاں میں اپنے بھائی علی(ع) کے سپرد کروں گا۔ پھر مالک دوزخ میرے سامنے آئے گا اور کہے گا میں کلید دار جہنم ہوں یہ دوزخ کی کنجیاں ہیں جو کہ رب العزت نے آپ(ص) کے لیے بھیجیں ہیں انہیں قبول فرمائیں، میں  یہ کنجیاں بھی علی(ع) کو دے دونگا اور پھر میں اس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں گناہ گاروں کو جہنم رسید کیا جائے گا ( دھانہ جہنم) اس جگہ جہنم کے شرارے اٹھ رہے ہوں گے علی(ع) جہنم کی مہار تھامے ہوں گے اور دوزخ علی(ع) سے فرماتی ہوگی کہ مجھے چھوڑ دو کہ تمہارے نور سے میری آگ سرد ہوئی جاتی ہے علی(ع) فرمائینگے کہ زرا ٹھہر جا اے دوزخ اور کہیں گے کہ فلاں شخص کو پکڑ لے یہ میرا دشمن ہے اور فلاں کو چھوڑ دے کہ یہ میرا دوست ہے ۔ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ دوزخ اس دن علی(ع) کے لیے اتنی فرمانبردار اور مطیع ہوگی اور کہ جیسے ایک غلام اپنے آقا کے لیے فرمانبردار ہوتا ہے کہ آقا جیسے چاہے اسے دائیں بائیں کھینچ لے۔ اس دن بہشت بھی علی(ع) کے لیے مطیع تر ہوگی کہ اسے اپنے دوستوں کے لیے جو بھی حکم دیں گے وہ عمل کرے گی۔

صلی اﷲ علیٰ سيدنا خير خلقه محمد وآل محمدوآله اجمعين

۱۱۸

مجلس نمبر ۲۵

(۱۷ ذالحجہ سنہ۳۶۷ھ)

( یہ مجلس طوس میں زیارت گاہِ حضرت رضا(ع) پر پڑھی گئی)

ثواب زیارت

۱ـ           حسین بن یزید کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ میرے فرزند موسیٰ(ع) سے ایک فرزند پیدا ہوگا جو کہ جنابِ امیر(ع) کا ہم نام ہوگا وہ زمین طوس خراسان میں زہر سے قتل کیا جائے گا اور اسی جگہ اس کی تدفین نہایت غربت کے عالم میں ہوگی تم میں سے جوکوئی بھی اس کے مقام (عظمت) کو پہچانتے ہوئے اس کی زیارت کرے گا تو خدا اس کو فتح مکہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور جہاد کرنے کے برابر اجر دے گا۔

۲ـ           جابر جعفی نے کہا کہ ابوجعفر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بدن کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا اور جو کوئی اس کی زیارت کرے گا تو خدا اس کی مصیبت کو اس سے دور  کرے گا اور اس کا گناہ باقی نہ رہے گا اور خدا تمام گناہ معاف کردے گا۔

۳ـ          ابو نصر بزنطی کہتے ہیں میں ابوالحسن رضا(ع) کا خط پڑھا جس میں درج تھا کہ میرے شیعوں کو یہ پیغام دو کہ جو کوئی میری زیارت کرے گا تو یہ خدا کے نزدیک ایک ہزار حج کے برابر ہے آپ کے فرزند ابوجعفر(ع) نے کہا ہزار حج کے برابر فرمایا ہاں پھر فرمایا خدا کی قسم سو ہزار( ایک لاکھ) حج اس کے لیے ہے جو ہماری معرفت حق کے ساتھ زیارت کرے۔ ( یعنی ہمارے مقام کی معرفت رکھتے ہوئے)

۴ـ          ابونصر بزنطی کہتے ہیں کہ  میں نے امام رضا(ع) سے سنا کہ جو کوئی میری زیارت کرے گا معرفتِ حق کے ساتھ تو اس کی شفاعت قیامت کے دن قبول ہوگی۔

۵ـ          نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا ، ایک فرزند میرے فرزندوں میں

۱۱۹

سے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658