مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)0%

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 658

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ صدوق علیہ الرحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 658
مشاہدے: 277210
ڈاؤنلوڈ: 6924

تبصرے:

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 658 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277210 / ڈاؤنلوڈ: 6924
سائز سائز سائز
مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مجالس صدوق (ترجمہ امالی شیخ صدوق)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 اس کی تنہائی میں اس سے موانست کریں گے اور اس کے محشر میں جانے تک اس کے لیے مغفرت طلب کرتے رہیں گے، جو شخص رضائے الہی کی خاطر اذان دے خدا اسے چالیس ہزار شہدا اور چالیس ہزار صادقین کا ثواب عطا کرےگا اور اسے حق بخشے گا کہ وہ چالیس ہزار گناہ گاروں کی شفاعت کرے اور انہیں بہشت میں لے جائے آگاہ رہو کہ جب موذن ” اشہد ان  لا الہ الا اﷲ “ کہتا ہے تو اس پر نوے ہزار فرشتے درود بھیجتے ہیں اور اس کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں وہ موذن قیامت کے دن عرش الہی کےسائے میں ہوگا۔ یہاں تک کہ خدا خلائق کے حساب سے فارغ ہو جائے۔” اشہد ان محمدا الرسول اﷲ“ کہنے کا ثواب بھی ایسے ہی چالیس ہزار فرشتے ہیں، اگر با جماعت نماز کی صف اول اور تکبیر اول میں شریک ہونے کا ہمیشہ خیال رکھے اور کسی مسلمان کی دل آزاری نہ کرے تو خدا تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں تمام موذنوں کے برابر اجر عطا کرے گا۔ آگاہ رہو کہ جو کوئی اپنی قوم کا رئیس و سردار ہے ( اور خدا کے احکامات پر نہیں چلتا) تو خدا تعالی روز قیامت اس کے ہاتھ گردن میں بندھوا کر طلب کرے گا اور اگر اس نے دستور خدا کے مطابق ان پر حکومت کی ہوگی تو خدا اسے دوزخ کے کنارے سے ہزار سال دور رکھے گا ورنہ خدا اسے عذاب دےگا اور ستمگار و ظالم حکمران کے لیے دوزخ ہے اور اور یہ کیسا برا انجام ہے۔

پھر جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ بدی کو ہرگز حقیر نہ جانو ہر چند کہ تمہاری نظر میں وہ خفیف دکھائی دے اور کسی نیکی کو بڑا نہ جانو ہر چند کہ تمہاری نظروں میں وہ بڑی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ استغفار کرنے سے گناہ کبیرہ۔ کبیرہ نہیں رہتا اور بار بار کرنے سے گناہ صغیرہ۔ صغیرہ نہیں رہتا بلکہ گناہ صغیرہ پر اصرار کر کے توبہ نہ کرو گے تو وہ کبیرہ کی شکل اختیار کر لے گا۔

امام ششم نے فرمایا کہ یہ طولانی حدیث کتاب سے فراہم شدہ ہے اور جناب امیرالمومنین(ع) کے ہاتھ کی تحریر ہے جو کہ جناب رسول خدا(ص) سے املاء کی گئی ہے۔

۴۰۱

مجلس نمبر۶۷

(۱۶ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

حسن بصری کا بیان

۱ـ                   سعد کہتے ہیں کہ حسن بصری کو بتایا گیا کہ ان کے اصحاب میں سے ایک شخص ان پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ جناب علی بن ابی طالب(ع) کے فضائل کو گھٹا کر بیان کرتے ہیں تو حسن بصری نے اپنے اصحاب کو جمع کر کے کہا میرا ارادہ  یہ ہے کہ میں اس شخص پر اپنے گھر کے دروازے ہمشہ ہمیشہ کے لیے بند کردوں اور خود بھی اس تا دم مرگ نہ ملوں و ہمجھ پر بہتان لگاتا ہے کہ میں علی(ع) کا رتبہ گھٹاتا ہوں جان لو کہ علی(ع) بہترین بندوں میں سے ہیں اور پیغمبر(ص) کے انیس و جلیس ہیں وہ مصیبت کے وقت ان سے مصیبت کو دور فرمایا کرتے تھے وہ میدان جنگ میں (کفار کو) قتل کرنے والوں میں سے ہیں تمہارے درمیان سے ایسا بندہ تم سے جدا ہوا جو قرآن کو اس کے کمال کے ساتھ جانتا تھا، جو علم وافر رکھتا تھا، جس کی مانند کسی کی شجاعت نہیں تھی، جسے وہ اپنے پروردگار کی اطاعت میں قید رکھتا تھا (شجاعت کو ) وہ سختی جنگ میں صابر اور مصیبت کے وقت شاکر تھے وہ اپنے پروردگار کی کتاب پر عمل کرتے اور پیغمبر(ص) کے خیر خواہ ان کے چچا کے بیٹے اور ان(ص) کے بھائی تھے اور پیغمبر(ص) نے ان کے سوا کسی کے ساتھ مواخات نہیں کی وہ شبِ ہجرت بسترِ رسول(ص) پر سونے والے اور خرد سالی میں ان کے ہمراہ جہاد کرنے والوں میں سے تھے بزرگی میں ان کی مانند کوئی نہ تھا وہ نامور پہلوانوں اور ماہر شہہ سواروں کو زیر کرنے والے تھے اور یہ سب کچھ صرف دین الہی کے واسطے تھا بوقت وصال جناب رسول خدا(ص) نے ان ہی کو وصیت فرمائی جس کے ساتھ وہ تا دم رخصت متمسک رہے، مخالف ان پر کبھی غلبہ نہ پاسکا وہ دانشمندتر اور فہم ترین بزرگ تھے اور اسلام میں تمام پر سبقت رکھتے تھے جو مناقب انہیں حاصل تھے وہ کسی اور کو نہیں ملے وہ فضیلت میں سب سے بلند ترین تھے ان پر کبھی خواہشات شہوانی غلبہ نہ پاسکیں۔ وہ خدا کے کاموں میں کبھی غفلت نہ برتتے

۴۰۲

تھے۔ وہ صاحب طہارت تھے۔ وہ نماز میں خدا کے سامنے خشوع سے حاضر ہوتے۔ خود کو انہوں نے لذات دنیا سے مبرا رکھا اور ہمیشہ خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ ہمیشہ نیکیوں کو مقدم رکھتے۔ وہ پیغمبر(ص) کی روش کے پیرو کار تھے اور اپنے پیچھے آثار ولایت چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ میں کس طرح ان کی فضیلت کا منکر ہوسکتا ہوں اور خود کو ہلاکت میں مبتلا کرسکتا ہوں۔ میں کسی ایسے کو نہیں جانتا جو انہیں نہ پہانتا ہو۔میں کسی ایسے کو نہیں جانتا جو انہیں برا کہتا ہو۔ تم لوگ مجھے آزاد مت پہنچاؤ اور راہ ہلاکت سے دور رہو۔

منصور دوانیقی اور فضائلِ علی(ع)

۲ـ           سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ ابو جعفر منصور دوانیقی نے مجھے ایک مرتبہ رات کے وقت بلوا بھیجا ۔ میرے دل خوف پیدا ہوا کہ رات کے اس پہر مجھے بلانا کسی خطرناک ارادے سے خالی نہیں وہ ضرور مجھ سے فضائل علی(ع) سننا چاہتا ہے اور اگر میں نے اس سے جناب امیر(ع) کے فضائل بیان کیے تو وہ مجھے قتل کروادے گا یہ سوچ کر میں نے اپنی وصیت لکھی اور پھر غسل کرنے کے بعد خود کوحنوط کر کے (مشک کافور لگا کر) کفن پہنا اور اس کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پاس عمرو بن عبید بھی بیٹھا ہوا ہے یہ دیکھ کر میرے دل کو کچھ ڈھارس ہوئی میں نے اسے سلام کیا تو اس نے مجھے قریب بلایا میں تھوڑا قریب ہوا تو اس نےمزید نزدیک آنے کا کہا میں اس کے بالکل نزدیک جاکر بیٹھ گیا اور قریب ہی تھا کہ اس کا زانو میرے زانو کے ساتھ مل جاتا تو اسے مجھ سے حنوط کی خوشبو محسوس ہوئی اس نے کہا جو میں پوچھوں وہ سچ بیان کرنا ورنہ میں تجھے سولی پر لٹکا دوں گا میں نے کہا اے امیرالمومنین(ع) آپ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں اس نے کہا تونے حنوط کیوں کیا ہے میں نے کہا کہ جب آپ کا ہر کارہ مجھے آپ کا پیغام دینے آیا تو میں نے خیال  کیا کہ آپ کا اس وقت بلانا صرف اسی لیے ہے کہ آپ مجھ سے فضائل علی(ع) دریافت کرنا چاہتے ہیں میں ڈر گیا کہ کہیں آپ مجھےقتل نہ کردیں اس لیے میں نے اپنا وصیت نامہ تیار کر کے غسل کیا اور خود کو حنوط کر کے کفن پہنا اور آپ کے پاس چلا آیا ۔ منصورہ جو اس وقت تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھا اٹھ کر بیٹھ گیا

۴۰۳

 اور کہنے لگا” لا حول ولا قوة الا باﷲ“ اے سلیمان میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے بتاکہ تجھے فضائل علی(ع) میں کتنی حدیثیں یاد ہیں، میں نے کہا تقریبا دس ہزار سے زائد منصور نے کہا اے سلیمان میں تجھے فضیلت علی(ع) میں ایک ایسی حدیث سناؤں کہ جتنی حدیثیں تجھے یاد ہیں وہ تجھے بھول جائیں میں نے کہا اے امیرالمومنین بیان کریں اس نے کہا کہ بنی امیہ کے دور میں جب میں ان (بنی امیہ) سے بھاگا پھرتا تھا اور مختلف شہروں میں گشت کیا کرتا تھا تو افرادی قوت اکٹھی کرنے کی خاطر میں لوگوں کو فضائل علی(ع) میں بیان کردہ احادیث سنا کر ہم خیال بنایا کرتا تھا لوگ مجھے کھانا کھلایا کرتے اور زادِ راہ دیا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ میں ملک شام کے شہروں میں پھر رہا تھا اور میں نے ایک بوسیدہ عبا پہنی ہوئی تھی جب کہ اس کے علاوہ کوئی اور لباس میرے پاس نہ تھا اس وقت مجھ پر شدید پیاس کا غلبہ بھی تھا ناگاہ مجھے اذان سنائی دی میں نے خود سے کہا کہ پہلے نماز پڑھ لوں پھر اس کے بعد لوگوں سے کھانا مانگوں گا میں مسجد میں چلا آیا اور پیش نماز ہمراہ ادا کی جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے دیکھا کہ دو لڑکے مسجد میں داخل ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر پیش نماز نے کہا مرحبا اے فرزند مرحبا اور ان پر بھی سلام پہنچے جن کے ہم نام ہو میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک شخص سے پوچھا کہ ان دونوں لڑکوں کا اس پیش امام سے کیا تعلق ہے اس آدمی نے بتایا کہ یہ دونوں لڑکے اس پیش امام کے پوتے ہیں اور یہ ان کا دادا ہے اس شہر میں اس کے سوا کوئی علی(ع) کو دوست نہیں ہے اس نے ان دونوں لڑکوں کا نام حسن(ع) و حسین(ع) رکھا ہے میں نے جب یہ سنا توبہت خوش ہوا اور اس پیش امام کے پاس چلاگیا اور اس سے کہا کہ اگر آپ کو منظور ہوتو میں ایک ایسی حدیث آپ سے بیان کروں جس سے آپ کی آنکھیں روشن ہوجائیں، اس نے کہا اگر تم میری آنکھیں روشن کروگے تو میں تمہاری آنکھیں روشن کروں گا۔ میں نے اس کو بتایا کہ مجھے میرے والد نے اپنے دادا کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایک دن میں ( منصور کا جد عباس) جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے فاطمہ(س) تم کیوں رو رہی ہو انہوں نے کہا کہ بابا جان حسن(ع) و حسین(ع) کہیں چلے گئے ہیں اور مجھے  معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں

۴۰۴

 اور انہوں نے رات کہاں گزاری ہے آپ(ص) نے فرمایا اے فاطمہ(س) گریہ نہ کرو جس خدا نے انہیں پیدا کیا وہ ان کی حفاظت فرمائے گا وہ تم سے زیادہ ان پر مہربان ہے پھر جناب رسول خدا(ص) نے دعا کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیے اور  عرض کیا خدایا اگر حسنین(ع) کسی صحرایا  دریا میں ہیں تو تو ان کی حفاظت فرمای اور انہیں سلامت رکھ آپ(ص) نے یہ دعا فرمائی تو جبرائیل(ع) تشریف لائے اور جناب رسول خدا(ص) سے کہا اے محمد(ص) خدا تجھے سلام دیتا ہے اور فرما ہے کہ تم پریشان مت ہو تیرے فرزند دنیا و آخرت میں افضل ہیں اور ان کا باپ(ع) ان سے افضل ہے یہ دونوں بنی نجار کے باغ میں ہیں اور آرام فرما رہے ہیں خدا نے ان کی حفاظت پر ایک فرشتے کو معمور کیا ہے جس نے ایک پر ان کے نیچے فرش پر بچھایا ہوا ہے اور دوسرے پر سے ان پر سایہ کیے ہوئے ہے، پیغمبر(ص) یہ سن کر شاد ہوگئے اور اپنے  اصحاب کے ہمراہ بنی نجار کے باغ کی طرف چل پڑے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر لیٹے ہوئے ہیں اور آرام فرمارہے ہیں اور ایک فرشتے نے ان پر ان اپنے ایک پر سے سایہ کیا ہوا ہے اور دوسرے پر کو ان کے نیچے بچھایا ہوا ہے جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو رسول خدا(ص) نے حسن(ع) کو دوش مبارک پر سوار کیا اور جبرائیل(ع) نے حسین(ع) کو اٹھایا اور اس ذخیرے سے باہر آئے جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا خدا کی قسم میں آج لوگوں کو بتاؤں گا کہ خدا نے تمہیں کس فضیلت سے سرفراز کیا ہے۔ لوگوں جبرائیل نظر نہ آتے تھے اور لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ جنابِ حسن(ع) اور جناب حسین(ع) دونوں کو جناب رسول خدا(ص) نے ہی دوش مبارک پر اٹھایا ہوا ہے لہذا حضرت ابوبکر نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ(ص) اگر آپ(ص) اجازت دیں تو دونوں بچوں میں سے ایک کو اٹھالوں تاکہ آپ(ص) کا بوجھ ہلکا ہوجائے تو جنابِ رسول خدا(ص) نے انہیں فرمایا، اے ابوبکر ان دونوں کو اٹھانے والے دو اشخاص ہیں اور دونوں ہی نیک ہیں اور یہ بھی  نیک سوار ہیں ان کا باپ ان سے بھی نیک ہے پھر آپ(ص) دونوں بچوں کو لیے ہوئے مسجد پہنچے اور بلال(رض) سے فرمایا اے بلال منادی کر کے لوگوں کو میرے پاس جمع کرو منصور کے جد کہتے ہیں کہ جس وقت بلال نے منادی کی اور مدینہ کے لوگوں کو اکھٹا کیا میں وہیں تھا لوگوں کے مسجد میں جمع ہونے پر رسول خدا(ص) کھڑے ہو گئے اور فرمایا اے لوگو کیا میں تمہیں ایسے لوگوں سے مطلع نہ کروں کہ جو تم سب سے بہترین ہیں

۴۰۵

 اور جن کا نسب سب سے افضل ہے لوگوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اﷲ(ص) آپ(ص) نے فرمایا یہ حسن(ع) و حسین(ع) ہیں کہ ان کے والد علی بن ابی طالب(ع) ہیں جو خدا اور اسکے رسول کو دوست رکھتے ہیں اور خدا اور اس کا رسول(ص) دوست رکھتا ہے ان کی والدہ فاطمہ(س)دختر رسول خدا(ص) ہے ان کے جد محمد رسول اﷲ(ص) ہیں اور ان کی جدہ خدیجہ دخترِ خویلد ہے پھر فرمایا اے لوگو کیا میں تمہیں بہترین چچا و بہترین پھوپھی سے آگاہ نہ کروں تو لوگوں نے کہا فرمائیے یا رسول اﷲ(ص)، آپ(ص) نے فرمایا حسن(ع) و حسین(ع) کے چچا جعفر بن ابی طالب(ع) ہیں جو فرشتوں کے ساتھ بہشت میں پرواز کرتے ہیں اور ان کی پھوپھی ام ہانی دختر ابی طالب(ع) ہیں پھر آنحضرت(ص) نے فرمایا اے گروہ مردم کیا میں تمہیں بہترین خالہ و ماموں کے بارے میں نہ بتاؤں لوگوں نے کہا بتائیے یارسول اﷲ(ص)، آپ نے فرمایا یہ حسن(ع) و حسین(ع) ہیں کہ جن کے ماموں قاسم پسرِ رسول خدا(ص) ہیں اور ان کی خالہ زینب بنت رسول خدا(ص) ہیں۔ پھر جناب رسول خدا(ص) نے لوگوں کو اپنا ہاتھ جس کی انگلیاں ملی تھیں دکھایا اور فرمایا روزِ قیامت خدا ان سب کو ہمارے ساتھ اس ہاتھ کی مانند محشور فرمائے گا( یعنی ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے) پھر فرمایا خدایا تو جانتا ہےکہ حسن(ع) و حسین(ع) اہل بہشت سے ہیں ان کے والدین اہل بہشت سے ہیں، ان کے چچا اور چچی اہل بہشت میں سے ہیں ان کے ماموں اور خالہ اہل بہشت سے ہیں خدایا تو جانتا ہے کہ جو انہیں دوست رکھتا ہے وہ اہل بہشت میں سے ہے اور جو کوئی انہیں دشمن رکھتا ہے اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ جب اس امام مسجد نے مجھ سے یہ حدیث سنی تو پوچھا اے نوجوان تم کون ہو۔ میں نے کہا اہل کوفہ سے ہوں اس نے کہا عربی ہو یا عجمی میں نے کہا عربی اس نے کہا تم ایسی (قیمتی) حدیثی بیان کرتے ہو مگر کپڑے بوسیدہ پہنتے ہو یہ کہہ کر اس نے مجھے ایک عبادی اور مجھے ایک خچر بھی دیا(جسے بعد میں میں نے سو اشرفیوں کے عوض فروخت کیا) پھر اس امام مسجد نے مجھے کہا اے نوجوان تو نے میری آنکھوں روشن کردی ہیں خدا تیری آنکھیں بھی روشن کرے اب میں بھی تیری آنکھوں کو روشن کرنے کے لیے تجھے ایک شخص کا پتہ بتاتا ہوں میں نے کہا بتایئے اس نے کہا میرے دو بھائی اور بھی ہیں ان میں سے ایک پیش نماز ہے اور دوسرا موذن ہے جو پیش نماز ہے وہ شکم مادر سے لے کر اب تک علی(ع) کا حب دار ہے

۴۰۶

 اور جو موذن ہے وہ شکم مادر سے لے کر عمر کے اس حصے تک علی(ع) سے دشمنی رکھتا ہے میں نے اس امام مسجد سے کہا کہ آپ مجھے اس حب دار علی(ع) کا پتہ بتائیں اس امام مسجد نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے بھائی کے دروازے پر چھوڑ گیا۔

میں نے اس کے دروازے کی زنجیر ہلائی تو وہ برآمد ہوا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگا بخدا میں تیرے لباس کو پہچان گیا ہوں کیا تجھے یہ لباس فلاں شخص نے صرف اس لیے نہیں دیا کہ تونے اسے جناب رسول خدا(ص) کی کوئی حدیث جو کہ ان(ص) کے برادر علی بن ابی طالب(ع) کی فضیلت میں ہے سنائی ہے میں نے اقرار کیا تو اس نے کہا کوئی ایک حدیث میرے لیے بھی بیان کر تو میں نے کہا کہ میرے باپ نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک دن ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک فاطمہ(س) گریہ کرتے ہوئے جناب رسول خدا(ص) کے پاسآئیں جناب رسول خدا(ص) نے ان کے گریہ کا سبب پوچھا تو وہ کہنے لگیں بابا جان قریشی کی عورتیں مجھے طعنہ دیتی ہیں باپ نے تجھے ایک غریب آدمی کے ساتھ بیاہ دیا ہے۔

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا اے فاطمہ(س) گریہ نہ کرو علی(ع) سے تمہاری تزویج میں نے نہیں کی بلکہ خدا نے کی ہے اور جس پر جبرائیل(ع) و میکائیل(ع) کو گواہ بنایا ہے اور خدا نے اپنی تمام مخلوق میں تمہارے والد(ص) کو بااختیار بنایا ہے اور اسے پیغمبری سے سرفراز کیا ہے اور تیری تزویج اس سے کی ہے جو میرا وصی ہے، وہ شجاع ترین و بردبار ترین لوگوں میں سے ہے وہ اسلام لانے میں ان کا نام توریت میں شبر(ع) و شبیر(ع)ہے اور خدا کے ہاں گرامی ہے اے فاطمہ(س) گریہ نہ کرو خدا کی قسم روزِ قیامت ہوگا تو تمہارے باپ کو دو چلے پہنائے جائیں گے اور علی(ع) کو بھی دو حلے عطا کیے جائیں گے۔ اس وقت لواحمد میرے ہاتھ میں ہوگا جو میں علی(ع) کو دوں گا کیوںکہ وہ خدا کے نزدیک گرامی ہے اے فاطمہ(س) گریہ نہ کرو جب میں رب العالمین کے ہاں بلایا جاؤں گا تو علی(ع) میرے ہمراہ ہوں گے اورمیرے ہمراہ شفاعت کریں گے۔ اے فاطمہ(س) گریہ نہ کرؤ۔ روزِ قیامت کی سختیوں میں منادی ندا دے گا اور کہے گا اے محمد(ص) تمہارے جد ابراہیم(ع) کیا ہی اچھے ہیں اور تمہارے بھائی علی بن ابی

۴۰۷

طالب(ع) کیا ہی نیک ہی، اے فاطمہ(س) بہشت کی کنجیاں اٹھانے میں علی(ع) میرا مددگار ہوگا اور اس روز علی(ع) کے شیعہ ہی کامیاب ہوں گے۔

جب یہ حدیث میں نے امام مسجد کے بھائی سے بیان کی تو اس نے کہا اے  فرزند کہاں کے رہنے والے ہو میں نے کہا کوفہ کا پوچھا عربی ہو یا عجمی میں نے کہا عربی یہ سن کر اس نے مجھے تیس لباس دیے اور دس ہزار درہم عطا کیے اور کہا اے نوجوان تو نے مجھے شاد کیا اور میری آنکھوں میں نور بھر دیا میری تجھ سے ایک درخواست ہے کہ کل فلاں مسجد میں آنا اور میرے اس بھائی کو دیکھنا جو دشمنانِ علی(ع) سے ہے میں نے وہ تمام رات اس اشتیاق میں کاٹ دی کہ اس دشمن علی (ع) کو بھی دیکھوں کہ وہ کیسا ہے جب صبح ہوئی تو میں اس مسجد میں گیا اور صف نماز میں کھڑا ہوگیا ناگاہ ایک جوان میرے پہلو میں آکھڑا ہوا اس کے سرپر عمامہ تھا جب وہ رکوع میں گیا تو اس کا عمامہ اس کے سر سے گر پڑا میں نے دیکھا کہ اس کا منہ سور کا تھا۔ جب ہم نے نماز پڑھ لی  تو میں نے اس شخص سے پوچھا کہ تیرا یہ حال کیونکر ہوا یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ تم میرے ساتھ میرے گھر چلو میں وہاں جاکر تم سے اپنا حال بیان کروں گا۔ میں اس کے ہمراہ اس کے گھر چلا گیا اس نے بتایا کہ میں فلاں مسجد و جماعت کا موذن تھا اور ہر روز صبح کے وقت اذان و اقامت کے درمیاں ہزار مرتبہ علی(ع) پر سب و شتم کیا کرتا تھا اور بروز جمعہ سب و شتم کی یہ تعداد چار ہزار مرتبہ پہنچ جاتی پس ایک جمعہ میں جب گھر آیا تو وہ گوشہء دیوار جو تمہیں نطر آرہا وہاں تکیہ لگا کر بیٹھ گیا اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی خواب میں میں نے قیامت کا منظر دیکھا اور دیکھا کہ جنابِ رسول خدا(ص) اور حضرت علی(ع) خوشی سے مسکرا رہے ہیں، ان کے دائیں جانب حسن(ع) اور بائیں جانب حسین(ع) کھڑے ہیں وہاں پانی کا ایک کاسہ بھی موجود تھا جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے حسن(ع) مجھے پانی دو امام حسن(ع) نے انہیں پانی دیا جب وہ پی چکے تو کہا کہ اس جماعت کو بھی پلا دو جناب حسن(ع) نے اس جماعت کو بھی پانی پلا دیا پھر جنابِ رسول(ص) نے کہا کہ وہ شخص جو تکیہ لگا لیٹا ہوا ہے اسے بھی پلا دو امام حسن(ع) نے جناب رسول خدا(ص) سے کہا کہ آپ(ع) نے مجھے اس شخص کو پانی پلانے کے واسطے کہا ہے جو میرے والد(ع) پر روزانہ ہزار مرتبہ سب وشتم کرنا ہے اور آج اس نے چار ہزار مرتبہ ایسا کیا ہے یہ سن کر جناب رسول خدا(ص) میرے قریب آئے

۴۰۸

 اور ارشاد فرمایا تجھ پر خدا کی لعنت ہوتو ایسا کیوں کرتا ہے حلاںکہ علی(ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں تو کیوں اس کے بارے میں بدگوئی کرتا ہے یہ فرما کر جنابِ رسول خدا(ص) نے مجھے پر تھوک دیا اور پھر مجھے ٹھوکر رسید کر کے کہا اٹھ تجھ سے خدا اپنی رحمت پھیرے جب میں بیدار ہوا تو میرا سر اور چہرہ سور کی طرح ہوگیا تھا۔

ابوجعفر منصور نے مجھ سے کہا اے سلیمان کیا یہ حدیث اور دو حدیثیں جو میں نے پہلے سنائیں تیرے پاس ہیں میں نے کہا نہیں تو اس نے کہا اے سیلمان علی(ع) کی محبت ایمان اور علی(ع) کی دشمنی نفاق ہے اور خدا کی قسم علی(ع) علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا مگر مومن اور علی(ع) کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق میں نے اس سے کہا اے امیر اگر آپ مجھے امان دیں تو کچھ عرض کروں اس نے کہا بتا کیا کہتا ہے میں نے کہا کہ آپ کا حسین ابن علی(ع) کے قاتل کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے کہا اس کی باز گشت آگ کی طرف ہے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہے گا میں نے کہا آپ کی فرزندانِ رسول خدا(ص) کے قاتلوں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ اس نے کہا وہ دوزخی ہیں اور دوزخ میں رہیں گے لیکن اے سیلمان اس ملک و بادشاہی کی خاطر بیٹا اپنے باپ کو مارڈالتا ہے اب تم جاؤ اور جو دیکھا اور سنا ہے اسے لوگوں سے مت بیان کرنا۔

۴۰۹

مجلس نمبر۶۸

(۲۰ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا نیند بدن کی راحت ہے، گفتگو روح کی راحت ہے اور خاموشی عقل کی راحت ہے۔

۲ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی نصیحت کودل سے قبول نہیں کرتا اور خوددار نہیں ہے وہ ہم نشین اور راہبر نہیں رکھتا اور دشمن کو اپنی گردن پر سوار کیے رکھتا ہے۔

۳ـ          جناب ابوالحسن موسی بن جعفر(ع) نے فرمایا مرد کے عیال اس کے قیدی ہیں اور خدا اسے جو بھی نعمت دے اسے چاہیے کہ اس سے وہ اپنے اسیروں کو وسعت دے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو خدشہ ہے کہ وہ نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔

۴ـ          امام باقر(ع) نے فرمایا جو کوئی مال کو چار طریقوں سے حاصل کرے جو یہ ہیں۔ اول غبن ۔ دوئم سود۔ سوئم امانت میں خیانت۔ اور چہارم چوری۔ تو اس کے چار اعمال قبول نہ کیے جائیں  گے جو یہ ہیں اول اداے زکوة، دوئم صدقہ، سوئم جمعہ اور چہارم حج و عمرہ آپ(ع) نے فرمایا کہ خدا مال حرام سے ادا کیے گئے حج وعمرہ کو قبول نہیں فرماتا۔

۵ـ          امام رضا(ع) نے فرمایا جو کوئی کسی مسلمان فقیر کے سلام کو جواب اسے کمتر سمجھ کر نہ دے تو روز قیامت ایسے شخص پر خدا غضبناک ہوگا۔

سلمان(رض) کا ابوذر(رض) کی ضیافت کرنا

۱ـ           امام رضا(ع) نے اپنے جد(ع) سے روایت کیا ہے کہ سلمان فارسی(رض) نے جناب ابوذر(رض) کو دعوت دی کہ وہ ان کے ہاں تناول فرمائیں جب ابوذر(رض) ، سلمان(رض) کے گھر گئے تو انہوں نے ان کے سامنے دو سادہ روٹیاں رکھ دیں اور کہا کہ اے ابوذر(رح) تناول فرمائیں ابوذر(رح) نے ان روٹیوں کو اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ اے سلمان(رض) یہ روٹیاں کچی ہیں یہ سن کر سلمان(رح) کو غصہ آگیا اور کہا تم نے یہ جسارت کیسے کی

۴۱۰

 کہ خدا کے دیئے ہوئے رزق میں نقص نکالو خدا کی قسم خدا نے زمین کو پیدا کیا پھر بادل تخلیق کیے پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں زمین پر لے جائیں پھر بجلی چمکا کر ان بادلوں کو زمین پر برسایا پھر اس زمین پر دہقان نے ہل چلایا، بیج بویا اور خدا نے اس بیج کے اگانے کے لیے زمین کو حکم دیا پھر جب یہ اناج تیار ہوگیا تو اس کو پیس اس کا آٹا بنایا گیا پھر اسے گوندھ کر لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلائی گئی اور تب کہیں جاکر یہ روٹی تیار ہوئی کیا اتنے ڈھیر سارے عوامل جو اس روٹی کی تیاری میں کارفرما ہیں پر تم خدا کا شکریہ ادا کرسکتے ہو۔ ابوذر(رح) نے کہا خدا کی قسم میں آرئندہ اس قسم کی جسارت سے باز رہوں گا میں خدا سے اپنے اس عمل کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس بات پر میں تجھ سے بھی معذرت کا خواہاں ہوں۔

۷ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کوئی صبح کے وقت صدقہ دے تو خدا اس شخص سے اس دن کی نحوست کو دور فرماتا ہے۔

محافظ حسین(ع)

۸ـ          امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) اور انہوں نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ جنابِ رسول خدا(ص) علیل ہوگئے اور بی بی فاطمہ(س) ان کی عیادت کے لیے گھر سے روانہ ہوئیں، آپ نے دائیں ہاتھ میں جنابِ حسن(ع) اور بائیں ہاتھ میں جنابِ حسین(ع) کا ہاتھ تھاما اور حجرہ عائشہ میں جا پہنچیں امام حسن(ع) حضور(ص) کے دائیں پہلو اور جنابِ حسین(ع) حضور(ص) کے بائیں پہلو میں براجمان ہوگئے کچھ ہی دیر میں جنابِ رسول خدا(ص) پر غنودگی چھا گئی اور آپ(ص) اس قدر گہری نیند میں جا پہنچے کہ بچوں اور بیٹی کے کافی کوشش کرنے کےت باوجود آنکھ نہ کھلی یہ دیکھ کر بی بی سیدہ فاطمہ(س) نے بچوں سے کہا کہ آؤ گھر چلیں نانا کو آرام کرنے دو جب یہ اٹھیں گے تو ہم دوبارہ ان(ص) کی خدمت میں حاضر ہوجائین گے مگر دونوں بچوں نے والدہ سے کہا کہ ہم یہیں نانا کے پاس سونا چاہتے ہیں پھر دونوں بچے اپنے نانا کے پہلو بہ پہلو لیٹ گئے۔ جب دونوں بچوں کو نیند آگئی تو ان کی والدہ انہیں وہاں چھوڑ کر گھر چلی گئیں یہ دونوں بچے جناب رسول خدا(ص) کے بیدار ہونے سے  پہلے ہی بیدار ہوگئے اور بی بی عائشہ

۴۱۱

سے کہنے لگے  کہ ہماری والدہ کہا ہیں انہوں نے کہا تمہاری والدہ کافی دیر پہلے گھر گئی تھیں۔ یہ سن کر دونوں بچے اس اندھیری رات میں کہ جب بادل گرج رہے تھے اور بجلی چمک رہی تھی گھر کی طرف چل پڑے اس اندھیرے اور تاریکی کو دور کرنے لیے قدرت نے ایک روشنی پیدا کردی اور یہ دونوں بچے اس روشنی میں راستہ دیکھ کر آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے کہ بنی نجار کے باغ کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اب کدھر کو جائیں جناب حسن(ع) نے جناب حسین(ع) سے کہا کہ اب اس سے آگے ہمیں راستے کا علم نہیں لہذا ہمیں اس باغ میں قیام کرنا چاہیے جناب حسین(ع) نے بھائی کی بات پر رضامندی کا ظہار کیا اور یہ دونوں بچے ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر سوگئے۔

ادھر جب رسول خدا(ص) نیند سے بیدار ہوئے تو دریافت کیا کہ بچے کہاں ہیں، بتایا گیا گھر چلے گئے ہیں، آپ(ص) نے بی بی فاطمہ(س) کے گھر سے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں بھی نہیں ہیں یہ سن کر جناب ِ رسول خدا(ص) نے پریشانی کے عالم میں خدا سے دعا فرمائی کہ اے معبودا، اے سیداے مولا میرے یہ دونوں فرزند بھوک کی حالت میں کہیں لاپتہ ہوگئے ہیں تو ہی ان کا ضامن ہے آپ(ص) کا یہ فرمانا تھا کہ ایک نور کی شعاع نمودار ہوئی اور پیغمبر(ص) اس نور کی شعاع کی سمت روانہ ہوگئے اور بنی نجار کے باغ میں جاپہنچے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دونوں بچے ہم آغوش ہوئے سورہے ہیں اور ایک بادل ان کے سر پر سایہ فگن ہے جس کی وجہ سے اطراف میں بارش ہونے کے باوجود ن کے جسموں پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں گررہا اور ایک عظیم الجثہ اژدھا جس کے جسم پر لمبے لمبے بال ہیں اور دو بازو جو کہ پروں سے بھر پور ہیں، ان دونوں بچوں کی حفاظت کررہا ہے اور اس نے اپنے ایک پر سے جناب حسین(ع) اور دوسرے سے جناب حسن(ع) کو ڈھانپ رکھا ہے جناب رسول خدا(ص) نے یہ دیکھ کر اپنی آمد سے انہیں مطلع کرنے کی خاطر کھانسے تو وہ اژدھا بچوں کے پاس سے ہٹ کر دور جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ خدایا میں تجھے اور تیرے فرشتوں کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے تیرے اس نبی(ص) کے دونوں فرزندوں کی حفاظت کی اور انہیں بالکل صحیح و سالم تیرے پیغمبر(ص) کے حوالے کردیا ہے۔

۴۱۲

جناب رسول خدا(ص) نے اس اژدھا سے پوچھا کہ تو کون ہے تو اس نے کہا میرا تعلق نصیبین کے جنون سے ہے انہوں نے مجھے آپ(ص) کی طف بھیجا تھا کیوںکہ بن ملیح کے جن، قرآن کی ایک آیت بھول گئے ہیں میں آپ(ص) سے وہ آیت پوچھنے آیا تھا جب میں یہاں پہنچا تو مجھے ندا آئی کہ اے اژدھا یہ دونوں بچے فرزندان رسول خدا(ص) ہیں تو ان کی آفات و بلیات اور سختیوں سے حفاظت کر لہذا میں نے حکم کے مطابق ان کی حفاظت کی اور اب میں انہیں آپ(ص) کی تحویل میں دیتا ہوں اس کے بعد اس اژدھے نے جنابِ رسول خدا(ص) سے وہ آیت قرآنی پوچھی اور چلا گیا پھر جناب رسول خدا(ص) نے جناب حسن(ع) کو دائیں اور جناب حسین(ع) کو بائیں کاندھے پر سوار کر لیا۔

ادھر جناب امیرالمومنین(ع) بھی ان سب کی تلاش میں وہاں آپہنچے ان کے ہمراہ کچھ اصحاب بھی تھے ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) ان دونوں فرزندوں میں سے ایک کو میرے کاندھے پر سوار کروادیں تاکہ آپ(ص) کو بوجھ کم ہوجائے آپ(ص) نے جواب دیا تیری یہ بات خدا تک پہنچ گئی ہے اور وہ تیرے مقام کو جانتا ہے تب جناب علی بن ابی طالب(ع) نے رسول خدا(ص) سے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ(ص) ایک بچہ میرے کاندھے پر سوار کروادیں پیغمبر(ص) نے جناب حسن(ع) سے فرمایا بیٹا جاؤ اپنے والد(ع) کے پاس چلے جاؤ مگر جناب حسن(ع) نے کہا نانا جان مجھے آپ(ص) کے کاندھے پر سوار رہنا اچھا لگتا ہے پھر جنابِ حسین(ع) سے بھی یہی پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا غرض یہ سب بی بی فاطمہ(س) کے پاس ان کے گھر آئے بی بی(س) نے کچھ کھجوریں ان کے لیے رکھ چھوڑیں تھیں وہ لاکر دونوں بچوں کے سامنے رکھیں بچوں نے کھجوریں سیر ہوکر کھائیں اور خوش ہوگئے۔ پھر بی بی فاطمہ(س) کسی کام سے باہر تشریف لے گئیں تو جناب رسول خدا(ص) نے بچوں سے ارشاد فرمایا کہ اب اٹھو اور کشتی کرو۔ دیکھتے ہیں کہ تم میں سے کون زیادہ طاقتور کون ہے اسی اثناء مین بی بی (س) واپس آئیں تو آپ(س) نے جناب رسول اکرم(ص) کو فرماتے سنا” بیٹا حسن(ع) ۔ حسین(ع) کو گرا دو“ بی بی(س) نے یہ سن کر کہا  بابا جان تعجب ہے کہ آپ(ص) ان میں مقابلہ کروا رہے ہیں اور چھوٹے کی نسبت بڑے کی ہمت افزائی کررہے ہیں تو جناب رسول خدا(ص) نے جواب دیا بیٹی تم خوش نہیں ہو کہ تو حسن(ع) کو کہہ رہا ہوں کہ شاباش بیٹا حسین(ع) کو گرادو اور ادھر جبرائیل(ع) حسین(ع) کو کہہ رہے ہیں کہ شاباش بیٹا حسین(ع)، حسن(ع) کو گرادو۔

۴۱۳

امام تقی(ع) کی زبانی جنابِ امیر(ع) کے چند ںصائح

۱ـ           سید عبدالعظیم بن عبداﷲ حسنی(رض) نے جناب ابوجعفر محمد تقی بن علی رضا(ع) سے روایت کی ہےکہ امام محمد تقی(ع) اپنے اجداد(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ  جناب امیرالمومنین(ع)نے فرمایا لوگ جب تک چھوٹے اور بڑے بن کررہیںگے تو بھلائی سے رہیں گے اور جب سب یکساں ہوجائیں گے تو ہلاک ہوجائین گے میں( عبدالعظیم) نے عرض کیا یا بن رسول اﷲ(ص) کچھ اور بیان فرمائیں ،آپ(ص) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہےکہ اگر تمہیں ایک دوسرے کے اعمال کا پتہ چل جائے تو تم ایک دوسرے کو دفن نہ کروگے۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) اور بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ تم دولت میں لوگوں سے ہرگز نہیں بڑھ سکتے، تم مسکراتے چہرے اور حسن ملاقات میں لوگوں سے بڑھ جاؤ کیونکہ میں نے جناب رسول خدا(ص) سے سنا کہ تم لوگوں سے ہرگز دولت میں آگے نہیں بڑھ سکتے مگر تم اخلاق میں لوگوں سے آگے بڑھ جاؤ۔

میں نے عرض کیا یابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ اور بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جو زمانے پر غصہ کرے گا وہ طویل عرصے تک غصے میں رہے گا۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ اور بیان فرمائیں۔ امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ آخرت کا بدترین زادِراہ بندوں پر ظلم کرنا ہے۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ اور بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ ہر شخص کی قیمت وہی ہے جسے وہ اچھی طرح سر انجام دے سکتا ہے۔

۴۱۴

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ مزید بتائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ انسان اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔

میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) کچھ مزید بیان کریں۔

 امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ وہ شخص کبھی ہلاک نہ ہوگا جس نے اپنی قدر و قیمت کو پہچانا۔

میں نے عرض کیا یاابن رسول اﷲ(ص) کچھ اور بھی بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد محترم(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ کام کرنے سے پہلے سوچ بچار کرنے سے تم ندامت سے بچ سکتے ہو۔

 میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) کچھ  اور بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جس نے زمانے پر تکیہ کیا وہ پچھاڑا گیا۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ مزید بیان فرمائیے۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہجو شخص اپنی رائے پر اعتماد کر کے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ مزید بیان فرمائیں۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ متعلقین کی کمی دو قسموں میں سے ایک قسم کی آسودگی ہے۔میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) کچھ  اور بیان فرمائیے۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جس میں خود پسندی داخل ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔

۴۱۵

میں نے عرض کیا یا ابن رسول اﷲ(ص) کچھ  اور بیان فرمائیے۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جسے عوض ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی رکھتا ہے۔

میں نے عرض کیا یا ابن(ع) رسول اﷲ(ص) کچھ اور بیان فرمائیے۔

امام(ع) نے فرمایا میرے والد ماجد(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) کی سند سے جناب امیر المومنین(ع) سے روایت کیا ہے کہ جو اپنے سے کمتر کی اعانت پر خوشنود ہو اسے اپنے سے اوپر والے سے بھی سلامتی ملے گی۔

میں (عبدالعظیم) نے کہا کہ مولا اب یہ احادیث میرے لیے کافی ہیں۔

۴۱۶

مجلس نمبر۶۹

(۲۳ جمادی الاول سنہ۳۶۸ ھ)

واقعہء معراج اور کفار

۱ـ           امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ شب معراج جبرائیل(ع) آںحضرت(ص) کے لیے براق لائے جس پر آںحضرت(ص) سوار ہوکر بیت المقدس تشریف لے گئے اور وہاں اپنے بھائیوں اور پیغمبروں(ع) سے ملاقات کی اور نماز ادا کی جب رسول خدا(ص) واپس تشریف لارہے تھے تو راستے میں انہوں نے قریش کا قافلہ دیکھا جن کے پاس پینے کاپانی بھی تھا اس قافلے نے اس جگہ پراس لیے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا کہ ان کا ایک سرخ اونٹ گم ہوگیا تھا، آںحضرت(ص) نے وہاں سے پانی پیا اور پیالے کا بقیہ پانی زمین پر گرادیا اور واپس تشریف لے آئے واپس آکر آںحضرت(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ میں آج رات معراج کو گیا تھا اور میرے بیان کی صداقت کی دلیل یہ ہے کہ واپسی پر میں نے فلان مقام پر قریش کا قافلہ دیکھا جن کا سرخ اونٹ کھو گیا تھا وہاں میں نے پانی پیا اور بقیہ زمین پر گرا دیا جب اس بات کی اطلاع ابوجہل کو ملی توع اس نے مذاق اڑایا اور کہنے لگا یہ کیسا تیز رفتار سوار ہے ہے جو ایک رات میں ملک شام کو گیا اور واپس بھی آگیا پھر وہاں سے کہنے لگا کہ تم میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ملک شام جاتے رہے ہیں تم اس (جناب رسول خدا(ص)) سے ملک شام کی بابت دریافت کرو اگر یہ شخص سچا ہے تو بتائے کہ بیت المقدس کیسا ہے  اس میں ستوں کتنے ہیں اور اس کی قندیلیں کیسی ہیں اور محراب کتنے ہیں اور بازار شام کی کیفیت اس سے دریافت کرو تاکہ اس کا جھوٹ کھل جائے،  غرض لوگوں نے حضور(ص) سے دریافت کیا تو جبرائیل(ع) تشریف لائے او آںحضرت(ص) کے سامنے ملک شام کا منظر بیان کردیا جو آںحضرت(ص) نے لوگوں کو بتایا نیز آںحضرت(ص) نے لوگوں سے فرمایا کہ قریش کا وہ قافلہ طلوع آفتاب کے وقت یہاں پہنچے گا اور ان کے آگے سفید اونٹ ہوگا۔

۴۱۷

طلوع آفتاب کے قریب تمام پیشوائے قریش آںحضرت(ص) کے پاس جمع ہوگئے اور جب سورج نکلا تو وہ قافلہ آںحضرت(ص) کی بیان کردہ نشانیوں کے مطابق آ پہنچا۔سفید اونٹ قافلے میں سب سے آگے تھا قریش کے لوگوں نے قافلے والوں سے پوچھا تو انہوں نے تمام واقعہ آںحضرت(ص) کے بیان کے مطابق بتایا اور یہ بھی بتایا کہ رات کسی نے ہمارا پانی گرایا تھا یہ تمام واقعہ سننے کے باوجود وہ لوگ ایمان نہ لائے اور ان کی سرکشی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

معراج

۲ـ           عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں کہ جبرائیل(ع) ایک رات آںحضرت(ص)  کے لیے ایک چوپایہ لائے جس کا قد خچر سے چھوٹا اور دراز گوش سے بڑا تھا اس پچھلے سم اس کے اگلے سموں سے بڑے تھے اور تا حد نگاہ وہ ایک قدم میں طے کرتا تھا جب آںحضرت(ص) نے اس پر سوار ہونا چاہا تو وہ مانع ہوا جبرائیل(ع)  نے اس سے کہا یہ محمد(ص) ہیں، اس نے جب آںحضرت(ص) کا نام سنا تو وہ بیٹھ گیا اور اظہار انکساری کیا آںحضرت(ص) اس پر تشریف فرما ہوگئے، جب وہ بلندی  پر چلتا تو اس کے ہاتھ( اگلے سم) چھوٹے اور پیر ( پچھلے سم) لانبے ہوجاتے اور جب وہ اترتی پر چلتا تو اس کے ہاتھ لانبے اور پیر چھوٹے ہوجاتے اس طرح شب تاریک میں آںحضرت(ص) کا گذر ایک قافلہ کی طرف سے ہوا جو ابوسفیان کی تجارت کا سامان لیے جارہا تھا براق کے پروں کی آواز سن کر قافلے کے اونٹ بدک گئے اور ادھر اُدھر بھاگے ان کے بھاگنے سے ایک اونٹ گر گیا اور اس کا سامان بکھر گیا اس اونٹ کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی آںحضرت(ص) وہاں سے آگے بڑھے اور بلقایا بلغار کے مقام تک پہنچے وہاں پہنچ کر آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) نے کہا کہ مجھے پیاس محسوس ہورہی ہے انہوں نے ایک پیالے میں پانی دیا حضرت(ص) نے وہ پانی نوش فرمایا وہاں سے آگے بڑھے تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پیر آگ سے جلائے جارہے ہیں وہ لوگ الٹے لٹکے ہوئے تھے آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے اس کا سبب دریافت کیا تو جبرائیل(ع) نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے حلال رزق عطا فرمایا تھا مگر پھر بھی یہ حرام سے طلب کرتے تھے، جب وہاں سے روانہ ہوئے تو آگے جاکر دیکھا کہ کچھ لوگوں کے دہن آگ کی سوئی

۴۱۸

 اور رسی سے سیے جارہے تھے آپ(ص) نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جبرائیل(ع) نے بتایا کہ یہ عورتوں کی بکارت زنا کے ذریعے زائل کیا کرتے تھے، جب اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص لکڑیوں کا گٹھا اٹھارہا ہے مگر اس سے نہیں اٹھتا پھر ایک شخص وہ لکڑیاں اس پر لاد دیتا  ہے پوچھا کہ کون ہے تو کہا یہ قرضدار ہے جو قرض ادا نہیں کرتا تھا اور مزید قرض لیتا رہتا تھا وہاں سے چلے تو بیت المقدس کے شرقی پہاڑ پر جا پہنچے وہاں حضرت(ص) کو بہت گرم محسوس ہوئی اور ایک خوفناک آواز سنائی دی آپ(ص) نے پوچھا یہ کیسی ہوا تھی اور وہ آواز کیسی تھی تو جبرائیل(ع) نے بتایا کہ وہ ہوا اور آواز جہنم کی تھی آںحضرت(ص) نے فرمایا میں جہنم سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں پھر آپ(ص) کی داہنی جانب سے ایک خوشبو دار ہوا آئی اور ایک خوشگوار آواز سنائی دی آپ(ص) نے اس کا پوچھا تو جبرائیل(ع) نے بتایا کہ یہ خوشبو دار ہوا اور آواز بہشت کی تھی ، حضرت(ص) نے فرمایا میں خدا سے بہشت کی آرزو کرتا ہوں پھرآپ(ص) وہاں سے روانہ ہوئے اور بیت المقدس کے دروازے پر جاپہنچے وہاں ایک نصرانی تھا جس کے سرہانے دروازہ بند کر کے اس کی کنجیاں رکھ دی جاتیں۔ اس رات ہرچند کوشش کی گئی مگر دروازہ نہ بند ہوسکا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور اس سے دروازہ نہ بند ہوسکنے کا ماجرا بیان کیا اس نے کہا کہ دروازے پر کسی اچھے پاسبان کو مقرر کردو۔ غرض جب حضرت(ص) داخل ہوئے تو جبرائیل(ع) نے بیت المقدس کا بڑا پتھر اٹھایا اور اس کے نیچے سے تین پیالے نکالے جن میں دودھ شہد اور تیسرے پیالے میں شراب بھری ہوئی تھی جبرائیل(ع) نے دودھ اور شہد کا پیالہ جب حضرت(ص) کو دیا تو انہوں نے نوش فرمایا مگر شراب کے پیالے سے انکار  فرمایا جبرائیل(ع) نے آںحضرت(ص) سے کہا اگر آپ آج یہ پیالہ پی لیتے تو آپ(ص) کی تمام امت گمراہ ہوجاتی اور آپ(ص) سے جدا ہو جاتی۔ پھر بیت المقدس میں حضرت(ص) نے نماز پڑھی اور پیغمبروں کی ایک جماعت نے آپ(ص) کی اقتدا کی اس رات جبرائیل(ع) کے ہمراہ ایک اور فرشتہ میں آیا تھا جو کبھی نازل نہیں ہوا تھا وہ حضرت(ص) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اﷲ(ص) آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں ہیں اگر آپ(ص) چاہیں تو پیغمبر(ص) رہیں اور اگر چاہیں تو تمام زمین و آسمان کے خزانوں کے مالک بن جائیں جبرائیل(ع) نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کریں، حضرت(ص) نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ اس ( خدا) کا بندہ اور پیغمبر(ص) ہی رہوں

۴۱۹

مجلس نمبر۷۰

(۲۷ جمادی الاول سنہ۳۶۸ھ)

۱ـ           امام صادق(ع) نے فرمایا اپنے برادر دینی کے لیے اس کے پس پشت دعا کرنا وسعت رزق عطا کرتا ہےاور بدی کو ہٹا دیتا ہے۔

۲ـ           ابراہیم بن ہاشم کہتے ہیں کہ میں نے عبداﷲ بن جندب کو موقفِ عرفات میں دیکھا کہ ان کے ہاتھآسمان کی طرف بلند اور آنکھوں سے اشک جاری تھے اور اس قدر گریہ فرمارہے تھے کہ ان کے اشک زمین پر گرئے جاتے تھے جب لوگ وہاں سے واپس ہونے لگے تو میں نے ان سے کہا اے ابوعبداﷲ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی کیا حالت ہے یہ کیونکر ہے، تو مجھے جواب دیا کہ میں نے اپنے برادرِ دینی کے سوا کسی کے لیے دعا نہیں کی اور یہ اس لیے ہے کہ جناب موسی بن جعفر(ع) نے مجھے خبر دی ہے کہ جو کوئی اپنے برادرِ دینی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرے تو ایسے کو عرش سے ندا دی جاتی ہے کہ ” تیری اس طرح کی ہر دعا پر تجھے ایک لاکھ نیکیاں دی جاتی ہیں“ جب کہ اگر اپنے لیے دعا کی جائے تو نا معلوم وہ مستجاب بھی ہوگی یا نہیں۔

۳ـ          امام صادق(ع۹) نے جناب رسول خدا(ص) سے  روایت کیا ہے کہ اولین سے لے کر آخرین تک کے مومنین میں سے ہرگز ایسے افراد نہ ہوں گے جو کسی ایسے بندے کے شفیع نہ ہوں جو اپنی دعا میں ”الل ه م اغفر للمومنين والمومنات “ کہتا ہو۔اگر ایسے کسی شخص کے لیے یہ حکم صادر ہوا ہوگا کہ اسے دوزخ کی طرف لے جاؤ اور اسے دوزخ کی سمت کھینچا جارہا ہوگا تو اس وقت تمام مومنین و مومنات خدا سے فریاد کریں گے کہ خدایا یہ وہ ہے جو ہمارے لیےدعا کیا کرتا تھا۔ لہذا تو ہمیں اس کا شفیع بنادے تو خدا ان کی شفاعت قبول فرمائے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔

۴ـ          امام صادق(ع) نے فرمایا جو کہ اپنی دعا میں چالیس مومنین کو مقدم رکھتا ہے اس کی اپنی دعا مستجاب ہوگی۔

۴۲۰