مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)6%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307033 / ڈاؤنلوڈ: 7989
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجالس صدوق

(ترجمہ امالی شیخ صدوق)

تالیف

الشیخ الصدوق بن بابویہ

ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین القمی

متوفی سال ۳۸۱ہجری

ناشر

ادارہ تعلیم وتربیت لاہور

۱

پیش لفظ

زیر نظر کتاب مجالس صدوق(رح). جناب ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہقمیعلیہرحمہ کی شہرہ آفاق کتاب ”امالی“ کا اردو ترجمہ ہے  یہ کتاب ۹۷مجالس کا مجموعہ ہےجن میں احادیث و واقعات اور پند و نصائح کا ایک بڑا اور نادر و نایاب ذخیرہ موجود ہے  جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ جناب صدوق(رح) کی ذاتی قلمی نصنیف نہیں بلکہ ان کے اس فن خطابت کا حاصل ہے جس کا اظہار انہوں نے مختلف مقامات اور مختلف اوقات و مواقع پر کیا اور جسے بعد میں جمع کرکے کتابی شکل دیدی گئی۔

دوران ترجمہ راقم الحروف کے مشاہدے میں آیا کہ ان ۹۷ مجالس کی تواریخ کے اندراج کے ساتھ ایام کی مطابقت نہیں ہے مثال کے طور پر اگر کسی مجلس کا بیان کردہ دن جمعہ تحریر کیا گیا ہے تو فورا بعد کی مجلس جو چار دن بعد برپا کی گئی کی تاریخ کا یوم بھی جمعہ ہی تحریر کردیا گیا اور اس تضاد کو دور کرنے کا خاطر کسی قسم کی سعی نہیں کی گئی۔ ان تمام مجالس میں چند ایک طوس۔ نیشاپور اور کربلا جیسے مقامات پر برپا کی گئیں اسی طرح اگر کربلا کے مقام پر برپا ہونے والی دو مجالس (مجلس ۳۰ اور ۳۱) کے مضامین پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان دونوں مجالس میں سے ایک مجلس صبح کے وقت جب کہ دوسری شام کے وقت پڑھی گئی اور مجلس نمبر۹۳ خالصتا دوران سفر اور عجلت میں بیان کی گئی ہے لہذا ان تمام عوامل نے راقم الحروف کے اس استنباط کو تقویت بخشی کہ یہ کتاب صرف جناب صدوق(رح) کے شاگروں اور ان کے حلقہ درس سے مستقل فیض پانے والے افراد نے ہی براہ راست جناب شیخ سے املاء نہیں کی بلکہ اس کے اجزاء عامتہ الناس سے بھی اکٹھے کرنے کے بعد ضبط تحریر میں لاکر اسے کتابی صورت دی گئی کیونکہ اگر جناب صدوق(رح) کا کوئی ایک شاگرد یا ان کے گرد جمع شدہ افراد کا ایک مخصوص

۲

 گروہ اس کتاب کو مکمل طور پر مرتب کرتا تو ایام و تواریخ کا تضاد نہ ہوتا۔ بصورت دیگر اس بات کا امکان بھی کم ہی دیکھائی دیتا ہے کہ جناب صدوق(رح) کے ہمراہ چند مخصوص لوگ دوران سفر کتاب کی املاء ساتھ ہی ساتھ بروقت کرتے رہے ہوں اس موقع پر میں قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا  ہوں کہ ایام تواریخ کے اس تضاد کے پیش نظر میں نے اس اردو ترجمے میں مجالس کے ایام تحریر کرنے سے گریز کیا ہے اور صرف اندراج تواریخ پر ہی اکتفا کیا ہے۔

اس کتاب کا ایک بڑا حصہ احادیث پر مشتمل ہے جناب صدوق(رح) جہاں دلیل و مناظرہ کے میدان کے شہہ سوار ہیںوہیں حدیث بیان کرنے کےسلسلے میں بھی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور بذات خود ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں جناب صدوق(رح) کو اگر راہنمائے فقہا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مذہب امامیہ کی چار بڑی اور بنیادی کتب احادیث میں سے ایک ( من لا یحضرہ الفقیہ) جناب صدوق(رح) ہی کی تالیف ہے جناب صدوق(رح) کی تصانیف کا درست شمار ممکن نہیں کیونکہ امتداد زمانہ نے جہاں دیگر علمی شہہ پاروں کو ضائع کردیا وہاں جناب صدوق(رح)  کی تصانیف بھی زمانے کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکیں اور اب صرف چند دستیاب شدہ کتب کے سوا شیخ کی تصانیف کا تذکرہ کتابوں اور فہرستوں میں ہی ملتا ہے۔

ابن ندیم وراق اپنی کتاب ” الفہرست“ میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد ۴۰ سے زائد کے نام بیان کرتا ہے۔

شیخ طوسی(رح) اپنی فہرست میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد تقریبا ۴۰ کے نام بیان کرتے ہیں۔

۳

علامہ حلی(رح) نےبھی جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کی ہیں۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری(رح)۔ رجال نجاشی کے حوالے سے اپنی کتاب” مجالس المومنین“ میں شیخ صدوق(ح) کی تصانیف کی تعداد تین سو کے قریب بیان کرتے ہیں اور ۲۰۳ کتب و رسائل کے نام درج کرتے ہیں۔

اسکے علاوہ جناب صدوق(رح) کے حصہ میں ایک ایسی سعادت آئی ہے جو شاذ ہی کسی کو نصیب ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب صدوق(رح) کے والد گرامی نے امام زمانہ علیہ السلام کے نائب خاص جناب ابوالقاسم روح سے ملاقات کے دوران چند مسائل دریافت کیے اور پھر قم واپس جاکر علی بن جعفر بن اسود(رح) کی معرفت جناب ابوالقاسم روح(رح) کو ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے جناب روح (رح) سے گذارش کی کہ میری درخواست جناب امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچائیں کہ آنحضرت(ع) میرے حق میں اولاد نرینہ کے لیے دعا فرمائیں۔ اس خط کے جواب میں امام زمانہ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ میں نے تمہارے حق میں دعا کردی ہے عنقریب تمہارے ہاں دو فرزند تولد ہوںگے کہ جوکہ بہترین ہوں گے لہذا اسی سال جناب صدوق(رح) کی ولادت ہوئی۔

جناب صدوق(رح) کا سن ولادت جناب حسین بن روح(رح) کی نیابت کے پہلے سال کے بعد کا ہے چنانچہ اشارہ یہ ملتا ہے کہ شیخ کی ولادت ۳۰۶ھ کی ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت صغری میں شیخ نے تقریبا ۲۰ سال گذارے اس کے بعد کا زمانہ غیبت کبری کا ہے جناب صدوق(رح) کا سن وفات ۳۸۱ھ بتایا جاتا ہے۔ تنگی قرطاس راقم الحروف کو اجازت نہیں دیتی کہ اس سے زیادہ آپ کے حالات زندگی بیان کیے جائیں۔ کتاب ہذا کا مطالعہ کرنے والے پر عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں شامل چند ایک روایات و احادیث ، تعلیمات و عقائد

۴

مذہب اہل بیت(ع) سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ میرے نزدیک ایسی ضعیف روایات کا کسی کتاب میں شامل ہوجانا اس لیے اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ شیعیت کے ابتدائی ادوار نہایت کھٹن مراحل سے گذرے ہیں جب حالات نامساعد راستہ دشوار۔ سہولیات ناپیدا اور اردگرد اغیار کی ایسی بھیڑ لگی ہو جس کاتقاضہ تقیہ ہوتو ایسی چند ایک مجہول روایات کی درندازی خاص  اہمیت کی حامل نہیں ہوا کرتی اسلام کی ابتدائی تاریخ اور شیعیت کی نمو پر نظر رکھنے والے اہل قلم گزشتہ چودہ صدیوں سے قائم ناصبی اثرات کی شدت سے آگاہ ہیں۔ اس کے علاوہ عمدا اور سہوا غلطی کے احتمال سے صرف ذوات معصومین(ع) ہی مبرا ہوسکتی ہیں تمام انسان کا معیار اس سے مطابقت نہیں رکھتا دوم یہ کہ راقم الحروف کو ان مجہول روایات کی در اندازی میں بھی ایک مثبت پہلو نظر آتا ہے اور یہ کہ ہماری کتب تحریف سے پاک ہیں کیونکہ اگر امامیہ تحریف کے قائل ہوتے تو سب سے پہلے ایسی ہی روایات اپنی کتب سے خارج کرتے۔

اس ترجمے کی تیاری میں میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میں سلیس انداز بیان اپناؤں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات فکر اس ترجمے سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ مگر ساتھ ہی اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ تاریخی واقعات کی بیان نگاری اپنی جاذبیت اور دلنشینی نہ کھوسکے۔ یہ بھی امر مسلمہ ہے کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تصنیف کا ترجمہ بہر طور ایک پیچیدہ عمل ہے اور یہ اس صورت میں مزید پیچدگی اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی تصنیف پہلے عربی سے فارسی اور پھر فارسی سے اردو میں ترجمہ ہوئی ہو لہذا میری گذارش ہے کہ اس ترجمے کو ایک ادبی شہہ پارہ کے طور پر دیکھنے کے بجائے حدیث و تاریخ اور معاملات شرعی کی ایک سیدھی سادی کتاب تصور کیا جائے۔

زیر نظر کتاب ایک فارسی نسخے سے ترجمہ کی گئی ہے جو کہ کتب خانہ اسلامیہ حاج

۵

سید محمد کتابچی تہران  ایران کی مطبوعہ ہے۔ اس اردو ترجمے کی فہرست میں شامل عنوانات راقم الحروف کے بذات خود تحریر کردہ ہیں تاکہ اہم موضوعات کی طرف فورا رسائی ہو سکے۔

اس کتاب میں مندرج روایات و احادیث کے موازنہ و تحقیق کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ حاصل کیا گیا۔

۱ ـ قرآن مجید                ترجمہ: علامہ ذیشان حیدر جوادی (لکھنو)

۲ ـ قرآن مجید                ترجمہ: امام احمد رضا خان بریلوی

۳ ـ قرآن مجید               ترجمہ: مولانا مقبول احمد صاحب

۴ ـ نہج البلاغہ                 ترجمہ: مفتی جعفر حسین صاحب

۵ ـ صحیفہ کاملہ                ترجمہ: مفتی جعفر حسین صاحب

۶ـنہجالاسرار           غلام حسین رضا آقا مجتہد( حیدر آباد دکن)

۷ ـ من لا یحضرہ الفقیہ        شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۸ ـ اصول کافی                ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی ترجمہ جناب مولانا ظفر حسن امروہی صاحب

۹ ـ وسائل الشیعہ               شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۰ ـ علل شرائع                شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۱ ـ عیون الاخبار الرضا(ع)      شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۲ ـ کتاب الخصال              شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۱۳ ـ کتاب التوحید             شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)

۶

۱۴ ـ کمال الدین و تمام النعمہ    شیخ صدوق ابن بابویہ قمی(رح)      

۱۵ ـ حیات القلوب             علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۶ـ بحار الانوار                 علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۷ ـ جلاالعیون                علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۸ ـ تہذیب الاسلام            علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۱۹ ـ روح الحیات               علامہ باقر مجلسی(رح) صاحب

۲۰ ـ مجالس المومنین            شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری(رح)

۲۱ ـ احسن المقال               شیخ عباس قمی(رح)

۲۲ ـ نفس المہموم              شیخ عباس قمی(رح)

۲۳ ـ مفاتیح الجنان              شیخ عباس قمی(رح)

۲۴ ـ مقتل ابی مخنف لوط بن یحی ازدی

۲۵ ـ الفہرست                محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق

۲۶ ـ کتاب الارشاد              شیخ مفید علیہ الرحمہ

۲۷ ـ جمال منتظر              آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی

۲۸ ـ صحیفہ کربلا               حجت الاسلام علی منتظری منفرد

۲۹ ـ تفسیر اسلام              علامہ فروغ علی کاظمی( لکھنو)

۳۰ ـ توضیح المسائل             آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی ( نجف اشرف عراق)

۳۱ ـ توضیح المسائل              آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ( ایران)

۷

۳۲ ـ توضیح المسائل             آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین صاحب ( نجف اشرف عراق)

اس موقع پر میں خداوند کریم کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنی اس حقیر کاوش کو جناب امیر امومنین علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ان کی ذات مقدسہ سے رحمت و مدد کا خواستگار ہوں۔

میں دل کی گہرائیوں سے اپنے والد گرامی کا شکر گزار ہوں جن کی بدولت میں اس کھٹن کام کو انجام دینے کے قابل ہوا، ان کی راہنمائی کی ضرورت مجھے ہر موقع پر محسوس ہوئی اور انہوں نے مجھے کمال شفقت سے نوازا۔

میں شکریہ ادا کرتا ہوں اپنی والدہ محترمہ کا کہ جن کے بے پناہ محبت اور الفت کے کسی ایک لمحے کا عشر عشیر چکانے کی میں سکت نہیں رکھتا۔

میں تہہ دل سے مشکور ہوں اپنی زوجہ کا، جس نے اس دوران میری ذمہ داریوں کو بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا اور اس کتاب کی تحقیق و تیاری میں میری بھر پور معاونت کی۔

میں ممنون ہوں مولانا نذر عباس اصغر صاحب کا کہ جنہوں نے اس ترجمے پر نظر ثانی فرمائی اور ایسے موقع پر اپنا قیمتی وقت میرے لیے مختص کیا جب بیشتر علما نے اس مسودے کی ضخامت دیکھتے ہوئے اس سے صرف نظر کیا۔

آخر میں میں دعا گو ہوں کہ خداوند متعال ہمیں اس کتاب سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                                                             آمین

                                                     سید ذیشان حیدر زیدی

۸

مجلس نمبر ۱

( ۱۸ رجب ۳۶۷ھ)

۱ ـ          عمرو بن خالد ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے  ہیں کہ امام زین العابدین(ع) نے فرمایا : خوش خلقی سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق وسیع ہوتا ہے۔ یہ موت کو ٹال دیتی ہے خاندان میں محبت پیدا کرتی اور جنت میں داخل کرتی ہے۔

۲ ـ          شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا جو کوئی ۱۸ ذالحجہ کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے خدا ۶۰مہینوں کے روزوں کا ثواب درج کرتا ہے اور یہ دن غدیر خم کا دن کہ اس دن رسول خدا(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ پھر فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی(ع) مولا ہے پس عمر نے اس سے کہا مبارک ہو اے ابن ابی طالب(ع) تم میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہو گئے پس اللہ عزوجل نے اس آیت کو نازل کردیا ” الیوم اکلمت لکم دینکم“ (مائدہ) کہ” آج کے دن میں نے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے۔“

۳ ـ         ابن عباس(رض) کہتے ہیں، رسول خدا(ص) نے فرمایا، علی(ع) میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔

صلصال بن دلہمس

۴ ـ         قیس بن عاصم کہتے ہیں کہ میں بنی تمیم  کی ایک جماعت کے ساتھ خدمت پیغمبر(ص) میں گیا جس وقت میں داخل ہوا اس وقت صلصال بن دلہمس آںحضرت(ص) کے پاس موجود تھا میں نے عرض کیا اے پیغمبر خدا(ص) ہمیں نصیحت کریں تاکہ ہم اس سے فائدہ حاصل کرسکیں رسول خدا(ص) نے فرمایا اے قیس بے شک عزت کے ساتھ ذلت بھی ہے اور زندگی کے ساتھ موت بھی اور اس دنیا کے ساتھ آخرت بھی ہے ہر چیز کے لیے حساب ہے اور ہر چیز عمل پائندہ ہے ہر نیک کام کا ثواب ہے او ہر برے عمل کی سزا ہے۔ اور تمام مدت ختم ہونے والی ہے۔ اے قیس قبر میں تیرا دوست

۹

تیرے ہمراہ ہوگا۔ وہ زندہ ہوگا جبکہ تم مردہ ہوگے۔ اگر وہ اچھا ہوگا تو تمہارے ہاتھ اچھائی آئے گی۔ اور اگر برا ہوگا تو تم  پست و زبوں حال ہوگے۔ اس کے علاوہ تیرے ساتھ کچھ بھی محشور نہ ہوگا او تمہارے ساتھ اس کے سوا کچھ بھی مبعوث نہ ہوگا۔ اور تمہارا یہ دوست بجز کردار صالح کے اور کوئی نہیں۔ اگر یہ صالح ہوگا تو تو آرام میں ہوگا اور اگر فاسد ہوگا تو تجھے خوف میں مبتلا رکھے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میری گذارش ہے کہ آپ(ص) ان اقوال کو نظم کی صورت میں بیان کریں تاکہ ہمیں دیر تک یاد رہیں او جب ہم واپس جائیں تو عرب کے لوگوں کو اسے بیان کریں اور انہیں خوف کی ترغیب دیں۔ پیغمبر(ص)  نے حکم دیا کہ حسان(رض) کو میرے پاس بلایا جائے۔ اسی دوران میںنے سوچا کہ ان اقوال کو مجھے خود بھی اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لہذا حسان(رض) کے آنے سے پہلے ہی یہ کلام میرے ذہن میں ترتیب پاگیا۔ میں نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کے اس فرمان کے مطابق میرے ذہن میں چند اشعار ترتیب پاگئے ہیںاگر آپ(ص) اجازت دیں تو عرض کروں۔ آپ(ص) نے فرمایا: بیان کرو۔ میں نے عرض کیا۔

                             اپنے کردار کو اپنا ساتھی بنا۔

                                                             کیونکہ وہ قید میں تیرے ہمنشین ہوگا۔

                             خود کو موت کے بعد اس چیز کے لیے آمادہ رکھو۔

                                                             کہ سامنے سے جلد ہی آواز آئے گی۔

                             اگر کسی چیز کو دل نہ مانے تو وہ نہ کرؤ۔

                                                             سوائے اس کے کہ جس کو خدا پسند کرئے۔

تمہاری موت سے پہلے و بعد کوئی شخص تمہیں فائدہ نہ دے گا۔ بجز تیرے کردار کے کہ کوئی دوست سوائے اس کے فریاد سننے والا نہیں انسان رشتے داروں کے پاس مہمان ہے۔ وہ ان کے درمیان رہا اور کوچ کر جائے گا۔

۵ ـ   قصی بن کلاب نے اپنے فرزندوں کے وصیت کی کہ فرزندان عزیز کبھی شراب نہ پینا اگرچہ یہ بدنوں کی اصلاح ( فربہ) کرتی ہے مگر ذہنوں ( یعنی عقلوں) کو فاسد کردیتی ہے۔

۱۰

۶ ـ شعیبحداد کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام بن محمد(ص) نے مجھ سے فرمایا ہماری حدیث سخت اور ناہموار ہے اس وزن کو کوئی نہیں اٹھا سکتا مگر مقرب فرشتہ یا پیغمبر مرسل یا د وہ بندہ کہ جس کے دل کا ایمان کے ساتھ خدا نے امتحان لیا ہو یا شہر محکم عمرو شاگرد شعیب نے اس شہر کا پوچھا  تو اس نے بتایا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ یہ وہ شہر ہے جو دل میں مجتمع ہوتا ہے۔( یعنی وہ دل جس کو ہماری محبت نے محصور کر لیا ہو)

حضرت یوسف(ع) و زلیخا

۷ ـ         وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی بعض کتابوں میں سے ایک  کتاب میں پڑھا ہے کہ یوسف(ع) اپنے لشکر کے ساتھ عزیز مصر کی بیوی( زلیخا) کے پاس سے گذرے وہ ایک کھنڈر پر بیٹھی تھیں اور کہتی تھی کہ حمد سپاس اس خدا کے لیے زیبا ہے جو بادشاہوں کو ان  کے گناہوں کے سبب غلام بنادیتا ہے اور غلاموں کو ان کی اطاعت کے سبب بادشاہ قرار دیتاہے۔ میں محتاج ہوگئی ہوں مجھے کچھ صدقہ دیجئے یوسف(ع) نے کہا خدا کی نعمت کو حقیر سمجھنا اور اس کا کفران کرنا بندے کے لیے ہمیشہ کی رکاوٹ پیدا کردیتا ہے لہذا خدا کی طرف بازگشت کرو تاکہ وہ گناہ کے دھبے کو تیری توبہ سے دھودے بے شک دعا کی قبولیت کے لیے دلوں کی پاکیزگی اور اعمال کی نیکی اور صفائی شرط ہے زلیخا نےجواب میں کہا ابھی میں نے توبہ و انابت اور گذشتہ غلطیوں کے تدارک سے فراغت نہیں پائی لہذا خدا سے شرم کرتی ہوں کہ عفو کے مقام میں آؤں اور اس ذات مقدس سے طلب رحمت کروں کہ ابھی آنسو نہیں بہے ہیں اور دل سے اپنی ندامت کے حق کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے او اطاعت کی طرف سے گداختہ نہیں ہوئی ہوں( پشیمان نہیں ہوئی ہوں) یوسف(ع) نے کہا توبہ کرو اور اسکی شرائط میں کوشش اور اہتمام کرو کیونکہ راہِ عمل کھلی ہوئی ہے اور دعا کا تیر قبولیت کے نشانے پر پہنچتا ہے قبل اس ے کہ عمر کے ایام اور گھڑیاں ختم ہوں اور حیات کی مدت تمام ہو، زلیخا نے کہا میرا بھی یہی عقیدہ ہے اگر آپ میرے بعد زندہ رہ گئے تو یہ عنقریب سن لیں گے یوسف(ع) نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ گائے کی کھال سونے سے بھر کر اس کودے دو۔ زلیخا نے کہا روزی یقینا خدا کی جانب

۱۱

سے مقرر ہے او پہنچتی ہے رزق کی وسعت اور راحت و عیشِ زندگانی کو اس وقت تک نہیں چاہتی جب تک کہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوں۔ اس کےبعد یوسف(ع) کے بعض فرزندوں نے پوچھا کہ یہ عورت کون تھی جس کی باتوں سے ہمارا جگر پارہ پارہ ہوگیا اور دل شگافتہ ہوگیا، فرمایا یہ راحت و شادمانی کی داعیہ ہے جو اب دام انتقام الہی میں گرفتار ہے پھر یوسف(ع) نے زلیخا کے ساتھ عقد کیا جب ان سے ہم بستر ہوئے تو ان کو باکرہ پایا پوچھا تم باکرہ کیونکر رہ گئیں حالانکہ مدتوں شوہر کے ساتھ زندگی بسر کی زلیخا نے کہا میرا شوہر نامرد تھا۔ اور مقاربت پر قادر نہ تھا۔

۱۲

مجلس نمبر۲

(۷ رجب ۳۶۷ھ)

فضیلت رجب

۱ ـ ابو جعفر محمد بن باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی ماہ رجب میں سے ایک دن کا روزہ رکھے شروع ماہ کا یاوسط یا آخر ماہ کا تو خدا بہشت کو اس کے لیے کھول دیتا ہے اور روز قیامت وہ ہمارے ساتھ ہم درجہ ہوگا اور جو کوئی دو دن ماہ رجب کے روزے  رکھے گا اس سے کہا جائے گا تیرا کردار (عمل) اس دہلیز پر پہنچا کہ خدا تمہارے گذشتہ تمام گناہ  معاف کردے گا اور جو کوئی ماہ رجب کے تین روزے رکھے گا اس سے کہا جائے گا تیرے گذشتہ و آئندہ گناہ معاف ہوگئے۔ لہذا اپنے گناہ گار بھائیوں میں سے جس کی چاہو شفاعت کرو اور اپنے دوستوں میں سے بھی جس کی چاہو شفاعت کرو اور جو کوئی سات دن ماہ رجب کا روزہ رکھے گا تو اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کردئیے جائیں گے اور جو کوئی آٹھ دن ماہ رجب کے روزے رکھے گا اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔

۲ ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو چار چیزوں سے ڈرتا ہے تو وہ ان چار چیزوں سے کیوں مدد نہیں چاہتا ؟ تعجب ہے کہ جو شخص خوف زدہ ہے اور وہ اﷲ کے اس قول سے مدد کیوں نہیں لیتا”حسبنا اﷲ و نعم الوکيل“ ( ہمارے لیے اﷲ کافی ہے اور کیا بہتر وکیل ہے) اس لیے کہ میں نے اس کے بعد یہ قول بھی سنا ہے کہ

” فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ“(آل عمران، ۱۷۴)

” پھر چلے آئے مسلمان اﷲ کے احسان اور فضل کے ساتھ کچھ نہ پہنچی ان کو برائی۔“

اور مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو کسی غم میں مبتلا ہے مگر وہ اﷲ تعالی کے اس قول سے مدد نہیں لیتا۔

” لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمينَ “ (الانبیاء، ۸۷)” نہیں ہے کوئی خدا سوائے تیرے تو

۱۳

 پاک ہے  بے شک میں ظالموں ( زیادتی کرنے والوں) میں سے ہوں“ اس لیے میں نے اس کے بعد خدائے عزوجل کا یہ قول بھی سنا ہے۔ ”فَاسْتَجَبْنا لَهُ وَ نَجَّيْناهُ مِنَ الْغَمِّ وَ كَذلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنينَ“ (الانبیاء، ۸۸)

پھر سن لی ہم نے اس کی فریاد اور بچالیا اس کو اس غم (گھٹن) سے اور سی طر ہم بچاتے ہیں مومنین کو (ایمان والوں کو)۔“

اور مجھے تعجب جہے اس شخص پر جس کے ساتھ مکر و فریب کیا جائے وہ اﷲ کے اس قول سے کیوں مدد نہیں طلب کرتا”وَ أُفَوِّضُ أَمْري إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصيرٌ بِالْعِبادِ “ (غافر، ۴۴) میں حوالے کرتا ہوں اپنے کام کو اﷲ کے بے شک سب بندے اﷲ کی نگاہ میں ہیں“ اس لیے کہ اس کے بعد میں نے اﷲ کے اس قول کو بھی سنا ہے کہ ”فَوَقاهُ اللَّهُ سَيِّئاتِ ما مَكَرُوا “ (غافر، ۴۵) پھر انہوں نے بچایا ان تدبیروں کی برائیوں سے جو وہ کرتے تھے“۔

اور مجھے تعجب ہے کہ جو شخص دنیا اور اس کی آسائش چاہتا ہے وہ اﷲ تعالی کے اس قول سے کہوں مدد نہیں لیتا”ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ “ ( کہف، ۳۹) ہوی ہوتا ہے جو اﷲ چاہتا ہے نہیں ہے کوئی طاقت مگر خدا کی “ اس لیے کہ میں نے اس کے بع اﷲ تعالی کا یہ قول بھی سنا ہے ”إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مالاً وَ وَلَداً فَعَسى‏ رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْراً مِنْ جَنَّتِكَ “ (کہف ، ۳۹۔۴۰) اگر تو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں تو مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دیگا“ اور یہاں عسی سے مراد لازمی ہے۔

۳ـ          امام علی بن موسیٰ رضا(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے آباء(ع) سے اور انہوں نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ خدا فرماتا ہے وہ بندہ مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو میرے کلام میں اپنی مرضی اختیار کرے اور وہ مجھے نہیں پہچانتا جو مجھے مخلوق کی طرح جانتا ہے وہ شخص میرے دین میں نہیں ہے کہ جو میرے احکام دین میں قیاس کو داخل کرتاہے۔

۴ـ          امام علی بن موسی رضا(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے اجداد(ع) سے انہوں نے امیرالمومنین(ع) نے روایت کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی میرے حوضِ کوثر کو معتقد نہیں اُس کے لیےحوض تک جانے کا کوئی راستہ نہیں اور کوئی میرے شفاعت کا معتقد نہیں خدا اس کو میری

۱۴

 شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ پھر فرمایا بے شک میری شفاعت خاص اہل گناہان کبیرہ کے لیے ہے جو میری امت سے ہیں اور میری امت کے نیک لوگوں کےلیے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ حسین بن خالد راوی حدیث کہتاہے : میں نے امام علی رضا(ع) سے عرض کیا یابن رسول اﷲ(ص) یہ قول خدا اس صورت میں کیا معنی رکھتا ہے کہ شفاعت نہیں کرے گا مگر وہ کہ جس کو خدا پسند کرے گا(انبیاء ، ۲۸) امام(ع) نے فرمایا یعنی شفاعت نہیں کرے گا مگر وہ بندہ کہ جس کی دیانت کو خدا پسند کرے گا۔

۵ـ          ابان احمر۔ امام جعفر صادق(ع) سے روایت کرتا ہے کہ ایک شخص آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مرے ماں باپ آپ(ع) پر قربان ہوں مجھے کوئی نصیحت کیجیئے۔

آپ(ع) نے فرمایا کہ اگر اﷲ تالی ہی رزق(روزی) کا کفیل (ضامن) ہے تو یہ غم ( دوڑدھوپ) کس کے لے ہے اور اگر رزق تقسیم ہوچکا ہے تو پھر تیرا لالچ کس لیے ہے اور اگر حساب درست ہے تو پھر مال جمع کرنا کس لیے ہے اور اگر بدلہ خدا کی طرف سے ملنا ہے تو یہ بخل کس لیے ہے اگر ثواب خدا کی طرف سے ہے یہ سستی کس لیے ہے اور اگر سزا خدا کی طرف سے دوزخ(جہنم) ہے تو یہ نافرمانی کس لیے ہے اور اگر موت برحق ہے تو پھر یہ خوشی کس لیے ہے اور اگر خدا کے سامنے پیش ہونا درست ہے تو یہ مکر و فریب کس لیے ہے اور اگر شیطان دشمن ہے تو پھر یہ غفلت کس لیے ہے اور اگر پل صراط سے گزرنا حق ہے تو یہ خودبینی (غرور، تکبر) کس لیے ہے اور اگر ہر چیز اﷲ کی قضاء و قدر سے ہوتی ہے تو پھر یہ رنج و حزن و ملال کس  لیے ہے او اگر دنیا فانی ہے تو پھر اس پر اعتماد و بھروسہ کس لیے ہے۔

فضائل علی(ع)

۶ـ           جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) میری امت میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں دانش میں وہ سب سے پہلے ہیں ان کا دین تمام سے زیادہ درست ہے اور ان کا یقین سب سے بلند ہے اور حلم میں طاقتور ہیں ان کا ہاتھ تمام سے زیادہ کھلا

۱۵

ہے (سخی ہیں) اور سب سے زیادہ بہادر و شجاع ہیں اور وہ میرے بعد امام و خلیفہ ہیں۔

۷ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا علی(ع) آسمان ہفتم میں خورشید (سورج) کی طرح جیسا کہ وہ دن کو روشن ہوتا ہے روشن ہیں اور دنیا میں ایسے ہیں جیسے چاند رات کو اس دنیا میں روشن ہوتا ہے خدا نے علی(ع) کو فضیلت کا وہ حصہ عطاء کیا ہے کہ اگر اہل زمین میں تقسیم ہوتو یہ ان تمام کو گھیرے ہوگا اور خدا نے انہیں فہم سے وہ حصہ دیا کہ اگر تمام اہل زمین میں تقسیم  کیا جائے تو تمام کو گھیرے ہوگا یہ لوط(ع) کی نرمی رکھتے ہیں اور خلق یحیی(ع) و زہد ایوب(ع) اور سخاوت میں ابراہیم(ع) کی مانند ہیں ان کی خوشی سلیمان(ع) بن داؤد(ع) کی خوشی کی طرح ہے ان کی طاقت داؤد(ع) کی طاقت کی طرح ہے ان کا نام تمام پرزہ ہائے بہشت پر آویزاں ہے اور میرے پروردگار نے مجھے اس کے وجود کی خوشخبری دی ہے۔ یہ خوشخبری اس سے تھی جو میرے اور علی(ع) کے درمیان اﷲ تعالی کے نزدیک قائم ہے اور فرشتوں کے نزدیک جو تزکیہ شدہ ہے وہ خاص میرا ہے اور میرا اعلان میرا چراغ ہے اور میری جنت اور میرا رفیق ہے۔ میرے رب نے مجھے ان سے مانوس کیا میں نے اس (خدا) سے درخواست کی کہ مجھ سے پہلے ان کی جان قبض نہ کرنا اور میں نے درخواست کی کہ میرے بعد فیض شہادت سے ان کی جان قبض کرنا اور جب میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حوریانِ علی(ع) درختوں کے پتوں پر تکیہ کیے ہیں( یعنی درختوں کے پتوں کی طرح بے شمار ہیں) قصور علی(ع) ( قصر کی جمع محلات۔ رہنے کے بہترین مقامات) تعداد انسان کے برابر ہیں علی(ع) مجھ سے ہیں۔ اور میں علی(ع) سے ہوں۔ جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے۔ علی(ع) سے دوستی(محبت) اور انکی پیروی نعمت ہے یہ جان لو کہ فرشتے ان کے معتقد ہیں اور صالح جنات ان کے نزدیک ہیں۔ اور میرے بعد کوئی بھی اس زمین پر علی(ع) سے بہتر زندگی نہیں گزار رہا۔

وہ (علی(ع)) نہ سخت ہیں نہ آسان اور نہ جلد بازان کی فضیلت کا انکار اور ان سے بغض و عناد تباہی ہے۔ زر اور زمین ان کو اٹھائے ہوئے اور عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کے نزدیک میرے بعد ان سے زیادہ عزیز ترین کوئی پیدا نہیں ہوا۔ وہ جس جگہ اس زمین پر آئے ہیں( خانہ کعبہ) خدا نے اس جگہ کو جائے امن قرار دیا۔ خدا نے ان پر حکمت کا نازل کیا اور اس کے فہم کو مکمل کیا۔ فرشتے

۱۶

ان کے ہم نشین ہوئے جنہیں وہ دیکھتا ہے اگر میرے بعد کسی آدمی کو وحی ہوئی تو وہ وحی ان تک پہنچی ہے خدا نے ان کے وجود کو زینت بخشی اور انہیں کی وجہ سے محفلوںکو۔ خدا نے ان کے عساکر کو گرامی رکھا اور ملک کو ارزانی عطا کی۔ ان کی مثال خانہ خدا( بیت الحرام) کی ہے۔ جس کی زیارت کے لیے جایا جاتا ہے اور کسی اور کی زیارت کو نہیں جایا جاتا۔ ان کی مثال چاند کی سی ہے کہ جب بھی طلوع ہوتا ہے ہر تاریکی پر چھاجاتا  ہے جیسا کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز کو روشن کردیتا ہے خدا نے اپنی کتاب میں انکا ذکر کیا اور اپنی آیات میں انکی مدح کی اور ان کے وصف کو بیان کیا اور ان کی منازل کو جاری رکھا  وہ جب تک زندہ ہیں گرامی ہیں اور ان کا مرنا شہادت کے ساتھ ہے اور وہ سعادت ہے۔

۱۷

مجلس نمبر ۳

(۵ رجب سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           انس کہتے ہیں میں نے جناب رسول خدا(ص) سے سنا۔ کہ جوکوئی ایک دن ماہ رجب کا روزہ عقیدت و قصد قربت سے رکھے گا تو خدا اس کے اور دوزخ کے درمیان ستر خندقیں بنائے گا کہ ہر خندق کی چوڑائی زمین و آسمان کے فاصلہ کے برابر ہوگی۔

۲ـ           امام علی بن موسی رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی روز اول رجب کا روزہ رکھے گا ثواب کی رغبت سے تو خدا اس کے لیے بہشت کو واجب کرے گا اور جو کوئی وسط رجب کا روزہ رکھے گا تو اس کی شفاعت مانند دو قبیلہ ربیعہ و مضر کے برابر قبول کی جائے گی جو کوئی رجب کے آخر کا روزہ رکھے گا تو خدا اس کو بہشت کے بادشاہوں میں قرار دے گا اور اس کی شفاعت ماں، باپ، بیٹی ، بھائی و بہن و چچا پھوپھی و دائی و خالہ وواقف گیر ہمسائے کے بارے قبول ہوگی اگر چہ ان میں دوزخ کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں۔

حبِ علی(ع) کا فائدہ

۳ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا میری اور میرے خاندان کی محبت سات جگہ پر فائدہ مند ہے کہ ہر ایک جگہ پر سخت ترین خوف ہے (۱) موت کے وقت۔(۲) قبر میں (۳) قبر سے باہر نکلنے کے وقت۔(۴) نامہ اعمال کے وقت (۵) حساب کے نزدیک (۶) میزانکےپائےپر(۷) پل صراط پر۔

۴ـ          امام محمد بن علی باقر(ع) نے فرمایا کہ جنابِ رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا کہ خدا کے بندوں میں بہترین بندے کون سے ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا وہ ایسے ہیں کہ جب خوش خلقی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ جب بد کرداری کرتے  ہیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں جب عطا کو پاتے ہیں تو شکر گزاری کرتے ہیں جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو شکیبا ( صابر) ہوتے ہیں اور جب

۱۸

 انہیں غصہ آتا ہے تو درگزر کرتے ہیں۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) کو قول بیان فرمایا کہ جو مسافر ثواب کی نیت سے نماز جمعہ پڑھےگا تو خدا اس کو سو نماز جمہ قائم کرنے کا اجر دے گا۔

۶ـ           ابن عباس(رض) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ میرے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کا مخالف کافر ہے۔ اور اس کافر و مشرک سے محبت کرنے والا بھی کافر ہے علی(ع) کا محب مومن اور علی(ع) کا دشمن منافق ہے علی(ع) سے جنگ کرنے والا دین سے خارج ہے۔ اس کو رد کرنے والا نابود ہے۔ جو کوئی اس (علی(ع)) کا پیرو ہے اس نے حق کو پالیا۔ علی(ع) نورِ خدا ہے اور اس کے شہر (زمین) میں اس کی حجت ہے اسکے بندوں پر علی(ع) خدا کے دشمنوں کے لیے شمشیرِ خدا (سیف اﷲ) ہے وہ علمِ انبیاء(ع) کا وارث ہے علی(ع) خدا کا بلند کلمہ ہے اور اس کے دشمنوں کا کلمہ سب سے پست ہے۔ علی(ع) سید اوصیا ہے اور وصی سید انبیاء ہے وہ امیرالمومنین(ع) ہے اور نورانی چہروں اور نورانی ہاتھوں والوں کا قائد ہے وہ مسلمانوں کا امام ہے۔ اس کی ولایت کا اقرار اور اس کی اطاعت کے بغیر ایمان ہرگز قبول نہیں ہوتا۔

۷ـ          ایک دن رسول خدا(ص) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اے بندہ خدا کسی سے دوستی رکھو تو خدا کےلیے کسی سے دشمنی رکھو تو خدا کے لیے۔ کسی سے مہر کرو تو اﷲ کے لیے اور غصہ کرو تو خدا کے واسطے۔ کیوںکہ اس کے علاوہ کسی کو خدا کی ولایت نہیں پہنچے گی اور وہ بندہ ایمان کی لذت کو نہ چائے گا چاہے کتناہی روزے رکھنے والا اور بے شمار نمازیں پڑھنے والا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ تم میں وہ لوگ جو دنیا کی راہ میں لگے ہیں اور اس کے کنارے ( مال و آسائشات) سے محبت کرتے ہیں اور خدا کے کنارے ( اس کے دین اور احکام ) سے دشمنی کرتے ہیں ان کے لیے خدا کے پاس فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہے اس صحابی نے آںحضرت(ص) سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) کس طرح معلوم ہو کہ ہماری دشمنی اور دوستی صرف خدا کے لیے ہے اور خدا کا محب(دوست) کون ہے تاکہ اس سے محبت کی جائے اور اس کا دشمن کون ہے تاکہ اس سے دشمنی کی جائے۔ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اس مرد کو دیکھ رہے ہو عرض کیا ہاں فرمایا اس کو دوست خدا کا دوست ہے اس سے محبت رکھو اس کا دشمن خدا کا دشمن ہے اس کے دشمن کو دشمن سمجھو اس کی محبت کو اپنی محبت قرار دو۔ اگرچہ

۱۹

 یہ علی(ع) تیرے باپ کا قاتل ہی کیوں نہ ہو اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ اگر چہ وہ تیرا باپ یا تیرا فرزند ہی کیوں نہ ہو۔

۸ـ          امام ابو عبداﷲ صادق(ع) نے فرمایا میں تین آدمیوں کو قابل رحم سمجھتا ہوں جو اس رحم کے حقدار ہیں وہ عزیز کہ عزت کے بعد خوار ہوجائے۔ وہ غنی کہ جو محتاج ہوگیا ہو۔ وہ عالم کہ اس کو اس کا خاندان اور جاہل لوگ خوار شمار کرتے ہوں۔

۹ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ لوگوں کو تم مال کے ذریعے اپنی طرف مائل نہیں کرسکتے لیکن اپنے اچھے اخلاق سے ان کو اپنی طرف مائل کرسکتے ہو۔

۱۰ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ میں نے رسول خدا(ص) نے سنا اے علی(ع)! اس ذات کی قسم کہ جس نے  دانے کا شگافتہ کیا اور ہر جاندار کو پیدا کیا حق کے ساتھ تم میرے بعد بہترین خلیفہ ہو اے علی(ع) تم میرے وصی ہو اور میری امت کے امام ہو جو کوئی تیری فرمانبرادری  کرتا ہے وہ میری فرمانبرداری کرتا ہے اور جو کوئی تیری نافرمانی کرتا ہے اس نے میری نافرمانی کی ہے۔

۲۰

مجلس نمبر۴

(سلخ رجب سنہ۳6۷ھ)

وصی پیغمبر(ص) کون ہے

۱ ـ          سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے پوچھا کہ آپ(ص) کی امت سے آپ کا وصی کون ہے کیونکہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ اس نے اپنی امت سے وصی قرار دیا ہے رسول خدا(ص) نے فرمایا ابھی تک میرے لیے یہ بیان نہیں ہوا سلمان کہتے ہیں میں کچھ مدت خدا سے درخواست کرتا رہا اور اشتیاق میں رہا پھر ایک دن میں مسجد میں آیا تو رسول خدا(ص) نے مجھے آواز دی اور فرمایا اے سلمان تم سے مجھ سے میرے وصی کے بارے میں پوچھا تھا تم بتاؤ کہ وصی موسی(ع) کون تھے؟ میں نے کہا ان کے وصی یوشع بن نون(ع) تھے پیغمبر(ص) نے تھوڑا تامل کیا پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ انھوں نے یوشع کو اپنا وصی کیوں بنایا میں نے کہا خدا اور اس کا رسول اس کو زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا ان کو اس لیے وصی بنایا گیا کیوںکہ یوشع(ع)، موسی(ع) کے بعد ان کی امت کے سب سے بڑے عالم تھے اور میرا وصی اورمیری امت کا عالم میرے بعد علی(ع) ابن ابی طالب(ع) ہے۔

۲ ـ          لیث بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ جب میں جنابِ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ علی(ع)، فاطمہ(س)، حسین(ع) آپس میں یہ فرمارہے ہیں کہ ان میں سے کون جنابِ رسول خدا(ص) کے زیادہ نزدیک ہے۔ اسی اثناء میں جنابِ رسول خدا(ص) تشریف لائے، اور فاطمہ(س) کو آغوش میں لیا پھر علی(ع) کو اپنے قریب کیا اور حسن(ع) اور حسین(ع) کو دائیں اور بائیں کاندھے پر سوار کر کے فرمایا تم سب مجھ سے اور میں تم سے ہوں۔

۳ ـ         رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی جب بھی اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے اور سورة ”قل ہو اﷲ“ کو پڑھے تو خدا اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کردیتا ہے۔

۴ ـ         ہارون بن حمزہ کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق(ع) سے سنا کہ اﷲ نے چار ہزار فرشتے پیدا

۲۱

کیئے جو گرد آلود حالت میں قیامت تک امام حسین(ع) کی قبر مبارک پر گریہ کرتے ہیں گے۔ جو زائر قبر امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جائے گا یہ فرشتے اس کی زیارت کریں گے اور اس زائر کی زیارت اس طرح قبول کی جائے گی گویا اس نے میری زیارت کی اگر وہ بیمار ہوگا تو اس کی عیادت کی جائے گی اگر مرجائے گا تو اس کا تشیع جنازہ کروایا جائے گا اور وہ فرشتے قیامت تک اس کی مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔

۵ ـ         ابوحمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا سے اتنے زیادہ امیدوار مت ہوجاؤ کہ گناہوں پر دلیر ہوجاؤ۔ اور نہ ہی اتنے خوف زدہ ہوجاؤ کہ اس کی رحمت سے مایوس ہوجاؤ۔

6 ـ          پیغمبر(ص) نے فرمایا۔ اے لوگو! بے شک اﷲ نے میری اطاعت تم پر فرض کی ہے اور میری نافرمانی کرنے سے تم کو منع کیا ہے اور میرے امر کی پیروی کو تم پر واجب کیا ہے اور میرے بعد تم پر فرض کیا گیا ہے کہ علی(ع) کی اطاعت کرو جس طرح میری اطاعت فرض کی گئی ہے اور تم کو منع کیا گیا ہے علی(ع) کی نافرمانی سےجس طرح میری نافرمانی سے منع کیا گیا ہے۔ خدا نے اس کو میرا وزیر و وصی و وارث قرار دیا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اس کی دوستی ایمان ہے اور اس کی دشمنی کفر ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اس کا دشمن میرا دشمن ہے وہ مولا و آقا ہر اس آدمی کا ہے کہ جس کو مولا و آقا میں ہوں اور میں ہر مسلمان مرد و عورت کا مولا ہوں میں اور وہ اس امت کے دو باپ ہیں۔

۷ ـ         علی بن سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں امام صادق(ع) کی خدمت میں ماہِ رجب میں گیا کہ اس کے چند دن باقی تھے جب آپ(ع) نےمجھے دیکھا تو فرمایا اے سالم اس مہینے کوئی روزہ رکھا ہے عرض کیا بخدا نہیں یا ابن رسول اﷲ(ص) فرمایا اس کے ثواب کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا تیرے ہاتھ سے جاتا ہوا یہ مہینہ ایسا ہے کہ خدا نے اس کو بہت فضیلت دی ہے اور اس کے احترام کو عظیم کیا ہے اور اپنی کرامت کو اس کے روزہ دار کے لیے کھلا کیا ہے میں نے عرض کیا یاابن رسول اﷲ جو کچھ اس ماہ میں باقی رہ گیا ہے اس کا روزہ رکھوں تو دیگر روزہ داروں کی

۲۲

 طرح ثواب مل جائے گا۔ فرمایا اے سالم۔ جوکوئی ایک دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے امان ہے جان دینے کی سختی میں اور امان ہے ہر خوف ناک موت سے اور عذاب قبر سے اور جو کوئی دو دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے وہ وسیلہ اس کا پل صراط سے گزرنے کا ہے اور جو کوئی تین دن اس ماہ کے آخر کا روزہ رکھتا ہے تو روز قیامت کی سختیوں اور دوزخ سے اسے نجات ملے گی۔

۸ ـ         رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تیرے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں جو کوئی ان میں سے کسی ایک اہانت کرتا ہے اس نے تیری اہانت کی اور جوکوئی تیری اہانت کرے اس نے میری اہانت کی ہے اور جو کوئی میری اہانت کرتا ہے خدا اس کو آتش دوزخ میں گرادے گا۔ کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یہ کیا برا انجام ہے اے علی(ع) تم  مجھ سے ہو اور میں تم سے تمہاری روح میری روح ہے تمہاری طینت میری طینت سے ہے اور تمہارے شیعہ پیدا ہوئے ہماری اضافی طینت سے جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے ہم کو دوست رکھتا ہے جو کوئی ان کو دشمن رکھتا ہے ہم کو دشمن رکھتا ہے اور جو کوئی ان سے پیار کرتا ہے وہ ہم سے پیار کرتا ہے اے علی(ع) کل میں مقام محمود پر کھڑا تمہارے شیعوں کی شفاعت کروں گا اے علی(ع) یہ خوشخبری ان کو دے دو اے علی(ع) تمہارے شیعہ خدا کے شیعہ ہیں اور تمہارے مددگار خدا کے مددگار ہیں تمہارے دوست خدا کے دوست ہیں تمہاری حزب خدا کی حزب ہے اے علی(ع) سعادت مند ہے وہ بندہ جو تمہیں دوست رکھتا  ہے اور بدبخت ہے وہ جو تمہیں دشمن رکھتا ہے اے علی(ع) تمہارے لیے بہشت میں خزانہ ہے اور دونوں طرف سے اس پر تسلط رکھتے ہو حمد ہے اس پروردگارہے اور رحمت ہو اس کی بہترین خلق محمد(ص) پر اور ان کی آل پاک پر اور ان کا کردار نیک و نجیب وخوش رفتار ہے۔

۲۳

مجلس نمبر۵

(۲ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           امام جعفر صادق(ع) بن محمد(ع) نے فرمایا شعبان کا روزہ قیامت کےلیے ذخیرہ ہے جو بندہ شعبان میں روزہ رکھتا ہو خدا اس کی زندگی کے کاموں کی اصلاح کرے گا اور دشمن کےشرکو اس سے دور کرے گا سب سے کمتر ثواب جو کوئی ایک دن شعبان کا روزہ رکھے گا اس کے لیے یہ ہے کہ بہشت اس پر واجب ہو جاتی ہے۔

۲ـ           علی بن فضال اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے سنا علی بن موسیٰ رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی مغفرت طلب کرتا ہے خدا سے شعبان میں تو خدا ستر بار اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اگرچہ وہ ستاروں کی گنتی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ روز قیامت خدا سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نامہ، عمل، یگانہ پرستی، اور میری نبوت پر ایمان رکھے پھر آٹھ دروازے بہشت کے اس کے سامنے کھل جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا اے ولی خدا جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ جب صبح ہوگی تو وہ بندہ کہے گا حمد ہے اس خدا کی کہ جو تاریکی شب کو لے گیا اور اپنی رحمت سے دن کو لے آیا پھر اس سے کہا جائے گا اے نئی خلق خوش آمدید۔ خداوند نے تیرے دونوں کاتب تیرے محافظ زندہ رکھے ہیں۔ پھر پہلے دائیں طرف متوجہ ہوگا اور پھر اپنے بائیں طرف اور کہے گا ”بسم اﷲ الرحمن الرحيم“ سہارا اﷲ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا خاص فیض رساں ہے“ بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود حق بجز خدائے یگانہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا زندہ کرنے والا ہے ہر اس چیز کو جو قبروں میں ہے میں اس عقیدہ پر زندہ ہوں اور اسی پر مروں گا اور اسی پر اٹھایا جاؤں گا انشاء اﷲ، خدایا میرا سلام محمد(ص) اور ان کی آل تک پہنچا دے۔

۲۴

قیامت میں فاطمہ(س) کی سواری

۴ـ          ابو جعفر محمدبن علی باقر(ع) فرماتے ہیں کہ جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو میری بیٹی فاطمہ(س) جنت کے ایک ناقہ پر سوار ہوکر میدانِ محشر میں آئے گی اس ناقہ کے دونوں پہلوؤں پر ریشم و دیباج کے جھول لٹک رہے ہوں گے اس کی مہار تازہ موتیوںکی اس کے چاروں پائے زمرد سبز کے اسکی دم مشکِ اذفر کی اور اس کی آنکھیں سرخ یاقوت کی ہوں گی، اس کی پشت پر ایک قبہ ( ہودج) نور کا ہوگا جس کا ظاہر اس کے باطن سے نمایاں ہوگا اور باطن ظاہر سے نظر آئے گا اس کا باطن عفو الہی سے مملو ہوگا اور ظاہر رحمت الہی سے گھرا ہوا ہوگا ان(فاطمہ(س)) کے سر پر نور کا ایک تاج ہوگا اس تاج کے ستر رکن (گوشے) ہوں گے ہر رکن موتیوں اور یاقوت سے مرصع ہوگا اور یہ جوہرات میدان محشر میں یوں چمکتے ہوں گے جیسے آسمان پر ستارے چمکتے ہیں پھر ان کے دائیں طرف ستر ہزار فرشتے اور بائیںطرف ستر ہزار فرشتے ہونگے جبرائیل امین اس ناقہ کی مہار کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور بلند آواز سے ندا دیں گے کہ اے اہل محشر اپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ فاطمہ(س) بنت محمد(ص) کی سواری میدان محشر سے گزر جائے۔

اس دن کوئی رسول، نبی، کوئی صدیق، اور کوئی شہید ایسا نہ ہوگا جو اس اعلان کو سن کر اپنی آنکھیں بند نہ کرے یہاں تک کہ فاطمہ(س) گزر جائیں گی اور خود کو عرشِ پروردگار تک پہنچا دیں گی پھر خود کو ناقہ سے گرا دیں گی اور فریاد کریں گی اے میرے اﷲ ، اے میرے مالک تو میرے اورمجھ پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کردے خدایا میرے اور میرے بیٹوں کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ کردے اس وقت خدا کی طرف سے جواب آئے گا اے میری حبیبہ اور اے میرے حبیب(ص) کی بیٹی تم جو چاہو مانگو میں تمہیں عطا کروں گا اور جس کی چاہو شفاعت کرو میں قبول کروں گا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ آج کوئی ظالم مجھ سے نہیں بچ سکے گا، فاطمہ(س) عرض کریں گی اے میرے اﷲ اے میرے مالک آج میں اپنی ذریت اپنے محبوں اپنے شیعوں اور اپنی ذریت کے شیعوں کی

۲۵

 شفاعت کرتی ہوں پس اﷲ کی طرف سے آواز آئے گی کہاں ہے فاطمہ(س) کی اولاد، ان کے (فاطمہ(س) کے) شیعہ، ان کے محب، ان کی اولاد کے شیعہ، پس وہ لوگ اس شان سے آئیں گے کہ چاروں طرف سے رحمت کے فرشتے حلقہ کیئے ہوں گے اور فاطمہ(س) ان کی رہبر ہوںگی یہاں تک  کہ ان کو داخل بہشت کریں گی۔

۵ـ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی چاہے کہ وہ نجات کی کشتی پر سوار ہو، محکم حلقہ کے ساتھ ہو اور اﷲ کی رسی کو تھامے ہوئے ہو تو اسے چاہیے کہ میرے بعد علی(ع) کا حبدار ہو  اس کے دشمن کا دشمن ہو اور چاہیے کہ ان اماموں کی اقتدا کرے جو اس کے فرزندوں سے ہیں کیوںکہ یہ میرے خلفا و اولیا ہیں، حجت خدا ہیں اس کی مخلوق پر میرے بعد اور سردار ہیں میری امت کے اور پیشوا ہیں جنت کی طرف ان کی حزب(جماعت) میری حزب ہے اور میری حزب خدا کی حزب ہے اور اس کے دشمنوں کی حزب شیطان کی حزب ہے۔

۲۶

مجلس نمبر۶

(سات شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان خدا کا مہینہ ہے جو کوئی ایک دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا میں روز قیامت اس کا شفیع ہوں گا اور جو کوئی دو دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور جو کوئی تین دن میرے مہینے کا روزہ رکھے گا تو اس سے کہا جائے گا تیرا عمل محکم ہوگیا ہے  اور جو کوئی ماہ رمضان کا روزہ رکھے گا اور اپنی زبان کی حفاظت کریگا اور لوگوں کو تکلیف نہ دے گا خدا اس کے گذشتہ آئیندہ وگناہوں کو معاف کردے گا اور دوزخ سے اس کو آزاد کرے گا اور اس کو دار قرار میں لے آئے گا اور اس کی شفاعت  اہل توحید میں سے قبول کرے گا چاہے اس کے گناہ اعداد رمل یا کوہ عالج کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

۲ـ           امام موسی بن جعفر(ع) ہارون رشید کے ہاں پہنچے تو اس وقت وہ ایک آدمی پر غصے ہو رہا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا بے شک تو اس پر خدا کے لیے غصے ہو رہا ہے مگر تجھے اس پر اس کے علاوہ غصہ نہیں کرنا چاہئے۔

۳ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) ایک دفعہ کچھ آدمیوں کے پاس سے گزرے کہ وہ ایک پتھر کو اوپر کی طرف پھینک رہے تھے ۔( بطور پاپانسہ) اور ان کا یہ عمل بار بار تھا اور آپ(ص) نے ان سے فرمایا یہ کیا کام ہے؟ کہنےلگے اپنی کامیابی کی آزمائش کررہے ہیں آپ(ص) نے فرمایا کیا میں تم کو کامیاب ترین آدمی سے آگاہ کروں؟ عرض کرنےلگے کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے فرمایا طاقتور ترین اور کامیاب تر تم میں سے وہ بندہ ہے کہ جب وہ خوش ہوجائے تو اسکی خوشی اس کو گناہ و باطل کی طرف نہ کھینچے اور جب غصہ کرے تو اپنے غصہ کو گفتار حق سے ختم کردے اور جب طاقتور ہو تو ناحق کسی پر ہاتھ نہ ڈالے۔

۴ـ          یونس بن ظہبان کہتے ہیں امام جعفر بن محمد(ع) نے فرمایا کہ اپنی عبادت کو مشتہر کرنے سے اس

۲۷

کے خلوص میں شک ہوتا ہے میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے جد(ع) سے روایت کیا اور مجھے بتایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا سب سے بڑا عبادت گزار وہ آدمی ہے جو اپنے فرائض بجالائے سب سے بڑا سخی وہ آدمی ہے جو اپنے مال کی زکوٰة ادا کرے اورسب سے بڑا زاہد آدمی وہ ہے جو حرام سے اجتناب کرے سب سے بڑا صاحب تقوی (متقی) وہ ہے جو اپنے نفع و نقصان می سچ کہے اور سب سے بڑا عقل مند وہ آدمی ہے۔ کہ لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اور لوگوں کے لیے ناپسند کرئے جو وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، سب سے زیادہ ہوشیار و عقلمند آدمی وہ ہے جو موت کو شدت سے یاد کرے اور سب سے زیادہ رشک کے قابل وہ آدمی ہے جو زیرِ خاک چلا جائے اور عذاب و سزا سے محفوظ اور ثواب کی امید رکھتا ہو۔ سب سے بڑا غافل وہ ہے جو دنیا کے تغیرات(حالات) کو بدلتا ہوئے دیکھے اور پھر اس سے نصیحت حاصل نہ کرے سب سے بڑا معتبر وہ ہے جو دنیا پر اعتبار نہ کرے، اور سب سے بڑا عالم وہ ہے جس کے علم کے اندر تمام انسانوں کے علوم جمع ہوجائیں سب سے بڑا شجاع  وہ آدمی ہے جو اپنی خواہشات نفس پر غالب آجائے جو آدمی علم میں سب سے بڑا ہے اس کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ اور سب سے کم قیمت وہ آدمی ہے جو سب سے کم علم ہو، اور سب سے کم لذت حاصل کرنے والا حاسد ہے سب سے کم راحت پانے والا بخیل ہے اور سب سے بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو اس چیز میں بخل کرے جس کو خدا نے اس پر واجب کیا ہے سب سے زیادہ حق کا سزاوار وہ آدمی ہے جو ان میں سب سے زیادہ صاحب علم ہو اور جان لو کہ سب سے کم حرمت و عزت والا آدمی فاسق ہے اور سب سے کم وفادار آدمی غلام ہے اور کم دوست رکھنے والا آدمی فقیر ہے سب سے زیادہ مفلس و فقیر لالچی( طمع کرنے والا) ہے جب کہ سب سے بڑا غنی وہ آدمی ہے جو حرص کو اسیر(قیدی) نہ ہو اور ایمان میں سب سے بلند ترین ( افضل) وہ آدمی ہے جو بہت زیادہ خوش خلق ہو سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ صاحب تقوی ہو اور قدر ومنزلت میں سب سے بڑا وہ آدمی ہے جو بے معنی و بے مطلب باتوں کو ترک کردے سب سے زیادہ پرہیزگار آدمی وہ ہے جو دکھاوے کو چھوڑدے خواہ وہ اس کا حق  رکھتا ہو سب سےکم مروت آدمی وہ ہے جو جھوٹ بولتا ہو اور بدبخت تریں آدمی وہ ہے جو ( بداعمال) ہی

۲۸

 کیوں نہ ہو بادشاہ ہوتا ہے سب سے زیادہ قابل نفرت آدمی وہ ہے جو متکبر (غرور کرنے والا) ہو اور سب سے بڑا مجاہد وہ آدمی ہے جو گناہوں کو ترک کردے سب سے زیادہ فرزانہ آدمی وہ ہے جو جاہلوں سے گریز کرے سب سے زیادہ سعادت مند آدمی وہ ہے جو مکرم لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اور سب سے زیادہ عقلمند آدمی وہ ہے جو لوگوں سے زیادہ مدارات کرے سب سے زیادہ تہمت کا مستحق وہ آدمی ہے جو متہم ( تہمت لگانے والے) لوگوں کا ہمنشین ہو اور سب سے بڑا سرکش وہ آدمی ہے جو اسے قتل کرے جس نے کوئی قتل نہ کیا ہو اور اس کو مارے جس نے کسی کو نہ مارا ہو۔ وہ آدمی دوسروں کو معاف کرنے کا زیادہ حق دار ہے جو سزا دینے پر قدرت رکھتا ہو۔ سب سے زیادہ گناہ کا سزا وار وہ ہے جو سامنے تعریف کرے اور پیٹھ پیچھے غیبت کرے سب سے زیادہ ذلیل آدمی وہ ہے جو لوگوں کی اہانت اور بے عزتی کرے اور سب سے زیادہ حزم و احتیاط والا آدمی وہ ہے جو اپنے غصے کو پی جائے سب سے زیادہ با صلاحیت آدمی وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ صلح رکھے اور بہترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگ نفع حاصل کریں۔

۵ـ          جابر بن عبداﷲ انصاری کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نےفرمایا بے شک خدا نےمجھے برگزیدہ کیا اور مجھے رسول(ص) بنایا اور کتابوں کی سردار کتاب مجھ پر نازل کی جب میں ( رسول خدا(ص) )نے عرض کیا اے میرے مالک اے میرے معبود نے موسی(ع) کو فرعون کی طرف بھیجا تو اس نے تجھ سے چاہا کہ اس کے بھائی ہارون(ع) کو اس کےساتھ کردے اور اس کا وزیر بنا دے اور اس کے بازو سے اسے قوت دے میرے مالک تو نے اس کی بات کی تصدیق کی میں بھی میرے مالک میرے معبود تجھ سے خواہش رکھتا ہوں کہ میرے خاندان سے میرے لیے وزیر مقرر کردے اور میرے بازو کو اس کے ذریعے قوی کردے تو خدا  نے علی(ع) کو وزیر اور میرا بھائی بنایا اس کو بہادر کیا اور اس کی ہیبت کو دلِ دشمن میں قرار دیا اور وہ اول بندہ ہے کہ جو مجھ پر ایمان لایا اورمیری تصدیق کی اور وہ اول بندہ ہے کہ جس نے میرے ساتھ یگانہ پرستی( خدائے واحد کی عبادت ) کی میں نے اسے خدا سے مانگا اور خدا نے اس کو مجھے عطا  کیا وہ سید اوصیاء ہے اور اس کا آنا سعادت ہے اس کی اطاعت میں موت شہادت ہے اس کا نام تورات میں میرے نام کےساتھ ہے اس کی زوجہ

۲۹

 صدیقہ کبریٰ میری بیٹی ہے اور اس کے دو بیٹے اہل بہشت کے سردار ہیں اور یہ دونوں بیٹے میرے ہیں علی(ع) اور یہ دونوں اور باقی امام(ع) خدا  کی حجت ہیں اس کی مخلوق پر پیغمبروں کے بعد۔ اور علی(ع) میری امت میں علم کا دریا ہیں جو کوئی ان کی پیروی کرے گا نجات پائے گا دوزخ سے اور جو کوئی ان کی اقتدار کرے گا  تو یہ اسے صراط مستقیم کی رہبری کریں گے خدا ان سے دوستی رکھنے والے شخص کو بہشت کے علاوہ کہیں اور داخل نہیں کرے گا۔

۳۰

مجلس نمبر۷

( دس شعبان سنہ۳۶۷ھ)

فضائل شعبان

۱ـ           ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس ضمن میں کہ ان کے پاس فضائل شعبان کا مذاکرہ کیا گیا فرمایا شعبان مبارک مہینہ ہے اور یہ میرا مہینہ ہے اور حاملان عرش اس کو ماہ بزرگ شمار کرتے ہیں اور اس کے حق کو پہچانتے ہیں یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں مومنین کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے جس طرح ماہ رمضان میں اضافہ ہوتا ہے اور بہشت اس ماہ میں سجائی جاتی ہے اور اس کا نام شعبان اس لیے ہے کہ مومنین کا رزق اس میں منشعب (تقسیم ہونا پھیلایا جانا) ہوتا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں کی گئی ایک نیکی ستر نیکیوں کے برابر ہے اس میں بدی ختم ہوتی اور گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور نیکی قبول ہوتی ہے خدائے جبار اس میں اپنے بندوں کی احتیاج کرتا ہے اور اس میں روزہ رکھنے والوں اور رات کو جاگنے والوں پر نگاہ رکھتا ہے ( ملائکہ) حاملان عرش اسی مقصد کیلیے قائم ہیں۔ پس علی(ع) بن ابی طالب(ع) اٹھے اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اﷲ(ص) اس ماہ کے فضائل ہمارے لیے بیان کریں تاکہ شوق روزہ پیدا ہو اور اس ماہ میں ہماری عبادت میں اضافہ ہو اور رب جلیل کی رضا کے لیے اس ماہ میں کوشش کی جائے، پیغمبر(ص) نےفرمایا جو کوئی پہلی شعبان کو روزہ رکھےگا تو خدا اس کے لیے ستر نیکیاں لکھے گا جو عبادت کے برابر ہیں، جو کوئی دوسرے دن روزہ رکھے گا تو اس کے وہ گناہ جو ہلاک کردینے والے ہیں مٹادیئے جائیں گے جو کوئی تیسرے دن شعبان کا روزے رکھے گا ستر درجہ اس دروازے کے جو یاقوت کے ساتھ بہشت میں مرصع ہے اس کے لیے بلند کرے گا، جو کوئی چوتھی شعبان کا روزہ رکھے گا تو اس کے رزق میں وسعت ہوگی جو کوئی پانچواں دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے بندوں میں محبوب ہوگا۔ جو کوئی چھٹے دن کا روزہ رکھے گا تو ستر قسم کی بلائیں اس سے دور کی جائیں گی۔ جو کوئی ساتویں دن کا روزہ رکھے گا تو وہ ابلیس اور اس لشکر سے تمام عمر محفوظ رہے گا، جو کوئی آٹھویں دن کا روزہ رکھے گا تو دنیا سے نہ

۳۱

 جائے گا جب تک حوض قدس سے نوش نہیں کرلیتا جو کوئی نویں دن کا روزہ رکھے گا تو جس وقت قبر میں منکر نکیر سوالات کرتے ہیں نہیں کریں گے اور وہ مورد لطف ٹھہرایا جائے گا۔ جو کوئی دسویں دن شعبان کا روزہ رکھے گا تو خدا ستر ذراع اس کی قبر کو وسعت دے گا، جو کوئی گیارہویں دن کا روزہ رکھے گا اس کی قبر میں گیارہ چراغ نور کے روشن ہوں گے جو کوئی بارہویں دن کا روزہ رکھے گا اس ماہ میں تو ہر روز نوے ہزار فرشتے اس کی قبر میں اسے دیکھنے کے لیے آتے  رہیں گے یہاں تک کہ صور پھونگا جائے، جو کوئی تیرہویں شعبان کا روزہ رکھے گا تو فرشتے سات آسمانوں کے فرشتے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے جو کوئی چودہویں دن کا رزہ رکھے گا تو جانوروں اور درندوں کو الہام ہوگا کہ اس کے لیے مغفرت طلب کریں یہاں تک جکہ دریا کو مچھلیوں کو بھی اس سے مطلع کیا جائے گا۔ جو کوئی اس ماہ کے پندرہویں دن کا روزہ رکھے گا۔ تو رب العزت اس کو ندا دے گا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں تجھے آتشِ جہنم میں نہیں جلاؤں گا، جو کوئی سولہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے لیے آگ کے ستر(۷۰) دریا بجھا دیئے جائیں گے جو کوئی سترہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس پر بہشت کے تمام دروازے کھول دیئے جائیں گے جو کوئی اٹھارہویں دن کا روزہ رکھے گا تو اس پر دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے جو کوئی انیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو ستر ہزار قصرِ بہشت ، در اور یاقوت کے اس کو عطا کیے جائیں گے جو کوئی بیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو ستر ہزار بہشت کی حوروں کے ساتھ اس کی تزویج کی جائے گی جو کوئی اکیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو فرشتے اس کو مرحبا کہیں گے اور اپنے بالوں کو اس کے ساتھ مس کریںگے جو کوئی بائسویں دن کا روزہ رکھے گا تو سر ہزشارا حلة سندس و استبرق اس کو پہنائے جائیں گے جو کوئی تیئسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا اسے ایک نوری وسیلہ حرکت عطا کرے گا تاکہ اپنی قبر سے بہشت میں پرواز کرے جو کوئی چوبیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا ستر ہزار توحید پرستوں کے لیے اس کی شفاعت قبول کرےگا جو کوئی پچیسویں دن کا روزہ رکھے گا وہ نفاق سے بری ہوگا جو کوئی اس ماہ کے چھبیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا اسے پل صراط پر سے گزرنے کا اجازت نامہ عطا کرے گا۔ جو کوئی اس کے ستائیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو خدا برائت نامہ دوزخ اس کے لیے لکھ دے گا، جو کوئی اس ماہ

۳۲

کے اٹھائیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو روز قیامت اس کا چہرہ چمکتا ہوگا، اور جو کوئی اس ماہ کے انتیسویں دن کا روزہ رکھے گا تو اسے خدا کے رضوان اکبر کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اور جو کوئی تیسویں دن ماہ شعبان کا روزہ رکھے گا تو جبرائیل عرش کے سامنے سے اس کو ندا دے گا کہ اے فلاں تم نے اپنے عمل کو مضبوط کر لیا ہے اور جو گناہِ اس سے پہلے تجھ سے ہوئے اس معاف ہوگئے ہیں۔ خدا فرماتا ہے چاہے تیرے گناہ آسمان کے ستاروں، بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں، ریگستاں اور خاک کے زروں کے برابر اور ایام دنیا کے برابر ہی کیوں نہ ہوں میں نے وہ سب معاف کردیئے ہیں اور یہ خدا کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے اس کے بعد ماہِ رمضان ہے لہذا تم شعبان کا روزہ رکھو، ابن عباس(رض) کہا لوگو! یہ ہے شعبان کے مہینے کی فضیلت۔

۲ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) ایک دن منبر کوفہ پر بیٹھے اور فرمایا میں اوصیاء کا سردار ہوں میں وصی سید الانبیاء ہوں۔ میں تمام مسلمانوں کو امام ہوں، میں متقیوں کا پیشوا ہوں، میں تمام عورتوں کی سردار کا شوہر ہوں، میں وہ ہوں جو دائیں ہاتھ میں انگشتری پہنتا ہے، میں وہ ہوں     جو اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتا ہے، میں وہ ہوں جس نے دو ہجرتیں کی ہیں اور دو بیعتیں کی ہیں،میں صاحبِ بدر و حنین ہوں میں دو تلواروں سے قتال کرنے والا جہوں، میں دو گھوڑوں پر بیٹھ کر جنگ کرنے والا ہوں، میں وارثِ علم اولین ہوں، میں عالمین پر پیغمبروں کے بعد خدا کی حجت ہوں اور محمد بن عبداﷲ خاتم الانبیاء(ص) ہیں۔ میں ان کا دوست ہوں، مرحوم(رحمت کیا گیا) ہوں اور میرا دشمن ملعون ہے، میں رسول خدا(ص) کا بہت خاص دوست ہوں، رسول خدا(ص) نے فرمایا اے علی(ع)، تیری محبت تقوی و ایمان اور تیری دشمنی کفر و نفاق ہے میں (محمد(ص)) حکمت کو گھر ہوں اور تم (علی(ع)) اس کی چابی ہو وہ شخص جھوٹا ہے جو یہ گمان کرے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے مگر تیرا دشمن ہے، وصلی اﷲ علی محمد و آلہ الطاہرین۔ ( جناب صدوق(رح) نے اسی دن مجلس کے بعد درج ذیل حدیث کو بیان فرمایا۔)

۳ـ          عبدا لرحمن بن سمرہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) مجھے نجات کی رہبری کریں فرمایا اے ابن سمبرہ جس وقت خیالات مختلف اور رائیں متفرق ہوجائیں تو تم علی ابن ابی طالب(ع) کے

۳۳

ساتھ ہوجانا کیونکہ وہ امام ہے اورمیرے بعد تم پر خلیفہ ہے وہ فاروق ہے جو تشخیص کرتا ہے۔ حق و باطل کے درمیان اور جو کوئی اس سے سوال پوچھے اس کو جواب دیتا ہے جو کوئی اس سے راہنمائی چاہے وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے جو کوئی اس  سے حق طلب کرے اس کو دیتا ہے جو کوئی اس سے ہدایت طلب کرے اسے ہدایت ملتی ہے جو بھی اس سے پناہ طلب کرے اس کو پناہ دیتا ہے اور جو کوئی اس سے متمسک ہوتا ہے اس کو نجات دیتا ہے جو کوئی اس کی اقتدا کرتا ہے اس کی رہبری کرتا ہے، اے بن سمرہ وہ سلامت رہا جس نے اس کو تسلیم کیا اور اس کو دوست کرکھا اور وہ ہلاک ہوا جس نے اس کورد کیا اور اسے دشمن رکھا اے ابن سمرہ بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اس کی روح میری روح ہے اس کی طینت میری طینت سے ہے وہ میرا بھائی ہے میں اس کا بھائی ہوں وہ میری دختر فاطمہ(س) جو تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے( جو اولین و آخرین میں سے ہیں) کا شوہر ہے اس کے دو بیٹے میری امت کے امام ہیں یہ دونوں جوانان بہشت کےسردار ہیں او وہ حسن(ع) و حسین(ع) ہیں اور نو(۹) امام حسین(ع) کے فرزندوں سے ہیں کہ ان کا نواں قائم ہے جو میری امت اور زمین کو عدل و اںصاف سے پر کردے گا جیسا کہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔

۳۴

مجلس نمبر ۸

(۱۴ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           علی بن فضال اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ علی بن موسیٰ رضا(ع) سے نیمہ شعبان کی رات کے بارے میں پوچھا تو فرمایا یہ وہ رات ہے کہ اس میں خدا لوگوں کی گردنوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور گناہانِ کبیرہ کو معاف کرتا ہے میں نے کہا کیا دوسری راتوں کی طرح اس رات کی بھی عبادت ہے فرمایا اس میں کوئی وظیفہ نہیں لیکن اگر چاہو تو نافلہ پڑھ لو اور خدا کا ذکر اس رات زیادہ سے زیادہ کرو اور نمازِ جعفر بن ابی طالب(ع) پڑھو۔ زیادہ سے زیادہ استغفار کرو اور دعا مانگو کیونکہ میرے والد(ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اس رات میں دعا مستجاب ہوتی  ہے  میں نے امام(ع) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں یہ رات شب برات ہے فرمایا یہ رات شب قدر کی رات کی طرح ہے جو ماہ رمضان میں ہے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا ہے کہ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تمام خیر تین خصلتوں میں جمع ہے نظر میں سکوت میں (خاموشی میں) اور کلام میں ہر وہ نظر جو سبق حاصل کرنے کے لیے نہ ہو وہ سہو ہے ہر وہ خاموشی جس میں غور و فکر نہ ہو غفلت ہے اور ہر وہ کلام جس میں ذکر خدا نہیں ہے وہ لغو ہے خوش قسمت ہے وہ آدمی جس کی نظر عبرت جس کی خاموشی غور و فکر اور جس کا کلام ذکر الہی ہو اور وہ اپنی خطا پر گریہ کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔

زہد یحیٰ(ع)

۳ـ          عبداﷲ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا زہدِ یحی بن زکریا(ع) اس درجہ بڑھا ہوا تھاکہ ایک دن بیت المقدس میں آئے تو وہاں عالموںاور رہبوںکو دیکھا کہ اون کے پیراہن پہنے ہوئے اون کی ٹوپیاں سر پر رکھے ہوئے اور اپنے گلے میں زنجیریں ڈال کر مسجد کے ستونوں سے خود کو باندھے ہوئے ہیں یحیی(ع) نے جب اس حال میں ان کو دیکھا تو اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ مجھے بھی بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی بنادیں تاکہ بیت المقدس میں جاکر خدا کی عبادت

۳۵

زاہدوں اور راہبوں کے ساتھ کروں والدہ نے کہا ٹھہرو تمہارے والد پیغبر خدا آجائیں تو ان سے مشورہ کروںگی جب حضرت زکریا(ع) گھر آئے تو مادرِ یحییٰ نے ان کی بات کو ان کے سامنے پیش کیا زکریا(ع) نے فرمایا میرے پیارے بیٹے تم ابھی بہت چھوٹے ہو کہ اس کام کو کرو۔

یحیی(ع) نے کہا بابا جان کیا آپ نےمجھے سے بہت کم عمر بچوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو موت نے لے لیا ہے حضرت زکریا(ع) نے کہاہاں دیکھا ہے پھر ان کی والدہ سے کہا تم ان کو بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی بنا دو ان کی والدہ نے یہ چیزوں بناکر انہیں دیں حضرت یحیی(ع) بالوں والا پیراہن اور پشم کی ٹوپی پہن کر بیت المقدس میں عبادت کرنے والوں کےساتھ عبادت میں مغشول ہو گئے یہاں تک کہ بالوں کے موٹے پیراہن نے آپ کے جسم مبارک کو گھلا دیا ایک دن حضرت(ع) نے اپنے بدن کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ ان کا جسم بہت لاغر اور کمزور ہوگیا ہے تو رونے لگے تب خدا نے وحی کی اے یحیی(ع) کیا بدن کی کمزوری پر روتے ہو میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر جہنم کو ایک بار دیکھ لو تو لوہے کا پیراہن لوگے یہ سن کر حضرت یحیی(ع) اس قدر روئے کہ آپ کے رخسار مجروح ہوگئے یہاں تک کہ دندان مبارک دکھائی دینے لگے جب یہ خبر ان کی والدہ کو پہنچی تو ان کو دیکھنے کے لیے گئیں جبکہ زکریا(ع) زاہدوں اور راہبوں کے پاس آئے اوریحییٰ(ع) کو خبر دی کہ آپ کا چہرہ بے حد زخمی ہے یحیی(ع) نے کہا مجھے اس کی خبر نہیں زکریا(ع) نےکہا اے میرے بیٹے کیوں اتنی مشقت کرتے ہوبے شک میں نے تیرے پیدا ہونے کی خدا سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے اولاد صالح عطا کرے جو میرے لیے راحت اور مسرت کا سبب ہو۔ یحییٰ(ع) نے کہا بابا جان آپ نے خود ہی تو مجھے اس کا حکم دیا ہے زکریا(ع) نےکہا میں نے اس طرح کرنے کو کب تھا یحیی(ع) نے کہا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے جس سے کوئی بھی نہ گزرسکے گا مگروہ کہ جو خوفِ خدا سے بہت زیادہ ہو۔ کہا ہاں میں نے یہ کہا تھا اے فرزند کہ سعی وکوشش کر خدا کی بندگی میں کیوںکہ تجھے کسی دوسرے امر کے واسطے پیدا کیا گیا ہے یحییٰ(ع) اٹھے اور اپنے پیراہن کو اتار دیا ان کی والدہ نے ان کو آغوش میں لیا اور کہا اے فرزند میں تمہارے دونمدے کے ٹکڑے بنا دوں کہ تم اپنے دونوں رخساروں پر رکھو جس سے تمہارے دانت چھپ جا ئیں اور وہ تمہارے

۳۶

آنسوؤں کو بھی جذب کر لیں یحییٰ(ع) نے کہا جو آپ بہتر سمجھیں تو ان کی والدہ نے دوٹکڑے بنا دیئے اور ان کی گالوں پر رکھ دیئے تھوری ہی دیر میں وہ نمدے ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئے کہ ان کے نچوڑنےسے ان کی انگلیوں پر پانی جاری ہوگیا یہ حال زکریا(ع) نے دیکھا تو گریہ کناں ہوئے اور آسمان کی جانب چہرہ کر کے کہا اے خدایا یہ میرا فرزند ہے اور یہ اس کے آنسو ہیں اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

زکریا(ع) جب چاہتے کہ بنی اسرائیل کو وعظ و نصیحت کریں تو دائیں بائیں نظر کرتے اگر یحییٰ(ع) موجود ہوتے تو بہشت دوزخ کا نام نہ لیتے تھے۔ ایک دن زکریا(ع) نے خطبہ دیا جبکہ یحییٰ(ع) موجود نہ تھے آپ نے واعظ شروع کیا تو حضرت یحیی(ع) مجمع میں آئےسر لپیٹے ہوئے اور لوگوں کے درمیان بیٹھ گئے زکریا(ع) نے دائیں بائیں دیکھا اور کہنے لگے مجھے میرے حبیب جبرائیل(ع) نے یہ خبر دی کہ خدا فرماتا ہے جہنم میں ایک پہاڑ ہے جس کو سکران کہتے ہیں اور اس پہاڑ کے نیچے ایک وادی ہے جس کو غضبان کہتے ہیں کیونکہ وہ قہر و غضب خدا کے سبب سے جلائی گئی ہے اس وادی میں ایک کنواں ہے جس گہرائی سوسال کی راہ کے برابر ہے اس میں آگ کے بہت سے تابوت ہیں ان تابوتوں میں آگ کے بہت سے صندوق ہیں اور آگ کے لباس اور طوق و زنجیریں ہیں۔ یحیی(ع) نے سنا تھا سراٹھایا اور فریاد کی”واغفلنا“ کہ ہم کس قدر غافل ہیں پھر اٹھے اور دیوانہ وار بیابان کی طرف رخ کر گئے زکریا(ع) مجلس سے اٹھ کر یحیی(ع) کی والدہ کے پاس آئے اورکہا یحیی(ع) کے پیچھے جاؤ اور اسے تلاش کرو میں ڈرتا ہوں کہ اب اسے زندہ نہ دیکھوں گا ان کی والدہ اٹھیں اور ان کی تلاش میں نکلیں اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچیں ان لوگوں نے پوچھا آپ کہاں جارہی ہیں کہا میں یحیی(ع) کی تلاش میں جارہی ہوں کہ انہوں نے جہنم کی آگ کا تذکرہ سن لیا ہے اور خوف سے بیابان کی طرف چلے گئے ہیں وہ جوان انکی والدہ کے ہمراہ چل پڑے یہاں تک کہ ایک چروا ہے سے ملاقات ہوئی اسے ان کا حلیہ اور علامات بتائی گئیں تو اس نے کہا ہاں آپ کو شاید یحیی(ع) کی تلاش ہے فرمایا ہاں وہ میرا بیٹا ہے اس کے سامنے دوزخ کا ذکر ہوا ہے اور وہ صحرا کی طرف آیا ہے چروا ہے نے کہا کہ میں نے انہیں فلاں جگہ پر اس حال دیکھا کہ ان کا تمام بدن آنسوؤں میں

۳۷

 ڈوبا ہوا ہے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر کہتے ہیں اے میرے مالک تیری عزت وجلال کی قسم میں اس وقت تک ٹھنڈا پانی نہ پیئوں جب تک اپنی قدر ومنزلت اور اپنے مقام کو تیرے نزدیک نہ دیکھ لوں ان کی والدہ یہ سن کر ان کے پاس پہنچیں جب ان کی نگاہ ماں پر پڑی اور ان کو دیکھا تو خود کو ان تک پہنچایا ان کی والدہ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور قسم دے کر گھر چلیں یحیی(ع)  لباس بدل کر لیٹ گئے اور انھیں نیند آگئی یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا اور بیدار نہ ہوئے خواب میں ان کو یہ آواز آئی ”اے یحییٰ“ بن زکریا(ع) کیا میرے گھر سے بہتر کوئی اور گھر ہے یا مجھ سے بہتر کوئی ہمسایہ چاہتے ہو“ یہ سن کر نیند سے بے دار ہوئے اور کہا اے میرے معبود مجھ پر نفرین ہے مجھے در گزر فرما۔ تیری عزت کی قسم تیرے بیت المقدس کے سایہ کےعلاوہ میں کوئی اور سایہ نہیں چاہتا پھر والدہ سے کہا میرے بالوں کے موٹے کپڑے لا دیں ان کی والدہ نے کپڑے تو دے دیئے مگر حضرت(ع) سے لپٹ گئیں اور باہر جانے سے روکنے لگیں حضرت زکریا(ع) نے کہا اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے دل کے پردے کھول دیئے گئے ہیں یہ دنیاوی راحت و آرام سے فائدہ نہیں حاصل کرسکتا۔ یحیی(ع) اٹھے اور اپنے کپڑے بدلے اور بیت المقدس میں جاکر زاہدوں اور راہبوں کےساتھ عبادت میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔

۴ـ          ابن عباس(ع) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے لوگو کون ہے جو خدا سے صحیح واحسن اور سچ بات کرنے والا ہے اے لوگو بے شک تمہارے رب جل جلالہ، نے مجھے حکم دیا ہے کہ علی(ع) کو علم دے کر تمہارا امام اور خلیفہ اور اپنا وصی بنادوں اور اس کو اپنا بھائی اور وزیر مقرر کروں اے لوگوں! بے شک علی(ع) میرے بعد بابِ ہدایت ہے اور میرے رب کی طرف بلانے والا ہے وہ صالح المومنین ہے کون ہے اپنے قول میں بہتر اس بندے سے کہ جو خدا کی طرف بلانے والا ہے اور عملِ صالح بجالاتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں،اے لوگو! بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اور اس کے فرزند میرے فرزند ہیں اور وہ میری حبیبہ(ع) کا شوہر ہے اس کا فرمان میرا فرمان ہے۔ اس کی نہی میری نہی ہے اس کی مصیبت (نافرمانی) میری معصیت ہے اے گروہ انس بیشک علی(ع) اس امت کا

۳۸

 صدیق ہے اس امت کا فاروق ہے اس امت کا محدث ہے وہ ہارون(ع) و آصف(ع) وشمعون(ع) ہے اور باب حطہ ہے وہ کشتی نجات ہے وہ طالوت(ع) و ذوالقرنیں(ع) ہے اے لوگو!وہ وسیلہء آزمایشِ بشر ہے وہ حجت عظمی اور آیت کبری ہے وہ امام اہل دنیا اور عروہ الوثقی ہے اے لوگو! علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ اسکی زبان سے جاری ہوتا ہے اے لوگو! علی(ع) دوزخ کو تقسیم کرنے والے ہیں ان کا محب دوزخ میں داخل نہیں ہوگا اور ان کا دشمن اس سے نجات نہیں پائے گا وہ بہشت کے تقسیم کرنے والے ہیں ان کا دشمن اس میں داخل نہیں ہوگا اور اس کا دوست اس سے محروم نہیں ہوگا اے میرے اصحاب بے شک میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتا ہوں لیکن تم نصیحت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتے ہو۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اﷲ سے مغفرت طلب کرو اور میں بھی مغفرت طلب کرتا ہوں۔

۳۹

مجلس نمبر۹

( سولہ شعبان سنہ۳۶۷ھ)

۱ـ           جنابِ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا سخی اس دنیا میں اور متقی آخرت میں لوگوں کے سردار ہیں۔

۲ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا اﷲ کی طرف سے مومن پر مومن کے سات حق واجب کئے گئے اور ان کے بارے میں خدا سوال کرے گا (۱) اپنی نظر میں احترام کرنا۔(۲) اپنے سینے (قلب) میں اس سے محبت کرنا۔(۳) اپنے مال میں اس کی مواسات کرنا۔(۴) جو اپنے لیے پسند ہو اس کےلیے بھی وہی کچھ پسند کرنا۔(۵) اس کی غیبت کو حرام سمجھنا۔(۶) بیماری میںاس کی عیادتکرنا (۷) تشیع جنازہ کرنا اور اس کی موت کے بعد اس کے متعلق اچھائی کے سوا کچھ نہ کہنا۔

۳ـ          رسول خدا(ص) نے فرمایا علی ابن ابی طالب(ع) کی ولایت خدا کی ولایت ہے اس کی دوستی خدا کی دوستی ہے اس کی پیروی خدا کا فریضہ ہے  اس کا دوست خدا کا دوست ہے اور اس کا دشمن خدا کا دشمن ہے اس کے ساتھ جنگ کرنا خدا کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور اس کے ساتھ حرب خدا کے ساتھ حرب کرنا ہے اور اس کو سلام کرنا خدا کو سلام کرنا ہے۔

۴ـ          سلیمان بن جعفر جعفری کہتے ہیں کہ جنابِ موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا کہ میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے سید عابدین علی بن حسین(ع) سے اور انہوں نے سید الشہدا حسین بن علی ابی طالب(ع) سے روایت کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو بے ھودہ اور فضول باتیں کر رہا تھا آپ ٹھہرے اور فرمایا اے فلاں یہ کیا عمل ہے جو تم انجام دے  رہے ہو؟۔۔۔۔

بیشک تم جو اعمال و افعال انجام دیتے ہو تمہارے دونوں محافظ فرشتے اسکے نامہ بر ہیں لہذا خداوند کا ذکر کرو تاکہ تمہیں فائدہ ہو اور تم بے فائدہ بات سے رک جاؤ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658