مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)6%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307050 / ڈاؤنلوڈ: 7990
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

 یا امام(ع) یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عرفات کی زیارت کو موقوف کرے اور خدا اس کو اتنا ثواب عطا کرے تو امام صادق(ع) نے میری طرف غصے سے دیکھا اور فرمایا بیشک یہ ممکن ہے کہ مومن روزِ عرفہ غسل کرے اور زیارت امام حسین(ع) کو آئے تو خدا تمام مناسک کے ساتھ ادا شدہ حج کا ثواب عطا کرتاہے اور یہی مجھے بتایا گیا ہے اور مجھے اس میں جہاد کے ثواب کی شمولیت کی بھی خبر دی گئی ہے۔

۱۲ـ          ابن ابونعیم کہتے ہیں میں ابن عمر کے پاس تھا کہ ایک مرد نے مچھر کو مارنے کے بارے میں ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے کہا میں سر زمین عراق سے ہوں اس پر ابن عمر نے کہا دیکھو یہ شخص مجھ  مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ہے حالانکہ یہی  اہل عراق رسول خدا(ص) کے بیٹے کو قتل کردیں گے جن کے متعلق رسول خدا(ص) سے میں نے سنا ہے کہ حسن(ع) اور حسین(ع) میرے دو پھول ہیں۔

۱۳ـ          محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے عرض کیا کہ یا امام(ع)، میں نے سنا ہے کہ امام حسین(ع) کی انگوٹھی دوسرے اموال کے ساتھ لوٹ لی گئی تھی،آپ(ع) نے فرمائیں کیا ایسا ہی  ہے اور اگر نہیں تو وہ اس وقت کہاں ہے آپ(ع) نے فرمایا اے محمد بن مسلم یہ اس طرح نہیں ہے جیسے تیرا خیال ہے حسین(ع) نے شہادت سے قبل اپنے بیٹے علی بن حسین(ع) کو  کارِ امامت سونپ دیا انہیں وصیت کی اور اپنی انگوٹھی کو ان کے انگلی میں ڈال دیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح رسول خدا(ص) نے جنابِ امیر المومنین(ع) کے لیے کیا تھا۔ پھر جنابِ امیر(ع) نے امام حسن(ع) سے اور امام حسن(ع) نے امام حسین(ع) سے اسی طرح کیا تھا پھر یہ انگوٹھی میرے دادا(ع) سے میرے والد(ع) اور پھر مجھ تک پہنچی جو میں جمعے کے روز پہن کر نماز پڑھتا ہوں محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے جمعے تک انتظار کیا اور بروزِ جعہ ان کے پاس گیا نماز سے فارغ ہونےکے بعد امام عالی مقام(ع) نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس انگوٹھی کی زیارت کی اس انگوٹھی کا نقش ” لا الہ الا اﷲ عدة للقاء اﷲ“ تھا امام عالی مقام(ع) نے فرمایا یہ میرے جد حسین(ع) کی انگوٹھی ہے۔

۱۴ـ          اسماعیل بن ابو زیاد سکونی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے دادا(ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ہر روز فجر کے وقت علی(ع) و فاطمہ(س) کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور فرماتے، حمد ہے اس خدا کی

۱۴۱

کہ جس نے اعمال صالح کو انجام دینے کےبد اپنی نعمت سے فضیلت بخشی اور حمد ہے اس خدا کی جو سمیع و سامع ہے جس نے حسن آزمایش کی نعمت ہم پر تمام کی میں صبح و شام دوزخ سے خدا کی پناہ مانگتاہوں، اے ہل بیت(ع) تم پر صلواة ہو کہ خدا نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ ہر قسم کی پلیدی و نجاست کو تم سے دور کرے اور بہتر طریقے سے تم کو پاکیزہ کرے۔(احزاب، ۳۳)

( مندرجہ ذیل اخبار بطور اضافہ اٹھائیسویں مجلس کے بعد بیان ہوئی ہیں۔)

۱۵ ـ                 محمد بن قاسم نوفلی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ بعض مومن خواب دیکھتے ہیں جن کا کوئی نتیجہ( تعبیر) برآمد نہیں ہوتا جبکہ بعض خواب اپنی تعبیریں رکھتے ہیں ایسا کیوں ہے، اما عالی مقام نے فرمایا کہ جب مومن سوتا ہے کہ تو اس کی روح آسمان تک حرکت کرتی ہے اور جو کچھ بھی آسمان میں موجود اس کی تقدیر و تدبیر سے وابسطہ ہوتا ہے وہ حق ہے اور  اس کی تعبیر بھی بر آمد ہوتی ہے اس کے برعکس جو کچھ بھی زمین پر اس کے بارے میں موجود ہوتا ہے کہ خواب میں دیکھتا ہے تو ایسے خواب بغیرتعبیر کے ہوتے ہیں ، قاسم کہتے ہیں میں نے پھر دریافت کیا کہ اگر روح آسمان تک جاتی ہے تو مومن کے بدن میں اس وقت کیا باقی رہ جاتا ہے امام عالی مقام(ع) نے فرمایا کہ اگر یہ تمام کی تمام آسمان پر چلی جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے کیا تم سورج کو نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہوتا ہے جب کہ اس کی روشنی اور حرارت زمین میں موجود  ہوتے ہیں بالکل اس طرح سورج کی مانند روح جسم میں رہتی ہے جب کہ اس کا پر تو متحرک ہوتا ہے۔

۱۶ـ          معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ امام ابو جعفر باقر(ع) نے فرمایا کہ جب بندگان خدا حالتِ نیند میں ہوتے ہیں تو ان کی روحیں آسمان پر جاتی ہیں جس کسی کی روح آسمان میں موجود جوکچھ دیکھتی ہے حق ہے اور جو کچھ اسے راستے میں نظر آتا ہے باطل ہے آگاہ رہو کہ ارواح کا ایک لشکر روانہ ہوتا ہے ( زمین سے آسمان کی طرف) جو کہ باہم تعارف سے ایک دوسرے سے آشنا ہوجاتا ہے یہ ارواح جو کہ آسمان پر ایک دوسرے سے تعارت حاصل کرلیتی ہیں وہ زمین پر بھی ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں۔ اور جن ارواح کا تعارف آسمان میں نہیں ہوتا وہ زمین پر بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتیں۔

۱۴۲

۱۷ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا۔ میں نے رسول خدا(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) انسان خواب دیکھتا ہے جن سے کچھ حق ہوتے ہیں اور کچھ باطل ایسا کیوں ہے۔ رسول خدا(ص) جواب دیا، کہ اے علی(ع) آدمی جب سوتا ہے تو اسکی روح پرورگار کی طرف پرواز کرتی ہے وہ جو کچھ بھی عرش پر دیکھتی ہے وہ حق ہوتا ہے( اس کی تعبیر ہوتی ہے) جب رب العزت حکم دیتا ہے تو یہ ارواح اپنے بدن میں واپس آجاتی ہیں جب کہ زمین و آسمان کی سیر میں یہ جو کچھ راستے میں دیکھتی ہے باطل ہوتاہے ( بغیر تعبیر کے ہوتا ہے)

۱۸ـ          ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے سنا کہ ابلیس شیاطین کا ایک دستہ رکھتا ہے جس کا نام ہزع ہے جس کی تعداد مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے کو پر کرتی ہے جب یہ شیاطین لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں تولوگ پریشان خواب دیکھتے ہیں۔

فضل بن ربیع

۱ـ           احمد بن عبداﷲ فروی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں ( احمد کا والد) ایک دن فضل بن ربیع کے گھر گیا اور دیکھا کہ وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھا تو کہا کہ آؤ میرے پاس بیٹھو جب بیٹھ گیا تو مجھ سے کہا اُدھر دیکھو جب میں سے اس جانب دیکھا تو پوچھا کہ کیا نظر آیا میں نےکہا ایک  کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہے۔کہا کہ غور سے دیکھو میں  نے کچھ تامل کیا اور پھر دیکھا کہ ایک شخص سجدے میں ہے فضل نے پوچھا کیا انہیں پہچانتے ہو میں نے کہا نہیں کہنے لگے یہ تیرے مولا و آقا ہیں میں نے کہا کون ہیں؟ فضل کہنے گے خود کو انجان ظاہر کرتے ہو تو میں نے کہا کہ نہیں میرا مولا کوئی نہیں ہے فضل بن ربیع نے کہا یہ ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) ہیں میں شب و روز مشاہدہ کرتا ہوں کہ یہ اسی حالت میں ہوتے ہیں وہ نمازِ فجر ادا کرتے ہیں اور پھر تعقیبات میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ اسی حال میں سورج طلوع ہوجاتا ہے پھر یہ سجدے میں چلے جاتے ہیں اور ظہر تک سجدے میں رہتے ہیں میں (فضل) کسی اور شخص کو نہیں جانتا جو زوال تک ایسا کرتا ہو پھر غلام آتا ہے اور کہتا ہے کہ وقت ظہر آگیا تو یہ اپنی نماز ظہر  شروع کردیتے ہیں نماز ظہر کے لیے انہیں

۱۴۳

 تجدید وضو کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ یہ دوران سجدہ نہ سوتے ہیں اور نہ ہی بے ہوش ہوتے ہیں پھر یہ عصر ادا کرتے ہیں اور تعقیبات نماز کے بعد دوبارہ سجدے میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ غروب آفتاب ہو جاتاہے یہسجدہ سے اٹھتے ہیں او بغیر تجدید وضو کے یہ نماز مغرب، اس کی تعقیبات اور پھر عشاء ادا کرتے ہیں اس کے بعد میں ان کے لیے کھانا لاتا ہوں یہ افطار کرتے ہیں اور پھر تجدید وضو کر کے سجدے میں چلےجاتے ہیں پھر سجدے سے سر اٹھاتے ہیں اور کچھ دیر استراحت فرماتے ہیں پھر اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور نماز ِ شب کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہان تک کہ صبح کی سفیدی نمودار ہوتی ہے مجھے نہیں معلوم کہ ان کا غلام ان کو کس وقت طلوع فجر کی اطلاع کرتا ہے کہ وہ پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جب سے وہ میری تحویل میں دیئے گئے ہیں میں ان کا یہی طریقہ دیکھ رہا ہوں۔

احمد بن عبداﷲ فروی کے والد نے فضل بن ربیع سے کہا کہ خدا سے ڈرو ان کو کبھی تکلیف نہ پہنچانا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات تمہارے لیے باعث زوالِ نعمت ہوجائے کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس کسی نے ان کے ساتھ بدی کی اس سے خدا کی نعمتیں چھن گئیں فضل نے کہا کہ مجھے بارہا ان کے قتل کا حکم دیا گیا اور یہ کہاگیا کہا گرتم نے انہیں قتل نہ کیا تو تمہیں قتل کردیا جائے گا لیکن میں نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔

اس کے بعد امام عالی مقام(ع) کو فضل بن یحیی برمکی کی تحویل میں دے دیا گیا۔ زندان برمکی میں ان کے لیے کھانا فضل بن ربیع کے گھر سے بھجوایا جاتا رہا یہاں تک کہ تین دن و رات گزرگئے چوتھے دن کھانا یحیی برمکی نے بھیجا امام عالی مقام(ع) نے کھانا کو دیکھا تو فرمایا، یا خدا تو جانتا ہے کہ اگراس سے پہلے میں اس طرح کا کھانا کھاتا تو موت یقینی تھی  یہ کہہ کرآپ(ع)  نے کھانا تناول فرما لیااور بیمار ہوگئے(زہر کے اثر سے ) صبح ایک طبیب کو ان کے پاس ان کی حالت دریافت کرنے بھیجا گیا طبیب نے پوچھا کہ آپ کے درد کا کیا سبب ہے آپ(ع) خاموش رہے طبیب نے دوبارہ دریافت کیا تو امام عالی مقام(ع) نے اپنے ہاتھ اسے بلند کر کے دکھائے ہاتھ کی ہتھیلی میں سبز نشان دیکھ کر طبیب باہر آگیا اس سے دریافت کیا گیا کہ ان(امام) کی حالت کیسی ہے طبیب نے کہا جو کچھ ان کے

۱۴۴

ساتھ کیا گیا ہے اور جو ان کی حالت ہے اسے خدا ہی بہتر جانتا ہے، اسی حالت میں امام عالی مقام(ع) کی شہادت ہوگئی۔

۲ـ           علی بن یقطین کہتے ہیں کہ ہارون رشید نے اپنے ایک درباری سے کہا کہ کچھ ایسا کر جس سے امام موسی بن جعفر(ع) کے امِ امامت کو غلط ثابت کرنے میں مدد مل سکے اور ان کا اثر و نفوذ ختم ہوجائے، اس درباری نے ایک جادوگر کا انتظام کیا جب وہ آیا تو ایک دستر خوان بچھایا گیا اور امام موسی بن جعفر(ع) کو بلایا گیا جب خادم ، ابوالحسن(ع) کے لیے روٹٰی لایا تو اس جادوگر نے کرتب سے روٹی آپ(ع) کے آگے سے کھینچ لی۔ یہ دیکھ کر ہارون ہنسا اور اپنی جگہ سے اٹھا۔ امام عالی مقام(ع) نے دربار پر نظر دوڑائی اور دربار میں لگی ہوئی شیر کی تصویر جو کہ کپڑے پر بنی ہوئی تھی کو حکم دیا کہ اس دشمن کو نگل لے تصویر کا شیر مجسم ہوا اور جادوگرکو نگل گیا ہارون اور اس کے درباریوں سے جب یہ معجزہ دیکھا تو خوف سے غش کھا کر گرپڑے جب کافی دیر کےبعد ہوش میں آئے تو امام عالی مقام(ع) سے گذارش کی کہ ہم آپ(ع) کو آپ(ع) کے حق کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس شیر کو حکم دیں کہ اس جادوگر کو واپس اگل دے امام عالی مقام(ع) نے فرمایا اگر عصائے موسی(ع) نے لکڑی اور رسی سے بنے سانپوں کو اگل دیا ہوتا یہ شیر بھی ویسا ہی کرتا کہا جاتا ہےکہ آںحضرت(ع) کا یہ معجزہ ان کے قتل کا موثر ترین ذریعہ بن گیا ( کیونکہ یہ معجزہ دیکھنے کے بعد ہارون کے دل میں حضرت(ع) کے لیے زیادہ بغض بھر گیا تھا۔)

۳ـ          حسن بن محمد بشار، قطعیہ الربیع سے راویت کرتے ہیں ( جو کہ عامہ الناس میں مقبول اور دانا سمجھا جاتا تھا) کہ میں نے خاندان رسول خدا(ص) کے بعض اہل فضل کو دیکھا ہے مگر عبادات و فضیلت میں جیسے موسی بن جعفر(ع) کو پایا کسی کو نہیں پایا میں ( حسن بن بشار) نے پوچھا کہ یہ تم پر کس طرح عیان ہوا اس نے بتایا کہ یہ مجھ پر سندی بن شاہک کے زندان میں قید کے دوران عیاں ہوا اس نے بتایا کہ جب امام عالی مقام(ع) سندی بن شاہک کے زندان میں قید تھے تو اس نے اسی(۸۰) رؤسا شہر کو اکٹھا کیا اور زندان میں جنابِ موسی بن جعفر(ع) کے پاس لے کر گیا میں بھی ان رؤسا کے ہمراہ تھا پھر ہمیں مخاطب کر کے امام (ع) کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر سختی کی جارہی ہے حالاںکہ ان کی منزل یہی ہے پھر بھی انہیں یہاں بستر فراہم کیا گیا ہے اور کسی قسم

۱۴۵

کی سختی نہیں کی گئی اور امیرالمومنین(ع) ( ہارون رشید) کا ارادہ بھی ان کے ساتھ برائی کا نہیں ہے ہمیں ان کی قدر و منزلت اور فضیلت سے کس طرح کا خوف نہیں حالانکہ ان کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اس پر امام عالی مقام(ع) نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمایا کہ جو کچھ میری فضیلت و کرامت کے بارے میں کہا جاتا ہے حق ہے میں تمہیں اس کی پہلے ہی اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے فرمایا انگور کے نو دانوں میں زہر ڈال کردیا جائے گا جس کے کھانے سے اگلے روز میرے جسم کی رنگت سبز ہوجائے گی اور پھر اس سے اگلے روز میں وفات پاجاؤں گا یہ سن کر سندی بن شاہک خوف سے کانپنے لگ گیا اور اس طرح مضطرب ہوگیا جیسے درخت کی شاخیں ہوا میں مضطرب ہوجاتی ہیں۔

۴ـ          ثابت بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے امام زین العابدین(ع) سے خدا کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا خدا مکان رکھتا ہے تو امام(ع) نے فرمایا اس سے بلند تر ہے ثابت کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ پھر کیوں اپنے نبی کو آسمان پر لے کر گیا فرمایا تاکہ جو کچھ عجائبات ہیں وہ ان کا مشاہدہ کریں اور ملائکہ سے ملیں ثابت بن دینار کہتے ہیں،میں نے پوچھا تو پھر خدا کے اس قول کے کیا معنی ہوئے” کہ وہ اس قدر نزدیک ہوا کہ با اندازہ دو کمانوں کا فاصلہ تھا“ امام(ع) نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا(ص) پردة نور کے اسقدر نزدیک ہوئے کہ فرشتوں کے رہنے کی جگہ کو دیکھا اور بادشاہی دیکھی اور زمین اور عرش کی بادشاہی کے درمیان فاصلے کا خود مشاہدہ کیا۔

صلوات ہو ہمارے نبی(ص) پر اور ان کی آل(ع) پر۔

۱۴۶

مجلس نمبر۳۰

(دس محرم الحرام سنہ۳۶۸ھ)

( یہ مجلس جنابِ صدوق نے مقتلِ حسین(ع) میں پڑھی)

مجلس عاشور

۱ـ           امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کہ جب معاویہ کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے یزید کو بلایا اور کہا کہ میں نے اس وسیع و عریض سلطنت پر تیری حکومت کو مضبوط کرنے کے تمام اسباب فراہم کردئے ہیں اور تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے تمام شہر اس وقت تیری حکومت کے لیے آمادہ ہیں۔ مگر میں تین اشخاص سے خوف زدہ ہوں کہ یہ تیری مخالفت کریں گے اور ان میں سے ایک عبداﷲ بن عمر خطاب دوسرے عبداﷲ بن زبیر اور تیسرے حسین بن علی(ع) ہیں۔

اے یزید سن اگر تو عبداﷲ بن عمر سے اچھے طریقے سے پیش آیا اور اس کی خاطر مدارت کرتا رہا تو اس کا دل تیرے  ساتھ رہے گا اس لیے اس کی خاطر مدارت سے ہاتھ مت اٹھانا، عبداﷲ بن زبیر اگ جنگ کے لیے آمادہ ہو تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ تیری گھات میں رہے گا اور در پردہ کا روائیاں کرتا رہے گا۔ حسین بن علی(ع) کو تم جانتے ہو کہ ان کی رسول اﷲ(ص) کے ساتھ کیا نسبت ہے ان کا اور رسول(ص) کا گوشت اور خون ایک ہے مین جانتا ہوں کہ عراق کے لوگ ان کو شورش کےلیے بلائیں گے، خود کو قابو میں رکھنا اور کسی قسم کی غلط کاروائی مت کرنا اور ان کی تواضع کرنا اگر تم ان پر قابو پالو تو ان کےحق کو پہچاننا  اور رسول خدا(ص) سے نسبت کی وجہ سے ان سے رعایت کرنا اور مواخذہ نہ کرنا، جو روابط  مین نے اس عرصے میں ان سے استوار کرنے کی کوشش کہ ہے انہیں منقطع نہ کردینا کہیں یہ نہ ہو کہ تم ان سے برائی کر بیٹھو۔

جب معاویہ مرگیا اور یزید بن معاویہ لعین تخت خلافت پر بیٹھا تو اپنے چچا عتبہ بن ابو سفیان اور دوسری روایت کے مطابق ولید بن عتبہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا عتبہ نے مروان بن حکم جو کہ معاویہ کی

۱۴۷

طرف سے مدینے کا حاکم تھا کو معزول کردیا اور حکم یزید کے تحت مدینے کی گورنری سنبھال لی۔ مروان بن حکم فرار ہوگیا اور اسے گرفتار نہ کیا جاسکا ۔ عتبہ نے اسکے بعد حسین بن علی(ع) کو طلب کیا اور ان سے یزید بن معاویہ کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام عالی مقام(ع) نے ارشاد فرمایا اے عتبہ تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیت(ع) ، معدن رسالت ہیں اور علم خدا کے عالم ہیں خدانے حق کو ہمارے سپرد کیا ہے اور ہماری زبانوں پر اسے جاری کیا ہے۔ میں (حسین(ع)) خدا کے اذن سے گویا ہوں ہ میں نے اپنے جد رسول خدا(ص) سے سنا ہےکہ خلافت فرزندانِ ابو سفیان پر حرام ہے اور جن کے لیے رسول خدا(ص) کا یہ صریح حکم موجود ہو میں اس کی بیعت کیسے کرسکتا ہوں۔ عتبہ نے جب امام عالی مقام(ع) کا یہ جواب سنا تو یزید کو خط لکھا۔

امیرالمومنین یزید(لعین) کے لیے عتبہ بن ابوسفیان کی طرف سے آگاہ ہو جا کہ حسین(ع)  بن علی(ع) تیری خلافت اور تیری بیعت کے معتقد نہیں ہیں اس بارے میں جو تیری حکم ہو وہ صادر کر والسلام۔

یہ خط جب یزید لعین کو پہنچا تو اس نے جواب لکھا۔ جب میرا یہ خط تجھ تک پہنچے تو اس وضاحت کے ساتھ مجھے فورا جوابی خط لکھ کہ کون کون میرا مطیع و فرمانبردار اور کون میرا مخالف ہے اور تیرے جوابی خط کے ساتھ حسین بن علی(ع) کا سر بھی ہونا چاہیے۔

جب یہ خبر امام عالی مقام(ع) تک پہنچی تو انہوں نے سفر کی تیاری شروع کردی اور رات کو مسجد نبوی میں آئے تاکہ رسول خدا(ص) سے وداع ہولیں جب قبرِ مبارک پر پہنچے تو دیکھا کہ قبرِ مبارک سے نور نکل رہا ہے آپ(ع)(حسین(ع)) واپس ہولیے دوسری شب پھر رسول خدا(ص) کو الوداع کہنے کے لیے تشریف لائے اور نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور سجدہ کو طول دیا یہاں تک کہ آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا کہ رسول خدا(ص) تشریف لائے ہیں اور سینے سے لگا کر آنکھوں کے بوسے لیتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے ماں باپ تجھ پر قربان میں تمہیں خون میں لت پت دیکھ رہا ہوں اس حالت میں کہ میری امت کو دعوی کرنے والے لوگوں کا جم غفیر تیرے گرد ہوگا اور ان کے لیے میری شفاعت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے اےمیرے بیٹے تم اپنے ماں(ع) باپ(ع) اور بھائی(ع) کے پاس آجاؤ کہ وہ سب تم سے ملنے کے مشتاق

۱۴۸

ہیں۔ میرے فرزند جان لو کہ تم بہشت میں بہت بلند درجات رکتھے ہو جو تمہیں بغیر شہادت نہیں مل سکتے ۔

حسین(ع) روتے ہوئے بیدار ہوئے اور اپنے خاندان کے پاس وہس آئے اور ان سےاپنے خواب کوبیان کیا ہھر اپنے برادر زادوں اور مخدرات عصمت کو سواریوں پر سوار کروایا اور اپنے اکیس(۲۱) اصحاب اور اہل بیت(ع) کے ساتھ پیچھے رہ جانے والوں کو الوداع کہ امام(ع) کے ساتھ جانے والوں میں اہل بیت(ع) کے ان افراد نےشمولیت کی جناب قاسم بن حسن(ع)، جنابِ ابوبکر بن علی(ع)، محمد بن علی(ع) عثمان بن علی(ع) عباس بن علی(ع) عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع)، علی بن حسین اکبر(ع) علی بن حسین(ع) اصغر(ع) ۔ جب امام (ع) کے کوچ کی خبر عبداﷲ بن عمر کو ملی تو وہ امام عالی مقام(ع) کے پیچھے گئے اور ایک منزل پر جاکر ان سے ملاقات کی اور عرض کیا، یا رسول اﷲ(ص) کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں جواب ملا عراق کا عبداﷲ بن عمر نے کہا میری گذرش ہے کہ آپ(ع) یہ ارادہ ترک کر کے واپس اپنے جدا(ص) کے حرم کی طرف مدینہ لوٹ جائیں امام عالی مقام(ع) نے انکار کیا تو عبداﷲ بن عمر نے کہا کہ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں رسول خدا(ص) آپ(ع) کے بوسے لیا کرتے تھے امام (ع) نے انہیں بتایا تو عبداﷲ بن عمر نے اس جگہ کا تین دفعہ بوسہ لیا اور گریہ کیا اور کہا یا ابن رسول اﷲ(ص)  میں آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں آپ اس سفر میں شہید کردئیے جائیں گے۔

امام عالی مقام(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب دوبارہ چل پڑے مقام ثعلبہ میں ایک شخص جس کا نام بشیر بن غالب تھا امام(ع) کے پاس آیا اور عرض کی یا بن رسول اﷲ(ص) مجھے خدا کے اس قول کہ” اس دن ہر ایک کو ا ک امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔( اسراء ، ۷۱) کی وضاحت فرمائیں۔ امام عالی مقام(ع) نے فرمایا وہ امام جوکہ حق کی طرف دعوت کرئے اوروہ دعوت کی جائے  اور وہ اسلام جو گمراہی کی طرف دعوت دے اور وہ بھی قبول کی جائے تو یہ پہلا گروہ بہشت اور دوسرا دوزخ میں جائے گا اور پھر فرمایا کہ” ایک گروہ بہشت میں اور ایک گروہ دوزخ میں جائے گا۔ “ (شوری، ۷) یہ کہہ کر آُپ(ص) روانہ ہوگئے اور عذیب کی منزل پر پڑاؤ کیا یہاں نصف دن استراحت فرمایی جب نیند سے بیدار ہوئے تو گریہ فرماتے ہوئے اٹھے آپ(ع) کے فرزند نے دریافت کیا، بابا یہ گریہ کس لیے

۱۴۹

 ہے تو امام (ع) نے فرمایا اے فرزند یہ وہ وقت ہے کہ جب بھی خواب باطل نہیں ہوتا خواب مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم جانے میں جلدی کرو کیونکہ موت تہمیں بہشت میں  لے جائے گی۔

پھر امام (ع) عالی مقام(ع) نے وہاں سے کوچ کیا اور مقام رہیمیہ میں قیام فرمایا یہاں آپ کی ملاقات اباہرم نامی  شخص سے ہوئی جو کہ کوفہ باشندہ تھا اس نے امام(ع) سے دریافت کیا کہ اے ابن رسول(ص) اس حال میں آپ(ع) کیوں مدینہ چھوڑ کر نکلے ہیں امام(ع) نے فرمایا اے ابا ہرم تم  پر وائے ہو تم مجھے دشنام دیتے ہو میں حالتِ صبر میں ہوں اور اس حالت میں بھی صبر کروں گا جب میرا مال لوٹا جائے گا اور میرا خون گرایا جائے گا خدا کی قسم مجھے قتل کردیا جائے گا اور رب العزت ان لوگوں کو خوار کرئے گا اور ایک شمشیر کو ان پر مسلط کردے گا جو ان سے میرا انتقام لے گی اور ان پر ایک ایسے مرد کو مسلط کردے گا جو ان کو ذلیل و خوار کرے گا۔

جب یہ خبر عبیداﷲ بن زیاد لعین کو پہنچی کہ حسین(ع) رہیمیہ کی منزل تک پہنچ گئے ہیں تو اس نے حر ابن یزید ریاحی کی  سر کردگی میں ایک ہزار سواروں کا دستہ بھیجا ، حر جب رھیمیہ پہنچا تو آگے بڑھاتا کہ امام سے ملاقات کرے تو اس نے تین بار اس آواز کو سنا کہ اے حر تجھے جنت کی بشارت ہو حر نے جب پیچھے مڑکر آواز دینے والے کو دیکھنا چاہا اور کسی کو وہان نہ پایا تو سوچا کہ ہم رسول خدا(ص) کے فرزند کے خلاف ہیں پھر بہشت میں کیسے جائیں گے۔ نماز ظہر کے وقت حر امام عالی مقام(ع)  کی خدمت میں حاضر ہوا امام عالی مقام(ع) نے اپنے فرزند کو حکم دیا کہ وہ اذان و اقامت کہیں پھر امام (ع) کی امامت مین دونوں گروہوں نے نماز پڑھی۔

بعد از نماز حر خدمتِ امام(ع) میں حاضر ہوا اور عرض کیا السلام علیک یا بن رسول اﷲ(ص) ، امام عالی مقام(ع) نے فرمایا و علیک السلام تم کون ہو اے خدا کے بندے حر نےجواب دیا میں حر بن یزید ریاحی ہوں۔ امام(ع) نے فرمایا، حر ہمارے ساتھ جنگ کرنے آئے ہو یا ہماری مدد کرنے۔ حر نے کہا مجھے آپ(ع) کے ساتھ جنگ کر نے بھیجا گیا ہےمگر یا بن رسول اﷲ(ص) میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جب میں قبر سے نکلوں تو میرے پاؤں میرے سر کے بالوں سے بندھے ہوں اور میرے ہاتھ میری گردن کے ساتھ اور مجھےلے جا کر جہنم میں گرا دیا جائے اور یا ابن رسول اﷲ(ص) میرا مشورہ آپ(ع) کو یہ

۱۵۰

ہے کہ آپ(ع) اپنے جد کے حرم مدینہ لوٹ جائیں ورن یہ لوگ آپ کو قتل کردیں گےامام عالی مقام(ع) نے جواب دیا کہ عنقریب میں اپنے جد رسول خدا(ص) سے ملاقات کروں گا اور بہادر کےلیے موت سے کوئی خوف نہیں جب کہ اس کی نیت حق ہو اور وہ مسلمان ہو کر جہاد کرئے اور اپنے ذریعے سے نیک لوگوں کی مدد کرے اور ہلاک ہونے والوں سے اگ ہو اور بدی کے خلاف ہو۔ پس اگر میں زندہ رہ گیا تو میرے لیے کوئی ندامت و پریشانی نہیں اور اگر مرگیا تو مجھے موت سے کوئی تکلیف نہیں لیکن تیری ذلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ تو زندہ رہے او تیری ناک رگڑی جائے۔

پھر امام عالی مقام(ع) نے رھیمیہ سے کوچ کیا اور قطقطانیہ میں پڑا ڈالا وہاں کچھ دور لگے خیموں کو دیکھ کر امام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ خیمے کس کے ہیں آپ(ع) کو مطلع کیا گیا کہ یہ خیمے عبیداﷲ بن حر جعفی کے ہیں۔ امام(ع) نے اس کو طلب کیا اور فرمایا کہ تو ایک گناہ گار اور خطا کار انسان ہے دھو ڈالے تو اپنے گناہوں کی رب العزت سے معافی مانگ اور میری مدد کر میرے جد رسول خدا(ص) بارگاہ رب العزت میں تیری شفاعت کریں گے عبیداﷲ جعفی نے کہا یا امام اگر میں نے آپ(ع) کے لشکر میں شمولیت اختیار کر لی تو میں وہ پہلا شخص ہوں گا جسے یہ قتل کریں گے مگر میں آپ کو اپنا گھوڑا پیش کرتا ہوں خدا کی قسم میں نے جب بھی پر سوار ہو کر اسے ایڑ لگائی ہے کوئی اس کی  گرد کو بھی پاسکا اور میں نرغے میں نہین آیا آپ(ع) یہ گھوڑا لے لیں۔

امام(ع) نے اپنا چہرہ اس سے دوسری طرف پھیر لیا اور فرمایا ہمیں تیرے گھوڑے سے نہیں تجھ سے غرض ہے۔میں ظالم کی مدد کو اپنے لیے قبول نہیں کرتا تو ایسا کر کہ کہ یہاں سے بہت دور چلا جا نہ ہمارے ساتھ رہ اور نہ ہمارے خلاف ہو کیوںکہ جب میں نے استغاثہ بلند کردیا تو پھر ہر سننے والے پر  لازم ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اگر اس نے ایسان نہ کیا تو خدا اسے جہنم میں گرائے گا۔

یہ کہہ کر امام نے کوچ کیا اور کربلا آپہنچے۔ کربلا پہنچ کر امام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ کونسی جگہ ہے کہ آپ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا خدا کی قسم آج گرفتاری و بلا کا روز ہے اسی جگہ ہمارا  خون بہایا جائیگا اور ہماری حرمت کو مباح کیا جائیگا۔

۱۵۱

عبیداﷲ بن زیاد لعین نے عمر ابن سعد لعین کو چار ہزار سوار دے کر حسین(ع) کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اسکے علاوہ عبداﷲ بن حصین لعین کو ایک ہزار سوار، شیث بن ربعی لعین کو ایک ہزار سوار اور محمد بن قیس کندی لعین کو بھی ایک ہزار سوار دے کر عمر سعد لعین کے پیچھے روانہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ عمر سعد لعین کی سرکردگی میں جنگ لڑیں گے عبیداﷲ بن زیاد لعین کو جب یہ خبر دی گئی کہ عمر سعد لعین نے حسین(ع) کے ساتھ رات کی تاریکی میں گفتگو کی ہے تو اس نے شمر بن زی الجوشن لعین کو چار ہزار کی فوج دے کر روانہ کیا اور عمر سعد لعین کو احکامات جاری کیے کہ جب میرا یہ حکم نامہ تجھ تک پہنچے تو حسین بن علی(ع) کو مزید مہلت مت دے اور انہیں گردن سے دبوچ لے اور ان پر اس طرح پانی بند کردے جس طرح یوم دار عثمان پر پانی بند کردیا گیا تھا جب یہ خط عمر سعد کو پہنچا تو اس نے منادی کروا دی کہ حسین(ع) اور ان کے اصحاب کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مہلت ہے۔

جب یہ آواز امام(ع) کے اعزاؤ و اصحاب کے کانوں میں پڑی تو انہیں نہایت ناگوار گزرا امام عالی مقام(ع) کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کسی کو میرے اصحاب سے زیادہ با وفا اور میرے اہل بیت(ع) سے زیادہ فرمانبردار اور صلہ رحم کے زیادہ پابند اہل بیت(ع) ملے ہوں میں جانتا ہون کہ مجھ پر وہ وقت آگای ہے لہذا میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں۔ اور تمہیں اس ذمہ داری سے بری کرتا ہوں اس وقت رات کی تاریکی ہے تم اس کا فائدہ اٹھاؤ او اطراف سے نکل جاؤ کیوںکہ یہ قوم فقط میرے ہی خون کی پیاسی ہے یہ صرف میرا ہی تعاقب کریں گے اور اگر مجھے پالیں گے تو کسی اور کے پیچھے نہیں جائیں گے۔ عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا ابن رسول اﷲ(ص) لوگ کیا کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگ و آقا اور آقازادے کو اور اپنے پیغمبر(ص) کے فرزند کو دشمنوں کے نرغے میں چھوڑ دیا ہے اور دشمن پر اپنے نیزہ و شمشیر سے حملہ نہیں کیا۔یابن رسول اﷲ(ص) خد کی قسم ہم ایسا نہیں کرین گے جب تک ہم آپ(ع) کے ساتھ ہیں ہم اپنا خون اور اپنی جاں آپ پر فدا کردیں گے یہاں تک کہ جو آپ کی طرف سے ہم پر واجب ہے وہ ادا نہ ہوجائے اور جو وعدہ کیا ہے وہ پورا نہ ہوجائے ۔پھر زہیر بن قین بجلی کھڑے ہوئے اور کہا یا ابن رسول اﷲ(ص) میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ آپ(ع) کی مدد کرتا ہوا سو دفعہ قتل ہوجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر

۱۵۲

 قتل ہوجاؤں میں خدا سے دعا کرتا ہوںکہ وہ میرے وجود کی وجہسے ان لعینوں کو آپ(ع) کے خاندان سے دور کردے ہم تمام اصحاب کےلیے یہ جزائے خیر ہے۔ اس کے بعد امام عالی مقام(ع) نے فرمایا کہ خیام کے چاروں طرف خندق کھودیں اور لکڑیوں سے اسے پر کردیں پھر امام نے پانے فرزند علی اکبر(ع) بیس بہادر اور تیس سوار دے کر بھیجا کہ وہ جائیں اور پانی لے کر آئیں علی اکبر(ع) گئے اور خفیہ طریقے سے پانی لے آئے ان کی زبان پر اس وقت یہ اشعار جاری تھے۔

” اے زمانے تف ہے تجھ پر تو کتنا برا دوست ہے کہ ہر صبح و شام کتنے ساتھی و طلب گار مقتول ہوتے ہیں جب کہ تو تبادلے پر قناعت نہیں کرتا اور حکم اور امر تو جلیل کے ہاتھ میں ہے اور ہر زندہ رہنے والا میرے راستے پر چلنے والا  ہے“ اس کے بعد امام(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو اور  پانی پیو کہ یہ تمہارا آخری توشہ ہے اور وضو و غسل کرو اور اپنے کپڑوں میں خوشبو لگا کر انہیں بطور کفن پہن لو۔ بالاخر نماز فجر ادا کی گئی اور اس کے بعد اصحاب کو جنگ کے لیے صف آرا کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ خندق کی لکڑیوں میں آگ لگا دی جائے ۔تاکہ دشمن کا لشکر صرف ایک ہی طرف سےحملہ آور ہوسکے۔

دشمن کے لشکر کی طرف سے ابن ابی جویریہ نامی ایک شخص نے جب خندق میں آگ روشن ہوتے دیکھی تو اس نے آگے بڑھ کر آگ لگانے والے کو مخاطب کیا اور کہا کہ وائے ہو تم پر تم دنیا میں ہی آگ کامزہ چکھنا چاہتے ہو۔ امام عالی مقام(ع) نے جب اس کی یہ آواز سنی جو ارشاد فرمایا کہ یہ کون ہے۔ آپ(ع) کو مطلع کیا گیا کہ یہ ابن ابی جویریہ نامی شخص ہے امام نے فرمایا خدایا اس کو دنیا میں ہی آگ کا مزہ چکھا دے امام(ع) کی دعا کا ختم ہونا تھا کہ اس لعین کا گھوڑا بدکا اور اسے سیدھا خندق مین گرادیا جس سے وہ ( ابن ابی جویریہ) زندہ آگ میں جل کر مرگیا۔

اسکے بعد عمر سعد لعین کےلشکر سے تمیم بن حصین فراز نامی شخص سے پکارا کر کہا اے حسین(ع) اور اصحاب حسین(ع) دریائے فرات کو دیکھو کہ اس میں مچھلیاں تیر رہی ہیں اور سیراب ہو رہی ہیں مگر خدا کی قسم تمہیں اس کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا یہاں تک کہ تم بیتابی کی حالت میں جان دیدو۔ امام عالی مقام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے بتایا گیا یہ تمیم بن حصین فرازی ہے آپ(ع) نے

۱۵۳

 ارشاد فرمایا کہ یہ اور اس کا باپ اہل دوزخ میں سے ہیں پھر دعا فرمائی کہ اے رب العزت آج اس کو پیاس میں مبتلا کردے آپ(ع) کا یہ کہنا تھا کہ اس کو شدید پیاس نے آگھیرا وہ اضطراب کی حالت میں گھوڑے سے نیچے گر گیا اور اسی کے گھوڑے نے اس کو اپنے سموں تلے  روند دیا۔

اس کے بعد لشکر عمر سعد لعین سے محمد بن اشعث کندی لعین سامنے آیا اور کہنے لگا اے حسین(ع) بن فاطمہ(س) تم رسول(ص) کی طرف سے ایسی کونسی حرمت رکھتے ہو جو دوسرے نہیں رکھتے امام(۰ع)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، بے شک خدا نے آدم کو نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو چنا عالمین سے اور بعض بعض کی ذریت ہیں“(آل عمران، ۳۳) اور پھر فرمایا کہ خدا کی قسم محمد(ص) آل ابراہیم(ع) سے ہیں اورہم خاندان محمد(ص) کی رہبر عترت ہیں۔ اس کے بعد آپ(ع) نے دریافت کیا کہ یہ مرد کون ہے بتایا گیاکہ اس کا نام محمد بن اشعث بن قیس کندی ہے امام عالی  مقام(ع) نے سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا خدایا اس شخص کو ایک ایسی خواری دے کہ اس کی عزت باقی نہ رہے امام عالی مقام(ع) کا یہ فرمانا تھا کہ یکا یک محمد بن  اشعث کو ایک ایسا عارضہ ہوا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے بھاگا گیا اور جب بیٹھا تو خدانے ایک بچو کو اس پر مسلط کر دیا جس کے ڈنگ مارنے سے یہ شخص برہنہ حالت میں اپنی غلاظت میں گر کر مرگیا۔

جب امام کے اصحاب پر پیاس نے غلبہ کیا تو بریر بن حصین ہمدانی( راوی حدیث ابراہیم بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ بریر ابو اسحاق کے خالو ہیں) امام عالی مقام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یا ابن رسول اﷲ(ص) اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ان سے  جاکر بات کروں اور پانی لانے کی کوشش کروں۔ امام نے اجازت دی وہ عمر سعد لعین کے لشکر کے پاس گئے اور فرمایا اے لوگو بے شک خدا نے محمد(ص) کو چنا جو  کہ بشیر و نذیر اور خدا کی اجازت سے لوگوں کو اپنی طرف بلانے والے ہیں وہ روشن چراغ تھے راہ ہدایت تھے یہ فرات کا پانی جس کو جانور تک پی رہیے ہیں تم نے اولاد رسول (ص) پر بند کردیا ہے جواب میں عمر سعد لعین کے لشکریوں نے کہا اے بریر تم کو کافی طول دے دیا ہے تم اتنی ہی بات کو کافی جانو کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ حسین(ع) اسی طرح پیاسا قتل ہوجائے۔ جس طرح ایک شخص ( عثمان) پہلے بھی قتل ہوچکا ہے ۔ امام حسین(ع) نے فرمایا بریر بیٹھ جاؤ

۱۵۴

 پھر امام اپنی جگہ سے اٹھے اور تلوار کا سہارا لیکر کھڑے ہوئے اور با آواز بلند فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہون کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو، جواب ملا ہاں تم رسول کے فرزند ہو امام نے فرمایا جانتے ہونا کہ میرے جد رسول خدا(ص) ہیں، جواب ملا ہاں پھر فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ میری ماں فاطمہ(س) بنت محمد(ص) ہین جواب ملا ہاں جانتے ہیں پھر فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا جانتے ہو کہ میرے والد علی بن ابی طالب(ع) ہیں جواب ملا خدا کی قسم جانتے ہیں، پھر فرمایا  کہ کیا جانتے ہو کہ میری جدہ خدیجہ بنت خویلد اسلام لانے والی پہلی خاتون ہیں۔ جواب ملا جانتے ہیں، آپ نے پھر فرمایا تمہیں قسم ہے کیا تم جانتے ہو کہ سید الشہداء حمزہ(ع) میرے والد کے چچا ہیں، جواب ملا ہاں ہم جانتے ہیں، آپ(ع) نے پھر فرمایا کیا یہ بھی جانتے ہو کہ جعفر طیار(ع) جو بہشت میں ہیں میرے چچا ہیں۔ جواب ملا خدا کی قسم ہم  یہ بھی جانتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا میں تمہین قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا یہ جانتے ہو کہ یہ تلوار رسولِ خدا(ص) کی ہے جو اس وقت میری کمر کے ساتھ آراستہ ہے، جواب ملا ہاں جانتے ہیں، پھر فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم بتاؤ کیا یہ عمامہ رسول خدا(ص) کا نہیں جو میرے سر پر ہے، جواب ملا ہاں جانتے ہیں انہیں کا ہے، پھر آپ(ع) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ علی(ع) سب سے پہلے ایمان لائے وہ علم وحلم میں سب سے برتر ہیں اورہر مومن اور مومنہ کے ولی ہی، جواب ملا ہاں جانتے ہیں۔ امام عالی مقام(ع) نے فرمایا پھر کس لیے تم میرے خون کو حلال جانتے ہو کیا تمہیں علم نہیں ہےکہ میرے والد(ع) روزِ قیامت حوض کوثر کے کنارے کھڑے ہوں گے اور لوگوں کے ایک گروہ ( گناہ گاروں ) کو اونٹوں کی طرح ہانک رہے ہوں گے جیسے پانی پینے کے وقت ہانکا جا تا ہے۔ اور لواء حمد اس روز میرے جد(ص) کے ہاتھ میں ہوگا۔ عمر سعد لعین کے لشکریوں کی طرف سے جواب آیا کہ  ہم یہ سب جانتے ہیں مگر ہم تم سے کوئی رعایت نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم پیاس سے مرجاؤ۔ امام عالی مقام(ع) کی عمر اس وقت ۵۷ سال تھی، امام نے ان کو بھلائی کیطرف دعوت دینے کی خاطر فرمایا۔ کہ رب العزت نے اہل یہود پر اس وقت غصہ فرمایا جب انہوں نے کہا کہ عزیز(ع) خدا کا بیٹا ہے۔ پھر رب العزت نے اہل نصاری پر اس وقت شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا جب انہوں نے مسیح(ع) کو خدا کا بیٹا کہا او پھر وہ اہل مجوس پر اس وقت غصہ میں آیا اور جب انہوں نے آگ کو اپنا خدا مانا۔ اور جان لو کہ خدا

۱۵۵

 کا عذاب ان لوگوں کے لیے سخت تر ہے جہنوں نے اپنے پیغمبر(ص) کو قتل کیا اور وہ جمعیت جو اپنے پیغمبر(ص) کے فرزند کو قتل کرنا چاہتی ہے کے لیے خدا کاعذاب شدید تر ہوگا۔ یہ سن کر حر بن یزید ریاحی لشکر عمر سعد لعین سے نکل کر امام عالی مقام(ع) کے پاس آگئے اور کہنے لگے۔ خدایا میں تیری طرف پلٹ آیا ہوں میری توبہ قبول کر لے کہ میرے دل میں اس وقت تیرے صالح بندوں تیرے دوستوں اور تیرے پیغمبر(ص) کی اولاد کی حرمت جاگزین ہے ۔ پھر حر(رض) نے امام(ع) سے کہا۔ یا بن رسول اﷲ(ص) مجھے اجازت دیں کہ میں آپ(ع) کی طرف سے آپ کے دشمنوں کے خلاف جنگ کروں۔ امام نے ان کو اجازت دی حر میدان میں گئے اور رجز پڑھا کہ میں اپنی تلوار سے تمہارا سر جدا کردوں گا اور مجھ سے بہتر تلوار چلانے والا پورے عراق میں کوئی نہیں یہ کہہ کر حر نے حملہ کردیااور اٹھارہ لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔ امام عالی مقام(ع) ، حر(رض) کی طرف بڑھے جب حر کے سرھانے پہنچے تو دیکھا کہ ان کے جسم سے خون فوارے کے طرح نکل رہا ہے یہ دیکھ کر امام نے فرمایا تجھے مبارک ہو، مبارک ہو، اے حر کہ اپنے نام کی طرح تم دنیا اور آخرت دونوں میں حر(رح) ( آزاد) ہو پھر امام عالی مقام(ع) حر کے سرہانے  کھڑے ہوکر یہ شرع پڑحے کیسا خوش قسمت حر بن ریاحی بہت صابر وشکر گزار ہے اور حر کیسا خوش قسمت  نیزہ باز ہے کہ اس نےکہا واحسینا اور اپنی جان مجھ پر فدا کردی۔

پھر زہیر بن قین بجلی میدان میں آئے اور امام نے ارشاد فرمایا ” ایوم نلقی جدک النبیاءو حسنا والمرتضی علیا“ زھیر نے جنگ کے دوران سولہ(۱۶) لعینوں کو واصل جہنم کیا جنگ کے دوران زھیر کہتے جاتے تھے کہ میں زہیر ہوں ابن قیس ہوں میں تمہیں اپنی تلوار سے قتل کردوں گا میں حسین(ع) کے ساتھ ہوں۔

پھر زہیر کی شہادت کے بعد حبیب بن مظاہر اسدی(رح) میدان میں گئے اور رجز پڑھا ” میں حبیب ابن مظاہر ہوں ہم اور تم ایک جیسے کس طرح ہوسکتے ہیں” اطہر ناصر خیر الناس حین یذکر“ جناب حبیب(رح) اکتیس(۳۱) لعینوں کو ٹھکانے لگایا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔

پھر عبداﷲ بن ابی عروہ غفاری(رح) میدان میں گئے اورلعینوں سے کہا” جانتے ہو بنو غفاری حق کے ساتھ

۱۵۶

ہیں اور مددگاروان امام ہیں میں اپنی تلوار کے ذریعے تم سے انتقام لوں گا اور نابکاروں کو تہہ تیغ کروں گا جناب عبداﷲ بن عروہ نے جنگ کی اور (۲۰) بیس لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد بریربن خفیر ہمدانی(رح) جو قاری قرآن تھے میدا میں گئے اور یہ رجز پڑھا” میں بریر ہوں اورمیرے والد خفیر ہیں اور اس میں خیر نہیں ہوتا جس میں شر ہو۔ “ جناب بریر(رح) نے جنگ کی اور تیس(۳۰) لعینوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

پھر مالک بن انس کاہلی میدان میں آئے اور فرمایا ” جانتے ہو کہ میرا قبیلہ اورمیری قوم اپنی بہادری کی وجہ سے حریف کے لیے آفت ہے ہم سواروں کے سردار ہیں جان لو کہ آل علی(ع) شیعیان رحمان ہیں جب کہ آل حرب( بنی امیہ) شیعیان شیطان ہیں جنابِ مالک نے جنگ کے دوران اٹھارہ(۱۸) آدمیوں کو جہنم رسید کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد زیاد بن مہاجر کندی  میدا ن میں آئے اور فرمایا میں زیاد ہوں اور میرے والد مہاجر ہیں میں شیر دل شجاع ہوں اے کافر و خدا نے مجھے حسین(ع) کی نصرت کےلیے مقررکیا ہے میں ابن سعد لعین سے نفرت کرتا ہوں اس کے بعد جنابِ زیاد بن مہاجر(رح) نے جنگ کی اور نو(۹) جہنمیوں کو ٹھکانے لگا کر شہید ہوئے۔

پھر وہب بن وہب میدان میں گئے ( وہب ایک نصرانی تھے جو کہ بدستِ امام مسلمان ہوئے تھے اور اپنی والدہ کے ہمراہ امام عالی مقام(ع) کے پاس کربلا میں حاضر ہوئے تھے۔) آپ نے خیمے کے بانس(ستوں) کے ساتھ جنگ کی اور سات (۷) یا آٹھ(۸) لعیینوں کو واصل جہنم کیا اور اسیر ہوگئے انہیں پکڑ کر عمر سعد لعین کے پاس لایا گیا اس نے حکم دیا کہ انکا سر کاٹ کر حسین(ع) کی جانب پھینک دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب وہب کی والدہ نے یہ  دیکھا تو انہوں نے ایک تلوار اٹھائی اور میداں میں آگئیں،۔ امام عالی مقام(ع) نےجب یہ دیکھا تو وہب کی والدہ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے مادر وہب رک جاؤ اور اپنی جگہ پر واپس چلی جاؤ خدا نے عورتوں سے جہاد کی تکلیف کو اٹھا رکھا ہے تم اور تمہارا بیٹا میرے جد محمد(ص) کے ساتھ بہشت میں محشور ہوگے۔

اس کےبعد ہلال بن حجاج میدان میں گئے اور یوں رجز پڑھا ” میں اپنے دشمن کے

۱۵۷

 نشانے مارتا ہوں انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا اور انہیں خوف میں مبتلا رکھتا ہوں“ آپ نے جنگ کی اور تیرہ (۱۳) لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع) میدان میں آئے اور دشمنوں سے فرمایا میں قسم کھا تا ہوں کہ میرا خاتمہ آزادی کی موت کے علاوہ نہیں ہوگا اور موت ایک تلخ حقیقت ہے میں اس چیز کو بہت برا محسوس کرتا ہوں کہ خوف کھانے والا کہلایا جاؤں اور یہ بھی میرے لیے بہت برا ہے کہ میں تمہارے قتل سے گریز کروں پھر آپ نے جنگ کی اور (۳) تین ناریوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوئے۔ پھر علی بن حسین(ع) (اکبر(ع)) میدان میں گئے جب آپ دشمن کے سامنے گئے تو امام عالی مقام(ع) کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے ار فرمایا خدایا تو گواہ ہےکہ رسول خے بیٹے کا بیٹا جس کا چہرہ حسین و جمیل ہے اور جو ہم شکل پیغمبر(ص) ہے ان لوگوں کے سامنے ہے۔ جنابِ علی بن حسین(ع) (اکبر) نےفوج اشقیاء کے سامنے پینچ کر رجز پڑھا” میں علی بن حسین(ع) ہوں خدا کی قسم ہم نبی(ص) کے گھرانے کے اعلیٰ ترین فرد ہیں آج میں اپنے والد(ع) کے آس پاس سے تم برے لوگوں کو دور کردوں گا پھر جنگ سروع کی اور دس ناریوں کو یہہ تیغ کر کے واپس امام عالی مقام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،بابا جان میں پیاسا ہوں امام نے فرمایا بیٹا صبر کرو تمہارے جد ابھی کچھ یہی دیر میں تمہیں بھر پور سیراب کریں گے پھر جنابَ علی اکبر(ع) دوبارہ میدان میں آئے اور بھر پور جنگ کی اور چوالیس (۴۴) ناریوں کو واصل جہنم کیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

پھر قاسم بن حسن(ع) میدان میں آئے امام عالی مقام(ع) نے ان سے فرمایا میری جان تم بیتاب نہ ہو، ہر چیز فانی ہے۔ آج بہشت خلد سے تمہیں رزق پہنچایا جائیگا۔ جنابِ قاسم نے بھر پور جنگ کی اور شہید ہوگئے۔

پھر امام حسین(ع) بنفس نفیس میدان جنگ میں گئے اور تین(۳) آدمیوں کو قتل کیا پھر آپ(ع) اسقدر زخمی ہوگئے کہ گھوڑے کی پشت پر  قائم نہ رہ سکے اور زمین پر تشریف لے آئے امام عالی مقام(ع) نے جب دائیں اور بائیں کسی کو موجود نہ پایا تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا ، یاخدایا تو دیکھ رہا ہے کہ لوگوں نے پیغمبر(ص) زادے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے نبو کلاب نے فرات کا پانی اس

۱۵۸

 پر بند کر دیا ہے تیروں سے اسے چھلنی کررہے ہیں۔ اور اسے گھوڑے سے نیچے گرا دیا ہے اسی اثناء میں ایک تیر آپ(ع) کی گردن میں آکر پیوست ہوگیا۔ امام عالی مقام(ع) نے اس تیر کو کھینچ کر نکالا اور بہتے ہوئے خون کو روکنے کےلیے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی اس پر رکھی جن ہتھیلی خون سے تر ہوگئی تو اس خون کو اپنے چہرے اور ڈاڑھی پر مل لیا اور فرمایا میں اسی ستم رسیدہ و خون آلودہ حالت میں اپنے پروردگار سے ملاقات کرون گا ۔ پھر رخموں سے چور امام نے اپنے چہرہ مبارک کو بائیں طرف سے زمین پر رکھ دیا امام(ع)عالی مقام(ع) کی یہ حالت دیکھ کر دشمنان خدا سنان بن انس لعین اور شمر ذی الجوشن عامری لعین شامیوں کا ایک لشکر لے کر امام کے پاس آئے اور سرہانے کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے  کہا اب، کس بات کا انتظار ہےکیا اس( امام عالی مقام(ع)) کو راحت پہنچانے کا ارادہ ہے یہ سن کر سنان بن انس لعین آگے بڑھا اور امام عالی مقام(ع) کی ڈاڑھی کو پکڑ کر ان کی گردن پر تلوار سے وار کرتا جاتا اور کہتا جاتا خدا کی قسم میں تیری گردن جدا کردون گا میں جانتا ہوں کہ رسول خدا(ص) کا بیٹا ہے۔ بہترین بندہ ہے اور بہترین مان باپ کی نسل ہے۔ امام عالی مقام(ع) کو اس حالت میں دیکھ کر امام کا گھوڑا امام کی طرف آیا اور اپنی پیشانی کو امام(ع) عالی مقام کے خون سے تر کر کے سر پٹ خیام کی طرف دوڑا اور بلند آواز سے ہنہنانے لگا دختران حسین(ع) اور مخدراتِ عصمت نے جب اس کی آواز سنی تو خیام سے باہر تشریف لائیں اور گھوڑے کی خالی زین اور خون آلودہ پیشانی دیکھ کر واویلا کرنا شروع کیا اور یہ جان لیا کہ حسین(ع) شہید ہوگئے ہیں۔ بی بی ام کلثوم(س) بنت حسین(ع) نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر با آواز بلند گریہ کیا اور ہاتھ اپنے سر پر مار مار کر کہا وا محمداہ(ص) یہ حسین(ع) ہیں جو بیابان میں شہید ہوئے ہیں جن کی ردا اور عمامہ لوٹ لیا گیا ہے۔ پھر سنان لعین امام عالی مقام(ع) کے سر کو عبیداﷲ بن زیاد لعین کے پاس کے کر گیا اور کہنے لگا میں خیرالبشر اور دو جہاں کے شہنشاہ کا قاتل ہوں میں اس کا قاتل ہوں۔ جو حسب ونسب میں تمام لوگوں سے برتر تھا مجھے سو اونٹوں پر سونا اور چاندی لاد کر انعام میں دے۔ عبید اﷲ لعین نے کہا تم پر وائے ہو۔ اگر تم جانتے تھے کہ یہ حسب و نسب میں سب سے بہتر ہے تو اسے قتل کیوں کیا یہ کہہ کر اس نے جلاد کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور اس طرح یہ لعین واصل جہنم ہوگیا۔

۱۵۹

اس کے بعد عبیداﷲ بن زیاد لعین نے ایک قاصد بی بی ام کلثوم بنت حسین(ع) کے پاس بھیجا جس نے انہیں ابن زیاد لعین کا یہ پیغام پڑھ کر سنایا۔ حمد اس خدا کی جس نے تمہارے مردوں کو قتل کیا یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ ہوا ہے اسکے بارے میں تیرا کیا خیال ہے، بی بی(س) نے جواب میں فرمایا ۔ اے ابن زیاد لعین اگر تیری آنکھیں حسین(ع) کے قتل سے روشن ہوئی ہیں تو جان لے کہ میرے جد محمد مصطفی(ص) کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہوتی تھیں رسول خدا(ص) انہیں بوسے دیا کرتے اور ان کےلیے سواری بن کر انہیں اپنے شانوں اپنے پر سوار کروایا کرتے تھے تو ان کے جد کے لیے اپنا جواب تیار رکھ اس لیے کہ کل تیرے لیے بھی ایسا ہی ہے۔

خدا امام عالی مقام اور ان کے جانثاروں اور ان کی عترت طاہرہ(ع) اور مخدرات عصمت کے بلند مقامات کے طفیل ہمیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور قاتلان حسین(ع) پر اپنا سخت تر عذاب مسلط فرمایئے ۔ آمین۔

” لعنت بر آل معاویہ و یزید لعین۔“

۱۶۰

مجلس نمبر ۳۱(بقیہ مجلس ۳۰)

(روز عاشورا محرم سنہ۳۶۸ھ)

شام غریبان

۱ـ           بی بی فاطمہ بنت حسین(س) نے فرمایا کہ جب کربلا میں ہمارے خیام کے گرد لوٹنے والوں کا ہجوم تھا تب میں چھوٹی بچی(کم عمر) تھی ان لعینوں میں سے ایک نے میرے کانوں سے گوشوارے جو کہ سونے کے تھے کھینچ لیے اور ساتھ ہی وہ رونے لگا میں ( فاطمہ بنت حسین(ع))نے اس لعین سے کہا اے دشمن خدا روتا کیوں ہے اس نےلعین نے کہا کہ رؤں کیوں نہ کہ میں نے دخترِ رسول(ص) کو تکلیف دی ہے بی بی فرمااتی ہیں مین نے کہا کہ پھر ایسا کیوں کرتا ہے تو کہنے لگا، مجھے یہ خوف ہے کہ اگر یہ گوشوارے میں نے نہ لیئے تو کوئی دوسرا ان کو لےلے گا بی بی(س) فرماتی ہیں ہمارے خیموں میں جو کچھ بھی تھا لوٹ لیا گیا اور ہمارے سروں سے چادریں تک اتروالی گئیں۔

۳ـ          عبیداﷲ ابن زیاد لعین کے ایک محافظ نے روایت کیا ہے کہ جب امام عالی مقام(ع) کا سر مبارک، ابن زیاد لعین کے پاس لایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کوسونے کے طشت میں رکھ کر میرے سامنے پیش کیا جائے جب سر مبارک کو طشت میں رکھ کر پیش کیا گیا تو اس لعین نے لکڑی کی ایک چھڑی کو آںحضرت(ع) کے دندان مبارک پر مار کر گستاخی کی اور بولا اے ابو عبداﷲ تم جلد بوڑھے ہوگئے ہو۔ اس کے دربار میں سے ایک آدمی کھڑا ہو اور ابن زیاد لعین  سے کہنے لگا جہان تو نے چھڑی رکھی ہوئی ہے وہاں پر میں نے رسول خدا(ص) کو حسین(ع) کے بوسے لیتے دیکھا ہے اس لعین نے جواب دیا یہ روز بدر کا بدلہ ہے پھر حکم دیا کہ علی بن حسین(ع) کو  طوق پہنا دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر کے زندان میں ڈال دیا جائے عبیداﷲ بن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے کہ میں جس گلی کوچے میں گیا میں

۱۶۱

 نے دیکھا کہ ہر طرف گریہ و ماتم بپا تھا۔ ابن زیاد لعین کا یہ محافظ کہتا ہے  جب ابن زیاد لعین نے علی بن حسین(ع) اور دیگر مخدرات عصمتِ کو امام حسین(ع) کے سر مبارک کے ساتھ حاضر کیا تو زینب بنت علی(س) بھی ہمراہ تھیں۔ ابن زیاد لعین نے کہا میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہاری احادیث کو جھوٹا کردیا اس پر جنابِ زینب(س) نے فرمایا می اس خدا کی حمد کرتی ہوں جس نے اپنے رسول محمد(ص) کے سبب سے ہمیں گرامی رکھا اور  بہتر طریقے سے پاک و پاکیزہ کیا۔ بے شک فاجر، جھوٹ کہنے والا اور فاسق ، رسوا ہوتا ہے،ابن زیاد لعین نے کہا خدا نے تمہارے گھرانے کے ساتھ یہ کیا کیا ہے بی بی(س) نے فرمایا شہادت ان کا مقدر تھی اور یقینا خدا تم کو روزِ قیامت ان کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے ہاں تمہارا محاکمہ ہوگا۔ یہ سن کر ابن زیاد لعین کو غصہ آگیا اور اس نے ارادہ کیا کہ بی بی(س) کے قتل کا حکم دے مگر عمرو بن حریث نے اس کو ایسا کرنے سے باز رکھا اس کے بعد بی بی(س) نے فرمایا اے بن زیاد تو نے جو کچھ ہمارے ساتھ  کیا ہے کیا وہ کم ہے، تونے ہمارے مردوں کو قتل کر دیا اور ہمارے شیرازے کو بکھیر دیا ہے، تونے ہماری خواتین کو اسیر کیا ہمارے بچوں پر ظلم ڈھایا اور ہماری حرمت کو مباح جانا ہے اگر اس سےتیرا مقصد اپنے دل کو راحت دینا تھا تو تو نے اسے کافی راحت پہنچا چکا۔ اسکے بعد ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ امام عالی مقام(ع) کے سر کے ہمراہ اسیروں کو شام روانہ کیا جائے ابن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے،رات کو ہم نے سنا کہ جنات امام عالی مقام پر نوحہ خوانی کررہے ہیں۔

قافلہ جب شام پہنچ گیا تو قیدیوں اور بی بیوں کو بے پردہ شہر میں داخل کیا گیا اہل شام نے جب قیدیوں کو دیکھا تو کہنے لگے آج سے پہلے ہم نے اس طرح کے نورانی چہروں والے معزز قیدی نہیں دیکھے، اہل شام نے قیدیوں سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہو سکینہ بنت حسین(ع) نے انہیں مطلع کیا کہ ہم خاندان رسالت(ص) سے تعلق رکھتے ہیں۔

پھر قیدیوں کو شہر کے دروازے پر روک دیا گیا تب امام علی(ع) بن حسین(ع)(زین العابدین(ع)) کے پاس ایک شامی شخص آیا اور کہنے لگا حمد اس خدا کی جس نے تمہارے مردوں کو قتل کیا اور فتنہ کو خاموش کیا اور اس کے علاوہ جس قدر بر بھلا کہہ سکتا تھا اس نے کہا جب وہ یہ سب کہہ کر خاموش ہوگیا

۱۶۲

تو امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کیا تو قرآن نہیں پڑھتا اس نے کہا ہاں پڑھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ” میں تم سے جز نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے خاندان اورمیرے رشتے داروں سے محبت کرو“ (شورا، ۲۳)

وہ شامی کہنے لگا ہاں میں نے پڑھی ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت پڑھی ہے” اپنے ذولقربی کا حق ان کو دیدو“کہنے لگا ہاں آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ رشتے دار اور ذوالقربی ہم ہیں آپ(ع) نے پھر اس سے فرمایا کیا تونے یہ آیت پڑھی ہے” بیشک خدا نے چاہا اے اہل بیت(ع) کہ پلیدی کو تم سے ہٹا دے اور تم کو نہایت پاک کردے“ (احزاب، ۳۳)

کہنے لگا ہاں یہ بھی پڑھی ہے آپ(ع) نے فرمایا کہ اہل بیت(ع) ہم ہیں اس شامی نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا  ہوں ، خدایا میں دشمنان اہل بیت(ع) اور قاتلان آل محمد(ص) سے بیزار ہوں ، خدایا میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ میں قرآن پڑھتا تھا اور ان آیات اسے واقف نہ تھا۔

جب تمام اسیران اور مخدرات عصمت کو دربار یزید لعین میں لے جایا گیا اور امام عالی مقام(ع) کے سرمبارک کو یزید لعین کے سامنے رکھاگیا تب یزید کے حرم میں موجود خواتین نے واویلا و گریہ گیا۔ یزید لعین نے کہا کاش آج مقتولین بدر موجود ہوتے  تو دیکھتے کہ ہماری شمشیر نے ان کا بدلہ کس طرح لیا ہے کہ پھر اس لعین نے حکم دیا کہ امام کے سرمبارک کے مسجد دمشق ک دروازے پر لٹکایا جائے۔

بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) سے روایت ہوا ہےکہ جب ہمیں دربار یزید لعین میں لے جا کر بٹھایا گیا تو ایک رقعت طاری ہوگئی اور تب ایک شامی جسکی رنگت سرخ تھی اٹھا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(لعین) اس بچی کو مجھے دیدو و اس کا چہرہ کتنا خوبصورت ہے میں اس کو اپنے پاس رکھوں گا بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں مجھے خوف محسوس ہوا کہ مجھے اسے دیدیا جائے گا تو مین نے اپنی ایک بڑی اور سمجھدار بہن کا دامن پکڑ لیا ، اس بی بی نے اس شامی سے کہا اے ملعون تو جھوٹ کہتا ہے نہ اس امر کا حق تجھے ہے اور نہ ہی تیرے امیر کو اس پر یزید لعین نے غصہ کیا اور کہا خدا کی قسم میں

۱۶۳

 ایسا کرسکتا ہوں ، اگر میں چاہتا ہوں بی بی(س) نے فرمایا خدا کی قسم تجھے اس کا اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ تو ہمارے دین اور امت سے باہر نکل جائے یزید لعین نے غصے سے کہا کہ تو مجھ سے اس لہجے میں بات کرتی ہے، میں نہیں تیرا باپ اور تیرا بھائی دین سے باہر نکل گئے ہیں بی بی(س) نے فرمایا کہ میرے باپ اور میرے بھائی نے اس دین کے ذریعے سے امت کو ہدایت دی ہےیزید لعین نےکہا اے دشمن خدا تم جھوٹ کہتی ہو بی بی(س) نے فرمایا لوگو اس امیر کو دیکھو کہ یہ دشنام دیتا ہے اور ظالم ہے اوراپنی سلطنت پر مغرور ہوگیا ہے یہ سن کر یزید کو شرم محسوس ہوئی اور وہ خاموش ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اس شامی نے دوبارہ اپنی بات کو دھرایا کہ اس بچی کو مجھے دیدیا جائے یہ سن کر یزید نے اس سے غصے سے کہا خدا تجھے موت دے خاموش ہوجا تو وہ خاموش ہوگیا۔

بی بی(س) فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں پھر حکم یزید لعین پر عورتوں اور بچوں کو بیمار امام کے ساتھ زندان میں قید کردیا گیا جہاں سردی اور گرمی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا گوشت موسموں کی سختی کی وجہ سے پھٹ گیا اور ادھر بیت المقدس میں کوئی پتھر ایسا نہ تھا کہ جس کے نیچے سے تازہ خون نہ جاری ہوا ہو لوگ سورج کی روشنی کو دیاروں پر رکھین پتون کی مانند سرخ دیکھتے تھے پھر ایک مدت کے عد ہم عورتوں اور بچوں کو امام علی بن حسین(ع) کےساتھ باہر نکالا گیا اور امام عالی مقام(ع) سب کے سر مبارک کو واپس کربلا پہنچایا گیا۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب لعین تلوار سے حسین بن علی(ع) کو شہید کرنے کے بعد فارغ ہوئے اور امام عالی مقام(ع) کےسرِ مبارک کےلے گئے تو رب العزت کی طرف سے عرش کے درمیان سے منادی دی گئی  کہ اے جابر و ظالم امت نبی (ص) کے اہل بیت(ع) کے ساتھ تمہارے اس ستم کے بعد خدا تمہیں ہرگز توفیق نہ دے گا کہ تم عیدا لاضحی اور عید الفطر کبھی مناسکو( تمہیں خوشی نصیب نہیں ہوگی) پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ یہ لعین خدا کے اس حکم کی رو سے کبھی شادنہ ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے یہاں تک کہ خدا خونِ حسین(ع) کا بدلہ لینے والے ( امام منتظر(ع) کا قیام نہ کردے۔

۱۶۴

مجلس نمبر۳۲

(شب بارہ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ   امام صادق(ع) نے فرمایا روزِ قیامت خدا لوگوں کو ایک سرزمین میں جمع کرے گا اور میزان رکھی جائے گی اور خونِ شہدا کو علماء کے قلم سے وزن کیا جائے گا اور علماء کے قلم کی سیاہی خونِ شہداء سے زیادہ وزنی ہوگی۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا چھ چیزین ہیں جو کہ مومن کی موت کے بعد اس کو فائدہ دیتی ہیں فرزند صالح جو اس کے لیے مغفرت طلب کرے ، قرآن جو اس کے لیے پڑھا جائے ،کنواں جو کھودا گیا ہوا اور درخت جو لگایا گیاہو۔ اور صدقہ پانی جو جاری ہو اور نیکی کا طریقہ جس پر اس کےبعد عمل ہوتا ہو۔

۳ـ مالک بن انس فقیہہ مدینہ ( مالکی فقیہہ کے بانی) کہتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا وہ میرے نزدیک ہوئے میرا احترام کیا اور فرمایا اے مالک میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں (مالک) ان الفاظ کو سن کر بہت خوش ہوا اور خدا کی حمد کی، مالک کہتے ہیں جب بھی میں آپ(ع) کی خدمت میں گیا آپ تین کاموں میں سے ایک میں مصروف پایا۔ یا تو آپ روزہ رکھے ہوتے۔ یا آپ نماز پڑھ رہے ہوتے یا پھر ذکر الہی میں مشغول ہوتے آپ(ع) نے خدا کےبزرگ اور صالح ترین  بندوں سے تھے اور خدا سے بہت زیادہ ڈرتے اور حدیث بہت زیادہ بیان فرماتے تھے۔ مجلس کی رونق ان سے دوبالا رہتی اورہر وقت لوگوں کو ان سے فیض پہنچتا رہتا ۔ احکام دین اور حدیث بیان کرتے وقت خوف خدا دل کو گرفت کر لیتا اور اس وقت آپ(ع) کے چہرے کی رنگت زرد ہوجاتی اور مضطرب ہوجاتے یہاں تک کہ پہچانے نہ جاتے ایک دفعہ میں ان کے ساتھ حج پر گیا اور احرام کے بعد جب تلبیہ کہنے لگے توآپ کے حلق میں آواز پھنس گئی اور یہ حالت ہوگئی کہ جیسے  ابھی اپنی سواری سے گرجائیں گے، میں نے کہا اے فرزند رسول (ص) میں بھی آپ کے ہمراہ تلبیہ کہوں فرمایا اے ابو عامر کے بیٹے کہو۔لیکن پھر میں نے کہا اے فرزند رسول(ص)  مجھ میں  یہ کہنے کی جرات نہیں

۱۶۵

 ہے ڈرتا ہوں کہ کہیں میں کہوں ” لبیک اللہم لبیک“ اور جواب میں خدا مجھے ”لا لبيک ولا سعديک “ کہہ دے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا میں ایسے شخص کو عجیب جانتا ہوں جو کہ دنیا کے مال میں بخل سے کام لیتا ہے جب کہ دنیا اپنے اندر دوزخ رکھتی ہے۔ اگر تم اس کی طرف پشت کر لو گے تو اس کے خرچ کا بار تم پر نہیں ہوگا اس طرح یہ تمہیں کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

مالک بن انس کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ آپ(ع) عمدہ اور قیمتی گھوڑا کیوں نہیں خرید فرماتے آپ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ نہ تو میں کبھی دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگا ہوں اور نہ ہی میں بھاگنے والوں کا تعاقب کرتا ہوں۔

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ” ہم نے ہر چیز کا احصا ( گنتی شمار ـ ایک جگہ پر جمع ہونا) امام مبین میں کردیا ہے“ (یسین) تو مجلس میں بیٹھے ہوئے اصحاب نے رسول خدا(ص) نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا امام مبین سے مراد قرآن ہے تو جواب ملا نہیں پھر پوچھا گیا کہ کیا توریت ہے تو آپ نے جواب دیا نہیں پھر پوچھا گیا کہ انجیل ہے تو آپ(ص) نے فرمایا نہیں اسی اثناء میں جنابِ امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا بیشک وہ امام مبین یہ ہے کہ جس کے لیےخدا نے علوم اور ہر شے کا شمار کیا ہے۔

سفرِ ذوالقرنین(ع)

۱ـ وہب کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں پڑھا کہ جب ذوالقرنین دیوار کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور اپنے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے تو ان کی ملاقات ایک بوڑھے آدمی سے ہوئی جو نماز میں مشغول تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو ذوالقرنین(ع) نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں میرے لشکر سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس بوڑھے آدمی نے کہا میں اس سے مناجات کررہا تھا جس کا لشکر تیرے لشکر سے زیادہ قوی ہے جس کی سلطنت تجھ سے زیادہ غالب ہے اور جس کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اگر میں اپنا رخ تیری طرف کر لیتا تو اس سے اپنی

۱۶۶

 حاجت طلب نہ کرسکتا ۔ ذوالقرنین(ع) نے اس سے کہا تم ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ میں تمہیں اپنے ملک میں برابر کا شریک کروں گا اور اپنے کاموں میں تجھ سے مشورے لیا کرونگا اس بوڑھے شخص نے کہا میری چار (۴) شرایط ہیں ذوالقرنین(ع) نے کہا بیان کر اس نےکہا مجھے ایسی نعمت دے جس کو زوال نہ آئے، ایسی صحت و تندرستی دے جس میں بیماری نہ ہو،  ایسی جوانی مجھے عطا کر جس میں بڑھاپا نہ ہو، اور مجھے ایسی زندگی دے جس مین موت نہ آئے۔

ذوالقرنین نے کہا  ایسی کونسی مخلوق ہے جس کے اختیار میں یہ سب کچھ ہو اس نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہوں جو ان سب پر اوت تم پر طاقت رکھتا ہے

پھر ذوالقرنین آگے بڑھے  اور ایک دانشمند سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے ذوالقرنین(ع) سے کہا کہ مجھے بتائیں وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو پیدا ہونے سے لے کر اب تک قائم ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو آتی جاتی رہتی ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو اپنی پیدائش سے لےکر اب تک جاری ہیں۔

ذوالقرنین(ع) نے جواب دیا کہوہ دو چیزیں جو اپنی پیدایش سے لے کر اب تک قائم ہیں زمین اور آسمان ہیں۔ جو دو چیزیں آتی رہتی ہیں وہ دن اور رات ہیں، وہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں زندگی اور موت ہیں اور وہ دو چیزیں جو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک جاری ہیں سورج اور چاند ہیں اس شخص نے کہا تو امتحان میں کامیاب رہا واقعی تو دانش مند ہے۔

پھر ذوالقرنین یہاں سے روانہ ہوئے وہ ایک شہر میں گھوم رہے تھے ایک بوڑھے شخص سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے پاس مختلف کھوپڑیاں جمع تھیں وہ ان کو اٹھا کر گھما گھما کر دیکھا تھا۔ ذوالقرنین(ع) یہ دیکھ کر رک گئے اور اس آدمی سے کہا تو کس لیے یہ انسانی کھوپڑیاں جمع کر کے بیٹھا ہے اور انہیں اٹھا کر گھما گھما کر دیکھتا ہے اس نے جواب دیا میں یہ اس لیے کررہا ہوں کہ جان سکوں کہ ان میں کون معزز تھا کون وضع دار اور کون شریف تھا، کون غنی اور کون فقیر تھا اور میں بیس (۲۰) سال سے اسی کام میں مشغول ہوں۔ لیکن میں اس فرق کو جان نہیں سکا ذوالقرنین(ع) نے کہا بس میں جان گیا کہ تیرا مقصد مجھے نصیحت کرنا تھا۔

۱۶۷

پھر ذوالقرنین یہاںسے آگے روانہ ہوئے اور ایک اسی جگہ جا پہنچے جہاں انہیں قوم موسی(ع) کے دانشمندوں کا ایک گروہ ملا جو حق کی ہدایت کے ساتھ اںصاف کرتے تھے ذوالقرنین(ع) نے جب انہیں دیکھا تو کہا کہ اپنے حالات مجھ سے بیان کرو میں نے اس ساری زمین کا چکر لگایا ہے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا ہے صحراؤں۔ پہاڑوں میدانوں،۔ روشنی اور تاریکی سفر کیا ہے مگر تمہارے جیسا کسی کو نہیں پایا مجھے بتاؤ کہ تم نے اپنے مردوں کو قبریں اپنے گھروں کے دروازوں پر کیوں بنائی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ موت ہمیں ہر وقت یاد رہے، ذوالقرنین(ع) نے پوچھا کہ تمہارے گھروں کے دروازے کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان چور اور بد دیانت لوگ نہیں ہیں سب ایماندار ہیں، پوچھا تم میں قاضی کیوں نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا ۔ تم میں حاکم کیوں نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہ ہم آپس میں جھگڑتے ہیں اور نہ ہی ہماری ایک دوسرے سے دشمنی ہے، پھر پوچھا کہ تمہاراکوئی بادشاہ ہے، تو انہوں نے جواب دیا نہیں  ہے کیوںکہ ہم زیادہ ( انعام واکرام) کی توقع نہیں رکھتے پھر پوچھا گیا کہ تم سب لوگوں کے واسائل برابر ہیں اور ان میں فرق نہیں ہے تا بتایا کہ ہم ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور مساوات سے رہتے  ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں نزع و اختلاف نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے  جواب ملا ہم میں دلی اتحاد ہے ہم ایک دوسرے کو برا نہیں کہتے اور قتل نہیں کرتے اور فساد برپا نہیں کرتے پوچھا گیا کہ تم ایک دوسرے پر نفرین نہیں  کرتے ، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ارادوں پر ہماری طبع کی نرمی غالب ہے ہم اپنے نفسوں کی اصلاح حلم و بردباری سے کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم لوگ ایک ہی قول پر متحد رہتے ہو( ہم خیلا ہو اور ہم زبان ہو) وہ کہنے لگے ہم جھوٹ نہیں بولتے ایک دوسرے کو فریب نہیں دیتے ایک دوسرے کی بدگوئی نہیں کرتے ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں گدا گر و بھکاری کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا ہم اپنے اموال کو ایک دوسرے پر برابر تقسیم کردیتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم میں بد خلق اور سخت گیر لوگ موجود نہیں ہیں اس کی کیا وجہ ہے، کہنےلگے کہ ہم عاجزی اور فروتنی رکھتے ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تمہاری لمبی عمروں کا راز کیا ہے، تو بتایا

۱۶۸

کہ ہم حق پر عمل کرتے ہیں اور حق کے ساتھ اںصاف کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ میں نے تم میں سے کسی کو غمگین نہیں دیکھا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا کہ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم صبر اور شکر کرتے ہیں۔ پوچھا گیا تم پر قحط نہیں پڑتا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا ہم ہر وقت توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں ذوالقرنین(ع) نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگ آفات سے محفوظ رہتے اور عذاب کا شکار نہیں ہوتے  اسکے بارے میں بتاؤ تو بتایا کہ ہم غیر خداؤں پر ایمان (شرک) نہیں رکھتے ستاروں کو بلاؤں کا سبب نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان سے بارش طلب کرتے ہیں، ذوالقرنین(ع) نے کہا اے لوگو مجھے بتاؤ کہ کیا تم نے اپنے آباء و اجداد کو بھی ایسا ہی پایا اور کیا وہ بھی ایسے ہی اعمال انجام دیا کرتے تھے انہوں نے کہا ہمارے اجداد کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مسکین کے ساتھ ہمدردی کرتے فقیر کے ساتھ رحم روا رکھتے کوئی ظلم وستم کرتا تو اسے معاف کردیتے اور اگر کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا تو اس کے بدلے اچھائی کرتے۔ بدکاروں کے لیے استغفار کرتے اور صلہ رحم سے کام لیتے اور کبھی جھوٹ نہ بولتے خدا ان کے اس امر کے سبب ان پر نزولِ رحمت کرتا۔ذوالقرنین(ع) اپنی موت کے آنے تک ان کے ساتھ رہے آپ نے پانچ سو سال عمر پائی۔

بنی مصطلق

۷ـ محمد بن مسلم کہتے ہیں امام باقر(ع) نےفرمایا کہ رسول خدا(ص) نے خالد بن ولید کو ایک قبیلہ بنی مصطلق کی طرف بھیجا جو قبیلہ بنی خذیمہ سے تھے اور ان میں اور بنی مخذوم جو کہ خالد کا قبیلہ تھا کے درمیان زمانہ جاہلیت سے عداوت چلی آرہی تھی،  جب خالد وہاں پہنچا تو انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیوںکہ ان میں سے اکثر لوگ آںحضرت(ص) کی خدمت میں آکر اسلام قبول کرچکے تھے اور رسول خدا(ص) سے امان نامہ حاصل کر چکے تھے۔ خالد نے منادی کو حکم دیا کہ نماز کےلیے اذان کہے۔ اذان کی آواز سن کر وہ لوگ امان نامے کے بھروسے اپنے ہتھیار اتار کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے نماز سے فارغ ہوئے تو خالد کے حکم پر خالد کے لشکرے نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا اور ان کا مال و متاع لوٹ لیا اور جنگ نہ کرنے کا جو حکم رسول خدا(ص) نے دیا تھا

۱۶۹

اسے توڑ دیا اس قبیلہ کے باقی بچ جانے والے لوگ امان نامہ لیے رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئے اور ان سے خالد کے مظالم بیان کیے حضرت(ص) یہ داستانِ ظلم سن کر روبہ قبلہ ہوئے اور عرض کی یا خداوندا میں تجھ سے خالد کے مظالم سے پناہ مانگتا ہوں اور جو کچھ اس نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں اسی اثناء میں خالد آںحضرت(ص) کے لیے بطور مال غنیمت لوٹا ہوا سامان اور سونا لے کر آیا آپ(ص) نے وہ تمام سامان اور سونا لے کر امیرالمومنین(ع) کے حوالے کیا اور فرمایا اے علی(ع) یہ بنی مصطلق کے پاس لے جاؤ اور ان کو راضی کرو پھر اپنا پیر اٹھا کر فرما کہ طریقہ جاہلیت کو اپنے پاؤں کے نیچے اس طرح کچل دففو اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ لہذا جناب امیر(ع) ان کے درمیان تمام سامان لے کر پہنچے اور خدا کےحکم کے مطابق فیصلہ کر کے واپس پلٹے جب واپس آئے تو آںحضرت(ص) نے پوچھا اے علی(ع)  کیا کر آئے؟ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) پہلے ہر ایک کا خون بہا ادا کیا اور ہر بچے کے عوض جو کہ شکم مادر ہی میں ضائع ہوا تھا ایک کنیز یا غلام دیا اور ان کے ہر مال کا نقصان ادا کیا پھر جو مال میرے پاس بچا وہ میں نے ان کے وہ ظروف جن میں ان کے جانور پانی پیتے تھے کے عوض دیا پھر جو مال اس کے بعد میرے پاس بچ گیا وہ میں نے ان کے ان نقصانات کے بدلے ادا کیا جس کو وہ شمار نہ کرسکے تھے اور آخر میں میرے پاس جو کچھ بچا وہ سب میں نے ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ خلوص دل سے آپ(ص) سے راضی ہو جائیں۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ سن کر فرمایا اے علی(ع) تم نے جو کچھ بھی کیا تھا وہ سب ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ مجھ سے راضی و خوش ہوجائیں لہذا خدا تم سے راضی و خوشنود ہو تم میرے نزدیک مثل ہارون(ع) ہو جو موسی(ع) کے وصی تھے ۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔

۱۷۰

مجلس نمبر۳۳

(۱۵ محرم سنہ۳۶۸ھ)

فاتحہ الکتاب

۱ـ حضرت امیرالمومنین(ع)، جنابِ رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے فاتحہ الکتاب( سورة الفاتحہ) کو میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک حصہ اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کیا ہے اور ایک حصہ مجھ ( خدا) سے ہے اس حصے سے جو میرے بندے کا ہے وہ  جو بھی خواہش کرتا ہے پوری ہوتی ہے۔ جس وقت بندہ کہتا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے آغاز کیا ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی حاجات کو پورا کروں پھر جب بندہ کہتاہے ” الحمد ﷲ رب العالمین“ تو خدا  فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی ہے او جانا ہے کہ میں ہر نعمت رکھتا ہوں۔ میں اپنے بندے کی ہر بلا کو اس سے ہٹا دوں گا اور اس پر اپنا فضل کروں گا تم گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے ساتھ اسے آخرت کی نعمتیں بھی عطا کروں گا اور اس پر سے عذاب کو ہٹا دوںگا بالکل اسی طرح سے جس میں نے دنیا کی مصیبتیں اس سے دور کردیں۔ پھر جب بندہ کہتا ہے” الرحمن الرحیم“ تو خداوند تعالی ارشاد فرماتا ہے میرے اس بندے نے گواہی دی کہ میں رحمن ہوں اور رحیم ہوں تو گواہ رہو کہ میں اس کو اپنی رحمت اور شان سے وافر حصہ عطا کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” مالک یوم الدین“ تو خدا کہتا ہے گواہ رہو میرے بندے نے اعتراف کیا ہے کہ میں مالک روزِ جزا ہوں میں اس کے حساب کو آسان کردوں گا اس کی نیکیاں قبول کروں گا اور اسکی برائیوں سے در گزر کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” ایاک نعبد“ تو خدا فرماتا ہےمیرے اس بندے نےسچ کہا ہے عبادت صرف میرے ہی لیے ہے میں اس کو اس کی عبادت کو ثواب دوں گا اور جو کوئی میرے خلاف عبادت کرے گا وہ اس بندے پر رشک کرے گا جب کہتا ہے ” وایاک نستعین“ تو خدا فرماتاہے اس نے مجھ سے مدد

۱۷۱

 مانگی ہے اور پناہ چاہی ہے گواہ رہو میں اس کے کاموں میں اس کی مدد کروں گا اور سختیوں میں اس کی فریاد سنوں گا  جب بندہ کہتا ہے” اہدنا الصراط المستقیم۔۔۔“ آخر تک “ تو فرماتا ہے یہ میرے بندے کی طرف سے ہے اور میرا بندہ جو کچھ بھی طلب کرے گا اسے ملے گا اور اپنے بندے کی دعا قبول فرماتاہے اور کہتا ہے جو بھی تیری آرزو ہے میں اسے پورا کروں گا اور جس کسی کا بھی اسے خوف ہے اس کو اس سے دور کروں گا۔ جنابِ امیر المومنین(ع) سے عرض ہوا اے آقا ہمیں بتائیے کہ کیا” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سبع مثانی(سات آیات) ، فاتحہ الکتاب، کا جز ہے  یا نہیں آپ(ع) نے وضاحت فرمائی کہ ہاں پیغمبر(ص) نے بسم اﷲ کو اس کی ساتویں آیت ہی شمار کرتے تھے اور پڑھتے تھے پھر فرمایا کہ فاتحہ الکتاب ہی سبع مثانی(سات آیات پر مشتمل سورہ ) ہے۔

۲ـ           جنابِ امیرالمومنین(ع)نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سورہ حمد کی ایک آیت ہے۔ اور اس کا متن ہے میں (علی(ع)) نے رسول خدا(ص) نے سنا کہ خدا نے فرمایا اے محمد(ص) میں نے تم کو سبع مثانی دی اور تمام کتابوں کی بزرگ کتاب قرآن دیا اور سبع مثانی کو مجھے جدا عطا کیا اور اپنی تمام خلق کے سامنے اسے خزانہء عرش میں سے معزز ترین قرار دیا۔ اور مجھے شعراف عطا کی۔ میرے علاہ کسی پیغمبر کو اس میں شریک نہیں کیا سوائے سلمان(ع) کے کہ صرف” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ انہیں عطا نہیں کی گئی کہ اس کا ذکر داستانِ بلقیس میں آیا ہے( سبع مثانی میں بسم اﷲ شامل کر کے جنابِ سلیمان(ع) کو نہیں دی  گئی)

پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ مجھ تک ایک گراں قدر خط پہنچایا گیا ہے جو کہ جنابِ سلیمان(ع) کی طرف سے ارسال کیا گیا ہءے اور اس میں لکھا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ جو کوئی اس کو محمد(ص) و آل محمد(ع) کی پیروی اور دوستی کے ساتھ پڑھے گا اور ان کے امر کا مطیع ، ظاہری اور باطنی طور پر ہوگا تو خدا ہر حرف بدلے اس کو ایسی نیکی عطا کرے گا جو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی اور جب کوئی اس کو پڑ رہا ہوگا تو سننےوالے کو بہترین انواع اور اموال بخشش کیے جائیں گے اور چاہئے کہ جس طرف سے بھی  یہ خیر آئے اسے حاصل کر لو کہ اس کے پڑھنے کا بے حد ثواب ہے اور غنیمت ہے کہ تمہارے پاس ابھی موقع ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذرے جائے

۱۷۲

اور تم دل میں حسرت لیے رہ جاؤ۔

۳ـ امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ” اس دن جہنم کو لایا جائے گا“ (فجر، ۲۳) تو رسول خدا(ص) سے اس کی تفسیر دریافت کی گئی آپ(ص) نے فرمایا روح الامین نے مجھے اس کی خبر دی ہے کہ خدائے واحد جب اولین و آخرین کو روزِ حساب جمع کرے گا تو دوزخ کو حاضر کیا جائیگا اور اسے کھینچ کر لانے کے لیے ایک ہزار مہاریں ڈالی جائیں گی ہر مہار کو ایک لاکھ فرشتے کھینچ رہے ہوں گے اور فرشتوں کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے پروردگار خاص انتقام کرے گا دوزخ سے اس وقت آگ کی مہیب لپٹیں نکل رہی ہوں گی اس وقت لوگوں کو اس سے بے اندازہ دور کر دیا جائیگا ورنہ سب کےسب ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر آگ کی ایک ایسی مہیب زبان اس سے برآمد ہوگی جو کہ سب گناہ گاروں کی اپنی لپیٹ میں لے لےگی اور اس قدر خوفناک ہوگی کہ فرشتے اور پیغمبر خدا(ص) سے فریاد کرینگے کہ ہمیں اس سے بچا اس وقت میں ( محمد(ص)) خدا اسے گذارش کروںگا کہ رب العزت میری امت کو اس سے بچا۔ پھر پل صراط لایا جائیگا جو کہ شمشیر سے زیادہ تیز ہوگا۔ اس پر تین گذر گاہیں ہوں گی ایک امانت و رحم کے لیے دوسری نمازیوں اور تیسری رب العالمین کے لیے میزان عدل ہوگی اس رب العالمین کے لیے  کہ جس کے عالوہ کوئی معبود نہیں لوگوں کو س تیسری گزرگاہ میزان  عدل سے گزرنے میں تکلیف ہوگی۔ اگر لوگ امانت اور رحم کی گذرگاہ سے گذر گئے تو پھر نماز کی گذر گاہ سے گزرن ہوگا اگر اس سے نجات پاگئے تو پھر اس دنیا کے بارے میں محاسبہ ہوگا۔ پھر رسول خدا(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” بیشک تیرا پروردگار کمین گاہ میں ہے“ (فجر) پھر فرمایا لوگ پل صراط پر اس حال میں ہوں گے کہ بعض آویزاں ہوں گے اور بعض لرزاں، لوگوں کے گروہ کے گرد اس وقت فرشتے جمع ہوجائیں گے اور آواز دیں گے اے حلیم ان کو معاف فرمادے ان کو سالم رکھ اور درگزر فرما ہھر لوگوں کو پروانے  دیئے جائیں گے جو لوگ نجات پا جائیںگے خداوند ان پر نظر رحم کرے گا لوگ اس کا شکر بجا لائیں گے اور رب العزت کی حمد کرین گے کہ اس نے ہمیں عذاب سے نجات دی اور اس حال سے کہ جس سے ہم نا امید ہوگئے تھے ہم پر اپنا فضل کیا۔ بے شک پروردگار معاف کرنے والا اور شکر گزار ہے۔

۱۷۳

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مختلف طبقات کےلوگ پل صراط سے گذریں گے۔ صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ بعض لوگ اس پر برق کی مانند گزریں گے بعض اس طرح گذریں گے جیسے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوں۔ کچھ اس طرح گذریںگے جیسے پیدل چلا جاتا ہے بعض گھٹنوں کے بل اور بعض اس کےساتھ آویزاں ہوں گے کہ لوگ ان کو جلاتی ہوگی۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب خدا چاہتا ہے کہ خلق کو مبعوث کرئے تو چالیس (۴۰) روز تک آسمان کو زمین پر برسایا جاتا ہے پھر خلق کے لیے اجزا کو لے جایا جاتا ہے۔

۶ـ           ریان بن صلت کہتے ہین کہ امام   رضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے نقل کیا کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے ایک صحابی کو عرصہ دراز کے بعد دیکھا جو کہ بوڑھا ہوچکا تھا آپ(ع) نے اس سے فرمایا اے بندہ خدا تم عمر رسیدہ ہوگئے ہو۔ اس نے کہا اے امیرالمومنین(ع) یہ بڑھاپا آپ(ع) کی اطاعت میں آیا ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا یہ عصا راستہ چلنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے دشمنوں کی وجہ سے ساتھ رکھا ہے امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تم میں ابھی طاقت باقی ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے آستانے کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ریان بن صلتکہتےہیںکہامامرضا(ع) نے میرے لیے جنابِ عبدالمطلب(ع) کےاشعار بیان فرمائے۔ ہم سب لوگ زمانے کو عیب لگاتے ہیں حالانکہ زمانے میں کوئی عیب نہیں اگر عبیب ہے تو وہ ہم ین ہی ہے جو اس کے دامن کا دھبہ ہیں۔ در اصل عیب ہم لوگوں میں ہے مگر ہم ہیں کہ زمانے کو عیب گردانتے ہیں اگر(اﷲ) زمانے کو گویائی دیتا تو یقین ہے کہ وہ ہماری ہجو کرتا۔ غور کرو تو ایک بھیڑیا بھی دوسرے بھیڑیے کا گوشت نہیں کھاتا۔ یہ ہم ہی ہیں کہ کھلے عام ایک دوسرے کو کھائے جاتے ہیں۔

۷ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا نا امیدی میں امید زیادہ ہوتی ہے۔ موسی بن عمران(ع) جب اپنے خاندان کے لیے آگ لینے گئے تو خدا ان سے ہم کلام ہوا اور موسی(ع) نبوت کے ساتھ واپس ہوئے۔ ملکہ سبا اپنے ملک سے باہر گئی اور مشرف با اسلام ہوئی اور سلیمان(ع) کی زوجیت میں آگئی اور فرعون کی عزت بڑھانے کی خاطر جادوگر جب مصر گئے تو ایمان کی قوت انہیں مل گئی۔

۸ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت

۱۷۴

کیا ہے کہ حسن بن علی بن ابی طالب(ع) اہل زمانہ مین سب سے زیادہ عابد و زاہد اور افضل تھے آپ(ع) ہمیشہ حج ادا کیا کرتے تھے اور اکثر پیدل برہنہ پاؤں حج پر جایا کرتے تھے۔ ہمیشہ جب موت کو یاد کرتے تو گریہ کرتے تھے جب روزِ محشر و قیامت کو یاد کرتے تو گریہ فرماتے تھے جب پل صراط پر سے گزرنے کو یاد کرتے  ملاقاتِ خدا کی یاد آتی تو زبردست گریہ گرتے کہ بے ہوش ہوجاتے آپ(ع) جب نماز کے لیے خدا کے حضور کھڑے ہوتے تو بدن کانپنے لگ جاتا اور لگتا تھا کہ آپ(ع) گر پڑیں گے اور گر جاتے جب یادِ بہشت و دوزخ آتی ہو پریشان ہوجاتے اور خدا سے بہشت طلب کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے ۔ اور ہمیشہ قرآن سے یہ آیت  نہ پڑھتے” يا ایها الذين آمنوا “ تا ہم یہ کہتے ” لبیک اللہم لبیک“ جب بھی نظر آتے ذکرِ خدا میں مشغول نظر آتے اورتمام لوگوں میں سب سے زیادہ سچی بات کرنے والے تھے۔

ایک دن معاویہ نے کہا کہ حسن(ع) بن علی بن ابی طالب(ع) کو منبر پر بلایا جائے اور خطبہ دلوایا جائے تاکہ اس میں سے نقص نکال کر ان کی فضیلت کم کی جاسکے۔ جب آپ(ع) تشریف لائے تو آپ(ع)سے کہا گیا کہ منبر پر جائیں اور خطبہ دیں اور ہم کو نصیحت کریں۔ آپ(ع) اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگو جو کوئی مجھے پہچانتا ہے اور جوکوئی مجھے نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں حسن بن علی بن ابی طالب(ع) ہوں میں عالمین کی  تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بن رسول اﷲ(ص) کا بیٹا ہوں میں خدا کی بہترین خلق کا بیٹا ہوں میں رسول خدا(ص) کا فرزند ہوں میں وہ ہوں جس سے اس کاحق چھین لیا گیا۔ میں صاحب فضائل ہوں میں صاحب معجزات و دلائل ہوں میں امیرالمومنین(ع) کا بیٹا ہوں میں مکہ ومنی کا بیٹا ہوں میں مشعر( خبر دینے والا ۔ قربانی دینے کہ جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) وعرفات کا بیٹا ہوں معاویہ نے کہا اے ابو محمد(ع) اس بات کو چھوڑو اور خرمہ ( کھجور) کی تعریف بیان کرو آپ(ع) نے فرمایا اس کو گرمی بار آور کرتی ہے اور پکاتی ہے اور رات کی خنکی اس میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے۔ پھر آپ(ع)  دوبارہ اپنے کلام کی طرف پلٹے اور فریاما میں خلق خدا کا امام ہوں اور رسول خدا(ص) کا بیٹا ہوں معاویہ کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں  اس کلام سے شورش برپا نہ ہوجائے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آپ کے خطبے کو قطع کردیا  اور کہا اے ابو محمد(ع) جو کچھ آپ(ع) کہہ چکے وہ کافی ہے آپ(ع) منبر سے نیچے اتر آئیں، آںحضرت(ع) منبر سے نیچے اتر آئے۔

۱۷۵

مجلس نمبر۳۴

(۱۹ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ      جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی مسجد میں جاروب کشی کرے گا تو خدا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرئے گا جو کہ نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور جو کوئی مسجد میں سے کوڑا کرکٹ باہر کرے بیشک وہ آنکھ میں گر جانے والے کسی تنکے کے برابر ہی کیوں نہ ہو تو خدا تعالی ایسے شخص کو اپنی رحمت میں سے دو حصے عطا کرے گا۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا موسی بن عمران(ع) سے رب العزت نے فرمایا میں ہرگز ( نافرمان و گنہگار) لوگوں کو سایہ عرش تلے جگہ نہیں دوں گا۔ جنابِ موسی(ع) نے خداوند عالم سے عرض کیا بارِ الہا پھر تیرے عرش تلےکون ہوگا تو ارشاد ہواکہ وہ لوگ جو اپنے ماں و باپ سے اچھے کردار سے پیش آتے ہیں اور ان پر نکتہ چینی نہیں کرتے۔

۳ـ جنابِ رسول خدا(ص) نےفرمایا وہ شخص عجیب ہے جو بیماری کے خوف سے کھانے میں تو پرہیز کرتا ہے مگر دوزخ کے خوف سے گناہوں میں پرہیز نہیں کرتا۔

۴ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا بارالہا میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ آپ(ص) سے دریافت کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کا خلیفہ کون ہے تو ارشاد فرمایا وہ بندہ ہے جو کہ میری حدیث و سنت کی تبلیغ کرتا ہے جس پر میری امت عمل کرتی ہے۔

۵ـ              امام صادق(ع) نےفرمایا ایک بار عیسی بن مریم(ع) اپنے تین اصحاب کے ساتھ کسی ضرورت کی غرض سے نکلے راستے میں ایک جگہ انہیں سونے کی تین اینٹیں پڑی نظر آئیں جنابِ عیسی(ع) نےفرمایا یہ لوگوں کو مار ڈالیں گی یہ کہہ کر آپ(ع) آگے روانہ ہوگئے جب کچھ دور  نکل آئے تو ان کے ہمراہ تین آدمیوں میں سے ایک نے بہانہ کیا اور واپس ہوگیا اس کی دیکھا دیکھی بقیہ دونے بھی بہانے سے واپسی کا راستہ لیا۔ جب یہ تینوں ان اینٹوں تک پہنچے تو ان میں سے دو آدمیوں نے ایک سے کہا کہ تم جاؤ اور سب کے لیے کھانا خرید لاؤ اس شخص نے جاکر کھانا خریدا اور اس میں زہر ملا دیا اور لے

۱۷۶

 آیا تا کہ بقیہ دونوں کو قتل کر کے اکیلا ہی تینوں اینٹوں کا مالک بن جائے ادھر پیچھے رہ جانے والے دونوں آدمی یہ سازش کررہے تھے کہ جب وہ کھانا لے کر واپس آئے تو اسے قتل کردیا جائے اور ان اینٹوں کو آپس میں دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے جب وہ شخص کھانا لے کر واپس آیا تو ان دونوں نے مل کر اسے قتل کردیا اور اس کے بعد کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد زہر آلود کھانا کھانے سے ان دونوں کی موت بھی واقع ہوگئی اور جب عیسیٰ بن مریم(ع) واپس آئے اور تینوں کو مرا ہو دیکھا تو اذنِ خدا سے انہیں دوبارہ زندہ کیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہ ( دولت) لوگوں کو قتل کردے گی ( لہذا ایسا ہی ہوا)

۶ـ           علی بن سری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا مومنین کو ایسی جگہ سے روزی عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتے اور یہ اس لیے ہے کہ انسان اپنی روزی کے وسیلے کا ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ دعا کرتا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک درہم کا سود لینے کا گناہ بھی خدا کے ہاں ایسا ہے جیسا کہ انسان محرمات( ماں، خالہ، پھوپھی وغیرہ) سے تیس (۳۰) بار زنا کرئے۔

۸ـ          سیدة النساء فاطمہ(س) بن محمد(ص) نے فرمایا ک ایک بار رسول خدا(ص) شب عرفہ ہمارے گھر تشریف لائے اورہم سے فرمایا بیشک خدا تم پر مباہات کرتا ہے اس نے نے تم سب اور علی بن ابی طالب(ع) کی مغفرت قبول کی اور معاف کیا اور یہ خبر میں تمہیں دوستی و رشتے داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کا رسول ہونے کے ناطے دے رہا ہوں اور یہ جبرائیل(ع) ہے جس نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ بندہ سعادت مند اور کامل ہے جو علی(ع) سے دوستی کرئے اور اس سے محبت رکھے اس کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی، اور کامل ترین شقی وہ شخص ہے جو علی(ع) کی زندگی میں اور اس کی موت کےبعد بھی اس سے دشمنی رکھتا ہو۔

۹ـ   انس بن مالک اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں اور کہ فاطمہ بنت رسول(ص) حیض و نفاس سے بالکل مبرا تھیں۔

۱۰ـ امام باقر(ع) نے فرمایا کہ جب میرے والد(ع) کا وقتِ رحلت قریب آیا تو مجھے سینے سےلگا کر فرمایا میرے بیٹے میں تجھے وصیت کرتا ہوں جیسے کہ میرے والد(ع) نے مجھے اور ان کے والد(ع) نے ان

۱۷۷

سے کی تھی کہ خدا نہ کرئے تم کسی پر ظلم کرو تو پھر اس سلسلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے(یعنی صرف خدا ہی بخشش فرماسکتا ہے)

۱۱ـ حرث بن مغیرہ ںصری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی واجب نماز کو ادا کرنے کے بعد دعا سے پہلے چالیس بار کہے”سبحان اﷲ والحمداﷲ ولا اله الا اﷲ واﷲ اکبر “ تو رب العزت سے جو بھی طلب کرے گا اسے عطا کیا جائے گا۔

۱۲ـ ابو سعید خدری(رح) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا تو جبرائیل(ع) نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہشت میں لے گئے مجھے ایک مسند پر بٹھایا اور ایک انار دیا جب میں نے اسے دو ٹکڑے کیا تو اس میں سے ایک نورانی حور نکلی جس کی آنکھیں انتہائی بڑی بڑی تھیں اس نے مجھے تہنیت پیش کی اور خوشخبری سنائی کہ درود ہو آپ(ص) پر اے احمد(ص) و رسول خدا(ص)، اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے بھائی آپ(ص) کے وصی اور آپ(ص) کے وزیر علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے پیدا کی گئی ہوں خدائے جبار نے مجھے تین جنسوں سے پیدا کیا ہے۔ میرا زیریں حصہ مشک کا ہے اور درمیانہ عنبر کا جبکہ بالائی حصہ کافور سے بنایا گیا ہے میں آبِ زندگی سے خمیر کی گئی ہوں اور خدائے جلیل نے جب  کہا ہو جا تو میں خلق ہوگئی رسول خدا(ص) فرماتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون سے (تیرا نام کیا ہے) تو اس نے جواب دیا میں راضیہ مرضیہ ہوں۔

۱۲ـامام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول خدا(ص) سیاہ عبا پہنے ہوئے گھر سے برآمد ہوئے پھر اپنی اس عبا کو علی بن ابی طالب(ع) کو پہنایا۔ اور فرمایا میں اسے دوست رکھتا ہوں یہ مجھ سے مخصوص ہے اور میرا خاص الخاص ہے۔ یہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس لیے کہ یہ میری طرف سے (حق) ادا کرنے والا ہے، یہ میرا وصی اور وارث ہے یہ روزِ اول سے مسلمان ہے اور ایمان میں سب سے زیادہ مخلص ہے۔ سب سے زیادہ سخی ہے، میرے بعد سید بشر ہے، اور نورانی ہاتھوں اور نورانی چہرے والوں کا قائد ہے، یہ اہل زمین کا امام ہے یہ علی بن ابی طالب(ع) ہے یہ فرما کر آپ(ص) نےگریہ فرمایا۔

۱۷۸

صفین میں چشمے کا پھوٹنا

۱۴ـ          حبیب بن جبم کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین(ع) ہمیں لے کر صفین کو چلے تو بلقاء نامی جگہ پر ہم نے قیام کیا جو کہ ایک بے آب و گیاہ میدان تھا مالک بن اشتر(رح) نے آںحضرت(ع) سے عرض کیا ، یا امیرالمومنین(ع) یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں پانی میسر نہیں ہے یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے مالک بے شک خدا ہم لوگوں کو بہت جلد یہاں شکر سے زیادہ میٹھا برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شفاف و بلوریں پانی عطا کرے گا اور جو کہ یاقوت کی طرح مقطر ہوگا مالک  کہتے ہیں۔ اس جگہ محل وقوع دیکھ کر ہمیں یخ و شیرین پانی کی دستیابی پر حیرت ہوئی اور مگر ہمیں جنابِ امیر(ع) کے کلام میں کوئی شک نہیں تھا۔

پھر جنابِ امیر(ع) نے دوش مبارک سے ردا کو اتاری اور اپنی تلوار ہاتھ میں لی پھر اس میدان کے ایک انتہائی سخت ٹکڑے کی طرف آئے اور وہاں کھڑے ہو کر فرمایا اے مالک اپنے ساتھیوں  کے ساتھ اس جگہ کو کھودو، جب ہم نے اس جگہ کوکھودا تو ایک بڑا سا سیاہ پتھر نمودار ہوا جو کہ چمکیلا تھا آپ(ع) نے فرمایا اس کو یہاں سے ہٹاؤ ہم سو(۱۰۰) آدمیوں نے مل کر زور لگایا مگر اس پتھر کو ہلانے میں کامیاب نہ ہوسکے یہ دیکھ کر جنابِ امیر(ع) نزدیک آئے اور اپنے ہاتھ دعا کےلیے بلند کیئے اور فرمایا” طاب طاب مربا عالم طيبو ثاتو به شتما کو باحه حانو ثانو ديثا بر حوثا آمين آمين رب العالمين رب موسی و رب هارون“ اور پھر اکیلے ہی اس پتھر کو اٹھا کر چالیس(۴۰)قدم دور پھینک دیا مالک بن حارث اشتر(رح) کہتے ہیں کہ اس جگہ سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوا جس پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا اور یاقوت سے زیادہ شفاف و مقطر تھا ہم سب اس چشمے سے خوب سیراب ہوئے اور اپنے مشکیزے اس کے پانی سے بھر لیئے جب ہم سیرابی آب سے فارغ ہوگئے تو جنابِ امیر(ع) نے حکم دیا کہ اس چشمے کو مٹی ڈال کر بند کردیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پھر ہم اس جگہ سے کوچ کر گئے کچھ دور جا کر جنابِ امیر(ع) نےہم سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون اس چشمے کے مقام کو جانتا ہے سب نے کہا کہ ہم جانتے ہیں وہ چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے واپس پلٹنے کا حکم دیا جب واپس اس مقام پر

۱۷۹

آئے تو کسی چشمے کے آثار نہ ملے ہم نے تلاش شروع کی کہ  دیکھیں چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا مگر ہزار کوشش کے باوجود اس جگہ کو تلاش نہ کر سکے پھر ہم اس جگہ ہماری ملاقات ایک نصرانی راہب سے ہوئی جس کا نام صعومہ تھا جو اس قدر ضعیف تھا کہ اس کے آبرؤ اس کی آنکھوں پر گرے ہوئے تھے ہم نے اس راہب سے کہا، اے راہب اگر تیرے پاس پانی ہے تو ہمیں دے تاکہ ہم اپنے مولا و آقا کو پلائیں( کیوںکہ دوبارہ اس جگہ واپس لانے پر ہمیں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ شاید جنابِ امیر(ع) پر پیاس کا غلبہ ہوا ہے) اس راہب نے کہا میرے پاس پانی موجود ہے جو کہ میں نے دو روز قبل بھر تھا جب ہم نے اس پانی کو اس راہب سے لیا تو اسے بدمزہ و تلخ پایا ہم نے اس سے پوچھا کہ تو نے یہ پانی کہاں سے حاصل کیا ہے اس نے بتایا کہ یہ ایک چشمے کا پانی ہے اور اس پانی کو میں نے شیرین کرنے کو کوشش کی ہے لیکن پھر بھی تلخ ہے ہم نے اس سے کہا کہ کاش تونے وہ پانی پیا ہوتا جو ہمارے سرور نے ہمیں مہیا کیا تھا اور پھر اس واقعے (دستیابی آب) کو اس راہب سے بیان کیا اس نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے سرور(ع) کوئی پیغمبر ہیں ہم نے جواب دیا نہیں وصی پیغمبر(ص) ہیں اس راہب نے درخواست کی کہ مجھے ان کے پاس لے چلو جب وہ جنابِ امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو جنابِ امیر(ع) نےاسے دیکھ کر فرمایا تم شمعون ہو اس نے کہا ہاں میں شمعون ہوں، آپ(ع) نے یہ کیسے جانا کہ میرا نام شمعون ہے جب کہ میرا یہ نام میری ماں نے رکھا تھا اورمیرے اور میرے خدا کے علاوہ اس کا کسی کو علم نہیں ہے، آپ(ع) نے فرمایا کہ یہ میرے علم امامت نے مجھے بتایا اس نے کہا کہ آپ(ع) اس چشمے کی بابت مجھے مطلع کریں تاکہ میں اپنے ایمان کو کامل کروں، آپ(ع) نے اس چشمے کی دریافت کا واقعہ اس سے بیان کیا اور فرمایا کہ اس چشمے کا نام حومہ ہے اور بہشت کے چشموں میں سے ایک ہے اور تین سو تیرہ (۳۱۳) اوصیاء (ع) سیراب ہوچکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں جوکہ اس سے سیراب ہوا اس راہب نے کہا میں نے تمام کتابوں اور انجیل میں من و عنہ یہ واقعہ رقم پایا ہے پھر اس نے راہب نے گواہی دی اور کہا”أَشْهَدُ أَنْ‏ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ و انک “ اے وصی محمد(ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود بجز خدا کے نہیں اور محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں اور آپ(ع) وصی(ع) محمد(ص) ہیں۔ پھر اس راہب نے جنابِ امیر(ع) کے ساتھ کوچ کیا اور صفین کے مقام پر گیا اور جب دوںوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ پہلا شخص تھا

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658