مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)9%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 306998 / ڈاؤنلوڈ: 7982
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

جناب رسول خدا(ص) کی رحلت

۱۱ـ           امام جعفر صادق(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ قریش سے دو اشخاص امام علی بن حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ(ع) نے ان سے فرمایا ، تمہیں رسول خدا(ص) کی رحلت کے بارے میں بتاؤں؟ انہوں نے کہا جی ہاں فرمائے امام(ع) نے فرمایا میں نے اپنے والد(ع) سے سنا کہ وفاتِ پیغمبر(ص) سے تین روز قبل جبرائیل (ع) رسول خدا(ص) کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا اے احمد(ص) مجھے خداوند کریم نے آپ(ص) کی مزاج پرسی اور آپ(ص) کو تعظیم دینے کے لیے بھیجا ہے وہ آپ(ص) کے حال کو بہتر جانتا ہے مگر ارشاد فرماتا ہے کہ اے محمد(ص) تیرا کیا حال ہے پیغمبر(ص) نے فرمایا میں شدت غم میں ہوں، پھر تیسرے روز جبرائیل(ع) و ملک الموت اور فرشتہ اسماعیل(ع) ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے اور سب سے پہلے جبرائیل(ع) نے آپ(ص) کی خدمت میں حاضری دی اور فرمایا خدا نے ہمیں خصوصی طور پر آپ(ص) کی احوال پرسی کے لیے بھیجا ہے وہ فرماتا ہے اے محمد(ص) اب آپ(ص) کا کیا حال ہے آپ(ص) نے فرمایا میں شدتِ غم میں ہوں   اے جبرائیل(ع) ، اس وقت ملک الموت نے داخل ہونے کے لیے  اجازت طلب کی جبرائیل(ع) نے فرمایا ی احمد(ص) یہ ملک الموت(ع) ہیں جو داخلے کی اجازت طلب کررہے ہیں آج سے پہلے انہوں نے کبھی کسی سے اجازت طلب نہیں کی اور آپ کے بعد بھی یہ کسی سے اجازت طلب نہیں کریں گے رسول خدا(ص) نے فرمایا انہیں اجازت دیدو وہ آئے اور جنابِ رسول خدا(ص) کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا اے محمد(ص) مجھے خدا نے آپ(ص) کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ(ص) جس طرح حکم کریں اس پر عمل کروں اگر آپ(ص) اجازت دیں تو آپ(ص) کی روح قبض کروں اور اگر نہ چاہیں تو اپنا ہاتھ کھینچ لوں۔ آپ(ص) نے فرمایا اے ملک الموت جس طرح میں چاہوں گا تم عمل کرو گے؟ کہا ہاں میں آپ(ص) کی اطاعت پر مامور ہوں جبرائیل(ع) نے کہا اے احمد(ص) خدا آپ(ص) سے ملاقات کا مشتاق ہے یہ سن کر رسول خدا(ص) نے فرمایا اے ملک الموت تم جس چیز پر مامور ہو اس پر عمل کرو جبرائیل(ع) نے فرمایا یہ آخری مرتبہ ہے کہ میں اس زمین پر آیا اور اس دفعہ بھی اس کا سبب آپ(ص) ہی تھے۔ جب رسول خدا(ص) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تو لوگوں کو ایک آواز سنائی دی مگر کوئی دکھائی نہ

۲۶۱

دیا اس غائب شخص نے پہلے تعزیت کی اور پھر کہا تم پر سلام ہو اور خدا کی رحمت اور برکات ہوں یہ ہر نفس کے لیے ہے کہ اس موت کو ذائقہ چکھنا ہے اور بیشک وہ روزِ قیامت اپنی جزا پائے گا ( آل عمران،۱۸۵) بیشک خدا کی نظر میں ہر آرام وہ مصیبت زدہ اور ہر جانشین فانی ہے اور ہر فوت شدہ خدا پر بھروسا کیے بیٹھا ہے اور امیدوار ہے کیوںکہ مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہے ” والسلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ“ یہ کہہ کردہ آواز شدہ ہوگئی جناب امیر(ع) نے فرمایا تم جانتے ہو یہ کون تھے یہ خضر علیہ السلام تھے۔

۱۲ـ          جابر بن عبداﷲ انصاری(رح) نے جناب علی ابن طالب (ع) علی(ع) سے روایت کیا کہ ایک دفعہ بی بی فاطمہ(س) نے رسول خدا(ص) سے کہا بابا جان روز موقفِ اعظم و روزِ فزع  آپ(ص) کو میں کہاں دیکھوں گی فرمایا اے فاطمہ(س) میں بہشت  کے دروازے پر ہوں گا لو احمد میرے پاس ہوگا اور میں درگاہ پر دردگار میں اپنی امت کی شفاعت کر رہا ہوں گا عرض کیا میرے بابا(ع) اگر آپ(ص) کو وہاں بھی بہ دیکھ سکوں؟ تو فرمایا پل صراط پر مجھ سے ملاقات کرنا کہ میں وہاں کھڑا ہوں گا اور کہتا ہوں گا۔ پروردگارا میری امتکو سلامت رکھ بی بی(ع) نے عرض کیا اگر اس جگہ بھی ملاقات نہ ہوتو  فرمایا مجھے مقام میزان پر دیکھنا کہ میں کہنا ہوں گا پروردگارا میری امت کو سالم رکھ بی بی فاطمہ(س) نے کہا اگر یہاں بھی نہ دیکھوں، تو فرمایا مجھے پر تگاؤ دوزخ پر دیکھنا کہ اپنی امت کو اس شعلوں سے بچا رہا ہوں گا فاطمہ یہ خبر سن کر خوش ہوگئیں اﷲ ان پر ان کے والد پر ان شوہر پر اور ان کی اولاد پر رحمت نازل کرے۔

۱۳ـ          جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا کوئی قرآن کو نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی کس کے بارے میں نازل ہوئی اور کس موضوع پر نازل ہوئی، بیابان میں نازل ہوئی یا پہاڑ، پر جناب امیر(ع) سے پوچھا گیا کہ آپ(ع) کے بارے میں کیا کچھ نازل ہوا ہے فرمایا اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں تم کو ہرگز نہ بتاتا۔ میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ” بیشک تم منذر ہو اور ہر قوم میں ایک ہادی ہوا ہے“ (رعد، ۷) اور جو کچھ لایا گیا ہے( یعنی دین و دنیا و کتاب اور آخرت) اس میں جناب رسول خدا(ص) منذر اور میں ہادی ہوں۔

۲۶۲

مجلس نمبر۴۷   

(پانچ ربیع اول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           محمد بن فرج رخجی کہتے ہیں کہ میں نے ابو الحسن علی بن محمد(ع) کو خط بھیجا جس میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے قول و عقیدے کو لکھا تو آپ(ع) نے جواب میں فرمایا سرگردان و حیران کو چھوڑ دو اور خدا کی پناہ مانگو شیطان رجیم سے جو کچھ یہ دونوں ہشام کہتے ہیں درست نہیں ہے۔

(قارئین ہشام بن حکم کے دور کے واقعات کا مطالعہ فرمائیں۔ اس فرمانروانے اپنے عہد میں علماء اور عامتہ الناس میں س بحث  کا آغاز کروایا تھا کہ معاذ اﷲ خدا جسم رکھتا ہے یا نہیں یہ مندرجہ بالا حدیث اسی سلسلے کی رد میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔ محقق)

۲ـ           صقر بن دلف کہتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن علی بن محمد(ع) سے توحید کے بارے میں پوچھا اور انہیں اپنے عقیدہ، توحید جو کہ ہشام کے عقیدے کے مطابق تھا، کے متعلق بھی آگاہ کیا یہ سن کر اور جناب ابوالحسن علی بن محمد(ع) نے ناراضگی و غصے سے ارشاد فرمایا۔ کہ تجھے ہشام کے کہنے سے کیا واسطہ جو کوئی اس بات پر اعتقاد رکھے کہ خدا جسم رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں۔ اے ابن دلف جسم حادث ہے اور خدا اس کو ایجاد کرنے اور مجسم کرنے والا ہے۔

۳ـ          علی بن کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ میں آپ(ع) پر قربان میرے پس پشت جو شخص (ہشام) ہے وہ قومِ یونس کا ہم عقیدہ ہے اور مجھے ان کے پیچھے نماز پڑھنی پڑتی ہے۔

آپ(ع) نے جواب میں فرمایا ان کے پیچھے نماز مت پڑھو انہیں زکوة مت دو ان سے بیزار رہو۔

۴ـ          عبداﷲ بن سنان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں موجود تھا۔ کہ خوارج میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے ابو جعفر تم کس کی عبادت کرتے ہو آپ(ع) نے جواب دیا خدا کی اس نے کہا اسے کبھی دیکھا ہے آپ(ع) نے فرمایا اسے ظاہری

۲۶۳

 آنکھوں سے نہیں دیکھا گیا صرف ایمان قلبی سے اس کی حقیقت کو پایا جاتا ہے قیاس  سے اسے نہیں پایا جاسکتا۔ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہے کہ اسے پہچانا جائے۔ وہ علامات سے پہچانا جانا ہے اور وہ کہ جس کی حکمت میں جور نہیں وہ خدا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے یہ سن کر وہ مرد باہر چلا گیا اور یہ کہنے لگا کہ خدا دانا تر ہےاور علم رکھتا ہےکہ اپنی رسالت ( حکمت) کو وہ کسے عطا کرئے۔

۵ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا خدا ہمیشہ سے دانا و توانا۔ زندہ و قدیم اور سننے اور دیکھنے والا ہے فضل بن سلیمان کوفی کہتے ہیں کہ میں نے امام(ع) سے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص)، لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمیشہ سے خدا اپنے علم کی وجہ سے دانا اور اپنی قدرت کی وجہ سے توانا، حیات کی وجہ سے زندہ قدم سے قدیم سمع سے سننے والا اور بصیرت کی وجہ سے بیناء ہے یہ سن کر امام(ع) نے فرمایا جو کوئی اس طرح خیال رکھے اور اس بات کا معتقد ہو تو جان لو کہ اس نے خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا اور ہماری ولایت سے اسے کوئی واسطہ نہیں، پھر امام عالی مقام(ع) نے فرمایا خدا ہمیشہ سے بذات خود قادر و توانا، زندہ و قدیم اور سمیع و بصیر ہے اور کچھ اس کےبارے میں مشرکین اور شبہ کرنے والے کہتے ہیں وہ اس سے کہیں برتر ہے۔

۶ـ           محمد بن عمارہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا یاابن رسول اﷲ(ص) کیا خدا کے ہاں رضا و جبر ہے آپ(ع) نے فرمایا ہاں مگر یہ مخلوق کی مانند نہیں ہے اس کا غصہ اس کا عتاب اور اس کی رضا اس کا ثواب ہے۔

۷ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا بیشک خدا زمان و مکان، حرکت و انتقال اور سکون کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ زمان و مکان ، حرکت و سکون و انتقال سے برتر ہے کہ اس کا خالق ہے اور جو کچھ ظالمین اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ اس سے کہیں برتر ہے۔

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا نہ میں جبر کا معتقد ہوں اور نہ تفویض کا۔

۲۶۴

جنابِ رسول خدا(ص) کا دنیا سے خطاب

۹ـ           امام صادق(ع) نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے دنیا سے خطاب کر کے فرمایا تو اپنے خادم کو رنج میں گراتی ہے اور اپنے تارک کی خدمت کرتی ہے پھر آپ(ع) نے  فرمایا جو بندہ نصف شب کی تاریکی میں اپنے آقا سے خلوت کرے اور اپنے راز اس سے بیان کرے ۔ تو خدا اسکے دل میں نور کو جگہ دیتا ہے اور جب کہے” یا رب جلیل جل جلالہ“ تو خدا فرماتا ہے لبیک میرے بندے مجھ سے طلب کر میں تجھے دوںگا۔ تو مجھ پر توکل کر میں تیری کفالت کروں گا۔ پھر رب العزت اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے، اے ملائکہ میرا یہ بندہ اندھیری رات میں مجھ سے خلوت میں راز و نیاز کرتا ہے اور جو بیہودگی اور غفلت میں ہیں وہ سوئے ہیں اور تم گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کر دیا ہے پھر جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا تم کوشش و عبادت اور ورع وتقوی اختیار کیے رکھو اور اس دنیا سے بے رغبت رہو کیونکہ یہ تم سے بھی رغبت نہیں رکھتی یہ فریب دینے والی اور زوال و فنا کا گھر ہے بہت سے لوگوں نے اس کا فریب کھایا اورفنا ہوگئے۔ جو بھی اس پر تکیہ کرے گا یہ اسے فنا کردے گی اور خیانت کرے گی بہت سے لوگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اس نے ان کے ساتھ خیانت کی جان لو کہ تمہارے سامنے خوفناک اور ہراساں کرنے والی راہ ہے کہ اس کا سفر لمبا ہے تمہیں پل صراط پر سے گذرنا ہے جس کے لیے مسافر کا لازما توشہ چاہیے اور جو کوئی بغیر توشہ کے سفر اختیار کرے اسے رنج میں مبتلا اور ہلاکت کا شکار ہونا پڑتا ہے بہترین توشہ تقوی ہےتم اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونے کو یاد کرو اور اپنے جواب کے لیے تیار ہو جاؤ اور اس وقت کے لیے خود کو آمادہ کرو جب وہ تم سے باز پرس کرے گا وہ عادل و حاکم ہے تیار کرو خود کو اس وقت کے لیے کہ جب وہ تم سے میرے خاندان(ع)، کتابِ خدا اور ثقلین کے بارے میں باز پرس کرے گا اور دیکھو کہیں کتابِ خدا میں تغیر و تبدل و تحریف نہ کر دینا اور میرے اہل بیت(ع) سے جدا نہ ہو جانا اور انہیں قتل نہ کرنا کہ اس صورت میں تمہاری جگہ جہنم کے سوا کہیں نہ ہوگی جوکوئی یہ چاہے کہ اس دن کے خوف سے نجات پائے اسے چاہیے کہ وہ میرے ولی کا تابع ہو، میرے بعد میرے وصی

۲۶۵

 و خلیفہ کی تعمیل کرے جو کہ علی بن ابی طالب(ع) ہے۔ کہ وہ میرے حوض کا صاحب ہے میں اس کے دشمنوں کو اس حوض ( حوض کوثر) سے دور کردوں گا اور اس کے دوستوں کو اس سے سیراب کروں گا۔ وہ شخص ہمیشہ پیاسا رہے گا جو اس حوض سے نہیں پیئے گا اور جو اس سے پیئے گا وہ ہمیشہ سیراب رہے گا اور کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ بیشک علی بن ابی طالب(ع) دنیا و آخرت میں میرا علمدار ہے وہ پہلا بندہ ہے جو بہشت میں داخل ہوگا کیونکہ وہ میرے آگے لوا حمد کو اٹھائے ہوئے ہوگا اور آدم(ع) اور دوسرے پیغمبر(ع) اس کے پیچھے ہونگے۔

۱۰ـ          ایک شخص امام صادق(ع) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) مجھے مکارم اخلاق سے مطلع کریں آپ(ع) نے فرمایا اس سے در گزر کرو جس نے تم پر ظلم کیا ہے اور اس سے صلہ رحم کرو جس نے تم سے قطع تعلق کیا ہے اسے عطا کرو جس نے تمہیں محروم کیا ہے اور سچ بات کہو اگر چہ وہ تمہارے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو مومن زوال جمعرات اور ظہر جمعہ کے دوران ٹھیک یہ مت کاٹیں انتقال کر جائے اسے خدا فشارِ قبر سے پناہ دیتا ہے۔

۱۲ـ          ایک شخص نے امام صادق(ع) سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت کریں آپ(ع) نے فرمایا خود کو آمادہ کرو( آخرت کے لیے) اور اس طولانی سفر کے لیے (توشہ آگے بھیجو) خود وصی رہو( اپنی مدد خود کرتے رہو یعنی عبادات کی ادائیگی کرو) اور دیگر کو اپنا امین نہ جانو جو کچھ تیری اصلاح کرے اسے اپنے لیے بھیجو۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جوکوئی تیس بار”سبحان اﷲ و بحمده سبحان اﷲ العظيم و بحمده “ کہے تو اس کے لیے ایسا ہے کہ جیسے اس توانگری کی طرف رخ کیا فقر کو پیچھے چھوڑا اور بہشت کے دروازے کو کھٹکھٹایا۔

جنابِ امیر(ع) کا غلاموں سے برتاؤ

۱۴ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا بخدا جنابِ امیرالمومنین(ع) کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی لوگوں کوکھانا

۲۶۶

 و خوراک دیا کرتے ان کے ساتھ زمین پر تشریف رکھتے۔ جب کبھی کپڑا یا لباس خرید فرماتے تو دو قسم کے پیراہن لاتے اور اپنے خدمت گاروں کو یہ اختیار دیا کرتے کہ جونسا پیراہن بہتر ہے وہ لے لیں اور باقی رہ جانے والے کو خود زیب تن کرتے اگر اس کی آستین ہاتھ کی انگلیوں سے لمبی ہوتی تو اسے کاٹ دیتے اگر اس کا دامن ٹخنوں سے لمبا ہوتا تو اسے چیر دیتے۔ آپ(ع)(تقریبا) پانچ سال خلیفہ رہے مگر پیچھے کسی قسم کی دولت سونا، چاندی، جائیداد وغیرہ نہ چھوڑی لوگوں کو نان و گوشت سے طعام کرواتے اور خود گھر واپس آکر جو کی روٹی کے ساتھ تناول فرماتے جب کبھی خدا کی راہ میں دو پسندیدہ اعمال ایک ساتھ اختیار کرنے کا موقع آجاتا تو اس عمل کو منتخب کرتے جو زیادہ سخت ہوتا آپ(ع) نے ہزاروں کافروں  کو خاک میں ملا دیا، کسی میں ان جیسے اعمال کرنے کی تاب نہیں تھی وہ ایک ہزار رکعات رات میں ادا کیا کرتے تھے ان کی قریب ترین شبیہ علی بن حسین(ع) تھے۔

تابعین میں سے ایک شخص نے انس بن مالک سے سنا کہ ہ آیت علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے” وہ بندہ ہے جو راتوں کو عبادت کرتا ہے اور سجدہ کرتا ہے اور قیام کرتا ہے آخرت کے خوف سے اور اپنے پروردگار سے رحمت کی امید رکھتا ہے“ ( زمر، ۹) یہ شخص کہتا ہے کہ میں علی(ع) کے پاس گیا تاکہ ان کی عبادات کا مشاہدہ کروں خدا گواہ ہے جب مغرب کا وقت ہوا تو میں ان کے پاس تھا میں نے دیکھا وہ اپنے اصحاب کے ساتھ نمازِمغرب پڑھنے کے بعد تعقیبات میں مشغول ہوگئے میں ان کے ہمراہ ان کے گھر گیا انہوں نے تمام رات نمازیں پڑھیں اور قرآن کی تلاوت فرماتے رہے یہاں تک کہ سفیدی ظاہر ہوگئی پھر آپ(ع) نے تجدید وضو کی اور مسجد میں آگئے اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی پھر آپ(ع) نماز میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور لوگ ان کی طرف رجوع کرنے لگے میں نے دیکھا کہ دو اشخاص ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسی معاملے کو فیصلے کے لیے پیش کیا جب آپ(ع) نے انہیں فیصلہ دے کر فارغ کیا تو دو آدمی اور آگئے اور ان سے اپنے کسی معاملے میں قضاوت کے لیے درخواست کی اسی دوران نمازِ ظہر کا وقت آگیا آپ(ع) نمازِ ظہر کے لیے اٹھے تجدید وضو کی اور اپنے اصحاب کے ہمراہ ظہر پڑھنے کے بعد تعقیبات پڑھنے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا تو آپ(ع) نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز عصر ادا کی

۲۶۷

اس کے بعد پھر لوگوں کا رجوع آپ(ع) کی طرف ہوگیا، آپ(ع) کی خدمت میں پھر دو مرد آکر کسی سلسلے میں بیٹھ گئے پھر ان کے بعد مزید دو مرد آگئے آپ(ع) ان کے درمیان قضاوت کرتے اور انہیں فتوے دیتے رہے اس دوران آفتاب غروب ہوگیا اور میں ( انس بن مالک) نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ یہ آیت ان کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔

۱۵ـ          جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جو کوئی کسی مومن کو بھوک میں کھانا کھلائے گا تو خدا اسے بہشت کے میوے عطا کرے گا اور جو کوئی اس ( مومن) کو برھنگی میں لباس پہنائے گا تو خدا ایسے شخص کے استبرق و حریر کے لباس عطا کرے گا۔ جوکسی مومن کی پیاس پانی یا شربت سے مٹائے گا تو ایسے کو خدا رحیق المختوم پلائے گا، جو کسی مومن کی مدد یا اس کی مصیبت کو دور کرے گا تو خدا اسے اپنے عرش کے سائے میں اس دن جگہ دے گا کہ جس دن اس (عرش) کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں رہے گا۔

۱۶ـ          اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) بیت المال اور خراج کی رقوم کو تقسیم کرنے کے لیے مساکین کو اکٹھا کرتے اور اپنے دست مبارک سے دائیں بائیں دولت تقسیم کیا کرتے اور فرماتے اے سنہری رو پیلی دولت تم میرے علاوہ کسی کو فریب دو”ه ذا جنای و خيار ه فیه اذ کل جان يد ه الی فیه “ کہ” اس میں بہت میوہ (ثواب) ہے بہ نسبت اسکے کہ جومیوہ منہ سے کھایا جائے“ آپ(ع) اس وقت تک بیت المال سے باہر تشریف نہ لے جاتے جب تک کہ سب کچھ تقسیم نہ ہو جاتا پھر حکم جاری فرماتے کہ اس جگہ کو دھوکر جھاڑو دیدو پھر وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے اور دنیا کو تین طلاقیں دیتے اور سلام نماز کے بعد فرماتے اے دنیا میرے ساتھ آویزاں نہ ہو اور مجھے اپنی طرف راغب نہ کر اور فریب نہ دے کہ وہ میں نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں میں تیری طرف رجوع نہیں کرتا۔

۱۷ـ          امام رضا(ع) سے دریافت کیا گیا کہ عقل کیا ہے آپ(ع) نے ارشاد فرمایا۔ غصہ پی جانا دشمنوں سے نرمی ک برتاؤ کرنا اور دوستوں کی مدارات کرنا عقل مندی ہے۔

۱۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا روز قیامت خدا خلق اولین و آخرین کو ایک ایسی زمین پر جمع

۲۶۸

 کرے گا تاریکی ان سب کو گھیرے ہوگی اور وہ اپنے پروردگار سے نالہ و فریاد کررہے ہوں گے کہ پروردگار ہمیں اس تاریکی سے نجات دلا۔

امام(ع) نے فرمایا پھر ایک نور ان کے سامنے ظہور کرے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ پیغمبرانِ خدا ہیں مگر خدا کی طرف سے ندا آئے گی کہ نہیں یہ پیغمبر نہیں ہیں پھر تمام حاضرین قیامت کہیں گے کہ یہ فرشتے ہیں تو ندا آئے  گی نہیں یہ فرشتے نہیں ہیں تو یہ سن کر سب کہیں گے کہ یہ شہدا ہیں تو پھر رب العزت کی طرف سے ندا دی جائے گی کہ تم خود ان سے پوچھ لو یہ کون ہیں لہذا تمام حاضرین قیامت ان سے سوال کریں گے کہ تم کون ہو تو یہ جواب دینگے کہ ہم زریتِ علویہ(ع) و رسول خدا(ص) اور اولاد علی(ع) ولی خدا ہیں ہم امت خدا میں سے آسائش و اطمینان کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں اس وقت ان کو خدا کی طرف سے ندا پہنچے گی کہ تم اپنے دوستوں و شیعوں کی شفاعت کرو اور یہ جس کی چاہیں گے شفاعت کریں گے۔

۱۹ـ          ایک روز رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اے میرے اصحاب خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت کےساتھ متمسک رہو اور اس کی پیروی کرو کہ وہ میرا اور تمہارا ولی اور امام ہے اس کی مخالفت نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ اور اس سے جدا مت رہو کہ گمراہ ہوجاؤ بیشک خدا نے علی(ع) کو نفاق اور ایمان کے درمیان علامت بنایا ہے جو کوئی اسے دوست رکھے وہ مومن ہے اور جو دشمن رکھے منافق ہے اور بیشک خدا نے علی(ع) کو میرا وصی اور نور بخشے والا بنایا ہے وہ راز کی حفاظت کرنے والا، میرے علم کا خزانہ اور میرے بعد میرے خاندان میں سے خلیفہ ہے اور بخدا میں ظالمین کی اس( خدا) سے شکایت کرتا ہوں۔

۲۶۹

مجلس نمبر۴۸

( ۹ ۔ ربیع اول سنہ۳۶۷ھ))

ظہور محمدی(ص) اور ابلیس کی آسمان میں داخلہ بندی

۱ـ           امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی(ع) کی ولادت سے قبل ابلیس ساتویں آسمان تک جاتا تھا۔ (وہاں کی خبریں کاہنوں اور ستارہ شناسوں کو دیا کرتا تھا) جب عیسی(ع) پیدا ہوئے تو ابلیس کا داخلہ تین آسمانوں پر بند کردیا گیا۔ اور اسکی رسائی صرف چار آسمانوں تک رہ گئی جب جناب ِ رسول خدا(ص) کی پیدائش ہوئی تو ابلیس کا داخلہ ساتویں آسمانوں پر بند کردیا گیا۔ اور شیاطین کو تیروں سے مارا جاتا۔ قریش کا کہنا تھا کہ اہل کتاب انہیں لوگوں ( کاہنوں اور ستارہ شناسوں) سے خبریں لے کر خود سے منسوب کیا کرتے تھے۔

عمرو بن امیہ جو کہ زمانہ جاہلیت میں ستارہ شناس تھا لوگوں کو کہا کرتا تھا کہ یہ ستارے ہمارے راہنما ہیں۔ ان ہی گرمی اور سردی کے موسموں کا پتا چلتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی ستارہ اپنی جگہ سے گردش کرے تو جہاں میں ہلاکت برپا ہوجائے اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہیں اور دیگر ستارے گردش کریں تو حوادثاتِ زمانہ رونما ہوتے ہیں۔

جس روز پیغمبر(ص) کی ولایت ہوئی اس صبح تمام بت اوندھے منہ گر پڑے۔ دریائے ساوہ خشک اور وادی ساوہ میں پانی بھر گیا۔ اس رات کسری کے محل کو چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر گئے۔ آتش کدہ فارس جو کہ ہزار سال سے روشن تھا اس رات بجھ گیا۔ موبدان ( مجوسی عالموں) نے اس رات خواب دیکھا کہ ایک اونٹ سختی سے عربی گھوڑوں کو کھینچ رہا ہے۔ اور دجلہ سے گزرنے کے بعد وہ گھوڑے بلادِ عجم میں منتشر ہوگئے ہیں۔ اسی رات حجاز سے ایک نور بر آمد ہوا اور پرواز کر کے مشرق تک پہنچ گیا۔تمام سلاطین اوندھے ہوگئے۔ ان کی رنگت سرخ ہوگئی اور ان کے بولنے کی طاقت سلب ہوگئی۔ ہر طرف کاہنوں کا علم اور جادو گروں کا سحر باطل ہوگیا۔ اور کاہنوں

۲۷۰

کے ہم زاد شیاطین کو ان سے دور کردیا گیا۔ قریش کو اہل عرب کے درمیان آل ِ اﷲ سے پکارا گیا۔

امام صادق(ع) نے فرمایا ان کو آل اﷲ ان کی بیت اﷲ( مکہ) میں سکونت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ آمنہ(س) نے فرمایا جب میرا فرزند زمین پر آیا تو دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا( سجدہ کیا) اور پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کر کے آسمان کی طرف دیکھا ۔ پھر اس سے ایک نور خارج ہوا کہ اس نے تمام چیزوں کو روشن کردیا۔ اس نور میں سے آواز آئی کہ تم ( آمنہ(س)) نے سید عرب کو جنا ہے اس کا نام محمد(ص) رکھو میں نے جو دیکھا تھا ان سے ( عبدالمطلب(ع)سے) بیان فرمایا ۔ عبدا لمطلب(ع) نے حضور(ص) کو گود میں لیا اور فرمایا خدا کی حمد ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسا فرزند عطا کیا جو خوشبو سے معطر ہے اور گہوارے میں بھی تمام فرزندان کا آقا ہے پھر عبدالمطلب(ع) نے ایک تعویذ دیا کہ جس میں ارکانِ کعبہ مندرج تھے پھر اشعار کے ذریعے ان( آںحضرت(ص)) کی مدحت بیان فرمائی۔

ابلیس نے اپنے مددگاروں کے درمیان فریاد بلند کی تو تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوئے اور اس سے کہنے لگے ہمارے آقا تم کس چیز سے خوفزدہ ہو اس نے کہا وائے ہو تم پر میں گذشتہ شب سے آسمان و زمین میں سرگرداں ہوں اور مشاہدہ کرتا ہوں کہ زمانے میں کیا نئی  وعجیب بات رونما ہوئی ہے۔ کہ ولادت عیسی(ع) سے لے کر اب تک میں نے ایسا نہیں دیکھا۔ تم سب جاؤ اور جو کچھ پیش آیا ہے اس کی خبر مجھے دو۔ وہ تمام چاروں طرف پھیل گئے پھر واپس آئے اور کہنے لگے ہمیں تو کچھ بھی نیا محسوس نہیں ہوا۔ ابلیس نے انہیں کہا تم ٹھہرو میں خود دیکھتا ہوں۔ پھر اس نے تمام دنیا میں پھر کر دیکھا۔ یہاں تک کہ حرم مکہ میں اس نے دیکھا کہ فرشتے حرم کو تھامے ہوئے ہیں ابلیس نے چاہا کہ وہ اس میں داخل ہو مگر اسے آواز دی گئی۔   کہ واپس جاؤ۔ لہذا وہ ایک چھوٹی سست چڑیا کے روپ میں غارِ حرا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ جبرائیل(ع) نے اسے دھمکایا اور اس سے فرمایا۔ جاؤ اے ملعون اس نے جبرائیل(ع)  سے کہا۔ اے جبرائیل(ع) میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں مجھے بتاؤ گذشتہ شب سے اب تک کیا واقعہ رونما ہوا ہے جبرائیل(ع) نے فرمایا محمد(ص) پیدا ہوئے ہیں ابلیس نے کہا کیا اس میں میرا حصہ ہے۔ جبرائیل(ع) نے فرمایا نہیں اس میں تیرا کوئی حصہ نہیں پھر ابلیس نے دوبارہ پوچھا کہ کیا اس کی امت میں میرا کوئی حصہ ہے  جبرائیل(ع) نے فرمایا ہاں ہے تو

۲۷۱

 کہنے لگا میں اس پر راضی ہوں۔

۲ـ           خدا فرماتا ہے کہ گناہ صغیرہ یا کبیرہ کرنے والا اگر یہ خیال کرے کہ میں عذاب دینے یا درگزر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو میں اس کے گناہ نہیں کروں گا لیکن اگر وہ اس بات کا معتقد ہے کہ میں یہ اختیار رکھتا ہوں کہ اس کے گناہ معاف کردوں یا عذاب دیدوں تو میں اسے معاف کردوں گا۔

۳ـ ام ایمن، جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کوئی چیز انکی چادر میں تھی۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ ام ایمن تمہاری چادر میں کیا ہے۔ ام ایمن نے کہا یا رسول اﷲ(ص) فلاں کی شادی پر کچھ نچھاور کیا گیا۔ اس میں سے کچھ حصہ میں اپنے ہمراہ لائی ہوں یہ کہہ کر ام ایمن نے گریہ کرنا شروع کردیا۔ رسول خدا(ص) نے پوچھا اے ام ایمن کیوں روتی ہو ام ایمن نے کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے فاطمہ(س) کی تزویج  کی مگر ان پر سے کچھ نچھاور نہیں کیا۔ رسول خدا(ص) نے ارشاد رفرمایا اے ام ایمن کیوں جھوٹ کہتی ہو بیشک خدا  نے علی(ع) و فاطمہ(س) کی تزویج کی تو اہل بہشت پر حکمِ خدا سے درخت( میوہ جات) و زیور و لباس۔ یاقوت و زمرد و استبرق۔ کو نچھاور کیا گیا۔ خدا نے درختِ طوبی فاطمہ(س) کو بخشا ہے اور اسے علی(ع) کے گھر میں رکھا ہے۔

۴ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ جوکوئی اس خوشی کو چاہتا ہے کہ پل صراط پر سے برق کی طرح گذر جائے اور بغیر حساب بہشت میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ولی کی ولایت کا اقرار کرے کہ وصی و رفیق اور خلیفہ میرا خاندان ہے اورمیری امت میں علی(ع) بن ابی طالب(ع) ہے اور جوکوئی اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائے تو اسے چاہیے کہ اس(علی(ع)) کی ولایت ترک کردے ۔ پروردگار کے عزت وجلال کی قسم۔علی(ع) باب اﷲ ہے کہ بجز اس کے کسی کو باب اﷲ نہ دیکھو گے۔ وہ صراط مستقیم ہے۔ روز قیامت اس کی ولایت کا سوال پوچھا جائیگا۔

۵ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا۔ خدا اس بندے پر رحمت کرے جو اپنے باپ کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے اور رحمت کرے اس باپ پر کہ جو بیٹے کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے۔ خدا رحمت کرے اس ہمسائے پر جو اپنے ہمسائے کی مدد کرے۔ اور اس پر احسان کرے

۲۷۲

اور خدا رحمت کرے اس رفیق پر جو اپنے رفیق کی مدد کرے اور احسان کرے خدا رحمت کرے اس صحبت میں بیٹھنے والے پر جو اپنی صحبت میں بیٹھنے والے پر احسان کرے اور اس کی مدد کرے، اور خدا رحمت کرے اس سلطان پر جو  اپنے بندے  کی مدد کرے اور اس پر احسان کرے۔

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا اپنے باپوں سے نیکی کرو  تاکہ تمہارے فرزند تم سے نیکی کریں۔ اور لوگوں کی عورتوں سے عفو کرو تاکہ لوگ تمہاری عورتوں سے عفو کریں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ہم وہ خاندان ہیں کہ ہماری مردانگی بندوں کی بخشش ہے ( شفاعت) مگر جس نے ہمارے ساتھ ستم کیا( اس کی شفاعت نہیں کریں گے)

۸ـ          احمد بن عمر حلبی کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا۔کون سی خصلت مرد کے لیے زیادہ زیبا ہے آپ(ع) نے فرمایا وقار ، بغیر درخواست کے بخش دینا اور آخرت کے لالچ کے بغیر متاع دینا۔

۹ـ           جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا جوکوئی اپنی رات کو طلب حلال کے لیے عاجزی سے بسر کرتا ہے( جائز حاجات کو خدا سے طلب کرتا ہے) تو بخش دیا جاتا ہے۔

۱۰ـ          احمد بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) نے دریافت کیا کہ شمشیر زوالفقار رسولِ خدا(ص) کو کہاں سے ملی تھی۔ آپ(ع) نے ارشاد فرمایا اسے جبرائیل(ع) آسمان سے لائے تھے۔ اور اس کا قبضہ چاندی کا تھا اور وہ میرے پاس ہے۔

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہےکہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ ثبات ایمان کیا ہے تو فرمایا ورع ہے پھر پوچھا گیا کہ اس کا زوال کس چیز میں ہے تو فرمایا طمع میں۔

۲۷۳

وفاتِ انس پر فرشتوں کی حاضری

۱۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جب کوئی مومن مرتا ہے تو فرشتے اس کی قبر سے اسے بہ حالت تشیع لے کر جاتے ہیں۔ اور جب اسے قبر میں دفن کرتے ہیں تو منکر نکیر اس کی قبر میں آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں تیرا پروردگار کون ہے تیرا پیغمبر(ص) کون ہے اگر وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور محمد(ص) میرا پیغمبر(ص)  ہے اور اسلام میرا دین ہے تو وہ اس کی قبر کو تا حدِ نظر وسیع کردیتے ہیں اور بہشت سےکھانا و روح ایمان لاتے ہیں یہ اس قول خدا کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ ” پس اگر وہ( مرنے والا خداکے) مقربین سے ہے تو اس کے لیے آرام و آسائش ہے یعنی اس کی قبر میں اور خوشبو دار پھل  اور نعمت کے باغ یعنی آخرت میں۔( سورہ واقعہ، ۸۹ـ۸۸)

پھر امام(ع) نے فرمایا جب کافر مرتا ہے تو دوزخ کے ستر ہزار فرشتے اس کے ہمراہ اس کی قبر تک آتے ہیں وہ مردہ اس وقت فریاد کرتا ہے جو کہ جن و انس کے علاوہ ہر شئی سنتی ہے کہ کاش مجھے واپس کردیا جائے تاکہ میں مومن ہوجاؤں وہ اپنے حاملان کی قسم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے واپس کردو میں نے جسے ترک کیا تھا اس پر عمل کروں گا تو فرشتے اسے کہیں گے کہ یہ صرف تیرا زبانی بیان ہے اگر تجھے پلٹادیا گیا تو تو دوبارہ بھی وہی کرے گا پھر جب اسے قبر میں دفن کردیا جاتا ہے اور لوگ اس سے جدا ہوجاتے ہیں تو منکر نکیر خوفناک شکل میں اس پر وارد ہوتے ہیں اسے کھڑا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا پروردگار کون ہے تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے تو اس کی زبان تالو سے چمٹ جاتی ہے وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا منکر نکیر اسے عذاب خدا کی ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ ہر چیز اس سے ڈراتی اور کانپتی ہے پھر اس سے کہتے ہیں تیرا خدا کون ہے تیرا دین کیا ہے تیرا پیغمبر کون ہے وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا۔ وہ اس سے کہتے ہیں تو نہیں جانتا اس لیے راہ نہیں پائے گا۔ اور کامیاب نہیں ہوگا پھر دوزخ و جہنم کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور یہ اس قول خدا کی تفسیر ہے کہ” ( وہ ) جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے تو( اس کی مہمانداری) کھولتا ہوا پانی ہے اور جہنم میں داخل کردینا ( واقعہ،۹۴ـ۹۳ـ۹۲) یعنی قبر میں

۲۷۴

 اور آخرت میں دوزخ کی آگ اسے گھیرے گی۔

۱۳ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا خدا کے نزدیک تین حرمتیں ہیں جن کی مانند کوئی نہیں۔

اول :  قرآن جو کہ اس کی حکمت ہے۔

دوم :  اس کا نور۔

سوم :  اس کا گھر جو کہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اور تمہارے پیغمبر(ص) کا خاندان اور بندہ مومن ان کے سوا کچھ اور قبول نہیں کرتا۔

۱۴ـ          امیرالمومنین(ع) نے فرمایا بہشت میں ایک درخت ہے جس سے لباس عطا کیا جاتا ہے اس کے نیچے زین ولگام کے ساتھ پروں والے گھوڑے رہتے ہیں اولیاء اﷲ ان گھوڑوں پر سواری کریں گے اور جہاں چاہے پرواز کریں گے یہ ان (اولیاء) کا سب سے کم درجہ( سب سے کم تر چیز جو انہیں دی جائے گی) ہوگا۔ پروردگار سے عرض کیا جائے گا کہ تیرے یہ بندے کیوں کر اس کرامت کو پہنچے تو خدا فرمائے گا ۔ یہ وہ ہیں جو راتوں کو عبادت کرتے تھے اور دن کو روزہ رکھتے تھے دشمن کے ساتھ جہاد کرنے سے نہیں دڑتے تھے۔ صدقہ دیتے تھے۔ اور بخل نہیں کرتے تھے۔

۱۵ـ          امام صادق(ع) نےفرمایا جوشخص پانچ چیزیں نہیں رکھتا تو خدا اسے کچھ زیادہ نہیں دیتا عرض کیا گیا یاابن(ع) رسول اﷲ(ص) وہ کون سے چیزیں ہیں فرمایا، دین، عقل، حیاء، حسنِ خلق اور حسن ادب اور جس شخص کے پاس یہ پانچ چیزیں ہیں اس کی زندگی صاف ستھری ہے اول تندرستی دوئم آسودگی سوئم بی نیازی۔ چہارم قناعت۔ پنجم دوستوں و عزیزوں سے محبت۔

قیامِ شب

۱۶ـ امام صادق(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے عبادت شبینہ اور قرائت قرآن کے میں دریافت کیا۔ جنابِ امیر(ع) نے فرمایا خوشخبری ہے اس آدمی کے لیے جو اونچی رات کا دسواں حصہ خدا کی رضا اور اس کی عبادت میں بسر کرتا ہے تو خدا اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے اس بندے کے

۲۷۵

 حساب میں دریاے نیل کے پانی سے نکلنے والی نباتات اور اگنے والے درختوں کی تعداد اور تمام روئے زمین کے چرند پرند کی تعداد کے برابر ثواب لکھا جائے۔ جو کوئی رات کا نواں حصہ نماز پڑھنے میں بسر کرئے گا تو خدا اس کی دس دعائیں قبول فرمائے گا اور روز قیامت اس کے دائیں ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا جو شخص اپنی شب کا آٹھواں حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو خدا اس کو ایک خوش نیت شہید کے برابر اجر عطا کرے گا اور اس کو اس کے خاندان کی شفاعت کا حق عطا کرے گا۔ جو شب کا ساتواں حصہ عبادت و نماز میں گزارے گا تو روز قیامت جب اسے قبر سے نکالا جائے گا اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند روشن ہوگا یہاں تک کہ وہ پل صراط پر سے گذر جائے گا اور امن والوں کے ساتھ ہوگا، جو کوئی اپنی شب کا چھٹا حصہ نماز ادا کرنے میں گزارے گا تو اس کے لیے امان ( دوزخ و عذاب سے) لکھی جائے گی اور اس کے تمام گناہ معاف فرمادیئے جائیں گے، جو کوئی بھی اپنی شب کا پانچواں حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو وہ ابراہیم خلیل اﷲ(ع) کے ساتھ ان کے گنبد میں ان کے شانہ بہ شانہ رہے گا، جو کوئی اپنی شب کا چوتھا حصہ عبادت و نماز میں گزارے گا تو وہ فائز ہونے والے اولین میں ہوگا وہ پل صراط سے ہوا کے تیز جھونکے کی طرح گزرے گا، اور بے حساب بہشت میں داخل ہوجائے گا۔ جو شخص اپنی رات کا تیسرا حصہ نماز پڑھنے میں گزارے گا تو اس کو خدا کے نزدیک ترین مقام پر لے جایا جائے گا اور کوئی فرشتہ ایسا نہ ہوگا جو اس سے نہ کہے کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے تم جس سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ جو اپنی ںصف شب کو ذکر الہی اور نماز پڑھنے میں گزارے گا۔ تو اسے زمین کے وزن سے ہزار گنا زیادہ سونا دیا جائے گا اور یہ اس کی کم ترین جزا ہوگی۔

اور جو کوئی اپن تمام رات میں  اس کے دو ثلث حصہ میں نماز اور باقی میں تلاوت قرآن کرے گا تو اس کے حساب میں ریگستان کے ذروں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور ہر نیکی کا وزن کوہ احد سے زیادہ ہوگا۔ اور جو بھی اپنی تمام رات کو نماز اور تلاوتِ قرآن میں گزارے گا تو اس کو کم ترین اجر اسے دیہ دیا جائے گا کہ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہے اور خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے کے شمار کے برابر اس کے لیے نیکیاں لکھی

۲۷۶

جائیں گی۔ اس کی قبر کو نور سے بھر دیا جائے گا۔ گناہ و حسد اس کے دل سے خارج کردئیے جائیں گے۔ عذاب قبر سے اسے پناہ دی جائے گی دوزخ سے اسے برائت ملے گی اور خدا اپنے فرشتوں سے فرمائے گا اے میرے فرشتو دیکھو میرا یہ بندہ  میری رضا کے لیے راتیں جاگ کر گزارتا رہا اسے بہشتِ فردوس میں لے جاؤ یہ وہاں ایک لاکھ شہروں کا مالک ہے اور یہ ان میں سے جس طرح چاہے اپنی آنکھوں کو لذت پہنچائے۔ اور یہ اس پر کی جانے والی دیگر کرامتوں کے علاوہ ہے اور یہ اس لیے ہےکہ یہ حق کی طرف آمادہ ہوا۔ تمام تعریفیں عالمین کے رب کے لیے ہیں۔ اور صلواتِ خلقِ خیر محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر ہو۔

۲۷۷

مجلس نمبر۴۹

( ماہ ربیع الاول سنہ ۳۶۸ھ)

۱ـ           جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا روح الامین جبرائیل(ع) نے میرے رب کی طرف سے مجھے خبر دی ہے کہ جب تک بندہ اپنے مقدر میں لکھی ہوئی روزی نہیں کھالیتا نہیں مرتا۔ لہذا خدا سے ڈرتے رہو۔ اور طلب رزق میں آرام سے رہو۔ جان لو کہ رزق دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جسے تم طلب کرتے ہو اور دوسرا وہ کہ جو تمہیں طلب کرتا ہے روزی کو حلال ذرائع سے طلب کرو گے تو حلال کھاؤ گے اور اگر راہ حرام سے طلب کرو گے تو حرام ملے گا۔ اور جو تمہیں ملے نا چار اسی کو کھانا پڑے گا۔

۲ـ           امام رضا(ع) نے فرمایا ہماری ذریت کی طرف نگاہ کرنا( انہیں دیکھنا عبادت ہے) ان سے عرض کیا گیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کیا صرف ائمہ(ع) کو دیکھنا عبادت ہے یا تمام اولاد پیغمبر(ص) کو تو فرمایا کہ تمام اولاد پیغمبر(ص) کو دیکھنا عبادت ہے۔

۳ـ          جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جب میں مقام محمود پر اپنی امت کے گناہ گاروں کی شفاعت کرنے آؤں گا تو خدا اس شفاعت کو قبول فرمائے گا لیکن خدا کی قسم جس شخص نے میری ذریت کو آزار پہنچایا ہوگا اس کی شفاعت نہیں کروں گا۔

۴ـ امام صادق(ع) نے فرمایا جب بندوں کے گناہ زیادہ ہوجائیں گے اور وہ اس کا کفارہ نہ کرسکیں گے تو خدا انہیں غم و مصیبت میں مبتلا کردے گا تاکہ ان کا کفارہ ادا ہوجائے ورنہ وہ انہیں ان گناہوں کےکفارے کے لیے بیماری میں مبتلا کردے گا یا پھر موت کے وقت ان پر سختی کرے گا اگر یہ سب نہیں تو پھر انہیں عذاب قبر میں مبتلا کردے گا تاکہ ملاقاتِ رب کے وقت وہ گناہوں سے پاک ہوں۔

۵ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی۔ معراج۔ سوال قبر اور شفاعت کا منکر ہوگا۔ وہ ہمارا شیعہ نہیں۔

۲۷۸

۶ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا۔ نزدیک ہے کہ فقر(غربت) کفر ہوجائے ( یعنی غربت و فقیری کفر کی طرف مائل کردے) اور حسد تقدیر پر غالب ہو جائے۔

۷ـ          جنابِ امیرالمومنین(ع) نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی طرح کی دو اشیاء کا مجموعہ علم اور حلم کے مجموعہ سے بہتر نہیں ( یعنی اگر علم کے ساتھ ساتھ حلم ہوتو بہتر ہے)

۸ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا ۔ خدا کے نزدیک محبوب بندہ وہ ہے کہ جو سچ کہنے والا امانت ادا کرنے والا نماز کی حفاظت کرنے والا اور واجبات خدا کو ادا کرنے والا ہو پھر حضرت(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی امانت پر امین ہوگا اور اسے ادا کرے گا تو یہ اس کے لیے ایسا ہے کہ جیسے اس نے اپنی گردن سے آگ کی ہزار گرہیں کھولیں کیوںکہ جوکوئی کسی امانت کا امین ہے اس پر شیطان مردود اپنے ساتھیوں کو نگران مقرر کرتا ہے کہ اسے گمراہ کریں اور وسوسے میں ڈالین تاکہ وہ ہلاکت کا شکار ہو۔ مگر اس بندے کی حفاظت خدا فرماتا ہے۔ یہ ظلم ہے کہ کوئی سوار۔ پیدل چلنے والے سے کہے کہ مجھے راہ دے۔

(۹) امام صادق(ع) نے فرمایا اہل توحید

۱۰ـ          ابن عباس(رض) کہتے ہیں۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث کیا اور میں خوشخبری سنانے والا ہوں خدا ہرگز توحید پرست کو عذابِ دوزخ نہیں دے گا اور بے شک اہل توحید شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی پھر آپ(ع) نے فرمایا خدا روز قیامت بدکاروں کے لیے دوزخ کا حکم صادر کرے گا تو وہ بندے کہیں گے خدایا ہمیں کیوں دوزخ کا عذاب دیا جارہا ہے جب کہ ہم نے دنیا میں تیری توحید کا اقرار کیا تھا۔ تو کیسے ہماری زبانیں جلاتا ہے جب کہ دنیا میں یہ تیری توحید کے لیے گویا ہوئی ہیں۔ تو کیسے ہمارے دلوں کو جلاتا ہے کہ ان میں تیرے سوا کسی کو جگہ نہیں ملی۔ ہمارے چہرے کس لیے جلائے جانے کا حکم دیا ہے کہ یہ تیرے سوا کسی کے لیے خاک پر نہیں رکھے گئے اور ہمارے ہاتھوں کو کیوں جلایا جارہا ہے کہ یہ تیری بارگاہ کے علاوہ کسی کے آگے نہیں اٹھے۔

۲۷۹

خدا تعالیٰ ارشاد فرمائے گا اے میرے بندو یہ اس بدکاری کے عوض ہے جو تم دنیا میں کی ہے تمہاری سزا دوزخ ہے۔ وہ لوگ عرض کریں گے بارالہا تیرا عفو بڑا ہے یا ہمارے گناہ، خدا فرمائے گا میرا عفو پھر وہ لوگ کہیں گے تیری رحمت بڑی ہے یا ہمارے گناہ، تو خدا فرمائے گا میری رحمت، پھر کہیں گے تیری توحید کا اقرار بڑا ہے یا ہمارے گناہ، فرمائے گا تمہارا اقرار توحید بڑا ہے تو کہیں گے پھر تو اپنی رحمت واسعہ اور عفو سے ہمیں گھیرلے۔

خدا اپنے فرشتوں سے فرمائےگا، میرے ملائکہ میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کسی کو اہل توحید سے زیادہ محبوب خلق نہیں کیا ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے مجھ پر یہ حق ہے کہ میں انہیں آگ میں نہ جلاؤں تم انہیں بہشت میں لے جاؤ۔

حضرت ابراہیم(ع) اور مرد عابد

۱۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ ابراہیم خلیل اﷲ(ع) اپنی بکریوں کو چرانے کوہ بیت المقدس کے پیچھے لے گئے۔ اسی دوران آپ(ع) نے اچانک ایک آواز سنی اور ایک شخص کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اس کا قد بارہ گز تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو پھر ابراہیم(ع) نے کہا اے بندہ خدا تم کس لیے نماز پڑھ رہے ہو اس نے جواب دیا خدائے آسمان کے لیے، ابراہیم(ع) نے پوچھا کیا تم اپنی قوم سے بچھڑ گئے ہو۔ اس نے کہا نہیں پوچھا کھانا کہاں سے کھاتے ہو اس نے جواب دیا میں گرمیوں میں پھل جمع کرتا ہوں اور انہیں سردیوں میں کھاتا ہوں ابراہیم(ع) نے پوچھا تیرا گھر کہاں ہے اس نے ہاتھ سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔ ابراہیم(ع) نے کہا مجھے تم اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ میں تمہارے ساتھ آج رات گزارنا چاہتا ہوں اس نے کہا میرے گھر کے راستے میں ایک دریا ہے جسے آپ(ع) عبور نہیں کرسکتے پوچھا تم وہ دریا کیسے عبور کرتے ہو۔ اس نے بتایا کہ میں اس کے پانی پر چل کر اسے عبور کرتا ہوں۔ ابراہیم(ع) نے فرمایا میں تیرے ساتھ اس لیے جانا چاہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ رزق تیرے مقدر میں لکھا ہے شاید اس میں سے مجھے بھی کچھ عطا کرے، کہتے ہیں اس عابد نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر چل پڑا جب دریا پر پہنچے تو ان دونوں نے دریا کے پانی

۲۸۰

دسویں فصل

حضرت علی علیہ السلام اور خلیفۂ دوم کوسیاسی مشورے

امام علی علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کومحفوظ کرنا تھا۔ اسی بنا پر اگرچہ آپ اپنے کو پیغمبر کا برحق جانشین مانتے تھے اور آپ کی عظمت و برتری دوسروں پر واضح و آشکار تھی، اس کے باوجود جب بھی خلافت مشکل میں گرفتار ہوتی تھی تو آپ بلند ترین افکار اور عالی ترین نظروں سے اسے حل کردیتے تھے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے خلیفہء دوم کے زمانے میں مشورے اور بہت زیادہ سیاسی، اجتماعی اور علمی مشکلوں کو حل کیا ہے ،بہت سی جگہیں جہاں پر عمر نے سیاسی مسئلوں میں حضرت علی کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا ہے ان میں سے سے چند چیزوں کو ذکر کر رہے ہیں۔

ایران فتح کرنے کے متعلق مشورہ

۱۴ھ میں قادسیہ کی سرزمین پر اسلام کی فوج او رایرانی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اورایرانی فوج کا کمانڈر رستم فرّخ زاد، اور اس کے لشکر کے کچھ افراد قتل کردیئے گئے اور پورے عراق پر مسلمانوں کا سیاسی اور فوجی تسلط ہوگیا اور مدائن جو ساسانی بادشاہوں کی حکومت کا مرکز تھا مسلمانوں کے قبضے میں ہوگیا او رایرانی فوج کے سپہ سالار پیچھے ہٹ گئے۔

ایران کے فوجی سپہ سالاروں اور مشیروں کواس بات کا خوف تھا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ اسلام کی فوج دھیرے دھیرے بڑھتی رہے اور پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لے، ا س خطرناک حملے کے مقابلے کے لئے پارسی بادشاہ ، یزدگرد (ایرانی بادشاہ)نے فیروزان کی سپہ سالانی میں ایک لاکھ پچاس ہزار سپاہیوں کی فوج بنائی تاکہ ہر طرح کے حملے سے مقابلہ کریں اور اگر حالات سازگار ہوں تو خود حملہ کردیں۔

(عمار یاسر کے بقول) اسلام کی فوج کا سپہ سالار سعد وقاص ، جس کی کوفہ پر حکومت تھی اس نے عمر کو خط لکھا اور اسے حالات سے باخبر کیا کہ کوفہ کی فوج جنگ کرنے کے لئے تیار ہے اور قبل اس کے کہ دشمن ان پر حملہ کریں وہ لوگ دشمن پر رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے جنگ شروع کردیں۔

۲۸۱

خلیفہ مسجد میں گئے اور تمام بزرگ صحابیوں کو جمع کیااوران لوگوں کواپنے ارادے سے باخبر کیا کہ میں مدینہ چھوڑ رہا ہوں اور کوفہ اور بصرہ کے درمیان قیام کروں گا تاکہ وہاں رہ کر فوج کی رہبری کروں ۔ اس وقت طلحہ کھڑا ہوا اور خلیفہ کے اس اقدام کی تعریف کی اور ایسی تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ سے چاپلوسی کی بو آرہی تھی۔

عثمان بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے نہ صرف خلیفہ کے مدینہ چھوڑ نے کی تعریف کی بلکہ خلیفہ سے کہا کہ شام اور یمن کی فوج کے پاس خط لکھو کہ وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ دیں اور تم سے آکر مل جائیں اور تم اتنے زیادہ سپاہیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور دونوں نظریوں پر تنقید کی اور فرمایا: ''وہ سرزمین جو محنت و مشقت اور ابھی ابھی مسلمانوں کے تصرف میں آئی ہے اس کا اسلام کی فوج سے خالی رہنا صحیح نہیں ہے اگر یمن اور شام کے مسلمانوں کو وہاں سے ہٹا دو گے تو ممکن ہے حبشہ کی فوج یمن اور روم کی فوج شام کواپنے قبضے میں کرلیں، اور مسلمانوں کی اولادیں اورعورتیں جو یمن اور شام میں زندگی بسر کر رہی ہیں مصیبتوں میں گرفتار ہو جائیں۔ اور اگر مدینے کو چھوڑ کر چلے گئے تو اطراف و جوانب کے عرب اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورایسا فتنہ پیدا کردیں گے جس کا نقصان اس فتنہ سے زیادہ ہوگا جس کے مقابلے کے لئے جارہے ہو۔ اور (امور سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈوروں کی۔ جو انھیں ایک جگہ ملا کر رکھتا ہے پس اگر ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے اگر تو اسلامی فوج کے سپاہیوں کی کمی کی بنا پر فکر مند ہے تو مسلمان جو ایمان رکھتے ہیں سپرد کردیں ،تیری مثال چکی کی اس لکڑی کی ہے جو بیچ میں رہتی ہے اور جنگ کی چکی کو اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے انجام دے، جنگ کے میدان میں تمہارا جانا دشمنوں کی جرأت میں اضافہ کا سبب ہوگا، کیونکہ وہ لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ تم اسلام کے پیشوا و حاکم ہو اور تمہارے علاوہ مسلمانوں کا کوئی رہبر نہیں ہے اور اگر اس کودرمیان سے اٹھالیں تو ان لوگوںکی مشکل حل ہو جائے گی اور یہ فکر، ان کے جنگ کی حرص اور کامیابی حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔(۱) خلیفہ امام کی بات سننے کے

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

۲۸۲

بعد جنگ پر جانے سے باز آگیا اور کہا یہ رائے و ارادہ علی کا ارادہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے حکم کی پیروی کروں۔(۱)

بیت المقدس فتح کرنے کے بارے میں مشورہ

بیت المقدس فتح کرنے کے سلسلے میں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا اور حضرت کے حکم کی پیروی کی۔

مسلمانوں کو شام فتح کئے ہوئے صرف ایک مہینہ گزرا تھا اوران لوگوں کا ارادہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف چڑھائی کریں، اسلامی فوج کے علمبردار ابوعبیدہ جرّاح اور معاذ بن جبل تھے۔

معاذ نے ابوعبیدہ سے کہا: خلیفہ کو خط لکھو اور بیت المقدس کی طرف چڑھائی کے متعلق سوال، کرو ابو عبیدہ نے خط لکھا، خلیفہ نے مسلمانوں کے سامنے خط پڑھااوران لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔

امام ـ نے عمر کو شوق و رغبت دلایاکہ اپنے سپہ سالاروں کو خط لکھو کہ بیت المقدس کی طرف بڑھتے رہیں اور بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ٹھہر نہ جائیں بلکہ سرزمین قیصر میں داخل ہوں اور اس بات سے مطمئن رہیں کا کامیابی انھیں ہی ملے گی کیونکہ پیغمبر نے اس فتح و کامرانی کی خبر دی ہے۔

خلیفہ نے فوراً قلم و کاغذ منگایا اور ابوعبیدہ کو خط لکھا اوراسے جنگ جاری رکھنے اور بیت المقدس کی طرف بڑھنے کا حکم اور رغبت دلایا اور لکھا کہ پیغمبر کے چچازاد بھائی نے مجھے بشارت دی ہے کہ بیت المقدس تمہارے ہاتھوں سے فتح ہوگا۔(۲)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

(۲)ثمرة الاوراق، حاشیهٔ المستطرف میں، تحقیق: تقی الدین حموی ج۲ ص ۱۵، مطبوعہ مصر ۱۳۶۸ھ۔

۲۸۳

تاریخ اسلام کی ابتدا

ہر قوم کی ایک ابتدائی تاریخ ہوا کرتی ہے جس میں لوگ اپنے تمام واقعات و حادثات کو پرکھتے ہیں، مسیحی قوم کی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوتا ہے اور اسلام سے پہلے عربوں کی تاریخ ''عام الفیل'' سے شمار ہوتی تھی، بعض قوموں کی تاریخ کاآغاز عمومی ہوتا ہے اور بعض قومیں حادثات وغیرہ سے اپنی تاریخ کو یاد کرتی ہیں مثلاً قحط والا سال، جنگ کا سال، وغیرہ۔

عمر کی خلافت کے تیسرے سال تک مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی جسے خطوط اور تمام قرارداداورحکومت کے امور اس تاریخ سے مخصوص ہوتے، تو پھر ان خطوط کا کیا کہنا جو فوج کے سپہ سالاروں کے لئے لکھا جاتا تھا اورتمام خطوط میں صرف مہینوں کا نام لکھا جاتا تھا، لیکن تاریخی سال کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا، یہ کام اسلامی نظام میں نقص کے علاوہ خط موصول کرنے والوں کے لئے بھی مشکلیں ایجاد کر رہا تھا کیونکہ ممکن تھا کہ دو مختلف حکم سپہ سالار کے پاس یا حاکم وقت کے پاس پہونچے اور راستے کی دوری اور خطوط میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جان پائیں کہ پہلے کون سا خط لکھا گیا ہے۔خلیفہ نے تاریخ اسلام کی ابتدا اور اس کے تعیین کے لئے پیغمبر کے تمام صحابیوں کو جمع کیا لوگوںنے اپنے اپنے حساب سے نظریہ پیش کیا بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام کی ولادت کی تاریخ سے اسلامی تاریخ کا آغاز ہو اور بعض لوگوں نے کہا کہ عید بعثت (۲۷ رجب معراج پیغمبر) سے تاریخ کی ابتدا ہو ، انھیں انہی نظریوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا کہ جس دن پیغمبر اسلام نے سرزمین شرک کو چھوڑا اور سرزمین اسلام پر قدم رکھا اسی سے اسلامی تاریخ کا آغاز کیا جائے، عمر نے تمام نظریوں میں سے حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کو پسند کیااور پیغمبر اسلام کی ہجرت کو تاریخ اسلام کی ابتدا قرار دیا اوراسی دن سے تمام خطوط، سندیں، اور حکومت کے دفاتر وغیرہ میں ہجری سال لکھا جانے لگا۔(۱) بے شک یہ بات صحیح ہے کہ ولادت پیغمبر یا پیغمبر کی بعثت ایک بڑا واقعہ ہے لیکن ان دونوں دنوں میں اسلام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجاگر نہ تھا، پیغمبر کی ولادت کے دن اسلام کا وجود نہیں تھا اور پیغمبر کی بعثت کے دن اسلام کا کوئی قانون و قاعدہ نہ تھا، لیکن ہجرت کے دن کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت و قدرت اور کامیابی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا دن تھا اور اس دن پیغمبر نے سرزمین شرک کو چھوڑا تھا اور مسلمانوں کے لئے اسلامی وطن بنایا تھا۔

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۵۳، کنز العمال ج۵ص ۲۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۳ مطبوعہ مصر۔

۲۸۴

خلیفۂ دوم کے زمانے میں لوگ صرف حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے

پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد مختلف قوم و ملت میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے مسلمان نئے مسائل سے روبرو ہوا جس کا حکم قرآن مجید اور پیغمبر کی حدیث میں موجود نہیں تھا، کیونکہ احکام وفروعات سے مربوط آیتیں محدود ہیں، اورتھیں واجبات و محرمات سے متعلق پیغمبر اسلام کی جو حدیثیں امت کے درمیان موجود تھیں ان کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں تھی(۱) یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سے مسئلوں کے حل کے لئے جس کے بارے میں قرآنی نص اور حدیث پیغمبر وارد نہیں ہوئی ہے مشکلوں میں گرفتار ہوئے۔

ان مشکلوں نے ایک گروہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ ان مسئلوں میں اپنی عقل او رائے پر عمل کریں اورغیر صحیح معیاروں کے ذریعے اس مسئلہ کا حکم معین کریں۔ اس گروہ کو ''اصحاب رائے'' کہتے ہیں، وہ لوگ کتاب و سنت سے قطعی اور شرعی دلیل سے استناد کرنے کے بجائے موضوعات کا مطابق مصالح و مفاسد کے حل نکالتے تھے اور ظن و گمان کے ذریعے خدا کے حکم کو معین کرتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے۔

خلیفۂ دوم نے بہت سی جگہوں پر نص کے مقابلے میں خود اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور وہ جگہیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں لیکن اصحاب کی رائے کے متعلق انداز دوسرا تھا ان کے بارے میں کہتے ہیں۔

''صاحبان رائے'' پیغمبر اسلام کی سنتوں کے دشمن ہیں وہ لوگ پیغمبر کی حدیث کو یاد نہیں کرسکتے تھے اسی لئے اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے تھے ، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، آگاہ ہو جاؤ کہ ہم پیروی کرتے ہیں خود سے کوئی کام نہیں کرتے اور ہم تابع ہیں بدعت نہیں کرتے، ہم لوگ پیغمبر کی حدیثوں پر عمل کریں گے اور گمراہ نہیں ہوں گے''

______________________

(۱) رشید رضا، مولف: المنار اپنی کتاب ''الوحی المحمدی'' دوسرا ایڈیشن، ص ۲۲۵، پر لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی تمام حدیثیں جو فروع اور احکام سے متعلق ہمارے پاس ہیںان میں سے اگر تکر ار ہوئی حدیث کو حذف کردیا جائے تو چار سو سے زیادہ نہیں ہونگی۔ اور یہ احتمال دینا کہ پیغمبر کی حدیثیں اس سے زیادہ ہیں اور ہم تک نہیں پہونچی ہیں یہ ضعیف ہے لہذا پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد جتنی حدیثیں امت کے پاس موجود ہیںاتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہیں۔

۲۸۵

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ عمر نے نص کے مقابلے میں اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے خود اپنی رائے اور نظریہ پر عمل کیا لیکن بہت سے مقامات پر باب علم پیغمبر حضرت امیر المومنین کی طرف رجوع کیا۔ پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر کے علوم کا خزانہ اور احکام خداوندی کے وارث تھے اور قیامت تک جن چیزوں کی امت کو ضرورت ہوگی ان تمام چیزوں کے کے جاننے والے تھے اورامت پیغمبر میں ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں مقام پر جن میں سے کچھ جگہوں کو تاریخ نے اپنے دامن میں جگہ دی خلیفۂ دوم نے امام کے علوم سے استفادہ کیا ہے اور اس کی زبان پر ہمیشہ یہ جملہ یا اس سے مشابہ جملہ ورد رہتا تھا۔

''عجزت النسائُ ان یلدنَ مثلَ علی بن ابی طالب''

عورتیں اس بات سے عاجز ہیں کہ علی جیسی شخصیت کو پیدا کرسکیں۔

''اللهم لا تبقنی لمعضلة لیس لها ابن ابی طالب ''

خداوندا! مجھے ایسی مشکل میں گرفتار نہ کرنا جس کے حل کے لئے علی بن ابی طالب نہ ہوں۔

(وہ جگہیں جہاں پر عمر نے اپنی رائے و نظریہ پر نص کے مقابلے میں عمل کیا ہے) اس میں سے کچھ جگہوں کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

۱۔ ایک شخص نے عمر سے اپنی بیوی کے بارے میں شکایت کیا کہ شادی کے چھٹے مہینے بعد ہی اسے بچہ ہوا ہے عورت نے بھی اس بات کو قبول کرلیااور کہا کہ شادی سے پہلے میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ اس عورت کو سنگسار کردیاجائے ، لیکن امام نے حد جاری کرنے سے منع کردیا اور فرمایا کہ قرآن کی نظر میںعورت چھ مہینے کے عرصہ میں بچہ پیدا کرسکتی ہے کیونکہ آیت میں حمل اوردودھ پلانے کی کل مدت ۳۰ مہینہ معین ہوئی ہے۔

( .وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ) (۱)

اور اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ بڑھائی کی (کل مدت) تیس مہینہ ہے۔

______________________

(۱) سورۂ احقاف، آیت ۱۵۔

۲۸۶

قرآن کی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان ہوئی ہے۔

( وَفِصَالُهُ فِیْ عَامَیْنِ ) (۱) اور اس کے دودھ بڑھانے کی مدت دو سال ہے۔

اگر تیس مہینے سے دو سال کم کریں تو حمل کے لئے چھ مہینہ کی مدت باقی رہے گی۔عمر نے ا مام ـ کے منطقی کلام سننے کے بعد کہا:''لولا علی لهلک عمر'' (۲)

۲۔ خلیفۂ دوم کی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پانچ آدمیوں نے عفت کے منافی عمل انجام دیا ہے خلیفہ نے تمام آدمیوں کے بارے میں ایک ہی فیصلہ کیا ، لیکن امام نے ان کے حکم کو باطل قرار دیدیا اور فرمایا کہ ان لوگوںکے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے اگر ان کے حالا ت مختلف ہوںگے تو کہ خدا کا حکم بھی مختلف ہوگا۔تحقیق و جستجو کے بعد امام نے فرمایا:

ان میں سے ایک کو قتل کرادو، دوسرے کو سنگسار کرادو، تیسرے کو سو کوڑے مارو ، چوتھے کو پچاس کوڑے لگائواور پانچویں کو نصیحت کرو۔

خلیفہ نے جب امام کا مختلف فیصلہ سنا تو بہت تعجب ہوا اور امام سے اس کا سبب دریافت کیا ، تو امام ـ نے فرمایا:

پہلا شخص کافر ذمی ہے اور کافر ذمی کی جان اس وقت تک محترم ہے جب تک احکام ذمی پر عمل کرے، لیکن اگر احکام ذمی کی رعایت نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے اوردوسرے نے عورت شوہر دار سے زنا کیا ہے۔ اور اسلام میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہے اور تیسرا شخص کنوارا ہے جس نے اپنے کو گناہوں سے آلودہ کیا ہے اس کی سزا سو تازیانہ ہے چوتھا شخص غلام ہے اور اس کی سزا آزاد شخص کی آدھی سزا کے برابر ہے اور پانچواں شخص پاگل ہے۔(۳)

اس وقت خلیفہ نے کہا:''لاعشتُ فی امةٍ لست فیها یا ابا الحسن!''

میں ایسے لوگوں کے درمیان نہ رہوں جن میں اے ابو الحسن آپ نہ ہوں۔

______________________

(۱) سورۂ لقمان، آیت ۱۴۔

(۲) مناقب شہر ابن آشوب ج۱ ص ۴۹۶، بحار ج۴۰ ص ۳۳۲۔

(۳) شیخ طوسی تہذیب ج۱۰ ص ۵۰احکام زنا حدیث ۱۸۸۔

۲۸۷

۳۔ ایک غلام جس کے پیر میں زنجیر بندھی تھی کہیں جارہا تھا، دو آدمیوں کے درمیان ا س کے وزن کے متعلق اختلاف ہوگیا اور ان میں سے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ اگر اس کی بات صحیح نہ ہوگی تو اس کی زوجہ کو تین طلاق والی ہو جائیگی ۔ دونوں غلام کے مالک کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ زنجیر کو کھول دے، تاکہ اس کو وزن کریں اس نے کہا: میں اس کے وزن سے آگاہ نہیں ہوں اور میں نے نذر بھی کی ہے کہ اس کی زنجیر کو نہیں کھولوں گا مگر یہ کہ اس کے وزن کا صدقہ دوں۔

اس مسئلہ کو خلیفہ کے پاس پیش کیا گیا، انہوں نے حکم دیا کہ اس وقت غلام کا مالک زنجیر کھولنے سے معذور ہے لہذا یہ دونوں اپنی اپنی بیویوں سے جدا ہوجائیں ، ان لوگوںنے خلیفہ سے گذارش کی کہ اس مسئلہ کو حضرت علی کے سامنے پیش کیا جائے، امام نے فرمایا: زنجیر کے وزن سے آگاہی بہت آسان ہے۔ اس وقت آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑا طشت لایا جائے او رغلام سے کہا کہ اس کے بیچ میں کھڑا ہو جائے، پھر امام نے زنجیر کو نیچے کردیا اور اس میں ایک دھاگا باندھا اور طشت کو پانی سے بھر دیا۔ پھر زنجیر کو اس تاگے کے ذریعے اوپر کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ پوری زنجیر پانی سے باہر آگئی اس وقت حکم دیا کہ زنجیر کو دھاگے کے ذریعہ اوپر کھینچیں تاکہ وہ پانی سے اوپر آجائے۔ پھر فرمایا کہ طشت کو ٹوٹے پھوٹے لوہوں سے بھر دو تاکہ پانی اپنی اصلی جگہ تک آجائے اور آخر میں فرمایا کہ ان ٹوٹے ہوئے لوہوں کو کھینچیں کیونکہ اس کا وزن وہی زنجیر کا وزن ہے اور اس طریقے سے تینوں افراد کی مشکل حل ہوگئی۔(۱)

۴۔ ایک عورت جنگل میں پیاسی تھی اور تشنگی نے اس پر سخت غلبہ کیا مجبوراً اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا اس نے اس شرط پر پانی دینے کا وعدہ کیا کہ عورت خود کو اس کے حوالے کرے، خلیفۂ دوم نے اس عورت کے حکم کے متعلق امام سے مشورہ کیا حضرت نے فرمایا: کہ عورت اس کو انجام دینے میں مجبور تھی اور مضطر و مجبور پر کوئی حکم نہیں ہے۔(۲)

یہ واقعہ اور اسی طرح کے دوسرے واقعات ، جن میں سے بعض کو بیان کیا ہے یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام اسلام کے مکمل قوانین سے باخبر تھے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں اور خلیفہ ان چیزوں سے بے خبر تھے۔

______________________

(۱) شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ ج۳ ص ۹۔

(۲) سنن بیہقی ج۸ ص ۲۳۶، ذخائر العقبیٰ ص ۸۱، الغدیر ج۶ص ۱۲۰۔

۲۸۸

۵۔ ایک پاگل عورت نے عفت کے خلاف عمل کیا، خلیفہ نے اسے مجرم قراردیا لیکن امام نے اسے پیغمبر اسلام کی ایک حدیث یاد دلاتے ہوئے عورت کو آزاد کردیا اور حدیث یہ ہے تین لوگوں سے حکم اٹھالیا گیا ہے جس میں سے ایک دیوانہ ہے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے۔(۱)

۶۔ایک حاملہ عورت نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کواسی حالت میں سنگسار کرد یں امام نے حد جاری کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم اس کی جان لینے کا حق رکھتے ہو نہ کہ اس بچے کی جو کہ اس کے پیٹ میں ہے۔(۲)

۷۔ کبھی کبھی امام مشکلوں کو حل کرنے کے لئے نفسیاتی اصولوں سے استفادہ کرتے تھے، ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے بیزاری ظاہر کی اوراس کی ماں ہونے سے انکار کردیا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ابھی کنواری ہے جب کہ اس نوجوان کا اصرار تھا کہ یہ میری ماں ہے خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کی طرف غلط نسبت دینے کی وجہ سے نوجوان کو تازیانہ مارا جائے۔ جب اس واقعہ کی خبر امام کو ملی تو امام نے اس عورت اور اس کے رشتہ داروں کو بلایا تاکہ اس عورت کی شادی ان میں سے جس سے بھی چاہیں کردیں اور ان لوگوںنے بھی حضرت علی کو اپنا وکیل بنادیا۔ امام نے اسی نوجوان کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے اس عورت کا عقد تمہارے ساتھ پڑھا اور اس کی مہر ۴۸۰ درہم ہے پھر ایک تھیلی نکالی جس میں اتنا ہی درہم تھا اور عورت کے حوالے کیا اور اس جوان سے کہا: اس عورت کا ہاتھ پکڑو اور پھر میرے پاس نہ آنا، مگر یہ کہ شادی وغیرہ کے آثار تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوں۔

عورت نے جب یہ کلام سنا تو چیخ اٹھی اور کہا:''الله ، الله هو النار، هو و الله ابنی!'' یعنی خدا کی پناہ، خدا کی پناہ، اس کا نتیجہ آگ ہے خدا کی قسم یہ میرا بیٹا ہے پھر اس نے انکار کرنے کی وجہ کو تفصیل سے بیان کیا۔(۳)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۹۵، الغدیر ج۶ ص ۱۰۲۔

(۲) ذخائر العقبیٰ ص ۸۰، الغدیرج۶ ص ۱۱۰۔

(۳) کشف الغمہ ج۱ ص ۳۳، بحار الانوار ج۴۰ ص ۲۷۷۔

۲۸۹

گیارہویں فصل

عثمان اور معاویہ کی علمی مشکلات کا حل کرنا

امام کا علمی اور فکری میدان میں مدد کرنا صرف ابوبکر وعمر کی خلافت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ سرپرست اوردین کے حامی و دلسوز کے عنوان سے اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کے مختلف دور میں علمی اور سیاسی مشکلوں کو حل کرتے تھے۔ انہی میں سے تیسرے خلیفہ نے بھی امام کے بلند ترین افکار او ران کی عظیم و آگاہانہ رہنمائیوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عثمان نے امام کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا تھا بلکہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ معاویہ نے بھی امام سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے علمی اور فکری مشکلوں کے حل کے لئے امام کی طرف دست سوال بڑھایاتھا اور کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر امام کے پاس بھیجا تاکہ بعض مسئلوں کا جوا ب امام ـ سے دریافت کریں۔

مثلاً کبھی کبھی روم کا حاکم، معاویہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرتا تھا اور اس سے جواب طلب کرتا تھا ۔ معاویہ اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے (چونکہ اس نے اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ کہا تھا) کچھ لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجتا تھا تاکہ وہ کسی بھی صورت سے ان سے ان سوالوں کے جوابات حاصل کر کے معاویہ کے پا س لے آئیں۔

خلیفۂ سوم اور معاویہ نے جو اپنی علمی مشکلات کے رفع کے لئے امام ـ کی طرف رجوع کیا ان کے چند نمونے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ اسلام میںعورتوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اورعورت کا عدہ ختم ہونے سے پہلے ہی شوہر مر جائے تو عورت دوسرے وارثوں کی طرح شوہر کی میراث کی حقدار ہے کیونکہ جب تک عدہ ختم نہ ہو اس وقت تک شوہر و بیوی کا رشتہ برقرار ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ایک بیوی انصار میں سے تھی اور دوسری بنی ہاشم میں سے ،کسی وجہ سے مرد نے اپنی بیوی کو جوانصار سے تھی طلاق دیدیا اور کچھ دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا انصار والی عورت خلیفہ کے پاس گئی اور کہا ابھی میرا عدہ ختم نہیں ہوا ہے

۲۹۰

مجھے میری میراث چاہئیے عثمان فیصلہ کرنے سے معذور ہوگئے لہذا اس معاملے کو امام کے پاس بھیجا حضرت نے فرمایا کہ اگر انصار والی عورت یہ قسم کھا کر کہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد تین مرتبہ حائض نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنے شوہر سے میراث لے سکتی ہے۔

عثمان نے ہاشمی عورت سے کہا: یہ فیصلہ تمھارے پسر عم علی نے کیا ہے۔ اور میں نے اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔

اس نے جواب دیا: میں علی کے فیصلے پر راضی ہوں۔ وہ قسم کھائے اور میراث لے لے۔(۱)

محدثین اہلسنت نے اس واقعے کو دوسرے انداز سے لکھا ہے جن کی عبارتیں شیعہ فقہا کے فتووں سے متفق نہیں ہیں۔(۲)

۲۔ جس شخص نے فریضہ ٔ حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا ہے ا سکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے ،قرآن کریم کا اس سلسلے میں ارشاد ہے:( وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاً ) (۳) جب تم احرام کی حالت میں ہو تو خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرنا تم پر حرام ہے، لیکن اگر وہ شخص جو حالت احرام میں نہ ہو اور خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے تو کیا حالت احرام میں رہنے والا شخص اس کا گوشت کھا سکتا ہے؟ یہ وہی مسئلہ ہے جس میں خلیفۂ سوم نے امام کے نظریہ کی پیروی کی ہے، اس کے پہلے خلیفہ کی نظریہ تھی کہ حالت احرام میں رہنے والا غیر محرم کے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت کھا سکتا ہے اتفاق سے وہ خود بھی حالت احرام میں تھے کہ اور کچھ لوگوں اسی طرح کے گوشت سے کھانا تیار کر کے ان کو دعوت دی تھی اور یہ اس میں جانا چاہتے تھے ،جب امام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تب ان کا نظریہ بدلا۔

ان سے حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک واقعہ بیان کیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے، واقعہ یہ تھاکہ پیغمبر اسلام (ص)جب حالت احرام میں تھے تو کچھ لوگ ان کے لئے بھی

_______________________

(۱) مستدرک الوسائل ج۳ ص ۱۶۶۔

(۲) کنز العمال ج۳ ص ۱۷۸، ذخائر العقبیٰ ص ۸۰۔

(۳) سورۂ مائدہ آیت ۹۶۔

۲۹۱

اسی طرح کی غذا لے کر آئے، حضرت نے فرمایا: میں حالت احرام میں ہوں، یہ کھانا ایسے لوگوں کو دیدو جو حالت احرام میں نہ ہوں۔جس وقت امام نے اس واقعہ کو نقل کیا اس وقت بارہ آدمیوں نے تائید کرتے ہوئے اس کی گواہی دی ، پھر علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول اسلام نے نہ صرف ہمیں اس طرح کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے بلکہ پرندوں کے انڈے یا شکار ہوئے پرندوں کے گوشت سے بھی منع کیاہے۔(۱)

۳۔ اسلام کے مسلّم عقائد میں سے ہے کہ کافر پر مرنے کے بعد سخت عذاب ہوگا،عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص نے اس اصل اسلامی عقیدہ پر اعتراض کرنے کے لئے ایک کافر کی کھوپڑی نکالی اسے خلیفہ کے پاس لے گیا اور کہا: اگر کافر مرنے کے بعد آگ میں جلے گا تو اس کھوپڑی کو بھی گرم ہونا چاہیئے جب کہ میں اس کے بدن پر ہاتھ مس کرتا ہوں پھر بھی مجھے کوئی حرارت محسوس نہیں ہوتی! خلیفہ اس کا جواب دینے سے عاجز ہوگئے اور امام کی طرف رجوع کیا، امام نے معترض کو جواب دیا اور فرمایا کہ ایک لوہا (جس سے آگ نکالتے ہیں ) اور ایک پتھر (جس سے آگ نکلتی ہے) لایا جائے اور پھر دونوں کو آپس میں ٹکرایا اس سے شعلہ نکلااس وقت آپ نے فرمایا: میں لوہے او رپتھر پر ہاتھ پھیر رہاہوں مگر حرارت کا احساس نہیں ہوتا جب کہ دونوں حرارت رکھتے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے اپنا کام کر تے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ قبر میں کافر کا عذاب بھی ایسا ہو۔

خلیفہ امام کا جواب سن کر بہت خوش ہوے اور کہا :''لولا علی لهلک عثمان'' (۲)

وہ مواردجہاں معاویہ نے امام کی طرف رجوع کیا ہے۔

اسلامی تواریخ نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے دست سوال پھیلایا ہے اور اپنی شرمندگی اورندامت کو علم امام ـ کے وسیلے سے دور کیاہے۔

اُذینہ کہتے ہیں: ایک شخص نے معاویہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، معاویہ نے کہا: اس

موضوع کے متعلق علی سے سوال کرو۔ سائل نے کہا: میں نہیں چاہتاکہ ان سے پوچھوں،میں چاہتا ہوں کہ تم سے سوال کروں۔

______________________

(۱) کنز العمال ج۳ ص ۵۳، مستدرک الوسائل ج۲ ص ۱۱۹۔

(۲) الغدیر ج۸ ص ۲۱۴ منقول از کتاب عاصمیزین الفتی فی شرح سورهٔ هل أتی

۲۹۲

اس نے کہا کیوں تم ایسے شخص سے سوال نہیں کرنا چاہتے جس کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے: ''علی سے میری نسبت ایسی ہی ہے جیسی موسیٰ کی ہارون سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''، عمر نے اپنی مشکلوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے۔(۱) جب امام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے کہا: ''فقہ وعلم مرگیا'' معاویہ کے بھائی نے اس سے کہا: تمہاری یہ بات شام کے لوگ تمہاری زبان سے نہ سنیں۔(۲) ان مقامات کی فہرست جہاں پر معاویہ نے حضرت علی سے مدد طلب کی ہے۔(۳)

۱۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جو بہت دنوں سے قبروں کو کھود کر کفنوں کو چراتا تھا۔

۲۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جس نے کسی کو قتل کردیا اور اس کا دعویٰ تھاکہ میں نے اسے ایسی حالت میں قتل کیا ہے جب کہ وہ میری بیوی کے ساتھ زنا کررہا تھا۔

۳۔ دو آدمیوں کا ایک لباس کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا اس میں سے ایک شخص نے دو گواہ پیش کیا کہ یہ مال اس کا ہے او ردوسرے کا دعویٰ تھا کہ اس نے کسی اجنبی سے یہ لباس خریدا ہے۔

۴۔ ایک شخص نے ایک لڑکی سے شادی کی لیکن لڑکی کے باپ نے اس لڑکی کے بجائے دوسری لڑکی کو اس کے حوالے کیا۔

۵۔ حاکم روم نے کچھ سوالات ، کہکشاں، قوس و قزح وغیرہ کے بارے میں معاویہ سے کیا تھا اوراس نے کسی اجنبی کو عراق بھیجا تاکہ ان تمام سوالوں کے جوابات علی سے دریافت کرے۔

۶۔ روم کے حاکم نے دوبارہ اسی طرح کے سوالات معاویہ سے پوچھے اور اپنا جزیہ (ٹیکس) اداکرنے کی یہ شرط رکھی کہ سوالوں کے صحیح جوابات دے۔

۷۔ تیسری مرتبہ پھرروم کی جانب سے کچھ سوالات معاویہ کی طرف پہونچے اور ان کے جوابات طلب کئے عمر و عاص نے کسی نہ کسی بہانے سے ان تمام سوالوں کے جوابات امام سے حاصل کرلئے۔

______________________

(۱) ذخائر العقبیٰ ص ۷۹۔-----(۲) الاستیعاب ج۲ ص ۴۲۶۔-----(۳) علی و الخلفاء ، ص ۳۲۴۔ ۳۱۶۔

۲۹۳

بارہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی سماجی خدمات

خلافت سے حضرت علی علیہ السلام کوکی محرومیت کا زمانہ ،مسلمانوںکے سارے امور سے کنارہ کشی کا زمانہ نہیں تھا،اس دور میں آپ نے بہت زیادہ علمی اور سماجی خدمات انجام دیںجن کی مثال تاریخ کے صفحات پر کسی اور کے لئے نہیں ملتی حضرت علی علیہ السلام ان سے نہیں تھے جو معاشرے کے مسائل اور ضروریات کو صرف ایک نظر اور وہ بھی خلافت کی نظر سے دیکھتے ،اور وہ سوچتے کہ جب خلافت چھن گئی توساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائوں گا ،اس کے باوجود نہ کہ آپ کو سیاسی رہبری سے محروم کر دیا گیا تھابہت ساری ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور اس وصیت کی تاسی کرتے ہوئے جس کوجناب یعقوب نے اپنے فرزندوں سے کی تھی(۱) مختلف طریقوں سے سماج کی خدمت کی۔خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی اہم ترین خدمتیں یہ تھیں:

۱۔علماء یہود و نصاری کےعلمی حملےکےمقابلے میں اسلام کے مقدس عقائد اوراصول کی حفاظت اور ان کے شبہات کے جوابات دینا۔

۲۔ خلافت کے مشکل مسائل کی راہنمائی اور صحیح ہدایت کرنا ، خصوصاً قضاوت کے مسائل کا حل کرنا۔

۳۔سماجی خدمات انجام دینا، ان میں کچھ بہت اہم ہیںجن کو ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ فقیروں او ریتیموں کی خبر گیری

اس بارے میں پر صرف اسی آیت کا ذکر کرنا کافی ہے( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً ً ) (۲) (جو لوگ رات کو، دن کو چھپا کے یا دکھا کے ]خدا کی راہ میں[ خرچ کرتے ہیں)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اگرچہ یہ آیت پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں حضرت علی کی سماجی خدمات کو بیان کرتی ہے

______________________

(۱) قرآن کریم (سورۂ یوسف، آیت ۶۷) کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ جب شہر مصر میں داخل ہوں تو ایک دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف دروازوں سے وارد ہوں۔----(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۴۔

۲۹۴

لیکن یہ اس خدمت کا سلسلہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بھی جاری تھا۔ اور حضرت ہمیشہ یتیموں اور فقیروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے اور آپ زندگی کے آخری لمحے تک فقیروں پر انفاق کرتے رہے۔ اس سلسلے کے بہت سے شواہدتاریخ کے دامن میں آج بھی موجود ہیں جن کی تفصیل یہاں پر ممکن نہیں ہے۔

۲۔ غلاموں کو آزاد کرنا

اسلام میں مستحب مئوکد ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے رسول اسلام (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

''من اعتقَ عبداً مومناً اعتقَ اللّهُ العزیزُ الجبارِ بکل عضوٍ عضواً له من النار'' (۱)

اگر کوئی شخص ایک مومن غلام کو آزاد کرے تو خداوند عزیز و جبار اس غلام کے بدن کے ہر حصے کے مقابلے میں آزاد کرنے والے کے بدن کے حصے کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔

حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام فضائل و خدمات کی طرح اس سلسلے میں بھی سب سے آگے تھے اور اپنی مزدوری کی اجرت سے (نہ کہ بیت المال سے) ہزاروں غلاموں کو خریدا اور آزاد کیا۔

امام جعفر صادق نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے اور فرمایاہے:

''ان علیاً اعتق الفَ مملوک من کد یده'' (۲)

علی (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے جمع کی ہوئی رقم سے ہزار غلاموں کو آزاد کیاتھا۔

______________________

(۱) روضۂ کافی ج۲ ص ۱۸۱۔

(۲) فروغ کافی ج۵ ص ۷۴، بحار الانوار ج۴۱ ص ۴۳۔

۲۹۵

۳۔ زراعت او ردرخت کاری

پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشغلہ کھیتی باڑی اورپیڑ پودھے لگانا تھا، حضرت نے اس ذریعے سے بہت ہ خدمتیں انجام دی تھیںاور لوگوں پر خرچ کیا تھا، اس کے علاوہ بہت سی جائدادیں جنہیں خود آباد کیا تھا وقف کیا تھا۔امام جعفر صادق اس بارے میں فرماتے ہیں کہ''کان امیر المومنین یضرب بالمرِّ و یستخرج الارضین'' (۱)

حضرت امیر المومنین بیلچہ چلاتے تھے اور زمین کے دل سے چھپی ہوئی نعمتوں کو نکالتے تھے۔

اسی طرح آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی نظر میں زراعت سے زیادہ محبوب کوئی کام نہیں ہے۔

(۲) ایک شخص نے حضرت علی کے پاس ایک وسق(۳) خرمے کی گٹھلی دیکھی اس نے پوچھا یاعلی ان خرمے کی گٹھلیوں کوجمع کرنے کا کیا مقصد ہے؟

آپ نے فرمایا: یہ تمام کے تمام خدا کے حکم سے خرمے کے پیڑ میں تبدیل ہو جائیں گے۔راوی کہتا ہے کہ امام نے ان گٹھلیوں کو زمین میں دبا دیا کچھ دنوں کے بعد وہاں کھجور کا باغ تیار ہوگیا اورامام نے اسے وقف کردیا۔(۴)

۴۔ چھوٹی نہریں کھودنا

عرب جیسی تپتی اور سوکھی زمین میں نہریں بنانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

امام جعفرصادق فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص)نے انفال(۵) میں سے ایک زمین کو حضرت علی کے حوالے کیا اور امام نے وہاں نہر کھودی جس کا پانی اونٹ کی گردن کی طرح فوارہ کے ساتھ نکل رہا تھا۔

______________________

(۱) فروغ کافی، ج۵، ص ۷۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔----(۲) بحار الانوار ج۳۲ ص ۲۰۔

(۳) ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر اور ہر صاع ایک من ہے۔ (ایرانی من تین کلو کاہوتاہے ۔رضوی)

(۴) مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۳۲۳، بحار الانوار ج۶۱ ص ۳۳۔

(۵) وہ زمینیں جو بغیر جنگ و جدال کے مسلمانوں نے حاصل کی ہوں جس میں کچھ انفال نبوت سے مخصوص ہے اور رسول اسلام(ص) نے اسے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرتے تھے۔

۲۹۶

فرمایا: یہ نہر خانۂ کعبہ کے زائرین اورجو لوگ یہاں سے گزریں گے ان کے لئے وقف ہے ،کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کا پانی بیچے اور میرے بچے اسے میراث میں نہیں لیں گے۔(۱)

آج بھی مدینہ سے مکہ جاتے وقت راستے میں ایک علاقہ ہے جسے ''بئر علی'' کہتے ہیں امام نے وہاں پر کنواں کھودا تھا ۔

امام جعفر صادق کے بعض ارشادات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امیر المومنین نے مکہ اور کوفہ کے راستوں میں بہت سے کنویں کھودے تھے۔(۲)

۵۔ مسجدوں کی تعمیر کرنا

مسجدوں کی تعمیر اور تاسیس کرنا خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کی علامت ہے ،اور امام نے بہت سی مسجدیں بنائی تھیںجن جس میں سے کچھ مسجدوں کا نام تاریخ نے درج کیا ہے اور وہ یہ ہیں:

مدینہ میں مسجد الفتح ، قبر جناب حمزہ کے پاس، کوفہ، میقات ،بصر ہ میں مسجدیں۔(۳)

۶۔ مکان و جائداد کا وقف کرنا

حدیث و تاریخ کی متعدد کتابوں میں حضرت علی علیہ السلام کے موقوفات کے نام تحریر ہیں ،ان موقوفات کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ معتبرمئورخین کے نقل کرنے کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی ۴۰ ہزار دینار تھی جو تمام محتاجوں اور فقیروں پر خرچ ہوتی تھی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ آمدنی کے باوجود حضرت امیر اپنے اخراجات کے لئے تلوار بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔(۴)

جی ہاں، کیوں علی علیہ السلام نے ان موقوفات میں سے کچھ اپنے لئے باقی نہ رکھا؟ کیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہیں فرمایا ہے ''جو شخص بھی اس دنیا سے اٹھ جائے تو مرنے کے بعد اسے کوئی چیز فائدہ نہیں پہونچاتی مگر یہ کہ اس نے تین چیزیں چھوڑی ہوں، نیک اور صالح اولاد جواس کے لئے استغفار کرے، سنت حسنہ جو

________________

(۱) فروغ کافی، ج۷، ص ۵۴۳، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص ۳۰۳۔

(۲،۳) مناقب ، ج۱، ص ۳۲۳، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۳۲۔

(۴) کشف المحجہ ، ص ۱۲۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔

۲۹۷

لوگوں کے درمیان رائج ہو، نیک کام جس کا اثر اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔(۱) حضرت علی علیہ السلام کے وقف نامے اسلام میں احکام وقت کے لئے ایک منبع و مدرک ہونے کے علاوہ ، آپ کی سماجی خدمات پر ٹھوس ثبوت ہیں۔ان وقف ناموںسے آگاہی پیدا کرنے کیلئے وسائل الشیعہ، ج۱۳کتاب الوقوف و الصدقات کی طرف رجو ع کیجیئے۔

_____________________

(۱) وسائل الشیعہ ج۱۳ ص ۲۹۲۔

۲۹۸

پانچواں حصہ

حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے کے واقعات

پہلی فصل

حضرت علی ـکی خلافت کی طرف مسلمانوں کے رجحان کی علت

امام علی علیہ السلام کی زندگی کے چار اہم حصوں کے واقعات کو ہم بیان کرچکے ہیں اس وقت امام علی علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں حصے کا ذکر کر رہے ہیں، زندگی کا وہ حصہ جس میں آپ منصب خلافت و رہبری پر فائز ہوئے. اور اس دور ان آپ بہت سے رونما ہونے والے واقعات اور نشیب و فراز سے دوچار ہوئے. ان تمام واقعات کی تشریح و توضیح ہم سے ممکن نہیں ہے، اس لئے ہم مجبور ہیں کہ گذشتہ بحثوں کی طرح ان واقعات بہت زیادہ اہم ہیں صرف انہیں بیان کریں۔

اس فصل میں سب سے پہلی بحث، مہاجرین وانصار کی ہے کہ انھوں نے کس وجہ سے امام کو اپنا رہبر اور خلیفہ مانا، وہ رغبت جو خلفاء ثلاثہ کے سلسلے میں بے مثال تھی اور بعد میں بھی اس جیسی دیکھنے کو نہ ملی ،پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام کے دوست بہت اقلیت میں تھے اور مہا جرین و انصار میں سے مومن و صالح افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی خلافت کا خواہاں نہیں تھا لیکن خلافت اسلامی کے ۲۵سال گذرجانے کے بعد تاریخ نے ایسی کروٹ بدلی کہ تمام لوگوں کی نظریںعلی کے علاوہ کسی پرنہ تھیں ۔ عثمان کے قتل کے بعد تمام مسلمان شور وولولہ اور تیز آواز کے ساتھ امام ـ کے دروازے پر جمع ہو گئے اور بیعت کے لئے بہت زیادہ اصرارکرنے لگے۔

اس رجحان کی وجہ کو خلیفہ سوم کی خلافت کے زمانے کے تلخ واقعات میں معلوم کیا جاسکتا ہے ایسے واقعات جو خود ان کے قتل کا سبب بنا اور مصری اور عراقی انقلابیوں کو اس بات پرمجبور کیا کہ جب تک اسلامی خلیفہ کا کام تمام نہ ہو جائے اپنے وطن واپس نہیں جا ئیں ۔

۲۹۹

عثمان کے خلاف قیام کرنے کی علت

عثمان کے خلاف اقدام کرنے کی اصلی وجہ ،عثمان کا اموی خاندان سے خاص لگائو اور الفت تھی ۔ وہ خود اسی خاندان کی ایک فرد تھے ،وہ اس نجس و ناپاک خاندان کی عزت واکرام کے علاوہ کتاب وسنت کی بے حرمتی کرنے میں اپنے پہلے کے دو خلیفوں سے بھی آگے تھے ۔

ان کے اس مزاج اور خاندان امیہ سے لگائو سے ہر ایک واقف تھا،جس وقت خلیفئہ دوم نے شوریٰ کے عہد ہ داروں کا انتخاب کیا عثمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا.

میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں اپنا رہبر چن لیا ہے اور تم نے بنی امیہ ۔اور بنی ابی معط ۔ کو لوگوں پر مسلط کر دیا ہے اور بیت المال کو انہی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے اس وقت عرب کے خطرناک گروہ تم پر حملہ کریں گے

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658