مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277358
ڈاؤنلوڈ: 6926

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277358 / ڈاؤنلوڈ: 6926
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱۲۱

مجلس نمبر۲۶

( بمقام مشہدِ رضا(ع) روز غدیر خم ۱۸ ذالحجہ سنہ۳۶۷ھ)

جنابِ امیر(ع) کا خطبہء غدیر پر شہادت طلب کرنا

۱ـ           جابر بن عبداﷲ انصاری(رض) کہتے ہیں کہ امیر المومنین(ع) نے ہمیں ایک خطبہ دیا پہلے خدا کی حمد و ستائش کی اور پھر فرمایا اے لوگو! اس منبر کے سامنے رسول خدا(ص) کے چار بزرگ صحابی موجود ہیں انس بن مالک، برائن عازب اںصاری ۔ اشعث بن قیس کندی۔ خالد بن یزید بجلی پھر آپ(ع) نے انس بن مالک کی طرف رخ کیا اور کہا اے انس تم نے رسول خدا(ص) کا یہفرمان کہ جس کسی کا میں مولا و آقا ہوں اس اس کے آقا و مولا علی(ع)  ہیں سنا ہے لہذا اگر تونے آج میری ولایت کی گواہی نہ دی تو خدا تجھے اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک تو برص کے مرض میں مبتلا نہ ہو جائے کہ جس کو تیرا عمامہ بھی نہ چھپاسکے پھر آپ(ع) نے اشعث سے فرمایا اے اشعث اگر تونے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اس اس کا علی(ع) مولا ہے خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی(ع) کو دشمن رکھے تو تو (اشعث) اس کی گواہی دے ورنہ خدا تجھے اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک کہ تیری دونوں آنکھوں کی بینائی ختم نہ کرے پھر خالد سے فرمایا کہ اے خالد اگر تونے  رسول خدا(ص) سے سنا ہےکہ جس جس  کا میں مولا اس اس کا علی(ع) مولا خدایا اس کو دوست رکھ جو علی(ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی(ع) کو دشمن رکھے تو اس کی گواہی دے نہیں تو خدا تجھے اس وقت تک موت نہیں دے گا جب  تک تیری موت جاہلیت کے طریقے پر نہ ہو جائے۔ پھر آپ نے برابن عازب سے فرمایا کہ اے برا بن عازب اگر تو نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی(ع) مولا ہے خدایا تو اسے دوست رکھ جو علی(ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی(ع) کو دشمن رکھے تو اسے بیان کر ورنہ اے برابن عازب خدا تجھے اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک تو یہاں سے ہجرت نہ کر جائے جابر بن عبداﷲ انصاری(رض) کہتے ہیں خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ انس بن مالک

۱۲۲

برص کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے جس کو وہ اپنے عمامے سے چھپاتا ہے مگر نہیں چھپتا اشعث کو دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے اور اسے یہ کہتے سنا کہ حمد ہے اس خدا کی، علی(ع) نے صرف مجھے دنیا میں اندھا کر دیا کہیں آخرت کے بارے میں نفرین کردیتے تو عذاب کاشکار ہوجاتا  خالد بن یزید جب مرا تو اس کے گھر والوں نے  اسے گھر میں گڑھا کھود کر دفنا دیا جب  اس کے قبیلے والوں کو پتا چلا تو وہ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کرآئے، گھر میں گھس کر گڑھا کھودا اور اسکی لاش نکال کر ہاتھ پاؤں کاٹ  دیے اور جاہلیت کے دستور کے مطابق اس کی لاش کو دروازے پر لٹکادیا ، برابن عازب ہجرت کر کے یمن چلا گیا جہاں معاویہ  نے اسے یمن کا والی بنا دیا اور وہیں اس کی موت ہوئی۔

۲ـ           ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے علی بن حسین(ع) سے پوچھا کہ فرمان رسول خدا(ص) ” من کنت مولاہ فعلی مولا“ کے کیا معنی ہیں تو فرمایا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو خبر دی تھے کہ وہ میرے بعد امام ہیں۔

۳ـ          علی بن ہاشم بن یزید کہتے ہیں کہ میرے باپ نے زید بن علی سے پوچھا کہ قول رسول خدا(ص) ” من کنت مولا فعلی مولا“ سے کیا مراد ہے تو فرمایا کہ اس قول کو ہدایت کی علامت مقرر کیا گیا ہے تاکہ حزبِ خدا موقع اختلاف میں ہو تو اس قول کے وسیلے سے حق کا تعین کر لے۔

۴ـ          ابو جارود کہتے ہیں کہ ابوجعفر امام باقر(ع) نے قولِ خدا” بیشک تمہارا ولی خدا ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔۔۔تا آخر۔ “ (مائدہ، ۵۵)کی تفسیر کی سلسلے میں فرمایا کہ کچھ یہودی جیسا کہ عبداﷲ بن سلام ، اسد، ثعلبہ، ابن یامین او ابن صوریا، رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور کہنے لگے یا نبی اﷲ(ص) موسی(ع) نے یوشع بن نون(ع) کو اپنا وصی بنایا تھا آپ کا وصی کون ہے اور کون آپ(ص) کے بعد امت کا سرپرست ہے تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ” تمہارا ولی تمہارا خدا ہے اور تمہارا رسول اور وہ بندے ہیں جو ایمان والے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع میں ہیں اور زکواة ادا کرتے ہیں“ پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا اٹھووہ تمام یہودی اٹھے اور رسول(ص) کے ساتھچل پڑے رسول خدا(ص)  مسجد میں آئے ناگاہ ایک سائل مسجد میں داخل ہوا آپ(ص) نے اس سے پوچھا کہ کیا کسی نے تجھے کوئی چیز دی ہے ۔ اس نے کہا کہ ہاں ایک شخص نے مجھے یہ انگوٹھی دی

۱۲۳

 ہے آپ(ص) نے فرمایا کس حالت میں دی ہے تو سائل نے جواب دیا کہ حالت رکوع میں، پیغمبر(ص) اور تمام حاضرین مسجد نے تکبیر کہی۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا میرے بعد علی ابن ابی طالب(ع) تمہارا ولی ہے لوگوں نے خوش ہو کر کہا کہ ہم اپنے پروردگار سے خوش ہیں، دین اسلام سے شاد، اور محمد(ص) کی نبوت اور علی(ع) کی ولایت پر راضی اور مسرور ہیں اس وقت خدانے اس آیت کو نازل کیا” کہ جو کوئی تولیٰرکھے اﷲ اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو جو ایمان والے ہیں تو بیشک اﷲ کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے۔“ ( مائدہ، ۵۶) عمر بن خطاب سے روایت ہوا کہ میں نے حالتِ رکوع میں چالیس انگوٹھیاں تصدق کیں میرے بارے میں بھی کچھ اس طرح کا نازل ہو مگر یہ رتبہ صرف علی(ع) کو ہی ملا۔

۵ـ          جابر بن عبداﷲ انصاری(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی بن ابی طالب(ع) سے فرمایا ، اے علی تم میرے بھائی اور میرے وصی و وارث و خلیفہ ہو میری امت پر میری زندگی میں بھی اور میری موت کے بعد بھی ، تیرا دوست میرا دوست، تیرا دشمن میرا دشمن ، تیرا بد خواہ میرا بد خواہ اور تیرا پیرو میرا پیرو ہے۔

۶ـ           ابن عباس کہتے ہیں، رسول خدا(ص) نے فرمایا بیشک خدانے سات آسمانوں پر میرے اور علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے درمیان برادری قائم کی اور میری دختر کو اس کی زوجیت میں دیا اور اپنے مقرب فرشتوں کو اس کا گواہ بنایا اور اس کو میرا وصی و خلیفہ بنایا، علی مجھ سے ہے اور میں علی(ع)سے ہوں اس کا دوست میرا دوست اور اس کا دشمن میرا دشمن ہے فرشتے اس کی دوستی سے خود کو مقربین خدا بناتے ہیں۔

۷ـ          حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ قولِ رسول خدا(ص) کہ ” فاطمہ(س)اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہے“ سے  کیا مراد ہے کیا وہ صرف اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں تو امام(ع) نے فرمایا وہ تو مریم(ع) ہیں، فاطمہ(س) تو تمام اولین و آخریں کی عورتوں کی سردار ہیں۔ حسن بن زیاد کہتے ہیں میں نے پھر پوچھا کہ کیا قول ِ رسول خدا(ص) کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانانِ بہشت کے  سردار ہیں بھی یہی مراد ہے تو آپ نے فرمایا ہاں وہ بھی اولین و آخرین کے تمام مردوں کے سید و سردار ہیں۔

۱۲۴

عیدِ غدیر

۸ـ          عبداﷲ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کیا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ایک عید غدیر خم ہے اور یہ دن ہے جس دن خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کو نصب کروں اپنی امت کی امامت کے لیے تاکہ میرے بعد اس کو رہبر کیا جائے، اور یہ وہ دن ہے کہ خدانے دین کو اس میں کامل کیا اور تمام کیں اس میں نعمتیں میری امت پر اور اسلام کو ان کے لیے دین بنایا پھر فرمایا اے لوگو! بے شک علی(ع) مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، علی (ع) میری طینت سے خلق ہوا ہے اورمیرے بعد خلق کا امام ہے جب بھی سنت میں اختلاف پیدا ہو تو اس سے بیان کرو وہ امیرالمومنین(ع)  اور سفید ہاتھوں اور چہروں والوں کے قائد ہیں، یعسوب المومنین اور بہترین وصی و شوہر سیدہ زنانِ عالمین ہیں۔ اماموں کے والد ورہبر ہیں۔ اے لوگو جو کوئی علی(ع) کو دوست رکھتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے اور جو کوئی علی(ع) کو دشمن رکھتا ہے وہ مجھے دشمن رکھتا ہے، کوئی علی (ع) کے ساتھ پیوستہ ہے میں اس کے ساتھ پیوستہ ہوں جو علی(ع) سے دوستی کرتا ہے وہ مجھ سے دوستی کرتا ہے اور جو کوئی علی(ع) سے عداوت رکھتا ہے میں اس سے عداوت رکھتا ہوں، اے لوگو میں حکمت کا شہر ہوں اور علی (ع) ابن ابی طالب(ع) اس کا دروازہ ہے اور دروازے سے گذرے بغیر کوئی شخص شہر یں داخل نہیں ہوسکتا وہ بندہ جھوٹ کہتاہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے دوست رکھتا ہے مگر علی کا دشمن ہے، اے لوگو جانلو کہ خدا نے مجھے نبوت سے سرفراز کیا اور تمام خلق پر برگزیدہ کیا ، میں نے علی(ع) کو اپنی طرف سے زمین میں خلیفہ نہیں بنایا بلکہ خدا نے اس کے نام کو آسمانوں میں بلند کیا اور اس کی ولایت کو ملائکہ پر واجب کیا اور تمام تعریفیں اﷲ کی ہیں جو عاملین کا رب ہے اور درود ہو اس کی بہترین مخلوق محمد و آل محمد(ص) پر۔

۱۲۵

مجلس نمبر ۲۷

( اول محرم سنہ۳۶۷ھ مشہد سے واپس آنے کے بعد)

۱ـ           جبلہ مکیہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم تمار قدس اﷲ روحہ سے سنا کہ خدا کی قسم یہ امت اپنے نبی(ص) کے بیٹے کو دہم محرم کے روز قتل کرے گا اور دشمنان خدا اس دن کو روز برکت کہیں گے لہذا یہ عمل وقوع پذیر ہونے والا اور علم خدا میں ہے اور میں اس بات کو اس لیے جانتا ہوں کہ میرے مولا علی(ع) نے مجھے اس کی وصیت کی تھی،اومجھے خبر دی تھی کہتمام چیزیں آںحضرت(ع) (امام حسین(ع)) پر گریہ کریں گی یہاں تک کہ بیابان کےوحشی جانور دریا کی مچھلیاں ، ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے سورج و چاند و ستارے و آسمان و زمین و مومنین انس و جن ، تمام آسمانوں کے فرشتے ، رضوان اور حاملان عرش اس پر گریہ کرںگے اور آسمان راکھ و خون برسائے گا پھر فرمایا قاتلانِ حسین(ع) پر لعنت واجب ہے جیسا کہ مشرکین پر واجب ہے ج وکہ خدائے معبود کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں اور جیسا کہ یہود و نصاریٰ و مجوس پر واجب ہے جبکہ کہتے ہیں میں نے کہا اے میثم کس طرح لوگ اس دن کو جس دن حسین(ع) قتل ہوں گے روز برکت قرار دیں گے۔ میثم نے گریہ کیا اور کہا کہ لوگوں کا خیال ہے(حالاںکہ یہ حدیث مجہول ہے) کہ اس دن خدا نے آدم(ع) کی توبہ قبول کیا حالاںکہ خدا نے ان کی توبہ ذالحجہ میں قبول کی اور خیال کرتے ہیں کہ اس دن یونس کو شکم مچھلی سے باہر نکالا گیا تھا حالاںکہ خدانے یونس(ع) کو ذالقعدہ شکم مچھلی سے نکالا تھا اور خیال کریںگے کہ یہ دن ہے کہ کشتی نوح(ع) اس دن کوہ جودی پر استوار ہوئی تھی حالانکہ وہ دن اٹھارہ ذالحجہ تھا کہ جس دن کشتی جودی پر ٹھہری اور گمان کریں گے کہ  یہ وہ دن ہے کہ خدا نے دریا کو بنی اسرائیل کے لیے شگافتہ کیا تھا حالانگکہ یہ ماہ ربیع الاول میں ہوا ، پھر کہا اے جبلہ جان لو کہ حسین بن علی(ع) روزِ قیامت سید شہداء ہیں اور اس کے مددگار دوسرے شہیدوں سے ایک درجہ بلند رکھتے ہیں۔ اور جبلہ جب تم دیکھو کہ سورج تازہ خون کی مانند سرخ ہوگیا تو جان لینا کہ تمہارا آقا حسین(ع) شہید کردیا گیا۔

۱۲۶

جبلہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آفتاب کی روشنی گھروں کی دیواروں پر زعفرانی کپڑے کی رنگت کی مانند شیون کررہی ہے یہ دیکھ کر میں نے گریہ کیا اور کہا خدا کی قسم ہمارا آقا حسین(ع) قتل کردیا گیا۔

۲ـ           ابراہیم بن ابو محمود کہتے ہیں امام رضا(ع) نے فرمایا ماہ محرم وہ مہینہ تھا کہ اہل جاہلیت بھی اس میں جنگ کرنا حرام جانتے تھے مگر ہمارے خون کو اس میں حلال سمجھا گیا اور ہماری ہتک حرمت کی گئی اور ہماری ذریت وعورتوں کو اسیر کیا گیا اور ہماے خیموں کوآگ لاگائی گئی اور جو بھی مال و متعاع تھا اسے لوٹ لیا گیا، او ہماری رسول خدا(ص) کے ساتھ نسبت اور انکی ذریت ہونے کے باوجود ہم سے کوئی رعایت نہ برتی گئی پھر روزِ شہادت حسین(ع) ہماری نظروں کے سامنے تازہ ڈاڑھیاں بنائی گئیں اور ہماری آنکھوں سے آنسو جاری کروائے گئے، ہمارے عزیزوں کو زمین کربلا میں ذلیل و خوار اور مصیبت و بلا  سےہمیں دوچار کیا گیا ، تمہیں چاہئے کہ تم روزِقیامت تک حسین(ع) پر گریہ کرو یہ گریہ بڑے گناہوں کو دھودیتا ہے پھر فرمایا میرے والد(ع) کا یہ طریقہ تھا کہ جب محرم آجاتا تو مسکرانا ختم ہوجا تا اور اندوہِ غم ان پر غالب ہو جاتا تھا روز دہم تک مصیبت و حزن و گریہ ان کا شیوہ ہوتا تھا اور فرماتے کہ اس دن حسین(ع) کردیئے گئے۔

۳ـ          ابن عباس کہتے  ہیں کہ علی(ع) نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ آپ عقیل کو بہت دوست رکھتے ہیں؟ فرمایا ہان خدا کی قسم میں اس سے دو محبتیں رکھتا ہوں ایک اسکی خوبی کی وجہ سے اور دوسری اس لیے کہ ابوطالب(ع) اس سے محبت کرتے تھے اور یہ کہ اس کا فرزند تیرے بیٹے کی محبت میں قتل ہوگا اور مومنین کی آنکھیں اس پر گریہ کریں گی اور مقرب فرشتے اس پر درود بھیجیں گے ، پھر رسول خدا(ص) نے گریہ کیا یہاں تک کہ آپ(ص) کے آنسو آپ کے سینے پر جاری ہوگئے پھر فرمایا میں خدا سے اس کی شکایت کرتا ہوں کہ جو مصیبتیں میرے بعد میرے خاندان و عترت و اہل بیت(ع) پر ہوں گی۔

۴ـ          علی بن حسن بن علی بن فضال نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابوالحسن علی بن موسی ( امام رضا)(ع) نے فرمایا  کہ جو شخص روزِ عاشور اپنے کاموں سے چھٹی کرے تو خدا  اس کی دنیا و آخرت میں حاجات پوری کرے گا اور جوکوئی روزِ عاشور کو  حزن و گریہ میں بسر کرے گا تو خدا روزِ قیامت

۱۲۷

اس کے لیے خرسندی و شادی عطا کرے گا اور بہشت میں اس کی آنکھیں ہمارے درجے سے روشن ہوں گی اور جوکوئی روزِ عاشور کو روزِ برکت بنائے گا اور اپنے گھر میں مال کا ذخیرہ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور روز قیامت یزید لعین و عبیداﷲ بن زیاد لعین و عمر بن سعد لعین کے ساتھ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے اسفل میں محشور ہوگا۔

۵ـ ریان بن شبیب کہتے ہیں میں روزِ اول ماہ محرم خدمت امام رضا(ع) میں گیا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا اے ابن شبیب کیا روزہ رکھے ہوئے ہو میں نے کہا نہیں تو فرمایا یہ وہ دن ہے کہ زکریا(ع) نےاپنے  پروردگار کی بارگاہ میں دعا کی تھی اور کہا تھا کہ اے پروردگار مجھے عطا کر اپنے پاس سے ایک فرزند پاک کیونکہ تو دعا کو سننے والا ہے خدا نےان  کی دعا  کو قبول کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ زکریا(ع) کو آواز دے کہ خدا تجھے یحیی(ع) کی بشارت دیتا ہے اور جو کوئی اس دن روزہ رکھے اور پھر بارگاہ خدا میں دعا کرے تو خدا اسے مستجاب کرتا ہے، پھر کہا اے پسر شببیب محرم وہ مہینہ  ہے کہ اہل جاہلیت زمانہءگزشتہ میں ظلم و قتال کو اس کے احترام کی خاطر اس میں حرام جانتے تھے مگر اس امت نے اس مہینے کیحرمت نہ جانی اور نہ اپنے پیغمبر(ص) کی حرمت کا خیال کیا اس مہینہ میں ان کی ذریت کو قتل کیا ان کی عورتوں کو اسیر کیا ان کے مال و اسباب کو غارت کیا اورلوٹ لیا خدا ہرگز ان کے اس  گناہ کو معاف نہ کرے گا اے پسر شبیب اگر کسی چیز نے گریہ کیا تو اس نے حسین(ع) کے لیے گریہ کیا کہ گوسفند کی طرح انکے سر مبارک کو کاٹا گیا اور اٹھارہ بندے ان کے خاندان کے ان کے ساتھ قتل ہوئے کہ روئے زمین پر ان کی مانند کوئی نہ تھا، آسمان ہائے ہفتم و زمین نے ان کے قتل ہونے پر گریہ کیا اور چار ہزار فرشتے ان کی مدد کے  لیے زمین پر آئے مگر انہوں نے دیکھا کہ حسین(ع) قتل کر دیئے گئے  ہیں وہ آپ کی قبر کے سرہانے پریشان حال و خاک آلودہ رہیں گے یہاں تک کہ قائم آل محمد(ص) ظہور کریں گے اور وہ فرشتے ان کی مدد کریں گے ۔ ان فرشتوں کا شعار ” یا لثارات الحسین“ ( حسین کے خون ناحق کا بدلہ طلب کرنا) ہے ۔ اے پسر شبیب میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے اور انہوں نے اپنے جد(ع) سے روایت کی اور مجھ سے فرمایا کہ جب میرے جد حسین(ع) قتل ہوئے تو آسمان نے خونو خاکِ سرخ برسائی اے پسر شبیب اگر تم حسین(ع) پر اتنا گریہ کرو

۱۲۸

 جو تمہارے چہرے پر جاری ہو جائے تو جو گناہ تم نے کیا صغیرہ  کبیرہ کم یا زیادہ کو خدا معاف کردے گا۔ اے ابننشبیب اگر تو خدا سے ملاقات کرنا چاہے اور تیرا کوئی گناہ باقی نہ رہے تو حسین(ع) کی تربت کی زیارت کراے ابن شبیب اگر تو چاہے کہ غرفہء بہشت میں پیغمبر(ص) کے ساتھ ساکن ہوتو قاتلان حسین(ع) پر لعنت کرے ابن شبیب اگر تم چاہے کہ حسین(ع) کے شہید اصحاب(رح) کے برابر ثواب پائے تو جس وقت بھی ان کو یاد یہ کہہ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اور فوز عظیم کو پہنچ جاتا اے ابن شبیب اگر تم چاہے کہ ہمارے ساتھ بہشت میں بلند درجات پائے تو ہمارے لیے محزون رہ  اور ہماری (خوشی ) سے خوش رہ اور ہماری ولایر سےمتمسک رہ یاد رکھو کہ اگر کوئی بندہ پتھر کو بھی دوست رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے تو روز قیامت اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔

۶ـ           بنی سلیم کے بزرگوں سے نقل ہوا ہے کہ ہم ملک روم میں جہاد کرنےگئے تو وہاں ایک کلیسا میں اس تحریر کو پایا ” ایرجو معشر قتلوا حسینا شفاعتہ جدہ یوم الحساب“     کہ کیا وہ لوگ جنہوں نے حسین(ع) کو قتل کیا ہے، یہ امید رکھتے ہیں کہ ان (حسین(ع)) کے جد(ص) روزِ قیامت ان( قاتلوں ) کی شفاعت کریں گے جب ان کلیسا والوں سے پوچھا  گیا کہ یہ تحریر کب سے اس کلیسا میں موجود ہے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے مبعوث ہونے تین سو سال پہلے سے یہ تحریر یہاں موجود ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے نقل کیا کہ حسین(ع) بن علی(ع) کی دو انگوٹھیاں تھیں، ایک کا نقش ”لا اله الا اﷲ عده لقاء اﷲ “ اور دوسری کا ”ان اﷲ بالغ امره “ اور علی بن حسین(ع) کی انگوٹھی کانقش یہ تھا”خزی و شقی قاتل الحسين بن علی (ع)“ کہ حسین بن علی(ع) کو قتل کرنے والا رسوا بد بخت ہے۔

۸ـ          جنابِ علی بن حسین(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص حضرت علی(ع) کی خدمت میں آیا اور کہا کہ کیا آپ ہی کو امیر المومنین(ع) کہتے ہیں اور آپ کو کس نے امیر مقرر کیا ہے؟ حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ مجھے خدا نے ان کا امیر مقرر فرمایا ہے وہ شخص رسول خدا کے پاس گیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا علی(ع) سچ کہتے ہیں کہ خدا نے اپنی مخلوق پرا انہیں امیر بنایا ہے پیغمبر(ع) کو یہ سن کر غصہ آگیا

۱۲۹

اور آپ نے اس سے فرمایا بیشک علی(ع) ولایتِ خدا ( کی رؤ) سے اس مخلوق پر امیر ہے خدا نے علی(ع) کو  ولی مقرر کرنے کی تقریب کو عرش پر منعقد کیا اور ملائکہ کو گواہ کیا ہے کہ علی خلیفة اﷲ اور حجت اﷲ وامام المسلمین ہیں ان کی اطاعت مانند اطاعت خدا ہے اور جس نے اسے نہیں پہچانا ، اس نے مجھے نہیں پہچانا جو کوئی اس کی امامت کا منکر ہے وہ میری نبوت کا منکر ہے جو کوئی اس کی امیری سے انکار کرئے اس نے میری امیری کیا جو کوئی اس کے فضل کو ہٹائے اس نے میرے فضل کو ہٹایا، جو کوئی اس سے جنگ کرے اس نے میرے ساتھ جنگ کی، جو کوئی اسے دشنام دے اس نے مجھے دشنام دی، کیوںکہ علی(ع) مجھ سے ہے اور میری طینت سے خلق ہوا ہے وہ میری دختر فاطمہ(س) کا شوہر ہے اور میرے دو فرزندوں حسن(ع) اور حسین(ع) کا والد ہے، پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ میں علی(ع)، حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے نو فرزند اس مخلوق پر خدا کی حجت ہیں ہمارے دشمن خدا کے دشمن اور ہمارے دوست خدا  کے دوست ہیں۔

ولادت ِ علی(ع)

۹ـ           یزید بن قلنب کہتے ہیں کہ میں عباس بن عبدا المطلب کے ساتھ تھا اور قبیلہ عبدالعزاء خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے تھے کہ فاطمہ(س) بنت اسد، مادر امیر المومنین(ع) جو کہ نو ماہ کی حاملہ تھیں خانہ کعبہ تشریف لائیں انہیں دردِ زہ تھا، انہوں نے کہا خدا یا میں تم پر ایمان رکھتی ہوں تیرے ہر رسول و کتاب پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جد ابراہیم(ع) خلیل اﷲ کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ ( ابراہیم ) وہ ہیں کہ جہنوں نے بیت عتیق کو بنایا تجھے ان کے حق کا واسطہ کہ انہوں نے اس گھر کو بنایا تجھے اس  مولود کے حق کا واسطہ جو میرے شکم ہیں ہے جس کو لے کر میں تیرے پاس آئی ہون، اد کی ولادت مجھ پرآسن کردے یزید بن قلنب بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کا گھر ( خانہ کعبہ) پشت سے شگافتہ ہوا اور فاطمہ بنت اسد اس کے اندر چلی گئیں اور ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوگئیں پھر دیوار باہم مل گئی ہم نے چاہا کہ خانہ کعبہ کا تالا کھولیں لیکن کوشش کے باوجود نہ کھل سکا ہم جان گئے کہ یہ امر خدا کی طرف سے ہے پھر وہ چار دنوں کے بعد

۱۳۰

 باہر آئیں اور امیرالمومنین(ع) کو ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے تھیں باہر آکر انہوں نے فرمایا میں تمام گذشتہ عورتوں پر اس وجہ سے فضیلت رکھتی ہوں کہ آسیہ بن مزاحم کو یہاں رکھا گیا تھا جو خدا کی پرستش و عبادت کرتی تھیں اور نا چاری کی وجہ سے بہتر محسوس نہ کرتی تھیں اور مریم بنت عمران مجبوری کی حالت میں بیابان میں چلی گئیں تھیں اور بھوک کی حالت میں تھیں تو انہوں نے کھجور کے خشک درخت کو ہلایا تو اس نے سر سبز ہو کر خرمے گرائےتھے جبکہ مجھے خانہء خدا میں داخل کیا گیا اور بہشت سے میوہ جات لائے گئے، جب میں نے چاہا کہ میں باہر آؤں تو ہاتف غیبی  نے آواز دی کہ اے فاطمہ بنت اسد اس طفل کا نام علی(ع) رکھ دو کیوں کہ خدا اعلیٰ  ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے اس کے نام کو اپنےنام سے مختص کیا ہے اور قدرت اور عزت وجلال سے اسے (علی کو) خلق کیا ہے اپنے آداب حسنہ سے آراستہ کیا ہے اور اپنے مخصوص علم سے اس کو تعلیم دی ہے، یہ وہ ہے جومیرے گھر(کعبہ) سے بتوں کو پاک کرے گا اور اس میں اذان دےگا، خوش قسمت ہے وہ بندہ جو اس کو دوست رکھتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہے اور لعنت ہو اس پر جو ان سے دشمنی رکھتا ہے اور نافرمانی کرتا ہے اور صلوات ہو اﷲ کی ہمارے نبی محمد(ص) کی آل پر جو طیب و طاہر ہیں۔

۱۳۱

مجلس نمبر۲۸

( پانچ محرم سنہ۳۶۷ھ)

 شہادت حسین(ع) و مقتلِ حسین(ع) کی خبر

۱ـ           اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امیرالمومنین(ع) نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا ”سلونی قبل ان تفقدونی “ کہ” پوچھ لو مجھ سے اس سے قبل کہ میں تم میں نہ رہوں“ اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں تمہیں گزشتہ اور آیندہ کے بارے میں خبر دوں سعد بن ابن وقاص نے پوچھا اے امیر المومنین(ع) مجھے بتائیں کہ میرے سر اور ڈاڑھی میں کتنے بال ہیں امیرالمومنین(ع) نے فرمایا اے سعد خدا کی قسم تو نے جو سوال کیا ہے اس کی خبر مجھے رسول خدا(ص) نے دے دی تھی کہ تم یہ پوچھو گے۔ تیرے سر اور ڈاڑھی میں کوئی بال ایسا نہیں ہے کہ جس پر ایک شیطان نہ بیٹھا ہو اور تیرے گھر میں تیرا ایک بچہ ہے جو میرے بیٹے حسین(ع) کو قتل کرے گا  کہا جاتا ہے کہ یہ تب کی بات ہےجب عمر ابن سعد لعین گھٹنوں ک بل چلتا تھا۔

۲ـ           محمد بن عبدالرحمن کہتے ہیں، علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ میں، (علی(ع)) فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) رسول خدا(ص) کے پاس تھے رسول خدا (ص) نے ہیں دیکھا اور گریہ کرنا شروع کردیا میں(علی(ع)) نے آپ(ص) نے اس گریہ کا سبب دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میںتمہارے متعلق اس امر کے بارے میںگریہ کرتا ہوں جو  وقوع پذیر ہوگا میں(علی(ع)) نے پوچھا یا رسول اﷲ(ص)  مجھے اس کے متعلق بتائیں، آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تمہارے سر پر ضربت لگائی جا ئے گی اور فاطمہ(س) پر دروازہ گرایا جائیگا حسن(ع) کی ران میں نیزہ مارا جائیگا اور زہر سے قتل کیا جائیگا اور حسین(ع) کی شہادت اس طرح ہوگی کہ تمام اہل بیت(ع) اس پر گریہ کریںگے۔

امیرالمومنین(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) خداوند کریم نے ہم اہل بیت(ع) کا امتحان بلا و مصیبت رکھا ہے آپ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) خدا نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ جو تمہیں دوست رکھتا ہے وہ مومن ہوگا اور تجھے دشمن جاننے والا منافق ہوگا

۱۳۲

۳ـ          زید بن علی(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کیا ہے کہ امام علی(ع) بن حسین(ع) نے فرمایا جب بی بی فاطمہ(س) سے امام حسن(ع) کی پیدایش ہوئی تو انہوں نے علی(ع) سے کہا کہ بچے کا نام رکھ دیں علی(ع) نے فرمایا کہ میں اس معاملے میں رسول خدا(ص) پر سبقت نہیں لے جانا چاہتا اتنے میں رسول خدا(ص) تشریف لائے اور فرمایا کہ بچے کو لاؤ جب حسن(ع) کو لایا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ کیا نام میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ اس کو زرد کپڑے میں لپیٹنا۔ پھر رسول خدا(ص) نے پوچھا کہ ان کا نام کیا رکھا ہے تو علی(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) میں آپ پر سبقت نہیں لے جانا چاہتا تھا، آپ(ص) نے فرمایا اس معاملے میں میں بھی خدا پر سبقت نہیں لے جانا چاہتا اسی اثناء میں جبرائیل(ع) تشریف لائے اور فرمایا کہ خداوند نے مجھے ارشاد کیا ہے کہ محمد(ص) کا بیٹا پیدا ہوا ہے تم جاؤ اور انہیں سلام کے بعد تہنیت پہنچاؤ اور کہو کہ آپ(ص) کو علی(ع) سے وہی نسبت ہے جو موسی کی ہارون کے ساتھ تھی لہذا اس بچے کا نام ہارون(ع) کے فرزند کے نام پر شبر رکھ دیں، رسول خدا(ص) نے فرمایا اے جبرائیل ہماری زبان فصیح عربی ہے اس میں شبر کو کیا کہیں جبرائیل نے فرمایا آپ(ص) انہیں حسن(ع) کے نام سے پکاریں جنابِ رسول خدا(ص) نے امام عالی مقام کا نام بہ ہدایتِ خدا حسن(ع) رکھ دیا اسی طرح جب حسین(ع) متولد ہوئے تو جبرائیل(ع) پیغام خداوندی لے کر دوبارہ آئے کہ یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) ان کا نام ہارون(ع) کے دوسرے فرزند کے نام شبیر رکھ دیں اور عربی زبان میں  انہیں حسین(ع) پکاریں تو امام(ع) کا نام حسین(ع) رکھا گیا۔

۴ـ          جابر بن عبداﷲ اںصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) کی وفات سے تین دن پہلے ان کی زبانی سنا کہ علی(ع) سے فرماتے ہیں اے علی(ع) تم پر درود و سلام ہو تم میرے دو پھولوں کے باپ ہو میں تم سے اپنے ان دو پھولوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ عنقریب ان کے دوست ویران ہوجائیں گے اے علی(ع) مین اور فاطمہ(س) تمہارے دو ستوں ہیں اورمیرے بعد تمہارا نگران خدا ہے لہذا جب رسول خدا(ص) کی وفات ہوئی تو علی(ع) نے فرمایا کہ یہ میرا ستون تھے اور جب فاطمہ(س) رحلت فرما گئیں تو علی(ع) نے فرمایا کہ یہ میرا دوسرا ستون تھیں۔

۵ـ          صفیہ دختر عبدالمطلب کہتی ہیں کہ جب حسین(ع) پیدا ہوئے تو میں پاس ہی تھی رسول خدا(ص)

۱۳۳

نے فرمایا اے پھوپھی میرے بیٹے کو میرے پاس لے آئیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں نے ابھی بچے کا پاک نہیں کیا ہے( غسل نہیں دیا ہے) فرمایا اے پھوپھی آپ ان کو پاک کرنا چاہتی ہیں جبکہ خدا رب العزت نے ان کو پاک و پاکیزہ پیدا کیا ہے صفیہ فرماتی ہیں کہ جب حسین(ع) کو جنابِ رسول خدا(ص) کو دیا گیا تو ان کو رسول خدا(ص) نے گود میں لے کر چومنا شروع کردیا اور اپنی زبانِ مبارک حسین(ع) کے دہن میں دے دی جسے وہ ایسے چوسنے لگے جیسے رسول (ص) شہد دے رہے ہوں اس کے بعد پیغمبر(ص) نے حسین(ع) کو میری گود میں دیا اور ان کی  آنکھوں کے درمیان بوسہ دے کر گریہ کیا اور فرمایا خدا تیرے قاتل پر لعنت کرے تو میں (صفیہ) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) اس کا قاتل کون ہے تو فرمایا کہ بنی امیہ کا ایک گمراہ گروہ اسے قتل کرے گا۔

۶ـ           ہرثمہ بن ابو مسلم کہتا ہے کہ میں علی(ع) کے ساتھ جنگ صفین میں گیا، جب ہم واپس آرہے تھے تو راستے میں کربلا میں پڑاؤ کیا اور وہاں نمازِ فجر ادا کی پھر جنابِ امیر(ع) نے کربلا کی خاک کو ہاتھ میں اٹھا کر فرمایا اے پاک مٹی تو خوش قسمت ہے کہ تجھ میں ایک قوم محشور ہوگی جو بغیر حساب بہشت میں جائے گی ہر ثمہ نے واپس آکر اپنی بیوی سے اس واقعہ کو بیان کیا، ہرثمہ کی بیوی شیعیان علی(ع) میں سے تھی اس نےکہا، اے ہرثمہ میرے مولا ابوالحسن(ع) امیرالمومنین(ع) سچ کے علاوہ کچھ ارشاد نہیں فرماتے ، ہرثمہ کہتا ہے کہ جب امام حسین(ع) کربلا میں تشریف لائے تو اس وقت میں (ہرثمہ) لشکر ابن زیاد میں تھا میں نے جب اس مقام (کربلا) کو دیکھا تو مجھے علی(ع) کی وہ حدیث یاد آئی۔ میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور امام (ع) کی خدمت میں گیا اور سلام کیا اور جو کچھ ان کے والد(ع) سے سنا تھا انہیں بیان کیا امام عالی مقام(ع) نے یہ سب سن کر کہا کہ کیا تو ہمارے ساتھ ہے یا مخالف میں نے کہا کہ نہ ادھر نہ ادھر کیوں کہ میں پیچھے اپنے اہل و عیال چھوڑ آیا ہوں جن کے بارے میں مجھے عبیداﷲ بن زیاد لعین سے خوف محسوس ہوتا ہے۔امام عالی مقام(ع) نے فرمایا ہرثمہ تم واپس چلے جاؤ اور نہ میرے قتل کی دیکھو اور نہ ہی میرا استغاثہ سنو قسم ہے اس کی جس کے قبضے میں حسین(ع) کی جان ہے اگر آج کسی نے ہمارے استغاثہ کے بعد ہماری مدد نہ کی رب العزت اسے منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔

۷ـ          ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ حسین(ع) نے فرمایا میں قتیل عبرت

۱۳۴

ہوں اور مومن مجھ پر گریہ کیے بغیر یاد نہ کرے گا۔

واقعہ فطرس

۸ـ          شعیب میثمی کہتے ہیں، امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب حسین بن علی(ع) متولدِ ہوئے تو خدا نے ایک ہزار فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ زمین پر جائیں اور رسول خدا(ص) کو تہنیت پیش کریں، جناب جبرائیل جب اس سلسلے میں زمین پر  آرہے تھے تو تجھ ایک جزیرے کے قریب سے گزرتے وقت انہوں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ جس کا نام فطرس تھا جو حاملان عرش سے تھا اور خدا نے اس کے پرتوڑ کر اس کو اس جزیرہ میں پھینک دیا تھا، وہ اس جزیرے پر سات سو سال سے عبادت میں مشغول تھا اور طالب بخشش تھا، اس نے جبرائیل(ع) سے دریافت کیا، اے جبرائیل(ع) کہاں جاتے ہو انہوں نے اسے کہا کہ خدا رب العزت نے محمد(ص) کو نعمت عطا کی ہے اور ہم انہیں خدا اور اپنی طرف سے تہنیت پیش کرنے جارہے ہیں، فطرس نے فریاد کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ محمد میرے لیے دعا کریں جبرائیل اسے اپنے ساتھ لے کر محمد(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب مبارک باد سے فارغ ہوچکے تھے تو جبرائیل(ع) نے فطرس کی درخواست رسول خدا(ص) کو پہنچائی، پیغمبر(ص) نے فطرس سے فرمایا خود کو اس بچے سے مس کر اور اپنے مقام پر واپس چلا جا فطرس نے بحکم رسول ایسا ہی کیا اور با اعجاز اسے اس کا مقام واپس مل گیا فطرس رسول خدا(ص) سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) آپ کا  یہ ولی ( حسین(ع)) شہید کردیا جائے گا اور آپ کے اس احسان جو کہ مجھ پر کیا ہے کا بدلہ میں اس طرح دونگا کہ جوکوئی آپ(ص) کے اس فرزند کی زیارت کرے گا اس کی زیارت کروںگا جو کوئی آپ کے اس فرزند پر درود بھیجے گا میں اس کی زیارت کروں گا جو کوئی اس کےلیے رحمت طلب کرے گا میں اس کی زیارت کروں گا اس کے بعد فطرس واپس عرش کی جانب پرواز کر گیا۔

۹ـ           محمد بن عمارہ کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا نے میرے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کے لیے بے شمار فضائل مقرر کیے ہیں اور جو کوئی اس کی ایک فضیلت کا اس کے اعتراف کے ساتھ ذکر کرے گا تو جان لو کہ خدا اس کے

۱۳۵

 گذشتہ آئندہ گناہ معاف کردے گا ۔ چاہے وہ ( بندہ) تمام جن و انس کے گناہ کے ساتھ محشر ہیں آئے اور جو کوئی اس کی ایک فضیلت کو لکھے گا تو جب تک یہ تحریر باقی رہے گی فرشتے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے اور جو کوئی اس کی فضیلت کو اپنے کان سے سنے گا تو خدا اس کے کانوں کے گناہ معاف کردے گا اور جو کوئی اس کی ایک فضیلت اپنی آنکھوں سے دیکھے گا تو خدا اس کی آنکھوں کے گناہ کو معاف کردے گا۔ پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا ،علی بن ابی طالب(ع) کو دیکھنا عبادت ہے اور اس کو یاد کرنا عبادت ہے اور کسی بندے کا ایمان قبول نہیں مگر اس کی ولایت کے ساتھ اور اس کے دشمنوں سے برائت کے ساتھ اور صلوات ہو نبی(ص) پر اور ان کے آل اجمعین(ع) پر۔

۱۳۶

مجلس نمبر۲۹

(۸ محرم سنہ۳۶۸ھ)

زیارتِ حسین(ع)

۱ـ           وہب بن وہب کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے روایت کی ہے کہ بی بی ام سلمہ(رض) ایک دن گریہ فرمانا شروع کیا تو ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا انہوں نے بیان کیا کہ میرا فرزند حسین(ع) قتل کردیا گیا ہے میں نے رسول خدا(ص) کی وفات سے لے کر اب تک آںحضرت(ص) کو خواب میں نہیں دیکھا تھا آج رات وہ میرے خواب میں تشریف لائے اور میں نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور وہ پریشان حال گریہ کرتے ہیں میں نے جب اس حالت کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اول شب سے لے کر اب تک حسین(ع) اور اس کے اصحاب کی قبریں بناتا رہا ہوں۔

۲ـ           حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں کہ ام سلمہ(رض) زوجہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ رسول خدا(ص) کی وفات سے لے کر آج تک میں نے جنون کے نوحے کو نہیں سنا تھا مگر آج میں نے جنوں کے نوحے کو سنا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ میرے فرزند حسین(ع) کو شہید کردیا گیا ہے بی بی فرماتی ہیں کہ ایک جنیہ آئی اور یوں کہا

” آگاہ ہوجا اے آنکھ اور خوب گریہ کرکہ میرے بعد اس وقت شہیدوں پر کون روئے گا۔ یہ وہ گروہ ہے کہ موت ان کو ایک ظالم کے پاس غلام کی سلطنت میں لے کر جارہی ہے“۔

۳ـ          ابوجارود امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص)  بی بی ام سلمہ(رض) کے گھر میں تھے اور بی بی(رض) کو حکم دیا ہوا تھا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ناگاہ حسین(ع) آئے اور رسول خدا(ص) کے سینے پر سوار ہوگئے بی بی سلمہ(رض) حسین(ع) کو روکنے کے لیے ان کے پیچھے گئیں اور دیکھا کہ رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے جسے دیکھ کر رسول خدا(ص) گریہ فرماتے ہیں بی بی ام سلمہ(رض) نے جب اس گریہ کا سبب دریافت

۱۳۷

کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل(ع)نے خبر دی ہے کہ میرا فرزند حسین(ع) کربلا میں شہید ہو جائے گا یہ وہاں کی خاک ہے اے ام سلمہ(رض) یہ واقعہ تمہاری زندگی میں وقوع پذیر ہوگا یہ خاک تم اپنے پاس رکھنا جب یہ خاک خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا قتل ہوگیا ہے بی بی(رض) نے کہا کہ یا رسول اﷲ(ص)، آپ(ص) خدا سے درخواست کریں کہ وہ اس واقعے کو روک دے آپ نے فرمایا اے ام سلمہ میں نے یہ درخواست کی ہے لیکن ارشاد رب العزت ہے کہ اس (حسین(ع)) کا وہ درجہ ہوگا جو کہ اس کی مخلوق میں کسی کو نہ مل سلے گا یہ اپنے شیعوں کی شفاعت کرے گا جو کہ قبول ہوگی اور بیشک مہدی(ع) کے اس کے فرزندوں میں سے ہوگا خوش قسمت ہےوہ بندہ جو حسین(ع) کے اولیاء میں سے ہوگا اوراس کے شیعہ روزِ قیامت کامیاب ہوں گے۔

۴ـ          کعب الاحبار بیان کرتا کہ ہماری کتاب میں ہے کہ فرزندان محمد(ص) سے ایک فرد ایسا قتل ہوگا کہ اس کے مددگاروں کے گھوڑوں کا پسینہ بھی خشک بھی نہیں ہوا ہوگا کہ وہ بہشت میں پہنچ چکے ہوں گے اور حورالعین کے ہم آغوش ہونگے اس وقت امام حسن(ع) کا گذر وہاں سے ہوا کعب سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ مقتول ہی ہیں اس نے کہا نہیں پھر جب حسین(ع) گذرے تو اس نے گواہی دی کہ وہ یہی ہیں۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ بہت زیادہ گریہ کرنے والے پانچ ہیں آدم(ع)، یعقوب(ع)، یوسف(ع)، فاطمہ(س)بنت محمد(ص)، و علی(ع) بن حسین(ع)، آدم(ع) فراق جنت میں اس قدر روے کہ ان کے رخساروں پر نہروں کی طرح گڑے بن گئے، یعقوب(ع) نے یوسف(ع) پر انتا گریہ کیا کہ ان کی آنکھوں کو بصارت جاتی رہی تھیں یہاں تک کہ کہنے والوں نے کہا( جیساکہ قرآن مجید میں ہے) ” آپ تو ہمیشہ یوسف کے ہی یاد کرتے رہیں گے اور یہاں تک کہ بیمار ہوجائیں یا جان ہی دے دیں گے“ (یوسف، ۸۵) ادھر یوسف(ع) نے یعقوب(ع) پر اتنا گریہ کیا کہ زندان کے قیدیوں کو ان کے رونے سے شدید اذیت پہنچی اور انہوں نے کہا آپ دن میں روئیں اور رات کو آرام کریں یا رات میں گریہ کریں اور ہم دن میں آرام کریں لہذا یوسف(ع) ان کے ساتھ ایک بات پر متفق ہوگئے۔

اور پھر فاطمہ(س) بن محمد(ص) نے رسول خدا(ص) پر اتنا گریہ کیا کہ مدینہ کے لوگوں کو سخت اذیت ہوئی

۱۳۸

 یہاں تک کہ انہوں نے کہا آپ دن یا رات میں کسی ایک وقت گریہ کریں ہم آپ کے گریہ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں چنانچہ فاطمہ(س) مقابر شہدا پر جاکر گریہ کرتی تھیں او پھر علی بن حسین(ع) نےبیس سال سے لے کر اپنی چالیس سالہ عمر تک حسین(ع) پر گریہ کیا جب  بھی ان کے سامنے کھانا یا پانی لایا جاتا آپ(ع) گریہ کرتے یہاںتک کہ آپ(ع) کے غلام نے کہا یا ابن رسول اﷲ(ص) میں ڈرتا ہوں کہ کہیں روتے روتے آپ(ع) کی جان نہ چلی جائے۔ تو آپ(ع) نے اسے جواب دیا کہ میں اپنے غم اور ہم پر ہونے والے مظالم کی شکایت خدا سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے جس وقت مجھے قتل گاہ اولادِ فاطمہ(س) یاد آتا ہے تو مجھے  غم اور گریہ گھیر لیتا ہے۔

۶ـ           ابو عمارہ شاعر کہتے ہیں کہ امام ابو عبداﷲ صادق(ع)نے مجھ سے کہا اے ابو عمارہ میرے لیے امام حسین(ع) کے بارے میں شعر بیان کرو لہذا میں پڑھتا رہا او آپ(ع)  گریہ کرتے رہے یہان تک کہ اس گھر میں ہر طرف گریہ شروع ہوگیا جب میں فارغ ہوا تو فرمایا اے ابو عمارہ جو کوئی حسین(ع) کے لیے نوحہ پڑھتا اور پچاس آدمیوں کو رلاتا ہے وہ مستحق بہشت ہوتا ہے اور جو کوئی نوحہ پڑھے اور تیس آدمیوں کو رلائے تو مستحق بہشت ہے اور  جوکوئی نوحہ پڑھے اور بیس آدمیوں کو رلائے تو وہ مستحق بہشت ہے اور جو دس آدمیوں کو رلائے وہ بھی مستحق بہشت ہے اور اگر ایک آدمی کو بھی رلائے تو بھی مستحق بہشت ہے اور جو نوحہ ہی پڑھے اور خود ہی روئے وہ بھی مستحق بہشت ہے اور اگر کوئی اپنی شکل رونے والی بنائے تو اس کےلیے بھی بہشت ہے۔

۷ـ          داؤد بن کثیر کہتے ہیں میں خدمت امام صادق(ع) میں تھا کہ آپ نے پانی طلب کیاجب آپ(ع) نے پانی پیا تو گریہ کیا اور آپ(ع) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر فرمایا اے داؤد خدالعنت کرے قاتل حسین(ع) پر کہ قتل حسین(ع) کی یاد ہماری زندگی کو ناگوار بنا گئی ہے اے داؤد میں ٹھنڈا پانی نہیں پیتا کیوں کہ یادِ حسین(ع) تنگ کرتی ہے یاد رکھو کوئی آدمی ایسا نہیں ہے کہ جو پانی پی کرحسین(ع) کو یاد کرئے اور اس کے قاتل پر لعنت کرئے اور خدا اس کو اس کا اجر نہ دے خدا ایسے شخص کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے ایک لاکھ درجات بلند کرتا ہے اور یہ ایسے ہےکہ گویا اس شخص نے ایک لاکھ غلام آزاد کیے یقینا وہ قیامت کے دن درخشان چہرے و پیشانی کے ساتھ محشور  ہوگا۔

۱۳۹

۸ـ          ہارون بن خارجہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر(ع) ( ابو عبداﷲ) سے سنا کہ خدا نے قبرِ حسین(ع) پر چار ہزار فرشتوں کو معمور کیا ہے جو آزردہ حال اور خاک آلود حالت میں قیامت تک گریہ کرتے رہیں گے۔ جو کوئی حسین(ع) کے حق( امامت و شہادت) کی معرفت کے ساتھ ان کی تربت کی زیارت کرےگا تو یہ فرشتے اس کو وداع کرنے اس کے وطن تک جائیں گے اگر وہ بیمار ہوگا تو اس کیعیادت کرں گے اور اگر مرجائے تو اس کے جنازے میں آئیں گے اور قیامت تک اس کی مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔

۹ـ           فائدہ حناط کہتے ہیں کہ ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا کہ جو کوئی قبرِ حسین(ع) کی زیارت کرے ان کے حق(امامت) کی معرفت کے ساتھ تو خدا اس کے گذشتہ وآیندہ گناہ معاف کردے گا۔

۱۰ـ          محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے حکم دیا کہ ہمارے شیعوں کو چاہیے کہ وہ حسین(ع) کی زیارت کریں کیوں کہ زیارت کرنے والا کبھی آگ میں جل کر نہیں مرے گا اس کی موت کسی چیز کے نیچے دبنےسے نہیں ہوگی وہ کبھی ڈوب کر یا غرق ہو کرنہیں مرےگا اور اسے کبھی درندے نہیں پھاڑ کھائیں گے اے محمد بن مسلم حسین(ع) کی زیارت ہر اس بندے پر لازم ہے جو خدا کی طرف سے ان کی امامت کا قائل ہو۔

۱۱ـ           بشیر  دھان کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ کبھی کبھی روزِ عرفہ امام حسین(ع) کی تربت پر گزارنے کہ وجہ سے مجھ حج چھوٹ جاتا ہے آپ(ع) نے فرمایا اے بشیر اگر کوئی مومن عام دنوں میںقبرِ حسین(ع) پر ان کے حق کی معرفت رکھے ہوئے آئے گا تو خداوند اس کو پیغمبر مرسل و امام عادل کے ہمراہ کیے گئے بیس جہاد بیس عمرے اور بیس حج جو تمام قبول کیے گئے ہوں کے برابر ثواب عطا کرے گا۔ اور اگر کوئی مومن روزِ عید تربتِ امام پر آئے گا تو خداوند اس کو حج سو جہاد اور سو عمرے ہمراہ پیغمبرِ مرسل و امام عادل کے برابر ثواب عطا کرے گا اور جو کوئی روزِ عرفہ زیارت کے لیے آئے تو  اس کے لیے ایک ہزارحج ایک ہزار جہاد اور ایک ہزار عمرے ہمراہ پیغمبر مرسل اور امام عادل کے برابر ثواب عطا کرے گا بشیر کہتے ہیں میں نے امام سے دریافت کیا کہ

۱۴۰