مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277270
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277270 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 یا امام(ع) یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عرفات کی زیارت کو موقوف کرے اور خدا اس کو اتنا ثواب عطا کرے تو امام صادق(ع) نے میری طرف غصے سے دیکھا اور فرمایا بیشک یہ ممکن ہے کہ مومن روزِ عرفہ غسل کرے اور زیارت امام حسین(ع) کو آئے تو خدا تمام مناسک کے ساتھ ادا شدہ حج کا ثواب عطا کرتاہے اور یہی مجھے بتایا گیا ہے اور مجھے اس میں جہاد کے ثواب کی شمولیت کی بھی خبر دی گئی ہے۔

۱۲ـ          ابن ابونعیم کہتے ہیں میں ابن عمر کے پاس تھا کہ ایک مرد نے مچھر کو مارنے کے بارے میں ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے کہا میں سر زمین عراق سے ہوں اس پر ابن عمر نے کہا دیکھو یہ شخص مجھ  مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ہے حالانکہ یہی  اہل عراق رسول خدا(ص) کے بیٹے کو قتل کردیں گے جن کے متعلق رسول خدا(ص) سے میں نے سنا ہے کہ حسن(ع) اور حسین(ع) میرے دو پھول ہیں۔

۱۳ـ          محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے عرض کیا کہ یا امام(ع)، میں نے سنا ہے کہ امام حسین(ع) کی انگوٹھی دوسرے اموال کے ساتھ لوٹ لی گئی تھی،آپ(ع) نے فرمائیں کیا ایسا ہی  ہے اور اگر نہیں تو وہ اس وقت کہاں ہے آپ(ع) نے فرمایا اے محمد بن مسلم یہ اس طرح نہیں ہے جیسے تیرا خیال ہے حسین(ع) نے شہادت سے قبل اپنے بیٹے علی بن حسین(ع) کو  کارِ امامت سونپ دیا انہیں وصیت کی اور اپنی انگوٹھی کو ان کے انگلی میں ڈال دیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح رسول خدا(ص) نے جنابِ امیر المومنین(ع) کے لیے کیا تھا۔ پھر جنابِ امیر(ع) نے امام حسن(ع) سے اور امام حسن(ع) نے امام حسین(ع) سے اسی طرح کیا تھا پھر یہ انگوٹھی میرے دادا(ع) سے میرے والد(ع) اور پھر مجھ تک پہنچی جو میں جمعے کے روز پہن کر نماز پڑھتا ہوں محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے جمعے تک انتظار کیا اور بروزِ جعہ ان کے پاس گیا نماز سے فارغ ہونےکے بعد امام عالی مقام(ع) نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس انگوٹھی کی زیارت کی اس انگوٹھی کا نقش ” لا الہ الا اﷲ عدة للقاء اﷲ“ تھا امام عالی مقام(ع) نے فرمایا یہ میرے جد حسین(ع) کی انگوٹھی ہے۔

۱۴ـ          اسماعیل بن ابو زیاد سکونی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے اپنے دادا(ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ہر روز فجر کے وقت علی(ع) و فاطمہ(س) کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور فرماتے، حمد ہے اس خدا کی

۱۴۱

کہ جس نے اعمال صالح کو انجام دینے کےبد اپنی نعمت سے فضیلت بخشی اور حمد ہے اس خدا کی جو سمیع و سامع ہے جس نے حسن آزمایش کی نعمت ہم پر تمام کی میں صبح و شام دوزخ سے خدا کی پناہ مانگتاہوں، اے ہل بیت(ع) تم پر صلواة ہو کہ خدا نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ ہر قسم کی پلیدی و نجاست کو تم سے دور کرے اور بہتر طریقے سے تم کو پاکیزہ کرے۔(احزاب، ۳۳)

( مندرجہ ذیل اخبار بطور اضافہ اٹھائیسویں مجلس کے بعد بیان ہوئی ہیں۔)

۱۵ ـ                 محمد بن قاسم نوفلی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا کہ بعض مومن خواب دیکھتے ہیں جن کا کوئی نتیجہ( تعبیر) برآمد نہیں ہوتا جبکہ بعض خواب اپنی تعبیریں رکھتے ہیں ایسا کیوں ہے، اما عالی مقام نے فرمایا کہ جب مومن سوتا ہے کہ تو اس کی روح آسمان تک حرکت کرتی ہے اور جو کچھ بھی آسمان میں موجود اس کی تقدیر و تدبیر سے وابسطہ ہوتا ہے وہ حق ہے اور  اس کی تعبیر بھی بر آمد ہوتی ہے اس کے برعکس جو کچھ بھی زمین پر اس کے بارے میں موجود ہوتا ہے کہ خواب میں دیکھتا ہے تو ایسے خواب بغیرتعبیر کے ہوتے ہیں ، قاسم کہتے ہیں میں نے پھر دریافت کیا کہ اگر روح آسمان تک جاتی ہے تو مومن کے بدن میں اس وقت کیا باقی رہ جاتا ہے امام عالی مقام(ع) نے فرمایا کہ اگر یہ تمام کی تمام آسمان پر چلی جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے کیا تم سورج کو نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہوتا ہے جب کہ اس کی روشنی اور حرارت زمین میں موجود  ہوتے ہیں بالکل اس طرح سورج کی مانند روح جسم میں رہتی ہے جب کہ اس کا پر تو متحرک ہوتا ہے۔

۱۶ـ          معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ امام ابو جعفر باقر(ع) نے فرمایا کہ جب بندگان خدا حالتِ نیند میں ہوتے ہیں تو ان کی روحیں آسمان پر جاتی ہیں جس کسی کی روح آسمان میں موجود جوکچھ دیکھتی ہے حق ہے اور جو کچھ اسے راستے میں نظر آتا ہے باطل ہے آگاہ رہو کہ ارواح کا ایک لشکر روانہ ہوتا ہے ( زمین سے آسمان کی طرف) جو کہ باہم تعارف سے ایک دوسرے سے آشنا ہوجاتا ہے یہ ارواح جو کہ آسمان پر ایک دوسرے سے تعارت حاصل کرلیتی ہیں وہ زمین پر بھی ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں۔ اور جن ارواح کا تعارف آسمان میں نہیں ہوتا وہ زمین پر بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتیں۔

۱۴۲

۱۷ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا۔ میں نے رسول خدا(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) انسان خواب دیکھتا ہے جن سے کچھ حق ہوتے ہیں اور کچھ باطل ایسا کیوں ہے۔ رسول خدا(ص) جواب دیا، کہ اے علی(ع) آدمی جب سوتا ہے تو اسکی روح پرورگار کی طرف پرواز کرتی ہے وہ جو کچھ بھی عرش پر دیکھتی ہے وہ حق ہوتا ہے( اس کی تعبیر ہوتی ہے) جب رب العزت حکم دیتا ہے تو یہ ارواح اپنے بدن میں واپس آجاتی ہیں جب کہ زمین و آسمان کی سیر میں یہ جو کچھ راستے میں دیکھتی ہے باطل ہوتاہے ( بغیر تعبیر کے ہوتا ہے)

۱۸ـ          ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے سنا کہ ابلیس شیاطین کا ایک دستہ رکھتا ہے جس کا نام ہزع ہے جس کی تعداد مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے کو پر کرتی ہے جب یہ شیاطین لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں تولوگ پریشان خواب دیکھتے ہیں۔

فضل بن ربیع

۱ـ           احمد بن عبداﷲ فروی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں ( احمد کا والد) ایک دن فضل بن ربیع کے گھر گیا اور دیکھا کہ وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھا تو کہا کہ آؤ میرے پاس بیٹھو جب بیٹھ گیا تو مجھ سے کہا اُدھر دیکھو جب میں سے اس جانب دیکھا تو پوچھا کہ کیا نظر آیا میں نےکہا ایک  کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہے۔کہا کہ غور سے دیکھو میں  نے کچھ تامل کیا اور پھر دیکھا کہ ایک شخص سجدے میں ہے فضل نے پوچھا کیا انہیں پہچانتے ہو میں نے کہا نہیں کہنے لگے یہ تیرے مولا و آقا ہیں میں نے کہا کون ہیں؟ فضل کہنے گے خود کو انجان ظاہر کرتے ہو تو میں نے کہا کہ نہیں میرا مولا کوئی نہیں ہے فضل بن ربیع نے کہا یہ ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) ہیں میں شب و روز مشاہدہ کرتا ہوں کہ یہ اسی حالت میں ہوتے ہیں وہ نمازِ فجر ادا کرتے ہیں اور پھر تعقیبات میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ اسی حال میں سورج طلوع ہوجاتا ہے پھر یہ سجدے میں چلے جاتے ہیں اور ظہر تک سجدے میں رہتے ہیں میں (فضل) کسی اور شخص کو نہیں جانتا جو زوال تک ایسا کرتا ہو پھر غلام آتا ہے اور کہتا ہے کہ وقت ظہر آگیا تو یہ اپنی نماز ظہر  شروع کردیتے ہیں نماز ظہر کے لیے انہیں

۱۴۳

 تجدید وضو کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ یہ دوران سجدہ نہ سوتے ہیں اور نہ ہی بے ہوش ہوتے ہیں پھر یہ عصر ادا کرتے ہیں اور تعقیبات نماز کے بعد دوبارہ سجدے میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ غروب آفتاب ہو جاتاہے یہسجدہ سے اٹھتے ہیں او بغیر تجدید وضو کے یہ نماز مغرب، اس کی تعقیبات اور پھر عشاء ادا کرتے ہیں اس کے بعد میں ان کے لیے کھانا لاتا ہوں یہ افطار کرتے ہیں اور پھر تجدید وضو کر کے سجدے میں چلےجاتے ہیں پھر سجدے سے سر اٹھاتے ہیں اور کچھ دیر استراحت فرماتے ہیں پھر اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور نماز ِ شب کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہان تک کہ صبح کی سفیدی نمودار ہوتی ہے مجھے نہیں معلوم کہ ان کا غلام ان کو کس وقت طلوع فجر کی اطلاع کرتا ہے کہ وہ پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جب سے وہ میری تحویل میں دیئے گئے ہیں میں ان کا یہی طریقہ دیکھ رہا ہوں۔

احمد بن عبداﷲ فروی کے والد نے فضل بن ربیع سے کہا کہ خدا سے ڈرو ان کو کبھی تکلیف نہ پہنچانا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات تمہارے لیے باعث زوالِ نعمت ہوجائے کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس کسی نے ان کے ساتھ بدی کی اس سے خدا کی نعمتیں چھن گئیں فضل نے کہا کہ مجھے بارہا ان کے قتل کا حکم دیا گیا اور یہ کہاگیا کہا گرتم نے انہیں قتل نہ کیا تو تمہیں قتل کردیا جائے گا لیکن میں نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔

اس کے بعد امام عالی مقام(ع) کو فضل بن یحیی برمکی کی تحویل میں دے دیا گیا۔ زندان برمکی میں ان کے لیے کھانا فضل بن ربیع کے گھر سے بھجوایا جاتا رہا یہاں تک کہ تین دن و رات گزرگئے چوتھے دن کھانا یحیی برمکی نے بھیجا امام عالی مقام(ع) نے کھانا کو دیکھا تو فرمایا، یا خدا تو جانتا ہے کہ اگراس سے پہلے میں اس طرح کا کھانا کھاتا تو موت یقینی تھی  یہ کہہ کرآپ(ع)  نے کھانا تناول فرما لیااور بیمار ہوگئے(زہر کے اثر سے ) صبح ایک طبیب کو ان کے پاس ان کی حالت دریافت کرنے بھیجا گیا طبیب نے پوچھا کہ آپ کے درد کا کیا سبب ہے آپ(ع) خاموش رہے طبیب نے دوبارہ دریافت کیا تو امام عالی مقام(ع) نے اپنے ہاتھ اسے بلند کر کے دکھائے ہاتھ کی ہتھیلی میں سبز نشان دیکھ کر طبیب باہر آگیا اس سے دریافت کیا گیا کہ ان(امام) کی حالت کیسی ہے طبیب نے کہا جو کچھ ان کے

۱۴۴

ساتھ کیا گیا ہے اور جو ان کی حالت ہے اسے خدا ہی بہتر جانتا ہے، اسی حالت میں امام عالی مقام(ع) کی شہادت ہوگئی۔

۲ـ           علی بن یقطین کہتے ہیں کہ ہارون رشید نے اپنے ایک درباری سے کہا کہ کچھ ایسا کر جس سے امام موسی بن جعفر(ع) کے امِ امامت کو غلط ثابت کرنے میں مدد مل سکے اور ان کا اثر و نفوذ ختم ہوجائے، اس درباری نے ایک جادوگر کا انتظام کیا جب وہ آیا تو ایک دستر خوان بچھایا گیا اور امام موسی بن جعفر(ع) کو بلایا گیا جب خادم ، ابوالحسن(ع) کے لیے روٹٰی لایا تو اس جادوگر نے کرتب سے روٹی آپ(ع) کے آگے سے کھینچ لی۔ یہ دیکھ کر ہارون ہنسا اور اپنی جگہ سے اٹھا۔ امام عالی مقام(ع) نے دربار پر نظر دوڑائی اور دربار میں لگی ہوئی شیر کی تصویر جو کہ کپڑے پر بنی ہوئی تھی کو حکم دیا کہ اس دشمن کو نگل لے تصویر کا شیر مجسم ہوا اور جادوگرکو نگل گیا ہارون اور اس کے درباریوں سے جب یہ معجزہ دیکھا تو خوف سے غش کھا کر گرپڑے جب کافی دیر کےبعد ہوش میں آئے تو امام عالی مقام(ع) سے گذارش کی کہ ہم آپ(ع) کو آپ(ع) کے حق کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس شیر کو حکم دیں کہ اس جادوگر کو واپس اگل دے امام عالی مقام(ع) نے فرمایا اگر عصائے موسی(ع) نے لکڑی اور رسی سے بنے سانپوں کو اگل دیا ہوتا یہ شیر بھی ویسا ہی کرتا کہا جاتا ہےکہ آںحضرت(ع) کا یہ معجزہ ان کے قتل کا موثر ترین ذریعہ بن گیا ( کیونکہ یہ معجزہ دیکھنے کے بعد ہارون کے دل میں حضرت(ع) کے لیے زیادہ بغض بھر گیا تھا۔)

۳ـ          حسن بن محمد بشار، قطعیہ الربیع سے راویت کرتے ہیں ( جو کہ عامہ الناس میں مقبول اور دانا سمجھا جاتا تھا) کہ میں نے خاندان رسول خدا(ص) کے بعض اہل فضل کو دیکھا ہے مگر عبادات و فضیلت میں جیسے موسی بن جعفر(ع) کو پایا کسی کو نہیں پایا میں ( حسن بن بشار) نے پوچھا کہ یہ تم پر کس طرح عیان ہوا اس نے بتایا کہ یہ مجھ پر سندی بن شاہک کے زندان میں قید کے دوران عیاں ہوا اس نے بتایا کہ جب امام عالی مقام(ع) سندی بن شاہک کے زندان میں قید تھے تو اس نے اسی(۸۰) رؤسا شہر کو اکٹھا کیا اور زندان میں جنابِ موسی بن جعفر(ع) کے پاس لے کر گیا میں بھی ان رؤسا کے ہمراہ تھا پھر ہمیں مخاطب کر کے امام (ع) کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر سختی کی جارہی ہے حالاںکہ ان کی منزل یہی ہے پھر بھی انہیں یہاں بستر فراہم کیا گیا ہے اور کسی قسم

۱۴۵

کی سختی نہیں کی گئی اور امیرالمومنین(ع) ( ہارون رشید) کا ارادہ بھی ان کے ساتھ برائی کا نہیں ہے ہمیں ان کی قدر و منزلت اور فضیلت سے کس طرح کا خوف نہیں حالانکہ ان کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اس پر امام عالی مقام(ع) نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمایا کہ جو کچھ میری فضیلت و کرامت کے بارے میں کہا جاتا ہے حق ہے میں تمہیں اس کی پہلے ہی اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے فرمایا انگور کے نو دانوں میں زہر ڈال کردیا جائے گا جس کے کھانے سے اگلے روز میرے جسم کی رنگت سبز ہوجائے گی اور پھر اس سے اگلے روز میں وفات پاجاؤں گا یہ سن کر سندی بن شاہک خوف سے کانپنے لگ گیا اور اس طرح مضطرب ہوگیا جیسے درخت کی شاخیں ہوا میں مضطرب ہوجاتی ہیں۔

۴ـ          ثابت بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے امام زین العابدین(ع) سے خدا کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا خدا مکان رکھتا ہے تو امام(ع) نے فرمایا اس سے بلند تر ہے ثابت کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ پھر کیوں اپنے نبی کو آسمان پر لے کر گیا فرمایا تاکہ جو کچھ عجائبات ہیں وہ ان کا مشاہدہ کریں اور ملائکہ سے ملیں ثابت بن دینار کہتے ہیں،میں نے پوچھا تو پھر خدا کے اس قول کے کیا معنی ہوئے” کہ وہ اس قدر نزدیک ہوا کہ با اندازہ دو کمانوں کا فاصلہ تھا“ امام(ع) نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا(ص) پردة نور کے اسقدر نزدیک ہوئے کہ فرشتوں کے رہنے کی جگہ کو دیکھا اور بادشاہی دیکھی اور زمین اور عرش کی بادشاہی کے درمیان فاصلے کا خود مشاہدہ کیا۔

صلوات ہو ہمارے نبی(ص) پر اور ان کی آل(ع) پر۔

۱۴۶

مجلس نمبر۳۰

(دس محرم الحرام سنہ۳۶۸ھ)

( یہ مجلس جنابِ صدوق نے مقتلِ حسین(ع) میں پڑھی)

مجلس عاشور

۱ـ           امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کہ جب معاویہ کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے یزید کو بلایا اور کہا کہ میں نے اس وسیع و عریض سلطنت پر تیری حکومت کو مضبوط کرنے کے تمام اسباب فراہم کردئے ہیں اور تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے تمام شہر اس وقت تیری حکومت کے لیے آمادہ ہیں۔ مگر میں تین اشخاص سے خوف زدہ ہوں کہ یہ تیری مخالفت کریں گے اور ان میں سے ایک عبداﷲ بن عمر خطاب دوسرے عبداﷲ بن زبیر اور تیسرے حسین بن علی(ع) ہیں۔

اے یزید سن اگر تو عبداﷲ بن عمر سے اچھے طریقے سے پیش آیا اور اس کی خاطر مدارت کرتا رہا تو اس کا دل تیرے  ساتھ رہے گا اس لیے اس کی خاطر مدارت سے ہاتھ مت اٹھانا، عبداﷲ بن زبیر اگ جنگ کے لیے آمادہ ہو تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ تیری گھات میں رہے گا اور در پردہ کا روائیاں کرتا رہے گا۔ حسین بن علی(ع) کو تم جانتے ہو کہ ان کی رسول اﷲ(ص) کے ساتھ کیا نسبت ہے ان کا اور رسول(ص) کا گوشت اور خون ایک ہے مین جانتا ہوں کہ عراق کے لوگ ان کو شورش کےلیے بلائیں گے، خود کو قابو میں رکھنا اور کسی قسم کی غلط کاروائی مت کرنا اور ان کی تواضع کرنا اگر تم ان پر قابو پالو تو ان کےحق کو پہچاننا  اور رسول خدا(ص) سے نسبت کی وجہ سے ان سے رعایت کرنا اور مواخذہ نہ کرنا، جو روابط  مین نے اس عرصے میں ان سے استوار کرنے کی کوشش کہ ہے انہیں منقطع نہ کردینا کہیں یہ نہ ہو کہ تم ان سے برائی کر بیٹھو۔

جب معاویہ مرگیا اور یزید بن معاویہ لعین تخت خلافت پر بیٹھا تو اپنے چچا عتبہ بن ابو سفیان اور دوسری روایت کے مطابق ولید بن عتبہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا عتبہ نے مروان بن حکم جو کہ معاویہ کی

۱۴۷

طرف سے مدینے کا حاکم تھا کو معزول کردیا اور حکم یزید کے تحت مدینے کی گورنری سنبھال لی۔ مروان بن حکم فرار ہوگیا اور اسے گرفتار نہ کیا جاسکا ۔ عتبہ نے اسکے بعد حسین بن علی(ع) کو طلب کیا اور ان سے یزید بن معاویہ کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام عالی مقام(ع) نے ارشاد فرمایا اے عتبہ تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیت(ع) ، معدن رسالت ہیں اور علم خدا کے عالم ہیں خدانے حق کو ہمارے سپرد کیا ہے اور ہماری زبانوں پر اسے جاری کیا ہے۔ میں (حسین(ع)) خدا کے اذن سے گویا ہوں ہ میں نے اپنے جد رسول خدا(ص) سے سنا ہےکہ خلافت فرزندانِ ابو سفیان پر حرام ہے اور جن کے لیے رسول خدا(ص) کا یہ صریح حکم موجود ہو میں اس کی بیعت کیسے کرسکتا ہوں۔ عتبہ نے جب امام عالی مقام(ع) کا یہ جواب سنا تو یزید کو خط لکھا۔

امیرالمومنین یزید(لعین) کے لیے عتبہ بن ابوسفیان کی طرف سے آگاہ ہو جا کہ حسین(ع)  بن علی(ع) تیری خلافت اور تیری بیعت کے معتقد نہیں ہیں اس بارے میں جو تیری حکم ہو وہ صادر کر والسلام۔

یہ خط جب یزید لعین کو پہنچا تو اس نے جواب لکھا۔ جب میرا یہ خط تجھ تک پہنچے تو اس وضاحت کے ساتھ مجھے فورا جوابی خط لکھ کہ کون کون میرا مطیع و فرمانبردار اور کون میرا مخالف ہے اور تیرے جوابی خط کے ساتھ حسین بن علی(ع) کا سر بھی ہونا چاہیے۔

جب یہ خبر امام عالی مقام(ع) تک پہنچی تو انہوں نے سفر کی تیاری شروع کردی اور رات کو مسجد نبوی میں آئے تاکہ رسول خدا(ص) سے وداع ہولیں جب قبرِ مبارک پر پہنچے تو دیکھا کہ قبرِ مبارک سے نور نکل رہا ہے آپ(ع)(حسین(ع)) واپس ہولیے دوسری شب پھر رسول خدا(ص) کو الوداع کہنے کے لیے تشریف لائے اور نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور سجدہ کو طول دیا یہاں تک کہ آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا کہ رسول خدا(ص) تشریف لائے ہیں اور سینے سے لگا کر آنکھوں کے بوسے لیتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے ماں باپ تجھ پر قربان میں تمہیں خون میں لت پت دیکھ رہا ہوں اس حالت میں کہ میری امت کو دعوی کرنے والے لوگوں کا جم غفیر تیرے گرد ہوگا اور ان کے لیے میری شفاعت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے اےمیرے بیٹے تم اپنے ماں(ع) باپ(ع) اور بھائی(ع) کے پاس آجاؤ کہ وہ سب تم سے ملنے کے مشتاق

۱۴۸

ہیں۔ میرے فرزند جان لو کہ تم بہشت میں بہت بلند درجات رکتھے ہو جو تمہیں بغیر شہادت نہیں مل سکتے ۔

حسین(ع) روتے ہوئے بیدار ہوئے اور اپنے خاندان کے پاس وہس آئے اور ان سےاپنے خواب کوبیان کیا ہھر اپنے برادر زادوں اور مخدرات عصمت کو سواریوں پر سوار کروایا اور اپنے اکیس(۲۱) اصحاب اور اہل بیت(ع) کے ساتھ پیچھے رہ جانے والوں کو الوداع کہ امام(ع) کے ساتھ جانے والوں میں اہل بیت(ع) کے ان افراد نےشمولیت کی جناب قاسم بن حسن(ع)، جنابِ ابوبکر بن علی(ع)، محمد بن علی(ع) عثمان بن علی(ع) عباس بن علی(ع) عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع)، علی بن حسین اکبر(ع) علی بن حسین(ع) اصغر(ع) ۔ جب امام (ع) کے کوچ کی خبر عبداﷲ بن عمر کو ملی تو وہ امام عالی مقام(ع) کے پیچھے گئے اور ایک منزل پر جاکر ان سے ملاقات کی اور عرض کیا، یا رسول اﷲ(ص) کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں جواب ملا عراق کا عبداﷲ بن عمر نے کہا میری گذرش ہے کہ آپ(ع) یہ ارادہ ترک کر کے واپس اپنے جدا(ص) کے حرم کی طرف مدینہ لوٹ جائیں امام عالی مقام(ع) نے انکار کیا تو عبداﷲ بن عمر نے کہا کہ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں رسول خدا(ص) آپ(ع) کے بوسے لیا کرتے تھے امام (ع) نے انہیں بتایا تو عبداﷲ بن عمر نے اس جگہ کا تین دفعہ بوسہ لیا اور گریہ کیا اور کہا یا ابن رسول اﷲ(ص)  میں آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں آپ اس سفر میں شہید کردئیے جائیں گے۔

امام عالی مقام(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب دوبارہ چل پڑے مقام ثعلبہ میں ایک شخص جس کا نام بشیر بن غالب تھا امام(ع) کے پاس آیا اور عرض کی یا بن رسول اﷲ(ص) مجھے خدا کے اس قول کہ” اس دن ہر ایک کو ا ک امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔( اسراء ، ۷۱) کی وضاحت فرمائیں۔ امام عالی مقام(ع) نے فرمایا وہ امام جوکہ حق کی طرف دعوت کرئے اوروہ دعوت کی جائے  اور وہ اسلام جو گمراہی کی طرف دعوت دے اور وہ بھی قبول کی جائے تو یہ پہلا گروہ بہشت اور دوسرا دوزخ میں جائے گا اور پھر فرمایا کہ” ایک گروہ بہشت میں اور ایک گروہ دوزخ میں جائے گا۔ “ (شوری، ۷) یہ کہہ کر آُپ(ص) روانہ ہوگئے اور عذیب کی منزل پر پڑاؤ کیا یہاں نصف دن استراحت فرمایی جب نیند سے بیدار ہوئے تو گریہ فرماتے ہوئے اٹھے آپ(ع) کے فرزند نے دریافت کیا، بابا یہ گریہ کس لیے

۱۴۹

 ہے تو امام (ع) نے فرمایا اے فرزند یہ وہ وقت ہے کہ جب بھی خواب باطل نہیں ہوتا خواب مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم جانے میں جلدی کرو کیونکہ موت تہمیں بہشت میں  لے جائے گی۔

پھر امام (ع) عالی مقام(ع) نے وہاں سے کوچ کیا اور مقام رہیمیہ میں قیام فرمایا یہاں آپ کی ملاقات اباہرم نامی  شخص سے ہوئی جو کہ کوفہ باشندہ تھا اس نے امام(ع) سے دریافت کیا کہ اے ابن رسول(ص) اس حال میں آپ(ع) کیوں مدینہ چھوڑ کر نکلے ہیں امام(ع) نے فرمایا اے ابا ہرم تم  پر وائے ہو تم مجھے دشنام دیتے ہو میں حالتِ صبر میں ہوں اور اس حالت میں بھی صبر کروں گا جب میرا مال لوٹا جائے گا اور میرا خون گرایا جائے گا خدا کی قسم مجھے قتل کردیا جائے گا اور رب العزت ان لوگوں کو خوار کرئے گا اور ایک شمشیر کو ان پر مسلط کردے گا جو ان سے میرا انتقام لے گی اور ان پر ایک ایسے مرد کو مسلط کردے گا جو ان کو ذلیل و خوار کرے گا۔

جب یہ خبر عبیداﷲ بن زیاد لعین کو پہنچی کہ حسین(ع) رہیمیہ کی منزل تک پہنچ گئے ہیں تو اس نے حر ابن یزید ریاحی کی  سر کردگی میں ایک ہزار سواروں کا دستہ بھیجا ، حر جب رھیمیہ پہنچا تو آگے بڑھاتا کہ امام سے ملاقات کرے تو اس نے تین بار اس آواز کو سنا کہ اے حر تجھے جنت کی بشارت ہو حر نے جب پیچھے مڑکر آواز دینے والے کو دیکھنا چاہا اور کسی کو وہان نہ پایا تو سوچا کہ ہم رسول خدا(ص) کے فرزند کے خلاف ہیں پھر بہشت میں کیسے جائیں گے۔ نماز ظہر کے وقت حر امام عالی مقام(ع)  کی خدمت میں حاضر ہوا امام عالی مقام(ع) نے اپنے فرزند کو حکم دیا کہ وہ اذان و اقامت کہیں پھر امام (ع) کی امامت مین دونوں گروہوں نے نماز پڑھی۔

بعد از نماز حر خدمتِ امام(ع) میں حاضر ہوا اور عرض کیا السلام علیک یا بن رسول اﷲ(ص) ، امام عالی مقام(ع) نے فرمایا و علیک السلام تم کون ہو اے خدا کے بندے حر نےجواب دیا میں حر بن یزید ریاحی ہوں۔ امام(ع) نے فرمایا، حر ہمارے ساتھ جنگ کرنے آئے ہو یا ہماری مدد کرنے۔ حر نے کہا مجھے آپ(ع) کے ساتھ جنگ کر نے بھیجا گیا ہےمگر یا بن رسول اﷲ(ص) میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جب میں قبر سے نکلوں تو میرے پاؤں میرے سر کے بالوں سے بندھے ہوں اور میرے ہاتھ میری گردن کے ساتھ اور مجھےلے جا کر جہنم میں گرا دیا جائے اور یا ابن رسول اﷲ(ص) میرا مشورہ آپ(ع) کو یہ

۱۵۰

ہے کہ آپ(ع) اپنے جد کے حرم مدینہ لوٹ جائیں ورن یہ لوگ آپ کو قتل کردیں گےامام عالی مقام(ع) نے جواب دیا کہ عنقریب میں اپنے جد رسول خدا(ص) سے ملاقات کروں گا اور بہادر کےلیے موت سے کوئی خوف نہیں جب کہ اس کی نیت حق ہو اور وہ مسلمان ہو کر جہاد کرئے اور اپنے ذریعے سے نیک لوگوں کی مدد کرے اور ہلاک ہونے والوں سے اگ ہو اور بدی کے خلاف ہو۔ پس اگر میں زندہ رہ گیا تو میرے لیے کوئی ندامت و پریشانی نہیں اور اگر مرگیا تو مجھے موت سے کوئی تکلیف نہیں لیکن تیری ذلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ تو زندہ رہے او تیری ناک رگڑی جائے۔

پھر امام عالی مقام(ع) نے رھیمیہ سے کوچ کیا اور قطقطانیہ میں پڑا ڈالا وہاں کچھ دور لگے خیموں کو دیکھ کر امام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ خیمے کس کے ہیں آپ(ع) کو مطلع کیا گیا کہ یہ خیمے عبیداﷲ بن حر جعفی کے ہیں۔ امام(ع) نے اس کو طلب کیا اور فرمایا کہ تو ایک گناہ گار اور خطا کار انسان ہے دھو ڈالے تو اپنے گناہوں کی رب العزت سے معافی مانگ اور میری مدد کر میرے جد رسول خدا(ص) بارگاہ رب العزت میں تیری شفاعت کریں گے عبیداﷲ جعفی نے کہا یا امام اگر میں نے آپ(ع) کے لشکر میں شمولیت اختیار کر لی تو میں وہ پہلا شخص ہوں گا جسے یہ قتل کریں گے مگر میں آپ کو اپنا گھوڑا پیش کرتا ہوں خدا کی قسم میں نے جب بھی پر سوار ہو کر اسے ایڑ لگائی ہے کوئی اس کی  گرد کو بھی پاسکا اور میں نرغے میں نہین آیا آپ(ع) یہ گھوڑا لے لیں۔

امام(ع) نے اپنا چہرہ اس سے دوسری طرف پھیر لیا اور فرمایا ہمیں تیرے گھوڑے سے نہیں تجھ سے غرض ہے۔میں ظالم کی مدد کو اپنے لیے قبول نہیں کرتا تو ایسا کر کہ کہ یہاں سے بہت دور چلا جا نہ ہمارے ساتھ رہ اور نہ ہمارے خلاف ہو کیوںکہ جب میں نے استغاثہ بلند کردیا تو پھر ہر سننے والے پر  لازم ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اگر اس نے ایسان نہ کیا تو خدا اسے جہنم میں گرائے گا۔

یہ کہہ کر امام نے کوچ کیا اور کربلا آپہنچے۔ کربلا پہنچ کر امام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ کونسی جگہ ہے کہ آپ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا خدا کی قسم آج گرفتاری و بلا کا روز ہے اسی جگہ ہمارا  خون بہایا جائیگا اور ہماری حرمت کو مباح کیا جائیگا۔

۱۵۱

عبیداﷲ بن زیاد لعین نے عمر ابن سعد لعین کو چار ہزار سوار دے کر حسین(ع) کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اسکے علاوہ عبداﷲ بن حصین لعین کو ایک ہزار سوار، شیث بن ربعی لعین کو ایک ہزار سوار اور محمد بن قیس کندی لعین کو بھی ایک ہزار سوار دے کر عمر سعد لعین کے پیچھے روانہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ عمر سعد لعین کی سرکردگی میں جنگ لڑیں گے عبیداﷲ بن زیاد لعین کو جب یہ خبر دی گئی کہ عمر سعد لعین نے حسین(ع) کے ساتھ رات کی تاریکی میں گفتگو کی ہے تو اس نے شمر بن زی الجوشن لعین کو چار ہزار کی فوج دے کر روانہ کیا اور عمر سعد لعین کو احکامات جاری کیے کہ جب میرا یہ حکم نامہ تجھ تک پہنچے تو حسین بن علی(ع) کو مزید مہلت مت دے اور انہیں گردن سے دبوچ لے اور ان پر اس طرح پانی بند کردے جس طرح یوم دار عثمان پر پانی بند کردیا گیا تھا جب یہ خط عمر سعد کو پہنچا تو اس نے منادی کروا دی کہ حسین(ع) اور ان کے اصحاب کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مہلت ہے۔

جب یہ آواز امام(ع) کے اعزاؤ و اصحاب کے کانوں میں پڑی تو انہیں نہایت ناگوار گزرا امام عالی مقام(ع) کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کسی کو میرے اصحاب سے زیادہ با وفا اور میرے اہل بیت(ع) سے زیادہ فرمانبردار اور صلہ رحم کے زیادہ پابند اہل بیت(ع) ملے ہوں میں جانتا ہون کہ مجھ پر وہ وقت آگای ہے لہذا میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں۔ اور تمہیں اس ذمہ داری سے بری کرتا ہوں اس وقت رات کی تاریکی ہے تم اس کا فائدہ اٹھاؤ او اطراف سے نکل جاؤ کیوںکہ یہ قوم فقط میرے ہی خون کی پیاسی ہے یہ صرف میرا ہی تعاقب کریں گے اور اگر مجھے پالیں گے تو کسی اور کے پیچھے نہیں جائیں گے۔ عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا ابن رسول اﷲ(ص) لوگ کیا کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگ و آقا اور آقازادے کو اور اپنے پیغمبر(ص) کے فرزند کو دشمنوں کے نرغے میں چھوڑ دیا ہے اور دشمن پر اپنے نیزہ و شمشیر سے حملہ نہیں کیا۔یابن رسول اﷲ(ص) خد کی قسم ہم ایسا نہیں کرین گے جب تک ہم آپ(ع) کے ساتھ ہیں ہم اپنا خون اور اپنی جاں آپ پر فدا کردیں گے یہاں تک کہ جو آپ کی طرف سے ہم پر واجب ہے وہ ادا نہ ہوجائے اور جو وعدہ کیا ہے وہ پورا نہ ہوجائے ۔پھر زہیر بن قین بجلی کھڑے ہوئے اور کہا یا ابن رسول اﷲ(ص) میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ آپ(ع) کی مدد کرتا ہوا سو دفعہ قتل ہوجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر

۱۵۲

 قتل ہوجاؤں میں خدا سے دعا کرتا ہوںکہ وہ میرے وجود کی وجہسے ان لعینوں کو آپ(ع) کے خاندان سے دور کردے ہم تمام اصحاب کےلیے یہ جزائے خیر ہے۔ اس کے بعد امام عالی مقام(ع) نے فرمایا کہ خیام کے چاروں طرف خندق کھودیں اور لکڑیوں سے اسے پر کردیں پھر امام نے پانے فرزند علی اکبر(ع) بیس بہادر اور تیس سوار دے کر بھیجا کہ وہ جائیں اور پانی لے کر آئیں علی اکبر(ع) گئے اور خفیہ طریقے سے پانی لے آئے ان کی زبان پر اس وقت یہ اشعار جاری تھے۔

” اے زمانے تف ہے تجھ پر تو کتنا برا دوست ہے کہ ہر صبح و شام کتنے ساتھی و طلب گار مقتول ہوتے ہیں جب کہ تو تبادلے پر قناعت نہیں کرتا اور حکم اور امر تو جلیل کے ہاتھ میں ہے اور ہر زندہ رہنے والا میرے راستے پر چلنے والا  ہے“ اس کے بعد امام(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو اور  پانی پیو کہ یہ تمہارا آخری توشہ ہے اور وضو و غسل کرو اور اپنے کپڑوں میں خوشبو لگا کر انہیں بطور کفن پہن لو۔ بالاخر نماز فجر ادا کی گئی اور اس کے بعد اصحاب کو جنگ کے لیے صف آرا کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ خندق کی لکڑیوں میں آگ لگا دی جائے ۔تاکہ دشمن کا لشکر صرف ایک ہی طرف سےحملہ آور ہوسکے۔

دشمن کے لشکر کی طرف سے ابن ابی جویریہ نامی ایک شخص نے جب خندق میں آگ روشن ہوتے دیکھی تو اس نے آگے بڑھ کر آگ لگانے والے کو مخاطب کیا اور کہا کہ وائے ہو تم پر تم دنیا میں ہی آگ کامزہ چکھنا چاہتے ہو۔ امام عالی مقام(ع) نے جب اس کی یہ آواز سنی جو ارشاد فرمایا کہ یہ کون ہے۔ آپ(ع) کو مطلع کیا گیا کہ یہ ابن ابی جویریہ نامی شخص ہے امام نے فرمایا خدایا اس کو دنیا میں ہی آگ کا مزہ چکھا دے امام(ع) کی دعا کا ختم ہونا تھا کہ اس لعین کا گھوڑا بدکا اور اسے سیدھا خندق مین گرادیا جس سے وہ ( ابن ابی جویریہ) زندہ آگ میں جل کر مرگیا۔

اسکے بعد عمر سعد لعین کےلشکر سے تمیم بن حصین فراز نامی شخص سے پکارا کر کہا اے حسین(ع) اور اصحاب حسین(ع) دریائے فرات کو دیکھو کہ اس میں مچھلیاں تیر رہی ہیں اور سیراب ہو رہی ہیں مگر خدا کی قسم تمہیں اس کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا یہاں تک کہ تم بیتابی کی حالت میں جان دیدو۔ امام عالی مقام(ع) نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے بتایا گیا یہ تمیم بن حصین فرازی ہے آپ(ع) نے

۱۵۳

 ارشاد فرمایا کہ یہ اور اس کا باپ اہل دوزخ میں سے ہیں پھر دعا فرمائی کہ اے رب العزت آج اس کو پیاس میں مبتلا کردے آپ(ع) کا یہ کہنا تھا کہ اس کو شدید پیاس نے آگھیرا وہ اضطراب کی حالت میں گھوڑے سے نیچے گر گیا اور اسی کے گھوڑے نے اس کو اپنے سموں تلے  روند دیا۔

اس کے بعد لشکر عمر سعد لعین سے محمد بن اشعث کندی لعین سامنے آیا اور کہنے لگا اے حسین(ع) بن فاطمہ(س) تم رسول(ص) کی طرف سے ایسی کونسی حرمت رکھتے ہو جو دوسرے نہیں رکھتے امام(۰ع)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، بے شک خدا نے آدم کو نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو چنا عالمین سے اور بعض بعض کی ذریت ہیں“(آل عمران، ۳۳) اور پھر فرمایا کہ خدا کی قسم محمد(ص) آل ابراہیم(ع) سے ہیں اورہم خاندان محمد(ص) کی رہبر عترت ہیں۔ اس کے بعد آپ(ع) نے دریافت کیا کہ یہ مرد کون ہے بتایا گیاکہ اس کا نام محمد بن اشعث بن قیس کندی ہے امام عالی  مقام(ع) نے سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا خدایا اس شخص کو ایک ایسی خواری دے کہ اس کی عزت باقی نہ رہے امام عالی مقام(ع) کا یہ فرمانا تھا کہ یکا یک محمد بن  اشعث کو ایک ایسا عارضہ ہوا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے بھاگا گیا اور جب بیٹھا تو خدانے ایک بچو کو اس پر مسلط کر دیا جس کے ڈنگ مارنے سے یہ شخص برہنہ حالت میں اپنی غلاظت میں گر کر مرگیا۔

جب امام کے اصحاب پر پیاس نے غلبہ کیا تو بریر بن حصین ہمدانی( راوی حدیث ابراہیم بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ بریر ابو اسحاق کے خالو ہیں) امام عالی مقام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یا ابن رسول اﷲ(ص) اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ان سے  جاکر بات کروں اور پانی لانے کی کوشش کروں۔ امام نے اجازت دی وہ عمر سعد لعین کے لشکر کے پاس گئے اور فرمایا اے لوگو بے شک خدا نے محمد(ص) کو چنا جو  کہ بشیر و نذیر اور خدا کی اجازت سے لوگوں کو اپنی طرف بلانے والے ہیں وہ روشن چراغ تھے راہ ہدایت تھے یہ فرات کا پانی جس کو جانور تک پی رہیے ہیں تم نے اولاد رسول (ص) پر بند کردیا ہے جواب میں عمر سعد لعین کے لشکریوں نے کہا اے بریر تم کو کافی طول دے دیا ہے تم اتنی ہی بات کو کافی جانو کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ حسین(ع) اسی طرح پیاسا قتل ہوجائے۔ جس طرح ایک شخص ( عثمان) پہلے بھی قتل ہوچکا ہے ۔ امام حسین(ع) نے فرمایا بریر بیٹھ جاؤ

۱۵۴

 پھر امام اپنی جگہ سے اٹھے اور تلوار کا سہارا لیکر کھڑے ہوئے اور با آواز بلند فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہون کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو، جواب ملا ہاں تم رسول کے فرزند ہو امام نے فرمایا جانتے ہونا کہ میرے جد رسول خدا(ص) ہیں، جواب ملا ہاں پھر فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ میری ماں فاطمہ(س) بنت محمد(ص) ہین جواب ملا ہاں جانتے ہیں پھر فرمایا تمہیں خدا کی قسم کیا جانتے ہو کہ میرے والد علی بن ابی طالب(ع) ہیں جواب ملا خدا کی قسم جانتے ہیں، پھر فرمایا  کہ کیا جانتے ہو کہ میری جدہ خدیجہ بنت خویلد اسلام لانے والی پہلی خاتون ہیں۔ جواب ملا جانتے ہیں، آپ نے پھر فرمایا تمہیں قسم ہے کیا تم جانتے ہو کہ سید الشہداء حمزہ(ع) میرے والد کے چچا ہیں، جواب ملا ہاں ہم جانتے ہیں، آپ(ع) نے پھر فرمایا کیا یہ بھی جانتے ہو کہ جعفر طیار(ع) جو بہشت میں ہیں میرے چچا ہیں۔ جواب ملا خدا کی قسم ہم  یہ بھی جانتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا میں تمہین قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا یہ جانتے ہو کہ یہ تلوار رسولِ خدا(ص) کی ہے جو اس وقت میری کمر کے ساتھ آراستہ ہے، جواب ملا ہاں جانتے ہیں، پھر فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم بتاؤ کیا یہ عمامہ رسول خدا(ص) کا نہیں جو میرے سر پر ہے، جواب ملا ہاں جانتے ہیں انہیں کا ہے، پھر آپ(ع) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ علی(ع) سب سے پہلے ایمان لائے وہ علم وحلم میں سب سے برتر ہیں اورہر مومن اور مومنہ کے ولی ہی، جواب ملا ہاں جانتے ہیں۔ امام عالی مقام(ع) نے فرمایا پھر کس لیے تم میرے خون کو حلال جانتے ہو کیا تمہیں علم نہیں ہےکہ میرے والد(ع) روزِ قیامت حوض کوثر کے کنارے کھڑے ہوں گے اور لوگوں کے ایک گروہ ( گناہ گاروں ) کو اونٹوں کی طرح ہانک رہے ہوں گے جیسے پانی پینے کے وقت ہانکا جا تا ہے۔ اور لواء حمد اس روز میرے جد(ص) کے ہاتھ میں ہوگا۔ عمر سعد لعین کے لشکریوں کی طرف سے جواب آیا کہ  ہم یہ سب جانتے ہیں مگر ہم تم سے کوئی رعایت نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم پیاس سے مرجاؤ۔ امام عالی مقام(ع) کی عمر اس وقت ۵۷ سال تھی، امام نے ان کو بھلائی کیطرف دعوت دینے کی خاطر فرمایا۔ کہ رب العزت نے اہل یہود پر اس وقت غصہ فرمایا جب انہوں نے کہا کہ عزیز(ع) خدا کا بیٹا ہے۔ پھر رب العزت نے اہل نصاری پر اس وقت شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا جب انہوں نے مسیح(ع) کو خدا کا بیٹا کہا او پھر وہ اہل مجوس پر اس وقت غصہ میں آیا اور جب انہوں نے آگ کو اپنا خدا مانا۔ اور جان لو کہ خدا

۱۵۵

 کا عذاب ان لوگوں کے لیے سخت تر ہے جہنوں نے اپنے پیغمبر(ص) کو قتل کیا اور وہ جمعیت جو اپنے پیغمبر(ص) کے فرزند کو قتل کرنا چاہتی ہے کے لیے خدا کاعذاب شدید تر ہوگا۔ یہ سن کر حر بن یزید ریاحی لشکر عمر سعد لعین سے نکل کر امام عالی مقام(ع) کے پاس آگئے اور کہنے لگے۔ خدایا میں تیری طرف پلٹ آیا ہوں میری توبہ قبول کر لے کہ میرے دل میں اس وقت تیرے صالح بندوں تیرے دوستوں اور تیرے پیغمبر(ص) کی اولاد کی حرمت جاگزین ہے ۔ پھر حر(رض) نے امام(ع) سے کہا۔ یا بن رسول اﷲ(ص) مجھے اجازت دیں کہ میں آپ(ع) کی طرف سے آپ کے دشمنوں کے خلاف جنگ کروں۔ امام نے ان کو اجازت دی حر میدان میں گئے اور رجز پڑھا کہ میں اپنی تلوار سے تمہارا سر جدا کردوں گا اور مجھ سے بہتر تلوار چلانے والا پورے عراق میں کوئی نہیں یہ کہہ کر حر نے حملہ کردیااور اٹھارہ لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔ امام عالی مقام(ع) ، حر(رض) کی طرف بڑھے جب حر کے سرھانے پہنچے تو دیکھا کہ ان کے جسم سے خون فوارے کے طرح نکل رہا ہے یہ دیکھ کر امام نے فرمایا تجھے مبارک ہو، مبارک ہو، اے حر کہ اپنے نام کی طرح تم دنیا اور آخرت دونوں میں حر(رح) ( آزاد) ہو پھر امام عالی مقام(ع) حر کے سرہانے  کھڑے ہوکر یہ شرع پڑحے کیسا خوش قسمت حر بن ریاحی بہت صابر وشکر گزار ہے اور حر کیسا خوش قسمت  نیزہ باز ہے کہ اس نےکہا واحسینا اور اپنی جان مجھ پر فدا کردی۔

پھر زہیر بن قین بجلی میدان میں آئے اور امام نے ارشاد فرمایا ” ایوم نلقی جدک النبیاءو حسنا والمرتضی علیا“ زھیر نے جنگ کے دوران سولہ(۱۶) لعینوں کو واصل جہنم کیا جنگ کے دوران زھیر کہتے جاتے تھے کہ میں زہیر ہوں ابن قیس ہوں میں تمہیں اپنی تلوار سے قتل کردوں گا میں حسین(ع) کے ساتھ ہوں۔

پھر زہیر کی شہادت کے بعد حبیب بن مظاہر اسدی(رح) میدان میں گئے اور رجز پڑھا ” میں حبیب ابن مظاہر ہوں ہم اور تم ایک جیسے کس طرح ہوسکتے ہیں” اطہر ناصر خیر الناس حین یذکر“ جناب حبیب(رح) اکتیس(۳۱) لعینوں کو ٹھکانے لگایا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔

پھر عبداﷲ بن ابی عروہ غفاری(رح) میدان میں گئے اورلعینوں سے کہا” جانتے ہو بنو غفاری حق کے ساتھ

۱۵۶

ہیں اور مددگاروان امام ہیں میں اپنی تلوار کے ذریعے تم سے انتقام لوں گا اور نابکاروں کو تہہ تیغ کروں گا جناب عبداﷲ بن عروہ نے جنگ کی اور (۲۰) بیس لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد بریربن خفیر ہمدانی(رح) جو قاری قرآن تھے میدا میں گئے اور یہ رجز پڑھا” میں بریر ہوں اورمیرے والد خفیر ہیں اور اس میں خیر نہیں ہوتا جس میں شر ہو۔ “ جناب بریر(رح) نے جنگ کی اور تیس(۳۰) لعینوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

پھر مالک بن انس کاہلی میدان میں آئے اور فرمایا ” جانتے ہو کہ میرا قبیلہ اورمیری قوم اپنی بہادری کی وجہ سے حریف کے لیے آفت ہے ہم سواروں کے سردار ہیں جان لو کہ آل علی(ع) شیعیان رحمان ہیں جب کہ آل حرب( بنی امیہ) شیعیان شیطان ہیں جنابِ مالک نے جنگ کے دوران اٹھارہ(۱۸) آدمیوں کو جہنم رسید کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد زیاد بن مہاجر کندی  میدا ن میں آئے اور فرمایا میں زیاد ہوں اور میرے والد مہاجر ہیں میں شیر دل شجاع ہوں اے کافر و خدا نے مجھے حسین(ع) کی نصرت کےلیے مقررکیا ہے میں ابن سعد لعین سے نفرت کرتا ہوں اس کے بعد جنابِ زیاد بن مہاجر(رح) نے جنگ کی اور نو(۹) جہنمیوں کو ٹھکانے لگا کر شہید ہوئے۔

پھر وہب بن وہب میدان میں گئے ( وہب ایک نصرانی تھے جو کہ بدستِ امام مسلمان ہوئے تھے اور اپنی والدہ کے ہمراہ امام عالی مقام(ع) کے پاس کربلا میں حاضر ہوئے تھے۔) آپ نے خیمے کے بانس(ستوں) کے ساتھ جنگ کی اور سات (۷) یا آٹھ(۸) لعیینوں کو واصل جہنم کیا اور اسیر ہوگئے انہیں پکڑ کر عمر سعد لعین کے پاس لایا گیا اس نے حکم دیا کہ انکا سر کاٹ کر حسین(ع) کی جانب پھینک دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب وہب کی والدہ نے یہ  دیکھا تو انہوں نے ایک تلوار اٹھائی اور میداں میں آگئیں،۔ امام عالی مقام(ع) نےجب یہ دیکھا تو وہب کی والدہ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے مادر وہب رک جاؤ اور اپنی جگہ پر واپس چلی جاؤ خدا نے عورتوں سے جہاد کی تکلیف کو اٹھا رکھا ہے تم اور تمہارا بیٹا میرے جد محمد(ص) کے ساتھ بہشت میں محشور ہوگے۔

اس کےبعد ہلال بن حجاج میدان میں گئے اور یوں رجز پڑھا ” میں اپنے دشمن کے

۱۵۷

 نشانے مارتا ہوں انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا اور انہیں خوف میں مبتلا رکھتا ہوں“ آپ نے جنگ کی اور تیرہ (۱۳) لعینوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوگئے۔

ان کے بعد عبداﷲ بن مسلم بن عقیل(ع) میدان میں آئے اور دشمنوں سے فرمایا میں قسم کھا تا ہوں کہ میرا خاتمہ آزادی کی موت کے علاوہ نہیں ہوگا اور موت ایک تلخ حقیقت ہے میں اس چیز کو بہت برا محسوس کرتا ہوں کہ خوف کھانے والا کہلایا جاؤں اور یہ بھی میرے لیے بہت برا ہے کہ میں تمہارے قتل سے گریز کروں پھر آپ نے جنگ کی اور (۳) تین ناریوں کو واصل جہنم کیا اور شہید ہوئے۔ پھر علی بن حسین(ع) (اکبر(ع)) میدان میں گئے جب آپ دشمن کے سامنے گئے تو امام عالی مقام(ع) کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے ار فرمایا خدایا تو گواہ ہےکہ رسول خے بیٹے کا بیٹا جس کا چہرہ حسین و جمیل ہے اور جو ہم شکل پیغمبر(ص) ہے ان لوگوں کے سامنے ہے۔ جنابِ علی بن حسین(ع) (اکبر) نےفوج اشقیاء کے سامنے پینچ کر رجز پڑھا” میں علی بن حسین(ع) ہوں خدا کی قسم ہم نبی(ص) کے گھرانے کے اعلیٰ ترین فرد ہیں آج میں اپنے والد(ع) کے آس پاس سے تم برے لوگوں کو دور کردوں گا پھر جنگ سروع کی اور دس ناریوں کو یہہ تیغ کر کے واپس امام عالی مقام(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،بابا جان میں پیاسا ہوں امام نے فرمایا بیٹا صبر کرو تمہارے جد ابھی کچھ یہی دیر میں تمہیں بھر پور سیراب کریں گے پھر جنابَ علی اکبر(ع) دوبارہ میدان میں آئے اور بھر پور جنگ کی اور چوالیس (۴۴) ناریوں کو واصل جہنم کیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

پھر قاسم بن حسن(ع) میدان میں آئے امام عالی مقام(ع) نے ان سے فرمایا میری جان تم بیتاب نہ ہو، ہر چیز فانی ہے۔ آج بہشت خلد سے تمہیں رزق پہنچایا جائیگا۔ جنابِ قاسم نے بھر پور جنگ کی اور شہید ہوگئے۔

پھر امام حسین(ع) بنفس نفیس میدان جنگ میں گئے اور تین(۳) آدمیوں کو قتل کیا پھر آپ(ع) اسقدر زخمی ہوگئے کہ گھوڑے کی پشت پر  قائم نہ رہ سکے اور زمین پر تشریف لے آئے امام عالی مقام(ع) نے جب دائیں اور بائیں کسی کو موجود نہ پایا تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا ، یاخدایا تو دیکھ رہا ہے کہ لوگوں نے پیغمبر(ص) زادے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے نبو کلاب نے فرات کا پانی اس

۱۵۸

 پر بند کر دیا ہے تیروں سے اسے چھلنی کررہے ہیں۔ اور اسے گھوڑے سے نیچے گرا دیا ہے اسی اثناء میں ایک تیر آپ(ع) کی گردن میں آکر پیوست ہوگیا۔ امام عالی مقام(ع) نے اس تیر کو کھینچ کر نکالا اور بہتے ہوئے خون کو روکنے کےلیے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی اس پر رکھی جن ہتھیلی خون سے تر ہوگئی تو اس خون کو اپنے چہرے اور ڈاڑھی پر مل لیا اور فرمایا میں اسی ستم رسیدہ و خون آلودہ حالت میں اپنے پروردگار سے ملاقات کرون گا ۔ پھر رخموں سے چور امام نے اپنے چہرہ مبارک کو بائیں طرف سے زمین پر رکھ دیا امام(ع)عالی مقام(ع) کی یہ حالت دیکھ کر دشمنان خدا سنان بن انس لعین اور شمر ذی الجوشن عامری لعین شامیوں کا ایک لشکر لے کر امام کے پاس آئے اور سرہانے کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے  کہا اب، کس بات کا انتظار ہےکیا اس( امام عالی مقام(ع)) کو راحت پہنچانے کا ارادہ ہے یہ سن کر سنان بن انس لعین آگے بڑھا اور امام عالی مقام(ع) کی ڈاڑھی کو پکڑ کر ان کی گردن پر تلوار سے وار کرتا جاتا اور کہتا جاتا خدا کی قسم میں تیری گردن جدا کردون گا میں جانتا ہوں کہ رسول خدا(ص) کا بیٹا ہے۔ بہترین بندہ ہے اور بہترین مان باپ کی نسل ہے۔ امام عالی مقام(ع) کو اس حالت میں دیکھ کر امام کا گھوڑا امام کی طرف آیا اور اپنی پیشانی کو امام(ع) عالی مقام کے خون سے تر کر کے سر پٹ خیام کی طرف دوڑا اور بلند آواز سے ہنہنانے لگا دختران حسین(ع) اور مخدراتِ عصمت نے جب اس کی آواز سنی تو خیام سے باہر تشریف لائیں اور گھوڑے کی خالی زین اور خون آلودہ پیشانی دیکھ کر واویلا کرنا شروع کیا اور یہ جان لیا کہ حسین(ع) شہید ہوگئے ہیں۔ بی بی ام کلثوم(س) بنت حسین(ع) نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر با آواز بلند گریہ کیا اور ہاتھ اپنے سر پر مار مار کر کہا وا محمداہ(ص) یہ حسین(ع) ہیں جو بیابان میں شہید ہوئے ہیں جن کی ردا اور عمامہ لوٹ لیا گیا ہے۔ پھر سنان لعین امام عالی مقام(ع) کے سر کو عبیداﷲ بن زیاد لعین کے پاس کے کر گیا اور کہنے لگا میں خیرالبشر اور دو جہاں کے شہنشاہ کا قاتل ہوں میں اس کا قاتل ہوں۔ جو حسب ونسب میں تمام لوگوں سے برتر تھا مجھے سو اونٹوں پر سونا اور چاندی لاد کر انعام میں دے۔ عبید اﷲ لعین نے کہا تم پر وائے ہو۔ اگر تم جانتے تھے کہ یہ حسب و نسب میں سب سے بہتر ہے تو اسے قتل کیوں کیا یہ کہہ کر اس نے جلاد کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور اس طرح یہ لعین واصل جہنم ہوگیا۔

۱۵۹

اس کے بعد عبیداﷲ بن زیاد لعین نے ایک قاصد بی بی ام کلثوم بنت حسین(ع) کے پاس بھیجا جس نے انہیں ابن زیاد لعین کا یہ پیغام پڑھ کر سنایا۔ حمد اس خدا کی جس نے تمہارے مردوں کو قتل کیا یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ ہوا ہے اسکے بارے میں تیرا کیا خیال ہے، بی بی(س) نے جواب میں فرمایا ۔ اے ابن زیاد لعین اگر تیری آنکھیں حسین(ع) کے قتل سے روشن ہوئی ہیں تو جان لے کہ میرے جد محمد مصطفی(ص) کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہوتی تھیں رسول خدا(ص) انہیں بوسے دیا کرتے اور ان کےلیے سواری بن کر انہیں اپنے شانوں اپنے پر سوار کروایا کرتے تھے تو ان کے جد کے لیے اپنا جواب تیار رکھ اس لیے کہ کل تیرے لیے بھی ایسا ہی ہے۔

خدا امام عالی مقام اور ان کے جانثاروں اور ان کی عترت طاہرہ(ع) اور مخدرات عصمت کے بلند مقامات کے طفیل ہمیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور قاتلان حسین(ع) پر اپنا سخت تر عذاب مسلط فرمایئے ۔ آمین۔

” لعنت بر آل معاویہ و یزید لعین۔“

۱۶۰