مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277349
ڈاؤنلوڈ: 6925

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277349 / ڈاؤنلوڈ: 6925
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہچانتا ہے اورپھر بھی میری نافرمانی کرتا ہے تو میں اس پر ایک ایسا بندہ مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں پہچانتا ( یعنی ظلم کرے اور خوف خدا نہ رکھتا ہو)

۱۳ـ          محمد بن حرب ہلالی امیر مدینہ نے کہا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا عافیت پوشیدہ نعمت ہے جب ملتی ہے تو لوگ بھول جاتے ہیں اور جب نہیں ملتی تو اسے یاد کرتے ہیں پھر فرمایا عافیت ایسی نعمت ہے کہ اس کا شکر عجز و انکساری سے کرنا چاہئیے۔( یا انسان اس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے)

۱۴ـ          ابو زید نحوی انصاری کہتے ہیں کہ میں نے خلیل بن احمد عروض سے پوچھا کہ لوگوں نے علی(ع) کو کیوں چھوڑا حالانکہ وہ رسول(ص) کے رشتے دار تھے ۔ مسلمانوں میں مقام رکھتے تھے اسلام کی خاطر انہوں نے نے تکلیفیں اٹھائیں خلیل نے کہا خدا کی قسم ان کا نور تمام نور پر غالب تھا ہر منقبت میں وہ سبقت رکھتے تھے۔ لیکن لوگ مختلف قصے کہاںیاں رکھتے ہیں کیا تم نے سنا نہیں کہ شاعر کہتا ہے

                     ہرشکل کو اپنے مطابق ڈھال لیا

                                             فیل(ہاتھی) کو فیل کی طرح نہ دیکھا

جبکہ ریاستی شاعر نے عباس ابن احنف کے ان اشعار کو یوں ڈھال لیا اور ایک مختلف معنی میں بیان کیا کہ ان شعروں کے وزن میں کوئی فرق نہ پڑا مگر مطلب جدا ہوگیا میں ( ابوزید) نے جواب میں کہا لوگ با ہم شکلوں میں مدغم ہوگئے ہیں گناہ گار اور بے گناہ کا فرق مٹ گیا ہے” حسبنا اﷲ و نعم الوکيل“

۲۲۱

مجلس نمبر۴۱

( چودہ صفر سنہ۳۶۸ھ)

عجائبات نگاہِ رسول(ص) میں

۱ـ           عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ ایک روز ہم رسول خدا(ص) کے ہاں موجود تھے کہ آپ(ص) فرمانے لگے گذشتہ و آئندہ عجائبات میرے مشاہدےسے گذرے ہیں، قاسم کہتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ہماری جان اور ہمارے اہل و عیال آپ(ص) پر قربان کچھ ہمیں بھی بیان فرمائیں۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں نے  اپنی امت میں سے ایک شخص دیکھا کہ ملک الموت آئے اور چاہا کہ اس کی روح قبض کریں مگر اس شخص کے احسان نے جو وہ اپنے ماں باپ پر کرتا تھا نے ملک الموت کو روک دیا۔

پھر مین دیکھا کہ میری امت کے ایک شخص پر عذابِ قبر شروع ہونے لگا ہے مگر اس کے وضو نے عذابِ قبر کو روک دیا پھر میں نے دیکھا کہ میرے ایک امتی کو شیطان گردن سے  پکڑنا چاہتا ہے مگر اس شخص کے ذکرِ خدا نے اسے شیطان سے نجات دلائی پھر دیکھا کہ ایک شخص پر فرشتہ عذاب کرنا چاہتا ہے مگر اس کی نماز اسے عذاب سے بچا گئی۔

پھر میں نے دیکھا میرا ایک امتی تشنگی سے بے حال ہے اور جب وہ حوض کے پاس جاتا ہے منع کردیا  ہے لیکن اس کے رکھے ہوئے ماہِ رمضان کے روزے آتے ہیں اور اسے سیراب کرجاتے ہیں۔

پھر دیکھا کہ میری امت کا ایک شخص جو ہر طرح سے انبیاء(ع) کے نزدیک ہوتا ہے مگر اسے اٹھا دیا جاتا ہے لیکن اس کا غسل جنابت آتا ہے اور اسے میرے پہلو میں بٹھا دیتا ہے۔

پھر میں نے دیکھا کہ میری امت میں سے ایک آدمی جو چھ(۶) وجوہات کی بنا پر تاریکی میں تھا کاحج اور عمرہ آیا اور اسے تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے گیا۔

۲۲۲

پھر میں نے دیکھا کہ میرا امتی مومنین سے بات کرنا چاہتا ہےمگر وہ اس سے بات نہیں کرتے مگر اس کا صلہ رحم آیا اور ان مومنین سے مخاطب ہو کر کہا اے مومنین اس سے بات کرو کہ یہ صلہ رحمی کرتا رہا ہے تو مومنین سے اس سے ہاتھ ملایا اور بات کرنے لگے اور اس کے ہمراہ ہو گئے پھر یہ دیکھا کہ ایک امتی اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر رکھ رکھ کر آگ کے شراروں سے بچنا چاہ رہا ہے تو اس کا صدقہ اسے اس آگ سے بچانے کا سبب بنا۔

پھر میں نے دیکھا کہ میری امت میں سے ایک شخص کو مامورینِ دوزخ پکڑ کر لے جارہے ہیں تو اس کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر آئے اور اس کی رہائی کا سبب بنے اور اسے ملائکہ رحمت کے سپرد کردیا۔

پھر میں نے دیکھا کہ میرا ایک امتی، زانو کے بل آیا اس کے اور رحمتِ خداوندی کے درمیان پردہ حائل ہے تو اس شخص کے حسن خلق نے اسے وارد رحمت کردیا۔

پھریہ نظر آیا کہ ایک امتی کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے اور وہ پریشانی کی وجہ سے خاموش ہے اس وقت اس کی خدا  خوفی کام آئی اور اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دے گئی۔

پھر میں نے دیکھا کہ میری امت کا ایک شخص جس کا میزان سبک تھا کی نمازیں جو کہ وہ بہت زیادہ ادا کیا کرتا تھا کام آئیں اور اسے میزان کے مرحلے سے نکال کر لے گئیں۔

پھر مجھے میرا ایک ایسا امتی نظر آیا جو دوزخ کے کنارے پر تھا مگر اس کی وہ امید جو وہ خدا سےلگایا کرتا تھا آئی اور اسے دوزخ سے دور لے گئی۔

پھر دیکھا کہ میری امت میں سے ایک شخص جس کا سر آگ میں تھا مگر اسے اس کے وہ اشک جو وہ خوف خدا کی وجہ سے بہایا کرتا تھا آئے اور اسے باہر نکال کر لے گئے۔

پھر میں نے دیکھا کہ میرا ایک امتی جو کجھور کی اس شاخ جو تیز ہوا میں لرزتی ہے کی طرح پلِ صراط پر لرز رہا تھا مگر اس کی اس خوش گمانی نے جو وہ خدا کے ساتھ رکھتا تھانے اس کا لرزہ ختم کردیا اور اسے پل صراط پر سے گزار دیا۔

۲۲۳

پھر میں نے  دیکھا کہ میری امت میں سے ایک آدمی جو کبھی سر کے بل کبھی ہاتھوں کے بل اور کبھی پلِ صراط سے چمٹا ہوا  دکھائی دیتا ہے کا وہ درود کام آیا جو وہ مجھ(ص) پر بھیجتا تھا اور اس درود نے اسے پاؤں پر کھڑا کر کے پل صراط پر سے گذار دیا۔پھر میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا جو بہشت کے دروازے پر کھڑا ہے مگر دروازہ اس پر بند ہے پھر وہ جس دروازے پر بھی جاتا وہ اس پر بند ہوجاتا مگر اس کی وہ گواہی ” لا الہ الا اﷲ“  جو اس نے سچائی کے ساتھ دی تھی نے بہشت کے دروازے اس کے لیے کھول دیے۔

وفاتِ حضرت موسیٰ بن عمران(ع)

۲ـ           عمارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) نے عرض کیا کہ آپ مجھے وفات موسی بن عمران(ع) سے آگاہ کریں آپ نے فرمایا جب ان کی موت کا وقت آیا اور ان کی عمر تمام ہوئی اور ان کی خوراک ختم ہوگئی تو ملک الموت ان کے پاس آئے اور کہا درود ہو تم پر اے  کلیمِ خدا، موسیٰ(ع) نے کہا تم پر بھی درود ہو ، تم کون ہو کہا میں ملک الموت ہوں پوچھا کس لیے آئے ہو کہا آپ کی جان قبض کرنے آیا ہوں موسی(ع) نے کہا تم کہاں سے میری روح قبض کروگے کہنے لگے آپ(ع) کےدہن سے کہا کہ کیوںکر ممکن ہے جبکہ میں نے اس کے ساتھ خدا سے کلام  کیا ہے کہا آپ کے دونوں ہاتھوں سے کہا کس طرح کہ میں نے ان سے توریت کو اٹھایا ہے۔ کہا آپ(ع) کے دونوں پاؤں سے، کہا وہ کس طرح میں ان کے ساتھ طور سینا پر گیا تھا، کہا آپ(ع) کی دونوں آنکھوں سے، کہا کس طرح کہ میں نے ان ہی کے ذریعے خدا سے امید رکھی ہے، کہا آپ(ع) کے دونوں کانوں سے، موسی(ع) نے کہا کہ ان کے ساتھ میں نے کلام خدا کو سنا کہ جب تک خدا نے چاہا یہ سن کر تو ملک الموت اذنِ خدا سے واپس چلے گئے پھر ایک مرتبہ حضرت موسی(ع) نے حضرت یوشع بن نون(ع) کو بلایا اور انہیں وصیت کی کہ وہ اپنے کام کو مکتوم( پوشیدہ) رکھیں اور اپنا وصی مقرر کردیں، پھر آپ(ع) اپنی قوم سے الگ ہوگئے اور غائب ہو گئے اور اپنی غیبت کے زمانے میں ایک مرتبہ وہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو قبر کھود رہا تھا آپ(ع) رک گئے اور اس سے کہنے لگے کیا تیری مدد کردوں؟ اس شخص نے کہا ہاں، آپ(ع) اس کی

۲۲۴

مدد کرنے لگ گئے جب قبر تیار ہوگئی تو جنابِ موسی بن عمران(ع) اس میں اترے اور سو گئے اس عالم میں آپ(ع) کی آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا گیا اور بہشت میں آپ کے مقام کو دکھایا گیا جب آپ نے بہشت میں اپنا مقام دیکھا تو خدا سے گذارش کی کہ میری روح قبض کر لی جائے اور اپنے پاس بلالیا جائے تو بحکم خدا ملک الموت نے اسی قبر میں آپ(ع) کی روح قبض کر لی اور اسی جگہ بیابانِ تیہ میں قبر میں آپ(ع) کو دفن کردیا گیا، وہ شخص جو قبر کھود رہا تھا وہ ایک فرشتہ تھا۔جب جنابِ موسی(ع) کی روح قبض کرلی گئی تو ہاتف نے آسمان سے آواز دی ” موسیٰ (ع) کلیم اﷲ وفات پاگئے وہ کون سا بندہ ہے جسے موت نہیں“

امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ میرے والد(ع) نے میرے دادا(ع) سے روایت کیا ہے کہ جنابِ رسول خدا(ص) سے جب حضرت موسیٰ(ع) کی قبر کے مقام کو دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ بڑی شاہراہ کے کنارے سرخ ٹیلے کے پاس ہے۔

۳ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا حضرت سلیمان بن داؤد(ع) کی والدہ نے ان سے فرمایا میرے بیٹے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھاؤ اور سو جاؤ کیونکہ پیٹ بھر کھا کر سونا آدمی کو روزِ قیامت فقیر کردے گا۔

۴ـ          ایک شخص نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) جلد ہی بوڑھے ہوگئے ہیں آپ(ص) نے جواب دیا مجھے سور ھود، واقعہ، مرسلات، عرفا، و عم یتسائلون نے بوڑھا کر دیا ہے۔

۵ـ          جنابِ جبرائیل(ع) جنابِ رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور کہا اے محمد(ص) آپ(ص) جب تک چاہیں زندہ رہ لیں مگر انجام موت ہے،جسے بھی دوست رکھیں آخر کار انجام اس سے جدائی ہے افور جو چاہو عمل کرلو اس کا بدلہ جان لوگے آگاہ رہو بندے کی شرافت اس کی عبادتِ شبینہ میں ہے اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیازی میں ہے۔

۶ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا میری امت کے اشراف، حاملان قرآن اور راتوں کی جاگ کر گزارنے والے ہیں۔

۷ـ          محمد بن قیس روایت کرتے  ہیں کہ رسول خدا(ص) کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی کسی سفر سے

۲۲۵

 واپس آتے تو سب سے پہلے بی بی فاطمہ(س) کے گھر جاتے اور کافی وقت ان کے ساتھ گزارتے ایک مرتبہ آںحضرت(ص) کسی سفر پر گئے تو بی بی فاطمہ(س) نے ان کے جانے کے بعد دو کنگن ایک گلو بند اور دو گوشوارے چاندی کے بنوائے اور ایک دری کا پردہ بنوایا تاکہ ان کے والد اور جناب امیر جب واپس آئیں تو بی بی(س) ان اشیاء سے خود کو اور اپنے گھر کو زینت دیں۔ جب جنابِ رسول خدا(ص) سفر سے واپس تشریف لائے تو بی بی فاطمہ(س) کے گھر تشریف لے گئے آپ(ص) کے اصحاب گھر کے دروازے پر رک گئے اصحاب کہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہیں ٹھہریں یا چلے جائیں کچھ ہی دیر بعد جناب رسول خدا(ص) باہر آگئے اور غصہ ان کے چہرے سے عیاں تھا آپ(ص) گئے اور منبر کے پاس تشریف فرما ہو گئے۔

ادھر بی بی فاطمہ(س) کو یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول خدا(ص) اپنی عادت کے خلاف کچھ ہی دیر میں غصہ فرما کر رخصت ہوگئے ہیں تو یہ ان چیزوں کی بدولت ہے جو میں نے بنوائی ہیں لہذا بی بی(س) نے اپنے زیورات  اور دری کا پردہ جنابِ رسول خدا(ص) کو بھجوایا اور پیغام دیا کہ آپ(ص) کی دختر آپ(ص) کو سلام کہتی ہیں اور یہ خواہش رکھتی ہیں کہ ان اشیاء کو راہ خدا میں صرف فرمائیں۔ جب یہ اشیاء جنابِ رسول خدا(ص) کی خدمت میں پیش کی گئیں تو آپ(ص) نے تین بار یہ ارشاد فرمایا میرے ماں باپ آپ(بی بی فاطمہ(س)) پر قربان یہ دنیا محمد و آل محمد(ص) کے لیے نہیں ہے اگر یہ دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو وہ (خدا) کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا پھر آپ اٹھے اور بی بی فاطمہ(س) کے گھر تشریف لے گئے۔

۸ـ          اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ امام ابوالحسن رضا(ع)، مامون کے کہنے پر نیشاپور  تشریف لائےاور ان کے گرد اصحاب حدیث جمع ہوگئے اور ان سے عرض کیا یابن رسول اﷲ(ص) ، آپ(ع) ہمارے پاس سے تشریف لے جارہے ہیں مگر آپ(ع) نے ہم سے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائی حضرت(ع) نے اپنا سر اپنی سواری کے ہودج سے باہر نکالا اور فرمایا کہ میں نے اپنے والد جنابِ موسی بن جعفر(ع) سے انہوں نے اپنے والد جنابِ جعفر بن محمد(ع) سے انہوں نے اپنے والد محمد بن علی(ع) سے انہوں نے اپنے والد جناب علی بن حسین(ع) سے انہوں نے رسول خدا(ص) سے انہوں نے جبرائیل(ع) سے اور جنابِ جبرائیل(ع)

۲۲۶

نے رب العزت سے سنا کہ ”لا ال ه الا اﷲ “ میرا قلعہ ہے اور جو کوئی میرے قلعے میں آئے گا وہ میرے عذاب سے امان میں ہے پھر جب آپ(ع) سواری چلی تو ارشاد فرمایا اور اس کی (لا ال ه الا اﷲ کی ) چند شرائط میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔

۹ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے جبرائیل(ع) سے انہوں نے میکائیل(ع) سے انہوں نے اسرافیل(ع) سے انہوں نے لوح سے اس نے قلم سے اور اس نے خدا سے سنا کہ علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت میرا(خدا کا) قلعہ ہے اور جو کوئی میرے قلعے میں داخل ہوگیا اسے دوزخ سے امان ہے۔

۱۰ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا میں اور علی(ع) ایک نور سے پیدا کیے گئے  ہیں۔

۱۱ـ           جناب امیرالمومنین(ع) روایت کرتے ہیں کہ جنابِ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا کہ خدانے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے جب کہ میں بارگاہ خداوندی میں ان تمام سے افضل و برتر ہوں۔ پھر خدا نے ان تمام انبیاء(ع) کے ایک لاکھ چوبیس ہزار وصی خلق کیئے اور علی ابن ابی طالب(ع) ان تمام سے افضل ہیں۔

( شیخ صدوق(رح) اس حدیث کو محمد بن احمد بغدادی وراق سے بھی روایت کرتے ہیں۔)

۲۲۷

مجلس نمبر ۴۲

( شب ۱۸ صفر سنہ۳۶۸ ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا کسی مومن کی حاجت پوری کرنا بہتر ہے ہزار قبول حج سے، ایک ہزار غلام خدا کی راہ میں آزاد کرنے سے اور زین ولگام سمیت ایک ہزار گھوڑے خدا کی راہ میں دینے سے۔

۲ـ           امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا موسم( سرما) ربیع مومن کی بہار ہے کہ اس کی لمبی رات مدد گار عبادت ہے اس کا چھوٹا دن مددگار صوم( روزہ) ہے۔

۳ـ          جنابِ زید بن علی(ع) نے فرمایا جوکوئی امام حسین(ع) کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی تربت کی زیارت کرے گا تو خدا اس کے گذشتہ و آیندہ گناہ معاف فرمائے گا۔

۴ـ          عتبہ بن بجاد عابد سے بیان ہوا ہے کہ جب اسماعیل بن جعفر بن محمد(ع) نے وفات پائی اور ہم ان کے جنازے سے فارغ ہوئے تو ہم امام جعفر صادق(ع) کےگرد بیٹھ گئے حضرت(ع) نے اپنا سر مبارک جھکا کر اٹھایا اور فرمایا اے لوگو یہ دنیا جدائی کا گھر ہے برباد ہونے اور فنا ہونے والا گھر ہے یہ باقی رہنے والا نہیں ہے اس لیے کہ جدائی الفت کو جلاتی ہے اور دل کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ اے لوگو تم ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہو جو کوئی اپنے بھائی کے غم کو نہ دیکھے اس کا بھائی اس کے غم کو دیکھے گا اور جس کا فرزند اس کے سامنے نہیں مرتا تو وہ اپنے فرزند کے سامنے مرجائے گا پھر امام عالی مقام(ع) نے ابو خراش ہذا لی کا شعر سنایا” اے امیم( ابو خراش کی معشوقہ کا نام ہے)

 یہ نہ سمجھو کہ میں نے زمانے کو بھلا دیا ہے ( ایسا نہیں ہے) بلکہ میں بہت صبر اور برداشت سے کام لے رہا ہوں۔“

بارہ درہم

۵ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس بارہ

۲۲۸

درھم آںحضرت(ع) کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیے۔ آنحضرت(ص) نے وہ پیسے جنابِ امیر کو دیئے کہ وہ ان سے لباس خرید لائیں تاکہ آںحضرت(ص) اس کو زیب تن کریں جنابِ امیر(ع) بازار گئے اور دیکھ کر ایک پیراہن جس کی قیمت بارہ درھم تھی نے آئے اور آںحضرت(ص) کی خدمت میں پیش کیا، آںحضرت(ص) نے جب اس عمدہ پیراہن کو دیکھا تو فرمایا اے علی(ع) مجھے اس پیراہن کی نسبت وہ پیراہن پسند ہے جو کہ تم نے پسند نہیں کیا( یعنی کم قیمت والا) جنابِ امیر(ع) دوبارہ بازار گئے اور کاندار سے فرمایا میرے صاحب کو یہ پیراہن پسند نہیں آیا لہذا تم یہ واپس کر لو چنانچہ اس دوکاندار نے پیراہن لے کر پیسے واپس دے دیے، جنابِ امیر(ع) رسول خدا(ص)  کی خدمت میں واپس آگئے پھر جنابِ رسول خدا(ص) بنفس نفیس بازار تشریف لے گئے اور ایک کم قیمت پیراہن خرید فرمایا واپسی پر دیکھا کہ ایک کنیز سرِ راہ بیٹھی گریہ کر رہی ہے آپ(ص) نے ٹھہر کر اس کے رونے کا سبب دریافت کیا اس نے بتایا کہ میرے مالک نے مجھے چار درہم دیے تھے تاکہ میں اس کے لیے ضروریات زندگی خرید کر لاؤں وہ چار درہم مجھ گم ہوگئے ہیں حضرت(ص) نے ان بقیہ درھموں میں سے چار درھم اسے دیئے تاکہ وہاشیاء خرید کر واپس جاسکے اور خود واپسی کے لیے روانہ ہوئے راستے میں دیکھا ایک برہنہ شخص صدا دے رہا ہے کہ جو کوئی مجھے لباس پہنائے خدا اسے جنت کا لباس عطا کرئے گا آپ(ص) نے وہ پیراہن اس برہنہ آدمی کو دیدیا اور باقی بچ جانے والے درھموں سے ایک دوسرا پیراہن خریدنے کے لیے پلٹے، جب آپ(ص) نیا پیراہن خرید کر واپس ہوئے تو اسی کنیز کو دوبارہ سر راہِ بیٹھے دیکھا اور اس کے اس مرتبہ رونے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا میں اس وجہ سے پریشان ہوں کہ میرا مالک میرے جلد نہ آنے پر مجھ سے سختی سے پیش آئے گا آپ(ص) نے اس سے فرمایا مجھے اپنے مالک کے پاس لے چلو وہ انہیں لے کر اپنے مالک کے دروازے پر آئی۔ آپ(ص) نے فرمایا اے اہل خانہ تم سلام ہو۔ مگر کوئی جواب نہ ملا آپ(ص) نے دوسری دفعہ پھر دہرایا مگر خاموشی رہی آپ(ص) نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا اے اہل خانہ تم پر خدا کے رسول(ص) کی طرف سے درود سلام ہو تب گھر کا مالک باہر آیا اور جواب دیا، آپ(ص) نے فرمایا تم نے میرے سلام کا جواب تیسری مرتبہ کیوں دیا تو اس نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) میں چاہتا تھا کہ خدا کے رسول(ص) سے زیادہ سے زیادہ مرتبہ سلامتی اور درود وصول کروں آپ(ص) نے

۲۲۹

 اس سے اس کی کنیز کا ماجرا بیان کیا اس نے کہا یارسول اﷲ(ص) آپ(ص) جس کی خاطر خود چل کر تشریف لائے ہیں میں نے ںہ صرف اسے معاف کیا بلکہ اسے آزاد بھی کرتا ہوں۔ آپ(ص) نے فرمایا کس قدر مبارک درہم تھے اس نیک انسان کے کہ جنہوں نے ایک ضرورت مند کی ضرورت پوری کی۔ ایک خستہ حال کو لباس دیا، مجھے قمیض پہنائی اور ایک کنیز کو آزاد کرادیا۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جب بندہ شب کو اپنے پروردگار کے سامنے حاضری کے لیے اٹھتا ہے اور چار رکعت اس کے لیے ادا کرتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے بعد سو بار ماشاء اﷲ کہتا ہے تو خدا اس کی فرازی کے لیے صدا کرتا ہے کہ جب تک تم ماشاء اﷲ کہو میں تمہارا رب ہوں تم جو چاہو مجھ سے طلب کرو میں تمہاری ہر حاجت پوری کروں گا۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا بد بختی تین(۳) چیزوں میں ہے، عورت میں، سواری میں، اور گھر میں، عورت کے لیے یہ کہ وہ شوہر کی ناشکری ہو، سواری( گھوڑے) کے لیے یہ کہ وہ اکھڑ اور بد ہو اور گھر کے لیے یہ کہ اس کے ہمسایہ کی بدی اور اسکی اس گھر میں نظر نے زندگی تنگ کردی ہو۔

۸ـ          حسن بن جہم کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) سے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) میں آپ(ع) پر قبربان یہ فرمائیے کہ توکل کا اندازہ کیسے لگایا جائے آپ(ع) نے فرمایا ایسے کہ پوری توجہ کے ساتھ سوائے خدا کے کسی اور سے نہ ڈرے پھر میں نے عرض کیا یہ فرمائیں کہ تواضع کا اندازہ کیسے کیا جائے آپ(ع) نے فرمایا لوگوں کو وہ دو جسے تم خود پسند کرتے ہو اور جان لو کہ میں تمہاری نظر میں کیا ہوں( یعنی دوسرے کو اپنی نظر میں اہمیت دو)

۹ـ           جناب امیرالمومنین(ع) نے فرمایا اصل انسان وہ ہے جو قلب و عقل سے دیندار ہے انسان کی مردانگی کا اندازنہ اس کی ہمت سے ہے روزگار دست بدست جاتا ہے اور لوگوں کے لیے یہ ( ںظام) آدم(ع) سے لے کر اب تک اسی طرح ہے۔

۱۰ـ          ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے عرض کیا یا امام آل محمد(ص)  کون ہیں آپ(ع) نے جواب دیا جو محمد(ص)  کی نسل سے ہیں میں نے پوچھا اہل بیت(ع) کون ہیں آپ(ع) نے فرمایا ان کے ائمہ و اوصیاء میں نے عرض کیا ان(ع) کی عترت کون ہیں تو فرمایا ان کے اصحابِ عباء(ع) میں نے سوال کیا کہ ان

۲۳۰

کی امت کون لوگ ہیں۔ امام(ع) نے جواب دیا  وہ مومنین جو انکی تصدیق کرتے ہیں اور جو کچھ وہ (رسول خدا(ص))خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کےساتھ منسلک ہیں اس لیے کہ خدا نے ثقلین کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیا ہے جو کہ کتاب خدا اور عترت محمد(ص) ہیں اور یہی اہل بیت(ع) ہیں کہ جن سے خدا پلیدی کو ہٹائے ہوئے ہے اور ان کو پاک رکھے ہوئے ہے جو کہ رسول خدا(ص)  کے بعد امت کے خلیفہ ہیں۔

شہادتِ جنابِ علی(ع) کے بعد

۱۱ـ           جنابِ رسول خدا(ص) کے صحابی اسید بن صفوان کہتے ہیں جس دن امیرالمومنین(ع) نے رحلت فرمائی کوفہ میں اس طرح نالہ و شیون بلند ہوا جیسے کہ جنابِ رسول خدا(ص) کی رحلت کے وقت ہوا تھا اور تمام لوگ پریشان و ہراساں تھے میں ( اسید بن صفوان) نے دیکھا ایک آدمی روتے ہوئے کہتا ہے آج خلافتِ نبوت منقطع ہوگئی ہے اور پھر یہ شخص جنابِ امیر(ع) کے گھر گیا اور جنابِ امیر(ع) کے بارے میں کہنے لگا اے ابوالحسن(ع) خدا آپ(ع) پر رحمت کرے آپ(ع) سب سے پہلے اسلام لائے آپ(ع) ایمان میں مخلص تر، یقین میں مضبوط، خدا سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور خدا کے لیے سب سے زیادہ مشقت کرنے والے، رسول خدا(ص) کی نگاہوں کا مرکز، اصحاب میں سب سے زیادہ امین، مناقب میں سب سے برتر۔ سابقون میں درخشان تر اور سب سے بلند درجہ رکھنے والے سب سے زیادہ رسول خدا(ص) کے  نزدیک، طبیعت، عادت، گفتار و کردار میں رسول اﷲ(ص) کے متشابہ، شرافت و منزلت میں سب سے زیادہ اور رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ گرامی تھے، خدا آپ(ع) کو جزائے خیر دے۔اسلام پیغمبر اسلام اور مسلمان سب آپ(ع) ہی سے قوی ہوئے اور اس وقت کہ جب سب ناتواں تھے آپ میدان میں گئے اور اپنی جگہ قائم رہے اور اسے قائم کیا جس کی آپ(ع) پرستش کرتے تھے، آپ(ع) رسول خدا(ص) کے راستے سے جڑے رہے جس سے دوسرے کج دل ہوگئے مگر آپ(ع) نے منافقین کی ہٹ دھرمی کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی کے حسد کی پرواہ کی، آپ(ع) خلیفہ برحق ہوئے آپ(ع) نے کفار پر غصہ اور منافقین سے کینہ نہ کیا اور آپ(ع) قیام ( قیام اسلام) کو اس وقت عمل میں لائے جب

۲۳۱

سب سست ہوگئے اور حق بات کو اس وقت بیان کیا جب سب خاموش ہوگئے، جب لوگ توقف  کرتے تو آپ(ع) نور حق کے پیجھے چلے جاتے اگر لوگ آپ(ع) کی پیروی کرتے تو راہ(صراط مستقیم) پاتے، آپ(ع) سب سے زیادہ نرم خو، سب سے زیادہ سر فراز، کم تر سختی کرنے والے، درست ترین گفتار والے، سب سے زیادہ پر نظر، سب سے زیادہ دلدار، یقین میں سب سے زیادہ اور امور ( دینی و دنیاوی) کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور بخدا آپ(ع) اول مدافع دین تھے۔ (یعنی دین سے مشرکین و کفار کو دور کرنے والے) اور جب بھی لوگوں میں تنازع ہوجاتا تو آپ(ع) اسے رفع کردیا کرتے،لوگ آپ(ع) کے عیال کی طرح تھےے کہ جب ان ( لوگوں ) کے کندھے بارگراں اٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے تو آپ(ع) نے اسے مضفوظ کیا اور جسے انہوں نے ترک کیا آپ(ع) نے اس کی اصلاح کی، جس وقت لوگوں نے اجتماع کیا وہ زبوں حال ہوگئے، اور جب انہوں نے آپ(ع) سے زیادتی کی آپ(ع) نے صبر کیا اور جس مقصد سے وہ بھٹک گئے تھے آپ(ع) نے اس مقصد کو پالیا اور آپ کے وسیلے سے (لوگ) وہاں پہنچے  جس کا وہ گمان بھی نہ رکھتے تھے۔ آپ(ع) کفار کے لیے ظاہری عذاب تھے اور مومنین کے لیے باران رحمت، آپ(ع) منافقین کے آزار کی وجہ سے جو انہوں نے آپ(ع) کو دیٰئے بہشت میں عطا و برکت امت سے فائز ہوئے اور ان کے فضائل آپ(ع) کو ملے، آپ(ع) کی دین خدا کی طرف تندی میں کوئی شے حائل نہ ہوئی اور آپ(ع) کا دل ہرگز باطل کی طرف مائل نہ ہوا، آپ(ع) کی آنکھوں کی روشنی میں کبھی کمی نہ ہوئی۔ آپ(ع) کے دل کو کبھی کسی خوف نے گرفتار نہ کیا آپ(ع) نے کبھی خیانت نہ کی آپ(ع) اس کوہ گراں کی مانند تھے کہ جس کو کوئی طوفان کوئی ہوا ہلا نہ سکتی تھی جیسا کہ پیغمبر خدا(ص) کا آپ(ع)  کے بارے میں ارشاد ہے کہ آپ جسمانی طور پر کمزور اور امر خدا میں قوی تر تھے، آپ(ع) اپنے نفس کی تواضع کرنے والے تھے خدا کے نزدیک عظیم اور مومنین میں سرور تھےکسی ایک موقع و جگہ پر آپ(ع) میں کوئی برائی نہ پائی گئی آپ(ع) میں طمع نہیں تھی کوئی آپ(ع) سے کسی غلط جانبداری کی امید نہ کرسکتا۔ کمزور و خوار آپ(ع) کے نزدیک طاقتور اور عزیز تھا آپ(ع) انہیں انکا حق واپس دلاتے تھے، عدالت میں اپنا اور بیگانہ آپ(ع) کے سامنے برابر تھا۔ آپ(ع) کا طریقہ درست، نرم اور سچا تھاآپ کی بات آپ کا حکم اور آپ کا دستور دانشمندی کا علم( جھنڈا) تھا اور آپ(ع) نے کفر کو صاف اور راہ سخت کو ہموار کیا اور (شرک) کی آگ کو سرد کیا، دین آپ(ع) کے ذریعے قائم ہوا اور آپ(ع) مومنین میں سابق کہلائے

۲۳۲

 آپ(ع) ان تمام دولتمندوں سے بلندتر ہیں جنہوں نے خود کو رنج و غم میں مبتلا کیا، آپ(ع) کے مصائب پر آسمان میں گریہ ہوتا ہے اور آپ(ع) کی وفات سے لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ” انا اﷲ وانا الیہ راجعون“ آپ(ع) خدا کی قضا پر راضی اور اس کے امر کو تسلیم کرنے والے ہیں خدا کی قسم مسلمانوں کے لیے آج بڑی مصیبت کا دن ہے، خدا جو مومنین کی پناہ گاہ اور کفار کے لیے سخت ترین ہے آپ(ع) کو پیغمبر(ص) کے ساتھ ملائے اور ہمیں آپ(ع) کی عزاداری کی جزا سے محروم نہ کرے اور آپ(ع) کے بعد گمراہ نہ کرے اسید بن صفوان کہتے ہیں کہ تمام لوگ خاموشی سے سنتے رہے اس شخص کا کلام ختم ہوگیا اور وہ گریہ کرنے لگا ساتھ ہی اصحاب رسول (ص) بھی گریہ میں مصروف ہوگئے اور گریہ کے بعد دیکھا کہ وہ شخص موجود نہیں ہیں انہیں بہت تلاش کیا  گیا وہ مل نہ سکے۔

۱۲ـ          جابر بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ جب علی(ع) نے روز بدر و حنین کفار کے گروہ کو پیغمبر(ص) کے سامنے شکست دی اور انہیں روند دیا تو فرشتے شادماں ہوگئے لہذا جو کوئی زیارت علی(ع) سے شادماں نہ ہوگا اس پر خدا کی لعنت ہے۔

۱۳ـ          جناب امیر(ع) فرماتے ہیں میں جب بھی رسول خدا(ص) سے سوال کرتا ہوں وہ جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو وہ خود ہی مجھ سے بات کرتے۔

۱۴ـ          حفض بن غیاث ( محدث) نقلِ حدیث کے سلسلے میں امام جعفر صادق(ع) کے بارے میں کہتے ہیں کہ تمام جعفروں میں سے میرے لیے جعفر بن محمد(ع) بہترین( ثقہ ترین) ہیں۔

۱۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا بے شک خدا نے لوگوں کو مبعوث کیا کہ یہ نور کا چہرہ رکھتے ہیں نور کی کرسی پر ہیں اور نور کے لباس کو پہنتے ہیں اور عرش کے سائے میں ہیں جس طرح انبیاء و شہداء ہیں مگر یہ انبیاء اور شہداء نہیں( ان کا درجہ انبیاء اور شہدا کے موافق ہے)۔ ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اﷲ(ص) کیا میں ان میں سے ہوں آپ(ص) نے فرمایا نہیں دوسرے نے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) کیا میں ان میں سے ہوں آپ(ص) نے پھر فرمایا کہ نہیں ہو تو عرض کیا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں آپ(ص) نے ایک ہاتھ جنابِ امیر(ع) کے سر پر رکھا اور فرمایا یہ ہے اور اس کے شیعہ ہیں۔

۲۳۳

مجلس نمبر۴۳

( ۲۱ صفرسنہ۳۶۸ھ)

۱ـ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ایک حکیم نے دوسرے حکیم سے حکمت کے سات اقوال حاصل کرنے کے لیے سات سو فرسخ تک اس کا پیچھا کیا۔ جب وہ اس تک پہنچ گیا تو اس سے دریافت کیا کہ وہ کونسی چیز ہے جو آسمان سے زیادہ بلند ہے، وہ کیا ہے جو زمین سے زیادہ وسیع ہے، ایسا کیا ہے جو سمندر سے زیادہ بے نیاز ہے، وہ کیا ہے جو پتھر سے زیادہ سخت ہے، ایسی کونسی چیز ہے جو آگ سے زیادہ گرم ہے، کونسی چیز ایسی ہے جو زمہریر( ہوا کا ایک کرہ یا طبقہ جو نہایت سرد ہوتا ہے) سے زیادہ سرد ہے اور وہ کیا ہے جو پہاڑ سے زیادہ وزنی ہے۔اس حکیم نے دوسرے حکیم سے کہا اے شخص

        حق آسمان سے زیادہ بلند ہے۔

        عدالت زمین سے زیادہ وسیع ہے۔

        نفسِ متقی سمندر سے زیادہ بے نیاز ہے۔

        کافر کا دل پتھر سے زیادہ سخت ہے۔

        حریص کی طمع آگ سے زیادہ گرم ہے۔

        رحمت خدا سے نا امیدی زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔

        اور بے گناہ پر بہتان لگانا پہاڑ سے زیادہ وزنی ہے۔

۲ـ              امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی لوگوں میں محتسب بن کر عدل کرے ، اپنے گھر کے درازے ان کے لیے کھولے اور پردہ کو بلند کرے ( لوگوں کے راز افشانہ کرنے سے مراد ہے) اور لوگوں کے کاموں میں نظر کرے ( لوگوں کی بھلائی کے کاموں کی طرف اشارہ ہے) تو خدا پر حق ہے کہ روزِ قیامت اسے خوف سے سکون عطا کرے اور اسے بہشت میں داخل کرے۔

۳ـ             امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا جب خدا مخلوق کی خیر چاہتا ہے تو انہیں مہربان حکمران عطا

۲۳۴

 کرتا ہے اور اس کے لیے عادل وزیر مقرر کرتا ہے۔

۴ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ” امانت“ اس کے مالک کو لوٹا دو چاہے وہ قاتل حسین(ع) ہی کیوں نہ ہو۔

۵ـ          امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا خدا سے ڈرو اور جو بندہ تمہارے پاس امانت رکھوائے وہ اسے واپس لوٹا دور اگر امیر المومنین(ع) کا قاتل بھی مجھے امانت دیتا تو وہ میں اسے واپس لوٹا دیتا۔

۶ـ           امام علی بن حسین(ع) نے فرمایا اے میرےشیعو تم پر امانت ادا کرنا ضروری ہے قسم ہے اس ذات کی  جس نے پیغمبر(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اگر میرے والد(ع) کا قاتل اپنی اس تلوار کو میرے پاس امانت رکھواتا کہ جس کے ساتھ اس نے میرے والد(ع) کوقتل کیا تھا تو وہ بھی میں اسے واپس دے دیتا۔

قحط اور اولادِ یعقوب(ع)

۷ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں جب کنعان میں قحط پڑا تو حضرت یعقوب(ع) نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور انہیں کہا، مجھے خبر ملی ہے کہ مصر میں اچھی گندم کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہاں کا فرمانروا اچھا ہے وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تم وہاں سے گندم خرید لاؤ انشاء اﷲ وہ تم پر احسان کرئے گا یعقوب(ع) کے فرزندان نے سامان باندھا اور مصر چلے گئے اور مصر کے فرمانروا حضرت یوسف(ع) کے پاس جا پہنچے حضرت یوسف(ع) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا مگر وہ انہیں نہ پہچان سکے۔

یوسف(ع) نے اپنے بھائیوں سے پوچھا تم کون ہو وہ کہنے لگے ہم فرزندان یعقوب بن اسحاق(ع) بن ابراہیم خلیل الرحمن(ع) ہیں اور کوہ کنعان کے رہنے والے ہیں۔ یوسف(ع) نے کہا تم لوگ تین پیغمبروں کی اولاد ہو لیکن تم صاحبانِ علم وحلم دکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی تم میں وقار و خشوع ہے کہیں تم کسی بادشاہ کے جاسوس تو نہیں برادران یوسف(ع) نے کہا نہ تو ہم کسی بادشاہ کے جاسوس ہیں اور نہ ہی اصحابِ حرب( جنگ کرنے والے) ہیں اگرتم ہمارے والد(ع) کو جانتے تو ہمیں اس کے حوالے سے گرامی رکھتے کیوں کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور ایک پیغمبر کے بیٹے ہیں وہ ہر وقت گریہ کرتے اور،

۲۳۵

 مغموم رہتے ہیں یوسف(ع) نے کہا وہ کسی وجہ سے غمناک ہیں جبکہ وہ ایک پیغمبر ہیں اور ان کی جگہ بہشت میں ہے اور جب کہ تمہارے جیسے تندرست و توانا فرزند بھی رکھتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے مغموم رہنے کا سبب تمہاری جہالت ، بیوقوفی، جھوٹ اور مکر و فریب ہو۔

برادران یوسف(ع) نے کہا اے بادشاہ ہمارے والد کے غمزدہ رہنے کا سبب ہم نہیں، ہم احمق و ناداں نہیں ہیں بلکہ اس کا سبب ان کا ایک چھوٹا بیٹا جس کا نام یوسف(ع) تھا کی گمشدگی ہے وہ ہمارے ساتھ شکار کے لیے گیا وہاں اسے ایک بھیڑیا کھا گیا تھا وہ (یعقوب(ع)) اس کی یاد میں مغموم رہتے ہیں۔

یوسف(ع) نے ان سے کہا کیا تم سب ایک باپ سے ہو۔ انہوں نے جواب دیا ہمارے والد تو ایک ہی ہیں مگر ہماری مائیں مختلف ہیں یوسف(ع) نے کہا اب یہ کیا وجہ ہے کہ تمہارے والد نے تم سب کو یہاں بھیج دیا ہے اور ایک بیٹے کو انہوں نے پاس رکھا ہوا ہے، انہوں نے جواب دیا۔ ہمارے والد ہمارے اس بھائی کو جو کہ ابھی بہت چھوٹا ہے کو اپنے انس اور راحت کے سبب جدا نہیں کرتے کیوںکہ  ہمارے بھائی یوسف(ع) کے بعد وہی ہمارے والد کے لیے انسیت کا مرکز ہے۔

یوسف(ع) نے کہا ایسا ہے تو میں بھی تم میں سے کسی ایک کو اپنے پاس رکھتا ہوں تم باقی لوگ جاکر اپنے والد(ع) کو میرا سلام پہنچاؤ اور کہو کہ آپ(ع) اپنے اس چھوٹے بیٹے کو میرے پاس روانہ کریں تاکہ میں اس سے ان کے غم اور گریہ کا سبب اور انکےجلد بوڑھا ہونے کا سبب دریافت کرسکوں یہ سن کر یوسف(ع) کے بھائیوں نے قرعہ ڈالا جس سے شمعون کا نام یوسف(ع) کے پاس رہنے کے لیے نکلا یوسف(ع) نے حکم دیا کہ شمعون کو یہاں میرے پاس رہنے دیا جائے ، پھر اپنے بھائیوں کو وداع کرتے وقت  شمعون نے ان سے کہا اے میرے بھائیو تم دیکھ رہے ہو کہ  ہم کس مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں میرے والد گو میرا سلام کہنا۔ جب یعقوب(ع) کے فرزند واپس آئے تو انہوں نے جناب یعقوب(ع) کو نہایت دھیمی آواز سے سلام کیا یعقوب(ع) نے کہا میرے فرزند کیا بات ہے تم آہستہ آواز میں سلام کیوں کر رہے ہو اور مجھے شمعون کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی وہ کہاں ہے انہوں نے جواب دیا والد محترم ہم ایک ایسے عظیم بادشاہ کے ہاں سے آرہے ہیں کہ جس کی طرح کی عزت و وقار اور دانائی

۲۳۶

وحکمت ہم نے کہیں اور نہیں دیکھی اگر آپ(ع)(یعقوب) کی طرح کا کوئی ہے تو صرف وہی ہے۔ مگر اے ابا جان ہمارا خاندان مصیبت و غم کے لیے خلق ہوا ہے بادشاہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جب تک آپ(ع) بن یامین کو بطور ایلچی اپنے غم اور سرعتِ بڑھاپا اور زندگی کی حالات کی تصدیق کرنے اس کے پاس نہیں بھیجتے تو وہ شمعون کو نہیں چھوڑے گا۔

یعقوب(ع) نے سوچا شاید یہ بھی ان کا فریب ہے تو فرمایا، تمہارا یہ طریقہ نہایت برا ہے تم جس طرف بھی جاتے ہو ایک نہ ایک کو گم کر آتے ہو میں اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا ، پھر جب یعقوب(ع) کے فرزندوں نے اپنا سامان کھولا اور اپنا مال و متاع بالکل اسی طرح پایا جس طرح وہ  چلتے وقت ساتھ لے کر گئے تھے۔ تویہ دیکھ کر انہوں نے یعقوب(ع) کو کہا کہ ہم اس بادشاہ میں نیکی و بھلائی پاتے ہیں وہ گناہ سے پرہیز کرتا ہے اس لیے اس نے ہمارے اموال اسی طرح ہمیں واپس دے دیے ہیں ہم اس مال کو دربارہ لے کر جائیں گے اور اپنے گھر والوں کے لیے غلہ لے کر آئیں گے اور اپنے بھائی کو واپس لائیں گے اور اسے ایک اونٹ کا غلہ زیادہ دیں گے۔

یعقوب(ع) نے فرمایا تم جانتے ہو میں یوسف(ع) کے بعد بن یامین کو بہت عزیز رکھتا ہوں جب تک تم مجھ سے خدا کو حاضر جان کر پیمان نہیں کرو گے کہ اسے واپس لاؤ گے تب تک میں اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا چاہے تم سب کے سب گرفتار ہی کیوں نہ ہوجاؤ۔ یہودا نے یعقوب(ع) کو خدا کے نام پر ضمانت دی اور بن یامین کو لے کر یوسف(ع) کے پاس واپس آئے۔ یوسف(ع) نے ان سے پوچھا کیا تم نے میرا پیغام اپنے والد کو دیا ہے انہوں نے کہا ہاں اور ہم اپنے بھائی کو بھی لے آئے ہیں آپ(ع) جو پوچھنا چاہتے ہیں اس سے پوچھ لیں یوسف(ع) نے بن یامین سے پوچھا تمہارے والد نے میرے لیے کیا پیغام دیاہے بن یامین نے کہا انہوں نے فرمایا ہے کہ میں آپ(ع) کو انکا سلام پہنچاؤں اور انہوں نے  یہ فرمایا ہے کہ آپ(ع) یوسف(ع)) نے ان کے رونے غمزدہ رہنے، نابینا ہونے اورجلد بوڑھا ہونے کا سبب دریافت کیا ہے تو وہ زیادہ غم اور خوفِ قیامت اور فرمایا ہے کی وجہ سے ہے کہ میرے بڑھاپے اور نابینا ہونے کا سبب میرے محبوب بیٹے یوسف(ع) کی جدائی ہے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ(یوسف(ع)) میرے غم و گریہ کی وجہ سے غمگین ہیں اور میرے لیے اہتمام و توجہ کرتے ہیں خدا

۲۳۷

 آپ کو جزائے خیر دے اور ثوابِ عظیم عطا کرے آپ(ع) کا مجھ پر اس سے بڑا احسان کوئی اور نہ ہوگا کہ میرے فرزند بنیامین کو جلد میرے پاس بھیج دیں کہ یوسف(ع) کے بعد یہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اپنی تنہائی اسی سے دور کرتا ہوں اور آپ(ع) جلد از جلد میرے فرزندوں کو غلہ کے ساتھ روانہ کریں۔ یوسف(ع) نے جب یہ سنا تو روپڑے اور شاہی آداب و خوداری کے مد نظر اندر چلے گئے اور خوب گریہ کیا جب کچھ دیر کے بعد باہر آئے تو حکم دیا کہ ان کے لیے کھانا لگایا جائے جب کھانا لگ گیا تو فرزندانِ یعقوب(ع) اپنے اپنے مادری بھائیوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے مگر بنیامین کھڑے رہے یوسف(ع) نے بنیامین سے پوچھا تم کیوں نہیں بیٹھے بنیامین نے جواب دیا میرا کوئی مادری بھائی نہیں ہے تو میں کس کے ساتھ بیٹھوں یوسف(ع) نے پوچھا تمہارا کوئی مادری بھائی کیوں نہیں ہے بنیامین نے جواب دیا، ان کا کہنا ہےکہ میرے بھائی کو بھیڑیے نے کھالیا ہے۔ یوسف(ع) نے کہا تمہیں اس کا غم کس قدر ہے  بنیامین نے کہا مجھے اس کی گمشدگی کے بعد بارہ(۱۲) بیٹے عطا ہوئے میں نے ان تمام کا نام اس کے نام پر رکھا ہے یوسف(ع) نے پوچھا اگر تمہیں اس کا اتنا ہی غم ہے تو تم نے اس کے بعد عورتوں سے کیوں تعلق منقطع نہیں کیا اور فرزند پیدا کیے ، بنیامین نے کہا میرے والد(ع) نے مجھے حکم دیا تھا کہ عورت لےلو شاید خدا تم سے ایک ایسی نسل پیدا کرے جو زمین کو اس (خدا) کی تسبیح سے پر کردے اور اسے گرامی کردے، یوسف(ع) نے کہا آؤ تم میرے ساتھ بیٹھو۔ برادران یوسف(ع) آپس میں کہنے لگے یہ لو یوسف(ع) کو یہاں بھی برتری مل گئی کہ اس کا بھائی  اس کی وجہ سے بادشاہ کے ساتھ اس کے دسترخوان پر بیٹھا اور یوں لگ رہا ہے جیسے بادشاہ بن گیا ہو۔

پھر جب برادران یوسف(ع) کو غلہ دے کر رخصت کرنے کا وقت آیا تو یوسف(ع) کے حکم پر ایک شاہی پیمانہ( پیالہ)  بنیامین کے سامان میں خفیہ طور پر رکھوا دیا گیا( مقصد یہ تھا کہ بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا جائے اور ان کی وجہ سے یعقوب(ع) کی مصر آمد کا سبب پیدا ہوجائے) جب برادران یوسف(ع) کا قافلہ روانہ ہوا تو کچھ دور جاکر انہیں روک لی گیا اور ایک جارجی نے صدا لگائی کہ اے قافلے والو تم چور ہو اپنے سامان کی تلاشی دو برادران یوسف(ع) نے پوچھا کہ کیا چوری ہوا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ ایک شاہی پیالہ چوری ہوا ہے اور بادشاہ نے انعام مقرر کیا ہے کہ جوکوئی اسے ڈھونڈ کر

۲۳۸

 لائے گ اسے ایک اونٹ کے وزن کے برابر انعام دیا جائگا برادران یوسف(ع) نے کہا تم جانتے ہو کہ ہم یہاں فساد برپا کرنے نہیں آئے ہیں ہم چور نہیں ہیں تم ہمارے سامان کی تلاشی لو اگر تمہارا مطلوبہ پیمانہ(پیالہ) ہمارے سامان میں سے برآمد ہوجائے تو جس کا سامان ہو اسے سزا دو ورنہ ناحق ہم ستم رسیدہ لوگوں کو تنگ مت کرو۔

اہل مصر کا قانون تھا کہ چور کو چوری کی سزا اس کا ہاتھ کاٹ کر نہیں دی جاتی تھی جرم ثابت ہونے پر اسے مصر میں ہی رکھ لیا جاتا تھا لہذا جب ان کے سامان کی تلاشی لی گئی تو بنیامین کے سامان میں سے مطلوبہ پیمانہ برآمد ہوگیا یہ دیکھ کر ان کے بقیہ بھائی بولے یہی چور ہے اس کا بھائی بھی چور تھا اس موقع پر جناب یوسف(ع) نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور ان کی اس الزام تراشی کو نظر انداز کیا اور خدا کے لیے توصیفی و حمد نہ جملے ادا کر کے کہا کہ خدا داناتر ہے اور یہ موقع تمہارے لیے نہایت برا ہے۔

بردران یوسف(ع) نے ان سے کہا اے عزیز ہمارا باپ بوڑھا ہے ہم پر مہربانی اور رحم کرو اور اس ( بن یامین) کی جگہ تم ہم میں سے کسی کو رکھ  لو یوسف(ع) نے کہا ہم ستمگر نہیں ہیں کہ بغیر جرم کے کسی کو سزا دیں خدا ہمیں اپنی پناہ میں رکھے جب برادران یوسف(ع) ہر طرح سے نا امید ہوگئے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا۔ ان میں سے بڑے ( یہودا) نے ان سے کہا۔ کیا بھول گئے ہم باپ سے عہد و پیمان کر کے بنیامین کو لائے تھے اور خدا کی گواہی دی تھی کہ اسے واپس لے کر جائیں گے ہم اس سے پہلے بھی یوسف(ع) کے معاملے میں جرم کے مرتکب ہوچکے ہیں، میں (یہودا) اس وقت تک اس سرزمین سے واپس نہیں جاؤں گا جب تک ہمارے والد اجازت نہیں دیتے یا حکمِ خدا نہیں ہوتا کہ وہ بہترین حاکم ہے تم والد کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ان کے بیٹے نےچوری کی ہے مگر ہم اس کی گواہی نہیں دیتے ہم عالم غیب نہیں ہیں ہمیں معلوم نہیں سچ کیا ہے لہذا آپ خود یہاں آکر ان لوگوں سے اس کی بابت دریافت کریں ہم کسی قسم کا مکر و فریب اور جھوٹ بیان نہیں کررہے۔

فرزندانِ یعقوب(ع) اپنے والد(ع) کے پاس آئے اور یہ ماجرا بیان کیا ۔ یعقوب(ع) نے فرمایا یقینا

۲۳۹

میرے بیٹے نے چوری نہیں کی یہ تمہارا ہی نفس ہے جو تم سے اس طرح کے ناشائشتہ اعمال کرواتا ہے میں اپنے لیے صبر کو بہتر خیال کرتا ہوں اور خداسے امید رکھتا ہوںکہ ایک دن وہ میرے تمام فرزند مجھ ملادے گا بیشک خدا دانا و حکیم ہے تم اپنا سامان باندھو اور دوبارہ مصر جانےکی تیاری کرو۔

جب وہ روانہ ہونےلگے تو حضرت یعقوب(ع) نے عزیز مصر ( حضرت یوسف(ع)) کے نام ایک خط انہیں دیا اور کہا کہ یہ مصر بادشاہ کو میری طرف سے دینا پسرانِ یعقوب(ع) ایک مرتبہ پھر مصر آئے وہ خط حضرت یوسف(ع) کو دیا اور جناب یوسف(ع) نے وہ خط پرھنا شروع کیا اس خط کا متن یہ تھا کہ میرے فرزند بنیامین کو میرے دوسرے فرزندوں کے ہمراہ روانہ کریں حضرت یوسف(ع) نے جب خط پڑھا تو اندر تشریف لے گئے اور خوب گریہ کیا جب باہر آئے تو برادران یوسف(ع) نے ان سے کہا اے عزیز( اس زمانے میں مصر کے حاکم کو عزیز کہتے تھے) ہم اور ہمارا خاندان اس وقت سختی میں ہے ہم کچھ مال اپنے ہمراہ لائے ہیں اگر چہ وہ کچھ زیادہ نہیں مگر آپ(ع) اسے قبول فرمائیں اور ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیں اور ہم پر تصدق کریں بے شک خدا تصدق کرنے والوں کو اچھی جزا دیتا ہے۔ یوسف(ع) نے کہا تم جانتے ہونا کہ یوسف(ع) کے ساتھ تم نے کیا ، کیا تھا تم نے نادانی کی تھی یہ سن کر ان کے بھائی چونکے اور کہنے  لگے کیا آپ یوسف(ع) ہیں یوسف(ع) نے کہا ہاں میں ہی یوسف(ع) ہوں( اور پھر نقاب الٹ دیا) اور یہ میرا بھائی ہے خدا نے مجھ پر احسان کیا اور جو بلاؤں پر صبر اور پرہیزگاری اختیار کرتا ہے خدا اس کو جزا دیتا ہے اور احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

برادران یوسف(ع) کہنے لگے خدا کی قسم خدا نے تمہیں ہم پر فضیلت دی اور برگزیدہ کیا ہم خطا کار ہیں یوسف(ع) نے فرمایا اب تم پر کوئی الزام نہیں ( کیوںکہ وہ اپنی خطا تسلیم کر کے نادم ہوئے تھے) آج خدا نے تمہیں معاف کردیا ہے وہ ارحم الراحمین ہے پھر یوسف(ع) نے انہیں کہا تم واپس جاؤ اور میرا پیراہن (کرتہ) والد صاحب کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہوجائیں گے اور پھر سب گھر والوں اور خاندان والوں کو لے کر یہاں آجانا۔

ادھر جبرائیل(ع) حضرت یعقوب(ع) کے پاس آئے اور فرمایا اے یعقوب(ع) کیا میں تمہیں وہ دعا

۲۴۰