مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)12%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 307004 / ڈاؤنلوڈ: 7982
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

مجلس نمبر ۳۱(بقیہ مجلس ۳۰)

(روز عاشورا محرم سنہ۳۶۸ھ)

شام غریبان

۱ـ           بی بی فاطمہ بنت حسین(س) نے فرمایا کہ جب کربلا میں ہمارے خیام کے گرد لوٹنے والوں کا ہجوم تھا تب میں چھوٹی بچی(کم عمر) تھی ان لعینوں میں سے ایک نے میرے کانوں سے گوشوارے جو کہ سونے کے تھے کھینچ لیے اور ساتھ ہی وہ رونے لگا میں ( فاطمہ بنت حسین(ع))نے اس لعین سے کہا اے دشمن خدا روتا کیوں ہے اس نےلعین نے کہا کہ رؤں کیوں نہ کہ میں نے دخترِ رسول(ص) کو تکلیف دی ہے بی بی فرمااتی ہیں مین نے کہا کہ پھر ایسا کیوں کرتا ہے تو کہنے لگا، مجھے یہ خوف ہے کہ اگر یہ گوشوارے میں نے نہ لیئے تو کوئی دوسرا ان کو لےلے گا بی بی(س) فرماتی ہیں ہمارے خیموں میں جو کچھ بھی تھا لوٹ لیا گیا اور ہمارے سروں سے چادریں تک اتروالی گئیں۔

۳ـ          عبیداﷲ ابن زیاد لعین کے ایک محافظ نے روایت کیا ہے کہ جب امام عالی مقام(ع) کا سر مبارک، ابن زیاد لعین کے پاس لایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کوسونے کے طشت میں رکھ کر میرے سامنے پیش کیا جائے جب سر مبارک کو طشت میں رکھ کر پیش کیا گیا تو اس لعین نے لکڑی کی ایک چھڑی کو آںحضرت(ع) کے دندان مبارک پر مار کر گستاخی کی اور بولا اے ابو عبداﷲ تم جلد بوڑھے ہوگئے ہو۔ اس کے دربار میں سے ایک آدمی کھڑا ہو اور ابن زیاد لعین  سے کہنے لگا جہان تو نے چھڑی رکھی ہوئی ہے وہاں پر میں نے رسول خدا(ص) کو حسین(ع) کے بوسے لیتے دیکھا ہے اس لعین نے جواب دیا یہ روز بدر کا بدلہ ہے پھر حکم دیا کہ علی بن حسین(ع) کو  طوق پہنا دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر کے زندان میں ڈال دیا جائے عبیداﷲ بن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے کہ میں جس گلی کوچے میں گیا میں

۱۶۱

 نے دیکھا کہ ہر طرف گریہ و ماتم بپا تھا۔ ابن زیاد لعین کا یہ محافظ کہتا ہے  جب ابن زیاد لعین نے علی بن حسین(ع) اور دیگر مخدرات عصمتِ کو امام حسین(ع) کے سر مبارک کے ساتھ حاضر کیا تو زینب بنت علی(س) بھی ہمراہ تھیں۔ ابن زیاد لعین نے کہا میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہاری احادیث کو جھوٹا کردیا اس پر جنابِ زینب(س) نے فرمایا می اس خدا کی حمد کرتی ہوں جس نے اپنے رسول محمد(ص) کے سبب سے ہمیں گرامی رکھا اور  بہتر طریقے سے پاک و پاکیزہ کیا۔ بے شک فاجر، جھوٹ کہنے والا اور فاسق ، رسوا ہوتا ہے،ابن زیاد لعین نے کہا خدا نے تمہارے گھرانے کے ساتھ یہ کیا کیا ہے بی بی(س) نے فرمایا شہادت ان کا مقدر تھی اور یقینا خدا تم کو روزِ قیامت ان کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے ہاں تمہارا محاکمہ ہوگا۔ یہ سن کر ابن زیاد لعین کو غصہ آگیا اور اس نے ارادہ کیا کہ بی بی(س) کے قتل کا حکم دے مگر عمرو بن حریث نے اس کو ایسا کرنے سے باز رکھا اس کے بعد بی بی(س) نے فرمایا اے بن زیاد تو نے جو کچھ ہمارے ساتھ  کیا ہے کیا وہ کم ہے، تونے ہمارے مردوں کو قتل کر دیا اور ہمارے شیرازے کو بکھیر دیا ہے، تونے ہماری خواتین کو اسیر کیا ہمارے بچوں پر ظلم ڈھایا اور ہماری حرمت کو مباح جانا ہے اگر اس سےتیرا مقصد اپنے دل کو راحت دینا تھا تو تو نے اسے کافی راحت پہنچا چکا۔ اسکے بعد ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ امام عالی مقام(ع) کے سر کے ہمراہ اسیروں کو شام روانہ کیا جائے ابن زیاد لعین کا محافظ کہتا ہے،رات کو ہم نے سنا کہ جنات امام عالی مقام پر نوحہ خوانی کررہے ہیں۔

قافلہ جب شام پہنچ گیا تو قیدیوں اور بی بیوں کو بے پردہ شہر میں داخل کیا گیا اہل شام نے جب قیدیوں کو دیکھا تو کہنے لگے آج سے پہلے ہم نے اس طرح کے نورانی چہروں والے معزز قیدی نہیں دیکھے، اہل شام نے قیدیوں سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہو سکینہ بنت حسین(ع) نے انہیں مطلع کیا کہ ہم خاندان رسالت(ص) سے تعلق رکھتے ہیں۔

پھر قیدیوں کو شہر کے دروازے پر روک دیا گیا تب امام علی(ع) بن حسین(ع)(زین العابدین(ع)) کے پاس ایک شامی شخص آیا اور کہنے لگا حمد اس خدا کی جس نے تمہارے مردوں کو قتل کیا اور فتنہ کو خاموش کیا اور اس کے علاوہ جس قدر بر بھلا کہہ سکتا تھا اس نے کہا جب وہ یہ سب کہہ کر خاموش ہوگیا

۱۶۲

تو امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا کیا تو قرآن نہیں پڑھتا اس نے کہا ہاں پڑھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ” میں تم سے جز نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے خاندان اورمیرے رشتے داروں سے محبت کرو“ (شورا، ۲۳)

وہ شامی کہنے لگا ہاں میں نے پڑھی ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت پڑھی ہے” اپنے ذولقربی کا حق ان کو دیدو“کہنے لگا ہاں آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ رشتے دار اور ذوالقربی ہم ہیں آپ(ع) نے پھر اس سے فرمایا کیا تونے یہ آیت پڑھی ہے” بیشک خدا نے چاہا اے اہل بیت(ع) کہ پلیدی کو تم سے ہٹا دے اور تم کو نہایت پاک کردے“ (احزاب، ۳۳)

کہنے لگا ہاں یہ بھی پڑھی ہے آپ(ع) نے فرمایا کہ اہل بیت(ع) ہم ہیں اس شامی نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا  ہوں ، خدایا میں دشمنان اہل بیت(ع) اور قاتلان آل محمد(ص) سے بیزار ہوں ، خدایا میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ میں قرآن پڑھتا تھا اور ان آیات اسے واقف نہ تھا۔

جب تمام اسیران اور مخدرات عصمت کو دربار یزید لعین میں لے جایا گیا اور امام عالی مقام(ع) کے سرمبارک کو یزید لعین کے سامنے رکھاگیا تب یزید کے حرم میں موجود خواتین نے واویلا و گریہ گیا۔ یزید لعین نے کہا کاش آج مقتولین بدر موجود ہوتے  تو دیکھتے کہ ہماری شمشیر نے ان کا بدلہ کس طرح لیا ہے کہ پھر اس لعین نے حکم دیا کہ امام کے سرمبارک کے مسجد دمشق ک دروازے پر لٹکایا جائے۔

بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) سے روایت ہوا ہےکہ جب ہمیں دربار یزید لعین میں لے جا کر بٹھایا گیا تو ایک رقعت طاری ہوگئی اور تب ایک شامی جسکی رنگت سرخ تھی اٹھا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین(لعین) اس بچی کو مجھے دیدو و اس کا چہرہ کتنا خوبصورت ہے میں اس کو اپنے پاس رکھوں گا بی بی فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں مجھے خوف محسوس ہوا کہ مجھے اسے دیدیا جائے گا تو مین نے اپنی ایک بڑی اور سمجھدار بہن کا دامن پکڑ لیا ، اس بی بی نے اس شامی سے کہا اے ملعون تو جھوٹ کہتا ہے نہ اس امر کا حق تجھے ہے اور نہ ہی تیرے امیر کو اس پر یزید لعین نے غصہ کیا اور کہا خدا کی قسم میں

۱۶۳

 ایسا کرسکتا ہوں ، اگر میں چاہتا ہوں بی بی(س) نے فرمایا خدا کی قسم تجھے اس کا اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ تو ہمارے دین اور امت سے باہر نکل جائے یزید لعین نے غصے سے کہا کہ تو مجھ سے اس لہجے میں بات کرتی ہے، میں نہیں تیرا باپ اور تیرا بھائی دین سے باہر نکل گئے ہیں بی بی(س) نے فرمایا کہ میرے باپ اور میرے بھائی نے اس دین کے ذریعے سے امت کو ہدایت دی ہےیزید لعین نےکہا اے دشمن خدا تم جھوٹ کہتی ہو بی بی(س) نے فرمایا لوگو اس امیر کو دیکھو کہ یہ دشنام دیتا ہے اور ظالم ہے اوراپنی سلطنت پر مغرور ہوگیا ہے یہ سن کر یزید کو شرم محسوس ہوئی اور وہ خاموش ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اس شامی نے دوبارہ اپنی بات کو دھرایا کہ اس بچی کو مجھے دیدیا جائے یہ سن کر یزید نے اس سے غصے سے کہا خدا تجھے موت دے خاموش ہوجا تو وہ خاموش ہوگیا۔

بی بی(س) فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں پھر حکم یزید لعین پر عورتوں اور بچوں کو بیمار امام کے ساتھ زندان میں قید کردیا گیا جہاں سردی اور گرمی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا گوشت موسموں کی سختی کی وجہ سے پھٹ گیا اور ادھر بیت المقدس میں کوئی پتھر ایسا نہ تھا کہ جس کے نیچے سے تازہ خون نہ جاری ہوا ہو لوگ سورج کی روشنی کو دیاروں پر رکھین پتون کی مانند سرخ دیکھتے تھے پھر ایک مدت کے عد ہم عورتوں اور بچوں کو امام علی بن حسین(ع) کےساتھ باہر نکالا گیا اور امام عالی مقام(ع) سب کے سر مبارک کو واپس کربلا پہنچایا گیا۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جب لعین تلوار سے حسین بن علی(ع) کو شہید کرنے کے بعد فارغ ہوئے اور امام عالی مقام(ع) کےسرِ مبارک کےلے گئے تو رب العزت کی طرف سے عرش کے درمیان سے منادی دی گئی  کہ اے جابر و ظالم امت نبی (ص) کے اہل بیت(ع) کے ساتھ تمہارے اس ستم کے بعد خدا تمہیں ہرگز توفیق نہ دے گا کہ تم عیدا لاضحی اور عید الفطر کبھی مناسکو( تمہیں خوشی نصیب نہیں ہوگی) پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ یہ لعین خدا کے اس حکم کی رو سے کبھی شادنہ ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے یہاں تک کہ خدا خونِ حسین(ع) کا بدلہ لینے والے ( امام منتظر(ع) کا قیام نہ کردے۔

۱۶۴

مجلس نمبر۳۲

(شب بارہ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ   امام صادق(ع) نے فرمایا روزِ قیامت خدا لوگوں کو ایک سرزمین میں جمع کرے گا اور میزان رکھی جائے گی اور خونِ شہدا کو علماء کے قلم سے وزن کیا جائے گا اور علماء کے قلم کی سیاہی خونِ شہداء سے زیادہ وزنی ہوگی۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا چھ چیزین ہیں جو کہ مومن کی موت کے بعد اس کو فائدہ دیتی ہیں فرزند صالح جو اس کے لیے مغفرت طلب کرے ، قرآن جو اس کے لیے پڑھا جائے ،کنواں جو کھودا گیا ہوا اور درخت جو لگایا گیاہو۔ اور صدقہ پانی جو جاری ہو اور نیکی کا طریقہ جس پر اس کےبعد عمل ہوتا ہو۔

۳ـ مالک بن انس فقیہہ مدینہ ( مالکی فقیہہ کے بانی) کہتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا وہ میرے نزدیک ہوئے میرا احترام کیا اور فرمایا اے مالک میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں (مالک) ان الفاظ کو سن کر بہت خوش ہوا اور خدا کی حمد کی، مالک کہتے ہیں جب بھی میں آپ(ع) کی خدمت میں گیا آپ تین کاموں میں سے ایک میں مصروف پایا۔ یا تو آپ روزہ رکھے ہوتے۔ یا آپ نماز پڑھ رہے ہوتے یا پھر ذکر الہی میں مشغول ہوتے آپ(ع) نے خدا کےبزرگ اور صالح ترین  بندوں سے تھے اور خدا سے بہت زیادہ ڈرتے اور حدیث بہت زیادہ بیان فرماتے تھے۔ مجلس کی رونق ان سے دوبالا رہتی اورہر وقت لوگوں کو ان سے فیض پہنچتا رہتا ۔ احکام دین اور حدیث بیان کرتے وقت خوف خدا دل کو گرفت کر لیتا اور اس وقت آپ(ع) کے چہرے کی رنگت زرد ہوجاتی اور مضطرب ہوجاتے یہاں تک کہ پہچانے نہ جاتے ایک دفعہ میں ان کے ساتھ حج پر گیا اور احرام کے بعد جب تلبیہ کہنے لگے توآپ کے حلق میں آواز پھنس گئی اور یہ حالت ہوگئی کہ جیسے  ابھی اپنی سواری سے گرجائیں گے، میں نے کہا اے فرزند رسول (ص) میں بھی آپ کے ہمراہ تلبیہ کہوں فرمایا اے ابو عامر کے بیٹے کہو۔لیکن پھر میں نے کہا اے فرزند رسول(ص)  مجھ میں  یہ کہنے کی جرات نہیں

۱۶۵

 ہے ڈرتا ہوں کہ کہیں میں کہوں ” لبیک اللہم لبیک“ اور جواب میں خدا مجھے ”لا لبيک ولا سعديک “ کہہ دے۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا میں ایسے شخص کو عجیب جانتا ہوں جو کہ دنیا کے مال میں بخل سے کام لیتا ہے جب کہ دنیا اپنے اندر دوزخ رکھتی ہے۔ اگر تم اس کی طرف پشت کر لو گے تو اس کے خرچ کا بار تم پر نہیں ہوگا اس طرح یہ تمہیں کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

مالک بن انس کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا کہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ آپ(ع) عمدہ اور قیمتی گھوڑا کیوں نہیں خرید فرماتے آپ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ نہ تو میں کبھی دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگا ہوں اور نہ ہی میں بھاگنے والوں کا تعاقب کرتا ہوں۔

۵ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ” ہم نے ہر چیز کا احصا ( گنتی شمار ـ ایک جگہ پر جمع ہونا) امام مبین میں کردیا ہے“ (یسین) تو مجلس میں بیٹھے ہوئے اصحاب نے رسول خدا(ص) نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا امام مبین سے مراد قرآن ہے تو جواب ملا نہیں پھر پوچھا گیا کہ کیا توریت ہے تو آپ نے جواب دیا نہیں پھر پوچھا گیا کہ انجیل ہے تو آپ(ص) نے فرمایا نہیں اسی اثناء میں جنابِ امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو رسول اﷲ(ص) نے فرمایا بیشک وہ امام مبین یہ ہے کہ جس کے لیےخدا نے علوم اور ہر شے کا شمار کیا ہے۔

سفرِ ذوالقرنین(ع)

۱ـ وہب کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں پڑھا کہ جب ذوالقرنین دیوار کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور اپنے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے تو ان کی ملاقات ایک بوڑھے آدمی سے ہوئی جو نماز میں مشغول تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو ذوالقرنین(ع) نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں میرے لشکر سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس بوڑھے آدمی نے کہا میں اس سے مناجات کررہا تھا جس کا لشکر تیرے لشکر سے زیادہ قوی ہے جس کی سلطنت تجھ سے زیادہ غالب ہے اور جس کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اگر میں اپنا رخ تیری طرف کر لیتا تو اس سے اپنی

۱۶۶

 حاجت طلب نہ کرسکتا ۔ ذوالقرنین(ع) نے اس سے کہا تم ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ میں تمہیں اپنے ملک میں برابر کا شریک کروں گا اور اپنے کاموں میں تجھ سے مشورے لیا کرونگا اس بوڑھے شخص نے کہا میری چار (۴) شرایط ہیں ذوالقرنین(ع) نے کہا بیان کر اس نےکہا مجھے ایسی نعمت دے جس کو زوال نہ آئے، ایسی صحت و تندرستی دے جس میں بیماری نہ ہو،  ایسی جوانی مجھے عطا کر جس میں بڑھاپا نہ ہو، اور مجھے ایسی زندگی دے جس مین موت نہ آئے۔

ذوالقرنین نے کہا  ایسی کونسی مخلوق ہے جس کے اختیار میں یہ سب کچھ ہو اس نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہوں جو ان سب پر اوت تم پر طاقت رکھتا ہے

پھر ذوالقرنین آگے بڑھے  اور ایک دانشمند سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے ذوالقرنین(ع) سے کہا کہ مجھے بتائیں وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو پیدا ہونے سے لے کر اب تک قائم ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو آتی جاتی رہتی ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں اور وہ دو چیزیں کونسی ہیں جو اپنی پیدائش سے لےکر اب تک جاری ہیں۔

ذوالقرنین(ع) نے جواب دیا کہوہ دو چیزیں جو اپنی پیدایش سے لے کر اب تک قائم ہیں زمین اور آسمان ہیں۔ جو دو چیزیں آتی رہتی ہیں وہ دن اور رات ہیں، وہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہیں زندگی اور موت ہیں اور وہ دو چیزیں جو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک جاری ہیں سورج اور چاند ہیں اس شخص نے کہا تو امتحان میں کامیاب رہا واقعی تو دانش مند ہے۔

پھر ذوالقرنین یہاں سے روانہ ہوئے وہ ایک شہر میں گھوم رہے تھے ایک بوڑھے شخص سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے پاس مختلف کھوپڑیاں جمع تھیں وہ ان کو اٹھا کر گھما گھما کر دیکھا تھا۔ ذوالقرنین(ع) یہ دیکھ کر رک گئے اور اس آدمی سے کہا تو کس لیے یہ انسانی کھوپڑیاں جمع کر کے بیٹھا ہے اور انہیں اٹھا کر گھما گھما کر دیکھتا ہے اس نے جواب دیا میں یہ اس لیے کررہا ہوں کہ جان سکوں کہ ان میں کون معزز تھا کون وضع دار اور کون شریف تھا، کون غنی اور کون فقیر تھا اور میں بیس (۲۰) سال سے اسی کام میں مشغول ہوں۔ لیکن میں اس فرق کو جان نہیں سکا ذوالقرنین(ع) نے کہا بس میں جان گیا کہ تیرا مقصد مجھے نصیحت کرنا تھا۔

۱۶۷

پھر ذوالقرنین یہاںسے آگے روانہ ہوئے اور ایک اسی جگہ جا پہنچے جہاں انہیں قوم موسی(ع) کے دانشمندوں کا ایک گروہ ملا جو حق کی ہدایت کے ساتھ اںصاف کرتے تھے ذوالقرنین(ع) نے جب انہیں دیکھا تو کہا کہ اپنے حالات مجھ سے بیان کرو میں نے اس ساری زمین کا چکر لگایا ہے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا ہے صحراؤں۔ پہاڑوں میدانوں،۔ روشنی اور تاریکی سفر کیا ہے مگر تمہارے جیسا کسی کو نہیں پایا مجھے بتاؤ کہ تم نے اپنے مردوں کو قبریں اپنے گھروں کے دروازوں پر کیوں بنائی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ موت ہمیں ہر وقت یاد رہے، ذوالقرنین(ع) نے پوچھا کہ تمہارے گھروں کے دروازے کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان چور اور بد دیانت لوگ نہیں ہیں سب ایماندار ہیں، پوچھا تم میں قاضی کیوں نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا ۔ تم میں حاکم کیوں نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہ ہم آپس میں جھگڑتے ہیں اور نہ ہی ہماری ایک دوسرے سے دشمنی ہے، پھر پوچھا کہ تمہاراکوئی بادشاہ ہے، تو انہوں نے جواب دیا نہیں  ہے کیوںکہ ہم زیادہ ( انعام واکرام) کی توقع نہیں رکھتے پھر پوچھا گیا کہ تم سب لوگوں کے واسائل برابر ہیں اور ان میں فرق نہیں ہے تا بتایا کہ ہم ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور مساوات سے رہتے  ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں نزع و اختلاف نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے  جواب ملا ہم میں دلی اتحاد ہے ہم ایک دوسرے کو برا نہیں کہتے اور قتل نہیں کرتے اور فساد برپا نہیں کرتے پوچھا گیا کہ تم ایک دوسرے پر نفرین نہیں  کرتے ، انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ارادوں پر ہماری طبع کی نرمی غالب ہے ہم اپنے نفسوں کی اصلاح حلم و بردباری سے کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم لوگ ایک ہی قول پر متحد رہتے ہو( ہم خیلا ہو اور ہم زبان ہو) وہ کہنے لگے ہم جھوٹ نہیں بولتے ایک دوسرے کو فریب نہیں دیتے ایک دوسرے کی بدگوئی نہیں کرتے ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تم میں گدا گر و بھکاری کیوں نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیا ہم اپنے اموال کو ایک دوسرے پر برابر تقسیم کردیتے ہیں، پھر پوچھا کہ تم میں بد خلق اور سخت گیر لوگ موجود نہیں ہیں اس کی کیا وجہ ہے، کہنےلگے کہ ہم عاجزی اور فروتنی رکھتے ہیں۔ ذوالقرنین(ع) نے پوچھا تمہاری لمبی عمروں کا راز کیا ہے، تو بتایا

۱۶۸

کہ ہم حق پر عمل کرتے ہیں اور حق کے ساتھ اںصاف کرتے ہیں، پھر پوچھا کہ میں نے تم میں سے کسی کو غمگین نہیں دیکھا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا کہ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم صبر اور شکر کرتے ہیں۔ پوچھا گیا تم پر قحط نہیں پڑتا اس کی کیا وجہ ہے، جواب ملا ہم ہر وقت توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں ذوالقرنین(ع) نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگ آفات سے محفوظ رہتے اور عذاب کا شکار نہیں ہوتے  اسکے بارے میں بتاؤ تو بتایا کہ ہم غیر خداؤں پر ایمان (شرک) نہیں رکھتے ستاروں کو بلاؤں کا سبب نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان سے بارش طلب کرتے ہیں، ذوالقرنین(ع) نے کہا اے لوگو مجھے بتاؤ کہ کیا تم نے اپنے آباء و اجداد کو بھی ایسا ہی پایا اور کیا وہ بھی ایسے ہی اعمال انجام دیا کرتے تھے انہوں نے کہا ہمارے اجداد کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مسکین کے ساتھ ہمدردی کرتے فقیر کے ساتھ رحم روا رکھتے کوئی ظلم وستم کرتا تو اسے معاف کردیتے اور اگر کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا تو اس کے بدلے اچھائی کرتے۔ بدکاروں کے لیے استغفار کرتے اور صلہ رحم سے کام لیتے اور کبھی جھوٹ نہ بولتے خدا ان کے اس امر کے سبب ان پر نزولِ رحمت کرتا۔ذوالقرنین(ع) اپنی موت کے آنے تک ان کے ساتھ رہے آپ نے پانچ سو سال عمر پائی۔

بنی مصطلق

۷ـ محمد بن مسلم کہتے ہیں امام باقر(ع) نےفرمایا کہ رسول خدا(ص) نے خالد بن ولید کو ایک قبیلہ بنی مصطلق کی طرف بھیجا جو قبیلہ بنی خذیمہ سے تھے اور ان میں اور بنی مخذوم جو کہ خالد کا قبیلہ تھا کے درمیان زمانہ جاہلیت سے عداوت چلی آرہی تھی،  جب خالد وہاں پہنچا تو انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیوںکہ ان میں سے اکثر لوگ آںحضرت(ص) کی خدمت میں آکر اسلام قبول کرچکے تھے اور رسول خدا(ص) سے امان نامہ حاصل کر چکے تھے۔ خالد نے منادی کو حکم دیا کہ نماز کےلیے اذان کہے۔ اذان کی آواز سن کر وہ لوگ امان نامے کے بھروسے اپنے ہتھیار اتار کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے نماز سے فارغ ہوئے تو خالد کے حکم پر خالد کے لشکرے نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا اور ان کا مال و متاع لوٹ لیا اور جنگ نہ کرنے کا جو حکم رسول خدا(ص) نے دیا تھا

۱۶۹

اسے توڑ دیا اس قبیلہ کے باقی بچ جانے والے لوگ امان نامہ لیے رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئے اور ان سے خالد کے مظالم بیان کیے حضرت(ص) یہ داستانِ ظلم سن کر روبہ قبلہ ہوئے اور عرض کی یا خداوندا میں تجھ سے خالد کے مظالم سے پناہ مانگتا ہوں اور جو کچھ اس نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں اسی اثناء میں خالد آںحضرت(ص) کے لیے بطور مال غنیمت لوٹا ہوا سامان اور سونا لے کر آیا آپ(ص) نے وہ تمام سامان اور سونا لے کر امیرالمومنین(ع) کے حوالے کیا اور فرمایا اے علی(ع) یہ بنی مصطلق کے پاس لے جاؤ اور ان کو راضی کرو پھر اپنا پیر اٹھا کر فرما کہ طریقہ جاہلیت کو اپنے پاؤں کے نیچے اس طرح کچل دففو اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ لہذا جناب امیر(ع) ان کے درمیان تمام سامان لے کر پہنچے اور خدا کےحکم کے مطابق فیصلہ کر کے واپس پلٹے جب واپس آئے تو آںحضرت(ص) نے پوچھا اے علی(ع)  کیا کر آئے؟ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا یا رسول اﷲ(ص) پہلے ہر ایک کا خون بہا ادا کیا اور ہر بچے کے عوض جو کہ شکم مادر ہی میں ضائع ہوا تھا ایک کنیز یا غلام دیا اور ان کے ہر مال کا نقصان ادا کیا پھر جو مال میرے پاس بچا وہ میں نے ان کے وہ ظروف جن میں ان کے جانور پانی پیتے تھے کے عوض دیا پھر جو مال اس کے بعد میرے پاس بچ گیا وہ میں نے ان کے ان نقصانات کے بدلے ادا کیا جس کو وہ شمار نہ کرسکے تھے اور آخر میں میرے پاس جو کچھ بچا وہ سب میں نے ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ خلوص دل سے آپ(ص) سے راضی ہو جائیں۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے یہ سن کر فرمایا اے علی(ع) تم نے جو کچھ بھی کیا تھا وہ سب ان میں اس نیت سے تقسیم کردیا کہ وہ مجھ سے راضی و خوش ہوجائیں لہذا خدا تم سے راضی و خوشنود ہو تم میرے نزدیک مثل ہارون(ع) ہو جو موسی(ع) کے وصی تھے ۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔

۱۷۰

مجلس نمبر۳۳

(۱۵ محرم سنہ۳۶۸ھ)

فاتحہ الکتاب

۱ـ حضرت امیرالمومنین(ع)، جنابِ رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے فاتحہ الکتاب( سورة الفاتحہ) کو میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک حصہ اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کیا ہے اور ایک حصہ مجھ ( خدا) سے ہے اس حصے سے جو میرے بندے کا ہے وہ  جو بھی خواہش کرتا ہے پوری ہوتی ہے۔ جس وقت بندہ کہتا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے آغاز کیا ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی حاجات کو پورا کروں پھر جب بندہ کہتاہے ” الحمد ﷲ رب العالمین“ تو خدا  فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی ہے او جانا ہے کہ میں ہر نعمت رکھتا ہوں۔ میں اپنے بندے کی ہر بلا کو اس سے ہٹا دوں گا اور اس پر اپنا فضل کروں گا تم گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے ساتھ اسے آخرت کی نعمتیں بھی عطا کروں گا اور اس پر سے عذاب کو ہٹا دوںگا بالکل اسی طرح سے جس میں نے دنیا کی مصیبتیں اس سے دور کردیں۔ پھر جب بندہ کہتا ہے” الرحمن الرحیم“ تو خداوند تعالی ارشاد فرماتا ہے میرے اس بندے نے گواہی دی کہ میں رحمن ہوں اور رحیم ہوں تو گواہ رہو کہ میں اس کو اپنی رحمت اور شان سے وافر حصہ عطا کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” مالک یوم الدین“ تو خدا کہتا ہے گواہ رہو میرے بندے نے اعتراف کیا ہے کہ میں مالک روزِ جزا ہوں میں اس کے حساب کو آسان کردوں گا اس کی نیکیاں قبول کروں گا اور اسکی برائیوں سے در گزر کروں گا پھر جب بندہ کہتا ہے ” ایاک نعبد“ تو خدا فرماتا ہےمیرے اس بندے نےسچ کہا ہے عبادت صرف میرے ہی لیے ہے میں اس کو اس کی عبادت کو ثواب دوں گا اور جو کوئی میرے خلاف عبادت کرے گا وہ اس بندے پر رشک کرے گا جب کہتا ہے ” وایاک نستعین“ تو خدا فرماتاہے اس نے مجھ سے مدد

۱۷۱

 مانگی ہے اور پناہ چاہی ہے گواہ رہو میں اس کے کاموں میں اس کی مدد کروں گا اور سختیوں میں اس کی فریاد سنوں گا  جب بندہ کہتا ہے” اہدنا الصراط المستقیم۔۔۔“ آخر تک “ تو فرماتا ہے یہ میرے بندے کی طرف سے ہے اور میرا بندہ جو کچھ بھی طلب کرے گا اسے ملے گا اور اپنے بندے کی دعا قبول فرماتاہے اور کہتا ہے جو بھی تیری آرزو ہے میں اسے پورا کروں گا اور جس کسی کا بھی اسے خوف ہے اس کو اس سے دور کروں گا۔ جنابِ امیر المومنین(ع) سے عرض ہوا اے آقا ہمیں بتائیے کہ کیا” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سبع مثانی(سات آیات) ، فاتحہ الکتاب، کا جز ہے  یا نہیں آپ(ع) نے وضاحت فرمائی کہ ہاں پیغمبر(ص) نے بسم اﷲ کو اس کی ساتویں آیت ہی شمار کرتے تھے اور پڑھتے تھے پھر فرمایا کہ فاتحہ الکتاب ہی سبع مثانی(سات آیات پر مشتمل سورہ ) ہے۔

۲ـ           جنابِ امیرالمومنین(ع)نے فرمایا ” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ سورہ حمد کی ایک آیت ہے۔ اور اس کا متن ہے میں (علی(ع)) نے رسول خدا(ص) نے سنا کہ خدا نے فرمایا اے محمد(ص) میں نے تم کو سبع مثانی دی اور تمام کتابوں کی بزرگ کتاب قرآن دیا اور سبع مثانی کو مجھے جدا عطا کیا اور اپنی تمام خلق کے سامنے اسے خزانہء عرش میں سے معزز ترین قرار دیا۔ اور مجھے شعراف عطا کی۔ میرے علاہ کسی پیغمبر کو اس میں شریک نہیں کیا سوائے سلمان(ع) کے کہ صرف” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ انہیں عطا نہیں کی گئی کہ اس کا ذکر داستانِ بلقیس میں آیا ہے( سبع مثانی میں بسم اﷲ شامل کر کے جنابِ سلیمان(ع) کو نہیں دی  گئی)

پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ مجھ تک ایک گراں قدر خط پہنچایا گیا ہے جو کہ جنابِ سلیمان(ع) کی طرف سے ارسال کیا گیا ہءے اور اس میں لکھا ہے” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ جو کوئی اس کو محمد(ص) و آل محمد(ع) کی پیروی اور دوستی کے ساتھ پڑھے گا اور ان کے امر کا مطیع ، ظاہری اور باطنی طور پر ہوگا تو خدا ہر حرف بدلے اس کو ایسی نیکی عطا کرے گا جو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی اور جب کوئی اس کو پڑ رہا ہوگا تو سننےوالے کو بہترین انواع اور اموال بخشش کیے جائیں گے اور چاہئے کہ جس طرف سے بھی  یہ خیر آئے اسے حاصل کر لو کہ اس کے پڑھنے کا بے حد ثواب ہے اور غنیمت ہے کہ تمہارے پاس ابھی موقع ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذرے جائے

۱۷۲

اور تم دل میں حسرت لیے رہ جاؤ۔

۳ـ امام باقر(ع) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ” اس دن جہنم کو لایا جائے گا“ (فجر، ۲۳) تو رسول خدا(ص) سے اس کی تفسیر دریافت کی گئی آپ(ص) نے فرمایا روح الامین نے مجھے اس کی خبر دی ہے کہ خدائے واحد جب اولین و آخرین کو روزِ حساب جمع کرے گا تو دوزخ کو حاضر کیا جائیگا اور اسے کھینچ کر لانے کے لیے ایک ہزار مہاریں ڈالی جائیں گی ہر مہار کو ایک لاکھ فرشتے کھینچ رہے ہوں گے اور فرشتوں کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے پروردگار خاص انتقام کرے گا دوزخ سے اس وقت آگ کی مہیب لپٹیں نکل رہی ہوں گی اس وقت لوگوں کو اس سے بے اندازہ دور کر دیا جائیگا ورنہ سب کےسب ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر آگ کی ایک ایسی مہیب زبان اس سے برآمد ہوگی جو کہ سب گناہ گاروں کی اپنی لپیٹ میں لے لےگی اور اس قدر خوفناک ہوگی کہ فرشتے اور پیغمبر خدا(ص) سے فریاد کرینگے کہ ہمیں اس سے بچا اس وقت میں ( محمد(ص)) خدا اسے گذارش کروںگا کہ رب العزت میری امت کو اس سے بچا۔ پھر پل صراط لایا جائیگا جو کہ شمشیر سے زیادہ تیز ہوگا۔ اس پر تین گذر گاہیں ہوں گی ایک امانت و رحم کے لیے دوسری نمازیوں اور تیسری رب العالمین کے لیے میزان عدل ہوگی اس رب العالمین کے لیے  کہ جس کے عالوہ کوئی معبود نہیں لوگوں کو س تیسری گزرگاہ میزان  عدل سے گزرنے میں تکلیف ہوگی۔ اگر لوگ امانت اور رحم کی گذرگاہ سے گذر گئے تو پھر نماز کی گذر گاہ سے گزرن ہوگا اگر اس سے نجات پاگئے تو پھر اس دنیا کے بارے میں محاسبہ ہوگا۔ پھر رسول خدا(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” بیشک تیرا پروردگار کمین گاہ میں ہے“ (فجر) پھر فرمایا لوگ پل صراط پر اس حال میں ہوں گے کہ بعض آویزاں ہوں گے اور بعض لرزاں، لوگوں کے گروہ کے گرد اس وقت فرشتے جمع ہوجائیں گے اور آواز دیں گے اے حلیم ان کو معاف فرمادے ان کو سالم رکھ اور درگزر فرما ہھر لوگوں کو پروانے  دیئے جائیں گے جو لوگ نجات پا جائیںگے خداوند ان پر نظر رحم کرے گا لوگ اس کا شکر بجا لائیں گے اور رب العزت کی حمد کرین گے کہ اس نے ہمیں عذاب سے نجات دی اور اس حال سے کہ جس سے ہم نا امید ہوگئے تھے ہم پر اپنا فضل کیا۔ بے شک پروردگار معاف کرنے والا اور شکر گزار ہے۔

۱۷۳

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا مختلف طبقات کےلوگ پل صراط سے گذریں گے۔ صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ بعض لوگ اس پر برق کی مانند گزریں گے بعض اس طرح گذریں گے جیسے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوں۔ کچھ اس طرح گذریںگے جیسے پیدل چلا جاتا ہے بعض گھٹنوں کے بل اور بعض اس کےساتھ آویزاں ہوں گے کہ لوگ ان کو جلاتی ہوگی۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جب خدا چاہتا ہے کہ خلق کو مبعوث کرئے تو چالیس (۴۰) روز تک آسمان کو زمین پر برسایا جاتا ہے پھر خلق کے لیے اجزا کو لے جایا جاتا ہے۔

۶ـ           ریان بن صلت کہتے ہین کہ امام   رضا(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے نقل کیا کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے ایک صحابی کو عرصہ دراز کے بعد دیکھا جو کہ بوڑھا ہوچکا تھا آپ(ع) نے اس سے فرمایا اے بندہ خدا تم عمر رسیدہ ہوگئے ہو۔ اس نے کہا اے امیرالمومنین(ع) یہ بڑھاپا آپ(ع) کی اطاعت میں آیا ہے پھر آپ(ع) نے فرمایا یہ عصا راستہ چلنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے دشمنوں کی وجہ سے ساتھ رکھا ہے امیرالمومنین(ع) نے فرمایا تم میں ابھی طاقت باقی ہے؟ اس نے کہا یہ آپ کے آستانے کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ریان بن صلتکہتےہیںکہامامرضا(ع) نے میرے لیے جنابِ عبدالمطلب(ع) کےاشعار بیان فرمائے۔ ہم سب لوگ زمانے کو عیب لگاتے ہیں حالانکہ زمانے میں کوئی عیب نہیں اگر عبیب ہے تو وہ ہم ین ہی ہے جو اس کے دامن کا دھبہ ہیں۔ در اصل عیب ہم لوگوں میں ہے مگر ہم ہیں کہ زمانے کو عیب گردانتے ہیں اگر(اﷲ) زمانے کو گویائی دیتا تو یقین ہے کہ وہ ہماری ہجو کرتا۔ غور کرو تو ایک بھیڑیا بھی دوسرے بھیڑیے کا گوشت نہیں کھاتا۔ یہ ہم ہی ہیں کہ کھلے عام ایک دوسرے کو کھائے جاتے ہیں۔

۷ـ          جنابِ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا نا امیدی میں امید زیادہ ہوتی ہے۔ موسی بن عمران(ع) جب اپنے خاندان کے لیے آگ لینے گئے تو خدا ان سے ہم کلام ہوا اور موسی(ع) نبوت کے ساتھ واپس ہوئے۔ ملکہ سبا اپنے ملک سے باہر گئی اور مشرف با اسلام ہوئی اور سلیمان(ع) کی زوجیت میں آگئی اور فرعون کی عزت بڑھانے کی خاطر جادوگر جب مصر گئے تو ایمان کی قوت انہیں مل گئی۔

۸ـ          مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا میرے والد(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت

۱۷۴

کیا ہے کہ حسن بن علی بن ابی طالب(ع) اہل زمانہ مین سب سے زیادہ عابد و زاہد اور افضل تھے آپ(ع) ہمیشہ حج ادا کیا کرتے تھے اور اکثر پیدل برہنہ پاؤں حج پر جایا کرتے تھے۔ ہمیشہ جب موت کو یاد کرتے تو گریہ کرتے تھے جب روزِ محشر و قیامت کو یاد کرتے تو گریہ فرماتے تھے جب پل صراط پر سے گزرنے کو یاد کرتے  ملاقاتِ خدا کی یاد آتی تو زبردست گریہ گرتے کہ بے ہوش ہوجاتے آپ(ع) جب نماز کے لیے خدا کے حضور کھڑے ہوتے تو بدن کانپنے لگ جاتا اور لگتا تھا کہ آپ(ع) گر پڑیں گے اور گر جاتے جب یادِ بہشت و دوزخ آتی ہو پریشان ہوجاتے اور خدا سے بہشت طلب کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے ۔ اور ہمیشہ قرآن سے یہ آیت  نہ پڑھتے” يا ایها الذين آمنوا “ تا ہم یہ کہتے ” لبیک اللہم لبیک“ جب بھی نظر آتے ذکرِ خدا میں مشغول نظر آتے اورتمام لوگوں میں سب سے زیادہ سچی بات کرنے والے تھے۔

ایک دن معاویہ نے کہا کہ حسن(ع) بن علی بن ابی طالب(ع) کو منبر پر بلایا جائے اور خطبہ دلوایا جائے تاکہ اس میں سے نقص نکال کر ان کی فضیلت کم کی جاسکے۔ جب آپ(ع) تشریف لائے تو آپ(ع)سے کہا گیا کہ منبر پر جائیں اور خطبہ دیں اور ہم کو نصیحت کریں۔ آپ(ع) اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگو جو کوئی مجھے پہچانتا ہے اور جوکوئی مجھے نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں حسن بن علی بن ابی طالب(ع) ہوں میں عالمین کی  تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بن رسول اﷲ(ص) کا بیٹا ہوں میں خدا کی بہترین خلق کا بیٹا ہوں میں رسول خدا(ص) کا فرزند ہوں میں وہ ہوں جس سے اس کاحق چھین لیا گیا۔ میں صاحب فضائل ہوں میں صاحب معجزات و دلائل ہوں میں امیرالمومنین(ع) کا بیٹا ہوں میں مکہ ومنی کا بیٹا ہوں میں مشعر( خبر دینے والا ۔ قربانی دینے کہ جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) وعرفات کا بیٹا ہوں معاویہ نے کہا اے ابو محمد(ع) اس بات کو چھوڑو اور خرمہ ( کھجور) کی تعریف بیان کرو آپ(ع) نے فرمایا اس کو گرمی بار آور کرتی ہے اور پکاتی ہے اور رات کی خنکی اس میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے۔ پھر آپ(ع)  دوبارہ اپنے کلام کی طرف پلٹے اور فریاما میں خلق خدا کا امام ہوں اور رسول خدا(ص) کا بیٹا ہوں معاویہ کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں  اس کلام سے شورش برپا نہ ہوجائے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آپ کے خطبے کو قطع کردیا  اور کہا اے ابو محمد(ع) جو کچھ آپ(ع) کہہ چکے وہ کافی ہے آپ(ع) منبر سے نیچے اتر آئیں، آںحضرت(ع) منبر سے نیچے اتر آئے۔

۱۷۵

مجلس نمبر۳۴

(۱۹ محرم سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ      جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی مسجد میں جاروب کشی کرے گا تو خدا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرئے گا جو کہ نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور جو کوئی مسجد میں سے کوڑا کرکٹ باہر کرے بیشک وہ آنکھ میں گر جانے والے کسی تنکے کے برابر ہی کیوں نہ ہو تو خدا تعالی ایسے شخص کو اپنی رحمت میں سے دو حصے عطا کرے گا۔

۲ـ امام صادق(ع) نے فرمایا موسی بن عمران(ع) سے رب العزت نے فرمایا میں ہرگز ( نافرمان و گنہگار) لوگوں کو سایہ عرش تلے جگہ نہیں دوں گا۔ جنابِ موسی(ع) نے خداوند عالم سے عرض کیا بارِ الہا پھر تیرے عرش تلےکون ہوگا تو ارشاد ہواکہ وہ لوگ جو اپنے ماں و باپ سے اچھے کردار سے پیش آتے ہیں اور ان پر نکتہ چینی نہیں کرتے۔

۳ـ جنابِ رسول خدا(ص) نےفرمایا وہ شخص عجیب ہے جو بیماری کے خوف سے کھانے میں تو پرہیز کرتا ہے مگر دوزخ کے خوف سے گناہوں میں پرہیز نہیں کرتا۔

۴ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا بارالہا میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ میرے خلیفہ پر رحم کر۔ آپ(ص) سے دریافت کیا گیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) کا خلیفہ کون ہے تو ارشاد فرمایا وہ بندہ ہے جو کہ میری حدیث و سنت کی تبلیغ کرتا ہے جس پر میری امت عمل کرتی ہے۔

۵ـ              امام صادق(ع) نےفرمایا ایک بار عیسی بن مریم(ع) اپنے تین اصحاب کے ساتھ کسی ضرورت کی غرض سے نکلے راستے میں ایک جگہ انہیں سونے کی تین اینٹیں پڑی نظر آئیں جنابِ عیسی(ع) نےفرمایا یہ لوگوں کو مار ڈالیں گی یہ کہہ کر آپ(ع) آگے روانہ ہوگئے جب کچھ دور  نکل آئے تو ان کے ہمراہ تین آدمیوں میں سے ایک نے بہانہ کیا اور واپس ہوگیا اس کی دیکھا دیکھی بقیہ دونے بھی بہانے سے واپسی کا راستہ لیا۔ جب یہ تینوں ان اینٹوں تک پہنچے تو ان میں سے دو آدمیوں نے ایک سے کہا کہ تم جاؤ اور سب کے لیے کھانا خرید لاؤ اس شخص نے جاکر کھانا خریدا اور اس میں زہر ملا دیا اور لے

۱۷۶

 آیا تا کہ بقیہ دونوں کو قتل کر کے اکیلا ہی تینوں اینٹوں کا مالک بن جائے ادھر پیچھے رہ جانے والے دونوں آدمی یہ سازش کررہے تھے کہ جب وہ کھانا لے کر واپس آئے تو اسے قتل کردیا جائے اور ان اینٹوں کو آپس میں دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے جب وہ شخص کھانا لے کر واپس آیا تو ان دونوں نے مل کر اسے قتل کردیا اور اس کے بعد کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد زہر آلود کھانا کھانے سے ان دونوں کی موت بھی واقع ہوگئی اور جب عیسیٰ بن مریم(ع) واپس آئے اور تینوں کو مرا ہو دیکھا تو اذنِ خدا سے انہیں دوبارہ زندہ کیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہ ( دولت) لوگوں کو قتل کردے گی ( لہذا ایسا ہی ہوا)

۶ـ           علی بن سری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا خدا مومنین کو ایسی جگہ سے روزی عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتے اور یہ اس لیے ہے کہ انسان اپنی روزی کے وسیلے کا ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ دعا کرتا ہے۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک درہم کا سود لینے کا گناہ بھی خدا کے ہاں ایسا ہے جیسا کہ انسان محرمات( ماں، خالہ، پھوپھی وغیرہ) سے تیس (۳۰) بار زنا کرئے۔

۸ـ          سیدة النساء فاطمہ(س) بن محمد(ص) نے فرمایا ک ایک بار رسول خدا(ص) شب عرفہ ہمارے گھر تشریف لائے اورہم سے فرمایا بیشک خدا تم پر مباہات کرتا ہے اس نے نے تم سب اور علی بن ابی طالب(ع) کی مغفرت قبول کی اور معاف کیا اور یہ خبر میں تمہیں دوستی و رشتے داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کا رسول ہونے کے ناطے دے رہا ہوں اور یہ جبرائیل(ع) ہے جس نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ بندہ سعادت مند اور کامل ہے جو علی(ع) سے دوستی کرئے اور اس سے محبت رکھے اس کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی، اور کامل ترین شقی وہ شخص ہے جو علی(ع) کی زندگی میں اور اس کی موت کےبعد بھی اس سے دشمنی رکھتا ہو۔

۹ـ   انس بن مالک اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں اور کہ فاطمہ بنت رسول(ص) حیض و نفاس سے بالکل مبرا تھیں۔

۱۰ـ امام باقر(ع) نے فرمایا کہ جب میرے والد(ع) کا وقتِ رحلت قریب آیا تو مجھے سینے سےلگا کر فرمایا میرے بیٹے میں تجھے وصیت کرتا ہوں جیسے کہ میرے والد(ع) نے مجھے اور ان کے والد(ع) نے ان

۱۷۷

سے کی تھی کہ خدا نہ کرئے تم کسی پر ظلم کرو تو پھر اس سلسلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے(یعنی صرف خدا ہی بخشش فرماسکتا ہے)

۱۱ـ حرث بن مغیرہ ںصری کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی واجب نماز کو ادا کرنے کے بعد دعا سے پہلے چالیس بار کہے”سبحان اﷲ والحمداﷲ ولا اله الا اﷲ واﷲ اکبر “ تو رب العزت سے جو بھی طلب کرے گا اسے عطا کیا جائے گا۔

۱۲ـ ابو سعید خدری(رح) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا تو جبرائیل(ع) نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہشت میں لے گئے مجھے ایک مسند پر بٹھایا اور ایک انار دیا جب میں نے اسے دو ٹکڑے کیا تو اس میں سے ایک نورانی حور نکلی جس کی آنکھیں انتہائی بڑی بڑی تھیں اس نے مجھے تہنیت پیش کی اور خوشخبری سنائی کہ درود ہو آپ(ص) پر اے احمد(ص) و رسول خدا(ص)، اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے بھائی آپ(ص) کے وصی اور آپ(ص) کے وزیر علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے پیدا کی گئی ہوں خدائے جبار نے مجھے تین جنسوں سے پیدا کیا ہے۔ میرا زیریں حصہ مشک کا ہے اور درمیانہ عنبر کا جبکہ بالائی حصہ کافور سے بنایا گیا ہے میں آبِ زندگی سے خمیر کی گئی ہوں اور خدائے جلیل نے جب  کہا ہو جا تو میں خلق ہوگئی رسول خدا(ص) فرماتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون سے (تیرا نام کیا ہے) تو اس نے جواب دیا میں راضیہ مرضیہ ہوں۔

۱۲ـامام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول خدا(ص) سیاہ عبا پہنے ہوئے گھر سے برآمد ہوئے پھر اپنی اس عبا کو علی بن ابی طالب(ع) کو پہنایا۔ اور فرمایا میں اسے دوست رکھتا ہوں یہ مجھ سے مخصوص ہے اور میرا خاص الخاص ہے۔ یہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس لیے کہ یہ میری طرف سے (حق) ادا کرنے والا ہے، یہ میرا وصی اور وارث ہے یہ روزِ اول سے مسلمان ہے اور ایمان میں سب سے زیادہ مخلص ہے۔ سب سے زیادہ سخی ہے، میرے بعد سید بشر ہے، اور نورانی ہاتھوں اور نورانی چہرے والوں کا قائد ہے، یہ اہل زمین کا امام ہے یہ علی بن ابی طالب(ع) ہے یہ فرما کر آپ(ص) نےگریہ فرمایا۔

۱۷۸

صفین میں چشمے کا پھوٹنا

۱۴ـ          حبیب بن جبم کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین(ع) ہمیں لے کر صفین کو چلے تو بلقاء نامی جگہ پر ہم نے قیام کیا جو کہ ایک بے آب و گیاہ میدان تھا مالک بن اشتر(رح) نے آںحضرت(ع) سے عرض کیا ، یا امیرالمومنین(ع) یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں پانی میسر نہیں ہے یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے فرمایا اے مالک بے شک خدا ہم لوگوں کو بہت جلد یہاں شکر سے زیادہ میٹھا برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شفاف و بلوریں پانی عطا کرے گا اور جو کہ یاقوت کی طرح مقطر ہوگا مالک  کہتے ہیں۔ اس جگہ محل وقوع دیکھ کر ہمیں یخ و شیرین پانی کی دستیابی پر حیرت ہوئی اور مگر ہمیں جنابِ امیر(ع) کے کلام میں کوئی شک نہیں تھا۔

پھر جنابِ امیر(ع) نے دوش مبارک سے ردا کو اتاری اور اپنی تلوار ہاتھ میں لی پھر اس میدان کے ایک انتہائی سخت ٹکڑے کی طرف آئے اور وہاں کھڑے ہو کر فرمایا اے مالک اپنے ساتھیوں  کے ساتھ اس جگہ کو کھودو، جب ہم نے اس جگہ کوکھودا تو ایک بڑا سا سیاہ پتھر نمودار ہوا جو کہ چمکیلا تھا آپ(ع) نے فرمایا اس کو یہاں سے ہٹاؤ ہم سو(۱۰۰) آدمیوں نے مل کر زور لگایا مگر اس پتھر کو ہلانے میں کامیاب نہ ہوسکے یہ دیکھ کر جنابِ امیر(ع) نزدیک آئے اور اپنے ہاتھ دعا کےلیے بلند کیئے اور فرمایا” طاب طاب مربا عالم طيبو ثاتو به شتما کو باحه حانو ثانو ديثا بر حوثا آمين آمين رب العالمين رب موسی و رب هارون“ اور پھر اکیلے ہی اس پتھر کو اٹھا کر چالیس(۴۰)قدم دور پھینک دیا مالک بن حارث اشتر(رح) کہتے ہیں کہ اس جگہ سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوا جس پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا اور یاقوت سے زیادہ شفاف و مقطر تھا ہم سب اس چشمے سے خوب سیراب ہوئے اور اپنے مشکیزے اس کے پانی سے بھر لیئے جب ہم سیرابی آب سے فارغ ہوگئے تو جنابِ امیر(ع) نے حکم دیا کہ اس چشمے کو مٹی ڈال کر بند کردیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پھر ہم اس جگہ سے کوچ کر گئے کچھ دور جا کر جنابِ امیر(ع) نےہم سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون اس چشمے کے مقام کو جانتا ہے سب نے کہا کہ ہم جانتے ہیں وہ چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا یہ سن کر جنابِ امیر(ع) نے واپس پلٹنے کا حکم دیا جب واپس اس مقام پر

۱۷۹

آئے تو کسی چشمے کے آثار نہ ملے ہم نے تلاش شروع کی کہ  دیکھیں چشمہ کہاں سے برآمد ہوا تھا مگر ہزار کوشش کے باوجود اس جگہ کو تلاش نہ کر سکے پھر ہم اس جگہ ہماری ملاقات ایک نصرانی راہب سے ہوئی جس کا نام صعومہ تھا جو اس قدر ضعیف تھا کہ اس کے آبرؤ اس کی آنکھوں پر گرے ہوئے تھے ہم نے اس راہب سے کہا، اے راہب اگر تیرے پاس پانی ہے تو ہمیں دے تاکہ ہم اپنے مولا و آقا کو پلائیں( کیوںکہ دوبارہ اس جگہ واپس لانے پر ہمیں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ شاید جنابِ امیر(ع) پر پیاس کا غلبہ ہوا ہے) اس راہب نے کہا میرے پاس پانی موجود ہے جو کہ میں نے دو روز قبل بھر تھا جب ہم نے اس پانی کو اس راہب سے لیا تو اسے بدمزہ و تلخ پایا ہم نے اس سے پوچھا کہ تو نے یہ پانی کہاں سے حاصل کیا ہے اس نے بتایا کہ یہ ایک چشمے کا پانی ہے اور اس پانی کو میں نے شیرین کرنے کو کوشش کی ہے لیکن پھر بھی تلخ ہے ہم نے اس سے کہا کہ کاش تونے وہ پانی پیا ہوتا جو ہمارے سرور نے ہمیں مہیا کیا تھا اور پھر اس واقعے (دستیابی آب) کو اس راہب سے بیان کیا اس نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے سرور(ع) کوئی پیغمبر ہیں ہم نے جواب دیا نہیں وصی پیغمبر(ص) ہیں اس راہب نے درخواست کی کہ مجھے ان کے پاس لے چلو جب وہ جنابِ امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو جنابِ امیر(ع) نےاسے دیکھ کر فرمایا تم شمعون ہو اس نے کہا ہاں میں شمعون ہوں، آپ(ع) نے یہ کیسے جانا کہ میرا نام شمعون ہے جب کہ میرا یہ نام میری ماں نے رکھا تھا اورمیرے اور میرے خدا کے علاوہ اس کا کسی کو علم نہیں ہے، آپ(ع) نے فرمایا کہ یہ میرے علم امامت نے مجھے بتایا اس نے کہا کہ آپ(ع) اس چشمے کی بابت مجھے مطلع کریں تاکہ میں اپنے ایمان کو کامل کروں، آپ(ع) نے اس چشمے کی دریافت کا واقعہ اس سے بیان کیا اور فرمایا کہ اس چشمے کا نام حومہ ہے اور بہشت کے چشموں میں سے ایک ہے اور تین سو تیرہ (۳۱۳) اوصیاء (ع) سیراب ہوچکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں جوکہ اس سے سیراب ہوا اس راہب نے کہا میں نے تمام کتابوں اور انجیل میں من و عنہ یہ واقعہ رقم پایا ہے پھر اس نے راہب نے گواہی دی اور کہا”أَشْهَدُ أَنْ‏ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ و انک “ اے وصی محمد(ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود بجز خدا کے نہیں اور محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں اور آپ(ع) وصی(ع) محمد(ص) ہیں۔ پھر اس راہب نے جنابِ امیر(ع) کے ساتھ کوچ کیا اور صفین کے مقام پر گیا اور جب دوںوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ پہلا شخص تھا

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

جن پر عقلاء کا چلن ہوتا ہے مثلاًقبضہ کی مثال لے لیں عقلاء کے ہاں یہ قابض کی ملکیت کی علامت ہوتا ہے تو اب جہاں قبضہ ہو وہ وہاں قابض کی ملکیت کا حکم لگاتے ہیں لہذا جہاں انہیں اس کا یقین ہو وہاں مقام عمل میں اس پر آثار مرتب کر دیتے ہیں اور اسے خرید کرنا جائز سمجھتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں کی ملکیت ہے

خلاصہ یہ کہ خبر واحد کی حجیت میں بناء عقلاء کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک عادل یہ خبر دے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں آیت کی تفسیر ایسے مفہوم کے ساتھ کی ہے جو خلاف ظاہر ہے یا وہ خود ظواہر کتاب ہوں کہ جن کے معتبر ہونے پر سوائے اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ عقلاء ان کلمات کے ظواہر پر عمل کرتے اور الفاظ وعبارات سے مقصود معانی کی تشخیص کیا کرتے ہیںپس اب جس طرح بناء عقلاء کے باب میں تمام ظواہر مطلقاًحجت ہوتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظواہر عملی احکام میں سے کسی پر مشتمل ہو یانہ ہو،اسی طرح تمام وہ روایات جو باب تفسیر قرآن میں قول معصوم علیہ السلام کو نقل کرتی ہوں،وہ سب بھی حجت ہوتی ہیں اور ان میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی آیت کی تفسیر کو بیان کر رہی ہوں جو احکام عملیہ میں سے کسی پر مشتمل ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط ہی نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کہ روایات فقط اس صورت میں حجت ہوتی ہیں جب کسی ایسی آیت کی تفسیر میں ہوں جن میں احکام کا بیان ہو بلکہ معتبر روایت باب تفسیر میں مطلقاً حجت ہوتی ہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے۔

۲۔ اگر خبر واحد کی حجیت کی استناد ادلہ شرعیہ تعبدیہ کی طرف ہو تو وہاں بھی بظاہر عدم اختصاص ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان ادلہ شرعیہ میں سے کسی میں بھی”حجیة“ اور اس کے مشابہ عنوان دکھائی نہیں دیتا،تاکہ اس کی تفسیر میں اس منجزیت(وجہ نفاذ)اور معذریت(وجہ عذر) کا نام لیا جائے جو ان تکالیف کے باب میں ثابت ہوتی ہیں جن کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اگر آیتنَبَاء ْ ( اِن جَآء َکمُ فَاسِقُ بِنَبَاٍ فَتَبَّینُوا ) (حجرات:۶)

جب تمہیں ایک فاسق کوئی خبر سنائے تو اس کی تحقیق کرو۔

۲۲۱

کے مفہوم کے بارے میں تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ خبر دینے والا ایک عادل شخص ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عادل کی خبر کی طرف استناد جائز ہوگا،اس کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی او ر اس کی صداقت کی تفتیش لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بات بغیر تفتیش مان لی جائے گی تو پھر اس کو باب اعمال سے تعلق رکھنے والی خبر کے ساتھ مختص کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ عادل کی خبرچاہے اعمال سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے ماننا ہو گی اور وہ حجت ہو گی۔

البتہ اس صورت میں اختصاص کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جب خبر کاارتباط شارع کے ساتھ ہو اور اس کی شارع کی طرف نسبت بحیثیت اس کے شارع ہونے کے ہو،لیکن اس سے بھی یہ مقام بحث خارج نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف استناد اور قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو تشخیص دینا،اگرچہ کسی آیت کے حکم کے متعلق نہ بھی ہو،بلکہ مواعظ،نصائح،قصص حکایت یا ایسے امور کے متعلق ہو کہ جن پر کتاب خدا دلالت کرتی ہےیہ استناد بھی ایک ایسا امر ہے جو لامحالہ شارع سے متعلق ہوتا ہےلہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی پھانسی دیے گئے ہیں اگرچہ اس خبر کا تعلق باب تکالیف کے ساتھ بالکل نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ باب تفسیر میں خبر واحد کے مطلقاً حجت ہونے میں کسی اشکال کی گنجائش نہیں ہے۔

ہاں جہاں تک کتاب الہی کے عمومات کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینے کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے اور کئی ایک اقوال موجود ہیں جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کی خبر واحد کے ذریعے تنسیخ کرنا کسی طرح جائز نہیں اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہےالبتہ یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیل سے زیر بحث آتا ہے اور وہاں مرقوم ہے لہذا ہمیں یہاں اس سے سے بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں یہ یادر ہے کہ علمائے اہل سنت کا ایک گروہ خبر واحد سے قرآن کے عمومات کی تخصیص کے عدم جواز کا قائل ہے۔ اور خود اہل سنت میں بھی اس بارے میں اختلاف موجود ہے تاہم قائلین عدم جواز کے ادلہ کمزور اور واضح البطلا ن ہیں۔

۲۲۲

حکمِ عقل:

اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ عقل کا حکم قطعی اور ادراک جزی اصول تفسیر میں شامل ہے اور تفسیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لہذاجب بھی حکم عقل قطعی طور پر ظاہر کتاب کے خلاف فیصلہ دے رہا ہو تو وہاں اس کو تسلیم کرنا پڑے گااور ظاہر کتاب کو اخذ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ عقل کا حکم ہی کتاب خدا کی حجیت اور اس کے لانے والے اصول کی صداقت کو ظاہر کرنے والے معجزہ کی اساس ہے اسی عقل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ اور عادت بشری سے ماوریٰ ہے جس کی مثل نہ تو پیش کی جاسکی اور نہ پیش کی جاسکتی ہے،عقل ہی وہ رسول باطنی ہے جس کے حکم اور اس کی وحی کی مخالفت جائز نہیں ہے۔

درحقیقت جب ظواہر کے خلاف حکم عقل قائم ہو گا توپھر عقل کا ادراک بالجزم اس ظاہر کی مخالفت کررہا ہو گاوہاں یہ حکم عقل حقیقت میں اس قرینہ لفظیہ کی منزل پر ہوتا ہے اور حقیقی معنی کے مراد ہونے سے منصرف کرنے اور معنی مجازی میں ظہور کے منعقد ہونے کا موجب بنتا ہےظہور کی حجیت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ معنی حقیقی سے متعلق ہی ہو بلکہ ظہور حجت ہے خواہ وہ معنی مجازی میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ واضح ہے کہ قانونأصالةُ الحقیقة جو ظہورکے انعقاد کے تمام مواقع پر جاری ہوتی ہے وہ اصالةالظہور کی ہی ایک خاص قسم ہے اور کوئی فرق نہیں کہ ظہور معنی حقیقی میں قائم ہو جیسے کہ لفظ میں خلاف کا کوئی قرینہ موجود ہی نہ ہو اور خواہ وہ ظہور معنی مجازی میں قائم ہو۔

مثلاًکلام میں معنی حقیقی کے خلاف کا قرینہ موجود ہو تو معنی مجازی ہی ظاہر قرار پاجاتاہے یعنی”رَاَیْتْ اَسَداً“ کا ظہور معنی حقیقی میں قائم ہوتا ہے لیکن”رَایْتُ اَسَداً یَرْمِی“ کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہےکیونکہ عرف میں سے اس سے مراد”رجل شجاع“ یعنی بہادر آدمی ہوتا ہےبغیر اس فرق کے کہ ہم یہ مان لیں کہ اس جملے کا ایک ہی ظہور ہوتا ہے جو جملے کے تمام ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے بایں نظر کہ لفظ”اسد“ کا اپنے معنی حقیقی میں ظہور پیدا کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ جملہ تمام ہو جائے اور خلاف حقیقت مراد ہونے پر کوئی قرینہ قائم نہ ہو۔

۲۲۳

جب خلاف کا قرینہ موجود ہو تو وہاں اس کا ظہوربالکل ہوتا ہی نہیں بلکہ لفظ کا ظہور ابتداًء ہی معنی مجازی میں قائم ہو جاتا ہے یا ہم یہ تسلیم کریں کہ دو ظہور موجود ہوتے ہیں لفظ”الاسد“ کا ظہور اپنے معنی حقیقی میں اور لفظ”یرمی“ کا ظہورمعنی مجازی میں ہے لیکن چونکہ دوسرا ظہور زیادہ طاقتور ہوتا ہے،اس لیے وہ پہلے ظہور پر تقدم حاصل کرلیتا ہے اور در حقیقت دونوں لفظوں میں ہر لفظ اپنے اپنے حقیقی معنی میں ظاہر ہوتاہے لیکن ادھر قرینہ کا ظہور جو معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے وہ معنی اول کے ساتھ مل کر قوی اور کامل ہو جاتا ہےان دونوں قولوں کے مطابق جملے کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے یعنی اس مقام پررجل شجاع ہی مراد ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ اصالةالظہور جو دراصل ارادہ جدیہ کا ارادہ استعمالیہ کے ساتھ تطابق اور کلام سے اس مفہوم کا مقصود واقعی ہونا ہے جس میں ظاہر لفظ دلالت کررہا ہویہ اصالةالظہور ہر دو صورتوں میں جاری ہوتی ہے اور دونوں میں کوئی بنیادی فرق برقرار نہیں ہوتااس قاعدے کے روشن ہونے کے بعد جب کبھی معلوم ہو کہ عقل کسی مقام پر کتاب خدا کے لفظوں کے ظاہری معنی کے خلاف حکم دے رہی ہے تو یہ حکم عقلی ایسے قرینہ قطعیہ متصلہ کا قائم مقام ہو گا جو اس بات کا موجب ہے کہ کلام کا ظہو ر فقط اسی مفہوم میں منعقد ہو جس کا حکم عقل دے رہی ہے اور اس کے خلاف نہ ہو۔

چنانچہ خداوند تعالیٰ کاارشاد:

( وَجَآءَ رَبُکَ وَالمَلَکُ صَفًا صَفًا ) (سورة فجر:آیت۲۲) (اور جب تیرا رب آیا اور فرشتے صف بستہ تھے)

اس کلا م کا ابتدائی ظہور تو یہ ہے کہ آنے والا بذات خود رب تعالیٰ ہےیہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے کا مستلزم ہے،حالانکہ اس کا مجسم ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل کا قطعی حکم ہے کہ جسمیت خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہے کیونکہ تجسم کا لازمہ احتیاج ہے اور احتیاج واجب الوجودکی شان کے منافی ہے جب کہ واجب الوجود تو بالذات غنی ہوتا ہے اب یہ قطعی حکم عقلی اس امر کا موجب بنے گا کہ کلام کا ظہور اس معنی میں منعقد نہ ہو سکے کہ آنیوالا خود رب تعالیٰ ہے۔

۲۲۴

اسی طرح یہ آیت ہے:

( اَلَّرحمنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ) (سورہ طٰہٰ:آیت۵)

اس میں بھی خداوند تعالیٰ کا عرش پر محدود ہونا لازم آئے گا اس لیے اس کا ظہور ”اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے“میں منعقد نہ ہو گا کیونکہ عقل کے حکم کے خلاف ہے اور تما م ایسی آیات جن میں ابتدائی ظہور حکم عقل کے خلاف ہوتا ہے وہ اسی قبیل سے ہوں گی۔

ہماری اس بحث کے بعد یہ نکتہ روشن ہو گیا کہ جہاں حکم عقل اصول تفسیر میں سے ایک اصل ہے اور کتاب الہی کی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو حاصل کرنے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہاں حکم عقل سابقہ دو امور سے مقدم حیثیت رکھتا ہے،عقل کے حکم کے سامنے ”ظہور اور قول معصوم“ہر دو کا راج نہیں چلتایہ ظہور پر اس لیے مقدم ہے کہ اگر خلاف ظہور پر حکم عقل موجود ہو تو ظہور منعقد ہی نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کو ایک قرینہ قطعیہ کا مقام حاصل ہے۔

پھر قول معصوم پر اس کے تقدم کی وجہ یہ ہے کہ خود قول معصوم کی حجیت بھی حکم عقل تک منتہی ہوتی ہے اور وہ عقل ہی کے سہارے پر حجت ہوتا ہے لہذا کوئی بھی حقیقی قول معصوم قول عقل کے مخالف ہو نہیں سکتا اور اگر بظاہر کہیں یہ مخالفت نظر آئے تو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ قول معصوم سے صادر ہی نہیں ہوایا معصوم کی مراد اس کے ظاہری معنی سے نہیں ہے پس جب حکم عقل کتابِ خدا کو اپنے ظاہری معنی سے روک لیتا اور خلاف ظاہر کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس کا ایک روایت کو ظاہری معنی سے موڑ کر خلاف ظاہر کی طرف لے جانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

ہماری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی بنیاد ان تین امور پر استوار ہو سکتی ہے

۱۔ ظاہر ۲۔ قول ۳۔ حکم عقل

۲۲۵

باب تفسیر میں ان تین کے علاوہ کسی دیگر شے کی طرف استناد جائز نہیں ہےہاں باب الظواہر میں قضیہ کے صغریٰ کا اطمینان کر لینا ضروری ہے یعنی وہ ظہور کہ جس کا مرجع ارادہ استعمالیہ ہوتا ہے،کیونکہ واضح ہے کہ دونوں ارادوں کا تطابق ارادہ استعمالیہ کی تشخیص اور لفظ کے مدلول کے بارے میں تسلی کر لینے کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

اب یہ طے کرنا پڑ ے گا کہ کسی شخص کے لیے ارادہ استعمالیہ کی تشخیص کا طریقہ یہ ہو گاعربی زبان سے مکمل طور پر آشنانہ ہو اور خود اہل زبان بھی نہ ہو جبکہ ادھر کسی مفسر یا کسی لغوی (زبان شناس) کے قول پر بھروسہ کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ ان دونوں کا قول نہ مفید یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مفید اطمینان مگر(عرفی طور پر یہی علم کہلاتا ہے)لیکن ان دونوں کے قول کے حجت ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں،پس نتیجہ یہی ہے کہ اس وقت تک کسی کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہو سکے گا،جب تک اس سے یقین حاصل نہ ہو یا یقین کے قائم مقام کوئی صورت بن سکےبایں معنی کہ وہ کسی معنی میں لفظ کے ظہور کا موجب بن جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ ارادہ استعمالیہ کے ساتھ یہی معنی متکلم کی مراد ہے۔

۲۲۶

علوم تفسیر

عُلومِ قرآن

ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟

علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:

اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔

ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیںعلوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔

علوم فی القرآن :

قاضی ابو بکر بن عربی نے”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے

(۱) توحید

(۲) تذکیر

(۳) احکام

۲۲۷

اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے( وَاِلٰهُکم اِلٰه وَّاحِد ) (۱) اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیں علم تذکیر کے لئے( وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین ) کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے( وَاَنٍ اَحْکُمْ بینهم) کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہفاتحة الکتاب کو اسی لئے”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔

مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے( اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین ) عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔( اِهدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم ) سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔

اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیں سارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)

محمد بن جریر طبری کہتے ہیں: قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے( قُل هُواَاللهُ اَحَدْ ) قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔

عُلوم الِقُرآن

کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔

۲۲۸

قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے

( وَانِّهٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین )

تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔

لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔

قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( هُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منه آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ هُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِهاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِهم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَه منهُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیله وَماَیعلم ُ تَاوِیلَه اِلاَالله وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِه کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب )

(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔ قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں

۲۲۹

حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت( وَفاَ کِهَةً وَاَباًّ ) کی تلاوت کی اور کہافاکِهَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہاَبّاًّ سے کیا مراد ہے ؟۔

بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتها" یعنیابتدیتها یعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔

علوم قرآن پرپہلی کتاب

علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔

ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

۱۔ تسمیة الکتب المصنفة فی تفسیر القرآن

۲۔ فی الغات القرآن

۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ

۴۔ فی القرات

۲۳۰

۵۔ الکتب المولِّفَہ فی غریب القرآن

۶۔ فی لاٰماٰت القرآن

۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن

۸۔ وقف التمام

۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن

۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن

۱۱۔ فی اختلاف المصاحف

۱۲_ اجزاء القرآن

۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن

۱۴۔ من فضائل القرآن

۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف

۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ

۱۷۔الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن

۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ

۲۳۱

۱۹۔ الکتبالمولفَةِ فی الْهٰاآتِ ورُجُوعِهٰا

۲۰۔ نزول القرآن

۲۱۔ احکام القرآن

۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن

لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو” الاتقان والبرهان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حاجی خلیفہ نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب” التَّنبیه عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔ چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔ مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔ ” میں نے مصر کے دارالکتب میں” البُرهان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون میں” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔ سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں” وَمن المصنّفاّت فی مثل هذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے مولفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب” البرهان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوفی۴۹۴) ہے۔

۲۳۲

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔

سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُز قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔

ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔

سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے ماخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔

آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب” البُرهان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں

یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔

۲۳۳

نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:

”فرایته تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"

سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔ دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔

اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:

۱۔ الاتقان فی علوم القرآن

جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ

۲۔ الاحسان فی علوم القرآن

جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲

۳۔ البیان فی علوم القرآن

ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)

۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن

محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)

۲۳۴

۵۔ البرھان فی علوم القرآن

محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷

۶۔ بحوث حول علوم القرآن

شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفی نجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات

۷۔ البیان فی تفسیر القرآن

آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی

۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم

طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)

۹۔ البیان فی علوم القرآن

محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)

۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان

شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص

۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن

محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ

۲۳۵

۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن

ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹

۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن

معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص

۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن

ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹

۱۵۔ علوم القرآن

محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ

۱۶۔ علوم القرآن

احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱

۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان

محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴

۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن

محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹

۲۳۶

۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲

۲۰۔ قانون تفسیر

حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد

۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ

حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس

۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر

۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر

۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن

موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص

۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر

محمد الصّباغ المکتب الاسلامی

۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن

دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)

۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان

۲۳۷

جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م

۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)

۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن

احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)

۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن

سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م

۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن

نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ

محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی

۳۱۔ مفتاح علوم القرآن

حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ

۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن

۲۳۸

یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم

۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن

محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد

۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن

شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان

۳۵۔ الموسوی القرآنیہ

ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد

۳۶۔ موجز علوم القرآن

دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمی بیروت

نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے

۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔

۲۳۹

اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔

اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

علوم قرآن کی اصطلاح

علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی

صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔

ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔ متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658