مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277245
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277245 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 جس نے جام شہادت نوش کیا جنابِ امیرالمومنین(ع) اس کے سرہانے آئے۔ آپ(ع) کی آنکھوں سے اشک جاری تھے اور فرماتے تھے کہ جو بندہ جس کے ساتھ ہو اسے ہی دوست رکھتا ہے یہ راہب روز قیامت بہشت میں میرا رفیق ہوگا۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا ( ائمہ ء اہل بیت(ع)) مسلمانوں کے امام ہیں، زمین پر خدا کی حجت ہیں، مومنین کے سردار اور نورانی ہاتھوں اور نورانی چہرے والوں اور اہل ایمان کے سردار ہیں، ہم اہل زمین کے لیے امان ہیں کہ جس طرح ستارے اہل آسمان کے لیے امان ہیں، خداوند کریم نے ہمارے ذریعے سے آسمان کوقائم کیا ہے، یہ اس کی اجازت کے بغیر نہیں برستا کہ اہل پر موج نہ مارے ( خداوند کریم کے حکم سے آسمان اعتدال میں برستا ہے تاکہ باعثِ رحمت رہے مگر جب کبھی رب العزت  نا اہلوں کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو پھر یہ کھل کر برستا ہے اور طوفان کی موجیں ہرشے کو غرقاب کردیتی ہے جیسا کہ طوفان ںوح(ع)۔ ہماری وجہ سے بارش برستی ہے اور رب العزت اپنی رحمت نشر کرتا ہے اور زمین اپنی برکات باہر نکالتی ہے اگر امام کا وجود زمین میں نہ ہوتو زمین اپنے  بسنے والوں کو نگل جائے، پھر آپ(ع) نے فرمایا جس دن خدا نے آدم(ع) کو پیدا کیا اس دن سے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی چاہئے وہ ظاہر ہو یا غائب و مستور۔ وہ خدا کی حجت ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو خدا کی عبادت نہ کی جاتی۔ سلیمان راوی حدیث کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) سے پوچھا گیا کہ لوگ امام غائب سے کس طرح بہرہ مند ہوتے ہیں تو آپ(ع) نے فرمایا کہ جس طرح بادلوں کے پیچھے آفتاب سے ہوتے ہیں جنابِ شیخ صدوق(رح) کے  شاگرد بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد جنابِ شیخ نے یہ نظمیہ اشعار بیان فرمائے جو کہ امام منتظر(عج) کی شان میں کہے گئے تھے۔

                     عقل مند دانا خود سے موجود ہے

                                                             اور اپنی  جنسِ علم سے مستغنی ہے

اور اس سے دوسروں کو گرامی رکھے ہوئے ہے

                     اور اندازہ کرنا مشکل ہے کہ خود کس حال میں ہے۔(کہاں ہے)

۱۸۱

مجلس نمبر۳۵

(۲۲ محرم سنہ۳۶۸ھ)

یہودی کے سوالات اور رسولِ خدا(ص) کے جوابات

۱ـ           امام حسن(ع) بن علی(ع) بن ابی طالب(ع) سے روایت ہوا ہے کہ کچھ یہودی رسولِ خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، اے محمد(ص) آپ دعوی کرتے ہیں کہ آپ(ص) خدا کے رسول ہیں کیا آپ(ص) کو بھی اسی طرح وحی ہوتی ہے جس طرح موسی بن عمران(ع) کوہوتی تھی آپ(ص) نے توقف کیا اور فرمایا ہاں میں اولادِ آدم(ع) کا سردار ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا۔ میں خاتم النبیین(ص) ہوں، متقیوں کا امام اور رب العالمین کا رسول(ص) ہوں، یہ سن کر یہودی کہنے لگے آپ(ص) کوکن لوگوں پر رسول بنا کر بھیجا گیا ہے عربیوں ہر عجمیوں پر، یا ہم یہودیوں، پر تو خدا نے اس آیت کو نازل کیا۔ ” اے محمد(ص) ان سے کہہ دو کہ میں تمہاری طرف بھی اور باقی لوگوں کی طرف بھی رسول بناکر بھیجا گیا ہوں“ (اعراف، ۱۵۸) یہ سن کر ان یہودیوں میں موجود ان کے بڑے عالم نے جنابِ رسول خدا(ص) سے سوال کیا کہ مجھے آپ سے وہ دس احکامات پوچھنے ہیں جو خدا نے بوقتِ مناجات، بقعہء مبارک میں حضرت موسی بن عمران(ع) کو عطا کیے تھے اور سوائے خدا کے مقرب فرشتے یا اس کے پیغمبر مرسل کے کوئی نہیں جانتا رسول خدا(ص) نے اس یہودی سے فرمایا کیا تجھے اس کے علاوہ بھی کچھ پوچھنا ہے اس نے کہا کہ جب آدم(ع) نے خانہ کعبہ کو بنایا اور خدا نے ان کو برگزیدہ کیا تو اس وقت آدم(ع) کے کیا کلمات تھے۔

رسول خداص(ص) نے فرمایا کہ وہ کلمات” سُبْحَانَ اللَّهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ‏ وَ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَكْبَرُ “ تھے اسیہودی نے کہا کہ آدم(ع)  نے خانہ کعبہ کو چار کونوں والا کیوں بنایا، آپ(ص) نے جواب دیا کہ انہیں چار کلمات کی وجہ سے، یہودی نے کہا اس کا نام کعبہ کیوں رکھا آپ(ص)نے جواب دیا کیوں کہ یہ دنیا کا وسط( مرکز) تھا۔ یہودی نے کہا مجھے ان کلمات کی تفسیر بتائیں آپ(ص) نے ارشاد فرمایا۔ خدا جانتا ہے کہ انسان اس (خدا) کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں ” سُبْحَانَ اللَّهِ “ ایسے

۱۸۲

 لوگوں کے قول سے بیزاری کے لیے ہے” وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ“ اس لیے ہےکہ وہ (خدا) جانتا ہے کہ اس کے بندے اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں گے اس لیے اس نے نعمتوں کے تشکر کے لیے خود کو مرکز قرار دیا تاکہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور صرف اسی کی تعریف کی جائے۔ اور یہ اول کلام ہے اگر یہ(وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ) نہ ہوتا تو خدا کسی بندے کونعمت نہ دیتا اور کلمہ” لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ“ توحید پرستی ہے جان لو کہ روزِ قیامت خدا میزان کوسخت تر کردے گا ( یعنی توحید کے ضمن میں سخت حساب ہوگا) اس کے بعد کلمہ” وَ اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہ یہ خدا کے نزدیک برترین اور محبوب ترین کلممہ ہے یعنی یہ کہ مجھ ( خدا) سے بڑا کوئی نہیں۔ نماز اس کے بغیر شروع نہیں ہوتی بڑائی کا مقام صرف خدا کے ہاں ہے اور یہ نام اس کے اکرام کا ہے، یہودی نے کہا کہ آپ(ص) نے بالکل سچ فرمایا اے محمد(ص) یہ بتایئے کہ اس کو پڑھنے والے کو کی جزا کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا جب بندہ کہتا ہے” سُبْحَانَ اللَّهِ“ تو زیرِ عرش جو کچھ بھی ہے اس کے ساتھ تسبیح کرتا ہے اور رب العزت اس کے پڑھنے والے کو دس گنا ثواب عطا کرتا ہے جب بندہ کہتا ہے” وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ“ تو خدا اس پر دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کا ثواب اس کو عطا کرتا ہے یہ وہ کلمہ ہے کہ بہشت جس وقت داخل بہشت ہونگے تو اسی کلمے کو کہتے ہوں گے انسان جو کلمات بھی دنیا میں ادا کرتا رہا ہے وہ اس وقت منقطع ہوجائیں گے  مگر” الْحَمْدُ لِلَّهِ“ باقی رہے گا یہ کلمہ خدا کا کلمہ ہے بہشتی لوگ بہشت میں بطور دعا اس کو ادا کریں گے اور یہ سلامِ ملاقات کے طور پر بھی استعمال ہوگا اور اس دعا کا آخری یہ ہوگا” ہر طرح کی حمد تمام جہاںوں کے پروردگار کے لیے ہے“ (یونس، ۱۰) پھر آپ(ص) نے فرمایا” لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ“ کی جزا بہشت ہے قول خدا ہے” کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے“ آپ(ص) نے فرمایا کیا” لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ“ کی جزا بہشت کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے یہودی نے کہا آپ(ص) نے سچ فرمایا میرے ایک مسئلہ کا جواب تو آپ(ص) نے دے دیا اب اجازت دیں کہ دوسرا مسئلہ دریافت کروں۔ آپ(ص) نے فرمایا جو چاہتا ہے پوچھ لے، امام حسن(ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے دائیں طرف اس وقت جبرائیل(ع) اور بائیں طرف میکائیل(ع) تھے جو کہ جوابات میں آپ(ص) کی مدد فرمارہے تھے، یہودی نے کہا کہ آپ(ص) کو محمد(ص) کا نام کس وجہ سے دیا گیا اور احمد(ص) اور ابوالقاسم(ص) و بشیر و نذیر اور داعی(ص) کس لیے پکارا جاتاہے

۱۸۳

 پیغمبر(ص) نے فرمایا مجھے محمد(ص) کا نام اس لیے دیا گیا کہ میں زمین میں اس ( خدا) کی حمد کرنے والا ہوں احمد(ص) اس لیے دیا گیا کہ میں آسمانوں میں اس کی حمد کرنے والا ہوں ابوالقاسم(ص) اس لیے کہ خدا روز قیامت دوزخ و جنت کو تقسیم کرے گا اور جو کوئی اولین وآخرین میں سے میری حیثیت کامنکر ( کافر) ہے وہ دوزخ میں اور جو کوئی میری نبوت کا اقرار کرتا ہے وہ بہشت میں جائے گا(یعنی جنت و دوزخ کی تقسیم آںحضرت(ص) سے ہوگی) اور داعی(ص) اس لیے کہا جاتا ہے کہ میں اپنے رب کے دین کے طرف دعوت دیتا ہوں نذیر(ص) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی میری نافرمائی کرے گا میں اسے دوزخ سے ڈراؤں گا اور بشیر(ص) اس لیے کہ جو کوئی بھی میری پیروی کرے اسے بہشت کی نوید دوں۔ یہودی کہنے لگا آپ(ص) نے بالکل صحیح کہا اب مجھے مطلع فرمائیں کہ خدا نے آپ(ص) کی امت پر پانچ(۵) نمازیں کیوں فرض کی گی ہیں آپ(ص) نے فرمایا جس وقت آفتاب زوال کو پہنچے تو حلقہ بناتا ہے تاکہ اس کے اندر آجائے اور زوال شروع ہوجائے یہ وہ وقت ہے کہ زیر عرش ہر چیز تسبیح کرتی ہے، خدا کی حمد کرتی ہے اور اس وقت مجھ پر بھی درود بھیجا جاتا ہے لہذا اس وقت میرے رب نے مجھ پر اور میری امت پر نماز فرض کی ہے خدا تعالی فرماتا ہے۔

”أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى‏ غَسَقِ اللَّيْلِ “(بنی اسرائیل، ۷۸)

” یعنی نماز قائم کرو زوال آفتاب سے سرخی شب تک“ یہ وہ ساعت ہے کہ جب روزِ قیامت اس وقت دوزخ کو لایا جائیگا، تو وہ مومن جو سجدہ یا رکوع کی حالت میں رہا ہوگا( نماز ادا کرتا رہا ہوگا) خدا اس پر دوزخ کی آگ حرام کردے گا پھر خدا نے نمازِ عصر کا حکم ایسے وقت میں دیا کہ جب آدم(ع) نے درخت سے پھل کھایا اور بطور سزا انہیں بہشت سے نکال دیا گیا تو ان کی ذریت کو قیامت تک اس وقت نمازِ پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اسی نماز اور اسی وقت کو میری امت کے لیے منتخب کیا گیا، یہ محبوب ترین نماز ہے اور خدا نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں درمیان کی نمازوں کی حفاظت کروں۔

نمازِ مغرب ایسے وقت میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے آدم(ع) کی توبہ قبول کی اور آدم(ع) کے پھل کھانے سے لےکر توبہ قبول ہونے تک تین سو سال(۳۰۰) کا فاصلہ ہے جو دنیا کے وقت کے مطابق ہے جب کہ آخرت کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہے یہی فاصلہ مغرب سے عشا کا ہے لہذا

۱۸۴

آدم(ع) نے تین رکعت نماز ادا کی ایک رکعت اپنے گناہ کے بدلے اور ایک رکعت حوا کی غلطی کے ازالے کے طور پر اور ایک رکعت مغفرت کرنے کے واسطے، خداوند تعالیٰ نے ان تین رکعات کو میری امت پر فرض کر دیا اور یہ وہ وقت ہے کہ اس وقت دعائیں مستجاب ہوتی ہیں میرے پروردگار کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو کوئی بھی اس وقت دعا کی جائے گی وہ قبول کرے گا پس یہ ہیں وہ نمازیں جن کا خدا نے مجھے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے ” پس تم اﷲ کی تسبیح کیا کرو جب صبح کرو اور جب تم شام کرو ” (روم،۱۷)

اور نماز عشاء اس لیے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہےکہ قبر تاریک ہے اور قیامت بھی تاریکی رکھتی ہے تو یہ نماز اس بندے ( پڑھنے والے) کی قبر کو روشن کرے گی اور پل صراط پر انہیں نور عطا کیا جائے گا۔ خدا کے بندے جب بھی نماز عشاء قائم کرتے ہیں خدا ان کے بدنوں پر آگ حرام کردیتا ہے۔ یہ نماز خداوند تعالی نے مجھ سے پہلے رسولوں پر بھی فرض کی تھی۔

نماز فجر اس لیے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کہ آفتاب کے ظاہر ہوتے ہی شیطان بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نماز اس کے ظاہر ہونے سے پہلے ادا کی جاتی ہے اور اس سے قبل کہ کافر اس (شیطان) کے لیے سجدہ کرے خدا کے بندے خدا کو سجدہ کر لیں اس نماز میں جلدی خدا کے ہاں محبوب ترین ہے یہ وہ نماز ہے کہ فرشتے اس پر شب و روز گواہ ہیں۔

یہودی نے کہا کہ اے محمد(ص) آپ نے درست فرمایا۔ اب آپ(ص) مجھے بتائیں کہ نماز سے قبل بدن کے صرف چار حصوں کو ہی پاکیزہ کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ہے۔(وضو)

آپ(ص) نے فرمایا کہ جب شیطان نے آدم(ع) کو وسوسے میں ڈال کر بہکایا اور وہ درخت کے قریب جاکر پھل توڑ کر کھانے لگے تو ان کی توقیر میں کمی کردی گئی اور ان کے جسموں سے لباس اور زیور اتروا لیے گئے آدم(ع) نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر گریہ کیا۔ جب خدا نے ان کی توبہ قبول کیا تو بدن کے ان چار اعضاء کا وضو ان کی امت پر فرض کیا اول یہ کہ چہرے کو دھوئیں کہ جس چہرے سے آدم(ع) نے درخت کو دیکھا تھا۔ دوئم یہ کہ ان ہاتھوں کو دھوئیں کہ  جو آدم(ع) نے درخت کی طرف پھل توڑنے کے لیے بڑھائے تھے۔ سوئم یہ کہ سر کا مسح کریں کیوںکہ آدم(ع) نے بہ حالت پشیمانی اپنا ہاتھ سر پر رکھا تھا۔

۱۸۵

اور چہارم یہ کہ پاؤں کو مسح کریں کیوں کہ انہیں پاؤں پر چل کر وہ شجرممنوعہ کی طرف گئے تھے۔ اور میری امت پر منہ میں پانی ڈالنے (کلی کرنے) کو سنت قرار دیا تاکہ دل حرام سے پاک ہو اور ناک میں پانی ڈالنا اس لیے قرار دیا تاکہ روز قیامت دوزخ گندگی اور بد بو سے محفوظ رہ سکیں یہودی نے کہا اے محمد(ص) آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ آپ(ص)  یہ فرمائیں کہ وضو کا فائدہ کیا ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا جب ہاتھ پر پانی ڈالا جاتا ہے تو شیطان دور ہوجاتا ہے جب منہ میں پانی ڈالتے ہیں تو خدا دل و زبان کو نور حکمت سے منور کر دیتا ہے۔ جب وضو کا پانی ناک میں ڈالا جاتا ہے تو خدا اسے دوزخ سے امان دیتا ہے اور جنت کی خوشبو کو اس کے لیے مخصوص فرما دیتا ہے جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو خدا اس کا چہرہ روشن کردیتا ہے اور روز قیامت کچھ لوگ روشن چہروں والے اور کچھ سیاہ چہروں والے ہوں گے، جب دوںوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں تو خدا آگ کی تپش کو اس پر حرام کردیتا ہے اور جب پاؤں کا مسح کیا جاتا ہے تو اس دن کہ جب قدموں میں لغزش ہوگی خداوند کریم اس کو پل صراط عبور کروا دے گا، یہودی نے کہا اے محمد(ص) آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا اب آپ(ص) فرمائیں کہ غسل کو صرف جنابت کی صورت میں ہی کیوں واجب کیا گیا جب کہ پیشاپ اور پاخانہ کے بعد کیوں فرض نہیں ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا جب آدم(ع) نے درخت سے پھل کھایا تو اس کا اثر ان کے بدن کے رگ و پے میں آگیا اور جب انہوں نے اپنی زوجہ سے مقاربت کی تو یہ اثر  ان کے نطفے میں منتقل و شامل ہوگیا تو خدا نے واجب قرار دیا کہ قیامت تک جنابت کے بعد غسل کیا جائے لیکن پیشاپ پینے والی اشیاء کا فضلہ ہے اور خوراک کا فضلہ پاخانہ ہے اس لیے صرف اس پر وضو کو لازم قرار دیا اور واجب کیا۔

یہودی نے یہ سن کر رسول خدا(ص) سے کہا کہ آپ(ص) نے درست فرمایا اے محمد(ص) یہ بتائیں کہ وہ شخص جو حلال جنابت کے بعد غسل کرے کےلیے کیا اجر رکھا گیا ہے۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جب مومن اپنی زوجہ سے جماع کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس پر اپنے پر کھول کر رحمت نچھاور کرتے ہیں اور جب غسل کرتا ہے تو اس پانی کے ہر ایک قطرے سے اس کے لیے بہشت میں گھر بناتے ہیں اور غسلِ جنابت خدا اور بندے کے درمیان ایک راز

۱۸۶

ہے۔ یہودی نے کہا اے محمد(ص) آپ نے بالکل سچ فرمایا اب میرے چھٹے سوال کا جواب دیں کہ وہ کونسی پانچ چیزیں ہیں جو توریت میں مندرج ہیں جن کے بارے میں خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ موسی بن عمران(ع) کی طرف ان کی پیروی کریں۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر میں نےتمہیں ان کے متعلق بتا دیا تو کیا میرا اعتراف کر لوگے ( میری نبوت تسلیم کر لو گے) یہودی نے اقرار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا توریت میں لکھا ہے محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں( عبرانی) زبان میں میرے لیے لفظ طاب استعمال ہوا تھا اس کے بعد آپ(ص) نے ان آیات کی تالوت فرمائی، ” جیسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے ہاں توریت اور انجیل میں“ ( اعراف، ۱۵۷) ایک رسول کی بشارت دینے والا کیوں کہ میرے بعد جو آئے گا اس کا نام احمد(ص) ہوگا“( صف) اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا دوسری چیز جو توریت میں لکھی ہے وہ یہ ہے کہ میرے وصی کا نام علی ابن ابی طالب(ع) ہے سوئم اور چہارم یہ کہ میرے فرزندان حسن(ع) اور حسین(ع) اور پنجم یہ کہ ان کی ماں فاطمہ(س) ہے جو کہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہے توریت میں میرا نام طاب(ص) میرے وصی کا ایلیا(ع) میرے دونوں سبط شبر(ع) اور شبیر(ع) کے نام سے پکارے گئے ہیں یہ دونوں فاطمہ(س) کے نور ہیں۔

یہودی نے کہا آپ(ص) نے بالکل درست فرمایا آپ(ص) بتائیں کہ اہل بیت(ع) کی فضیلت کیا ہے آپ(ص) نے جواب دیا، میں تمام انبیاء(ع) پر برتری رکھتا ہوں ہر نبی نے اپنی قوم کے لیے دعا کی ہے جب کہ میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لیے رکھ چھوڑا ہے اور میں اپنی امت کی شفاعت روزِ قیامت کروں گا اور میرے اہل بیت(ع) اور ان کی ذریت(ع) کی فضیلت اس طرح کی ہے جس طرح پانی کی فضیلت دوسری اشیاء پر ہے کہ اس سے زندگی کا وجود ہے۔ اور محبت اہل بیت(ع) کمال دین ہے۔ پھر آپ(ص) نے یہ آیت تالوت فرمائیں۔

”آج میں نے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا ہے اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا ہے۔۔۔۔ تاآخر ( مائدہ، ۳)

یہودی نے کہا اے محمد(ص) آپ  نے بالکل سچ بیان فرمایا اب مجھے یہ بتائیں کہ مردوں کو

۱۸۷

عورتوں پر کیا برتری ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا جس طرح آسمان کی برتری زمین پر اور پانی کی برتری مٹی پر ہے کہ پانی سے ہی زمین کی زندگی ہے۔ اسی طرح مردوں سے عورتیں زندہ ہیں اگر مرد نہ ہوتے تو عورتیں پیدا نہ کی جاتیں خدا فرماتا ہے۔ ” مرد عورتوں کے سرپرست ہیں“ ( نساء، ۳۴) اسی لیے خدا نے بعض کو بعض دوسروں پر برتری دی ہے۔ پھر یہودی نے دریافت کیا ، کہ خدا نے یہ کس لیے فرمایا کہ آدم(ع)کو طین(مٹی) سے پیدا کیا اور باقی مٹی سے حوا کو خلق کیا جبکہ اول بندہ جس نے عورت کی پیروی کی وہ آدم(ع) تھے کیا  یہ بات صرف دینا ہی کے لیے تو نہیں۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح عورتوں کو حیض آتا ہے اور انہیں اس حالت میں عبادات سے روکا گیا ہے جب کہ مردوں کے لیے حیض نہیں ہے۔

یہودی نے کہا بالکل درست فرمایا آپ(ص) نے اے محمد(ص) ۔ اب مجھے بتائیں کہ آپ(ص) کی امت پر خدا نے تیس روزے فرض کیے ہیں جبکہ پچھلی امتوں پر تیس(۳۰) سے زیادہ واجب کیے گئے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کب آدم(ع) نےشجر ممنوعہ سے پھل توڑکر کھایا تو وہ ان کے شکم میں تیس (۳۰) دن رہا۔ خدا تعالی نے اس کے بدلے ان کی نسل پر تیس (۳۰) روز کی بھوک اور پیاس کو فرض کیا۔ اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے رات کو کھانے کی اجازت دی اس لیے یہی آدم(ع) پر فرض ہوا اور میری امت پر بھی پھر رسول خدا(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ” تم پر روزے لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے جو گذرے ان پر بھی فرض تھے شاید کہ تم تقوی اختیار کرو یہ چند روز کی زندگی ہے۔“ (بقرہ، ۱۸۳)

یہودی نے کہا آپ(ص) نے سچ کہا یہ بتائیے کہ روزے کی جزا خدا کیا دیتا ہے آپ(ص) نے جواب دیا جو مومن خدا کے فرمان کے مطابق روزہ رکھتا ہے تو خدا اس کے سات اجر عطا کرتا ہے۔

اول :۔       اس کے بدن سے حرام کو پگھلا دیتا ہے۔

دوم :۔       اﷲ کی رحمت کے قریب ہوجاتا ہے۔

سوم :۔      اس کے باپ آدم(ع) کے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔

چہارم :۔     موت کے وقت جان کنی کی تکلیف اس پر آسان کردیتا ہے۔

۱۸۸

پنجم :۔       قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس سے امان دیتا ہے۔

ششم :۔     خداوند کریم اس کو دوزخ کی آگ سے برائت نامہ عطا کرتا ہے۔

ہفتم :۔      اور اس کو جنت کے پھل کھلاتا ہے۔

یہودی نے اقرار کیا کہ یہ سچ ہےپھر آپ(ص) سے کہا، مجھے بتائیں کہ خدا نے وقوف عرفات کا حکم عصر کے بعد کیوں دیا۔؟

آپ(ص) نے فرمایا ۔ عصر ہی وہ ساعت ہے جب آدم(ع) نے غلطی کی اس لیے خدا نے فریاد گذاری کے لیے اس وقت کو بہترین جگہ پر قرار دیا اور جس وقت لوگ میدان عرفات سے واپس ہوئے وہ ضامنِ بہشت ہوا یہی وہ ساعت ہے جب خدا نے آدم(ع) کو کلمات  تعلیم کیے تھے ان کو توبہ قبول کی تھی اور یہ کہ وہ توبہ کو قبول کرنے والا  اور مہربان ہے پھر پیغمبر(ص) نے فرمایا قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر مبعوث کیا خدا نے کچھ باب( دروازے) مقرر فرمائے ہیں جو کہ آسمان میں ہیں باب رحمت۔ باب توبہ۔ بابِ حاجات۔ بابِ تفضل۔ بابِ احسان۔ بابِ جود و کرم۔ اور بابِ عفو جو کوئی بھی اس وقت عرفات میں جمع ہو اس پر یہ دروازے کھول دیئے جاتے ہیں رب العزت سوا دو لاکھ فرشتوں کو معمور فرماتا ہے کہ اہل عرفات پر رحمت بھیجیں اور جب وہ فرشتے واپس ہوتے ہیں تو خدا ان کو اہل عرفات پر گواہ کرتا ہے کہ یہ دوزخ سے ہٹادیئے گئے اور بہشت ان پر واجب کردی گئی ہے پھر ہاتف اس وقت ندا دیتا ہے کہ تمہیں معاف کر دیا گیا ہے اور تم نے جس طرح مجھے ( خدا کو) خوشنود کیا ہے میں تمہیں خوشنود کرتا ہوں۔ یہودی نے کہا آپ(ص) نے بالکل سچ فرمایا اب آپ(ص) میرے آخری سوال کی وضاحت فرما دیجئے کہ وہ سات خصوصیات کیا ہیں جو آپ(ص) کو باقی انبیاء(ع) سے مختلف عطا کی گئی ہیں اور آپ(ص) کی امت کو دیگر امتوں کی نسبت بخشی گئی ہیں۔

رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا۔ خدا نے مجھے اور میری امت کو جو سات خصوصیات دی ہیں وہ یہ ہیں۔

اول :۔       فاتحہ الکتاب۔

دوم :۔       مسجد میں اذان و جماعت

سوم :۔      جمعہ کے روز نماز ( نماز جمعہ)

۱۸۹

چہارم:۔      تین نمازوں میں جہر قرآئت ( اونچی آواز سے قرآئت کرنا)

پنجم :۔       بیماری اور سفر کی حالت میں عبادت سے رخصت

ششم:۔      نمازِ میت

ہفتم:۔       اہل کبائر کی شفاعت

یہودی نے کہا آپ(ص)نے بالکل ٹھیک فرمایا اب یہ بتائیے کہ فاتحہ الکتاب کو پڑھنے کا اجر کیا ہے۔ جنابِ رسول خدا(ص)نے فرمایا جو کوئی فاتحہ الکتاب ( سورہ فاتحہ) پڑھے گا تو خدا ہر اس آیت کا ثواب جو کہ آسمان سے نازل ہوئی ہے اس کو عطا کرے گا اور اذان دینے کا ثواب یہ ہے کہ موذن ، انبیاء و صدیقین، صالحین اور شہدا کے ساتھ محشور ہوگا۔

اور نمازِ جماعت ادا کرنے کا ثواب یہ ہے کہ میری امت کی صفیں ملائکہ کی صفوں کے برابر ہونگی جو کہ آسمان میں قائم کی جاتی ہیں کہ جس کی ایک رکعت چوبیس رکعتوں کے برابر اجر و ثواب رکتھی ہے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین رکعت اور چالیس سال کی عبادت کے برابر ثواب رکتھی ہے روزِ قیامت جب اولین و آخرین اکٹھے ہوں گے تو جو مومن بھی جماعت کے ساتھ رکعات ادا کرتا رہا ہوگا اﷲ جل جلالہ اس کے خوف کو کم کردے گا جو کہ اس دن سے متعلق وہ ( بندہ) رکھتا ہوگا اور اس بندے کے لیے خدا بہشت کا حکم دے گا جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔

دوران نماز قرائت بالجہر کرنے سے دوزخ کے شعلے اس سے اتنے دور کردئیے جائیں گے کہ جہاں تک اس کی آواز جاتی رہی وہ بندہ خوش ہوکر پل صراط سے گذرے گا اور جنت میں داخل ہوگا جس کسی نے بھی خدا کے لیے نماز پڑھی ہوتو خدا اس پر بہشت واجب کردے گا مگر یہ کہ وہ منافق اور والدین کا عاق شدہ نہ ہو۔ اور میری شفاعت میری امت کے لیے ہے مگر یہ کہ وہ مشرک اور ظلم کرنے والا نہ ہو۔ یہودی نے کہا آپ(ص) نے بالکل سچ بیان فرمایا اے محمد(ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ(ص) اس کے بندے اور رسول اور خاتم الانبیاء اور امامِ المتقین(ص) ہیں جب یہ یہودی مسلمان ہوگیا۔ تو اس نے آںحضرت(ص) کی خدمت میں ایک سفید کاغذ پیش کیا جس پر وہ سب کچھ لکھا تھا جو کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے بیان فرمایا تھا یہودی نے کہا یا رسول اﷲ(ص) قسم

۱۹۰

ہے اس خدا کی جس نے آپ(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے یہ نسخہ میں نے ان الواح سے نقل کیا ہے جن کو خدا نے موسی بن عمران(ع) پر نازل کیا۔ میں نے آپ(ص) کی فضیلت کو توریت میں پڑھا تھا مگر اس میں شک کرتا تھا چالیس(۴۰) سال تک میں آپ(ص) کے نام کو توریت میں سے مٹاتا رہا مگر جب دوسرے دن دیکھتا تو اسی جگہ لکھا ہوا پاتا اور توریت میں یہ بھی پڑھتا کہ ان مسائل کا جواب آپ(ص) کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکے گا اور اس وقت سے کہ جب سے میں یہاں آیا ہوں جبرائیل(ع) کو آپ(ص) کے دائیں میکائیل(ع) کو بائیں اور آپ(ص) کے وصی(ع) کو آپ(ص) کے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔

جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تو نے بالکل سچ کہا ہے جبرائیل(ع) میرے دائیں طرف اور میکائیل(ع) میرے بائیں طرف ہیں اور یہ میرے وصی علی بن ابی طالب(ع) ہیں پس وہ یہودی ایمان لایا اور بہترین اسلام پر تھا۔

۱۹۱

مجلس نمبر۳۶

(۲۹ محرم سنہ۳۶۸ھ)

خدا اور داؤد(ع)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا نے داؤد(ع) کو وحی کی کہ اے داؤد(ع) میں دیکھتا ہوں کہ تم تنہائی میں گذر اوقات کررہے ہو۔ داؤد(ع) نے عرض کیا بار الہا میں نے تیری خاطر لوگوں کو چھوڑ رکھا ہےاور انہوں نے مجھے، پھر ارشاد ربانی ہوا تم خاموش کیوں رہتے ہو داؤد(ع) نے کہا رب العزت تیرے خوف سے میں خاموش رہتا ہوں، پر فرمایا گیا، تم اس قدر رنج و غم میں کیوں مبتلا ہو کہا تیری محبت نے مجھے رنج میں مبتلا کردیا ہے، پھر فرمایا گیا تم فقیر کیوں بنے ہوئے ہو حالانکہ میں نے تمہیں مالِ کثیر عنایت کیا ہے، داؤد(ع) نے عرض کیا بار الہا تیرے حق کو قائم کرنے کی خاطر میں فقیر ہوگیا ہوں، ارشاد رب العزت ہوا میں تمہیں خواری میں دیکھ رہا ہوں کیا وجہ ہے، کہا تیرے جلال اور تیری عظمت جو کہ تیری بلند صفت ہے کے سامنے میں بے حیثیت ہوں، تو فرمان خدا آیا تجھے خوشخبری ہو میرے فضل کی کہ اس دن جس دن مجھ ملاقات کرو گے تنہا نہ ہوگے اور برے اخلاق و اعمال سے دور رہو تاکہ روزِ قیامت جو چاہتے ہو اس تک پنہچ جاؤ۔

امام صادق(ع) فرماتےہیں کہ خدا نے داؤد(ع) کو وحی کی کہ اے داؤد(ع) مجھ سے خوش رہو اور میری یاد سے لذت طلب کرو، مجھ سے مناجات کی نعمت طلب کرو، میں جلد ہی گھروں کو فاسقین سے خالی کردوں گا  اور میری لعنت ظالموں پر ہے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جب خدا نے چاہا کہ ابراہیم(ع) کی روح قبض کرئے تو ملک الموت کو بھیجا، ملک الموت نےابراہیم(ع) سے کہا آپ(ع) پر درود ہو۔ ابراہیم(ع) نے کہا دعوت کے لیے آئے ہو یا موت کے لیے ملک الموت نے جواب دیا موت کے واسطے اور چاہئے کہ آپ اس کو قبول کریں۔ ابراہیم(ع) نے کہا کیا دوست بھی کبھی دوست کو موت دیتا ہے۔ ملک

۱۹۲

الموت واپس ہوئے اور خدا کے سامنے جاکر عرض کیا ۔ رب العزت آپ نے سنا ابراہیم(ع) نے کیا کہا ہے۔ ارشاد خداوندی ہوا دوبارہ جاؤ اور ابراہیم(ع) سے کہو تم اس دوست کو مت دیکھو جو دوست سے دوست کی ملاقات کو ہٹاتا ہے۔( روح قبض کرتا ہے) بلکہ اس دوست کو دیکھو جو تم سے ملاقات کا خواہش مند ہے اور  وہی تمہارا دوست ہے۔

۳ـ          حذیفہ بن اسید غفاری کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا اے حذیفہ بیشک میرے بعد تم پر علی بن ابی طالب(ع) خدا کی حجت ہے اس کی حیثیت کا انکار خدا کا انکار ہے اس کے ساتھ شرک خدا کے ساتھ شرک ہے اس کے بارے میں شک کرنا خدا کے بارے میں شک کرنا ہے اس سے الحاد خدا کے ساتھ الحاد ہے اس سے کفر خدا سے کفر ہے اس پر ایمان خدا پر ایمان ہے کیوںکہ وہ برادر رسول خدا(ص) ہے اس (خدا) کے رسول کا وصی اس کی امت کا امام اور سردار ہے وہ حبل اﷲ المتین و عروة الوثقی ہے۔ دو قسم کے بندے اس کے بارے میں ہلاکت کا شکار ہوں گے وہ دوست جو غلو کرے وہ مقصر ہے جبکہ علی تقصیر نہیں رکھتا اور دوم وہ جو اس سے بغض رکھے۔ اے حذیفہ کبھی علی(ع) سے جدا مت ہونا کہ کہیں مجھ ہی سے جدا ہوجاؤ۔ کبھی اس کی مخالفت مت کرنا کہ کہیں میرے مخالف ہوجاؤ علی(ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں جس کسی نے اسے غصہ دلایا وہ مجھے غصے میں لایا اور جس کسی نے سے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا۔

۴ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا موسی بن عمران(ع) نے خدا تعالیٰ سے عرض کیا بارالہا مجھے اپنی اس حکمت کے بارے میں بتا کہ بڑوں کو موت دیتا ہے اور بچوں کو چھوڑ دیتا ہے، رب العزت نے فرمایا اے موسی(ع) کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ میں انہیں(بچوں کو)خود رزق دیتا ہوں اور ان کی کفالت کرتا ہوں موسی(ع) نے کہاکیوں نہیں پروردگار تو کیسا بہترین وکیل اور کفالت کرنے والا ہے۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر پر وحی کی کہ اگر مجھے دوست رکھتے ہو اور چاہتے ہو کہ کل خطیرہ قدس میں مجھ سے ملاقات کرو تو دنیا میں تنہا غریب اور محزون و وحشت ناک رہو اس وحشت ناک پرندے کی طرح جو لوگوں سے وحشت زدہ اور اجاڑ بیابان میں زندگی بسر کرئے اور درختوں کے پتے کھاے اور چشمے کا پانی پیئے، رات کو تنہا سوئے

۱۹۳

اور پرندوں کے ساتھ پرواز نہ کرے ان سےبھی خوف  کھائے اور اپنے پروردگار سے محبت کرئے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو بندہ آرام کےوقت اپنے بستر پر جاکر سو بار لا الہ الا اﷲ کہے تو خدا اس کے لیے بہشت میں گھر بناتا ہے او جور کوئی اس وقت سو بار استغفار کرے تو اس کے گناہوں کو اس طرح اس سے گرادیا جاتاہے کہ جس طرح درخت کے پتے خزاں میں گرتے ہیں۔

۷ـ          انس بن مالک نے پیغمبر(ص) سے ” کل جبار عنید“ کی تفسیر کو نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ بندہ ہے جو کہنے سے انکار کرتا ہو”لا الہالا اﷲ “۔

۹ـ           امام باقر(ع) نے فرمایا ایک فرشتہ کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنے گھر کے دروزے میں کھڑا تھا فرشتے نے اس آدمی سے پوچھا اے بندہ خدا اپنے گھر کے دروازے پر کس لیے کھڑئے ہو اس شخص نے جواب دیا میرا ایک بھائی ہے جوکہ ابھی یہاں سے گذرے گا میں چاہتا ہوں کہ اس کو سلام کروں فرشتے نے پوچھا کہ وہ رشتے میں تمہارا بھائی ہے یا اس کے ساتھ کوئی کام ہے اس شخص نے کہا نہ وہ میرا حقیقی بھائی ہے اور نہ مجھے اس سے کوئی  کام ہے وہ میرا دینی بھائی ہے اور اس کے احترام کی خاطر میں اسے سلام کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی احوال پرسی کروں اور خدا تعالی کے واسطے ( فرمانِ ربی کے مطابق) اسے سلام کروں۔

فرشتے نے یہ سن کر کہا میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں وہ (خدا) تمہیں سلام بھیجتا ہے اور فرماتا بیشک تونے مجھے چاہا اور مجھے تلاش کیا میں تجھ پر بہشت واجب کردی، تجھے معاف کیا اور دوزخ سے امان دی۔

۹ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا جب رب العزت دیکھتا ہے کہ کسی قریہ (قوم) کے لوگ نافرمانی میں حد سے گزر گئے ہیں یہاں تک کہ صرف تین(۳) مومن اس پورے قریہ میں باقی رہ گئے ہیں تو وہ ندا دیتا ہے اور فرماتا ہے مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے۔ اگر تمہارے درمیان یہ دوست دار مومنین نہ ہوتے جو میرے عذاب کے خوف سے میری زمین اور مساجد اپنی نماز سے آباد کرتے ہیں اور بوقتِ سحر مغفرت طلب کرتے ہیں تو میں تمہیں نیچے لے جاتا ( غرق کردیتا۔ دفن کردیتا) اور مجھے اس کی کوئی پروا نہ ہوتی۔

۱۹۴

۱۰ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی اپنے گناہوں پر نادم اور ثواب پر شاد ہوتو ایسا بندہ مومن ہے۔

۱۱ـ           رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی مجھ پر صلواة بھیجے مگر میری آل پر نہ  بھیجے تو ہو بہشت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا جب کہ بہشت کی خوشبو پانچ سوسال کی مسافت جتنی دوری سے آتی ہے۔

۱۲ـ          امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے نقل کیا ہے کہ جنابِ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایک بیابانی عرب آیا اور آںحضرت(ص) کو ایک گل رنگ عبا پیش کی۔ جو آپ(ص) نے قبول کر لی آپ(ص) نے اس عربی جوان کہہ کر مخاطب کیا تو اس عربی نے آپ(ص) سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) خود کو بھی جوان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہاں میں جوان ابن جوان برادر جوان ہوں عربی نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) خود کو جوان کہیں تو یہ درست ہے مگر ابن جوان اور برادر جوان کیوں کر ہیں آپ(ص) نے فرمایا کیا تم قول خدا نہیں سنا کہ وہ ابراہیم(ع) کو جوان کہہ کریاد کرتا ہے میں ابن ابراہیم(ع) ہوں اس لیے ابنِ جوان ہوں اور برادر جواں اس لیے کہ بروزِ احد منادی نے آسمان سے ندا دی ”لا فتی الا علی لا سيف الا ذوالفقار “ کوئی شمشیر  ذوالفقار جیسی اور کوئی جوان علی(ع) جیسا نہیں ہیں میں برادرِ علی(ع) ہوں اس لیے برادرِ جوان ہوں۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک شخص نے حسین(ع) بن علی(ع) کو لکھا کہ مجھے دنیا اور آخرت سے آگاہ کریں امام عالی(ع) مقام  نے جواب میں لکھا۔

” بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ اما بعد جو کوئی غصے کی حالت میں خدا کی رضا کا طالب ہو تو خدا اس کے امور کی حفاظت کرتاہے اور جو کوئی غصے کی حالت میں لوگوں کی رضا طلب کرئے تو خدا اسے لوگوں کے درمیان چھوڑ دیتا ہے۔ والسلام۔

۱۴ـ          جنابِ حسین(ع) بن علی(ع) فرماتے ہیں میرے جد رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا واجبات خدا پر عمل کرو تاکہ تمہارا شمار سب سے زیادہ پر ہیزگار لوگوں میں ہو۔ جو کچھ خدا نے تقسیم کیا اس پر راضی رہو تاکہ اس کے وہ بندے کہلاؤ جو تونگری میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ محرمات خدا سے خود کو بچائے رکھو تاکہ صاحب تقوی کہلاؤ۔ بہترین ہمسائے بن جاؤ تاکہ مومن بندوں میں تمہارا شمار

۱۹۵

ہو ۔ اور اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ تاکہ مسلمان رہو۔

۱۵ـ          عبدالزاق روایت کرتا ہےکہ امام چہارم(ع) کی ایک کنیز آپ(ع) کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی کہ آپ وضو فرمالیں۔ اچانک پانی کا برتن اس کنیز کےہاتھوں سے چھوٹ کر امام(ع) کےلگا اور آپ(ع) زخمی ہوگئے۔ آپ(ع) نے اس کنیز کی طرف دیکھا تو اس نے کہا ” والکاظمین الغیظ“ کہ وہ لوگ جو خدا کے لیے اپنے غصے کو ضبط کر لیتے ہیں“ امام(ع) نے یہ سنا تو فرمایا ک میں نے اپنا غصہ ضبط کر لیا وہ پھر بولی” وہ لوگ جو خدا کی رضا کی خاطر تجھے معاف کیا اس کنیز نے پھر کہا” خدا احسان کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔“ امام(ع) نے فرمایا، جا میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کیا۔

۱۶ـ          ابن عباس(رض) فرماتے ہیں جب شیطان نے سونے اور چاندی سے بنائے گئے سکے اس دنیا میں پہلی بار دیکھے تو انہیں اٹھا کر سینے سے لگایا اور کہا تم دونوں میرے نورِ نظر ہو۔ میرے دل کا میوہ ہو پھر ان سکوں سے کہا میں اس کے علاوہ کوئی اور غرض نہیں رکھتا کہ بنی آدم ایک بت بنا کر اس کی پرستش کریں اور اسے دوست رکھیں اور دوئم یہ کہ وہ تمہیں دوست و عزیز رکھیں۔

۱۷ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا قرآن پڑھنے والے تین قسم کے لوگ ہیں۔

اول:۔ وہ بندے جو قرآن پڑھیں اور اسے کمائی کا ذریعہ بنائیں اور سلاطین و حکام کے چکر کاٹیں تاکہ وہ ان کی طرف متوجہ ہوں اور یہ ( قاری) دوسرے لوگوں پر غلبہ حاصل کریں۔

دوئم:۔ وہ لوگ جو قرآن کو پڑھیںاور اس کی حفاظت کریں مگر اس کی مقرر کردہ حدوں کا احترام نہ کریں اور ان پر عمل نہ کریں۔

سوئم:۔ وہ لوگ ہیں جو قرآن پڑھیں اور اسے اپنے مرضِ دل کا علاج قرار دیں۔ راتوں کو بیدار ( عبادت کے لیے) اور دن میں بھوکے رہیں مساجد میں اس کی قرآئت سے قیام کریں اور تلاوتِ قرآن کے باعث اپنے بستروں سے دور رہیں ایسے لوگوں سے خدا بلائیں دور رکھتا ہے اور ان کے دشمنوں کی سرکوبی کرتا ہے ان ہی کی وجہ سے آسمان سے بارش برساتا ہے۔ خدا کی قسم اس طرح قرآن پڑھنے والے کبریتِ احمر( سرخ گندھک) سے بھی زیادہ معدوم و کمیاب اور عزیزترین ہیں۔

۱۹۶

۱۸ـ          امام باقر(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا(ص) کا گزر ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا آپ(ص) نے اسے دیکھ کر فرمایا کیا میں تجھے ایک ایسے درخت کے متعلق نہ بتاؤں  جس کا بیج بہترین، جس کا میوہ زیادہ رس دار اور خوش ذائقہ ہے اور زیادہ منفعت بخش ہے اس شخص نے کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) مجھے مطلع کیجئیے۔ آپ(ص) نے فرمایا صبح و شام ”سبحان اﷲ والحمداﷲ و لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر “ کہا کرو، اسکی ہر تسبیح پر بہشت میں انواع و اقسام کے میوہ جات کے رس درخت اس بندے کے لیے مختص کیے جاتے ہیں اوریہ باقیات الصالحات ( وہ چیزیں یا انعام و نیکیاں جو مرنے کے بعد ملیں گی) ہیں اس شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) گواہ رہیں میں اپنے اس باغ کو فقراء صفہ جو کہ مسلمان ہیں کے لیے وقف کردیا اس وقت رب العزت نے یہ آیت نازل فرمایی” تو وہ جس نے دیا اور پرہیزگاری کی اور سب سے اچھی ( بات) کو سچ مانا تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کردیں گے۔ ( لیل، ۵ تا ۷)

۱۹ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا علی بن ابی طالب(ع) خلیفہ خدا و خلیفہ رسول(ص)، حجت خدا و حجتِ رسول خدا(ص) ہے وہ صفی خدا و صفی رسول خدا(ص) ہے وہ خلیل خدا اور خلیل رسول(ص) ہے، شمشیر خدا اور شمشیر رسول(ص) ہے۔ وہ میرا رفیق میرا وزیر اور وصی ہے اس کا دوست میرا دوست اور اس کا دشمن میرا دشمن ہے اسکے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے اس کے خلاف سازش میرے خلاف سازش ہے ۔ اس کی بات میری بات اور اس کا فرمان میرا فرمان ہے اس کی ہمسر میری دختر(س) ہے۔ اس کے فرزند(ع) میرے فرزند(ع) ہیں۔ علی(ع) سید اوصیاء ہے اورمیری امت میں سب سے بہترین ہے۔

۱۹۷

مجلس نمبر۳۷

( سلخ محرم سنہ۳۶۸ھ)

بعثتِ عیسیٰ(ع)

۱ـ           ابن عباس(رض) کہتے ہیں۔ جب عیسیٰ(ع) کی عمر تیس (۳۰) سال ہوگئی تو خدا نے انہیں بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا۔ عیسیٰ(ع) ایک روز بیت المقدس کے عقبہ( گھاٹی) میں جس کا نام رفیق تھا موجود تھے تو ابلیس نے وہاں آپ(ع) کو دیکھا اور ہمکلام ہوا اور کہنے لگا اے عیسیٰ(ع) کیا وہ تم ہی ہو جس کو خدا نے بن باپ کے پیدا کیا ہے۔ عیسی(ع) نے فرمایا وہ بزرگ تر ہے جس نے مجھے اس طرح پیدا کیا جیسے آدم(ع) و حوا(ع) کو پیدا کیا تھا۔ ابلیس نے کہا کیا وہ تم ہی ہو جس کی خدائی بہت بلند ہے کہ گہوارے میں کلام کرتا ہے آپ(ع) نے فرمایا یہ صرف اسی کی عظمت ہے جس نے مجھے شیر خواری میں قوت گویائی عطا کی اور اگر ہو چاہتا تو میری قوت گویائی سلب کر سکتا تھا، ابلیس نے کہا کیا تم وہی خدا ہو جو مٹی کے پرندے بنا کر انہیں پرواز کرواتا ہے عیسیٰ(ع) نے جواب دیا یہ اسی کی عظمت کے بدولت ہے جس نے مجھے پیداکیا اور انہیں ( مٹی کے پرندوں کو ) میرے لیے مسخر کیا۔ ابلیس نے کہا کیا تم وہی ہو جو اپنی ربوبیت سے بیماروں کو شفا دیتا ہے عیسیٰ(ع) نے جواب دیا یہ اس کی بزرگی ہے کہ اس نے اپنے بندے کو یہ شرف بخشا کہ وہ بیماروں کو شفا دے ورنہ وہ چاہتا تو مجھے بھی بیمار کرسکتا تھا، ابلیس نے کہا کیا تم وہی ہو جو اپنی خدائی سے مردوں کو زندہ کرتا ہے آپ(ع)نے جواب دیا یہ اس رب العزت کی بزرگی ہے کہ اس نے مجھے اجازت دی کہ میں انہیں زندہ کروں ورنہ اگر وہ مجھےزندگی دے سکتا ہے تو مار بھی سکتا ہے ، ابلیس نے کہا تم اپنی خدائی سے دریا عبور کرتے ہو جب کہ تمہارے پاؤں بھی پانی سے تر نہیں ہوتے عیسیٰ(ع) نے فرمایا یہ میرا خدا ہی ہے جس نے دریاؤں کو میرے لیے رام کردیا اگر وہ چاہتے تو مجھے غرق بھی کرسکتا ہے ابلیس نے پھر بہکایا اور کہا ایک دن آئے گا کہ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب تیرے قدموں کے نیچے ہوگا تمام تدابیرِ عمل تمہارے لیے ہوں گی

۱۹۸

 اور تم ہی رزق تقسیم کرو گے عیسیٰ(ع) نے ابلیس کی ان باتوں پر نہایت سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور ابلیس سے فرمایا خدا ان تمام باتون سے منزہ ہے جو تو کہتا ہے اگر میں اس کی پاکیزگی بیان کرنے لگ جاؤں تو زمین و آسمان بھر جائیں اور وہ روشائی جس سے اس کے علوم لکھے جائیں عرش کے وزن کے برابر ہو جائے اور وہ راضی ہوجائے، جب ابلیس لعین نے یہ سنا تو بد حواس ہو کر وہاں سے بھاگا ۔ اور دریائے خضرا میں جاگرا ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ اس دریا میں سے ایک جنیہ عورت باہر نکلی اور دریا کے کنارے چلنے لگی ناگاہ اس کی نظر ابلیس پر پڑی جو ایک پتھر پر سجدہ کی حالت میں تھا اور اس کی آنکھوں سے اشک جاری تھے اس جنیہ نے تعجب سے پوچھا وائے ہو تجھ پر اے ابلیس تو اتنے لمبے سجدے سے کیا امید رکھتا ہے ابلیس نے کہا اے عورت میں اس دن کی امید میں ہوں جب خدا اپنی قسم پوری کرے گا اورمیرے اعمال کے بدلے مجھے دوزخ میں ڈالے گا میں امید رکھتا ہوں کہ اس دن کی رحمت سے میں دوزخ سے چھٹکارا پاؤں گا۔

۲ـ              امام صادق(ع) نے فرمایا روزِ قیامت خدا اپنی رحمت کو اس طرح پھیلا دے گا کہ ابلیس بھی اس رحمت کی طمع کرے گا۔

۳ـ             امام صادق(ع) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بھی بدخلقی کرے گا تو وہ جان لے کہ اس نے خود کو عذاب میں مبتلا کر لیا۔

۴ـ              امام باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی بے خلقی  اختیار کیے ہوئے ہے اس کا ایمان اس سے منقطع ہے۔

۵ـ              ابوسخیلہ کہتے ہیں میں حضرت ابوذر(رح) کے پاس گیا اور ان سے کہا ، اے ابو ذر(رح) میں دیکھتا ہوں کہ اختلاف نے سر ابھار لیا ہے آپ کا اس بارے کیا خیال ہے ابوذر(رح) نے کہا تم ان دو کو مضبوطی سے تھام لو۔ کتاب خدا اور دوئم استادِ محترم علی بن ابی طالب(ع) کیوں کہ میں نے جنابِ رسول خدا(ص) کو فرماتے سنا ہے  کہ علی(ع) وہ  اول بندہ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور وہ اول بندہ ہیں جن کا ہاتھ روزِ قیامت میرے ہاتھ میں ہوگا وہ فاروق و صدیق اکبر ہیں جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے۔

۶ـ              امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کی ہے کہ ایک مرد اپنی عورت کی شکایت لے کر امیرالمومنین(ع) کے پاس آیا امیرالمومنین(ع) نے اس کی شکایت سن کر فرمایا اے لوگو کسی بھی وجہ سے عورتوں

۱۹۹

 کے مطیع مت بن جانا ان کو اپنے مال کا امین مت بنا دینا۔، اپنے عیال کی سرپرستی مت سونپ دینا ورنہ اپنی مرضی کے مطابق ان کی پرورش کریں گی اور مالک کے دستور سے تجاوز کریں گی کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں یہ وقتِ ضرورت پرہیز نہیں کرتیں اور شہوت پر صبر نہیں کرتیں۔ حیض کو بڑھاپے تک ختم اور خود بینی کو ترک نہیں کرتیں چاہے ماں بننے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اور کفران نعمت کی برائی کو ترک نہیں کرتیں اور خوبیوں کو بھولی جاتیں ہیں یہ بہتان لگانے میں جلدی کرتی ہیں اور طغیانی و سرکشی میں سبقت کرتی ہیں اور شیطان کر اتباع کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ تم ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو شاید یہ اچھا کردار اپنا لیں۔

۷ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کا ہاتھ پکڑا اور باہر تشریفِ لے گئے اور فرمایا اے معظثرِ (گروہ) انصار، اے معثر بنی ہاشم، اے معثرِ فرزندان عبدالمطلب، میں محمد رسول اﷲ(ص) ہوں آگاہ ہو جاؤ کہ مجھے رحمت سے خلق کیا گیا ہے اورمیرے خاندان کے چار افرادِ اسی طینت پر پیدا کیے گئے ہیں ایک  میں خود دوسرے علی ابن ابی طالب(ع) تیسرے حمزہ(رض) اور چوتھے جعفر(رض) ایک شخص نے سوال کیا، یا رسول اﷲ(ص) کیا یہ سب روزِ قیامت آپ کے ساتھ موجود ہوں گے۔ آپ(ص) نے فرمایا تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے اس دن بجز ان کے کوئی سوار نہ ہوگا میں(ص) اور علی(ع) و فاطمہ(س) اور پیغمبر حضرت صالح(ع) اس دن سواریوں پر سوار ہوں گے فاطمہ(س) اس دن میرے ناقہ غضباء بیٹھی ہونگی، جنابِ صالح(ع) اس اونٹنی پر موجود ہوں گے جس کی ٹانگیں کاٹ دی گی تھیں، علی(ع) بہشت کی ایک ایسی اونٹنی پر بیٹھے ہوں گے کہ جس پر دو سبز حلے اور جسکی مہار یاقوت کی ہوگی اور بہشت اور دوزخ کے درمیان کھڑے ہوں گے اس وقت لوگوں کے بدنوں پر مہاروں کی مانند پسینے کی لمبی لمبی دھاریں بہہ رہی ہوں گی یکا یک عرش کی طرف سے ہوا چلے گی اور لوگوں کا پسینہ خشک کردے گی اس وقت صدیقین اور مقرب فرشتے کہیں گے یہ کون ہے کیا کوئی مقرب فرشتہ ہے یا کوئی پیغمبر مرسل ہے کہ جس کے آنے سے یہ ہوا چلی ہے تو منادی ندا دے گا یہ علی بن ابی طالب(ع) ولیِ خدا اور دنیا اور آخرت میں برادر رسول(ص) ہیں۔

۲۰۰