مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277256
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277256 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جناب رسول خدا(ص) کی رحلت

۱۱ـ           امام جعفر صادق(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ قریش سے دو اشخاص امام علی بن حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ(ع) نے ان سے فرمایا ، تمہیں رسول خدا(ص) کی رحلت کے بارے میں بتاؤں؟ انہوں نے کہا جی ہاں فرمائے امام(ع) نے فرمایا میں نے اپنے والد(ع) سے سنا کہ وفاتِ پیغمبر(ص) سے تین روز قبل جبرائیل (ع) رسول خدا(ص) کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا اے احمد(ص) مجھے خداوند کریم نے آپ(ص) کی مزاج پرسی اور آپ(ص) کو تعظیم دینے کے لیے بھیجا ہے وہ آپ(ص) کے حال کو بہتر جانتا ہے مگر ارشاد فرماتا ہے کہ اے محمد(ص) تیرا کیا حال ہے پیغمبر(ص) نے فرمایا میں شدت غم میں ہوں، پھر تیسرے روز جبرائیل(ع) و ملک الموت اور فرشتہ اسماعیل(ع) ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے اور سب سے پہلے جبرائیل(ع) نے آپ(ص) کی خدمت میں حاضری دی اور فرمایا خدا نے ہمیں خصوصی طور پر آپ(ص) کی احوال پرسی کے لیے بھیجا ہے وہ فرماتا ہے اے محمد(ص) اب آپ(ص) کا کیا حال ہے آپ(ص) نے فرمایا میں شدتِ غم میں ہوں   اے جبرائیل(ع) ، اس وقت ملک الموت نے داخل ہونے کے لیے  اجازت طلب کی جبرائیل(ع) نے فرمایا ی احمد(ص) یہ ملک الموت(ع) ہیں جو داخلے کی اجازت طلب کررہے ہیں آج سے پہلے انہوں نے کبھی کسی سے اجازت طلب نہیں کی اور آپ کے بعد بھی یہ کسی سے اجازت طلب نہیں کریں گے رسول خدا(ص) نے فرمایا انہیں اجازت دیدو وہ آئے اور جنابِ رسول خدا(ص) کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا اے محمد(ص) مجھے خدا نے آپ(ص) کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ(ص) جس طرح حکم کریں اس پر عمل کروں اگر آپ(ص) اجازت دیں تو آپ(ص) کی روح قبض کروں اور اگر نہ چاہیں تو اپنا ہاتھ کھینچ لوں۔ آپ(ص) نے فرمایا اے ملک الموت جس طرح میں چاہوں گا تم عمل کرو گے؟ کہا ہاں میں آپ(ص) کی اطاعت پر مامور ہوں جبرائیل(ع) نے کہا اے احمد(ص) خدا آپ(ص) سے ملاقات کا مشتاق ہے یہ سن کر رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ملک الموت تم جس چیز پر مامور ہو اس پر عمل کرو جبرائیل(ع) نے فرمایا یہ آخری مرتبہ ہے کہ میں اس زمین پر آیا اور اس دفعہ بھی اس کا سبب آپ(ص) ہی تھے۔ جب رسول خدا(ص) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تو لوگوں کو ایک آواز سنائی دی مگر کوئی دکھائی نہ

۲۶۱

دیا اس غائب شخص نے پہلے تعزیت کی اور پھر کہا تم پر سلام ہو اور خدا کی رحمت اور برکات ہوں یہ ہر نفس کے لیے ہے کہ اس موت کو ذائقہ چکھنا ہے اور بیشک وہ روزِ قیامت اپنی جزا پائے گا ( آل عمران،۱۸۵) بیشک خدا کی نظر میں ہر آرام وہ مصیبت زدہ اور ہر جانشین فانی ہے اور ہر فوت شدہ خدا پر بھروسا کیے بیٹھا ہے اور امیدوار ہے کیوںکہ مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہے ” والسلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ“ یہ کہہ کردہ آواز شدہ ہوگئی جناب امیر(ع) نے فرمایا تم جانتے ہو یہ کون تھے یہ خضر علیہ السلام تھے۔

۱۲ـ          جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) نے جناب علی ابن طالب (ع) علی(ع) سے روایت کیا کہ ایک دفعہ بی بی فاطمہ(س) نے رسول خدا(ص) سے کہا بابا جان روز موقفِ اعظم و روزِ فزع  آپ(ص) کو میں کہاں دیکھوں گی فرمایا اے فاطمہ(س) میں بہشت  کے دروازے پر ہوں گا لو احمد میرے پاس ہوگا اور میں درگاہ پر دردگار میں اپنی امت کی شفاعت کر رہا ہوں گا عرض کیا میرے بابا(ع) اگر آپ(ص) کو وہاں بھی بہ دیکھ سکوں؟ تو فرمایا پل صراط پر مجھ سے ملاقات کرنا کہ میں وہاں کھڑا ہوں گا اور کہتا ہوں گا۔ پروردگارا میری امتکو سلامت رکھ بی بی(ع) نے عرض کیا اگر اس جگہ بھی ملاقات نہ ہوتو  فرمایا مجھے مقام میزان پر دیکھنا کہ میں کہنا ہوں گا پروردگارا میری امت کو سالم رکھ بی بی فاطمہ(س) نے کہا اگر یہاں بھی نہ دیکھوں، تو فرمایا مجھے پر تگاؤ دوزخ پر دیکھنا کہ اپنی امت کو اس شعلوں سے بچا رہا ہوں گا فاطمہ یہ خبر سن کر خوش ہوگئیں اﷲ ان پر ان کے والد پر ان شوہر پر اور ان کی اولاد پر رحمت نازل کرے۔

۱۳ـ          جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا کوئی قرآن کو نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی کس کے بارے میں نازل ہوئی اور کس موضوع پر نازل ہوئی، بیابان میں نازل ہوئی یا پہاڑ، پر جناب امیر(ع) سے پوچھا گیا کہ آپ(ع) کے بارے میں کیا کچھ نازل ہوا ہے فرمایا اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں تم کو ہرگز نہ بتاتا۔ میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ” بیشک تم منذر ہو اور ہر قوم میں ایک ہادی ہوا ہے“ (رعد، ۷) اور جو کچھ لایا گیا ہے( یعنی دین و دنیا و کتاب اور آخرت) اس میں جناب رسول خدا(ص) منذر اور میں ہادی ہوں۔

۲۶۲

مجلس نمبر۴۷   

(پانچ ربیع اول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           محمد بن فرج رخجی کہتے ہیں کہ میں نے ابو الحسن علی بن محمد(ع) کو خط بھیجا جس میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے قول و عقیدے کو لکھا تو آپ(ع) نے جواب میں فرمایا سرگردان و حیران کو چھوڑ دو اور خدا کی پناہ مانگو شیطان رجیم سے جو کچھ یہ دونوں ہشام کہتے ہیں درست نہیں ہے۔

(قارئین ہشام بن حکم کے دور کے واقعات کا مطالعہ فرمائیں۔ اس فرمانروانے اپنے عہد میں علماء اور عامتہ الناس میں س بحث  کا آغاز کروایا تھا کہ معاذ اﷲ خدا جسم رکھتا ہے یا نہیں یہ مندرجہ بالا حدیث اسی سلسلے کی رد میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔ محقق)

۲ـ           صقر بن دلف کہتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن علی بن محمد(ع) سے توحید کے بارے میں پوچھا اور انہیں اپنے عقیدہ، توحید جو کہ ہشام کے عقیدے کے مطابق تھا، کے متعلق بھی آگاہ کیا یہ سن کر اور جناب ابوالحسن علی بن محمد(ع) نے ناراضگی و غصے سے ارشاد فرمایا۔ کہ تجھے ہشام کے کہنے سے کیا واسطہ جو کوئی اس بات پر اعتقاد رکھے کہ خدا جسم رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں۔ اے ابن دلف جسم حادث ہے اور خدا اس کو ایجاد کرنے اور مجسم کرنے والا ہے۔

۳ـ          علی بن کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ میں آپ(ع) پر قربان میرے پس پشت جو شخص (ہشام) ہے وہ قومِ یونس کا ہم عقیدہ ہے اور مجھے ان کے پیچھے نماز پڑھنی پڑتی ہے۔

آپ(ع) نے جواب میں فرمایا ان کے پیچھے نماز مت پڑھو انہیں زکوة مت دو ان سے بیزار رہو۔

۴ـ          عبداﷲ بن سنان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں موجود تھا۔ کہ خوارج میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے ابو جعفر تم کس کی عبادت کرتے ہو آپ(ع) نے جواب دیا خدا کی اس نے کہا اسے کبھی دیکھا ہے آپ(ع) نے فرمایا اسے ظاہری

۲۶۳

 آنکھوں سے نہیں دیکھا گیا صرف ایمان قلبی سے اس کی حقیقت کو پایا جاتا ہے قیاس  سے اسے نہیں پایا جاسکتا۔ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہے کہ اسے پہچانا جائے۔ وہ علامات سے پہچانا جانا ہے اور وہ کہ جس کی حکمت میں جور نہیں وہ خدا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے یہ سن کر وہ مرد باہر چلا گیا اور یہ کہنے لگا کہ خدا دانا تر ہےاور علم رکھتا ہےکہ اپنی رسالت ( حکمت) کو وہ کسے عطا کرئے۔

۵ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا خدا ہمیشہ سے دانا و توانا۔ زندہ و قدیم اور سننے اور دیکھنے والا ہے فضل بن سلیمان کوفی کہتے ہیں کہ میں نے امام(ع) سے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص)، لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمیشہ سے خدا اپنے علم کی وجہ سے دانا اور اپنی قدرت کی وجہ سے توانا، حیات کی وجہ سے زندہ قدم سے قدیم سمع سے سننے والا اور بصیرت کی وجہ سے بیناء ہے یہ سن کر امام(ع) نے فرمایا جو کوئی اس طرح خیال رکھے اور اس بات کا معتقد ہو تو جان لو کہ اس نے خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا اور ہماری ولایت سے اسے کوئی واسطہ نہیں، پھر امام عالی مقام(ع) نے فرمایا خدا ہمیشہ سے بذات خود قادر و توانا، زندہ و قدیم اور سمیع و بصیر ہے اور کچھ اس کےبارے میں مشرکین اور شبہ کرنے والے کہتے ہیں وہ اس سے کہیں برتر ہے۔

۶ـ           محمد بن عمارہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا یاابن رسول اﷲ(ص) کیا خدا کے ہاں رضا و جبر ہے آپ(ع) نے فرمایا ہاں مگر یہ مخلوق کی مانند نہیں ہے اس کا غصہ اس کا عتاب اور اس کی رضا اس کا ثواب ہے۔

۷ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا بیشک خدا زمان و مکان، حرکت و انتقال اور سکون کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ زمان و مکان ، حرکت و سکون و انتقال سے برتر ہے کہ اس کا خالق ہے اور جو کچھ ظالمین اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ اس سے کہیں برتر ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا نہ میں جبر کا معتقد ہوں اور نہ تفویض کا۔

۲۶۴

جنابِ رسول خدا(ص) کا دنیا سے خطاب

۹ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے دنیا سے خطاب کر کے فرمایا تو اپنے خادم کو رنج میں گراتی ہے اور اپنے تارک کی خدمت کرتی ہے پھر آپ(ع) نے  فرمایا جو بندہ نصف شب کی تاریکی میں اپنے آقا سے خلوت کرے اور اپنے راز اس سے بیان کرے ۔ تو خدا اسکے دل میں نور کو جگہ دیتا ہے اور جب کہے” یا رب جلیل جل جلالہ“ تو خدا فرماتا ہے لبیک میرے بندے مجھ سے طلب کر میں تجھے دوںگا۔ تو مجھ پر توکل کر میں تیری کفالت کروں گا۔ پھر رب العزت اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے، اے ملائکہ میرا یہ بندہ اندھیری رات میں مجھ سے خلوت میں راز و نیاز کرتا ہے اور جو بیہودگی اور غفلت میں ہیں وہ سوئے ہیں اور تم گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کر دیا ہے پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم کوشش و عبادت اور ورع وتقوی اختیار کیے رکھو اور اس دنیا سے بے رغبت رہو کیونکہ یہ تم سے بھی رغبت نہیں رکھتی یہ فریب دینے والی اور زوال و فنا کا گھر ہے بہت سے لوگوں نے اس کا فریب کھایا اورفنا ہوگئے۔ جو بھی اس پر تکیہ کرے گا یہ اسے فنا کردے گی اور خیانت کرے گی بہت سے لوگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اس نے ان کے ساتھ خیانت کی جان لو کہ تمہارے سامنے خوفناک اور ہراساں کرنے والی راہ ہے کہ اس کا سفر لمبا ہے تمہیں پل صراط پر سے گذرنا ہے جس کے لیے مسافر کا لازما توشہ چاہیے اور جو کوئی بغیر توشہ کے سفر اختیار کرے اسے رنج میں مبتلا اور ہلاکت کا شکار ہونا پڑتا ہے بہترین توشہ تقوی ہےتم اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونے کو یاد کرو اور اپنے جواب کے لیے تیار ہو جاؤ اور اس وقت کے لیے خود کو آمادہ کرو جب وہ تم سے باز پرس کرے گا وہ عادل و حاکم ہے تیار کرو خود کو اس وقت کے لیے کہ جب وہ تم سے میرے خاندان(ع)، کتابِ خدا اور ثقلین کے بارے میں باز پرس کرے گا اور دیکھو کہیں کتابِ خدا میں تغیر و تبدل و تحریف نہ کر دینا اور میرے اہل بیت(ع) سے جدا نہ ہو جانا اور انہیں قتل نہ کرنا کہ اس صورت میں تمہاری جگہ جہنم کے سوا کہیں نہ ہوگی جوکوئی یہ چاہے کہ اس دن کے خوف سے نجات پائے اسے چاہیے کہ وہ میرے ولی کا تابع ہو، میرے بعد میرے وصی

۲۶۵

 و خلیفہ کی تعمیل کرے جو کہ علی بن ابی طالب(ع) ہے۔ کہ وہ میرے حوض کا صاحب ہے میں اس کے دشمنوں کو اس حوض ( حوض کوثر) سے دور کردوں گا اور اس کے دوستوں کو اس سے سیراب کروں گا۔ وہ شخص ہمیشہ پیاسا رہے گا جو اس حوض سے نہیں پیئے گا اور جو اس سے پیئے گا وہ ہمیشہ سیراب رہے گا اور کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ بیشک علی بن ابی طالب(ع) دنیا و آخرت میں میرا علمدار ہے وہ پہلا بندہ ہے جو بہشت میں داخل ہوگا کیونکہ وہ میرے آگے لوا حمد کو اٹھائے ہوئے ہوگا اور آدم(ع) اور دوسرے پیغمبر(ع) اس کے پیچھے ہونگے۔

۱۰ـ          ایک شخص امام صادق(ع) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) مجھے مکارم اخلاق سے مطلع کریں آپ(ع) نے فرمایا اس سے در گزر کرو جس نے تم پر ظلم کیا ہے اور اس سے صلہ رحم کرو جس نے تم سے قطع تعلق کیا ہے اسے عطا کرو جس نے تمہیں محروم کیا ہے اور سچ بات کہو اگر چہ وہ تمہارے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو مومن زوال جمعرات اور ظہر جمعہ کے دوران ٹھیک یہ مت کاٹیں انتقال کر جائے اسے خدا فشارِ قبر سے پناہ دیتا ہے۔

۱۲ـ          ایک شخص نے امام صادق(ع) سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت کریں آپ(ع) نے فرمایا خود کو آمادہ کرو( آخرت کے لیے) اور اس طولانی سفر کے لیے (توشہ آگے بھیجو) خود وصی رہو( اپنی مدد خود کرتے رہو یعنی عبادات کی ادائیگی کرو) اور دیگر کو اپنا امین نہ جانو جو کچھ تیری اصلاح کرے اسے اپنے لیے بھیجو۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جوکوئی تیس بار”سبحان اﷲ و بحمده سبحان اﷲ العظيم و بحمده “ کہے تو اس کے لیے ایسا ہے کہ جیسے اس توانگری کی طرف رخ کیا فقر کو پیچھے چھوڑا اور بہشت کے دروازے کو کھٹکھٹایا۔

جنابِ امیر(ع) کا غلاموں سے برتاؤ

۱۴ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا بخدا جنابِ امیرالمومنین(ع) کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی لوگوں کوکھانا

۲۶۶

 و خوراک دیا کرتے ان کے ساتھ زمین پر تشریف رکھتے۔ جب کبھی کپڑا یا لباس خرید فرماتے تو دو قسم کے پیراہن لاتے اور اپنے خدمت گاروں کو یہ اختیار دیا کرتے کہ جونسا پیراہن بہتر ہے وہ لے لیں اور باقی رہ جانے والے کو خود زیب تن کرتے اگر اس کی آستین ہاتھ کی انگلیوں سے لمبی ہوتی تو اسے کاٹ دیتے اگر اس کا دامن ٹخنوں سے لمبا ہوتا تو اسے چیر دیتے۔ آپ(ع)(تقریبا) پانچ سال خلیفہ رہے مگر پیچھے کسی قسم کی دولت سونا، چاندی، جائیداد وغیرہ نہ چھوڑی لوگوں کو نان و گوشت سے طعام کرواتے اور خود گھر واپس آکر جو کی روٹی کے ساتھ تناول فرماتے جب کبھی خدا کی راہ میں دو پسندیدہ اعمال ایک ساتھ اختیار کرنے کا موقع آجاتا تو اس عمل کو منتخب کرتے جو زیادہ سخت ہوتا آپ(ع) نے ہزاروں کافروں  کو خاک میں ملا دیا، کسی میں ان جیسے اعمال کرنے کی تاب نہیں تھی وہ ایک ہزار رکعات رات میں ادا کیا کرتے تھے ان کی قریب ترین شبیہ علی بن حسین(ع) تھے۔

تابعین میں سے ایک شخص نے انس بن مالک سے سنا کہ ہ آیت علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے” وہ بندہ ہے جو راتوں کو عبادت کرتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اور قیام کرتا ہے آخرت کے خوف سے اور اپنے پروردگار سے رحمت کی امید رکھتا ہے“ ( زمر، ۹) یہ شخص کہتا ہے کہ میں علی(ع) کے پاس گیا تاکہ ان کی عبادات کا مشاہدہ کروں خدا گواہ ہے جب مغرب کا وقت ہوا تو میں ان کے پاس تھا میں نے دیکھا وہ اپنے اصحاب کے ساتھ نمازِمغرب پڑھنے کے بعد تعقیبات میں مشغول ہوگئے میں ان کے ہمراہ ان کے گھر گیا انہوں نے تمام رات نمازیں پڑھیں اور قرآن کی تلاوت فرماتے رہے یہاں تک کہ سفیدی ظاہر ہوگئی پھر آپ(ع) نے تجدید وضو کی اور مسجد میں آگئے اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی پھر آپ(ع) نماز میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور لوگ ان کی طرف رجوع کرنے لگے میں نے دیکھا کہ دو اشخاص ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسی معاملے کو فیصلے کے لیے پیش کیا جب آپ(ع) نے انہیں فیصلہ دے کر فارغ کیا تو دو آدمی اور آگئے اور ان سے اپنے کسی معاملے میں قضاوت کے لیے درخواست کی اسی دوران نمازِ ظہر کا وقت آگیا آپ(ع) نمازِ ظہر کے لیے اٹھے تجدید وضو کی اور اپنے اصحاب کے ہمراہ ظہر پڑھنے کے بعد تعقیبات پڑھنے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا تو آپ(ع) نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز عصر ادا کی

۲۶۷

اس کے بعد پھر لوگوں کا رجوع آپ(ع) کی طرف ہوگیا، آپ(ع) کی خدمت میں پھر دو مرد آکر کسی سلسلے میں بیٹھ گئے پھر ان کے بعد مزید دو مرد آگئے آپ(ع) ان کے درمیان قضاوت کرتے اور انہیں فتوے دیتے رہے اس دوران آفتاب غروب ہوگیا اور میں ( انس بن مالک) نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ یہ آیت ان کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔

۱۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کو بھوک میں کھانا کھلائے گا تو خدا اسے بہشت کے میوے عطا کرے گا اور جو کوئی اس ( مومن) کو برھنگی میں لباس پہنائے گا تو خدا ایسے شخص کے استبرق و حریر کے لباس عطا کرے گا۔ جوکسی مومن کی پیاس پانی یا شربت سے مٹائے گا تو ایسے کو خدا رحیق المختوم پلائے گا، جو کسی مومن کی مدد یا اس کی مصیبت کو دور کرے گا تو خدا اسے اپنے عرش کے سائے میں اس دن جگہ دے گا کہ جس دن اس (عرش) کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں رہے گا۔

۱۶ـ          اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) بیت المال اور خراج کی رقوم کو تقسیم کرنے کے لیے مساکین کو اکٹھا کرتے اور اپنے دست مبارک سے دائیں بائیں دولت تقسیم کیا کرتے اور فرماتے اے سنہری رو پیلی دولت تم میرے علاوہ کسی کو فریب دو”ه ذا جنای و خيار ه فیه اذ کل جان يد ه الی فیه “ کہ” اس میں بہت میوہ (ثواب) ہے بہ نسبت اسکے کہ جومیوہ منہ سے کھایا جائے“ آپ(ع) اس وقت تک بیت المال سے باہر تشریف نہ لے جاتے جب تک کہ سب کچھ تقسیم نہ ہو جاتا پھر حکم جاری فرماتے کہ اس جگہ کو دھوکر جھاڑو دیدو پھر وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے اور دنیا کو تین طلاقیں دیتے اور سلام نماز کے بعد فرماتے اے دنیا میرے ساتھ آویزاں نہ ہو اور مجھے اپنی طرف راغب نہ کر اور فریب نہ دے کہ وہ میں نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں میں تیری طرف رجوع نہیں کرتا۔

۱۷ـ          امام رضا(ع) سے دریافت کیا گیا کہ عقل کیا ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا۔ غصہ پی جانا دشمنوں سے نرمی ک برتاؤ کرنا اور دوستوں کی مدارات کرنا عقل مندی ہے۔

۱۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا روز قیامت خدا خلق اولین و آخرین کو ایک ایسی زمین پر جمع

۲۶۸

 کرے گا تاریکی ان سب کو گھیرے ہوگی اور وہ اپنے پروردگار سے نالہ و فریاد کررہے ہوں گے کہ پروردگار ہمیں اس تاریکی سے نجات دلا۔

امام(ع) نے فرمایا پھر ایک نور ان کے سامنے ظہور کرے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ پیغمبرانِ خدا ہیں مگر خدا کی طرف سے ندا آئے گی کہ نہیں یہ پیغمبر نہیں ہیں پھر تمام حاضرین قیامت کہیں گے کہ یہ فرشتے ہیں تو ندا آئے  گی نہیں یہ فرشتے نہیں ہیں تو یہ سن کر سب کہیں گے کہ یہ شہدا ہیں تو پھر رب العزت کی طرف سے ندا دی جائے گی کہ تم خود ان سے پوچھ لو یہ کون ہیں لہذا تمام حاضرین قیامت ان سے سوال کریں گے کہ تم کون ہو تو یہ جواب دینگے کہ ہم زریتِ علویہ(ع) و رسول خدا(ص) اور اولاد علی(ع) ولی خدا ہیں ہم امت خدا میں سے آسائش و اطمینان کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں اس وقت ان کو خدا کی طرف سے ندا پہنچے گی کہ تم اپنے دوستوں و شیعوں کی شفاعت کرو اور یہ جس کی چاہیں گے شفاعت کریں گے۔

۱۹ـ          ایک روز رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اے میرے اصحاب خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت کےساتھ متمسک رہو اور اس کی پیروی کرو کہ وہ میرا اور تمہارا ولی اور امام ہے اس کی مخالفت نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ اور اس سے جدا مت رہو کہ گمراہ ہوجاؤ بیشک خدا نے علی(ع) کو نفاق اور ایمان کے درمیان علامت بنایا ہے جو کوئی اسے دوست رکھے وہ مومن ہے اور جو دشمن رکھے منافق ہے اور بیشک خدا نے علی(ع) کو میرا وصی اور نور بخشے والا بنایا ہے وہ راز کی حفاظت کرنے والا، میرے علم کا خزانہ اور میرے بعد میرے خاندان میں سے خلیفہ ہے اور بخدا میں ظالمین کی اس( خدا) سے شکایت کرتا ہوں۔

۲۶۹

مجلس نمبر۴۸

( ۹ ۔ ربیع اول سنہ۳۶۷ھ))

ظہور محمدی(ص) اور ابلیس کی آسمان میں داخلہ بندی

۱ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی(ع) کی ولادت سے قبل ابلیس ساتویں آسمان تک جاتا تھا۔ (وہاں کی خبریں کاہنوں اور ستارہ شناسوں کو دیا کرتا تھا) جب عیسی(ع) پیدا ہوئے تو ابلیس کا داخلہ تین آسمانوں پر بند کردیا گیا۔ اور اسکی رسائی صرف چار آسمانوں تک رہ گئی جب جناب ِ رسول خدا(ص) کی پیدائش ہوئی تو ابلیس کا داخلہ ساتویں آسمانوں پر بند کردیا گیا۔ اور شیاطین کو تیروں سے مارا جاتا۔ قریش کا کہنا تھا کہ اہل کتاب انہیں لوگوں ( کاہنوں اور ستارہ شناسوں) سے خبریں لے کر خود سے منسوب کیا کرتے تھے۔

عمرو بن امیہ جو کہ زمانہ جاہلیت میں ستارہ شناس تھا لوگوں کو کہا کرتا تھا کہ یہ ستارے ہمارے راہنما ہیں۔ ان ہی گرمی اور سردی کے موسموں کا پتا چلتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی ستارہ اپنی جگہ سے گردش کرے تو جہاں میں ہلاکت برپا ہوجائے اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہیں اور دیگر ستارے گردش کریں تو حوادثاتِ زمانہ رونما ہوتے ہیں۔

جس روز پیغمبر(ص) کی ولایت ہوئی اس صبح تمام بت اوندھے منہ گر پڑے۔ دریائے ساوہ خشک اور وادی ساوہ میں پانی بھر گیا۔ اس رات کسری کے محل کو چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر گئے۔ آتش کدہ فارس جو کہ ہزار سال سے روشن تھا اس رات بجھ گیا۔ موبدان ( مجوسی عالموں) نے اس رات خواب دیکھا کہ ایک اونٹ سختی سے عربی گھوڑوں کو کھینچ رہا ہے۔ اور دجلہ سے گزرنے کے بعد وہ گھوڑے بلادِ عجم میں منتشر ہوگئے ہیں۔ اسی رات حجاز سے ایک نور بر آمد ہوا اور پرواز کر کے مشرق تک پہنچ گیا۔تمام سلاطین اوندھے ہوگئے۔ ان کی رنگت سرخ ہوگئی اور ان کے بولنے کی طاقت سلب ہوگئی۔ ہر طرف کاہنوں کا علم اور جادو گروں کا سحر باطل ہوگیا۔ اور کاہنوں

۲۷۰

کے ہم زاد شیاطین کو ان سے دور کردیا گیا۔ قریش کو اہل عرب کے درمیان آل ِ اﷲ سے پکارا گیا۔

امام صادق(ع) نے فرمایا ان کو آل اﷲ ان کی بیت اﷲ( مکہ) میں سکونت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ آمنہ(س) نے فرمایا جب میرا فرزند زمین پر آیا تو دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا( سجدہ کیا) اور پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کر کے آسمان کی طرف دیکھا ۔ پھر اس سے ایک نور خارج ہوا کہ اس نے تمام چیزوں کو روشن کردیا۔ اس نور میں سے آواز آئی کہ تم ( آمنہ(س)) نے سید عرب کو جنا ہے اس کا نام محمد(ص) رکھو میں نے جو دیکھا تھا ان سے ( عبدالمطلب(ع)سے) بیان فرمایا ۔ عبدا لمطلب(ع) نے حضور(ص) کو گود میں لیا اور فرمایا خدا کی حمد ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسا فرزند عطا کیا جو خوشبو سے معطر ہے اور گہوارے میں بھی تمام فرزندان کا آقا ہے پھر عبدالمطلب(ع) نے ایک تعویذ دیا کہ جس میں ارکانِ کعبہ مندرج تھے پھر اشعار کے ذریعے ان( آںحضرت(ص)) کی مدحت بیان فرمائی۔

ابلیس نے اپنے مددگاروں کے درمیان فریاد بلند کی تو تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوئے اور اس سے کہنے لگے ہمارے آقا تم کس چیز سے خوفزدہ ہو اس نے کہا وائے ہو تم پر میں گذشتہ شب سے آسمان و زمین میں سرگرداں ہوں اور مشاہدہ کرتا ہوں کہ زمانے میں کیا نئی  وعجیب بات رونما ہوئی ہے۔ کہ ولادت عیسی(ع) سے لے کر اب تک میں نے ایسا نہیں دیکھا۔ تم سب جاؤ اور جو کچھ پیش آیا ہے اس کی خبر مجھے دو۔ وہ تمام چاروں طرف پھیل گئے پھر واپس آئے اور کہنے لگے ہمیں تو کچھ بھی نیا محسوس نہیں ہوا۔ ابلیس نے انہیں کہا تم ٹھہرو میں خود دیکھتا ہوں۔ پھر اس نے تمام دنیا میں پھر کر دیکھا۔ یہاں تک کہ حرم مکہ میں اس نے دیکھا کہ فرشتے حرم کو تھامے ہوئے ہیں ابلیس نے چاہا کہ وہ اس میں داخل ہو مگر اسے آواز دی گئی۔   کہ واپس جاؤ۔ لہذا وہ ایک چھوٹی سست چڑیا کے روپ میں غارِ حرا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ جبرائیل(ع) نے اسے دھمکایا اور اس سے فرمایا۔ جاؤ اے ملعون اس نے جبرائیل(ع)  سے کہا۔ اے جبرائیل(ع) میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں مجھے بتاؤ گذشتہ شب سے اب تک کیا واقعہ رونما ہوا ہے جبرائیل(ع) نے فرمایا محمد(ص) پیدا ہوئے ہیں ابلیس نے کہا کیا اس میں میرا حصہ ہے۔ جبرائیل(ع) نے فرمایا نہیں اس میں تیرا کوئی حصہ نہیں پھر ابلیس نے دوبارہ پوچھا کہ کیا اس کی امت میں میرا کوئی حصہ ہے  جبرائیل(ع) نے فرمایا ہاں ہے تو

۲۷۱

 کہنے لگا میں اس پر راضی ہوں۔

۲ـ           خدا فرماتا ہے کہ گناہ صغیرہ یا کبیرہ کرنے والا اگر یہ خیال کرے کہ میں عذاب دینے یا درگزر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو میں اس کے گناہ نہیں کروں گا لیکن اگر وہ اس بات کا معتقد ہے کہ میں یہ اختیار رکھتا ہوں کہ اس کے گناہ معاف کردوں یا عذاب دیدوں تو میں اسے معاف کردوں گا۔

۳ـ ام ایمن، جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کوئی چیز انکی چادر میں تھی۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ ام ایمن تمہاری چادر میں کیا ہے۔ ام ایمن نے کہا یا رسول اﷲ(ص) فلاں کی شادی پر کچھ نچھاور کیا گیا۔ اس میں سے کچھ حصہ میں اپنے ہمراہ لائی ہوں یہ کہہ کر ام ایمن نے گریہ کرنا شروع کردیا۔ رسول خدا(ص) نے پوچھا اے ام ایمن کیوں روتی ہو ام ایمن نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے فاطمہ(س) کی تزویج  کی مگر ان پر سے کچھ نچھاور نہیں کیا۔ رسول خدا(ص) نے ارشاد رفرمایا اے ام ایمن کیوں جھوٹ کہتی ہو بیشک خدا  نے علی(ع) و فاطمہ(س) کی تزویج کی تو اہل بہشت پر حکمِ خدا سے درخت( میوہ جات) و زیور و لباس۔ یاقوت و زمرد و استبرق۔ کو نچھاور کیا گیا۔ خدا نے درختِ طوبی فاطمہ(س) کو بخشا ہے اور اسے علی(ع) کے گھر میں رکھا ہے۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ جوکوئی اس خوشی کو چاہتا ہے کہ پل صراط پر سے برق کی طرح گذر جائے اور بغیر حساب بہشت میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ولی کی ولایت کا اقرار کرے کہ وصی و رفیق اور خلیفہ میرا خاندان ہے اورمیری امت میں علی(ع) بن ابی طالب(ع) ہے اور جوکوئی اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائے تو اسے چاہیے کہ اس(علی(ع)) کی ولایت ترک کردے ۔ پروردگار کے عزت وجلال کی قسم۔علی(ع) باب اﷲ ہے کہ بجز اس کے کسی کو باب اﷲ نہ دیکھو گے۔ وہ صراط مستقیم ہے۔ روز قیامت اس کی ولایت کا سوال پوچھا جائیگا۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ خدا اس بندے پر رحمت کرے جو اپنے باپ کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے اور رحمت کرے اس باپ پر کہ جو بیٹے کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے۔ خدا رحمت کرے اس ہمسائے پر جو اپنے ہمسائے کی مدد کرے۔ اور اس پر احسان کرے

۲۷۲

اور خدا رحمت کرے اس رفیق پر جو اپنے رفیق کی مدد کرے اور احسان کرے خدا رحمت کرے اس صحبت میں بیٹھنے والے پر جو اپنی صحبت میں بیٹھنے والے پر احسان کرے اور اس کی مدد کرے، اور خدا رحمت کرے اس سلطان پر جو  اپنے بندے  کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا اپنے باپوں سے نیکی کرو  تاکہ تمہارے فرزند تم سے نیکی کریں۔ اور لوگوں کی عورتوں سے عفو کرو تاکہ لوگ تمہاری عورتوں سے عفو کریں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ہم وہ خاندان ہیں کہ ہماری مردانگی بندوں کی بخشش ہے ( شفاعت) مگر جس نے ہمارے ساتھ ستم کیا( اس کی شفاعت نہیں کریں گے)

۸ـ          احمد بن عمر حلبی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا۔کون سی خصلت مرد کے لیے زیادہ زیبا ہے آپ(ع) نے فرمایا وقار ، بغیر درخواست کے بخش دینا اور آخرت کے لالچ کے بغیر متاع دینا۔

۹ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی اپنی رات کو طلب حلال کے لیے عاجزی سے بسر کرتا ہے( جائز حاجات کو خدا سے طلب کرتا ہے) تو بخش دیا جاتا ہے۔

۱۰ـ          احمد بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) نے دریافت کیا کہ شمشیر زوالفقار رسولِ خدا(ص) کو کہاں سے ملی تھی۔ آپ(ع) نے ارشاد فرمایا اسے جبرائیل(ع) آسمان سے لائے تھے۔ اور اس کا قبضہ چاندی کا تھا اور وہ میرے پاس ہے۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہےکہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ ثبات ایمان کیا ہے تو فرمایا ورع ہے پھر پوچھا گیا کہ اس کا زوال کس چیز میں ہے تو فرمایا طمع میں۔

۲۷۳

وفاتِ انس پر فرشتوں کی حاضری

۱۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جب کوئی مومن مرتا ہے تو فرشتے اس کی قبر سے اسے بہ حالت تشیع لے کر جاتے ہیں۔ اور جب اسے قبر میں دفن کرتے ہیں تو منکر نکیر اس کی قبر میں آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں تیرا پروردگار کون ہے تیرا پیغمبر(ص) کون ہے اگر وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور محمد(ص) میرا پیغمبر(ص)  ہے اور اسلام میرا دین ہے تو وہ اس کی قبر کو تا حدِ نظر وسیع کردیتے ہیں اور بہشت سےکھانا و روح ایمان لاتے ہیں یہ اس قول خدا کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ ” پس اگر وہ( مرنے والا خداکے) مقربین سے ہے تو اس کے لیے آرام و آسائش ہے یعنی اس کی قبر میں اور خوشبو دار پھل  اور نعمت کے باغ یعنی آخرت میں۔( سورہ واقعہ، ۸۹ـ۸۸)

پھر امام(ع) نے فرمایا جب کافر مرتا ہے تو دوزخ کے ستر ہزار فرشتے اس کے ہمراہ اس کی قبر تک آتے ہیں وہ مردہ اس وقت فریاد کرتا ہے جو کہ جن و انس کے علاوہ ہر شئی سنتی ہے کہ کاش مجھے واپس کردیا جائے تاکہ میں مومن ہوجاؤں وہ اپنے حاملان کی قسم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے واپس کردو میں نے جسے ترک کیا تھا اس پر عمل کروں گا تو فرشتے اسے کہیں گے کہ یہ صرف تیرا زبانی بیان ہے اگر تجھے پلٹادیا گیا تو تو دوبارہ بھی وہی کرے گا پھر جب اسے قبر میں دفن کردیا جاتا ہے اور لوگ اس سے جدا ہوجاتے ہیں تو منکر نکیر خوفناک شکل میں اس پر وارد ہوتے ہیں اسے کھڑا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا پروردگار کون ہے تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے تو اس کی زبان تالو سے چمٹ جاتی ہے وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا منکر نکیر اسے عذاب خدا کی ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ ہر چیز اس سے ڈراتی اور کانپتی ہے پھر اس سے کہتے ہیں تیرا خدا کون ہے تیرا دین کیا ہے تیرا پیغمبر کون ہے وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا۔ وہ اس سے کہتے ہیں تو نہیں جانتا اس لیے راہ نہیں پائے گا۔ اور کامیاب نہیں ہوگا پھر دوزخ و جہنم کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور یہ اس قول خدا کی تفسیر ہے کہ” ( وہ ) جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے تو( اس کی مہمانداری) کھولتا ہوا پانی ہے اور جہنم میں داخل کردینا ( واقعہ،۹۴ـ۹۳ـ۹۲) یعنی قبر میں

۲۷۴

 اور آخرت میں دوزخ کی آگ اسے گھیرے گی۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا کے نزدیک تین حرمتیں ہیں جن کی مانند کوئی نہیں۔

اول :  قرآن جو کہ اس کی حکمت ہے۔

دوم :  اس کا نور۔

سوم :  اس کا گھر جو کہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اور تمہارے پیغمبر(ص) کا خاندان اور بندہ مومن ان کے سوا کچھ اور قبول نہیں کرتا۔

۱۴ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا بہشت میں ایک درخت ہے جس سے لباس عطا کیا جاتا ہے اس کے نیچے زین ولگام کے ساتھ پروں والے گھوڑے رہتے ہیں اولیاء اﷲ ان گھوڑوں پر سواری کریں گے اور جہاں چاہے پرواز کریں گے یہ ان (اولیاء) کا سب سے کم درجہ( سب سے کم تر چیز جو انہیں دی جائے گی) ہوگا۔ پروردگار سے عرض کیا جائے گا کہ تیرے یہ بندے کیوں کر اس کرامت کو پہنچے تو خدا فرمائے گا ۔ یہ وہ ہیں جو راتوں کو عبادت کرتے تھے اور دن کو روزہ رکھتے تھے دشمن کے ساتھ جہاد کرنے سے نہیں دڑتے تھے۔ صدقہ دیتے تھے۔ اور بخل نہیں کرتے تھے۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نےفرمایا جوشخص پانچ چیزیں نہیں رکھتا تو خدا اسے کچھ زیادہ نہیں دیتا عرض کیا گیا یاابن(ع) رسول اﷲ(ص) وہ کون سے چیزیں ہیں فرمایا، دین، عقل، حیاء، حسنِ خلق اور حسن ادب اور جس شخص کے پاس یہ پانچ چیزیں ہیں اس کی زندگی صاف ستھری ہے اول تندرستی دوئم آسودگی سوئم بی نیازی۔ چہارم قناعت۔ پنجم دوستوں و عزیزوں سے محبت۔

قیامِ شب

۱۶ـ امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے عبادت شبینہ اور قرائت قرآن کے میں دریافت کیا۔ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا خوشخبری ہے اس آدمی کے لیے جو اونچی رات کا دسواں حصہ خدا کی رضا اور اس کی عبادت میں بسر کرتا ہے تو خدا اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے اس بندے کے

۲۷۵

 حساب میں دریاے نیل کے پانی سے نکلنے والی نباتات اور اگنے والے درختوں کی تعداد اور تمام روئے زمین کے چرند پرند کی تعداد کے برابر ثواب لکھا جائے۔ جو کوئی رات کا نواں حصہ نماز پڑھنے میں بسر کرئے گا تو خدا اس کی دس دعائیں قبول فرمائے گا اور روز قیامت اس کے دائیں ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا جو شخص اپنی شب کا آٹھواں حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو خدا اس کو ایک خوش نیت شہید کے برابر اجر عطا کرے گا اور اس کو اس کے خاندان کی شفاعت کا حق عطا کرے گا۔ جو شب کا ساتواں حصہ عبادت و نماز میں گزارے گا تو روز قیامت جب اسے قبر سے نکالا جائے گا اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند روشن ہوگا یہاں تک کہ وہ پل صراط پر سے گذر جائے گا اور امن والوں کے ساتھ ہوگا، جو کوئی اپنی شب کا چھٹا حصہ نماز ادا کرنے میں گزارے گا تو اس کے لیے امان ( دوزخ و عذاب سے) لکھی جائے گی اور اس کے تمام گناہ معاف فرمادیئے جائیں گے، جو کوئی بھی اپنی شب کا پانچواں حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو وہ ابراہیم خلیل اﷲ(ع) کے ساتھ ان کے گنبد میں ان کے شانہ بہ شانہ رہے گا، جو کوئی اپنی شب کا چوتھا حصہ عبادت و نماز میں گزارے گا تو وہ فائز ہونے والے اولین میں ہوگا وہ پل صراط سے ہوا کے تیز جھونکے کی طرح گزرے گا، اور بے حساب بہشت میں داخل ہوجائے گا۔ جو شخص اپنی رات کا تیسرا حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو اس کو خدا کے نزدیک ترین مقام پر لے جایا جائے گا اور کوئی فرشتہ ایسا نہ ہوگا جو اس سے نہ کہے کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے تم جس سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ جو اپنی ںصف شب کو ذکر الہی اور نماز پڑھنے میں گزارے گا۔ تو اسے زمین کے وزن سے ہزار گنا زیادہ سونا دیا جائے گا اور یہ اس کی کم ترین جزا ہوگی۔

اور جو کوئی اپن تمام رات میں  اس کے دو ثلث حصہ میں نماز اور باقی میں تلاوت قرآن کرے گا تو اس کے حساب میں ریگستان کے ذروں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور ہر نیکی کا وزن کوہ احد سے زیادہ ہوگا۔ اور جو بھی اپنی تمام رات کو نماز اور تلاوتِ قرآن میں گزارے گا تو اس کو کم ترین اجر اسے دیہ دیا جائے گا کہ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے اور خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے کے شمار کے برابر اس کے لیے نیکیاں لکھی

۲۷۶

جائیں گی۔ اس کی قبر کو نور سے بھر دیا جائے گا۔ گناہ و حسد اس کے دل سے خارج کردئیے جائیں گے۔ عذاب قبر سے اسے پناہ دی جائے گی دوزخ سے اسے برائت ملے گی اور خدا اپنے فرشتوں سے فرمائے گا اے میرے فرشتو دیکھو میرا یہ بندہ  میری رضا کے لیے راتیں جاگ کر گزارتا رہا اسے بہشتِ فردوس میں لے جاؤ یہ وہاں ایک لاکھ شہروں کا مالک ہے اور یہ ان میں سے جس طرح چاہے اپنی آنکھوں کو لذت پہنچائے۔ اور یہ اس پر کی جانے والی دیگر کرامتوں کے علاوہ ہے اور یہ اس لیے ہےکہ یہ حق کی طرف آمادہ ہوا۔ تمام تعریفیں عالمین کے رب کے لیے ہیں۔ اور صلواتِ خلقِ خیر محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر ہو۔

۲۷۷

مجلس نمبر۴۹

( ماہ ربیع الاول سنہ ۳۶۸ھ)

۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا روح الامین جبرائیل(ع) نے میرے رب کی طرف سے مجھے خبر دی ہے کہ جب تک بندہ اپنے مقدر میں لکھی ہوئی روزی نہیں کھالیتا نہیں مرتا۔ لہذا خدا سے ڈرتے رہو۔ اور طلب رزق میں آرام سے رہو۔ جان لو کہ رزق دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جسے تم طلب کرتے ہو اور دوسرا وہ کہ جو تمہیں طلب کرتا ہے روزی کو حلال ذرائع سے طلب کرو گے تو حلال کھاؤ گے اور اگر راہ حرام سے طلب کرو گے تو حرام ملے گا۔ اور جو تمہیں ملے نا چار اسی کو کھانا پڑے گا۔

۲ـ           امام رضا(ع) نے فرمایا ہماری ذریت کی طرف نگاہ کرنا( انہیں دیکھنا عبادت ہے) ان سے عرض کیا گیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کیا صرف ائمہ(ع) کو دیکھنا عبادت ہے یا تمام اولاد پیغمبر(ص) کو تو فرمایا کہ تمام اولاد پیغمبر(ص) کو دیکھنا عبادت ہے۔

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب میں مقام محمود پر اپنی امت کے گناہ گاروں کی شفاعت کرنے آؤں گا تو خدا اس شفاعت کو قبول فرمائے گا لیکن خدا کی قسم جس شخص نے میری ذریت کو آزار پہنچایا ہوگا اس کی شفاعت نہیں کروں گا۔

۴ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جب بندوں کے گناہ زیادہ ہوجائیں گے اور وہ اس کا کفارہ نہ کرسکیں گے تو خدا انہیں غم و مصیبت میں مبتلا کردے گا تاکہ ان کا کفارہ ادا ہوجائے ورنہ وہ انہیں ان گناہوں کےکفارے کے لیے بیماری میں مبتلا کردے گا یا پھر موت کے وقت ان پر سختی کرے گا اگر یہ سب نہیں تو پھر انہیں عذاب قبر میں مبتلا کردے گا تاکہ ملاقاتِ رب کے وقت وہ گناہوں سے پاک ہوں۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی۔ معراج۔ سوال قبر اور شفاعت کا منکر ہوگا۔ وہ ہمارا شیعہ نہیں۔

۲۷۸

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا۔ نزدیک ہے کہ فقر(غربت) کفر ہوجائے ( یعنی غربت و فقیری کفر کی طرف مائل کردے) اور حسد تقدیر پر غالب ہو جائے۔

۷ـ          جنابِ امیرالمومنین(ع) نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی طرح کی دو اشیاء کا مجموعہ علم اور حلم کے مجموعہ سے بہتر نہیں ( یعنی اگر علم کے ساتھ ساتھ حلم ہوتو بہتر ہے)

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ۔ خدا کے نزدیک محبوب بندہ وہ ہے کہ جو سچ کہنے والا امانت ادا کرنے والا نماز کی حفاظت کرنے والا اور واجبات خدا کو ادا کرنے والا ہو پھر حضرت(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی امانت پر امین ہوگا اور اسے ادا کرے گا تو یہ اس کے لیے ایسا ہے کہ جیسے اس نے اپنی گردن سے آگ کی ہزار گرہیں کھولیں کیوںکہ جوکوئی کسی امانت کا امین ہے اس پر شیطان مردود اپنے ساتھیوں کو نگران مقرر کرتا ہے کہ اسے گمراہ کریں اور وسوسے میں ڈالین تاکہ وہ ہلاکت کا شکار ہو۔ مگر اس بندے کی حفاظت خدا فرماتا ہے۔ یہ ظلم ہے کہ کوئی سوار۔ پیدل چلنے والے سے کہے کہ مجھے راہ دے۔

(۹) امام صادق(ع) نے فرمایا اہل توحید

۱۰ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث کیا اور میں خوشخبری سنانے والا ہوں خدا ہرگز توحید پرست کو عذابِ دوزخ نہیں دے گا اور بے شک اہل توحید شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی پھر آپ(ع) نے فرمایا خدا روز قیامت بدکاروں کے لیے دوزخ کا حکم صادر کرے گا تو وہ بندے کہیں گے خدایا ہمیں کیوں دوزخ کا عذاب دیا جارہا ہے جب کہ ہم نے دنیا میں تیری توحید کا اقرار کیا تھا۔ تو کیسے ہماری زبانیں جلاتا ہے جب کہ دنیا میں یہ تیری توحید کے لیے گویا ہوئی ہیں۔ تو کیسے ہمارے دلوں کو جلاتا ہے کہ ان میں تیرے سوا کسی کو جگہ نہیں ملی۔ ہمارے چہرے کس لیے جلائے جانے کا حکم دیا ہے کہ یہ تیرے سوا کسی کے لیے خاک پر نہیں رکھے گئے اور ہمارے ہاتھوں کو کیوں جلایا جارہا ہے کہ یہ تیری بارگاہ کے علاوہ کسی کے آگے نہیں اٹھے۔

۲۷۹

خدا تعالیٰ ارشاد فرمائے گا اے میرے بندو یہ اس بدکاری کے عوض ہے جو تم دنیا میں کی ہے تمہاری سزا دوزخ ہے۔ وہ لوگ عرض کریں گے بارالہا تیرا عفو بڑا ہے یا ہمارے گناہ، خدا فرمائے گا میرا عفو پھر وہ لوگ کہیں گے تیری رحمت بڑی ہے یا ہمارے گناہ، تو خدا فرمائے گا میری رحمت، پھر کہیں گے تیری توحید کا اقرار بڑا ہے یا ہمارے گناہ، فرمائے گا تمہارا اقرار توحید بڑا ہے تو کہیں گے پھر تو اپنی رحمت واسعہ اور عفو سے ہمیں گھیرلے۔

خدا اپنے فرشتوں سے فرمائےگا، میرے ملائکہ میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کسی کو اہل توحید سے زیادہ محبوب خلق نہیں کیا ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے مجھ پر یہ حق ہے کہ میں انہیں آگ میں نہ جلاؤں تم انہیں بہشت میں لے جاؤ۔

حضرت ابراہیم(ع) اور مرد عابد

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ ابراہیم خلیل اﷲ(ع) اپنی بکریوں کو چرانے کوہ بیت المقدس کے پیچھے لے گئے۔ اسی دوران آپ(ع) نے اچانک ایک آواز سنی اور ایک شخص کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اس کا قد بارہ گز تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو پھر ابراہیم(ع) نے کہا اے بندہ خدا تم کس لیے نماز پڑھ رہے ہو اس نے جواب دیا خدائے آسمان کے لیے، ابراہیم(ع) نے پوچھا کیا تم اپنی قوم سے بچھڑ گئے ہو۔ اس نے کہا نہیں پوچھا کھانا کہاں سے کھاتے ہو اس نے جواب دیا میں گرمیوں میں پھل جمع کرتا ہوں اور انہیں سردیوں میں کھاتا ہوں ابراہیم(ع) نے پوچھا تیرا گھر کہاں ہے اس نے ہاتھ سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔ ابراہیم(ع) نے کہا مجھے تم اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ میں تمہارے ساتھ آج رات گزارنا چاہتا ہوں اس نے کہا میرے گھر کے راستے میں ایک دریا ہے جسے آپ(ع) عبور نہیں کرسکتے پوچھا تم وہ دریا کیسے عبور کرتے ہو۔ اس نے بتایا کہ میں اس کے پانی پر چل کر اسے عبور کرتا ہوں۔ ابراہیم(ع) نے فرمایا میں تیرے ساتھ اس لیے جانا چاہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ رزق تیرے مقدر میں لکھا ہے شاید اس میں سے مجھے بھی کچھ عطا کرے، کہتے ہیں اس عابد نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر چل پڑا جب دریا پر پہنچے تو ان دونوں نے دریا کے پانی

۲۸۰