مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277362
ڈاؤنلوڈ: 6926

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277362 / ڈاؤنلوڈ: 6926
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس نمبر ۳۱(بقیہ مجلس ۳۰)

(روز عاشورا محرم سنہ۳۶۸ھ)

شام غریبان

۱ـ           بی بی فاطمہ بنت حسین(س) نے فرمایا کہ جب کربلا میں ہمارے خیام کے گرد لوٹنے والوں کا ہجوم تھا تب میں چھوٹی بچی(کم عمر) تھی ان لعینوں میں سے ایک نے میرے کانوں سے گوشوارے جو کہ سونے کے تھے کھینچ لیے اور ساتھ ہی وہ رونے لگا میں ( فاطمہ بنت حسین(ع))نے اس لعین سے کہا اے دشمن خدا روتا کیوں ہے اس نےلعین نے کہا کہ رؤں کیوں نہ کہ میں نے دخترِ رسول(ص) کو تکلیف دی ہے بی بی فرمااتی ہیں مین نے کہا کہ پھر ایسا کیوں کرتا ہے تو کہنے لگا، مجھے یہ خوف ہے کہ اگر یہ گوشوارے میں نے نہ لیئے تو کوئی دوسرا ان کو لےلے گا بی بی(س) فرماتی ہیں ہمارے خیموں میں جو کچھ بھی تھا لوٹ لیا گیا اور ہمارے سروں سے چادریں تک اتروالی گئیں۔

۳ـ          عبیداﷲ ابن زیاد لعین کے ایک محافظ نے روایت کیا ہے کہ جب امام عالی مقام(ع) کا سر مبارک، ابن زیاد لعین کے پاس لایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کوسونے کے طشت میں رکھ کر میرے سامنے پیش کیا جائے جب سر مبارک کو طشت میں رکھ کر پیش کیا گیا تو اس لعین نے لکڑی کی ایک چھڑی کو آںحضرت(ع) کے دندان مبارک پر مار کر گستاخی کی اور بولا اے ابو عبداﷲ تم جلد بوڑھے ہوگئے ہو۔ اس کے دربار میں سے ایک آدمی کھڑا ہو اور ابن زیاد لعین  سے کہنے لگا جہان تو نے چھڑی رکھی ہوئی ہے وہاں پر میں نے رسول خدا(ص) کو حسین(ع) کے بوسے لیتے دیکھا ہے اس لعین نے جواب دیا یہ روز بدر کا بدلہ ہے پھر حکم دیا کہ علی بن حسین(ع) کو  طوق پہنا دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر کے زندان میں ڈال دیا جائے عبیداﷲ بن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے کہ میں جس گلی کوچے میں گیا میں

۱۶۱

 نے دیکھا کہ ہر طرف گریہ و ماتم بپا تھا۔ ابن زیاد لعین کا یہ محافظ کہتا ہے  جب ابن زیاد لعین نے علی بن حسین(ع) اور دیگر مخدرات عصمتِ کو امام حسین(ع) کے سر مبارک کے ساتھ حاضر کیا تو زینب بنت علی(س) بھی ہمراہ تھیں۔ ابن زیاد لعین نے کہا میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہاری احادیث کو جھوٹا کردیا اس پر جنابِ زینب(س) نے فرمایا می اس خدا کی حمد کرتی ہوں جس نے اپنے رسول محمد(ص) کے سبب سے ہمیں گرامی رکھا اور  بہتر طریقے سے پاک و پاکیزہ کیا۔ بے شک فاجر، جھوٹ کہنے والا اور فاسق ، رسوا ہوتا ہے،ابن زیاد لعین نے کہا خدا نے تمہارے گھرانے کے ساتھ یہ کیا کیا ہے بی بی(س) نے فرمایا شہادت ان کا مقدر تھی اور یقینا خدا تم کو روزِ قیامت ان کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے ہاں تمہارا محاکمہ ہوگا۔ یہ سن کر ابن زیاد لعین کو غصہ آگیا اور اس نے ارادہ کیا کہ بی بی(س) کے قتل کا حکم دے مگر عمرو بن حریث نے اس کو ایسا کرنے سے باز رکھا اس کے بعد بی بی(س) نے فرمایا اے بن زیاد تو نے جو کچھ ہمارے ساتھ  کیا ہے کیا وہ کم ہے، تونے ہمارے مردوں کو قتل کر دیا اور ہمارے شیرازے کو بکھیر دیا ہے، تونے ہماری خواتین کو اسیر کیا ہمارے بچوں پر ظلم ڈھایا اور ہماری حرمت کو مباح جانا ہے اگر اس سےتیرا مقصد اپنے دل کو راحت دینا تھا تو تو نے اسے کافی راحت پہنچا چکا۔ اسکے بعد ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ امام عالی مقام(ع) کے سر کے ہمراہ اسیروں کو شام روانہ کیا جائے ابن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے،رات کو ہم نے سنا کہ جنات امام عالی مقام پر نوحہ خوانی کررہے ہیں۔

قافلہ جب شام پہنچ گیا تو قیدیوں اور بی بیوں کو بے پردہ شہر میں داخل کیا گیا اہل شام نے جب قیدیوں کو دیکھا تو کہنے لگے آج سے پہلے ہم نے اس طرح کے نورانی چہروں والے معزز قیدی نہیں دیکھے، اہل شام نے قیدیوں سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہو سکینہ بنت حسین(ع) نے انہیں مطلع کیا کہ ہم خاندان رسالت(ص) سے تعلق رکھتے ہیں۔

پھر قیدیوں کو شہر کے دروازے پر روک دیا گیا تب امام علی(ع) بن حسین(ع)(زین العابدین(ع)) کے پاس ایک شامی شخص آیا اور کہنے لگا حمد اس خدا کی جس نے تمہارے مردوں کو قتل کیا اور فتنہ کو خاموش کیا اور اس کے علاوہ جس قدر بر بھلا کہہ سکتا تھا اس نے کہا جب وہ یہ سب کہہ کر خاموش ہوگیا

۱۶۲

تو امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کیا تو قرآن نہیں پڑھتا اس نے کہا ہاں پڑھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ” میں تم سے جز نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے خاندان اورمیرے رشتے داروں سے محبت کرو“ (شورا، ۲۳)

وہ شامی کہنے لگا ہاں میں نے پڑھی ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت پڑھی ہے” اپنے ذولقربی کا حق ان کو دیدو“کہنے لگا ہاں آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ رشتے دار اور ذوالقربی ہم ہیں آپ(ع) نے پھر اس سے فرمایا کیا تونے یہ آیت پڑھی ہے” بیشک خدا نے چاہا اے اہل بیت(ع) کہ پلیدی کو تم سے ہٹا دے اور تم کو نہایت پاک کردے“ (احزاب، ۳۳)

کہنے لگا ہاں یہ بھی پڑھی ہے آپ(ع) نے فرمایا کہ اہل بیت(ع) ہم ہیں اس شامی نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا  ہوں ، خدایا میں دشمنان اہل بیت(ع) اور قاتلان آل محمد(ص) سے بیزار ہوں ، خدایا میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ میں قرآن پڑھتا تھا اور ان آیات اسے واقف نہ تھا۔

جب تمام اسیران اور مخدرات عصمت کو دربار یزید لعین میں لے جایا گیا اور امام عالی مقام(ع) کے سرمبارک کو یزید لعین کے سامنے رکھاگیا تب یزید کے حرم میں موجود خواتین نے واویلا و گریہ گیا۔ یزید لعین نے کہا کاش آج مقتولین بدر موجود ہوتے  تو دیکھتے کہ ہماری شمشیر نے ان کا بدلہ کس طرح لیا ہے کہ پھر اس لعین نے حکم دیا کہ امام کے سرمبارک کے مسجد دمشق ک دروازے پر لٹکایا جائے۔

بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) سے روایت ہوا ہےکہ جب ہمیں دربار یزید لعین میں لے جا کر بٹھایا گیا تو ایک رقعت طاری ہوگئی اور تب ایک شامی جسکی رنگت سرخ تھی اٹھا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(لعین) اس بچی کو مجھے دیدو و اس کا چہرہ کتنا خوبصورت ہے میں اس کو اپنے پاس رکھوں گا بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں مجھے خوف محسوس ہوا کہ مجھے اسے دیدیا جائے گا تو مین نے اپنی ایک بڑی اور سمجھدار بہن کا دامن پکڑ لیا ، اس بی بی نے اس شامی سے کہا اے ملعون تو جھوٹ کہتا ہے نہ اس امر کا حق تجھے ہے اور نہ ہی تیرے امیر کو اس پر یزید لعین نے غصہ کیا اور کہا خدا کی قسم میں

۱۶۳

 ایسا کرسکتا ہوں ، اگر میں چاہتا ہوں بی بی(س) نے فرمایا خدا کی قسم تجھے اس کا اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ تو ہمارے دین اور امت سے باہر نکل جائے یزید لعین نے غصے سے کہا کہ تو مجھ سے اس لہجے میں بات کرتی ہے، میں نہیں تیرا باپ اور تیرا بھائی دین سے باہر نکل گئے ہیں بی بی(س) نے فرمایا کہ میرے باپ اور میرے بھائی نے اس دین کے ذریعے سے امت کو ہدایت دی ہےیزید لعین نےکہا اے دشمن خدا تم جھوٹ کہتی ہو بی بی(س) نے فرمایا لوگو اس امیر کو دیکھو کہ یہ دشنام دیتا ہے اور ظالم ہے اوراپنی سلطنت پر مغرور ہوگیا ہے یہ سن کر یزید کو شرم محسوس ہوئی اور وہ خاموش ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اس شامی نے دوبارہ اپنی بات کو دھرایا کہ اس بچی کو مجھے دیدیا جائے یہ سن کر یزید نے اس سے غصے سے کہا خدا تجھے موت دے خاموش ہوجا تو وہ خاموش ہوگیا۔

بی بی(س) فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں پھر حکم یزید لعین پر عورتوں اور بچوں کو بیمار امام کے ساتھ زندان میں قید کردیا گیا جہاں سردی اور گرمی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا گوشت موسموں کی سختی کی وجہ سے پھٹ گیا اور ادھر بیت المقدس میں کوئی پتھر ایسا نہ تھا کہ جس کے نیچے سے تازہ خون نہ جاری ہوا ہو لوگ سورج کی روشنی کو دیاروں پر رکھین پتون کی مانند سرخ دیکھتے تھے پھر ایک مدت کے عد ہم عورتوں اور بچوں کو امام علی بن حسین(ع) کےساتھ باہر نکالا گیا اور امام عالی مقام(ع) سب کے سر مبارک کو واپس کربلا پہنچایا گیا۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب لعین تلوار سے حسین بن علی(ع) کو شہید کرنے کے بعد فارغ ہوئے اور امام عالی مقام(ع) کےسرِ مبارک کےلے گئے تو رب العزت کی طرف سے عرش کے درمیان سے منادی دی گئی  کہ اے جابر و ظالم امت نبی (ص) کے اہل بیت(ع) کے ساتھ تمہارے اس ستم کے بعد خدا تمہیں ہرگز توفیق نہ دے گا کہ تم عیدا لاضحی اور عید الفطر کبھی مناسکو( تمہیں خوشی نصیب نہیں ہوگی) پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ یہ لعین خدا کے اس حکم کی رو سے کبھی شادنہ ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے یہاں تک کہ خدا خونِ حسین(ع) کا بدلہ لینے والے ( امام منتظر(ع) کا قیام نہ کردے۔

۱۶۴

مجلس نمبر۳۲

(شب بارہ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ   امام صادق(ع) نے فرمایا روزِ قیامت خدا لوگوں کو ایک سرزمین میں جمع کرے گا اور میزان رکھی جائے گی اور خونِ شہدا کو علماء کے قلم سے وزن کیا جائے گا اور علماء کے قلم کی سیاہی خونِ شہداء سے زیادہ وزنی ہوگی۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا چھ چیزین ہیں جو کہ مومن کی موت کے بعد اس کو فائدہ دیتی ہیں فرزند صالح جو اس کے لیے مغفرت طلب کرے ، قرآن جو اس کے لیے پڑھا جائے ،کنواں جو کھودا گیا ہوا اور درخت جو لگایا گیاہو۔ اور صدقہ پانی جو جاری ہو اور نیکی کا طریقہ جس پر اس کےبعد عمل ہوتا ہو۔

۳ـ مالک بن انس فقیہہ مدینہ ( مالکی فقیہہ کے بانی) کہتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا وہ میرے نزدیک ہوئے میرا احترام کیا اور فرمایا اے مالک میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں (مالک) ان الفاظ کو سن کر بہت خوش ہوا اور خدا کی حمد کی، مالک کہتے ہیں جب بھی میں آپ(ع) کی خدمت میں گیا آپ تین کاموں میں سے ایک میں مصروف پایا۔ یا تو آپ روزہ رکھے ہوتے۔ یا آپ نماز پڑھ رہے ہوتے یا پھر ذکر الہی میں مشغول ہوتے آپ(ع) نے خدا کےبزرگ اور صالح ترین  بندوں سے تھے اور خدا سے بہت زیادہ ڈرتے اور حدیث بہت زیادہ بیان فرماتے تھے۔ مجلس کی رونق ان سے دوبالا رہتی اورہر وقت لوگوں کو ان سے فیض پہنچتا رہتا ۔ احکام دین اور حدیث بیان کرتے وقت خوف خدا دل کو گرفت کر لیتا اور اس وقت آپ(ع) کے چہرے کی رنگت زرد ہوجاتی اور مضطرب ہوجاتے یہاں تک کہ پہچانے نہ جاتے ایک دفعہ میں ان کے ساتھ حج پر گیا اور احرام کے بعد جب تلبیہ کہنے لگے توآپ کے حلق میں آواز پھنس گئی اور یہ حالت ہوگئی کہ جیسے  ابھی اپنی سواری سے گرجائیں گے، میں نے کہا اے فرزند رسول (ص) میں بھی آپ کے ہمراہ تلبیہ کہوں فرمایا اے ابو عامر کے بیٹے کہو۔لیکن پھر میں نے کہا اے فرزند رسول(ص)  مجھ میں  یہ کہنے کی جرات نہیں

۱۶۵

 ہے ڈرتا ہوں کہ کہیں میں کہوں ” لبیک اللہم لبیک“ اور جواب میں خدا مجھے ”لا لبيک ولا سعديک “ کہہ دے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا میں ایسے شخص کو عجیب جانتا ہوں جو کہ دنیا کے مال میں بخل سے کام لیتا ہے جب کہ دنیا اپنے اندر دوزخ رکھتی ہے۔ اگر تم اس کی طرف پشت کر لو گے تو اس کے خرچ کا بار تم پر نہیں ہوگا اس طرح یہ تمہیں کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

مالک بن انس کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ آپ(ع) عمدہ اور قیمتی گھوڑا کیوں نہیں خرید فرماتے آپ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ نہ تو میں کبھی دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگا ہوں اور نہ ہی میں بھاگنے والوں کا تعاقب کرتا ہوں۔

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ” ہم نے ہر چیز کا احصا ( گنتی شمار ـ ایک جگہ پر جمع ہونا) امام مبین میں کردیا ہے“ (یسین) تو مجلس میں بیٹھے ہوئے اصحاب نے رسول خدا(ص) نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا امام مبین سے مراد قرآن ہے تو جواب ملا نہیں پھر پوچھا گیا کہ کیا توریت ہے تو آپ نے جواب دیا نہیں پھر پوچھا گیا کہ انجیل ہے تو آپ(ص) نے فرمایا نہیں اسی اثناء میں جنابِ امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا بیشک وہ امام مبین یہ ہے کہ جس کے لیےخدا نے علوم اور ہر شے کا شمار کیا ہے۔

سفرِ ذوالقرنین(ع)

۱ـ وہب کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں پڑھا کہ جب ذوالقرنین دیوار کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور اپنے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے تو ان کی ملاقات ایک بوڑھے آدمی سے ہوئی جو نماز میں مشغول تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو ذوالقرنین(ع) نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں میرے لشکر سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس بوڑھے آدمی نے کہا میں اس سے مناجات کررہا تھا جس کا لشکر تیرے لشکر سے زیادہ قوی ہے جس کی سلطنت تجھ سے زیادہ غالب ہے اور جس کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اگر میں اپنا رخ تیری طرف کر لیتا تو اس سے اپنی

۱۶۶

 حاجت طلب نہ کرسکتا ۔ ذوالقرنین(ع) نے اس سے کہا تم ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ میں تمہیں اپنے ملک میں برابر کا شریک کروں گا اور اپنے کاموں میں تجھ سے مشورے لیا کرونگا اس بوڑھے شخص نے کہا میری چار (۴) شرایط ہیں ذوالقرنین(ع) نے کہا بیان کر اس نےکہا مجھے ایسی نعمت دے جس کو زوال نہ آئے، ایسی صحت و تندرستی دے جس میں بیماری نہ ہو،  ایسی جوانی مجھے عطا کر جس میں بڑھاپا نہ ہو، اور مجھے ایسی زندگی دے جس مین موت نہ آئے۔

ذوالقرنین نے کہا  ایسی کونسی مخلوق ہے جس کے اختیار میں یہ سب کچھ ہو اس نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہوں جو ان سب پر اوت تم پر طاقت رکھتا ہے

پھر ذوالقرنین آگے بڑھے  اور ایک دانشمند سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے ذوالقرنین(ع) سے کہا کہ مجھے بتائیں وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو پیدا ہونے سے لے کر اب تک قائم ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو آتی جاتی رہتی ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو اپنی پیدائش سے لےکر اب تک جاری ہیں۔

ذوالقرنین(ع) نے جواب دیا کہوہ دو چیزیں جو اپنی پیدایش سے لے کر اب تک قائم ہیں زمین اور آسمان ہیں۔ جو دو چیزیں آتی رہتی ہیں وہ دن اور رات ہیں، وہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں زندگی اور موت ہیں اور وہ دو چیزیں جو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک جاری ہیں سورج اور چاند ہیں اس شخص نے کہا تو امتحان میں کامیاب رہا واقعی تو دانش مند ہے۔

پھر ذوالقرنین یہاں سے روانہ ہوئے وہ ایک شہر میں گھوم رہے تھے ایک بوڑھے شخص سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے پاس مختلف کھوپڑیاں جمع تھیں وہ ان کو اٹھا کر گھما گھما کر دیکھا تھا۔ ذوالقرنین(ع) یہ دیکھ کر رک گئے اور اس آدمی سے کہا تو کس لیے یہ انسانی کھوپڑیاں جمع کر کے بیٹھا ہے اور انہیں اٹھا کر گھما گھما کر دیکھتا ہے اس نے جواب دیا میں یہ اس لیے کررہا ہوں کہ جان سکوں کہ ان میں کون معزز تھا کون وضع دار اور کون شریف تھا، کون غنی اور کون فقیر تھا اور میں بیس (۲۰) سال سے اسی کام میں مشغول ہوں۔ لیکن میں اس فرق کو جان نہیں سکا ذوالقرنین(ع) نے کہا بس میں جان گیا کہ تیرا مقصد مجھے نصیحت کرنا تھا۔

۱۶۷

پھر ذوالقرنین یہاںسے آگے روانہ ہوئے اور ایک اسی جگہ جا پہنچے جہاں انہیں قوم موسی(ع) کے دانشمندوں کا ایک گروہ ملا جو حق کی ہدایت کے ساتھ اںصاف کرتے تھے ذوالقرنین(ع) نے جب انہیں دیکھا تو کہا کہ اپنے حالات مجھ سے بیان کرو میں نے اس ساری زمین کا چکر لگایا ہے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا ہے صحراؤں۔ پہاڑوں میدانوں،۔ روشنی اور تاریکی سفر کیا ہے مگر تمہارے جیسا کسی کو نہیں پایا مجھے بتاؤ کہ تم نے اپنے مردوں کو قبریں اپنے گھروں کے دروازوں پر کیوں بنائی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ موت ہمیں ہر وقت یاد رہے، ذوالقرنین(ع) نے پوچھا کہ تمہارے گھروں کے دروازے کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان چور اور بد دیانت لوگ نہیں ہیں سب ایماندار ہیں، پوچھا تم میں قاضی کیوں نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا ۔ تم میں حاکم کیوں نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہ ہم آپس میں جھگڑتے ہیں اور نہ ہی ہماری ایک دوسرے سے دشمنی ہے، پھر پوچھا کہ تمہاراکوئی بادشاہ ہے، تو انہوں نے جواب دیا نہیں  ہے کیوںکہ ہم زیادہ ( انعام واکرام) کی توقع نہیں رکھتے پھر پوچھا گیا کہ تم سب لوگوں کے واسائل برابر ہیں اور ان میں فرق نہیں ہے تا بتایا کہ ہم ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور مساوات سے رہتے  ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں نزع و اختلاف نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے  جواب ملا ہم میں دلی اتحاد ہے ہم ایک دوسرے کو برا نہیں کہتے اور قتل نہیں کرتے اور فساد برپا نہیں کرتے پوچھا گیا کہ تم ایک دوسرے پر نفرین نہیں  کرتے ، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ارادوں پر ہماری طبع کی نرمی غالب ہے ہم اپنے نفسوں کی اصلاح حلم و بردباری سے کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم لوگ ایک ہی قول پر متحد رہتے ہو( ہم خیلا ہو اور ہم زبان ہو) وہ کہنے لگے ہم جھوٹ نہیں بولتے ایک دوسرے کو فریب نہیں دیتے ایک دوسرے کی بدگوئی نہیں کرتے ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں گدا گر و بھکاری کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا ہم اپنے اموال کو ایک دوسرے پر برابر تقسیم کردیتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم میں بد خلق اور سخت گیر لوگ موجود نہیں ہیں اس کی کیا وجہ ہے، کہنےلگے کہ ہم عاجزی اور فروتنی رکھتے ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تمہاری لمبی عمروں کا راز کیا ہے، تو بتایا

۱۶۸

کہ ہم حق پر عمل کرتے ہیں اور حق کے ساتھ اںصاف کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ میں نے تم میں سے کسی کو غمگین نہیں دیکھا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا کہ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم صبر اور شکر کرتے ہیں۔ پوچھا گیا تم پر قحط نہیں پڑتا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا ہم ہر وقت توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں ذوالقرنین(ع) نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگ آفات سے محفوظ رہتے اور عذاب کا شکار نہیں ہوتے  اسکے بارے میں بتاؤ تو بتایا کہ ہم غیر خداؤں پر ایمان (شرک) نہیں رکھتے ستاروں کو بلاؤں کا سبب نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان سے بارش طلب کرتے ہیں، ذوالقرنین(ع) نے کہا اے لوگو مجھے بتاؤ کہ کیا تم نے اپنے آباء و اجداد کو بھی ایسا ہی پایا اور کیا وہ بھی ایسے ہی اعمال انجام دیا کرتے تھے انہوں نے کہا ہمارے اجداد کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مسکین کے ساتھ ہمدردی کرتے فقیر کے ساتھ رحم روا رکھتے کوئی ظلم وستم کرتا تو اسے معاف کردیتے اور اگر کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا تو اس کے بدلے اچھائی کرتے۔ بدکاروں کے لیے استغفار کرتے اور صلہ رحم سے کام لیتے اور کبھی جھوٹ نہ بولتے خدا ان کے اس امر کے سبب ان پر نزولِ رحمت کرتا۔ذوالقرنین(ع) اپنی موت کے آنے تک ان کے ساتھ رہے آپ نے پانچ سو سال عمر پائی۔

بنی مصطلق

۷ـ محمد بن مسلم کہتے ہیں امام باقر(ع) نےفرمایا کہ رسول خدا(ص) نے خالد بن ولید کو ایک قبیلہ بنی مصطلق کی طرف بھیجا جو قبیلہ بنی خذیمہ سے تھے اور ان میں اور بنی مخذوم جو کہ خالد کا قبیلہ تھا کے درمیان زمانہ جاہلیت سے عداوت چلی آرہی تھی،  جب خالد وہاں پہنچا تو انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیوںکہ ان میں سے اکثر لوگ آںحضرت(ص) کی خدمت میں آکر اسلام قبول کرچکے تھے اور رسول خدا(ص) سے امان نامہ حاصل کر چکے تھے۔ خالد نے منادی کو حکم دیا کہ نماز کےلیے اذان کہے۔ اذان کی آواز سن کر وہ لوگ امان نامے کے بھروسے اپنے ہتھیار اتار کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے نماز سے فارغ ہوئے تو خالد کے حکم پر خالد کے لشکرے نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا اور ان کا مال و متاع لوٹ لیا اور جنگ نہ کرنے کا جو حکم رسول خدا(ص) نے دیا تھا

۱۶۹

اسے توڑ دیا اس قبیلہ کے باقی بچ جانے والے لوگ امان نامہ لیے رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئے اور ان سے خالد کے مظالم بیان کیے حضرت(ص) یہ داستانِ ظلم سن کر روبہ قبلہ ہوئے اور عرض کی یا خداوندا میں تجھ سے خالد کے مظالم سے پناہ مانگتا ہوں اور جو کچھ اس نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں اسی اثناء میں خالد آںحضرت(ص) کے لیے بطور مال غنیمت لوٹا ہوا سامان اور سونا لے کر آیا آپ(ص) نے وہ تمام سامان اور سونا لے کر امیرالمومنین(ع) کے حوالے کیا اور فرمایا اے علی(ع) یہ بنی مصطلق کے پاس لے جاؤ اور ان کو راضی کرو پھر اپنا پیر اٹھا کر فرما کہ طریقہ جاہلیت کو اپنے پاؤں کے نیچے اس طرح کچل دففو اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ لہذا جناب امیر(ع) ان کے درمیان تمام سامان لے کر پہنچے اور خدا کےحکم کے مطابق فیصلہ کر کے واپس پلٹے جب واپس آئے تو آںحضرت(ص) نے پوچھا اے علی(ع)  کیا کر آئے؟ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) پہلے ہر ایک کا خون بہا ادا کیا اور ہر بچے کے عوض جو کہ شکم مادر ہی میں ضائع ہوا تھا ایک کنیز یا غلام دیا اور ان کے ہر مال کا نقصان ادا کیا پھر جو مال میرے پاس بچا وہ میں نے ان کے وہ ظروف جن میں ان کے جانور پانی پیتے تھے کے عوض دیا پھر جو مال اس کے بعد میرے پاس بچ گیا وہ میں نے ان کے ان نقصانات کے بدلے ادا کیا جس کو وہ شمار نہ کرسکے تھے اور آخر میں میرے پاس جو کچھ بچا وہ سب میں نے ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ خلوص دل سے آپ(ص) سے راضی ہو جائیں۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ سن کر فرمایا اے علی(ع) تم نے جو کچھ بھی کیا تھا وہ سب ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ مجھ سے راضی و خوش ہوجائیں لہذا خدا تم سے راضی و خوشنود ہو تم میرے نزدیک مثل ہارون(ع) ہو جو موسی(ع) کے وصی تھے ۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔

۱۷۰

مجلس نمبر۳۳

(۱۵ محرم سنہ۳۶۸ھ)

فاتحہ الکتاب

۱ـ حضرت امیرالمومنین(ع)، جنابِ رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے فاتحہ الکتاب( سورة الفاتحہ) کو میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک حصہ اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کیا ہے اور ایک حصہ مجھ ( خدا) سے ہے اس حصے سے جو میرے بندے کا ہے وہ  جو بھی خواہش کرتا ہے پوری ہوتی ہے۔ جس وقت بندہ کہتا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے آغاز کیا ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی حاجات کو پورا کروں پھر جب بندہ کہتاہے ” الحمد ﷲ رب العالمین“ تو خدا  فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی ہے او جانا ہے کہ میں ہر نعمت رکھتا ہوں۔ میں اپنے بندے کی ہر بلا کو اس سے ہٹا دوں گا اور اس پر اپنا فضل کروں گا تم گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے ساتھ اسے آخرت کی نعمتیں بھی عطا کروں گا اور اس پر سے عذاب کو ہٹا دوںگا بالکل اسی طرح سے جس میں نے دنیا کی مصیبتیں اس سے دور کردیں۔ پھر جب بندہ کہتا ہے” الرحمن الرحیم“ تو خداوند تعالی ارشاد فرماتا ہے میرے اس بندے نے گواہی دی کہ میں رحمن ہوں اور رحیم ہوں تو گواہ رہو کہ میں اس کو اپنی رحمت اور شان سے وافر حصہ عطا کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” مالک یوم الدین“ تو خدا کہتا ہے گواہ رہو میرے بندے نے اعتراف کیا ہے کہ میں مالک روزِ جزا ہوں میں اس کے حساب کو آسان کردوں گا اس کی نیکیاں قبول کروں گا اور اسکی برائیوں سے در گزر کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” ایاک نعبد“ تو خدا فرماتا ہےمیرے اس بندے نےسچ کہا ہے عبادت صرف میرے ہی لیے ہے میں اس کو اس کی عبادت کو ثواب دوں گا اور جو کوئی میرے خلاف عبادت کرے گا وہ اس بندے پر رشک کرے گا جب کہتا ہے ” وایاک نستعین“ تو خدا فرماتاہے اس نے مجھ سے مدد

۱۷۱

 مانگی ہے اور پناہ چاہی ہے گواہ رہو میں اس کے کاموں میں اس کی مدد کروں گا اور سختیوں میں اس کی فریاد سنوں گا  جب بندہ کہتا ہے” اہدنا الصراط المستقیم۔۔۔“ آخر تک “ تو فرماتا ہے یہ میرے بندے کی طرف سے ہے اور میرا بندہ جو کچھ بھی طلب کرے گا اسے ملے گا اور اپنے بندے کی دعا قبول فرماتاہے اور کہتا ہے جو بھی تیری آرزو ہے میں اسے پورا کروں گا اور جس کسی کا بھی اسے خوف ہے اس کو اس سے دور کروں گا۔ جنابِ امیر المومنین(ع) سے عرض ہوا اے آقا ہمیں بتائیے کہ کیا” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سبع مثانی(سات آیات) ، فاتحہ الکتاب، کا جز ہے  یا نہیں آپ(ع) نے وضاحت فرمائی کہ ہاں پیغمبر(ص) نے بسم اﷲ کو اس کی ساتویں آیت ہی شمار کرتے تھے اور پڑھتے تھے پھر فرمایا کہ فاتحہ الکتاب ہی سبع مثانی(سات آیات پر مشتمل سورہ ) ہے۔

۲ـ           جنابِ امیرالمومنین(ع)نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سورہ حمد کی ایک آیت ہے۔ اور اس کا متن ہے میں (علی(ع)) نے رسول خدا(ص) نے سنا کہ خدا نے فرمایا اے محمد(ص) میں نے تم کو سبع مثانی دی اور تمام کتابوں کی بزرگ کتاب قرآن دیا اور سبع مثانی کو مجھے جدا عطا کیا اور اپنی تمام خلق کے سامنے اسے خزانہء عرش میں سے معزز ترین قرار دیا۔ اور مجھے شعراف عطا کی۔ میرے علاہ کسی پیغمبر کو اس میں شریک نہیں کیا سوائے سلمان(ع) کے کہ صرف” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ انہیں عطا نہیں کی گئی کہ اس کا ذکر داستانِ بلقیس میں آیا ہے( سبع مثانی میں بسم اﷲ شامل کر کے جنابِ سلیمان(ع) کو نہیں دی  گئی)

پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ مجھ تک ایک گراں قدر خط پہنچایا گیا ہے جو کہ جنابِ سلیمان(ع) کی طرف سے ارسال کیا گیا ہءے اور اس میں لکھا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ جو کوئی اس کو محمد(ص) و آل محمد(ع) کی پیروی اور دوستی کے ساتھ پڑھے گا اور ان کے امر کا مطیع ، ظاہری اور باطنی طور پر ہوگا تو خدا ہر حرف بدلے اس کو ایسی نیکی عطا کرے گا جو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی اور جب کوئی اس کو پڑ رہا ہوگا تو سننےوالے کو بہترین انواع اور اموال بخشش کیے جائیں گے اور چاہئے کہ جس طرف سے بھی  یہ خیر آئے اسے حاصل کر لو کہ اس کے پڑھنے کا بے حد ثواب ہے اور غنیمت ہے کہ تمہارے پاس ابھی موقع ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذرے جائے

۱۷۲

اور تم دل میں حسرت لیے رہ جاؤ۔

۳ـ امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ” اس دن جہنم کو لایا جائے گا“ (فجر، ۲۳) تو رسول خدا(ص) سے اس کی تفسیر دریافت کی گئی آپ(ص) نے فرمایا روح الامین نے مجھے اس کی خبر دی ہے کہ خدائے واحد جب اولین و آخرین کو روزِ حساب جمع کرے گا تو دوزخ کو حاضر کیا جائیگا اور اسے کھینچ کر لانے کے لیے ایک ہزار مہاریں ڈالی جائیں گی ہر مہار کو ایک لاکھ فرشتے کھینچ رہے ہوں گے اور فرشتوں کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے پروردگار خاص انتقام کرے گا دوزخ سے اس وقت آگ کی مہیب لپٹیں نکل رہی ہوں گی اس وقت لوگوں کو اس سے بے اندازہ دور کر دیا جائیگا ورنہ سب کےسب ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر آگ کی ایک ایسی مہیب زبان اس سے برآمد ہوگی جو کہ سب گناہ گاروں کی اپنی لپیٹ میں لے لےگی اور اس قدر خوفناک ہوگی کہ فرشتے اور پیغمبر خدا(ص) سے فریاد کرینگے کہ ہمیں اس سے بچا اس وقت میں ( محمد(ص)) خدا اسے گذارش کروںگا کہ رب العزت میری امت کو اس سے بچا۔ پھر پل صراط لایا جائیگا جو کہ شمشیر سے زیادہ تیز ہوگا۔ اس پر تین گذر گاہیں ہوں گی ایک امانت و رحم کے لیے دوسری نمازیوں اور تیسری رب العالمین کے لیے میزان عدل ہوگی اس رب العالمین کے لیے  کہ جس کے عالوہ کوئی معبود نہیں لوگوں کو س تیسری گزرگاہ میزان  عدل سے گزرنے میں تکلیف ہوگی۔ اگر لوگ امانت اور رحم کی گذرگاہ سے گذر گئے تو پھر نماز کی گذر گاہ سے گزرن ہوگا اگر اس سے نجات پاگئے تو پھر اس دنیا کے بارے میں محاسبہ ہوگا۔ پھر رسول خدا(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” بیشک تیرا پروردگار کمین گاہ میں ہے“ (فجر) پھر فرمایا لوگ پل صراط پر اس حال میں ہوں گے کہ بعض آویزاں ہوں گے اور بعض لرزاں، لوگوں کے گروہ کے گرد اس وقت فرشتے جمع ہوجائیں گے اور آواز دیں گے اے حلیم ان کو معاف فرمادے ان کو سالم رکھ اور درگزر فرما ہھر لوگوں کو پروانے  دیئے جائیں گے جو لوگ نجات پا جائیںگے خداوند ان پر نظر رحم کرے گا لوگ اس کا شکر بجا لائیں گے اور رب العزت کی حمد کرین گے کہ اس نے ہمیں عذاب سے نجات دی اور اس حال سے کہ جس سے ہم نا امید ہوگئے تھے ہم پر اپنا فضل کیا۔ بے شک پروردگار معاف کرنے والا اور شکر گزار ہے۔

۱۷۳

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مختلف طبقات کےلوگ پل صراط سے گذریں گے۔ صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ بعض لوگ اس پر برق کی مانند گزریں گے بعض اس طرح گذریں گے جیسے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوں۔ کچھ اس طرح گذریںگے جیسے پیدل چلا جاتا ہے بعض گھٹنوں کے بل اور بعض اس کےساتھ آویزاں ہوں گے کہ لوگ ان کو جلاتی ہوگی۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب خدا چاہتا ہے کہ خلق کو مبعوث کرئے تو چالیس (۴۰) روز تک آسمان کو زمین پر برسایا جاتا ہے پھر خلق کے لیے اجزا کو لے جایا جاتا ہے۔

۶ـ           ریان بن صلت کہتے ہین کہ امام   رضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے نقل کیا کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے ایک صحابی کو عرصہ دراز کے بعد دیکھا جو کہ بوڑھا ہوچکا تھا آپ(ع) نے اس سے فرمایا اے بندہ خدا تم عمر رسیدہ ہوگئے ہو۔ اس نے کہا اے امیرالمومنین(ع) یہ بڑھاپا آپ(ع) کی اطاعت میں آیا ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا یہ عصا راستہ چلنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے دشمنوں کی وجہ سے ساتھ رکھا ہے امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تم میں ابھی طاقت باقی ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے آستانے کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ریان بن صلتکہتےہیںکہامامرضا(ع) نے میرے لیے جنابِ عبدالمطلب(ع) کےاشعار بیان فرمائے۔ ہم سب لوگ زمانے کو عیب لگاتے ہیں حالانکہ زمانے میں کوئی عیب نہیں اگر عبیب ہے تو وہ ہم ین ہی ہے جو اس کے دامن کا دھبہ ہیں۔ در اصل عیب ہم لوگوں میں ہے مگر ہم ہیں کہ زمانے کو عیب گردانتے ہیں اگر(اﷲ) زمانے کو گویائی دیتا تو یقین ہے کہ وہ ہماری ہجو کرتا۔ غور کرو تو ایک بھیڑیا بھی دوسرے بھیڑیے کا گوشت نہیں کھاتا۔ یہ ہم ہی ہیں کہ کھلے عام ایک دوسرے کو کھائے جاتے ہیں۔

۷ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا نا امیدی میں امید زیادہ ہوتی ہے۔ موسی بن عمران(ع) جب اپنے خاندان کے لیے آگ لینے گئے تو خدا ان سے ہم کلام ہوا اور موسی(ع) نبوت کے ساتھ واپس ہوئے۔ ملکہ سبا اپنے ملک سے باہر گئی اور مشرف با اسلام ہوئی اور سلیمان(ع) کی زوجیت میں آگئی اور فرعون کی عزت بڑھانے کی خاطر جادوگر جب مصر گئے تو ایمان کی قوت انہیں مل گئی۔

۸ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت

۱۷۴

کیا ہے کہ حسن بن علی بن ابی طالب(ع) اہل زمانہ مین سب سے زیادہ عابد و زاہد اور افضل تھے آپ(ع) ہمیشہ حج ادا کیا کرتے تھے اور اکثر پیدل برہنہ پاؤں حج پر جایا کرتے تھے۔ ہمیشہ جب موت کو یاد کرتے تو گریہ کرتے تھے جب روزِ محشر و قیامت کو یاد کرتے تو گریہ فرماتے تھے جب پل صراط پر سے گزرنے کو یاد کرتے  ملاقاتِ خدا کی یاد آتی تو زبردست گریہ گرتے کہ بے ہوش ہوجاتے آپ(ع) جب نماز کے لیے خدا کے حضور کھڑے ہوتے تو بدن کانپنے لگ جاتا اور لگتا تھا کہ آپ(ع) گر پڑیں گے اور گر جاتے جب یادِ بہشت و دوزخ آتی ہو پریشان ہوجاتے اور خدا سے بہشت طلب کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے ۔ اور ہمیشہ قرآن سے یہ آیت  نہ پڑھتے” يا ایها الذين آمنوا “ تا ہم یہ کہتے ” لبیک اللہم لبیک“ جب بھی نظر آتے ذکرِ خدا میں مشغول نظر آتے اورتمام لوگوں میں سب سے زیادہ سچی بات کرنے والے تھے۔

ایک دن معاویہ نے کہا کہ حسن(ع) بن علی بن ابی طالب(ع) کو منبر پر بلایا جائے اور خطبہ دلوایا جائے تاکہ اس میں سے نقص نکال کر ان کی فضیلت کم کی جاسکے۔ جب آپ(ع) تشریف لائے تو آپ(ع)سے کہا گیا کہ منبر پر جائیں اور خطبہ دیں اور ہم کو نصیحت کریں۔ آپ(ع) اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگو جو کوئی مجھے پہچانتا ہے اور جوکوئی مجھے نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں حسن بن علی بن ابی طالب(ع) ہوں میں عالمین کی  تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بن رسول اﷲ(ص) کا بیٹا ہوں میں خدا کی بہترین خلق کا بیٹا ہوں میں رسول خدا(ص) کا فرزند ہوں میں وہ ہوں جس سے اس کاحق چھین لیا گیا۔ میں صاحب فضائل ہوں میں صاحب معجزات و دلائل ہوں میں امیرالمومنین(ع) کا بیٹا ہوں میں مکہ ومنی کا بیٹا ہوں میں مشعر( خبر دینے والا ۔ قربانی دینے کہ جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) وعرفات کا بیٹا ہوں معاویہ نے کہا اے ابو محمد(ع) اس بات کو چھوڑو اور خرمہ ( کھجور) کی تعریف بیان کرو آپ(ع) نے فرمایا اس کو گرمی بار آور کرتی ہے اور پکاتی ہے اور رات کی خنکی اس میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے۔ پھر آپ(ع)  دوبارہ اپنے کلام کی طرف پلٹے اور فریاما میں خلق خدا کا امام ہوں اور رسول خدا(ص) کا بیٹا ہوں معاویہ کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں  اس کلام سے شورش برپا نہ ہوجائے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آپ کے خطبے کو قطع کردیا  اور کہا اے ابو محمد(ع) جو کچھ آپ(ع) کہہ چکے وہ کافی ہے آپ(ع) منبر سے نیچے اتر آئیں، آںحضرت(ع) منبر سے نیچے اتر آئے۔

۱۷۵

مجلس نمبر۳۴

(۱۹ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ      جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی مسجد میں جاروب کشی کرے گا تو خدا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرئے گا جو کہ نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور جو کوئی مسجد میں سے کوڑا کرکٹ باہر کرے بیشک وہ آنکھ میں گر جانے والے کسی تنکے کے برابر ہی کیوں نہ ہو تو خدا تعالی ایسے شخص کو اپنی رحمت میں سے دو حصے عطا کرے گا۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا موسی بن عمران(ع) سے رب العزت نے فرمایا میں ہرگز ( نافرمان و گنہگار) لوگوں کو سایہ عرش تلے جگہ نہیں دوں گا۔ جنابِ موسی(ع) نے خداوند عالم سے عرض کیا بارِ الہا پھر تیرے عرش تلےکون ہوگا تو ارشاد ہواکہ وہ لوگ جو اپنے ماں و باپ سے اچھے کردار سے پیش آتے ہیں اور ان پر نکتہ چینی نہیں کرتے۔

۳ـ جنابِ رسول خدا(ص) نےفرمایا وہ شخص عجیب ہے جو بیماری کے خوف سے کھانے میں تو پرہیز کرتا ہے مگر دوزخ کے خوف سے گناہوں میں پرہیز نہیں کرتا۔

۴ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا بارالہا میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ آپ(ص) سے دریافت کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کا خلیفہ کون ہے تو ارشاد فرمایا وہ بندہ ہے جو کہ میری حدیث و سنت کی تبلیغ کرتا ہے جس پر میری امت عمل کرتی ہے۔

۵ـ              امام صادق(ع) نےفرمایا ایک بار عیسی بن مریم(ع) اپنے تین اصحاب کے ساتھ کسی ضرورت کی غرض سے نکلے راستے میں ایک جگہ انہیں سونے کی تین اینٹیں پڑی نظر آئیں جنابِ عیسی(ع) نےفرمایا یہ لوگوں کو مار ڈالیں گی یہ کہہ کر آپ(ع) آگے روانہ ہوگئے جب کچھ دور  نکل آئے تو ان کے ہمراہ تین آدمیوں میں سے ایک نے بہانہ کیا اور واپس ہوگیا اس کی دیکھا دیکھی بقیہ دونے بھی بہانے سے واپسی کا راستہ لیا۔ جب یہ تینوں ان اینٹوں تک پہنچے تو ان میں سے دو آدمیوں نے ایک سے کہا کہ تم جاؤ اور سب کے لیے کھانا خرید لاؤ اس شخص نے جاکر کھانا خریدا اور اس میں زہر ملا دیا اور لے

۱۷۶

 آیا تا کہ بقیہ دونوں کو قتل کر کے اکیلا ہی تینوں اینٹوں کا مالک بن جائے ادھر پیچھے رہ جانے والے دونوں آدمی یہ سازش کررہے تھے کہ جب وہ کھانا لے کر واپس آئے تو اسے قتل کردیا جائے اور ان اینٹوں کو آپس میں دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے جب وہ شخص کھانا لے کر واپس آیا تو ان دونوں نے مل کر اسے قتل کردیا اور اس کے بعد کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد زہر آلود کھانا کھانے سے ان دونوں کی موت بھی واقع ہوگئی اور جب عیسیٰ بن مریم(ع) واپس آئے اور تینوں کو مرا ہو دیکھا تو اذنِ خدا سے انہیں دوبارہ زندہ کیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہ ( دولت) لوگوں کو قتل کردے گی ( لہذا ایسا ہی ہوا)

۶ـ           علی بن سری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا مومنین کو ایسی جگہ سے روزی عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتے اور یہ اس لیے ہے کہ انسان اپنی روزی کے وسیلے کا ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ دعا کرتا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک درہم کا سود لینے کا گناہ بھی خدا کے ہاں ایسا ہے جیسا کہ انسان محرمات( ماں، خالہ، پھوپھی وغیرہ) سے تیس (۳۰) بار زنا کرئے۔

۸ـ          سیدة النساء فاطمہ(س) بن محمد(ص) نے فرمایا ک ایک بار رسول خدا(ص) شب عرفہ ہمارے گھر تشریف لائے اورہم سے فرمایا بیشک خدا تم پر مباہات کرتا ہے اس نے نے تم سب اور علی بن ابی طالب(ع) کی مغفرت قبول کی اور معاف کیا اور یہ خبر میں تمہیں دوستی و رشتے داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کا رسول ہونے کے ناطے دے رہا ہوں اور یہ جبرائیل(ع) ہے جس نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ بندہ سعادت مند اور کامل ہے جو علی(ع) سے دوستی کرئے اور اس سے محبت رکھے اس کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی، اور کامل ترین شقی وہ شخص ہے جو علی(ع) کی زندگی میں اور اس کی موت کےبعد بھی اس سے دشمنی رکھتا ہو۔

۹ـ   انس بن مالک اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں اور کہ فاطمہ بنت رسول(ص) حیض و نفاس سے بالکل مبرا تھیں۔

۱۰ـ امام باقر(ع) نے فرمایا کہ جب میرے والد(ع) کا وقتِ رحلت قریب آیا تو مجھے سینے سےلگا کر فرمایا میرے بیٹے میں تجھے وصیت کرتا ہوں جیسے کہ میرے والد(ع) نے مجھے اور ان کے والد(ع) نے ان

۱۷۷

سے کی تھی کہ خدا نہ کرئے تم کسی پر ظلم کرو تو پھر اس سلسلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے(یعنی صرف خدا ہی بخشش فرماسکتا ہے)

۱۱ـ حرث بن مغیرہ ںصری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی واجب نماز کو ادا کرنے کے بعد دعا سے پہلے چالیس بار کہے”سبحان اﷲ والحمداﷲ ولا اله الا اﷲ واﷲ اکبر “ تو رب العزت سے جو بھی طلب کرے گا اسے عطا کیا جائے گا۔

۱۲ـ ابو سعید خدری(رح) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا تو جبرائیل(ع) نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہشت میں لے گئے مجھے ایک مسند پر بٹھایا اور ایک انار دیا جب میں نے اسے دو ٹکڑے کیا تو اس میں سے ایک نورانی حور نکلی جس کی آنکھیں انتہائی بڑی بڑی تھیں اس نے مجھے تہنیت پیش کی اور خوشخبری سنائی کہ درود ہو آپ(ص) پر اے احمد(ص) و رسول خدا(ص)، اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے بھائی آپ(ص) کے وصی اور آپ(ص) کے وزیر علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے پیدا کی گئی ہوں خدائے جبار نے مجھے تین جنسوں سے پیدا کیا ہے۔ میرا زیریں حصہ مشک کا ہے اور درمیانہ عنبر کا جبکہ بالائی حصہ کافور سے بنایا گیا ہے میں آبِ زندگی سے خمیر کی گئی ہوں اور خدائے جلیل نے جب  کہا ہو جا تو میں خلق ہوگئی رسول خدا(ص) فرماتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون سے (تیرا نام کیا ہے) تو اس نے جواب دیا میں راضیہ مرضیہ ہوں۔

۱۲ـامام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول خدا(ص) سیاہ عبا پہنے ہوئے گھر سے برآمد ہوئے پھر اپنی اس عبا کو علی بن ابی طالب(ع) کو پہنایا۔ اور فرمایا میں اسے دوست رکھتا ہوں یہ مجھ سے مخصوص ہے اور میرا خاص الخاص ہے۔ یہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس لیے کہ یہ میری طرف سے (حق) ادا کرنے والا ہے، یہ میرا وصی اور وارث ہے یہ روزِ اول سے مسلمان ہے اور ایمان میں سب سے زیادہ مخلص ہے۔ سب سے زیادہ سخی ہے، میرے بعد سید بشر ہے، اور نورانی ہاتھوں اور نورانی چہرے والوں کا قائد ہے، یہ اہل زمین کا امام ہے یہ علی بن ابی طالب(ع) ہے یہ فرما کر آپ(ص) نےگریہ فرمایا۔

۱۷۸

صفین میں چشمے کا پھوٹنا

۱۴ـ          حبیب بن جبم کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین(ع) ہمیں لے کر صفین کو چلے تو بلقاء نامی جگہ پر ہم نے قیام کیا جو کہ ایک بے آب و گیاہ میدان تھا مالک بن اشتر(رح) نے آںحضرت(ع) سے عرض کیا ، یا امیرالمومنین(ع) یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں پانی میسر نہیں ہے یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے مالک بے شک خدا ہم لوگوں کو بہت جلد یہاں شکر سے زیادہ میٹھا برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شفاف و بلوریں پانی عطا کرے گا اور جو کہ یاقوت کی طرح مقطر ہوگا مالک  کہتے ہیں۔ اس جگہ محل وقوع دیکھ کر ہمیں یخ و شیرین پانی کی دستیابی پر حیرت ہوئی اور مگر ہمیں جنابِ امیر(ع) کے کلام میں کوئی شک نہیں تھا۔

پھر جنابِ امیر(ع) نے دوش مبارک سے ردا کو اتاری اور اپنی تلوار ہاتھ میں لی پھر اس میدان کے ایک انتہائی سخت ٹکڑے کی طرف آئے اور وہاں کھڑے ہو کر فرمایا اے مالک اپنے ساتھیوں  کے ساتھ اس جگہ کو کھودو، جب ہم نے اس جگہ کوکھودا تو ایک بڑا سا سیاہ پتھر نمودار ہوا جو کہ چمکیلا تھا آپ(ع) نے فرمایا اس کو یہاں سے ہٹاؤ ہم سو(۱۰۰) آدمیوں نے مل کر زور لگایا مگر اس پتھر کو ہلانے میں کامیاب نہ ہوسکے یہ دیکھ کر جنابِ امیر(ع) نزدیک آئے اور اپنے ہاتھ دعا کےلیے بلند کیئے اور فرمایا” طاب طاب مربا عالم طيبو ثاتو به شتما کو باحه حانو ثانو ديثا بر حوثا آمين آمين رب العالمين رب موسی و رب هارون“ اور پھر اکیلے ہی اس پتھر کو اٹھا کر چالیس(۴۰)قدم دور پھینک دیا مالک بن حارث اشتر(رح) کہتے ہیں کہ اس جگہ سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوا جس پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا اور یاقوت سے زیادہ شفاف و مقطر تھا ہم سب اس چشمے سے خوب سیراب ہوئے اور اپنے مشکیزے اس کے پانی سے بھر لیئے جب ہم سیرابی آب سے فارغ ہوگئے تو جنابِ امیر(ع) نے حکم دیا کہ اس چشمے کو مٹی ڈال کر بند کردیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پھر ہم اس جگہ سے کوچ کر گئے کچھ دور جا کر جنابِ امیر(ع) نےہم سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون اس چشمے کے مقام کو جانتا ہے سب نے کہا کہ ہم جانتے ہیں وہ چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے واپس پلٹنے کا حکم دیا جب واپس اس مقام پر

۱۷۹

آئے تو کسی چشمے کے آثار نہ ملے ہم نے تلاش شروع کی کہ  دیکھیں چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا مگر ہزار کوشش کے باوجود اس جگہ کو تلاش نہ کر سکے پھر ہم اس جگہ ہماری ملاقات ایک نصرانی راہب سے ہوئی جس کا نام صعومہ تھا جو اس قدر ضعیف تھا کہ اس کے آبرؤ اس کی آنکھوں پر گرے ہوئے تھے ہم نے اس راہب سے کہا، اے راہب اگر تیرے پاس پانی ہے تو ہمیں دے تاکہ ہم اپنے مولا و آقا کو پلائیں( کیوںکہ دوبارہ اس جگہ واپس لانے پر ہمیں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ شاید جنابِ امیر(ع) پر پیاس کا غلبہ ہوا ہے) اس راہب نے کہا میرے پاس پانی موجود ہے جو کہ میں نے دو روز قبل بھر تھا جب ہم نے اس پانی کو اس راہب سے لیا تو اسے بدمزہ و تلخ پایا ہم نے اس سے پوچھا کہ تو نے یہ پانی کہاں سے حاصل کیا ہے اس نے بتایا کہ یہ ایک چشمے کا پانی ہے اور اس پانی کو میں نے شیرین کرنے کو کوشش کی ہے لیکن پھر بھی تلخ ہے ہم نے اس سے کہا کہ کاش تونے وہ پانی پیا ہوتا جو ہمارے سرور نے ہمیں مہیا کیا تھا اور پھر اس واقعے (دستیابی آب) کو اس راہب سے بیان کیا اس نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے سرور(ع) کوئی پیغمبر ہیں ہم نے جواب دیا نہیں وصی پیغمبر(ص) ہیں اس راہب نے درخواست کی کہ مجھے ان کے پاس لے چلو جب وہ جنابِ امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو جنابِ امیر(ع) نےاسے دیکھ کر فرمایا تم شمعون ہو اس نے کہا ہاں میں شمعون ہوں، آپ(ع) نے یہ کیسے جانا کہ میرا نام شمعون ہے جب کہ میرا یہ نام میری ماں نے رکھا تھا اورمیرے اور میرے خدا کے علاوہ اس کا کسی کو علم نہیں ہے، آپ(ع) نے فرمایا کہ یہ میرے علم امامت نے مجھے بتایا اس نے کہا کہ آپ(ع) اس چشمے کی بابت مجھے مطلع کریں تاکہ میں اپنے ایمان کو کامل کروں، آپ(ع) نے اس چشمے کی دریافت کا واقعہ اس سے بیان کیا اور فرمایا کہ اس چشمے کا نام حومہ ہے اور بہشت کے چشموں میں سے ایک ہے اور تین سو تیرہ (۳۱۳) اوصیاء (ع) سیراب ہوچکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں جوکہ اس سے سیراب ہوا اس راہب نے کہا میں نے تمام کتابوں اور انجیل میں من و عنہ یہ واقعہ رقم پایا ہے پھر اس نے راہب نے گواہی دی اور کہا”أَشْهَدُ أَنْ‏ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ و انک “ اے وصی محمد(ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود بجز خدا کے نہیں اور محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں اور آپ(ع) وصی(ع) محمد(ص) ہیں۔ پھر اس راہب نے جنابِ امیر(ع) کے ساتھ کوچ کیا اور صفین کے مقام پر گیا اور جب دوںوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ پہلا شخص تھا

۱۸۰